• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 2

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات ناصر ۔ حضرت مرزا ناصر احمد رح ۔ جلد 2


حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن مقاصد کیلئے یہ جلسہ مقرر فرمایا ہے انہیں پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵ ؍جنوری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے آٹھ روحانی فوائد کا تذکرہ۔
٭ خلوص نیت کے ساتھ جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے۔
٭ محض للہ ربّانی باتیں سننے کیلئے جلسہ سالانہ میں شرکت کریں۔
٭ ربوہ میں بسنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اِن دنوں میں صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
٭ اہل ربوہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔




تشہد تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہمارا سالانہ جلسہ ہزاروں برکتیں اپنے دامن میں لئے آ گیا ہے۔ یہ اجتماع جماعت پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
پہلی تو یہ کہ خلوص نیت کے ساتھ اس اجتماع میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کہ عمل صالح کے لئے یہ ضروری ہے کہ نیت بھی خالص ہو اور اس میں کسی قسم کا فساد نہ ہو۔ اگر بدنیتی سے اور فساد کی غرض سے ایسا کام کیا جائے جو بظاہر دنیا کی نگاہ میں عمل صالح ہو تو وہ عمل اللہ کی نگاہ میں عمل صالح نہیں ہوتا۔ پس اس جلسہ میں شرکت کے لئے اور اس کی برکات سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری نیتیں پاک ہوں اور ان میں کسی قسم کا کوئی فساد نہ ہو۔
کس نیت کے ساتھ اس جلسہ میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے (جلسہ کی تاریخ پر) اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰاپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہو گا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہئِ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جَلَّ شانُہٗکوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے۔ جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے‘‘۔
(اشتہار مشمولہ آسمانی فیصلہ ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵۲)
اسی طرح آپ نے فرمایا:۔
’’سو لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے، ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں جو زاد راہ کی استطاعت رکھتے ہوں… اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنے ادنے ہر جوں کی پرواہ نہ کریں۔ خداتعالیٰ مخلصوں کو ہر ایک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی اور مکرر لکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں‘‘۔
(اشتہار ۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۳۴۰)
یہ دو اقتباسات جو اس وقت میں نے آپ دوستوں کو سنائے ہیں۔ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مندرجہ ذیل باتوں کا ذکر کیا ہے۔
(۱) ایک یہ کہ یہ جلسہ معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں جس طرح میلے ہوتے ہیں دوسرے اجتماع ہوتے ہیں۔ اس قسم کا یہ جلسہ نہیں ہے اس لئے جو غرض اس جلسہ کے انعقاد کی ہے اس سے کبھی غافل نہ رہیں اور اس کے حصول کے لئے حتی الوسع انتہائی کوشش کرتے رہیں۔ پس یہ معمولی جلسہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک روحانی اجتماع ہے اور اس روحانی اجتماع میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو روحانی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ایک تو اس میں کسی قسم کا انتشار پیدا نہیں ہونا چاہئے اس سے بچتے رہنا چاہئے اور دوسرے اس روحانی فضا سے جس قدر برکات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۲) دوسری بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ دوست محض للہ ربّانی باتوں کو سننے کے لئے شرکت کریں اس چھوٹے سے فقرہ میں بڑی حکمت کی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان کی ہے اور وہ یہ کہ جلسہ میں شمولیت کی غرض یہ نہ ہو کہ فلاں کی یا فلاں کی باتیں سننی ہیں۔ غرض یہ ہو کہ ہم نے ربّانی باتیں سننے کے لئے یہاں جمع ہونا ہے۔
تو جہاں تک افراد اور انسانوں کا تعلق تھا۔ ان کو ہمارے ذہنوں سے اس فقرہ نے محو کر دیا اور صرف یہ بات حاضر رہی کہ ہم نے خدا کے لئے جمع ہونا ہے۔ تاہم خدا کی باتیں اس اجتماع میں سنیں خواہ وہ کسی منہ سے نکلیں اس سے یہ ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے کہ جو دوست جلسہ میں شمولیت کے لئے باہر سے تشریف لائیں یا وہ مقامی دوست جو جلسہ میں کسی کام پر کسی فرض کو ادا نہ کر رہے ہوں وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں بلکہ تقاریر کے پروگرام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں اور یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ جلسہ گاہ میں نہایت خاموشی کے ساتھ بیٹھیں اور نہایت غور کے ساتھ تقاریر کو سنیں تاکہ وہ ربانی باتیں دل اور دماغ میں اُتر جائیں جو اس پروگرام کے ماتحت اس جلسہ میں بیان کی جائیں۔ بعض دوست اپنی غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے جلسہ کی تقاریر کے پروگرام میں پوری توجہ سے اور شوق سے شامل نہیں ہوتے بلکہ ایک حصہ اِدھر اُدھر ضائع کر دیتے ہیں۔ سارے وقت کے پروگرام میں شامل نہیں رہتے۔ سوائے ضروری حاجت کے جس کے لئے انسان کو بہرحال اٹھنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایک منٹ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم جلسہ گاہ میں نہ گذاریں۔ مجھے علم ہے کہ بعض دوست پروگرام دیکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں اپنے دل میں کہ فلاں کی تقریر ہم نے ضرور سننی ہے اور فلاں کی ہم نے ضرور سننی ہے۔ چار پانچ تقاریر کے متعلق وہ فیصلہ کر لیتے ہیں اور باقی تقاریر میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے حالانکہ ان کو بلایا یہ کہہ کر گیا تھا کہ ربانی باتیں سننے کے لئے یہاں جمع ہوں لیکن وہ ربانی باتوں کو اہمیت دینے کی بجائے ان ربانی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں جو کسی خاص آدمی کی زبان سے نکلیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو اس لئے جمع نہیں کیااگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (کی آواز) پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہوتے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان شرائط کی پابندی کریں جو شرائط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ پر عائد کی ہیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو بہت سی برکات سے محروم ہو جائیں گے۔
(۳) تیسری بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ اس اجتماع میں اجتماعی اور انفرادی دعائوں کے بہت سے مواقع ملتے ہیں۔ ان دعائوں میں شریک ہونے اور ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے اس اجتماع میں شامل ہونا چاہئے۔ اس لئے جو یہاں آتے ہیں اور جو یہاں رہتے ہیں اور خدمت پر اس وقت لگے ہوئے نہیں ہوتے۔ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان دعائوں کے مواقع کو ضائع نہ کریں افتتاحی دعا جلسہ کے ایام میں تو افتتاح کے موقعہ پر ہوتی ہے پھر جلسہ جب ختم ہوتا ہے اس وقت ہوتی ہے اس کے علاوہ بھی بعض دفعہ ایسے مواقع میسر آ جاتے ہیں جب اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔ ایک حصہ زائرین کا اور کچھ یہاں رہنے والوں کا بھی صبح تہجد کے وقت اکٹھے نوافل ادا کرکے اجتماعی دعا کا موقعہ حاصل کرتے ہیں یہ ایسا موقعہ تونہیں جس کے متعلق میں کہوں کہ سب اس میں شامل ہوں کیونکہ سب کی شمولیت کا انتظام نہیں ہو سکتا یہ مسجد بھی چھوٹی سی ہے۔
بہرحال جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے اور وہ اس میں شامل ہو سکیں انہیں اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
انفرادی طور پر بھی ہر وقت دعا کرتے رہنا چاہئے خاص توجہ اور انہماک کے ساتھ زیادہ تر ان ایّام کے سب اوقات دعائوں سے معمور ہونے چاہئیں۔ کوئی لمحہ ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے ان ایام میں جو دعا سے خالی اور اللہ تعالیٰ کی برکت سے خالی ہو۔
(۴) چوتھی بات جماعت کو مخاطب کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمائی کہ اس جلسہ میں شمولیت کے لئے کچھ نہ کچھ تو دنیوی حرج کرنا پڑتے ہیں یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کسی قسم کا کوئی حرج بھی آپ نہ کریں اور پھر اس میں شامل ہو جائیں۔ باہر سے آنے والے پیسہ خرچ کرتے ہیں اپنی رخصتیں خرچ کرتے ہیں اپنی تجارتوں کو چھوڑ کے اس جلسہ کی برکات میں حصہ لینے کے لئے اس میں جمع ہوتے ہیں جو یہاں کے رہنے والے ہیں وہ جلسہ کے لئے اپنے چوبیس گھنٹے وقف کرتے ہیں (قریباً سارے) لیکن جو نہیں کرتے انہیں اس خیال سے ترساں رہنا چاہئے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو وہ مول نہ لینے والے ہوں۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں یہ فرمایا کہ کچھ نہ کچھ تمہیں حرج تو کرنا پڑے گا کچھ تکلیف اُٹھانی پڑے گئی۔ کچھ مال خرچ کرنا پڑے گا کچھ عادتوں کو چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن خدا کے لئے اور ربّانی باتوں کو سننے کے لئے تمہیں ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بڑے مخلص امیر اور بڑے مخلص غریب اس جلسہ میں شامل ہوتے ہیں۔ مجھے خود ذاتی طور پر ایسے دوستوں کا علم ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیوی اموال بھی کثرت سے دئیے ہیں لیکن جلسہ کے ایام میں ان کے سارے خاندان کو ایک غسل خانہ مل جائے جس میں پرالی بچھی ہو تو ان کے دل خدا کی حمد سے بھر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رہائش کا سامان پیدا کر دیا ہے اور یہ ایسی مثالیں ہیں کہ غیر تو ان کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ وہ خیال کریں گے کہ شاید یونہی باتیں بنا رہے ہیں لیکن جلسہ پر آئیں اور دیکھیں تو ان کو پتہ لگے کہ کس خالص نیت اور کس پاک دل کے ساتھ یہ لوگ اس جلسہ میں شرکت کرتے ہیں۔
تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے اگر باہر کی جماعتوں تک میری آواز پہنچ جائے یا جن کو پہلے بھی اس بات کا علم ہو یا یاددہانی کرائی گئی ہو وہ ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس جلسہ میں شامل ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو پورا کریں اور اپنے لئے برکات کے سامان پیدا کر لیں۔
(۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اقتباسات میں پانچویں بات ہمیں یہ بتائی ہے کہ عارضی فائدہ اس جلسہ سالانہ کا یہ بھی ہے کہ باہمی ملاقات کے مواقع میسر آتے ہیں۔ چاروں طرف سے (صرف ہمارے ملک کے چاروں اطراف سے ہی نہیں بلکہ دنیا کی چاروں اطراف سے) لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں کہیں سے کم کہیں سے زیادہ تو مواقع میسر آتے ہیں اس بات کے کہ آپس میں ملیں تبادلہ خیال کریں محبت و پیار کا اظہار کریں اور ہم اخوت و محبت کے جو جذبات ایک دوسرے کے لئے اپنے دل میں رکھتے ہیں ان میں زیادتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے ہم پہلے سے زیادہ وارث بنیں اور اس طرح رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں یہ فرمایا کہ اسلام نے تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا ہے لیکن صرف کہنے سے بھائی بھائی تو نہیں بنتے۔ جب تک ایسے مواقع میسر نہ آئیں جب وہ بھائی بھائی کی طرح آپس میں مل رہے ہوں اور بھائی بھائی کی طرح اپنے نفسوں کی چھوٹی چھوٹی عادتوں کو قربان کرکے دوسروں کے آرام کا اور سکون کا اور راحت کا انتظام کر رہے ہوں تو یہ ایک عارضی فائدہ بھی ہے جو اس جلسہ سے اُٹھایا جانا چاہئے۔
(۶) چھٹی بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ جو دوست اس عرصہ میں اس دار فانی سے گذر چکے ہوں ان کے لئے دعائے مغفرت اور خصوصاً موصی صاحبان کے لئے دعائے مغفرت کا موقع ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کثرت سے دوست بہشتی مقبرہ جاتے ہیں اور بچھڑے ہوئے بہنوں اور بھائیوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن جن کو اس طرف پہلے خیال نہیں آیا ان کو اب میں متوجہ کرتا ہوں کہ جلسہ کے ایام میں کچھ وقتوں کو اس غرض کے لئے بھی فارغ رکھیں کہ وہ بہشتی مقبرہ میں جائیں اور وہاں ان موصی اور موصیات کے لئے دعا کریں جو وہاں مدفون ہیں اور وہیں اپنے تمام ان بھائیوں کے لئے دعا کریںجو اس دنیا کو اس عرصہ میں چھوڑ چکے ہیں۔ ہم سے جدا ہو گئے اور اپنے ربّ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔
(۷) ساتویں بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمائی کہ صرف یہی فوائد اس جلسہ کے نہیں جو میں نے یہاں بیان کئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ بہت سے روحانی فوائد ایسے ہیں جن کا میں نے ذکر نہیں کیا اور بہت سے ایسے ہیں جو اس وقت ہمارے فائدے کے لئے نہیں لیکن آئندہ ان سے استفاد ہو سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر وہ ظاہر ہوں گے اور روحانی فوائد اور منافع بڑی کثرت سے ہیں یعنی صرف یہی چند ایک نہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ (اس کی دلیل آپ نے یہ دی) یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔
تو جس اجتماع کی بنیاد خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر ہو اس میں دو ایک یا پانچ سات نہیں بلکہ بے شمار روحانی فوائد ہوتے ہیں اور ہر روحانی فائدہ سے استفادہ کرنا مومن کا فرض ہے اور
(۸) آٹھویں بات ان دو اقتباسات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے۔ اپنے متعلق اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیابت میں خلیفہ وقت امام وقت کا بھی فرض ہے جو اسے یاد دلایا گیا ہے نیز جماعت کو بھی بتایا گیا کہ ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ خلیفہ وقت کا فرض ہو گا کہ احباب جماعت کی ’’خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت جل شانہ کوشش کرے‘‘۔
تو ان ایام میں امام وقت خاص طور پر یہ دعائیں کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کی خشکی اور اجنبیت کو دور کرے اور ان کی اخوت اور محبت کو زیادہ کرے اور بشاشت ایمانی ہر آن اور ہر وقت بڑھتی چلی جائے اور نفاق کا کوئی پہلو بھی ان کے اندر باقی نہ رہے اور جو منافق ہیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
تو یہ آٹھ باتیں ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان دو چھوٹے سے اقتباسات میں کیا ہے جن کی طرف میں اپنے دوستوں کو توجہ دلا رہا ہوں۔
اس کے علاوہ جماعت کا یہ بھی فرض ہے کہ خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ جلسہ کے ایام میں ربوہ میں فحش کلامی سے پرہیز کیا جائے کسی قسم کی فحش کلامی اس موقع پر خصوصاً جائز نہیں کبھی بھی جائز نہیں لیکن اجتماع کے موقع پر خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ گائوں میں رہنے والے بہت سے دیہاتی بہت ہی مہذب ہیں۔ ان کی زبانیں پاک اور صاف ہوتی ہیں اور کوئی گندی بات ان کی یا ان کے بچوں کی زبان پر نہیں آتی۔ یہی حال شہر میں بسنے والے احمدیوں کا ہے۔ لیکن ایک طبقہ جس کی صحیح تربیت نہیں ہوتی کیونکہ ہم تو ہمیشہ ہر آن بڑھنے والی قوم ہیںنئے آدمی داخل ہوتے رہتے ہیں ایک وقت تک ان کی پوری تربیت ابھی نہیں ہوئی ہوتی ان کو گند بولنے کی عادت پڑی ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ ہی جاتی ہے۔ اس عادت کو دور کرنے کا یہ بڑا اچھا موقع ہے خاص طور پر وہ خیال رکھیں کہ ان کی زبانیں اور ان کے رشتہ داروں اور بچوں کی زبانیں پاک رہیں تا سارا سال ہی یہ عادت ان کی قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں۔
ایسے اجتماعوں پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض دفعہ اختلاف ہو جاتا ہے مگر کسی قسم کا جدال نہیں ہونا چاہئے۔ لڑائی جھگڑے سے پورا پرہیز کرنا چاہئے اور اگر جائز یا ناجائز بات کوئی ایسی دیکھیں جس سے طبیعت میں اشتعال پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اپنے نفسوں پر قابو رکھیں چھوٹی چھوٹی قربانیاں دے کر اپنی عادت کی یا نفس کے جوش کی، ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر لیں تو اس سے زیادہ سستا سودا اور کیا ہو سکتا ہے۔
میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے میں بہت چھوٹا تھا اس وقت لیکن ابھی تک وہ واقعہ مجھے پیارا لگتا ہے میں مسجد اقصیٰ میں عشاء کی نماز کے لئے جایا کرتا تھاکیونکہ عشاء کی نماز مسجد مبارک میں بہت دیر سے ہوتی تھی اور میں مدرسہ احمدیہ میں نیا نیا داخل ہوا تھا۔ پڑھائی کی طرف توجہ دینے اور نیند پوری لینے کی خاطر حضرت اُمُّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے فرماتی تھیں کہ تم مسجد اقصیٰ میں جا کر نماز پڑھ آیا کرو۔ ورلی سیڑھیاں (آپ میں سے بہت سے تو جانتے نہیں) یعنی مسجد مبارک کی وہ سیڑھیاں جو اس دروازہ کے ساتھ ہیں۔ جو دار مسیح کے اندر جانے والا دروازہ ہے وہاںسے میں اترتا وہ گلی بڑی اندھیری تھی۔ اب تو شاید وہاں بجلی لگ گئی ہو گی۔ اس زمانہ میں بجلی نہیں تھی۔ ایک دن میں نیچے اُترا نماز کے لئے تو عین اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی لائن نماز کے لئے جا رہی تھی اور اندھیرا تھا خیر میں لائن میں شامل ہو گیا لیکن اس اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں لگ رہا تھا۔ میرا پائوں اس طالب علم کے سلیپر پر پڑ گیا جو آگے تھا اس وقت تو اس نے صبر کیا لیکن اس کے چند سیکنڈ کے بعد دوبارہ میرا پائوں اس کے سلیپر پر لگا اور وہ سمجھا کہ کوئی لڑکا اس سے شرارت کر رہا ہے۔ وہ پیچھے مڑا اور ایک چپیڑ مجھے لگا دی اس کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کسے میں چپیڑ لگا رہا ہوں اور کیوں لگا رہا ہوں۔ مجھے خیال آیا کہ اگر میں اس کے سامنے ہو گیا تو اس کو بہرحال شرمندگی اُٹھانی پڑے گی اس خیال سے میں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا اور جب پندرہ بیس بچے وہاں سے گذر گئے تب میں دوبارہ اس لائن میں داخل ہو گیا تا کہ اس کو شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔
ہے تو ذرا سی بات لیکن باہمی مودّت اور اخوت اور پیار کو قائم رکھنے کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا بڑا ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض احمدی جھگڑتے ہیں اور اتنی ذہنی کوفت اُٹھانی پڑتی ہے مجھے اور دوسرے ذمہ دار آدمیوں کو کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ہمیں کوفت پہنچا کر بھی گنہگار بنتے ہیں اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ گناہ کیوں سہیڑتے ہیں؟؟؟ اگر ان باتوں کا خیال رکھیں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں لیکن آپ کو فائدہ بڑا ہے آپ کو ثواب بڑا ہے تو ہر قسم کی لڑائی جھگڑے سے بچنا نہایت ضروری ہے ان دنوں میں غیر تربیت یافتہ آدمی بھی آتے ہیں نیز ہزاروں کی تعداد میں ایسے احباب آتے ہیں جن کا جماعت سے ابھی تعلق قائم نہیں ہوا۔ اپنی عدم تربیت کے ساتھ وہ یہاں آتے ہیں۔ آپ نے خود ثواب کمانا ہے اور ان لوگوں کے لئے ایک نیک نمونہ پیش کرنا ہے تا کہ وہ سمجھیں کہ واقع میں دنیا میں ایک مقام ہے جسے ہم جنت کہہ سکتے ہیں جہاں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے ہر شخص دوسرے کا خیال رکھنے والا دوسرے کی خاطر تکلیف برداشت کرنے والا اور ہر قسم کے جدال سے بچنے والا ہے۔
اور چوتھی ذمہ داری جو ان دنوں جماعت پر عائد ہوتی ہے وہ فسق سے بچنے کی ہے صرف کبیرہ گناہ کو ہی فسق نہیں کہتے بلکہ کبیرہ اور صغیرہ چھوٹے اور بڑے ہر دو گناہ کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا اس اجتماع پر ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ انعام ہم حاصل کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (الصف :۶)وہ لوگ جو ان احکام میں سے جو میں نے قرآن کریم میں اور اسلامی تعلیم میں ان پر نازل کئے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہیں رکھیں گے وہ ان انعامات کے وارث نہیں ہوں گے جو کامل طور پر ہدایت یافتہ لوگوں کو ملتے ہیں لَایَھْدِیْ میں یہ بتایا ہے کہ ان کا انجام اس طرح بخیر نہیں ہو گاجس طرح ہدایت یافتہ کا انجام بخیر ہوا کرتا ہے اگر ہم بہترین انعامات کا وارث ہونا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ ہمیں ہدایت یافتہ پائے اور ہمارے گناہوں پر اپنی مغفرت کی چادر ڈال دے تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ہماری طاقت اور استعداد میں ہو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنے کی کوشش کریں یعنی ہر بات جس سے اسلام ہمیں روکتا ہے خواہ وہ دنیا کی یا ہماری نظر میں کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو۔ ہم اس سے بچیں اور ہر وہ حکم جس کے کرنے کی اللہ ہمیں ہدایت کرتا ہے ہم اس کے بجا لانے میں ہر ممکن تدبیر کو اختیار کریں اس کے بغیر ہم ہدایت یافتہ جماعت کے انعام نہیں پا سکتے۔
پس یہ ایک بڑا ہی اہم موقع ہے بڑا ہی بابرکت موقع ہے رحمتوں کے حصول کا ایک عظیم موقع ہے جسے ہم اپنا جلسہ سالانہ کہتے ہیں اس موقع پر ان دنوں میں ان اوقات میں پوری کوشش کرنی چاہئے۔ پوری توجہ کے ساتھ اور پوری تدبیر کے ساتھ اور ہر وقت کی دعائوں کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرے کہ ہم سے چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی سرزد نہ ہو اور شیطان کا ہلکے سے ہلکا تیر بھی ہمارے جسموں اور روحوں میں پیوست نہ ہوتا کہ ہم اس کے غضب کے نیچے نہ آ جائیں تا کہ ہم اس کی رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والے ہوں۔
ربوہ میں بسنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان دنوں میں صفائی کا خاص خیال رکھیں ربوہ کے ایک چھوٹے سے حصہ میں آج بھی وقار عمل منایا گیا ہے یعنی خدام الاحمدیہ کے انتظام کے ماتحت رضا کارانہ طور پر کچھ کام کیا گیا ہے جس کی تفصیل کا مجھے علم نہیں ہے میں امید رکھتا ہوں کہ انہوں نے صفائی پر زیادہ زور دیا ہو گا اور ان رخنوں کو بند کرنے پر زیادہ زور دیا ہو گا جس کے نتیجہ میں گندگی پھیلتی ہے اگر خدام الاحمدیہ ہمت کرے اور انصار اور اطفال بھی ان کے ساتھ شامل ہوں تو کم از کم دو دن عصر اور مغرب کے درمیان ربوہ کو صاف ستھرا کرنے پر خرچ کرنے چاہئیں۔ قرآن کریم نے بھی اس طرف بڑی توجہ دی ہے اور ہمیں توجہ دلائی ہے کہ مکہ کے متعلق جو طَھِّرًا کا حکم تھا وہ خالی ان دو کے لئے نہیں تھا بلکہ ان سب کے لئے ہے جو مقاصد کعبہ کے حصول کی تمنا اور خواہش رکھتے اور ان برکات سے حصہ لینے کے آرزو مند ہیں جن کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے۔
تو صفائی کی طرف اہل ربوہ خاص طور پر متوجہ ہوں اور اپنی گلیوں اور سڑکوں کو صاف ستھرا رکھیں۔ اسی طرح وہ دکاندار جو مستقل یہاں تجارت کرتے ہیں یا وہ جو عارضی طور پر جلسہ کے دنوں میں اپنی دکانیں لگاتے ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی دکان میں ایسا انتظام کریں کہ وہاں کسی قسم کا کوئی گند پیدا نہ ہو۔ مثلاً مالٹے یا سنگترے یا اور پھل کھایا جاتا ہے یا بعض اور چیزیں کھائی جاتی ہیں جن کا ایک حصہ (چھلکے وغیرہ) پھینکنا پڑتا ہے۔ یہ اس طرح نہ پھینکے جائیں کہ گندگی نظر آئے ان سب کو سمیٹ دینا چاہئے اور صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
لیکن سب سے بڑی ذمہ داری اہل ربوہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے نام پر ہزاروں کو بلاتے ہیں جو لبیک کہتے ہوئے ان ایام میں یہاں جمع ہو جاتے ہیں اور جماعت مہمان نوازی کا انتظام کرتی ہے۔ کچھ تو مادی اشیاء ہیں کھانے پینے کی چیزیں یا مکان وغیرہ وغیرہ اس کا انتظام تو منتظمین کے سپرد ہے وہ کرتے ہیں۔ لیکن اس انتظام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ رضا کارانہ خدام انہیں میسر آئیں، بعض نوجوان بھی اور بڑے بھی بڑی محبت اور بڑے پیار کے ساتھ یہ خدمت چوبیس گھنٹے بجا لاتے ہیں۔ لیکن بعض وہ بھی ہیں جو اس موقع کی خدمت کی برکتوں سے ناآشنا نظر آتے ہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے اس موقع پر مہمان نوازی کرتے ہوئے خدمت بجا لانے کا بڑا ہی ثواب ہے پس خود کو اور اپنے بچوں کو اس ثواب سے محروم نہ رکھیں۔ ہم نے، ہمارے سارے گھر نے اپنے بچپن کا زمانہ بھی (اور بڑے ہو کر بھی) جلسے کے دنوں کی خدمت کو اتنے محبت اور پیار سے ادا کیا ہے کہ کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم کسی پر ذرہ احسان کر رہے ہیں بلکہ ہمیشہ ہی دل اس احساس سے پر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو توفیق دی ہے کہ وہ ہم پر احسان کر رہے ہیں ہم سے خدمت لے کر اور حقیقت بھی یہی ہے کس پر ہم احسان جتائیں! اس پر! جس نے ہمیں پیدا کیا ہے! ہمارے لئے ہماری پیدائش سے بھی لاکھوں سال پہلے اپنی رحمتوں کے سامان پیدا کئے کیا ہم اپنے اللہ پر احسان رکھیں گے کیا ہم اللہ کے محمدﷺ یا آپ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا آپ کے خلفاء پر احسان جتائیں گے!! احسان تو خدا کا ہے کہ وہ ہمارے لئے برکتوں کے حصول کے مواقع پیدا کرتا ہے۔
پس اس خدمت کو معمولی خدمت نہ سمجھو بڑی برکتوں والی ہے۔ یہ خدمت!!! ان چند دنوں کو خدا کے لئے چوبیس گھنٹے اگر آپ وقف کر دیں تو آپ اس سے مر نہیں جاتے نہ ایسے کمزور ہو جاتے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے بیمار ہو جائیں کوئی مستقل بیماری یا نقص آپ کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ تھوڑی سی تکلیف ہی ہے جوآپ نے برداشت کرنی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں اس قدر رحمتیں ہیںجن کا آپ نے وارث بننا ہے کہ آپ کا دماغ یا کسی اور انسان کا دماغ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
پس ہمارے وہ بچے یا ہمارے وہ بھائی جو اس خدمت کی برکات کی اور اس خدمت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی رحمتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ انہیں میں متوجہ کرتا ہوں کہ وہ چوبیس گھنٹے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت میں گزار کے اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں اور اس کے اَن گنت فضلوں کے وارث بننے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ اور توفیق دے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے کی وہ خود توفیق دیتا چلا جائے۔ کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
(روزنامہ الفضل مورخہ ۸؍ جون ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭
اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اس دنیا میں بھی ایک جنت عطا کی جاتی ہے

(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۲ ؍جنوری ۱۹۶۸ء بر موقعہ جلسہ سالانہ۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ جنت کی چھ علامات کا تذکرہ۔
٭ السلام علیکم ورحمۃ اللہ بلند آواز سے کہنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔
٭ جنت میں دل کینہ، بُغض اور حسد سے پاک ہونگے۔
٭ جنت میں رہنے والے دُنیوی اور روحانی ترقیات کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
٭ پس دعاؤں، تدبیر، صالح اعمال، عاجزی اور تذلل کے ذریعہ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ میں داخلہ کی کوشش کرو۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی۔
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍo اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ اٰمِنِیْنَo وَنَزَعْنَا مَافِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَo لَایَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّمَاھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَo نَبِیْٔ عِبَادِيٓ اَنِّیْ اَنَاالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo وَاَنَّ عَذَابِيْ ھُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُo (سورۃالحجر :۴۶ تا ۵۱)
پھر فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی کتب میں اس مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب مومن بندوں کو جنہیں وہ اپنی مغفرت کی چادر کے اندر ڈھانپ لیتا ہے دو جنتوں کے لئے پیدا کیا ہے۔ ایک جنت اس دنیا میں ان کے لئے مقدر کی جاتی ہے اور ایک وہ جنت ہے جو اُخروی زندگی میں انہیں ملے گی جیسا کہ قرآن کریم میں یہ آتا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہو اور بصیرت اسے حاصل نہ ہو۔ وہ اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قابل نہیں ہو گا اور نہ اس کی رضا کی جنتوں میں وہ داخل کیا جائے گا۔
ان آیات میں جو میں نے ابھی آپ دوستوں کے سامنے تلاوت کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع مضمون بیان کیا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس دنیا کی جنت جو اس دنیا کی جنت سے بہت مختلف ہے (اس میں شک نہیں ایک بڑا فرق تو یہ ہے کہ وہ جنت ایسی ہو گی جس میں سارے جنتی اکٹھے رہتے ہوں گے اور دوزخیوں کا اس جنت میں کوئی دخل نہیں لیکن اس دنیا میں جو جنت ہے) اس میں کافر اور مومن اس دنیا کے لحاظ سے اکٹھے رہتے نظر آتے ہیں۔ پس ہر شخص کی اپنی ایک جنت ہے۔ ایک ماحول ہے یا جماعت کا ایک ماحول ہے۔ اس ماحول میں جنتیوں کی سی زندگی ایک احمدی گزارتا ہے یا جنتیوں کی سی زندگی گزارنے کی وہ کوشش کرتا ہے۔
اس جنت کی بہت سی علامات ان آیات میں بتائی گئی ہیں:۔
(۱) ایک تو یہ کہ امن میں اور سلامتی کے ساتھ وہ رہنے والے ہوں گے۔ جس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ ایک دوسرے کیلئے کثرت سے سلامتی سے دعائیں کر رہے ہوں گے۔ اس کا ایک ظاہری طریق یہ بھی ہے سنت نبوی کے مطابق اور وہ یہ کہ جب بھی مسلمان مسلمان سے ملے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ بلند آواز سے کہہ کے اس کے لئے سلامتی کی دعا مانگے۔ اس کی بھی عادت ڈالنی چاہئے اس کے علاوہ بھی اپنی دعائوں میں سب اُمت مسلمہ، سب جماعت احمدیہ کیلئے یہ دعائیں مانگتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی اور امن کی زندگی ہمیں بھی اور ہمارے بھائیوں کو بھی عطا کرے۔
(۲) دوسری علامت یا دوسری بات جس کا اس جنت سے تعلق ہے وہ یہ ہے کہ نَزَعْنَا مَافِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ ان کے سینوں میں جو کینہ وغیرہ بھی ہو گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس جنت میں ہم اسے نکال دیں گے۔ پس اگر دل کینہ اور بغض اور حسد سے پاک ہوں تو جنت ہے اور اگر نہیں تو وہ جنت نہیں۔
(۳) اسی طرح تیسری بات یہاں یہ بتائی کہ وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے اگر ہم احمدیت میں داخل ہونے کے باوجود یہ احساس نہیں رکھتے کہ ہم بھائی بھائی ہیں اور بھائیوں کی طرح ہم نے محبت سے زندگی گزارنی ہے تو پھر جو شخص ایسا ہے اس کے لئے اس دنیا میں جنت نہیں بنی۔
(۴) ایک اور بات یہ ہے کہ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے یعنی دنیوی ترقیات یا روحانی ترقیات کے نتیجہ میں وہ یہ کوشش نہیں کریں گے کہ ایک دوسرے کو نیچا کر دکھا دیں گرانے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ وہ خوش ہوں گے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے رحمت کا، رضا کا، ایک تخت پیدا کیا ہے۔
(۵) ایک اور علامت یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ انہیں کوئی تھکان نہیں ہو گی یعنی قربانی کے میدان میں وہ جتنی قربانیاں دیتے چلے جائیں گے وہ کوئی تھکان محسوس نہیں کریں گے بلکہ لذت اور سرور محسوس کریں گے جو شخص سلسلہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانی نہیں دیتا یا قربانی دیتا ہے لیکن تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اسے اپنی فکر کرنی چاہئے کیونکہ ابھی اس کے لئے اس دنیا میں جنت مقدر نہیں ہوئی۔
(۶) اور آخری علامت یہ بتائی کہ وَمَاھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ۔ وہ اس میں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے یعنی اس فرد واحد اس فرد بشر کیلئے لیلۃ القدرکا فیصلہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر دے گا کہ اس شخص کو میں نے اپنے ابدی قرب اور ابدی رضا کے لئے چن لیا ہے اور جس شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر دیتا ہے۔ شیطان کا کوئی حملہ اس پر کامیاب نہیں ہوا کرتا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ایسے لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے اور شیطان کا ہر وار ناکام کر دیتا ہے۔
یعنی جس پر شیطان کامیاب وار کر دے اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالے اور وہ دل وسوسہ سے متاثر ہو جائے اور امتحان میں پڑ جائے۔ اسی طرح وہ شخص جسے خدا اور اس کے رسول کی خاطر قربانیاں دینے میں تھکاوٹ محسوس ہو۔ اسی طرح وہ شخص جو دوسرے بھائی پر جو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہوں (دنیوی یا دینی) انہیں دیکھ کے جلنے لگے اور حسد اختیار کرے اور اس کی یہ کیفیت نہ ہو کہ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ۔ اسی طرح وہ شخص جو اخوت کا انتہائی جذبہ اپنے بھائیوں کے لئے اپنے دل میں نہیں پاتا۔ اسی طرح وہ شخص جس کے دل میں دوسروں کے لئے کینہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اپنے بھائیوں کے لئے سلامتی اور امن کی دعائیں نہیں کرتا وہ خطرے میں ہے اسے اپنی فکر کرنی چاہئے کیونکہ وہ ابھی تک اندھا ہے اور اسے روحانی آنکھیں عطا نہیں ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایک نقشہ کھینچا ہے اس دنیا کی جنت کا بھی (اس جنت کا بھی نقشہ اس کے اندر ہے لیکن وہ علیحدہ مضمون ہے) اور ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ جب تمہارے لئے جنت اس دنیا میں مقدر ہو جائے گی تمہاری لیلۃ القدر کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس وقت تم یہ محسوس کرو گے کہ تمہارے اندر یہ خوبیاں یہ صفات جو ہیں وہ پیدا ہو چکی ہیں اور ان صفات کو ایک لحظہ کے لئے بھی چھوڑنے کے لئے تم تیار نہیں ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ابھی تمہیں بینائی نہیں ملی۔ ابھی تمہاری آنکھیں نہیں کھلیں ابھی تمہاری لَیْلَۃُ الْقَدر کا فیصلہ نہیں ہوا ابھی تم خطرے میں ہو، ابھی شیطان کا وار تم پر کامیاب ہے پس دعائوں کے ذریعہ بھی، تدبیر کے ذریعہ بھی اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اور عاجزی اور تذلل کے ذریعہ شیطان کے حملہ سے خود کو محفوظ کرنے کی خاطر اپنے ربّ کی طرف جھکو اور انتہائی قربانی دے کر بھی اس سے یہ چاہو کہ وہ تمہیں جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍمیں داخل کر دے اس دنیا میں بھی تاکہ امن کے ساتھ تم اپنی زندگی کو گزارنے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے۔
(روزنامہ الفضل مورخہ ۲۷؍ جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ۱ ،۲)
خطبہ جمعہ۱۹؍جنوری ۱۹۶۸ء
ء ء ء
حضور ناسازی طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لاسکے۔
(الفضل ۲۱؍ جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

انتظامات جلسہ کے متعلق پانچ ضروری ہدایات جن کی طرف جماعت کو فوراً متوجہ ہونا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶ ؍جنوری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ تین سَو احمدی نوجوانوں کو تنور میں روٹی لگانا سکھائیں۔
٭ چھ سَو ایسے رضاکار مکان چاہئیں جو ضرورت پیش آنے پر سَو روٹی تَوے پر پکا کر دیں۔
٭ روٹی پکانے کی مشین جلسہ سالانہ کیلئے تیار کروائیں۔
٭ اللہ تعالیٰ ہی مقرر کی زبان میں برکت دیتا، اثر پیدا کرتا اور دلوں کو اثر قبول کرنے کیلئے تیار کرتا ہے۔
٭ ہر وہ قربانی جس کا وقت اور زمانہ مطالبہ کرے بشاشت کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور پیش کر دیں۔



تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
جلسہ سالانہ کے بعد انفلوئنزا کا بڑا سخت حملہ مجھ پر ہوا تھا بخار بھی تیز تھا اور کھانسی تو اتنی شدت اختیار کر گئی تھی کہ رات ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ بجے بلکہ بعض دفعہ دو بجے تک کھانستے گزر جاتی اور ایک سیکنڈ بھی میں سو نہ سکتا لیکن پھر اپنی غلطی کے نتیجہ میں جو بیماری پیدا ہوئی۔ فَھُوَیَشْفِیْنِ اس (بیماری) سے شافی خدا نے شفا دی۔ بیماری اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہو گئی ہے۔ ضعف اور نقاہت اور کھانسی کا تھوڑا سا بقیہ ہے اللہ فضل کرے گا انشاء اللہ وہ بھی جلد دور ہو جائے گا۔
آج میں باوجود ضعف کے اس لئے جمعہ کے لئے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور اس کی غیرمحدود رحمتیں جو ہم نے جلسہ کے ایام میں اپنے پر نازل ہوتی دیکھیں۔ ان کے نتیجہ میں جماعت پر جو شکر بجا لانے کا فرض عائد ہوتا ہے اس کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلائوں۔
بہترین بیان جو جلسہ کی رحمتوں کے متعلق میرے سننے میں آیا وہ یہ ہے کہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر جو ہمارے بزرگ دعا گو اور بڑا ہی اخلاص رکھنے والے ہیں ۱۴؍ جنوری کی صبح کو جبکہ جماعت ہائے ضلع لائل پور کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے میں ۵۷ سال سے جلسہ سن رہا ہوں اور کوئی ناغہ نہیں ہوا ہر سال ہمارا جلسہ ایک منزل اوپر ہوتا ہے اس سال یہ جلسہ دو منزل اوپر ہوا ایک منزل نانبائیوں کی وجہ سے ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جس رنگ میں روٹی پکانے کا نظام ناکام اور ناکارہ ہو گیا تھا اس کے نتیجہ میں اتنے بڑے اجتماع میں ابتری اور انتشار پیدا ہونا لازمی تھا اگر یہ اجتماع محض خدا کے لئے منعقد نہ ہوتا۔ لیکن اس انتہائی کرائسس (Crisis) کے وقت اللہ تعالیٰ نے جس بشاشت اور اخلاص اور ایثار کا مظاہرہ کرنے کی جماعت کو توفیق عطا کی وہ اپنی ہی مثال ہے اور اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پہلی صدی ہجری کو چھوڑ کر ہماری تاریخ میں شاید ہی اس قسم کا کوئی نظارہ ہمیں ملے۔
اتنا بڑا اجتماع تھا لاکھ کے قریب احمدی اور غیر احمدی جلسہ کو سننے کے لئے اور اپنی غلط فہمیاں دور کرنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے (مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی تھے اور بچے بھی تھے) لیکن ہر طرف اس بظاہر ابتری کے وقت میں بشاشت ہی بشاشت نظر آتی تھی اور مجھ سے تو بہت سے دوستوں نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو ہم تین دن روزہ رکھ کر بھی گزارہ کر سکتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ نہیں روزہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کم کھانے کا ہم سے مطالبہ کر رہا ہے اور جو مطالبہ ہے وہی پورا کرنا چاہئے۔ ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے جماعت کا امتحان لیا اور خداتعالیٰ کی توفیق سے جماعت اس امتحان میں کامیاب ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی بڑا فضل ہے اور اس فضل کے نتیجہ میں ہمارے دل خداتعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں۔
اس سلسلہ میں میں چند ہدایتیں دینا چاہتا ہوں جن میں سے بعض کا تعلق جماعت سے ہے اور بعض کا منتظمین سے۔ اللہ تعالیٰ جب ایسے حالات پیدا کرتا ہے تو ان سے جتنے زیادہ سے زیادہ سبق حاصل کئے جا سکیں وہ ہمیں کرنے چاہئیں۔
پانچ باتیں ہیں جن کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہئے اور پانچ منصوبے ہیں جو ہمیں اگلے جلسہ سے پہلے پہلے مکمل کر لینے چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ جماعت خاص توجہ کے ساتھ ۳۰۰ احمدی نوجوانوں کو تنور میں روٹی لگانا سکھائے اور اس کے متعلق مجھے اکتوبر یا نومبر میں رپورٹ مل جانی چاہئے (انشاء اللہ) کہ کام خیرو خوبی کے ساتھ انجام پا گیا ہے اور ہمارے تین سو نوجوان اس قابل ہیں کہ تنور میں روٹی لگا سکیں۔ اس سکیم کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جائوں گا۔ افسر صاحب جلسہ سالانہ کا کام ہے کہ پوری تفصیل کے ساتھ مجھ سے مشورہ کرنے کے بعد اس سکیم کو بنائیں اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اسے کامیاب کریں۔
دوسری چیز یہ ہے کہ اہالیان ربوہ کم و بیش دو اڑھائی ہزار مکانوں میں رہتے ہیں۔ ان دو اڑھائی ہزار مکانوں میں سے مجھے چھ سَو ایسے رضا کار مکان چاہئیں کہ جب ضرورت پیش آئے تو وہ ہمیں ایک سَو روٹی توے کی پکا کر دیں۔ توے پر سو روٹی پکانا کوئی بڑا کام نہیں۔ میں نے اس روز (یعنی ۱۰؍ جنوری کو) اپنے باورچی کو کہا کہ جتنی روٹیاں زائد پکا سکو پکا دو اور میرا اندازہ ہے کہ اس نے کم و بیش ایک سَو روٹیاں صبح کے ناشتہ پر زائد پکا دی تھیں اور وہ ہم نے لنگر نمبر ۱ میں بھجوا دی تھیں اور سَو سے زائد اس نے دوپہر کے کھانے پر پکا دی تھیں جو ہم نے لنگر نمبر ۱ میں بھجوائیں میں نے تو دوپہر کے وقت روٹی نہیں کھائی تھی کیونکہ میں اپنا راشن صبح ناشتہ پر پورا کر چکا تھا یعنی ایک چپاتی میں نے کھا لی تھی۔ پس سو روٹی توے پر پکانا کوئی مشکل بات نہیں۔ اگر چھ سَو گھر رضا کارانہ خدمت پیش کر دیں تو ضرورت کے وقت ساٹھ ہزار روٹی چند گھنٹوں کے اندر مل سکتی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ فروری کا مہینہ ختم نہ ہو کہ ایک سو لوہ (لوہ ایک بڑے توے کو کہتے ہیں) افسر صاحب جلسہ سالانہ خرید کر مجھے رپورٹ کریں اور اگلے جلسہ پر ایک سو چولہے بھی ضرورت پر کام آنے کیلئے پہلے سے تیار ہوں اور وہاں لکڑیاں بھی موجود ہوں تا ضرورت پڑے تو ان لوہوں سے کام لیا جاسکے۔
اس سال سینکڑوں احمدی بہنوں کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی کہ آپ لوہ کا انتظام کریں نانبائیوں کی ضرورت نہیں مجھے ذاتی تجربہ تو نہیں ویسے کہتے ہیں اور بتانے والوں نے بتایا ہے کہ ایک لوہ پر اگر تین عورتیں روٹیاں پکا رہی ہوں تو وہ ایک بوری آٹا پکا دیتی ہیں (وَاللّٰہُ اَعلَمُ)اگر یہ صحیح ہو تو ہمیں سارے جلسہ کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک سَو پچاسی لوہ کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے زیادہ تنور ہمارے نہیں جلتے۔ لیکن اس سال میں ایک سو لوہ کا انتظام کرانا چاہتا ہوں اور اس کے لئے چھ سَو احمدی بہنیں وقت سے پہلے اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کر دیں اور رجسٹروں میں ان کے نام جماعت کے لحاظ سے درج ہونے چاہئیں تا ضرورت پڑنے پر وہ روٹیاں پکا سکیں۔ سکیم پہلے سے تیار ہو جائے کہ مثلاً چک منگلا سے اتنی عورتیں بوقت ضرورت روٹی پکانے کے لئے تیار ہیں اور چولہے ان کے مقرر ہوں یہ نہیں کہ سکیم اس وقت بنائی جائے جب ضرورت پڑے سکیم پہلے سے تیار ہونی چاہئے۔ اگر خدانخواستہ ہمیں ضرورت پڑے تو ان بہنوں کو پتہ ہو کہ مثلاً چولہا نمبر ۱۵، نمبر ۱۶، نمبر ۱۷، نمبر ۱۸ یا نمبر ۱۹ ہمارے لئے ریزرو ہے وہ وہاں جائیں اور روٹی پکانا شروع کر دیں۔ ۳۰۰ ایک وقت میں اور ۳۰۰ دوسرے وقت میں ہمیں ہر چیز کے لئے تیار رہنا چاہئے خداتعالیٰ نے ہمیں فراست اور عقل اور ہمت دی ہے اور اس لئے دی ہے کہ دنیا یہ دیکھے کہ یہ ایک ایسی قوم ہے جو آزمائش اور امتحان کے وقت ناکام ہونا جانتی ہی نہیں ناکامی ان کی قسمت میں نہیں ہے۔
چوتھی ہدایت میری یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی مشین روٹی پکانے کے لئے اس سال ضرور خرید لی جائے۔ ایسی مشین جس پر ایک وقت میں سات آٹھ ہزار سے لے کر چودہ پندرہ ہزار تک روٹی تیار ہو سکے یہ بڑا چھوٹا یونٹ ہے لیکن ایسی مشین ضرور خرید لینی چاہئے اس پر جتنا بھی خرچ آئے کیا جائے اس میں کچھ دقتیں ضرور ہوں گی امپورٹ لائسنس لینا پڑے گا لیکن اگر ہم ابھی کام شروع کر دیں تو جلسہ تک انشاء اللہ ایسی مشین خریدی جا سکتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور تجربہ ہمیں حاصل ہو جائے تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ ہم ایک کی بجائے تین چار پانچ چھ یا سات مشینیں حسب ضرورت لگا لیں اور ہمیں نانبائیوں کی احتیاج باقی نہ رہے۔ بہرحال اس سال ایک چھوٹا یونٹ اس قسم کی مشین کا لگ جانا چاہئے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ نانبائیوں کے ٹھیکہ کا جو موجودہ انتظام ہے اس سے بہتر انتظام کا منصوبہ بنا کر افسر صاحب جلسہ سالانہ ایک ماہ کے اندر اندر میرے سامنے رکھیں اور جس حد تک ممکن ہو سکے اس قسم کی ایمرجنسی کی روک تھام پہلے سے کر دی جائے۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بھی ایک فضل تھا جو جلسہ کے ایام میں ہم پر نازل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا ایک امتحان لیا اور اپنے فضل اور توفیق سے اس امتحان میں ہمیں کامیاب کیا جس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں پہلے سے زیادہ بشاشت پیدا ہو گئی اور ہمارے ایمانوں کو تقویت حاصل ہوئی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
اس کے علاوہ جلسہ کے دنوں میں تقاریر کا ایک سلسلہ ہوتا ہے تقریروں کے متعلق جماعت بھی دعائیں کرتی ہے اور میں بھی ہر وقت اس فکر میں رہتا ہوں اور دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور دوسرے مقررین کو بھی ایسے رنگ میں تقاریر کرنے کی توفیق عطا کرے جو اس کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو اور جس کے نتیجہ میں جماعت کے دل تسلی پائیں۔ ایک لاکھ کے قریب احمدی اور دوسرے دوست بڑی قربانی کرکے باہر سے آتے ہیں۔ ان کے دل کو اطمینان اور بشاشت حاصل ہونی چاہئے اور یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ جس غرض کیلئے ہم یہاں آئے ہیں وہ غرض پوری ہوئی اور ہمارے کانوں میں اللہ تعالیٰ کی باتیں اور محمد رسول اللہﷺ کے ارشادات ایسے رنگ میں پڑے کہ ہمارے دل ان سے متاثر ہوئے اور ہماری روح نے ان سے روشنی حاصل کی۔ یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ کسی مقرر نے ہمارے جلسہ کو کامیاب نہیں کرنا جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلاں شخص کی تقریر بڑی اچھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر جماعت کے دل تسلی نہیں پکڑ سکتے وہ بت پرست ہے اور مجھے خداتعالیٰ نے ایک عزم عنایت کرکے اور بڑی ہمت دے کر بت شکن بنایا ہے۔
ایسے بتوں کو توڑنا میرا فرض ہے اور خدا کی توفیق سے ایسے بت ٹوٹتے ہی رہیں گے اور خدائے واحد و یگانہ کے پرستاروں کا یہ قافلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ تقریر مقرر نے نہیں کرنی ہمارا ایمان ہے کہ تقریر اللہ تعالیٰ نے کروانی ہے وہ خود ہی مضمون سوجھاتا زبان میں برکت دیتا اور اثر پیدا کرتا اور دلوں کو اثر قبول کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ کوئی انسان یہ دعوے نہیں کر سکتا کہ اپنی کسی ذاتی خوبی سے اس نے ایسا کیا جو ایسا سمجھتا ہے وہ میرے نزدیک احمق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کے مقررین کو توفیق عطا کی کہ وہ بہترین تقاریر تیار کر سکیں ان کے الفاظ میں تاثیر پیدا کی اور سننے والوں کے دلوں کو اثر قبول کرنے کی توفیق عطا کی اس سلسلہ میں میرے پاس بیسیوں خطوط اور رپورٹیں آئی ہیں کہ زمینداروں نے بھی اور شہری لوگوں نے بھی خاص طور پر جلسہ کی تقاریر سے اثر قبول کیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
جہاں تک میری تقریروں کا سوال ہے میں اس وجہ سے بھی پریشان تھا اور بہت دعائیں کر رہا تھا کہ جلسہ سے معاً قبل رمضان تھا اور رمضان کے روزے رکھنے کے نتیجہ میں ضعف اعصاب اور ضعف دماغ کی تکلیف مجھے شروع ہو گئی تھی ڈاک دیکھنا یا ملاقاتیں کرنا یا دوسرے کام جو ہیں وہ تو میں بہرحال کر رہا تھا بلکہ رمضان میں روزے کی وجہ سے بہت سا وقت بچ جاتا ہے جو دوسرے دنوں میں کھانے پینے پر خرچ ہوتا ہے اس لئے آدمی زیادہ وقت تلاوت یا کتب پڑھنے یا دعائیں کرنے یا عبادات بجا لانے یا ملاقاتیں کرنے، خطوط پڑھنے، ان میں سے بہتوں پر دستخط کرنے اور نوٹ لکھنے وغیرہ وغیرہ میں خرچ کر سکتا ہے۔ چنانچہ میں یہ سارے کام رمضان کے دنوں میں بھی کرتا رہا۔ ماہ رمضان میں تو میری عادت یہ ہے کہ میں صبح کام پر بیٹھتا ہوں پھر نمازکے لئے اٹھتا ہوں نماز سے فارغ ہونے کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ جاتا ہوں اور مغرب کی اذان تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے روزہ کھلنے کا وقت ہوا تو دفتر سے گیا، روزہ کھولا، پھر تھوڑا سا آرام کیا، اس کے بعد پھر کام شروع کر دیا۔
بعض دفعہ میں ۱۲ بجے رات تک کام کرتا رہتا ہوں لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے اعصاب میں بھی ضعف پیدا ہو گیا ہے اور ضعف دماغ کی بھی مجھے شکایت ہو گئی ہے اور مجھے یہ فکر پیدا ہوئی کہ اس ضعف کی حالت میں جلسہ کی ذمہ داریوں کو کیسے نباہوں گا اور میں نے کیا نباہنا تھا عاجزانہ دعائوں سے اللہ تعالیٰ سے ہی توفیق چاہی اور اپنی رحمت بے پایاں سے اس نے توفیق عطا کی۔ ہزار ہا وہ دوست بھی جلسہ میں شریک ہوتے ہیں جن کا ابھی ہماری جماعت سے تعلق نہیں۔ اس سال ایسے دوست بھی بہت کثرت سے آئے۔ سرگودھا کے ایک غیر احمدی دوست اپنے ایک احمدی دوست کو ملے اور کہنے لگے کہ سرگودھا کے ہر شخص کو جسے میں جانتا ہوں میں نے جلسہ پر دیکھا ہے۔ پس بڑی کثرت سے سرگودھا، لائل پور اور دوسری جگہوں سے دوست آئے انہوں نے جلسہ سے جو اثر لیا اور اس کے متعلق جو اظہار کیا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کی بہت سی غلط فہمیاں اللہ تعالیٰ نے دور کر دیں اور بڑے ہی متاثر ہو کر وہ یہاں سے گئے۔ یہ لوگ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں دعا کرنی چاہئے کہ دنیا کی دلدل سے اللہ تعالیٰ ان کی نجات کے سامان پیدا کرے اور وہ غلبہ اسلام کی اس عظیم مہم میں حصہ لینے لگیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جاری کی ہے۔
جلسہ کی تقریر کے وقت بھی میں سارے مجمع پر نظر رکھتا ہوں مجھے سوائے بشاشت اور سیری کے جذبات کے اور کچھ نظر نہیں آیا محبت کا جو اظہار جماعت کرتی ہے وہ تو بیان نہیں ہو سکتا اور نہ اس کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ
شمار فضل اور رحمت نہیں ہے
تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے
اس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ویسے تو یہ دو مصرعے اوپر نیچے ہیں لیکن ایک دن میری زبان پر اسی ترتیب سے یہ آئے تھے اس لئے میں اسی ترتیب سے بولتا ہوں۔
شمار فضل اور رحمت نہیں ہے
تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے
تو ہر ساعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو ہم نے یہاں نازل ہوتے دیکھا صرف ربوہ ہی میں نہیں ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اسلام کے حق میں ایسے سامان پیدا کر رہے تھے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور خداتعالیٰ کی رحمتوں کا انتشار صرف یہیں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہی نزول رحمت ہوتا ہمیں نظر آتا ہے۔ میں ایک خط کے بعض اقتباسات آپ کو پڑھ کے سنائوں گا۔ جلسہ کے عین اختتام پر امام کمال یوسف کی تار آئی تھی کہ وہاں بعض پادری مخالفانہ مضمون بھی لکھ رہے ہیں اب دو روز ہوئے مجھے ان کا خط ملا اس کے اقتباسات میں اس لئے پڑھ کے سنانا چاہتا ہوں کہ دوست اس بات کو پہچان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کس قسم کے فضل نازل کر رہا ہے اور یہ کہ ان فضلوں کا تعلق صرف ہمارے دلوں سے یا ہمارے خاندانوں یا ہمارے ماحول یا ہمارے شہروں سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے ان کا تعلق ہے اور اس رنگ میں وہ فضل نازل ہو رہے ہیں کہ ہماری جبین نیاز اور بھی اس کے سامنے جھک جاتی ہے کہ جس چیز کی ہمیں ذرا بھی طاقت نہیں جس کے متعلق ہم وہم بھی نہیں کر سکتے کہ ہم اپنی طاقت سے یہ چیز کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی سے وہ باتیں ظاہر کر رہا ہے۔ یہ انیس جنوری کا لکھا ہوا خط ہے۔ امام کمال یوسف لکھتے ہیں کہ
’’جس پادری نے ہمارے خلاف مضامین لکھے اس اخبار میں ایک ایڈیٹوریل سات مختلف مضامین پادری کے خلاف اور ہمارے حق میں چھپے ہیں (اور بہت سے خطوط بھی) ایک خط سات دستخطوں سے چھپا ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر پادری کی رائے اسلام کے خلاف اس کی ذاتی نہیں بلکہ اس کے چرچ کی رائے ہے تو ہم سات آدمی چرچ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔
ایک نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق ہم سے زیادہ بلند ہیں اس لئے پادری کا ایسا لکھنا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑی گری ہوئی بات ہے۔
’’اور ایک خط کی سرخی ہے ’’تعصب۔‘‘ ایک خط کی سرخی ہے کہ میں بحیثیت عیسائی ایسے پادری کی وجہ سے سخت نادم ہوں‘‘۔
’’ایک نے لکھا ہے کہ پادری کا یہ کہنا کہ ’’اسلام تلوار سے پھیلا اس کی اپنی تاریخ سے ناواقفی کی علامت ہے۔
ایڈیٹوریل کی سرخی ہے ’’دی ڈوئور (وہ علاقہ جہاں ہماری مسجد ہے) میں مذہبی جنگ‘‘ آج کا اخبار بھرا ہوا ہے اس علاقہ کے طلباء نے کثرت سے مسجد میں آنا شروع کر دیا ہے۔ آج بھی ایک کلاس جمعہ کے وقت آ رہی ہے۔ تقاریر کے لئے بھی کئی جگہ مدعو کیا گیا ہوں۔ خط ختم کرنے کے بعد انہوں نے نوٹ دیا ہے ۔
ابھی ایک اور اخبار کا فون بھی آیا ہے۔ بڑا مشہور اخبار ہے۔ وہ غالباً اس پادری کے خلاف مضمون لکھ رہا ہے شائد رائے عامہ ہموار کرکے اس کو چرچ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کرے کہ تو نے کیوں اس قسم کا مضمون اسلام کے خلاف اور نبی اکرمﷺ کے خلاف لکھا‘‘۔
اب دیکھو اس طرح ان عیسائیوں کے دلوں ان خیالات کا پیدا ہونا اور جرأت کے ساتھ ان کا اظہار کرنا اور اسی اخبار کا جس میں اسلام کے خلاف اس پادری کا مضمون شائع ہوا تھا۔ ان خیالات کو شائع کر دینا اور خود ایڈیٹوریل اس کے خلاف لکھنا یہ ایسی باتیں نہیں جو میں اور آپ کر سکیں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو نازل کیا اور ان دلوں میں ایک تبدیلی پیدا کی اور ایک جرأت پیدا کی اور انہیں توفیق دی کہ جرأت سے ان خیالات کا اظہار کریں اور جرأت سے ان خیالات کو شائع کریں۔
اس سے پہلے (جلسہ سے چند دن پہلے) ہمارے آنریری مبلغ میڈیسن صاحب نے ایک خط کے ذریعہ یہ اطلاع دی تھی (ایک خط تو میں نے جلسہ کے دنوں میں سنایا تھا وہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہے ایک اور خط میں انہوں نے لکھا) کہ اب پیپلز چرچ آف ڈنمارک کے اراکین بھی مسجد میں آتے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک ہو کر نماز پڑھتے ہیں وہ ابھی مسلمان تو نہیں ہوئے مگر اتنے قریب آ گئے ہیں (اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے اور وہ اسلام کو شناخت کر لیں) اس وقت عیسائیت تعصب کے انتہائی مظاہرے کرے گی کیونکہ وہ اسلام کے بڑھتے ہوئے غلبہ سے خائف ہو گئی ہے لیکن تعصب کے ان مظاہروں میں فتح اسی کو ہو گی جس کی فتح کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے دی۔ اسلام کا غلبہ مقدر ہو چکا ہے اس غلبہ کے ظہور کے لئے ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سی ذمہ داریاں عائد کی ہیں ان ذمہ داریوں کو نباہنا ہمارا کام ہے۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہر وقت اپنی زندگی کو معمور رکھیں اور اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے لمحات کو گزاریں اور دوسری بنیادی اور اصولی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر وہ قربانی جس کا وقت اور زمانہ ہم سے مطالبہ کرے ہم بشاشت کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور پیش کر دیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق دے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل مورخہ ۴؍ فروری ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭

مومنین کو تین محاذوں پر شیطانی حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲ ؍فروری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ کجی سے بچنے اور ہدایت پر قائم رہنے کیلئے جن تعلیمات کی ضرورت ہے وہ قرآن میں پائی جاتی ہیں۔
٭ ساری جماعت ایک دوسرے کی ممدومعاون اور ناصر بن کر ایک دوسرے کو لغزشوں سے بچائے۔
٭ عاجزی اور نیستی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارو۔
٭ اسلام پر سب سے زبردست حملہ عیسائیت کر رہی ہے۔ دوسرے نمبر پر دہریت ہے۔
٭ خلیفہ وقت کے ساتھ چمٹ جاؤتو تم نفاق کے حملوں سے بچ جاؤ گے۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ایک نہایت ہی لطیف اور نہایت ہی شاندار دعا ہمیں سکھائی ہے سورۃ فاتحہ کی شکل میں اور اس طرح ابتدا ہی میں ایک عظیم دعا سکھا کر ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ ایک مسلمان کی زندگی کا انحصار دعا اور صرف دعا پر ہی ہے اس کے بعد سورئہ بقرہ میں پہلے قرآن کریم کو ایک عظیم، ایک کامل، ایک مکمل کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے رکھا اور یہ اعلان کیا کہ یہ عظیم کتاب ہر قسم کے شکوک و شبہات اور نقائص سے مبرا اور پاک ہے اور اس کے بعد اُمت مسلمہ کو بیدار اور چوکس کیا یہ کہہ کر کہ تم کو ہر وقت تین محاذوں پر، تین فرنٹیرز پر ہوشیاری کے ساتھ شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور اس کے لئے تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
ایک محاذ جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا وہ اندرونی محاذ ہے تربیت کا محاذ تربیت کے محاذ کے دو پہلو ہیں۔ ایک تربیت یافتہ کو تربیت کے اعلیٰ مقام پر قائم رکھنے کی کوشش کرنا اور یہ کوشش کرنا کہ وہ مزید ترقیات روحانی راہوں پر کرتا چلا جائے۔ تربیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ جو اُمت مسلمہ میں نئے نئے شامل ہوں بیعت کرکے یا ولادت کے نتیجہ میں، ان کو اسلام کے رنگ میں صحیح طور پر رنگنا اور سچا مسلمان بنانے کی کوشش کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا کہ تقویٰ کے بلند مقام پر پہنچنے کے باوجود انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت رہتی ہے اور اس ضرورت کو یہ قرآن پورا کر رہا ہے۔ متقیوں کے لئے ہدایت کا سامان اس کے اندر پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو دعائیہ الفاظ میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا کہ ہدایت تیرے فضل سے ہمیں حاصل ہو جائے پھر بھی یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ ہمارے دلوں میں کسی قسم کی کجی نہ پیدا ہو جائے۔ پس ہم تیرے حضور عاجزانہ دعا کے ذریعہ جھکتے ہیں اور یہ التجا کرتے ہیں کہ جب ہمیں ہدایت حاصل ہو جائے، صراط مستقیم ہمیں مل جائے، ہمارے دل سیدھے ہو جائیں، تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کوئی کجی نہ پیدا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی خطرہ کی طرف بارہا متوجہ کیا ہے میں ایک مختصر سا اقتباس اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں آپ فرماتے ہیں:۔
’’بعض ایسے بھی ہیں کہ اوّل ان میں دل سوزی اور اخلاص بھی تھا مگر اب ان پر سخت قبض وارد ہے اور اخلاص کی سرگرمی اور مریدانہ محبت کی نورانیت باقی نہیں رہی بلکہ صرف بَلْعَمْ کی طرح مکاریاں باقی رہ گئی ہیں اور بوسیدہ دانت کی طرح اب بجز اس کے کسی کام کے نہیں کہ منہ سے اکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دئیے جائیں۔ وہ تھک گئے اور درماندہ ہو گئے اور نابکار دنیا نے اپنے دام تزویر کے نیچے انہیں دبا لیا۔ سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عنقریب مجھ سے کاٹ دئیے جائیں گے۔ بجز اس شخص کے کہ خداتعالیٰ کا فضل نئے سرے اس کا ہاتھ پکڑ لیوے۔ ایسے بھی بہت ہیں جن کو خداتعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے مجھے دیا ہے اور وہ میرے درخت وجود کی سر سبز شاخیں ہیں‘‘۔
(فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۴۰)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ہدایت پا لینے کے بعد اس وہم میں مبتلا ہو جانا کہ اب ہمارے لئے ابتلاء آ ہی نہیں سکتا اور شیطان کا ہم پر کامیاب وار ممکن ہی نہیں یہ غلط ہے متقی بن جانے کے بعد بھی انسان کو ہدایت کی ضرورت رہتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا کہ کجی سے بچنے اور ہدایت پر قائم رہنے کیلئے جن ہدایتوں کی، جن تعلیمات کی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں۔ پس ایسے مواقع کے لئے جو دعائیں قرآن کریم نے سکھائی ہیں جو طریق اس نے بتائے ہیں جو تعلیمیں اس نے دی ہیں ان سے فائدہ اُٹھائو اور دعائوں کے ذریعہ اور تدبیر کے ذریعہ یہ کوشش کرو کہ ہدایت پانے کے بعد پھر پائوں نہ پھسلے اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہونے کے بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ رضا کی ان جنتوں سے نکال دئے جائو۔
پس تربیت کا ایک محاذ تو یہ ہے ساری جماعت کو اس طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے ممد اور معاون اور ناصر بن کر ایک دوسرے کو لغزشوں سے بچائیں اور اس طرف متوجہ کرتے رہیں کہ دیکھنا کسی موقع پر بھی کبر اور نخوت اور غرور اور اباء اور استکبار تمہارے اندر نہ پیدا ہو جائے عاجزی کے ساتھ اور نیستی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارو یہ ایک پہلو ہے تربیت کا اور دوسرا پہلو جو ہے وہ نئے داخل ہونے والوں یا نئے پیدا ہونے والوں کا محاذ ہے جب ایک کام ایک لمبے زمانہ پر ممتد ہو تو ضروری ہوتا ہے کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل کی صحیح تربیت کی جاتی رہے تو دوسرا پہلو تربیت کا اطفال کی تربیت، نئے داخل ہونے والوں کی تربیت ہے (اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جائوں گا)
بہر حال ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ایک تو یہ فرمایا کہ ہدایت پا جانے کے بعد بھی تمہیں ہدایت پر قائم رہنے کے لئے ایک ہدایت کی ضرورت ہے اور وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے اشارۃً یہ فرمایا کہ قرآن کریم ہدایت کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے (دوسری جگہ بڑی وضاحت سے اسے بیان کیا ہے) اور اشارۃً بتایا گیا ہے کہ جو ہدایت یافتہ نہ ہوں بڑے ہوں، شعور رکھنے والے ہوں لیکن ابھی ان پر اسلام کی حقیقت واضح نہ ہوئی ہو یا بچپن سے بڑے ہو رہے ہوں اور ابھی اس قسم کا شعور ان میں پیدا نہ ہوا ہو جو بھی صورت ہو نئے سرے سے ہدایت دینے کے سامان قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور قرآن کریم نے بڑا زور دیا ہے کہ تربیت کے اس پہلو کو بھی ہمیشہ مدنظر رکھو اور اس میں کبھی غفلت سے کام نہ لو۔
دوسرا محاذ جہاں ہمیں چوکس رہنا چاہئے اور اس کی طرف سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے مضمون کے متعلق آیات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ (البقرۃ:۷) کہ ایک دوسری جماعت یا دوسرا گروہ وہ ہے (اس کامل کتاب کے نزول کے بعد) کہ جن کے دل اور دماغ اور روح کی کیفیت یہ ہے کہ تم انہیں انذاری پیشگوئیاں بتا کر انذار کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہو گا۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نبی کو محمد رسول اللہﷺ کی شکل میں دنیا کی طرف بھیج دیا ہے اور قیامت تک دنیا کی قسمت کو آپ کے پاک وجود کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور جو شخص آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا وہ اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی گھاٹے میں رہتا اور خسران پانے والا ہے تو جب تک ان کے ذہنوں کی یہ کیفیت رہے کہ تمہارا ڈرانا نہ ڈرانا ان کے لئے برابر ہی ہو تو اس وقت تک وہ ایمان کیسے لا سکتے ہیں اس لئے تم پر یہ فرض عائد کیا جاتا ہے کہ تم ان کے ذہنوں کی اس کیفیت کو بدلنے کی کوشش کرو اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں ہدایتیں دی ہیں ہمیں یہ کہا ہے کہ تمہارے دل میں ایسے لوگوں کے لئے رحم کا جذبہ اس شدت کا پیدا ہو جائے کہ تم ہر وقت ان کے لئے دعائیں کرتے رہو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں اس کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے ایک جہنم اپنے لئے پیدا کر رہے ہیں اے خدا! تو اپنے ان بندوں کو اس جہنم سے نجات دلا ان کی آنکھیں کھول ان کے دلوں کی اس کیفیت کو بدل دے۔
اس کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے بڑی تفصیل سے قرآن کریم نے ہدایتیں ہمیں دی ہیں۔ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ( النحل:۱۲۶) کہہ کے عملی نمونہ دکھائو وغیرہ وغیرہ سینکڑوں ہدایتیں ہمیں دی گئی ہیں اس محاذ پر بھی ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا چاہئے۔
اس وقت اسلام پر سب سے زبردست حملہ عیسائیت کر رہی ہے اور دوسرے نمبر پر دہریت یعنی وہ جو خدا کے وجود سے ہی انکار کر رہے ہیں عیسائیت کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ بیسویں صدی کے شروع میں ساری دنیا کو اس کے لئے جسے وہ خدا وند یسوع مسیح کہتے ہیں جیت لیں گے لیکن عین وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور ان کے اس وہم کو دور کر دیا لیکن ابھی طاغوتی طاقتوں کا سر جو اس شکل میں اور اس رنگ میں ظاہر ہوا تھا پوری طرح کچلا نہیں گیا اور ڈیسپریٹ (Desperate) ہو کر خائف ہو کر اسلام کے خلاف ہر جائز اور ناجائز طریق کو استعمال کرنے پر عیسائیت تل گئی ہے ایک مثال میں دیتا ہوں کہ کچھ عرصہ ہوا مغربی افریقہ سے یہ اطلاع ملی تھی کہ عیسائیوں کے ایک رسالہ میں یہ مضمون شائع ہوا ہے ایک بہت بڑے پادری کی طرف سے کہ جو طریق اس وقت تک ہم عیسائی بنانے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں وہ ناکام ہو گئے ہیں ہمیں سوچنا پڑے گا کہ نئے طریق اختیار کئے جائیں کیونکہ ایک لمبے عرصہ کے تجربہ نے ہم پر یہ ثابت کیا ہے کہ ان راہوں سے ہم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے اور اس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ عیسائیت میں مغربی افریقہ کے رہنے والوں کی روایات اور عادات کے مطابق تبدیلیاں کر دی جائیں یہ لوگ بت پرست ہیں، وہم پرست ہیں جادو اور ٹونے کے قائل ہیں کچھ اس قسم کے خیالات عیسائیت کے اندر لے آنے چاہئیں تاکہ یہ لوگ عیسائی ہوجائیں۔
ابھی دو ایک ہفتے ہوئے مشرقی افریقہ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں بھی پادریوں نے سر جوڑا ہے اور انہوں نے یہ بحث کی ہے کہ جن راہوں کو ہم کامیابی کی راہیں سمجھتے تھے وہ تو ناکامی کی طرف ہمیں لے گئی ہیں اور یہ لوگ عیسائیت کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے اس واسطے ان کے ذہن اور ان کی عادتوں اور ان کی روایتوں کے مطابق عیسائی اعتقادات میں تبدیلی کر دینی چاہئے تاکہ ان لوگوں کو ہم عیسائی بنا سکیں یعنی عیسائیت کا ان پر لیبل لگ جائے چاہے وہ پتھر کی پرستش کرنے والے ہوں چاہے وہ درخت کی پرستش کرنے والے ہوں چاہے وہ جادو اور ٹونے کی پرستش کرنے والے ہوں لیکن عیسائیت کے اندر یہ چیزیں لے آئو لیبل تو لگ جائے گا کہ عیسائی ہو گئے۔
تو جو مذہب اس قسم کے ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی طرف آ جائے اس کی حالت کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بہرحال اس وقت وہ اپنا پورا زور لگانے پر تلے ہوئے ہیں کہ ہر جائز اور ناجائز طریق سے اسلام کے خلاف عیسائیت کو کامیاب کریں دراصل ہماری زندگی کا جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا جائے اور سب سے بڑا حملہ عیسائیت کے محاذ سے ہو رہا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ نے باوجود انتہائی کمزور ہونے کے، باوجود انتہائی غریب ہونے کے، باوجود انتہائی بے کس ہونے کے،باجود انتہائی طور پر سیاسی اقتدار سے محروم ہونے کے یہ توفیق عطا کی اپنے فضل سے کہ ہم نے ایک بہت بڑا ریلا عیسائیت کا بیسویں صدی کے شروع میں روک دیا لیکن ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ وہ وقت آیا ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہمیں اپنی قربانیوں کی رفتار کو اب تیز کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہم کامیاب ہو گئے ہیں یا یہ کہ کامیابی ہمارے سامنے کھڑی ہے عنقریب ہم کامیاب ہو جائیں گے ابھی وہ وقت نہیں آیا اس کے لئے بہت زیادہ اور انتہائی قربانیاں ہمیں دینی پڑیں گی محمد رسول اللہﷺ کے لئے، اسلام کے اللہ کے لئے، جب دلوں کے جیتنے کا سوال ہو تو نصف یا چوتھائی دل جیتنے کا سوال نہیں ہوتا کہ دل آدھے تو شیطان کے رہیں اور نصف خدا کے لئے ہو جائیں سارا ہی دل جیتنا ہے اور سارے ہی دل کو اللہ تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالنا ہے عیسائیت کی طرح ہم یہ تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ اسلام کے اندر مداہنہ کرتے ہوئے کچھ نرمی کر دیں پورے کا پورا اسلام انہیں قبول کرنا ہو گا انشاء اللہ اور پورے کے پورے دل اور روح کے ساتھ اور پورے ذہن کے ساتھ ان کو اپنے اللہ کے حضور جھکنا پڑے گا۔ یہ ہماری زندگی، ہمارے قیام کا مقصد ہے جس کے لئے انتہائی قربانیاں ہمیں کرنی پڑیں گی۔ اللہ اس کی توفیق عطا کرے۔
تیسرا ایک اور محاذ ہے جس کا ذکر شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور پھر مختلف صورتوں میں کافی لمبی بحث بھی اس مسئلہ پر قرآن کریم نے کی ہے اور وہ ہے نفاق کا محاذ، سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی نفاق کے متعلق جب بحث ہوئی ہے تو بہت سی آیتوں میں زیادہ تفصیل سے بات کی گئی ہے کیونکہ نفاق ایک ایسی بیماری ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزا ملتی ہے اتنی بڑی سزا کسی اور گناہ کے نتیجہ میں نہیں ملتی۔ قرآن کریم نے کہا ہے ۔
اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (سورۃ النساء: ۱۴۶)
یعنی جو سزا خدا کے حضور منافق کے لئے مقدر ہے وہ مشرک کے لئے بھی مقدر نہیں، کافر کے لئے بھی مقدر نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کی ان آیات میں جو نفاق اور منافقوں کے متعلق ہیں بڑی تفصیل سے ان کی عادتوں اور طریقوں پر بحث کی ہے قرآن کریم نے دوسری جگہ ان آیات کے مضامین کو اور وضاحت کے ساتھ کھولا ہے ہمیں جس بنیادی چیز کی طرف متوجہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ منافق مصلح کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے یعنی اعلان یہ ہوتا ہے کہ میں جماعت میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جماعت میں فساد پیدا کیا جائے اس واسطے بہت ہی زیادہ ہشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اس کیلئے جو بنیادی تعلیم ہمیں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت یا امام وقت یا اگر رسول زندہ ہو تو رسول کے ساتھ چمٹ جائو۔ اس کے ساتھ لگے رہو تب تم نفاق کے حملوں سے بچ جائو گے۔ نبی اکرمﷺ پہلے مخاطب تھے قرآن کریم کے اور ابدی زندگی آپ کو عطا ہوئی تو سارا زور اس پر ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ چمٹو روحانی طور پر کیونکہ آپ قیامت تک کے لئے زندہ ہیں اس لئے حقیقت یہی ہے کہ اب بھی یہی حکم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ کے چمٹ جائو اور آپ کو اُسوہ بنائو منافق کے شر سے بچ جائو گے۔ محمد رسول اللہﷺ کے نائب اللہ تعالیٰ دنیا میں پیدا کرتا رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سب سے بڑے نائب اور آنحضرتﷺ کے سب سے زیادہ محبوب روحانی فرزند کی شکل میں دنیا کی طرف بھیجا اور پھر ایک سلسلہ خلافت دنیا میں قائم کیا۔ اصل چیز تو محمدﷺ ہیں اصلی زندگی تو محمد رسول اللہﷺ کی زندگی ہے نفاق اور کفر سے بچنے کا اصل ذریعہ تو محمد رسول اللہﷺ سے پیار اور محبت ہے اور پھر ان سے جن کے متعلق خود محمد رسول اللہﷺ نے کہا ہے کہ ان کی اطاعت کرو اور ان سے پیار کا تعلق قائم کرو۔
جو طریق منافق اختیار کرتا ہے اس پر قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً ایک طریق اس کا یہ بتایا ہے کہ وہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ ھُوَاُذُنٌ کہ یہ تو کان ہیں لوگ آتے ہیں کان بھر جاتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کے (نعوذ باللہ) اور غلط فیصلے ان سے ہو جاتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن اور پھر قیامت تک یہی ہوتا رہے گا۔ جو آپ کے عاجز اور ناچیز بندے آپ کے نام پر خداتعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے جاتے ہیں بطور نائب کے، بطور خادم کے، بطور پیار کرنے والے کے، بطور اس ذرئہ ناچیز کے جسے خداتعالیٰ اپنی دو انگلیوں میں لے اور اعلان کرے کہ اس ذرّہ کے ذریعہ میں اپنی قدرت کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں ان پر یہ اعتراض ہوتے رہیں گے ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے۔
تو یہ ایک بڑی واضح علامت اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے منافق کی، کہ کہتے ہیں کہ کان بھرنے والے کان بھر دیتے ہیں اور یہ فیصلہ کر دیتا ہے بغیر سوچے سمجھے حالانکہ جسے اللہ تعالیٰ اس مقام پر کھڑا کرتا ہے اسے فراست بھی عطا کرتا ہے اور وہ فراست بہرحال عام مومن کی فراست سے زیادہ ہی ہوتی ہے عام مومن کی فراست سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے۔ مومن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی فراست دی ہوتی ہے تو جو مقام ایک مومن کا بتایا گیا ہے تم وہ مقام بھی خلیفہ وقت کو دینے کے لئے تیار نہیں اور کہتے ہو ھُوَاُذُنٌ خلیفہ وقت کی کیا حیثیت ہے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں؟ جب تمہارے بڑوں نے محمد رسول اللہﷺ کو نہیں چھوڑا تو تم مجھ پر یا مجھ سے پہلوں پر یا بعد میں آنے والوں پر اس طرح پر اعتراض کرو تو کیا حقیقت ہے اس اعتراض کی!
اللہ تعالیٰ نے وہاں یہ نہیں جواب دیا کہ محمد رسول اللہﷺ اُذُنْ نہیں ہیں بلکہ ان کے اس قول کو صحیح تسلیم کیا ہے کہ ہاں اُذُنْ ہیں سنتے ہیں باتیں، مگر اس کے بعد جو فیصلہ کرتے ہیں وہ تمہاری خیر کا ہوتا ہے اور تمہارے لئے شر کا فیصلہ نہیں ہوتا اور سننا ضروری ہے کیونکہ ہر جگہ کی ہر قسم کی بات پہنچنی چاہئے ورنہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچا جا سکتا یعنی ہر جگہ سے بات کا کانوں تک پہنچنے سے منافق کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اس سے شر پیدا ہو گا یہ احمقانہ بات ہے کیونکہ خدا کا کوئی بندہ بغیر صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے کوئی کام نہیں کرتا اللہ تعالیٰ خود اس کی رہنمائی کرتا ہے اور صحیح نتیجہ پر وہ پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُذُنْ تو ہے لیکن اُذُنُ خَیْرٍلَّکُمْ تمہاری بھلائی کے لئے کان ہے جو فیصلہ کرے گا باتیں سننے کے بعد وہ تمہارے لئے بہتر ہو گا۔
پھر بدظنی کا مادہ بھی منافق میں ہوتا ہے کہہ دیتے ہیں کہ جی فلاں بات فلاں نے پہنچا دی۔ ابھی کل ہی مجھے ایک شخص نے کہا کہ کوئی شخص کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص نے مجھ سے بات سنی اور کسی اور کی طرف منسوب کرکے وہ بات خلیفۃ المسیح سے کہہ دی حالانکہ اس شخص نے ایک لفظ بھی اس کے متعلق نہ کہا تھا گھر بیٹھے بدظنی کر لی کہ بات کر دی ہو گی جاکے۔
لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص جو منافقانہ بات کرتا ہے ضروری نہیں کہ وہ پکا منافق ہو۔ منافقت کی ایک رگ ہے اس میں اس لئے کوشش کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی منافقانہ رگ کو دور کر دے۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بہت سے منافق طبع بھی تھے اور کمزور بھی تھے اپنے ایمانوں میں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اصلاح کا موقع دیا اور بعد میں وہ بڑے مخلص، قربانی دینے والے، ایثار کرنے والے بن گئے تو منافقانہ باتوں کو دیکھ کر صحیح نتیجہ جو ہمیں نکالنا چاہئے وہ یہ ہے۔
(۱) ہم اس قسم کی منافقانہ باتوں کے نتیجہ میں جماعت میں کمزوری نہیں پیدا ہونے دیں گے اور (۲)یہ کہ ہم دعا کے ذریعہ اور تدبیر کے ذریعہ سے اس قسم کے کمزور لوگوں کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

خدا کی نگاہ میں عزت پانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے اقوال پاک ہوں اور ہم اعمال صالح بجا لائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹ ؍فروری ۱۹۶۸ء بمقام نخلہ ۔تحصیل خوشاب )
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے کہ وہ اپنے ربّ کی صفات میں رنگین ہو۔
٭ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق رکھ کر ہی عزت کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تمہیں حقیقی عزت ملے۔
٭ تمہاری عزتوں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ خلافت کو قائم کیا ہے۔
٭ اگر تم خلافت کے مقابلہ میں کوئی بات کہتے ہو تو دنیا تمہیں آسمانوں کی عزتیں بھی عطا کر دے تو تب بھی تمہیں کوئی فائدہ نہیں۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ ودیعت کیا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو اور اس طرح اپنی پیدائش کے مقصد کو پورا کرے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عزیز بھی ہے جس کے معنی غالب کے بھی ہیں اورجس کے معنی یہ بھی ہیں کہ تمام عزتیں اسی کی ہیں۔ قرآن کریم نے اس پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے کہ تمام عزتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ خود بھی تمام عزتوں کا مالک ہے اور حقیقی عزت سوائے اس کی ذات کے کسی اور سے مل ہی نہیں سکتی۔ انسان کی فطرت میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ باعزت ہو اور باعزت رہے اور عزت نفس اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ لیکن انسانی فطرت میں یہ جذبہ بیج کے طور پر ہوتا ہے۔ مگر انسان اپنی عزت کے حصول اور اس کے قیام کے لئے بہت سی غلط راہوں کو بھی اختیار کر لیتا ہے ایسی راہیں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہوتی ہیں معزز نہیں ہوتیں۔ قرآن کریم نے ان غلط راہوں کا بھی ذکر کیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ اس طرح ان راہوں پر چل کر تم حقیقی عزت کو حاصل نہیں کر سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۂ نساء کی ۱۴۰ ویں آیت میں فرماتا ہے۔ پہلے یہ مضمون چلا آ رہا ہے کہ منافق مومنوں کو چھوڑ کے دنیا کی جھوٹی عزتوں کے لئے کافروں سے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (النساء:۱۴۰)
کیا اس طرح منافق دنیا میں اپنے لئے عزت کا سامان پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ حقیقی عزت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر قسم کی حقیقی عزتیں اسی کی ہیں اور اسی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ چونکہ ابتدائے اسلام میں غیر مسلموں کو سیاسی اقتدار اور طاقت حاصل تھی۔ ابھی اسلام کا غلبہ نہیں ہوا تھا اس لئے منافق جھوٹی عزتوں کی خاطر ان کی طرف جھکتے اور ان کا سہارا لیتے اور ان سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہاں منافقوں کو کہا کہ عزت اگر تم نے حاصل کرنی ہے تو یہ کافر تمہیں عزت نہیں دے سکیں گے تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔
فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (النساء: ۱۴۰)
حقیقی عزت تو اللہ تعالیٰ کی ہے اور اسی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا۔
وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (المنافقون :۹)
کہ عزت کے صحیح حقدار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ تعلق کو قائم رکھ کر عزت کو حاصل کیا جا سکتا ہے کافروں کی طرف مائل ہو کر ان کی طرف جھک کر ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے نتیجہ میں کسی قسم کی عزت حاصل نہیں کی جا سکتی۔
انسانی فطرت کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے منافق غلط راہ اختیار کرتے تھے کہ خدا اور رسول کی طرف جھکنے کی بجائے وہ کافروں کی طرف جھک جاتے تھے۔ اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کے ذکر میں سورئہ ھود کی آیت ۹۳ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ ان کے مخالف اور منکر کی نگاہ میں قبیلے کی طاقت اور عزت زیادہ تھی اللہ تعالیٰ کی عزت کے مقابلہ میں۔ حضرت شعیبؑ کو بھی انہیں کہنا پڑا اَرَھْطِیْ اَعَزُّ عَلَیْکُمْ مِنَ اللّٰہِ میرے قبیلے سے تم ڈرتے اور خوف کھاتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اگر تیرے قبیلہ کو ناراض کیا تو تمہاری بے عزتی ہو جائے گی۔ لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ اصل بے عزتی تو اس شخص کی ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔ اسی طرح سورئہ کہف کی ۳۵ ویں آیت میں فرمایا۔
’’اَنَا اَکْثَرُمِنْکَ مَالاً وَّاَعَزُّ نَفَرًا‘‘
ایک منکرِ خدا نے سمجھا کہ مال اور تعداد میں عزت ہوتی ہے اور کہا کہ میرا مال بھی زیادہ ہے اور ہمارے گروہ کی اور ہمارے قبیلے کی نفری اور تعداد بھی زیادہ ہے اس لئے میں زیادہ عزت والا ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے غضب نے اسے پکڑا اور اس کے مال کو تباہ کر دیا اور اس کی دنیوی عزت کو خاک میں ملا دیا۔
پس فطرت کے اس تقاضا کو پورا کرنے کے لئے مال کی طرف ایسے لوگ متوجہ ہوتے ہیں یا قبیلہ کی نفری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان پر فخر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو جب راہِ راست کی طرف خدا اور اس کا رسول بلاتے ہیں تو وہ سَمْعًا وَطَاعَۃً نہیں کہتے بلکہ دنیا کی عزتوں کی خاطر دنیا میں فساد پیدا کرتے اور کھیتی باڑی اور مخلوق کو ہلاک کرنے کی غرض سے ملک میں دوڑتے پھرتے ہیں اور اس طرح پر اپنی عزت کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے سرگودہا کے ایک بڑے زمیندار سے ایک دفعہ میں نے (دیر کی بات ہے۔ قبل از خلافت) تبلیغی بات کی تو وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے کیا مسئلہ سمجھائیں گے میں تو سارے مسئلے سمجھا ہوا ہوں۔ قادیان کے زمانے سے ہر جلسے پر حاضر ہوتا ہوں تقاریر کو سنتا ہوں اور کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو میں سمجھا ہوا نہیں ہوں۔ لیکن آپ یہ تو سوچیں کہ میں اپنے علاقہ کا بہت بڑا چوہدری ہوں ہم نے اپنی عزت اور چودھراپے کو قائم رکھنے کے لئے قتل بھی کروانے ہوئے چوریاں بھی کروانی ہوئیں اور ڈاکے بھی ڈلوانے ہوئے اور اغواء بھی کروانا ہوا۔ اگر میں احمدی ہو جائوں تو آپ کا انگوٹھا میری گردن پر ہو گا اور آپ کہیں گے کہ یہ حرکتیں بند کر دو تو میں جو علاقہ کا چوہدری ہوں میری عزت قائم نہیں رہے گی گویا اس کے نزدیک دنیا کی عزت کے قیام کیلئے فساد کا بپا کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ایسے شخص سے کہا جاتا ہے وَاِذَاقِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہ (البقرہ:۲۰۷) کی عزت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تمہیں حقیقی عزت ملے تو وہ اس بات کو سمجھتا نہیں۔ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ (البقرہ :۲۰۷) اپنی جھوٹی عزت کی پچ ایسے لوگوں کو گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے اور گناہ پر قائم رکھتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے شخص کی کوئی عزت نہیں۔ کیا وہ صاحب عزت ہو سکتا ہے جس کے لئے جہنم خدا نے تیار کیا ہو؟ فَحَسْبُہٗ جَھَنَّمُ جس کے لئے جہنم کافی ہے۔ جس نے جہنم میں پڑنا ہے وہ عزت اور فخر سے اپنا سر کیسے اونچا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے سورئہ دخان میں کہ دنیوی غلبہ اور دنیا کی مقبولیت پر گھمنڈ کرنے والے اور اپنی جھوٹی دنیوی عزت پر فخر کرنے والے کو ہمارے حکم سے فرشتے جہنم کے وسط تک گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور ان کے سروں پر ان کی اصلاح کے لئے گرم پانی ڈالا جائے گا اور ہم اسے کہیں گے ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمِ (الدخان: ۵۰)میرے غضب اور میری طرف سے نازل ہونے والی بے عزتی کو چکھ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ تو دنیا میں اپنے آپ کو غالب اور عزت والا اور قابل احترام سمجھا کرتا تھا اور عزت کے حصول کے لئے صحیح راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے تو نے غلط راہوں کو اختیار کیا تھا۔ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ آج میرے غضب کی جہنم اور ذلت کی جہنم کو چکھ اور یہ بدلہ ہے اس جھوٹی عزت کا جو دنیا میں تو نے اپنے لئے قائم کی تھی۔
پس انسان کی فطرت میں صاحب عزت اور قابل احترام بننے کا جذبہ تو یقینا ہے اور یہ جذبہ ہے بھی بہت اچھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ معزز بنے لیکن اس کی نگاہ میں کسی اور کی نگاہ میں نہیں اور غلط راہوں پر چلنے سے اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے قرآن کریم میں روکا ہے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ناک پر ان کی عزت رہتی ہے ذرا سی بات ہو جائے تو کہتے ہیں کہ بے عزتی ہو گئی بے عزتی ہو گئی۔ ایسا شخص بھی عزت کے حقیقی مفہوم کو نہیں سمجھتا اور نہ حقیقی مقام عزت کو اس نے حاصل کیا ہے کیونکہ کسی ایک کے کیا ساری دنیا کے گالیاں دینے سے بھی اس کی بے عزتی نہیں ہوتی جب تک خدا کے فرشتے بھی اس پر *** نہ کر رہے ہوں اور اگر وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں عزت دار ہے اور اگر خداتعالیٰ کے فرشتے اس پر درود بھیج رہے ہیں اور اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں تو ساری دنیا گالیاں دے کیا فرق پڑتا ہے؟ کجا یہ کہ کسی نے ذرا سی بات کی اور لڑنا شروع کر دیا گویا اپنے زور سے اس نے اپنے لئے عزت کا مقام حاصل کرنا ہے اپنے زور سے تو حقیقی عزت کا مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے مقابلے میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی فطرت مسخ شدہ ہوتی ہے ان کو اس بات کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت نفس عطا کی ہے اور ایک معزز زندگی ہمیں اس دنیا میں گذارنی چاہئے۔ اس معنی میں جس معنی میں خداتعالیٰ نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے یعنی خداتعالیٰ کی نگاہ میں عزت پانے کے لئے ہمیں ہر قسم کی قربانیاں ہر قسم کی فدائیت کے نمونے پیش کرنے چاہئیں تاکہ ہم اس کی نگاہ میں معزز ہو جائیں ایسی مسخ شدہ فطرت تو عزت کے معنی سے بھی ناآشنا ہوتی ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے اپنے نوکر کو خوب جوتیاں لگائیں اس نے کہا کہ جناب میرا استعفیٰ!!!! آج آپ مجھے جوتیاں مار رہے ہیں کل میری بے عزتی کر دیں گے میں تو یہاں نہیں رہتا یعنی جوتیاں کھانے سے بھی اس کی عزت میں کوئی فرق نہیں آیا گویا اسے پتہ نہیں کہ عزت کہتے کسے ہیں اور عزت نفس جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے وہ ہے کیا؟ اس قسم کے لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔
منافقوں کے متعلق بھی قرآن کریم کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی یا آپ کے خلفاء کی اطاعت سے باہر نکلتے ہیں فخر سے یہ کہتے ہوئے کہ ہم بڑے معزز ہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ خدا اور اس کے رسول کی پرواہ نہیں رسول کے خلفاء کی پرواہ نہیں امراء کی پرواہ نہیں، نظام جماعت کی بھی پرواہ نہیں تمہاری عزت پھر کیا رہ گئی؟ تمہاری عزت کو قائم کرنے کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کو بھیجا تھا۔ تمہاری عزتوں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خلافت کو قائم کیا تھا، تمہاری عزتوں کے محافظ بن کر نظام سلسلہ میں لوگوں کو پرویا تھا تاکہ ہر شخص ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھے۔ تمہارا فسوق کی راہ کو اختیار کرنا اور دعوے یہ کرنا کہ اس طرح ہم زیادہ معزز بن جائیں گے، ایک لغو اور غیر معقول بات ہے، اللہ تعالیٰ سورئہ فاطر میں فرماتا ہے۔
مَن کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًاط اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗط وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌط وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ (فاطر :۱۱)
اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ تمہیں اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی عزت ملے نیز یہ کہ عزت کا چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے عزت اگر مل سکتی ہے تو اس سے مل سکتی ہے اور پھر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت حاصل کرنے کے طریق کیا ہیں اور پھر یہ انذار کیا کہ اگر ان طریق کی بجائے، ان راہوں کی بجائے، تم دوسری کج راہوں کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت حاصل نہ کر سکو گے بلکہ ذلیل ہو جائو گے۔
مختصراً اس آیت کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے اپنی فطرت کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہر قسم کی عزت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور ہر قسم کی عزت کا حصول صرف اس سے تعلق رکھ کے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے۔
سوال پیدا ہوتا تھا کہ خدا کی نگاہ میں ہم کیسے عزت حاصل کریں۔ فرمایا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ نیک باتیں اس کی طرف جاتی ہیں۔ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کے معنی ہیں پاک باتیں ایسی باتیں جن میں جہالت نہ ہو اور ایسی باتیں جن میںفسق اور فجور نہ ہو۔ پس فرمایا کہ تمہارے اعتقادات اور تمہارے اقوال میں میری صفات کا نور ہونا چاہئے کیونکہ جہالت کے نتیجہ میں بھی وہ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ نہیں رہتے نہ اعتقاد نہ اقوال اسی طرح اگر فسق و فجور ہو تو وہ الْکَلِمُ الطَّیِّبُنہیں رہتے اس لئے ضروری ہے کہ اعتقادات صحیح ہوں اور انسان کی زبان پر صرف وہ باتیں آئیں جنہیں الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کہا جا سکے لغو باتیں نہ ہوں، گالی گلوچ نہ ہو، فتنہ کی بات نہ ہو، جہالت کی بات نہ ہو، نفاق کی بات نہ ہو، ریاء اور استکبار کی بات نہ ہو وغیرہ وغیرہ بہت سی باتیں ہیں جن سے اسلام نے روکا ہے اور اگر ہماری زبان ان سے نہ رکے تو جو ہماری زبان سے نکلے گا اس پر الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کا فقرہ چسپاں نہیں ہو سکے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدا کی نگاہ میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے منہ سے سوائے الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کے اور کوئی چیز نہیں نکلنی چاہئے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اس کے لغوی معنی یہ ہیں کہ وہ باتیں جن میں فسق نہ ہو اور ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ ایسی باتیں جو خلافت راشدہ کے خلاف کہی جاتی ہیں ان پر قرآن کریم فسق کے لفظ کا اطلاق کرتا ہے۔ اس آیت میں جس میں خلافت کا ذکر ہے فرمایا: ’’وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘ (النور :۵۶) کئی منافق یا نفاق کی آگ رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ’’سانوں کوئی پرواہ نئیں۔ اسیں نظام دے خلاف وی جو مرضی اے کہہ دئیے سانوں کوئی کج نہیں کہہ سکدا‘‘۔ ابھی دو تین مہینے ہوئے جامعہ احمدیہ کا ایک ایسا طالب علم جو قریباً فارغ ہو چکا ہے اس کے متعلق مجھے یہ رپورٹ ملی کہ وہ کہتا ہے کہ میں جو مرضی ہے کہتا رہوں مجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا آگے وجہ بھی اس نے احمقانہ بیان کی جس کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر تم خلافت کے مقابلے میں کوئی بات کہتے ہو تو دنیا تمہیں آسمانوں کی عزتیں بھی عطا کر دے تو تب بھی تمہیں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ خدا کی نگاہ میں تم فاسق بن گئے۔فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ میں شامل ہو گئے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں وضاحت سے فرمایا ہے کہ خالی منہ کی باتیں بھی کافی نہیں یعنی اگر تم نے خدا کی نگاہ میں عزت حاصل کرنی ہے اور حقیقی طور پر معزز بننا ہے تو محض الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کافی نہیں کیونکہ یہ تو صحیح ہے کہ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ کا صعود اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ بغیر سہارے کے الْکَلِمُ الطَّیِّبُ خدا تک نہیں پہنچتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتایا ہے کہ وہی الْکَلِمُ الطَّیِّبُ جن کو اعمال صالحہ کا سہارا ہے خداتعالیٰ تک پہنچتے ہیں (وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ)تو نیک اعتقاد، میٹھے اور معطر بول جو اعمال صالحہ کے سہارے بلند ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں جو عزت کا سرچشمہ ہے۔ زبان بھی خدا کی پسندیدہ اور جوارح بھی خدا کے مطیع ہوں تو پھر خدا کی نگاہ میں انسان عزت پاتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت بھی ایسے شخص کو بے عزت نہیں کر سکتی۔ جاہل دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کو ہر طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی کیا وہ ذلیل ہو گئے؟ کیا وہ ذلیل ہوا جس کو خدا نے پیار سے اپنی گود میں بٹھا لیا اور اپنی رضا کی جنت میں داخل کیا یا وہ ذلیل ہوا جس کو دنیا میں تو جوتے نہیں پڑے مگر اس کے ربّ نے اسے کہا ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ تو بڑا معزز اور مکرم بنا پھرتا تھا جا! ہماری جہنم میں داخل ہو اور اس جھوٹی عزت اور تکبر کا جس کی وجہ سے میرے پیاروں کو تو نے دکھ پہنچایا تھا آج نتیجہ دیکھ لے اور اس کی سزا کوپا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَیِّئَاتِ جو لوگ زبان بھی جہالت والی اور فسق و فجور والی رکھتے ہیں اور اعمال بھی ان کے اسی قسم کے ہیں لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌوہ میرے غضب کی جہنم میں، میرے قہر کے عذاب میں پڑنے والے ہیں۔ وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ اور ہمارا معاملہ ان دو گروہوں کے ساتھ ثابت کر دے گا جو لوگ میرے ان بندوں کے خلاف جنہیں میں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ تدبیریں کرتے اور زبان کو خنجر کی طرح چلاتے ہیں ان کا مکر ہی ہلاک ہوتا اور ناکام ہوتا ہے۔ عزت میرے بندے ہی پاتے ہیں کیونکہ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ۔ حقیقی عزت اسی کو ملتی ہے جسے اللہ تعالیٰ حقیقی عزت دینا چاہئے اور جسے اللہ تعالیٰ عزت نہ دینا چاہئے بلکہ ذلیل کرنا چاہے ساری دنیا مل کے بھی اسے نہ اس دنیا میں نہ اس دنیا میں حقیقی عزت عطا کر سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق عطا کرے کہ اس کی منشاء کے مطابق الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ بجا لاتے ہوئے حقیقی عزت اس کی نگاہ میں ہم پائیں اور خدا کرے کہ ہمیں یہ نہ سننا پڑے کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ۔
(روزنامہ الفضل مورخہ ۲۸؍ جون ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭
اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم انفاق فی سبیل اللہ میں ترقی کرتے چلے جائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶ ؍فروری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اگر تم اپنی قربانیوں میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی کامل نیکی کو حاصل کر سکو گے۔
٭ وصیت میں تو قربانی کے سات درجے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھے ہیں۔
٭ تقویٰ کے کسی ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حقیقی مومن اور متقی کو کھڑا رہنے نہیں دیتا۔
٭ صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ پورا کرنے کی طرف فوری توجہ کریں۔
٭ فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدہ جات جلد ادا کریں تا کہ کام جلد شروع کئے جا سکیں۔



تشہد، تعوذ، سورئہ فاتحہ اور آیت لَنْ تَنَا لُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران :۹۳) کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بار بار اور مختلف پیرایہ میں انفاق پر ابھارا ہے ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ۔ یہاں انسان کو اس طرف متوجہ کیا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی عطا میں سے ایک حصہ واپس مانگتا ہے اس وعدہ پر کہ وہ اس انفاق پر اور اس خرچ پر اپنی طرف سے ثواب دے گا چیز اسی کی ہے لیکن جہاں بے شمار فضل اور نعمتیں اس نے اپنے بندے پر کی ہیں وہاں اس نے یہ بھی فضل کیا کہ جو دیا اس میں سے کچھ واپس مانگا اور جن لوگوں نے اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے حضور اس کے دئیے ہوئے میں سے کچھ پیش کر دیا تو اس کے بدلہ میں اس نے ثواب بھی دیا۔
اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْکَافِرُوْنَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ کہ اس حقیقت کے باوجود وہ لوگ جو ہماری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور ناشکرے بن جاتے ہیں اور ہماری آواز پر لبیک نہیں کہتے اور ہمارے کہنے کے مطابق خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ حقیقتاً وہ اپنے نفسوں پر ہی ظلم کرنے والے ہیں۔ پس اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ جو کچھ تم سے مانگا جا رہا ہے وہ بھی تمہارا نہیں گھر سے تو کچھ نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی عطا میں سے کچھ مانگ کے تمہارے لئے مزید نعمتوں کے دروازے کھولنا چاہتا ہے اگر پھر بھی تم ناشکر گزار بندے بنے رہو تو بڑے ہی ظالم ہو۔ اپنے نفسوں پر بڑا ہی ظلم کرنے والے ہو۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَنْفِقُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کہ جس خرچ کا ہم مطالبہ کرتے ہیں جان مال دوسری سب وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ اس میں سے کچھ مجھے واپس لوٹائو تا کہ میرے ثواب کو حاصل کرو اور یہ خرچ فی سبیل اللہ ہونا چاہئے یعنی ان راہوں پر ہونا چاہئے جو راہیں اللہ تعالیٰ نے خود بتائی ہیں بعض دفعہ خرچ کی بعض راہیں انسان کی اپنے نفس سے محبت بتاتی ہے محبت نفس اسے کہتی ہے کہ یہاں خرچ کرو وہاں خرچ کرو اور آرام حاصل کرو دنیوی لذتوں میں سے کچھ حصہ پائو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خرچ کرو تو یہ مراد نہیں ہوتی کہ نفس کو بتائی ہوئی راہ پر خرچ کرو اور اس طرح بعض دفعہ خاندان خرچ کرواتا ہے بعض جاہل اور ناسمجھ لوگ خاندان کی جھوٹی عزت کی خاطر ناقابل برداشت قرض اٹھا لیتے ہیں اور برادری کو خوش کرنے کیلئے افراط کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خرچ کرو مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ اس چیز سے جو ہم نے تمہیں دی ہے تو ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اس راہ میں خرچ کرو جو تمہاری برادری تمہیں بتائے۔ اسی طرح خودی، تکبر، نمائش کا احساس خرچ کی بعض راہیں بتاتا ہے تو ان کے اوپر خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کا مطالبہ نہیں اس آیت میں یہ فرمایا کہ جب ہم کہتے ہیں خرچ کرو تو اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرو ان راہوں پر خرچ کرو جو ہم نے متعین کی ہیں اور جن کی نشان دہی ہم نے کی ہے۔
جو آیت شروع میں میں نے پڑھی تھی کہ لَنْ تَنَا لُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ اس میں ایک تیسرا مضمون بیان ہوا ہے اور اس میں ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جب قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تعلیم ایسی ہے کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں تدریجی ترقیات کی طرف اشارہ ہے اور اس کی وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ اگر تم اپنی قربانیوں میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جائو گے تو اللہ تعالیٰ کی کامل نیکی کو حاصل کر سکو گے اگر ایسا نہیں کرو گے تو نیکی کو تو حاصل کر لو گے۔ اللہ تعالیٰ ثواب تو تمہیں دے گا مگر یہ ثواب نچلے درجہ کا ہو گا کامل نیکی نہیں کہلائے گا۔ پس یہاں یہ فرمایا ہے کہ جس چیز سے تم محبت کرتے ہو اور جس کے چھوڑنے اور قربانی کرنے پر تم تکلیف محسوس کرتے ہو اس کو خرچ کرنے کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک شخص جو سالہاسال سے اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ جماعت کے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا چلا آ رہا ہے یہ خرچ اس کے بجٹ کا ایک حصہ بن گیا ہے اور یہ ایسی رقم نہیں رہی کہ جس کے خرچ پر اس کو یہ احساس ہوا کہ اگر میں یہ رقم خرچ نہ کرتا تو فلاں فلاں چیز خرید سکتا دنیوی فائدہ حاصل کرتا۔
تو مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں یہ اشارہ کیا کہ اس انفاق میں ترقی کرتے چلے جائو جب سولہویں حصہ کی عادت پڑ جائے تو پھر (اللہ تعالیٰ خود امام وقت کو سکھاتا ہے) تحریک جدید کا مطالبہ ہو جائے گا تاکہ تمہیں وہ مال جو تم خرچ کرو محبوب مال معلوم ہو اس کی عادت نہ پڑ چکی ہو بلکہ خرچ کرتے ہوئے تمہیں دکھ کا احساس ہو تم کہو کہ یہ مال میں خرچ کر رہا ہوں لیکن اس کے نتیجہ میں میری فلاں ضرورت پوری نہیں ہو گی اور یہ سوچو کہ فلاں ضرورت کیا اگر کوئی بھی ضرورت پوری نہ ہو اور میرا ربّ مجھ سے راضی ہو جائے تو میں خرچ کرتا چلا جائوں گا اس وقت تمہارا خرچ مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں سے ہو گا۔ پھر جب اس کی بھی عادت پڑ جائے گی وقف جدید کی تحریک شروع کر دی جائے گی جب اس کی عادت پڑ جائے گی فضل عمر فائونڈیشن سامنے آجائے گی اور اگر یہ بھی نہ ہو تو وصیت کی طرف انسان کی توجہ جائے گی کہ سولہواں حصہ تو میں دیتا چلا آیا ہوں اور سولہواں حصہ دینے سے مجھے یہ احساس نہیں باقی رہا کہ میں نے اپنے محبوب مال میں سے کچھ دیا ہے۔ کیونکہ اس انفاق کی تو مجھے عادت پڑ گئی ہے اس واسطے آئو اب وصیت کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس کی خوشنودی کو اس کے فضل کی جنتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کریں۔
پھر وصیت میں تو سات درجے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھے ہیں۔ جب دسویں حصے کی عادت پڑ جائے تو نواں حصہ دینا شروع کر دو جب نواں حصہ دینے کی عادت پڑ جائے تو آٹھواں حصہ دینا شروع کر دو جب آٹھواں حصہ دینے کی عادت پڑ جائے تو ساتواں حصہ دینا شروع کر دو تیسرے حصہ تک اسی طرح کرتے جائو۔ (اگر کسی وقت تمہیں یہ احساس ہو کہ جو تمہاری پہلی قربانیاں ہیں وہ طبیعت اور عادت کا ایک جزو بن گئی ہیں اور مِمَّا تُحِبُّوْنَ والی بات نہیں رہی) تو ہدایت کی راہوں پر آگے سے آگے لے جانے کا راستہ اس آیت میں دکھایا گیا ہے۔ لَنْ تَنَا لُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ اور اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ جب قرآن کریم کے شروع میں ہمیں بتایا گیا تھا ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے یہ کتاب اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ تو ایک مثال ہے بیسیوں مثالیں ایسی ہیں کہ تقویٰ کے کسی ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حقیقی مومن اور متقی کو کھڑا نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کے دل میں ایک جوش اور ایک جذبہ پیدا کرتا ہے کہ جب اس سے مزید ترقی کی راہیں کھلی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے مزید جلوے میں دیکھ سکتا ہوں تو کیوں میں یہاں کھڑا رہوں مجھے آگے بڑھنا چاہئے۔
مِمَّا تُحِبُّوْنَمیں ہر دو قسم کے مومن شامل ہیں ایک وہ جو اپنی فطرتی استعداد کے مطابق ایک جگہ ٹھہرنا پسند نہیں کرتے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرتا ہے اور نئی سے نئی راہیں ان پر کھولتا چلا جاتا ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جن کی اقتصادی حالت یا جن کی ایمانی حالت اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ فرائض کو ادا کرتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی بھی ان کی عادت کا ان کی فطرت کا ان کی طبیعت کا ایک جزو نہیں بنتی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں بھی ہم مِمَّا تُحِبُّوْنَ سے خرچ کرنے والوں میں شمار کر لیں گے یعنی ان لوگوں میں جو قربانی اور ایثار کے جذبے کو رکھتے ہوئے، اپنے مال کو یا دوسری اللہ تعالیٰ کی عطایا کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ تم اقتصادی حالات کی وجہ سے یا اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے ابھی تک سولہواں حصہ دینے میں بھی تکلیف محسوس کرتے ہو اور جو مال دیتے ہو اس کو چھوڑنے کے لئے تمہارا نفس بشاشت سے تیار نہیں ہوتا۔ اس حصہ مال کے ساتھ بھی تمہاری محبت بڑی شدید ہوتی ہے اس طرح تم سچی قربانی دے رہے ہو میری راہ میں اس لئے میں تمہیں ثواب دوں گا۔
ایسے لوگوں کو اور دوسروں کو بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا مالی سال ختم ہونے کو ہے قریباً اڑھائی ماہ رہ گئے ہیں اور اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ سال اس وقت تک صدر انجمن احمدیہ کی جو وصولی ہوئی تھی اس کے مقابلہ میں قریباً ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ زائد رقم وصول ہو چکی ہے۔ (اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں ہم اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو اس کی توفیق دی) لیکن جو بجٹ آپ نے شوریٰ میں پاس کیا تھا اس کے مقابلہ میں ابھی ڈیڑھ دو لاکھ کی کمی ہے اس کمی کو ہم نے ان اڑھائی ماہ میں پورا کرنا ہے جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس کی طرف فوری توجہ دیں اور کوشش کریں کہ جیسا کہ گذشتہ کئی سال سے ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے ہماری آمد بجٹ سے زیادہ ہو جائے کم نہ رہے گزشتہ سال بھی بجٹ سے کہیں بڑھ گئی تھی وصولی، اس سے پہلے سال بھی اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے جماعت کو بڑی مالی قربانیوں کی توفیق عطا کر رہا ہے اور دوسری قسم کی قربانیوں کی بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی حفاظت میں ہمیشہ رکھے گا اور شیطان کا کوئی وسوسہ ہمارے خلاف کامیاب نہ ہو گا۔
دوسری مالی قربانی جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ فضل عمر فائونڈیشن ہے۔ ۶۸۔۲۔۱۵ تک فضل عمر فائونڈیشن کے اندرون پاکستان کے وعدے ستائیس لاکھ انہتر ہزار چار سَو بائیس (۴۲۲،۶۹،۲۷ روپے) اور غیر ممالک کے وعدے آٹھ لاکھ اونانوے ہزار نو سَوپچاسی روپے (۹۸۵،۸۹،۸ روپے) یعنی قریباً نو لاکھ ہوا۔
فضل عمر فائونڈیشن کا دوسرا سال جون کے آخر میں ختم ہو رہا ہے۔ یکم جولائی کو تیسرا سال شروع ہو جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وعدوں میں اضافہ نہ ہو تو جون کے آخر تک اندرون پاکستان سے قریباً ساڑھے اٹھارہ لاکھ روپے کی رقم جمع ہو جانی چاہئے اور غیر ممالک (بیرون پاکستان) سے قریباً چھ لاکھ روپے کی رقم جمع ہو جانی چاہئے لیکن ساڑھے اٹھارہ لاکھ روپے کے مقابلہ میں اس وقت تک یعنی ۶۸۔۲۔۱۵ تک صرف بارہ لاکھ تیرہ ہزار نو سو چھیانوے (۹۹۶،۱۳،۱۲ روپے) کی وصولی ہوئی ہے اور بیرون پاکستان سے چھ لاکھ کی بجائے قریباً چار لاکھ کی وصولی ہوئی ہے وہاں سے دو لاکھ روپیہ اور وصول ہونا چاہئے جون کے آخر تک اور قریباً سوا چھ لاکھ روپیہ اندرون پاکستان میں وصول ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان کو یہ توفیق بخشی ہے (محض اپنے فضل سے) کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کا ایک لاکھ روپے کا وعدہ جو تھا اس کی دوسری قسط پوری کی پوری ادا ہو چکی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔
اسی طرح بڑی پھوپھی جان نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جو ہماری چھوٹی پھوپھی جان ہیں ان کی طرف سے بھی قسط کے مطابق اپنے حصہ رسدی ۳؍۲ کے مطابق وصول ہو چکی ہے۔ اسی طرح اور بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اپنے وعدے ادا کر دئے ہیں۔ لیکن دوسرے سال کے بجٹ میں سے یعنی ۹ لاکھ میں سے صرف تین لاکھ کچھ کی وصولی ہوئی ہے اور چھ لاکھ کی وصولی باقی ہے اس میں شک نہیں کہ جماعتیں اس عرصہ میں جو اڑھائی ماہ کا عرصہ باقی ہے صدر انجمن کے مالی سال کا، اس میں لازمی چندے صدر انجمن احمدیہ کے جو ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن جماعتوں کو یہ چاہئے کہ ان چندوں پر زور دینے کے علاوہ یہ بھی خیال رکھیں کہ جماعت کا مالی سال ختم ہونے کے بعد فضل عمر فائونڈیشن کے وعدوں کی وصولی کے لئے صرف دو ماہ باقی رہ جائیں گے اور ابھی چھ لاکھ روپیہ وصول ہونے والا ہے۔
تو ہم نے ایک پاک نفس کی محبت پر (مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت پر) مال کی محبت کو قربان کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس طرح مِمَّا تُحِبُّوْنَکے مطابق خرچ کرنے والوں میں شامل ہوئے تھے مگر اللہ تعالیٰ صرف وعدوں کو نہیں دیکھتا، صرف زبانی باتوں کے نتیجہ میں ہم اس کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ عمل صالح ہمارے اعتقاد اور ہمارے وعدوں اور ہمارے دعوؤں کی تصدیق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہمارے وعدوں اور نیک اقوال کو بلند نہ کرے تو اللہ تعالیٰ تک اس کی رضا کے حصول کے لئے وہی وعدہ، وہی دعویٰ پہنچ سکتا ہے جس کے پیچھے عمل بھی اس کی تصدیق کرنے والا ہو۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اس محبت پر داغ نہ لگائیں جو محبت حقیقتاً ان کے دلوں میں اپنے محبوب مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے ہے اور وقت کے اندر اندر دو تہائی نہیں بلکہ اس سے زیادہ رقوم فضل عمر فائونڈیشن کی مد میں جمع کروا دیں تا وہ کام جلد سے جلد شروع ہو سکیں جن کاموں کے لئے فضل عمر فائونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ۲تا۴)
٭…٭…٭

حقیقی نجات کیلئے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عرفان کا ہونا ضروری ہے

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳ ؍فروری ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ حقیقی نجات کے طالب بنیں اور اس راہ میں ہر قسم کے مجاہدات کرتے چلے جائیں۔
٭ نجات کا تعلق صرف اُخروی زندگی سے نہیں نجات اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے۔
٭ نجات کے حصول کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور محبت کو بتایا ہے۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت اور آپ کے ہر سکون کو نقل کرنے کی خواہش ہر وقت دل میں موجزن رہے۔
٭ انسان اپنی کسی طاقت، عمل، قربانی یا کسی ایثار سے نجات کو نہیں پاسکتا۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج میں دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ حقیقی نجات کے طالب بنیں اور اس راہ میں ہر قسم کے مجاہدات کرتے چلے جائیں۔ نجات کے معنی دنیا نے درست نہیں سمجھے۔ مثلاً عیسائی سمجھتے ہیں کہ گناہ کے مواخذہ سے بچ جانے کا نام نجات ہے اور اس غلط سمجھ کے نتیجہ میں وہ نجات کے لئے مسیح کے خون اور کفارہ کے عقیدہ کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ سب ان کی بھول ہے۔
نجات کے حقیقی معنی اس خوشحالی کے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں دائمی مسرت اور خوشی انسان کو حاصل ہوتی ہے اور جس کی بھوک اور پیاس انسانی فطرت میں پیدا کی گئی ہے۔ انسان طبعاً اور فطرتاً خوشحالی کا متلاشی ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال آپ کو اپنے ایک نئے نو مسلم جرمن بھائی کے ایک خط کی دیتا ہوں انہوں نے جب ہم فرینکفورٹ میں تھے اس وقت بیعت کی اور اسلام لائے کچھ عرصہ ہوا غالباً دو تین ہفتے ہوئے ان کا ایک خط مجھے ملا وہ خط بڑا پیارا ہے اس لئے کہ وہ فطرت انسانی کی آواز ہے اس خط میں انہوں نے لکھا کہ دنیا خوشحالی کی تلاش میں سرگردان پھرتی ہے اور انہیں حاصل نہیں ہوتی میں اسلام لایا تو اسلام کی حسین تعلیم کے نتیجہ میں میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مجھے ساری دنیا کی خوشیاں حاصل ہو گئی ہیں یعنی فطرتی آواز جس کو اسلام لانے سے قبل وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے تھے اسے انہوں نے سمجھا اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے اس کا دل اس تصور کی وجہ سے لبریز ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام لانے کی جو توفیق دی ہے اس کے نتیجہ میں فطرت کا یہ تقاضہ کہ مجھے خوشحالی ہر وقت نصیب رہے پورا ہو گیا اور یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔
انسان نے مال اور دولت اور مادی ترقی میں خوش حالی کی تلاش کی مادی لحاظ سے ترقیات تو اس نے بہت حاصل کر لیں، بڑے مالدار بھی ہو گئے لیکن خوشحالی اسے نصیب نہیں ہوئی۔ امریکہ ہے، روس ہے، یورپ کی اقوام ہیں مادی لحاظ سے وہ بڑی ترقی یافتہ ہیں بڑی امیر قومیں ہیں ہر قسم کی مادّی اور جسمانی سہولتیں انہیں حاصل ہیں ہم میں سے اکثر ان کا تصور بھی یہاں نہیں کر سکتے۔ لیکن پھر بھی ان کے دل خوش نہیں اور یہ احساس ان کے اندر پایا جاتا ہے کہ وہ مقصد جسے ہماری فطرت، جسے ہمارے نفس حاصل کرنا چاہتے تھے وہ ہمیں حاصل نہیں ہوا سیاسی اقتدار اور دنیا میں غلبہ حاصل کرنے کی بھی انسان نے کوشش کی اور اس میں اپنی خوشحالی کو سمجھا لیکن امریکہ ہی کو دیکھ لو سیاسی اقتدار اور غلبہ کے نتیجہ میں اس قوم نے خوش حالی تو کیا حاصل کرنی تھی ہزاروں کی تعداد میں اپنے بچوں کو دنیا کے مختلف خطوں میں مروا رہے ہیں اور جو چیزیں وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ انہیں حاصل نہیں ہو رہیں غرض انسان کی فطرت کے اندر خداتعالیٰ نے یہ رکھا ہے کہ وہ ایک ایسی خوش حالی حاصل کرے جس کے نتیجہ میں دائمی اور ابدی مسرتیں اور لذتیں اسے حاصل ہوں اس کیلئے اس نے ہمیں تعلیم بھی دی ہے اور اسلام کے ذریعہ ہم پر اس خوش حالی کی راہیں بھی کھولی ہیں۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ حقیقی خوشحالی جو دائمی مسرتوں کا موجب ہوتی ہے عرفان الٰہی کے بغیر ممکن نہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت ہی ہے جس کے نتیجہ میں ہمیشہ کی خوشیاں انسان کو مل جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا جب حقیقی علم انسان کو ہوتا ہے تو اس کے دو معنی کئے جاتے ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات کا اس پر ظہور ہوا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کا اس پر ظہور ہوا جس وقت اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات کا کسی انسان پر ظہور ہو تو اس کا دل اپنے ربّ کے خوف سے کانپ اٹھتا ہے اور یہ حقیقت اس پر آشکار اور نمایاں ہو جاتی ہے کہ خدا کا غضب ایک ایسی آگ ہے جو جلا کے رکھ دیتی ہے اس کے ساتھ ہی جب اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کا اس پر جلوہ ظاہر ہوتا ہے اور حسن کی تجلی اس پر ہوتی ہے تو اس کا دل اپنے ربّ کی محبت سے بھر جاتا ہے ان دو جلوؤں کے بعد وہ اپنے ربّ کو سچے معنی میں پہچاننے لگ جاتا ہے اور اپنے ربّ کی قدر جو اس کے دل میں ہونی چاہئے وہ پیدا ہو جاتی ہے ورنہ دوسروں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ مَاقَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ (الحج :۷۵) جنہوں نے اس کی ذات اس کے جلال اور جمال کا مشاہدہ نہیں کیا وہ اس کی قدر کو کیا جانیں۔ لیکن جب ایک مسلمان اپنے ربّ کی جلالی اور جمالی صفات کا اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہے اور اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے اور اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ اس قادر و توانا کی ناراضگی ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کی جا سکتی تو تمام گناہوں سے نجات پا جاتا ہے ہر اس چیز کے کرنے سے اس کی روح اور اس کا جسم کانپ اٹھتا ہے جس کے کرنے کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں تم سے ناراض ہو جائوں گا غرض ایک ہی جلوہ جلالی صفات کا جب ظاہر ہوتا ہے تو ہر قسم کے گناہوں سے نجات دلاتا ہے بشرطیکہ معرفت کامل اور حقیقی ہو اورادھوری نہ ہو اور جب اللہ تعالیٰ کے حسن کو انسان دیکھتا ہے تو اس کی محبت سے دل لبریز ہو جاتا ہے اور اس محبت الٰہی کے سمندر میں وہ غرق ہو جاتا ہے اور محبت کی آگ جسمانی خواہشات کو جلا کر رکھ دیتی ہے وہ ہر ممکن کوشش (اپنی فکر اور تدبر اور اپنے عمل سے) کرتا ہے کہ اپنے اس محبوب اور مطلوب کو اور اس کی رضا کو حاصل کر لے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حقیقی لذت اور سرور خداتعالیٰ کی محبت ہی میں ہے۔ تب وہ نجات پاتا ہے کیونکہ تب اسے حقیقی اور سچی خوشحالی نصیب ہوتی ہے اور اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو ایک لگن لگائی ہے کہ اس کا تعلق پختہ طور پر اس کے پیدا کرنے والے کے ساتھ قائم ہو جائے وہ مقصد اس کو حاصل ہو جاتا ہے۔ پس حقیقی نجات کیلئے معرفت اور عرفان کا ہونا ضروری ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کی معرفت اور اس کے جلال اور جمال کے جلوے انسان کو حاصل ہو جاتے ہیں تو وہ گناہ سے زیادہ ڈرنے لگتا ہے جتنا اس پیالہ سے جس کے متعلق اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کے اندر مہلک زہر گھلا ہوا ہے وہ اس کے قریب نہیں جاتا وہ اس سے ایک قطرہ بھی پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس طرح ہر اس چیز سے انسان بچتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ پایا جاتا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے گناہ سے کلی نجات اسے حاصل ہو جاتی ہے۔
اور جب وہ اپنے ربّ کا پیار دیکھتا ہے وہ پیار جو اسے اپنی ماں اور باپ سے بھی نہیں ملا تھا اور وہ پیار جو دنیا کا کوئی پیار کرنے والا شخص یا اشخاص اسے نہیں دے سکتے تو بس وہ اسی پر فدا ہو جاتا ہے اور اس کی اپنی کوئی مرضی باقی نہیں رہتی وہ اس دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاتا ہے غرض نجات کا تعلق صرف اُخروی زندگی کے ساتھ نہیں، نجات اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے اور اُخروی زندگی میں بھی کسی وقت ختم نہیں ہوتی یعنی اس کی ابتدا تو ہے مگر اس کی انتہا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک ابدی زندگی اپنے بندوں کے لئے اس دنیا میں مقدر کی ہوئی ہے پس یہ سمجھنا کہ نجات ہمیں دوسری دنیا میں مل جائے گی لیکن اس دنیا میں اس کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوں گے یہ حماقت ہے اسی دنیا میں انسان نجات حاصل کرتا ہے اس دنیا میں وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو کچھ اس طرح سے پہچان لیا ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کو ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا اور کچھ اس طرح اس نے اس کی معرفت حاصل کر لی ہے اس کے جمال اور اس کے حسن کو دیکھ لیا ہے کہ وہ اپنی ہر چیز بلکہ اپنے نفس کو بھی اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہے اور اسی میں اس کی ساری لذت ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک ذاتی محبت اور پیار اس پاک اور اعلیٰ اور عظیم ہستی کے ساتھ اسے ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد وہ اس محبت میں ہی اپنی جنت کو پاتا ہے کسی انعام اور ثواب کا خواہش مند نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں ہر قسم کی تلخیاں اس محبوب کے لئے برداشت کرنے کیلئے تیار رہتا ہے اور اس دنیا میں یعنی اُخروی دنیا میں بھی کسی اور ثواب کی وہ خواہش نہیں رکھتے سوائے اس ثواب کے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے جلوے ہرآن اس پر جلوہ گر ہوتے رہیں غرض نجات اس دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اس نجات کے حصول کیلئے انتہائی قربانیاں اور انتہائی مجاہدات کرنے ہمارے لئے ضروری ہیں اور ہمارے ہی فائدہ کے لئے ہیں اس نجات کے حصول کے لئے کسی اور کے خون یا کسی اور کو صلیب پر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔
اپنے نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:۔
’’نہ کوئی خون تمہیں فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ سوائے اس خون کے جو یقین کی غذا سے خود تمہارے اندر پیدا ہو‘‘۔
اور حقیقت یہ ہے کہ جب یہ خون ہمارے اندر پیدا ہو جائے اور عرفان کو ہم حاصل کر لیں تو پھر عصیان ہمارے دل کے اندر داخل نہیں ہو سکتا سب گند دور ہو جاتے ہیں سب خوشیاں حاصل ہو جاتی ہیں سب پاکیزگیاں اس گھر کا حصہ بن جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور نعمتوں کے جلوے انسان اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہے۔
پس نجات کے لئے معرفت کا حصول ضروری ہے اور معرفت کے حصول کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرمﷺ کی کامل اتباع اور محبت کو بتایا ہے پس نبی اکرمﷺ کے ساتھ اس قسم کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو کہ آپ کی ہر حرکت اور آپ کے ہر سکون کو نقل کرنے کی خواہش ہر وقت دل میں موجزن رہے یعنی اتباع اسوئہ نبی اکرمﷺ کے لئے دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کے لئے انسان تیار ہو جائے نبی اکرمﷺ کا ایک فرمان یہ بھی ہے (گو ہم نے حضورﷺ کے سارے ہی احکام کی اتباع کرنی ہے) کہ
’’مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ فَقَدْ مَاتَ مِیْتَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ ‘‘
دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کی اطاعت ہمارے لئے ضروری ہے۔ اگر کسی سے رشتۂ محبت قائم رکھنا ہم پر واجب ہے تو صرف اس لئے صرف اس لئے کہ نبی کریمﷺ نے اس کا حکم دیا ہے نبی اکرمﷺ نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے اس فرزند جلیل کا ذکر فرمایا جو اس آخری زمانہ میں دنیا کی طرف مبعوث ہونے والا تھا آپ کے اس محبت کے اظہار کی وجہ سے ہمارے دل بھی اس عظیم فرزند کے لئے محبت کے جذبات پاتے ہیں اور بڑے شدید جذبات پاتے ہیں اس لئے کہ نبی اکرمﷺ کے دل میں بھی اپنے اس فرزند کے لئے ہم عظیم محبت کے جذبات دیکھتے ہیں۔
پھر نبی کریمﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے خلفاء کی سنت کی بھی اتباع کرو اس لئے ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم آپؐ کی محبت سے مجبور ہو کر آپ کے فرمان کے مطابق آپ کے خلفاء سے تعلق رکھیں اور ان سے محبت کا رشتہ قائم کریں اور ان کی سنت کی بھی اتباع کرنے کی کوشش کریں ورنہ اندھیروں کی موت ہمارے نصیب میں ہو گی اور جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اندھیرے میں ہے اسے اپنی فکر کرنی چاہئے۔
اصل بات یہ ہے کہ نجات کے حصول کا ذریعہ قرآن کریم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ساتھ انتہائی محبت رکھنا بتایا ہے اگر ہم اس دنیا میں نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ موقوف ہے کامل معرفت پر اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ معرفت (کامل معرفت جو انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف اور اس کے لئے حقیقی محبت کو قائم کرتی اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرتی ہے) تم حاصل نہیں کر سکتے جب تک ایک نمونہ جو کامل اور مکمل اور اعلیٰ ہے تمہارے سامنے نہ رکھا جائے وہ نمونہ محمد رسول اللہﷺ کی ذات میں تمہارے سامنے رکھا گیا ہے اس نمونہ کو سامنے رکھو اس کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو اور کسی صورت میں بھی اس کی اتباع سے باہر نہ نکلو جو وہ کہتا ہے وہ کرو جس رنگ میں وہ عبادت بجا لانے کے طریق بتاتا ہے اور جس طور پر وہ مخلوق کے ساتھ ہمدردی یا حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے اس پر عمل کرو ہر چھوٹی اور بڑی بات میں بہرحال تم نے نبی کریمﷺ کی کامل اتباع کرنی ہے۔
پس ایک احمدی کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس خوش حالی کو حاصل کریں جس کے نتیجہ میں دائمی مسرت اور دائمی خوشیاں ملتی ہیں اور جس کی بھوک اور پیاس اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت کو لگا دی ہے اور جس کے لئے عرفان کا حصول ضروری ہے ایسی معرفت جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات (جلالی بھی اور جمالی بھی) انسان پر جلوہ گر ہوتی ہیں جس کے بعد انسان کا دل خداتعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے یہ خوف کہ کہیں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے کیونکہ ہم اس کی ناراضگی کو برداشت نہیں کر سکتے اور جس کے نتیجہ میں ہمارا دل اس کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ وہ محبت جو ہر غیر سے ہمیں بے نیاز کر دیتی ہے غیراللہ کے ساتھ محبت یا ان کے ساتھ کوئی لگائو باقی نہیں چھوڑتی اپنا نفس بھی انسان بھول جاتا ہے تمام انسانی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے رضا کے حصول کی تڑپ ہوتی ہے جو اس کی جان اور اس کی روح بن جاتی ہے اور ذاتی محبت اللہ تعالیٰ کے لئے انسان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم کہتا ہے کہ نجات اگر تم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ محمد رسول ﷺ (جو کامل اور مکمل اُسوہ ہیں) کی اتباع کرو اور آپؐ کے لئے حقیقی اور سچی محبت اپنے دل میں پیدا کرو تب خداتعالیٰ کی محبت پائو گے اس کے بغیر نہیں پا سکتے پس ہمیں نجات کے حصول کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا چاہئے اور اس راہ میں ہر قسم کی قربانیاں اور مجاہدات کرتے چلے جانا چاہئے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے کہ ہر خیر اس کے فضل پر منحصر ہے انسان اپنی کسی طاقت یا اپنے کسی عمل یا اپنی کسی قربانی یا کسی ایثار سے خداتعالیٰ کی محبت کو حاصل نہیں کر سکتا نجات کو نہیں پا سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہم پر نازل ہو اور وہ تھوڑے کو بہت سمجھ لے وہ حقیر کو اعلیٰ سمجھ لے وہ ایک ذرّہ ناچیز کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان پکڑ لے اور اس ذرہ ناچیز کے ذریعہ اپنی قدرت نمائی کے سامان پیدا کر دے وہ جو سب قدرتوں والا ہے وہ جو تمام فضلوں اور برکتوں والا ہے وہ اپنے بندے پر فضل اور رحمت اور برکت کی بارش نازل کرنا شروع کر دے۔
نجات اسی کے فضل پر منحصر ہے اور اسی کے حصول کو جذب کرنے کے لئے محمد رسول اللہﷺ کی اتباع اور آپ کی محبت کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا کرے اور ہمارے لئے عرفان کی راہوں کو ہمیشہ کھولتا چلا جائے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ۳؍ مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

تقویٰ کسی ایک عملِ صالح کا نام نہیں بلکہ تمام
اعمال و اقوال کی کیفیت کا نام ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم میں تقویٰ اختیار کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔
٭ جو شخص تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کرے گا اُس کے اعمال قبولیت کا درجہ حاصل کریں گے۔
٭ انسان اپنی کوشش اور جدوجہد سے تقویٰ کی باریک راہوں پر مضبوطی سے قدم نہیں مار سکتا۔
٭ تقویٰ ہر حکم الٰہی کی بجا آوری میں بشاشت پیدا کرتا ہے۔
٭ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرو۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
قرآن کریم میں جس قدر زور تقویٰ اختیار کرنے پر دیا گیا ہے اتنا کسی اور حکم کے متعلق نہیں دیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ تقویٰ کسی ایک نیک بات یا پاک اعتقاد یا صالح عمل کا نام نہیں بلکہ تمام اعمال کی کیفیت کا نام ہے، تمام نیک اقوال کی کیفیت کا نام ہے، تمام پاکیزہ اعتقادات جو رکھے جاتے ہیں ان کی کیفیت کا نام ہے اس کا تعلق ہر قول اور ہر اعتقاد اور ہر فعل کے ساتھ ہے جو صالح ہو نیک اور پاک ہو شروع میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں ہمیں بڑے زور کے ساتھ اس طرف متوجہ کیا یہ بیان کرنے کے بعد کہ الکتاب تم پر نازل کی جا رہی ہے۔ جس کے اندر کوئی ریب (شک) راہ نہیں پا سکتا۔
ایک کامل اور مکمل ہدایت نامہ جس کے بغیر ہم حقیقی معنی میں نہ دنیوی ارتقائی منازل طے کر سکتے ہیں نہ روحانی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔ الْکِتٰبُ اور لَارَیْبَ فِیْہِ اس کی صفات ہیں لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ایک ہدایت نامہ نہایت حسین تعلیم ایک ایسی شریعت جو زمین کی پستیوں سے اُٹھا کر آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچانے والی ہے تمہارے ہاتھ میں دی جا رہی ہے لیکن یہ نہ بھولنا کہ یہ شریعت صرف ان لوگوں کو کامیابی تک پہنچانے والی ہے جو مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کو اختیار کرتے ہیں اگر کوئی شخص بڑی نمازیں پڑھنے والا ہو، اگر کوئی شخص بظاہر اپنے مال کو مستحقین میں بڑا ہی خرچ کرنے والا ہو، اگر کسی شخص (کی) زبان نہایت ہی میٹھی ہو، اگر کوئی بظاہر انتہائی ہمدردی اور خیر خواہی کرنے والا ہو لیکن اگر اس کے یہ اعمال تقویٰ کی بنیادوں پر قائم نہیں کئے جاتے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قبول نہیں ہو سکتے۔ اس لئے باوجود اس کے کہ مکمل ہدایت نامہ ہے پوری طرح اس پر عمل کرکے بھی اگر تقویٰ سے خالی ہو کامیابی کو تم نہیں پا سکتے کامیابی کو وہی پائیں گے جو تقویٰ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اسلامی احکام کی پابندی کریں گے۔
دوسری جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدہ :۲۸)جو شخص تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کرے گا اس کے اعمال قبولیت کا درجہ حاصل کریں گے ورنہ وہ ردّ کر دئیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان پر کسی ثواب کا فیصلہ نہیں کرے گا تو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہی لوگ اس ہدایت سے فائدہ اٹھائیں گے اور اٹھانے والے ہوں گے جو اتقاء کی صفت میں استحکام اختیار کریں گے جن کا تقویٰ بڑی مضبوط بنیادوں کے اوپر قائم ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو قبول نہیں کرے گا۔ تقویٰ بھی جیسا کہ ہر دوسری چیز) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے جیسا کہ سورئہ فتح :۲۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی کے تقویٰ کے طریق پر ان کے قدم کو خود اس نے مضبوط کر دیا ہے۔ انسان اپنی کوشش سے اور اپنی جدوجہد سے تقویٰ کی راہوں پر مضبوطی سے قدم نہیں مار سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقویٰ کے یہ معنی کئے ہیں۔ آپ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم (روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۱۰) میں فرماتے ہیں:۔
’’اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوئوں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے‘‘۔
قرآن کریم نے تقویٰ کے اس معنی کو مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکْفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔(الحجرات :۸) یہاں بھی تقویٰ کے معنی ایک نہایت حسین پیرایہ میں بیان کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ایمان کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کی وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ اور تمہارے دلوں کو اس نے اپنے فضل سے اس حقیقت تک پہنچا دیا کہ حقیقی روحانی خوبصورتی تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں اور نہ روحانی بدصورتی سے تقویٰ کے بغیر بچا جا سکتا ہے۔
تو ایک طرف تقویٰ ہر حکم الٰہی کی بجا آوری میں بشاشت پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف ہر اس چیز سے نفرت پیدا کرتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکالنے والی اور اس کی ناراضگی کو مول لینے والی ہو۔ یہاں تقویٰ کے متعلق ہی ایک لطیف مضمون بیان ہوا ہے جس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جائوں گا بہرحال یہ اشارہ کافی ہے۔ اسی وجہ سے سورئہ ’’بقرہ‘‘ کے شروع میں ہی فرمایا تھا ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اور سورہ بقرہ میں ایک دوسری جگہ آگے جا کے آیت ۱۹۰ میں یہ فرمایا وَلٰکِنَّ الْبَِّر مَنِ اتَّقٰی…وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ کی تمام راہوں کو اختیار کرتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ الْبِرَّ کامل نیک وہ شخص نہیں جو اپنے اوقات کو نمازوں میں زیادہ خرچ کرتا ہے اپنے اموال کو خدا کی مخلوق کی محبت میں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے یا حج کرتا ہے یا رمضان کے روزے رکھتا ہے بلکہ کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ کی راہوں کا خیال رکھتا ہے جو شخص تقویٰ کی راہوں کا خیال رکھتا ہے باقی اعمال صالحہ یا اقوال پاکیزہ جو ہیں وہ اسی طرح اس سے نکلتے ہیں جس طرح ایک جڑ سے کسی درخت کی شاخیں نکلتی ہیں جس کی مثال دی گئی ہے تقویٰ کے سلسلہ میں ہی اور اس کے متعلق آگے جا کر میں کچھ بیان کروں گا۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کامل نیک (الْبِرَّ) وہ ہے جو تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہے اور فرمایا وَاتَّقُوْا اللّٰہَ کہ بنیادی حکم تمہیں یہ دیا جاتا ہے کہ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو تمام نیکیاں بھی بجا لائو گے اور تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ ایسی کامیابی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں، تقویٰ کے بغیر تم نہیں پا سکتے۔
حقیقت یہی ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایام الصلح (روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۴۲) میں فرمایا ہے ۔
’’تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے‘‘۔
اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ جب تک انسان تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہ کرے روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی وہی مضمون ہے جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں بیان کیا گیا ہے کہ تقویٰ کے بغیر روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا حالانکہ قرآن کریم تو وہاں موجود ہے جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے۔
اس مضمون کو کے تقویٰ کا تعلق تمام ہی نیکیوں سے ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ ہر ایک… قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۴۲) تقویٰ ایک ایسا قلعہ ہے کہ جب اس کے اندر نیک اقوال اور صالح اعمال داخل ہو جائیں تو وہ شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی عمل بظاہر کتنا ہی پاکیزہ اور صالح کیوں نظر نہ آتا ہو اگر وہ اس قلعہ میں داخل نہیں تو شیطان کی زد میں ہے، کسی وقت وہ اس پر کامیاب حملہ کر سکتا ہے کیونکہ اگر تقویٰ نہیں تو کبر پیدا ہو سکتا ہے، ریاء پیدا ہو سکتا ہے، عجب پیدا ہو سکتا ہے اگر تقویٰ ہے تو ان میں سے کوئی بدی پیدا نہیں ہو سکتی یعنی شیطان کامیاب وار نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ابھی جو فقرہ میں نے پڑھا ہے وہ معنوی لحاظ سے اسی کا ترجمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ دخان :۵۲ میں فرماتا ہے اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍکہ متقی یقیناایک امن والے اور محفوظ مقام میں ہیں تو یہی وہ حصن حصین ہے۔ یہی ’’امین‘‘ کے معنی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے ہیں کہ محفوظ اور امن میں وہی ہے جو تقویٰ پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے جو تقویٰ پر قائم نہیں وہ امن میں نہیں وہ خطرہ میں ہے وہ حفاظت میں نہیں خوف کی حالت میں ہے اور ایسا شخص مقام امین میں نہیں ہے بلکہ اس مقام پر ہے جسے دوسرے لفظوں میں جہنم کہا جاتا ہے۔ پس قرآن کریم نے ہی تقویٰ کے معنوں کو بیان کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے حصن حصین کا تخیل پیش کیا ہے کہ سوائے تقویٰ کی راہوں پر چل کر کوئی شخص امن میں نہیں رہ سکتا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اس مضبوط قلعہ میں داخلہ ہونے کا سوائے تقویٰ کے دروازے کے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
ہر نیکی خواہ وہ قولی ہو یا فعلی وہ تقویٰ کی جڑ سے نکلتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو سینکڑوں احکام دئیے ہیں جب ہم ان پر عمل کرتے ہیں اور اس رنگ میں عمل کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنیں اور اللہ تعالیٰ کی جنت کے درختوں کی شاخیں ہو جائیں اور ان درختوں کے لئے پانی کا کام دیں تو یہ اسی وقت ہوتا ہے جب یہ شاخیں تقویٰ کی جڑ سے نکلیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام اقوال دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ تخیل پیش کیا کہ ع
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
یہ قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر ہے اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِo لا تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍم بِاِذْنِ رَبِّھَالا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ۔ (ابراھیم:۲۵،۲۶) یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ایک کلام پاک (یعنی قرآن کریم) کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ یعنی وہ ایسا (کَلِمَۃً طَیِّبَۃً )ہے جس کی مثال ایک پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ متقی بناتا اور تقویٰ کی راہوں پر ثبات قدم عطا کرتا ہے اور اس طرح اس کی جڑ مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے۔ پھر اس سے شاخیں پھوٹتی ہیں جو اعتقادات صحیحہ ہیں یعنی انسان کے اعتقادات شاخوں کی شکل اختیار کرتے ہیں (تمثیلی زبان میں) جو اوا مرونواہی پر مشتمل ہے اور یہ وہ درخت ہے جس کی ہر شاخ آسمان پر جانے والی ہے اعمال صالحہ کے پانی سے پرورش پانے کی وجہ سے یعنی کوئی بدی والا حصہ اس کے اندر نہیں ہر شاخ جو ہے وہ صحت مند اور نشونما پانے والی ہے اور آسمانوں تک پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ جب تقویٰ کی جڑ مضبوط ہو اور اس جڑ سے نیکی کی اور پاکیزگی کی اور صلاح کی شاخیں نکلیں تو وہ شاخیں نہ صرف یہ کہ خداتعالیٰ کے قرب کو حاصل کرتی ہیں اور روحانی بلندیوں تک پہنچتی ہیں بلکہ اس دنیا میں بھی (اُخروی زندگی میں تو ہو گا یہی) ان شاخوں کو تازہ بتازہ پھل لگتا رہتا ہے جس سے انسان فائدہ حاصل کرتا ہے یعنی اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء انسان کو حاصل ہو جاتی ہے اور روح کو ہر لحظہ ایک لذت اور سرور حاصل ہوتا رہتا ہے ان پھلوں کے کھانے سے جن کا کھانا روحانی طور پر ہے لیکن جب تک وہ پھل نہ ملیں وہ خوش حالی حاصل نہیں ہو سکتی، وہ لذت اور سرور حاصل نہیں ہو سکتا وہ پھل مل نہیں سکتے جب تک اعتقادات جو ہیں وہ صحیح نہ ہوں اور اعمال صالحہ ان کو سیراب نہ کریں اور تقویٰ کی جڑ سے نکل کر آسمانوں تک نہ پہنچیں۔ اسی صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ہمارے کسی فعل کو قبول کر لینا ہی اس کا پھل ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انسان کو اس کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
پس ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے۔ جو شخص تقویٰ کی جڑ تو نہیں رکھتا لیکن بظاہر ہزار قسم کی نیکیاں بجا لاتا ہے اسے فائدہ ہی کیا کیونکہ اس سے وہ شاخیں نہیں پھوٹ سکتیں جو خدائے رحمن تک پہنچتی ہیں نہ وہ پھل لگ سکتے ہیں جو پھل کہ دوسری صورت میں ان شاخوں کو لگا کرتے ہیں اور روحانی سیری کا موجب بنتے ہیں۔
اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے ایک دوسری جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۷۷) ہر وہ پاک اعتقاد یا عمل صالح جو نور کے ہالہ میں لپٹا ہوا نہیں وہ رد ہونے کے قابل ہے اور ردّ کر دیا جاتا ہے لیکن جب انسان کا قول اور فعل تقویٰ کے نور کے ہالہ میں لپٹا ہو تو اللہ تعالیٰ کو وہ بڑا ہی پیارا اور محبوب ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تشریح بھی کی ہے آپؑ ہی کے الفاظ میں اس مضمون سے متعلق ایک چھوٹا سا اقتباس میں نے لیا ہے جو یہاں بیان کرتا ہوں آئینہ کمالات اسلام میں ہی آپؑ فرماتے ہیں:۔اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ
(سورۃ الانفال: ۳۰)
وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ (سورۃالحدید:۲۹) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا (ایک فرقان تمہیں عطا کرے گا) وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گااور جن راہوں پر تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے‘‘۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۷۷،۱۷۸)
تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اِنْ تَتَّقُوْا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ (سورۃ الانفال: ۳۰) وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ (سورۃ الحدید:۲۹) یہ اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جو تقویٰ کی جڑ سے نہیں نکلا، جو تقویٰ کے قلعہ میں محفوظ نہیں، جو تقویٰ کے نور کے ہالہ میں روحانی زنیت نہیں رکھتا وہ رد کر دیا جاتا ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ تقویٰ عطا کرتا ہے اس کی ساری زندگی کو، اس کے سارے افعال کو، اس کے سارے اقوال کو اس کی ساری حرکات اور سکنات کو وہ نور عطا کرتا ہے جس نور سے ایسا متقی غیروں سے علیحدہ ہوتا اور ایک خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی مضمون کو ایک اور رنگ میں بھی بیان فرمایا ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زنیت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ دراصل روحانی خوبصورتی نام ہے (اور خوبصورت سے ہماری مراد ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں خوبصورت ہو) خوبصورت افعال اور خوبصورت اعمال کا یعنی جب تک ہمارے اقوال اور ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں روحانی خوبصورتی پانے والے نہ ہوں دعویٰ خواہ کوئی انسان کتنا ہی کرتا رہے وہ خوبصورت نہیں ہوا کرتے۔
قرآن کریم نے جو یہ فرمایا یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:۳۲)تو یہاں بھی اسی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔ مسجد تذلل اور عبادت کے مقام کو کہتے ہیں اور زِیْنۃٌ سے یہاں مراد دل کی صفائی اور پاکیزگی اور دل کا تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں حکم دیا ہے کہ جب بھی میرے حضور تذلل سے جھکنا چاہو اور میری اطاعت اور میری عبادت کرنا چاہو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تم اپنے دلوں کو پاکیزہ کرو اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ضمیمہ براہین احمدیہ (حصہ) پنجم میں فرماتے ہیں:۔
’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے تقویٰ کی باریک راہیں، روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیںاور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضا ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۰۹، ۲۱۰)
تو تقویٰ ایک ایسا حکم ہے جس کا براہ راست اور نہایت ہی گہرا اور ضروری تعلق تمام دوسرے احکام سے ہے، خواہ وہ احکام ہمارے اقوال سے تعلق رکھتے ہوں یا اعتقادات سے تعلق رکھتے ہوں یا اعمال سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ وہ احکام مثبت ہوں کہ کرنے کا حکم دیا گیا ہو، خواہ وہ احکام منفی ہوں کہ برائیوں سے روکا گیا ہو۔ ہر حکم کی بجا آوری اس رنگ میں کہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں ہمارا وہ فعل مقبول اور محبوب ہو جائے ممکن نہیں جب تک تقویٰ کی بنیاد پر اس کی عمارت نہ ہو، جب تک تقویٰ کی جڑ سے اس کی شاخیں نہ پھوٹیں، جب تک تقویٰ کے نور کے ہالہ میں وہ لپٹا ہوا نہ ہو، جب تک تقویٰ کی روحانی زینت اسے خوبصورت نہ کر رہی ہو ہمارے ربّ کی نگاہ میں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر دوسرے احکام کے مقابلہ میں بہت ہی زور دیا ہے اور اس لئے بھی زور دیا ہے کہ اس حکم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ خود کو بڑا بزرگ سمجھنے یا کہنے لگ جاتے ہیں یا کسی دوسرے کو بڑا بزرگ سمجھنے یا کہنے لگے جاتے ہیں۔ حالانکہ اس بنیادی حقیقت کے مدنظر ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا ہے کہ فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم:۳۳) جب تقویٰ کا تعلق دل سے ہے، جب تقویٰ کا تعلق نیت سے ہے، جب تقویٰ کا تعلق اس پوشیدہ تعلق سے ہے جو ایک بندے کا خدا سے ہوتا ہے تو پھر بندوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود فیصلہ کریں اورحَکَمْ بنیں۔ یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰیانسان کو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے بنیادی فضل اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا چاہئے کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں تقویٰ دے، اے ہمارے ربّ! ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی طاقت اور استعداد دے، اے ہمارے ربّ، ہمارے اعمال کو تقویٰ کے قلعہ میں محفوظ کر لے۔ اے ہمارے ربّ! ہمارے اعمال کو تقویٰ کے نور میں لے لے اور منور کر دے اور اے ہمارے ربّ! تقویٰ کی روحانی خوبصورتی ہمارے اعمال پر چڑھا وہ تجھے مقبول ہو جائیں اور تو ہم سے راضی ہو جائے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۹؍ اپریل ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا ۵)
٭…٭…٭
خطبہ جمعہ ۸؍مارچ ۱۹۶۸ء
ء ء ء
حضور علالت طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لا سکے۔
(الفضل ۱۰؍مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

ہماری زبانوں سے اس کثرت سے تحمید اور درود نکلنا چاہئے کہ شیطان کی ہر آواز ان کی لہروں کے نیچے دَب جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۵ ؍مارچ ۱۹۶۸ء مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اندھیروں سے نجات حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔
٭ نور کی فضا میں داخل ہونے کیلئے ملائکہ کی تائید اور ان کی دعائیں شاملِ حال ہونا ضروری ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
٭ آئندہ پورا ایک سال تسبیح، تحمید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجیں۔
٭ جس وقت ہم نے دنیا کی فضاؤں کو ذکر سے پُر کر دیا شیطانی آواز خودبخود دَب جائے گی۔


تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور پُر نور نے آیات
یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا o لاوَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً o
ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرٍ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب:۴۲تا۴۴)
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب :۵۷) تلاوت فرمائیں اور پھر فرمایا ۔
کچھ دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ جماعت کو کثرت سے ذکر اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنے کی طرف اور کثرت سے درود پڑھنے کی طرف متوجہ کروں اس عرصہ میں نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق کہ یُرٰی لَہٗ بعض دوستوں نے رئویا بھی ایسی دیکھی ہیں جن میں اس طرف متوجہ کیا گیا ہے ایک دوست کے خط کی چند سطور اس ضمن میں اس وقت پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔ ایک بھائی لکھتے ہیں کہ خاکسار نے چند روز ہوئے خواب میں دیکھا کہ میں نہایت ہی پر زور آواز میں درود شریف پڑھتا ہوں اور ایک شاہراہ پر جا رہا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اس کے ہر مقام پر انتہائی زور دار آواز سے درود شریف پڑھوں۔
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ پھر میں نے پڑھنا شروع کیا کہتے ہیں کہ جب میں نے ایک عزیز کو قادیان لکھا اس کے متعلق کہ اس طرح میں نے رئویا دیکھی ہے۔ آپ بھی کثرت سے درود پڑھیں تو ان کی طرف سے جواب آیا کہ میرے اور میری بیوی کے دل میں معاً تحریک پیدا ہوئی کہ درود شریف بکثرت اور باقاعدہ پڑھنا چاہئے اور ہم درود شریف باقاعدہ ورد کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے کہ آپ کا خط اسی وقت ہمیں موصول ہوا اور وہ جمعہ کا دن تھا تو ہم حیران تھے اور سمجھے کہ یہ توارد الٰہی تحریک پر مبنی ہے۔
ایک اور دوست کو تحریک کرنے پر انہوں نے بتایا کہ میرے تو والد صاحب مرحوم ایک دوست کو خواب ملے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ میں تویہاں بھی یعنی جنت میں ایک لاکھ مرتبہ روزانہ درود شریف پڑھ رہا ہوں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم عاجز بندوں کو اللہ تعالیٰ نے جس راہ پر چلایا ہے وہ شاہراہ غلبہ اسلام کی راہ ہے اور اس راہ پر شیطان پورے زور کے ساتھ اندھیرے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان اندھیروں سے نجات حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اس راہ کے ہر چپہ کو نورانی کرنے کے لئے اپنے نور کے مینار اس وقت کھڑے کرتا ہے جب بندہ اس کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق اپنے اعمال اور اپنے اذکار کرنے والا ہے۔
قرآن کریم کی سورئہ احزاب میں دو مختلف جگہوں میں یہ آیتیں ہیں جن کو میں نے اس وقت اکٹھا تلاوت کیا ہے احزاب کی ۴۲، ۴۳ اور ۴۴ آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا ان تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہ مومن بندوں پر بار بار رحم کرتا، رحم کرنے کا ارادہ کرتا اور اس کی خواہش رکھتا ہے لیکن ان بندوں کو یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ظلمات سے نجات حاصل کرکے نور کی فضا میں داخل ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملائکہ کی تائید اور ان کی دعائیں شامل حال ہوں اور ملائکہ کی تائید اور ان کی دعائیں صرف اس وقت شامل حال ہوتی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہو رہا ہو۔ ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول نہ ہو تو ملائکہ کی دعائوں کو تم حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک تم ملائکہ کی دعا اور خدا کی رحمت کو حاصل نہ کرو تم ظلمات سے نجات نہیں پا سکتے اور نور کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتے اس لئے ہم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اے میرے بندو! جو میرے اس عظیم، کامل نبیﷺ پر ایمان لائے ہو کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور صبح و شام کی تسبیح میں مشغول ہو جائو۔
اسی تعلق میں دوسری جگہ یہ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم پر یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہو سکتی جب تک تم اس کے محبوب النبیﷺ پر کثرت سے درود بھیجنے والے نہ بنو فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہر آن اس کامل نبیﷺ پر نازل ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اور اس کے فرشتے اس نبی کے لئے دعائوں میں مشغول ہیں اور اس کامل نبی کو خدا کی کامل رحمتیں نصیب ہیں اور اس کے ملائکہ کی کامل تائید حاصل ہے اس لئے اے وہ لوگو! جو خدا اور اس کے اس النبی پر ایمان لائے ہو کثرت سے اس پر درود بھیجو اور اس کے لئے دعائیں مانگو اور اس کے لئے سلامتی چاہو جب تم اس پر درود بھیجو گے تو اس کے نتیجہ میں ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی۔
پس جب تک ہم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے نہ ہوں ہر وقت اس کی یاد میں اپنی زندگی کے لمحات نہ گذارنے والے ہوں صبح و شام اس کی تسبیح اور اس کی تحمید کرنے والے نہ ہوں اس کے پاک اور مقدس نبی محمد رسول اللہﷺ پر درود نہ بھیجیں اس وقت تک ہم اس کی تائید، اس کی رحمت اور اس کے فرشتوں کی تائید اور نصرت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک ایسا نہ ہو جائے اس وقت تک شیطانی اندھیروں سے نجات حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کے نور کی دنیا میں ہم داخل نہیں ہو سکتے۔
خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ ایک نہایت ہی اہم اور مقدس فریضہ ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے اور وہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہر انسانی دل میں پیدا کرنا اور محمد رسول اللہﷺ کی عظمت کو قائم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے گا انشاء اللہ یہ اس کی تقدیر ہے جو ہمارے ذریعہ یا ایک اور ایسی احمدی قوم کے ذریعہ سے جو ہم سے زیادہ اپنے اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والی ہو پورا کرے گا۔
اس سلسلہ میں بہت سی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ایک بڑی اہم بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور محمد رسول اللہﷺ پر درود بھیجنے والے ہوں۔
اس لئے آج میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ سارے کے سارے آئندہ پورے ایک سال تک جو یکم محرم سے شروع ہو گا کم از کم مندرجہ ذیل طریق پر خداتعالیٰ کی تسبیح، تحمید اور نبی اکرمﷺ پر درود بھیجیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بتایا تھا کہ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہر برکت نبی اکرمﷺ کے ذریعہ اور آپ کی اتباع سے حاصل کی جا سکتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً ایک ایسی تسبیح اور تحمید اور درود کی راہ بھی دکھائی کہ جو ذکر بھی ہے درود بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً یہ دعا سکھلائی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدْ۔ اس میں تسبیح، تحمید اور درود ہرسہ آ جاتے ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسبیح، تحمید اور درود پڑھنے والی بن جائے اس طرح پر کہ ہمارے بڑے، مرد ہوں یا عورتیں کم از کم دو سَو بار یہ تسبیح، تحمید اور درود پڑھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدْ اور ہمارے نوجوان بچے پندرہ سال سے ۲۵ سال کی عمر کے ایک سَو بار یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے سات سال سے پندرہ سال تک ۳۳ دفعہ یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے اور بچیاں (پہلے بھی بچے اور بچیاں ہیں) جن کی عمر سات سال سے کم ہے جو ابھی پڑھنا بھی نہیں جانتے ان کے والدین یا ان کے سرپرست اگر والدین نہ ہوں ایسا انتظام کریں کہ ہر وہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے لفظ اُٹھانے لگ گئی ہے۔ سات سال کی عمر تک ان سے تین دفعہ کم از کم یہ تسبیح اور درود کہلوایا جائے۔ اس طرح پر بڑے (۲۵ سال سے زائد عمر) دو سَو دفعہ، جوان کم از کم ایک سَو بار اور بچے تینتیس (۳۳) بار اور بالکل چھوٹے بچے تین بار تسبیح اور تحمید کریں۔
پس جماعت کو چاہئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور کم از کم مذکورہ تعداد میں (زیادہ سے زیادہ جس کو جتنی بھی توفیق ملے) اس ذکر و درود کو پڑھے اور اس احساس کے ساتھ پڑھے کہ بڑی ذمہ داری ہے ہم پہ تسبیح و تحمید اور درود پڑھنے کی۔ انسان اس وقت بڑے نازک دور میں سے گذر رہا ہے اور نبی اکرمﷺ دنیا کے لئے رحمت بن کے بھیجے گئے تھے اور آپ کی رحمتوں اور برکتوں کو کھینچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور نبی اکرمﷺ پر درود بھیجنا لازمی ہے۔
یاد رکھیں کہ جس وقت ہم نے دنیا کی فضائوں کو خدا کے ذکر اور محمد رسول اللہﷺ کے نام سے پُر کر دیا اس وقت شیطانی آواز خود بخود ان فضائوں میں دب جائے گی اور اسلام غالب آ جائے گا۔
پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اس طریق پر جو میں بتا رہا ہوں تسبیح اور تحمید کریں اور درود پڑھیں اس کے علاوہ دوسرے طریقوں پر بھی درود پڑھنا چاہئے جیسا کہ نماز میں ہم پڑھتے ہیں۔
لیکن ساری جماعت پر میں فرض قرار دیتا ہوں کہ اس طریق پر کہ بڑے کم از کم دو سَو بار، جوان سَو بار، بچے تینتیس بار اور جو بہت ہی چھوٹے ہیں وہ تین دفعہ دن میں تحمید اور درود پڑھیں اس طرح کروڑوں صوتی لہریں خداتعالیٰ کی حمد اور نبی اکرمﷺ پر درود پڑھنے کے نتیجہ میں فضاء میں گردش کھانے لگ جائیں گی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ ہماری زبان سے تیری حمد اس کثرت سے نکلے اور تیرے محبوب محمدﷺپر ہماری زبان سے درود اس کثرت سے نکلے کہ شیطان کی ہر آواز ان کی لہروں کے نیچے دب جائے اور تیرا ہی نام دنیا میں بلند ہو اور ساری دنیا تجھے پہچاننے لگے۔
پس دعائوں کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوں اور یکم محرم سے ساری جماعت اس کام میں مشغول ہو جائے یہ کم از کم ہے جو میں نے بتایا ہے اگر انسان چاہے تو اس سے بہت زیادہ حمد بھی پڑھ سکتا ہے درود بھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ عام اندازے کے مطابق دو سَو دفعہ اگر پڑھا جائے تو بیس پچیس منٹ سے زیادہ صرف نہیں ہوتے اگر کوئی شخص بہت توجہ اور الحاح اور خاص کیفیت کے ساتھ بھی پڑھے تو زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ لگ جائے گا آدھا گھنٹہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں جو تیز پڑھنے والے ہیں وہ ممکن ہے دس بارہ منٹ میں اس تعداد کو پورا کر دیں پھر اس سے کام میں کوئی حرج بھی واقع نہیں ہوتا اس کے لئے ضروری نہیں کہ آپ مُصلّے پر بیٹھے ہوئے ہوں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے جس وقت آپ قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر رہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ نہیں کر رہے یا کسی اور ایسے کام میں مشغول نہیں کہ جس میں آپ کو اس کی طرف انہماک سے متوجہ ہونا ہوتا ہے یا کام ہی ایسا ہے کہ زبان بھی مشغول رہتی ہے ان اشغال کو چھوڑ کے آپ دنیا کا ہر کام کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی حمد اور نبی اکرمﷺ پر درود بھیج سکتے ہیں۔
اگر کوئی شخص چاہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزار ہا بار یہ کلمات جو مختصر مگر خدا کو بڑے پیارے ہیں وہ پڑھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہی دنیا کی فضا خدا کے نام اور محمد رسول اللہﷺ کے نام سے کچھ اس طرح بھر جائے کہ شیطان کی کسی آواز کو وہاں داخل ہونے یا وہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۳ ؍مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ۲تا۴)
٭…٭…٭
مومنوں میں رُوحِ مسابقت کا پایا جانا ضروری ہے اور سب سے زیادہ اس طرف ربوہ کے احباب کو متوجہ ہونا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲ ؍مارچ ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ نفوس اور اموال میں برکت انعام کے علاوہ امتحان اور آزمائش بھی ہوتی ہے۔
٭ قرآن کریم کا نزول انسان کی جسمانی اور روحانی ترقیوں کیلئے ہے۔
٭ اہل ربوہ کو نیکیوں میں سب سے آگے نکلنا چاہئے اُن کیلئے مواقع بھی زیادہ ہیں۔
٭ اہل ربوہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بھی توجہ کریں۔
٭ ہمارے دفاتر کے کارکنان کو دوسروں کیلئے نمونہ بننا چاہئے۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَo نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ بَلْ لاَّیَشْعُرُوْنَo اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لَایُشْرِکُوْنَo وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآاٰتَوْاوَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رٰجِعُوْنَo اُوْلٓئِکَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ۔ (المومنون :۵۶ تا ۶۲)
اور پھر فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ سورئہ المومنون کی ان آیات میں فرماتا ہے کہ ہم دنیا میں بہت سے لوگوں کو بڑا مال دیتے ہیں اولاد میں کثرت بخشتے ہیں اور جتھہ ان کو دیتے ہیں۔ اس طرح پر ہم ان کی بڑی مدد کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں اگر وہ یہ سمجھیں کہ انہوں نے بہت سی نیکیاں کی ہیں اور یہ ان کی جزا ہے تو ان کی سمجھ کا قصور ہے ایسا نہیں ہے۔
دنیا میں مال کا ملنا یا اولاد میں برکت کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے، ہمیشہ ہی (اگر پورے کا پورا امتحان نہ ہو) ایک پہلو امتحان کا اور ایک پہلو جزا کا اپنے اندر رکھتا ہے جہاں صرف امتحان کا پہلو مدنظر ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق یہ فرماتا ہے اِنَّمَآاَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ(التغابن :۱۶) جو اموال اور اولاد میں نے تم کو دی ہے وہ تمہارے لئے ایک امتحان اور آزمائش ہے اگر تم اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تو میرا انعام پائو گے اور اگر اس امتحان میں ناکام رہے تو میرا غضب تم پر بھڑکے گا۔
مومنوں کو جو اموال دئیے جاتے ہیں اور ان کے نفوس میں جو برکت ڈالی جاتی ہے اس میں بھی صرف انعام کا پہلو نہیں ہوتا بلکہ ایک طرف انعام ہوتا ہے تو دوسری طرف امتحان بھی ہوتا ہے نبی اکرمﷺ کے صحابہؓ کو ایک وقت میں بڑے ہی اموال عطا ہوئے تھے ایک ایک دن بعض دفعہ ان میں سے بہتوں کو لاکھ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ رقوم مل جاتی تھیں مال غنیمت میں سے، مگر وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ایک انعام کی شکل میں نہیں بلکہ اس میں ہمارے لئے امتحان اور ہماری آزمائش بھی مدنظر ہے اگر وہ اس کو محض انعام سمجھتے تو دوسروں کو اس میں حصہ دار نہ بناتے اگر وہ یہ سمجھتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی محض رضا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں سے کسی اور کو حصہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ایک طرف دوسری طرف اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے ہمارا امتحان بھی لینا چاہتا ہے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض دفعہ جس دن انہیں لاکھ لاکھ کی رقم ملتی تھی اسی دن وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ بھی کر دیتے تھے تاکہ اس کی طرف سے زیادہ انعام انہیں ملے اور اس امتحان میں وہ کامیاب قرار دئیے جائیں۔
تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ مال یا اولاد کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا آنا اس بات کی علامت نہیں ہے نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ کہ ہم ان کو نیکیوں میں جلد جلد بڑھا رہے ہیں اور ان کے اوپر یہ محض انعام کے طور پر فضل ہو رہا ہے کہ ان کے مالوں میں بھی برکت ڈالی جا رہی ہے اور ان کی اولاد میں بھی برکت ڈالی جا رہی ہے وہ سمجھے نہیں اور اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ جو یُسَارِعُوْنَ فِی الْخیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ نیکیوں کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق جو سورۃ آل عمران میں ہے وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مُغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ (اٰل عمران :۱۳۴)اور وہ جن میں مسابقت کی روح پائی جاتی ہے۔ ان میں چار علامتیں پائی جاتی ہیں۔
اوّل یہ کہ ھُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ وہ خَشیۃُ اللّٰہ سے لرزاں رہتے ہیں اور دوسری جگہ فرمایا وَلاَیَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلاَّ اللّٰہَ (الاحزاب :۴۰)کہ وہ اپنے دل کی اس کیفیت میں کسی اور کو اللہ کے سوا شریک نہیں بناتے۔ یعنی خشیتہ اللّٰہ ہے اور صرف اللہ کی خشیت ہے کسی اور کی خشیت کو اس میں ملونی نہیں ہے یہاں اللہ نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنیادی اور اصولی صفات میں سے صفت ربّ کو منتخب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اپنے ربّ کی خَشْیَۃ سے لرزاں رہتے ہیں۔ خَشْیَۃ کے معنی ایسے خوف کے ہیں کہ جس سے خوف پیدا ہو اس کی ذات اور صفات کا علم بھی ہو اور وہ ذات ایسی ہو کہ جب اس کا علم انسان کو حاصل ہو جائے تو اس کی عظمت بھی دل میں پیدا ہوا تو خَشْیَۃ کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا انسان اپنے ربّ سے یہ جانتے ہوئے کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور ربوبیت کی انتہائی اور آخری ذمہ داری اسی پر ہے۔ مُشَابِہ بِرَبّ شاید اس دنیا میں بھی ملیں لیکن اللہ کے علاوہ جو بھی درجہ بدرجہ جسمانی یا روحانی ارتقا کا باعث بنتے ہیں وہ اسی کے اذن اور اسی کی توفیق سے ایسا بنتے ہیں۔ حقیقی طور پر اب وہی واحد یگانہ ہے پس جن لوگوں میں اس معنی میں ربّ کی خشیت پائی جاتی ہو اور ھُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ وہ سمجھتے ہوں کہ قرآن عظیم کا نزول انسان کی جسمانی اور روحانی ترقیوں کے لئے ہے۔ آیات سے یہاں مراد ایک تو قرآن کریم ہے اور دوسرے وہ تمام آسمانی تائیدات ہیں جو قرآن کریم کی آیات کے ظل کے طور پر اس دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتی ہیں اور نازل ہوتی رہیں گی۔ تو جو لوگ اپنے ربّ کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور اس سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں اور وہ جو قرآن کریم پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم کے فیوض کو جاری یقین کرتے ہیں اور نبی اکرمﷺ کے ابدی فیوض پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس طرح پر شرک کے ہر پہلو سے محفوظ ہو گئے ہیں بِرَبِّھِمْ لَایُشْرِکُوْنَ خفیہ یا ظاہری شرک بڑا یا چھوٹا شرک کوئی بھی ان کے قریب پھٹکنے نہیں پاتا اور وہ لوگ جن کے دل اس بات سے وَجِلَۃٌ خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہم اپنی سمجھ کے مطابق اعمال صالحہ بجا تو لائے ہم نے صدقہ و خیرات بھی دیا دوسری نیکیاں کرنے کی بھی کوشش کی مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ ہمارے ربّ کو مقبول بھی ہوں گی یا نہیں ہم نے سوائے اس کے کسی اور کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا اور جس کے سامنے ہم جواب دہ ہیں اس کے متعلق ہم کہہ نہیں سکتے کہ قبولیت کو ہماری نیکیاں پہنچی ہیں یا نہیں پس وہ لوگ نیکیاں تو قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہر آن اور ہر وقت بجا لاتے رہتے ہیں لیکن تمام نیکیاں بجا لانے کے بعد بھی ان کے دلوں میں یہ خوف رہتا ہے کہ جس کے سامنے جواب دہ ہیں ہم نا معلوم اس نے ہماری نیکیوں کو قبول بھی کیا ہے یا نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن میں چار باتیں پائی جاتی ہیں وہ ہیں اُوْلٓئِکَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے اس حکم کی تعمیل کی کہ وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مُغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ (اٰل عمران :۱۳۴)
اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اندر مسابقت کی روح پیدا ہو سکتی ہے وہ جو اپنے ربّ کی خشیت کا احساس نہیں رکھتے وہ جو اپنے ربّ کی آیات عظیمہ (قرآن کریم) پر ایمان نہیں لاتے وہ جن کے دلوں میں شرک کی باریک معصیت پائی جاتی ہے اور وہ جو جب نیکی کرتے ہیں تکبر سے کام لیتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایسے کام کئے ہیں کہ اب ہمارا ربّ مجبور ہے کہ ہماری ان باتوں کو قبول کرے اور ہمیں بہتر جزا دے وہ لوگ مسابقت فی الخیرات اور یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ کے مصداق نہیں ہوا کرتے نہ ان میں مُسَابَقَتْ فِی الْخَیْرَات پائی جاتی ہے نہ وہ جلدی جلدی نیکیوں کی طرف متوجہ ہونے والے اور حرکت کرنے والے ہوتے ہیں۔
اس واسطے وہ لوگ جو صرف ہمارے دنیوی احسانوں کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انہوں نے سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ پر عمل کیا اور یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنکے گروہ میں شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو انہوں نے حاصل کیا حالانکہ ان کے اندر یہ چار خوبیاں پائی نہیں جاتیں۔ وہ غلطی پر ہیں لَایَشْعُرُوْنَ مومنون میں روح مسابقت کا پایا جانا ضروری ہے۔ یہ افراد میں بھی ہوتی ہے اور جماعتوں میں بھی اور سب سے زیادہ اس کی طرف مرکز کو متوجہ ہوناچاہئے۔
پس پہلی ذمہ داری ربوہ پر ہے کہ وہ سب سے آگے نکلے کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کے سننے کے مواقع بھی زیادہ دئیے ہیں اور نیکی بجا لانے کی سہولتیں بھی بہت میسر کی ہیں اور دوسروں کی نسبت دنیوی انعامات بھی ان کے اوپر بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً دنیوی انعامات میں سے ایک مال کا انعام ہے اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ایک لاکھ سے زائد کی رقم ربوہ کے مستحقین پر ہر سال خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم باہر کی جماعتوں پر خرچ نہیں ہوتی مثلاً کراچی میں قریباً ربوہ جنتی آبادی ہے احمدیوں کی کراچی کی آبادی تو زیادہ ہے لیکن جتنی احمدی آبادی ربوہ میں ہے قریباً اتنی ہی آبادی کراچی میں پائی جاتی ہے اور قریباً اتنی ہی آبادی لاہور میں پائی جاتی ہے کم و بیش اتنی آبادی ممکن ہے بعض دوسرے شہروں میں بھی پائی جاتی ہو لیکن ان دو شہروں کے متعلق تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی احمدی آبادی ربوہ کی آبادی کے کم و بیش برابر ہے لیکن وہاں کے ضرورت مند بڑی تکلیف میں بعض دفعہ ہوتے ہیں ایک حد تک جماعتیں ان پر خرچ بھی کرتی ہیں لیکن اتنی رقم (ایک لاکھ سے زائد رقم) وہاں کے ضرورت مند احمدیوں پر خرچ نہیں ہو رہی تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فضل ہے جو بہت سی ذمہ داریاں بھی عاید کرتا ہے لیکن اگر ربوہ کے مکین اپنی ضرورتوں کے وقت جماعت سے یہ تو کہیں کہ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذّٰرٰیت :۲۰) کے ماتحت ہماری ضرورتوں کو پورا کرو لیکن جب انہیں یہ کہا جائے کہ روح مسابقت دوسروں کی نسبت تم میں زیادہ ہونی چاہئے نیکیوں کی طرف تمہیں زیادہ متوجہ ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ خلوص کے ساتھ اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنی زندگیاں تمہیں گزارنی چاہئیں دوسری جماعتوں کی نسبت کیونکہ تمہارا ماحول ان کے مقابلہ میں زیادہ پاکیزہ اور نیکیوں کے بجا لانے کی یہاں زیادہ سہولت ہے تو تم سستی دکھائو تو یہ تو اللہ کو پسند نہیں کہ اس کے دنیوی فضلوں میں تو حصہ لینے کی تم کوشش کرو اور عملاً لو بھی لیکن اس کی راہ میں جب قربانیوں کا وقت آئے تو تم کہو کہ کراچی یہ قربانی دے لاہور یہ قربانی دے یا سیالکوٹ یہ قربانی دے یا پنڈی یہ قربانی دے یا پشاور یہ قربانی دے ہم نہیں دیں گے تو یہ درست نہیں۔ جو اخلاق غرباء سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہایت حسین رنگ میں نمایاں طور پر ربوہ کے غریب احمدیوں میں نظر آنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے اموال میں سے تو حصہ لیں لیکن اپنے بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں نہ کریں جو انہیں کرنی چاہئے مثلاً ان کے بچے دوسروں کی نسبت زیادہ گندہ دہن ہوں۔ گالیاں ان کی زبان پر ہوں یا توفیق رکھنے کے باوجود اپنے کپڑوں کو زیادہ غلیظ رکھنے والے ہوں یا اپنے ماحول میں گند کو زیادہ پھیلانے والے ہوں تو یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا جب وہ اللہ تعالیٰ کی دنیوی نعمتوں میں حصہ دار خدا کے فضل سے بنائے جاتے ہیں تو جو قربانیوں کا وقت ہے جو ان پر ذمہ داریاں ہیں ربوہ کے شہری کی حیثیت سے یا ربوہ کے شہریوں میں سے غریب طبقہ ہونے کی حیثیت سے (غریب طبقہ جماعت کے اموال میں حصہ دار بنتا ہے اور ہر قسم کا ان کا خیال رکھا جاتا ہے) تو وہ ذمہ داریاں ان کو نباہنی چاہئیں۔ اگر وہ نہیں نباہیں گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد ٹھہریں گے اس سے بہتر ہے کہ پھر وہ ربوہ کو چھوڑ کے کسی اور جگہ چلے جائیں۔
اسی طرح علاج ہے یہاں علاج اتنی آسانی سے میسر آ جاتا ہے اور اتنی مہنگی دوائیں دینے کی اور لینے کی عادت پڑ گئی ہے معالج اور مریض کو کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات بھی گناہ کی حد تک پہنچ گئی ہے لیکن ضرورت مند مریض اس کی قدر نہیں کرتے اور بھاگتے ہیں چنیوٹ کی طرف یا لائل پور کی طرف یا لاہور کی طرف یا کسی اور جگہ میں ذاتی طور پر گواہ ہوں اس بات کا کہ ربوہ کے مقابلہ میں کسی اور جگہ اس محبت سے اور اس پیار سے علاج نہیں ہوتا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں ہم ایک دن کے لئے لاہور گئے غالباً ۱۹۵۷ء کی بات ہے تو میری ایک بچی پر اپنڈے سائیٹس کا حملہ ہو گیا ایک دن کے لئے ہم گئے تھے شام کو واپس آنا تھا لیکن بڑا شدید دورہ ہوا ہمیں وہاں ٹھہرنا پڑا رات کو ڈاکٹر نے کہا کہ فوراً آپریشن کرائو ایک واقف دوست ڈاکٹر تھے انہوں نے خود ہی جا کے رات کے ۹ بجے آپریشن تھیٹر کھلوایا، نرسوں اور کمپونڈروں وغیرہ عملے کو بلایا اور رات کو آپریشن کیا۔ اپنڈیس دکھائی کہ بیمار تھی بڑا اچھا ہوا آپریشن ہو گیا ورنہ زیادہ تکلیف ہو جاتی ہمیں مجبوراً وہاں رہنا پڑا۔ علیحدہ کمرے میں تھی بچی اس کو بیماری کے دوران پیچش کا بڑا سخت حملہ ہوا اور بہت نازک حالت ہو گئی اور ڈاکٹر قریباً ناامید ہو گئے مرض کا پہلے تو پتہ نہیں لگا آخر پتہ لگا کہ پیچش ہے۔ ایمٹین سٹکنین کے ساتھ تجویز ہوئی اب ایسی جگہ بھی جہاں ڈاکٹر واقف اور دوست، نرسوں کو بھی پتہ ہائوس سرجن کو بھی پتہ کہ ان کے بڑے تعلقات ہیں ڈاکٹر سے۔ ایسا ہوا کہ ایک دن ٹیکا لگاتے ہوئے سٹکنین کی گولی جس کے تیار کرنے پر دو منٹ نرس کو خرچ کرنے پڑتے تھے اس نے اپنے دو منٹ بچانے کے لئے وہ گولی پھینک دی اور خالی ایمٹین کا ٹیکا لگانے لگی جو بعض دفعہ بہت مضر پڑتا ہے اور دل کی پٹھوں پر اس کا بداثر پڑتا ہے میری نظر پڑ گئی میں نے کہا کیا ظلم کر رہی ہو تم! یہ گولی ڈالو!! سخت شرمندہ ہوئی وہ۔ پھر اس نے وہ گولی گرم پانی میں گھول کر اس میں شامل کی۔ پس اس قسم کا تو تعلق ہے ان لوگوں کا مریضوں کے ساتھ!!!!
اور یہاں یہ حالت ہے کہ غریب سے غریب مریض اس دوا کا طالب ہوتا ہے جو سب سے مہنگی ہو جن کی عام لوگ لاہور میں بھی استطاعت نہیں رکھتے کہ اتنی رقم اس دوائی پر خرچ کریں۔ ضرورت کے وقت تو بے شک بہترین دوائی دینی چاہئے لیکن وائٹامنز ہیں مثلاً وہ پانچ روپے کی سو بھی آتی ہیں اور پچاس روپے کی سَو بھی آتی ہیں اور اثر کے لحاظ سے ۱۸۔ ۲۰ کا فرق ہو گا زیادہ سے زیادہ۔ تو میں نے یہاں دیکھا ہے کہ غریب سے غریب آدمی جو بمشکل اپنا گزارہ کر رہا ہے کیونکہ دوا مفت ملتی ہے اس لئے وہ کہتا ہے کہ مجھے پانچ روپے والی وائٹامنز نہیں چاہئیں مجھے پچاس روپے والی چاہئیں حالانکہ دنیا کے امیر بھی وہی پانچ روپے والی دوا کھا رہے ہیں۔
اتنی سہولتوں کے نتیجہ میں کچھ ذمہ داریاں بھی تو پڑتی ہیں آپ لوگوں پر! اگر آپ دنیوی سہولتیں تو حاصل کر لیں لیکن دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ نہ ہوں تو بڑے بدبخت ہیں آپ!! کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہیں۔
پھر اگر تعلیم کے لحاظ سے دیکھیں تو غریب سے غریب شخص بھی اپنے اس بچے کو پڑھا سکتا ہے جو پڑھنا چاہئے اور ہوشیارہو ’’جو پڑھنا چاہے‘‘ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بہت سارے بچے دوڑ جاتے ہیں وہ پڑھنا چاہتے ہی نہیں بعض دفعہ ربوہ سے باہر چلے جاتے ہیں بڑی مصیبت پڑتی ہے ان کے ماں باپ کو لیکن جو بچے پڑھنا چاہیں اور پڑھائی میں اچھے ہوں ان کے لئے فراخ شاہراہ ہے جس پر وہ چلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا سواں حصہسہولت بھی کسی دوسری جگہ میں نہیں ہے نہ غیروں کو نہ احمدیوں کو۔ ہمارا اپنے کالج کا ایک مالی ہے میں نے اپنی عادت کے مطابق بڑے پیار سے اس کو رکھا عام آدمی مزدور میرے جیسا انسان ہے اس کے دو بچے ترقی کرکے کہیں کے کہیں پہنچ گئے ہیں ایک اس وقت افریقہ میں ہمارے سیکنڈری سکول میں پڑھا رہے ہیں دوسرے یہیں کہیں ملازم ہیں ان کے دل میں تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کا شوق تھا یہ بات کہ ان کا باپ ایک غریب آدمی ہے پنیسٹھ روپے تنخواہ لے رہا ہے ان کی پڑھائی کے رستہ میں روک نہیں بنی۔ اسی طرح بیسیوں مثالیں ایسی ہوں گی کہ پچاس روپے ساٹھ روپے سَو روپے تنخواہ لینے والے جو ہیں ان کے بچے بغیر کسی تکلیف کے جو ان کے خاندان کو پہنچے آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور بڑی ترقی کی۔ اس کے مقابلے میں باہر کی حالت اس سے مختلف ہے۔ میں ایک مثال دے دیتا ہوں کئی لوگ شرح کے ساتھ چندہ نہیں دیتے تھے گنہگار ہوتے تھے میری طبیعت پر اس کا بڑا اثر تھا میں نے یہ اعلان کروایا کہ جن کے حالات تنگ ہوں وہ اجازت لے لیں وصیت تو بہرحال ۱۰؍۱ دینی ہے لیکن جو عام چندہ ہے اس میں حالات کے مطابق کمی و بیشی کی جا سکتی ہے اس واسطے کیوں گنہگار ہوتے ہو مرکز سے اجازت لو کہ ہمارے یہ حالات نہیں ہم اجازت دے دیں گے تو کئی دفعہ ایسے دوستوں کے نام بھی میرے سامنے آتے ہیں اجازت کے لئے پانچ سو روپیہ تنخواہ ہے دو یا تین بچے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں مصیبت پڑی ہوئی ہے، نصف شرح پر چندہ دینے کی اجازت دے دیں ہمیں اور اس کے مقابلے میں ربوہ کے احمدی بھائی ہیں کہ پانچ سو کے مقابلے میں ساٹھ یا پینسٹھ یا ستر یا پچھتر روپے ان کی تنخواہ ہے لیکن ان کو اتنی سہولتیں حاصل ہیں کہ کبھی ان کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ یہ درخواست دیں کہ ہمیں نصف شرح پر چند دینے کی اجازت دی جائے۔
پس بڑی ہی سہولتیں ربوہ میں میسر ہیں دوسرے مقامات پر بھی احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل اور انعام ہیں لیکن ربوہ کے غرباء پر تو بہت انعام ہو رہے ہیں اور ان کو بڑی مدد مل رہی ہے خیال آتا ہے کہ کہیں یہ آیت اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَo نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ (المومنون: ۵۶) ہمارے متعلق ہی تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے دنیاوی فضل ہم پر ہو رہے ہیں لیکن ہم اپنی غفلت کی وجہ سے ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ نہیں جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کے یہ فضل انسان کے کندھوں پر ڈالتے ہیں۔
اس لئے آج میں چاہتا ہوں کہ اہل ربوہ کو اپنا پہلا مخاطب بنائوں (ویسے تو سارے احمدی ہی میرے مخاطب ہیں) اور ان کو اس طرف متوجہ کروں کہ دوسروں کی نسبت آپ پر زیادہ ذمہ داری ہے دوسروں کی نسبت اللہ تعالیٰ نے دنیوی سہولتیں آپ کو زیادہ دی ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ سب سے زیادہ نیکیوں میں آپ آگے بڑھیں لیکن آپ تو بہتوں سے پیچھے رہ رہے ہیں اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ربوہ کو بڑی قربانیاں دینے کی توفیق دی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جہاں اکثریت مالی قربانیوں میں آگے ہی آگے بڑھنے والی ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی آمد کی صحیح تشخیص نہیں کرتے اور خصوصاً دکاندار ربوہ کے ماحول میں مہنگی اشیاء بیچتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں لیکن اپنے ربّ کی راہ میں زیادہ اموال خرچ کرنے کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتے اگر وہ خدا کی راہ میں، خدا کے لئے غلبہ اسلام کی خاطر ان اموال کا ایک بڑا حصہ خرچ کر دیتے تو ان کی بہت سی کمزوریاں بھی وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ کے ماتحت خداتعالیٰ کی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دی جاتیں لیکن وہ اس طرف متوجہ نہیں۔
بچوں کی تربیت کی طرف بعض باپ اور مائیں متوجہ نہیں بہت سی رپورٹیں آتی ہیں کہ راستوں پر بچے گالیاں دیتے سنے گئے احمدی بچہ، ربوہ کے ماحول میں تربیت یافتہ، اگر گلیوں میں گالیاں دیتا ہے تو اس کے ماں باپ کو یہ جگہ چھوڑ دینی چاہئے مائوں کو خصوصیت کے ساتھ میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بعض کمزوریاں ان میں ایسی ہیں کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ توجہ دلانے کی ضرورت ہے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو مال دیتا اور اولاد دیتا ہے اور ہزار قسم کی سہولتیں آپ کے لئے پیدا کرتا ہے تو ہزار قسم کی ذمہ داریاں بھی آپ پر عاید کرتا ہے۔ محض ربوہ کی رہائش محض جماعت احمدیہ کا رُکن ہونا کافی نہیں ہے۔
پھر میں ربوہ میں جو ہمارے کارکن ہیں ان کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ ہیں (بہت سے ہیں جو بڑی دیانتداری کے ساتھ، بڑے خلوص کے ساتھ دفتر کے جو اوقات ہیں ان سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں دین کے کاموں کے لئے لیکن کچھ ایسے بھی تو ہیں) جو پورا وقت نہیں دیتے ان کو یہ سوچ کر شرم آنی چاہئے کہ انہوں نے دوسروں کے لئے ایک نمونہ بننا تھا اس مسابقت کے میدان میں لیکن ان سے زیادہ وقت دیتے ہیں کراچی کے بعض احمدی جو دفاتر وغیرہ میں سات آٹھ گھنٹے لگانے کے بعد چھ سات گھنٹے جماعت احمدیہ کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں اور ہمارے بعض کلرک ربوہ میں رہتے ہوئے گزارہ لے کے چھ گھنٹے کام نہیں کرتے اور ان کا بھائی کراچی میں جن سے گزارہ لیتا ہے ان کا آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے اور جس ربّ کریم کے پیار میں وہ اپنی زندگی گزار رہا ہے اس کے لئے اس کے علاوہ چھ سات گھنٹے وہ کام کرتا ہے ہمارے اس کلرک سے زیادہ وقت دے رہا ہے ایسا ایک کلرک بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کوئی ناظر اور اگر وکیل ہو تو اس کو بھی برداشت نہیں کرنا چاہئے جماعت کو دنیا کے سامنے بعض دفعہ بڑے فخر سے تم بیان کرتے ہو کہ ہم خدا کی خاطر خدا کے اس شہر میں مقیم ہیں لیکن خدا کے فرشتے جب تمہاری کارروائی لے کر تمہارے ربّ کے حضور پہنچتے ہیں تو تمہارے کھاتے میں دین کے لئے خرچ ہونے والا اتنا وقت بھی درج نہیں ہوتا جتنا وقت ایک رضا کار کراچی میں خدا کے دین پر خرچ کر رہا ہے ڈوب مرنے کا مقام ہے، فخر سے گردن اونچا کرنے کا مقام نہیں!!!
بعض نوجوان ایسے بھی ہیں (چند ایک ہی سہی مگر ہیں تو) جو قصداً اور عمداً مسجدوں میں نماز کے لئے نہیں آتے اگر کوئی سستی کے نتیجہ میں نہیں آتا اگر کوئی غفلت کے نتیجہ میں نہیں آتا اگر کوئی مسجد میں اس لئے نہیں آتا کہ اس کی ماں بیوقوف ہے نماز کے وقت وہ سویا ہوا تھا اور اس نے اسے جگایا نہیں تو وہ اور بات ہے لیکن وہ نوجوان جو عمداً نماز کو چھوڑتا ہے وہ ربوہ میں کیا کر رہا ہے؟ اور آپ کیوں اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اسی طرح دوسری نیکیاں ہیں ایک نیکی ربوہ سے تعلق رکھنے والی خاص طور پر یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو احمدیوں میں کہیں بھی نہیں ہونا چاہئے مسلمانوں میں کہیں بھی نہیں ہونا چاہئے انسانوں میں یہ کہیں بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن وہ تو علیحدہ بات ہے خاص طور پر ربوہ میں کوئی لڑائی اور جھگڑا اور گالی گلوچ نہیں ہونا چاہئے اگر گول بازار یا غلہ منڈی یا کسی اور بازار میں یہاں لڑائی ہوتی ہے تو سارا ربوہ خاموش کیوں رہتا ہے؟ کیا بھڑوں جیسی غیرت بھی تمہارے اندر نہیں ہے! کہ جب بھڑ کے چھتہ کے قریب سونٹی کریں تو ساری بھڑیں اس چھتہ کی بڑے غیض اور بڑے غصہ کا اظہار کرتی ہیں اور ایک آواز پیدا ہوتی ہے ان کی غصہ سے۔ تو جتنی غیرت بھڑوں کے چھتہ میں ہے کیا اتنی غیرت بھی اہل ربوہ میں باقی نہیں رہی؟ یہ امن کا ماحول تھا اور امن کا ماحول قائم رکھنا چاہئے میرے پاس رپورٹ کیوں آئے؟ مجھے کسی قسم کا اقدام کرنے کی ضرورت کیوں پیش ہو؟ اگر سب لوگوں کو یہ پتہ ہو کہ ربوہ ان چیزوں کو برداشت نہیں کرتا ربوہ میں بر سرعام سگریٹ نہیں پیا جا سکتا ربوہ کے بازاروں میں گالی نہیں دی جا سکتی ربوہ کے بازاروں میں لڑائی جھگڑا نہیں کیا جا سکتا ربوہ کے مکانوں میں نمازوں کے اوقات میں مسجدوں کو معمور کرنے کی بجائے ٹھہرا نہیں جا سکتا تو پھر ہمارا ماحول جنت کاماحول ہوجائے اور جنت ہی پیدا کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔
پس اے میرے عزیز ربوہ کے مکینو! اپنے سستوں کو چست کرو اور کمزوروں کو مضبوط بنائو اور غافلوں کو بیدار کرو کیونکہ اس قسم کی کمزوریاں ربوہ میں برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مذکورہ چار صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۹؍ مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

خدا تعالیٰ کی گرفت ہمیشہ اچانک ہوا کرتی ہے ہر لمحہ ڈر کے اور خوف کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹ ؍مارچ ۱۹۶۸ء ۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو اپنے ربّ کی آواز پر لبیک نہ کہے اور شیطانی راہوں کو اختیار کر لے۔
٭ عذاب کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی اور رحمت کے سب دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔
٭ جب نفسانیت پر موت وارد ہو جائے گی تو خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے چمکتے ہوئے نور کے ساتھ دوبارہ تمہیں زندگی عطا کرے گی۔
٭ اپنی قوتوں اور استعدادوں کے مطابق عمل صالح بجا لاؤ۔
٭ اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں اور استعدادیں تمہیں عطا کیں اور وہ روحانی ترقیات تمہیں دینا چاہتا ہے۔



تشہد، تعوذ، سورۃ فاتحہ اور آیات
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُو الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْالَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَo وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo لا (الزمر :۵۴ تا ۵۶)
کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ان آیات میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے عظیم اور حسین جلوے نظر آتے ہیں اور ہمیں بڑی وضاحت سے ان راہوں کا علم دیا گیا ہے کہ جن پر چل کے اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اس کی مغفرت اور اس کی رحمت کو حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ یٰعِبَادِيَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ کہ انسان ضعیف ہے اگرچہ اس کو فطرت صحیحہ دی گئی ہے اور اس کے اندر یہ قوت اور یہ استعداد رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے ربّ کا عبد بنے اور اس کی صفات کا مظہر بنے لیکن اسے یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ چاہے تو اپنے ربّ کی آواز پر لبیک نہ کہے بلکہ اس سے منہ موڑ لے اور شیطانی راہوں کو اختیار کر لے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت میرے بعض بندوں پر ایسا بھی آتا ہے کہ ان کے دل میں یہ احساس شدت اختیار کرتا ہے کہ انہوں نے فطرت کی آواز کو نہ سنا اور اپنی فطرت صحیحہ کے تقاضوں کو پورا نہ کیا اور جو ہدایت ان کی ربوبیت کے لئے آسمانوں سے نازل کی گی تھی اس پر کان نہ دھرے نہ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا اور اس وقت ایسا انسان اپنے گناہوں کو دیکھ کر اپنے دل میں مایوسی کے جذبات پاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی رحمت کے دروازے میرے پر بند ہو گئے ہیں تو ان اوقات میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بتایا ہے کہ میری صفات میں سے ایک صفت غفور ہونے کی اور ایک رحیم ہونے کی ہے، اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ میری رحمت جو ہر دوسری چیز کو اپنے گھیرے اور اپنی وسعتوں میں لئے ہوئے ہے اس سے مایوس نہ ہونا، کیونکہ میں غفور ہونے کی وجہ سے تمہارے گناہوں کو بخش سکتا ہوں اور بخشوں گا اور رحیم ہونے کے لحاظ سے تم پر رجوع برحمت ہوں گا لیکن میری رحمت کے حصول کے لئے جو طریق تمہیں اختیار کرنے چاہئیں وہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں اور وہ یہ کہو اَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْالَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ (الزمر :۵۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے ایک گنہگار بندے پر کہ خدا کی مدد اور نصرت سے وہ محروم ہو چکا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی مدد اسے نجات نہیں دلا سکتی وہ وقت وہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی قہری گرفت میں وہ آ جائے جب اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے وہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا وہ مورد بن رہا ہو تو واضح ہے کہ کوئی دوسری ہستی اس کی مدد اور نصرت کو پہنچ نہیں سکتی اور جو اس کی مدد کر سکتا تھا اس کی مدد سے اس نے اپنے ہی اعمال کے نتیجہ میں خود کو محروم کر دیا چونکہ انسانی زندگی یا ایک گنہگار کے لئے مرتے وقت یہ وقت ایسا آتا ہے کہ کسی طرف سے بھی اسے مدد نہیں پہنچ سکتی نہ پہنچتی ہے غیراللہ سے مدد پہنچ نہیں سکتی اللہ کی طرف سے مدد پہنچتی نہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چونکہ عذاب کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی اور رحمت کے سب دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اس لئے میں اپنی گرفت میں تاخیر ڈالتا ہوں تم گناہ کرتے ہو میں گرفت نہیں کرتا میں تمہیں چھوڑتا ہوں اس لئے کہ کسی وقت تمہاری فطرت بیدار ہو جبکہ وہ پہلے سوئی ہوئی تھی یا کسی وقت تمہاری فطرت زندہ ہو جو پہلے مردہ یا نیم مردہ تھی اور تم اپنے گناہوں سے نجات کے طریق کو ڈھونڈنے کی خواہش اپنے اندر پائو اور تم یہ سمجھو کہ ہم نے اپنے نفسوں پر بڑا ہی ظلم کیا تھا جب ہم نے نفسانی خواہشات کی پیروی کی تھی اور اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کو ٹھکرا دیا تھا۔
چونکہ میں عذاب میں تاخیر ڈالتا ہوں اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ عذاب سے پہلے پہلے اگر اَنِیْبُوْا اور اَسْلِمُوْا پر عمل کرو گے تو تم میری مغفرت اور رحمت کو حاصل کر لو گے۔ اگر تم (جس طرح پہلے گناہ کی طرف بار بار لوٹتے تھے گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے تھے) اب اپنے ربّ کی طرف بار بار لوٹو اور توبہ کے بعد توبہ کرتے چلے جائو اور اَسْلِمُوْا اگر تم اپنے تمام اردوں اور نفسانی خواہشات سے کھوئے جائو اور خدا کی رضا میں محو ہو جائو خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لو تو جب نفسانیت پر موت وارد ہو جائے گی خداتعالیٰ کی رحمت اپنے چمکتے ہوئے نور کے ساتھ دوبارہ تمہیں زندگی عطا کرے گی۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قبل اس کے کہ میری گرفت، میرا قہر، میرا عذب تم پر نازل ہو میری طرف جھکو ایک بار نہیں بار بار میری طرف لوٹو توبہ کے ساتھ اور استغفار کے ساتھ اور اپنے دلوں کو ایسا بنا لو کہ ہر غیر ایک مردہ تمہیں نظر آئے اور زندہ اور حیات کا چشمہ میری ذات کے علاوہ تمہیں کوئی نظر نہ آئے اگر تمہاری یہ کیفیت ہو جائے اگر تم بار بار توبہ کرنے والے ہو اور اسلام کی روح اور مغز تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو اگرچہ ابھی تمہیں کسی عمل صالح کی توفیق نہیں ملی تب بھی میں تمہیں معاف کر دوں گا اور اپنی رحمت کی آغوش میں تمہیں لے لوں گا۔
ہمیں اس دنیا میں نظر آتا ہے کہ بہت سے خدا کے بندے اس انابت کی طرف مائل ہوتے ہیں یعنی بار بار استغفار کے ساتھ اور توبہ کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف جھکنے لگتے ہیں اور وہ اس یقین پر قائم ہو جاتے ہیں کہ جب تک ہم اپنی نفسانی خواہشات پر پورے طور پر موت وارد نہیں کریں گے ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی حاصل نہیں کر سکیں گے لیکن قبل اس کے کہ کوئی عمل صالح وہ بجا لا سکیں اجل آتی ہے اور اس دنیا سے وہ کوچ کر جاتے ہیں تو ان لوگوں کو بھی خدا نے کہا کہ اگر تمہاری یہ کیفیت ہے تب بھی تم مایوس نہ ہونا کیونکہ اس صورت میں بھی میں تمہیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لوں گا اور اپنے انعاموں اور فضلوں کا تمہیں وارث بنائوں گا لیکن اگر تم بار بار توبہ کرو اگر تم اس حقیقی روح اسلام کا دعویٰ کرو اور پھر تمہیں اور زندگی بھی عطا ہو تو یہ یاد رکھو کہ پھر عمل کے ساتھ تم نے صدق اور وفا کا ثبوت دینا ہے اگر تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ بڑی استغفار کرنے والے ہو اگر تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو پا گئے ہیں کہ اپنی تمام مرضیوں اور خواہشات کو خدا کی رضا پر قربان کر دینا چاہئے، لیکن تمہیں عمل کا موقع ملتا ہے عمل صالح کا اور تم وہ عمل صالح بجا نہیں لاتے تو پھر تمہارے انابت ظاہری اور تمہاری اسلام کا دعویٰ تمہیں کچھ کام نہیں دے گا۔
وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (الزمر:۵۶) اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں کہ تمہیں انابت الی اللہ اور اسلام کے بعد یعنی اس روح اسلام کے بعد جس کی طرف میں نے ابھی مختصراً اشارہ کیا ہے، موقع دیا جائے گا زندگی عطا ہو کچھ عرصہ تمہیں اس دنیا میں رہنے دیا جائے تو پھر یہ یاد رکھنا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہونا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم خاص قسم کے اعمال بجا لائو اپنے ربّ کو راضی کرنے کے لئے اور یہ نہ بھولو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا ربّ ہے اس نے تمہیں پیدا کیا اور فطرت صحیحہ عطا کی اور اس فطرت صحیحہ کی نشوونما کے لئے آسمان سے اس نے اپنی وحی کو نازل کیا اور فطرت فطرت میں اس نے فرق رکھا اور وقت وقت اور موقع موقع اس نے علیحدہ قسم کے رکھے۔ ہر قسم اور ہر موقع کے لحاظ سے ہر فطرت صحیحہ کے لئے ایک عمل صالح بنایا تو اگر تم اپنی حالت اپنی قوتوں اور استعدادوں کے مطابق اور موقع اور محل کے لحاظ سے احسن عمل بجا نہ لائو گے تو میری رحمت تم پر نازل نہ ہو گی لیکن اس زندگی میں جو انابت اور اسلام کے بعد کی ہے تم اپنی طاقت کے مطابق اپنے حالات کے لحاظ سے موقع اور محل کو دیکھتے ہوئے اَحْسَنَ مَآ ٰاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ پر عمل کرو گے جو بہترین حکم ہے اس پر عمل کرنے والے ہو گے اور یہ عمل تم موت کے وقت کرنے کا ارادہ نہیں کرو گے بلکہ انابت اور اسلام کے بعد زندگی کی وہ گھڑیاں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوئی ہیں جو عذاب سے پہلے کی ہیں۔ اس میں تم اَحْسَنَ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ پر عمل کرو گے تو ہماری رحمت کو تم پا لو گے اور پچھلے سارے گناہ تمہارے معاف کر دئیے جائیں گے بڑی ہی امید دلائی ہے ان آیات میں اس گنہگار بندے کو ہمارے ربّ نے اور وہ راہیں سکھائی ہیں کہ جن پر چل کر ہم اس کی رحمت کو حاصل کرتے ہیں اور اس کی مغفرت کو پا لیتے ہیں۔
یہاں ہر دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آ جائے اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی دوسری آیات قرآنیہ میں بھی اس موضوع کو بڑی وضاحت سے کھول کر بیان کیا گیا ہے یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب آئے تو خدا کا وہ فعل بتا رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تم محروم کر دئیے گئے ہو اور اس کے مقابلہ میں کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکتا اور جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے تو بَغْتَۃً ہوتا ہے یہ نہیں کہ وہ وقت کی تعیین کے ساتھ کہے کہ اب تمہاری پانچ سالہ زندگی رہ گئی ہے اور پانچ سال کے بعد تم پر عذاب آئے گا ایسا نہیں کرتا خداتعالیٰ کی گرفت ہمیشہ اچانک ہوا کرتی ہے اس واسطے ہر لمحہ ڈر کے اور خوف کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے پتہ نہیں کہ کس وقت اس کی قہری تجلی انسان پر وارد ہو اس لئے فرمایا کہ چونکہ عذاب کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی اس سے پہلے ہو جاتی ہے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں عذاب سے دو مہینے پہلے توبہ کر لوں گا اور خداتعالیٰ کے انعاموں کو حاصل کر لوں گا کیونکہ عذاب کا وقت مقرر نہیں۔
اس لئے جس وقت بھی انسان کے نفس کی یہ حالت ہو کہ وہ اپنے کئے پر پچھتانے لگے اور اس کی فطرت میں بیداری اور زندگی پیدا ہونے لگے اور شیطان اس کو خدا کی رحمت سے دور کرنے کے لئے اس کے دل میں مایوسی کے خیالات پیدا کرنے لگے اس وقت اللہ کہتا ہے کہ مایوس نہ ہونا چونکہ ابھی میری گرفت سے تم بچے ہوئے ہو میرا عذاب تم پر نازل نہیں ہوا، تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ عذاب نازل ہو اور میری قہری تجلی کا تم پر جلوہ ہو جائے اس لئے اسی وقت جب تمہارے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ ہم نے اپنے نفسوں پر بڑا ظلم کیا ہے کہ نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور فطرت صحیحہ کی آواز کو پہچانا نہیں۔ اسی وقت وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْالَہٗ (الزمر:۵۵) اور اسی وقت اِتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ (الزمر :۵۶) کرنے لگو اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارا ربّ جس نے تمہیں پیدا کیا اور بڑی قوتیں اور استعدادیں تمہیں عطا کیں اور روحانی ترقیات وہ تمہیں دینا چاہتا ہے وہ آہستہ آہستہ ترقی دے کر تمہیں تمہارے کمال تک پہنچائے گا اور تم اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جائو گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازے (آمین)
٭…٭…٭
جو لوگ خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل میں لگ جائیں
دنیا کی بہتر سے بہتر جزاء اور اُخروی زندگی میں اعلیٰ سے اعلیٰ ثواب انہیں ملے گا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ اپریل ۱۹۶۸ء۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ جو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے۔
٭ مومنوں کا فرض ہے کہ وہ بھی صرف اللہ پر توکل کرنے والے ہوں۔
٭ جو علم خلیفہ وقت کو حاصل ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے، وہ دوسروںکو حاصل نہیں ہو سکتا۔
٭ مشورہ جن سے کرنا ہے وہ خلیفہ کو اختیار دیا گیا ہے اور جن معاملات میں کرنا ہے وہ بھی خلیفہ وقت نے کرنا ہے۔
٭ عزم کرنا اور فیصلہ پر پہنچنا یہ بھی خلیفہ وقت کا کام ہے جماعت کا کام نہیں مجلس شوریٰ کا کام نہیں۔


تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْئٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلُّہٗ لِلّٰہِ
(اٰل عمران: ۱۵۵)
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَاعَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَـلَا غَالِبَ لَکُمْ ج وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ بَعْدِہٖ ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (اٰل عمران: ۱۶۰،۱۶۱)کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
قبل اس کے کہ میں آج کے خطبہ کامضمون شروع کروں میں ربوہ کے مکینوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی بڑے ماہر ڈاکٹر کراچی سے آئے ہوئے ہیں اور وہ مختلف ٹیسٹ وغیرہ کر کے صحت کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں اور بڑا ہی اچھا مشورہ بھی جنہیں ضرورت ہو مشورہ کی، طبی لحاظ سے وہ دیتے ہیں لیکن مجھے رپورٹ ملی ہے کہ اہل ربوہ اس طرف متوجہ نہیں ہو رہے یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی صحت کو دیکھنے کا اگر کوئی کہیں خرابی ہو تو اس کی تشخیص اور بعد میں اس کے فضل سے اس کے علاج کا سامان مہیا فرمایا ہے۔ قریباً تیرہ سَو ربوہ کے مکین ایسے ہیں جنہیں اس سال اپنی صحت کی چیکنگ کرانی چاہئے یہ ان کے علاوہ ہیں جو گزشتہ سال ان ڈاکٹروں کے سامنے پیش ہوئے تھے تو زیادہ سے زیادہ دوست اس طرف متوجہ ہوں اور پورا تعاون ان ڈاکٹروں سے کریں۔
اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو یا تو منافق ہیں یا ایمان کے کمزور ہیں۔ (ایمان کی ہر کمزوری نفاق پر دلالت نہیں کرتی) تو وہ لوگ یا جو پورے منافق ہوں یا جن کے ایمان پر پختگی نہ ہو بلکہ ایمان کی کمزوری ان میں پائی جاتی ہو۔ ان کے متعلق آل ـعمران کی ۱۵۵ آیت میں یہ فرمایا ہے۔ ان کا قول نقل کرتے ہوئے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو اہم امور فیصلہ ہوتے ہیں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عزم کرتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہئے اس سلسلہ میں ہمارا بھی کوئی دخل ہے۔؟؟ اور وہ یہ اعتراض کے طور پر اور طعنہ کرتے ہوئے ایسا منہ سے نکالتے ہیں کہ ہم سے مشورہ کے وقت مشورہ نہیں لیا جاتا اور جو مشورہ ہم دیں چاہے ہم نہایت ہی اقلیت میں ہوں وہ سنا نہیں جاتا تو اس صورت میں ہم پر کوئی ذمہ واری نہیں آنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ الْاَمْرَ کُلُّہٗ لِلّٰہِکہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے الْاَمْرُ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کے اختیار میں اور اس کے تصرف میں ہے۔ اس واسطے تمہارا جواب تو یہ ہے۔ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْئٍ کہ کیا ہمارا بھی ان معاملات میں کوئی دخل ہے؟ فرمایا نہیں!!! تمہارا کوئی دخل نہیں!! سب کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں اور اس نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کواس کے دو دوروں میں دنیا پر غالب کرے گا۔ اس کا فیصلہ بہرحال پورا ہوگا وہ جو چاہے گا جس رنگ میں چاہے گا کرے گا کسی کا کوئی حق اس سلسلہ میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا نہ کسی کا کوئی حق ہے کیونکہ اللہ کے خلاف کوئی شخص اپنا حق پیش نہیں کر سکتا جس نے پیدا کیا جس کے احسانوں کے نیچے انسان اس قدر دبا ہوا ہے کہ اس کے ایک ایک دن کے احسانوں کا ساری عمر میں شکر ادا نہیں کر سکتا اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو کے یہ حق جتائے اِنَّ الْاَمْرَ کُلُّہٗ لِلّٰہِ لیکن اَ لْاَمْرُ کُلُّہٗ لِلّٰہِچونکہ ہے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے تجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مومنوں کا بڑا خیال رکھنے والا ان کے احساسات کا بھی اور ان کی تربیت کا بھی۔ اس لئے اے نبی! ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ فَاعْفُ عَنْھُمْ تربیتی کمزوری کے نتیجہ میں ان سے جو غلطیاں سرزد ہو جائیں ان سے درگزر کرو اور وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بشری کمزورویوں کو دور کرے اور روحانی طاقت انہیں عطا کرے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بہترین انعاموں کے وارث ہوں۔
وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ اور ان کے دلوں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے اور دنیا میں ان کی عزت کو قائم کرنے کیلئے الْاَمْر میں ان سے مشورہ کیا کروکام سب خدا نے کرنے تھے۔ فیصلہ سب اللہ تعالیٰ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے۔ لیکن چونکہ مخلصین ان مشوروں میں شامل ہوتے تھے۔ آج بھی ہم بڑی عزت سے ان کا نام لیتے اور بڑی عزت سے ان کی یاد اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ تو فرمایا شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ اسلام کے اہم امور کے متعلق ان میں سے جن سے چاہو جن امور کے متعلق چاہو مشورہ کر لیا کرو۔ فَاِذَاعَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ سب مشورے سننے کے بعد جب کسی نتیجہ پر پہنچو اور پختہ ارادہ کرو کہ یوں ہونا چاہئے اور یوں نہیں ہونا چاہئے تو اس وقت کثرت کی طرف نظر نہ کرو۔ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور یقین رکھو کہ حقیقتاً وہی کارساز ہے کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر ہی توکل رکھنے والے ہوگے تو تمہیں بشارت دی جاتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے پیار اور محبت کا سلوک کرتاہے اور مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَـلَا غَالِبَ لَکُمْ۔ (آل عمران: ۱۶۰) اگر اللہ تعالیٰ کسی کی مدد اور نصرت کرتا ہے اور اسے کامیاب کرنا چاہے تو کوئی طاقت دنیا کی ایسے گروہ اور جماعت کو اور اُمت کو مغلوب نہیں کر سکتی نہ قانون کر سکتا ہے لیکن اگر اللہ مدد چھوڑ دے فَمَنْ ذَاالَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِنْ بَعَدِہٖ۔ تو کسی کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے تم کوئی کام کروگے اور کامیابی کی امید رکھو گے۔ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ یعنی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محض اللہ پر توکل رکھنے والے ہیں اسی طرح آپ کی سنت کی اور آپ کے اسوہ کی اتباع کرتے ہوئے مومنوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی صرف اللہ، صرف اللہ پر توکل کرنے والے ہوں۔
شورٰی کے متعلق یہاں جو تعلیم دی گئی ہے اس کے بعض حصوں کی میں وضاحت اس لئے کرناچاہتا ہوں کہ بہت سارے نئے دوست شوریٰ کے نمائندے بن کے آتے ہیں اور بہت سے پُرانے بھی بعض ضروری باتوں کو بھول جاتے ہیں ایسی باتیں ان کے سامنے رکھ کے یاددہانی کرواتے رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں شَاوِرْ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے ارشاد فرمایا ہے کہ ان سے مشورہ لیا کرو۔ مشورہ لینے کا حق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے یا آپ کی نیابت میں آپ کے خلفاء کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں یہ فرمایا تھا۔
’’مشورہ لینے کا حق اسلام نے نبی کو اور اس کی نیابت میں خلیفہ کو دیا ہے مگر کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ نبی یا خلیفہ کے سامنے تجاویز پیش کرنے کا حق دوسروں کے لئے رکھا گیا ہے‘‘۔
اسی طرح آپ نے فرمایا:
’’مجلس شوریٰ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی۔ وہ میرے بلانے پر آتی اور آ کر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی، اسے مشورہ دے گی وہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی کہ مشورہ دے‘‘۔
تو شاوِرْ کے اوّل مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کی نیابت میں آپ کے خلفاء اس کے مخاطب ہیں تو مشورہ لینے کا حق نبی کو اور نیابت کے طور پر خلیفہ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے پچھلے سال غالباً مجلس شوریٰ میں مَیں نے ایک اور زاویہ نگاہ سے بھی اس پر روشنی ڈالی تھی اور وہ یہ کہ اگر یہ سمجھا جائے کہ جماعت کا حق ہے خلیفہ وقت کا حق نہیں تو جس کا حق ہے اس کا یہ بھی حق ہوتا ہے کہ وہ اپنا حق چھوڑ دے اگر کسی سے زید نے ایک سَو روپیہ لینا ہو تو اسے یہ حق خدا نے بھی اور رسول نے بھی، اخلاق نے بھی، شریعت نے بھی اور ملک کے قانون نے بھی دیا ہے کہ وہ کہے کہ میں اپنا یہ سَو روپیہ وصول نہیں کرتا اگر جماعت کو یا اس کے بعض گروہوں کو یا افراد جماعت کو بحیثیت افراد کے یہ حق دیا جاتا اور یہ ان کا حق تسلیم کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں وہ ہمارا حق ہے ہم اسے استعمال نہیں کرتے ہم خلیفہ وقت کو کوئی مشورہ نہیں دیں گے لیکن اس کے برعکس اگر مشورہ لینے کا حق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی نیابت میں آپ کے خلفاء کا ہے تو پھر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب مجھ سے مشورہ مانگا جائے مشورہ کیلئے مجھے بلایا جائے میری مرضی ہے جاؤں مشورہ دوں یا نہ دوں اس لئے کہ یہ حق خلیفہ وقت کا ہے اور جماعت پر یہ حق ہے خلیفہ وقت کا کہ جب جن لوگوں کو جن امور کے متعلق وہ مشورہ کیلئے بلائے وہ اس کے کہنے اور ہدایت کے مطابق اس کے سامنے اپنے مشورہ کو رکھیں۔
شَاوِرْھُمْ ان سے سوال پیدا ہوتا ہے کن سے؟؟؟ تو اس میں بھی ھُمْ کے فیصلہ کرنے کا حق خلیفہ وقت کو نبی اکرم کی نیابت میں ہے۔ اور کن سے مشورہ کرنا ہے اور جن سے مشورہ کرنا ہے اگر ان کا انتخاب ہونا ہوتو کس طریق سے ان کا انتخاب ہوگا یہ فیصلہ بھی خلیفہ وقت نے ہی کرنا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے اُسوہ میں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے بعض مواقع پر جب مسلمان تھوڑے تھے اور قریباً بہت بھاری اکثریت مدینہ میں بھی رہتی تھی تواس وقت مسلمانوںکا سوادِ اعظم مدینہ میں رہائش پذیر تھا اس وقت چند سَو جوتھے وہی سوادِ اعظم بن جاتا تھا تو آپ سب کو اکٹھا کر لیتے تھے اور ایک چھوٹی بے تکلف برادری تھی اس میں وہ اکٹھے ہوتے اور آپ کو مشورہ دیتے تھے جو آپ فیصلہ کرتے خدا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر کے آپ کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے اور بعض دفعہ آپ نے صرف چند آدمیوں کو بُلا کے بھی مشورہ لیا ہے اور بعض دفعہ دوسروں کو صرف یہ پتہ لگا بعض قرائن سے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں مشورہ کے لئے روک لئے گئے۔ نہ خود آپ نے اعلان کیا کہ میں نے مشورہ کرنا ہے ایک موقع پر صرف دو آدمیوں کو کہا عشاء کے بعد کہ تم ٹھہرے رہو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں کیا بات تھی؟ اس کا ہمیں آج تک نہیں پتہ تو مشورہ کا یہ طریق بھی ہوتا ہے۔ تو ھُمْ کا یہ فیصلہ کرنا ہاںجب مسلمان سارے عرب میں پھیل گئے تو اس کے بعد سوادِ اعظم سے مشورہ کرنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ ساری دنیا میں پھیل گئے۔ آج بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ دنیا کے کونے کونے میں پائی جاتی ہے اور مشورہ کے لئے جماعت احمدیہ کی تمام جماعتوں کو مرکز میں جمع کرنا قریباً ناممکن ہے اس لئے سب کو اکٹھا کر کے تو مشورہ نہیں لیاجا سکتا پھرکن سے مشورہ لیا جائے اور ان کا انتخاب کس رنگ میں ہو؟ یہ کام بھی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ظاہر ہوتا ہے خلیفہ وقت کا ہے چنانچہ یہ جو آل عمران ہی کی آیت کا ایک حصہ جو پہلے میں نے پڑھا تھا یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْئٍ اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو خاص طور پر مشورہ سے باہر رکھا جاتا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ کہتے ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْئٍ تو بعض ایسے لوگ جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ ان میں نفاق پایا جاتا ہے یا یہ دل کے مریض ہیں روحانی طور پراور معاملہ ایسا ہے کہ ان لوگوں کے سامنے رکھانہیں جانا چاہئے تو ان لوگوں کے سامنے وہ معاملہ نہیں رکھتے اور ان کا مشورہ بھی نہیں لیتے تھے گو اگراس قسم کے امور نہ ہوں تو پھر کھلم کھلا جو منافق ہو بعض دفعہ ان سے بھی مشورہ لے لیا جاتا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ فیصلہ تو بہرحال نبی نے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں خلیفہ نے ہی کرنا ہے تو ھُمْ جو کہا گیا ہے اس کا فیصلہ خلیفہ وقت نے کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی یہی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد بھی یہی ہے بعض لوگوں کو روکا جا سکتا ہے اور ان کی نمائندگی کو ردّ کر دیا جا سکتا ہے آپ شوریٰ کی ایک تقریر میں فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ لڑاکے اور فسادی ہوں، نمازوں کی پابندی کرنے والے نہ ہوں، جھوٹ بولنے والے ہوں، معاملات میں اچھے نہ ہوں، بلاوجہ ناجائز افتراء اور اعتراض کرنے والے ہوں یا منافق یا کمزور ایمان والے ہوں ان کو بطور نمائندہ انتخاب کرنا جماعت کی جڑ پر تبر رکھنا ہے۔ ہمارے لئے وہی لوگ مبارک ہیںجن کے اندر دین اور تقویٰ ہے خواہ وہ اچھی طرح بول بھی نہ سکتے ہوں‘‘۔
تو بعض دفعہ مقامی جماعت کو علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ شخص کس قسم کا ہے اور بڑی دیانتداری کے ساتھ عدم علم کی وجہ سے ایک ایسے شخص کو جو منافق ہوتا ہے حقیقتاً اپنا کوئی عہدیدار منتخب کر لیتے ہیں پریذیڈنٹ یا امیر بنا دیتے ہیں، یا مجلس شوریٰ کا نمائندہ بنا کر بھیجنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ یہ مشورے ہیں خلیفہ وقت کو جس کو کہنے والوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں (کہنے والے نے اتباع نہیں کی بلکہ خلیفہ وقت کا چونکہ وہ نیابت کا مقام ہوتا ہے) جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیا تھا کہ ھُوَاُذُنٌ تو خلیفہ وقت کو بھی بعض لوگ کہتے رہتے ہیں کہ ھُوَاُذُنٌ تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہے تو یہ کان آئیں گی اس کے پاس خبریں ہر مخلص مومن جب سمجھے گا کہ کوئی ضروری بات نبی کو یا اس کی نیابت میں جو خلیفہ ہو خلیفہ وقت کو پہنچانی چاہئے وہ اس کو ضرور پہنچائے گا لیکن خلیفہ وقت ان تمام باتوں کو سننے کے بعد جس نتیجہ پر پہنچے گا جو فیصلہ کرے گا وہ تمہاری بھلائی کا ہوگا تو جو علم اس قسم کے افراد کے متعلق خلیفہ وقت کو ہوتا ہے وہ بعض دفعہ مقامی جماعت کو بھی نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ ایک جماعت نے بہت بھاری اکثریت میں ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کر کے یہاں بھیج دیا جب حضرت صاحب کی خدمت میں اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ یہ مشورہ یہ انتخاب جماعت کا نامنظور ہے کیونکہ یہ شخص جو ہے اس کے اندر ایمانی کمزوری پائی جاتی ہے اس قابل نہیں کہ اس کو امیر بنایا جائے چند ماہ کے بعد ہی وہ شخص بہائی بن گیا اور جماعت کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کے اندر کون سا کیڑا لگ چکا ہے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ تھا تو جو علم خلیفہ وقت کو حاصل ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتا بعض دفعہ پوری جماعت کو بھی نہیں ہوتا خلیفہ وقت کہتا ہے کہ میں اس کے امیر بنائے جانے کی منظوری نہیں دیتا یا میں اسے مجلس مشاورت کا نمائندہ بننے کی اجازت نہیں دیتا کئی لوگ ہوتے ہیں ان کو ویسے بھی شوق ہوتا ہے آگے بڑھنے کا اور اپنے شوق میں وہ بہت ہی معیوب اور نامناسب حرکتیں بھی کر لیتے ہیں اگر مجلس ہے یا ویسے ہی نام آ جاتا ہے امیر بھی چیک کرنا پڑتا ہے کہ جس شخص نے یہ لکھا کہ مجھے فلاں جماعت کی مجلس مشاورت کا نمائندہ بنایا ہے اس کے متعلق یہ تسلی کرنی پڑتی ہے کہ وہاں کی جماعت کا اجلاس بھی ہوا؟ اور وہاں یہ معاملہ ان کے سامنے رکھا بھی گیا یا نہیں اور ایک آدھ آدمی ایسا نکل آتا ہے کہ جو اپنے جوش میں یہ سمجھتا ہے کہ جب میں نے ارادہ کر لیا شوریٰ میں جانے کا تو جماعت میرے ساتھ ہی ہے تو قواعد کی پرواہ نہیں کرتا اور خود ہی نمائندہ بن کے آ جاتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق پوری تسلی کی جاتی ہے لیکن بہرحال انسان غلطی بھی کرتا ہے لیکن جب پتہ لگ جائے تو نمائندگی سے ہٹا دیا جاتا ہے نمائندگی منظور نہیں کی جاتی تو ھُمْ کا فیصلہ کرنا یہ بھی خلیفہ وقت کا کام ہے جماعت کا یا بعض لوگوں کا جو اپنے آپ کو چوہدری سمجھتے ہیں، پھنے خاں بنتے ہیں ان کا یہ کام نہیں۔
فِی الْاَمْرِ مشورہ جن سے کرنا ہے وہ بھی خلیفہ وقت کو اختیار دیا گیا ہے اور جن معاملات میں کرنا ہے وہ بھی خلیفہ وقت نے کرنا ہے کہ الامر سے کیا مراد ہے اور وہ جو پہلے میں نے آیت پڑھی تھی اس کے اس ٹکڑہ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے وہاں دراصل دو استدلال ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہم سے مشورہ نہیں لیا جاتا ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْئٍ کہ جن امورکے متعلق مشورہ لیتا ہے۔ نبی یا خلیفہ وقت اس کی نیابت میں اس کا فیصلہ ہم سے پوچھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ خود کر دیا جاتا ہے کہ اَلْاَمْر کیا ہے؟ اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
’’میں نے تجاویز پیش کرنے کا جو طریق رکھا تھا وہ اس خیال سے رکھا تھا کہ تجاویز میرے پاس آئیں گی اور میں ان ہم سے جو مفید سمجھوں گا لے لوں گا مگر اب یہ صورت ہوگئی ہے کہ جس کی تجویز نہ لی جائے وہ سمجھتا ہے کہ اس کا حق مارا گیا‘‘۔
(رپورٹ مجلس شوریٰ ۱۹۳۰ء)
تو جن اہم امور کے متعلق مشورہ دینا ہے یہ امور ایسے ہونے چاہئیں جن کا تعلق نصوص قرآنیہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشاد ہیں ان کا ان سے تعلق نہ ہو وہ تو ایک قانون ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی اس میں انسان کی بہتری ہے اس رنگ کی جمہوریت جو آج کل مقبول ہو رہی ہے وہ نہ یہ کہ اسلام میں نہیں بلکہ اسلام اسے ناپسند کرتا ہے اور اسلام نے مسلمان کی آزادی قرآن کریم کی شریعت کے احاطہ کو اندر رکھتی ہے اس سے باہر نہیں آج کی جمہوریت کا تو یہ حال ہے کہ انگلستان کی جمہوریت نے، عوام کے نمائندوں نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ بداخلاقی جائز ہے اس قسم کی جمہوریت اسلام کیسے پسند کر سکتا ہے؟ اور اگر آج کی جمہوریت کے مطابق اسلام مسلمانوں کو آزادی دیتا تو کسی وقت میں اپنے تنزل کے زمانہ میں مسلمان بھی اس قسم کی باتیں کر لیتے۔ اگر اس قسم کی جمہوریت مسلمانوں میں ہوتی تو اکثریت نے تو کہہ دیا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہ زکوٰۃ لینے میں کچھ ڈھیل کر دی جائے مگر خدا کے اس پیارے بندے نے یہ کہا تھا کہ میں تمہارا نائب نہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور خلیفہ ہوں اور آپ کی نیابت میں جو میرے حقوق ہیں وہ حقوق تم سے منواؤں گا اور دین کے معاملہ میں تمہارے کسی مشورہ کو سننے کے لئے تیار نہیں ہوں کل (تو نہیں مجھے کہنا چاہئے لیکن گزشتہ کل جو گزر چکی تھی) جب اسلام ۱۸ویں صدی میں اپنے تنزل کی انتہائی گہرائیوں میں پڑا ہوا تھا اس وقت جب شاید ننانوے فی صدی یا اس سے بھی زائد مسلمان تارک الصلوٰۃ تھے اگر رائے عامہ کی جاتی تو بھاری اکثریت یہ کہتی کہ زمانہ بدل گیا اب اس قسم کی نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں چلو نمازیں معاف تو اس قسم کی جمہوریت جو ہے اسلام اس کا قائل نہیں اور جب تک خلفاء نبی کے بعد اس کی نیابت میں اسلام کے کاموں کے ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں وہ ان باتوں کے متعلق کسی سے بھی مشورہ نہیں کرتے ہاں جب کوئی الجھن پیدا ہو جائے تو وہ اپنے ربّ کے حضور جھکتے اور اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور وہ ہمارا پیارا ربّ ایسے اوقات میں راہنمائی کرتا ہے اور ہدایت کے رستوں کی نشان دہی کرتا ہے تو فِی الْاَمْرِ کا فیصلہ کرنا کہ وہ کون سے اہم امور ہیں کہ جن کے متعلق مشورہ لینا ہے یہ بھی خلیفہ وقت کا کام ہے اس واسطے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم جو کہتے ہیں ان امور پر مشاورت میں بات ہونی چاہئے مشاورت کے سامنے وہی امر جائے گا جس کی اجازت خلیفہ وقت دے گا اور جس کے متعلق وہ سمجھے گا کہ مجھے جماعت کے اہل الرائے احباب سے مشورہ لینا چاہئے۔
پھر فرمایا فَاِذَا عَزَمْتَ عزم کرنا اور فیصلے پر پہنچنا یہ بھی خلیفہ وقت کا کام ہے جماعت کا کام نہیں، مجلس شوریٰ کا کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تو عزم کرلے فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ پھر مسلمانوں کا خیال بھی تو رکھنا ہے ان سے نرمی اور پیار کا سلوک بھی کرنا ہے اور ان کی تربیت بھی کرنی ہے لیکن یہ نہیں دیکھنا کہ ننانوے فی صدی مشورہ دینے والوں کی اکثریت اس میرے فیصلے کے خلاف ہے کبھی کہیں کوئی خرابی پیدا نہ ہو جائے جب دیانتداری سے تم کسی فیصلہ پر پہنچو تو خدا کے سوا کسی اور پر نگاہ نہیں رکھنی فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِکیونکہ اسی میں کامیابی کا راز ہے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:۔
’’مجلس شوریٰ کوئی فیصلہ نہیں کرتی مجلس شوریٰ خلیفہ وقت کے مطالبہ پر اپنا مشورہ پیش کرتی ہے پس مجلس مشورت شَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ کہ تولوگوں سے مشورہ لے خلیفہ وقت لوگوں سے مشورہ مانگتا ہے اس پر لوگ مشورہ دیتے ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خلیفہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی بات ہونی چاہئے اور کونسی نہیں‘‘۔
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم کسی نتیجہ پر پہنچ جاؤ تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور پختہ یقین پر قائم ہوتے اور رہتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے وہی ہماری مدد کرے تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے تو ہم ناکامی کا منہ دیکھیں گے خدا پر توکل رکھتے ہوئے اپنے فیصلہ کو جاری کر دو اور فَاِذَاعَزَمْتَ کے اوقات میں جب خلیفہ وقت اپنے فیصلے کا اعلان کرے مسلمانوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ قف فَلَوْصَدَ قُوْا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ (سورۃ محمد:۲۲)کہ جب کسی کام کے کرنے کے متعلق خلیفہ (یہاں عزم جو کہا گیا ہے وہ دوسری جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوائے خلیفہ کے کسی نے عزم نہیں کرنا نبی کے بعدجب خلیفہ)کسی فیصلہ کو پہنچ جائے اور اپنے دل میں پختہ ارادہ کر لے کہ اگر یوں کیا جائے تو جماعت کو روحانی اور جسمانی فائدہ ہے اس لئے یوں کیا جائے گا تو مسلمانوں کا کیا فرض ہے؟ مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ جو انہوں نے اپنے خدا کے ہاتھ پر ہاتھ دے کر خدا اور خلیفہ وقت کے لئے عہد اطاعت باندھا تھا اس کو وہ پورا کریں اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل میں لگ جائیں۔ لَکَانَ خَیرًا لَّھُمْ دنیا کی بہتر سے بہتر جزاء اور اُخروی زندگی میں اعلیٰ سے اعلیٰ ثواب انہیں ملے گا۔ لَکَانَ خَیرًا لَّھُمْ۔
جس وقت شورٰی میں مشورہ کیلئے بلایا جائے تو ایک تو ہر ایک احمدی کا فرض ہے جس کی نمائندگی کی منظوری مل گئی ہو کہ وہ شوریٰ میں آئے۔دوسرے اس پر فرض ہے کہ وہ شوریٰ میں باقاعدگی کے ساتھ بیٹھا رہے۔تیسرا اس کا یہ فرض ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ وہ کارروائی کو سنے اور پھر اس کا یہ فرض ہے کہ وہ پوری دیانتداری کے ساتھ جذبات کی رو میں نہ بہتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرے خواہ الفاظ کے ذریعہ اگر اسے بولنے کا موقعہ ملے اور موقع دیا جائے یا ہاتھ کھڑا کر کے ووٹنگ کے ذریعہ اگر ووٹنگ ہو اور اس کا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ وہ سارا وقت دعاؤں میں مشغول رہے اور اپنے ربّ کے حضور عاجزانہ جھک کر اس سے یہ گزارش کرے کہ اے میرے ربّ! تو جانتا ہے کہ ہم کتنے کمزور ہیں اور تیرے دین کی خاطر تیرے خلیفہ نے بعض مشوروں کے حصول کے لئے ہمیں یہاں بلایا ہے ہمیں یہ توفیق عطا کر کہ ہم کوئی ایسا مشورہ نہ دیں کہ جو تیرے دین کو نقصان پہنچانے والا اور ہمیں تیرے عتاب کا مورد بنانے والا ہو۔
ہر وقت دعا کرتے ہوئے اللہ سے اللہ کا نور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک نورانی فضا پیدا کر کے خلیفہ وقت کے سامنے اپنے مشوروں کو رکھیں اور جب کوئی فیصلہ سنا دیا جائے کسی مشورہ کے بعد تو اس پختہ ارادہ کے ساتھ وہاں سے اُٹھیں کہ ہم اپنی پوری طاقت اور پوری توجہ سے اس فیصلہ کی تعمیل ان لوگوں سے کروائیں گے جن کا تعلق اس سے ہو۔
اس طرح جب خلیفہ وقت جماعت کو یا بعض افردا جماعت کو اس لئے بلائے، صدر انجمن احمدیہ کے قواعد کے مطابق کہ اکٹھے ہو اور مشورہ دو کہ تمہاری نمائندگی کون کرے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس مجلس سے اس لئے اُٹھ کر چلا جائے کہ وہاں کوئی ایسی بات ہوئی ہو جو اس کی طبیعت پر گراں گزری ہو یہ اطاعت سے نکلنا ہے ہمیشہ اس سے بچنا چاہئے اور اگر اس قسم کا قصور ہو جائے تو بڑی استغفار کرنی چاہئے یہ کوئی دنیوی کھیل یا تماشہ یا دنیوی سیاست نہیں ہے ہم سب ساری دنیا کو ناراض کر کے اپنے ربّ کے قدموں پر جھک گئے ہیں اس لئے کہ وہ ہمارا مولیٰ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا کو ہم پا لیں اگر اس کے بعد بھی ہم اس کی طرف پیٹھ پھیر لیں دنیا کی طرف اپنامنہ کر لیں تو ہم سے زیادہ کوئی بدبخت نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی رضا کی جنت ہی میں رکھے اور شیطان کا کوئی وار ہم پر کارگر ثابت نہ ہو۔
٭…٭…٭

اللہ تعالیٰ کے راستہ کی طرف دعوت دینے کا قرآنی طریق اور اُس کے مختلف پہلو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍اپریل ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ قول احسن کی پابندی کرنے والا ہو۔
٭ اگر تم اپنی زبان سنبھال کر نہیں رکھو گے تو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی بجائے شیطان کے مقرب ٹھہرو گے۔
٭ زبان سے ایک بڑا کام الٰہی سلسلوں میں بنی نوع انسان کو دعوت الی اللہ کا لیا جاتا ہے۔
٭ خاموشی بھی ایک بلیغ زبان ہے جو بسااوقات بڑی ہی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
٭ وہ قول جو فساد اور باہمی جھگڑوں کی طرف لے جاتا ہے وہ قولِ احسن نہیں ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں۔
قُلْ لِّعِبَادِيْ یَقُوْلُوْا الَّتِيْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ۔ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا (بنی اسرائیل: ۵۴) اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل: ۱۲۶)
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَِاذَاالَّذِيْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِیْمٌ۔ وَمَا یُلَقّٰھَا اِلاَّالَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَایُلَقّٰھَا اِلاَّ ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ۔(حم سجدہ: ۳۴ تا ۳۶)
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰـطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ۔ (المومنون: ۹۷تا۹۹)
اس کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی زبان کو بھی آزاد نہیں چھوڑا اس پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں اور ایک مومن کا فرض قرار دیا ہے کہ وہ صرف سچ ہی بولنے والا نہ ہو، صرف قولِ سدید کا ہی پابند نہ ہو بلکہ احسن قول کی پابندی کرنے والا ہو اور حکمت یہ بیان کی کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دے گا۔ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ انسان کی زبان کا اعمال صالحہ میں سے ہر عمل کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا ہے اور ہرعمل کو انسان کی زبان ضائع بھی کر سکتی ہے اس لئے انسان کی زبان کو، اس کے قول کو، اس کے اظہار کو اسلام نے بڑی ہی اہمیت دی ہے اور اسے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم اپنی زبان سنبھال کر نہیں رکھو گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی بجائے شیطان کے مقرب ٹھہرو گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی اصولی تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے۔
بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا
جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جا گرا
پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے
دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
وہ اِک زباں ہے عضوِ نہانی ہے دوسرا
یہ ہے حدیث سیّدنا سید الوریٰ
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۱۹)
غرض جہاں تک عام بول چال کا تعلق ہے، اظہار کا تعلق ہے، جب دو انسانوں کے درمیان واسطہ پیدا ہوتا ہے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں، ایک دوسرے کے افسر یا ماتحت ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی نگرانی میں ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے راعی اور رعیت بنتے ہیں، سب کے لئے خواہ وہ دنیوی لحاظ سے بالا مقام نہ رکھتے ہوں ماتحتی کا مقام رکھتے ہوں، خواہ وہ سکھانے والے ہوں یا سیکھنے والے ہوں، اثر انداز ہونے والے ہوں یا اثر کو قبول کرنے والے ہوں۔ ہر ایک کیلئے یہ حکم دیا ہے کہ یَقُولُوا الَّتِیْ ھَیَ اَحْسَنُ جو سب سے اچھی بات ہے، جو سب سے اچھے طریقہ پر بات ہو اس کی پابندی کرو ورنہ تم شیطان کے لئے رخنوں کو کھولتے ہو۔
زبان سے ایک بڑا کام الٰہی سلسلوں میں یہ لیا جاتا ہے (اور ’’زبان‘‘ کے اندر ’’قول‘‘ کے اندر ہر قسم کا اظہار ہے) کہ تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دی جاتی ہے اس لئے آج جن کو مَیں مخاطب کرنا چاہتا ہوں وہ صرف پاکستان سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ میرے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اپنے کو منسوب کرتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور میں انہیں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ایک صداقت کو صداقت سمجھ کر قبول کیا ہے آپ اس یقین پر قائم ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام والسلام کے ذریعہ آپ کے لئے قرآنی ہدایت کی ان راہوں کی نشان دہی کی ہے جو قرب الٰہی تک پہنچانے والی ہیں اور آپ کے دل میں یہ درد پیدا ہوتا ہے کہ جس صداقت کو، جس روشنی کو، جس نور کو، جس جنت کو، جس نعمت کو آپ نے پایا ہے آپ کے دوسرے بھائی بھی اسے پائیں اور اسے سمجھیں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وہ بھی وارث ہوں۔ اس کے لئے آپ کو اظہار کرنا پڑتا ہے زبان سے بھی، اشاروں سے بھی بعض دفعہ خاموشی سے بھی اور تحریر سے بھی اور عمل سے بھی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے دل میں ایک زبردست خواہش پیدا ہوگی کہ وہ جنہوں نے اسلام کی صداقت کو قبول نہیں کیا اور اس کی حقانیت کو نہیں سمجھا اور اس کی روح کو حاصل نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے وہ محروم ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی فیوض سے وہ ناواقف ہیں یہ لوگ بھی ان تمام باتوں کو سمجھیں اور پہچانیں اور اِس زندگی اور اُس زندگی کی بہبود کا اور کامیابی اور فلاح کا سامان پیدا کریں ہم انہیں یہ کہتے ہیں کہ تم اپنے ربّ کے راستہ کی طرف ان لوگوں کو ضرور بلاؤ لیکن یاد رکھو کہ یہ دعوت (اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ) حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ہونی چاہئے۔
حِکمت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ علم اور عقل کے ذریعہ حق کو درست پایا اور احقائق حق کے لئے علمی اور عقلی دلائل دینا (جن سے قرآن عظیم بھرا ہوا ہے) پس اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ علمی اور عقلی دلائل ان لوگوں کے سامنے رکھو جو اپنے ربّ کو پہچانتے ہیں دوسرے معنی حِکمت کے قرآن کریم اور اس کے مضامین اور اس کی تفسیر کے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم میں بہت سے روحانی علمی اور عقلی دلائل رکھے گئے ہیں اور وہی مضبوط تر اور بہتر دلائل ہیں یعنی تم قرآن کریم کے ذریعہ اپنے ربّ کے راستہ کی طرف مخلوق خدا کو بلاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے (اور یہ تیسرے معنی ہیں) کہ الصَّمْتُ حُکْمٌ وَقَلِیْلٌ فَاعِلُہٗ (مفردات راغب میں ہے کہ یہاں حکم سے مراد حکمت ہے) اور آپ نے یہ فرمایا کہ خاموشی بھی بعض دفعہ حکمت میں شامل ہوتی ہے لیکن کم ہیں جو اسے سمجھتے اور اس پرعمل کرتے ہیں جس وقت مخالفِ اسلام اپنی مخالفت میں بڑھ جاتا ہے اور امن کی فضا کو مکدر کر کے فتنہ و فساد کو پھیلانا چاہتا ہے اُس وقت اُدْعُ اِلٰي سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِکے یہ معنی ہوں گے کہ اس کے جواب میں خاموشی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی راہ کی طرف تم بلاؤ کیونکہ خاموشی بھی ایک بلیغ زبان ہے جو بسا اوقات بڑی ہی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں
حکمت کے ایک معنی مَعْرِفَۃُ الْمَوْجُوْدَاتِ وَ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق پیدا کی ہے اس کا صحیح علم حاصل کرنا اور نیکیاں بجا لانا یعنی نیک کام اور حسن سلوک کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ ہر ایک مخاطب سے اس کی طبیعت، ذہنیت اور اس کے علم اور اس کی فراست کے مطابق بات کرو ورنہ وہ سمجھ نہیں سکے گا۔ ایک عام آدمی کے سامنے اگر آپ فلسفہ کی باریک باتیں پیش کریں تو وہ آپ کا منہ دیکھتا رہ جائے گا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دعوت الٰی الحق کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ نے اپنی ہمہ دانی کا یا فلسفی ہونے کا اظہار کرنا ہے۔ دعوت الٰی الحق کے یہ معنی ہیں کہ وہ جو راہ سے بھٹکا ہوا ہے سیدھی راہ کی طرف آجائے اور وہ اس راستہ کو تبھی پہچان سکتا ہے جب جو بات آپ کریں وہ اس کو سمجھنے کے قابل بھی ہو اور یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ صرف بات کا اس کے اوپر اثر نہیں ہوگا بلکہ جو سلوک اور جو برتاؤ تمہارا اس کے ساتھ ہوگا وہ اس پر بہت اثر انداز ہوگا اس لئے بِالْحِکْمَۃِ نیک سلوک کے ساتھ تم اُسے اپنی طرف کھینچو اور اس کے ذہن اور فراست اور علم کے مطابق قرآنی دلائل اس کے سامنے رکھو تا کہ وہ نور جو اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں رکھا ہے اس کے دل پر اثر کرنے اور اُسے روشن کرنے والا ہو جائے۔
وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں جب بھی الٰہی سلسلے جاری کئے جاتے ہیں اس وقت ساتھ ہی ساتھ انذار کا بھی ایک پہلو ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء کے سردار اور تمام انبیاء کے حقیقتاً (معنوی لحاظ سے) باپ بھی ہیں کیونکہ ہر ایک نے آپ سے فیض حاصل کیا آپ کی کتاب سے فیض حاصل کیا جس کا ایک حصہ ان کو دیا گیا تھا آپ نے دنیا کی محبت میں اور اس فکر میں کہ دنیا اپنے ربّ کو پہچانتی نہیں اپنی زندگی کے تمام لمحات گزارے لیکن اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اور عین اس کی وحی کے مطابق آپ نے دنیا کو بہت ڈرایا بھی اس سے نہیں کہ اگر تم میری خدمت نہیں کرو گے تو تباہ ہو جاؤ گے بلکہ اس سے کہ اگر تم اپنے ربّ کو نہیں پہچانو گے تو اس کے غضب کا مورد ہو گے اور تباہ ہو جاؤ گے۔
غرض انبیاء علیہم السلام جہاں دنیا کی بھلائی کے لئے ان کی خیر خواہی کیلئے ہر قسم کے اچھے کام کرتے ہیں وہاں ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو جھنجھوڑیں اور جگائیں اور کہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہو گے تو وہ ناراض ہو جائے گا اور تمہیں اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی گھاٹے کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انذار (موعظہ کے اندر ہی انذار کا پہلو بھی آتاہے کیونکہ موعظہ اس نصیحت کو کہتے ہیں جس میں انذار ملا ہوا ہو) تو پہنچانا ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے لیکن اچھے رنگ میں پہنچاؤ جس سے وہ اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوں اس سے نفرت اور فرار کے پہلو کو اختیار نہ کریں وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِيَ اَحْسَنُ اور وہ ایک غلط رائے پر قائم ہیں اور غلط عقائد پر وہ کھڑے ہیں اس لئے تم جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کی ہدایت پر عمل کرو۔ جدال کے معنی رائے کو موڑ دینے کے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ جو اختلافات وہ تم سے رکھتے ہیں ان اختلافات کو دور کرنے کے لئے فساد کی راہیں نہیں بلکہ امن اور صلح کی راہوں کو اختیار کرو اور اس طرح پر ان کے خیالات کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کرو۔
جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ سننے یا پڑھنے کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اَحْسَنُ کیا ہے کیا اس اَحْسَنُ کی تلاش ہم نے خود کرنی ہے یا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی طرف راہ نمائی فرمائی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلٰی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کہ قول کے لحاظ سے احسن وہ ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔ پس ہر وقت جو صحیح طریق پر دی گئی ہو اور جس کا مقصود یہ ہو کہ خدائے واحد و یگانہ کو دنیا پہنچاننے لگے وہ احسن قول ہے وہ قول جو شرک کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو بدعت کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو دہریت کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو فساد کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو باہمی جھگڑوں کی طرف لے جاتا ہے وہ قول احسن نہیں احسن قول وہی ہے جو اللہ کی طرف لے جانے والا ہے اور چونکہ صرف زبان کا دنیا پر اثر نہیں ہوتا جب تک عملی نمونہ ساتھ نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَعَمِلَ صَالِحًا۔ پس تم پر فرض ہے کہ تم اپنے عملی نمونہ سے دنیا پر یہ ثابت کرو کہ تم واقعہ میں خدا کے مقرب اور اس کی طرف بلانے والے ہو تمہیں اپنا فائدہ مطلوب نہیں ہے۔ ہم تمہاری فلاح اور تمہاری نجات اس میں دیکھتے ہیں کہ تم اپنے ربّ کو پہچاننے لگو اور اسی کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ ہم واقعہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، اپنے فائدہ کی تلاش میں نہیں ہیں یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں یہ نہیں کہ ہم تمہیں کہیں کہ تم خدا تعالیٰ کیلئے مالی قربانیاں دو لیکن ہم خود مالی قربانیوں میں پیچھے ہوں ہم تمہیں کہیں کہ خدا کے لئے اپنے نفسوں کی قربانی دو اور خود ہمارا یہ حال ہو کہ ذرا سی بات پر ہمارے جذبات بھڑک اُٹھیں، نہیں بلکہ احسن قول اس کا ہے جو اپنی زبان سے بھی اللہ کی طرف بلانے والا ہے اور اپنے افعال سے بھی اللہ کی طرف سے بلانے والا ہے وَقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اور اس کی روح کی بھی یہی آواز ہے کہ میں مسلم ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم بھی مسلمان بن جاؤ میں تم سے کسی دنیوی فائدہ کا طالب نہیں مَیں نے تو اپنا سب کچھ ہی اپنے ربّ کے قدموں پر قربان کر دیا ہے میری تو اپنی کوئی خواہش باقی نہیں رہی، میرا تو اپنا کوئی جذبہ باقی نہیں رہا، میرا تو اپنا کوئی مال باقی نہیں رہا جو تمہاری نظر میں میری اولاد یا رشتہ دار ہیں ہر آن میری روح کی یہ آواز ہے کہ جہاں مَیں اپنے نفس کو اپنے خدا کی راہ میں قربان کروں یہ بھی اس کی راہ میں قربان ہو جائیں۔ اگر یہ تین آوازیںتم دنیا میں بلند کرو گے زبان، عمل صالح اور روح کی پکار یعنی تمہاری دعوت بھی اللہ کی طرف ہے تمہارا عمل بھی محض اس کے لئے ہے اور تمہاری روح بھی اس کے آستانہ پر پڑی ہوئی ہے تو پھر تم لوگوں کو رب کی طرف اپنے پیدا کرنے والے کی طرف واپس لوٹا لانے میں کامیاب ہوگئے ورنہ نہیں وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اور حقیقت یہی ہے کہ جو نعمت اور خوشحالی حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہاں بھی اور وہاں بھی ملتی ہے وہ اور السَّیِّئَہ برابر نہیں ہوتیں جو خدا کی رحمتیں ہیں جو خدا کی نعمتیں ہیں ان کے مقابلہ پر شیطان کیا پیش کر سکتا ہے کچھ بھی نہیں اس لئے اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ہم پھرکہتے ہیں کہ یہ اَحْسَنُ جس کا اس آیت میں اور دوسری آیت میں ذکر ہے اس کے ذریعہ تم بُرائی کا جواب دو۔
یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شر سے کُلّی طور پر پاک بھی ہو جاؤ تب بھی شیطان ایسا انتظام کرے گا کہ وہ اپنے ماننے والوں میں سے بعض کو فساد پر اُکسائے گا اور امن کی فضا کو مکدر کرے گا۔ پس ہر وہ مسلمان احمدی جو دنیا کے ملک ملک میں اس وقت پھیلا ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر فساد اور فتنہ کے حالات طاغوتی طاقتیں پیدا کرنا چاہیں تو ہمارا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم ان کے پھندے میں نہ آنا بلکہ اپنے نفسوں پر قابو رکھنا اور جو اَحْسَن ہے اس کے ذریعہ اپنا دفاع کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی نہایت ہی بدزبان شخص مخالف اسلام قادیان میں آئے اور ایک سال ہمیں نہایت گندی اور فحش گالیاں دیتا رہے تب بھی دنیا یہ دیکھے گی کہ ہمیں اپنے نفس پر قابو ہے اور ہم گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دیتے اور السَّیِّئَہ کے مقابلہ پر السَّیِّئَہ کو پیش نہیں کرتے بلکہ السَّیِّئَہ کے مقابلہ میں ہم حسنہ کو پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بغیر تم اپنے مخالفوںکے دل جیت نہیں سکتے لیکن اگر تم ہماری تعلیم کے مطابق احسن چیز کو دنیا کے سامنے رکھو گے تو وہ جو آج تمہارے مخالف اور بدگو ہیں تمہارے دوست اور بڑے جوش کے ساتھ تمہاری دوستی کا اظہار کرنے والے بن جائیں گے مگر اس کے لئے ہمیں انتہائی صبر کی ضرورت ہے انتہائی طور پر اپنے نفس کو عقل اور شرع کی پابندیوں میں جکڑنے کی ضرورت ہے یہی صبر کے معنی ہیں کہ جو پابندیاں شرع لگاتی ہے وہ آدمی بشاشت سے اور خوشی سے خدا کی رضا کے لئے قبول کرے اور ایسا وہی کرتے ہیں جو ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ ہوتے ہیں یعنی جن پر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے نہ کہ ان کے کسی عمل کی وجہ سے بہت رحمتیں نازل کرتا ہے اور جس کے متعلق صحیح معنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ روحانی طور پر ایسے ہی ہیں جیسا کہ دنیوی لحاظ سے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق دنیا کی نگاہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ حظ عظیم رکھنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پھر یہ فرمایا اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَکہ جو احسن ہے اس سے السَّیِّئَہ کو دور کرو اور اس السَّیِّئَہ کے اثر سے خود کو بچاؤ اور یہ یاد رکھو کہ تمہیں تو طاقت حاصل نہیں کہ تم روحانی میدانوں کے فتح مند سپاہی بن سکو۔ یہ ہمارے فضل سے ہوتا ہے اور نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ جو اسلام اور صداقت اور ہدایت کے مقابلہ میں مخالفت کر رہا ہے یا کہہ رہا ہے اس کو ہم بہتر جانتے ہیں اور ہم ہی اس کا علاج کر سکتے ہیں ہمارے فضلوں کے بغیر تم اس فتح کو نہیں پا سکتے جو فتح تمہارے لئے مقدر ہے۔ پس اپنے نفسوں کے جوشوں کو دبائے رکھو اور نفسوں کی بجائے مجھ پر بھروسہ کرو کہ میں سب طاقتوں والا ہوں اور دعائیں کرتے رہو۔
رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ
(المومنون: ۹۸،۹۹)
کہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ہوں اللہ تعالیٰ ان کو پسپا کرے اور انہیں شکست دے اور اسلام کانام بلند ہو اور ہر بندہ اپنے ربّ کو پہچاننے اور حقیقی عبد بن کر اس کے حضور جھک جائے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہمیں دعاؤں کی توفیق ملے اور خدا کرے کہ ہمارا خدا ہماری دعاؤں کو قبول کر ے اور اپنے وعدوں کو ہمارے حق میں پورا کرے۔ آمین
(الفضل ۲۶؍ اپریل ۱۹۶۸ء صفحہ۱ تا۴)
ہمارے اعضاء میں جن پر خدا نے کچھ پابندیاں عائد کی ہیں زبان بنیادی اہمیت کی حامل ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹ ؍اپریل ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ جو شخص قول احسن کا پابند نہیں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔
٭ اشاعت اسلام اور تبلیغ کے سلسلہ میں قرآن کریم کی بیان فرمودہ دس ہدایات۔
٭ حکمت کی باتیں دلوں کو فتح کرتی ہیں لیکن تمسخر اور سفاہت کی باتیں فساد پیدا کرتی ہیں۔
٭ ہماری جماعت کو چاہئے کہ اپنے مخالفوں کے مقابلہ پر نرمی سے کام لیا کریں۔
٭ اپنی طبیعت ایسی بنانی چاہئے کہ ’’احسن‘‘ کے سوا منہ سے کوئی بات نہ نکلے۔


تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
گذشتہ جمعہ میں نے سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نحل اور سورۃ حم السَّجْدَہ اور سورۃ مومنونکی بعض آیات آپ دوستوں کے سامنے پڑھ کے آپ کی توجہ اس تعلیم اور ہدایت کی طرف مبذول کی تھی جو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے میں نے بتایا تھا کہ بنیادی اور خصوصی ہدایت انسان کی زبان، اظہار اور بیان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ دی ہے کہ قول احسن کے اصول پر کاربند رہو اور فرمایا ہے کہ اگر تم میری اس ہدایت کو قبول نہیں کرو گے اور اس کے مطابق عمل نہیں کرو گے تو پھر میرے عباد، میرے بندں میں شامل ہونے کا خیال ترک کرنا پڑے گا، اس صورت میں تم میرے عباد میں شامل نہیں ہو سکو گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی لئے یہ فرمایا ہے ع
بے احتیاط ان کی زباں وار کرتی ہے
اک دم میں اس علیم کو بیزار کرتی ہے
تو جو شخص قول احسن کا پابند نہیں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی زبان کو بے لگام نہیں چھوڑا بہت سی پابندیاں اور حد بندیاں اس نے زبان پر قائم کی ہیں اور اظہار رائے زبان سے ہو، یا تحریر سے، اشارہ سے ہو یا بلیغ خاموشی سے، یہ تمام اظہار با اخلاق آزادی کی قیود میں بندھے ہوئے ہیں تو بنیادی ہدایت زبان کے متعلق یہ ہے کہ جو بات کہو احسن کہو اگر اللہ کے بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہو اگر شیطان کے بندے بننا چاہتے ہو تو یہ تمہاری مرضی ہے قول احسن کے اصول پر کار بند ہوئے بغیر کوئی شخص خدا کے عباد میں شامل نہیں ہو سکتا۔
اظہار کا یا بیان کا بڑا تعلق الٰہی سلسلہ میں تبلیغ اور اشاعت حق، اشاعت اسلام سے ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ قریباً تمام دنیا میں پھیل چکی ہے۔ سو جہاں بھی ہمارے احمدی بستے ہیں انہیں چاہئے کہ اشاعت اسلام اور تبلیغ کے سلسلہ میں قرآن کریم نے جو ہدایات دی ہیں جن میں سے بعض بنیادی باتوں کا تعلق ان آیات سے ہے جن پر میں نے گذشتہ خطبہ دیا تھا، ان کو اپنے سامنے رکھیں اور کبھی بھی نفس کے جوش سے اپنے ربّ کو ناراض نہ کریں ان آیات میں جو گذشتہ جمعہ میں نے پڑھیں اور جن کے متعلق میں نے خطبہ دیا تھا اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتیں بیان کی ہیں۔
(۱) یہ کہ دعوت الی الحق (اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے) کا کام سپرد کرتے ہوئے قرآن کریم نے جو ہدایت انسانوں کے لئے دی ہے وہ یہ ہے کہ اشاعت حق کا کام ان علمی اور عقلی دلائل کے ساتھ کیا جائے جو قرآن کریم میں بکثرت پائے جاتے ہیں یا وہ علمی دلائل جو قرآن کریم کے علمی اور عقلی دلائل کی تائید میں دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بعض دلائل کو تو اپنی حکمت کاملہ سے صدیوں محفوظ رکھا اور آج انہیں اس لئے ظاہر کر رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے بیان کی سچائی پر وہ دلیل ٹھہریں۔
(۲) دوسری ہدایت یہ دی کہ قرآن کریم میں صرف علمی اورعقلی دلائل ہی نہیں بلکہ بہت سے روحانی اسرار اور روحانی انوار بھی پائے جاتے ہیں۔ تو دوسروں کے سامنے قرآن کریم کے روحانی اسرار و انوار پیش کرنے چاہئیں اور میں نے بتایا تھا کہ اس وقت بہترین تفسیر جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق ہمارے پاس ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سکھائی ہوئی تفسیر ہے۔
(۳) پھر ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہر محل پر بولنا جو ہے وہ خوبی نہیں بلکہ بعض دفعہ گندہ دہنی کے مقابلہ میں انسان ایک بلیغ خاموشی کو اختیار کرتا ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا الصَّمْتُ حُکْمٌ حکم کے معنی یہاں مفردات راغب میں ’’حکمت‘‘ کے لکھے ہیں۔
(۴) پھر ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ مخاطب کی طبیعت اور اس کے علم اور اس کی ذہنیت کے مطابق اس سے بات کرنی چاہئے اور جو ایسا نہیں کرتا وہ حکمت سے بعید بات کرتا ہے۔ بعض دفعہ نوجوان اپنی جوانی کے جوش میں اس چیز کو بھول جاتے ہیں کہ بات تو اس سے کرنی چاہئے جس کی طبیعت کا ہمیں علم ہو اور واقفیت ہو اس کی ذہنیت سے ہم واقف ہوں اور وہ بات اس کے سامنے ہم کریں جو وہ سمجھ سکتا ہو میں نے سنا ہے کہ بعض دفعہ بعض نوجوان مساجد میں رات کے وقت اپنے رسالے یا اپنے اشتہار چھوڑ آتے ہیں یا دوکانوں کی دہلیز میں سے اندر اپنا لٹریچر رکھ دیتے ہیں تو یہ حکمت کا طریق نہیں، یہ وہ طریق نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہے نہ یہ وہ طریق ہے جو اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ پچاس ہزار اشتہار طبع کروا کے اسے تقسیم کر دیں مقصد تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک نور کو پایا ہم نے ایک برکت کو حاصل کیا ہم پر رحمت کے دروازے کھلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اس نور، اس برکت اور اس رحمت کو حاصل کیا ہے ہمارے دوسرے بھائی بھی اس نور، برکت اور رحمت کو حاصل کریں لیکن ایسا طریق اختیار کرنا کہ ان حسین جنتوں کے دروازے وا ہونے کی بجائے اور بھی ان پر مسدود ہو جائیں تو یہ حکمت کا طریق نہیں ہے ان چیزوں سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے اور بڑے استغفار کے ساتھ اور بڑے تضرع کے ساتھ اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ان باتوں کو ان بھائیوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے جو ابھی ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتے اور ان پر ایمان نہیں لاتے تا وہ یہ یقین کرنے لگیں کہ یہ شخص انتہائی محبت سے، انتہائی خلوص سے، ہمارے سامنے یہ باتیں رکھ رہا ہے اور کوئی لڑائی اور جھگڑا اور فساد کا دروازہ نہ کھلے۔
(۵) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ صرف زبان کا قول کافی نہیں بلکہ عمل کا جو اظہار ہے اس کے ذریعہ دوسروں کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے حسن سلوک ایک بہترین راہ ہے جس سے کہ اگلا آدمی کم از کم اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ یہ شخص میرا دشمن نہیں جو کچھ کر رہا ہے، میری ہمدردی، بھلائی اور خیر خواہی کی وجہ سے کر رہا ہے وہ آپ کو غلط راہ پر سمجھ سکتا ہے، وہ آپ کے عقیدہ کو غلط عقیدہ سمجھ سکتا ہے، وہ آپ کے عمل کو جو اس (کے) عقیدہ کے مطابق ہے ہو سکتا ہے کہ عمل صالح نہ سمجھے لیکن ان کو یہ وہم کبھی نہیں گذرنا چاہئے کہ یہ شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ محبت کے منبع سے نہیں پھوٹا بلکہ دشمنی اور فساد کے منبع سے پھوٹا ہے۔
(۶) پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرف ہمیں متوجہ کیا ہے کہ ’’موعظہ حسنہ‘‘ کی تعلیم پر عمل کرو جو الٰہی سلسلے جاری کئے جاتے اور قائم کئے جاتے ہیں ان کے ساتھ بعض پہلو انذاری بھی ہوتے ہیں موعظہ اس وعظ اور نصیحت کو کہتے ہیں جس میں انذار کا اظہار کیا جائے سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انذار کا اظہار دوسروں کو غصہ دلانے والا اور غلط فہمی پیدا کرنے والا بھی ہو سکتا ہے اس لئے بڑی احتیاط سے کام لیا کرو جب انذاری پیشگوئیاں بیان کیا کرو انذار کے ساتھ تبشیر کے پہلوئوں کو بھی نمایاں کرتے چلے جائو تاکہ سننے والے یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو انذاری وعید اور پیشگوئیاں کی ہیں وہ ہماری ہی بھلائی کے لئے ہیں اور ساتھ ہی یہ شرط کر دی ہے کہ اگر انسان توبہ کرے اور روبہ اصلاح ہو اور اپنے ربّ اور مولیٰ کی طرف رجوع کرے تو یہ وعید ٹل جایا کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اصلاح کے بعد انذاری پیشگوئیاں پوری نہ ہوں جیسا کہ انبیائے سابقین جو ہیں ان کی پیشگوئیاں کی تاریخ سے بڑی اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔
(۷) پھر ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ منکر اور مخالف کے اعتقادات کے دھارے کا منہ موڑنے کیلئے امن اور صلح کی راہوں کو اختیار کرو فتنہ اور فساد کی راہوں سے اجتناب کرو اور احسن کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو اور
(۸) آٹھویں بات ہمیں یہ بتائی گئی تھی کہ جب تم نے اپنے جتھے کی مضبوطی اپنی عزت کے استحکام یا اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے دنیا کو اپنی طرف نہیں بلانا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ہے اور تمہاری ذات کا اس میں کوئی فائدہ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے جس راہ اور جس طریق سے بلانے کا حکم دیا ہے اس طریق کو اختیار کرو اور نرمی اور محبت اور پیار سے کام لو۔
(۹) پھر ہمیں کہا گیا ہے کہ منہ کی باتیں اگر دل اور اگر جوارح اور اگر روح سے نہ نکلیں تو وہ اثر انداز نہیں ہوا کرتیں اس لئے تم دنیا کے سامنے عملی نمونہ رکھو فرمایا:۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا (حٰمّ السَّجْدَہ:۳۴) تو جب تک عمل صالح ساتھ نہ ہو اس وقت تک تمہاری باتیں دنیا کے دلوں کو جیتیں گی نہیں اور فتح نہیں کریں گی اور ان دلوں کو جیت کر اور ان دلوں کو فتح کرکے تم اس قابل نہیں ہو گے کہ تم انہیں اپنے ربّ کے قدموں پر لاڈالو۔ اس لئے جب تم حق کی اشاعت کے لئے اپنے گھروں سے یا اپنے شہر سے اپنے قفس سے جو نفس کی خواہشات کا ایک پنجرہ ہوتا ہے اس سے باہر نکلو تو اس وقت عملی نمونہ اپنے ساتھ لے کے جانا ورنہ تمہاری باتیں جو ہیں وہ ایک کان میں داخل ہوں گی اور دوسرے کان سے باہر نکل جائیں گی۔
(۱۰) پھر دسویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عمل جو بظاہر عمل صالح نظر آتا ہے ضروری نہیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں بھی عمل صالح ہو اس لئے تمہاری روح کی بھی آواز یہی ہونی چاہئے کہ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (حٰمّ السَّجْدَہ :۳۴)کہ میں آستانہ الٰہی پر ہر وقت جھکی ہوئی ہوں اور تمہاری روح دنیا کے کان میں یہ آواز ڈالے کہ میں نے اپنا اور اپنوں کا سب کچھ اپنے ربّ کی راہ میں قربان کر دیا ہے۔
پس ان باتوں کا تبلیغ کے اوقات میں اور اشاعت اسلام کرتے ہوئے خیال رکھنا ضروری ہے غلط راہ اختیار کرکے شاید ہم ظاہر بین نگاہ کو اور شاید اپنے دلوں کو بھی خوش کر لیں لیکن جب تک ہم خداتعالیٰ کی فرمودہ ان باتوں کا خیال نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے عباد میں شامل نہ ہوں گے اور اس کی رحمت اور برکت ہماری کوششوں میں نہ ہو گی اور وہ فتح کے وعدے اور وہ کامیابی کی بشارتیں جو غلبہ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ہم ان بشارتوں کے اور ان وعدوں کے وارث نہیں ٹھہریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان باتوں کی طرف اپنی جماعت کو، اپنے ماننے والوں کو بار بار متوجہ کیا ہے لیکن کم ہیں ہم میں سے جو کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو پڑھنے والے اور آپ کے ارشادات پر غور کرنے والے ہیں اس نیت کے ساتھ کہ جو ہدایتیں آپ نے ہمیں دی ہیں اور جس رنگ میں اسلام کا نور آپ ہم پر چڑھانا چاہتے ہیں اس میں ہم اپنی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعا کے نتیجہ میں کامیاب ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور ہم وہ بن جائیں جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے تھے۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض حوالے آپ دوستوں کے سامنے پڑھنا چاہتا ہوں تا آپ یہ سمجھیں کہ آپ (علیہ السلام) کے دل میںکس قدر درد اور تڑپ تھی ان باتوں کے متعلق اور کس قدر تربیت کرنا چاہتے تھے آپ اپنی جماعت کے افراد کی اور کس طرح بار بار اور مختلف طریق سے آپ نے جماعت کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر خدا کے حقیقی عبد اور بندے بننا چاہتے ہو اور اس کی رحمتوں کے وارث بننا چاہتے ہو ان وعدوں اور بشارتوں کے وارث بننا چاہتے جو آپ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دی ہیں تو انہیں کن راہوں کو اختیار کرنا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’خبردار رہو نفسانیت تم پر غالب نہ آوے ہر ایک سختی کی برداشت کرو ہر ایک گالی کا نرمی سے جواب دو تا آسمان پر تمہارے لئے اَجر لکھا جاوے…یاد رکھو کہ ہر یک جو نفسانی جوشوں کا تابع ہے ممکن نہیں کہ اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے بلکہ ہر ایک قول اس کا فساد کے کیڑوں کا ایک انڈا ہوتا ہے، بجز اس کے اور کچھ نہیں۔ پس اگر تم روح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو تب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے اور آسمان پر تم دنیا کے لئے ایک مفید چیز سمجھے جائو گے اور تمہاری عمریں بڑھائی جائیں گی تمسخر سے بات نہ کرو اور ٹھٹھے سے کام نہ لو اور چاہئے کہ سفلہ پن اور اوباش پن کا تمہارے کلام میں کچھ رنگ نہ ہو،تا حکمت کا چشمہ تم پر کھلے۔
حکمت کی باتیں دلوں کو فتح کرتی ہیں لیکن تمسخر اور سفاہت کی باتیں فساد پیدا کرتی ہیں جہاں تک ممکن ہو سکے سچی باتوں کو نرمی کے لباس میں بتائو تا سامعین کے لئے موجب ملال نہ ہوں جو شخص حقیقت کو نہیں سوچتا اور نفس سرکش کا بندہ ہو کر بد زبانی کرتا ہے اور شرارت کے منصوبے جوڑتا ہے وہ ناپاک ہے اس کو کبھی خدا کی طرف راہ نہیں ملتی اور نہ کبھی حکمت اور حق کی بات اس کے منہ پر جاری ہوتی ہے۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی راہیں تم پر کھلیں تو نفسانی جوشوں سے دُور رہو اور کھیل بازی کے طور پر بحثیں مت کرو کہ یہ کچھ چیز نہیں اور وقت ضائع کرنا ہے بدی کا جواب بدی سے مت دو، نہ قول سے نہ فعل سے، تا خدا تمہاری حمایت کرے اور چاہئے کہ درد منددل کے ساتھ سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرو نہ ٹھٹھے اور ہنسی سے۔
کیونکہ مردہ ہے وہ دل جو ٹھٹھا ہنسی اپنا طریق رکھتا ہے اور ناپاک ہے وہ نفس جو حکمت اور سچائی کے طریق کو نہ آپ اختیار کرتا ہے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیتا ہے سو تم اگر پاک علم کے وارث بنناچاہتے ہو تو نفسانی جوش سے کوئی بات منہ سے مت نکالو کہ ایسی بات حکمت اور معرفت سے خالی ہو گی اور سفلہ اور کمینہ لوگوں اور اوباشوں کی طرح نہ چاہو کہ دشمن کو خواہ نخواہ ہتک آمیز اور تمسخر کا جواب دیا جائے بلکہ دل کی راستی سے سچا اور پر حکمت جواب دو تا تم آسمانی اسرار کے وارث ٹھہرو‘‘۔
(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۶۴، ۳۶۶)
اسی طرح جو منکر اور مخالف اور گندہ دہنی سے کام لینے والے اور انتہائی بد زبانی کرتے ہوئے گالیاں دینے والے ہیں ان کے متعلق آپ فرماتے ہیں:۔
’’میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مناسب ہے کہ ان کی (دشمنوں کی) گالیاں سن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں یقینا یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبر کرتا ہے اور برد باری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل اور فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ۱۳۲، الحکم مؤرخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰ء)
اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ اپنے مخالفوں کے مقابل پر نرمی سے کام لیا کرے تمہاری آواز تمہارے مقابل کی آواز سے بلند نہ ہو اپنی آواز اور لہجہ کو ایسا بنائو کہ کسی دل کو تمہاری آواز سے صدمہ نہ ہو ہم تو مقتولوں اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے اور ان میں زندگی کی روح پھونکنے کو آئے ہیں تلوار سے ہمارا کاروبار نہیں نہ یہ ہماری ترقی کا ذریعہ ہے ہمارا مقصد نرمی ہے اور نرمی سے اپنے مقاصد کی تبلیغ ہے غلام کو وہی کرنا چاہئے جو اس کا آقا اس کو حکم کرے جب خدا نے ہمیں نرمی کی تعلیم دی ہے تو ہم کیوں سختی کریں۔
ثواب تو فرمانبرداری میں ہوتا ہے اور دین تو سچی اطاعت کا نام ہے نہ یہ کہ اپنے نفس اور ہواو ہوس کی تابعداری سے جوش دکھاویں۔
یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’سو دیکھو اگر تم لوگ ہمارے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شرائط پر کار بند نہ ہو گے تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خداتعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں جسے نصیحت کرنی ہو اُسے زبان سے کرو ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس جَادِلْھُم بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل:۱۲۶) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ (البقرہ :۲۷۰)
(ملفوظات نیا ایڈیشن جلد ۳ ص ۱۰۴، الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء)
پھر فرماتے ہیں:۔
’’سو تم اس وقت سن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو کیونکہ اگر تم نے یہی باتیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اورتم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خداتعالیٰ نفرت کرتا ہے سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی دوسری خدا کی…‘‘
یاد رکھنا چاہئے کہ جن آیات پر میں نے خطبہ دیا تھا کہ عَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (حٰمّ السَّجْدَہ :۳۴) ‘‘آپ کے ارشادات انہی آیات کی تفسیر ہے۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’چاہئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آئے اور خدا کی بزرگی تم میں قائم ہو اگر قرآن اور حدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہرگز اس کو قبول نہ کرو اور یقینا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے توحید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جائو اور اپنے مولا حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدم رکھو اور اسلام کے لئے سارے دُکھ اُٹھائوفَلَاتَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘۔ (البقرہ :۱۳۳)
(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۴۶ تا۵۵۲)
اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پائو تو پاکیزگی اختیار کرو، عقل سے کام لو اور کلام الٰہی کی ہدایات پر چلو خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھائو تب البتہ کامیاب ہو جائو گے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے ع
سخن کز دل بروں آید ٭ نشیند لا جرم بر دل
پس پہلے دل پیدا کرو اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور لسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی زبان سے قیل و قال کرنے والے تو لاکھوں ہیں… تم میری بات سُن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی اسی سے تو ہمارے نبی کریمﷺ کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپ کے حصہ میں آئے اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی‘‘۔ (ملفوظات نیا ایڈیشن جلد ۱ صفحہ ۴۲، رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء)
یہ تو چند حوالے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اور آپ کی تحریریں اور تقریریں اور ملفوظات ان باتوں سے بھری ہوئی ہیں۔ پس خدا کے لئے قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارے ہر عضو پر اللہ تعالیٰ نے کچھ پابندیاں عائد کی ہیں اور زبان ایک بنیادی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ ہمارے ہر عمل کو یہ پاک سے پاک تر بھی بنا سکتی ہے اور ہمارے ہر عمل کو یہ ضائع بھی کر سکتی ہے مثلاً ایک شخص غرباء میں مال تقسیم کرتا ہے لیکن بعد میں مَن اور اذی کا طریق اختیار کرتا ہے کروڑوں روپوں کو اس طرح زبان کی ایک جنبش سے ضائع کر دیتا ہے اور خداتعالیٰ کی درگاہ سے وہ روپیہ دھتکارا جاتا اور اس کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا۔
احترام ہے اس کا اظہار بھی زبان سے ہوتا ہے اور وہ جن کا احترام کرنا اور جن کی عزت کرنا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے فرض کیا ہے ان کے حق میں احترام کے سوا کوئی اور بات منہ سے نکالنا فعلی نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے خداتعالیٰ کہتا ہے کہ باپ روحانی ہو یا جسمانی اس کے سامنے اُف نہیں کرنی کیونکہ ربوبیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو شریک کیا ہے ہر ماں باپ صفتِ ربوبیت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لیتے ہیں خواہ وہ اچھے ماں باپ نہ بھی ثابت ہوں جو اچھے ماں باپ ہوں وہ تو بہت سا حصہ اس دنیا کی ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لیتے ہیں اگرچہ انسان کی ربوبیت اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا تو آپس میں مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا یہ تو بالکل واضح ہے لیکن دنیوی نقطۂ نگاہ سے ایک حد تک وہ ربوبیت میں سے حصہ لیتے ہیں خداتعالیٰ کہتا ہے کہ جو روحانی ربوبیت کرنے والا یا جسمانی ربوبیت کرنے والا ہو اسے ایسی بات نہ کہو جو اُف میں شامل ہو بلکہ احترام کرو پھر اسلام یہ کہتا ہے کہ اپنے سے بڑوں کا احترام کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو یہ احترام اور شفقت فعل سے بھی ہوتی ہے اور زبان سے بھی ہوتی ہے اگر کوئی شخص فعل سے تو بڑی شفقت کرے لیکن زبان کوغلط راہوں پر چلائے وہ بے باک وار کرنے والی ہو تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص سے میرا کوئی تعلق نہیں فرمایا’’لَیْسَ مِنَّا‘‘۔ پس ہزاروں احکام ہیں جن کا زبان سے تعلق ہے جن میں سے بعض کے متعلق میں نے اپنے ان دو خطبوں میں آپ دوستوں کے سامنے کچھ بیان کیا ہے لیکن جو کامل اور مکمل تعلیم ہمیں دی گئی ہے سب کو اپنے سامنے رکھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور بنیادی چیز یہ ہے کہ اگر خدا کا بندہ بننا ہو، اس کے عباد میں شامل ہونا ہو تو احسن قول کی پیروی کرنا ضروری ہے اپنی طبیعت ایسی بنانا چاہئے کہ ’’احسن‘‘ کے سوا منہ سے کوئی بات ہی نہ نکلے خدا کرے کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ ہر راہ سے ہمیں اپنے بندوں میں شامل کرے اور ہم اس کے حقیقی بندے بن جائیں اور ہم سے کوئی بات ایسی سرزد نہ ہو جو ہمیں اس کے گروہ اس کے عباد سے نکالنے والی ہو۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ۴ ؍مئی ۱۹۶۸ء صفحہ۱ تا۴)
٭…٭…٭

آج بطور جُنَّۃ کے بطور ڈھال کے میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کو شیطانی وساوس سے بچاؤں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶ ؍اپریل ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ ۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرو اس کی تسبیح اور تحمید کرو اس کی طرف جھکو۔
٭ خلیفہ وقت کا یہ کام ہوتا ہے کہ جماعت کو درجہ بدرجہ آگے ہی آگے لئے جاتا چلا جائے۔
٭ تربیت کے مختلف مقامات ہیں اُن کو بلند کرنا آگے لے جانا خلیفہ وقت کا کام ہوتا ہے۔
٭ جب ہمارا ربّ کسی کو کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو وہ تمام چیزیں اسے دیتا ہے جو اس مقام کو چاہئیں ہوں۔
٭ کسی عدد کا معین کر دینا گناہ اور بدعت نہیں بلکہ سنت نبوی کی اتباع ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
پچھلے دنوں پہلے پیچش کی تکلیف رہی تھی مجھے اور پھر اس کے بعد ہیضے اور ٹائفائیڈ کے ٹیکا لگانے کے نتیجہ کا رد عمل جو ہوا اس کسی وجہ سے سر کا بھاری ہونا اور جسم کا دکھنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں اس کے نتیجہ پر کمزوری پیدا ہو گئی آج گرمی بھی بہت ہے اس لئے مختصراً اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر فلاح دارین چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اپنی زندگیوں کے دن گزارو۔ ہر وقت اسے یاد کرو اس کی تسبیح اور تحمید کرو اس کی طرف جھکو صرف اسی سے دل لگائو صرف اسی سے محبت کا تعلق قائم کرو اور پختہ کرو غرض کہ ہر رنگ میں ہر لحاظ سے ، ہرنقطۂ نگاہ سے اور ہر آن اسی کے ہو جائو اور اسی میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرو دنیا میں مختلف طبیعتوں کے انسان ہوتے ہیں مختلف تربیت حاصل کرنے والے انسان ہوتے ہیں ان کی تربیت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ درجہ بدرجہ ذکر کے مقامات ان سے طے کروائے جائیں نبی اکرمﷺ سے ایک دفعہ بعض صحابہؓ نے بعض نیکیوں کے متعلق دریافت کیا کہ ہم بوجہ غربت کے ان میں پیچھے رہ جاتے ہیں نیکیوں کی کوئی اور راہیں ہمیں دکھائی جائیں تاکہ ہم اپنے بھائیوں سے پیچھے نہ رہ جائیں تو آپ نے انہیں فرمایا کہ تینتیس تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہِ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور چونتیس بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہا کرو تو بڑی نیکیاں تمہاری لکھی جائیں گی اور تم بڑا ثواب اپنے ربّ سے حاصل کرو گے جب امیروں کو پتہ لگا اُنہوں نے بھی یہ ورد کرنا شروع کر دیا کیونکہ مسابقت کی روح اس خدا کی محبوب جماعت میں پائی جاتی تھی۔
تو اگرچہ ذکر کثیر کا حکم ہے لیکن اس کثیر کو سمجھنے کے لئے مختلف مراتب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے بعض لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ پندرہ، بیس، تیس دفعہ اگر وہ تسبیح و تحمید کر لیں تو ان کا دل تسلی پکڑ جاتا ہے کہ ہمیں ذکر کثیر کا جو ارشاد ہوا تھا اس کی ہم نے تعمیل کر دی اور بعض ایسے بھی ہیں کہ ہزاروں بار ان کی زبان پر خدا کی حمد آتی اور پھر بھی ان کے دل کو تسلی نہیں ہوتی کہ جو حکم ان کو ذکر کثیر کا دیا گیا تھا اس کی تعمیل صحیح معنی میں صحیح رنگ میں وہ کر بھی سکے ہیں کہ نہیں۔
تو مختلف طبیعتیں ہیں مختلف تربیتی دوروں میں سے انسان گزرتا ہے اور خلیفہ وقت اور امام وقت کا یہ کام ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت کو ترتیب کے مقامات میں سے درجہ بدرجہ آگے ہی آگے لئے جاتا چلا جائے تاکہ وہ خداتعالیٰ کی رضاء کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی محبت انہیں بہت زیادہ مل جائے اسی لئے ایک وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو بارہ بارہ دفعہ تسبیح اور تحمید کی طرف توجہ دلائی تھی اور اب گزشتہ مہینے میں نے ساری جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ پچیس سال سے بڑی عمر کے احمدی دوست کم از کم دو سو بار تسبیح اور تحمید اور درود ان الفاظ میں پڑھیں۔ جو الہاماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئے تھے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ اور جو پچیس سال سے کم عمر کے ہیں ان کے تین درجے بنا کر میں نے معین کر دیا تھا کم سے کم کو اور جس وقت یہ اعلان ہوا تو بہت سے خطوط دوستوں کی طرف سے مجھے ملے ہماری جماعت میں وہ بھی ہیں جو ہزاروں مرتبہ خداتعالیٰ کی تسبیح اور تحمید اور درود پڑھنے کی توفیق پاتے ہیں ایسے دوستوں نے مجھے لکھا کہ آپ کی یہ تحریک بڑی مبارک ہے ہم دو سَو سے کہیں زیادہ بار ہم پڑھتے تھے لیکن آپ کے توجہ دلانے پر ہم روزانہ تعہد کے ساتھ خداتعالیٰ کی حمد اور محمد رسول اللہﷺ پر درود بھیجا کریں گے بعض ایسے بھی تھے جو درود پڑھتے اور تسبیح اور تحمید تو کرتے تھے لیکن دو سو بار نہیں کرتے تھے انہوں نے لکھا کہ ہم خداتعالیٰ کے بڑے زیر احسان ہیں کہ اس نے آپ کے ذریعہ ہماری توجہ اس طرف پھیری کہ کم از کم دو سو بار ہم اس شکل میں تسبیح اور تحمید اور درود پڑھا کریں اور ان میں سے بعض نے یہ بھی لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس تسبیح اور تحمید اور درود میں ہمارے لئے بڑی جلدی برکات کے سامان پیدا کر دئیے ہیں اور جو کام رکے ہوئے تھے ان کی روکاوٹیں دور ہو گئیں۔ ایک دوست نے تو لکھا کہ ابھی سولہ دن نہیں ہوئے تھے۔ تو ایک دو میرے کام جو سالہا سال سے رکے ہوئے تھے وہ روکاٹیں دور ہو گئیں اور میرا کام ہو گیا صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں سے بھی خطوط آئے اللہ تعالیٰ کی محبت، محمد رسول اللہﷺ کے عشق کا اظہار بڑوں نے بھی اور بچوں نے بھی کیا اور وہ اس وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے خلیفہ کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ جماعت کو اتنی طرف متوجہ کر سکے کہ کثرت کے ساتھ درود پڑھا جائے اور کم از کم اسی تعداد میں پڑھا جائے۔
ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے بھی ہیں جن پر یہ صادق آتا ہے۔ قُلْ اِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (الانعام:۱۶۳) جن کی زندگی کا ہر لمحہ ہی خداتعالیٰ کے ذکر میں خرچ ہونے والا ہے جب وہ سوتے ہیں تو بیداری کے لمحات کو کچھ اس طرح اپنے ربّ کی یاد میں گزارا ہوتا ہے کہ ان کے خوابیدہ لمحات بھی خداتعالیٰ کے ذکر میں خرچ ہونے والے لمحات شمار ہوتے ہیں ایسے لوگوں نے بھی خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ایک اور موقع ہمیں نصیحت حاصل کرنے کا مل گیا ہے اور ہم بڑے تعہد سے اپنی زندگیوں کو خدا کی راہ میں گزار لیں گے اور کوئی غفلت اور کوئی کوتاہی اور کوئی شیطانی وسوسہ بیچ میں رخنہ نہیں دال سکے گا۔
تو مختلف طبائع ہیں، تربیت کے مختلف مقامات ہیں، جن پر جماعت کے مختلف طبقات ٹھہرے ہوئے ہیں یا پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو بلند کرنا، آگے لے جانا یہ خلیفہ وقت کا کام ہوتا ہے اور کبھی مالی تحریکیں، کبھی قربانیوں کے دوسرے طریق کبھی اصل چیز جو ذکر ہے۔ دراصل خداتعالیٰ کی راہ میں جو کام بھی کیا جاتا ہے وہ ذکر کی بنیادوں پر ہی کھڑا ہوتا ہے اور قائم رہتا ہے بچے تھے ایسے بچے جن کو میں نے کہا تھا کہ ابھی زبان سیکھ رہے ہیں چند بار اگر ہم ماں باپ یا ان کے گارڈین یا ان کے استاد ان کے منہ سے خداتعالیٰ کی حمد، اس کی تسبیح اور درود کے کلمات کہلوا دیں تو ان کی زندگیوں میں برکت پیدا ہو گی ان کی روح کی وہ کھڑکی جو ربّ کی طرف کھلتی ہے وہ کھل جائے گی۔
بہت سارے دوستوں کے خطوط ملے ہیں بعض دوست نہیں لکھتے لیکن جو لکھنے والے ہیں وہ ان کے نمائندے ہوتے ہیں اپنے طبقات کے اپنے گروہ کے بہت سارے دوستوں نے خطوط لکھے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو یہ درود اس رنگ میں کہلوانا شروع کیا ہے پھر وہ تین پر یا پچیس پر یا سَو پر یا دو سَو پر قائم نہیں رہتے عادت پڑ جاتی ہے وہ آگے چلتے ہیں۔
تو جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے اس تحریک پر تعہد کے ساتھ عمل کیا ہے اور جہاں وہ لوگ جو دوسَو سے کہیں زیادہ درود پڑھنے والے اور تسبیح و تحمید کرنے والے تھے انہوں نے بھی آگے ہی قدم بڑھایا ہے اور جو لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے متعلق میں نے کہا تھا کہ قُلْ اِنَّ صَلاتِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْن(الانعام :۱۶۳)ان پر صادق آتا ہے ان کے دلوں میں بھی بشاشت پیدا ہوئی ہے اعتراض پیدا نہیں ہوا۔
لیکن کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں اور ان کے دل شیطانی وساوس کی آماجگاہ بن جاتے ہیں اب تحریک یہ تھی کہ کم سے کم اتنی بار درود پڑھا جائے اور اعتراض یہ ہو گیا کہ تعداد معین کر دینا یہ درست نہیں اوّل تو یہ کہ معین تعداد کی کس نے؟ کم سے کم تو تعداد کی تعین نہیں ہوتی وہ تو کم سے کم معیار بتا رہا ہوتا ہے جو شخص یہ سمجھا ہے کہ تعین نہیں ہونی چاہئے اس کا فرض ہے کہ وہ دو سو دفعہ تو گن لے اور اس کے بعد اَن گنت درود اور تسبیح اور تحمید کرتا رہے جیسا کہ مخلصین نے اس سے یہی سمجھا اور اس پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وہ وارث بنے۔
دوسرے یہ کہ یہ کس نے کہا کہ جائز ہے اب کمزور ایمان والے شارع تو نہیں سمجھے جا سکتے نہ ان کے فاسد خیالات کو شریعت کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے حضرت نبی اکرمﷺ کے متعلق جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے حدیث میں جو پختہ ہے جس میں کمزوری نہیں یہ آتا ہے کہ آپ نے غرباء کو ایمان میں آگے بڑھنے اور ثواب زیادہ حاصل کرنے کے لئے ایک نسخہ بتایا تھا وہ معین تھا پھر نبی اکرمﷺ کی اپنی سنت یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو امام بخاری نے اپنی ایک کتاب میں بیان کی ہے کہ آپ نے کہا کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو انگلیوں پر کلمات پڑھتے دیکھا اور انگلیوں پر گنتی کرتے جاتے تھے اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض ذکر ایسے ہیں کہ جن کو گننے میں کوئی برائی نہیں بلکہ نبی اکرمﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان کو ذکر کے بعض حصے انگلیوں پر گن لینے چاہئیں تاکہ اس طرح بھی آپ کے ساتھ ہمارے پیار کا اظہار ہو تو اگر بعض ذکر نبی اکرمﷺ نے بھی گن کے کئے ہیں تو گنتی پر اعتراض نہیں ہو سکتا یہ اعتراض تو پھر محمد رسول اللہﷺ پر پڑے گا!!!۔ایک دفعہ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے نگران بورڈ کے نام سے ایک مجلس قائم تھی وہیں ذکر ہوا اور مرزا عبدالحق صاحب اور دیگر احباب نے کہا کہ آپ یہ تحریک کریں تین سو بار تھی غالباً وہ تحریک اور ساری جماعت کے لئے نہیں تھی اس وقت بھی بعض کمزوروں کے دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہوا تھا کہ یہ بدعت شنیعہ ہے یعنی ایسے لوگوں کا درود پڑھنا معینہ تعداد میں جو پہلے اس تعداد میں درود نہیں پڑھا کرتے تھے یہ بدعت شنیعہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ پر زیادہ درود بھیجا جا رہا ہے یہ کمزوری ایمان کی علامت تھی اور ہم اس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے خلیفہ وقت کی ڈھال کے پیچھے پناہ لئے بیٹھے تھے۔ ایسے معترضین کو جرأت نہیں ہوئی کہ حضور کے سامنے یہ اعتراض پیش کرکے اپنی اصلاح کا سامان پیدا کرتے۔
بہرحال ہم اس پناہ کے نیچے تھے اب اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے لئے بطور پناہ کے مقرر کیا ہے اور اس میں میری کوئی خوبی نہیں جب اس نے کہا کہ میں تجھے جُنَّۃ بناتا ہوں جماعت کے لئے تو ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ جُنَّۃ بننے کے لئے جس قسم کی طاقتیں تجھے چاہئیں ہوں وہ میری طرف سے عطا کی جائیں گی کیونکہ خداتعالیٰ کے کام ان کمزور انسانوں کی طرح نہیں ہوتے یا ان پاگلوں کی طرح جو بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’جا،اسان تینوں بادشاہ بنایا‘‘ ان میں نہ کوئی بات ہوتی ہے اور نہ کوئی بادشاہ بنانے کی طاقت ہوتی ہے اس شخص میں نہ بادشاہ بنا سکتا ہے نہ کچھ دے سکتا ہے لیکن جب ہمارا ربّ کسی کو کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو وہ تمام چیزیں اسے دیتا ہے جو اس مقام کو چاہئیں ہوں۔
تو آج بطور جُنَّۃ کے بطور ڈھال کے میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کو شیطانی وساوس سے بچائوں اور اسی لئے اس اعتراض کا یہاں میں نے ذکر کیا ہے اگر کوئی شخص آپ میں سے کسی کے پاس آ کر یہ کہے کہ یہ بدعہ شنیعہ ہے یعنی ایسی بدعت ہے جو بُری ہے ایسی بدعت ہے کہ خداتعالیٰ کا نام اور اس کی تسبیح اور اس کی تحمید اور نبی اکرمﷺ پر درود جو پہلے نہیں بھیجا کرتے تھے اب بھیجنے لگ گئے ہیں بہت بُری بات ہے تو آپ اس کی بات نہ سنیں شیطان نے اس کے دل پر اور اس کی زبان پر اور اس کے ذہن اور دماغ پر وار کیا ہے اور وہ کامیاب ہوا۔ آپ اس سے بچنے کی کوشش کریں اور ایسے شخص کو قابل رحم سمجھیں اور اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو ہدایت کے لئے کھولے اور اس کی زبان کو ایسا بنائے کہ وہ اس کے ذکر میں مشغول ہو اور اس کے ذکر پر اعتراض کرنے والی نہ ہو۔
یہ آپ پر ہر صورت میں فرض عائد ہوتا ہے خود نبی اکرمﷺ نے معین تعداد میں بعض لوگوں کو درود پڑھنے کے لئے تسبیح و تحمید پڑھنے کے لئے درود تو نہیں میرے ذہن پر لیکن تسبیح اور تحمید پڑھنے کے لئے اور اس کی کبریائی کے بیان کے لئے خود معین تعداد میں حکم دیا اسی سنت کی اقتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چوہدری رستم علی کو لکھا کہ
’’اگر تین سَو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں تو بہتر ہو گا‘‘ تو تین سَو مرتبہ کی تعین کر دی اصل اعتراض تو تعیین کا ہی تھا نہ؟؟ تو یہ اعتراض مجھ سے آگے بڑھ کے نشانہ خطا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جا پڑتا ہے‘‘۔
اسی طرح سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں۔
’’میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم از کم استغفار اور سَو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کیا کریں‘‘ ۔
اسی سنت کی اتباع میں مئی ۱۹۴۴ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا تھا جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ کم از کم بارہ مرتبہ روزانہ تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھا کریں جماعت کے دوست۔
تو کسی عدد کا معین کر دینا گناہ اور بدعت نہیں بلکہ سنت نبوی کی اتباع ہے اور جو شخص نبی کریمﷺ کی سنت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے طریق کو بدعت قرار دیتا ہے وہ بیمار ہے اسے اپنی اور آپ کو اس کی فکر کرنی چاہئے۔ خصوصاً اس تھوڑے سے عرصہ میں ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا اس پر ویسے تو دوستوں نے اس دن کا انتظار نہیں کیا کم از کم کی شرط تھی نا؟؟ جس کو جس وقت پتہ چلا کہ یہ تحریک کی گئی ہے انہوں نے اس تعداد سے زیادہ پڑھنا شروع کر دیا اور بیسیوں ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی برکت اور محمد رسول اللہﷺ کے عشق کے طفیل بہت سے اپنے بند دروازے کھلوائے اور رکے ہوئے کام جاری کروا دیئے۔
شیطان کا کام ہے دلوں میں وسوسہ پیدا کرنا وہ اپنا کام کرتا ہی چلا جائے گا، ہمارا کام ہے شیطان کے ہر وار کو ناکام کر دینا ہمیں اپنے فرض کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور چونکہ ہم میں کوئی طاقت نہیں اس لئے وہ جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور منبع ہے اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس سے طاقت لے کر اس کے نام کو دنیا پر بلند کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
٭…٭…٭

خطبہ جمعہ ۳؍ مئی ۱۹۶۸ء
’’حضور نے مسجد مبارک میں نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اُن کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی‘‘۔
(الفضل ۵ مئی ۱۹۶۸ء صفحہ۱)
(تاحال یہ خطبہ دستیاب نہیں ہو سکا)

اللہ تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے والوں کو اس دُنیا میں بھی برکت دی جاتی ہے اور ابدی جنتیں بھی
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۰ ؍ مئی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر قدر کرنے والی اور شکر گزار ہستی اور کوئی نہیں۔
٭ معمولی معمولی عارضی فوائد کی قربانی دے کر اللہ تعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کرو۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیامت تک پیدا ہونے والے اُمت کیلئے بہت سی دعائیں کی ہیں۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے خلفاء کا ایک لمبا سلسلہ جاری کیا ہے جو قیامت تک مُمْتَد ہے۔
٭ چند ناقص اعمال اور قربانیاں جو ایک کمزور انسان خدا کے سامنے پیش کرتا ہے اس کے مقابلہ میں ابدی جنتیں اسے عطا کی جاتی ہیں۔



تشہد، تعوذ سورئہ فاتحہ کے بعد حضور پر نور نے مندرجہ ذیل آیات
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّبَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنo (البقرہ:۲۵۵) اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ ۔ (التَّغابن: ۱۸)
کی تلاوت فرمائیں اور پھر فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں کہ اس نے جماعت احمدیہ کو مالی قربانیوں کے میدان میں یہ توفیق عطا کی کہ وہ گذشتہ سال (یعنی جو اس اپریل کے آخر میں ختم ہوا) اس سے پہلے سال کے مقابلہ میں لازمی چندوں میں تین لاکھ اسی ہزار سے زائد کی مزید قربانی اپنے ربّ کے حضور پیش کر سکے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ
اللہ تعالیٰ نے سورئہ تغابن میں اس ذکر کے بعد کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو تمہاری اپنی جانوں کا ہی اس میں فائدہ ہے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے مالوں میں سے ایک اچھا حصہ کاٹ کر الگ کر دو تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھائے گا۔
یہ بڑھوتی اس دنیا میں دو شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور اُخروی زندگی میں اپنے رنگ میں ظاہر ہو گی۔ اس دنیا میں یہ بڑھوتی مال کی بڑھوتی کے رنگ میں بھی ظاہر ہوتی ہے اور تقویٰ اور اخلاص میں بھی انسان کا قدم آگے بڑھتا ہے کیونکہ یَغْفِرْلَکُمْ وہ روکیں جو انسان کی راہ میں پیدا ہوتی ہیں اور اس کی روحانی ترقیات کو مسدود کر دیتی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے اور اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر قدر کرنے والی اور شکر گزار اور کون ہستی ہو سکتی ہے اگرچہ وہ تمام مادی اموال کا حقیقی مالک ہے اگرچہ جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ اسی کا ہے اور اسی کی عطا ہے لیکن جب وہ اپنے بندوں کو دنیا کے اموال میں سے کچھ دیتا ہے اور اس کے بندے اس کے کہنے پر اس کی رضا کے لئے ان اموال میں سے کچھ واپس کرتے ہیں تو وہ ان کے اس دین کی قدر دانی کرتا ہے اور وہ شکور ربّ ایک تو بڑھوتی کرتا ہے دنیا میں بھی اور روحانی ترقیات کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اور اخروی زندگی میں بھی جو زیادتی ہو گی اس کا تخیل بھی یہ مادی دماغ نہیں کر سکتا کیونکہ چند روزہ زندگی کے چند ناقص اعمال اور قربانیاں جو ایک کمزور انسان خدا کے لئے پیش کرتا ہے اس کے مقابلہ میں ابدی جنتیں اسے عطا کی جاتی ہیں۔
اس دنیا میں مختلف رنگ میں یہ بڑھوتی ہوتی ہے اور اس وقت میں ساری جماعت کو عموماً اور اس کے زمیندار حصہ کو خصوصاً اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ ایک دو سال میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے ہیں کہ زمیندار کی آمد پہلے سے تین گنا، چار گنا، پانچ گنا ہونی شروع ہو گئی ہے اور اس سے بھی بڑھنے کے سامان ہیں اور توقع اور امید ہے۔ پس اگر وہ صحیح طریقوں کو صحیح راہوں کو اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں اپنے وعدہ کے مطابق زیادہ برکت ڈالے گا۔
لیکن زمیندار جماعتوں کے افراد دو قسم کے ہوتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے۔ ایک تو وہ اعراب وہ دیہاتی ہیں گائوں میں رہنے والے مَنْ یَّتَّخِذُ مَایُنْفِقُ مَغْرَمًا (التوبہ:۹۸) کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور جماعت کا قائد اور رہبر انہیں ہر قسم کی قربانیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے ان کو اس طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اموال اپنے ربّ کی راہ میں خرچ کریں تو ایسے لوگ ان میں پائے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو ایک چٹی سمجھتے ہیں اور ان کے اندر اسلام کی روح ابھی پختہ نہیں ہوتی ان کی طبیعت میں بشاشت پیدا نہیں ہوتی اور وہ ایمان اور نفاق کی سرحد پر کھڑے ہوتے ہیں (اللہ تعالیٰ انہیں ایمان کی طرف کھینچے اور نفاق سے محفوظ رکھے) لیکن ان کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مانگا وہ اسی کا تھا شکل ایسی بنا دی کہ اپنی ہی چیز واپس لے کے ہمیں اپنے انعاموں اور رحمتوں کا مستحق وہ قرار دیتا ہے اس سے بھی اگر ہمارے دلوں میں بشاشت پیدا نہ ہو، اس سے بھی اگر ہمارے دلوں سے بخل دور نہ ہو اس سے بھی اگر ہم اس کی راہ میں قربانی کو اپنے لئے ہر طرح مفید نہ سمجھیں تو یہ ہماری بدبختی اور ہماری بدقسمتی ہے۔
لیکن دیہاتی باشندے صرف ایسے ہی نہیں ہوتے بلکہ ایسے بھی ہیں وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُوْلِ اَ لَآ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ سَیُدْخِلُھُمُ اللّٰہُ فِيْ رَحْمَتِہٖ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ :۹۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیہاتیوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اس ایمان میں وہ صادق ہوتے ہیں جو ان کی زبان پر دعویٰ ہوتا ہے ان کے عمل اس کی تصدیق کر رہے ہوتے ہیں اور اس پختہ یقین پر وہ قائم ہوتے ہیں کہ ایک دن ہمیں اس دنیا کو چھوڑنا ہے اور (حشر کے دن) اپنے ربّ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ ہم سے ہمارے اعمال کے متعلق پوچھے گا اس لئے جو وہ خرچ کرتے ہیں اپنی قوتوں اور استعدادوں میں سے اللہ کی راہ میں یا اپنے اموال میں سے جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ سمجھتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہم معمولی معمولی عارضی فوائد کی قربانی دے کر اللہ تعالیٰ کی ابدی رضا کو ضرور حاصل کریں گے کیونکہ اس کا اس نے وعدہ دیا ہے اور وہ اپنی اس قربانی کو رسولﷺ کی دعائوں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کے لئے جو قیامت تک پیدا ہونے والی ہے بہت سی دعائیں کی ہیں اور نبی کریمﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے خلفاء کا ایک لمبا سلسلہ جاری کیا ہے جو قیامت تک ممتد ہے اور وہ رسول کی نیابت میںان لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور ان کے غموں کو دور کرنے کے لئے دعا اور تدبیر کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں میں وہ شریک ہوتے ہیں اور ہر وقت وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ خدا کے یہ پاک بندے روحانیت کی سیر میں کسی ایک مقام پر کھڑے نہ رہ جائیں بلکہ آگے ہی آگے وہ بڑھتے چلے جائیں۔
توصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ کا ذریعہ وہ اسے سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس اخلاص کے ساتھ میری راہ میں قربانیاں دو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب ضرور حاصل ہو گا میں تمہیں اپنے قرب سے نوازوں گا اور اپنے پیار کے جلوے تم پر ظاہر کروں گا اور اپنی رحمت کے باغوں میں تمہیں لے جائوں گا اور میری ابدی رضاء تمہیں حاصل ہو گی اور اگر میری راہ میں قربانیوں کی وجہ سے دنیا میں کبھی تمہیں کوئی تکلیف بھی پہنچی ہو گی تو وہ تمام تکلیفیں تم بھول جائو گے کیونکہ اس کے مقابلہ میں جو تمہیں ملا ہے وہ اس قدر زیادہ ہے، اس قدر عظیم ہے، اس قدر حسین ہے، اس قدر راحت بخش ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا کیونکہ جہاں وہ شَکُورہے وہ غَفُور بھی ہے، رَحِیم بھی ہے تمہیں کہا جاتا ہے کہ تم ہر سال سال کی آمد میں سے خدا کی راہ میں کچھ قربان کرو اچھا مال کاٹ کے اسے دو تو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں فرمایا کہ میں رحیم ہوں تمہاری روحانی بقا اور تمہاری روحانی ترقی کے لئے ضروری تھا کہ تم سے بار بار قربانیاں لی جاتیں اور بار بار اعمال صالحہ کروائے جاتے تاکہ کسی وقت بھی تم اس دنیا میں اپنے معیار سے نیچے نہ گرتے اس لئے اللہ تعالیٰ تم سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں بار بار تم پر رجوع برحمت ہوں گا کیونکہ میں رحیم ہوں۔
تو ایسے خدا کے بندے بھی ہیں جو دیہات میں رہنے والے ہیں دیہاتی جماعتوں کو خصوصاً مالی قربانی کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے کیونکہ مجھ پر یہ اثر ہے کہ ان کی تربیت ابھی ایسے رنگ میں نہیں ہوئی کہ وہ مالی قربانیاں اس بشاشت کے ساتھ اس حد تک کر سکیں جو ان کا حق ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ زیادہ سے زیادہ اس کی رحمتوں کے وارث بن سکتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جہاں ایسے دیہاتی ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کو چٹی سمجھتے ہیں وہاں خدا کے ایسے بندے بھی دیہات میں رہتے ہیں کہ جو میرے راہ میں قربانیاں دیتے ہیں اور میرے فضلوں کے وہ وارث بنتے ہیں اور میری مغفرت کی چادر انہیں ڈھانکتی ہے اور میرا رحم بار بار ان کے لئے جوش میں آتا ہے اور ان کے لئے آرائش اور مسرتوں کے اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے۔
دیہاتی جماعتوں میں سے بھی بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے گذشتہ سال چندوں کی طرف توجہ دی اور بہت سی جماعتیں ایسی بھی جنہوں نے اپنے بجٹ سے زیادہ چندہ جمع کیا اور یہاں بھجوایا لیکن بہت سی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو تربیت میں بہت پیچھے ہیں اللہ تعالیٰ کو اموال کی ضرورت نہیں اور اموال کے متعلق ہمیں کبھی فکر نہیں ہوا کیونکہ جو خدا کا کام ہے وہ تو ہو کر رہے گا ہمیں فکر تو ان کمزور بھائیوں کی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قربانیاں دے کر اپنے ان مخلص بھائیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان سے پیچھے نہ رہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دے رہے ہیں ایسے لوگ دیہات میں بھی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ توبہ کی اس آیت میں فرمایا ہے یہ دیہاتی مخلص، فدائی قربانی دینے والے دوسروں کے لئے نمونہ ہیں جو کمزور ہیں انہیں دیکھنا چاہئے کہ قربانیاں دینے والوں کے اموال میں اللہ تعالیٰ کس طرح برکت ڈالتا ہے اور اپنی رحمتوں سے انہیں کس طرح نوازتا ہے اور اس نمونہ کو دیکھ کر ان کی غیرت کو جوش آنا چاہئے کہ ان سے پیچھے نہیں رہنا بلکہ ان سے آگے بڑھنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ان سے زیادہ حاصل کرنا ہے آپس میں زمین کی خرید و فروخت میں تم لوگ مقابلہ کرتے رہتے ہو اور بعض دفعہ ناجائز حد تک یہ مقابلہ پہنچ جاتا ہے تو وہ جائز مقابلے جن کی کوئی حدود نہیں ان میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہمارے دیہاتیوں کو بھی اور شہر میں بسنے والوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس کی راہ میں اس کے فرمان کے مطابق اپنا سب کچھ، نفس بھی اور مال بھی قربان کرنے والے ہوں اور خدائے شکور اور خدائے غفور اور خدائے رحیم کے ہر آن جلوے دیکھنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ مالی قربانیوں کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ (البقرہ:۲۵۵)کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اور جنہوں نے ہماری آواز کو سنا اور اس پر لبیک کہا ہے تم اس میں سے جو ہم نے تم کو دیا ہے اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس میں نہ کسی قسم کی خرید و فروخت، نہ دوستی، نہ شفاعت کار گر ہو گی خدا کی راہ میں جو کچھ ہو سکے خرچ کر لو۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ حشر کے دن جب ساری مخلوق تمام بنی نوع انسان اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو اس وقت تین چیزوں کی ضرورت ہو گی ایک تو کوئی ایسا سودا ہو چکا ہو جو اس دن کام آئے دوسرے کوئی ایسا دوست بنایا جا چکا ہو جس کی دوستی حشر کے دن فائدہ پہنچانے والی ہو اور تیسرے اس دن کوئی سفارش ہو ان تینوں میں سے کوئی چیز یا تینوں جسے حاصل ہو جائیں وہ حشر کے دن شرمندہ نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان کے سامنے اس کی تعریف کرے گا اسے پیار کی نگاہ سے دیکھے گا پیار کا معاملہ اس سے کرے گا اپنی عظمت اور اپنے حسن کے جلوے اسے دکھائے گا اور اسے ایسا سرور بخشے گا جو کبھی ختم ہونے والا نہیں لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس دن کے لئے خرید و فروخت کا سامان پیدا نہیں کیا جن کی ایسے وجود سے دوستی نہیں کہ جو دوستی اس دن کام آ سکے اور جن کا کوئی سفارشی اس دن نہیں وہ تو گھاٹے میں رہے وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ :۲۵۵)جو اللہ تعالیٰ کے اپنے دئیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے سے ہچکچاتے اور اسے چٹی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایسے حکموں کی نافرمانی کرتے ہیں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نفسوں پر بڑا ہی ظلم کیا اور اس کا خمیازہ وہ حشر کے دن بھگتیں گے اللہ تعالیٰ نے اس خرید فروخت کا ذکر بھی قرآن کریم میں کیا ہے جو حشر کے دن انسان کے کام آتا ہے۔ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمُ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (التوبہ :۱۱۱) اور پھر اسی آیت میں فرمایا فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ (التوبہ :۱۱۱) کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خرید و فروخت مومنوں سے کی ہے اور وہ یہ ہے کہ مومن اپنی جانیں، اپنے نفوس، اپنے اموال خدا کو دے دیں اور خدا کی راہ میں قربان کر دیں اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے انہیں اپنی جنت عطا کرے گا اور یہ ایک ایسا سودا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تم نے بیع کی ہے اس بیع پر خوش ہو جائو یہی سودا تھا جو حشر کے دن کے لئے تم کر سکتے تھے اور تم نے کر لیا۔
تو یَوْمٌ لاَّبَیْعٌ فِیْہِ(البقرہ :۲۵۵)کا یہ مطلب نہیں کہ کسی قسم کی خرید و فروخت بھی اس دن کام نہیں آئے گی مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی بیع کی امید لگائے ہوئے ہیں جو اس دن کام نہیں آئے گی وہاں آدمی کے ہاتھ میں توکچھ ہو گا نہیں مرنے کے بعد یہاں سے کون کچھ لے کے جاتا ہے جو کروڑوں کے مالک ہیں وہ بھی اپنی ساری دولت یہیں چھوڑ کے خالی ہاتھ اس کے حضور پہنچتے ہیں لیکن یہاں بعض ایسے سودے بھی ہوتے ہیں جن کا معاوضہ وہاں دیا جاتا ہے یعنی خرید و فروخت ایسی کہ بیچنے والا اس دنیا میں بیچ دیتا ہے اور اس کے بدلے میں جو چیز اس نے لینی ہوتی ہے وہ اس دنیا میں حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی خرید و فروخت تو وہاں ہو گی کہ فروخت جو ہے وہ اس دنیا میں ہو جائے (انسان کے لحاظ سے) اور اس کے بدلے میں جو ملنا تھا وہ حشر کے دن اسے مل جائے لیکن ایک ایسی بیع بھی ہے جو وہاں کام نہیں آتی جس کا نفع نقصان اسی دنیا میں دیا جاتا ہے۔
پھر دوستیاں ہیں، اس دنیا میں بعض لوگ ایسی دوستیاں بناتے ہیں جو وہاں کام آنے والی نہیں دوست اور ولی اور خلیل تو بعض دفعہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہارے سارے گناہ اٹھا لیں گے تم ہماری ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذارو لیکن کون ہے جو خدا کے حضور اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو؟ اور اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ کے خدا کی رضا کی جنت میں لے جائے وہاں تو وہی دوستی کام آ سکتی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہو کہ وہاںوہ کام آئے گی اور وہ دوستی وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ فَاللّٰہُ ھُوَالْوَلِیُّ ( شوریٰ :۱۰) کہ یہ لوگ اس دنیا میں ایسے دوست بناتے ہیں جن کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ حشر کے دن کام آئیں گے ایسی خُلَّۃٌ ایسی دوستی حاصل کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ اب بیڑا پار ہے لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہاں کوئی دوستی کام نہ آئے گی سوائے خدا کی محبت اور اس کی دوستی کے فَاللّٰہُ ھُوَ الْوَلِیُّ وہ اکیلا ہی اس دن اور اس کے بعد بھی ان کا ساتھ دے گا یہاں اس نے کچھ آزادیاں دی ہیں اور اس سے منہ موڑنے والے بھی دنیا کی نعمتیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس دن یہ کیفیت ہو گی کہ اگر وہ قادر و توانا ہمارا ولی بن جائے اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اگر ہمیں اپنا دوست بنا لے تو پھر ہی ہمیں فائدہ پہنچ سکتا ہے دنیا کی دوستیاں وہاں کام نہیں آ سکتیں۔
وَلاَشَفَاعَۃٌ پھر سفارش کے ساتھ اس زندگی میں انسان بہت سے کام کروا لیتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہاں کوئی شفاعت کوئی سفارش کام نہیں آئے گی سوائے اللہ کی سفارش کے یا سفارش کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اذن کے اِلاَّبِاِذْنِہٖ فرمایا کہ اذن کے بغیر کوئی سفارش مفید نہیں ہو سکتی وہی اللہ کی سفارش ہے یا اللہ تعالیٰ کے اذن سے نبی اکرمﷺ کی سفارش نبی اکرمﷺ کی شان اور آپؐ کے مقام کو بلند کرنے کے لئے اور آپؐ کے مقام کو ساری مخلوق کے سامنے ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ بطور شفیع کے بنی نوع انسان کے سامنے اس دن بھی پیش کرے گا لیکن اصل شفاعت تو اللہ ہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنْذِرْبِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْٓا اِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ (الانعام :۵۲)کہ اس کلام مجید کے ذریعہ تو ان لوگوں کو تنبیہہ کر جو اس یقین پر پختہ ہیں کہ وہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے اور ان کو یہ خوف ہے کہ کہیں ان کے پاس اس دن سرخرو ہونے کا سامان نہ ہو کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی دوستی اور شفاعت کے علاوہ کوئی دوستی اور شفاعت کام نہ آئے گی۔
اس لئے قبل اس کے کہ اس دن کا منہ تم دیکھو حشر کے دن خدا کے سامنے پیش ہو ہمارے اس حکم کو سنو اور اس کو یاد رکھو اور اس پر عمل کرو کہ اپنے اموال میں سے اور اپنی قوتوں اور استعدادوں میں سے غرضیکہ ہر اس چیز سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اس کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ اس دن خرید و فروخت وہی کام آئے گی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اس دن وہ کام آئے اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (التوبہ :۱۱۱) اس کے سوا اس دن کوئی خرید فروخت کام نہیں آئے گی نہ کوئی مال ہو گا کہ اس دن کوئی خرید و فروخت کی جا سکے دوستیاں کام نہیں آئیں گی پس اپنا تعلق دوستی کا اپنے ربّ سے آج پیدا کر لو کہ سوائے اللہ کی دوستی اور اس کے پیار اور اس کی پناہ کے اور کوئی پناہ اور پیار اور دوستی وہاں کام نہیں آ سکے گی۔ وَلاَشَفَاعَۃٌ اس دنیا میں جو تمہیں عادت پڑی ہے کہ سفارش کے ذریعہ اپنے لئے وہ چیزیں بھی حاصل کر لو جن کا تمہیں حق نہیں ہے اس قسم کا وہاں ماحول نہیں ہو گا۔
کوئی شفاعت، کوئی سفارش اس دن کام نہ آئے گی سوائے اس شفاعت کے جس کے متعلق آج خدا اعلان کرتا ہے اور جو خود اللہ تعالیٰ کی شفاعت ہے یا وہ جس کو خدا اذن دے اس کی شفاعت بھی قبول ہو گی تو یہ دن بڑا سخت ہے اور یہ حشر کا دن ایسا ہے کہ کوئی تجارت، کوئی دوستی، کوئی شفاعت کام نہیں آئے گی اس کے لئے ہم نے خود اپنے لئے تیاری کرنی ہے اگر ہم اس دنیا میں اپنی محبت کے ذریعہ اپنی بے نفسی کے نتیجہ میں اور اپنی قربانیوں کے ساتھ اپنے ربّ کو راضی کر لیتے ہیں اور وہ یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ یہ مال میں نے تمہارا قبول کیا اور اس کے بدلے میں جو میرے وعدے ہیں تمہارے حق میں پورے ہوں گے جب وہ اس دنیا میں یہ اعلان کر دیتا ہے کہ میں تمہارا دوست اور ولی ہوں جب وہ اس دنیا میں کہہ دیتا ہے کہ گھبرانا نہیں تم میری شفاعت کے سایہ اور محمد رسول اللہﷺ کی شفاعت کے سایہ کے نیچے ہو، تب یہ تین چیزیں تمہارے کام آ سکتی ہیں اور تب یہ تین چیزیں تمہارے کام آئیں گی اس کے بغیر اس کے علاوہ کوئی تجارت، کوئی دوستی، کوئی شفاعت تمہارے کام نہیں آ سکتی اس لئے اس دن سے پہلے اس دنیا میں اپنے لئے ان تین چیزوں کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرو ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے وہ ہمارے سَودوں کو قبول بھی کرے وہ ہمارا ولی بھی بن جائے وہ ہمارا شفیع بھی ہو جائے اور اپنی مغفرت اور اپنی رحمت کی چادر میں ہمیں لے لے اور ہمیں وہ ملے جس کا اس نے اپنے پاک بندوں سے وعدہ کیا ہے اور ہمارے گناہ ہمارے لئے جہنم خریدنے والے نہ ہوں بلکہ اس طرح ڈھانک دئے جائیں کہ اس کے فرشتوں کو ہاں خود ہمیں بھی نظر نہ آئیں۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۳۱ ؍مئی ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭

خطبہ جمعہ ۱۷؍ مئی ۱۹۶۸ء
ء ء ء
’’حضور علالت طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لا سکے‘‘۔
(الفضل ۱۹؍ مئی ۱۹۶۸ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

خوف خدا کے تحت تمام برائیوں سے بچا جائے۔ محبت الٰہی کی ہر راہ کو اختیار کیا جائے۔ قربانی کی ہر راہ پر گامزن رہا جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴ ؍ مئی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اُخروی زندگی میں جو فلاح اور ابدی حیات ایک مومن کو ملے گی وہ چار خصوصیات کی حامل ہوگی۔
٭ تقویٰ کے معنی ہیں اپنے نفس کو گناہ اور معاصی اور نواہی کے ارتقاب سے بچائے۔
٭ اپنے ربّ کی طرف پہنچانے والی ہر راہ کو تلاش کرو۔
٭ قرآن کریم کی ہدایات اور احکام سے دلی پیار اور محبت کرو۔
٭ ان راہوں پر گامزن ہو جن پر چل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے ۔




تشہد ، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِيْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo(المائدہ :۳۶ )
اس کے بعد فرمایا:۔
گذشتہ دنوں مجھے نقرس کی شدید تکلیف رہی گو اب بہت حد تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے افاقہ ہے لیکن ابھی کچھ تکلیف باقی ہے اسی طرح چند دن نزلہ کا بھی بڑا شدید حملہ رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب افاقہ ہے گو ہر دو بیماریوں کی وجہ سے نقاہت اور ضعف ابھی باقی ہے لیکن چونکہ جمعہ ہمارے لئے ملاقات اور وعظ و نصیحت کا ایک دن ہے اس لئے میں نے سوچا میں جمعہ کیلئے آ جائوں خواہ ایک مختصر سا خطبہ ہی دوں لیکن ملاقات ہو جائے گی اور نیکی کی کچھ باتیں میں اپنے دوستوں کے کانوں میں ڈال سکوں گا۔
جو مختصر سی آیت اس وقت میں نے تلاوت کی ہے اس میں نہایت حسین پیرایہ میں ایک نہایت ہی بنیادی اہمیت کا مضمون بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی کتب اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کی کوئی غرض ہوتی ہے انسان کسی مقصد کے پیش نظر دنیا سے منہ موڑتا اور دنیا والوں کی دشمنی خرید کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا اور یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اپنے ربّ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کو جیسا کہ وہ چاہتا ہے اپنی ذات میں کامل اور اپنی صفات میں کامل سمجھے گا اور اس بات پر یقین کرنے کا اعلان کرتا ہوں اسی طرح وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان لایا ہوں اور جو پہلے رسول گزرے ہیں اور جو کتب نازل ہوئی ہیں ان پر بھی ایمان لایا ہوں اور اِیْمَان بِاللّٰہ، اِیْمَان بِالرُّسُل اور اِیْمَان بِالْکُتُب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان فلاح دارین حاصل کرے اور اس زندگی میں بھی وہ خدا میں ہو کر با آرام زندگی پائے اور اخروی زندگی (جو مرنے کے بعد انسان کو یقینا ملنے والی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے وعدہ کیا ہے) میں بھی وہ فلاح کو حاصل کرے۔ فلاح کے معنی انتہائی کامیابی کے ہیں اور امام راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ اُخروی زندگی میں جو فلاح اور ابدی حیات طیبہ ایک مومن کو ملے گی وہ چار خصوصیات کی حامل ہو گی۔ چار باتیں اس میں پائی جائیں گی اور وہ یہ ہیں۔
(۱) ایک ایسی ابدی زندگی جس پر کبھی فنا نہ آئے۔
(۲) ایک ایسی تو نگری جس کے ساتھ کوئی احتیاج نہ رہے۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسی عزت کہ جس کے ساتھ شیطانی ذلت کے اندھیرے کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔
(۴) وَعِلْمٌ بِـلَاجَھْلٍاور وہ حقیقی علم جو جہالت کی تمام ظلمتیں اور اس کے اندھیروں کو دور کر دیتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس غرض سے ایمان لائے ہو کہ ایک ابدی حیات تمہیں حاصل ہو وہ حیات طیبہ تمہیں ملے جو ابدی فیوض کی حامل اور خداتعالیٰ سے نئے سے نئے اور زیادہ سے زیادہ فیض اور برکتیں اور رحمتیں حاصل کرنے والی ہو اور یہ ایک ایسی زندگی ہے جس کا تصور بھی ہم یہاں اس دنیا میں نہیں کر سکتے۔
جہاں تک غنا اور احتیاج کا سوال ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو چاہو گے تمہیں مل جائے گا اس سے زیادہ اور کیا غنا ہو سکتی ہے عزت کی ایک نگاہ بھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندہ پر پڑے وہ بھی بڑی ہے لیکن جس زندگی کے متعلق یہ وعدہ ہو کہ اس کے ہر لمحہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی نگاہیں ایک عاجز انسان پر پڑتی رہیں گی اس سے بڑھ کر اور کیا عزت ہو گی پھر علم اور علم کی زیادتی کا یہ حال کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ فرماتا ہے یعنی مومن ہدایت کے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے کچھ مقامات حاصل کرتا ہے تو کچھ اور نئی راہیں اس پر کھول دی جاتی ہیں پھر وہ ایک نئے بلند تر مقام پر پہنچتا ہے تو قرب کی کچھ اور راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں یہ ہدایت اور علم ایسا نہیں جس پر انسان ایک وقت میں احاطہ کر لے اور سیر ہو جائے اور پھر تشنگی کا احساس اس کے اندر پیدا نہ ہو بلکہ یہ وہ علم اور ہدایت ہے جو ہر لمحہ بڑھتا ہے وہ علم جو ہر لمحہ انسان کو خداتعالیٰ سے قریب سے قریب تر لے جاتا ہے وہ علم ہے جس پر شیطان کی یلغار کا امکان ہی نہیں کیونکہ جنت کے دروازے شیطان پر بند ہو چکے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کی ابدی حیات طیبہ کے حصول کے لئے تم ایمان لاتے ہو اور میری آواز پر لبیک کہتے ہو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس اعلان ایمان کے نتیجہ میں تین قسم کی ذمہ داریاں تم پر عائد ہوتی ہیں اور تین تقاضے ہیں جو یہ ایمان انسان سے کرتا ہے۔
پہلا تقاضا اس کا یہ ہے کہ اِتَّقُوْاللّٰہَ انسان ایمان سے قبل بہت سی بدیوں اور بد عادتوں اور بدرسوم اور شیطانی خیالات میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ ایمان کے ساتھ ہی اس کو یہ ساری برائیاں چھوڑنی پڑتی ہیں اور چھوڑنی چاہئیں اگر وہ ایمان میں سچا ہے تقویٰ کے معنی ہیں اپنے نفس کو گناہ اور معاصی اور نواہی کے ارتکاب سے انسان اس لئے بچائے کہ کہیں اس کا ربّ اس سے ناراض نہ ہو جائے پس جب ایمان حقیقی ہو اور اس کے ساتھ جیسا کہ چاہئے معرفت اور عرفان بھی ہو تو ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ساری برائیوں اور بدیوں اور بد رسوموں اور بد عادتوں اور بد خیالات اور بد خواہشوں اور گند سے میلان طبع کو انسان اپنے ربّ کی خاطر چھوڑ دے غرض تمام گناہوں اور معاصی سے بچنے کا نام تقویٰ ہے اور عقلاً بھی انسان سے پہلا مطالبہ یہی ہونا چاہئے کیونکہ جب تم کہتے ہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے تو عقل کہتی ہے کہ اب تم کسی ایسی چیز کی طرف متوجہ نہ ہونا جو تمہارے ربّ کی پسندیدہ نہیں جس سے وہ ناراض ہو جاتا ہے پس پہلا تقاضا ایمان ہم سے یہ کرتا ہے کہ ہم ہر اس چیز سے بچیں جو ہمارے ربّ کو پسندیدہ اور پیاری نہیں ہے۔
دوسری ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے یا یوں کہو کہ دوسرا تقاضا ایمان ہم سے یہ کرتا ہے کہ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ یعنی مقام خوف جس کا تقویٰ میں ذکر ہے صرف وہ کافی نہیں بلکہ اس کے بعد مقام محبت میں داخل ہونا ضروری ہے اور انسان کے دل کی یہ حالت ہونی چاہئے کہ وہ دلی تڑپ اور شوق اور رغبت کے ساتھ ان راہوں کو ڈھونڈے جو راہیں کہ اس ربّ کی طرف لے جانے والی ہیں جب غرباء کی ایک جماعت نبی اکرمﷺ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئی تھی کہ امیر کچھ ایسی نیکیاں کرتے ہیں جو غریب بجا نہیں لا سکتے اس لئے انہیں کچھ عبادتیں بتائی جائیں کہ وہ ان کے ذریعہ اس کمی کو پورا کر سکیں تو ان کے دل کی یہ خواہش وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ہی کا ایک نظارہ ہمارے سامنے پیش کر رہی ہے پس مومن کے دل کی یہ کیفیت ہونی چاہئے کہ ہر اس راہ کو تلاش کرے جو راہ اسے اس کے ربّ کی طرف پہنچانے والی ہو اور جس پر چل کر وہ اپنے ربّ کا قرب حاصل کرنے والا ہو۔ وَاسِلٌ کے معنی اللہ کی طرف راغب کے ہیں یعنی جو شخص اللہ کی طرف راغب ہو اسے عربی زبان میں وَاسِلٌ کہتے ہیں اور مفردات راغب میں ہے کہ وسیلہ کی حقیقت یہ ہے کہ قرب کی راہوں کی معرفت اور عرفان شوق سے حاصل کیا جائے (میں لفظی ترجمہ نہیں کر رہا بلکہ انہوں نے جو معنے کئے ہیں ان کا مفہوم اپنی زبان میں بیان کر رہا ہوں) اسی طرح قرب کی راہیں جو انسان پر کھلیں ان راہوں پر شوق سے چلا جائے اس کو انہوں نے عبادت کے نام سے پکارا ہے شریعت اسلامیہ کے جو احکام ہیں اور وقت اور حالات اور مقام اور ماحول کے مطابق جو بہترین ہدایتیں ہوں ان بہترین ہدایتوں پر دلی رغبت سے عمل کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ انسان سے خوش ہو جائے۔
پس ایک معنی وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ کے یہ ہیں کہ ان راہوں کی دلی رغبت اور شوق کے ساتھ تلاش جو خدا کی طرف لے جاتی اور انسان کو خداتعالیٰ کا مقرب بنا دیتی ہیں پھر وَسِیْلَۃَ کے ایک معنی ہم قران کریم کے بھی کر سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان راہوں کی نشان دہی کی ہے جو راہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں اور اس صورت میں وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ کے یہ معنی ہوں گے کہ قرآن کریم کی ہدایات اور احکام سے دلی پیار اور محبت کرو تا تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے پھر وَسِیْلَۃَ کے ایک معنی نبی اکرمﷺ کے بھی کئے جا سکتے ہیں اس کی طرف خود قرآن کریم نے سورئہ بنی اسرائیل میں اشارہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ (بنی اسرائیل :۵۸)
کہ انسانوں میں سے جن کو مشرک معبود بناتے ہیں وہ خود ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر چکے ہوں اور جن کی مدد سے یا جن کے اُسوہ پر چل کر وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں ایک مومن تو ان سے بھی زیادہ اُسوہ کی تلاش کی تڑپ اپنے اندر رکھتا ہے اور جب ہم اَیُّھُمْ اَقْرَبُ کے مفہوم کی روشنی میں جو وسیلہ کے اندر پایا جاتا ہے اور جسے سورہ بنی اسرائیل کی یہ آیت واضح کرتی ہے وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ پر غور کریں تو ہم یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ قرب الٰہی کی راہوں کی تلاش میں اُسوہ حسنہ کی تلاش کرو یعنی نبی اکرمﷺ جن راہوں پر گامزن ہو کر اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے تم بھی ان راہوں کو اختیار کرو کیونکہ آپ ہی کامل اُسوہ ہیں تمہارے سامنے چونکہ ایک مثال پہلے سے موجود ہے اس لئے تم انہیں زیادہ آسانی سے پا سکو گے اور آپ کے اُسوہ کو سامنے رکھ کر اور آپ کی نقل کرتے ہوئے خداتعالیٰ کے قرب کو زیادہ سہولت کے ساتھ حاصل کر سکو گے غرض دوسری ذمہ داری جو ایمان کی وجہ سے کسی انسان پر عائد ہوتی ہے وہ اس آیت میں وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ بتائی گئی ہے۔ لغت والے لکھتے ہیں کہ الْوَسِیْلَۃَ کے اندر یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ قرب الٰہی کی راہوں کو رغبت اور شوق کے ساتھ تلاش کیا جائے پس وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ کے یہ معنی ہوئے کہ تم شوق اور رغبت کے ساتھ ان راہوں کو تلاش کرو جو خدا تک لے جاتی ہیں۔
بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم بڑی مالی قربانیاں دیتے ہیں نمازوں میں باقاعدگی نہ ہوئی تو کیا ہوا وہ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ پر عمل نہیں کر رہے ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومن کی یہ شان بتائی ہے کہ وہ قرب کی ہرراہ سے محبت اور پیار اور رغبت اور شوق کا تعلق رکھتا ہے یہ نہیں کہ وہ بعض راہوں پر چلے اور بعض راہوں کو چھوڑ دے۔
پھر بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ’’جی سارا دن عبادت کر دے رہندے آں چندے نہ دتے تے کیہ ہو گیا‘‘ حالانکہ ہر قرب کی راہ کو بشاشت سے قبول کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ پیار کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کا ہر راستہ ہمارے ربّ تک پہنچانے والا ہوتا کہ ہم اس کی رضا کو زیادہ حاصل کر سکیں وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ کا ہی مظاہرہ تھا کہ بعض صحابہؓ کے متعلق آتا ہے کہ چاہے انہیں پیشاب کی حاجت نہ ہوتی وہ بعض جگہ پیشاب کرنے کے لئے بیٹھ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے نبی اکرمﷺ کو یہاں پیشاب کرتے دیکھا تھا اس لئے ہم رہ نہیں سکے اور ہم نے یہاں پیشاب کیا ہے بظاہر اس فعل میں کوئی دینی چیز نہیں لیکن اس کے پیچھے جو محبت کام کر رہی ہے وہ بڑی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ یقینا ایسے جذبات کو قبول کرتا ہے یہ چیز انسان کو کہیں سے کہیں اُٹھا کر لے جاتی ہے غرض وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہم نے قرب کی ہر راہ سے پیار کرنا ہے یہ نہیں کہ بعض راہوں کو لے لیا اور بعض کو چھوڑ دیا۔
جب خداتعالیٰ کی طرف لے جانے والی راہوں کی تعیین ہو گئی اور ان راہوں سے پیار ہو گیا تو پھر ایمان کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ دراصل جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا ہے وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ کا تعلق محبت الٰہی کے ساتھ ہے جیسا کہ اِتَّقُوْا اللّٰہ کا تعلق خوفِ الٰہی کے ساتھ ہے پھر جَاھِدُوْا فِيْ سَبِیْلِہٖ جس وقت انسان صحیح معنی میں اپنے ربّ کو پہچاننے لگتا ہے اور اس کی ذات اور اس کی صفات کاملہ حسنہ کا کامل عرفان حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی قدر اور عزت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس کی عزت اور عظمت اور اس کا جلال کچھ اس طرح دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں رہتی وہ ہیچ نظر آتی ہے قدر دانی کا یہ جذبہ محبت اور خوف سے جداگانہ ہے اور میں سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تجربہ رکھنے والے اس پر گواہی دیں گے کہ یہ خوف اور محبت کے جذبہ سے بلند تر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خوف اور محبت کے بعد جب تم واقعہ میں اللہ تعالیٰ کو پہچاننے لگے اور اس کی معرفت تمہیں حاصل ہو گئی تو پھر تم اس بات سے رہ نہیں سکتے کہ اس کے راستہ میں جہاد کرو یعنی وہ راہ جب مل گئی تو دنیا کی ہر تکلیف برداشت کرتے ہوئے ہر قربانی دے کر اس راہ پر گامزن رہنا یہ مجاہدہ ہے۔ مال کی قربانی ہے، نفس کی قربانی ہے، جان کی قربانی ہے، اوقات کی قربانی ہے، عزتوں کی قربانی ہے اور اولاد کی قربانی ہے ہر قسم کی قربانی ہے جس کا مطالبہ ’’جَاھِدُوْا‘‘ ہم سے کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا مقام انسان نے پہچان لیا تو وہ کہاں بخل کرے گا بخل تو ایسے دل اور ایسے دماغ میں داخل ہو نہیں سکتا وہ تو یہ کہے گا کہ ہر چیز خدا کی راہ میں قربان ہے اور یہ تیسری ذمہ داری ہے جو خداتعالیٰ نے انسان پر ڈالی ہے۔
پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اوّل خدا کا خوف پیدا ہو اور انسان تمام برائیوں کو چھوڑ دے پھر خدا کی محبت پیدا ہو اور انسان نیکی کی ہر راہ پر گامزن ہونے کے لئے تیار ہو جائے اور خداتعالیٰ کی قدر اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اس کے دل کو اپنے قبضہ میں لے لے اور اس کی راہ میں ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہ اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنِ۔
جب یہ تینوں مطالبے تم پورے کرو گے لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تب ہی تم اس فلاح دارین کو حاصل کرو گے جو تمہارے ایمان کی غرض ہے اگر تم ایمان کا دعویٰ کرو لیکن ان مطالبات کو پورا نہ کرو تو تم فلاح دارین حاصل نہیں کر سکتے تمہارے جیسا بد بخت اور بد قسمت پھر کوئی نہیں ہو گا کہ جس کے ہاتھ میں نہ دنیا رہی نہ دین رہا دنیا دار دین کی وجہ سے اس سے پیچھے ہٹ گئے اور ناراض ہو گئے اور خدا کے سامنے اس کے اعمال پیش کئے گئے تو ان میں ہزار کیڑے دنیا کے نکلے اور خداتعالیٰ نے بھی انہیں رد کر دیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم واقعہ میں حقیقی مومن بن جائیں اور ایمان کے ہرسہ تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اور محض اس کے فضل سے ہم فلاح دارین حاصل کریں یعنی اس دنیا میں بھی باآرام زندگی پائیں اور اس دنیا میں بھی ابدی بقا، لِقا اور رضا ہمیں حاصل ہو تا کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد اور مطلوب کو حاصل کر سکیں اور دنیا جو ان راہوں کو پہچانتی نہیں اور ہمیں تمسخر اور استہزاء سے دیکھ رہی ہے وہ دیکھے کہ خدا کی راہ میں ذلتیں اٹھانے والے ہی عزتوں کے وارث قرار دئیے جاتے ہیں اور اس کی راہ میں دکھ پانے والے ہی ابدی سرور اور لذت حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کی بھی آنکھیں کھولے اور اپنے قرب کی راہوں کی طرف ان کو ہدایت دے اور انسانی زندگی کا جو مقصد ہے وہ ان کی زندگیوں میں بھی پورا ہو۔ آمین
(روزنامہ الفضل ۲۲ ؍جون ۱۹۶۸ء صفحہ۲تا۴)
٭…٭…٭
حقیقی عبادت کیلئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کا فضل بھی ضروری ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱ ؍ مئی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ حقوق العباد بھی دراصل حقوق اللہ کی ایک شاخ ہیں کیونکہ اگر حقوق اللہ نہ ہوتے تو حقوق العباد بھی نہ ہوتے۔
٭ حقیقی عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کا فضل بھی ضروری ہے۔
٭ اگر ہماری نماز، ہمارے روزے، ہماری زکوٰۃ اور ہماری دوسری عبادتیں زندہ ہیں تو وہ قبول ہونگی۔
٭ اپنی نفسانی خواہشات کی گردن پر چھری پھیر کر انہیں اپنے ربّ کے قدموں میں ڈالیں۔
٭ اللہ تعالیٰ کی کامل ہستی اس کی قدرت اور اس کی دوسری صفات حسنہ پر ہمیں یقین کامل ہونا چاہئے۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری بیماری تو بہت حد تک دور ہو گئی ہے لیکن ضعف ابھی چل رہا ہے اور بعض دفعہ کافی تکلیف بھی دیتا ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کامل صحت اور طاقت اور ہمت دے تاکہ ان ذمہ داریوں کو اللہ کی مرضی کے مطابق مَیں نباہ سکوں جو ذمہ داریاں اس نے مجھ پر ڈالی ہیں۔
اس وقت میں مختصراً جماعت کو ایک بنیادی اور بڑے ہی اہم مسئلہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص غرض اور مقصد کے پیش نظر پیدا کیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اس کی صحیح اور حقیقی پرستش کرے اور اس کا بندہ بن جائے اور ان انعاموں کو وہ حاصل کرے جو اس نے اپنے حقیقی اور خالص بندوں کے لئے مقدر کر رکھے ہیں۔
اصولی طور پر دو حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں ایک اللہ کا حق ہے اور ایک وہ جنہیں ہم حقوق العباد کہتے ہیں حقوق العباد بھی دراصل حقوق اللہ کی ایک شاخ ہی ہے کیونکہ اگر حقوق اللہ نہ ہوتے تو حقوق العباد بھی نہ ہوتے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اخلاق صحیحہ وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ماننے والے اور اس کے احکام کی رعایت رکھنے والے ظاہر کرتے ہیں اگر اللہ نہ ہو یا اگر اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو یا اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے آسمانی صحیفے اور ہدایتیں نازل نہ ہوں تو پھر اخلاق بے معنی ہو جاتے ہیں ان حالات میں انسان خود غرضی کا نام اخلاق رکھ دیتا ہے پس بنیادی طور پر ایک ہی فریضہ ہے جسے انسان نے ادا کرنا ہے اور ایک ہی حق ہے جس کو پورا کرنے کی اس نے کوشش کرنی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے اللہ کا بندہ بن جائے اور اس کی حقیقی پرستش کرنے والا ہو۔
قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ حقیقی عبادت کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کا فضل بھی ضروری ہیں ان کے بغیر انسان پرستش عبادت اور عبودیت کا حق ادا نہیں کر سکتااور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب انسان اللہ کے اس حق کو ادا کرتا ہے اپنے اس فریضہ کو بجا لاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اسے انعام بھی دیا جاتا ہے اس انعام کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا ہے اس کا تعلق اس دنیا سے بھی ہے اور اُخروی زندگی کے ساتھ بھی ہے۔ جنت کے ایک انعام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح بھی کیا ہے کہ جو تم مانگو وہ تمہیں مل جائے گا یعنی تمہارا سارا ہی وجود اس طرح خط مستقیم پر قائم ہو گا کہ تمہاری کوئی خواہش تمہاری کوئی مرضی تمہاری کوئی دعا اور مطالبہ ایسا نہیں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو اور چونکہ تمہاری خواہش اور اللہ کی مرضی اکٹھے ہو جائیں گے اس لئے جو تم چاہو گے وہ تمہیں مل جایا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر چونکہ حقیقی پرستش نہیں کی جا سکتی اس لئے عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اس کے حضور عاجزانہ دعائوں سے جھکیں کہ اپنی کوشش سے ہم اس حق کو ادا نہیں کر سکتے اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ فرمایا اور ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اگر تم صحیح طریق پر عبادت کرنا چاہتے ہو تو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یہ دعا کرتے رہا کرو کہ اے خدا عبادت کی خواہش تو ہم رکھتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اپنی قوت اور طاقت سے ہم اس فرض کو پورا نہیں کر سکیں گے جب تک تیری مدد ہمارے شامل حال نہ ہو اس لئے تو ہم پر رحم کر اور ہماری مدد کو آ اور ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تیری عبادت کو کما حقہ پورا کر سکیں۔
اسی سورۃ میں انعام کی طرف بھی اصولاً اور بڑے حسین پیرایہ میں متوجہ کیا ہے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اپنے اللہ اور محمد رسول اللہﷺ کو پہچاننے کی وجہ سے ہمارے دل میں جو سب سے بڑی تڑپ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنے ربّ کو پہچانیں اور محمد رسول اللہﷺ کے احسان کو مانتے ہوئے آپؐ پر درود بھیجنے لگیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ہوں اگر اور جب ہماری عبادت قبول ہو جائے اور خدا ہمیں کہے کہ میں جیسا کہ تیری خواہش تھی تمہاری مدد کو آیا اور میں نے تمہیں توفیق عطا کی کہ تم صحیح معنی میں میرے عبادت گزار بندے بن جائو اب میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں بتائو کیا لینا چاہتے ہو؟ تو ہم میں سے ہر احمدی کی یہ ندا ہو کہ اے میرے ربّ تو نے ہم پر بڑا احسان کیا کہ ہمیں عبادت کی توفیق عطا کی تو نے ہم بڑا احسان کیا کہ تو نے ہماری ان عبادتوں کو قبول کیا اور تو ہم بڑا احسان کر رہا ہے کہ ان عبادتوں کو قبول کرنے کے بعد ہمیں اپنے فضلوں اور انعاموں سے نوازنا چاہتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اس دنیا میں بسنے والے تمام ہمارے انسان بھائی تمہیں پہچاننے لگیں اور محمد رسول اللہﷺ جو تعلیم دنیا کی بہتری کے لئے لائے تھے وہ اپنی گردنیں اس تعلیم کے جوئے کے نیچے رکھ دیں اور ابدی جنتوں کے ہماری طرح وہ بھی وارث ہوں۔
پرستش کا دعویٰ کرنا اور یہ کہنا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں آسان ہے لیکن کرنا مشکل ہے کیونکہ عبادت صرف نمازیں پڑھنے کا نام نہیں قیام رکوع اور سجود کو ظاہری شکل میں بجا لانے کا نام ہی عبادت نہیں ہے خالی زکوٰۃ دے دینا بھی عبادت نہیں محض روزے رکھنا بھی عبادت نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک روح ہے جس کی ضرورت ہے اگر ہماری نماز، اگر ہمارے روزے، اگر ہماری زکوٰۃ اور اگر ہماری دوسری عبادات زندہ ہیں تو وہ قبول ہوں گی اگر مردہ ہیں تو جو مردوں سے سلوک کیا جاتا ہے وہی ان سے کیا جائے گا پرستش کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے پس روح کی ضرورت ہے جس کے لئے ہم اپنے ربّ سے دعائیں مانگتے ہیں وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم غیراللہ کے وجود کو مٹائیں اور غیراللہ میں پہلا وجود ہمارے اپنے نفس کا ہوتا ہے اگر ہم اپنے ہی ہاتھ سے اپنی نفسانی خواہشات کی گردن پر چھری پھیر کر انہیں اپنے ربّ کے قدموں میں نہ لا ڈالیں تو ہماری عبادت کیسے قبول ہو گی اللہ کہے گا کہ آدھے تم میری طرف جھکے اور آدھے تم اپنے نفسوں کی پرستش میں مصروف رہے اس قسم کی عبادتوں کو میں پسند نہیں کرتا حقیقی عبادت جیسا کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اس کی کریں اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے جو میں اس وقت پڑھ دیتا ہوں اور جس پر میں آج اپنے مختصر سے خطبہ کو ختم کروں گا۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے۔ مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستار الٰہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اٹھ جائے اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو‘‘ ۔
(حقیقتہ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۵۴)
اس طرف ہمیں خاص توجہ دینی چاہئے نام تو ہم اللہ کا لیتے رہتے ہیں اس کے نشان بھی بڑی کثرت سے ہماری جماعت دیکھتی ہے مگر وہ یقین کامل جو اس کی کامل ہستی اور اس کی قدرت اور اس کی دوسری صفات حسنہ پر ہونا چاہئے بعض دفعہ بعض احمدیوں کے دل میں بھی ان کے متعلق کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اس متاع حسین اور بڑی قیمتی متاع کی حفاظت ہر وقت ہر احمدی کو کرتے رہنا چاہئے۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزش محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اس کی درد میں لذت ہو اور اسی کی خلوت میں راحت ہو اور اس کی بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجز خداتعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو اسی لئے خداتعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اسی پر توکل کرے اور اسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اس کی یاد کو سمجھے اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجا لائے اور رضا جوئی اپنے آقائے کریم میں اس حدتک کوشش کرے کہ اس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت تلخ شربت ہے تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے ہیں اور اس شربت کو پیتے ہیں زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہنر نہیں مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور سچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اور جو شخص یہ عبادت بجا لاتا ہے تب تو اس کے اس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے‘‘۔
(حقیقتہ الوحی ، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۵۴،۵۵)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توفیق عطا کرے کہ ہم اس کے حقیقی پرستار بندے بن جائیں اور جو حق اس کی عبادت کا ہے وہ اس کے فضل سے پورا کرنے والے ہوں اور اس فرض کو صحیح معنی میں بجا لانے والے ہوں تا ہم ان انعامات کے وارث بنیں جو اس نے اپنے حقیقی بندوں کے لئے مقدر کر رکھے ہیں۔ آمین
٭…٭…٭
زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کا مشاہدہ کئے بغیر ہم توحید کامل پر قائم نہیں ہو سکتے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۷ ؍ جون ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ زندہ خدا کی زندہ طاقتوں کا مشاہدہ اس پاک وجود کی صفات کے جلووں کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔
٭ دن کے بعد جو رات آتی ہے وہ قرب الٰہی اور مقام محمود کے حصول کے سامان بھی پیدا کرتی ہے۔
٭ مومن کے لئے کوئی تدبیر مکمل نہیں ہوتی۔ جب تک دعا اس کا جزو لازم نہیں ہوتا۔
٭ جب رَحِیْمِیَّت کا دروازہ نہ کھلے تو ہمیں رَحْمَانِیَّت کے دروازہ پر جا کے کھڑے ہو جانا چاہئے۔
٭ زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کے بغیر ہم توحید کامل پر قائم نہیں ہو سکتے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اس کے دل سے نہیں نکلتا اور نہ سچی توحید اس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر وہ خدا کی ہستی کا قائل ہو سکتا ہے‘‘۔
زندہ خدا کی زندہ طاقتوں کا مشاہدہ اس پاک وجود کی صفات کے جلوئوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو صفات باری انسان سے تعلق رکھتی ہیں ان کا کامل علم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیا ہے ان صفات میں سے چار اُمہات الصفات ہیں یعنی بنیادی صفات باری ہیں جن کا ذکر سورہ فاتحہ میں آتا ہے۔ رَبّ، رَحْمٰنْ، رَحِیْم، اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ان صفات میں سے رَحْمٰنْ اور رَحِیْم کے متعلق اس وقت میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں صفت رحمن کے جلوے ہمیں دو قسم کے (اصولی طور پر) نظر آتے ہیں ایک وہ احکام و قوانین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری پیدائش سے بھی پہلے اس عالمین میں اس لئے جاری ہوئے کہ انسان کو اس کے نتیجہ میں فائدہ پہنچے مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہماری بقا کے لئے ہماری پیدائش سے بھی پہلے اور ہمارے کسی عمل کے نتیجہ کے طور پر نہیں بلکہ محض رحمانیت کی صفت کے اظہار کے لئے ہوا کو پیدا کیا تاکہ ہم سانس لیں اور زندہ رہیں ہماری غذائی احتیاجوں اور ہمارے جسمانی نظام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سورج بنا دیا اور اس کا ایک خاص تعلق زمین سے قائم کیا سورج اور زمین کا باہمی تعلق دن اور رات کو پیدا کرتا ہے اور ہمارے آرام اور ہمارے کام کے سامان اس کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اگر بارہ مہینے رات ہی رہتی تو انسان اس قسم کی دنیوی ترقیات حاصل نہ کر سکتا جو وہ کر چکا ہے کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا اس لئے بھی کہ روشنی کے ذریعہ بہت سے کام کئے جاتے ہیں ہماری ترقی میں روشنی یا سورج کی کرنوں کا بڑا دخل ہے مثلاً سائنس کی ترقی میں اس طرح کہ سورج کی کرنوں کے اثر کے نتیجہ میں ہماری زمین میں بہت سی خاصیتیں پیدا ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں زراعت کا علم ترقی کرتا ہے اور زراعتی علم نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی ترقی کرتا رہے گا اور پھر اگر سردی زیادہ ہو جاتی ہمیشہ اندھیرا رہنے کے باعث تو انسان کے لئے کام کرنا بڑا مشکل ہو جاتا اگر بارہ مہینے سورج ہی نکلا رہتا تو زمین جل کے کوئلہ ہو جاتی اس معنی میں کہ اس کی بہت سی خصوصیات مر جاتیں اور انسان اس سے فائدہ نہ اٹھاتا اورآرام کرنا بھی اس کے لئے مشکل ہو جاتا اور یہ زمین انسانی رہائش کے قابل نہ رہتی اور بے آباد ہوتی پس بے شمار ایسی چیزیں اور ایسی خاصیتیں اور ایسے ستارے جو ہم سے دور ہیں اور ایسے سامان جو اس دنیا میں ہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے تاکہ انسان جسمانی اور روحانی لحاظ سے ترقی کر سکے کیونکہ دن کے بعد جو رات آتی ہے وہ قرب الٰہی، مقام محمود کے حصول کے سامان بھی پیدا کرتی ہے اگر دن ہی ہوتا بارہ مہینے کا تو انسان کے لئے روحانی طور پر مقام محمود تک پہنچنا مشکل ہو جاتابہرحال یہ ایسی چیزیں ہیں کہ ہماری پیدائش سے پہلے نسل انسانی کی پیدائش سے بھی پہلے رحمن خدا نے اپنے کامل علم اور کامل رحمت کے نتیجہ میں انسان کے لئے پیدا کی ہیں۔
ایک دوسری قسم کے رحمانیت کے جلوے ہیں جو روز بروز لحظہ بہ لحظہ، گھڑی بہ گھڑی ہمیں نظر آتے ہیں ان کی طرف میں بعد میں جائوں گا پہلے میں رحیمیت کو لیتا ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی صفت رحیمیت ہماری تدبیر میں برکت ڈالتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے لطیف پیرایہ میں ہمیں بتایا ہے کہ دعا بھی ایک تدبیر ہی ہے اور جب مادی تدبیر ہم انتہاء کو پہنچا دیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مادی تدبیر کے لحاظ سے جو احکام جاری کئے جو قانون وضع کئے تھے وہ تدبیر تو ہم نے کمال کو پہنچا دی لیکن یہ ایک مومن کا دل کہتا ہے کہ اب بھی مجھے میرے ربّ رحیم کی ضرورت ہے اور وہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے رحیم خدا میری تدبیر کے بہتر نتائج نکال پس ایک مومن کے لئے کوئی تدبیر مکمل نہیں ہوتی جب تک دعا اس کا جزو لازم نہیں ہوتا۔
پس رحیمیت کے ساتھ عاجزانہ پر سوز دعائوں کا بڑا گہرا تعلق ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان مشرک بن جائے اگر وہ یہ سمجھے کہ مادی تدبیر کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی کوئی ضرورت نہیں تو وہ مشرک بن گیا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ تو بتایا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں دنیا میں کہ اگرچہ وہ ہم پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی ہماری معرفت رکھتے ہیں لیکن دنیا کمانے کے لئے جو دنیوی تدابیر وہ اختیار کرتے ہیں ان میں ہم انہیں کامیاب کر دیتے ہیں اور اس ورلی زندگی کا آرام و آسائش انہیں حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ سعی اور کوشش میں بھی دعا مخفی ہوتی ہے لیکن خدا کا ایک مومن بندہ صرف اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ اس نے تدبیر کی اور خداتعالیٰ کی رحیمیت نے اس کی تدبیر کو صرف اس دنیا میں کامیاب کر دیا اور اُخروی دنیا میں اس کے لئے اس کے نتیجہ میں کوئی ثواب مقدر نہیں کیا کیونکہ ایک مومن جانتا ہے کہ چونکہ اُخروی زندگی یقینی ہے اس لئے ایک تسلسل زندگی کا ہے موت تو ایک پردہ ہے گرا رہتا ہے پھر اُٹھ جاتا ہے پھر انسان دوسری دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ میری زندگی کا تسلسل خدا کی رحمت کے سائے میں رہے گا اسے حقیقی آرام نہیں حاصل ہو سکتا۔
پس دعا تدبیر کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ یہ بھی ایک تدبیر ہی ہے ایک تدبیر ہم مادی ذرائع سے کرتے ہیں اور ایک تدبیر ہم دعا کے ذریعہ سے کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اشیاء میں اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہم کوئی تدبیر کرتے ہیں تو اس کا فضل مومن کے شامل حال اس رنگ میں ہوتا ہے کہ دنیا میں بھی وہ کامیاب ہوتا ہے اور اُخروی زندگی میں بھی لیکن جو لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ساری کوششیں اسی دنیا میں گم ہو گئیں اور ان کی ساری زندگیاں اسی دنیا کے لئے ہو گئیں جنہوں نے اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو بھلا دیا اور اس سے نہ کسی خیر کی امید چاہی اور نہ کوئی خیر انہیں ملی اسی دنیا کی تدبیر کے نتیجہ میں صرف اس دنیا کی کامیابیاں انہیں رحیمیت کے طفیل حاصل ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے اس قسم کے جلوے روز ہمیں نظر آتے ہیں پس بعض خدائے رحیم سے محض دنیا کے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ (اس کے وعدہ کے مطابق) بعض وہ بھی ہیں جو اپنے خدائے رحیم سے اس دنیا کے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں اور اُخروی زندگی کے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہ اس یقین کامل پر قائم ہوتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے لینا ہے اپنے ربّ سے لینا ہے۔
خداتعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے ایک دوسرے رنگ میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں وہ اس طرح پر کہ بعض دفعہ ہر تدبیر ناکام ہو جاتی ہے بعض دفعہ کوئی تدبیر سوجھتی ہی نہیں مثلاً ایک مریض ہے ڈاکٹر کہتے ہیں ہم صحیح تشخیص پہ پہنچے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ اس مریض کو کینسر کی بیماری ہے اور جتنی دوائیں اس وقت تک انسان کو اس مرض کے علاج کے لئے معلوم ہیں وہ استعمال کرتے ہیں ایلو پیتھک، بھی طبّ یونانی ہومیوپیتھک بھی اور صدری نسخے بھی لیکن ہر قسم کی دوا دینے کے بعد بھی مرض کو افاقہ نہیں ہوتا۔
ایک ایسا مریض ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے دنیا کے چوٹی کے ڈاکٹر معائنہ کرتے ہیں اور نہیں سمجھ سکتے کہ اس کو مرض کیا ہے؟ مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو سکتی ابھی پچھلے دنوں ہمارے ایک احمدی دوست چوہدری عبدالرحمن صاحب جو انگلستان میں ہیں ان کو بخار آنے لگا (پہلے بھی اسی قسم کی بیماری میں وہ مبتلا ہوئے تھے پھر آرام آ گیا اور اب پھر ان کو اسی بیماری کا حملہ ہوا) ہسپتال میں رہے بڑا ترقی یافتہ ملک ہے بڑے ماہر ڈاکٹر ہیں بڑے تجربہ کار معالج ہیں مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہسپتال میں رکھا پتہ نہیں لگتا کہ بیماری کیا ہے اگر بیماری کا پتہ ہی نہ لگے تو علاج کیسے ہو کیا دوا دینی چاہئے اس کا بھی پتہ نہیں لگ سکتا اور اگر دوا کا پتہ نہ لگے تو مادی تدبیر نہیں کی جا سکتی اور رحیمیت کے جلوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا رحیمیت کا جلوہ تو وہاں نظر آتا ہے جہاں تدبیر اپنے کمال کو پہنچے۔
پس بعض دفعہ تدبیر ناکام ہو جاتی ہے ہر قسم کی تدبیر کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکلتا کئی دوست خط لکھتے ہیں کہ تجارت کرتے ہیں ہر قسم کے جتن کر دیکھے ہیں فائدہ نہیں ہوتا جس چیز میں ہاتھ ڈالتے ہیں نقصان ہوتا ہے ہر قسم کی تدبیر کی احمدی تو تدبیر کا ایک لازمی حصہ چونکہ دعا کو بھی سمجھتا ہے اس لئے وہ دعا جو تدبیر کا حصہ بنتی اور مادی تدبیر کی کامیابی کے لئے کی جاتی ہے اور خدا کی صفت رحیمیت کو جوش میں لاتی ہے وہ بھی کی گئی اور ناکام ہو گئی۔ پس انتہائی تدبیر کی کیونکہ مادی تدبیر بھی کی اور اس کے بہتر نتائج کے لئے دعا کی صورت میں روحانی تدبیر بھی کی لیکن نتیجہ سوائے ناکامی کے کچھ نہ نکلا ایسے دوست بہت پریشان ہوتے ہیں اور پریشانی کا باعث یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کی صفت کیوں ہمارے حق میں جوش میں نہیں آتی پس بعض دوست پریشانیاں اٹھاتے ہیں ناکامیوں کا منہ دیکھتے ہیں اور میں بھی ان کے لئے پریشان ہوتا ہوں۔ پس اگر تدبیر ناکام ہو جائے یا اگر تدبیر سوجھے ہی نہ ہر دو صورتوں میں ہمیں خدائے رحمن کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے جس وقت مریض لاعلاج قرار دے دیا جاتا ہے اور مادی تدبیر کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے کی گئی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر مبرم ہے اس وقت اگر رحمان کی صفت رحمانیت کے آگے عاجزی اختیار کی جائے اور اپنے رحمان خدا سے یہ کہا جائے کہ اے ہمارے ربّ! تو رحیم بھی ہے، تو رحمن بھی ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تیری صفت رحیمیت کا دروازہ کھلوانے میں ناکام ہوئے ہیں اب ہم تیری رحمن ہونے کی صفت کے حضور جھکتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ نہ ہمارا کوئی عمل نہ کوئی تدبیر جس طرح تو نے سورج اور چاند کو نیز بے شمار ستاروں کو ہماری فلاح اور بہبود کے لئے پیدا کیا ہے اب بھی اپنی رحمانیت کی صفت کا ایک جلوہ دکھا اور یہ کام کر دے۔
تو جب رشتے دار مایوس ہو جاتے ہیں اور طبیب مریض کو لاعلاج قرار دیتا ہے اور وہ دعائیں جو تدبیر کا ہی حصہ ہیں، تدبیر بھی ہیں، وہ بھی قبولیت حاصل نہیں کرتیں اس وقت اگر ہم رحمن خدا کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو بسا اوقات وہ ہمارے لئے کھولا جاتا ہے۔ ہمارے ربّ نے جس طرح بے شمار چیزیں ہمارے اعمال سے بھی پہلے ہمارے لئے پیدا کر دی تھیں اور ان کو ہماری خدمت میں لگا دیا تھا وہ خدائے رحمان اپنی تمام قدرتوں اور طاقتوں کے ساتھ آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح آج سے پہلے تھا۔
غرض جب رحیمیت کا دروازہ نہ کھلے تو ہمیں رحمانیت کے دروازے پہ جا کے کھڑے ہو جانا چاہئے اور یہ عرض کرنا چاہئے کہ تدبیریں تو نے پیدا کیں، ان کے استعمال کا ہمیں حکم دیا، تدبیروں کو کمال تک پہنچانے کے لئے تدبیر کا ہی ایک حصہ بنا کر تدبیر کی کامیابی کے لئے دعا کا ہم کو حکم دیا، ہم نے اپنے جتن کئے، ہم کامیاب نہیں ہوئے اس لئے تو ہمارے لئے اپنی صفت رحمانیت کو جوش میں لا اور ہماری ضرورت کو پورا کر جس طرح بے شمار ضرورتیں تو نے ہمارے بغیر کسی عمل اور استحقاق کے اس سے پہلے پوری کردیں۔
یہ رحمن کا جلوہ چوہدری عبدالرحمن صاحب لنڈن نے دیکھا ڈاکٹروں نے کہا تشخیص نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دے دی بڑ ا کام کرنے والے ہیں وہ بڑا وقت دیتے ہیں جماعتی کاموں کے لئے چار پانچ روز ہوئے ان کا خط آیا ہے کہ میں اب ہسپتال سے گھر آ گیا ہوں بڑا خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پھر توفیق دی ہے جماعتی کاموں کے کرنے کی تو ہم نے ان کی وساطت سے اور اُنہوں نے اپنی ذات میں خدائے رحمن کی رحمانیت کا جلوہ دیکھا۔
پس جو دوست مثلاً اپنی تجارت میں ناکام رہتے ہیں اور بعض تو میرے علم میں ایسے بھی ہیں کہ ساری عمر انہوں نے ناکامیوں کا منہ دیکھا ہے ان کو اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کی صفت رحمانیت کا در کھٹکھٹائیں اور اس سے مدد حاصل کریں کیونکہ اگر یہ سچ ہے اور یقینا یہ سچ ہے، کہ جو نعمتیں اور جو مفید چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے لئے اور ہماری خدمت کے لئے پیدا کیں ان کا شمار انسان سے نہیں ہو سکتا تو جس رحمان نے اتنی نعمتیں ہماری کسی خدمت یا ہمارے کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ صرف رحمت کے نتیجہ میں پیدا کیں اس کے متعلق ہم یہ بدظنی نہیں کر سکتے کہ ہماری زندگی میں اگر کسی وقت ضرورت پڑے تو وہ خدائے رحمن ہماری مدد کو نہیں آئے گا ہماری پیدائش سے پہلے بھی اس نے ہماری مدد کی ہمارے فائدہ کی سوچتا رہا ہے تو ہماری پیدائش کے بعد وہ کیسے ہمیں دھتکار دے گا اگر ہم واقع میں اپنے دل میں اس کی معرفت رکھتے اور اس کی صفت رحمانیت پر کامل یقین رکھتے ہیں تو یقینا رحمان خدا کی صفت کا دروازہ ہمارے لئے کھولا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی اس قسم کی رحمتوں کے سامان ہمارے لئے پیدا کئے جائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت صرف پہلے زمانوں سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہماری زندگی میں بھی اس کے جلوے نظر آتے ہیں میں نے بعض مثالیں دی ہیں لیکن ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اپنی طرف سے ہر تدبیر کر چکا اور ناکام رہا اس کو اس وقت خدائے رحمن کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور جو متوجہ ہوتے ہیں ان کے لئے یہ دروازہ کھولا جاتا ہے اور صفت رحمانیت کے وہ جلوے دیکھتے ہیں۔ پس زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کے بغیر ہم توحید کامل پر قائم نہیں ہو سکتے اور زندہ خدا کی زندہ قدرتیں جن صفات سے ظاہر ہوتی ہیں ان میں سے دو صفات رَحِیْمِیَّت اور رَحْمَانِیَّت کی صفات ہیں۔
رَحِیْمِیَّت کی صفت ہم پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لئے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سامانوں کو بہترین رنگ میں ہم استعمال کریں اور ساتھ ہی روحانی تدبیر سے بھی کام لیں اور اس طرح اپنی تدبیر کو کمال تک پہنچائیں کیونکہ اگر تدبیر اپنے کمال کو نہ پہنچے تو بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے پس تدبیر کو انتہا تک پہنچانا ضروری ہے عقلاً بھی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی روشنی میں بھی جب انسان اس دنیا میں تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں صفت رَحِیْمِیَّت کا وہ جلوہ دیکھتا ہے اور کامیاب ہو جاتا ہے دنیا دار انسان جو خدا پر یقین نہیں رکھتا وہ رحیمیت کا جلوہ تو دیکھتا ہے مگر وہ بدقسمت اسے پہچانتا نہیں وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے زور سے کامیاب ہوا وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس کی طرح ہی تدبیر کو اپنی انتہاء تک پہنچایا مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے مثلاً سائنس دان ہیں ایک ایک مسئلہ کے حل کے لئے بعض دفعہ دو دوسَو سائنسدان تحقیق میں لگے ہوتے ہیں اور صرف ایک یا دو اس مسئلے کو حل کر پاتے ہیں اور باقی ناکام رہ جاتے ہیں حالانکہ تدبیر بظاہر ایک جیسی تھی اب جو دو کامیاب ہوئے یا ایک کامیاب ہوا تو وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی تدبیر سے کامیاب ہوا اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ایک سو ننانوے دوسرے سائنسدان جو ہیں وہ اسی قسم کی تدبیر کرنے کے باوجود ناکام کیسے ہو گئے؟
پس اللہ تعالیٰ بعض پر رحیمیت کا جلوہ ظاہر کر دیتا ہے یہ جلوہ تو وہ دیکھتے ہیں لیکن صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں روحانی بینائی سے محروم ہیں اس لئے ان جلووں کے باوجود وہ خدائے رحیم کی معرفت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
رَحِیْمِیَّت کے جلوے جماعت مومنین بھی ہر روز ہی دیکھتی ہے کیونکہ بعض کام ایسے ہیں کہ ان کے لئے بیس منٹ کی تدبیر کرنی پڑتی ہے اور بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے گھنٹہ کی تدبیر کرنی پڑتی ہے اور بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے دو گھنٹے کی تدبیر کرنی پڑتی ہے ہر کام کے لئے ایک وقت اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہوا ہے اور بہت سی تدبیریں دن کے ایک حصہ میں ہی کمال کو پہنچ جاتی ہیں مثلاً عورت نے گھر میں کھانا پکانا ہوتا ہے کوئی ایک گھنٹہ میں کھانا تیار کر لیتی ہے کوئی دو گھنٹہ میں اگر کوئی عورت یہ سمجھے کہ میں نے تدبیر کر لی اور کھانا پک گیا اب مجھے اپنے ربّ کی رحمت کی ضرورت نہیں تو ایسی عورت کو سبق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کبھی اس طرح بھی کرتا ہے کہ جس وقت بڑے شوق اور محنت سے وہ سالن تیار کر چکی ہوتی ہے اور خوش ہوتی ہے کہ میرے بچوں کو، میرے خاوند کو اچھی غذا مل جائے گی تو ایک بچہ دوڑتا آتا ہے اور اس کی ٹھوکر سے ساری ہنڈیا چولہے کے اندر گر جاتی ہے اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا ہے کہ تیری تدبیر کافی نہیں میرا فضل جب تک ساتھ نہ ہو انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔
کافر اور منکر کہتا ہے یہ حادثہ ہے مومن کہتا ہے اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میری تدبیر کے ساتھ شامل نہ ہوئی اس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تک میری رَحِیْمِیَّت کا جلوہ تمہاری تدبیر کے ساتھ نہیں ہو گا تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح ہمیں اپنی زندگیوں میں اپنے ماحول میں بھی یہ نظر آتا ہے کہ کبھی تو تدبیر ہی نہیں سوجھتی کہ کیا کریں کیا نہ کریں کبھی ساری تدبیریں کر لینے کے بعد بھی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا خدا اس وقت اپنے بندے کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ میرا فضل اگر تم نے حاصل کرنا ہے تو میری صفت رحمانیت کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہو دوسری صفات کا جلوہ میں تمہارے لئے نہیں دکھائوں گا ایسے بندے کو رحمان کی طرف جھکنا چاہئے اور اس وقت جو دعا ہو گی دراصل تدبیر کا حصہ نہیں ہو گی کیونکہ یہ دعا مادی تدبیر کی کامیابی کے لئے نہیں بلکہ یہ دعا تو ایک عاجز بندے کے عجز کا اظہار ہے بندہ اس خدائے رحمن کے دروازے کے پاس جا کے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے رحمان خدا! میں نے دعائیں بھی کر لیں میں نے تدبیر بھی کر لی مگر ناکامی ہے کہ مجھے چھوڑتی نہیں اب میں تیرے پاس آیا ہوں جس طرح تو نے پہلے رحمانیت کے جلوے مجھے دکھائے اب بھی دکھا!
تو یہ وہ دعا نہیں جو تدبیر کا حصہ بنتی ہے بلکہ محض عاجزی کا بے بسی کا اظہار ہے کہ تدبیر بے نتیجہ ثابت ہوئی تدبیر کے نتیجہ خیز ہونے کی دعا بھی رد ہو گئی بلا استحقاق دے اے میرے رحمن خدا اور بہت ہیں جو اس طرح خدائے رحمن کی رحمانیت کے جلوے دیکھتے ہیں ہم ہر روز اپنی زندگیوں میں اپنے گھروں میں اپنے ماحول میں اپنی جماعت میں اپنی دنیا میں جس میں ہم اپنی زندگی گزار رہے ہیں رحیمیت اور رحمانیت کے جلوے دیکھتے ہیں اور زندہ خدا کی زندہ تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے جلوئوں کے مشاہدہ کی توفیق اور معرفت عطا کرے وہی لوگ ہیں جو توحید خالص پر قائم ہیں اور حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور جاں نثار ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی حقیقی توحید پر قائم کرے اور محبت اور پیار حسن اور احسان کے جو جلوے ہمارے سامنے وہ ظاہر کرتا ہے ہم میں سے ہر ایک کو خود ہی توفیق عطا کرے کہ ہم انہیں پہچانیں اور ان سے فائدہ حاصل کریں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۹ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ۱ تا ۴)
٭…٭…٭

فلاح اور خوشحال زندگی کے اصول کیلئے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۴ ؍ جون ۱۹۶۸ء بمقام گھوڑا گلی۔مری )
ء ء ء
٭ انسان اعمال کے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دے۔
٭ ربوبیت کا فیضان تمام کائنات کی جان ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے بہترین اور عظیم جلوؤں کیلئے پیدا کیاہے۔
٭ اعمال کا نتیجہ جزا اور سزا کے دن نکلے گا۔
٭ خداتعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر اس کی رحمت، مغفرت، ابدی جنتوں اور رضا کا حصول ناممکن ہے۔


تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:۔
انسان کی فلاح اور خوش حال زندگی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے اس لئے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل نہ ہو اس وقت تک انسان ان صفات کے فیوض سے صحیح طور پر حصہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی اس معرفت کے بغیر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن سکتا ہے جس غرض کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔
گزشتہ جمعہ میں نے ان چار اُمہات الصفات میں سے جن کا ذکر سورۃ فاتحہ میں ہے دو صفات کے متعلق کچھ بیان کیا تھا اختصار کے ساتھ، ایک صفت رحیمیت کے متعلق اور دوسری صفت رحمانیت کے متعلق۔
رحمیت کی صفت تقاضا کرتی ہے کہ انسان اعمال کے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑے اور اس حقیقت کوپہچانے کہ تدبیر کرنا انسان کا کام ہے اور نتیجہ نکالنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس دنیا میں جو اسباب کی دنیا ہے خدا تعالیٰ کی اس صفت کے جلوے بہت سے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہتے ہیں کیونکہ اسباب کے پردے میںوہ جلوے بہت حد تک مستور ہوتے ہیں لیکن ایک مومن بندہ یہ جانتا ہے کہ انسان خواہ کتنی ہی تدبیر کیوں نہ کرے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان کابہترین استعمال کرے، اپنی قوتوں اور استعدادوں کو ضائع نہ ہونے دے اور ان کا صحیح استعمال کرے اور دعا بھی کرے کہ یہ بھی تدبیر ہی ہے پھر بھی دعا کو قبول کرنا اور اسباب کا وہ نتیجہ نکالنا جو یہ شخص چاہتا ہے کہ نکلے جس نے تدبیر کے ذریعے اُن اسباب کو استعمال کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے محض تدبیر کرنے سے یقینی طور پر وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو تدبیر کرنے والا چاہتا ہے نہ ساری دعائیں قبول ہوتیں ہیں۔ ہماری اس زندگی میں ہزاروں بار یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ تدبیر کو انسان اپنی انتہاء تک پہنچا دیتا ہے دعائوں میں کوئی کمی نہیں رکھتا بظاہر لیکن دعائیں بھی رد کر دی جاتی ہیں اور تدابیر بھی بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں اور انسان حیران اور پریشان ہوتا ہے کہ میں نے کیا کچھ تھا اور چاہتا کچھ تھا لیکن ہوا کچھ اور۔ اورمیری خواہش کے مطابق میری تدبیر کا نتیجہ نہیں نکلا بیسیوںخطوط مجھے آتے رہتے ہیں پوری کوشش کرتے ہیں اپنی سمجھ کے مطابق لیکن جس قسم کی تجارت بھی کرتے ہیں اس میں ناکام ہو جاتے ہیں اور سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے۔
تو تدبیر کرنا انسان کے لئے ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اسباب کی دنیا بنایا ہے اور انسان کو بہت سی قوتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ تدبیر کر سکتا ہے اسی لئے وہ اس قابل ہے کہ تدبیر کر ے، وہ کام کرے وہ محنت کرے وہ سوچے وہ اپنی عقل سے کام لے، وہ کامیابی کے بہترین طریقے جو ہیں ان پر چلے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگروہ یہ سمجھے کہ جس طرح ایک اور ایک مل کے دو بن جاتے ہیں اسی طرح میری تدبیر اور دعا کا ضرور نتیجہ نکلے گا تو وہ غلطی پر ہوتا ہے اور اپنی دنیا میں اس ٹھوس اور مادی دنیا میں ساری تدبیروں کو بے نتیجہ ہوتے، ساری دعائوں کو ردّ ہوتے وہ دیکھتا ہے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ خدائے رحمن کی طرف متوجہ ہو جائیں یعنی اپنے پر ایک قسم کی موت وارد کرکے اس کے حضور جھکو (اور یہ دعا عام دعائوں کی قسم کی نہیں ہوتی)اور اس سے کہو اے ہمارے رحمن رب! تو نے ان گنت اور بے شمار نعمتیں ہمارے لئے پید ا کیں اور ہمارے عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا کیونکہ وہ پیدائش سے بھی پہلے وجود میں آچکی تھیں ان اسباب ان نعمتوں سے آج ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اٹھا نہیںسکتے ہم اگر تیری رحیمیت کا جلوہ دیکھنے کے قابل نہیں تو اے رحمان خدا! ہمیں اپنی رحمانیت کا جلوہ دکھا۔
ان دو کے علاوہ دو امہات الصفات ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں۔ ایک پہلی صفت جو ربوبیت کی صفت ہے اور ایک چوتھی صفت جو مالکیت یوم الدین کی صفت ہے۔
یہ چار صفات ایسی ہیں جن کے جلووں کا تعلق پیدائش عالم سے لے کر جزا سزا کے دن تک پھیلا ہوا ہے ربوبیت کی صفت جلوہ گر ہی اس وقت ہوتی ہے جب پیدائش شروع ہو جائے جب خالق خلق کرتا ہے اور وہ تمام سامان پیدا کرتا ہے کہ اس کی مخلوق ان استعدادوں کو اپنے کمال تک پہنچائیں جو اس نے ان کے اندر رکھی ہیں خصوصاً انسان کے اندر بڑی استعدادیں اور قوتیں اس نے رکھی ہیں اور بڑی طاقتیں اس میں دویعت کی ہیںتو ربوبیت کا جلوہ پیدائش کے وقت سے شروع ہوگیا۔ کیونکہ ربّ کے معنی ہیں خالق، پیدا کرنے والا۔ جو بہت سی قوتیں اور استعدادیں بھی ہر چیز میں پیدا کرتا ہے اور درجہ بددرجہ ان کو نشوونما کرتے ہوئے اس چیز کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے دنیا کی ہر چیز جو ہے وہ ربوبیت کے اس دور میں گزر رہی ہے مثلاً ہیرا بنتا ہے شائد لاکھوں سال اس پہ گزرتے ہیں تب وہ ہیرے کی شکل اختیار کرتا ہے درجہ بددرجہ اس میں تبدیلیاں ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہی مٹی کے ذرات جو آپ لوگوں کی جوتیوں کے تلوے کے نیچے حقیر اور بے قیمت ہوتے ہیں وہی ذرے ہیرے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
جس درخت کے سائے کے نیچے اس وقت ہم بیٹھے ہیں ایک چھوٹا سا بیج تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیج میں جو طاقتیں اور استعدادیں رکھی تھیں اس کے نشوونما کے اس نے سامان پیدا کئے، بارش برسائی زمین کے ذروں میں ایسی قوتیں پیدا کیں جو اس درخت کی ٹہنیاں اور یہ لمبی لمبی سوئیوںکی طرح کے جو پتے ہیں وہ بن سکیں اگر زمین کے ذروں میں یہ طاقت نہ ہوتی تو درخت یہ شکل اخیتار نہ کرتا اور پھر یہ بڑھتے بڑھتے اپنی طاقت کے مطابق اپنی بلندیوں کو پہنچ جائے گا اور اگر انسان اسے نہ کاٹے تب ہی اس کی قوتوں پر فنا آجائے گی لیکن اس کی نشوونما کے سارے سامان اس کی زندگی کیلئے جو درکار تھے وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کردئیے اور یہ ربّ ہے اس کے جلوے ہمیں ہر چھوٹی اور بڑی چیزمیں نظر آتے ہیں۔
اسلام نے ربّ کا تخیل جو ہمیں دیا ہے وہ یہ نہیں کہ اللہ نے پیدا کیا اورپھر آرام کرنے لگ گیا یا دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا اور پیدائش کے ساتھ جو پہلے کر چکاہے اس کا ہر وقت زندہ تعلق قائم نہ رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی جو صفت ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک چھوٹے سے فقرے میں بڑی بنیادی چیز ہمیں بتائی ہے آپ فرماتے ہیں کہ ربوبیت کا فیضان تمام کائنات کی جان ہے پھر فرماتے ہیں ایک لمحہ کے لئے یہ فیضان منقطع ہو جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے تو اس نے پیدا کیا، نشوونما کے سامان پیدا کئے اور ہر وقت ایک زندہ تعلق اپنی مخلوق کے ساتھ اس نے قائم رکھا ہے اگر ربوبیت کایہ تعلق ایک لحظہ کے لئے بھی منقطع ہو جائے مخلوق کے ساتھ تو وہ قائم نہ رہے جس طرح وہ نیست سے ہست ہوئی تھی ہست سے نیست ہو جائے فنا ہو جائے فوری طور پر ۔
تو ربّ کا تعلق ہر وقت ہر آن ہر چیز سے ہے جس کو اُس نے پیدا کیا ہے۔ یہ تعلق انسان کے ساتھ بھی ہے اور انسان کو اس نے بڑی استعدادیں دیں اور اپنے قرب کے لئے ا س نے اسے پیدا کیا اور اپنی صفات کا مظہر بننے کی قابلیت اس کے اندر رکھی اور ہم دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کو بحیثیت ایک نوع کے ایک بڑے ہی نچلے درجے سے آہستہ آہستہ اٹھا کر اس نے اس مقام پر پہنچایا کہ جہاں انسان کامل کی پیدائش ممکن ہو سکتی تھی اور انسان کامل کی پیدائش کر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پید اہوئے اور ایک کامل کتاب آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کو ملی انسانی شعور اور انسانی عقل آپ کے زمانے میں اپنے کمال کو پہنچا اور اس کمال کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کی تدبیر، جس طرح اور تدبیریں اس نے کیں، قرآن کریم کی شکل میںا نسان کو دی کہ اگر اسی پر انسان غور کرتا رہے اور اس کے احکام کی پیروی کرے توا نسان کی عقل بھی اپنے معراج پر قائم رہے گی اور اس کی روحانیت بھی اپنی رفعتوں سے نیچے نہیں کرے گی۔
ربّ کی جو ربوبیت ہے اس کے جلوے انسان سے بھی تعلق رکھتے ہیںاور مٹی کے ذرات سے بھی تعلق رکھتے ہیں، ہر مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں اور اس خلق کا عالمین کی پیدائش کا خلاصہ اور لُب جو تھا وہ انسان کامل تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ سے انسان کے لئے ایسے سامان پید ا کر دئیے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی عقل کے معیار کوبھی بلند تر مقام پر رکھ سکتا ہے اور روحانی رفعتوں کو بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکتا ہے۔
جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو صحیح طور پر نہ پہچانیں ہم غافل ہو جائیں گے اگر ہم یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو ہم سے تعلق رکھتا ہے کبھی ہم سے غافل ہوجاتا ہے تو پھر اس ٹوہ میں وہی رہیں گے ناکہ جو اس کی (نعوذ باللہ) غفلت کا زمانہ ہے اس میں ہم ایسی باتیں بھی کر جائیں جسے وہ پسند نہیں کرتا (العیاذ باللہ) لیکن اس کا تعلق تو ہر آن اور ہر وقت ہم سے ہے دوسری مخلوق سے بھی ہے لیکن انسان سے بھی ہے اورربوبیت کا یہ تعلق ہی ایک زندہ تعلق ہے جو انسان سے ہے اس نے انسان کے لئے اس بات کو ممکن بنا دیا ہو اپنی جسمانی اور روحانی بقاء کو حاصل کر سکے اور رفعتوں کو پا سکے یہ تو تھی وہ صفت کہ خلق کے ساتھ ہی اس کے جلوے ہر آن ہمیں نظر آنے لگیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے بہترین اور عظیم جلووں کے لئے پیدا کیا ہے یہ دنیا جو ہے وہ مادی دنیا ہے اور خد اتعالیٰ کے جو جلوے یہاں ہمیں نظر آتے ہیں وہ اسباب کے پردہ میں چھپے ہوئے ہیں اس وجہ سے بہت ہیں اندھے آنکھوں کے اور دل کے جو خدائے رحیم کے جلوے دیکھ ہی نہیں سکتے سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے حاصل کرنا ہے اپنے زور، طاقت، مال، اثر، رسوخ، اقتدار یا علم سے حاصل کرنا ہے یہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے علم دیا ہے عقل دی ہے وہی خدا جب غضب میں آتا ہے تو عقل و علم کو جنون سے بدل دیتا ہے، نہیں سمجھتے کہ جس ہستی نے مال دیا ہے وہ ہستی اتنی قادر و توانا ہے کہ جب اس کا غصہ انسان خرید لے تو وہ دولت کو فقیری میں بدل دیتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میری صحت بڑی اچھی ہے اور میں اکیلا ہی سو آدمیوں پر بھاری ہوں اور اپنے جسم کی صحت کے نتیجہ میں وہ تکبر اختیار کرتا ہے وہ نہیں جانتا کہ ایک سکینڈ کے ہزار ویں حصہ میں خد اکے قہر کا جلوہ اس پر فالج وارد کر سکتا ہے اور ساری اس کی طاقتیں اور سارا اس کا تکبر اور گھمنڈ خاک میں مل جاتا ہے اور کچھ بھی باقی اس کا نہیں چھوڑتا لیکن چونکہ یہ اسباب کی دنیا ہے انسان بعض دفعہ غفلت برتتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحیمیت کے جلوؤں، اس کی رحمانیت کے جلوؤں کو دیکھ نہیں سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مادی دنیا ہے اسباب کی دنیا ہے خدا تعالیٰ سے اپنی پوری شان کے ساتھ اس مادی دنیا میں نظر ہی نہیں آسکتے۔ وہ جلوے عدم کو چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت یہاں مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن بیان کی۔ یہ صفت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جس عالمین کورب العالمین نے پیدا کیا تھا اس عالمین کو وہ اللہ جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور قدرتوں کا مالک ہے ایک وقت میں فنا کر دے اور سارے حجاب دور ہو جائیں اور اس کے عظیم جلوے انسان پر ظاہر ہونے لگیں اور اس کو نظر بھی آنے لگیں کوئی حجاب بیچ میں نہ رہے اس کے قہر کے جلوے شقاوتِ عظمیٰ رکھنے والے دیکھیں اور اس کے پیار کے جلوے اور اس کے جمال کے جلوے اور اس کے حسن اور احسان کے جلوے وہ دیکھیں جو سعادت عظمیٰ رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے یہ جلوے ہر قسم کے حجاب سے باہر نکل کے اس کے سامنے آئیں۔ اس غرض کے لئے اس نے جزا سزا کا دن رکھا ہے اور ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اس دنیا کی بھول اور خطا اور نسیان اور غفلت اور گناہ اور عصیان اور خد اسے دوری کی برداشت انسان کو ایک سکینڈ کے لئے بھی نہ کرنا چاہئے۔
اعمال کا نتیجہ اس دن نکلے گا اور وہ نتیجہ کوئی معمولی نہیں وہ نتیجہ اس دن نکلے گا جو جزا سزا کا دن ہے اور تمہارا رب جو رحمان اوررحیم ہے وہ مالک کی حیثیت سے تمہارے سامنے جلوہ گر ہو گا چونکہ وہ مالک کی حیثیت سے جلوہ گر ہو گا تم میں سے کوئی شخص کھڑے ہو کریہ نہیں کہہ سکے گا کہ اے ہمارے ربّ ہمارا تجھ پر یہ حق ہے ہمیں دے کیونکہ جو مالک ہے ہر ایک چیز کا اس پر کسی کا کوئی حق نہیں ہو سکتا عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے اور چونکہ وہ مالک ہے اس لئے امید بھی دلا دی کہ اگر وہ چاہے تو جتنا چاہے دے دے وہ جتنے گناہ چاہے معاف کر دے ، وہ جتنا فضل کرنا چاہے فضل کرے لیکن ایک دولت مند امیر جس کے کارخانے میں ایک ہزار مزدور کام کر رہا ہے یہ مزدور اس سے ڈرتے نہیں کیونکہ کچھ حقوق ہیں ان کے کچھ ایسے حقوق ہیں جو مالک نے تسلیم کئے ہیںکچھ ایسے حقوق ہیں جو دنیا تسلیم کرتی ہے اور حق دلواتی ہے کچھ ایسے حقوق ہیں جو حکومتیں دلواتی ہیں کچھ ایسے حقوق ہیں جوحکومتوں کا تختہ الٹ کے حاصل کر لئے جاتے ہیں یہ دنیا ایسی ہے لیکن وہاں تو اس طرح نہیں ہوگا مالک کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا نہ یہاںنہ وہاں لیکن وہاں تو اس کے جلوے اس قدر عظمت اور جلال اور شان کے ساتھ ظاہر ہوں گے کہ کسی شخص کو یہ جرأت ہی نہ ہو سکے گی کہ وہ سمجھے کہ میرا کوئی حق ہے جو مجھے ملنا چاہئے۔ حق کوئی نہیں کسی کا جس نے پیدا کیا سارے حقوق اسی کے ہیں جو ہمارا رب ہے جس کی رحمانیت کے ہم نے جلوے دیکھے ہیں جس کی رحیمیت کے پیار کو ہم نے محسوس کیا ہے جب اس کے سامنے ہم جائیں گے تو ہماری روح پکار رہی ہو گی کہ اے ہمارے رب ہمارا تجھ پر کوئی حق نہیں لیکن ہم تیرے فضل اور تیری رحمت کے بھکاری ہیں ہم اس کی صدا دیتے ہیں کہ اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں نواز ہماری غفلتوں کو نظر انداز کر دے تو مالک ہے اگرہم نے تیرا گناہ کیا اگر ہم نے کچھ خطائیں کی ہیں اگر ہم نے تیری دنیا میں وہ کیا جو تو ناپسند کرتا تھا تو آج اس دنیا میں مالک کی حیثیت سے ہمیں معاف کر دے مالک کاجلوہ جو ہے وہ حقیقی معنی میں حقیقی رنگ میںاس دنیا میں نظر نہیں آتا کیونکہ یہ پردے کی دنیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ جزاسزا کا دن مقرر کیا جاتا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل اور مکمل اوراصفیٰ جلوے کسی قسم کی کدورت کے بغیر وہ ہم پر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر ہمیں وہ لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میںحاصل ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہاں ہے اسباب کی دنیا جلوے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
انسانِ ناقص اس دنیا کا جو ہے جس طرح نہایت کالے شیشوں والی عینک لگا کے سورج کی روشنی کا دسواں یا بیسواں حصہ نظر آتا ہے اسی طرح یہ اسباب آگے جو مادی دنیا میں سامان ہیں ان کی وجہ سے خداتعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کے انوار کا دسواں یا بیسواں یا چالیسواں یا پچاسواں یا سواں یا ہزارواں حصہ جتنی جتنی کسی نے زیادہ سیاہی والی عینک لگائی ہوئی ہے انسان دیکھتا ہے جو خدا تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں وہ دوسروں کی نسبت زیادہ صاف جلوے دیکھتے ہیں۔ اس میں شک نہیں لیکن جو نظارے خداتعالیٰ کی صفات کے وہ مشاہدہ کرتے ہیں وہ نظارے بھی یوم جزا، حشر کے دن کے جو صفات باری کے جلوے ہوں گے ان کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کے ہیں۔
لیکن بہر حال اس کی ایک جھلک ان مقربین الٰہی کو نظر آجاتی ہے لیکن عوام کو تو کچھ بھی نظر نہیں آتا تو وہ غفلت میں بھٹکتے ہیں لیکن ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اگر تم جزا سزا کے دن اللہ تعالیٰ کے قہر سے بچنا چاہتے ہو اور اگر تم اس کے پیار اور اس کی محبت سے زیادہ حصہ لینا چاہتے ہو تو اس بات کو یادرکھو کہ تمہار اخد ا مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے وہ ایک مالک کی حیثیت سے جس کے خزانے لامحدود ہیں غیر محدود جزاد ے تو اس کو کوئی یہ نہیں کہنے والا کہ تم نے انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا کیونکہ انصاف کا تقاضہ تووہاں پیدا ہوتا ہے کہ جو مال دیا جائے وہ کسی اور کا ہو مثلاً اگر ایک جج فیصلہ یہ دے کہ زید نے بکر کا نقصان تو سو روپیہ کا کیا تھا لیکن میں اپنی طر ف سے اس کا دس ہزار روپیہ زید کے مال میں سے دیتا ہوں تو نا انصافی کرنے والا ہے لیکن اگر مالک ہو خود مثلاً اس دنیا میں بڑی ناقص مثال ہے لیکن سمجھانے کے لئے وہی مثال دی جا سکتی ہے کہ آپ کا ایک نوکر ہے وہ سو روپیہ تنخواہ پر مقرر ہے ایک دن وہ اس کو بلا کر کہتا ہے کہ تنخواہ تو تمہاری سو روپیہ ہے لیکن میں اپنی طرف سے اپنے مال میں سے تمہیں سارے سال کی گندم دے دیتا ہوں یا ہزار روپیہ انعام دے دیتا ہوں کیونکہ تمہاری لڑکی کی شادی ہونے والی ہے تو کوئی شخص نہیں کہے گا کہ بڑا ظلم کرنے والا ہے اور غیر منصف ہے یہ مالک۔ تو اللہ تعالیٰ کے چونکہ خزانوں کی کوئی انتہاء نہیں وہ غیر محدود ہیں اس واسطے بحیثیت مالک اگروہ ابدی جنتیں انعام میںدے تو کسی کا حق نہیں مارا گیا اس نے بحیثیت مالک ہمیں دیا لیکن خوف اور قلق بھی بڑا دل میں پیدا ہوتا ہے جب انسان یہ سوچتا ہے کہ جب ہما را کچھ ہے ہی نہیں اور ہمارا کوئی حق نہیں بنتا تواس کا نتیجہ تو یہ ہو اکہ ہم نے اپنی طرف سے جو نیکیاں کیں خد اتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے جو اعمال صالحہ بجا لائے وہ بھی دراصل ہما ری نیکیاں اور ہمارے اعمال صالحہ نہیں کیونکہ ان نیکیوں کے کرنے کی طاقت صدقہ و خیرات جو ہم نے دیا اس مال کی ملکیت تو ربّ کی تھی ہمارا تو نہیں تھا کچھ بھی تو انسان خود کو فی الحقیقت بالکل تہی دست پاتا ہے جب مالک یوم الدین کی صفت سامنے آتی ہے اور اس وقت اس کے دل میں یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ خد اتعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر نہ مغفرت کا حصول ممکن نہ ابدی جنتوں اورا س کی رضا کا حصول ممکن ہے تو یہ تہی دست ہونے کا احساس اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت انتہا ہے ان چا روں اُمہات الصّفات کی، پید ا کیا، ترقی دی ، نشوونما کے سامان پیدا کئے اس دنیا میں بے شمار، اَن گنت جیسا کہ خود قرآن نے دعویٰ کیا ہے اور ایک عقلمند اس کو صحیح سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اَن گنت نعمتیں اس نے عطا کیں اور جسمانی لحاظ سے اور ذہنی لحاظ سے اور اخلاقی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے رفعتوں پر پہنچاتا چلا گیا لیکن بسب انسان جو حقیقتاً اپنے ربّ کی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کر لیتا ہے جب اس مقام پر پہنچا کہ اُس نے سمجھا کہ میں نے انتہائی رفعت کو پا لیا اس وقت اُس کے سامنے اُس کا مالک آ جاتا ہے یعنی خدا جو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے اور اُس کو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اسی کا سہاراتھا اُس نے سہارا دیا اور بلندیوں پر لے گیا اپنے نفس کو دیکھتاہوں تو خالی ہاتھ پاتا ہوں تب ایک انتہائی خوف اور قلق دل میں پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنے ربّ کے حضور جھکتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا کسی نیکی کا، کسی بزرگی کا، کسی پاکیزگی کا میں دعویدار نہیں ہوں لیکن اے میرے پیارے تو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے اس واسطے مالک کی حیثیت سے مجھ پر اپنی رحمت کو نازل کر اُس دن جس دن تو سب دنیا کو اکٹھا کرے گا اور تیرا فیصلہ حق کا فیصلہ ہوگا۔
خدا کرے کہ ہم اُس کی صفات کو ہمیشہ پہنچانتے رہیں اور معرفت کے مقام پر رہیں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور اُس کی رحیمیت سے جس طرح ہم اِس دنیا میں فائدہ حاصل کر رہے ہیں اِسی طرح تہی دست ہونے کے باوجود اس کی صفت مالکیت یوم الدین کے پیارے جلوے حشر کے دن ہمیں دیکھنے نصیب ہو اور یہ اُسی کے فضل سے ہو سکتا ہے۔
(الفضل ۵؍ اگست ۱۹۷۴ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭


حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو نشانات عطا ہوئے ہیں وہ ایک بڑے وسیع زمانہ پر پھیلے ہوئے ہیں قیامت تک چلتے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱ ؍جون ۱۹۶۸ء بمقام مسجد احمدیہ۔ مری ۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ عیسائی پادریوں کو دعوت فیصلہ۔
٭ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔
٭ عیسائی پادریوں کو سورۃ فاتحہ کی تفسیرکے مقابلہ کا چیلنج۔
٭ سورۃ فاتحہ بڑے وسیع، بڑے گہرے اور بڑے حسین مضامین اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں رضا کی چمک جب بندہ دیکھ لیتا ہے تو اسے کسی اور عزت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
آج کے لئے جو مضمون ذہن میں آیا تھا اس پر جب میں نے غور کیا تو ایک لمبا مضمون بن گیا ہے اور چونکہ ابھی تک میری کمزوری ابھی باقی ہے جو بیماری نے پیدا کی تھی اور یہاں حبس اور گھٹن بھی میں نے محسوس کی ہے اس لئے وہ مضمون تو اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں ادا کر دوں گا اس وقت میں مختصر خطبہ میں اپنے دوستوں بھائیوں اور بہنوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ فاتحہ میں یعنی قرآن کریم کے بالکل شروع اور ابتدا میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے جو سات آیات پر مشتمل ہے لیکن ایسے بنیادی مضامین کی حامل ہے کہ اصولی طور پر تمام قرآنی مضامین کا خلاصہ اس میں پایا جاتا ہے اور نہایت گہری اور نہایت وسیع اور نہایت حسین تعلیمیں اس میں اس حسن سے بیان کی گئی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آج سے قریباً (صحیح وہ تاریخ مجھے یاد نہیں اس واسطے میں اندازے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ قریباً) ساٹھ سال پہلے عیسائیوں کو اس طرف توجہ دلائی اور انہیں مدعو کیا ایک عیسائی کے اس سوال کے جواب میں کہ جب مسلمانوں کے نزدیک بھی تورات خداتعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے روحانی اور جسمانی صداقتیں بیان کی ہیں اور اس کے متعلق خود قرآن کریم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہدایت اور نور کا باعث تھی بنی اسرائیل کے لئے تو ایسی کتاب کے ہوتے ہوئے قران کریم کی کیا ضرورت تھی؟ تو اس کا جوب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عیسائیوں کو کہا کہ تم تورات سے مقابلہ کرتے ہوئے سارے قرآن کریم کا ذکر نہ کیا کرو کیونکہ قرآن کریم کی جو پہلی اور ابتدائی مختصر سی سورۃ ہے اس میں جو روحانی مضامین بیان ہوئے ہیں تمہاری ساری الہامی کتب میں وہ مضامین نہیں پائے جاتے اگر اس میں شک ہو تو مقابلہ کرکے دیکھ لو کوئی عیسائی مناد کوئی عیسائی چرب زبان کوئی عیسائی لیڈر جو مختلف فرقوں کے ٹاپ (Top) کے آدمی اور ان کے راہنما اور قائد سمجھے جاتے ہیں وہ اس طرف نہیں آئے میں نے پھر اس دعوت کو میں (تو) چیلنج کہنا اسے پسند نہیں کرتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے چیلنج نہیں کیا، بلکہ دعوت فیصلہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کون سی کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اور محفوظ ہے یہ دعویٰ ہے کیونکہ تورات کے متعلق ہم بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی لیکن نہ اس کی حفاظت کا وعدہ دیا گیا تھا نہ اس کی حفاظت کی گئی تھی بعد میں انسان کا دخل بیچ میں ہوا اور نہ اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ قیامت تک بنی نوع انسان کو ہدایت دیتی چلی جائے گی کیونکہ انسان اپنے روحانی اور اخلاقی ارتقاء میں ابھی اپنی رفعتوں کو نہیں پہنچا تھا تو نہ ایسا دعویٰ تھا اور نہ وہ لوگ اس کے مستحق تھے ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب لیکن انسان کا بیچ میں داخل ہوا زمانہ بدلا زمانہ کے مسائل بدلے زمانہ کے حالات بدلے انسان کا دماغ بدل گیا۔ ارتقاء کے جس مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں انسان تھا اس سے کہیں بلند مقام پر نبی اکرمﷺ کے وقت میں وہ پہنچ گیا اس کے لئے تورات تھی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو یعنی عیسائیوں کو یہ کہا کہ بہتر کے قریب تمہاری آسمانی کتابیں بہتر کے قریب ہم اس لئے کہتے ہیں کسی نوجوان کے دماغ میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ صحیح تعداد میں قریب کا کیا مطلب؟ تو قریب کا مطلب یہ ہے کہ کیتھولکس اور پراٹسٹنس جو ہیں ان میں تعداد اختلاف ہے بعض کتب ایسی ہیں جو کیتھولیزم ان کو آسمانی کتاب کہتا ہے پراٹسٹنٹس نہیں مانتے ان کی زیادہ ہیں اس واسطے ہم اس جھگڑے میں پڑے بغیر کہ تمہارا کتابوں کی تعداد میں بھی اختلاف ہے ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ ستر کے قریب بہتر کے قریب تمہاری آسمانی کتب ہیں تم ساری آسمانی کتب میں سے سورہ فاتحہ کے مضامین نکال کے دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کچھ ہے تمہارے پاس لیکن اگر تم ایسا بھی نہ کر سکو تو پھر آئندہ زبان پر یہ چیز نہ لانا کہ تورات کے ہوتے ہوئے قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے ہم تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان تمام آسمانی کتب کے ہوتے ہوئے سورہ فاتحہ کی بھی ضرورت تھی قرآن تو ایک بڑی چیز ہے۔
تو سورئہ فاتحہ میں ایک تو خلاصہ ہے لیکن اتنے بڑے قرآن کا خلاصہ بھی آسان نہیں اتنی وسیع تعلیم کا سات آیتوں میں خلاصہ بھی سوائے خدا کے اور کوئی نہیں کر سکتا ان آیتوں کو چھوڑ کر آپ اپنی زبان میں کبھی خلاصہ کرنے کی کوشش کریں کسی ایک سورۃ کا بھی شاید خلاصہ نہ کر سکیں خدائی کتاب اور وہ کتاب جو کامل اور مکمل ہے اس کا خلاصہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آنا چاہئے تھا اور آیا اور بڑا حسین ہے اور اس سورہ فاتحہ کی تفاسیر مثلاً میں نے دعویٰ کیا ہے اور جس وقت میں نے حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ آپ کے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا کے سامنے رکھتا تو اس سے پہلے میں نے سوچا بھی تو میں نے یہ سوچا کہ مجھے یہ کرنا پڑے گا (اگر یہ قبول کر لیں) کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورئہ فاتحہ کی جہاں جہاں جو بھی تفسیر کی ہے وہ ہمیں اکٹھا کرنا پڑے گی پھر مجھ سے پہلے جو خلفاء گزر چکے ہیں ان کی سورئہ فاتحہ کی تفاسیر کو اکٹھا کرنا پڑے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے جو مجھے علم عطا کرے وہ لکھنا پڑے گا اور اس شکل میں سورئہ فاتحہ کی تفسیر ہم ان پادریوں کے ہاتھ میں دیں گے اور ان سے کہیں گے کہ ان مضامین کو اپنی آسمانی کتابوں میں سے نکال کر دکھائو اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو اس کے بعد پھر ہم اور اپنی کتابوں میں سے مضمون نکال کر یعنی شائع کر دیں تو پھر ہم ثابت کریں گے اور خدا کے فضل سے ثابت کرنے کے قابل ہوں گے کہ جو باتیں انہوں نے اپنی الہامی کتب سے نکالی ہیں یا تو وہ ان کی کتب میں پائی نہیں جاتیں آپ ہی گھسیڑ دی ہیں جیسا مثلاً پادری عمادالدین ہے جب سرسید نے دعا کے خلاف اپنے رسالے کچھ لکھنے شروع کئے تو یہ پادری عمادالدین جو دراصل ’’مولانا عمادالدین‘‘ تھے اجمیر کی شاہی مسجد کے خطیب اور بڑا عالم آدمی ہے جہاں تک دنیوی ظاہری اسلامی علوم کا تعلق ہے یعنی قرآن کریم کی جو تفاسیر چھپ چکی ہیں جو دوسری کتب ان پہ اس کو عبور تھا میں نے ایک دفعہ دعا کے سلسلہ میں مجھے خیال آیا کہ دیکھیں کہ اس نے کیا لکھا ہے۔اس عیسائی نے سر سید کا ردّ لکھا ہے۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون کو پکڑا اور نہایت لطیف پیرایہ میں اور زور دار الفاظ میں ایسے تمام مسلمانوں کی ہدایت کا سامان پیدا کیا جو دعا کے مفہوم کو اور دعا کے مقام کو پہچانتے نہیں تھے اِدھر اس نے لکھا میرے دل میں شوق پیدا ہوا میں نے جب کتاب پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ تمام باتیں جو اسلام میں رہتے ہوئے اسلامی کتب سے اس نے سیکھی تھیں وہ عیسائیت کے منہ میں ڈال دیں یعنی تورات کا کوئی حوالہ نہیں بلکہ یہ کہ عیسائیت یوں کہتی ہے حالانکہ عیسائیت نہیں کہتی وہ قرآن یوں کہتا ہے عیسائیت یوں کہتی ہے عیسائیت یوں نہیں کہتی بلکہ قرآن کریم کے ایک مفسر نے جو تفسیر کی ہے یہ عیسائیت کے منہ میں ٹھونستا چلا گیا ہے تو یا تو ان کا جواب ہمارے مقابلہ میں اس قسم کا ہو گا تو ہمیں ثابت کرنا پرے گا کہ تم جو بات تورات کی طرف منسوب کر رہے ہوں وہ تورات کی طرف منسوب نہیں ہوتی تورات میں ایسا کوئی مضمون نہیں بیان ہوا یا یہ ثابت کرنے پڑے گا کہ تورات سے ہی تم نے استدلال کیا لیکن عقلاً اور روحانی مشاہدہ کی رو سے یہ بڑی ناقص تعلیم ہے اور سوئہ فاتحہ کی تعلیم کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جا سکتی سورہ فاتحہ میں اس سے بہتر تعلیم ہے تو اس سورۃ میں جو بڑے وسیع اور بڑے گہرے اور بڑے حسین مضامین اپنے اندر لئے ہوئے ہے اس میں ایک آیت یہ بھی ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ:۶، ۷)اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ ہر چیز کے حصول کا ایک صحیح راستہ ہے اور اسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے غلط راستوں پر بھی چلے جاتے ہیں مثلاً ایک موٹی مثال ہے ایک شخص اپنے اس علم کی وجہ سے اور اس تجربہ کی وجہ سے جو علم اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا اور جس تجربہ کے حصول کی اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی تجارت میں مہارت حاصل کر چکا ہے اور وہ دولت کما رہا ہے وہ تمام تجارتی اصول سامنے رکھ کے تجارتی معاملات کرتا ہے اور پھر دعائیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی دعائوں کو سنتا اور اس کی عقل اور فراست کو روشن رکھتا ہے اور سیدھا راستہ اس کو دکھا دیتا ہے اور بڑا مالدار ہو جاتا ہے ایک دوسرا شخص مالدار ہونے کے لئے چوری کرتا ہے اور دنیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ مبالغہ نہیں ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ پچاس فیصدی چور یقینا ایسے ہیں جو پکڑے نہیں جاتے اور چوری کے مال سے وہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو وہ بھی ایک راستہ تھا مال کے حصول کا جو اختیار کیا گیا اور کامیابی سے اختیار کیا گیا بظاہر دنیا جو ہے وہ دنیوی نقطہ نگاہ سے جب دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ بھی مال دار ہے ایک شخص کہتا ہے کہ تم کہتے ہو سیدھا راستہ اختیار کرو اپنے ملک کی حالت دیکھو کتنے ہیں جنہوں نے بلیک مارکیٹنگ کے نتیجے میں اور بدیانتی کے نتیجہ میں مال کو جمع کر لیا ہے اور اب دنیا میں ان کی بڑی عزت ہے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ سیدھے راستے سے اگر تم وہ چیز حاصل کرو گے جو کرنا چاہتے ہو دنیوی مال تو ایک نعمت ہے نا دنیا میں ہزاروں نعمتیں ہیں اگر سیدھے راستے پہ چل کے تم اپنے مقصد کو حاصل کرو گے تو یہ تو ہو گا انعام اللہ کی طرف سے اور اگر غلط راستہ اختیار کرو گے تو وہ انعام نہیں ہو گا اس کے ساتھ سزا لگی ہوئی ہے اس دنیا میں بھی سزا ملتی ہے جب چور پکڑا جاتا ہے جب بددیانت پکڑا جاتا ہے جب بلیک مارکیٹ کرنے والا پکڑا جاتا ہے اور یہ گرفت کئی قسم کی ہوتی ہے کبھی اللہ تعالیٰ آسمان سے گرفت نازل کرتا ہے مثلاً بڑا مال کما لیا اور کھانا ہضم نہیں ہوتا کئی ایسے بھی ہم نے دیکھے ہیں بڑے امیر ہیں امارت پیسہ جو ہے مال جو ہے اس کا ایک خرچ یہ ہے کہ زبان کا چسکا جو ہے وہ پورا کیا جائے لیکن وہ شخص کھا ہی نہیں سکتا پیسے رکھے ہوئے ہیں اس کے اِرد گرد لوگ کھا رہے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں تو مصیبت میں پھسنا ہوں کھا ہی کچھ نہیں سکتا ہضم نہیں ہوتا بیمار ہو جاتا ہوں جب بھی کوئی ثقیل چیز کھا لوں پرہیزی کھانا کھا رہے ہیں لاکھوں روپیہ تجوری میں ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جسم میں، جلد میں ایسی بیماری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اچھا کپڑا پہن نہیں سکتے اب وہ دھوتی پہنی ہوئی ہے پھر رہے ہیں پیسہ بڑا ہے دل کرتا ہے کہ پانچ سَو روپیہ گز والا کپڑا خرید کے سوٹ بنائیں لیکن وہ پہن ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آ گئے ہیں ہزاروں مثالیں اس قسم کی دی جا سکتی ہیں بعض کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ پکڑ لیتا ہے بعض کو اُخروی زندگی میں پکڑ لیتا ہے بعض کو میں اس لئے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تو مالک ہے کسی کو معاف کر دے تو یہ بھی اس کی شان میں ہے اس کی صفات کی شان کے عین مطابق ہو گا لیکن بعض کے متعلق یقینا اس نے کہا ہے کہ میں گرفت کروں گا اس واسطے انسان کو مطمئن نہیں رہنا چاہئے تو یہاں یہ فرمایا کہ ہر چیز کے حصول کے لئے ایک سیدھی راہ ہے یا ایک سے زائد بھی بعض دفعہ ہو سکتی ہیں اگر زیادہ وسعت والا مضمون ہمارے ذہن میں ہو مثلاً قرب الٰہی کے ایک سے زائد رستے ہیں مثلاً جنت کے سات دروازے ہیں جن کا مطلب ہے سات راہیں جنت کی طرف جا رہی ہیں لیکن اس دنیا میں عام طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے مقاصد کے حصول کے لئے ایک سیدھی راہ ہے اس راہ پہ اگر انسان چلے تو اسے یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ہر سیدھی راہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا انعام اس کا منتظر ہوتا ہے اگر وہ سیدھی راہ پر نہیں چلتا تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اس کا انتظار کر رہی ہو کیونکہ مغفرت کے اوپر انسان کی تو کوئی اجارہ داری نہیں ہے نا لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کا عذاب، اس کا قہر، اس کا غضب، اس کا انتظار کر رہا ہو اس کو وعدہ یہ نہیں ہے کہ تمہیں انعام ملے گا انعام مل جائے تو اور چیز ہے ایسی بات ہے کہ بادشاہ وقت دس آدمیوں کو دعوت پہ بلاتا ہے دعوت پہ جب وہ بلاتا ہے تو ان سے یہ وعدہ ہے کہ میں یہ کھانا تمہیں کھلائوں گا اپنے ساتھ بٹھا کر اور تمہارا اکرام کروں گا تمہارا احترام کروں گا جو مہمان کا ہونا چاہئے ایک گیارھواں شخص ویسے ہی چلا گیا ہے وہاں اب ضروری نہیں کہ اس کو اندر بلا لیا جائے ہو سکتا ہے کہ بادشاہ کہے کہ چلو آ گیاہے تو میں اس کو بھی بلا لیتا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ کہے کہ دوڑ جائو یہاں سے ابھی دوڑنے والا لطیفہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں ہمارے الحاج گورنر جنرل گیمبیا سینی گال کے دورہ پر گئے تو وہاں چونکہ جماعتیں چھوٹی ہیں اور کچھ تعصب بھی ہے کچھ ناواقفیت بھی ہے کچھ پرانے رواج بھی ہیں ان کو خیال پیدا ہوا میں ہیڈ آف دی سٹیٹ کی حیثیت میں اس ملک میں جا رہا ہوں بڑا احترام کریں گے ممکن ہے اپنی وہاں کے لحاظ سے ہمارے محاورہ ہے شاہی مسجد وہ شاہی مسجد کہلائے یا نہ کہلائے۔
بہرحال جو بڑی مسجد ہے دارالخلافہ کی اس میں کہیں گے کہ جناب تشریف لائیں ساری قوم آپ کی منتظر ہو گی اور وہاں آپ نماز ادا کریں مجھے مصیبت پڑ جائے گی الحاج گورنر جنرل صاحب نے سوچا اگر یہ حالات پیدا ہو گئے تو میرے لئے بڑی آکورڈ (Awkward) ہو گی میں نے تو ان کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی انہوں نے ہمارے چوہدری محمد شریف صاحب جو انچارج ہیں وہاں کے مبلغ کہا کہ اس طرح میں دورے پر جا رہا ہوں انہوں نے کوئی خواب بھی دیکھی تھی جس کی تفصیل کا مجھے علم نہیں اشاروں میں ان کی طرف سے اور چوہدری محمد شریف صاحب کی طرف سے یہ اطلاع ملی ہے لیکن بہرحال انہوں نے کہا میں اس طرح جا رہا ہوں مقامی ہمارا مبلغ احمدی جو ہے امام مقامی اس کو میرے ساتھ کرو چنانچہ وہ مقامی امام ساتھ گیا گورنر صاحب کا امام ساتھ ہو پھر تو کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ کسی اور امام کو کہے کہ آپ نماز پڑھائیں باتھرسٹ جو گیمبیا کا دارالخلافہ ہے وہاں کا جو چیف امام ہے وہ بڑا متعصب ہے متعصب ہی نہیں بلکہ شرارتی بھی ہے اور اس کی ایک شادی سینی گال کے دارالخلافہ میں ہوئی ہوئی ہے اس نے سوچا کہ کوئی کھیل کرنی چاہئے شرارت سوجھی وہ اپنے طور پر وہاں پہنچ گیا جو گورنر جنرل صاحب کی ریسپشن (Reception) ہو رہی تھی سینی گال کی طرف سے تو یہ گیا اور اندر جب جانے لگا تو وہاں کے سپاہی جو ڈیوٹی پر کھڑے تھے انہوں نے کہا کہ تمہارا دعوت نامہ کہاں ہے تو اس نے کہا کہ میرے پاس تو دعوت نامہ نہیں ہے لیکن تمہیں پتہ نہیں میں باتھرسٹ کا چیف امام ہوں مجھے کیا ضرورت ہے دعوت نامہ کی ہمارے گورنر جنرل یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں انہی کی تم نے دعوت کی ہوئی ہے مجھے کیا ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو یہ دوسرے قسم کے لوگوں میں شامل کرنا تھا کہ تمہیں دعوت نہیں کھلانی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح نہیں ہم جانے دیتے اس پر اس نے کہا کہ گورنر جنرل صاحب بیٹھے ہیں آپ ان سے جا کر میرے متعلق پوچھ لیں اگر وہ تصدیق کریں کہ میں چیف امام ہوں تو پھر مجھے اجازت دیں ورنہ نہ دیں تو سپاہی کہنے لگا کہ وہ جو گورنر جنرل صاحب ہیں ان کے ساتھ تو اپنا امام آیا ہے تمہیں ہم کیسے جانے دیں تو جب بادشاہ وقت آپ دعوت پر نہ بلائے جو میں نے مثال دی ہے اگر بن بلایا مہمان کوئی آ جائے تو اور قسم کا سلوک اس سے ہو سکتا ہے یا رحم کھا کے اس کو بلا لیا جائے گا یا ناراضگی اظہار کرکے اس کو کہا جائے گا دوڑ جائو یہاں کیا کرنے آئے ہو تو جو غلط راہ اختیار کرتا ہے اس کے متعلق دونو شکلیں اس کی گرفت یا جزا سزا کے متعلق اللہ تعالیٰ اختیار کرنے لگتا ہے کیونکہ اس سورۃ میں اس نے اپنی صفت مَالِکَ یَوْمِ الدِّیْن بیان فرمائی ہے کہ مالک کی حیثیت سے وہ انسان سے معاملہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا ان سے تو یہ کوئی وعدہ نہیں بلکہ وعید بڑا ہے کہ غلط راہوں کو اختیار کرو گے تو عام قانون سزا کا ہے استثنائی طور پر معافی کا ہے ٹھیک ہے مال ہے معاف کر دے لیکن اس نے ہمیں وعید یہ دیا ہے ہمیں کیا یہ ہے کہ اگر تم غلط راہوں کو اختیار کرو گے۔ غلط نتائج نکلیں گے۔ دنیا میں بھی یہی قانون ہے ایک شخص بدکاری کرتا ہے آتشک اور سوزاک میں مبتلا ہو جاتا ہے ایک شخص اخلاقی طور پر گھر میں عادتاً اعتراض کرتا رہتا ہے نظام سلسلہ پر اعتراض، مقامی امیر پر اعتراض، خلیفہ وقت پر اعتراض جو منہ میں آئے بولتا ہے اس کی اولاد اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے درجنوں مثالیں ہماری اپنی جماعت میں ہیں کہ جن لوگوں کو یہ گندی عادت تھی اور اپنی زبان پر ان کو کوئی کنٹرول نہیں تھا ان کی اولادیں ان کی تباہی کا، ان کے عذاب کا، ان کے دکھ کا اور ان کی تکلیف کا، ان کی گھبراہٹ کا باعث بنیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ گرفت کر لیتا ہے اور کبھی ایسے شخص کو معاف بھی کر دیتا ہے اس کی اولاد میں سے ایک بڑا اچھا مخلص مومن بندہ پیدا ہو جاتا ہے اس کی دعائوں سے باپ بھی ممکن ہے معاف کر دیا جائے بہرحال یہ خداتعالیٰ کی جہاں تک جزا اور سزا کا تعلق ہے اس کے اوپر ہم کوئی حتمی قانون حاوی نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا قانون اپنے امر پر بھی اور ہمارے ارادوں پہ بھی حاوی ہے۔ لیکن وعدہ کوئی نہیں وعدہ یہی ہے وعید کے رنگ میں یعنی انذار کے رنگ میں، ڈرانے کے رنگ میں، خبر دار کرنے کے رنگ میں، سمجھانے کے رنگ میں بدیوں اور برائیوں سے روکنے کے رنگ میں کہ اگر غلط رستہ اختیار کرو گے تو غلط نتائج نکلیں گے غلط اس معنی میں کہ جس کو تم خود صحیح نہیں سمجھو گے تمہارے دکھ کا موجب ہوں گے۔ کوئی شخص اپنے دکھ کو اچھی چیز نہیں کہہ سکتا جو شخص بیماری میں تڑپ رہا ہو اس کی طبیعت میں گھبراہٹ ہو اس وقت بے چینی ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بیماری جو ہے بڑی اچھی چیز ہے جان نکل رہی ہوتی ہے بعض لوگ ایسے گھبراہٹ میں ہوتے ہیں کہ وہ دعا کر رہے ہوتے ہین کہ اے خدا ہمیں مار دے ہم سے یہ تکلیف برداشت نہیں ہوئی جاتی تو ان نتیجوں کو کوئی شخص بھی اپنے سنسز(Senses) میں اچھا نہیں کہہ سکتا نتیجہ برا نکلے گا جو شخص اپنی سینس (Sense) میں نہ ہو اس کے اوپر تو اللہ تعالیٰ کا یہ قانون اخلاقی اور روحانی جو ہے وہ چلتا ہی نہیں۔
ہمارے ایک صاحب کا دماغ خراب تھا ایک دفعہ قادیان کی بات ہے کسی کا سائیکل اٹھا کر لے گئے اپنے اسی بے ہوشی کے عالم میں وہ پیچھے دوڑا اس نے پکڑ یا اس کی بے وقوفی مجھے اس وقت بڑا غصہ آیا تھا کہ ایک شخص پتہ ہے کہ اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں سائیکل تم نے پکڑ لیا ہے لے آئو ساتھ اس کو جوتیاں بھی ماریں جوتی اتار کے اب یہ صاحب کھڑے ہوئے پانچ دس جوتیاں کھا کے اور ایک زور سے قہقہ لگایا اور کہنے لگے تم سمجھتے تھے کہ مجھے جوتیاں پڑ رہی تھیں اندر سے تو تمہیں پڑ رہی تھیں تو اگر کوئی شخص احمق، خدا کی گرفت کو یہ کہدے کہ اندر سے میں ہی کامیاب اور مجھے ہی انعام مل رہا ہے تو یہ وہ اس کا جنون ہے بڑی قابل رحم حالت ہے اس کی لیکن کوئی شخص اپنی سنسز(Senses) میں بری چیز کو جو اس کے لئے دکھ اور عذاب اور کرب اور گھبراہٹ کا باعث بن رہی ہے اچھا نہیں کہہ سکتا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ اچھے مقاصد کے حصول کے لئے کچھ نیک راہیں معین کی گئی ہیں ان راہوں پہ چلو تو کیا دیکھو گے آگے تمہیں کیا انعام ملے گا خالی یہ نہیں کہا انعام ملے گا ان لوگوں کا انعام ملے گا جو تم سے پہلے گزرے جنہوں نے ہم سے انعام حاصل کئے اور تمہیں پتہ ہے کہ کس قسم کے انہوں نے انعام حاصل کئے انبیاء ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، صالح ہیں انہوں نے اس دنیا میں بھی انعام حاصل کئے تم نہیں یہ کہہ سکتے کہ جو مثال ہمارے سامنے رکھی جا رہی ہے وہ ہم سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ان انعاموں کا جن کا ذکر کیا جا رہا ہے دوسری زندگی میں ملنا ثابت ہے ان لوگوں کو اس دنیا میں بھی انعام ملا دنیا نے ان کو بے عزت کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بے عزت نہیں ہونے دیا ہر قسم کی عزت ان کو عطا کی سب سے زیادہ عزت تو اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں رضا کی چمک جب بندہ دیکھ لیتا ہے تو اس سے زیادہ کو کسی اور عزت کی ضرورت ہی نہیں رہتی انبیاء ہیں ساری دنیا مخالفت کرتی ہے ایک شخص کھڑا ہوتا ہے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ سامنے ہوتا ہے کہ ساری دنیا نے میری مخالفت کرنی ہے اس کو پتہ ہوتا ہے کہ دنیوی سامان میرے پاس نہیںہیں کتنا بڑا توکل کا مقام ہے جو اسے حاصل ہوتا ہے ساری دنیا پر اپنے رب کو وہ ترجیح دیتا ہے اس پر وہ توکل رکھتا ہے پھر دنیا اپنا زور لگا لیتی ہے لیکن اس شخص کو بے عزت اور ناکام نہیں کر سکتی بے عزتی تو ناکامی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا کوئی بھی ساتھ نہیں تھا۔ آدمی برداشت نہیں کر سکتا اس زمانے کے حالات جب اپنے ذہن میں لاتا ہے آپ نے خود نثر اور نظم اردو اور عربی میں لکھا ہے کہ گھر والے پرواہ نہیں کرتے تھے وہ جو برابر کا شریک تھا اس کو اپنے دستر خوان کے ٹکڑے بھیج دیتے تھے یہ عزت اس خدا کے برگزیدہ کی تھی اپنے خاندان کے دل میں۔ لیکن خدا نے جو وعدے دیئے وہ پورے کئے آپؑ نے فرمایا اپنے زمانہ میں کہ کبھی تو دستر خوان کے ٹکڑے مجھے ملتے تھے اب ہزاروں خاندان ہیں جو میری وجہ سے پل رہے ہیں انہیں روٹی مل رہی ہے۔
اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں خاندان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل دنیا میں بڑے امیر بنے ہوئے ہیں ایک باورچی غالباً پانچ یا دس روپے ماہوار تنخواہ لے رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کرتے ان کے بہت سارے لڑکے تھے اور میرا نہیں خیال کہ ان میں سے کسی لڑکے نے بھی سات آٹھ سَو ہزار روپے سے کم ماہانہ حاصل کیا ہو اللہ سے بطور انعام کے ایسے باپ کے بیٹے دنیا میں عزتیں بھی ان کو ملیں مال بھی ملا پھر ان میں سے جو صداقت پر جاں نثار رہے۔ انہوںنے روحانی طور پر بھی انعام حاصل کئے لیکن دنیا میں بھی خداتعالیٰ نے ان کا قرض نہیں رکھا قرض کیا تھا سات روپے میں سے اٹھنی (آٹھ آنے) دیتے ہوں گے شاید چونی دیتے ہوں گے یا دونی دو آنے دیتے ہوں گے اور اس دونی کے بدلہ میں سارے ٹبر کو اگر ملا لیا جائے تو شاید دس پندرہ ہزار روپیہ مہینے کا انعام اللہ تعالیٰ نے یہ پنیشن لگا دی کہ تمہارے باپ نے میرے مسیح کی خدمت کی تھی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت شکور کی بھی ہے بڑا قدر کرنے والا ہے کیا خدمت کی تھی دو آنے وہ دیتا تھا احمدیت کی ترقی کے لئے یا چار آنے وہ دینا تھا اور آج میں اس کا بدلہ دیتا ہوں بدلہ کیا دیتا ہوں دس ہزار روپیہ ماہوار یا پندرہ ہزار روپیہ ماہوار یا بیس ہزار روپیہ ماہوار۔
ڈاکٹر سلام ہیں ان کے والد دنیوی لحاظ سے مال کے لحاظ سے معمولی درجے کے انسان ہیں زندہ ہیں ابھی بڑی دعا کرنے والے ہیں، بڑے مخلص ہیں، احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیںکیں وقت خرچ کیا، جوانی کا سارا وقت ایسے مخلص کوئی منٹ اپنی زندگی کا ضائع نہیں ہونے دیتے تھے یعنی جب حقوق العباد ادا کر چکتے تھے اگر حکومت کے ملازم ہیں تو حکومت کے جو پیسے لیتے تھے ان پیسوں کی وجہ سے تنخواہ کی وجہ سے جتنا وقت خرچ کرنا ان پر فرض ہوتا تھا جب وہ وقت خرچ کر لیتے تھے تو پھر وہ سمجھتے تھے کہ سارا وقت تو خدا کا ہے خدا نے کہا ہے کہ جب پیسے لو دیانت داری سے کام کرو ہم نے اس کا یہ کہنا پورا کر دیا اب ہم خدا کے لئے اپنا وقت نکالتے ہیں رات کو دس دس گیارہ گیارہ بارہ بارہ بجے تک میرے علم میں سینکڑوں احمدی ایسے ہیں جو اپنا وقت احمدیت کے لئے خرچ کر رہے ہیں جتنی توفیق تھی پیسے خرچ کرتے تھے اب ان کے بچے کو خدا نے اتنی عزت دی ہے دنیوی لحاظ سے اصل عزت تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسان دیکھتا ہے وہ بھی خدا کے فضل سے انہیں حاصل ہے لیکن دنیا کی نگاہ بھی جب احمدیت پر پڑتی ہے تو اس کو یہ نظر آتا ہے کہ ایک معمولی انسان کا بچہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا عجیب دماغ دیا کہ وہ مادی دنیا کے ہر گوشے اور کونے کھدرے میں نگاہ ڈالتا پھرتا ہے اور چھپی ہوئی چیزوں کو وہ باہر نکال دیا ہے اور وہ دنیا، ساری دنیا مثلاً جو اسلام کو مٹانا چاہتی ہے اس کی عزت کئے بغیر نہیں رہ سکتی اصل تو یہ شکل ہمیں نظر آ رہی ہے نا وہ دنیا جو خدا کا نام اس دنیا سے مٹانا چاہتی ہے دہریہ دنیا، روس کی دنیا،اس شخص کی عزت کرنے پر مجبور ہے تو انہیں خدا نے کہا میرا نام مٹانے کی کوشش تو کرتے رہنا پہلے میرے اس بندے کی عزت کر لو یہ بھی ایک چپیڑ ہے جو اس وقت ان کے منہ پر خداتعالیٰ ما رہا ہے کہ تم میرا نام مٹانا چاہتے ہو میں نے اپنے اس بندے کو جو مجھ پر ایمان لایا ہے حقیقی ایمان اور جس کو میری توفیق سے خلوص حاصل ہوا ہے جسے قلب سلیم دیا گیا اس کو ذہن رسا بھی ہم نے دے دیا اور اب اس کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے اس کی عزت اور احترام کرنے پر تم مجبور ہو گے تو میرا نام تم سے کہاں مٹے گا۔ یہ ایک مثال ہے دنیا میں اور ہزاروں مثالیں ہیں روسی دنیا کے سامنے جب ہم اللہ تعالیٰ کے نشان پیش کرتے ہیں ان سے بات نہیں کی جا سکتی۔ ایک دفعہ ہمارے کالج میں ایک روسی سائنسدان کو جسے حکومت پاکستان نے سائنس کانفرنس میں بلوایا تھا ہم نے بھی دعوت دی کھانے پر وہ آیا میری عادت ہے میں کج بحثی سے ہمیشہ بچتا رہا ہوں میری عادت ہے آرام آرام سے بات کروں پھر کوئی دنیا کی بات کر دی پھر کوئی لطفیہ سنا دیا پھر کوئی اصولی اسلامی بات کر دی تین چار گھنٹے میں میں آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ ڈرلنگ (Drillinag)کیا اس کے دماغ میں زندہ خدا کے زندہ نشانات پر اور شام کے وقت اس کا دل اتنا بدلا ہوا تھا کہ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ اس نے کانٹرنیشن کمپ میں چلا جانا ہے اگر ذرا بھی بے احتیاطی کی وہاں جا کر اور مجھے شبہ ہے کہ وہ چلا گیا کیونکہ ہم سے کچھ وعدے کرکے گیا تھا جو اس نے پورے نہیں کئے اور آئندہ سال جب ایک اور سائنسدان آیا اور اس کو ہم نے بلایا تو اس کے ساتھ جو انٹر پریٹر تھا اس نے نہ صرف یہ کہ انکار کیا بلکہ پہلے سائنسدان کو گالیاں دیں اور کہا کہ بڑا خبیث آدمی تھا کیوں چلا گیا تھا ربوہ۔
تو اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس پر اثر ہوا بات یہ ہے کہ جو بھی دہریہ ہمارے سامنے آئے ہم اسے دلیل کے ساتھ قائل نہیں کر سکتے بڑا مشکل ہے انسان کے دماغ کو خداتعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ ایک صحیح دلیل کے مقابل میں غلط دلیل پیش کرتا ہے اور بہت سی دنیا اس کے قائل ہو جاتی ہے لیکن کوئی شخص دنیا کا معجزہ اور خدائی نشان کے مقابلہ میں ہم سے بات نہیں کر سکتا کیونکہ عقل کی رفعتیں جہاں ختم ہو جاتی ہیں نشان کی بلندیاں وہاں سے شروع ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا انعام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے گروہ میں آپ شامل ہو گئے خداتعالیٰ کے غیر شرعی نبی تھے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ جس طرح پہلے انبیاء پر میرے انعام ہوئے آپ پر بھی ہوں گے اور یہ تو یا ہم نے دیکھے یا ہمارے باپ دادوں نے دیکھے بلکہ انہوں نے بھی دیکھے اور ہم نے بھی دیکھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو نشانات عطا ہوئے ہیں وہ ایک بڑے وسیع زمانہ پر پھیلے ہوئے ہیں دراصل قیامت تک چلتے ہیں۔ بہت سے الہامات ہیں جو آج سے سو سال بعد دو سو سال بعد پورے ہوں گے ابھی کپڑوں سے برکٹ ڈھونڈنے کا نشان پہلے ہم وہ بھی ایک چھوٹے رنگ میں بعض دفعہ ایک ہلکی سی جھلک ہوتی ہے پھر وہ پوری شان سے ظاہر ہوتی ہے بعض امراء و رئوساء یا اپنے اپنے علاقہ کے نیم مالک اور حاکم وہ احمدی ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں کے طفیل اللہ کی برکتیں حاصل کرنے کی کوشش کی اس وقت بھی ہم خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ دھندلا اظہار ہے اس نشان کا بہرحال نشان کا اظہار ہو گیا اس کی قبولیت ہم نے دیکھ لی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں جو تھیں، وہ ایک رنگ میں اگرچہ وہ ایک دھندلا رنگ ہے لیکن وہ پوری ہوئیں اور اب ہم نے پھر خدا کی یہ شان بھی دیکھی کہ گیمبیا کے گورنر جنرل احمدی ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت حاصل کی دینی بھی اور دنیوی بھی اس کی تفصیل میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں انہوں نے اس کے لئے چالیس دن تک دعائیں کیں اپنے آپ کو اس کے لئے نوافل پڑھ پڑھ کر اور عاجزانہ دعائوں کے ساتھ تیار کیا اِدھر ہم ڈاکخانہ کے بعض قواعد کی وجہ سے کسی قدر تاخیر کے ساتھ انہیں یہ تبرک بھجوا سکے لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک شان دکھانی تھی جس دن ان کے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کا یہ تبرک پہنچااس سے اگلے دن غالباً ان کا جو عہد تھا گورنر جنرل کا وہ کنفرم ہوا اس سے پہلے اس دن تک وہ آفیشیئٹ کر رہے تھے تو ایک دنیوی برکت ان کو بالکل قریب کے زمانہ میں اس تبرک کے حصول کے بعد حاصل ہو گئی اور دل کی برکتیں جن کی میں نے مثال دی ہے وہ الگ ہیں یہ خیال دل میں پیدا ہونا کہ میرے ساتھ احمدی امام ہونا چاہئے تاکہ کوئی کہیں بدمزگی نہ پیدا ہو بڑے اخلاص کا اظہار کر رہا ہے یہ بھی معمولی چیز نہیں ہے ایک گورنر جنرل ہے وہ دنیا میں کاموں میں تو دنیا کے پھنسے ہوئے ہیں نا بچارے پھر بھی دین کے کے لئے وقت نکالتے ہیں تھنکنگ کرتے ہیں سوچتے ہیں اپنے آپ کو غلط مقامات سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کیا۔
تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو صحیح راہیں دنیوی مقاصد کے حصول یا روحانی مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے متعین کی ہیں ان کی نشاندہی کی ہے اگر تم ان راہوں کو ڈھونڈوگے اور ان راہوں پر چلو گے تو جب اپنے مقصود کے پاس پہنچو گے تو پھر وہاں تمہارا مقصد اور مطلب جو ہے وہ وہی نہیں کھڑا ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت بھی وہاں تم پائو گے اپنا مقصد بھی تمہیں حاصل ہو جائے گا اور خداتعالیٰ کے فضلوں کے بھی وارث بن جائو گے اور جو انعام صحیح راستہ پر چلنے کا تمہیں ملتا ہے وہ ملے گا تمہیں وہ انعام ملے گا جو پہلے انبیاء کو ملا تمہیں وہ انعام ملے گا، یعنی تم میں سے بعض کو جو پہلے صدیقوں کو ہم نے دیا تم میں سے بعض کو وہ انعام ملیں گے جو شھداء نے ہم سے حاصل کئے تھے تم میں سے بعض کو وہ انعام ملیں گے جو صلحاء نے حاصل کئے ان کے انعامات ایک حد تک تمہارے سامنے ہیں تم اندازہ کر سکتے ہو کہ کس قدر عظیم انعام ہیں جن کا وعدہ کیا گیا ہے اس وعدے کے ہوتے ہوئے بھی اگر تم صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کو چھوڑ دو اور دنیا کے بداثرات سے متاثر ہو کر غلط راہوں کو اختیار کرو تو اس سے زیادہ اور کوئی بدبختی نہیں ہو سکتی اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہی صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ (آمین )
٭…٭…٭

احباب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے جذب کرنے کیلئے روزانہ تسبیح و تحمید کے علاوہ کثرت سے استغفار کیا کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍ جون ۱۹۶۸ء بمقام مسجد احمدیہ مری)
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا تذکرہ۔
٭ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات سے فیوض حاصل کرنا اور اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کرنا ضروری ہے۔
٭ القیوم کی صفت سے فیض حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔
٭ تمام کے تمام مرد ، خواتین اور بچے معین تعداد میں ضرور استغفار کریں۔
٭ معین تعداد سے زیادہ استغفار کرنے کی کوئی حد بندی نہیں۔




تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور نے فرمایا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں انسانوں کو جو تفصیلات بتائی گئی ہیں قرآن کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ان تمام صفات سے فیوض حاصل کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرب کا تعلق پیدا کرنا ضروری ہے۔
حضور نے صفات الٰہی میں سے الحی اور القیوم کی صفات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ القیوم کی صفت سے فیض حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ استغفار کے یہی معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کمزوریوں اور گناہوں کو معاف کر دے اور انسان اس کے لئے دعائیں کرے بلکہ استغفار کے اصل پہلے معنی یہی ہیں کہ جتنی بھی بشری کمزوریاںکسی بھی مرحلہ پر ان کاصدرو نہ ہو وہ استغفار ہے جس کا حکم انبیاء کو بھی ہے اور جس کے نتیجہ میں ان کو خصوصیت حاصل ہوتی ہے اور سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر معصوم ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں پھر شفاعت کا مقام بھی حاصل ہوا۔
حضور نے فرمایا ہماری جماعت کے ذمہ تمام دنیا میں اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنا ہے۔ اتنی بڑی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری تمام بشری کمزوریاں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر کے نیچے دبی رہیں اور ان کا ظہور نہ ہو اس فرض کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کے تمام مرد اور تمام خواتین جن کی عمر ۲۵ سال سے اوپر ہے وہ دن میں کم سے کم سَو بار جن کی عمر ۲۵ سال اور ۱۵ سال سے درمیان ہے وہ دن میں ۳۳ بار جن کی عمر ۱۵ سے ۷ سال کے درمیان ہے وہ دن میں گیارہ بار اور جھوٹے بچے جن کی عمر سات سال سے کم ہے وہ روزانہ کم از کم تین بار استغفار کیا کریں۔
حضورنے فرمایا استغفار سے متعلق قرآن مجید میں مختلف دعائیہ آیات ہیں۔ نیز استغفار کی ایک دعا یہ بھی ہے۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیِ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ احباب کو ایسی آیتوں اور اس دعا کا ورد کرکے زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔
حضور نے فرمایا کسی شخص کے دل میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ استغفار کے لئے یہ تعداد کیوں معین کی گئی ہے یہ خیال کم علمی کی بنا پر ہے اس سے مراد یہی ہے کہ کم از کم اس قدر تعداد میں ضرور استغفار کیا جائے ورنہ زیادہ سے زیادہ کوئی حد بند نہیں۔
(الفضل ۲؍ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

کوشش، تدبیر اور دعاؤں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرآنی انوار حاصل کرنے کی کوشش کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵ ؍جولائی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اس مادی دنیا میں تدبیر اور مادی اسباب سے کام لینا بھی ضروری ہے۔
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق کوشش اور تدبیر نہیں کرتا وہ ناشکرا بھی ہے اور مشرک بھی ہے۔
٭ قرآن کریم کے انوار سے زیادہ سے زیادہ منور ہونے اور اس کے معارف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
٭ منافقین سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن۔
٭ الٰہی سلسلوں میں منافق پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے۔




تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
گزشتہ دنوں تین چار بیماریاں اکٹھی آ گئی تھیں جن کے نتیجہ میں کافی کمزوری واقع ہو گئی جو ابھی تک جاری ہے بلکہ اس سفر کی گرمی اور پھر یہاں کی گرمی کے نتیجہ میں کمزوری میں اضافہ ہو گیا ہے اس لئے میں ایک تو احباب سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ میری صحت کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے صحت عطا کرے اور ان ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھانے کی توفیق عطا کرے جو اس نے میرے کندھوں پر ڈالی ہیں دوسرے اس وقت میں بڑے ہی اختصار کے ساتھ ان بھائیوں اور بہنوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو قرآن کریم سیکھنے کے لئے مختلف مقامات سے یہاں جمع ہوئے ہیں اوّل تو میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیتوں میں خلوص پیدا کرے اور آپ کی کوششوں کو قبول کرے اور آپ کی دعائوں کو سن کر زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کے معارف سیکھنے کی آپ کو توفیق عطا کرے اور جب آپ واپس اپنے گھروں کو جائیں تو ان معارف کو زیادہ سے زیادہ اشاعت کی اس کے فضل سے توفیق پائیں۔
دوسری بات میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے ہمیں یہ تعلیم دی ہے (اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان آیات کی تفسیر بڑی وضاحت سے کی ہے) کہ اس مادی دنیا میں تدبیر اور مادی اسباب سے کام لینا ضروری ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق کوشش اور تدبیر نہیں کرتا وہ ناشکر ابھی ہے اور ایک معنی میں مشرک بھی ہے۔ پس کوشش اور تدبیر ایک مومن کے لئے نہایت ہی ضروری فریضہ ہے وہ جو اپنے خدائے رحیم کو پہچانتے نہیں وہ اس رنگ میں کوشش اور تدبیر کو فریضہ نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے مطلب کیلئے جائز اور ناجائز کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن ایک مومن خدا کے بتائے ہوئے طریق پر جائز کوشش اور تدبیر کرنے کو اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے پس آپ پوری توجہ کے ساتھ قرآن کریم کے سیکھنے کی کوشش کریں اور اپنے وقت کو ضائع نہ کریں بلکہ اپنے ان قیمتی لمحات میں قرآن کریم کے انوار سے زیادہ سے زیادہ منور ہونے اور اس کے معارف کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
ہمیں اسلام نے یہ بھی بتایا ہے کہ کوشش کا نتیجہ خدائے رحیم نکالتا ہے اور کوشش اور تدبیر مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ ہم اپنے خدائے رحیم کے سامنے عاجزانہ جھک کر اس سے یہ دعائیں نہ کرتے رہیں کہ کوشش اور تدبیر تیرے کہنے کے مطابق ہم نے کر لی ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ اس کا وہ نیک نتیجہ جو ہم چاہتے ہیں کہ نکلے نکل نہیں سکتا جب تک تیرا رحم اور تیرا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو۔ پس بہت دعائیں کریں اور جس مقصد کے لئے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں اس مقصد کو آپ حاصل کر سکیں۔
یہاں جماعت احمدیہ کا مرکز ہے اور الٰہی سلسلوں میں منافقوں کا وجود اللہ کی نگاہ میں ضروری قرار دیا گیا ہے اس لئے نبی اکرمﷺ کے ارد گرد جہاں ہزاروں لاکھوں فدائی تھے، جان نثار تھے اللہ تعالیٰ کی معرفت پوری طرح رکھنے والے تھے اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاننے والے تھے وہ ہر چیز اس پر قربان کرنے کے لئے تیار تھے وہاں انتہائی طور پر منافق لوگوں کا وجود بھی تھا یہاں تک کہ مدینہ میں رہنے والے اور ایک مسلمان کہلانے والے نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو زیادہ معزز ہے (یعنی وہ خود) وہ اس کو جو سب سے زیادہ ذلیل ہے (نعوذ باللہ) مدینہ سے باہر نکال دے گا پس اس قسم کے منافق بھی مدینہ میں موجود تھے ہمارے ہاں بھی ہیں جماعت میں بھی ہیں اور ربوہ میں بھی ہیں اور ان سے بچنے کے لئے ہی خدا کی طرف سے آپ کو یہ ہدایت ہوئی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ اگر الٰہی سلسلہ کے سارے لوگ ہی صادقین کے گروہ میں ہوتے تو اس تنبیہہ اور ذکر کی ضرورت نہیں تھی آپ یہاں آتے اور جس سے بھی آپ ملتے وہ صادقین میں ہی شامل ہوتا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق صدق و وفا کا ہوتا لیکن چونکہ بعض روحانی مصالح کے پیش نظر کفر کے ساتھ نفاق کو بھی انسانی ترقیات کے لئے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ضروری سمجھا گیا ہے اس لئے الٰہی سلسلوں میں منافق پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے نبی اکرمﷺ کی زندگی میں جب پیدا ہوئے تو اور کون ہے جو یہ دعوے کر سکے کہ میں اتنا بڑا ہوں کہ میری زندگی میں منافق نہیں ہو سکتے کیونکہ جس حد تک بھی کوئی بڑا ہے وہ اس معنی میں بڑا ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت اور عشق اور فدائیت کا تعلق رکھتا ہے اس لئے اگر اس کے آقا کی زندگی میں منافق تھے تو اس کی زندگی میں بھی اگر اس پر کوئی ذمہ داری کا کام ڈالا گیا ہے منافق ہیں اور رہیں گے اس لئے جب تک آپ (جو باہر سے یہاں آئے ہیں) یہاں رہیں کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ کو بھی یاد رکھیں اور منافق کی منافقانہ چالوں سے بچتے رہیں آپ کو بیدار رکھنے کے لئے منافق کو پیدا کیا جاتا ہے وہ خود تو جہنم میں جاتا ہے لیکن آپ کے لئے جنت کی راہوں کی نشان دہی کرتا چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو منافق کے شر سے محفوظ رکھے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان عاجزانہ دعائوں کے کرنے کی توفیق عطا کرے جو اس کے حضور قبول ہو جائیں اور جن کے نتیجہ میں ہماری تدبیر کامیاب ہو اور جس مقصد کیلئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اس مقصد میں ہم بامراد ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۰؍ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۳)

٭…٭…٭
سورۃ فاتحہ بڑی حسین بڑی وسعتوں، گہرائیوں اور تاثیروں والی دعا ہے
(خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ کی پُر معارف تفسیر۔
٭ غضب الٰہی اور ضلالت سے بچنے کیلئے ہر قسم کی تدابیر اختیار کرو مگر ساتھ ہی دعاؤں سے بھی کام لو۔
٭ ایک مومن کی یہی نیت ہوتی ہے کہ ہر چیز چونکہ خدا کی ہے اس لئے جس قدر چاہے وہ لے لے۔
٭ جس نے خدا کی رضا کیلئے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا اُس نے بھی ثواب حاصل کر لیا۔
٭ مومن ہر دنیوی کام کو اُخروی جزا اور اُخروی نعماء کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔



تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
گزشتہ چند خطبات میں میں نے سورۃ فاتحہ کے مضمون کو جماعت کے سامنے رکھا تھا اور اس سلسلہ میںجو ذمہ داریاں ان پر عائد ہو سکتی ہیں ان کی طرف انہیں متوجہ کیا تھا آج مجھے خیال آیا ہے کہ ان خطبات میں قریباً ساری سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر بیان ہو گئی ہے سوائے ایک ٹکڑے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن کے اس لئے آج میں جماعت کو ا س مضمون کی طرف متوجہ کروں گا جو اس چھوٹی سے آیت میں بیان ہوا ہے۔ اگرچہ میری بیماری کافی حد تک دور ہو چکی ہے لیکن ضعف باقی ہے اس لئے اختصار ہی کرنا پڑے گا اِھْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک عجیب دعا بڑی حسین اور بڑی وسعتوں اور بڑی گہرائیوں اوربڑی تاثیروں والی دعا سکھائی اور ہمیں بتایا کہ یہ دعا کرو کہ اے خدا عقل بھی ہمیں یہی بتاتی ہے ہماری فطرت بھی اسی طرف راہ نمائی کرتی ہے کہ ہر مقصود پانے کے لئے ایک سیدھی راہ ہو اکرتی ہے اور جو اس سیدھی راہ کو اختیار کرتا ہے وہی اپنے مقصود کو حاصل کرتا ہے اس لئے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو ہمیں تجھ تک پہنچا دے تو ہمیںمل جائے تیرے ساتھ ہمار اتعلق قائم ہو جائے تجھے ہم پالیں، تیری رحمتوں کے ہم وراث بن جائیں اوربتایا کہ یہ راہ آج پہلی دفعہ انسان کو نہیں بتائی جارہی بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کاایک سلسلہ شروع ہوا اور انبیا ء سے تعلق رکھنے والے بزرگ خد اکی راہ میں قربانی دینے والے ،خداکی محبت کو پانے والے پیدا ہوتے رہے پس جس طرح پہلوں پر اصولی طور پر تیرے انعام نازل ہوئے تو ہمیں ایسی راہ دکھا کہ ہم بھی ان جیسے بن جائیں اور اس قسم کے انعام ہمیں بھی تیری طرف سے ملیں۔ا س حصہ پر میں نے خاصی تفصیل سے روشنی ڈالی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ وہ خطبہ محفوظ نہیں رہا مری میںمیَں نے بعض خطبات دیئے تھے جو محفوظ نہیں رہ سکے یعنی نہ تو وہ ٹیپ ہوئے نہ رکھے گئے۔
بہرحال اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ منعم علیھم گروہ کے علاوہ ایک گروہ وہ بھی ہے جو منعم علیھم نہیں اورآگے وہ دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے ایک گروہ وہ جو مغضوب بن جاتے ہیں اور ایک جو راہ سے بھٹک جاتے ہیں مغضوب کے معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ جو شخص انشراح صدر کے ساتھ کفر کو کفر سمجھتے ہوئے قبول کرتا ہے سب سے پہلا انشراح صدر اس سلسلہ میں ابلیس کو ہو اتھااس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں تھی وہ اپنے اللہ کو پہنچانتا تھا، اللہ سے وہ گفتگو کر رہا تھا لیکن کہتا تھا کہ میں کفر کروں گا اور لوگوں کو بھٹکائوں گا تیرا کہنا نہیں مانوں گا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی سزا ملے گی خدا نے کہا تھا کہ میں تجھ سے اور تیرے ماننے والوں سے جہنم کو بھر دوں گا لیکن وہ کفر پر قائم رہا غرض مغضوب اس کو کہتے ہیں جو نافرمانی کی راہ سمجھتا ہے جوکفر کے راستہ کو کفر کا راستہ سمجھتا ہے جو جانتا ہے کہ اگر میں نے یہ راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ کا یقینی غضب مجھ پر نازل ہو گا لیکن کبھی ا س کا شیطانی نفس یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے اسی راہ کو اخیتا رکرنا ہے اللہ تعالیٰ مغضوب کے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے سورہ نحل میںفرماتا ہے
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطَْمَئِنٌّ بِالْاِ یْمَانِ وَلٰـکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِصَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ۔(النحل:۱۰۷ )
ا س آیت میں بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غضب اس گروہ یا فرد پر نازل ہوتا ہے جو انشراح صدر سے کفر کے راستہ کو قبول کرتا ہے پس غضب کے نزول کے لئے جو وجہ بنتی ہے وہ جان بوجھ کر خدا تعالیٰ کے غضب اس کی ناراضگی اور اس قہر کے راستوں کو اختیار کرنا ہے کہ اس سے خدا ناراض ہو جائے لیکن پھر جرات کرتا ہے اور خداکی ناراضگی ، اس کے غضب اور قہر کو مول لیتا ہے۔ اسی طرح سورۃ بقرہ کی آیات ۹۰اور ۹۱ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے میں چونکہ اختصار کرناچاہتا ہوں اس لئے نہ میں پوری آیات پڑھ رہا ہوں نہ میں ان کا ترجمہ کروں گا نہ تفسیر بیان کروں گا میں اس مطلب کے ٹکڑے لوں گا، آیت ۹۰میں ہے۔
فَلَمَّاجَآئَ ھُمْ مَّا عَرَ فُوْا کَفَرُ وا بِہٖکہ ان کے پاس جب کافروں پر فتح ا ورکامرانی حاصل کرنے کے سامان آگئے تو باوجود اس عرفان کے باوجود اس کے سمجھ کے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت کے سامان پید اہوئے ہیں کَفَرُوْ ابِہٖ انہوں نے اس کاانکار کردیا اور آیت ۹۱ میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اس بات پر بگڑتے ہیں کہ اللہ اپنی مرضی سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے کلام نازل کردیتا ہے یہ کیا بات ہو ئی ہم جس پر چاہیں اللہ کا فضل ہے (نعوذ باللہ) کہ وہ اس پر کلام نازل کرے غرض وہ جانتے تھے کہ کلام اللہ کا ہے وہ یقین رکھتے ہیں کہ جس پر یہ کلام نازل ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اسی کو پسند کیا ہے اور اس کو اپنا محبوب بنانا چاہا ہے۔ اپنے قرب سے نوازنا چاہا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل کیا ہے اور یہ جانتے بوجھتے انکار کرتے ہیں نتیجہ کیاہوا؟فَبَآئُ وْا بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ایک غضب کے بعد دوسرے کہ وہ مورد بن گئیجَائَ ھُمْ مَّاعَرَ فُوْ اکَفَرُ وبِہٖ کی وجہ سے ایک غضب مول لے لیا اور اس بات سے ناراض ہوئے کہ خدا نے اپنی مرضی سے اپنی پسند سے اس شخص پر اپنا کلام کیوں نازل کیا جسے اس نے مقرب بنانا چاہا ہماری مرضی چلنی چاہئے تھی وہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کلام خد اکا ہے اور جس پر نازل ہو ا ہے وہ خدا کامقرب بھی ہے انکار کرجاتے ہیں فَبَائُٓ وْابِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ایسے لوگ غضب کے بعد غضب کے مورد ہو جاتے ہیں۔ غرض غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں یہ مضمون بیان ہو اہے کہ اے خد اکبھی ایسانہ ہو کہ ہم شیطان کی طرح تیری معرفت رکھنے کے باوجود اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ تیری طرف لے جانے والی صراطِ مستقیم کو ن سی ہے پھر بھی اس راہ کو چھوڑ دیں اور شیطان کی راہوں کو اختیار کرلیں اور یہ ہو نہیںسکتا جب تک تیرا فضل اور تیری رحمت ہمارے شاملِ حال نہ ہو اس لئے تجھ سے یہ عاجزانہ دعا ہے کہ ہمیں مغضوب کبھی نہ بنانا۔
وَلَا الضَّآلِّیْن اور نہ کبھی ہمیں ضال بنانا ضال سیدھے راہ سے بھٹکنے والے کوکہتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کے یہ معنی کئے ہیںکہ اَلَّذِیْنَ ضَلََََّ سَعْیُھُمْ فیِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا( الکھف :۱۰۵) پس ضالین وہ ہیں جن کی تمام کوششیں ان راہوں کی تلاش میںرہتی ہیں جو اُخروی زندگی سے ورے ورے ختم ہوتی جاتی ہے۔ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فیِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاوہ اس ورلی زندگی کے کناروں سے نکل کر اُخروی زندگی تک نہیں پہنچتیں۔ راہ بھٹک جاتی ہے کوشش جو ہے وہ آگے چل ہی نہیںسکتی ایسے راستے وہ اختیار کرتے ہیں جن کا صرف اس دنیا سے تعلق ہے حالانکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ ساری چیزیں (خواہ وہ قوتّیں اور استعدادیں ہوں یا مادی سامان ہوں یا فطرت کے تقاضے ہوں) اس لئے دی تھیں کہ اس دنیا میں وہ ختم نہ ہوں نہ صرف اس دنیا سے ان کا تعلق ہو بلکہ ان کے نتیجہ میں انسان اس دنیا میںبھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت کو حاصل کرے اور اس دنیا میں بھی وہ اس رضا کی جنت کو حاصل کرے لیکن ایک گروہ انسانوں میں سے یا بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جو ان قوتوں کی انتہاء اس دنیا کے ورے ورے سمجھتے ہیں اسی طرح دنیا کے جو سامان ہیں ان کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ بس دنیا میں ہی ہمارے کام آئیںگے حالانکہ ایک عقلمند مومن یہ جانتا ہے کہ وہ بکراجو خدا نے مجھے دیا ہے اور جو گوشت پوست ہے اور اس کی زندگی بھی چھوٹی ہے ایک ایسی چیز ہے جو صرف اس دنیا میں ہمارے کام نہیں آسکتی بلکہ اگر ہم چاہیں تو یہ اس دوسری دنیا میں بھی ہمارے کام آئے گی کیونکہ اگر ہم چاہیں تو تقویٰ کاٹیگ، لیبل اس کے ساتھ لگا دیں تو بکرا یہاں رہ جائے گا لیکن وہ ٹیگ، وہ لیبل آسمانوں کے خد ا کے پاس پہنچ جائے گا۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُومُھَا وَلَا دِمَآ ئُ ھَا وَلٰٰـکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج: ۳۸ ) تقویٰ کے ساتھ لگا تو بکرا اللہ کے حضور پہنچ گیا اور تمہارے لئے دوسری زندگی میں بھی مفید ہو گا ( یہ زندگی تو اس زندگی کے مقابلہ میں اتنی معمولی چیز ہے کہ ہم اس کا نام ہی نہیں لیں گے ) دوسری زندگی میں بھی وہ کام آجائے گا آپ دفتر میںجاتے ہیں سو روپیہ آپ کوتنخواہ ملتی ہے ا ب کوئی احمق ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ چاندی کے سکے یا کاغذ کے نوٹ صرف اس دنیاسے تعلق رکھتے ہیں قیصر کی چیز ہے اس کاایک حصہ اس کو دے دینا چاہئے لیکن چونکہ یہ خدا کی چیز نہیں اسے نہیں دینا چاہئے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ تباہ ہو جائے گا اُسے یہ کہنا چاہئے کہ ہر چیز چونکہ خد اکی ہے اس لئے جس قدر چاہے وہ لے لے پھر جو بچ جائے گا وہ میں استعمال کر لوں گا ایک مومن کی یہی نیت ہوتی ہے اس کی یہ نیت نہیںہوتی کہ جو مجھ سے بچ جائے گا وہ میں خدا کو دے دوں گا بلکہ اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ جو بچ جائے گا اس معنی میں وہ کہے کہ میںنے اتنالے لیا باقی تم استعمال کر لو تو پھر وہ میں استعمال کر لوںگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے بعض کے ساتھ یہی سلوک کیا آپ نے فرمایا نہیں اتنا مال نہیں چاہئے واپس لے جائو اورا ستعمال کرو اس نیک نیتی کے ساتھ جتنا دینا چاہا پیش کر دیا اور ہمیں یقین ہے کہ اس نے خد اسے اسی کے مطابق ثواب حاصل کر لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے اورا سلام کی اس وقت کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کہا سارے مال کی ضرورت نہیں واپس لے جائو پھر یہ بتانے کے لئے کہ جب ایک مومن خدا کے حضور اپنا سارامال پیش کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بدنیتی نہیں ہوتی کہ سارا مال قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے سارامال پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت ابوبکرؓ نے جب اپنا سارا مال پیش کیا تو وہ سارا قبول کر لیاگیا اور بتایا گیا کہ ہر مومن کے دل کی یہی کیفیت ہے لیکن کچھ مومن وہ ہوتے ہیںجو جواں ہمت ہوتے ہیں اور جو انتہائی بوجھ برداشت کر سکتے ہیں (چنانچہ آپ نے ان میں سے ایک کاسارا مال لے لیا اور مثال کو قائم کر دیا) اور کچھ وہ ہوتے ہیںکہ ان کی روح تو انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوتی ہے لیکن ان کا ماحول اوران کاجسم اس کے لئے تیار نہیں ہوتا ان کوفتنہ اور امتحان سے بچانے کے لئے ان کے مال کا ایک حصہ قبول کر لیا جاتا ہے اور ایک حصہ واپس کر دیا جاتا ہے۔
پس مومن کی مادی کوشش دنیا میںحدود سے ورے ختم نہیںہو جاتی اور اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فیِ الْحَیٰوۃِ الْدُنْیَا کیونکہ روپیہ وہ خرچ کرتے ہیں زندگی کا ہرلمحہ جووہ گزارتے ہیںاخلاق کاہر مظاہرہ ان سے سرزد ہوتاہے بچوں سے محبت اور پیار کا سلوک جو دنیا ان سے دیکھتی ہے اس کے پیچھے یہی روح کام کر رہی ہوتی ہے کہ جس نے خدا کی رضا کے لئے اپنی بیوی کے منہ میںلقمہ ڈالا اس نے بھی ثواب حاصل کرلیا۔ غرض مومن اپنے ہر دینوی کام کو اُخروی جزا اور اُخروی ا نعماء کے حصول کاذریعہ بنا لیتا ہے اور اس کے متعلق ہمیں کہاجاسکتا ہے کہ وہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فیِ الْحَیٰوۃِ الْدُنْیَاوالے گروہ میں ہے لیکن بہت سے لوگ ہمیںایسے بھی نظر آتے ہیں بہت سی قومیں ہمیں ایسی نظر آتی ہیں جو راہ بھول گئے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ سیدھا راستہ کونسا ہے اس لئے وہ مَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ کے گروہ میں وہ شامل نہیںکئے جاسکتے وہ ضَالّ کے گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کے ذرائع تو اختیار کرے گااور وہ انہیں سخت بھی محسوس ہوںگے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع ہی میں سورۃ فاتحہ میں ان دو گروہوں کے ایک فرق کر دیا یعنی ایک کو مَغْضُوْب کہا ہے اور ایک کو ضَالّ کہا ہے یہ لوگ صراط مستقیم کو پہنچانتے نہیں۔ ضَالِّین یہ سمجھتے ہیںکہ جس راستہ پر وہ ہیںبس وہی ٹھیک ہے نہ وہ خدا کو پہنچانیں نہ کوئی آسمانی تعلیم ایسی ہے جس کے اوپر ان کا پختہ یقین ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بس یہ دنیا پیدا ہوئی یااگر ان میںسے بعض ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیںکہ دنیا کو اللہ نے پیدا کیا ہے مگر اتنی بڑی ہستی اور عاجزوں سے ایک زندہ تعلق قائم کیوں رکھے گی اس لئے اس کا ہمارے ساتھ کوئی زندہ تعلق نہیں غرض اپنی حماقت اپنی بیوقوفی اپنی روایات ( ہزار قسم کی وجوہات ہو سکتی ہیں ان سب وجوہات) کے نتیجہ میں وہ راہ گم کر بیٹھتے ہیںاور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر یہ جماعت مومنین جو احیائے اسلام کے لئے پید ا کی گئی ہے ضالین کے سامنے بھٹکتے ہوئے راہی کے سامنے ہدایت پیش کر ے گی تو ان سے بہت سے اسے قبول کر لیں گے کیونکہ ان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے وہ جان بوجھ کر انشراح صدر کے ساتھ ضلالت کی راہوںکو اختیار نہیں کرتے بلکہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ ان کوصراطِ مستقیم کا پتہ ہی نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ دعا کرتے رہو کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی فرد یاجماعت گمراہی میں کفر میں پڑکر ایک حصہ ان کا مغضوب بن جائے اور ایک حصہ ان کاضال بن جائے یعنی ہر شخص دعاکرنے والا اپنے اور اپنوں کے لئے یہ دعا کر ے کہ اے خدا میری فطرت میں شیطنت کو کبھی پید انہ ہونے دینا کہ میں تیری راہ کو جانتے بوجھتے انشراح صدر کے ساتھ چھوڑنے لگ جائوں اور نہ ایسے حالات پید اکرنا کہ میں تیری راہ کو گم کردوں اور بھٹک جائوںاور شیطان کی راہوں کواختیار کرلوں۔
غرض جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ تحریر فرمایا ہے سورۃ فاتحہ ایک عظیم دعا ہے اس وقت میں صرف اس چھوٹے سے ٹکڑے کامضمون بیان کررہا ہوں اور اس سورۃ کایہ ٹکڑا بھی عظیم دعا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ میرے غضب سے بچنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر اختیا رکرنے کے بعد میرے حضور آئو اور دعائیںکرو اور ضلالت کی راہوںکو اختیار کرنے کے سے بچنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر اختیار کرو اور میرے پاس آئو او ر دعا کرو اگر خلوص نیت سے میرے حضور دعا کرو گے تو ضَالّ ہونے سے بھی تجھے اے انسان بچایاجائے گا مغضوب ہونے سے بھی تجھے بچایا جائے گا اور صراطِ مستقیم تجھے دکھائی جائے گی اس راہ پر چلنے کی تجھے توفیق عطا کی جائے گی میرے قرب کو تو حاصل کر لے گا میری رضا کی جنت میں تو داخل ہوجائے گا اوراس گروہ میں شامل ہو جائے گا جومُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کا گروہ ہے جسکا ذکر متعدد آیات قرآنیہ میںپایا جاتا ہے۔
خداکرے کہ ہمیں محض اس کے حضور سے یہ توفیق ملتی رہے کہ ہم سورۃ فاتحہ کی دعا کو خلوص نیت کے ساتھ اور پوری سمجھ کے ساتھ پڑھتے رہیں اور خدا کرے کہ ہماری یہ عاجزانہ دعا سے سب پہلے اس کے حضور قبول ہو کہ کیونکر یہ بڑی جامع دعا ہے اورخد اکر ے کہ ہم مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ گروہ میں شامل کئے جائیںاور جس طرح ایک دن سب انسانوں نے اس کے حضور اکٹھا ہونا ہے اس دن اس گروہ میں شامل نہ ہوں جو اس کی نگاہ میں یا تو مَغْضُوْب ہے یا ضَالّ ہے۔ آمین۔
(مطبوعہ الفضل ۹ ؍ اگست۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴ )
٭…٭…٭

قرآن کریم ایک کامل اور مکمل شریعت ہے جوہماری تمام ضرورتوں کوپورا کرتی ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹ ؍جولائی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم کے ایسے علوم سکھائے کہ عقل دنگ اور حیران رہ جاتی ہے۔
٭ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ کی پُرمعارف تشریح۔
٭ ہماری تمام روحانی، اخلاقی، دینی اور دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے سب سامان قرآن میں موجود ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ قانون قدرت کے مطابق انسان کو ابتلاء میں ڈالتا ہے۔
٭ حوادثِ زمانہ کی تکلیفوں اور مخالف طاقتوں سے جو دکھ پہنچتے ہیں اسے خندہ پیشانی اور بشاشت سے قبول کرنا چاہئے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج کل قرآن کریم پڑھنے اور سکھانے کے لئے (اس سے متعلق دوسرے مضامین بھی اس میں پڑھائے جاتے ہیں) جو کلاس یہاں جاری ہے اس کے سامنے میں نے یہ بات رکھی تھی کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں نبی اکرمﷺ کے لئے تھی اور ان بشارتوں کے طفیل جو نبی اکرمﷺ کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دیں اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئیاں (جو آپ کے ایک روحانی فرزند کے ذریعہ پوری ہونی تھیں) آپ کو عطا کیں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قرآن کریم کے ایسے علوم سکھائے کہ عقل دنگ اور حیران رہ جاتی ہے۔ اس اصولی بات کو سمجھانے کیلئے میں نے کلاس کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت کا ٹکڑا رکھا تھا اور وہ یہ تھا۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران: ۲۰)
میں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے ٹکڑے کے بڑے ہی لطیف حسین اور عجیب مختلف اور متعدد معانی کئے ہیں جو تفسیری معانی ہیں۔ اس سلسلہ میں نے کلاس کے سامنے جو باتیں اس وقت تک بیان کر دی ہیں وہ یہ ہیں:۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ یعنی سب دین جھوٹے ہیں مگر اسلام‘‘
(ضمیمہ انجام آتھمروحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۱۴)
۲۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے یہ معنی ہیں۔
’’دین سچا اور کامل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اور جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہو گا‘‘۔
(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۸۵)
۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے یہ معنی ہیں کہ:۔
’’اسلام کے سوا اور کوئی دین قبول نہیں ہو سکتا اور یہ نرا دعویٰ نہیں تاثیرات ظاہر کر رہی ہیں کہ اگر کوئی اہل مذہب اسلام کے سوا اپنے مذہب کے اندر انوار و برکات اور تاثیرات رکھتا ہے تو پھر وہ آئے ہمارے ساتھ مقابلہ کرلے‘‘۔
(الحکم ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷)
میں نے انہیں یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم کی یہ روحانی تاثیرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ختم نہیں ہو گئیں بلکہ آپ کے بعد آپ کی جماعت میں جو سلسلہ خلافت قائم کیا گیا ہے اس سے بھی یہ وابستہ ہیں اور آج بھی یہ دعوت مقابلہ قائم ہے۔
۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے چوتھے تفسیری معنی یہ کئے ہیں کہ
’’وہ دین جس میں خدا کی معرفت صحیح اور اس کی پرستش احسن طور پر ہے وہ اسلام ہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۴۱۵)
۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک معنی یہ کئے ہیں کہ:۔
’’سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تاکہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو‘‘۔ (الحکم ۱۶؍ اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۳)
۶۔ چھٹے معنی اس آیت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ:۔
’’اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں‘‘۔
(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط)
۷۔ ساتویں معنی اس آیت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ:۔
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے‘‘۔
(الحکم ۲۴؍ اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰)
۸۔ آٹھویں معنی اس آیت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ:۔
’’سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے‘‘۔ (البدر ۱۴؍ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲۳)
ان معانی پر میں نے نسبتاً تفصیلی (بہت تفصیل سے بھی نہیں اور بہت اختصار سے بھی نہیں) روشنی ڈال کر اپنے بچوں اور بھائیوں کو بتایا تھا کہ کس طرح علم کا ایک دریا ہے جو بہتا چلا جاتا ہے چونکہ اور بھی بہت سے معانی ہیں جو رہ گئے ہیں اس لئے ان میں سے بعض کے متعلق میں اس خطبہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے یہ معنی ہیں:۔
۹۔ ’’اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے خدا کو راضی کیا جاوے۔‘‘
(البدر ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۳)
جو دین مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے اور جو شریعت کامل ہے وہ قرآن کریم میں ہے پس اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ میں یہ فرمایا کہ اگر تم اپنے ربّ کو راضی کرنا چاہتے ہو اگر تم اس کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو اگر تم اس سے تعلق محبت قائم کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف یہی راہ ہے کہ قرآن کریم کی پوری اتباع کرو اور اس یقین پر قائم ہو جائو کہ ہماری تمام روحانی، اخلاقی، دینی اور دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے سب سامان قرآن کریم میں موجود ہیں اور اگر ہم ان روحانی اسباب سے فائدہ اٹھائیں اور ان پر عمل کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کی تفصیل میں جانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ پہلوں نے اپنے رنگ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مقام کے مطابق اس کی بڑی وضاحت سے اپنی کتب اور تقاریر میں تشریح کی ہے قرآن کریم ایک کامل اور مکمل شریعت ہونے کی وجہ سے ہماری تمام روحانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے تمام ان راستوں کی نشان دہی کرتا ہے جن پر چلنا ضروری ہے ہر وہ بات ہمیں سکھاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے اور ہر وہ بات ہمارے سامنے وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ جس کو اگر ہم اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے ہو جائیں یعنی قرآن کریم نے کامل اور مکمل طور پر احکام کو بیان کیا ہے اوامر کو بھی کھول کر ہمارے سامنے رکھا ہے اور نواہی پر بھی روشنی ڈالی ہے یعنی اس نے بتایا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا غرض قرآن شریف کی اتباع اور صرف قرآن شریف کی اتباع ہی ہے جس سے ہم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں۔
۱۰۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دسویں تفسیری معنی اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے یہ کئے ہیں کہ:۔
’’اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے اِدھر اُدھر بالکل نہ جاوے‘‘۔ (البدر ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۹)
پہلے معنی یہ تھے کہ جو راستہ دکھایا گیا ہے اس پر چلو اب دوسرے معنوں میں بتایا گیا ہے (گو یہ معنی اپنی ترتیب کے لحاظ سے دسویں ہیں لیکن نویں معنی اور یہ معنی دونوں پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں) کہ قرآن کریم کے علاوہ کسی اور راہ کو اختیار نہ کریں، نہ عقیدہ میں بدعت، نہ عبادت میں بدعت نہ عمل میں بدعت۔ قرآن کریم سے باہر نہ جائیں جو صراط مستقیم قرآن کریم نے بتایا ہے اس کے علاوہ کسی راہ کو اختیار نہ کریں اپنی طرف سے اپنے پر مشقتیں نہ ڈالیں ہر قسم کی روحانی، ایمانی، عملی بدعتوں سے پرہیز کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے بھی بعض بزرگ ایسے ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علاقہ میں بدعات کے خلاف جہاد کرنے کا حکم فرمایا اور توفیق عطا کی کہ وہ کامیابی کے ساتھ بدعات کے خلاف جہاد کریں بدعت کا تعلق سارے احکام قرآن کے ساتھ ہو جاتا ہے بعض بدعات ایسی ہیں جو ہوائے نفس یا شیطانی اثر کے نیچے نماز کے ساتھ لگ گئی ہیں اسی طرح روزے کی بدعتیں بھی ہیں اسی طرح حج کی بدعتیں بھی ہیں اسی طرح زکوٰۃ کی بدعتیں بھی ہیں ہر حکم جو خداتعالیٰ نے ہمیں دیا شیطان نے پوری کوشش کی کہ اس کے ساتھ کچھ ایسی چیزیں بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دے کہ جو حقیقت سے دور اور خالص بدعت ہیں۔ پس اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے یہ معنی ہیں کہ جو قانون اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس سے زائد، اس سے باہر، اس کے مخالف کوئی قانون نہیں بنانا کیونکہ نہ عقلاً (اگر اپنے عقائد پر صحیح طور پر قائم ہوں تو ہماری عقل بھی یہی کہے گی) نہ شرعاً کوئی ایسی چیز عمل یا عقیدہ قرب الٰہی تک پہنچا سکتی ہے جس کا حکم قرآن حکیم نے نہ دیا ہو کیونکہ قران کریم ایک مکمل شریعت کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے لیکن بہت سی بدعتیں عبادات ہیں، بہت سی بدعتیں ایمانیات کے متعلق آہستہ آہستہ ہم میں آگئیں اور خداتعالیٰ کے بندے چودہ سو سال میں کھڑے ہوتے رہے ان کے ذمہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ کام لگایا گیا کہ ان بدعتوں کو پکڑو اور حقیقت و صداقت سے جھٹکا دے کر علیحدہ کرو اور پرے پھینک دو ان کی مخالفتیں بھی ہوئیں، ان کو ایذائیں بھی پہنچیں، اِن کو دکھ بھی دئے گئے، ان پر افتراء بھی باندھے گئے، ان پر اتہام بھی لگائے گئے لیکن خدا کے وہ پیارے بندے خدا کے حکم کے ماتحت اس فرض کو ادا کرتے رہے جو ان کے کندھوں پر ڈالا گیا تھا۔ غرض اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے ایک معنی یہ ہیں کہ کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بدعت ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
۱۱۔ گیارھویں معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ:۔
’’یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس سے انکار نہ کرے‘‘ ۔
(البدر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۵۳)
یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک فقرہ میں اس ٹکڑہ کے تفسیری معنی کئے ہیں لیکن جہاں آپ نے یہ تفسیری ترجمہ کیا ہے وہاں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مختلف قسم کی تکلیفیں اور مشقتیں اور دکھ سہنے پڑتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے ایک مشقت شریعت کی ہے مثلاً یہ مستحب بلکہ بڑا اچھا ہے کہ جس نے مقام محمود ظلی طور پر محمد رسول اللہﷺ کے طفیل حاصل کرنا ہو اسے تہجد کی نماز ادا کرنی چاہئے لیکن اگر سردی ہو تو لحاف سے نکلنا بڑی مشقت طلب بات ہے لیکن وہ اپنے رب کی رضا کے حصول کے لئے کوئی پرواہ نہیں کرتا اور اس کی عبادت تنہائی کی گھڑیوں میں دنیا سے پوشیدہ رہتے ہوئے بجا لاتا ہے اور صرف اس لئے بجا لاتا ہے کہ اس کا رب اس سے خوش ہو جائے یا مثلاً گرمی کا موسم ہو گرمی میں نیند کا بہت کم وقت ملتا ہے اور انسان کو ضروری کاموں کے بعد سونے کے لئے بمشکل دو اڑھائی گھنٹے ملتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ میں صبح کی نماز سے قبل بمشکل ڈیڑھ سے اڑھائی گھنٹے تک سو سکتا ہوں دوست کہتے ہیں کہ آپ صبح کی نماز کے بعد سویا نہ کریں صحت اچھی رہے گی لیکن وہ میرے حالات کو جانتے نہیں میں اگر صبح کی نماز کے بعد نہ سوئوں تو میں بیمار ہو جائوں کیوں جتنی نیند قانون قدرت کے مطابق مجھے لینی چاہئے وہ پوری نہ ہو اس لئے مجبوراً مجھے سونا پڑتا ہے۔
اسی طرح نماز کی پابندی ہے نماز باجماعت کے لئے پانچ وقت مسجد میں جانا بہرحال مشقت طلب ہے اس سے انکار نہیں پھر روزہ ہے اس میں بھی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے زکوٰۃ ہے اس میں بھی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ انسان (اگر وہ مثلاً زمیندار ہے) سوچتا ہے کہ راتوں کو میں جاگا ہل چلائے کھیتوں میں پانی دیا جب ساری دنیا سائے کی تلاش میں تھی میں دھوپ میں خداتعالیٰ کے رزق کی تلاش میں گہائی کر رہا تھا دانے نکال رہا تھا میں سارا دن دھوپ میں بیٹھا رہتا تھا اب یہ پیسہ جو مجھے ملا ہے یہ میں کسی اور کو دے دوں؟ شیطان آ کر کہتا ہے کہ قربانیاں ساری تم نے دیں پھر تم اس پیسہ کو کسی دوسری جگہ خرچ کیوں کرو لیکن وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے رب نے مجھے توفیق دی کہ میں رزق حلال کے حصول کے لئے یہ مشقت برداشت کروں اور میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ اس مشقت سے حاصل شدہ جو مال ہے اس سے میں صرف اس دنیا کا فائدہ حاصل نہ کروں بلکہ اُخروی زندگی کا بھی فائدہ حاصل کروں وَبِااللّٰہِ التَوْفِیْق
پس ایک یہ مشقت ہے جو انسان کو دوسری دنیا کے فوائد کے حصول کے لئے برداشت کرنی پڑتی ہے اگر اس کی نیت نیک ہو جس وقت وہ گرمی میں جا کر اپنی کھیتی باڑی کا کام کر رہا ہوتا ہے اس کے دماغ میں یہ آیت آ رہی ہوتی ہے قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّحَرًا (توبہ:۸۱)یعنی اس گرمی سے زیادہ وہ گرمی ہے اس سے بچائو کی کوئی صورت کرنی چاہئے اگر وہ نیت کرے تو باقی سب چیزیں تو جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’جھونگے وچ مل جان گیاں‘‘ اصل چیز یہی ہے کہ خدا کی رضا کو حاصل کیا جائے اور گرمی میں اس لئے برداشت نہیں کرتا کہ میرے بچے یا میں پیٹ بھر کر کھائوں بلکہ یہ مَیں اس لئے برداشت کرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں جو مال حلال مجھے ملے اس کا ایک بڑا حصہ خدا کی راہ میں خرچ کروں اور دوسری زندگی میں اپنے لئے آرام کی جنتوں اور رضا کی جنتوں اور رحمتوں کی جنتوں کے سامان کر لوں ایک مشقت تو یہ ہے اور ایک مشقت ہے حوداث زمانہ کی اللہ تعالیٰ قانون قدرت کے مطابق انسان کو ابتلاء میں ڈالتا ہے بعض کو اس کی مصلحت سمجھ آتی ہے اور بعض کو سمجھ بھی نہیں آتی مثلاً جوان بچہ فوت ہو گیا اب یہ ایک حادثہ ہے یا مثلاً ایک زمیندار نے روئی اکٹھی کی تھی کسی حادثہ کی وجہ سے اس کو آگ لگ گئی اور مالی نقصان ہو گیا اس طرح کے ہزاروں حوادث ہیں جو کبھی آندھی کی شکل میں آتے ہیں کبھی مینہ کی شکل میں آتے ہیں کبھی وبائوں کی شکل میں آتے ہیں کبھی اس قسم کے حادثات پیش آتے ہیں کہ مثلاً شادی کرنے جا رہے تھے کہ رستہ میں موٹر کا ایکسیڈنٹ (Accident) ہو جاتا ہے اور دولہا مر جاتا ہے یا دلہن مر جاتی ہے یہ ساری حوادث زمانہ کی تکلیفیں ہیں ایک مومن بندہ اپنے رب پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ جس وقت اس قسم کا حادثہ اسے پیش آئے وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ رہا ہوتا ہے وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ رہا ہوتا ہے۔ اپنے خالق کے لحاظ سے وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ حادثہ خواہ میرے لئے کتنا تکلیف دہ ہو مگر اس کے نتیجہ میں میرے ربّ کے اوپر کوئی حرف نہیں آتا اس کی حمد اور اس کی تعریف اسی طرح قائم ہے اس لئے وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے جسم کو، میرے دل کو، میرے دماغ کو، میری آنکھوں کو ایسا بنایا ہے کہ جوان بیٹا اگر مر جاتا ہے تو دل میں درد بھی اٹھتا ہے، آنکھوں میں آنسو بھی آتے ہیں دماغ میں پریشانی بھی پیدا ہوتی ہے مگر اِنَّا لِلّٰہِ ہم سب اللہ کے ہیں یہ بھی اللہ کا تھا اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا میں بھی اللہ کا ہوں اور ایک دن میں بھی اس کے پاس چلا جائوں گا خدا اگر اپنی رحمت کے سامان پیدا کرے تو میں اور میرا بیٹا اس کی جنتوں میں پھر اکٹھے ہو جائیں گے چند دن چند سال یا کچھ عرصہ اس ملاپ کے لئے انتظار کرنا اور خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کرنا کوئی بڑی قربانی نہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ غرض ایک مشقت تکلیف اور دکھ انسان کو حوادث زمانہ کے نتیجہ میں برداشت کرنا پڑتا ہے اور ایک وہ دکھ ہے جو الٰہی سلسلوں کے مخالفین پہنچاتے ہیں ایک مسلمان کو اس ابتلاء میں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ دیکھو نبی اکرمﷺ کے صحابہؓ تھوڑی تعداد میں تھے غریب تھے جنگ کی کوئی تربیت انہیں نہیں تھی ان کے پاس جنگ کا کوئی سامان نہ تھا اچھی تلواریں نہیں تھیں گھوڑے نہیں تھے کچھ بھی نہ تھا اور دشمن نے یہ سمجھا کہ ان نہتوں اور بے بسوں کو ہم اچھی تلواروں کے استعمال سے کاٹ کے رکھ دیں گے اور فنا اور نابود کر دیں گے تب اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کو کہا کہ میری خاطر ان تکالیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائو اور میرا تم سے یہ وعدہ ہے کہ تم کمزور سہی تم غریب سہی تم نہتے سہی تم بے سرو سامان سہی لیکن میں تمہاری پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوں گا اس لئے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں آخر غلبہ تمہیں حاصل ہو گا۔
غرض کئی قسم کے دکھ ابتلاء اور مشقت انسان کو خدا کی راہ میں پیش آتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آئے اس سے انکار نہ کرے اور آپ نے یہ فرمایا کہ نبی کریمﷺ کی زندگی پر آپ کے سوانح پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ نے خدا کی راہ میں اپنی جان کی کبھی پرواہ نہیں کی جنگ بدر میں جب کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے تو آپ مدینہ میں نہیں بیٹھے رہے بلکہ جس طرح دوسرے مسلمان میدان میں گئے آپؐ بھی میدان میں گئے اور آپ ہی سب سے زیادہ دشمن کے حملہ کا نشانہ ہوتے تھے کیونکہ دشمن یہ جانتا تھا کہ اگر اس ایک شخص کو (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) ہم نے قتل کر دیا تو پھر کسی اور کوشش کی ضرورت نہیں رہے گی اسلام ختم ہو جائے گا صحابہؓ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ شدید تر حملہ دشمن کا نبی کریمﷺ کی ذات پر ہوتا تھا اور بہادر ترین صحابہؓ وہ سمجھے جاتے تھے جو آپؐ کے قرب میں رہتے تھے مثلاً حضرت ابو بکرؓ کے متعلق تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب سے زیادہ بہادر شخص ہے اس کو آنحضرتﷺ کے قرب میں رہنا چاہئے لیکن آپ کوئی تدبیر اپنی حفاظت کی نہیں کرتے تھے آپ کے پاس دنیوی سامان ہی کیا تھا؟ تدبیر کیا کرنی تھی بہرحال آپ نے اپنی عصمت اور حفاظت کا کوئی سامان نہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ آپ اپنا سب کچھ خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی زندگی اور اپنی موت اور اپنا ہر سانس اور عبادتیں وغیرہ سب کچھ خالص خداتعالیٰ ہی کے لئے سمجھا اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ کا حق ہے جو اسے دیتا ہوں میرا اپنا توکچھ بھی نہیں جانتے ہو خداتعالیٰ نے اس کے جواب میں کیا کیا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خدا نے کہا وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ:۶۸) چونکہ آپ ہر وقت اپنی جان اپنے رب کے حضور پیش کر رہے تھے اس لئے خدا نے کہا میں تمہاری حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت کے ساتھ اور نہایت ارفع شان کے ساتھ اس بات کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا کہ خداتعالیٰ ہی آپ کا محافظ اور معین اور آپ کو بچانے والا تھا دشمن کا کوئی حربہ آپ کے خلاف کار گر نہیں ہوا اور آپ کے نفس کو، آپ کی ذات کو، آپ کے جسم کو خداتعالیٰ نے بچایا اور محفوظ رکھا نیز آپ کی اُمت کو بھی اپنی حفاظت میں رکھا۔
دنیا میں بڑے بڑے انقلاب بپا ہوئے بعض ملکوں سے اسلام مٹایا گیا یہ تو درست ہے لیکن یہ کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اس میں کبھی بھی شیطان کامیاب نہیں ہوا نہ ظاہری طور پر نہ روحانی طور پر کیونکہ اُمت مسلمہ میں ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کے بعد اس کی سکھائی ہوئی ہدایت اور اس کے بتائے ہوئے علوم قرآنیہ کے نتیجہ میں اسلام کی شمع کو روشن رکھتے رہے ہیں کبھی تعداد کم تھی اور کبھی زیادہ لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں کہ جس کے متعلق تاریخ نے یہ شہادت نہ دی ہو کہ اس زمانہ میں خدا کے نیک بندے اسلام کے جھنڈے کو بلند کر رہے تھے کتنی عظیم عصمت ہے جو نبی کریمﷺ کو عطا ہوئی کہ آپ نے کہا خدا کی راہ میں قربانی دینے سے میں ہچکچاتا نہیں اور اپنی حفاظت کرنے کی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ آپ نے اپنے نفس پر شفقت نہیں کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ پر انتہائی شفقت کی اسی طرح جو لوگ احکام قرآنی کے بجا لانے میں اپنے نفسوں پر شفقت نہیں کرتے مثلاً یہ نہیں کہتے کہ باہر ٹھنڈ ہے ہم گرم کمرہ میں بڑے آرام سے لیٹے ہوئے ہیں ہم لحاف سے باہر کیوں نکلیں وہ یہ نہیں کہتے کہ کمرہ میں ٹھنڈ ہے اور باہر اتنی شدید گرمی ہے باہر نکلا تو بیمار ہو جائوں گا اس لئے میں ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں کیوں جائوں وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا نے رزق دیا ہے اس کو استعمال کرنا چاہئے ہم رمضان کے مہینہ میں بھی دوسرے مہینوں کی طرح خوب کھائیں گے اور شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے تمہیں اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہئے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عطا سے ایک خاص وقت کے اندر اپنے آپ کو محروم کرتا ہے وہ خدا کے حکم سے کرتا ہے کیونکہ اصل عطا جو خدا سے کسی کو حاصل ہوتی ہے وہ کامل اطاعت اور فرماں برداری کی عطا ہے وہ اس ذہنیت کی عطا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی عطا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو نہیں ملتی کہ وہ خوشی اور بشاشت کے ساتھ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتا چلا جائے۔ غرض احکام کی بجا آوری، نواہی سے پرہیز حوادث زمانہ کی تکلیفوں اور مخالف طاقتوں سے جو دکھ پہنچتے ہیں ان کو خندہ پیشانی اور بشاشت سے قبول کرنا چاہئے خدا کی راہ میں جو پیش آئے اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے نہیں منظور اور موسیٰ علیہ السلام کی امت کی طرح مثلاً یہ نہ کہے کہ ایک کھانے سے تو تسلی نہیں ہوتی بہت سے کھانوں کا انتظام کیا جائے ہمیں بھی تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک کھانے کی تلقین کی ہوئی ہے یہ صحیح ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے بعض گھروں میں ایک سے زائد کھانے پک جاتے ہیں طبائع میں اتنا اختلاف ہے کہ ہمارے بعض بچے گوشت کھاتے نہیں اور ہمیں اس سے بعض دفعہ تکلیف بھی ہوتی ہے اور ان کے لئے دال بہرحال پکانا پڑتی ہے میں بھی گھر میں دو تین کھانے پکے ہوں تو ایک کھانا جو مجھے پسند آ جائے اور میری طبیعت کے موافق ہو لے لیتا ہوں اور کھا لیتا ہوں ہمارا ایک بچہ ہے وہ گوشت بالکل نہیں کھاتا وہ دال لے لے گا یا دال کی بجائے آلو کا بھرتہ لے لے گا اور اسے کھائے گا بہرحال یہ بھی ایک مشقت ہے بظاہر یہ ایک معمولی چیز ہے لیکن انسان کا نفس اسے دھوکہ دیتا ہے اور اسے کہتا ہے تو یہ نہ کر تو تکلیف میں کیوں پڑتا ہے؟ بہرحال خدا کی راہ میں جو بھی مشقت تکلیف اور دکھ برداشت کرنا پڑے خوشی اور بشاشت سے اسے برداشت کرے اور ’’نہ‘‘ نہ کرے بعض لوگ ’’نہ‘‘ کرکے ایک اور قسم کی مشقت اپنے اوپر ڈال لیتے ہیں ۔ بعض ایسے بھی ہیں جو احکام الٰہی کی بجا آوری اور نواہی سے بچنے کے لئے مشقت برداشت نہیں کرتے اور اپنے جذبات کو قربان نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے اور قسم کی قربانی لے لیتا ہے ایک شخص اپنے بچہ کی صحیح تربیت نہیں کرتا وہ غافل ہوتا ہے۔ کہتا ہے ’’وڈے ہو کے آپے عادت ہو جاوے گی ہن اس نوں صبح نماز دے واسطے کیوں جگا واں‘‘ یا دوپہر کی گرمی میں نماز دے واسطے مسجد وچ کیوں بھیجاں آپے جدوں سیانا ہو جاوے گا نماز پڑھ لیا کرے گا‘‘ حالانکہ ماں کے لئے تو چالیس سال کا آدمی بھی بچہ ہوتا ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے اچھا تم میرے لئے اس بچہ کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے اور یہ جذبات کی قربانی ہے (ماں بھی جذبات کی ایک قربانی دے رہی ہوتی ہے) جو تم میری خاطر نہیں کرنا چاہتے۔ تمہارے لئے یہ بچہ ابتلاء بن گیا ہے میں اس ابتلاء کو تمہارے ساتھ کیوں رکھوں میں اسے اٹھا لیتا ہوں چنانچہ وہ اسے موت دے دیتا ہے پھر دھوپ کی گرمی اور صبح کی نیند کہاں جاتی ہے۔
غرض جو لوگ خود کو خدا کے دین کی راہ میں آنے والی مشقتوں کے سامنے خوشی سے پیش کر دیتے ہیں اور دکھ اٹھا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان دکھوں سے کہیں بڑے دکھوں سے انہیں محفوظ کر لیتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتے ان کی اصلاح کے لئے دوسرے سامان پیدا کرتا ہے کیونکہ بغیر امتحان کے، بغیر ابتلائوں کی برداشت، بغیر دکھوں کے اٹھانے کے کوئی شخص خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے ایمان کا امتحان لینا ضروری ہے۔
۱۲۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے بارھویں معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ
’’اسلام ایک موت ہے جب تک کوئی شخص نفسانی جذبات پر موت وارد کرکے نئی زندگی نہیں پاتا اور خدا ہی کے ساتھ بولتا، چلتا، پھرتا، سنتا، دیکھتا نہیں وہ مسلمان نہیں ہوتا‘‘۔
(الحکم ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸)
یہاں آپ نے یہ فرمایا کہ دین حقیقی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل فرماں برداری کی جائے اور اس کی کامل فرماں برداری کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے نفسانی جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں اور اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنی پڑتی ہے اور خداتعالیٰ نے چونکہ کہا ہے عِنْدَ اللّٰہِ یعنی جب وہ جذبات پر موت وارد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول کرتا ہے اور جب وہ قربانی قبول کرتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ پھر اس کے ہاتھ باقی نہیں رہیں گے نہ اس کی آنکھیں باقی رہیں گی نہ اس کے جوارح اپنے رہیں گے اس کے جذبات پر موت وارد ہو جائے گی اور جذبات ہی ہیں جو جوارح کو حرکت میں لاتے ہیں مکھی میرے منہ پر آ کر بیٹھتی ہے اس کے چھوٹے چھوٹے پائوں سے جو گدگدی ہوتی ہے وہ مجھے برداشت نہیں اس لئے جب میں تنگ آ جاتا ہوں تو میرا ہاتھ فوراً اٹھتا ہے اور اس مکھی کو اڑا دیتا ہوں یہ میں ایک جذبہ کے ماتحت ہی کرتا ہوں اور جس وقت اللہ تعالیٰ کے لئے ایک انسان اپنے نفس پر موت وارد کر لیتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا کہتا ہے اے میرے بندے! تو نے اپنے جذبات پر میرے لئے، میری رضا کے حصول کے لئے ایک موت وارد کر لی ہے۔
میں تجھے ایک نئی زندگی دیتا ہوں اب تو مجھ میں ہو کے بولے گا مجھ میں ہو کے سنے گا مجھے میں ہو کے تو اپنے ہاتھوں کو حرکت دے گا اور مجھ میں ہو کے تیرے پائوں آگے قدم بڑھائیں گے وہ جس طرف بھی اُٹھیں گے وہ میری ہی طرف ہو گی کیونکہ نفس پر تو موت وارد ہو گئی ہے غرض اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ کے ایک معنی یہ ہیں کہ نفس کو پوری طرح کچل دیاجائے کوئی جذبہ اپنا نہ رہے تمام جذبات نفسانی خداتعالیٰ کے ماتحت ہو جائیں اس کے لئے قربان ہو جائیں اس کے قدموں میں گر جائیں ایک موت وارد ہو جائے اور بندہ اپنے ربّ سے یہ امید رکھے کہ وہ ایک نئی زندگی اس کے بدلہ میں عطا کرے گا۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو اس طرح تفسیریں کی ہیں ان پر جب ہم غور کرتے ہیں اور ان کی وسعت اور گہرائی ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ تَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَمَّ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام کا شاگرد بننے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
دو معنی اور رہ گئے ہیں لیکن میں ابھی پوری طرح صحت مند نہیں اور گرمی بھی بہت ہے اس لئے اس وقت میں انہی معنوں کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۷)
فضل عمر فاؤنڈیشن کا تیسرا سال شروع ہوچکا ہے بیرونی ممالک کی جماعتوں کی نسبتاً زیادہ رقم قابل وصول ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اس یقین پر پختگی سے قائم ہونا چاہئے کہ اصل شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے دوائیں نہیں۔
٭ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے۔
٭ جماعت کمزور ہے لیکن جس پاک ذات نے یہ ذمہ داریاں ڈالی ہیں وہ تمام قدرتوں اور طاقتوں کی مالک ہے۔
٭ آئندہ ہونے والے واقعات اور جس طرف زمانہ کا رُخ ہے اس کے متعلق ہمیں سوچتے رہنا چاہئے۔
٭ ہم نے اللہ تعالیٰ سے معرفت حاصل کرکے خدا کی معرفت دنیا میں قائم کرنی ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ایک تو میں آج اپنی صحت کے لئے دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں مئی میں مجھے نقرس کا بڑا شدید حملہ ہوا نقرس سے اور پھر جو ادویہ اس بیماری میں استعمال کروائی جاتی ہیں ان کی وجہ سے گردوں پر اثر پڑتا ہے اور ابھی میں پوری طرح صحت مند نہیں ہوا تھا کہ گرمی لگنے (جسے انگریزی میں ہیٹ سٹروک کہتے ہیں یا اُردو میں لو لگنا بھی کہتے ہیں) کی وجہ سے بڑی شدید تکلیف مجھے اُٹھانی پڑی اور اس کا اثر بھی گردوں پر ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گردوں کے نظام میں خلل واقع ہو گیا اور اس تکلیف سے ابھی تک پوری طرح نجات حاصل نہیں ہوئی۔
اس عرصہ میں بیماری کی وجہ سے قریباً ۳۰ پونڈ سے زیادہ وزن میرا کم ہوا یعنی پندرہ سیر جسم بیماری کے اثر کی وجہ سے گھل گیا اور مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ روزانہ میرا وزن کم ہوتا چلا جا رہا ہے چنانچہ میں نے لاہور سے تولنے والی مشین منگوائی اور روزانہ اپنا وزن لینا شروع کیا کوئی چھ سات دن ہوئے کہ ایک دن ایسا آیا کہ میرا وزن اپنی جگہ ٹھہر گیا گرا نہیں اب اپنی جگہ پر ٹھہرا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری کافی دور ہوگئی ہے۔
قارورے کا جب ٹیسٹ کروایا تو اس میں قریباً ساری ہی گردوں کی بیماری کی علامات تھیں خون کے ذرے بھی تھے پس (Pus) کے ذرے بھی تھے۔ البیومن (Albumin) بھی تھا بہت زیادہ ایسیڈٹی (Acidity) بھی تھی شوگر (Sugar) بھی تھی اور خون میں بھی شکر بہت زیادہ تھی یعنی ۱۲۰ نارمل ہے اور میرے خون میں شکر ۲۸۵ تھی لیکن میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ یہ ذیابیطس کی بیماری نہیں بلکہ دوسری بیماریوں کی وجہ سے گردے ٹھیک کام نہیں کر رہے جب یہ ٹھیک کام کرنے لگ جائیں گے تو ساری چیزیں اپنے معمول پر آ جائیں گی اور میں دعائیں بھی یہی کرتا رہا ہوں کہ اے خدا! تو مجھے ان بیماریوں سے محفوظ رکھ وقتی بیماریاں تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں لیکن جب مستقل بیماری کی شکل پیدا ہو جاتی ہے وہ ذیابیطس کی ہو یا کوئی اور وہ زیادہ تکلیف دیتی ہے۔
تکلیف تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں برداشت کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے لیکن بہرحال اس کا اثر کام پر پڑتا ہے اور کچھ کام ایسے ہیں جو روزانہ مجھے کرنے پڑتے ہیں دو دن بھی بیماری کی وجہ سے کام نہ کر سکوں تو طبیعت پر بہت زیادہ بوجھ ہو جاتا ہے اور جسم پر بھی بوجھ ہوتا ہے کیونکہ وہ کام میں جو میں نے کرنا ہے وہ میں نے ہی کرنا ہے کوئی اور تو نہیں کر سکتا مثلاً جب مجھے گائوٹ (Gout) یعنی نقرس کا حملہ ہوا تو میں دو راتیں سو نہ سکا شدید درد تھی تیسرے دن صبح میری نظر پڑی میرے سرہانے تو ڈاک کے انبار پڑے ہوئے تھے میں نے سوچا کہ اگر دو دن اور گزر گئے تو بڑی مشکل پڑ جائے گی چنانچہ اس بیماری ہی میں میں نے صبح کام کرنا شروع کیا میں چارپائی پر ہی کام کرتا رہا اور رات کے ایک بجے تک کام کرتا رہا اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ کام ختم ہو گیا لیکن جسم پر کام کی وجہ سے (خصوصاً بیماری کے ایام میں) جو اثر پڑتا ہے وہ تو پڑتا ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ جو بڑا ہی فضل کرنے والا ہے، جو اپنے عاجز بندوں پر بڑا ہی رحم کرنے والا ہے اس نے میری دعائوں کو سنا اور تین دن کے اندر بغیر کسی دوائی کے ۳؍۱ بیماری دور ہو گئی صرف ۳؍۲ رہ گئی ہے بلڈ اور شوگر لیول (Blood + Sugar level) بھی بیماری والے حصہ میں دو تہائی رہ گیا ہے یعنی ایک تہائی کا آرام آ گیا ہے اور قارورے میں بھی ۳؍۲ رہ گیا ہے اور ۳؍۱ آرام آ گیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کی اور میری دعائوں کو سنے گا اور صحت دے گا میرا ارادہ کراچی جانے کا ہے وہاں میں نے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کرنا ہے۔
پانچ چھ سال ہوئے مجھ پر بڑی شدید قولنج کی بیماری کا حملہ ہوا تھا اس طرح کہ انتڑی بند ہو گئی تھی غالباً اس میں کوئی بل پڑ گیا تھا یا پتہ نہیں اور کیا بات ہوئی تھی اس میں سے نہ ہوا گزرتی تھی نہ فضلہ اور جسم میں زہر جمع ہونے شروع ہو گئے اور پیٹ پھولنا شروع ہوا آخر ہمارے ڈاکٹر مسعود صاحب یہاں آئے اور انہوں نے کہا لاہور جا کر فوراً اپریشن کروانا چاہئے چنانچہ لاہور کی تیاری ہو گئی لیکن لاہور کے راستہ میں ہی انتڑی کا راستہ کھل گیا (اللہ تعالیٰ اس طرح بھی فضل کرتا ہے) اور جب ہم وہاں پہنچے تو آپریشن کی ضرورت نہیں پڑی اس وقت جب ٹیسٹ کروائے تو خون میں بھی شکر تھی اور قارورہ میں بھی شکر تھی وہاں ایک غیرملکی ڈاکٹر ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ اگر کسی سخت بیماری کا حملہ ہو تو بعض دفعہ جسم کے دوسرے نظام (جو اللہ تعالیٰ نے بیسیوں بلکہ بے شمار جسم کی حفاطت کے لئے بنائے ہیں ایک یا زائد نظام) متاثر ہوتے ہیں حقیقی بیماری نہیں ہوتی بلکہ کسی اور بیماری کا اثر ہوتا ہے اس لئے ذیابیطس کی دوائی بالکل نہ کھانا کیونکہ پھر وہم ہو جائے گا اور جسم کو دوا کی عادت پڑ جائے گی کئی مہینے تک کھانے کا پرہیز کرو پھر دیکھو کیا اثر ہوتا ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ قریباً دو مہینے کے پرہیز کے بعد خود بخود بغیر کسی دوائی کے گردوں نے اپنے معمول کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا اور ساری بیماری جاتی رہی میں امید رکھتا ہوں کہ اب بھی اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے گا کہ بغیر کسی علاج کے خود بخود ہی آرام آ جائے گا کیونکہ وہی شافی مطلق ہے دوائی تو ایک تدبیر ہے اور تدبیر ہمیں کرنی پڑتی ہے کوئی نہ کوئی بہانہ ہوتا ہے مثلاً جب میرے جیسا ذہن سوچتا ہے کہ دوائی نہیں کھانی تو چونکہ عام طور پر ایلو پیتھک علاج رائج ہے اس لئے میں سوچتا ہوں کہ اچھا میں ایلوپیتھک دوائیں استعمال نہیںکروں گا اور جب سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تدبیر کرنے کا حکم بھی دیا ہے تو پھر سوچتا ہوں کہ اچھا ہومیو پیتھک دوائیں میں استعمال کر لوں گا جو بعض کے نزدیک تو صرف پانی ہی ہوتی ہیں اس طرح تدبیر بھی ہو جاتی ہے ہومیو پیتھک طریق علاج بھی اللہ تعالیٰ نے ہی سکھایا ہے وہ بعض دفعہ مٹی کی ایک چٹکی میں بھی شفا رکھ دیتا ہے وہ کاغذ کی ایک گولی میں بھی شفا رکھ دیتا ہے۔
میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک شخص کو شدید پیٹ درد ہوا رات کے دو بجے تھے وہ گو جوان آدمی تھا لیکن درد اتنا شدید تھا کہ اس نے سارا محلہ سر پر اٹھا لیا سب لوگ جاگ پڑے اور یہ خیال کرکے کہ پتہ نہیں کیا بات ہے اس شخص کے مکان کی طرف دوڑے وہاں جا کر دیکھا کہ وہ شخص درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہے حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ کے مکان کے قریب ہی اس شخص کی رہائش تھی آپ بھی وہاں پہنچے وہاں اسے تڑپتے دیکھا تو ایک آدمی کو دوڑایا کہ ڈاکٹر کو لے آئو اور اپنی جیب میں سے ایک کاغذ نکالا اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لیا اور اس کو اچھی بل دے کر ایک گولی بنائی پھر آپ نے پانی منگوایا اور شخص کو کہا منہ کھولو میں خود دوائی منہ میں ڈالوں گا کیونکہ آپ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا پکڑا نہیں سکتے تھے آپ نے دعا کی اور اس شخص کو کاغذ کی گولی کھلا دی اور پانچ منٹ کے اندر قبل اس کے کہ ڈاکٹر آئے اس کو آرام آ گیا اور اس کی چیخیں بند ہو گئیں اب دیکھو کاغذ کے اس ٹکڑے میں شفا نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت جب اس کی صفت شفا کو حرکت میں لاتی ہے اور اس کی یہ صفت جلوہ دکھاتی ہے تو یہ جلوہ جس چیز پر پڑتا ہے وہ کاغذ کا ٹکڑا ہو یا مٹی کی چٹکی ہو یا کوئی بہترین دوا ہو (اس جلوہ کے لئے وہ سب ایک جیسی ہیں) ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ شفا دے دیتا ہے حالانکہ بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر علاج کرتے ہیں اور بہترین مہنگی دوائیں دیتے ہیں لیکن بیماری میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا غرض بعض دفعہ اللہ تعالیٰ یہ جلوہ بھی دکھاتا ہے دراصل یہ ساری باتیں انسان کو اس لئے دکھائی جاتی ہیں کہ وہ اس یقین پر پختگی سے قائم ہو جائے کہ اصل شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے دوائیں نہیں۔
غرض میں نے ہومیو پیتھی کی بعض دوائیں کھائیں اور ایک دوا جدوار ہے وہ بھی گردوں کے لئے بڑی اچھی ہے جسم کی عام غدودوں کو بھی وہ فائدہ دیتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہامی نسخہ ہے، وہ بھی میں کھاتا رہا ہوں لیکن یہ چیزیں بھی بڑے لمبے استعمال کے بعد ہی اثر کرتی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ دو دن کے بعد ٹیسٹ ہوئے (خون کے بھی اور قارورہ کے بھی) تو معلوم ہوا کہ بیماری قریباً ایک تہائی دور ہو چکی ہے۔
دوست دعا کریں میں بھی دعائوں میں لگا ہوا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور کامل شفا عطا کرے اور پوری ہمت دے کیونکہ جو کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا کوئی معمولی بات نہیں دنیا کے لحاظ سے ہم یتیم ہیں (جماعتی لحاظ سے دنیا ہمیں یتیم ہی سمجھتی ہے) ہم بے کس ہیں، غریب ہیں، ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں اور سپرد کر دیا اللہ تعالیٰ نے یہ کام کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرو اس کے لئے اتنی مالی قربانیاں دو جتنی قربانیاں دینے کی تمہیں توفیق ہے اور ہماری جماعت دنیا کی آبادی کے لحاظ سے مختصر سی جماعت ہے اور اتنا اہم کام اس کے ذمہ لگایا گیا ہے اور پھر ساری جماعت کی ذمہ واری اللہ تعالیٰ نے ایک شخص یعنی خلیفہ وقت کے کندھوں پر ڈال دی ہے یہ کندھے بڑے کمزور ہیں لیکن ایک چیز (جو بڑی چیز ہے) سہارا دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس پاک ذات نے یہ ذمہ واریاں ڈالی ہیں وہ تمام قدرتوں کی مالک ہے، وہ تمام طاقتیں رکھنے والی ہے جب اس نے کہا ہے کہ میں تمہارے ذریعہ سے یہ ’’ناممکن‘‘ ممکن بنا دوں گا تو یہ ناممکن ممکن ضرور بن جائے گا کوئی دنیوی طاقت اس کے راستہ میں روک پیدا نہیں کر سکتی پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کامل شفا دے۔
ایک اور بات بتا دوں۔ قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا ہے۔ اِذَامَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِ (الشعراء:۸۱)اس قسم کی بیماریاں جب آتی ہیں تو پھر آدمی کو علی وجہ البصیرت اس آیت کے معنی معلوم ہوتے ہیں مثلاً میں نے آرام سے کہہ دیا ہے کہ مجھے گرمی لگی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے گرمی کیوں لگی آدمی خود بیمار ہوتا ہے بے احتیاطی کے نتیجہ میں یا غلط فیصلہ کرکے اس دن بڑی سخت لو چل رہی تھی ملاقات کے لئے دوست بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے میں نے کہا مجھے نفس کی قربانی دینی چاہئے اور ان سے مل لینا چاہئے چنانچہ میں سوا دس بجے سے کوئی ایک بجے (بعد دوپہر) تک اوپر جہاں میں عام طور پر ملاقات کیا کرتا ہوں بیٹھا رہا اور جب وہاں سے اٹھا تو میرا سر پکڑا ہوا تھا اور مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ میں غلطی کر بیٹھا ہوں اور اب اس کو بھگتنا پڑے گا تو مَرِضْتُ انسان خود بیمار ہوتا رہتا ہے اور خداتعالیٰ فَھُوَیَشْفِیْنِ کے جلوے بھی دکھاتا رہتا ہے۔ پس دوست دعا کریں کہ شافی خدا اپنی قدرتوں اور رحمتوں کے نتیجہ میں اپنے شافی ہونے کی صفت کے جلوے دکھائے اور آپ کو بھی اور مجھے بھی اپنی حفظ اور امان میں رکھے اور صحت دے۔
دوسری بات فضل عمر فائونڈیشن کے نام سے جو تحریک آج سے قریباً دو سال پہلے جاری کی گئی تھی اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دو سال گزر چکے ہیں اور ایک سال باقی رہتا ہے ہم نے باہمی مشورہ کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ جو دوست اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں اگر وہ چاہیں تو اپنے وعدے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے تین سالوں میں ادا کر دیں (یعنی ایک تہائی ہر سال میں) اس وقت جو دو سال کی آمد ہے وہ دو تہائی سے کم ہے میرا خیال ہے کہ پاکستان کی جماعتوں نے (یا ان میں سے اکثر نے) اپنے وعدہ کے مطابق دو تہائی یا بعض نے اس سے بھی زیادہ ادا کر دیا ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کر لیا ہے لیکن جو جماعتیں بیرون پاکستان کی ہیں ان کے ذمہ دار آدمیوں نے جن میں ہمارے مبلغ اور وہاں کے عہدیدار شامل ہیں ’’ذَکِّرْ‘‘ کی نصیحت پر عمل نہیں کیا کیونکہ جو خطوط وہاں سے آتے ہیں اور جو حالات ہمیں معلوم ہیں وہ لوگ کسی طرح بھی پاکستان کی جماعتوں سے اپنے اخلاص میں کم نہیں بلکہ وہ ہمارے شانہ بہ شانہ قربانیوں کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اس تحریک میں اگر وہ پیچھے رہ گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو یاددہانی نہیں کرائی گئی ذمہ دار عہدیدار یا مبلغ جو بیرونی ملک میں کام کر رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ دوستوں کو اس طرف متوجہ کریں پاکستان میں جن دوستوں نے فضل عمر فائونڈیشن کے وعدے کئے ہوئے ہیں ان کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ تیسرا سال شروع ہو گیا ہے اور اس تحریک میں چوتھا سال نہیں ہو گا یعنی جب تین سال ختم ہو جائیں گے تو اس کے بھی کھاتے بند کر دئے جائیں گے یہ اعلان میں آج موجودہ حالات کے مطابق بڑی سوچ کے بعد کر رہا ہوں میں چوتھے سال کی اجازت نہیں دینا چاہتا۔
تیسرے سال میں سارے وعدوں کی ادائیگی ہو جانی چاہئے استثنائی صورت تو ہوتی ہے بعض کے حالات اچانک خراب ہو جاتے ہیں لیکن دل میں شوق اور ولولہ اور جذبہ اسی طرح قائم ہوتا ہے ایسا آدمی اگر آ کر ہمیں کہے کہ اس سال (تیسرے سال) میرے حالات ایسے ہو گئے ہیں مجھے کچھ اور مہلت دی جائے تو ایسے دوستوں کو تو مہلت دینا مناسب ہے اور انکا حق ہے کہ ان کو مہلت دی جائے لیکن فضل عمر فائونڈیشن کے سلسلے میں عام قاعدہ اور دستور یہ ہو گا کہ تیسرا سال اس کا آخری سال ہے اور ساری وصولی اسی کے اندر ہو جانی چاہئے اور مرکزی کارکنوں اور جماعتوں کے کارکنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سال وصولیوں کا ہے وعدوں کا نہیں اگر کوئی چاہتا ہے تو وہ وعدہ کرے اور تین سال کا چندہ اکٹھا دینے کا وعدہ کرے وہ اتنا ہی وعدہ کرے جو وہ تیسرے سال میں پورے کا پورا ادا کر سکے اس کو ہم آگے نہیں چلائیں گے غرض اس چندہ کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے ویسے تو اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے قربانی کی بڑی توفیق عطا کی ہے کتنی مالی قربانیاں ہیں جو مختلف شکلوں میں جماعت کو دینی پڑتی ہیں پھر یہ تجویز ہوئی سب نے مشورہ کیا، ایک جذبہ پیدا ہوا اور اسی تعلق کی وجہ سے ہوا جو جماعت کے افراد کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور پہلے خیال تھا کہ ۲۵ لاکھ روپیہ تک چندہ اکٹھا کیا جائے لیکن اس وقت تک ساڑھے سنیتیس لاکھ کے وعدہ ہو چکے ہیں اور وصولی بھی پونے بائیس لاکھ کے قریب ہو چکی ہے پس یہ بات صحیح ہے کہ مخلصین بڑی قربانی دیتے ہیں لیکن جنہوں نے یہ چندہ ابھی تک ادا نہیں کیا ہمارا فرض ہے کہ ان کے متعلق بھی ہم حسن ظنی سے کام لیں کہ ان کے چندہ کی عدم ادائیگی اخلاص کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض جائز حالات یا بعض بے احتیاطیوں اور عدم توجہ کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ اپنے اخلاص کو جھنجوڑیں اور اپنے وعدوں کو پورا کریں اور اس تیسرے اور آخری سال اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جائیں پتہ نہیں کہ آئندہ کیا حالات ہونے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کس رنگ میں اور کس شکل میں ہم سے قربانیاں لینی ہیں ایک کام جو ہم نے شروع کیا ہے اس کے اتنے حصہ کو ہمیں جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے پھر اللہ تعالیٰ مزید قربانیوں کی راہیں ہمارے لئے کھول دے گا اور مزید قرب اور رحمت کے دروازے ہمارے لئے کھول دے گا ہم سے وہ ایک پیسہ لیتا ہے تو میں یہ نہیں کہتا کہ اسی پیسہ کے مقابلہ میں چونکہ وہ ہمیں ہزار پیسہ دے دیتا ہے اسی لئے ہم خوش ہیں کیونکہ جب ہم یہ پیسہ اس کی راہ میں پیش کرتے ہیں تو ہمارا نفس ہمیں کہتا ہے کہ ہمیں دنیا کے اموال سے محبت نہیں ہے جب دنیا کا مال ہمیں احسان کے طور پر واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ احسان دیکھ کر ہم خوش بھی ہوتے ہیں اور اس کی حمد بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے دل میں دنیا کی محبت اسی طرح ٹھنڈی رہتی ہے جس طرح پیسہ دیتے وقت ٹھنڈی تھی لیکن جب ہم یہ پیسہ دیتے ہیں تو دنیا کے اموال دینے کے علاوہ وہ ہم سے اتنا پیار کرنے لگ جاتا ہے کہ اس کے ایک ایک احسان اور پیار اور محبت کے جلوہ کے بعد انسان کے نفس کا کچھ باقی نہیں رہتا وہ فنا ہو جاتا ہے وہ اتنا پیار کرنے والا ہے اور یہی پیار ہے جو ہماری زندگی ہے یہی پیار ہے جو ہماری بقاء ہے ہماری جنت ہے اور یہ چیز جب ہمیں مل جاتی ہے تو پیسہ کیا وہ اگر ہم سے سب کچھ لے لے اور ہمیں اپنی محبت دے دے تو ہم خوش ہیں پس اپنے وعدے جلد ادا کریں ممکن ہے کہ کوئی اور اہم تحریکات فضل عمر فائونڈیشن کے چندوں کے بند ہونے کا انتظار کر رہی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ ہو کہ بات تو ضروری ہے لیکن ایک سال ان لوگوں کو انتظار کروا لینا چاہئے کہ کہیں ان پر زیادہ بوجھ نہ پڑ جائے اس لئے آپ جلدی جلدی چندے ادا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رحمت کے نئے دروازے کھلنے کے امکان آپ کے لئے پیدا ہو جائیں اور خدا کرے کہ نئے نئے دروازے رحمت کے ہم پر کھلتے رہیں۔
اس وقت قریباً چودہ پندرہ لاکھ روپیہ قابل وصول ہے اور نسبت کے لحاظ سے غیر ممالک میں زیادہ نسبت قابل وصول کی ہے اور کم نسبت وصول شدہ کی ہے ہمارے پاکستان کے لحاظ سے زیادہ نسبت وصول شدہ کی ہے اور کم نسبت قابل وصول کی ہے بہرحال جو بھی نسبت ہو ہم نے بحیثیت جماعت اور ہم میں سے ہر ایک نے بحیثیت فرد اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے اور اس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کرے۔
ایک مضمون میں نے شروع کیا ہوا تھا اب وہ شاید کراچی جا کر ختم ہو گا خدا کی جو مرضی ہو اس میں بڑا لطف آتا ہے ایک لمبا سا مضمون ذہن میں آگیا کلاس (فضل عمر تعلیم القرآن کلاس) میں میں نے اسے شروع کیا تھا اور اس کے دو حصے تھے ایک حصہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگوںکے متعلق سوء کا حکم جاری ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لئے جب ارادہ کا لفظ بولا جائے تو لغوی لحاظ سے اس کے معنی حکم ہی کے ہوتے ہیں اور جب کسی گروہ کے متعلق سوء کا حکم جاری ہوتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس کو خدا کے غضب اور اس کی رحمت سے محرومی سے بچا نہیں سکتی ایک اور گروہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان پر میں اپنی رحمت کی بارش برسائوں گا، ان کو اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھوں گا، ان کے لئے میں اپنی رحمت کے دروازے کھولوں گا، ان کو میں اپنی رحمت کی جنتوں میں داخل کروں گا جب اس کا کسی فرد یا گروہ کے متعلق یہ فیصلہ ہو جائے تو چھوٹا ہو یا بڑا، غریب ہو یا امیر، صاحب اقتدار ہو یا نہ ہو، اس شخص یا جماعت کے لئے خداتعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔
دکھ اور عذاب کا فیصلہ جب کسی قوم کے متعلق ہوتا ہے تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے کہ خدا ذرا بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہی فرماتا ہے کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے، کوئی برائی اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی، کوئی نقص اس میں پایا نہیں جا سکتا، وہ ہر لحاظ سے ایک کامل اور مکمل ذات ہے پس جب اس نے یہ کہا کہ جب میں کسی قوم کے متعلق سوء کا فیصلہ کرتا ہوں تو میرے غضب سے کوئی طاقت انہیں بچا نہیں سکتی تو ساتھ ہی ہم اپنے پیارے رب سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ وہ ہم پر ان راہوں کی نشان دہی بھی کرے گا جن راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ سے انسان دور ہو جاتا ہے اور اس کے قہر اور غضب کا نشانہ بنتا ہے۔
قرآن کریم میں گو بہت سے مقامات پر ان کا ذکر موجود ہے لیکن سورئہ احزاب کو ہی جب میں نے اس زاویہ سے دیکھا تو بہت سی باتیں مجھے وہاں نظر آئیں جن میں سے گیارہ باتیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا اور انسان اس کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کے حق میں یا اس جماعت کے حق میں سوء کا فیصلہ کیا جاتا ہے یعنی دکھ اور عذاب اور رحمت سے محرومی کا، ان کا ذکر میں کلاس کے سامنے کر چکا ہوں اور میرا خیال تھا کہ میں آج کا خطبہ دوسرے حصہ پر دوں گا اور اختصار کے ساتھ مضمون کو ختم کر دوں گا پھر اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھوں گا کہ وہ جماعت کی تعلیم اور تربیت کے لئے اور ضروری مضامین خود سکھا دے گا علم بھی انسان خدا سے ہی حاصل کرتا ہے اس کی توفیق کے بغیر علم بھی نہیں ملتا پھر اس کے علم کے تعلق میں بیان کی جو توفیق ملتی ہے وہ بھی اس کے فضل سے ملتی ہے لیکن ایک تو میں نے اپنی صحت کے لئے دعا کی تحریک کرنی تھی اور دوسرے فضل عمر فائونڈیشن کا بڑا ضروری مسئلہ تھا اسے مسئلہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ بعض ان دوستوں کے لئے جنہوں نے ابھی تک اپنے وعدہ کے مطابق فضل عمر فائونڈیشن کا چندہ ادا نہیں کیا یہ ایک مسئلہ ہی بن گیا ہے اور میں نے ان لوگوں کو نصیحت کرنی تھی تیسرے میں بہت لمبا خطبہ دے بھی نہیں سکتا یعنی ڈیڑھ دو گھنٹے کا خطبہ کیونکہ میری صحت ابھی ٹھیک نہیں ہے اور اس لئے بھی کہ اس گرمی میں آپ کی طبیعت کا خیال بھی رکھنا چاہئے یہاں جوان بھی بیٹھے ہیں، ہمت والے بھی بیٹھے ہیں، صحت مند بھی ہیں لیکن بوڑھے بھی ہیں اور کچھ میرے جیسے نیم مریض بھی ہیں، کچھ ہماری کمزور بہنیں بھی ہیں، ان سب کا خیال رکھنا چاہئے۔ ویسے تو گرمیوں میں اس خطبہ سے بھی چھوٹا خطبہ ہونا چاہئے جتنا آج میں نے دیا ہے یعنی ۲۰۔۲۵ منٹ کے قریب سو میں اسی پر خطبہ ختم کرتا ہوں دوست اس یقین کے ساتھ کہ شفا خدا کے ہاتھ میں ہے میری صحت کے لئے دعا کریں اپنی صحت کے لئے بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ صحت مند رکھے بیماری سے شفا بھی وہی دیتا ہے صحت پر قائم بھی وہی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور اپنی رحمت کا وارث بنائے۔
فضل عمر فائونڈیشن کا یہ آخری سال ہے کوئی شخص اس دھوکہ میں نہ رہے کہ اس سال اگر سستی دکھائی تو آئندہ سال اس سستی کو دور کر دیں گے کیونکہ آئندہ سال اغلب یہ ہے کہ فضل عمر فائونڈیشن کی وصولی کا سال نہیں ہو گا ممکن ہے کہ کسی اور تحریک کی وصولی کا سال بن جائے یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے خصوصاً غیرممالک میں جو ہمارے مبلغ اور عہدیدار (مقامی جماعت) کے ہیں ان کو بار بار جماعت کے سامنے یہ بات لانی چاہئے کہ فضل عمر فائونڈیشن کے اس تیسرے اور آخری سال میں اپنے وعدوں کو پورا کرے بیرونی ممالک کی جماعتوں نے اس مد میں جو چندے دئے ہیں وہ انہی ممالک میں ہی ہیں اس لئے کہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جو اپنے ملک کا روپیہ دوسرے ملک میں جانے نہیں دیتے اس لئے بہرحال وہ روپیہ فضل عمر فائونڈیشن کے کسی منصوبہ کے ماتحت ان ملکوں میں ہی خرچ ہو گا، اشاعت اسلام کے لئے قرآن کریم کے تراجم کے لئے وغیرہ وغیرہ (بہت سے کام کرنے والے ہیں) اور جہاں ممالک روپیہ باہر جانے کی اجازت دیتے ہیں وہاں ہم نہیں چاہتے کہ روپیہ یہاں آئے اس لئے ہمارے اپنے ملک میں بھی حالات ایسے نہیں کہ روپیہ زیادہ مقدار میں باہر بھجوایا جا سکے ویسے اس سال اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے کہ گندم بڑی اچھی ہو گئی ہے لیکن جو غیر ملکی روپیہ ہم کماتے ہیں اور جس کو فارن ایکسچینج (Foreign Exchange) کہتے ہیں اس پر ملکی ضروریات کی وجہ سے بڑا بار رہتا ہے اس لئے ہمیں فارن ایکسچینج کی بہت تھوڑی رقم مل سکتی ہے اور یہ رقم پیسے دے کر ملتی ہے یہ نہیں کہ گورنمنٹ عطیہ دیتی ہے بلکہ ہم لاکھ روپیہ دیتے ہیں اور وہ لاکھ روپیہ فارن ایکسچینج کی شکل میں ہمیں دے دیتے ہیں لیکن فارن ایکسچینج پر بھی اتنے دبائو اور (Pressure)ہیں کہ وہاں سے ہمیں زیادہ روپیہ نہیں مل سکتا اس لئے جن ممالک سے غیر ملکوں میں روپیہ باہر جا سکتا ہے وہاں ہماری ریزرو رقم رہنی چاہئے تاکہ اگر کسی جگہ غلبہ اسلام کے سامان پیدا ہوں تو یہ نہ ہو کہ ہم سے مطالبہ ہو کہ آدمی بھیجو، کتابیں بھیجو، بدمذہب اور دہریہ اور عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے اسلام کی طرف مائل ہیں اور باتیں سن رہے ہیں اور حالات ایسے ہیں کہ اسلام یہاں پھیل جائے گا لیکن ہم انہیں کہیں کہ ہمارے پاس تو پیسہ نہیں اگر ایسا ہو تو یہ انتہائی محرومی اور تکلیف کا باعث اور ڈوب مرنے کا مقام ہو گا غرض ہمارا روپیہ ان ممالک میں ریزرو رہے گا اور اس وقت غیر ممالک میں روپیہ ریزرو رہنا جو بوقت ضرورت کام آئے بہت ضروری ہے کیونکہ دنیا کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں ایسے ممالک جو آج بظاہر بڑے امیر معلوم ہوتے ہیں اور ان کی کرنسی پر کوئی پابندی نہیں دیکھتے ہی دیکھتے ان میں ایک انقلاب آتا ہے اور اگلے دن کرنسی پر پابندیاں لگ جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور فراست دی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی کسی حکمت کاملہ کے نتیجہ میں ہماری اس دنیا میں اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا کر دے تو وہ اپنے بندوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور زمانہ کے جو چیلنج ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں اور غلبہ اسلام کے لئے ہر ممکن تدبیر وہ کرتے رہیں۔ یہ تو نہیں کہ پھولوں کی سیج پر ہم لیٹے رہیں اور پھر بھی ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں۔ دنیا جس کو دکھ کہتی ہے مومن اسے دکھ نہیں سمجھتا لیکن دنیا جسے دکھ کہتی ہے، دنیا جسے تکلیف سمجھتی ہے دنیا جسے مفلسی قرار دیتی ہے، دنیا جسے بیکسی کا نام دیتی ہے ان ساری چیزوں میں سے ہم نے گزرنا ہے ہم انہیں رضاء الٰہی کے حصول کی خاطر کوئی چیز نہیں سمجھتے جس کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں ہو جس نے اپنے رب کی انگلی پکڑی ہوئی ہو، وہ اگر ایک سال کا بچہ بھی ہے اور اس کے دماغ میں سمجھ ہے تو وہ یہ کہے گا کہ میں کچھ بھی نہیں ایک سال کے بچے میں کیا طاقت ہوتی ہے نہ علم نہ عقل اور نہ تجربہ کچھ بھی نہیں ہوتا، نہ اس میں جسمانی طاقت ہوتی ہے لیکن وہ ایک غریب اور ناکارہ اور مفلس اور کم مایہ ماں کی انگلی پکڑ لے تو اس کی گردن تن جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اب مجھے دنیا کی کوئی طاقت کچھ نہیں کہہ سکتی اس کا یہ خیال تو بچپنے کا ہوتا ہے لیکن ایک مومن جب واقعہ میں اپنے ربّ کی انگلی پکڑ لیتا ہے اور اپنے وجود پر ایک فنا وارد کر لیتا ہے اور خدا کو کہتا ہے مجھ میں ایک کمزور کم عمر بچہ جتنی بھی طاقت نہیں تو ہی میرا سب کچھ کر اور پھر پیار سے وہ اس کی انگلی پکڑ لیتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا بڑا ہی طاقت ور ہے اس کی محبت اور اس کی قدرت کے وہ جلوے دیکھتا ہے ہم نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرکے علم کو پھیلانا ہے، اللہ سے معرفت حاصل کرکے خدا کی معرفت دنیا میں قائم کرنی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہﷺ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرنے کے بعد دنیا کے دلوں میں محمد رسول اللہﷺ کی محبت پیدا کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عقل لینی ہے فراست لینی ہے خداتعالیٰ ہمارا امتحان لیتا ہے، اخلاص کا بھی، فراست کا بھی نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ جنتی فراست مومن کی ہے کسی اور شخص کی نہیں ہوتی کیونکہ رسول اکرمﷺ نے تو یہ فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے بچتے رہا کرو ڈرتے رہا کرو لیکن کسی اور امت کے متعلق یہ نہیں کہا اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مومن کی فراست کے مقابلہ میں کسی اور کی فراست نہیں ہے غرض چونکہ مومن کو خداتعالیٰ نے اتنی فراست دی ہے اس لئے آپ کو ساری دنیا کے حالات پر سوچتے رہنا چاہئے میں بھی سوچتا ہوں اور غلبہ اسلام کے لئے ہم نے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور دس سال بعد جو واقعات ہونے والے ہیں یا بیس سال بعد جو واقعات ہونے والے ہیں اور جس طرف زمانہ کا رخ ہے اس کے متعلق ہمیں سوچتے رہنا چاہئے۔
دعائوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی باتیں مومن کی فراست بھانپ لیتی ہے اور اس کے لئے تیاری کرتی ہے غرض غیر ممالک میں فضل عمر فائونڈیشن کا وعدہ اس سال ضرور پورا ہو جانا چاہئے اور اس کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲؍ اگست ۱۹۶۸ء صفحہ۱ تا۶)
٭…٭…٭
خطبہ جمعہ ۲؍ اگست ۱۹۶۸ء
حضور انور کراچی میں تشریف فرما تھے۔ زود نویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور نے خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔

ہمیں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تسبیح و تحمید درود شریف اور دیگر دعاؤں میں صرف کرنا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ اگست ۱۹۶۸ء بمقام احمدیہ حال۔ کراچی)
ء ء ء
٭ دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کے فیصلوں کو ردّ کر دے اور بدل دے۔
٭ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری رحمت صرف میرے فضل سے حاصل کی جا سکتی ہے کسی عمل سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔
٭ اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہئے۔
٭ ایک راستہ جو خدا کی رحمت کے بے پایاں سمندر تک لے جانے والا ہے وہ کثرت سے اس کے ذکر کا ہے۔
٭ جس میں جتنی ہمت ہو، جتنا شوق ہو، جتنا وقت ملے تسبیح تحمید اور درودشریف پڑھنے میں گزارے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًاo ھُوَالَّذِيْ یُصَلِّيْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا o
(الاحزاب:۴۲،۴۴)
حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنی بیماری کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا:۔
ایک مضمون میں نے ربوہ میں شروع کیا تھا اور وہ سورئہ احزاب کی اٹھارھویں آیت کی تفسیر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
قُلْ مَنْ ذَاالَّذِيْ یَعْصِمُکُمْ مِّنَ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَبِکُمْ سُؤٓئً اَوْ اَرَادَبِکُمْ رَحْمَۃًط وَلَا یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَانَصِیْرًاo (الااحزاب: ۱۸)
اس میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ایک گروہ کے متعلق یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ اس کی رحمت سے وہ محروم کر دئیے جائیں گے اور ایک دوسرے گروہ کے متعلق وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی رحمت کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا فیصلہ رحمت سے محروم کر دینے کا ہو یا رحمت کی بارش برسانے کا ہو ہر دو صورتوں میں میرے فیصلہ کے مقابلہ میں کوئی اور فیصلہ ٹھہر نہیں سکتا اور دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو میرے فیصلوں کو رد کر دے اور بدل دے اس لئے اگر محرومی رحمت سے بچنا ہو تو میری طرف رجوع کرنا ہو گا۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا مثلاً فرمایا کہ لاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلَاً (النساء:۵۰)کہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو ایک لکیر سی ہوتی ہے بالکل معمولی سی وہ اتنا ظلم بھی نہیں کرتا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ ظلام نہیں ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور منفی اور مثبت ہر دو معنی میں مبالغہ کا مفہوم پیدا کرتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ ذرہ بھر بھی ظلم کرنے والا نہیں اس تعلیم کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی فرد یا کسی گروہ کے متعلق رحمت سے محرومی کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ بھی رحمت کا ہی ایک جلوہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے بھی اس کا مقصود ان لوگوں کی یا اس فرد کی اصلاح ہوتی ہے اس وجہ سے اسلام نے ہمیں یہ بتایا کہ جہنم دائمی نہیں کیونکہ اصلی جہنم تو خداتعالیٰ کی ناراضگی ہے اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دائمی نہیں جب کسی کی اصلاح ہو جائے اس دنیا میں توبہ اور استغفار کے ذریعہ یا اس دنیا میں ایک وقت معینہ تک سزا بھگتنے کے نتیجہ میں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اس کے لئے کھولتا ہے اور جہنم کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نکل جائو سارے یہاں سے اب جہنم میں کسی کو رکھنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے سورۃ احزاب کی ایک دن میں تلاوت کر رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا تو میری توجہ کو اس آیت نے اپنی طرف کھینچا اور میں رک گیا میں نے اس آیت کے مضمون پر جب غور کیا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ صرف یہ کہہ دینا تو ہمارے لئے کافی نہیں ہے کہ اگر رحمت سے تمہیں میں محروم کروں گا تو میری رحمت تمہیں نہیں مل سکے گی اور اگر رحمت تمہیں دینا چاہوں گا تو دنیا کی کوئی طاقت میری رحمت سے محروم نہیں کر سکے گی میری گرفت سے بھی تم نہیں بچ سکتے اور میرے احسان کی بارش سے بھی دنیا کی کوئی طاقت تمہیں محروم نہیں کر سکتی اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے ضرور تفصیلی ہدایات دی ہوں گی کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن کے نتیجہ میں انسان خداتعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور وہ کون سے اعمال ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر خوش ہوتا اور اپنی رحمت سے اسے نوازتا ہے۔
پہلے حصہ کے متعلق میں نے سورئہ احزاب کی بعض آیات لے کر تفصیل سے بتلایا تھا کہ (غالباً) دس ایسی باتیں یا ایسے اعمال شنیعہ ہیں جن کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور بطور مثال صرف اسی سورۃ کی آیتیں لے کر میں نے یہ مضمون بیان کیا تھا۔
دوسرا حصہ اس مضمون کا یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے ایسے انسان یا جماعت کو محروم نہیں کر سکتی اس کے متعلق میں نے سورئہ احزاب کی ہی اس آیت کے بعد کی آیات کو لیا اور انہیں پڑھتے ہوئے میں نے غور کیا کہ وہ کیا بتاتی ہیں اور بہت سی آیات میں نے نوٹ کی تھیں پہلے تو میرا خیال تھا کہ وہیں یہ مضمون ختم ہو جائے گا لیکن وہاں یہ ختم نہیں ہوا اور یہ رحمت والا حصہ اب کراچی کے حصہ میں آ گیا ہے مضمون کے لحاظ سے اور خدا کرے کہ ہم سب کے حصہ میں اس کی رحمت ہی آئے اس کے غضب کی نگاہ ہم پر کبھی نہ پڑے اور یہ اس کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے۔
یہاں یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے عذاب سے بچنا ہو تو میری طرف رجوع کرنا پڑے گا اگر میری رحمت حاصل کرنا ہو تو میری رحمت صرف میرے فضل سے حاصل کی جا سکتی ہے کسی عمل سے حاصل نہیں کی جا سکتی اس لئے جہاں میری بتائی ہوئی تدبیر پر تم عمل کرو وہاں دعا کے ساتھ میری طرف رجوع بھی کرتے رہو کہ ہمارے اعمال میں کوئی ایسا نقص کوئی ایسی شیطنت کوئی ایسی بدنیتی نہ رہ جائے کہ باوجود ظاہراً ان اعمال کے اچھا ہونے کے پھر بھی تیرے حضور سے وہ دھتکار دئیے جائیں۔
اس وقت میں صرف ایک بات اس سلسلہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ (جیسا کہ سورئہ احزاب کی ۴۲تا۴۴ آیات میں بتلایا گیا ہے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری رحمت کے حصہ دار بننا چاہتے ہو میرے فضلوں کے وارث بننا چاہتے ہوں تو پھر ایک راستہ میرے فضلوں کے وارث بننے کا یہ ہے کہ اُذْکُرُواللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیرًا ذکر دل کا بھی ہوتا ہے ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے زبان کا ذکر بھی انسان کو جتنا موقعہ اور جتنی فرصت ملے کرتے رہنا چاہئے۔
زبان کے ذکر کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک وہ حصہ جس کے متعلق نبی اکرمﷺ نے معین ہدایت دی مثلاً یہ کہ فرض نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَر اور پھر ایک بار لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ کر سو کے عدد کو پورا کرنا تو اسی شکل میں اسی ہدایت کے مطابق ذکر کرنا چاہئے نماز کے بعد کیونکہ یہی سنت نبوی ہے کوئی شخص اگر فرض نماز سے پہلے یہ ذکر کرتا ہے تو وہ نبی کریمﷺ کے احترام اور ادب کو مدنظر نہیں رکھتا کیونکہ آپ نے نماز سے پہلے نہیں بلکہ نماز کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے اگر کوئی شخص ۳۳ دفعہ سے زائد کرتا ہے تو وہ بھی بے ادبی کا مرتکب ہے۔
ابھی چند دن ہوئے غانا کے ایک مجدد کی کتاب میں پڑھ رہا تھا انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے اس میں کہ ایک بزرگ تھے انہوں نے سوچا کہ میں گنہگار آدمی ہوں ۳۳ دفعہ کی بجائے سو سو دفعہ پڑھا کروں گا چند دنوں کے بعد انہیں ایک خواب آئی کہ حشر کا میدان ہے ایک جگہ ایک فرشتے نے میز لگائی ہوئی ہے اور اعلان ہو رہا ہے کہ جو نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق نماز کے بعد ذکر کیا کرتے تھے وہ ادھر آجائیں اور اپنا انعام لیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بڑی مخلوق ہے جو وہاں جمع ہوئی اور ان کو انعام ملنے شروع ہوئے میں آگے بڑھتا ہوں اور پھر ہجوم میں پھنس جاتا ہوں آگے جا نہیں سکتا اور اس وقت ان کو یہی خیال ہے کہ ہجوم کی وجہ سے میں اس انعام دینے والے فرشتہ کے قریب نہیں ہو سکتا جب میرا وقت آئے گا میں انعام لوں گا پھر آہستہ آہستہ ہجوم کم ہونا شروع ہوا لوگ انعام لیتے اور چلے جاتے جب چند آدمی رہ گئے تو میں بھی ان کے ساتھ آگے بڑھا اس فرشتہ نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی پھر جب ساروں نے انعام لے لئے تو اس نے اپنا سامان لپیٹنا شروع کر دیا اس نے کہا میں آگے بڑھا اور کہا کہ میرا انعام کہاں ہے فرشتہ نے کہا تمہارا انعام کیسا (وہ تو سمجھے تھے کہ میں سو دفعہ پڑھتا ہوں مجھے شائد زیادہ انعام ملے گا) یہ انعام تو ان لوگوں کو مل رہا ہے جو نبی اکرمﷺ کی سنت کی پیروی کرتے تھے تم نے ۳۳دفعہ کی بجائے سو دفعہ پڑھا ہے سنت کی پیروی نہیں کی اس پر انہوں نے بہت استغفار کیا لیکن کوئی خلط ملط نہ ہو جائے کسی کے دماغ میں اسی لئے میں نے شروع میں اس سلسلہ میں یہ فقرے کہے تھے کہ ایک ذکر وہ ہے جو نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق اس تسلسل میں جو آپ نے بتایا اس تعداد میں جو آپ نے معین کی اور جس پر آپ نے عمل کیا وہ ذکر ہے مثلاً نماز میں فرائض کے بعد تنیتیس تنیتیس بار جو اس سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ذکر کرنا چاہئے اس کو نماز کے بعد ہی کرنا پڑے گا نماز سے پہلے نہیں اور ۳۳۔ ۳۳ دفعہ ہی کہنا پڑے گا ایک تو یہ ذکر ہے۔ نبی کریمﷺ کی اور بھی کئی سنتیں اس سلسلہ میں ہیں لیکن ایک ذکر وہ ہے جو عام ہدایت کی اتباع میں ہے مثلاً اس آیت کریمہ میں ہے ذِکْرًا کَثِیْرًاکہ کثرت سے ذکر کرو اس میں تعیین کوئی نہیں نہ ہی نبی اکرمﷺ نے ان کی کوئی تعیین کی تو ان اذکار کے علاوہ جو سنت نبوی سے ہمیں معلوم ہوتے ہیں اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے خداتعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہے وہ اپنے لئے کم سے کم یا جماعت کا امام جماعت کیلئے کم سے کم ذکر مقرر کر دیتا ہے تو یہ سنت نبوی کے خلاف نہیں کیونکہ آپ کی سنت کہیں ہمیں یہ نہیں بتلاتی کہ چوبیس گھنٹے میں اس سے زیادہ ذکر نہیں کرنا یا اس سے کم نہیں کرنا بلکہ عام نصیحت ہے کہ زیادہ سے زیادہ ذکر کرو۔ تو زبان کا ذکر ایک تو وہ ہے جو نبی کریمﷺ کی سنت کے اتباع میں کیا جاتا ہے اور ایک وہ ہے جو قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق ذکر کثیر کے اندر آتا ہے۔
بعض آدمی اپنے لئے تعیین کرتے ہیں کہ کم سے کم اس قدر ذکر ضرور کروں گا بعض اوقات ان کا امام تعیین کرتا ہے ’’ذِکْرًا کَثِیْرًا‘‘کی روشنی میں اس میں کم سے کم تعداد کی تعیین کی جاتی ہے زیادہ سے زیادہ کتنا ہو اسے افراد پر چھوڑا جاتا ہے تاکہ ساری جماعت کا معیار بلند کیا جا سکے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ صبح و شام اس کی تسبیح میں مشغول رہو اور خداتعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو اس کی رحمت کے وارث بننے کے لئے یہ ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ (وہاں رحمت کا لفظ ہے یہاں صلوٰۃ کا لفظ ہے اور صلوٰۃ کے لغوی معنی جب یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہو رحمت کے ہیں) ھُوَ الَّذِيْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمتوں سے نوازے گا نیز اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کہا ہے میرے وہ بندے جو میرے ذکر کثیر میں مشغول ہوں اور صبح و شام میری تسبیح اور تحمید میں لگے ہوں ان کے لئے تم بھی دعائیں کرتے رہو کیونکہ صلٰوۃ کا لفظ جب ملائکہ کے لئے آئے یا انسانوں کے لئے آئے تو اس کے معنی دعا کرنے کے ہوتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں رحمت کا سلوک کیا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ رحمت ذکر کثیر اور صبح و شام تسبیح کرنے کے نتیجہ میں جس شکل میں ظاہر ہوتی ہے وہ اصولی ہے یہ نہیں کہا کہ فلاں رحمت یا فلاں رحمت۔ قرآن کریم نے اس کی تفصیل بھی بتائی ہے لیکن یہاں یہ فرمایا ہے کہ اصولی طور پر تم خدا کی رحمت کے مستحق اور ملائکہ کی دعائوں کے وارث ہو جائو گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے لئے نور کے سامان پیدا کئے جائیں گے یعنی اس کے نتیجہ میں لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِاندھیرے دور کر دئیے جائیں گے اور زندگی منور ہو جائے گی اور اس نور کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ وہ نور اس دنیا میں بھی صراط مستقیم سے بھٹکنے سے محفوظ رکھتا ہے اور رحمت کے راستوں پر چلاتا ہے مثلاً رات کے اندھیرے میں جس وقت ہوائی جہاز کسی ایرو ڈرام پر اتر رہا ہوتا ہے تو اس کو راستہ دکھانے کے لئے روشنیاں جلائی جاتی ہیں اسی طرح سمجھ لیں کہ آپ رحمت باری کے حصول کے بعد اندھیروں سے نکل کر روشنی کی راہ کو اختیار کرتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے (جس طرح اس پائلٹ کو یقین ہوتا ہے کہ میں صحیح سلامت خود بھی اور مسافروں کو بھی اتاروں گا) کہ آپ صراط مستقیم پر قائم ہیں تو یہ ایک بنیادی فضل اور احسان ہے اللہ کا جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے یعنی ان کے لئے ایک نور کی پیدائش کا حکم نازل کرتا ہے اور خدا کا ایک مومن بندہ خدا کے نور میں صراط مستقیم پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے بے شمار فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے جب یہ کہا کہ میں اگر کسی کے لئے رحمت کا ارادہ کروں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے میری رحمت سے محروم نہیں کر سکتی تو وہاں یہ مطلب نہیں تھا کہ بلاوجہ اور بغیر انسان کی کسی کوشش اور عزم کے کہ میں نے خدا کے احکام کی پابندی کرنی ہے کسی گندے نا اہل کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ رحمت کا وارث بنا دیتا ہے یہ صحیح ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اور جنہیں وہ اعمال صالحہ سمجھتا ہے وہ بھی اس کے لئے بے ثمر ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔
جو فقرہ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے یعنی مَآاُبَرِّیُٔ نَفْسِيْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئِ (یوسف: ۵۴)خدا کا ایک برگزیدہ نبی یا وہ جو نبوت کے لئے خدا کے فرشتوں کی گود میں پرورش پا رہا تھا اس کے منہ سے یہ فقرہ نکلنا اور قرآن کریم کا اسے بیان کر دینا ہمارے لئے ایک بڑا سبق ہے انسان خواہ کتنا ہی مجاہدہ کیوں نہ کرے، ہزار بشری کمزوریاں، کوتاہیاں ساتھ لگی ہیں حالات سے بعض دفعہ مجبور ہو جاتا ہے بعض دفعہ شیطانی وسوسوں سے مجبور ہو جاتا ہے اور گناہ کر بیٹھتا ہے خدا کے فضل کے بغیر خدا کی رحمت کے بغیر اس کی رحمت کو بھی ہم حاصل نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمت کے حصول کے لئے بعض راستوں کی تعیین کی ہے بعض اعمال صالحہ کے بجا لانے کا حکم فرمایا ہے جو شخص اباء اور استکبار سے یہ کہتا ہے کہ خدا کے حکم کو تو میں نہ مانوں گا لیکن اس کی رحمت کا میں امیدوار بنوں گا وہ یا پاگل ہے یا شیطان کے چیلوں میں سے ہے جس نے خدا کی ذات پر علی وجہ البصیرت ایمان لانے کے بعد بھی اس کے احکام کی بجا آوری سے انکار کیا پس ایک راستہ جو خدا کی رحمت کے بے پایاں سمندر تک لے جانے والا ہے وہ یہ ہے کہ کثرت سے اس کا ذکر کیا جائے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جائے جماعت کے معیار کو اس سلسلہ میں بلند کرنے کے لئے میں نے جماعت سے یہ کہا تھا کہ مختلف عمروں کے لحاظ سے مقررہ تعداد میں
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اور درود اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھنا ہے کم از کم اتنی تعداد میں پڑھنا ہے یہ نہیں کہ اس سے زیادہ نہیں پڑھنا بعض دوست تو لکھتے ہیں اور بڑا لطف آتا ہے کہ آپ نے تین سو دفعہ کہا اور ہمیں توجہ ہوئی اور ایک دوست نے تو لکھا کہ میرا بچہ جو شاید اطفال کی عمر کا تھا وہ چھ سات سو دفعہ بلکہ بعض دنوں میں ہزار دفعہ پڑھتا ہے تو زیادہ پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ زیادہ ہی پڑھنا چاہئے بلکہ کچھ زائد ضرور کرنا چاہئے تاکہ وہ تعداد لا تعداد بن جائے کیونکہ معین میں جب غیر معین مل جاتا ہے تو سارا غیر معین بن جاتا ہے معین نہیں بنتا اگر تین سو میں غیر معین تعداد درود و تسبیح اور تحمید شامل کر دی جائے تو ٹوٹل جو بنے گا مجموعہ جو اس کا ہو گا وہ غیر معین ہے پس چونکہ ہم اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ بغیر حساب کے دنیوی اور اُخروی نعمتیں ہمیں عطا کرے گا اس لئے ہماری عقل یہ کہتی ہے ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ جب بغیر حساب کے تم اس کی نعمتوں کے حصول کے امیدوار ہو تو پھر بغیر حساب کے اس کا شکر بھی ادا کرو ویسے تو مختلف وظیفے یا تسبیحیں یا درود جو بڑا درود ہے جو ہم نماز میں بھی پڑھتے ہیں وہ بھی ضرور پڑھنا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مصلحت نے اس شکل میں بھی اسے اب ہمارے لئے اتارا ہے تو اس زمانہ کے لئے اس میں بھی بڑی برکت ہے۔ وہ جو پرانا طریق ہے اس میں بھی بڑی برکت ہے یہ تو نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ آدھی برکتیں تو ہم لیتے ہیں اور آدھی ہمیں مل بھی سکتی ہیں تو ہم نہیں لیتے کسی کو دس اور دس بیس روپے دئیے جائیں تو وہ یہ نہیں کہتا کہ دس مجھے دے دو اور دس میں نہیں لیتا دنیا کے عارضی بے حقیقت سامانوں کے متعلق جب ہماری فطرت زیادہ سے زیادہ کی خواہش رکھتی ہے اور جب بہک جاتی ہے تو ناجائز ذرائع سے بھی حصول کی کوشش کرتی ہے لیکن روحانی نعمت کے متعلق تو کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اتنی مجھے چاہئے اس سے زیادہ نہیں چاہئے جتنی زیادہ سے زیادہ مل سکے اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے ان طریقوںپر جو خداتعالیٰ نے بتائے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقوں کو چھوڑ کر اپنے لئے اپنی مقرر کردہ راہیں متعین کرتا ہے وہ خدا کی طرف نہیں لے جا سکتیں کیونکہ یہ خدا کی بتائی ہوئی نہیں اگر دل کا وسوسہ ہے تو وسوسہ کا منبع چونکہ شیطان ہے شیطان کی طرف اسے شاید لے جائیں۔ قرآن کریم نے جو بتایا جہاں حد بندی کی اس سے آگے نہیں جانا نبی کریمﷺ نے جو بتایا جہاں حد بندی کی اس سے آگے نہیں جانا جہاں حدبندی نہیں کی عام حکم دیا ہے قرآن کریم نے کہا ذکر کثیر کرو قرآن کریم نے کہا ہے صبح و شام اس کی تسبیح کرو یہ نہیں کہا پانچ دفعہ کرو یہ نہیں کہا پانچ ہزار دفعہ کرو تو سارا دن مشغول رہنا چاہئے اس میں جو تعیین کی جاتی ہے صرف کم سے کم دفعہ کی جاتی ہے تاکہ ساری جماعت کا معیار کچھ اونچا ہو جائے مثلاً ایک وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس وقت کے حالات کے مطابق بارہ کی تعیین کی تھی اس بارہ میں بھی بعض جاہلوں نے آپ پر اعتراض کر دیا تھا کہ بارہ کی تعیین کیوں؟ یہ بھی بدعت ہے آپ نے انہیں یہ جواب دیا جو ابھی میں نے کہا ہے کہ جب معین میں غیر معین شامل ہو تو مجموعی طور پر غیر معین بن جاتا ہے یہ جواب آپ نے اس وقت دیا اعتراض کرنے والوں کو کہ میں نے تمہیں کب کہا ہے کہ بارہ سے زیادہ نہیں کرنا میں نے تمہیں کہا ہے کہ کم سے کم بارہ دفعہ کہو بارہ سو دفعہ بارہ ہزار دفعہ کرو میں نے تمہیں کب منع کیا ہے جس میں جتنی ہمت ہو جتنا شوق ہو جتنا وقت ملے وہ زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی تسبیح اور اس کی تحمید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے میں خرچ کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
اگر میری طبیعت ٹھیک ہوئی تو میں مغرب کے بعد مجلس میں یا اللہ تعالیٰ نے صحت اور توفیق دی تو خطبوں میں یہ مضمون کراچی ہی میں ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۴ ؍ستمبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا ۵)
٭…٭…٭

خدا کا رسول اور اس کے خلفاء جو بھی فیصلہ کریں انہیں بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶ ؍اگست ۱۹۶۸ء بمقام احمدیہ ہال۔ کراچی )
ء ء ء
٭ بدنیتی اور رِیاء کے بغیر خلوص نیت کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر کام کرو۔
٭ دنیا بے شک تمہیں مٹانے کی کوشش کرتی رہے۔ خدا تعالیٰ کی رحمت تمہیں اور صرف تمہیں ملے گی۔
٭ خدا تعالیٰ کی رحمت کا وارث بننا چاہتے ہو تو معروف فیصلہ جو خلفاء یا امراء کرتے ہیں بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کرو۔
٭ خدا تعالیٰ کی صفت شفا کو جوش میں لانے کیلئے قربانی، ایثار، صدقہ خیرات اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔
٭ خدا تعالیٰ کی رضا کی نگاہ ہم پر پڑتی رہے اور کبھی غضب کی نگاہ ہم پر نہ پڑے۔


تشہد ، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
قُلْ مَنْ ذَاالَّذِيْ یَعْصِمُکُمْ مِّنَ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَبِکُمْ سُوُئًٓا اَوْ اَرَادَبِکُمْ رَحْمَۃً۔ وَلاَ یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَاَنَصِیْرًاo (الاحزاب: ۱۸)
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
(الاحزاب: ۵۷)
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْناً۔ (الاحزاب: ۳۷)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری طبیعت پہلے سے اچھی ہے اور خون میں شکر اور قارورہ میں جو شکر تھی وہ بھی کافی کم ہو چکی ہے اور جو ڈاکٹر میرے معالج ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ ابھی دوائی نہ کھائی جائے یہ سب کچھ بغیر دوا کے کھانے کے ہو رہا ہے اور کچھ دنوں تک دیکھنا چاہئے۔ امید ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور گردوں اور دوسرے اعضا کا جو کام ہے وہ معمول پر آ جائے گا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
پچھلے جمعہ میں نے سورئہ احزاب کی ۱۸ ویں آیت کے متعلق بتایا تھا کہ اس میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی فرد یا جماعت کے متعلق رحمت سے محرومی کا فیصلہ ہو تو اس رحمت سے محرومی سے کوئی دوسری ایجنسی کوئی دوسری طاقت اس شخص یا اس جماعت کو بچا نہیں سکتی اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ وہ اپنی رحمت سے اسے نوازے گا تو خدا کی اس رحمت سے کوئی طاقت ایسے شخص کو محروم نہیں کر سکتی۔ رحمت کا وارث بننا بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رحمت پر ہی منحصر ہے اور رحمت سے محرومی بھی ان وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے جن کا ذکر قرآن عظیم نے کیا ہے اور جن بد راہوں پر چل کر انسان خود کو خدا کے غضب کا وارث بنا لیتا ہے اور اس کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
پہلے حصے کے متعلق میں ربوہ میں مختصراً چند باتیں بیان کر چکا ہوں جو دوسرا حصہ ہے یعنی رحمت کا وارث بننے کے متعلق اس سلسلہ میں میں نے ایک بات پچھلے خطبہ میں بیان کی تھی جس کا ذکر سورئہ احزاب میں ہی ہے۔
ایک اور عمل صالح جو خداتعالیٰ کے فضل سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وارث بنا دیتا ہے جس کے متعلق خدا کا وعدہ ہے کہ اگر خلوص نیت کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر بد نیتی اور ریاء کے بغیر یہ کام کرو گے تو میں اپنی رحمت سے تمہیں نوازوں گا وہ سورئہ احزاب کی آیت ۵۷ میں بیان ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہااِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (احزاب: ۵۷) اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ خداتعالیٰ کے ایک عظیم بندے تھے ایک نہایت ارفع مقام پر پہنچنے والے عبد تھے، عبد تو تھے لیکن دنیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت جب جوش میں آئی تو اس جوش نے یہ تقاضا کیا کہ محمد رسول اللہﷺ جیسا ایک وجود پیدا کرے اور دنیا کی اصلاح اور دنیا پر رحمتوں کے دروازے کھولنے کے سامان پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبی اکرم محمد رسول اللہﷺ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارشوں کا ایک سلسلہ نازل ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس کام پر لگایا ہے کہ وہ آپ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لئے دعائیں کرتے رہیں جو مقاصد عالیہ لے کر آنحضرتﷺ اس دنیا میں تشریف لائے پس اے انسان! اگر تو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بنے اور اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کے فرشتے تیرے لئے بھی دعائوں میں مشغول ہو جائیں تو اپنی زندگی کو محمد رسول اللہﷺ کے مقاصد عالیہ کے ساتھ ہم آہنگ کر دے اور ایک جیسا بنا دے پھر خدا کی رحمتوں کا بھی تو وارث ہو جائے گا اور فرشتے جو ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے ان کے پورا ہونے کے لئے دعائوں میں لگے ہوئے ہیں ان کی دعائوں کا بھی تو وارث بن جائے گا کیونکہ تیری اپنی زندگی، تیری اپنی کوششیں اور تیری اپنی فکر بھی آنحضرتﷺ کے مقاصد کو کامیاب بنانے میں لگی ہوئی ہو گی اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وارث بنو گے اگر ایسا کرو گے تو دنیا بے شک تمہاری مخالفت کرتی رہے دنیا بے شک تمہیں مٹانے کی کوشش کرتی رہے دنیا بے شک تمہیں ہر قسم کا دکھ اور عذاب پہنچانے میں لگی رہے تم اس بات کا یقین رکھو کہ خداتعالیٰ کی رحمت تمہیں اور صرف تمہیں ملے گی۔
ایک تیسرا طریق اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سورۂ احزاب کی آیت ۳۷ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ نبی اکرمﷺ کو اس دنیا میں بنی نوع انسان کے متعلق روحانی اور اخلاقی فیصلہ کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے جو کام آپ کے سپرد کئے گئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ آپ انسانوں کے درمیان فیصلہ کریں اور جو خداتعالیٰ کی رحمت کے وارث بننا چاہتے ہوں ان کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ کا جو فیصلہ ہو اس کو بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کریں اور اس پر عمل کریں اسی طرح جو فیصلے (یہ بات ’’قَضَی اللّٰہُ‘‘میں آ جاتی ہے) نبی کریمﷺ کے خلفاء کرتے ہوں ان کو قلبی بشاشت کے ساتھ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وارث بناتا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کے دروازے کھلیں تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس گروہ میں خود کو شامل کرو جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہوکہ
’’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ‘‘ (الاحزاب: ۳۷) عمل پیرا ہیں اگر تم ایسا نہیں کرو گے بلکہ انکار اور عصیان کی راہوں کو اختیار کرو گے تو اس کے نتیجہ میں ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًابہت بڑی گمراہی میں پڑ جائو گے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے لئے روشن ہدایت اور رحمت کے دروازے کھلیں گے کیونکہ قرآن کریم کا یہ عام محاورہ ہے کہ بعض جگہ جہاں منفی اور مثبت مضمون بالمقابل ایک دوسرے کے بیان ہوں تو ایک کا ذکر کر دیا جاتا ہے اور دوسرا اس سے واضح ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی بات واضح ہے کیونکہ اس آیت کی رو سے عصیان کا نتیجہ ضلالت ہے تو جو عصیان نہیں کرتا بلکہ اطاعت کرتا ہے جو بشاشت قلبی کے ساتھ خدا اور اس کے رسولﷺ اور آپ کے نائبین خلفاء یا جو دوسرے امراء ہیں ان کی باتوں کو مانتا ہے ضلالت کے مقابلہ میں جو چیز ہے وہ اسے ملتی ہے ضلالت کے مقابلہ میں ہدایت ہے اور ہدایت کے نتیجہ میں رحمت نازل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم میری رحمت کا وارث بننا چاہتے ہو تو وہ معروف فیصلہ جو خدا کے احکام کی روشنی میں اس کا رسولﷺ کرتا ہے یا اس کے خلفاء یا امراء کرتے ہیں انہیں بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کرو عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ اس کے بغیر کوئی اتحاد اور یک جہتی قائم نہیں رہ سکتی پھر تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو فیصلہ مجھے پسند آیا اسے میں قبول کر لیتا ہوں اور جو فیصلہ میرے نفس کی خواہش کے خلاف ہے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہوں اگر مومنوں کی یہی ذہنیت ہو تو پھر مومنوں کی جماعت نہیں بن سکتی (بلکہ مومن بھی نہیں رہ سکتے) کیونکہ جماعت کے مفہوم میں یہ بات ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ اس قسم کا شدید لگائو اور اتنا گہرا اور شدید تعلق ہو کہ آپ سے ذرّہ بھر دوری بھی ناقابل برداشت ہو جائے اس روح کے لئے جس کا تعلق اس قسم کا آپ سے ہے اور اگر واقعہ میں اس قسم کا تعلق ہو تو پھر بشاشت اس میں پیدا ہو گی اور انسان کا نفس یہ کہے گا انسان کی عقل اور روح یہ کہے گی کہ اے میرے نفس میں تیرے دھوکہ میں نہیں آ سکتا کیونکہ جس کا فیصلہ میرے متعلق اس رنگ میں ہوا ہے وہ اے میرے نفس تجھ سے زیادہ مجھے پیارا ہے اور میرے نزدیک تجھ سے زیادہ سمجھدار ہے اور میرے نزدیک خداتعالیٰ کا زیادہ مقرب ہے، وہ اپنے نفس کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے نفس! تیرے مقابلہ میں وہ پاک وجود خدا کی رحمتوں کا زیادہ وارث ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں اپنے نفس کی ہر خواہش کو ٹھکرا کے بھی اس کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا جب یہ ذہنیت پیدا ہو جائے جب اس قسم کی بشاشت اس میں پیدا ہو جائے تو پھر انسان خداتعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بن جاتا ہے۔ اس میں یہ مضمون بھی پایا جاتا ہے کہ تمام بد رسوم اور بدعات سے اجتناب کیا جائے لیکن اس مفہوم کو میں دوسری آیت کے ساتھ ملا کر کیونکہ اس کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے بیان کروں گا۔ آج مختصر سا خطبہ اس لئے دینا چاہتا ہوں کہ ابھی تین بجے کے قریب ڈاکٹر نے آ کر ٹیسٹ کے لئے میرا خون لینا ہے وہ ابھی چیک کر رہے ہیں اور ٹیسٹ لے رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے خداتعالیٰ کے فضل سے دوائی کے بغیر پہلے کی نسبت بہت افاقہ ہے شافی مطلق تو خداتعالیٰ کی ذات ہے اور اس کی صفت شفا کو جوش میں لانے کے لئے قربانی اور ایثار اور صدقہ خیرات اور دعائوں کی ضرورت ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی مجھے توفیق اور سمجھ دیتا ہے میں اپنے طور پر لگا ہوا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ دوست بھی دعائوں کے ساتھ میری مدد کریں گے اور خدا کے حضور جھک کر عاجزانہ درخواست کریں گے کہ اے ہمارے پیارے ربّ جو بے شمار صفات حسنہ کا مالک اور شافی بھی ہے ہم میں سے ایک شخص پر تو نے خلافت کی بہت سی ذمہ داریاں عائد کر دی ہیں ان کو نبھانے کے لئے اچھی صحت کی بھی ضرورت ہے جہاں اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے تو ہمارے اس بھائی کو اچھی صحت دے تاکہ وہ صحیح طور پر ذمہ داریاں نبھا سکے۔ یہ دنیا اور اس کی زندگی میں دراصل کوئی مزہ نہیں ہے۔ یہ فکر رہتا ہے کہ جب تک انسان زندہ رہے ایسے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھائے کہ وہ خوش رہے اور ناراض کبھی نہ ہو۔ آپ اپنے لئے بھی دعا کیا کریں ایک دعا جو میں کثرت سے کرتا ہوں وہ یہی ہے کہ اے خدا ہمیشہ رضا کی نگاہ ہم پر پڑتی رہے اور کبھی غضب کی نگاہ ہم پر نہ پڑے کیونکہ انسان ہے کیا چیز ایک لحظہ غضب اور قہر کی نگاہ کو برداشت نہیں کر سکتا بعض دفعہ خدا کے غضب اور اس کے قہر کی نگاہ اس دنیا میں پڑتی ہے جیسے بجلی بعض دفعہ گرتی ہے اور اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور ظاہر ٹھیک رہتا ہے بعض انسانوں پر بھی خدا کے قہر اور غضب کی نگاہ پڑتی ہے وہ اندر سے کھوکھلے ہو جاتے ہیں بظاہر چلتے پھرتے اور بعض لوگوں کے نزدیک شاید دیندار بھی ہوں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دراصل یہ موقع دینا چاہتا ہے کہ اگر توبہ اور استغفار کرو اور اگر میرے بتلائے ہوئے راہوں پر چلو اور میری طرف واپس لوٹنے کی کوشش کرو تو جس طرح میں تمہیں جَلا سکتا ہوں اسی طرح جِلا بھی سکتا ہوں اپنی قدرت کے ساتھ زندہ بھی کر سکتا ہوں لیکن بعض دفعہ وہ بالکل ہلاک کر دیتی ہے اور دوسری زندگی میں بھی جہنم اس کو نصیب ہوتی ہے تو یہ معمولی چیز نہیں خدا کا ناراض ہو جانا ہماری زندگی میں سب سے بڑی بدقسمتی اور محرومی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے تھوڑے کو بھی بعض دفعہ قبول کر لیتا ہے اور پیار کی نگاہ ڈالنے لگ جاتا ہے اس لئے کسی قسم کا فخر درست نہیں نبی اکرمﷺ نے خداتعالیٰ کی دین اور عطا کے متعلق بعض باتیں بیان فرمائیں اور ہر ایک کے بعد یہ فرمایا کہ لَافَخْرَ تو جب آنحضرتﷺ جیسا پاک وجود جن کے نہ صرف یہ کہ گناہ معاف ہوئے یعنی جو بشری کمزوریاں تھیں وہ ڈھانک دی گئیں استغفار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ جن کو ہم بشری کمزوریاں کہتے ہیں ان کے اظہار کا امکان بھی باقی نہیں رہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی کیا کہ جو تیرے متعلق دوسروں نے گناہ کئے ہیں ایک وقت میں ہم ان کی معافی کا سامان بھی پیدا کر دیں گے جیسا کہ مکہ والوں نے کتنا دکھ آپؐ کو پہنچایا تھا کتنے گناہ نبی کریمﷺ کے خلاف انہوں نے کئے ہوئے تھے اسی وعدہ کے مطابق لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ کا ایک حسین اور بڑا فرحت بخشنے والا پیغام انہوں نے سنا۔ آپ بھی لَافَخْرَ ہی کا نعرہ لگاتے رہے ہمارا کلمہ ہے اس میں عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ میں عبد کو پہلے رکھا گیا اس واسطے کہ ہم میں سے کوئی جن کی آپ کے مقابلہ میں حیثیت ہی کوئی نہیں یہ نہ سمجھنے لگ جائے کہ میری کوئی اندرونی خوبی ایسی ہے کہ مجھے لَافَخْرَ کہنے کی ضرورت نہیں مجھے عبودیت کا جامہ پہنے رکھنے کی ضرورت نہیں میں سینہ تان کر فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اندر یہ خوبیاں ہیں میرے اندر یہ خوبیاں ہیں۔ جس طرح قرآن مجید میں بعض لوگوں کے متعلق آیا ہے کہ جب دنیوی انعام ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارے اندر اپنے نفس کی ایسی خوبیاں ہیں کہ ہمارا ربّ بھی مجبور ہو گیا ہے کہ ہماری عزت اور احترام کرے یہ ایک احمقانہ خیال ہے لیکن اس دنیا میں ایسے احمق بھی پائے جاتے ہیں اس حماقت سے بچتے رہنا چاہئے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا چاہئے اور خدا سے علاوہ تدبیر اور اعمال صالحہ کی کوششوں کے یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اے خدا! غضب کی نگاہ سے ہمیں بچائے رکھ کیونکہ ہم اس کی تاب نہیں لا سکتے اور محبت اور پیار اور رضا کی نگاہ ہم پر پڑتی رہے کیونکہ اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا زندگی ہے اگر خدا کے پیار کی نگاہ نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان ہر دو راستوں پر چلنے کی توفیق عطا کرے جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے یعنی محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک شدید حقیقی اور بشاشت کا تعلق اور جس غرض کے لئے آپ مبعوث ہوئے ہیں اس غرض کو کامیاب بنانے کے لئے ہماری زندگیاں گزریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فرشتوں کی دعائوں کے ہم وارث ہوں اور جو فیصلے اور احکام نبی اکرمﷺ کی طرف سے ہمیں پہنچے ہیں بشاشت سے ان کو قبول کریں اور ان پر عمل کریں اور اپنے لئے کوئی اختیار باقی نہ سمجھیں یہ نہ کہیں کہ قوم میں یا خاندان میں یا برادری میں یا دوستوں میں ناک کٹ جائے گی ناک اس کی کٹتی ہے جس کو خدا کی چھری کاٹتی ہے اس کی ناک نہیں کٹتی جو خداتعالیٰ کی اطاعت میں دن گزار رہا ہو اور دنیا کی انگلی اس کی طرف اٹھے یا اس کے دوست یا رشتہ دار یا قوم یا خاندان طعن کی زبان اس کے خلاف استعمال کریں یہ بیہودہ خیال ہے لیکن بہرحال میں بدعات اور رسوم کے متعلق ایک دوسری آیت کے سلسلہ میں کچھ بیان کروں گا اب تو اس دعا پر ہی ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں محض اپنے فضل اور توفیق سے عاجزانہ راہوں پر چلتے رہنے کی توفیق بخشے اور ایسے سامان پیدا کرے محض اپنے فضل سے کہ ان راہوں سے ہم نہ بھٹکیں جن راہوں پر ہم چل کر اس کی رحمت کے وارث بن سکتے ہوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۳۰ ؍نومبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں تو ہمیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳ ؍اگست ۱۹۶۸ء بمقام احمدیہ ہال۔ کراچی۔ غیر مطبوعہ )
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسا نور عطا کیا ہے جو کائنات میں سے کسی اور کو عطا نہیں ہوا۔
٭ ’’اسوۂ رسول‘‘ چابی ہے جس سے معرفت کے خزانے کھولے جاتے ہیں۔
٭ نجات کے آثار اسی زندگی میں نمایاں طو رپر نظر آنے لگ جاتے ہیں۔
٭ حیات جاودانی صرف متابعت رسول سے ملتی ہے۔
٭ جب اللہ تعالیٰ کسی کے لئے رحمت کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے رحمت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
قُلْ مَنْ ذَاالَّذِيْ یَعْصِمُکُمْ مِّنَ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَ بِکُمْ سُوْئً اَوْاَرَادَبِکُمْ رَحْمَۃًط وَلَا یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا (الاحزاب:۱۸) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاَخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا (الاحزاب: ۲۲)
پھر فرمایا:۔
پچھلے خطبوں میں نے بتایا تھا کہ سورۃ احزاب کی اٹھارہویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ اگر وہ دکھ اور عذاب کا اور رحمت سے محرومی کا فیصلہ کسی فرد یا کسی قوم کے متعلق کرے تو اس محرومی سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نجات نہیں دلا سکتی اور اگر اسی کا فیصلہ کسی کے حق میں رحمت کا ہو تو دنیا میں کون ہے جو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر سکے۔
اَوْاَرَادَبِکُمْ رَحْمَۃً کے متعلق قرآن کریم میں متعدد جگہ بہت سی اصولی باتیں اور بہت سی تفاصیل بیان ہوئی ہیں سورۃ احزاب میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کی تشریح کرتے ہوئے کئی باتیں ہمارے سامنے رکھی ہیں جن میں سے بعض کے متعلق میں آج سے قبل کچھ کہہ چکا ہوں آج میں سورۃ احزاب کی بائیسویں آیت لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاَخِرَ کے متعلق کچھ کہوں گا۔
حصولِ رحمت کی ایک اور راہ خداتعالیٰ نے (جسے شاہراہ کہنا چاہئے جو بڑی وسیع ہے اور برکتوں والی ہے) ہمیں یہ بتائی ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں تو ہمیں نبی اکرمﷺ کی پیروی کرنی چاہئے۔ رجأ کے معنی ہیں یہ امید اور یقین رکھنا کہ مسرت کے سامان پیدا ہوں گے ان معنی کی رو سے یَرْجُوا اللّٰہَ کے معنی یہ ہوں گے کہ ہر وہ شخص جو امید اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے مسرت کے سامان اپنے فضل اور رحمت سے پیدا کرے گا تو اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ رحمت کے یہ سامان اس کے لئے اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کی کامل اتباع کرنے والا ہو۔
یہاں یَرْجُوا اللّٰہَ کے متعدد معانی کئے جا سکتے ہیں اپنی تفاصیل کے لحاظ سے ان متعدد معانی میں سے آج کے لئے میں نے پانچ معنوں کا انتخاب کیا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب اور نقص سے منزہ ہے کوئی عیب ہم اس کامل ہستی کے متعلق اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتے وہ پاک ہے اور پاکیزگی سے محبت رکھتا ہے اور پاک ہی کو قرب عطا کرتا ہے۔ پس جس شخص نے خداتعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی ایسے رنگ میں پاک ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ جس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی اسے ہر زاویہ سے پاک یا پاک ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھے یہ پاکیزگی اگر ہم نے حاصل کرنی ہو تو اس کے لئے ہمارے واسطے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم نبی اکرمﷺ کی سچی پیروی کرنے والوں میں سے بن جائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو‘‘۔ (چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۳۰۳)
جس طرح پانی اگر صاف اور پاکیزہ ہو اور کپڑے کو پتھروں پر مار مار کر دھویا جائے اور اسے صاف کرنے پر پوری توجہ دی جائے تو برف کی طرح وہ کپڑا صاف ہو جاتا ہے اسی طرح نبی اکرمﷺ کی اتباع کرتے ہوئے آپ نے جو اُسوہ دنیا میں قائم کیا ہے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپ کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ہم اپنے نفس کو اپنی روح کو اس رنگ میں پاک کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نگاہ اس پر پڑے ’’یَرْجُوا اللّٰہَ‘‘ کے ایک معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اس پاک ذات سے تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نبی اکرمﷺ کی اتباع اور پیروی ضروری ہے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا یا کم از کم کامل اتباع کرنے کی کوشش نہیں کرتا اس کے اندر بہت سی ایسی ناپاکیاں رہ جائیں گی جو اللہ تعالیٰ کو بیزار کرنے والی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اسے محروم کر دینے والی ہوں گی اس لئے اگر ’’اس‘‘ پاک کی محبت چاہتے ہو تو اس پاک نمونہ کی کامل اور مکمل اتباع کرو اس کے بغیر خداتعالیٰ تم سے رحمت کا سلوک نہیں کرے گا۔
یَرْجُوا اللّٰہَ کے تفصیلی معنی ہم یہ بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسا نور عطا کیا ہے جو کائنات میں سے کسی اور کو عطا نہیں ہوا اس لحاظ سے انسان تمام مخلوقات میں ممتاز ہے یہ نور دنیا کی کسی اور چیز کو نہیں دیا گیا حتیٰ کہ سورج میں بھی یہ نور نہیں چاند میںبھی نور نہیں ہیروں میں بھی یہ نور نہیں دنیا کی کسی شئی میں بھی وہ نور نہیں جو انسان کو دیا گیا انسانوں میں سے جس نے اس نور کو اتم طور پر اور اکمل طور پر اور ارفع اور اعلیٰ طور پر حاصل کیا وہ محمد رسول اللہﷺ ہیں تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ جو نُوْرُ السَّمٰوٰت ہے اس کے نور سے حصہ لے اللہ تعالیٰ کے نور کی کرنیں اسے ڈھانک لیں اس نور کی چادر میں شیطانی وسوسہ داخل نہ ہو سکے اور ظلمات میں سے کوئی ظلمت اس کے خانہ دل کا رخ نہ کر سکے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جو کامل اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کا نور بن کے دنیا میں نور پھیلانے کے لئے مبعوث ہوا (ﷺ) اس کی وہ اتباع کرے کیونکہ جو شخص اس کی اتباع کرتا ہے وہ اس کی اتباع کے طفیل اللہ کے نور سے اسی طرح اپنی استعداد کے مطابق اور اپنے مجاہدہ کے مطابق نور حاصل کرتا ہے جس طرح کامل مجاہدہ، کامل محبت، کامل فدائیت اور کامل ایثار کے نتیجہ میں محمد رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے نور کو حاصل کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیںرہے گی زندہ خدا جو لوگوں سے پو شیدہ ہے اس کا خدا ہو گا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے وہ ہر ایک جگہ مبارک ہو گا اور الٰہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی‘‘۔ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ۸۲،۸۳)
تو اگر کوئی شخص یہ خواہش رکھتا ہو کہ وہ اللہ کے نور سے حصہ لے جو نور کہ اس دنیا کی نیک راہوں کی نشاندہی کرتا ہے اور دوسری زندگی میں بھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ(الحدید:۱۳)
یہاں بھی وہ نور قرب کی راہوں کو منور کرتا اور اس کے نتیجہ میں شیطانی راہوں پر اندھیر اچھا جاتا ہے ہر سیدھی راہ نظر آنے لگتی ہے یہ نور محمد رسول اللہﷺ کی پیروی سے ہم حاصل کر سکتے ہیں اسی واسطے ہر وہ شخص جس کے دل میں ایسی خواہش پیدا ہو اس کو اللہ تعالیٰ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ نبی اکرمﷺ تمہارے لئے ایک نمونہ ہیں اس اُسوہ کے مطابق تم اپنی زندگیوں کو ڈھالو تو اللہ تعالیٰ سے اس حسین اور عجیب اور روشن نور کو حاصل کر سکو گے جو انسان کو ہر قسم کی ہلاکت سے بچاتا ہے۔
لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَکے تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ شخص جو اللہ کی امید رکھتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے زندہ اور پاک تعلق پیدا کرنے کے لئے اس کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص اس جگہ نہ پہنچے جہاں سے یہ معرفت حاصل ہو سکتی ہے تو وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہے گا ضال ہو جائے گا ایسے شخص کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کو معرفت کا ایک خزانہ دے کر اس دنیا میں مبعوث کیا ہے اور آپ کی بعثت کے بعد کسی اور کے پاس یہ خزانہ تو کیا اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی باقی نہیں رہا اور اس فضیلت کی چابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور اس تالے کے اوپر خدا کے فرشتوں کا پہرہ ہے اگر کوئی شخص اس خزانے میں داخل ہو کر اس خزانے سے حصہ لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے محمد رسول اللہﷺ سے اس کی کنجی حاصل کرے پھر اس کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ خزانہ کو کھولے اور اس میں داخل ہو اور محمدﷺ کو جو چابی اس خزانہ کے لئے دی گئی ہے اس کا نام ہے۔
’’اسوئہ رسول‘‘
یہی چابی ہے جس سے معرفت کے خزانے کھولے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص خداتعالیٰ سے تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے قیام سے پہلے اس کی ذات اور اس کی صفات کا عرفان ضروری ہے اور یہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس معرفت کے خزانہ کی چابی اس کے پاس نہ ہو اور چابی اس کو ملتی ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے پس اگر تم خدا سے زندہ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس اُسوہ کو اپنائو اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارو اور اپنے ماحول میں بھی اسے قائم کرنے کی کوشش کرو۔
لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَکے چوتھے معنی یہ ہیں کہ جو شخص بھی سچی نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے اُسوہ کی پیروی کرے کیونکہ آپ کی پیروی ہی کے نتیجہ میں ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تفصیل سے اس پر بڑی روشنی ڈالی ہے کہ اس وہم میں مبتلا رہنا کہ اس دنیوی زندگی میں بے شک ہم ہر قسم کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں اُخروی زندگی میں ہمیں نور ملے گا اور نجات حاصل ہو گی یہ غلط ہے جس شخص کو وہاں جنت ملتی ہے اس کو اس دنیامیں بھی جنت ملتی ہے جس شخص کو وہاں نور حاصل ہونا ہے اس کے لئے نور کے سامان اسی دنیا میں پیدا کئے جاتے ہیں جس نے وہاں نجات حاصل کرنی ہے اس کے لئے نجات کے آثار اسی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور ایسا شخص جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور نجات کے آثار اسی شخص کے لئے نمایاں ہوتے ہیں جو نبی اکرمﷺ کی پیروی کرتا ہے آپ کی سنت کی اتباع کرتا ہے یہ محض ایک دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے ایک تو ماضی کے شواہد ہیں حال کے آثار ہیں اور مستقبل کے چیلنج ہیں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہر اس غیر مذہب، ہر اس شخص کے سامنے رکھے گئے ہیں جو نبی کریمﷺ کی اتباع کے بغیر نجات حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے یا ایسا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے کہ اگر واقع میں تم اسلام سے باہر رہ کر محمد رسول اللہﷺ کی اتباع کے بغیر نجات حاصل کر سکتے ہو تو نجات کے کچھ آثار بھی تو ظاہر ہونے چاہیں ان میں ہمارا مقابلہ کر لو اگر اس دنیا میں تمہیں یہ نجات حاصل نہیں نہ اس کے کوئی آثار دکھا سکتے ہو اگر اس دنیا میں ایک سچے مسلمان کو نجات حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے آثار اس کی زندگی میں پائے جاتے ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب یعنی اسلام جس کی پیروی سے اور وہ رسول جس میں فنا ہو کر جس کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر نجات کے یہ آثار ہماری زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں وہی سچا رسول ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ھڈرز فیلڈ (انگلستان) میں جماعت کے پریذیڈنٹ نے (جو بڑے مخلص تھے چند دن ہوئے اچانک وفات پا گئے ہیں اللہ ان کے درجات بلند کرے) ایک پریس کانفرنس کا بھی انتظام کیا تھا اور غیر مسلموں کو بھی مدعو کیا تھا وہاں سوشل ورکر ادھیڑ عمر کی انگریز عورت نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ایک سچے عیسائی اور ایک سچے مسلمان میں کیا فرق ہے؟ میں خوش ہوا کہ اس نے عیسائی اور مسلمان کے فرق کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ’’سچے‘‘ کی زیادتی کی ہے میں نے اس کا سوال دہرایا کہ تم مجھے سے ایک سچے عیسائی اور سچے مسلمان کے مابین کا فرق دریافت کر رہی ہو اس نے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک سمجھے ہیں تو میں نے اس کو جواب دیا کہ تم ایک عورت ہو میں ایک عورت کی ہی مثال دیتا ہوں میں نے اپنی ایک احمدی بہن کی مثال دی تھی جس نے نبی اکرمﷺ کے طفیل اپنے رب کی محبت کو کچھ اس طرح پایا تھا کہ ایک ہی رات میں اسے تین بار اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور وہ دعا میں مشغول رہی جب تک کہ اس کے دل کو تسلی نہیں ہو گئی۔
پھر میں نے اس سے کہا کہ یہ ایک مثال ہے اور تمہیں سمجھانے کے لئے مثال بھی ایک عورت کی ہے تم ساری عیسائی دنیا میں کوئی ایک مثال اس قسم کی ہمیں دکھا دو تو ہم کہیں گے کہ تمہارے پاس بھی کوئی چیز ہے تو ایک ایسے مسلمان کی زندگی میں جو آنحضرتﷺ کی اتباع کرنے والا اور آپ کے نمونہ کے مطابق اپنی زندگی کو بتانے والا ہے صحیح اور سچی نجات کے آثار ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں اور یہ تسکین یہ مسرت یہ سکون قلب یہ نور فراست یہ محبت کے جلوے جو وہ اپنی زندگی میں دیکھتا ہے یہی ہیں جو اس کو محمد رسول اللہﷺ کا فدائی بنا دیتے ہیں۔
ہمارا رسول کس قدر بزرگ ہے کہ جس کی اطاعت سے جس کی دس دن کی پیروی سے وہ آسمانی برکات ملتی ہیں کہ جو ہزاروں برس کی دوسرے مذاہب کی پیروی سے انسان کو نہیں مل سکتیں یہ محض دعویٰ نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک مثال اس عیسائی کو دی تھی بغیر تفصیل میں جانے کے آج بھی میں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نبی اکرمﷺ سے محبت رکھنا آپ کے اُسوہ پر چلنا یہ نہیں کہ صرف محبت کا دعویٰ ہو محبت بڑی قربانی چاہتی ہے دیکھو چھوٹی چھوٹی محبتیں قربانی چاہتی ہیں ایک ماں اپنے بچے سے پیار کرتی ہے بچہ بیمار ہو جائے تو وہ سو نہیں سکتی سرہانے بیٹھی رہتی ہے یہ ایک چھوٹی سی محبت ایک ماں کی اپنے بچوں میں سے ایک بچے کی محبت جس کا مظاہرہ ہو رہا ہے اس کے معاوضہ میں اس ماں نے کیا لینا ہے صرف یہ تسلی کہ شاید یہ بچہ جو ہے اس سے میں بھی کسی وقت آرام پائوں گی یہ خواہشات ہمیشہ پوری نہیں ہوا کرتیں بعض خاندانوں میں یہ پوری ہو جاتی ہیں بعض میں پوری نہیں ہوتیں لیکن یہاں تو ایک یقینی چیز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا نتیجہ ہماری زندگی میں ظاہر ہوتا ہے ہم جو محبت محمد رسول اللہﷺ سے کرتے ہیں اس محبت کے نتیجہ میں قرآن کریم کے وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے ہم دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
پھر حقیقی محبت اور سچا تعلق ہمیں محمد رسول اللہﷺ اور اپنے خدا سے جو زندہ طاقتوں والا خدا ہے پیدا ہو جاتا ہے۔ تو لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ جو شخص یہ خواہش رکھتا ہو کہ اس کے اندر ایک ایسی تبدیلی ہو جائے کہ اس کے لئے اسی دنیا میں نجات کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو جائیں اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کی غلامی میں آ جائے آپ کی محبت میں فنا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے (یعنی محمد رسول اللہﷺ) سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن اطاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا ۔ (آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۹۱)
اور جب وہ نجات پا جائے گا تو اس کے آثار کیا ظاہر ہوں گے اس زندگی میں ایک پاک زندگی ایسے لوگوں کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے۔
ایک اور معنی لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَکے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقی زندگی اور حقیقی حیات ہے اور وہ اَلْحیّ ہے وہ زندہ ہے کسی کی احتیاج کے بغیر اور ہر دوسری چیز جو ہے اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے ارادے اور اس کے حکم کی احتیاج رکھتی ہے تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس زندہ خدا جو زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا ہے اس سے اس کا تعلق قائم ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے بھی روحانی زندگی مل جائے کیونکہ زندہ کا تو زندہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے لیکن زندہ کے ساتھ مردہ کا تعلق ہمارے تصور میں نہیں آتا یہ شخص اگر روحانی زندگی چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی در ہے وہاں وہ جاکر اطاعت کے اُسوہ کی پیروی کی بھیک مانگے اور وہاں جا کے اپنی جبین نیاز جھکائے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے کہ اے خدا تو زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا ہے اور اے میرے رب تو نے ہمارے اس محسن کو بھی ایک ابدی زندگی عطا کرکے اس دنیا میں مبعوث کیا ہے جس کے فیض کبھی ختم نہیں ہوتے اور ہمیشہ کے لئے جاری ہیں ہم جانتے ہیں کہ جب تک ہم روحانی طور پر مردہ رہے ہم تیرے ساتھ زندہ تعلق تو قائم نہیں کر سکتے اس نبی کے طفیل ہی یہ فیض حاصل ہو سکتا ہے اس کے بغیر تو حاصل نہیں ہو سکتا پس اے ہمارے ربّ ہم کو یہ طاقت بخش اور توفیق عطا کرے کر کہ ہم تیرے اس نبی کی اتباع ایسے رنگ میں کر سکیں جس رنگ میں تو چاہتا ہے کہ ہم کریں اور اس کے نتیجہ میں اے ہمارے ربّ روحانی طور پر ہمیں زندہ کر دے تاکہ ہمارا تعلق تیرے ساتھ قائم ہو جائے تو یہاں یہ فرمایا کہ جو شخص روحانی زندگی کے نتیجہ میں زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے اُسوہ کی پیروی کرے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریمﷺ کے فیض کے ذریعہ ہی یہ روحانی زندگی حاصل کی جا سکتی ہے جیسا کہ سورۃ انفال میں فرمایا۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ (الانفال:۲۵)
تو نبی اکرمﷺ ساری دنیا کو دعوت دے رہے ہیں تو اس کا مقصد یہی ہے کہ جو ان کی آواز پر لبیک کہے وہ روحانی زندگی کو حاصل کرے اسی طرح نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ اَنَاالحَاشِرُالَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِیْ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب ماجاء فی اسماء رسول اللّٰہؐ) میں حاشر ہوں کہ ایک روحانی حشر برپا کرنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں اور جو میرے قدموں پر گر جاتا ہے وہ زندہ کیا جاتا ہے اور روحانی زندگی کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے اور قائم کیا جاتا ہے تو جو شخص روحانی زندگی کا امیدوار ہو جو اس چیز کا امیدوار ہو کہ روحانی زندگی کے بعد اپنے زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق کو قائم کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جسے ابدی حیات دی گئی ہے اس کے ساتھ اس کا سچا تعلق قائم ہو جائے اور اس کی سنت کی وہ پیروی کرنے والا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’پھر اسی کے مطابق آنحضرتﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہٗ (المجادلہ:۲۳)یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدد دی اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خداتعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد۵صفحہ۱۹۴،۱۹۵)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’ اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور قطعی طور بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۹۵،۱۹۶ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اپنی زبان میں اگر اس کا خلاصہ کرنا ہو تو وہ یہ ہو گا کہ جو شخص روحانی زندگی حاصل کرنا چاہے اور اس روحانی زندگی کے حصول کے بعد اللہ تعالیٰ جو حیات محض ہے اور جس کی قدرتوں پر دنیا کی ہر شیی کی حیات منحصر ہے اس کے بغیر وہ زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی تو اس قسم کی روحانی زندگی جو حاصل کرنا چاہے اس کیلئے ضروری ہے کہ روح القدس اس کی مدد کو آئے اور روح القدس سے وہ ان چیزوں کو ان ذرائع کو حاصل کرے جن کے حصول کے بعد روحانی زندگی ملا کرتی ہے اور روح القدس کی مدد سے یہ اس کو ملتی ہے جو محمد رسول اللہﷺ کی اتباع کرنے والا اور آپ کی سنت پر چلنے والا ہو اور جو شخص ابدی روحانی زندگی چاہتا ہے اور جسے یہ پسند نہیں جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَایَحْیٰ (الاعلٰی :۱۴) کہ نہ وہ زندگی ہو گی نہ موت ہو گی پریشانی کا ایک عالم ہو گا بے اطمینان کی ایک دنیا ہو گی تکلیف اور دکھ ہو گا جس سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا برداشت کی طاقت نہیں ہو گی اگر ایسی زندگی نہیں بلکہ وہ زندگی جو پاک زندگی ہے وہ زندگی جو محمد رسول اللہﷺ کے طفیل روح القدس کی شاگردی حاصل کرنے کے بعد زندہ خدا سے تعلق قائم کرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ زندگی اگر حاصل کرنی ہو تو ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآَخِرَ (الاحزب:۲۲)
تو اٹھارہویں آیت میں یہ فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے لئے رحمت کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے رحمت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا پھر آگے جا کر مختلف آیات میں اسی سورۃ احزاب میں یہ بیان کیا کہ رحمت کا فیصلہ کس قسم کے لوگوں کے متعلق کیا جاتا ہے اس کے متعلق میں پہلے بتا چکا ہوں آج میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے رحمت کا فیصلہ کرتا ہے جو نبی اکرمﷺ کی اتباع کرنے والا آپ کی سنت کی پیروی کرنے والا آپ کے احکام کی اطاعت کرنے والا اور ہر قسم کی بدعتوں اور رسوم سے بچنے والا ہو اور یہ رحمت کبھی پاکیزگی کی شکل میں ملتی ہے اس اتباع نبوی کے بعد کبھی ایک کامل نور کی شکل میں ملتی ہے کبھی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اس زندگی میں کبھی ایسے شخص کو معرفت تامہ کے گھونٹ پلائے جاتے ہیں اور کبھی حقیقتہً ایک روحانی زندگی اسے عطا کی جاتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ زندہ خدا سے ایک زندہ تعلق اس کا قائم ہو جاتا ہے پھر وہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ہر وقت زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو دیکھتا ہے اس کا قدم معرفت کی راہوں میں آگے ہی آگے بڑھتا چلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر احمدی نبی اکرمﷺ کی اتباع اور پیروی کی توفیق حاصل کرے اور اسے ہر وہ چیز ملے جس کا وعدہ کامل اتباع کے نتیجہ میں مومنین کی جماعت کو دیا گیا ہے۔ (آمین)
٭…٭…٭
خطبہ جمعہ ۳۰؍ اگست ۱۹۶۸ء
حضور انور کراچی میں تشریف فرما تھے۔ زود نویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا جو کہ تاحال دستیاب نہیں ہو سکا۔

ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سارے ہی دروازے ہمارے لئے کھل جائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶ ؍ستمبر ۱۹۶۸ء بمقام احمدیہ ہال۔ کراچی۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ ایمان کے تقاضوں کو پوراکرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھولے جائیں گے۔
٭ ہر انسان اپنی قوت اور استعداد کے دائرہ میں اپنے کمال کو حاصل کرسکتاہے۔
٭ تمہارے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قرب کی راہوں کو تلاش کرو اورنیکیاں بجا لاؤ۔
٭ ہر وہ لحظہ جو ہم نے اپنے ربّ کی یاد میں نہیں گزارا وہ ضائع ہوگیا۔
٭ اگر ساری دنیا کسی ایک انسان کے لئے اللہ کی رحمت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے توکبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ذیل کی آیات تلاوت فرمائیں۔
قُلْ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْصِمُکُمْ مِّنَ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَبِکُمْ سُوْئً اَوْ اَرَادَبِکُمْ رَحْمَۃً وَلاَ یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْراً (الاحزاب:۱۸) لِیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنٰـفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
(الاحزاب: ۷۴)
اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائوں کو سنا اور اپنی رحمت اور فضل سے میری بیماری کو دور فرمایا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ لیکن شکر (Sugar)کی کیفیت اپنی حد پر آ کر ٹھہر گئی ہے اور حد پر آ کر ٹھہر جانا خطرناک ہوتا ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی حدود مقرر کی ہیں اور فرمایا کہ تم حد سے قریب بھی نہ جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ غلطی یا غفلت کے نتیجہ میں حدود سے باہر ہو جائو اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائو اس طرح انسان کے جو مختلف میکنیزم (Mechanism)ہیں ان میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ معمول کی کیفیت پائی جاتی ہے اگر اس نظام کی یہ حالت ہو کہ وہ اپنے Maximum پر زیادہ سے زیادہ کھڑا ہو تو تھوڑی سی غفلت یا بے پرواہی یا بد پرہیزی جو ہے اس سے بیماری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو اب شکر کا جو نظام ہے وہ زیادہ سے زیادہ حد کے اوپر کھڑا ہے دعا کریں میں بھی دعا کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ ان حدود سے کافی نیچے آ جائے تاکہ انسان جو غفلت کا پتلا ہے بے پرواہی کے نتیجہ میں اس حد کو پار کرکے بیماری کی حدود میں داخل نہ ہو اللہ ہی فضل کرنے والا اور شفا دینے والا ہے ایک لمبا عرصہ اپنے حالات کے مطابق ایک لمبا عرصہ کئی ہفتے مجھے کراچی میں ٹھہرنا پڑا ہے آپ دوستوں سے ملنے کا زیادہ اتفاق ہوا ہم نے باتیں کیں ملے، بہت ساروں کے دکھ اور دردسُنے ان کے دور کرنے کی کوشش کی ویسے تو ایک تعلق جماعت کے ساتھ خلیفہ وقت کو ہوتا ہے لیکن جماعت کا وہ حصہ جو زیادہ وقت تک ساتھ رہے یا جن کے ساتھ کچھ ہفتے گذارنے پڑیں ان کے ساتھ ایک خاص لگائو ہو جاتا ہے انشاء اللہ کل چناب ایکسپریس سے ہماری واپسی ہے لیکن جہاں اس خیال سے کہ بہت سے کام رکے ہوئے ہیں اور ربوہ واپس جانا ضروری ہے ربوہ جانے کی خواہش بھی بڑی ہے اور آپ سے جدا ہونے کی اداسی بھی دل محسوس کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور آپ اس کے فضلوں کے ہمیشہ وارث بنیں اور ان راہوں پر آپ کو چلنے کی توفیق ملے جو راہ کہ اس کی رحمت کے دروازے کھولتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق ہی میں خطبات دے رہا ہوں اور آج خداتعالیٰ کی توفیق سے اس نے چاہا تو اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں میں نے بتایا تھا کہ یہ آیت جس کی تفسیر میں بیان کر رہا ہوں سورہ احزاب کی ہے اور میں نے جب غور کیا کہ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کے لئے یہ بتانا چاہتا ہے کیونکہ انسان اپنے طور پر تو کچھ حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدا ہمیں علم نہ دے انسان خود نور سے اپنی نیکی کی اور راستبازی کی سیدھی راہوں کو منور نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کو توفیق نہ دے تو سورۃ احزاب میں بھی اللہ تعالیٰ نے ضرور ان راہوں کو نشاندہی کی ہو گی جو راہیں اس کی رحمت کے دروازوں تک لے جاتی ہیں اور جو مجاہدہ خدا کو جب مقبول ہو جائے تو رحمت کے دروازے ایسے شخص یا اشخاص یا گروہ کے لئے کھولے جاتے ہیں آج میں سورۃ احزاب کی ہی ایک آیت کو بنیادی نکتہ بنا کر ایک بنیادی اصل کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تفاصیل تو قرآن کریم میں بہت ہیں قرآن کریم نے اپنی رحمت کے دروازے کھلوانے کے لئے ہمیں کئی سو راہیں بتائی ہیں ان راہوں پر چلنا بڑا ضروری ہے قرآن کریم میں جو بھی نیکیوں کے طریق بتائے گئے ہیں جو بھی مجاہدات کے راستے ہمیں دکھائے گئے ہیں ان سب پر چلنا ضروری ہے اس لئے قرآن کریم نے اصولی طور پر ہمیں ہدایت دی کہ اگر ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ یہ بنیادی اور اصولی چیز ہے باقی تمام اسی ایک بنیادی چیز کی فروعات ہیں اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں فرماتا ہے کہ اس شریعت کو اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ جہاں منافق اور منافقات اور مشرک اور مشرکات کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوء کا حکم جاری ہو دکھ اور عذاب اور تکلیف اور پریشانی کا حکم جاری ہو وہاں وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یعنی یہ شریعت اور یہ حقیقت جو شریعت کے نظریے کی غرض ہے اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کیلئے رحمتوں کے سامان پیدا کئے گئے ہیں وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمَا اور جو شخص توبہ کرتا ہے اور جو شخص ایمان پر پختگی کے ساتھ قائم ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں ایک تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے اور مغفرت کی چادر میں خدائے غفور اسے لپیٹ لیتا ہے دوسرے اس کے مجاہدات قبولیت کا درجہ حاصل کرتے ہیں اور خدائے رحیم اپنی رحمت کی چادریں ایسے شخص اور وجودوں پر نازل کرنا شروع کر دیتا ہے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصِمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْمًا (النساء:۱۷۶)کہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرکے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کی رحمتوں کے ذریعہ شیطانی حملوں سے اپنا بچائو کریں تو یہ لوگ ہیں سَیُدْخِلُھُمْ فِيْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ ۔کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل کی جنتوں میں داخل کرے گا اور اس کا طریق یہ ہو گا وہ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ۔جو راہیں سیدھی اللہ کی طرف لے جانے والی ہیں ان راہوں کو ان لوگوں کے لئے منور کیا جائے گا ان کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے گی تو سچی اور حقیقی اور اصولی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے صرف ان لوگوں پر کھلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنی عملی زندگی میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اس طرف متوجہ کرتے ہوئے سورۃ نساء میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ (النساء: ۱۳۷) اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ ایمان کا حکم تو پہلے ہی واضح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اے وہ لوگو جن کا دعویٰ ہے کہ خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ لوگ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس بات پر ایمان لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ ایک آخری اور کامل اور مکمل شریعت نازل کی ہے۔ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖاب اس ایمان کے تقاضوں کو تم پورا کرو کس طرح پورا کرو؟یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اے وہ لوگو جو ایمان کے مدعی ہو ایمان کے تقاضوں کو اللہ کی اطاعت یعنی قرآن کریم کی شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کے وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (النساء:۶۰)اور اتباع نبویہ کے طفیل اور آپؐ ہی کے حکم کے مطابق جب قدرت ثانیہ کے جلوے اللہ تعالیٰ ظاہر کرنا چاہے تو ان جلوؤں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے جو تقاضے تم سے کئے جائیں ان کو پورا کرکے اپنے ایمان کا ثبوت دو اور اپنے لئے رحمتوں کے سامان پیدا کرو۔ تو رحمت کے حصول کیلئے یا فضل کی جنتوں میں داخلے کے لئے یا اللہ تعالیٰ کی جنتوں کی ٹھنڈی چھائوں میں زندگی کے لمحات گذارنے کے لئے خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ معرفت اور عرفان کے ساتھ عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَۃ ایمان اور اعتقاد کو پختہ کیا جائے اور دل اور روح ایمان کے نور سے منور ہو جائے اور تمام جوارح جن سے ہم کام لیتے ہیں ہمارے ہاتھ ہیں، ہماری زبان ہے ہمارے پائوں ہیں ہماری آنکھیں ہیں ناک ہے جتنی بھی قوتیں اور استعدادیں اللہ تعالیٰ نے کام کی غرض سے ہمیں عطا کی ہیں ان سب کو ایمان کے مطابق ہم کام پر لگائیں اور ہمارا ہر عضو یہ گواہی دے کہ اس کی گردن پر خدا کے احکام اور نبی کریمﷺ کے ارشادات کا جُوٓا ہے اور آپؐکے حکم سے اور آپؐ کی اطاعت سے کوئی باہر نہیں اگر انسان ایسا بن جائے تو اس سے زیادہ بابرکت انسان کوئی نہیں ہو سکتا اور پھر وہ جو ایسا بننے کی کوشش کرے یعنی یہ تو صحیح ہے کہ قوت اور استعداد کا جائزہ مختلف ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ شریعت اسلامیہ کے طفیل اور نبی اکرمﷺ کے فیوض سے اگر حصہ لیا جائے تو ہر انسان اپنی قوت اور استعداد کے دائرہ میں اپنے کمال کو حاصل کر سکتا ہے اور یہ اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اپنی روحانی کمال کو حاصل کر لیتا ہے وہ اپنے دائرئہ استعداد کے اندر جتنی زیادہ سے زیادہ رحمت اللہ کی حاصل کر سکتا تھا وہ اسے مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو تو ایمان پختہ، اعتقاد صحیح، اعمال صالحہ ہوں، نیت خالص ہو، دل میں کوئی فتور اور شر نہ ہو اور روح اپنے ربّ کے آستانہ پر جھکی رہے اور دعائوں میں مشغول رہے اور اس سے طاقت حاصل کرے تا اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چل سکے تو رحمت کے دروازے کھل جائیں گے۔
میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں کئی سو تقاضے بیان ہوئے ہیں جو ہمارے ایمان سے کئے گئے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر میں اس وقت اختصار کے ساتھ کر دینا چاہتا ہوں اور میں نے ان باتوں میں سے چند کا انتخاب کیا ہے جن میں مومن کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر تم ایمان لائے ہو تو یہ کرو اور اگر تم ایمان لائے ہو تو وہ کرو اللہ تعالیٰ سورۃ تحریم میں فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحاً (التحریم:۹) ایمان کا دعویٰ اگر ہے تو ایمان کے اس تقاضے کو پورا کرو کہ اپنے اللہ کی طرف توبہ کرو ایک سچی اور خالص توبہ، توبہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے گناہوں سے شرمندگی کا احساس کرتے ہوئے اس غلطی اور گناہ کے چھوڑنے کا عزم کرے اور اپنے ربّ سے یہ وعدہ کرے کہ آئندہ کبھی وہ اس قسم کی غلطی میں ملوث نہیں ہو گا یہ ابتداء ہے اور حقیقتًا پہلا تقاضا ہے ایمان کا کیونکہ جو شخص اسلام لاتے ہوئے یا اگر وہ اسلام میں پیدا ہوا ہے تو بلوغت کو پہنچتے ہوئے جب بھی اس کو روحانی بلوغت حاصل ہو حقیقی توبہ کرتا ہے اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اور اس کی روحانی زندگی کی ابتداء وہ ہوتی ہے تو ایک تقاضا ہمارے ایمان کا یہ ہے کہ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحاً ایک سچی اور خالص توبہ کرکے انسان یہ عزم کرے کہ میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جس سے میرے ربّ نے مجھے روکا ہے اور جس کے کرنے سے وہ ناراض ہوتا ہے اس کا غضب بھڑکتا ہے پھر سورۃ حج میں فرمایا یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ (الحج:۷۸ ) توبہ کے بعد تمہارے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قرب کی راہوں کو تلاش کرو اور نیکیاں بجا لائو تاکہ وہ تمہیں اپنا مقرب بنا لے اس کے سامنے جھکو ذلت سے انکساری کے ساتھ اپنی کمزوریاں اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کمزوریوں کو دور کرنے اور اس سے طاقت حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو۔ غرضیکہ عبودیت کے مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرو وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ۔پھر فرمایا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا للّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (الاحزاب:۴۲) عبادت اگر کرنا چاہتے ہو تو ہر وقت اس کے ذکر میں مشغول رہو یہ مشکل بھی ہے اور سہل بھی ہے ان لوگوں کے لئے مشکل ہے جو اس کی اہمیت کو اور اس کے اثرات کو پہچانتے نہیں اور ان لوگوں کے لئے آسان ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہر وہ لحظہ جو ہم نے اپنے ربّ کی یاد میں نہیں گزارا وہ ضائع ہو گیا اور ممکن ہے کہ وہ ہماری ہلاکت کا باعث بنے یہ صحیح ہے کہ انسان اپنی زندگی میں بعض ایسے کام بھی کرتا ہے جب وہ ذکر الٰہی کر ہی نہیں سکتا مثلاً جب وہ سو جاتا ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ نیند سے معاً پہلے اگر انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور ذکر کرتے ہوئے سو جائے تو یہ سونے کے اوقات بھی خداتعالیٰ کی نگاہ میں ایسے ہی سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ وہ ذکر میں مشغول ہے یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس پر اور اس کی رحمت ہے پھر بعض ایسے کام ہیں کہ اس میں وہ پوری توجہ نہیں دے سکتا مثلاً ایک شخص موٹر چلا رہا ہے اگر اس کی توجہ بہک جائے تو کسی انسان کی جان بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے عادت سے شاید وہ کر لے گا لیکن جن کو عادت نہیں ہے وہ اس وقت اس کے ذکر سے معذور ہوں گے اور مجبور ہوں گے کہ وہ اس وقت ذکر نہ کریں لیکن بہت سے کام ہیں کہ جو انسان کرتا بھی ہے اور ان کاموں کے ساتھ خدا کا ذکر بھی کرتا رہتا ہے اور کام میں کسی قسم کا حرج پیدا نہیں ہوتا ایک دفعہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب میں دستخط کر رہا ہوتا ہوں تو ساتھ ذکر بھی کر رہا ہوتا ہوں تو دستخط کرنے کے راستہ میں ذکر الٰہی روک نہیں بنتا کیونکہ دستخط ہاتھوں نے کرنے ہوتے ہیں بعض وقت سَوسَو دو دو سَو دستخط کرنے پڑتے ہیں یا جب قلم میں سیاہی بھری جائے اب یہ ایسا کام نہیں ہے کہ سیاہی بھرنے میں ساری توجہ اس کی طرف دینی پڑے ورنہ کسی کی جان یا کسی صحت ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا اس وقت آپ ذکر بھی کر سکتے ہیں ویسے ہنسی میں میںنصیحۃً کہا کرتا ہوں میرے پاس وہ قلم ہے جو سیاہی چوستی ہے یہ دیکھو کیسی اچھی قلم ہے کہ نو دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم پڑھیں تو اس میں سیاہی بھر جاتی ہے اب یہ صرف توجہ ہے یہ حقیقت پہچاننی چاہے کہ ہر وہ لمحہ جو ہم اس کی یاد میں گذار سکتے ہیں وہ اس کی یاد میں گذارنا چاہے یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے دنیا کے کاموں کیلئے ہمیں اجازت دے دی جب ایسے کام ہوں کہ تم اپنی زندگی کے لمحات خدا کی یاد میں نہ گذار سکتے ہو تو ان کاموں میں اسے رہنے دو لیکن جب وہ کام شروع ہوتا ہے اس سے معاً پہلے کا وقت خدا کی یاد میں گذرے اور جب وہ کام ختم ہوتا ہے اس کے معاً بعد کا وقت خدا کی یاد میں گذرے گا تو تمہارے اس وقت کو بھی ہم یہی سمجھیں گے کہ جیسے ہماری یاد میں گذرا ہے۔ ہمارا ربّ بڑا احسان کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
ایک اور ذمہ داری ایمان کی یہ بتائی کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:۵۷) کہ نبی کریمﷺ کی سنت کی اتباع کرنے والا اس حقیقت اور یقین پر قائم ہوتا ہے کہ آپ نے جو بھی کیا اس کے ذریعہ سے ہم پہ احسان کیا کیونکہ آپ نے جو بھی کیا جب ہم وہ کرتے ہیں تو خدا ہم پر راضی ہو جاتا ہے کتنا بڑا احسان ہے کہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھول دیا تو اے ایمان والو! تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم نبی کریمﷺ کے شکر گزار بندے بننے لگو آپ پر درود اور سلام بھیجتے رہو اس کے مقابلہ پر فرمایا لَاتَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ (البقرہ :۲۰۹) جب تم خدا کا بندہ بنتے ہوئے، اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کی عبودیت پر قائم ہو جائو گے اور ہر وقت اس کی عبادت اور اس کے ذکر میں مشغول ہوتے ہوئے اور نبی کریمﷺ پر درود اور سلام بھیج رہے ہو گے تو شیطان بہرحال تم سے خوش نہیں ہو گا اس واسطے وہ پوری کوشش کرے گا کہ تم بہک جائو اس لئے اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ شیطان کے قدم بقدم نہ چلو بلکہ جن راہوں کو شیطان خدا سے تمہیں دور لے جانے کے لئے اختیار کرتا ہے تم اس طرف ذرا بھی متوجہ نہ ہو بلکہ اپنے صراط مستقیم کو نہ چھوڑو۔
ایک اور تقاضا ایمان کا۔ یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (اٰلِ عمران: ۱۰۳) فرمایا کہ ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کیا جائے تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ بُری رذیل اور گناہ کی باتوں کو اس لئے چھوڑ دیتا کہ اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے اور نیکیوں کی راہوں کو بھی ترک کرنے سے اس لئے بچنا کہ نیکی کی راہ ترک کرکے بھی اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور جب شیطان حملہ آور ہو تو اس وقت خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لیتا ہے خداتعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے یہ ہیں تقویٰ کے معنی انسان کہہ سکتا تھا کہ میں کمزور ہوں میں شیطان کے حملوں سے کیسے بچوں گا خداتعالیٰ نے فرمایا میری پناہ میں آ جائو شیطان کے حملوں سے بچ جائو گے تو فرمایا کہ ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ تمہیں شیطان کے حملوں کا کامیابی کے ساتھ جواب دینا چاہئے چونکہ تم کمزور ہو اس کے حملوں کا کامیابی کے ساتھ جواب نہیں دے سکتے اس لئے ہم تمہیں یہ راستہ بتاتے ہیں کہ تم ہماری پناہ میں آ جائو ہمیں اپنی ڈھال بنا لو شیطان کا کوئی وار تمہارے خلاف کامیاب نہیں ہو گا بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اپنے بھائی کو راضی کر لوں اپنے بچے جوان ہیں پہلے میں ان کو تیار کر لوں کہ وہ اسلام لائیں پھر میں ہوں گا لیکن موت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا زندگی کا کیا اعتبار ہے ایک واقعہ ابھی ہماری زندگی میں ہوا ہے ایک شخص کو ہمارے ایک احمدی تبلیغ کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ میں استخارہ کروں گا اپنی کچھ شرائط کے ساتھ اگر مجھے علم ہوا کہ احمدیت سچی ہے تو میں ایمان لے آئوں گا چنانچہ انہوں نے استخارہ کرنا شروع کیا اور تیسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کو کہا گیا وہ سچا ہے وہ سچا ہے وہ سچا ہے انہیں کہا گیا کہ اب ایمان لائو تو وہ شخص کہنے لگا کہ نہیںایک خامی رہ گئی ہے میرے استخارہ میں میں چھٹی پر جا رہا ہوں اپنے وطن جب واپس آئوں گا تو پھر نئے رنگ میں اس خامی کو دور کرکے استخارہ کروں گا اور اگر پھر مجھے بتایا گیا تو میں ایمان لے آئو گا چنانچہ وہ چھٹی پر گیا لیکن واپس نہیں آیا وہیں اس کی وفات ہو گئی۔
تو جس وقت ہدایت کی راہیں کھل جائیں اس وقت ہدایت کو مان لینا بڑا ضروری ہے اور یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ میرے رشتہ دار یا بچے وغیرہ جو ہیں ان کو بھی میرے ساتھ آنا چاہئے پھر ان کی خاطر غلط راستوں کو بھی اختیار نہیں کرنا چاہئے مثلاً اگر باپ یہ کہے کہ نظام نے یہ پابندی تو لگائی ہے کہ سینما نہیں دیکھنا لیکن میرے بچے چونکہ ضد کر رہے ہیں اور میں ان کو روک بھی نہیں سکتا سینما دیکھنا ایک برائی ہو گی لیکن یہ یہاں کی بدصحبت میں چلے جائیں گے اور ایک روز برائی میں پھنس جائیں گے اس لئے میں ان کی حفاظت کے لئے سینما ساتھ چلا جاتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ(المائدہ :۱۰۶) کہ ہر شخص اپنی جان کی حفاظت کرے اگر کوئی دوسرا ہدایت نہیں پاتا اور یہ اپنی ہدایت اور حفاظت کا سامان کر لیتا ہے تو اسے ان لوگوں کی غلط روی نقصان نہیں پہنچائے گی ہر شخص کو اپنی حفاظت اپنی ہدایت کی فکر کرنی چاہئے اور وہ اس کا سامان کرے کن لوگوں کے لئے وہ ہدایت کو ٹھکرا دے اُخروی زندگی میں وہ کسی کام نہیں آئیں گے اس زندگی میں ان کا کوئی بھروسہ نہیں بڑے چائو سے باپ اپنے بچے کوپالتا ہے اس پر خرچ کرتا ہے پڑھاتا ہے بظاہر اس کی تربیت کرتا ہے پھر بھی خامی رہ جاتی ہے جب وہ بڑا ہوتا ہے کمانے لگتا ہے اپنے باپ کو پوچھتا بھی نہیں اس زندگی میں بھی کام نہیں آتا بعض شریف الطبع خدا کے خوف سے اپنے والدین کا احترام کرتے ہیں اور چھوٹے پر شفقت کرتے ہیں لیکن ایسے بھی تو ہیں جو اپنے ماں باپ کو نہیں پوچھتے اعتبار نہیں ہے اگر خدا فضل کرے تو نیک اولاد ہو خدمت گذار اولاد ہو اور اگر اس کے فضل کو یہ گم کر دیں اور اس کی رحمت سے محروم کر دئیے جائیں اپنی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں تو اس دنیا میں بھی کام نہیں آتے تو کون کس کسی کے کام آتا ہے لیکن ایک ذات ہے کہ اگر اس کے ساتھ تعلق ہو تو وہ ہر آن ہمارے کام آتی ہے اور وہ ہمارے ربّ کی ذات ہے اسے چھوڑ کے دنیا کے رشتے قائم کریں گے یہ تو مناسب نہیں ہے۔ فرمایا ایمان کا تقاضا یہ ہے اے مومنو! کہ عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ جان کی حفاظت کس طرح کی جائے یہ پہلے بھی آ چکا ہے لیکن یہاں ان دو کو علیحدہ دہرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ توبہ میں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۔ (التوبہ:۱۱۹)
اے ایمان والو! ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک تو اللہ کی پناہ میں آ جائو اور دوسرے لَایَضُّرُکُمْ مَّنْ ضَلَّ جو گمراہ ہیں ان کی صحبتوں سے پرہیز کرو اور اس کے مقابلہ میں جو خداتعالیٰ کی راہ میں صدق و صفا دکھانے والے ہیں ان کی صحبت میں رہ کر ان جیسا بننے کی کوشش کرو تم بھی صادق بن جائو وفا کا تعلق صدق کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم کرو اور چونکہ وہ ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے تمہیں ہدایت نصیب ہو جائے گی تمہارے لئے رحمت مقدر ہو جائے گی تو جہاں اس شخص کو چھوڑنا ضروری ہے جو غلاظت کی راہوں کو اختیار کرتا ہے وہاں اس سے تعلق اخوت اور تعلق محبت استوار کرنا بھی ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدق و صفا کا نمونہ دکھاتا ہے اور اس طرح ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے جماعت مومنین روحانی مقامات بلند سے بلند حاصل کرتی چلی جاتی ہے تو ایمان کا ایک اور تقاضا خلافت کو قائم کریں گے خلافت کو قائم رکھیں گے ایک مختصر سا فقرہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے بچے جو اس وقت سامنے بیٹھے ہیں ان کی کثرت اس کی روح کو سمجھ نہیں سکتی جب تک کہ ان کے سامنے کھول کر اور بار بار اسے بیان نہ کیا جائے ایک تو نظام خلافت کی حفاظت کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنی ارواح کی حفاظت کریں گے کیونکہ قرآن کریم میں جو خلافت کا وعدہ دیا گیا ہے وہ یہ نہیں کہ تم جو مرضی ہے بن جانا میں خلافت کا سلسلہ قائم رکھوں گا بلکہ وعدہ یہ دیا گیا ہے اس کے برعکس وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (النور:۵۶)کہ ایمان کے تقاضوں کو جب تک پورا کرتے رہو گے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرو گے کہ واقعی تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو اس میں وقت تک تم میں خلافت کا سلسلہ قائم رکھوں گا۔
ایمان کا ایک اور تقاضا۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ۔ (البقرہ :۱۵۴) ایمان کا دعویٰ کرنے والا اگر اپنے دعویٰ میں سچا اور پختہ ہے تو ایمان کے اس تقاضا کو پورا کرنا ہو گا کہ ثبات قدم کے ساتھ ایمان پر قائم رہتے ہوئے دعائوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد چاہو وہ تمہاری مدد کو آئے گا۔
ایک شخص نور کو چھوڑ کر ظلمت کو اختیار کرتا ہے ایک شخص سکون کی راہوں کو ترک کرتا اور دکھ اور عذاب کی راہوں کو اختیار کرتا ہے ایک شخص اپنے ربّ کی طرف پیٹھ کر لیتا ہے اور شیطان کی طرف چلنا شروع کر دیتا ہے وہ جو اسلام میں پیدا ہوا وہ جس نے بچپن سے قرآن کریم کی تعلیم کو سیکھا یہ بہت بڑا حادثہ ہے ایک وہ وقت تھا کہ اگر ایک آدمی اسلام سے مرتد ہو جاتا تھا تو قیامت بپا ہو جاتی تھی اور اب یہ حال ہے کہ سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کے بچے عیسائی ہو رہے ہیں اور کسی کو فکر نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے درد سے اس کو بیان کیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ زندہ قوموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت نہیں کیا جاتا کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ایک وقت میں عَذَابِ اَلِیْم کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں اور خداتعالیٰ کی درگاہ سے وہ انسان یا وہ قوم جو ان حالات کو دیکھتے ہوئے مدد چاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مدد کو آئے گا۔
ایک اور تقاضا یہ بتایا کہ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً (البقرہ :۲۰۹) کہ تم سب مل کر فرمانبرداری کے دروازہ کی حدود کے اندر آ جائو لیکن اس بات کا خیال رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص بھی ان حدود سے باہر نہ نکلے نہ نکلنے کی کوشش کرے تربیت کا اہم گر ان آیت میں بتایا گیا ہے یوں تو کہا کہ لَایَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُم (المائدہ :۱۰۶) لیکن یہ نہیں کہا کہ اگر تم ہدایت پا جائو تو جو لوگ ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں تمہاری کوششیں ان کے لئے بے نتیجہ نکلیں گی بلکہ یہ کہا کہ فرمانبرداری اور اطاعت کے دائرہ میں سارے کے سارے آ جائو جو کمزور ہیں کبھی غفلت سے کبھی لاپرواہی سے کبھی ہوائے نفس کے نتیجہ میں کبھی شیطان کے وسوسہ میں پھنس کر حدود سے باہر نکلنے لگتے ہیں ان کو وہاں سے پکڑو اور دائرہ کے اندر لے آئو تاکہ ساری قوم بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی وارث بنتی رہے۔ ایمان کا ایک تقاضا یہ فرمایا ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰـکُمْ (البقرہ :۱۷۳) یعنی تمہارے آج کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا میں بنی نوع انسان کے لئے جو رزق پیدا کئے ہیں ان میں سے تم ایسے رزق کو استعمال کرو جو جائز اور پاک راہوں سے تم نے حاصل کیا ہو اور وہ اسی قدر استعمال کرو جو تمہارے لئے جائز اور پاک ہو یہ دونو مفہوم طیبات کے اندر آ جاتے ہیں مثلاً زکوٰۃ ہے جب تک زکوٰۃ نہ نکالی جائے انسان کا اپنا کمایا ہوا مال اس کے لئے پاک نہیں بنتا فرض کرو خیرات ہے بھوکے کو کھانا کھلانے ہے ننگے کو کپڑے دینا ہے بیمار کے علاج کا انتظام کرنا ہے جب یہ تمام ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا وہ اگرچہ جائز اور پاک راہ سے مال کما رہا ہے لیکن جو خرچ کر رہا ہے وہ اس کے لئے جائز اور پاک نہیں ہے کیونکہ اس نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جو رزق ہم نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے ان میں صرف ان رزقوں کو اور صرف اس حد تک استعمال کرو جو جائز اور پاک راہوں سے حاصل ہوں اور جس حد تک تمہیں استعمال کی اجازت دی گئی ہو اور پھر تم یہ سمجھو کہ جو مال کمایا تو پاک راہ سے ہے لیکن جس کا استعمال طیب نہیں ہے اس کو خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت خرچ کرو۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ (البقرہ:۲۵۵) ہمارے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تم اسے خرچ کرو اشاعت اسلام کے لئے قرآن کریم کے تراجم کے لئے، اسلام کے احیاء کے لئے اور استحکام کے لئے، ہزار راہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس حد تک استعمال جائز ہے اپنے مالوں میں سے ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اس میں بھی مضمر ہو گی لیکن جو راہیں ہم بتاتے ہیں تو جب ان راہوں پر تم خرچ کرو گے تو تمہارے لئے یہ طیب ہو گا۔ فرمایا کہ جب ہمارے کہنے کے مطابق تم مال کو خرچ کرو گے اور اس خرچ میں سے مستحق کو دو گے تو پر شیطان آ جائے گا وہ کہے گا کہ یہ خدا کا بندہ تو ثواب حاصل کر رہا ہے وہ ہمارے دل میں مختلف وسوسے پیدا کرے گا اس سے ہوشیار رہنا۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی۔ (البقرہ :۲۶۵) یاد رکھنا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی مستحق کو تم نے مال دیا خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے تو اس پر احسان کبھی نہ جتلانا اور اگر تم نے خدا کی رحمت کے وارث بننے کے لئے اپنے مال سے کچھ دیا ہے تو کبھی کوئی ایسا طریق نہ اختیار کرنا جو اسے تکلیف پہنچائے میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بعض گھرانوں کے لوگ بعض مستحقین کی کچھ مدد کرتے ہیں لیکن بعد میں یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ سارا دن ان کے کام میں بغیر تنخواہ کے لگے رہیں یا ان کو خوشامد کریں یہ ان کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے ایک حکم کی تعمیل جو تم کرو گے اور اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ پر عمل کرو گے تو شیطان تمہیں تمہارے نیک عمل کو ثواب سے محروم کرنے کے لئے تمہارے دل میں وسوسے اور شیطنت کے خیالات ڈالے گا اور کہے گا بڑا احسان کیا ہے تم نے اس شخص پر اس کا فرض ہے کہ شکر کے طور پر اب تیری خدمت میں لگ جائے شیطان کے اس قسم کے وسوسوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھو یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک اور تقاضا ایمان کا یہ ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا (الاحزاب:۷۱)اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو ایمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں اپنے آپ کو لے آئو اور تم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ نہیں سکتے جب تک سچی اور سیدھی بات نہ کہو خالی سچی نہیں اسلام نے یہ نہیں کہا کہ سچی بات کہو کیونکہ نبی کریمﷺ نے بہت سی باتوں کے متعلق فرمایا کہ یہ نہ کہو مثلاً غیبت ہے سچی بات ہے لیکن کہا ہے کہ مت کرو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام کا حکم ہے سچی بات کہو میں تو ہر جگہ یہ بات کروں گا کیونکہ یہ سچی ہے قرآن کریم نے خالی یہ نہیں کہا کہ سچی بات کرو قرآن کریم نے کہا ہے کہ سچی اور سیدھی بات کرو تو ہم کہیں گے یہ سیدھی ہے ہی نہیں کیونکہ اسلام نے منع کیا ہے ہر وہ چیز جس کو اسلام منع کرتا ہے وہ صراط مستقیم کا حصہ نہیں بن سکتی تو سیدھی نہیں ہے ہمیں اللہ نے اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اے ایمان والو! اللہ کی حفاظت میں آئو اور اللہ کی حفاظت میں تم آ نہیں سکتے جب تک تم سچی اور سیدھی بات نہ کرو میں نے دیکھا ہے بہت سے آدمیوں کی یہ عادت ہو جاتی ہے ٹیڑھی بات کرنے کی بے فائدہ بھی کرتے ہیں ایک ہمارے دوست تھے ان کی اس طرح عادت تھی ایک دفعہ میں نے مذاق میں کہا کہ یہ آپ نے کیا عادت ڈالی ہوئی ہے اصلاح کریں اپنی اور میں نے کہا کہ آپ کی عادت ایسی بن گئی ہے کہ یہ سرخ ٹوپی جو پہنی ہوئی ہے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اس ٹوپی کا رنگ کیا ہے تو آپ ایک فقرے میں جواب نہیں دیں گے کہ اس کا رنگ سرخ ہے بلکہ کوئی اور کہانی شروع کر دیں گے اور بعد میں رنگ بتائیں گے اتنی تمہید کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ اچھا آپ بتائیں اس ٹوپی کا رنگ کیا ہے تو پھر انہوں نے کہانی شروع کر دی اس وقت میں نے ان کو توجہ دلائی تو عادت پڑ چکی تھی اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے احتیاط کرنی چاہئے کہ انسان کو غلط عادتیں نہ پڑیں پھر ان کو چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے ابتداء ہی میں اگر ہم اچھی عادتیں ڈالنے کی کوشش کریں تو ہمارے لئے اتنا مشکل نہیں لیکن بُری عادتیں پڑ جانے کے بعد انہیں چھوڑنا نسبتاً بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ قول سدید ہو سچی اور سیدھی بات ہو پھر فرمایا کہ ایمان کا ایک اور تقاضا یہ ہے ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَیَسْخَرْقَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ (الحجرات :۱۲)کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا تمسخر نہیں کرنا ایمان کا ایک اور تقاضا یہ بتایا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظُّنِّ (الحجرات:۱۳) بدی ظنی سے بچتے رہنا ایک اور ایمان کا تقاضا یہ بتایا کہ یٰٓاَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تُقُوْلُوْنَ مَالَا تَفَعَلُوْنَ۔ (الصف :۳)نمائش کرنے والے اپنی طرف ایسی نیک باتیں بھی منسوب کر دیا کرتے ہیں جو حقیقتہ ان کا حصہ نہیں ہیں اس سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ رحمت کے دروازے تو اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادے سے کھلتے ہیں اگر ساری دنیا کسی ایک انسان کے لئے اللہ کی رحمت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی تو غلط کریڈٹ لینا اس سے کوئی فائدہ نہیں انسان نے انسان کو کیا دیتا ہے اگر خداتعالیٰ کا منشا نہ ہو اور اگر خدا نے دینا ہے تو وہ ضرور دے گا اسے معلوم ہے کہ تم نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا ایمان کا ایک اور تقاضا یہ فرمایا۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ (الصف :۱۵)ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی اس رنگ میں گذرے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ کے دین کو استحکام اور اس کی اشاعت کے سامان پیدا ہوں اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا اسلام لانے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس اسلام کے استحکام کے جذبات اس کے دل میں نہیں اور اشاعت اسلام کی کوشش اس کے اعمال کا حصہ نہیں تو پھر وہ مومن کیسا وہ ایمان کیسے لایا تو فرمایا کہ تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم انصاراللہ بنو اگر حقیقتاً تم اللہ کے دین کے مددگار نہیں ہو گے تو تمہیں رحمت الٰہی نصیب نہیں ہو گی جیسے دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ کی نصرت انہیں لوگوں کو ملتی ہے جو اس کے دین کی نصرت میں ہر وقت لگے رہتے ہیں فرمایا انصاراللہ بننے میں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد روک بنے گی شیطان تمہارے اپنے ہاتھ سے محنت سے بلکہ محنت شاقہ سے کمائے ہوئے اموال کو اور تمہاری محبوب اور پیاری اولاد کو بڑے اچھے بچوں کو تمہارے ایمان کے راستہ میں روک بنانے کی کوشش کرے گا تو تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم شیطان کی اس چال میں نہ آئو فرمایا۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَا اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (المنافقون :۱۰) اموال کو شیطان ذریعہ بنائے گا اور اولاد کو بھی شیطان ذریعہ بنائے گا اس بات کا خدا کا ایک بندہ اپنے ربّ کو بھول جائے اور اس کے ذکر سے غافل ہو جائے اور ربّ کے ذکر سے غافل ہو گا وہ انصاراللہ کیسے بنا تو فرمایا کہ ہر وقت چوکس اور بیدار رہو اگر شیطان مال کے رخنہ سے تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا چاہے یا اگر شیطان تمہارے بچوں کو تمہارے روحانی اموال لوٹنے کے لئے بطور چور کے استعمال کرنا چاہے تو اس کو اس میں کامیاب نہ ہونے دینا بلکہ کوشش یہ کرنا کہ تمہارا اموال شیطان کو شکست دینے والے اور تمہارے بچے شیطان کے خلاف صف آرا ہونے والے ہوں یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں اور انتخاب بھی صرف ان آیات کا کیا ہے جن میں مومن کو مخاطب کرکے ایمان کا تقاضا بتایا ہے بڑی وضاہت کے ساتھ تو بنیادی چیز اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے یہ ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی معرفت کو حاصل کریں اور جو شریعت ہماری روحانی تقلید کے لئے اس نے نازل کی ہے اور جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اس کی بہترین رحمتوں کے وارث بن سکتے ہیں اس شریعت پر چلنے والے ہوں اور جس نے محمدﷺ کو ساری دنیا کے لئے بطور ایک نمونہ کے پیدا کیا اور مبعوث کیا آپ کے اُسوہ کے مطابق اور آپ کے اُسوہ کی اتباع کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ یعنی ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ اس کی رحمت کے سارے ہی دروازے ہمارے لئے کھل جائیں اور یہ اس کی توفیق سے ہو سکتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں تمہیں دُکھ اور تکالیف پہنچائی جائیں تو تم صبر کا ایسا نمونہ دکھاؤ جو معجزانہ رنگ رکھتا ہو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳ ؍ستمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف تدبیر کو پیدا کیا ہے بلکہ جو شخص تدبیر کو پسند نہیں کرتا اسے اللہ تعالیٰ کی نگاہ پسند نہیں کرتی۔
٭ غذا ہضم ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو تو تھوڑی اور زیادہ غذا کا فرق نہیں پڑتا۔
٭ اصل چیز صحت ہے اور کام کی توفیق جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
٭ کبھی ظالم بننے کی کوشش نہ کرو، کبھی کسی پر ظلم نہ کرو۔
٭ کبھی بھی دنیا میں فساد پیدا نہ کرو، ایذاء کے مقابلہ میں ایذاء اور گالی کے مقابلہ میں گالی نہ دو۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے اور ہر شفا کا منبع اس کی ذات ہے اس نے اپنے فضل اور رحم سے مجھے شفا عطا فرمائی ہے۔ اَلحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَدوست بڑی محبت اور عاجزی سے دعائیں کرتے رہے ہیں میں بھی دعائوں میں لگا رہا اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ہماری دعائوں کو قبول کیا اور ایسے رنگ میں قبول کیا کہ ظاہری آنکھ اسے ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتی۔ جس وقت میں یہاں سے گیا تھا میری طبیعت بہت خراب تھی شکر کا نظام درست نہیں تھا اس کے علاوہ (جیسا کہ وہاں جا کر پتہ لگا اور گزشتہ سال جب میں یورپ کے دورہ پر گیا تو وہاں کے ایک ڈاکٹر نے بھی کہا تھا کہ خون میں یورک ایسڈ کی زیادتی ہے اس کی فکر کرنی چاہئے) پیشاب میں یورک ایسڈزیادہ ہو گیا تھا پھر پیٹ میں تکلیف تھی جو ٹیسٹ میں ظاہر ہوئی۔
کراچی میں ایک ڈاکٹر ہیں جن کا نام ڈاکٹر سید شوکت ہے ان کا میں نے علاج کے لئے انتخاب کیا تھا اس لئے کہ ان سے بے تکلفی ہے اور وہ بہت تعلق رکھتے ہیں میں ہر بات بغیر حجاب کے ان سے کر سکتا تھا چنانچہ جب پہلے دن وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے انہیں کہا کہ میں اپنے احساس کے لحاظ سے ان بیماریوں اور تکالیف کا آپ سے ذکر کروں گا جن میں سے میں گزرا ہوں آپ خاموشی سے میری بات سنتے رہیں اور جو بات نوٹ کرنے والی ہو وہ نوٹ کر لیں چنانچہ میرا خیال ہے کہ قریباً چالیس منٹ یا پچاس منٹ میں نے اپنے احساس کے مطابق اپنی تکالیف بیان کیں ان کے ایک نائب ان کے ساتھ تھے وہ بعض باتیں نوٹ کرتے رہے پھر انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے ضرورت سے زیادہ خوراک کم کر دی ہے اور اس طرح ممکن ہے کہ ہمیں بیماری کا صحیح پتہ نہ لگے اس لئے آپ کل سے ٹیسٹ نہ کروائیں بلکہ آپ دو تین دن اپنے معمول کے مطابق کھانا کھائیں جو چیز پسند ہے وہ کھائیں اور میٹھا بھی کھائیں ان اشیاء کا استعمال کریں جو آپ عام طور پر کرتے ہیں اس کے بعد ہم ٹیسٹ لیں گے چنانچہ دو تین دن کے بعد وہ آئے اور جب انہوں نے خون اور قارورہ کا ٹیسٹ لیا تو جو شکل بنی وہ یہ تھی۔
نہار قارورہ میں اڑھائی فیصد شکر
گلوکوز پینے کے نصف گھنٹہ کے بعد ۳ فیصد شکر
ایک گھنٹہ کے بعد ساڑھے تین فیصد شکر
ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ساڑھے تین فیصد شکر
اور خون کی یہ شکل بنتی تھی کہ
نہار ۹۵ کی بجائے ۲۱۰ گلوکوز
آدھا گھنٹہ کے بعد ۳۴۵ گلوکوز
ایک گھنٹہ کے بعد ۳۷۰ گلو کوز
ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ۳۴۵ گلو کوز
دو گھنٹے کے بعد ۲۸۰ گلو کوز
اور عام حالات میں معمول کے مطابق خون میں گلوکوز کی مقدار ۹۵ ہے اس کو ٹالرینٹ ٹیسٹ کہتے ہیں غرض یہ گراف بنا جو میں نے بیان کر دیا ہے۔
چونکہ ڈاکٹر صاحب مجھ سے تعلق رکھنے والے ہیں اس لئے جب وہ دوبارہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو یہ رپورٹیں ان کی کاپی میں لکھی ہوئی تھیں اور جو میں نے اپنی ہسٹری انہیں بتائی تھی یعنی میں نے بتایا تھا کہ میں فلاں فلاں بیماری میں سے گزرا ہوں اس کا خلاصہ بھی انہوں نے نوٹ کیا ہوا تھا اس کے مطابق انہوں نے کھانے کے متعلق ایک چارٹ بھی تیار کیا ہوا تھا اور سارے ٹیسٹ جو ہوئے تھے ان کے نتائج بھی ان کی کاپی میں درج تھے ۔
ڈاکٹر صاحب بڑے دکھ سے مجھے کہنے لگے کہ اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ذیابیطس بیماری کی شکل اختیار کر گئی ہے اور یہ دوا ہے آپ اسے استعمال کریں ہر چار دن کے بعد ہم خون کا ٹیسٹ لیا کریں گے اور دیکھیں گے کہ دوا کھانے کے بعد آپ کو کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں میں نے کہا ٹھیک ہے اگر ذیابیطس بیماری کی شکل میں آ گئی ہے تو دوا استعمال کرنی چاہئے لیکن یہ کوئی ایسی بیماری تو نہیں کہ اگر ایک دن دوا استعمال نہ کی جائے تو زیادہ ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لئے آپ مجھے اجازت دیں کہ ذیابیطس کی جو دوا آپ مجھے بتا رہے ہیں وہ پہلے چار دن میں استعمال نہ کروں باقی کھانے کا جو پرہیز آپ بتا رہے ہیں وہ میں کروں گا اور جو دوسری ہدایتیں آپ نے مجھے دی ہیں ان پر بھی میں عمل کروں گا کیونکہ میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ مجھے ذیابیطس بیماری کی شکل میں نہیں گو ڈاکٹر کی حیثیت سے میں یہ بات نہیں کر سکتا طب کے ماہر تو آپ ہی ہیں غرض میں نے کہا کہ اگر کوئی ہرج نہ ہو تو میرا خیال ہے کہ میں چار دن دوائی نہ کھائوں ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ بے شک پہلے چار دن دوائی نہ کھائیں چنانچہ میں نے پہلے چار دن ذیابیطس کی دوائی استعمال نہ کی ہاں یورک ایسڈ کی زیادتی کی جو دوا تھی وہ میں نے کھائی اسی طرح پیٹ کی خرابی کیلئے جو دوا ڈاکٹر صاحب نے مجھے دی اس کا استعمال بھی میں نے کیا یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف تدبیر کو پیدا کیا ہے بلکہ تدبیر کے استعمال کا حکم بھی دیا ہے اور جو شخص تدبیر کو پسند نہیں کرتا اسے اللہ تعالیٰ کی نگاہ پسند نہیں کرتی اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ میں نے دوائی نہیں کھائی تو میری مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ایلو پیتھی کی دوائی جو ان ڈاکٹر صاحب نے بتائی جن کے میں زیر علاج تھا وہ میں نے نہیں کھائی ویسے ہومیو پیتھک کی دوائی میںکھا رہا تھا اور جدوار بھی میں استعمال کر رہا تھا حبّ جدوار شکر کے لئے بڑی اچھی چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً بھی بعض بیماریوں کے لئے یہ نسخہ بتایا گیا تھا۔
بہرحال میں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ نظارہ دیکھا کہ چار دن کے اندر قارورہ کی شکر جو نہار اڑھائی فیصد تھی اس مقدار سے گر کر اس کے معمولی آثار باقی رہ گئے اور اتنی کم رہ گئی کہ فیصد کے حساب سے اس کی پیمائش کرنا بھی مشکل ہے اور خون کی شکر (گلوکوز) ۲۱۰ سے گر کر ۱۳۵ پر آ گئی جب اتنی جلد فرق پڑا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ابھی دوائی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا ہے ہر چار دن کے بعد ٹیسٹ ہوتا تھا آخری ٹیسٹ انہوں نے ہمارے آنے سے پہلے جمعرات کو تجویز کیا تھا ہم نے وہاں سے ہفتہ کی شام کو چلنا تھا لیکن جمعرات سے ایک یا دو روز (اغلباً ایک دن) پہلے میں نے جان بوجھ کر کچھ بے احتیاطی کی یعنی میٹھا کھا لیا اور کچھ عدم علم کی وجہ سے بے احتیاطی ہو گئی میری بیٹی نے مجھے کہا کہ میں نے بغیر میٹھے کی آئس کریم تیار کی ہے میں نے کہا اچھی بات ہے کھا لیتے ہیں اس نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے اس میں مصنوعی میٹھا ڈالا ہے چنانچہ میں نے وہ آئس کریم کھا لی لیکن بعد میں وہ کہنے لگی کہ میں نے اس میں تھوڑا سا میٹھا بھی ڈالا تھا اس طرح میٹھا اندازہ سے زیادہ ہو گیا اور ابھی پوری طرح آرام بھی نہیں آیا تھا گو اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تھا مگر بیماری ابھی کنارے پر کھڑی تھی اس لئے جمعرات کو شکر نہار ۱۳۰ ہو گئی ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے دو دن آپ پورا پرہیز کر لیں ہم ہفتہ کے روز آخری ٹیسٹ لے لیں گے نہار بھی اور کھانے کے دو گھنٹے بعد بھی چنانچہ ہفتے کے روز ٹیسٹ ہوا تو نہار شکر ۱۱۳ تھی اور کھانے کے دو گھنٹے بعد(جو ڈاکٹر صاحب کے کہنے کے مطابق ۱۴۰ بھی ہوتی تب بھی ٹھیک تھا یہ مقدار نارمل ہے بیماری کی شکل نہیں) وہ اتنی گر گئی تھی کہ کھانے کے بعد دو گھنٹے بعد جو ٹیسٹ ہوا اس میں وہ ۹۵ تھی۔
اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ذیابیطس کی تکلیف بھی دور ہو گئی اور پیٹ کی تکلیف جو تھی اس کی دوائی میں نے کھائی تو اس میں بھی فرق پڑ گیا لیکن دو چار دن کے بعد وہ بیماری پھر عود کر آئی چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ دوائی دی جس کا سات دن کا کورس کل ہی ختم ہوا ہے اس سے تکلیف میں پھر فرق پڑ گیا ہے اللہ تعالیٰ چاہے اور وہ ہماری دعائوں کو قبول کر لے تو وہ اپنے فضل اور رحمت سے اس بیماری کو بھی دور کر دے گامیری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ شکر کا نظام خراب ہو جانے کی بڑی وجہ یہ تھی (واللہ اعلم)کہ ایک تو مجھ پر نقرس کا حملہ ہوا تھا اور دوسرے پیٹ کی تکلیف تھی کیونکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ جن دنوں (ٹیسٹ کے دوران) یورک ایسڈ سب سے کم ہوا اس وقت میری شکر بھی سب سے کم تھی اور اس وقت پیٹ کی تکلیف بھی نہیں تھی بعد میں ڈاکٹر صاحب نے نقرس کی دوائی کی مقدار کم کر دی یعنی دو گولیاں روزانہ کی بجائے ایک گولی کر دی تو یورک ایسڈ پھر کچھ بڑھ گیا اور پیٹ کی تکلیف بھی عود کر آئی تھی اس لئے شکر بھی کچھ زائد ہو گئی۔
اب ڈاکٹر صاحب نے جو تشخیص کی ہے وہ یہ ہے کہ بیماری ذیابیطس نہیں لیکن طبیعت کا رجحان اس طرف ہے اگر بے احتیاطی ہوئی تو خون میں شکر کا معیار بڑھ جائے گا اور بیماری کی شکل بن جائے گی اس لئے کھانے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے کچھ احتیاط تو وہ ہے جو کھانے کی مقدار کے متعلق ہے مثلاً ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ دوپہر کے کھانے پر ڈیڑھ چھٹانک رات کے کھانے پر ایک چھٹانک اور صبح ناشتہ پر ۵؍۲ چھٹانک تک آٹا کھایا جائے اور یہ مقدار سب سے زیادہ ہے یعنی اس سے زیادہ نہ کھایا جائے اور اگر دوائی کھانی ہو تو اتنا ضرور کھایا جائے لیکن دوائی کی ضرورت نہیں پڑی میں نے سوچا جب اس ہدایت پر عمل کرنا ہے تو پھر پورا عمل کرنا چاہئے۔ چنانچہ ایک ترازو منگوایا گیا اور اونس کے بٹے بھی ڈیڑھ چھٹانک (تین اونس) آٹا تولا گیا اور اس کی چپاتیاں بنوائی گئیں ہمارا اپنا باورچی ساتھ تھا اس نے وہ چپاتیاں بنائیں دو آدمی مقرر کئے گئے کہ دیکھیں آٹا کی مقدار میں زیادتی نہ ہو جائے بے احتیاطی نہ ہو جائے باورچی نے اس آٹا سے چار چپاتیاں بنائیں اور میں سالہا سال سے دو سے زیادہ چپاتیاں کبھی کھاتا نہیں تھا بعض ڈاکٹروں نے جو احتیاطی غذا بتائی تھی اس سے نصف خوراک میرے معمول کے مطابق ہے اللہ تعالیٰ ہی فضل کرتا ہے اصل میں غذا ہضم ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو تو تھوڑی اور زیادہ غذا کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب ڈاکٹروں نے ہدایت دی ہے کہ بیماری نے جو وزن کم کیا ہے صحت وہ وزن بڑھائے نہ بیماری کے دوران مہینہ سوا مہینہ میں میرا ۳۰، ۳۵ پونڈ وزن کم ہو گیا تھا اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اب ضعف دماغ بھی نہیں جسم کا بوجھ بھی نہیں کام میں اپنا پورا کرتا ہوں الحمدللہ وزن بھی اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اگر کبھی ایک پونڈ بڑھ جائے تو میں خوراک کم کر دیتا ہوں لیکن جس طرح ذیابیطس کی ٹنڈنسی (Tendency) اپنی ایک حد پر آ کر ٹھہر گئی ہے اسی طرح میری غذا بھی اس حد پر جو کم سے کم ہو سکتی ہے ٹھہری ہوئی ہے ۴؍۳ چھٹانک آٹا میری معمول کی غذا ہے سوائے اس کے کہ شکار یا غیر معمولی ورزش ہو تو اس وقت زیادہ بھوک لگتی ہے اور ۴؍۳ چھٹانک آٹا کی غذا کو کہاں تک کم کیا جا سکتا ہے ویسے یہ ہو سکتا ہے کہ تین چار دن تک آٹا نہ کھایا جائے اور ان دنوں میں بعض ایسی چیزوں پر گزارہ کر لیا جائے جن میں سٹارچ (Starch) نہیں ہوتا بہرحال ڈاکٹروں نے مجھے ہدایت دی ہے کہ وزن بڑھنا نہیں چاہئے اصل چیز تو صحت ہے کام کی توفیق ہے جو اللہ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے یہ چیزیں شامل حال رہیں تو مٹی کے ڈھیر کو ساتھ چمٹائے رکھنے سے کیا فائدہ اور نہ اس سے پیار ہے۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جس حال میں بھی رکھے اپنی رحمت میں رکھے اور توفیق عطا فرماتا رہے کہ وہ ذمہ داری جو اس نے اس عاجز اور کمزور کندھوں پر ڈالی ہے اس کے پورا کرنے کا جو حق ہے وہ ادا ہوتا رہے۔
ایک چیز اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت ذہنی پریشانی یا افکار ہوں تو خون میں شکر زیادہ ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ انسان افکار میں مارا ہی نہ جائے لیکن جب جسمانی ورزش کی جائے تو شکر کم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ استعمال میں آ جاتی ہے اب میرے جیسے آدمی کو تو افکار سے چھٹکارا نہیں مثلاً گھانا میں کسی احمدی کو تکلیف پہنچے تو ساتھ ہی مجھے بھی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے امریکہ میں کسی احمدی کو کوئی تکلیف پہنچے یا یورپ میں کوئی احمدی تکلیف میں ہو یا پریشان ہو یا فجی کے جزائر یا آسٹریلیا میں کوئی احمدی پریشان ہو (دنیا کے ہر ملک میں خداتعالیٰ کے فضل سے اس وقت احمدی موجود ہیں اور جہاں جہاں بھی احمدی ہیں وہاں اگر ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچے) تو مجھے بھی ساتھ ہی پریشان ہونا پڑتا ہے اور پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے دل میں ڈالی ہے جب انسان بہکتا ہے جب انسان اپنے لئے مصیبتوں کے سامان پیدا کرتا ہے جب انسان اپنی تباہی کی راہوں کو اختیار کرتا ہے تو یہ ساری چیزیں ہمارے دلوں میں فکر پیدا کرتی ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھک سکتے ہیں اور اس کے حضور ہی ہم جھکتے ہیں کبھی انسان خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ کو چھوڑتا ہے کبھی انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اشیاء کے صحیح استعمال کو چھوڑتا ہے ہر دو صورتوں میں وہ اپنے لئے تکلیف دکھ اور تباہی کے سامان پیدا کرتا ہے اور ان سب باتوں سے بہر حال مجھے بھی پریشان ہونا پڑتا ہے اور مجھے ان سے تکلیف ہوتی ہے اور یہ چیز میرے جسم میں شکر کے نظام میں خرابی کا باعث بنتی ہے بہرحال اس زندگی میں تو اس سے چھٹکارا نہیںاس لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو بھی اور جماعت کو بھی بحیثیت جماعت اور بنی نوع انسان کو بحیثیت انسان تباہیوں، دکھوں اور پریشانیوں اور ہلاکتوں سے محفوظ رکھے تاکہ ہماری فکر نسبتاً کم ہو جائے جہاں تک جماعت اور اس کے افراد کا تعلق ہے یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے مطابق جو اس نے قرآن کریم میں دیا ہے ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ نہیں دیا کہ ہر حالت میں میں تمہارے لئے خیر اور برکت اور فضل اور رحمت کے سامان پیدا کروں گا۔
ہم سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر ہم اس کی راہ میں اذیتوں کو برداشت کریں گے اور اس کی راہ میں پیش آنے والے ابتلائوں اور امتحانوں میں پورا اتریں گے اگر ہم اس کی خاطر اپنے نفسوں کو مشقت میں ڈالیں گے اور بشاشت کے ساتھ دکھوں کو قبول کریں گے اور قضا و قدر پر راضی رہیں گے اور اس کی نعمتوں کو اس طرح یاد رکھیں گے کہ یہ دکھ اور یہ ابتلاء کوئی حیثیت ہمارے لئے نہیں رکھتیں اور قربانی اور ایثار اور فدائیت کا نمونہ دکھائیں گے تب ہم اس کی بشارتوں کے حامل ہوں گے تب ہم اس کے قرب کی راہوں کو پائیں گے تب وہ ہدایت کے سامان ہمارے لئے پیدا کرے گا تب وہ ہمیں اپنی رضا کی جنتوں میں لے جائے گا۔ غرض جہاں تک ہمارا تعلق ہے اس نے ہمارے روحانی درجات کو بلند کرنے کے لئے اور اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرنے کے لئے ہمارے لئے دکھوں اور دردوں اور مشقتوں اور ایذاء کے سامان پیدا کئے ہیں اس ایذاء کی ہمیں بشارت دی گئی ہے اس دکھ اور درد اور پریشانی کی ہمیں بشارت دی گئی ہے کیونکہ وہ مصیبت جو اطمینان کو ہلاک کر دیتی ہے اور اسے کسی نعمت کا وارث نہیں بناتی وہ تو ہلاکت ہے وہ دکھ اور درد جو دکھ اور درد کی حیثیت میں ہی ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو جذب نہیں کرتا وہ دکھ یقینا دکھ اور درد ہی ہے لیکن وہ دکھ اور درد اور وہ مصیبتیں اور تکلیفیں اور مشقتیں جو انسان اپنے ربّ کو راضی کرنے کے لئے برداشت کرتا ہے اور جب اپنی یہ قربانیاں خلوص نیت کے ساتھ اس کے حضور پیش کر دیتا ہے تب وہ عظیم الشان بشارتیں جو اسے دی گئی ہیں اس کے حق میں پوری ہوتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں کا وارث بن جاتا ہے غرض یہ دکھ تو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمیں بہت سی بشارتیں بھی دی گئی ہیں۔
آج کل بھی ایک ابتلاء کا زمانہ جماعت پر ہے اور وہ اسی بشارت کے مطابق ہے جو قرآن کریم نے ہمیں دی تھی لیکن قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ فساد پھیلانے کی کبھی کوشش نہ کرنا وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ (القصص: ۷۸) اس لئے کہ اگر قانون شکنی کے نتیجہ میں اگر بدی کے مقابلہ میں بدی کرنے کے نتیجہ میں اگر امن کو برباد کرنے کے نتیجہ میں فساد پیدا ہو گا اور تم اس کے ذمہ دار ہو گے تو یاد رکھو کہ تم خداتعالیٰ کی محبت سے محروم کر دئیے جائو گے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(القصص: ۷۸) کیونکہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے پیار نہیں کیا کرتا پس اگر تم اس محبت الٰہی کو جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں عطا کی ہے اپنے پاس مضبوطی سے پکڑے رکھنا چاہتے ہو اگر تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر اس کی غضب کی نگاہ پڑے تو یہ یاد رکھو کہ فساد پیدا کرنے کا ذریعہ کبھی نہ بننا فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرنا بلکہ فسادی کے مقابلہ میں ایسا نمونہ دکھانا کہ اس کے مفسدانہ ارادے ناکامیوں کا منہ دیکھیں۔
ہمیں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (المائدہ:۵۲) ظالم نہ بننا۔ مظلوم کی زندگی گزارنے کی کوشش کرنا کیونکہ جو ظالم بن جاتا ہے یا جو گروہ یا فرقہ ظالم ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہدایت کی راہوں کے سامان پیدا نہیں کیا کرتا اور جس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ ہدایت کی راہوں کے سامان پیدا نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہو سکتا وہ اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا اس کی زندگی ایک کامیاب انسان کی زندگی نہیں کہلا سکتی اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کامیاب ہوا اور فلاح اس نے حاصل کی کیونکہ اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ(یوسف :۲۴) ظالم لوگ وہ فلاح حاصل نہیں کیا کرتے جس فلاح کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مظلوم کے لئے، مومن کے لئے، قربانی اور ایثار کے نمونے دکھانے والوں کے لئے، اس کی راہ میں دکھ اور درد اور مشقت برداشت کرنے والوں کے لئے دیا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ جب یہ کہا گیا کہ ظالم فلاح حاصل نہیں کر سکتے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظٰلِمِیْنَ (شوریٰ :۴۱) وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم کر دئیے جاتے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی محبت تمہیں حاصل رہے اور تمہیں وہ کامیابی حاصل ہو جس کامیابی کا وعدہ قرآن کریم نے تمہیں دیا ہے تو یاد رکھو کہ یہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل اور رحم سے ہدایت کے سامان پیدا نہ کر دے پس کبھی ظالم بننے کی کوشش نہ کرو، کبھی کسی پر ظلم نہ کرو، کبھی ایسے حالات پید انہ کرو کہ دنیا میں، تمہارے ملک یا علاقہ یا شہر اور گائوں میں فسادات پیدا ہو جائیں ہر دکھ کو خدا کیلئے برداشت کرو کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے وَاُوْذُوْا فِيْ سَبِیْلِیْ۔(آل عمران:۱۹۶) جو لوگ اس کی راہ میں ایذا اُٹھاتے ہیں تکلیفیں برداشت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے رضا کی جنت کے سامان پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی بہترین جزا دینے والا ہے۔
پس یہ تو صحیح ہے کہ ہم سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ہمارے مالوں میں بھی امتحان اور ابتلاء کے سامان پیدا کئے جائیں گے اور جانوروں کے متعلق بھی اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری راہ میں بہت دکھ دینے والا کلام سنو گے اور جب تم یہ دکھ دینے والا کلام سنو یا دیواروں پر دکھ دینے والی باتیں لکھی ہوئی دیکھو تو یہ یاد رکھو کہ جنہوں نے میری رضا کی جنت حاصل کرنی ہواُوْذُوْا فِيْ سَبِیْلِیْجب انہیں میری راہ میں اذیتیں پہنچائی جائیں تو انہیں صبر کرنا چاہئے اور صبر کا نمونہ اس قسم کا دکھانا چاہئے کہ وہ معجزانہ رنگ اپنے اندر رکھتا ہو یعنی دنیا یہ دیکھ کر حیران ہو کہ اگر اس سے نصف گالیاں بھی دوسروں کو دی جاتیں تو وہ فساد پیدا کر دیتے اور اپنے علاقہ میں قوم کا امن برباد کر دیتے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو کہ ان لوگوں کو اذیتیں دی جاتی ہیں گالیاں دی جاتی ہیں پھر ان ہستیوں کو بھی جنہیں یہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز اور پیاری سمجھتے ہیں گالیاں دی جاتی ہیں ان کے دلوں کو، ان کے جذبات کو چھلنی چھلنی کر دیا جاتا ہے لیکن یہ لوگ اُف نہیں کرتے، مقابلہ پر نہیں آتے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتے فساد پیدا کرنے کی جب کوشش کی جاتی ہے تو یہ اس فساد کی آگ پر تیل نہیں پھینکتے بلکہ اپنے آنسوئوں کا پانی اس کے اوپر پھینکتے ہیں اور اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غرض ایذائیں دئیے جانے کا بھی وعدہ ہے اور جان و مال کے ذریعہ امتحان لینے کا بھی وعدہ ہے خوف کے سامان پیدا کرنے کا بھی ہم سے وعدہ ہے بھوکے رکھے جانے کا بھی ہم سے وعدہ ہے کوششوں کے بے نتیجہ نکلنے کا بھی ہم سے وعدہ ہے اور میں ان تمام دکھوں اور تکلیفوں اور اذیتوں کو وعدہ اس لئے کہتا ہوں کہ محض اتنا نہیں کہا گیا کہ تمہارے لئے خوف کے حالات پیدا کئے جائیں گے محض یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارے مالوں کو غصب کرنے کے منصوبے بنائے جائیں گے اور اس طرح تمہیں ابتلاء پیش آئیں گے اور تمہاری جان کو نقصان پہنچایا جائے گا یا یہ کوشش کی جائے گی کہ تمہارے اعمال کا وہ نتیجہ نکلے جو عام قانون کے مطابق نکلنا چاہئے محض یہ نہیں کہا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم ایسے سامان تو پیدا کریں گے لیکن ان سامانوں کو اس لئے پیدا کریں گے کہ تم ہماری نگاہ میں بھی اور دنیا کی نگاہ میں بھی ان رضا کی جنتوں کے اہل قرار دئیے جائو جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس لئے جب ایذاء، ہمیں پہنچتی ہے جب اموال اور نفوس میں ابتلاء کے سامان ہم دیکھتے ہیں جب خوف کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور جب ہماری مساعی مخالف کی کوششوں کی وجہ سے بے نتیجہ ثابت ہو جاتی ہیں تو ہمارے دل خدا کی حمد سے بھر جاتے ہیں کہ اس کی رضا کی جنتوں میں ہم داخل ہو جائیں گے اور پھر ہمیں دعا سکھائی گئی ہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوں تو تم میری طرف رجوع کرو اور مجھ سے قوت اور مدد مانگو اور بنیادی طور پر مجھ سے یہ طلب کرو کہ اے خدا! ان حالات میں وہ جو تیرے بندوں کا دشمن ہے خاموش نہیں رہے گا وہ چاہے گا کہ ہم ان ابتلائوں کے اوقات میں صبر اور دعا کے ذریعہ کامیاب نہ ہوں تیری رضا کی جنتیں ہمیں حاصل نہ ہوں وہ یہ پسند کرے گا کہ ہم اس کی طرف جھک جائیں اور تیرے قہر اور تیرے غضب کی دوزخ ہمارے مقدر میں ہو جائے ہم کمزور ہیں ہم تو انسان کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے اور تیری ہدایت کے مطابق کرنا بھی نہیں چاہتے ہم شیطانی وسوسوں کا دفاع محض اپنی طاقت اور قوت سے نہیں کر سکتے پس تو ہماری مدد کو آ اور جس طرح دکھوں کے وقت تو ہمارے دلوں کو تسلی دیتا اور ہماری روحوں کو تسکین بخشتا ہے اسی طرح تو شیطان کی وسوسہ اندازی کے وقت ہمارے دلوں کے گرد اپنی رضا اور اپنے نور کا ہالہ کھینچ دے تا شیطان جوظلمتوں سے پیار کرتا ہے وہ اس نور کے ہالہ کے اندر داخل نہ ہو سکے اور ہم اس کے وسوسوں سے محفوظ رہیں۔
غرض دعا ہی ہے جس کے ذریعہ ہم نے ان امتحانوں میں کامیاب ہونا ہے پس کبھی بھی دنیا میں فساد نہ پیدا کرو، کبھی بھی ایذاء کے مقابلہ میں ایذاء اور گالی کے مقابلہ میں گالی نہ دو، خدا پر بھروسہ رکھو وہی ایک ہستی ہے جس پر ہم توکل کر سکتے ہیں وہ اپنے وعدوں کا سچا اور اپنے ان بندوں سے جو اخلاص اور فدائیت کے ساتھ اس کے قدموں پر گر جاتے ہیں وفا اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے اسی نے ہمیں کہا ہے کہ وَدَعْ اَذٰھُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (احزاب: ۴۹) ان کی ایذاء دہی کو نظر انداز کر دو اور اپنے ربّ پر ہی توکل رکھو کیونکہ وہی حقیقی کارساز ہے کہ جب وہ مدد کو آئے تو کسی اور مدد کی احتیاج انسان کو باقی نہیں رہتی خدا کرے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر ابتلاء اور امتحان میں اس رنگ میں کامیاب ہوں کہ اس کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں اور خدا کرے کہ ہمارے ملک میں بھی اور دنیا میں بھی فساد اور بدامنی کے حالات امن اور صلح اور آشتی کے حالات میں بدل جائیں اور انسان امن کی فضا میں اسلام کی سلامتی سے حصہ لینے والا اور خدا کی سلامتی کے اندر داخل ہونے والا ہو جائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۱؍ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

ہماری دعائیں اس لئے قبول ہوتی ہیں کہ ہمارے وجود کی روح اور دل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰ ؍ستمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ جماعت مومنین ایک دوسرے کیلئے دعائیں کرنے والی ایک عالمگیر برادری ہے۔
٭ جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو گے تو فرشتے بھی تمہارے لئے دعائیں کرنے لگ جائیں گے۔
٭ اے خدا! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق اور اپنی اُمت کیلئے جتنی دعائیں کیں تو انہیں قبول کر۔
٭ خلیفہ وقت کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور بڑے معجزانہ رنگ میں قبول کرتا ہے۔
٭ جس وقت خلیفہ وقت کی دعا قبول ہوتی ہے تو وہ اپنے عاجزی کے مقام کو نہیں بھولتا۔


تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:۔
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
(الاحزاب:۵۷)
ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًاo (الاحزاب: ۴۴)
وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (التوبۃ: ۱۰۳)
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْلِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنٍ الَّتِيْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعزِیْزُ الْحَکِیْمُo (المومن:۸،۹)
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ (آل عمران: ۱۶۰)
وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغَفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (النساء:۶۵)
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اِنَّنَآ اٰمَنَّآ فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (اٰلِ عمران: ۱۷)
وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ
(الحشر:۱۱)
اس کے بعد فرمایا:۔
آنحضرتﷺ کا ایک مقام تو مقام جمع یا مقام وحدت تامہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات میں کامل طور پر فنا ہو جانے کی وجہ سے اس قادر و توانا نے اپنی رحمت کاملہ سے آپ کو اپنے وجود کا اکمل مظہر بنایا اور آپ صفات الٰہیہ کے مظہر اتم ٹھہرے اس ارفع مقام قرب میں کوئی فرد بشر بھی آپ کا شریک نہیں۔ اس مقام قرب دَنٰیکے مقابلہ میں آپ کا ایک مقام مقام تَدَلّٰی ہے یعنی آپ نے بفضل ایزدی عبودیت کے انتہائی نقطہ تک اپنے تئیں پہنچایا اور بشریت کے جو پاک لوازم ہیں یعنی بنی نوع کی ہمدردی اور ان سے محبت ان لوازم سے پورا حصہ لیا اور اسی کامل تَدَلّٰی کے نتیجہ میں بنی نوع کے لئے آپ کامل شفیع ٹھہرے اور جس نے بھی آپ کی محبت میں گم ہو کر آپ کا رنگ خود پر چڑھایا۔ اپنی اپنی استعداد کے مطابق مقامات قرب کو اس نے پایا کیونکہ طبائع مختلفہ اپنی استعداد کے مطابق آپ کے فیوض روحانی سے حصہ پاتی ہیں آپ میں اور خلق میں اس مقام تَدَلّٰی کی وجہ سے کوئی حجاب باقی نہیں رہا اس اعلیٰ اور ارفع کمال عبودیت میں مخلوق میں سے کوئی بھی حقیقی طور پر تو آپ کا شریک نہیں لیکن اتباع اور پیروی کے نتیجہ میں اور فنافی الرسول ہو جانے کے طفیل بنی نوع انسان ظلّی طور پر آپ کے شریک ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ بنی نوع انسان کے لئے کامل اُسوہ ہیں، آپؐ کے رنگ میں رنگین ہو جانے والے، آپؐ کی محبت میں فنا ہو کر ایک نئی اور حقیقی زندگی پانے والے آپ کے وجود کا ہی حصہ بن جاتے ہیں اس طرح پر جماعت مومنین معرض وجود میں آئی کیونکہ اس جماعت کے لئے فنا فی الرسول ہونا ضروری ہے اس لئے یہ جماعت آنحضرتﷺ کے وجود میں گم اور آپ کے وجود ہی کا حصہ ہے کوئی علاوہ اور مستقل وجود نہیں رکھتی۔
اس وجود کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سب مل کر سب کے لئے دعائیں کرتے ہیں گویا کہ ایک ہی وجود اپنے لئے دعائیں کر رہا ہے اور جس وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں رحمت خدا وندی جوش میں آتی اور اپنے بندوں پر رحم کرتی ہے تو اس جماعت کا کوئی ایک شخص بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جماعت سے علیحدہ کوئی وجود ہے جس کی دعا قبول ہوئی کیونکہ آنحضرتﷺ کا مقام تَدَلّٰی بنی نوع انسان کی وحدت تامہ کا متقاضی ہے آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی حالت ایک وجود کی سی ہے اگر کسی ایک کو کوئی تکلیف پہنچے کوئی پریشانی ہو تو سارا وجود پریشان ہوتا اور اس کی نیند اس پر حرام ہو جاتی ہے۔
پس جماعت مومنین دراصل اس زاویہ نگاہ سے ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرنے والی ایک عالمگیر برادری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو بحیثیت جماعت اور ان کی دعائوں کو جو اجتماعی رنگ رکھتی ہیں قبولیت کا وعدہ بھی دیا ہے آنحضرتﷺ کے فیوض کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے یہ جلوے اپنی زندگیوں میں ہر گھڑی دیکھ رہے ہیں کسی ایک شخص کی دعا بھی اس جماعت میں سے اس فرد واحد کی دعا نہیں ہوتی کیونکہ اگر وہ واقعہ میں ایک سچا مسلمان اور حقیقی مومن ہے تو اس کی دعائیں قرآن کریم میں بتائی ہوئی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہوں گی اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جس وقت یہ جماعت دعائوں میں مشغول ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق مشغول ہوتی ہے تو اس کے دو خارجی نتیجے نکلتے ہیں ایک خارجی نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ اس جماعت کو ملائکہ کی دعائیں حاصل ہو جاتی ہیں اور دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ (اگرچہ انسان جب تنزل کی راہوں کو اختیار کرتا اور شیطان سے پیوند جوڑتا ہے تو کتوں اور سؤروں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے لیکن) جب وہ خدا کی رحمت سے روحانی رفعتوں کو حاصل کرتا ہے تو فرشتوں سے بھی اوپر جا پہنچتا ہے اس کی (یا اس گروہ کی) دعائوں کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی دعائیں مل جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے یہ وارث بن جاتے ہیں اور یہ دوسرا خارجی نتیجہ جو نکلتا ہے۔
اس کے متعلق قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے ہدایت بھی دی ہے اور بڑی وضاحت سے اس صفت کو بیان بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو اپنی رحمت کا مہبط بنا دیا ہے ہر آن آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہیں ان رحمتوں کو دیکھ کر فرشتوں کے دل خدائی حمد سے بھر جاتے ہیں اور وہ خدا کی رحمتوں کے نتیجہ میں جوش میں آتے اور نبی اکرمﷺ کے لئے دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھ کر فرشتے بھی (جو حقیقی انسان سے کم درجہ پر ہیں) نبی اکرمﷺ کے لئے دعائوں میں مشغول ہو جاتے ہیں اس لئے اے انسان! جسے ہم نے فرشتوں سے بھی افضل بنایا ہے تو بھی اس طرف متوجہ ہو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاتم بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نشانوں کو دیکھ کر اور اس نکتہ کو سمجھ کر کہ کوئی فیض روحانی آنحضرتﷺ سے تعلق قائم کئے بغیر انسان حاصل نہیں کر سکتا نبی کریمﷺ پر درود بھیجنا شروع کرو آپ کے لئے دعائیں کرو اور آپ کے لئے سلامتی مانگو۔
غرض یہاں جماعت مومنین کو (جو ایک جسد اور ایک جسم بن گیا تھا) یہ کہا کہ ہر وقت نبی اکرمﷺ پر درود بھیجتے رہو اور ہر آن آپ کے لئے دعائوں میں مشغول رہو دوسری طرف مومنوں کو یہ خوشخبری دی کہ جب تم نبی اکرمﷺ پر درود بھیجو گے اور آپ کے لئے دعائوں میں مشغول رہو گے تو تم یہ دیکھو گے کہ ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہُ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لئے بھی دعائیں کرنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تم پر بھی نازل ہونی شروع ہو جائیں گی اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جن ظلمات شیطانی سے تم اپنی کوشش اور مجاہدہ کے نتیجہ میں نجات حاصل نہیں کر سکتے تھے جب خداتعالیٰ کے فرشتوں کی دعائیں تمہاری دعائوں کے ساتھ مل جائیں گی اور اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی رحمت نازل ہو گی تو تم ان ظلمات سے ان اندھیروں سے، ان جہالتوں سے نجات پا جائو گے اور ایک نور تمہیں عطا ہو گا۔
وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًااور ہم نے جو حکم دیا ہے کہ نبی اکرمﷺ پر درود بھیجو اور دعائیں کرو اگر تم اس کی تعمیل کرو گے تو تمہارے اس عمل کا نتیجہ خدائے رحیم اس شکل میں دے گا۔
وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًاوہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس ایمان لانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں اور نبی اکرمﷺ پر درود بھیجتے اور آپ کے لئے دعائوں میں مشغول رہتے ہیں اور آپ کے لئے سلامتی چاہتے ہیں ان کا یہ عمل خدائے رحیم قبول کرے گا اور اس کا جو بہترین نتیجہ ہے وہ ان کے لئے نکالے گا۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے اور اس کے فوائد انہیں بتائے ہیں وہاں نبی اکرمﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وَصَلِّ عَلَیْھِمْ تو ان کے لئے دعائیں کر۔ چونکہ اس جماعت کے سردار اللہ کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لئے جب سردار اس جماعت کیلئے یعنی اپنے ہی درخت وجود کی شاخوں کیلئے دعائیں کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ امن سکون کے حالات ان لوگوں کے لئے پیدا کئے جائیں گے ان کے خوف کو دور کیا جائے گا ان پر رحمتوں کا نزول ہو گا اور وہ اطمینان اور بشاشت کے ساتھ اپنے رب کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اس کی مقبول دعائوں کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ جس طرح اس کی (صلی اللہ علیہ وسلم) دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے ان کی دعائیں بھی قبول ہوں گی کیونکہ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اللہ تعالیٰ دعائوں کو سننے والا ہے لیکن چونکہ وہ علیم بھی ہے اس لئے اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم ان کو یہ بتا دو کہ دعائیں خلوص نیت سے ہوں اور اس جسم کا حصہ رہتے ہوئے اور اس احساس کے ساتھ ہوں کہ ہمارا انفرادی وجود اجتماعی وجود میں غائب ہو گیا ہے اور یہ اجتماعی وجود (جماعت مومنین کا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں گم ہو کر ایک ہی وجود بن گیا ہے جسے ہم صحیح طور پر نبی اکرمﷺ کا وجود کہہ سکتے ہیں اگر یہ نیت ہو گی، یہ اخلاص ہو گا، یہ لوگ اس حقیقت پر قدم ماریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی قبول کرے گا۔
ان آیتوں پر جب ہم یکجائی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ نبی اکرمﷺ کے لئے دعائیں کرتے رہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اس جماعت کے لئے دعائیں کرتے رہیں جو نبی اکرمﷺ کو اپنی ترقیات کے لئے اسوہ سمجھتے اور آپؐ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور آپؐ میں فنا ہو کر ایک نئی زندگی پاتے اور آپؐ کے وجود کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔
تیسرے اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو کہا تھا کہ نبی اکرمﷺ پر درود بھیجتے رہا کرو اور آپؐ کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو وہاں نبی اکرمﷺ کو بھی فرمایا صَلِّ عَلَیْھِمْ تو ان کے لئے دعائوں میں مشغول رہ کیونکہ تیری دعائوں کے نتیجہ میں ہی ان کے لئے امن اور سکون اور اطمینان اور بشاشت کے سامان پیدا ہوں گے پس یہ ایک جسم ہے جس کی روح، جس کا دل، جس کا دماغ نبی اکرمﷺ کی ذات ہے لیکن یہ جماعت آپؐ کے وجود سے مختلف اور علیحدہ نہیں اور جماعت میں کوئی ایسا فرد جو واقعہ میں اس جماعت کا ایک رکن یا اس جماعت کا ایک حصہ ہو نہیں ہو سکتا جو یہ کہہ سکے کہ میں اس جسم کا حصہ نہیں بلکہ میرے اندر کوئی ذاتی خوبی ہے جس کی وجہ سے میں خداتعالیٰ کا محبوب ہوں مثلاً ظاہری جسم ہے ایک انگلی یہ کہے کہ میں اس جسم کا حصہ تو نہیں لیکن میرے اندر اپنی کوئی ذاتی خوبی یا طاقت ہے تو ہم انگلی کو کہیں گے کہ ہم تمہیں کاٹ کر پرے پھینک دیتے ہیں پھر معلوم ہو جائے گا کہ تم میں کتنی طاقت ہے اگر تمہیں جسم سے کاٹ کر پھینک دیا جائے تو تم ایک مردہ، بے جان اور بے حقیقت چیز ہو گی جس کی کوئی قیمت نہیں تم گوشت کا ایک ٹکڑا اور ہڈی کی ایک کرچ ہی ہو گی نا، اس سے بڑھ کر تو تمہاری کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ اگر اور جب تمہاری دعائیں قبول ہوں تو تمہاری دعائیں اس وجہ سے قبول ہوں گی کہ تم ایک وجود بن گئے ہو اور اس وجود کی روح، اس کا دل محمد رسول اللہﷺ کی ذات ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پہلوں کے لئے بھی آپؐ کا ہی وجود ایک روح ہے آنے والوں کے لئے بھی آپؐ کا وجود ہی دل اور روح کا کام دیتا ہے باقی لوگ تو جسم کے ذرے ہیں اور بے حقیقت ذرے ہیں اسی وقت تک ان کی کوئی قدر اور قیمت ہے جب تک کہ محمد رسول اللہﷺ کی روح ان میں باقی اور قائم رہے جب تک محمد رسول اللہﷺ کا دل اس وجود میں دھڑکتا رہے اگر ایسا نہیں تو وہ کچھ بھی نہیں لیکن اس جماعت میں جس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں بعض کم فہم ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ میری دعا قبول ہوئی میں اپنی ذات میں بہت بڑا انسان ہوں حالانکہ ان آیات سے پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کو بھی سارے جسم کی دعائیں چاہئیں جس طرح روح کو ہاتھ کی ضرورت ہے، آنکھوں کی ضرورت ہے، ناک کی ضرورت ہے، کانوں کی ضرورت ہے ان سے جسم کام لیتا ہے اسی طرح اس روحانی وجود میں بھی ایسے اعضا کی ضرورت ہے جو ہاتھ کی حیثیت رکھتے ہوں جو پائوں کی حیثیت رکھتے ہوں یا کان، آنکھ، ناک اور دوسرے جوارح کی حیثیت رکھتے ہوں یا خون کی شریانوں کی حیثیت رکھتے ہوںیا جسم کی ہڈیوں کی حیثیت رکھتے ہوں یا اعصاب کی حیثیت رکھتے ہوں یا عضلہ یعنی مسل (Muscle) کی حیثیت رکھتے ہوں یا خون کی حیثیت رکھتے ہوں جس طرح ظاہری جسم میں بے شمار چیزیں پائی جاتی ہیں اسی طرح اس وجود میں بھی مختلف حصے ہیں اور وہ سب حصے مل کر جماعت بنتی ہے جس کے سردار، جس کی روح، جس کا قلب نبی اکرمﷺ ہیں۔
اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میرا وجود ایسا ہے کہ میں اس جسم کا حصہ نہ رہوں پھر بھی میری دعا قبول ہو گی تو اس کو ہم اس انگلی کی طرح مخاطب کرکے یہی کہیں گے کہ تم اس جسم سے کٹ جائو پھر دیکھو تمہاری دعائیں کس طرح قبول ہوتی ہیں؟ میں زمینداروں کے لئے ایک مثال دے دیتا ہوں آج کل چاول کی فصل ہے چاول کے کھیتوں میں بعض پودے ہمیں ایسے بھی نظر آتے ہیں جو عام کھیت سے زیادہ اونچے ہوتے ہیں اور زیادہ صحت مند نظر آتے ہیں اور غرور میں ان کا سر بلند ہوتا ہے جب سارا کھیت خداتعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر کہ اللہ تعالیٰ نے اسے باثمر بنایا ہے اس کی حمد میں جھک جاتا ہے یہاں تک کہ بعض بالیں زمین کو لگنے لگتی ہیں اس وقت یہ پودے جو ہمیں خال خال نظر آتے ہیں سرتانے کھڑے ہوتے ہیں لیکن پتہ ہے وہ کیسے پودے ہیں یہ وہ پودے ہیں جو بے ثمر ہیں جن میں دانہ پڑتا ہی نہیں خداتعالیٰ کہتا ہے کہ یہ غرور تجھے راس نہیں آئے گا تجھے اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا تو جتنا چاہے غرور کر لے ہم تیرے سارے وجود کو بے ثمر بنا دیں گے اور یہ بات تیرے اس غرور اور تکبر اور خود نمائی کے نتیجہ میں ہو گی یہی حالت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کم فہم اور کج فہم ہیں اور جو دعا کی قبولیت کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔
نبی کریمﷺ پر پہلوں نے بھی درود بھیجے اور آپؐ کی اُمت نے تو آپؐ پر اس کثرت سے دردو بھیجا اور آپؐ کے لئے دعائیں کیں کہ اس کے مقابلہ میں کسی اور فرد کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ نبی اکرمﷺ کے دل کی لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ کی کیفیت یعنی انتہائی تڑپ کہ غیر مومن ایمان لائیں اور مومن مقامات قرب حاصل کریں اس بات کی متقاضی تھی کہ جماعت مومنین ہمیشہ آپؐ پر درود بھیجتی رہے یعنی نبی کریمﷺ کا جو مقام عبودیت ہے جو مقام تدلّٰی ہے جس کے نتیجہ میں آپؐ کی ایک شان مقام اسوہ کا حصول ہے وہ تقاضا کر رہا تھا کہ ساری اُمت آپؐکے لئے دعائیں کرتی اور ساری اُمت جو دعائیں کر رہی ہے ان میں سے اکثر دعائیں یہ ہوتی ہیں کہ اے خدا! نبی اکرمﷺ جن مقصد کو لے کر اس دنیا میں آئے تھے ان مقاصد میں آپؐ کو کامیاب کر اسلام ہمیشہ غالب رہے اگر کبھی تنزل کا دور آئے تو پھر غلبہ کے سامان اس کے لئے پیدا کر دے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات جو ہر آن ہم پر جاری ہیں وہ فیوض جن کے بغیر ہماری روحانی زندگی ایک لحظہ کے لئے بھی قائم نہیں رہ سکتی ہم میں ان کا احساس باقی رہے اور ہم ہمیشہ آپؐ کے شکر گزار غلام بنے رہیں ہمارے دلوں میں آپؐ کی جو محبت ہے وہ قائم رہے اور ؎
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
اے ہمارے ربّ! تو محمد رسول اللہ ﷺ کو روحانی رفعتوں میں ہمیشہ بلند سے بلند تر کرتا چلا جاتا کہ آپؐ کی ان رفعتوں کے طفیل ہمیں بھی کچھ مزید رفعتیں حاصل ہو جائیں غرض مسلمان اسلام کے غلبہ کے لئے قرآن کریم کی تعلیم کے قائم ہونے کے لئے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے قیام کے لئے آنحضرتﷺ کے ان مقاصد کے پورا ہونے کے لئے دعا کرتا ہے جو مقاصد لے کر آپؐ دنیا میں آئے اور جب یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ساری اُمت چودہ سَو سال سے دعائوں میں مشغول ہے اور ایک دعا ان میں سے یہ ہے کہ اے خدا! محمد رسول اللہﷺ نے اپنے متعلق اور اپنی اُمت کے لئے جتنی دعائیں کیں تو انہیں قبول کر تو جب محمد رسول اللہﷺ کی دعا قبول ہو گی تو کیا اس جماعت مومنین کی دعا آپ ہی آپ قبول نہیں ہو ر ہی ہو گی جو یک زبان ہو کر وہی دعا کر رہی ہے جن کے سینوں میں وہی دل دھڑک رہا ہے جو لوگ اسی سوز و گداز کے ساتھ دعائیں کرنے والے ہیں ان کی دعا محمد رسول اللہﷺ کی دعا سے مختلف نہیں اور جس وقت ان لوگوں کی دعا قبول ہوتی ہے تو وہ محمد رسول اللہﷺ کی دعائیں ہی قبول ہو رہی ہوتی ہیں کیونکہ گو اختلاف تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور وہ یہ کہ آپ کا مقام مقام تدلّٰی ہی نہیں بلکہ (جیسا کہ میں نے بتایا ہے) مقام وحدت تامہ بھی ہے اور سچی بات یہی ہے کہ وہی ایک ذات محبوب الٰہی ہے باقی تو ذیلی حیثیت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ جو چاہیں گے انہیں مل جائے گا۔ حقیقتاً یہ مقام (کہ جو چاہے مل جائے) نبی اکرمﷺ کو ہی حاصل ہے لیکن آپؐ کا جو دوسرا مقام ہے یعنی مقام تدلّٰی اس لحاظ سے تو سب کو ایک جسم بنا دیا ہے ساری اُمت نبی کریمﷺ کے وجود میں گم ہو گئی اور اس طرح ایک وجود بن گیا اس لئے ان سب کی دعائیں کوئی علیحدہ دعائیں نہیں اور محمد رسول اللہﷺ کی دعا بھی اس مقام کے لحاظ سے کوئی علیحدہ دعا نہیں ساری دعائیں مل کر ایک دعا بنتی ہے دعا تو محمد رسول اللہﷺ کی ہی قبول ہو رہی ہوتی ہے لیکن چونکہ جماعت مومنین آپؐ کے وجود ہی کا ایک حصہ ہے اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جماعت مومنین کی دعائیں بھی (آپؐ کے طفیل) قبول ہوئیں۔
آپؐ کی نیابت میں خلفاء وقت کام کرتے ہیں خلافت کے متعلق امت کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ دین کی تمکنت اور خوف کے دور ہونے اور اطمینان اور سکون کے پیدا ہونے کے حالات پیدا کئے جائیں گے بظاہر خلیفہ وقت کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور بڑے معجزانہ رنگ میں قبول کرتا ہے لیکن جب یہ عاجز بندے اللہ تعالیٰ کے سلوک پر گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف سے معجزانہ سلوک دیکھتے ہیں تب انہیں یہ نکتہ سمجھ آتا ہے کہ صرف ان کی دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ ساری جماعت کی دعا قبول ہوئی (اور ساری جماعت کی دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ حقیقتاً محمد رسول اللہﷺ ہی کی دعا قبول ہوئی) مثلاً چند سال ہوئے ایک بڑا حادثہ گزرا تھا یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوا تھا اس وقت ساری دنیا کے احمدیوں نے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں جو خط مجھے لکھے ان سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک کے سینہ میں ایک ہی دل دھڑک رہا ہے ان میں سے ہر ایک اس دعا میں مشغول تھا کہ اے ہمارے پیارے ربّ! تو جماعت کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھ ان میں سے کسی فرد کو کوئی ٹھوکر نہ لگے اور امن کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ یہ قافلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے ایک بے چینی، بے کلی اور گھبراہٹ کی حالت تھی جو سب پر طاری تھی سب کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں اور وہ سب ان دعائوں میں مشغول تھے پھر جب امن پیدا ہوا اور جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سکون کے حالات میں ایک نیا دور شروع کر دیا تو اس وقت اگر کوئی کھڑا ہو کر یہ کہے کہ خدا نے میری دعا قبول کی باقیوں کی نہیں کی تو ہم کہیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے وہ پاگل ہوگیا ہے وہ حقیقت کو نہیں سمجھتا اسی طرح باقی دعائیں ہیں۔
میرے پاس بڑی تعداد میں خطوط آتے ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اسی کی توفیق سے سارے خطوط میں خود پڑھتا ہوں گو عام دعائیہ خطوط کی فہرست بنتی ہے لیکن وہ بھی میرے سامنے آتے ہیں اور ان پر میں ایک نظر ڈالتا ہوں اور اکثر خطوط میں یہ دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں قبول کرے اسی طرح میں جو دعا کرتا ہوں وہ صرف میری دعا تو نہیں رہی بلکہ وہ دعا ان لاکھوں آدمیوں کی ہو گئی جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری نیک دعائوں کو قبول کرے اور جب یہ دعا قبول ہوتی ہے تو میرا دل یہ دیکھ کر خدا کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ اس نے ایک روحانی وجود یعنی جماعت مومنین کو محمدﷺ کے طفیل جو وعدے دئے تھے وہ پورے ہو رہے ہیں۔
یہ جماعت واقعہ میں دعائوں کے میدان میں ایک جان ہے بعض دفعہ حالات کو دیکھ کر جو دعائیں میرے دل سے نکلتی ہیں چند دن نہیں گزرتے کہ باہر کے خطوط میں وہی دعائیں آ جاتی ہیں مثلاً جماعت پر آج کل پریشانی کے حالات ہیں اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت کرے وغیرہ وغیرہ۔ غرض جو دعائیں میرے دل سے نکلتی ہیں وہی دعائیں جماعت کے دوسرے دوست کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ میں نے کوئی اعلان نہیں کیا ہوتا کہ اس قسم کی دعائیں کرو لیکن چونکہ ساری جماعت ایک ہی وجود کا رنگ رکھتی ہے اس لئے ہر احمدی کے دل میں وہی جذبات ہوتے ہیں وہی خیالات ہوتے ہیں ان کی روحوں پر نبی اکرمﷺ کے فیوض کا وہی اثر ہوتا ہے اور وہ وہی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں جو میں مانگ رہا ہوتا ہوں اور اس سے بڑا لطف آتا ہے کہ خلیفہ وقت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہزاروں دعائیں معجزانہ رنگ میں قبول کرتا ہے میں جب قبولیت دعا کے متعلق خط پڑھتا ہوں تو یہ سوچ کر کانپ اُٹھتا ہوں کہ میں اتنا کمزور، گناہگار اور بے بس انسان ہوں اور اللہ تعالیٰ اس قدر پیار کا سلوک مجھ سے کرتا ہے اور بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ چیزیں جماعت کے سامنے بھی رکھوں کیونکہ جب میری کوئی دعا قبول ہوتی ہے تو وہ صرف میری دعا ہی قبول نہیں ہوتی بلکہ ساری جماعت کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کی دعا قبول ہوتی ہے میں نے یہ ایک مثال دی ہے کہ ساری جماعت یہ دعا کرتی ہے کہ میری دعائیں قبول ہوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور جو چیز پہنچتی ہے وہ خالی میری دعا نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں لاکھوں ستونوں پر کھڑی ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچتی ہے خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اس جماعت کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کو ایک خاص روحانی وجود عطا کیا ہے اور اس کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے وجود میں گم ہو جائے اور فنا ہو جائے اور ایک موت اپنے پر وارد کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات سے ایک نئی زندگی حاصل کرے اور ان فیوض و برکات کے طفیل میں ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہوں۔
غرض خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے قبولیت دعا کے جو وعدے محمد رسول اللہﷺ سے کئے تھے وہ میں اس جماعت کے حق میں بھی پورا کروں گا کیونکہ یہ کوئی دوسرا وجود نہیں یہ محمد رسول اللہﷺ ہی کا وجود ہے دعا کا فلسفہ حضرت مسیح موعود نے علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھول کر بیان کیا ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ انسان سے اپنی منواتا ہے اور کبھی وہ اپنے بندے کی مانتا ہے اور جب وہ اپنے بندے کی مانتا ہے تو وہ اس پر بڑا احسان کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کا کوئی حق نہیں ہوتا لیکن دعائیں بڑی کثرت سے قبول ہوتی ہیں۔ جماعت کا دل خداتعالیٰ کی حمد سے ہمیشہ بھرا رہنا چاہئے جماعت کا سر نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے ربّ کے قدموں پر جھکا رہنا چاہئے اور ہم اسے چھوڑ کر جا بھی کہاں سکتے ہیں، ہمارا رب اتنا پیار کرنے والا ربّ ہے کہ اس نے ہماری جماعت کو ایک وجود بنا دیا ہے اور آنحضرتﷺ کی کامل حیات سے انہیں زندگی بخشی ہے اور اس کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ اس کے افراد ایک ہی دل کی دھڑکن کے ساتھ زندگی کی سانسیں لیں اور ایک ہی رنگ میں رنگین ہو کر ایک ہی رنگ کی دعائیں کریں۔
پس جس وقت خلیفہ وقت کی دعا قبول ہوتی ہے تو وہ اپنے عاجزی کے مقام کو بھولتا نہیں اور اس کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ میں کوئی ایسی بڑی ہستی ہوں کہ میرا رب بھی میری دعائیں قبول کرنے پر مجبور ہو گیا ہے بلکہ وہ تو نہایت عاجزی کے جذبات کے ساتھ اپنے رب کے حضور یہ کہتے ہوئے جھکتا ہے کہ اے میرے رب! میں بڑا گناہ گار ہوں، میں بہت بے بس ہوں، میں بہت عاجز ہوں، میرے اندر کوئی خوبی نہیں تو نے خود ہی کسی مصلحت کی بناء پر مجھے ایک طرف یہ مقام نیابت عطا کر دیا ہے اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں اس نظام خلافت کی وجہ سے جماعت کو یک جان کر دیا ہے اور وہ محمد رسول اللہﷺ کے وجود کا ہی ایک حصہ بن گئی ہے اور آپؐ کی دعائوں اور اُمت محمدیہ میں سے پہلوں اور پچھلوں کی دعائوں کے نتیجہ میں تو ہماری دعائوں کو قبول کرتا ہے پس تو ایسا کر کہ ہمیشہ ہمارے دلوں کی عاجزانہ حالت باقی رہے، تکبر اور ریاء ہم میں نہ آنے پائے اور اگر کوئی سر غرور سے اٹھے تو اس سر کو بھی (تیرا غضب نہیں بلکہ) تیرا رحم جوش میں آ کر نیچا کر دے اور جھکا دے تاکہ اس کے دل میں تیرے فضل سے عاجزی اور انکسار کے جذبات پیدا ہو جائیں اور وہ یہ نکتہ سمجھنے لگے کہ اس کے اندر (اور نہ کسی اور کے اندر) کوئی ذاتی خوبی نہیں جس خوبی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی دعائوں کو قبول کیا کرتا ہے سب خوبیوں کا مالک اور منبع اور سر چشمہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اور اس کی برکتوں اور فضل سے محمد رسول اللہﷺ کا وجود ہے اور آپؐ کے فیض سے ہی مومنین کی جماعت کا وجود زندہ اور نورانی اور رحمتوں کا وارث ہے اگر یہ نور نہ رہے اگر وہ دل سینہ میں نہ دھڑکے تو یہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے جسے کیڑے مکوڑے یا درندے تو بڑے شوق سے کھا سکتے ہیں لیکن فرشتے ان کے لئے دعائیں نہیں کر سکتے لیکن جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کی روح اس وجود میں قائم رہے اور یہ وجود آپ سے قطع تعلق نہ کرے بلکہ آپ میں فنا ہو اور ہمیشہ اس مقام کو اختیار کئے رکھنے کی کوشش کرتا رہے اس وقت تک وہ زندگی قائم ہے، وہ مقام قرب حاصل ہے، وہ دعائیں قبول ہیں جو یہ جماعت اپنے رب کے حضور پیش کر رہی ہے۔
غرض اس دعا کو جو جماعت مومنین کر رہی ہے ہم اس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کہا کہ محمد رسول اللہﷺ پر درود بھیجو اور دوسری طرف اس جماعت کو کہا کہ آپؐ پر درود بھیجو اور آپؐ کے لئے دعائیں کرو اور خود اعلان کیا کہ میری رحمتیں ہر آن اس میرے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)پر نازل ہو رہی ہیں دوسری طرف فرشتوں کو کہا کہ وہ لوگ جو محبت کی وجہ سے اور ایثار کے ساتھ اور اس مقدس اور پاک وجود کے مقام کو سمجھتے ہوئے اس میں گم ہو جائیں اس کا رنگ اپنے پر چڑھا لیں اس کے نور سے حصہ لیں اے فرشتو! تم ان کے لئے بھی دعائیں کرو کیونکہ اب ان کا وجود آپؐ سے علیحدہ نہیں اور دراصل یہ حکم پہلے حکم کے اندر ہی تھا کیونکہ جب فرشتوں کو یہ کہا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجو اور آپؐ کے لئے دعائیں کرو اور جب یہ لوگ آپؐ کے وجود ہی کا حصہ بن گئے تو اس حکم کے اندر ہی آ گئے جس کو نمایاں کرکے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان کر دیا ہے اور جس کے متعلق ایک آیت میں نے خطبہ کے شروع میں بھی پڑھی ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کہا کہ محمد رسول اللہﷺ پر درود بھیجو آپؐ کے لئے دعائیں کرو، جماعت مومنین کو کہا کہ محمد رسول اللہﷺ پر درود بھیجو اور دعائیں کرو اور محمد رسول اللہﷺ کو کہا کہ اس جماعت مومنین کے لئے دعائیں کرو اور فرشتوں کو کہا کہ محمد رسول اللہﷺ اس جماعت مومنین کے لئے دعائوں میں مشغول ہیں تو تم کیوں خاموش ہو تم بھی اس جماعت مومنین کے لئے دعائیں کرو غرض اُمت مسلمہ ایک ایسا وجود ہے جو ایک شان محبوبیت اور شان عبودیت کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہوا اور اس نے ان نہروں اور راجباہوں اور نالیوں کا کام دیا جو دریا کے پانی کو اس دنیا میں مختلف کھیتوں میں لے جاتی ہیں یہ لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق تھوڑے یا بہت کھیت روحانی طور پر سیراب کرنے کا موجب بنے پانی محمد رسول اللہﷺ کا تھا دریا تو وہی ہے چشمئہ فیض تو وہی ہے لیکن ہم عام محاورہ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں مجدد یا خلیفہ کا پانی ہے جس طرح ہم کہتے ہیں کہ یہ کھادر برانچ کا پانی ہے ہم یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں میں نے مثالیں دے دی ہیں ایک مثال روحانی دے دی ہے اور ایک جسمانی دے دی ہے تا یہ بات سمجھ آ جائے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں (اگر ایک ہی وقت میں دونوں مثالیں دی جائیں) کہ یہ روحانی پانی محمد رسول اللہﷺ کا ہے اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ روحانی پانی دوسری تیسری یا چوتھی یا پانچویں صدی کے مجدد کا ہے یا خلفائے راشدین کا ہے اس لئے کہ ہر ایک شخص سمجھتا ہے کہ اگر اس کھال میں یا اس راجبا ہے میں یا اس نہر میں منبع سے پانی نہ آئے تو یہ خشک ہے اور اس میں کوئی روحانیت نہیں اس کے اندر کوئی پانی نہیں اور چونکہ یہ چیز واضح اور بین ہے اس لئے ہم کہہ دیتے ہیں کہ مثلاً ان کھیتوں کو کھادر برانچ کا پانی مل رہا ہے اب کھادر برانچ یا کسی اور برانچ کو پانی کہاں سے مل رہا ہے وہ یا تو دریائے جہلم کا پانی ہے یا دریائے چناب کا پانی ہے یا دریائے سندھ کا پانی ہے۔ کھادر برانچ میں پانی کہاں سے آیا تھا؟ اگر وہ دریا سے پانی نہ لیتی تو اس میں پانی نہ آتا اسی طرح ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ خلفاء راشدین کا پانی ہے خلفائے راشدین کے پاس پانی کہاں سے آیا وہ ان کے پاس آ ہی نہیں سکتا جب تک محمد رسول اللہﷺ سے وہ پانی حاصل نہ کریں جو دنیا میں حیات روحانی کا باعث بنتا ہے لیکن چونکہ یہ بات عام اور واضح ہے اس لئے ہم اپنے محاورے میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں مجدد نے اتنا کام کیا اور اس قسم کی روحانی برکتیں اس کے ذریعہ سے جاری ہوئیں حالانکہ ہر ایک کو پتہ ہے کہ نہ اس نے اپنے طور پر کوئی کام کیا، نہ کوئی روحانی برکتیں اس کے ذریعہ سے جاری ہو سکتی تھیں جب تک کہ وہ محمد رسول اللہﷺ سے زندگی حاصل نہ کرتا وہ آپ کے نور سے نور نہ لیتا آپ کے فیوض اور برکات میں حصہ دار نہ بنتا اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت سے ایسا کرنے کی توفیق عطا کی اور اس کی دعائوں کو اور اس کے مجاہدات کو اور اس کے اعمال صالحہ کو قبول کیا اور محمد رسول اللہﷺ کے جسم کا ایک حصہ اسے بنا دیا جب میری اس انگلی میں خون چلتا ہے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ انگلی کا خون ہے ڈاکٹر ٹیسٹ لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں انگلی سے لیا یا کراچی میں مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ انگلی کے خون کی شکل اور ہوتی ہے۔ اس لئے جب شکر یا یورک ایسڈ کے لئے خون ٹیسٹ ہو گا تو ہم انگلی کی بجائے خون کی نالی میں سوئی چبھو کر خون کھینچیں گے اب دیکھیں اس شریان میں خون کہاں سے آیا یہ خون تو مرزا ناصر احمد کا ہے اس انگلی کا خون اپنا خون نہیں اگر یہ انگلی مرزا ناصر احمد کے وجود سے کاٹ دی جائے تو اس میں خون نہیں ہو گا اگر یہ شریان مرزا ناصر احمد کے وجود سے علیحدہ کر دی جائے تو اس شریان میں کوئی خون نہیں رہے گا، اسی طرح اگر ان لوگوں کا (جو اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے پھیلانے کا موجب بنتے ہیں) تعلق محمد رسول اللہﷺ سے قائم نہ رہے تو پھر دیکھیں کوئی برکت کوئی فیض کوئی نور کوئی زندگی ان لوگوں میں باقی نہ رہے سب حیات، سب زندگی، سب انوار، سب برکات، سب رحمتیں، سب رافتیں محمد رسول اللہﷺ ہی کی ہیں اور آپ ہی سے لے کر دوسرے لوگ انہیں دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس لئے پہنچاتے ہیں کہ وہ تمام ایک وجود بن گئے ہیں۔
میں کسی دوسرے زاویہ نگاہ سے بات نہیں کر رہا میں صرف دعا کو مدنظر رکھ کر اسی زاویہ نگاہ سے بات کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں کرنے والی ایک عالمگیر اور ہمہ گیر برادری کو قائم کیا ہے اور اسی جماعت کی دعائیں عام طور پر (جب خدا چاہے اور اپنی منوانا نہ چاہے) وہ قبول کرتا ہے اور جماعت کے کسی فرد کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ کہے کہ میں اتنا بلند اور ارفع اور متقی اور پرہیز گار ہوں اور یہ ہوں اور وہ ہوں، میری دعا قبول ہوئی ہے ہم اس سے کہیں گے کہ تم اس جماعت سے علیحدہ ہو جائو تو دیکھو تمہاری دعائیں کس طرح قبول ہوتی ہیں؟ اگر جماعت کے ساتھ مضبوط اتحاد قائم کرکے ہی دعا قبول ہوتی ہے تو معلوم ہوا کہ ساری دعائیں محمد رسول اللہﷺ کی قبول ہوتی ہیں کیونکہ جب کوئی آپ کی جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
آدھا مضمون میں نے بیان کر دیا ہے قرآن کریم کی بعض اور آئتیں بھی میں نے شروع میں پڑھ دی تھیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور زندگی دی تو انشاء اللہ اگلے جمعہ میں اس مضمون کو ختم کروں گا دو دن ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک بیج اس مضمون کا میرے دماغ میں بویا تھا میرا یہ تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا فضل اور رحمت کرتا ہے تو کوئی نیا مضمون بیج کے طور پر میرے دماغ میں ڈال دیتا ہے۔
ایک دفعہ مجھے خواب میں بھی بتایا گیا تھا کہ جتنا زیادہ مجاہدہ اور کوشش تم کرو گے اتنے ہی زیادہ علوم قرآنی تمہیں سکھا دئے جائیں گے پس قرآن کریم کے علوم جو میں بیان کرتا ہوں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ ہی سکھاتا ہے وہ علوم اللہ تعالیٰ ایک بیج کی شکل میں میرے دماغ میں ڈالتا ہے پھر میرے مجاہدہ کوشش اور سوچنے کے نتیجہ میں وہ ایک مدون شکل اختیار کر جاتا ہے اور یہ سب محمد رسول اللہﷺ کی برکت سے ہے اور یہی سچ ہے۔ فَتَبَارکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ
اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ میری صحت بالکل اچھی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَلیکن چونکہ ابھی گرمی ہے اس لئے میں کبھی گرمی سے تکلیف محسوس کرتا ہوں کراچی جانے سے پہلے مجھے لو لگ گئی تھی جس کو انگریزی میں ہیٹ سٹروک کہتے۔ اس بیماری کا لمبے عرصہ تک اثر رہتا ہے میں اپنے کمرہ سے جو ٹھنڈا ہے زیادہ عرصہ باہر رہوں تو طبیعت میں بے چینی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ کیفیت بھی دور ہو جائے اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اس کی برکتوں کو اپنے دامن میں لئے بارش ہو جائے اور ٹھنڈ ہو جائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا صفحہ۷)
٭…٭…٭

اُمت مسلمہ ایک عظیم وجود کی حیثیت رکھتی ہے جس کی روح اور زندگی رسول کریمﷺسے وابستہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷ ؍ستمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اُمت مسلمہ کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کیلئے دعائیں کرنے والے ہیں۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ کیلئے کثرت سے دعائیں کی ہیں۔
٭ اُمت مسلمہ کا فرض ہے کہ تمام مومنوں کیلئے استغفار کرتی رہے۔
٭ بشری کمزوریوں سے حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے استغفار کے ذریعہ پیدا کیا ہے۔
٭ ہر برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی مل سکتی ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:۔
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْلِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِالَّتِيْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo (المومن:۸،۹)
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ (آل عمران: ۱۶۰)
وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (النساء:۶۵)
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذَنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: ۱۷)
وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ م بَعْدِ ھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ
(الحشر:۱۱)
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
گذشتہ جمعہ میں نے بتایا تھا کہ نبی اکرمﷺ کے ارفع مقام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اُمت مسلمہ کو قائم کیا یہ اُمت (یہ جماعت مومنین) ایک وجود کی حیثیت اور ایک وجود کا رنگ رکھتی ہے۔ نبی اکرمﷺ اس کی روح اور اس کی زندگی کا باعث ہیں اور اس اُمت کے وجود کے سینہ میں نبی اکرمﷺ کا دل ہی دھڑکتا ہے اور یہ بتانے کے لئے کہ یہ ایک ہی وجود ہے اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرایوں میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں ہمیں یہ بتایا کہ اس مخالف کے مقابلہ میں جو اس وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے وہ بنیان مرصوص کی طرح ہیں یعنی ایسی دیوار کی طرح ہیں جس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا ہے اور وہ ایک جان ہو جاتی ہے کبھی اس رنگ میں اسے پیش کیا کہ باہمی تعلقات ان کے لطف اور ترحم کی بنیادوں پر قائم ہیں رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ جس کی تفصیل نبی اکرمﷺ نے یہ فرمائی کہ جس طرح ایک جسم کا کوئی عضو بیمار ہو یا تکلیف میں ہو یا درد محسوس کرے تو سارا جسم ہی درد محسوس کرتا ہے یہی حالت اُمت مسلمہ یعنی جماعت مومنین کی ہے۔
اس جماعت مسلمہ نے نبی اکرمﷺ کے فیوض کی برکت سے آپ میں فنا ہونے کی توفیق پائی آپ کے رنگ سے رنگ پکڑنے کی توفیق حاصل کی اور آپ کی برکت سے یہ نعرہ لگانے کی بھی توفیق پائی کہ اَسْلَمْنَا لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ہم سب خدا کے حضور ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے جھکتے ہیں اور حقیقی اسلام پر قائم ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کا جوا اپنی گردن پر رکھتے ہیں جب اس اُمت نے اس مقام کو حاصل کیا اور اپنے پر ایک موت کو وارد کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نئی زندگی عطا کی ایک نیا وجود بنا دیا اور اس روحانی وجود (جسے ہم اُمت مسلمہ بھی کہتے ہیں) کا ایک خاصہ اور ایک صفت یہ ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرنے والے ہیں سب کو اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی دعائیں حاصل ہیں سب کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد باری ہے کہ ان کے لئے دعائیں کرو اور جو نتیجہ اس کا نکلتا تھا وہی نکلا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ نبی کریمﷺ نے اس حکم کی تعمیل میں اُمت محمدیہ کے لئے اس کثرت کے ساتھ دعائیں کی ہیں اور ایسی دعائیں کی ہیں جو اپنی وسعت کے لحاظ سے بھی بے نظیر ہیں اور اپنی گہرائی کے لحاظ سے بھی حیران کن ہیں ان کی چند ایک مثالیں میں اس وقت آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا۔
اَللّٰھُمَّ خُذْبِنَوَاصِیْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلٰی طَاعَتِکَ یعنی اے خدا! تو اپنا فضل کر کہ اس اُمت سے بشری کمزوریاں ظاہر ہی نہ ہوں اور دنیا کی نگاہ میں ایسا لگے کہ تو نے ان کو پکڑ کر اپنی اطاعت کیلئے اپنے ساتھ کھینچ کر لگا لیا ہے پھر فرمایا کہ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِاُمَّتِیْ۔ ثَلاَثًا اے ہمارے ربّ! میری اُمت سے مغفرت کا سلوک کرنا میری اُمت سے مغفرت کا سلوک کرنا میری اُمت سے مغفرت کا سلوک کرنا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِیَ الَّذِیْنَ یَأْتُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ اَلَّذِیْنَ یَرْوُوْنَ اَحَادِیْثِیْ وَسُنَّتِیْ وَیُعَلِّمُوْنَھَا النَّاسَ۔ (جامع الصغیر)
اے ہمارے ربّ! میرے وہ خلفاء اور نائب جو میرے بعد دنیا میں پیدا ہوں تو ان سے رحمت کا سلوک کرنا اور ان کو اس بات کی توفیق دینا کہ وہ تیری رحمت کے مستحق ٹھہریں تو انہیں اس بات کی توفیق دینا کہ وہ میری سنت کا احیاء کریں اور میری سنت پر چلانے کے لئے اُمت مسلمہ کی تربیت کریں پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو قول بیان ہوا ہے کہ
رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے کہ
اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔(المائدہ:۱۱۹)
ان آیات کو رسول کریمﷺ پڑھ رہے تھے کہ آپ پر رقت طاری ہو گئی اور آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا۔ اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ۔ اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ وَبَکیٰ
اے میرے ربّ! میری اُمت کے ساتھ محض مغفرت کا سلوک کرنا میری اُمت کے ساتھ محض مغفرت کا سلوک کرنا۔ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ والا سلوک نہ کرنا حدیث میں آیا ہے کہ جب رسول کریمﷺ نے عاجزی اور زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ گو میں جانتا تو ہوں (وَرَبُّکَ اَعْلَمُ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں لیکن) تمہیں میرا یہ حکم ہے کہ محمدﷺ کے پاس جائو اور ان سے پوچھو کہ کس وجہ سے ان پر اتنی رقت طاری ہو گئی ہے وہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور دریافت کیا تو آپؐ نے بتایا کہ اُمت کے لئے جو فکر میرے دل میں ہے اس کے لئے جو مجھے تڑپ اور خیال ہے کہ میں صَلِّ عَلَیْھِمْ کا حکم کما حقہ، پورا کروں اس کی وجہ سے میں عاجزی اور رقت کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور دعا کر رہا ہوں جب جبریل علیہ السلام یہ جواب لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے (اور اللہ تعالیٰ تو بڑی ہی علیم ہستی ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اس نے فرشتوں کو بتانا تھا کہ دیکھو محمد رسول اللہﷺ کا کتنا بلند مقام ہے) اس نے جبریل علیہ السلام سے کہا کہ واپس جائو اور محمد (رسول اللہﷺ) سے کہو اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِیْ اُمَّتِکَ وَلَانَسُوْئُ کَ کہ تیری اُمت کے متعلق جو تیری نیک خواہشات ہیں ہم وہ پوری کریں گے اور تجھ کو اس معاملہ میں بھی راضی کریں گے اور جہاں تک اس اُمت کا سوال ہے تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی یعنی باوجود اس کے کہ بعثت نبوی سے قیامت تک اس اُمت کا زمانہ پھیلا ہوا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں، ہر رنگ و نسل میں اپنی اپنی طبیعتوں اور عادات کے ساتھ اُمت مسلمہ کے افراد پیدا ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو میری خواہش ہے کہ تیرے وجود میں گم ہونے والے اس مقام کو پائیں اور تیری بھی یہی خواہش ہے وہ مقام ان میں سے بہتوں کو ملے گا اور اس سلسلہ میں تجھے دکھ نہیں پہنچے گا بلکہ تمہاری مسرت اور خوشی کے سامان پیدا کئے جائیں گے۔
(تفسیر جامع البیان زیر آیت ۳۶ سورۃ ابراہیم و صحیح مسلم کتاب الایمان)
یہ چند مثالیں ہیں جو میں نے دی ہیں ورنہ رسول اکرمﷺ نے اپنی اُمت کے لئے اس کثرت سے دعائیں کی ہیں کہ حقیقت یہی ہے کہ آپ کے علاوہ جب بھی کسی کی دعا قبول ہوتی ہے تو وہ اس لئے قبول ہوتی ہے کہ وہ اس فرد واحد کی دعا نہیں ہوتی بلکہ وہ محمد رسول اللہﷺ کی دعا ہوتی ہے اور جس اُمت کے ساتھ اس قدر مقبول ہستی کی دعائیں ہوں اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ساری کی ساری کسی وقت میں صراط مستقیم کو چھوڑ کر ضلالت کی راہوں کو اختیار کرے جیسا کہ خود نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے۔
غرض جب اس قسم کا عظیم روحانی وجود اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا کہ جس میں کروڑوں اربوں انسانوں نے شامل ہو کر جسم کے ذروں کی طرح اس جسم کو بنانا تھا، جس کا زمانہ قیامت تک ممتد اور جس کی وسعت زمین کو احاطہ میں لئے ہوئے تھی اس میں ایک خطرہ بھی تھا اور وہ یہ کہ یہ اربوں ارب افراد اپنی تمام بشری کمزوریوں کے ساتھ اس وجود کا حصہ بننے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا سامان پیدا کیا جائے کہ ان کی بشری کمزوریاں یا تو ظاہر نہ ہوں اور اگر ظاہر ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کچھ اس طرح انہیں ڈھانپ لے کہ ان کے بدنتائج نہ نکلیں۔ اس کے بغیر اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا جس مقصد کو لے کر نبی اکرمﷺ اس دنیا میں مبعوث ہوئے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اس بات کا کہ اُمت محمدیہ میں شامل ہونے والے نبی اکرمﷺ کے درخت وجود کی شاخیں اس طرح محفوظ کر لی جائیں کہ اگر بشری کمزوری ظاہر ہو جائے تو اس کا نتیجہ اُمت کے لئے بحیثیت مجموعی برا نہ نکلے یا اللہ تعالیٰ اس رنگ میں ان کی تربیت کرے اور اس طرح پر ان کی فطرت کو اپنی طاقت سے سہارا دے کہ ان سے کوئی بشری کمزوری ظاہر نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا (جس کا ذکر وضاحت سے قرآن کریم میں آتا ہے) کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ملائکہ مقربین اور وہ ملائکہ بھی جو ان کے ساتھ مختلف کاموں پر لگے ہوئے ہیں وہ مومنوں کی جماعت کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور ان کی دعا یہ ہے کہ اے ہمارے ربّ! تیری رحمت بھی ہر چیز پر حاوی ہے اور تیرا علم بھی ہر چیز پر حاوی ہے اس لئے ہماری یہ دعا ہے کہ فَاغْفِرْلِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ جس شخص سے بشری کمزوری سر زد ہو جائے اور پھر وہ ندامت کے ساتھ توبہ کا دروازہ کھٹکھٹائے تو اپنی مغفرت کی چادر میں اس کو ڈھانپ لے کیونکہ تیری رحمت بڑی وسیع ہے اگر وہ تیری راہوں کو اختیار کرنا چاہے اور تیرے قرب کے حصول کے لئے کوشش کرنا چاہے اور محمد رسول اللہﷺ کے احسانات کا بدلہ پوری طرح اور پوری کوشش کے ساتھ ادا کرنا چاہے وہ اتباع سبیل کرنا چاہے تیرا علم وسیع ہے وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس میں کس قسم کی فطری کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن تو جانتا ہے۔ اے ہمارے ربّ! ایسا سامان پیدا کر دے کہ یہ بشری کمزوریاں اس سے سر زد نہ ہوں اور وہ روحانی راہوں پر بغیر کسی روک کے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں، محمد رسول اللہﷺ سے کٹ نہ جائیں کٹی ہوئی شاخ کی طرح آپ کے وجود کے درخت سے منقطع نہ ہو جائیں یا اس ذرہ کی طرح نہ ہو جائیں جس کو جسم اپنے سے جدا کر دیتا ہے کیونکہ تیری رحمت بھی وسیع ہے اور تیرا علم بھی وسیع ہے جو غلطی ان سے سرزد ہو گئی ہے تو اسے اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے اور جس غلطی کے سر زد ہونے کا امکان ہے اور تو ہی اسے بہتر جانتا ہے تو ایسے سامان پیدا کر دے کہ اس قسم کی بشری کمزوریاں ان سے سر زد نہ ہوں اور ان کی فطرت کو تیری طاقت ہمیشہ سہارا دیتی رہے اس طرح وہ اس عذاب جحیم سے بچ سکتے ہیں جسے تیرے قہر کی آگ بھڑکاتی ہے۔
اور اے خدا! کسی ایک زمانہ کے متعلق ہماری یہ دعا نہیں بلکہ انہیں بھی اور ان کے بڑوں کو بھی، پہلوں کو بھی اور بعد میں آنے والوں کو بھی تو مغفرت کی چادر میں ڈھانپتا رہے یعنی یہ ایک لمبا زمانہ ہے جو قیامت تک چلا جائے گا نسلاً بعد نسلٍ اُمت محمدیہ میں زیادتی اور کمی ہوتی رہے گی کچھ لوگ اس جہان سے گزر جائیں گے اور کچھ اور پیدا ہو جائیں گے پس تو پہلوں پر بھی اور جو حال کی نسل ہے ان پر بھی (اَزْوَاجِھِمْ ان کے ساتھی یہ الفاظ حال کو بتا رہے ہیں) وَذُرِّیّٰتِھِمْ آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی تو رحمت اور مغفرت کر اور ان سے پیار کا سلوک کر اور ان کو اس قابل بنا دے کہ وہ محمد عربی ﷺ کے وجود کا حقیقی ذرہ بن جائیں اور ان تمام نعمتوں سے وہ حصہ لیں جو تو نے نبی اکرمﷺ کے لئے مقدر کی ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فطری کمزوریوں سے محفوظ رکھنے اور فطری کمزوریوں کے ظاہر ہونے سے بچانے کیلئے یہ انتظام کیا کہ ایک طرف فرشتوں کو دعا پر لگا دیا اور دوسری طرف یہ انتظام کیا کہ نبی اکرمﷺ کو فرمایا وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ تو ان کے لئے استغفار کرتا رہے تا اگر ان سے کوئی فطری کمزوری سرزد ہو تو اس کا بد نتیجہ نہ نکلے تیرا رحم اس طرح جوش میں آئے کہ فطرت کی کمزوریوں کو تیری طاقت سہارا دیتی چلی جائے اور کوئی بدی اور کمزوری واقع ہی نہ ہو غرض نبی اکرمﷺ کو بھی کہا کہ اُمت مسلمہ کے لئے استغفار کرتے رہو اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ نبی کریمﷺ کی دعائوں میں اُمت کے لئے استغفار شامل تھا اس لئے اُمت مسلمہ کو یہ کہا کہ تمہارا استغفار کرنا اس وقت تک بے نتیجہ ہے اور وہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک نبی اکرمﷺ بھی تمہارے لئے استغفار نہ کریں اس لئے وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَائُ وْکَ جب اُمت میں سے کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس سے کچھ غلطیاں سر زد ہو گئی ہیں اور یا وہ یہ سمجھے اور اسے یقین حاصل ہو کہ بہرحال مجھ میں بشری کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے سہارے کے بغیر ان بشری کمزوریوں کے ظاہر ہونے سے بچ نہیں سکتا۔ غرض جب بھی ان دو میں سے کوئی ایک یا دونوں احساس پائے جائیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیرے پاس آئے اور تجھ سے استغفار کے طریقے سیکھے اور پھر استغفار کرے لیکن یہ بھی کافی نہیں وَاسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ پھر رسول بھی اس کے لئے استغفار کرے تب لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا وہ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور مجاہدات کا قبول کرنے والا پائے گا خالی اس فرد کا استغفار کرنا کافی نہیں۔
غرض اُمت مسلمہ سے کہا کہ تمہارے لئے استغفار کرنا ضروری ہے لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ صرف تمہارا استغفار کرنا اور تمہارا یہ دعا کرنا ہی کافی نہیں کہ جو غلطیاں سر زد ہو گئی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے اور ان کے بد نتائج سے تمہیں محفوظ رکھے یا جن بشری کمزوریوں کا امکان ہے ان کا اظہار ہی نہ ہو مغفرت کی چادر میں وہ چھپی رہیں اور اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے تمہاری یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی جب تک کہ رسول مقبولﷺ کی دعا اس دعا کے ساتھ شامل نہ ہو اس لئے ضروری ہے کہ انسان نبی اکرمﷺ کے پاس روحانی طور پر پہنچے اور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر، آپؐ کا قرب پا کر، آپؐ سے استغفار کی راہیں سیکھ کر استغفار نہ کرے اور اپنی زندگی کو اس رنگ میں نہ گزارے کہ نبی کریمﷺ کے استغفار کا خداتعالیٰ کی نگاہ میں مستحق بن جائے اس وقت تک اُمت مسلمہ کے افراد اللہ تعالیٰ کے توّاب ہونے اور اس کے رحیم ہونے کے جلوے نہیں دیکھ سکتے۔ اگر کسی نے خداتعالیٰ کی ان صفات (توّاب اور رحیم) کے جلوے دیکھنے ہوں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے بتائے ہوئے طریق پر استغفار کرتے ہوئے خود کو اس بات کا مستحق بنائے کہ اسے نبی اکرمﷺ کی دعائیں پہنچیں اور اس کے استغفار کے ساتھ محمد رسول اللہﷺ کا استغفار شامل ہو جائے تب وہ خداتعالیٰ کی صفات تَوّاب اور رحیم کے جلوے دیکھے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں صرف اپنے لئے ہی نہیں ساری اُمت کیلئے استغفار کرنا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ ساری اُمت کے افراد نے اپنی تمام بشری اور فطری کمزوریوں سمیت نبی اکرمﷺ کے وجود کا حصہ بننا تھا اس لئے ضروری تھا کہ ایک تو اگر گناہ سر زد ہو جائے تو اس کی معافی کا انتظام ہو اور دوسرے ایسا سامان ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کچھ ایسے رنگ میں انسان سے محبت کا سلوک کرے کہ اس کی طاقت اور قدرت انسانی فطرت کو سہارا دے اور فطرت انسانی اس سہارے کے بعد غلطیوں سے محفوط ہو جائے پس اُمت مسلمہ کو یہ کہا کہ تمہارا یہ فرض ہے کہ تمام مومنوں کیلئے استغفار کرتے رہو اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے۔
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اِنَّنَا اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذَنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ وہ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہم سب جماعت مومنین میں شامل ہو گئے ہیں فَاغْفِرْلَنَا تو ہم کو اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے غرض یہاں ساری اُمت کے لئے دعا کرنا جماعت مومنین کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے سورۃ حشر میں یوں فرمایا:۔
وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِ ھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِکہ جس طرح بعد میں آنے والے مومن پہلوں کی دعا اور استغفار سے حصہ لینے والے ہوتے ہیں اسی طرح وہ پہلوں کے لئے بھی دعا اور استغفار کرتے ہیں۔
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ان کی دعائوں میں یہ دعا بھی شامل ہوتی ہے کہ اے ہمارے ربّ! تو ہماری غلطیوں کو بھی معاف کر اور ان کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے تیرے محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لائے اور اے ہمارے ربّ! جس طرح تو نے ان کی فطرت کو سہارا دیا اور بشری کمزوریوں سے انہیں محفوط کر لیا اسی طرح تو ہمیں بھی بشری کمزوریوں سے محفوظ رکھ اور ہماری فطرت کو بھی سہارا دے غرض مومن اپنے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں اور پہلوں کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں اور پھر بعد میں آنے والوں کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں۔
دونوں خطبوں کا مضمون یکجائی طور پر اگر مختصراً بیان کیا جائے تو یہ بنتا ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک کامل اور مکمل مظہر صفات باری کی حیثیت میں دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنے ربّ کو پہچانے اور نبی اکرمﷺ میں فنا ہو کر اپنی اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کا مظہر بنے اس پاک وجود کو جو اُمت محمدیہ کہلاتی ہے (جسے ہم اُمت محمدیہ یا اُمت مسلمہ کہتے ہیں وہ ایک ہی وجود ہے اس کی روح محمد ﷺ ہیں اس کا دل محمدﷺ ہیں۔ اس کا نور نور محمدﷺ ہے یہ ایک پاک وجود دنیا میں قائم کیا گیا ہے جس کو قیامت تک کی زندگی عطا ہوئی ہے۔ یعنی اُمت محمدیہ کی اجتماعی زندگی قیامت تک کی ہے اور اس وجود کا پھیلائو زمین کے کرے کو احاطہ کئے ہوئے ہے ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے) جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری تھا کہ یہ سارا وجود اور خداتعالیٰ کے فرشتے دعائوں میں مشغول ہو جائیں کیونکہ دعا کے بغیر اور خداتعالیٰ سے رحمت طلب کرنے اور رحمت پانے کے بغیر دنیا میں کوئی کامیابی بھی انسان کو نہیں مل سکتی کجا یہ کہ اتنی عظیم کامیابی حاصل ہو پس ضروری تھا اُمت محمدیہ ایک وجود کی حیثیت میں دعائوں میں مشغول ہو جائے ان کی دعائوں کا ایک بڑا حصہ یہ رہا ہے اور یہ رہے گا! کہ اے ہمارے ربّ! محمد رسول اللہﷺ جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے اس مقصد میں آپ کو اس رنگ میں کامیاب کر کہ دنیا کی کوئی کامیابی بھی اس کے مقابلہ میں پیش نہ کی جا سکے انتہائی کامیابی آپ کو عطا کر پھر ان دعائوں میں یہ بھی شامل ہے کہ قرآن کریم کی عظمت دلوں میں بیٹھے اسلامی تعلیم انسان کی زندگی پر حکومت کرے اور یہ سب اس لئے ہو کہ انسان کے دل میں خدائے واحد و یگانہ، قادر و توانا کی محبت پیدا ہو اور انسان اپنے ربّ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محمد رسول اللہﷺ کی قوت قدسیہ کے طفیل وہ اپنی استعداد کے مطابق اپنے دائرہ کمال کو پہنچے اور مظہر صفات باری بنے۔ نبی اکرمﷺ کو بھی حکم ملا کہ اس اُمت کے لئے دعائیں کرو اور جو دعائیں آپ نے اس اُمت کے لئے کیں وہ اُمت کی مغفرت کے لئے ہیں ہر دو معنی کے لحاظ سے کہ اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے چاہے وہ کسی زمانہ میں کسی فرد واحد اور کسی قوم سے سرزد ہو تو اے خدا! تو اس کے بد نتائج سے اُمت کو بحیثیت اُمت محفوظ رکھنا اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے بھی کہ اے ہمارے ربّ کہ جو افراد تیرے اس مقدس درخت کی شاخیں بنیں گے وہ اپنی بشری اور فطرتی کمزوریوں کو ساتھ لے کر آئیں گے تو ایسا سامان کر دے کہ ان کی فطری اور بشری استعدادیں تیری طاقت کے سہارے طاقت پائیں اور فطری بشری کمزویاں ظاہر نہ ہونے پائیں اور اس طرح پر اُمت محمدیہ تیرے قرب کی راہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کرتی چلی جائے۔
غرض چونکہ فرشتے اُمت محمدیہ کے لئے دعائیں کر رہے ہیں چونکہ نبی اکرمﷺ اُمت کے لئے دعائیں کر رہے ہیں چونکہ یہ ساری کی ساری اُمت اپنے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں کر رہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ جو لوگ بھی اس معنی میں اس وجود کا حصہ بن جائیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث ہوں گے اور چونکہ یہ ایک بہت بڑا وجود ہے اس کا زمانہ (یعنی اس کی اجتماعی زندگی) قیامت تک پھیلا ہوا ہے وسعتوں کے لحاظ سے ہر ملک ہر براعظم اور ہر شہر اور ہر گائوں سے اس کا تعلق ہے اور اربوں ارب افراد اپنے پر ایک موت وارد کرکے اور اس وجود میں گم ہو کر ایک نئی زندگی پانے میں کوشاں ہوں گے اور وہ اپنی بشری کمزوریاں ساتھ لے کر جائیں گے۔
ان بشری کمزوریوں سے حفاظت کا کوئی سامان پیدا ہونا چاہئے تھا اور وہ سامان اللہ تعالیٰ نے استغفار کے ذریعہ پیدا کیا ہے اور میں نے بتایا ہے یہ سامان استغفار کے ذریعہ اس طرح پیدا کیا گیا کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ تم اُمت مسلمہ کے لئے دعائوں میں مشغول ہو جائو اور دعا کرو کہ اگر کوئی بشری کمزوری سر زد ہو تو اس کے بد نتائج سے وہ محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اس طرح بھی اس اُمت کے شامل حال رہے کہ اس کی فطری کمزوریاں ظاہر ہی نہ ہوں ان تمام امکانی کمزوریوں پر اللہ کی رحمت اور مغفرت کی چادر کچھ اس طرح پڑ جائے کہ ان کا منہ اس چادر سے باہر نہ نکلے اور نبی اکرمﷺ کو حکم دیا کہ اُمت مسلمہ کے لئے استغفار میں مشغول ہو جائو اور مومنوں کو یہ کہا کہ ایک دوسرے کے لئے استغفار کرو اور ساتھ ہی ان کو یہ بھی کہا کہ صرف تمہاری استغفار کافی نہیں جب تک تم دو شرطوں کو پورا نہ کرو ایک شرط یہ کہ استغفار اس رنگ میں کرو جس رنگ میں محمد رسول اللہﷺ نے تمہیں بتایا ہے اپنی طرف سے استغفار کے طریقے ایجاد کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ جو طریقے استغفار کے محمد رسول اللہﷺ نے بتائے ہیں انہی طریقوں سے تم استغفار کرو اور دوسری شرط یہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ بھی تمہارے لئے استغفار کر رہے ہوں اگر تم آنحضرتﷺ کے بتائے ہوئے طریق پر استغفار کرو گے اور تم محمد رسول اللہﷺ کے استغفار کے خداتعالیٰ کی نگاہ میں مستحق ٹھہرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں لپیٹ دے گا اور تم انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی حیثیت میں بھی گناہ کے وقوعہ کے بعد یا گناہ کے وقوعہ سے پہلے اس کے امکان اور امکانی مضرتوں سے محفوظ کر دئیے جائو گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ یا جماعت مومنین کا ایک عظیم وجود پیدا کیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پر ایک موت کو وارد کیا اور محمد رسول اللہﷺ کے طفیل ایک نئی زندگی اپنے ربّ سے پائی یہ وہ لوگ ہیں جن کو ابدی حیات ملی، یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی کا مدار محمد رسول اللہﷺ کی روح پر ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے سینوں میں محمد رسول اللہﷺ ہی کا دل دھڑک رہا ہے جن کی زبانوں پر وہی آتا ہے جو محمد رسول اللہﷺ کو پسند ہو، جن کی آنکھیں محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے ربّ کے نور سے منور ہیں جن کے ہاتھ جن کے پائوں اور جن کے جوارح وہ ہیں جو خداتعالیٰ نے اس نئی زندگی کے بعد انہیں عطا کئے ہیں اور وہ تمثیلی زبان میں اللہ ہی کے ہاتھ اور اللہ ہی کے پائوں اور اللہ ہی کی آنکھیں اور اللہ ہی کے جوارح ہیں۔
غرض یہ ایک عظیم وجود پیدا کیا گیا ہے اور جو شخص اس وجود سے خود کو منقطع سمجھتا ہے اور اپنے اندر کوئی ذاتی خوبی اور بڑائی سمجھتا ہے وہ خدا کی نگاہ میں ایک دھتکارا ہوا وجود ہے کیونکہ ہر برکت محمد رسول اللہﷺ کے طفیل ہی مل سکتی ہے اور جس نے آپ کو اور آپ کے روحانی وجود کو چھوڑا اور اس سے منقطع ہو گیا اور اس سے قطع تعلق کر لیا وہ خداتعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہر قسم کی برکتوں اور فضلوں سے محروم ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیش اس بات کی توفیق عطا کرتا چلا جائے کہ ہم شیطانی زندگی پر خدا کی راہ میں موت کو ترجیح دینے والے ہوں اور اس کی راہ میں موت کو قبول کرنے والے اور اس کے فضل سے ایک نئی زندگی پائیں جو رحمتوں والی ہو جو انوار والی ہو، جو مسرتوں اور لذتوں والی ہو۔ اللھم آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۹ ؍اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

دوستوں کو چاہئے کہ وہ کثرت سے اور التزام کے ساتھ دعائیں کریں تا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴ ؍اکتوبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے اور ہمیں ضائع ہونے سے بچا لے۔
٭ ہم جانتے ہیں کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کی مدد پر اللہ تعالیٰ کھڑا ہوتا ہے۔
٭ اے ہمارے ربّ!اپنی صفات عظیمہ کی اتباع اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کی ہمیں توفیق بخش۔
٭ اگر ہماری نمازیں رِیا سے پاک نہ ہوں تو ان کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔
٭ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کو ڈھانپ لے تو کوئی چیز اُسے دکھ نہیں دے سکتی۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مندرجہ ذیل الہامی دعا پڑھی:۔
رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا
(تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ۳۶۳)
اس کے بعد فرمایا:۔
اے میرے ربّ! ہر چیز تیری خدمت گزار ہے وہ تیرے قانون تسخیر کے ماتحت اس کام میں لگی ہوئی ہے جس پر تو نے اسے لگایا ہے اور ہماری عین یقین نے دیکھا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز تو نے ہماری خدمت پر مسخر کی ہوئی ہے اور تو نے اپنی ساری نعمتیں (ظاہری و باطنی) ہم پر پانی کی طرح بہا دی ہیں ہمارے نفس اور ہماری روح تیرے احسانوں اور فضلوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ شکر نعمت تو ممکن نہیں مگر اے ہمارے ربّ ہمارے محبوب! ہم بھی تیرے عاشق خادم ہیں اپنے خادموں کی التجا کو سن رَبِّ فَاحْفَظْنَا اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے ہمیں ضائع ہونے سے بچا لے ہمارے اعمال، بدیوں، کمزوریوں، بد اخلاقیوں، فسق و فجور سے ضائع نہ ہو جائیں طاغوتی طاقتیں ہم پر کامیاب وار نہ کر سکیں تیرے پیار کی راہوں سے ہم کبھی بھٹک نہ جائیں اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہم میں سے ہر ایک تیری ربوبیت تامہ سے کامل حصہ لے ہم اپنی استعدادوں کو کمال تک پہنچائیں اور تیرے قرب کے مقامات کو حاصل کریں ہم اس یقین پر ہمیشہ قائم رہیں کہ ہمارا محبوب ربّ (عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ) ہر چیز کا محافظ ہے اور وہی حفاظت کا حقیقی سر چشمہ ہے جو بھی اے ہمارے ربّ! تیرے دامن سے وابستہ نہیں رہتا ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے اطاعت میں ہی سب حفاظت ہے اے ہمارے ربّ! تو ہی وہ قادر و توانا ہے جو آسمانوں اور زمین اور ان میں بسنے والی سب اشیاء کی حفاظت سے کبھی تھکتا نہیں تیرا علم ہر شے پر حاوی ہے اور ہر شے کی حفاظت کی قدرت تجھ میں موجود ہے۔
رَبِّ فَاحْفَظْنَا پس اے ہمارے ربّ ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے ہمیں ضائع ہونے سے بچا لے۔ اے ہمارے ربّ وَانْصُرْنَا ہر چیز تیری خادم ہے پس تو ہماری مدد کو آ ہم جانتے ہیں کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کی مدد پر تو کھڑا ہوتا ہے اگر تو ہماری مدد اور نصرت کو نہ آئے گا تو تجھے چھوڑ کر کون ہماری مدد کو آئے گا؟ سب سہارے کمزور اور شکستہ ہیں، تیرا ہی ایک سہارا ہے جس پر بھروسہ اور توکل کیا جا سکتا ہے پس اے ہمارے محبوب ہم تجھ پر ہی توکل رکھتے ہیں ہمیں توفیق دے کہ ہم اس گروہ میں شامل رہیں جن کے متعلق تو نے خود فرمایا:۔وَاِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ (سورئہ محمد :۸)
اے ہمارے ربّ! تیری ہی توفیق سے ہم تیری قائم کردہ حدود کی حفاظت کر سکتے ہیں اور جو عہد و پیمان ایک مومن کی حیثیت سے ہم نے تجھ سے باندھے ہیں ان کو نباہ سکتے ہیں تیرے احکام کی بجا آوری اور تیری مناہی سے اجتناب تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اے ہمارے ربّ! ہر چیز تیری خادم ہے ہمیں اپنے انصار بننے کی توفیق دے تا تیری نظر میں ہم تیری مدد اور نصرت کے سزا وار ٹھہریں اور اے ہمارے ربّ ہماری مدد کو آ کہ جو تیری مدد یا نصرت پاتے ہیں وہ ناکام اور نامراد نہیں ہوا کرتے رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا اے ہمارے ربّ وَارْحَمْنَا اپنی رحمت سے ہمیں نواز، اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی اطاعت اور رسول مقبولﷺ کی اطاعت کی توفیق دے کہ جو تجھ سے یہ توفیق پاتے ہیں وہی تیری نگاہ میں تیری رحمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جیسا کہ تو نے فرمایا ہے ۔
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (آل عمران: ۱۳۳)
اے ہمارے ربّ! اپنی صفات عظیمہ کی اتباع اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کی ہمیں توفیق بخش کہ اتباع قرآن کرنے والے متقی ہی تیری نظر میں تیری رحمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جیسا کہ تو نے فرمایا:۔
فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الانعام :۱۵۶) اے ہمارے ربّ ہمیں یہ یقین بخش کہ
اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف :۵۷)
ایمان اور اسلام کے تمام تقاضوں کو ان کی سب شرائط کے ساتھ پورا کرنے کی ہمیں توفیق دے اور ہمیں اپنی رحمت سے نواز۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ ہر چیز تیری خدمت گزار ہے اے میرے ربّ! ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے ہماری مدد کو آ اور ہمیں اپنی رحمت سے نواز۔
اس دعا میں جس کے مختصر معنی اور مفہوم میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ سچی توحید اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت تامہ کا اقرار کرتے ہوئے اس کے حضور عاشقانہ خدمت بجا لائو اور اس عاشقانہ خدمت سے ربوبیت تامہ کے حضور جھکو اور التجا کرتے رہو کیونکہ ربوبیت تامہ سے وہی فیض حاصل کرتا ہے جو ربّ کریم کی حفاظت میں آ جاتا ہے جسے اس کی عون و نصرت حاصل ہوتی ہے اور جو اس کی رحمت سے نوازا جاتا ہے اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
غرض اس دعا میں اللہ تعالیٰ نے سچی توحید اور ربوبیت تامہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ دعا کیا کرو کہ اے وہ کہ جو ربوبیت کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اس کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اور وہی ہے کہ اس کے ارادوں میں کوئی غیر روک نہیں بن سکتا اور ہر چیز کو اس نے مسخر کیا ہوا ہے وہ اس کام پر لگی ہوئی ہے جس کام پر اللہ، ربّ کریم نے اسے لگایا ہے دنیا میں جس چیز پر چاہو نگاہ ڈالو سورج، چاند اور آسمانوں کے ستارے، درخت، جھاڑیاں اور پھولوں کے پودے، لعل و جواہر زمرد، یاقوت، کوئلے کا پتھر یا چونے کا پتھر یا زمین کے سارے ذرے اور ان ذروں میں چھپی ہوئی ایٹمی توانائی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے مسخر کی ہوئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کے نتیجہ میں وہی کام کرتی ہے جس کا اس کا پیدا کرنے والا ربّ ارادہ کرے اور جس کا وہ فیصلہ کرے اور یہ خادم ربّ یہ کسی انسان کو کوئی مضرت اور کوئی دکھ اور کوئی ایذاء نہیں پہنچا سکتے جب تک کہ اس کا ارادہ دکھ پہنچانے یا ایذاء دینے یا مشقتوں میں ڈالنے کا نہ ہو اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز کو انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے اور کام پر لگایا گیا ہے یہ تمام اشیاء، یہ تمام چیزیں (چھوٹی ہوں یا بڑی) جن کی حقیقت کو ایک حد تک ہم نے سمجھا اور ان کا علم حاصل کیا ہے یا ان کی وہ طاقتیں اور صفات جو ان میں پوشیدہ ہیں اور ہم پر ظاہر نہیں ہوئیں انسان کی خدمت پر لگائی گئی ہیں۔ پس اصل ذات اللہ ہی کی ہے جو انسان کی ربوبیت تو کرنا چاہتا ہے اور اس نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر کسی شخص کی ترقی (روحانی و جسمانی) میں اس کی پیدا کردہ کوئی چیز روک نہ بنے لیکن بہت سے ایسے بدقسمت انسان بھی ہوتے ہیں جو اپنے ہی کئے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں اور ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی خدمت پر لگایا ہوتا ہے وہی اس ایذاء کے درپے ہو جاتی ہے وہ اسے دکھ پہنچانے لگتی ہے اسے زندگی اور حیات سے دور کر دیتی ہے اور اسے نور سے کھینچ کر اندھیروں میں لے جاتی ہے اسے خداتعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل نہیں ہونے دیتی بلکہ شیطان کے پیچھے اسے لگا دیتی ہے اور جہنم کی طرف اس کا منہ کر دیتی ہے جسمانی دکھ یا تکالیف ہوں یا روحانی طور پر ناکامیاں اور نامرادیاں ہوں یہ سب اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور منشاء اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
پس ہمیں حکم ہے کہ اپنے ربّ کی طرف جھکو اس سے یہ التجا کرو کہ تیری ربوبیت تامہ سے ہم کامل فیض حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تیری حفاظت میں نہ آ جائیں جب تک کہ تیری نصرت اور تیری مدد ہمارے شامل حال نہ رہے جب تک کہ تو ہمیں اپنی رحمت سے نہ نوازتا رہے۔
حفاظت کے معنی ہیں ضائع ہونے سے بچانا اور اللہ تعالیٰ بڑی وضاحت سے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہر چیز کو ضائع ہونے سے بچانے کا کام خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور اپنی ربوبیت تامہ کو انسان کے لئے کمال تک پہنچانے کی خاطر اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے اور جب تک وہ خداتعالیٰ کی اس حفاظت میں نہ آجائے اس وقت تک ہر وقت ضائع ہونے کا خوف رہتا ہے مثلاً ہمارا صدقہ و خیرات ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہو تو مَنًّا وَّ اَذٰی سے بچتے ہوئے صدقہ و خیرات کی حفاظت ہو جاتی ہے اگر ہماری نمازیں ریا سے پاک نہ ہوں تو ان کی حفاظت نہیں ہو سکتی جب تک انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق نہ ملے کہ وہ ریا اور نمائش سے بچتا رہے اس وقت تک اس کی ظاہری عبادتیں (نماز روزہ وغیرہ) اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں ہوتیں۔
غرض اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو ربوبیت تامہ کی خاطر ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق اس کے کمال تک پہنچانے کے لئے اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے اور جس وقت اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے اسی وقت اس کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے روحانی اور جسمانی کمالوں تک پہنچے۔
انسان کی حفاظت کے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ممد و معاون ہو اس لئے فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے ہمارے ربّ تو ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے (اور یاد رکھو کہ اطاعت ہی میں سب حفاظتیں ہیں) اور تیری حفاظت میں وہی آ سکتا ہے جسے تیری مدد اور نصرت مل جائے کیونکہ تیری مدد اور نصرت کے بغیر ایسے سامان پیدا نہیں ہو سکتے کہ انسان کو تیری حفاظت حاصل ہو اور تیری مدد اور نصرت کوئی انسان اپنے زور سے لے نہیں سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ تو اس کی طرف رجوع برحمت ہو تو اُسے اپنی رحمتوں سے نوازے۔
غرض اس دعا میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا سبق ہمیں دیا اور ربوبیت تامہ کی طرف ہمیں متوجہ کیا اور ہمیں بتایا کہ تمام اشیاء (مخلوقہ) مضرت اسی وقت پہنچاتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا اذن مضرت پہنچانے کا ہو اور تمام نفع مند چیزوں سے انسان صرف اس وقت نفع حاصل کر سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا بھی یہ منشاء ہو کہ وہ ان سے نفع حاصل کرے اس لئے خدا سے یہ دعا کرو کہ اے ہمارے ربّ مضرتوں سے ہماری حفاظت کر نفع ہمیں پہنچا ہماری نصرت اور مدد کو آ اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نواز۔
یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً سکھائی گئی ہے اور آپؑ نے فرمایا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے کیونکہ اس میں ربوبیت تامہ اور سچی توحید کو بیان کرنے اور اس کا اقرار کرنے کے بعد انسان دعا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور تین بنیادی چیزیں اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے۔
(۱) ایک اس کی حفاظت
(۲) ایک اس کی نصرت
اور (۳) ایک اس کی رحمت
اور جو شخص اپنے ربّ کی ربوبیت کا عرفان رکھتا ہو اور اپنے خادم اور عاشق ہونے کا احساس رکھتا ہو اس کے دل میں ایک تڑپ اور ایک آگ ہو جو ایک عاشق صادق کے دل میں ہوتی ہے اور وہ یہ جانتا ہو کہ اپنے ربّ سے تعلق قائم کئے بغیر میری زندگی بے معنی اور لا یعنی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ میری زندگی کا مقصد صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تین حسن سلوک کرے مجھ پر تین احسان کرے ایک تو وہ میری حفاظت کی ذمہ داری لے لے دوسرے وہ ہر وقت میری نصرت اور مدد کے لئے تیار رہے نیز (۳) ہر وقت اپنی رحمتوں سے مجھے نوازتا رہے۔
پس یہ ایک بڑی کامل دعا ہے یہ ہمیں سچی توحید سکھاتی ہے یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی مضرت کوئی دکھ کوئی ایذاء ہمیں پہنچ نہیں سکتی نہ انسانوں کی طرف سے اور نہ اشیائے مخلوقہ کی طرف سے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا اذن نہ ہو اور کوئی نفع ہمیں حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی مرضی نہ ہو اور آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس دعا کو پڑھتا رہے گا وہ ہر ایک آفت سے محفوظ رہے گا اس لئے میں آج اس دعا کا مختصراً مفہوم بیان کرنے کے بعد اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کثرت کے ساتھ اس دعا کو پڑھیں تا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جائیں تا خدا ہر وقت ان کے ساتھ ان کی مدد اور نصرت کے لئے کھڑا رہے اور اس کی رحمت ان کو اس طرح گھیر لے جس طرح نور اس چیز کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرے وہ نور کے ہالہ کے اندر آ جائے۔ جس طرح سمندر کی تہہ پانی سے بھری ہوئی ہے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کو ڈھانپ لے اور اس کی نصرت اسے مل جائے اور وہ اس کی حفاظت میں آ جائے تو نہ کوئی چیز اسے مضرت پہنچا سکتی ہے اور نہ کوئی چیز دکھ دے سکتی ہے نہ کوئی انسان اسے ایذا دے سکتا ہے اور نہ اس کی مخلوقات میں کوئی مخلوق اس کو دکھ دے سکتی ہے صرف اسی صورت میں انسان اس کی بنائی ہوئی اشیاء سے اور اس کی مخلوقات سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے اور آرام پا سکتا ہے اور صرف اسی صورت میں اس کی ربوبیت کامل اور مکمل طور پر اسے حاصل ہو سکتی ہے اور وہ وہ بن سکتا ہے جو خدا اسے بنانا چاہتا ہے یا جس کی استعداد اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس دعا کے صحیح مفہوم کے سمجھنے اور اسے التزام کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا کرے اور خدا کرے کہ اس دعا کے پڑھنے کے بعد وہ نتیجہ نکلے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ اس دعا کو پڑھنے والے کے حق میں نکلتا ہے یعنی ہم ہر آفت سماوی اور ارضی سے محفوظ ہو جائیں اور شیطان کے سب حملے جو ہم پر کئے جائیں وہ ناکام ہو جائیں اور انسان بھی ہمارے فائدہ کے لئے کام کرنے والے ہوں اور دوسری مخلوق بھی ہمارے فائدہ کے لئے مسخر نظر آئے۔ اللھم آمین۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

خطبہ جمعہ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء
ء ء ء
’’حضور علالت طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لا سکے‘‘۔
(الفضل ۱۳؍اکتوبر۱۹۶۸ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

ہرچیز اللہ کی ہی میراث اور ملکیت ہے اس لئے اس کی راہ میں خرچ کرنا سراسر خیر و برکت کا موجب ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ ؍اکتوبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم کے مضامین ایک دوسرے کی تائید اور دلائل مہیا کرتے ہیں۔
٭ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازتا ہے تو انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا محدود دائرہ میں اور طفیلی طور پر مظہر بنتا ہے۔
٭ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فَنَا فِی الرَّسُوْل اور فَنَا فِی اللّٰہ کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی پائی۔
٭ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اور ہماری نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کی مستحق ٹھہریں۔
٭ احباب جماعت چندہ تحریک جدید اور وقف جدید کی طرف فوری توجہ کریں۔



تشہد تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:۔
وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰـھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَابَخِلُوْابِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِط وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَائُ۔ (آل عمران:۱۸۱۔۱۸۲)
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِo وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِْیدُo اِنْ یَّشَاْیُذْھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍo وَمَاذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ o(فاطر: ۱۶ تا ۱۸)
اس کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں سب کچھ دیتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس دین میں سے مالی قربانیاں پیش نہیں کرتے بلکہ بخل سے کام لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اپنے اموال کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا دنیوی فوائد پر منتج ہو گا اور اسی میں ان کی بھلائی ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کریں گے تو انہیں نقصان ہو گا ان کا خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا ان کے لئے خیر کا موجب نہیں ہو گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ (شَرٌّلَّھُمْ)ایسا کرنا ان کے لئے بہتر نہیں بلکہ ان کے لئے ہلاکت اور برائی کا باعث بنے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو وہ مول لینے والے ہوں گے اس بخل کے دو قسم کے نتائج نکلیں گے ایک اس دنیا میں اور ایک اس دنیا میں جو شخص بخل سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں جہنم میں پھینکا جائے گا اور وہاں اسے ایک نشان دیا جائے گا جس سے سارے جہنمی سمجھ لیں گے کہ وہ اس لئے اس جہنم میں آیا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ نہیں کیا کرتا تھا سَیُطَوَّقُوْنَ ان کے گلے میں ایک طوق ڈالا جائے گا اور وہ طوق تمثیلی زبان میں ان اموال کا ہو گا جو اس دنیا میں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرکے وہ بچایا کرتے تھے اور اس طوق کی وجہ سے ہر وہ شخص جو جہنم میں پھینکا جائے گا جان لے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے اور خدا کو راضی کرنے کے لئے اپنے اموال اس کے سامنے پیش کرو مگر انہوں نے اس کی آواز نہ سنی اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک نہ کہا اور دنیا کے اموال کو اُخروی بھلائی پر ترجیح دی اور نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آج یہ جہنم میں ہیں اور ذلت کا عذاب انہیں دیا جا رہا ہے جہنم کے عذاب میں تو سارے شریک ہیں لیکن یہ طوق بتا رہا ہو گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی تو حفاظت کیا کرتے تھے لیکن اپنی جانوں کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے اپنی ارواح کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے۔
ایک نتیجہ اس بخل کا اس دنیا میں نکلے گا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ آسمانوں اور زمین کی ہر شے اللہ کی میراث ہے اور میراث کے ایک معنی لغت نے یہ بھی کئے ہیں کہ ایسی چیز جو بغیر کسی تکلیف کے حاصل ہو جائے پس اللہ تعالیٰ جو خالق ہے ربّ ہے اور جس کی قدرت میں اور طاقت میں ہر چیز ہے جس کے کُنْ کہنے سے ساری خلق معرض وجود میں آئی ہے کسی چیز کے پیدا کرنے یا اس کے حاصل کرنے میں اسے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی اور جب ہر چیز اللہ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جو شخص بھی اللہ کو ناراض کرے گا وہ اس دنیا میں اموال کی برکت سے محروم ہو جائے گا یا کوئی اور دکھ اس کو پہنچایا جائے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دی اور وہ یہود کی مثال ہے کہ جب مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرو تو یہود میں سے بعض کہتے ہیں کہ اچھا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ ہوا فقیر اور ہم ہوئے بڑے امیر ہمارے اموال کی خدا کو ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے وہ ہم سے مانگ رہا ہے اسی پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا چونکہ بخل کے ساتھ ذات باری کا استہزا بھی شامل ہو گیا ہے اس لئے انہیں عذاب حریق یعنی ایک جلن والا عذاب دیا جائے گا اور ان لوگوں کو جنہوں نے اس قسم کے فقرے مسلمانوں کو ورغلانے اور بہکانے کے لئے کہے تھے اسی دنیا سے جلن کا عذاب شروع ہو گیا تھا۔ اسلام ترقی کرتا چلا گیا اور وہ لوگ جو غریب تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ساری دنیا کے اموال ان کے قدموں پر لا رکھے اور جو مخالف بھی خداتعالیٰ کے ان فضلوں اور انعاموں کو دیکھتا تھا وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا تھا کہ سچا ہے وہ جس نے کہا تھا کہ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور جو شخص مخالفت کو چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا اس کے دل میں ایک جلن پیدا ہوتی تھی یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ غریب تھے ہمارے محتاج تھے ہم ہی ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور ہمارے بغیر ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں (ان دنوں جو یہود عرب میں آباد تھے وہ عربوں کو قرض دیا کرتے تھے) غرض انکے دلوں میں یہ دیکھ کر جلن پیدا ہوتی تھی کہ یہ بہت تھوڑے عرصہ میں یعنی چند سال کے اندر اندر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کرکے اس قسم کے نتائج نکالے ہیں کہ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں پر لا ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مضامین بیان کئے ہیں وہ ایک دوسرے کی تائید کرتے اور دوسرے مضامین کے لئے دلائل مہیا کرتے چلے جاتے ہیں چنانچہ سورئہ فاطر میں اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سچ تو یہ ہے اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ تم خدا کے فضلوں کے حاجت مند ہو تم اس احتیاج کا احساس پیدا کر لو تم یہ سمجھ لو کہ دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی اُخروی نعمت ہمیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نہ کرے کیونکہ اس دنیا کی ملکیت بھی اس کے قبضہ میں ہے اور اس دنیا کی نعمتیں بھی اس کے ارادہ اور منشاء کے بغیر کسی کو مل نہیں سکتیں۔ تمہیں (جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے) جوتی کا ایک تسمہ بھی اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک خداتعالیٰ کا منشاء نہ ہو ہر چیز میں ہر وقت اور ہر آن تم محتاج ہو تمہارے اندر اپنے ربّ کی احتیاج ہے خدا تمہارا محتاج نہیں خداتعالیٰ تو غنی ہے وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ حقیقی غنا اسی کی ذات میں ہے کوئی اور ہستی ایسی نہیں جس کی طرف ہم حقیقی غنا کو منسوب کر سکیں اور کہہ سکیں کہ اس کے اندر غنا پائی جاتی ہے اور وہ غنی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نیک بندہ صفات باری کا مظہر بنتے ہوئے غنا کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق اپنے ربّ سے پائے پھر وہ ایک معنی میں غنی بھی بن جاتا ہے ایک معنی میں وہ ربوبیت بھی کرتا ہے اور رحمانیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے رحیمیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے وہ معاف بھی کرتا ہے اورمَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے جلوے بھی دکھاتا ہے لیکن یہ سب نسبتی اور طفیلی چیزیں ہیں انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی دی ہوئی توفیق سے صفات باری کا مظہر بنتا ہے اگر خدا کا سہارا نہ ہو تو پھر خداتعالیٰ کی صفات کا کون مظہر بن سکے؟ ہاں جب اللہ تعالیٰ خود اپنا سہارا دیتا ہے اور اپنے فضل سے نوازتا ہے تو انسان اس کی صفات کاملہ کا محدود دائرہ میں اور طفیلی طور پر مظہر بھی بنتا ہے اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق بنتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلْغَنِیُّ یعنی کامل غنا والی ذات تو اللہ کی ذات ہے اور وہ غنی ہونے کے لحاظ سے تمہارا محتاج نہیں اور اَلْغَنِیُّ کے اندر یہ مفہوم بھی آ گیا ہے (جس کو پہلے فقرہ میں کھول کر بیان کیا گیا تھا) کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی احتیاج ہے تم زندہ نہیں رہ سکتے جب تک حَیّ خدا تمہاری زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے والا نہ ہو اور اپنی حیات کاملہ سے تمہیں ایک عارضی زندگی نہ عطا کرے تمہاری استعدادیں اور قوتیں قائم نہیں رہ سکتیں جب تک کہ خدائے قیوم کا تمہیں سہارا نہ ملے۔ سب تعریفوں کی مالک اس کی ذات ہے اس لئے وہ تمہاری احتیاجوں کو پورا کرتا ہے اور تمہارے دل سے یہ آواز نکلتی ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ تم اس کے محتاج ہو اور وہ تمہارا محتاج نہیں اس لئے تم اپنی فکر کرو اِنْ یَّشَاْیُذْھِبْکُمْ اگر وہ چاہے تو روحانی حیات سے تمہیں محروم کر دے وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ اور ایک اور ایسی قوم پیدا کر دے جو اپنے کو اس کے لئے فنا کر دے اور اس میں ہو کر ایک نئی زندگی پائے۔
خلق جدید کا ایک نظارہ دنیا دیکھے گی پھر وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے جیسا کہ نبی اکرمﷺ کے صحابہؓ نے فَنَا فِی الرَّسُوْلِ اور فَنَا فِی اللّٰہِ کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی پائی اور ان کی خلق جدید ہوئی یہودیوں کے بر عکس ان کا یہ حال تھا کہ ایک موقعہ پر ایک جنگ کی تیاری کے لئے بہت سے اموال کی ضرورت تھی اور ان دنوں کچھ مالی تنگی بھی تھی اور دنیا ایسی ہی ہے کبھی فراخی کے دن ہوتے ہیں اور کبھی تنگی کے دن ہوتے ہیں اس موقعہ پر بھی تنگی کے ایام تھے اور جنگی ضرورت تھی نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے ضرورت حقہ کو رکھا اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی انہیں تلقین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر آ گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آ گئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کر لی جائے کہ میں دس ہزار صحابہؓ کا پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے علاوہ آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دئیے اسی طرح تمام مخلص صحابہؓ نے اپنی اپنی توفیق اور استعداد کے مطابق مالی قربانیاں پیش کیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بہترین نتائج نکالے۔
ایک موقعہ پر ایک نو مسلم قبیلہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آ گیا اور ان کو آباد کرنے کا سوال تھا وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ہوں گے کیونکہ ان دنوں وہاں بھی مخالفت بہت زیادہ تھی جیسا کہ کبھی کبھی ہر زمانہ میں اسلام کے خلاف ہر ملک میں مخالفت پیدا ہوتی رہتی ہے اور مومن ان مخالفتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے کیونکہ ان کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے دنیوی سامانوں پر نہیں ہوتا بہرحال ایک قبیلہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آیا تو ان کے آباد کرنے کے لئے مال کی ضرورت تھی۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ کرامؓ کو مالی قربانیاں پیش کرنے کی تلقین کی آپؐ کی اس اپیل کے نتیجہ میں ہر شخص نے یہ سوچا کہ میرے پاس جو چیز زائد اور فاضل ہے وہ میں لا کر پیش کر دوں لیکن ’’فاضل‘‘ کے معنی انہوں نے وہی کئے تھے جو ایک مومن کیا کرتا ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارے پاس دو درجن کوٹ ہونے چاہئیں اور پچاس قمیصیں ہونی چاہئیں اور ایک دو پھٹی پرانی قمیصیں جو بیکار پڑی ہیں اور استعمال میں نہیں آتیں وہ لا کر دے دی جائیں بلکہ ان میں سے اگر کسی کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے تھے تو اس نے کہا میں ایک جوڑے میں گزارہ کر سکتا ہوں دوسرا جوڑا زائد ہے چنانچہ اس نے وہ جوڑا پیش کر دیا۔ ایک صحابیؓ کے پاس کچھ سونا تھا انہوں نے یہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا یہ عمدہ موقع ہے رسول کریمﷺ نے ضرورت ہمارے سامنے رکھی ہے اور ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ ہم خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کریں چنانچہ وہ اشرفیوں کا ایک توڑا (جو وہ اچھی طرح اٹھا بھی نہیں سکتے تھے) لے آئے اور رسول کریمﷺ کی خدمت پیش کر دیا اور اس طرح غلہ کپڑوں اور روپے کے ڈھیر لگ گئے اور خداتعالیٰ نے مومنوں کے اس ایثار کے نتیجہ میں ایک پورے قبیلہ کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے سامان کر دئیے۔
ان دو واقعات کے بیان کرنے سے اس وقت میری یہ غرض نہیں کہ میں یہ بتائوں کہ صحابہ کرامؓ کس قسم کی قربانیاں کیا کرتے تھے بلکہ میری غرض یہ بتانا ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جس روح کا صحابہ کرامؓ نے مظاہرہ کیا تھا وہ کیا تھی؟ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جو روح تھی وہ یہ تھی کہ نَحْنُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہ ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور اَللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الحَمِیدُاللہ کو کسی کی احتیاج نہیں تمام تعریفوں کا وہ مالک ہے ہمیں اپنی دنیوی اور اُخروی ضرورتوں کے لئے یہ قربانیاں دینی چاہئیں اور دنیوی اور اُخروی انعاموں کے حصول کے لئے ان قربانیوں کا پیش کرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔
ان مثالوں سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہؓ کے اندر جو روح تھی وہ یہ تھی کہ وہ اَلْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ ہیں منافق ہر جگہ ہوتے ہیں اس وقت میں ان کی بات نہیں کر رہا ان میں سے جو مخلص اور ایثار پیشہ تھے اور بھاری اکثریت انہی لوگوں کی تھی ان کی زبان پر یہودیوں کی طرح یہ نہیں آتا تھا کہ اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَائُ بلکہ ان کی زبان پر یہ تھا، ان کے دل میں یہ احساس تھا اور ان کی روح میں یہ تڑپ تھی کہ وہ اَلْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ ہیں نہ ان کی کوئی مادی ضرورت پوری ہو سکتی ہے اور نہ روحانی جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرورت کو پورا نہ کرے غرض جس سے ہم نے ہر شئی کو حاصل کرنا ہے اس کی رضا کے حصول کے لئے پانچ روپیہ یا پانچ لاکھ روپیہ قربان نہیں کیا جا سکتا؟ میں نے صحابہؓ کی ایک مثال دی ہے کہ جس کے پاس دو جوڑے کپڑے تھے اس نے ایک جوڑا کپڑے پیش کر دئیے تفصیل تو نہیں ملتی لیکن یہ امکان ہے کہ ان میں سے کسی کو اس قربانی کی توفیق ملی ہو اور اس کے بعد وہ مثلاً فوت ہو گیا ہو اور مزید قربانی کا اسے موقع نہ ملا ہو اسے تو اس قربانی کے نتیجہ میں اُخروی انعامات مل گئے لیکن اس کی اولاد کو اس ایک جوڑے کپڑوں کے نتیجہ میں اتنے اموال دئیے گئے کہ اگر وہ چاہتے تو اس قسم کے ایک ہزار جوڑ بنا لیتے۔ پس ہم خداتعالیٰ کے محتاج ہیں۔ ہم فقیر ہیں۔ خداتعالیٰ ہمارا محتاج نہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بڑی پیاری بات کہی ہے جو قرآن کریم نے بھی نقل کی ہے اور وہ یہ ہے کہ رَبِّ اِنِّیْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص:۲۵)کہ ہر چیز کی مجھے احتیاج ہے جو بھلائی بھی تیری طرف سے آئے میں اس کا محتاج ہوں ،میں اسے اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتا جب تک تو مجھے نہ دے وہ مجھے نہیں مل سکتی غرض حقیقی خیر چاہے دنیوی ہو یا اُخروی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ملا کرتی ویسے اللہ تعالیٰ کتوں کو بھی بھوکا نہیں مار رہا ،سؤر بھی اس کی بعض صفات کے جلوے دیکھتے ہیں ان کو بھی خوراک مل رہی ہے اور ان کی (مثلاً بیماریوں سے) حفاظت بھی ہو رہی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی زمانہ میں وباء کے طور پر اس قسم کے جانوروں کو ہلاک کر دے جس طرح وہ بعض دفعہ انسان کی بعض گنا ہگار نسلوں کو فنا کر دیتا ہے لیکن جو سلوک ان جانوروں سے ہو رہا ہے وہ اس سلوک سے بڑا مختلف ہے جو انسان سے ہو رہا ہے اور جو سلوک ایک کتے سے ہو رہا ہے جو سلوک ایک سؤر سے ہو رہا ہے جو سلوک ایک گھوڑے یا بیل یا پرندوں سے ہو رہا ہے اس کے مقابلہ میں جو سلوک ایک انسان سے ہو رہا ہے اس کو ہم خیر کہہ سکتے ہیں۔ باقی عام سلوک ہے گو ایک لحاظ سے وہ بھی خیر ہے لیکن صحیح اور حقیقی معنی میں وہ خیر نہیں اور انسان خیر کا محتاج ہے اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر نہ ملے بلکہ اس سے عام سلوک ہو تو اس دنیا میں تو اس کا پیٹ بھر جائے گا مگر اس دنیا میں بھوک کیسے دور ہو گی یا مثلاً اس دنیا میں سورج کی تپش ہے اگر اسے ایک چھوٹا یا بڑا مکان مل گیا تو وہ اس تپش سے محفوظ ہو جائے گا لیکن اس دنیا میں جہنم کی آگ سے اسے کون بچائے گا؟اس دنیا میں اسے کوئی بیماری ہوئی تو کسی حکیم نے اسے روپیہ کی دوائی دے دی یا کسی ڈاکٹر نے دو ہزار روپیہ کی دوائی دے دی اور اسے آرام آ گیا یہ درست ہے لیکن اس دنیا میں جہنم میں جو بیماری ظاہر ہو گی ،جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہو گی، کسی کو کوڑھ ہوا ہو گا۔ کسی کو فالج ہو گا اور کسی کو پتہ نہیں کون سی بیماری ہو روحانی طور پر جو اس کی یہاں حالت تھی وہ وہاں ظاہر ہو رہی ہو گی، وہاں کون ڈاکٹر اس کے علاج کے لئے آئے گا؟
پس انسان کو ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے اور ہمیں ہر قسم کی قربانیاں اس کی راہ میں دینی چاہئیںاس وقت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر (مجھ پر بھی اور آپ پر بھی) بڑا فضل کیا ہے اور ہمیں توفیق عطا کی ہے کہ ہم اس کے مسیح موعود پر ایمان لائیں اور اس کی راہ میں اس نیت سے قربانیاں دیں کہ اس کی رضا ہمیں حاصل ہو اور دنیا میں اسلام غالب آ جائے اس وقت غلبہ اسلام کے راستہ میں جتنی ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں وہ آپ لوگوں نے ہی پوری کرنی ہیں۔ اگر آپ ان ضرورتوں کو پورا نہیں کریں گے تو کھڑے ہو کر یہ تقریریں کرنا کہ اسلام کا غلبہ مقدر ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام غالب آئے بے معنی چیز ہے، اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کو غالب تو کرے گا لیکن اگر ہم بحیثیت جماعت خلق جدید کے مستحق نہیں ٹھہریں گے تو دنیا میں کسی اور قوم میں خلق جدید کا نظارہ نظر آئے گا اسلام تو بہرحال غالب آئے گا لیکن کیوں نہ وہ ہمارے ہاتھ سے غالب آئے، کیوں غیر؟اللہ کے فضلوں کے وارث بنیں اور ہم محروم رہ جائیں۔
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم بھی اور ہماری بعد میں آنے والی نسلیں بھی اور وہ لوگ بھی جو ہمارے ساتھ بعد میں آ کر شامل ہوں گے سارے ہی خدا کے فضلوں کے وارث بنیں اور اس کے انعامات کے مستحق ٹھہریں پس بخل کو دل سے نکال دینا چاہئے اور اس یقین کامل کے ساتھ نکال دینا چاہئے کہ خدا کی راہ میں بخل دکھانا جہنم کو مول لینا ہے اور اس سے زیادہ شر اور کوئی ہے نہیں۔ غرض اگر ہم خیر چاہتے ہیں تو ہمیں دل سے بخل نکالنا پڑے گا اور خداتعالیٰ کے در پر کھڑے ہو کر یہ کہنا پڑے گا کہ اے خدا! سب کچھ تو نے ہی ہمیں دیا ہے ہم سے جتنا تو چاہتا ہے لے لے ہم جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کی میراث تیری ہی ہے سب کچھ تیرا ہے۔ تو ہمارا امتحان لیتا ہے آزماتا ہے اور تو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو جو تیرے فضل نے ہمیں دی تھیں تیرے حضور ساری (اگر ساری کی ساری دینے کا حکم ہو) یا کچھ (اگر کچھ دینے کا حکم ہو) پیش کر دیں۔ سو ہم نے یہ چیزیں اس یقین پر اور اس دعا کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ تو ہم پر رحم کرے اور اپنی دینی اور دنیوی نعمتوں سے ہمیں نوازے اور اس دنیامیں بھی تیری رضا کی نظر ہم پر رہے اور اس دنیا میں بھی ہم تیری رضا حاصل کرنے والے ہوں۔
اس وقت میں احباب کو دو چندوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں ایک تو چندہ تحریکِ جدید ہے اور دوسرا چندہ وقفِ جدید۔ تحریکِ جدید کی آمد اب تک جو ہوئی ہے وہ تسلی بخش نہیں گو وہ ہے کافی (جماعت بڑی قربانی کرنے والی ہے) لیکن بعض احبابِ جماعت تو چست ہوتے ہیں مگر مقامی طور پر نظامِ جماعت سست ہوتا ہے اور اس طرح کاغذوں میں کمی نظر آجاتی ہے ہماری دو جماعتیں ہیں جن کاچندہ زیادہ ہوتا ہے اور ان کے تحریکِ جدید کے وعدے بھی زیادہ ہوتے ہیں وہ دو جماعتیں ربوہ اور کراچی ہیں ربوہ ابھی تک اس وعدے سے پیچھے ہے جو اس نے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر کیا تھا اسی طرح کراچی کی جماعت بھی ابھی اس وعدہ سے پیچھے ہے ( وعدوں کے لحاظ سے ادائیگی کے لحاظ سے نہیں) جومجموعی طور پر کراچی کی طرف سے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر ہوا تھا کراچی کی جماعت نے مجموعی وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم احباب جماعت میں تحریک کر کے ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ تحریکِ جدید کی مد میں ادا کریں گے اس وعدہ میں ابھی سات آٹھ ہزار روپیہ کی کمی ہے ربوہ کا وعدہ ستر ہزار روپیہ تھا اس وعدہ کے لحاظ سے ربوہ بھی سات ہزار پیچھے ہے یعنی ابھی تک ۶۳ ہزار روپیہ کے وعدے ہوئے ہیں۔
غرض وعدے بھی بڑھانے ہیں اور ادئیگیاں بھی تیز کرنی ہیں تاکہ جو کام خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ تحریکِ جدید کی قربانیوں کے نتیجہ میں ساری دنیا میں ہو رہا ہے وہ جاری رہ سکے اور ترقی کرسکے تحریکِ جدید کے کام نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری ضرورتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ جب یہ کام شروع ہوا تھا تو سارا مالی بوجھ ہندوستان (اس وقت تقسیمِ ملک نہیں ہوئی تھی) کی جماعتوں پر تھا پھر بیرونی جماعتیں بڑھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھی اخلاص اور ایثار کا جذبہ پید اکیااور اس وقت وہ( غیر ممالک کے احمدی) پاکستان کے کل چندہ تحریکِ جدید سے آٹھ گنا زیادہ چندہ ادا کر رہے ہیں گویا پاکستان کی جماعتیں اخراجات ( جوبیرونی ملک میں ہو رہے ہیں) کا آٹھواں حصہ بلکہ اس سے بھی کم (شائد نواں حصہ) ادا کررہی ہیں پھر اس رقم میںسے بھی کچھ رقم باہر نہیں جاسکتی کیونکہ اس وقت فارن ایکسچینج پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ یہاں کے کارکنوں کی تنخواہوں وغیرہ اور خط وکتابت پر بہت سے اخراجات یہاں کرنے پڑتے ہیں۔غرض ہمارا چندہ تحریکِ جدید کے کل چندہ کا کوئی آٹھواں یا نواں حصہ بنتا ہے اگر ہم اس کی ادائیگی میں بھی سستی کریں توہم سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو کیسے پورا کریںگے حالات بدل رہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ہماری ضروتیں بھی بڑھ رہی ہیں مثلاً آپ دیکھیں ایک ملک میں آپ نے کام کیا وہاں عیسائیت بڑے زوروں پر تھی اور وہ امید رکھتی تھی کہ عنقریب وہ سارا ملک عیسائی ہوجائے گا پھر ہمارے مبلغ خدا کی توفیق سے وہاں پہنچے اور خدا کی توفیق سے ہی ان کے کاموں میں برکت پیدا ہوئی اور آج وہاں کے حالات بدلے ہوئے ہیں اور اس قدر بدلے ہوئے ہیں کہ ایک ملک سے (بہت سے خطوط آتے رہتے ہیں میں ایک مثال دے رہا ہوں) مجھے مطالبہ آیا کہ یہاں کے حالات کے لحاظ سے آپ فوراً نواور مبلغ ہمارے ہاں بھجوادیں یہ افریقہ کا ایک ملک ہے اور لکھنے والے بھی افریقن احمدی ہیں غرض دنیا کے حالات بالکل بدل رہے ہیں اور جب حالات بدلے ہیں تو ہماری ضروتیں بھی بدلیں گی مثلاً ایک ملک میں ہمارامبلغ گیا اس نے کام کی ابتداء کی اور اس وقت وہ کام تھوڑا تھالیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت ڈالی اور وہ پھیلا اور اب ہم الحمدا للہ کہتے تھکتے ہیں اور اس کا وہ سزاوار ہے اور جب ہمارا کام پھیلا اور بڑھا تو ہمیں اور زیادہ روپیہ کی ضرورت ہوئی لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ ہم تو یہ ذمہ داریاں نبھانے کے لئے تیار نہیں تو یہ کئے کرائے پر پانی پھرنے والی بات ہے اسی لئے خدائے قادر اور توانا نے کہاکہ کام تو نہیں رکے گا لیکن پھر مجھے خلق جدید کرنی پڑے گی ہمیں یہ دعاکرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر ہی زندگی قائم رکھے اور ہماری حیات روحانی ہم سے نہ چھینے اور ہمیں تحریکِ جدید کے چندوں کو بڑھانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ بہت جماعتوں نے ابھی وہ وعدے بھی پورے نہیں کئے جو انہوں نے مجموعی لحاظ سے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع پر کئے تھے اور پھر ادائیگیاں بھی جلد تر پوری کرنی چاہئے دفتر کا اندازہ ہے کہ اگر سال رواں کی آمد پچھلے سال کی آمد سے دس فیصدی نہ بڑھی تو ہماری بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکیں گی دوسرے مَیں وقفِ جدید کے چندہ کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وقفِ جدید کا سال رواں کا چند ہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال سے کچھ اچھا ہے اور امید ہے کہ وہ سال کے آخر تک پورا ہوجائے گا سال رواں کا بجٹ آمد ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپیہ تھا اس میں سے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ ۸؍اخاء تک وصول ہوچکے تھے گذشتہ جمعہ میرا خیال تھا کہ خطبہ جمعہ میںاس چند ہ کے متعلق تحریک کروں لیکن میں بیمار ہوگیا اور جمعہ میں نہ آسکا بہر حال ۸؍اخاء تک ایک لاکھ دس ہزار روپیہ وصول ہوچکا تھا اور اس عرصہ میں اور وصولی بھی ہوگی اور امید ہے ساری رقم وصول ہوجائے گی انشاء اللہ لیکن جنہوں نے وعدے لکھوائے ہیں وہ اپنے وعدے پورے کریں اگر سارے وعدے پورے ہوجائیں بجٹ سے کہیں زیادہ وصول ہوجائے گا۔
اطفال الا احمدیہ کا جو پچاس ہزار چندہ تھا ا س میں سے صرف گیارہ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے میری یہ خواہش بھی ہے اور میں دعا بھی کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان بچے اور چھوٹے بچے جنہیں مَیں نے اس میں شامل کیا ہوا ہے وقفِ جدید کاسارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں اور میرے نزدیک ایسا ممکن ہے لیکن ان کے والدین اور سرپرست اپنی ذمہ داری کااحساس رکھتے یا انہیں ذمہ داری کااتنا احساس نہیں جتنا ہونا چاہئے انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ وہ دوچیزوں میں سے کونسی چیز پسند کریں گے۔ ایک یہ کہ ان کے بچے بچپن کی عمر سے ہی بخل کی عادتوں سے چھٹکارا حاصل کرکے اس دنیا میں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وراث ہوتے چلے جائیں یا وہ یہ پسند کریں گے کہ جہنم کے اندر ان بچوں کی گردنوں میں وہ طوق ہو جس کاذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے باپ یقینا پہلی بات کوپسند کریں گے لیکن صرف دعویٰ سے نتیجہ نہیں نکلا کرتا۔ یہ مادی دنیا عمل کی دنیا ہے جو شخص عمل (دعا بھی ایک عمل ہے جب میں عمل کہتا ہوں تو میری مراد ہر اس عمل سے ہے جس کے کرنے کی ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے اور جس کے کرنے کا اس نے ہمیں حکم فرمایاہے ) کرتا ہے تو اس عمل کا ہی نتیجہ اُسے ملتا ہے جو شخص یہ کہے کہ مسجد میں با جماعت نماز پڑھنی چاہئے سوائے عذر معقول کے اور صبح شام تک وہ یہ وعظ کرتا رہے لیکن ایک نماز بھی مسجد میں پڑھنے نہ آئے توکیا آپ سمجھتے ہیں اس کوبا جماعت نماز کاثواب مل جائے گا؟ اس لئے کہ بارہ گھنٹے اس کے منہ سے ایسے فقرات نکلتے رہے کہ مسجد میںجاکر نماز پڑھنی چاہئے ہرگزنہیں پس اگر آپ کے دل میں یہ احساس ہو کہ کہیں ہمارے بچوں کو بخل کی عادت نہ پڑ جائے اور اس عادت میں وہ پختہ نہ ہو جائیں تو مہینہ میں ایک اٹھنی (یا جواو ر بھی غریب ہیں یعنی جو خاندان اقتصادی لحاظ سے اچھے نہیں ان کے متعلق میں نے کہا ہے کہ ایک خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی مہینہ میں دیں) ایسی چیز نہیں جوبوجھ معلوم ہو صرف توجہ کی کمی ہے اور یہ حالت دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے پس میں بچوں کو بھی اور ان کے والدین اور سرپرستوںکو بھی اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے آہستہ آہستہ عادت ڈال کر وقفِ جدید کے نظام کو مالی لحاظ سے بچوں کے سپرد کر دیناہے تو ابھی تو ابتداء ہے اورپچاس ہزار روپیہ کی رقم ان کے لئے مقرر کی گئی ہے لیکن یہ رقم دو لاکھ اڑھائی لاکھ یا تین لاکھ ہوجائے گی ضرورتیں بڑھیں گی توقربانی جذبہ بھی بڑھے گا اور ایثار بھی بڑھے گا اور چندہ بھی بڑھتا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے بچوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس چندہ میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالیں اور یہ کوئی ایسی رقم نہیں ہے جو ادا نہ ہواس وقت جماعت کی جو اقتصادی حالت ہے اس کو سامنے رکھیں تو یہ مشکل امر نہیںکہ بچے اس بوجھ کو اٹھا لیںلیکن وہ تو بچے ہیں اصل ذمہ داری تو ان کے سرپرستوں اور والدین پر ہے ایک بچہ مثلاً پانچ سال کا ہے اب اللہ تعالیٰ اس سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے میری راہ میں قربانی کیوںنہیںدی کیونکہ ہرنیک عمل کی ایک بلوغت ہوتی ہے اور وہ ابھی مالی قربانی کی بلوغت کو نہیں پہنچا جب وہ اس بلوغت کوپہنچے گا تو اگر آپ نے اس کی تربیت نہیں کی اور اس میں بخل پید ا ہو گیا اور بخل کی عادت پختہ ہوگئی تو پھر جس طرح وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہو گا آپ بھی جواب دہ ہوںگے۔
پس ابھی سے اپنی او راپنے بچوںکی تربیت کریں اور ان کو خد اکی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالیں وقفِ جدید کی رقم اس وقت تھوڑی ہے کہ میںسمجھاتھا اسے بچوں کوخداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے ڈیڑھ لاکھ دو لاکھ روپیہ چندہ تو کچھ بھی نہیں اور پھر خاص طور پر جماعت کی موجودہ اقتصادی حالت کے لحا ظ سے۔ خداتعالیٰ کاجماعت کابڑا فضل ہے پچھلے سال میںنے ایک ضلع کی زمین کی ملکیت کے متعلق اندازہ لگایا تھا کہ اگر ہمارے دوست دیسی بیج کی بجائے میکسی پاک اور انڈس بیج بوئیں تو اگر اخلاص اتنا ہی رہے جتنا اب ہے تو اس جماعت کی آمد نئی گندم سے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کاچندہ بڑھ کر دس لاکھ ہوجائے گا غرض اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا اور یہ کوئی بڑی رقم نہیں جو بچوں سے مانگی جارہی ہے یہ رقم مانگی بچوں سے جارہی ہے اور بچوں کے ہاتھ سے ہمیںملنی چاہئے ایک بچہ جو بالکل چھلے کا ہی ہو ماں اگر چاہے تو اس کے ہاتھ سے چندہ دلوا سکتی ہے۔ کیا ہم پیدائش کے وقت ا س کے کان میں اذان نہیںکہتے آپ اس کے ہاتھ میںاٹھنی پکڑا دیں یا دو ماہ کا چندہ اکٹھا دینا ہو تو روپیہ کانوٹ ا س کے ہاتھ میں دے دیں اور آگے کرد یںاور لینے والے سے کہیں اس سے لے لو اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا مگر لینا ہم نے بچہ سے ہی ہے ہاں! ذمہ داری بہرحال والدین اور سر پرستوں پر ہی ہے۔
پس میں جماعت کے احباب کوتوجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس طرف فوری طور پر متوجہ ہوں کیونکہ ابھی پچاس ہزارر وپیہ سے صرف گیارہ ہزار وصول ہوا ہے اور آپ وصولی کوسالِ رواں میں پچاس ہزار تک بہرحال آپ کو پہنچانا چاہئے اللہ تعالیٰ آپ کوبھی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ذمہ واری کو سمجھیں اور اسے اس رنگ میں نبھائیں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہوجائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

تحریک جدید دفتر دوم کے معیار اخلاص کو اور دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کی جائے

(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۵ ؍اکتوبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ تحریک جدید کے پینتیسویں سال کا اعلان۔
٭ آئندہ نسل کے دل میں خدمت اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ تیزکریں۔
٭ احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انسان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔
٭ سچی بات یہی ہے کہ تمہیں ہر آن، ہر لمحہ اور ہر چیز کیلئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے۔
٭ زمینداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے کھیتوں میں جا کر ضرور دعا کیا کریں خصوصاً وہ دعا جو قرآن نے سکھائی ہے۔




تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَمِنْکُمْ مَّنْ یَّبْخَلُ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ ط وَاللّٰہُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَایَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْo(محمّد: ۳۹)
اس کے بعد فرمایا:۔
اللہ کے نام کے ساتھ جو قادر و توانا اور ربوبیت تامہ کا مالک ہے اور جس کے قبضہ میں تمام دل ہیں جب وہ چاہتا ہے اور ارادہ کرتا ہے تو اپنے فضل سے دلوں میں نیک تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں تحریک جدید کو شروع ہوئے ایک لمبا عرصہ ہو چکا ہے اور اس وقت اس کے مجاہدین کے تین گروہ ہیں جن کو تحریک جدید کی اصطلاح میں دفاتر کہا جاتا ہے یعنی دفتر اوّل، دفتر دوم اور دفتر سوم۔ سالِ رواں کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ دفتر اوّل (جس کی ابتداء پر ۳۴ سال گزر چکے ہیں) کا وعدہ سال رواں کا ایک لاکھ پچپن ہزار روپیہ ہے اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے تین لاکھ چون ہزار ہیں اور دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے اکتالیس ہزار ہیں اگر مختلف دفاتر میں شامل ہونے والوں کی اوسط فی کس آمد نکالی جائے تو دفتر اوّل کے مجاہدین کی اوسط ۶۴ روپے بنتی ہے بہت سے احباب اس سے بہت زیادہ دیتے ہوں گے اور جو غریب ہیں وہ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق ہی تحریک جدید میں حصہ لیتے ہوں گے لیکن اوسط ان کی ۶۴ روپے فی کس بنتی ہے اس کے مقابلہ میں دفتر دوم کے مجاہدین کے تحریک جدید کے چندہ کی اوسط انیس روپے بنتی ہے اور ۶۴ روپے اوسط کے مقابلہ میں یہ بہت کم ہے۔
دونوں دفاتر کی اوسط میں بڑا فرق ہے دفتر سوم کے مجاہدین مال کی اوسط چودہ روپے فی کس بنتی ہے اس میں اور دفتر دوم کی اوسط میں فرق تو ہے لیکن زیادہ فرق نہیں خصوصاً جب یہ بات ہمارے مدنظر رہے کہ اس میں شامل ہونے والے بہت سے بچے بھی ہیں جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا ان کے والدین ان کی طرف سے کچھ چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیتے ہیں اور جو کمانے والے ہیں وہ اپنی کمائی کی عمر کے ابتدائی دور میں سے گزر رہے ہیں کیونکہ دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی انسان ملازمت کرتا ہے تو اسے عام طور پر گریڈڈ (Graded) تنخواہ ملتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی تنخواہ کا ابتدائی حصہ اسے ملتا ہے اور پھر ہر سال ترقی ہوتی رہتی ہے اس طرح اس کی آمد اس کی تعلیم قابلیت اور استعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے پھر جوں جوں اس کا تجربہ اور عمر بڑھتی جاتی ہے اس کی آمد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اگر ساتھ ہی اخلاص بھی اپنی جگہ قائم رہے تو اس کے چندہ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن بسا اوقات اللہ تعالیٰ تھوڑی نیکی کرنے والوں کو نیکیوں کی مزید توفیق عطا کرتا ہے اخلاص کی نسبت بھی بڑھ جاتی ہے اور ان کے چندے بھی بڑھ جاتے ہیں۔
اس لحاظ سے جب میں نے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم آج دفتر دوم میں شامل ہونے والوں سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ ان کی اوسط بھی ۶۴ روپے فی کس تک پہنچ جائے کیونکہ ان میں عمر اور ادھیڑ عمر کے بھی ہیں کم تربیت یافتہ بھی ہیں اور بعد میں داخل ہونے والے بھی ہیں لیکن میں نے سوچا اور غور کیا اور مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ انیس روپے اوسط بہت کم ہے اور آئندہ سال جو یکم نومبر سے شروع ہو رہا ہے جماعت کے انصار کو (دفتر دوم کی ذمہ داری آج میں انصار پر ڈالتا ہوں) جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے (آزادانہ طور پر نہیں) یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں اور اس کی اوسط انیس روپے سے بڑھا کر تیس روپے فی کس پر لے آئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ چونسٹھ روپے فی کس اوسط پر لانا ابھی مشکل ہو گا اور یہ ایسا بار ہو گا جسے شاید ہم نبھا نہ سکیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو اس معیارکو دفتر اوّل کے چونسٹھ روپے فی کس کے مقابلہ میں انیس روپیہ سے بڑھا کر تیس روپیہ تک پہنچا سکتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ہمت اور توفیق اور مالوں میں برکت دے، اخلاص میں برکت دے تو یہی لوگ تیس سے چالیس اوسط نکالیں گے پھر پچاس اوسط نکالیں گے پھر ساٹھ اوسط نکالیں گے پھر ستر اوسط نکالیں گے اور دفتر اوّل سے بڑھ جائیں گے لیکن آئندہ سال کے لئے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں گی اور میں حکم دیتا ہوں کہ انصار اپنی تنظیم کے لحاظ سے جماعتوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور کوشش کریں کہ آئندہ سال دفتر دوم کے وعدوں اور ادائیگیوں کا معیار انیس روپیہ فی کس اوسط سے بڑھ کر تیس روپیہ فی کس اوسط تک پہنچ جائے اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سال رواں کے جو تین لاکھ چون ہزار روپے کے وعدے ہیں وہ پانچ لاکھ چالیس ہزار روپیہ تک پہنچ جائیں گے۔ دفتر سوم کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ اگرچہ ان کے حالات کے لحاظ سے چودہ اور انیس کا زیادہ فرق نہیں لیکن اس دفتر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے یہ ابھی تک تین ہزار تک پہنچے ہیں لیکن ہم باور نہیں کر سکتے کہ ہماری آئندہ نسل زیادہ ہونے کی بجائے تعداد میں پہلوں سے کم ہو گئی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو وعدہ دیا تھا کہ میں ان کے نفوس میں برکت ڈالوں گا اس وعدہ کو وہ سچے وعدوں والا پورا کر رہا ہے اور ہماری آئندہ نسل میں غیر معمولی برکت ڈال رہا ہے دفتر سوم والوں کا عمر کے لحاظ سے جو گروپ بنتا ہے یعنی اس عمر کے احمدی بچے اور اس زمانہ میں نئے احمدی ہونے والے ان میں سے جس نسبت سے افراد کو تحریک جدید میں شامل ہونا چاہئے اس نسبت سے یہ تعداد تین ہزار سے بڑھنی چاہئے اگلے سال کے لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ جماعت کوشش کرکے اس تعداد کو تین ہزار سے پانچ ہزار تک لے جائے گی اور ان کی اوسط چودہ سے اونچی کرکے بیس تک لے جائے گی اور اس طرح ان کا چندہ ایک لاکھ روپیہ بن جائے گا اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے نتیجہ میں یعنی ہم اپنی کوششوں میں دعائوں اور تدبیر اور اللہ کے فضل کو جذب کرنے کے نتیجہ میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمارے وعدے (خدا کرے کہ وصولی بھی اس کے مطابق ہو) پانچ لاکھ پچاس ہزار سے بڑھ کر سات لاکھ نوے ہزار بن جاتے ہیں اور اس کیلئے جو تدبیر میں بتا رہا ہوں وہ علاوہ دعا کے یہ ہے کہ ہم دفتر دوم کے اخلاص کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کریں اور ان کی اوسط کو انیس سے بڑھا کر تیس تک لے جائیں اور آئندہ نسل کے دل میں خدمت اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ تیز کریں اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو کامیاب کرے تو ان کی تعداد تین ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار تک پہنچ جائے گی میرے اندازہ کے مطابق تویہ تعداد بہت بڑھ سکتی ہے لیکن اس زاویہ نگاہ سے کہ ہماری یہ پہلی کوشش ہو گی میں نے صرف پانچ ہزار تک کہا ہے ویسے میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتیں کوشش کریں تو اسے آسانی سے دس ہزار تک لے جا سکتی ہیں لیکن اس تعداد کو پانچ ہزار تک تو انہیں ضرور لے جانا چاہئے اور ان کے معیار کی اوسط کو بھی چودہ سے بیس تک کر دینا چاہئے تا ہمارے چندے ساڑھے پانچ لاکھ سے بڑھ کر قریباً آٹھ لاکھ تک چلے جائیں۔
جب ضرورت پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو وہ اس سے زیادہ ہے میں نے غالباً پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ جب کام شروع کیا گیا تھا تو بعض ممالک میں ہمارا ایک مبلغ گیا تھا انہوں نے وہاں جا کر کام کی ابتدا کی انہوں نے خدا کی راہ میں قربانیاں دیں اور خداتعالیٰ نے اپنے فضل اور احسان سے ان قربانیوں کو قبول کیا اور جماعت کی دعائیں رنگ لائیں ان کے اچھے نتائج نکلے۔ اب وہاں جماعت کی تعداد بڑھ گئی ہے احمدیت اور اسلام کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے اور جس ملک میں ہمارا ایک مبلغ گیا تھا اور اس کو بھی ہم ٹھیک طرح سے نہ کھلا سکتے تھے، نہ پہنا سکتے تھے، نہ اس کا علاج کر سکتے تھے، غربت میں قربانی اور اخلاص اور ایثار کی چھت کے نیچے رہ کر اس نے کام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے کام میں برکت ڈالی اور اب انہی ممالک میں سے بعض ایسے ہیں جہاں ہمارے چالیس چالیس سکول بن گئے ہیں بڑی کثرت سے وہاں احمدیت اور اسلام پھیل گیا ہے اور ان لوگوں کو یہ احساس ہے کہ احمدیت کے طفیل جو صحیح اسلام انہیں ملا ہے وہ نعمت عظمی ہے قرآن کریم کی برکتوں اور رسول کریمﷺ کے فیوض سے جب وہ حصہ پاتے ہیں تو ان کے دل خدا کی حمد سے معمور ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے ان بھائیوں کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں جو دور دراز ملک سے آئے اور انہیں حقیقی اسلام سے متعارف اور روشناس کرایا اور چونکہ اب ان کے دل میں احساس پیدا ہو چکا ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام انسان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اس لئے ان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم ہی نہیں، ہمارے قبیلہ کا ہر فرد اسلام کی برکتوں سے حصہ لینے والا ہو پھر وہ ہمیں تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے جو چار مبلغ ہمارے ملک میں بھیجے ہیں یہ کافی نہیں اور میں نے بتایا تھا کہ ایک ایک ملک نو نو مبلغوں کا مطالبہ کر دیتا ہے اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے نئے مبلغ تیار ہونے چاہئیں اور نئے مبلغ تیار کرنے میں خرچ بھی زیادہ ہو گا اور ان مبلغوں کو دوسرے ممالک میں بھیجنے کے لئے زیادہ روپیہ کی ضرورت ہو گی خصوصاً موجودہ حالات میں کہ ہمیں فارن ایکسچینج بہت تھوڑا ملتا ہے اس لئے بونس وائوچر خرید کر کرنا پڑے گا جو بہت زیادہ مہنگا پڑتا ہے غرض بڑی مشکل ہے اور روپیہ کی بڑی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے کاموں میں برکت ڈالی ہے ہمارا فلاں ملک میں صرف ایک آدمی گیا تھا اب اس ملک میں جماعت اس طرح پھیل گئی ہے کہ وہاں ہمارے اتنے سکول ہیں اور اتنی مساجد ہیں لیکن جب ہم اپنی کوششوں کے نتائج کو بیان کرتے ہیں تو اصل ضرورتیں بھی ہمارے سامنے آ جاتی ہیں اگر کسی ملک میں پچاس یا سو مساجد بن گئی ہیں تو ان مساجد کو آباد کرنے کے لئے مستحکم تربیتی نظام کی ضرورت پڑ گئی پھر اگر ایک قبیلہ میں سے دس پندرہ یا بیس صد افراد احمدی مسلمان ہو گئے ہیں بد مذہب کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے دہریت کو انہوں نے الوداع کہی ہے عیسائیت سے وہ بیزار ہوئے ہیں تو باقیوں کو اسلام سکھانے کی ضرورت ہے پھر جو مسلمان ہو گئے ہیں انہوں نے اسلام کے نور کو دیکھا ہے اور اللہ اور اس کی صفات کو پہچانا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بدقسمت ہیں انہیں خوش قسمت بنانے کے لئے اور کوشش کرو غرض ہر چیز جو ہمارے لئے فخر کا باعث بنتی ہے وہ ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے ہماری ضرورت کا اظہار کر دیتی ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں مزید قربانیاں دینی پڑیں گی ورنہ ہمارا انجام بخیر نہیں ہو گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار یہ کہا ہے کہ انجام بخیر ہونے کی دعا مانگو کیونکہ وہ کام جو ستر فیصد ہو جاتا ہے اور ۱۰۰ فیصد ہونے سے رہ جاتا ہے وہ ایک فیصد بھی نہیں ہوتا ایک شخص دس پرچے دیتا ہے ان دس پرچوں میں سے وہ نو میں کامیاب ہو جاتا ہے (اور یہ نوے فیصد کامیابی ہو گئی) لیکن دسویں پرچہ میں فیل ہو جاتا ہے تو جن نو پرچوں میں کامیاب ہوا تھا عملاً ان میں بھی فیل ہو گیا اسے اگلی کلاس میں نہیں چڑھایا جائے گا پس انجام بخیر ہونا چاہئے یعنی ہر کوشش ہر جدوجہد اور ہر سٹرگل (Struggle) اپنے کامیاب انجام تک پہنچنی چاہئے اگر وہ کامیاب انجام سے ایک قدم پہلے رک جاتی ہے تو ہماری ساری کوشش ضائع ہو جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہماری پہلی کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو فضل کیا ہے اور اسلام کو غالب کرنے کے جو سامان پیدا کئے ہیں ان ضرورتوں کو ہم پورا کریں اور وقت کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے ہم ہر اس قربانی کو خدا کے حضور پیش کر دیں جس کا آج کی ضرورت تقاضا کرتی ہے اگر ہم آج کی ضرورت کا تقاضا پورا نہیں کرتے تو پہلے جو تقاضے ہم نے پورے کئے وہ بھی رائیگاں جائیں گے کیونکہ ان کا آخری اور حقیقی نتیجہ نہیں نکلے گا لیکن اگر ہم اپنی پہلی کوششں کے نتیجہ میں اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کی ضرورتوں کو پورا کر دیں تو پھر ہمارا ایک قدم آگے بڑھ گیا اور پھر اگلے سال ہمارا ایک قدم اور آگے بڑھ جائے گا یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا اور ساری دنیا کے دلوں میں محمد رسول اللہﷺ کی محبت پیدا ہو جائے گی ادیان باطلہ کبھی اپنے علمی گھمنڈ میں کبھی سائنسی تکبر کے نتیجہ میں اور کبھی سیاسی اقتدار پر ناز کی وجہ سے اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ ان سارے منصوبوں کو ناکام کر دے اور اسلام کو غالب کر دے گا اور اسی طرف آپ کو بلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (محمد: ۳۹) سنو تم وہ لوگ ہو جن کو اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرو یعنی اس لئے خرچ کرو کہ ان راہوں کو کشادہ فراخ اور کھلا رکھو جو اللہ کی طرف لے جانے والی ہیں ادیان باطلہ نے، اندرونی کمزوریوںنے، نفاق نے اور عملی سستیوں نے ان شاہراہوں کو تنگ کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں بعض جگہ تو رستے ہی غائب ہو گئے ہیں جیسا کہ دیہات میں ہم جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جہاں پٹواری کے نقشہ میں بیس فٹ سڑک ہوتی ہے وہاں لوگوں کے آہستہ آہستہ سڑک کو کاٹ کر اپنے کھیتوں میں ملانے کے نتیجہ میں چار فٹ یا پانچ فٹ سڑک رہ گئی ہے۔ اسی طرح جو راستے اللہ تعالیٰ نے قائم کئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں انسان اپنی سستی اور غفلت کے نتیجہ میں، انسان اپنی جہالت کے نتیجہ میں، انسان اپنی نفس پرستی کے نتیجہ میں، انسان شیطانی آواز کی طرف متوجہ ہونے کے نتیجہ میں، ان راہوں کو تنگ کر دیتا ہے پھر وہ تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں یہ تنگی کیسے برداشت کروں تنگی تو اس نے خود پیدا کی ہوتی ہے ان رستوں کو اس نے خود تنگ کیا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خرچ کے لئے اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم ان رستوں کو فراخ اور کشادہ رکھو تا تم بھی بشاشت سے ان کے اوپر چلتے چلے جائو اور جو باہر سے آ کر اسلام میں داخل ہونے والے ہیں ان کے دلوں میں بھی کوئی تنگی پیدا نہ ہو ان کی تربیت کر دی جائے اور بتا دیا جائے کہ یہ وہ راستہ ہے جو خدا تک لے جاتا ہے یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان خدا کی محبت کو حاصل کر لیتا ہے یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر خدا پانے کے بعد وہ چیز مل جاتی ہے جو انسان کی ترقی کا موجب اور اس کی لذت اور سرور کا باعث بنتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنو تمہیں اس خرچ کے لئے اس لئے بلایا جا رہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو دنیا میں قائم کرو اور انفاق فی سبیل اللہ کرو تمہیں صرف ’’انفاق‘‘ کے لئے نہیں بلایا جاتا تم سے یہ بھی نہیں کہا جا رہا کہ اپنے اموال لائو اور جماعت کے سامنے پیش کرو بلکہ تمہیں کہا جا رہا ہے کہ اپنے اموال اس لئے لائو اور پیش کرو تا انسان اللہ کے راستہ پر کامیابی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ اور فراخی کے ساتھ چلنا شروع کر دے اور یہ راہیں اسے اس کے محبوب ربّ تک پہنچا دیں۔
فَمِنْکُمْ مَنْ یَّبْخَلُ لیکن ہوتا یہ ہے کہ تم میں سے بعض بخل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جو شخص بخل کرتا ہے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اس کے بخل کے بد نتائج اس کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے مال سے بعض دفعہ برکت چھین لیتا ہے مثلاً ایک شخص خدا کی راہ میں دینے سے گریز کرتا ہے اور بشاشت سے وہ قربانی نہیں دیتا تو مال تو اس کے پاس اس وقت تک ہی ہے جب تک اللہ تعالیٰ اس کے پاس اس مال کو رہنے دے بعض دفعہ اس کے گھر کو آگ لگ جاتی ہے اس کا دس پندرہ ہزار یا بیس تیس ہزار روپیہ کا کپڑا آ رہا ہوتا ہے وہ کپڑا ٹرک سے چوری ہو جاتا ہے، وہ مال خریدنے جاتا ہے تو کوئی جیب کترا اس کی جیب سے رقم نکال کر لے جاتا ہے پھر وہ سوچتا ہو گا کہ کاش میں یہ مال خدا کی راہ میں پیش کر دیتا ہے اور اگر انسان بخل سے کام نہ لے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دیتا اور اسے بتاتا ہے کہ میں تمہارے مال کی حفاظت کر رہا ہوں ابھی پچھلی گرمیوں کی بات ہے ایک دوست مری کے قریب جہاں میں چند دن کے لئے گیا ہوا تھا ملنے کے لئے آئے وہ زمیندار ہیں ان سے باتیں ہوئیں انہوں نے دعا کے لئے کہا میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دی ہے تم قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کے لئے کوئی غیر معمولی رقم دو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں اور بھی برکت دے تو وہ کہنے لگے کتنی! میں نے کہا یہ میں نے نہیں بتانا میں سمجھتا ہوں کہ اس سے تمہارے ثواب میں کمی آ جائے گی تم اپنی بشاشت اور خوشی کے ساتھ جتنا دینا چاہو دے دو چنانچہ انہوں نے اپنے ایک عزیز کو بہت سی رقم دی زیادہ تر رقم پانچ پانچ سو روپے کے نوٹوں پر مشتمل تھی تھوڑی سی رقم روپیہ روپیہ پانچ پانچ روپے یا دس دس روپے کے نوٹوں کی شکل میں تھی اور اسے کہا کہ ربوہ جا کر پانچ سو روپیہ اشاعت تراجم قرآن کریم کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں انہوں نے شائد کوئی زمین خریدی تھی اور وہاں ادائیگی کرنی تھی انہوں نے اپنے اس عزیز کو کہا کہ باقی رقم وہاں ادا کر دیں ان کا وہ عزیز جب میرے پاس آیا تو اس نے بتایا کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے برکت کیسے حاصل ہوتی ہے میرے جیب میں یہ رقم تھی مجھے یاد نہیں اس نے جیب کترا کہا یا چور کا نام لیا بہرحال اس نے بتایا کہ جس جگہ پانچ پانچ سو نوٹوں پر مشتمل رقم پڑی تھی وہیں وہ رقم بھی تھی جو روپیہ روپیہ پانچ پانچ دس دس روپیہ کے نوٹوں پر مشتمل تھی چور نے یہ تھوڑی رقم چوری کر لی اور بڑی رقم چھوڑ کر چلا گیا وہ کہنے لگا ہم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں دی ہوئی رقم کی برکت دیکھ لی گو ابھی انہوں نے وہ رقم خدا کی راہ میں دینے کی نیت ہی کی تھی ابھی وہ رقم خداتعالیٰ کے خزانہ میں نہیں پہنچی تھی۔
غرض اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ میں ہی تمہارے اموال کی حفاظت کر رہا ہوں اگر میں حفاظت نہ کروں تو انہیں آگ لگ جائے وہ چوری ہو جائیں یا گھر میں کسی کو بیماری آ جائے اور اس پر اموال کا ایک حصہ خرچ ہو جائے مثلاً بڑا پیارا بچہ بیمارا ہو جائے باپ امیر آدمی ہے اس کو ہم نے کہا کہ تحریک جدید میں تمہیں اپنی حیثیت کے مطابق چار یا پانچ سو روپیہ دینا چاہئے اس نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اب بچہ بیمار ہو گیا اور وہ اسے راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں بہترین ڈاکٹروں کو دکھا رہا ہے اور ہزار دو ہزار روپیہ اس کا خرچ ہو جاتا ہے اب بچہ کو صحت مند رکھنے کا اس نے ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے وہ اسے صحت مند رکھے یا نہ رکھے لیکن جو لوگ بشاشت سے خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت ڈالتا ہے اور اگر کبھی انہیں آزمانا ہو تو ان کو ثبات قدم عطا کرتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر اعتراض نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بھی آزماتا ہے وہ ان کا بھی امتحان لیتا ہے لیکن وہ بشاشت کے ساتھ یہی کہتے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرہ:۱۵۷)اللہ ہی مالک ہے اور اسی سے ہم نے خیرو برکت لینی ہے اگر اس نے ایک چیز لے لی تو اس سے ہمارا خزانہ تو خالی ہو گیا مگر اس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے وہ پانچ سَو لے گا تو پانچ لاکھ دے گا بھی۔ چنانچہ ہماری جماعت میں بھی اس نے بہتوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں بہت زیادہ دیا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم بخل کرو گے تو اس کا نتیجہ بھی تمہیں خود ہی بھگتنا پڑے گا کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں تم سے اگر قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ مطالبہ اس لئے نہیں کیا جاتا کہ نعوذ باللہ وہ غریب اور فقیر تھا اور تم اس کو مالی امداد دے کر اسے تھوڑا سا امیر بنانا چاہتا ہو اور اس کی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہواَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ سچی بات یہی ہے کہ تمہیں ہر آن ہر لمحہ اور ہر چیز کے لئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے اگر تم اس نکتہ کو سمجھو گے نہیں تو اللہ تعالیٰ تم سے برکتیں چھین لے گا لیکن اس کا یہ وعدہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک ایسی جماعت عطا کرے گا کہ جن کے اموال میں بھی وہ برکت ڈالے گا جن کے نفوس میں بھی وہ برکت ڈالے گا اور جن کے وجود میں بھی وہ برکت ڈالے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ جن گھروں میں وہ رہ رہے ہوں گے ان کو بھی بابرکت کیا جائے گا جس چیز کو وہ ہاتھ لگائیں گے وہ بھی بابرکت ہو جائے گی جو کپڑے وہ پہنیں گے وہ بھی بابرکت ہو جائیں گے یہ وعدے تو پورے ہونے ہیں لیکن اگر انتہائی قربانیوں کے نتیجہ میں تم ان وعدوں اور ان بشارتوں کے حقدار نہیں بنو گے تو یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وہ کچھ اور لوگ لے آئے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائیں گے اور لَایَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ وہ قربانیں دینے میں تمہاری طرح سست اور نکمے اور بخیل نہیں ہوں گے بلکہ وہ حقائق کو سمجھیں گے اور خداتعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے۔ پس آج تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے میں یہ اعلان بھی کرتا ہوں کہ دفتر دوم کے اخلاص کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کی جائے اور اوسط ۱۹ سے بڑھا کر ۳۰ تک لے جائی جائے اور دفتر سوم کی تعداد بڑھانے کی بھی کوشش کی جائے اور ان کے اخلاص کے معیار کو بھی تھوڑا سا بڑھانے کی کوشش کی جائے تا آئندہ سال کے ہمارے وعدے اور وصولیاں ساڑھے پانچ لاکھ کی بجائے سات لاکھ نوے ہزار ہو جائیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں خیر و برکت ہے اور اس کی دو انگلیوں میں انسان کا دل ہے خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ایسے زاویہ پر ہلیں کہ آپ کے دل خداتعالیٰ کی برکتوں اور اس کے نور سے بھر جائیں اور آپ کا سینہ اس احساس ذمہ داری سے معمور ہو جائے کہ خدا کی راہ میں آج مالی قربانیاں دینے کی ضرورت ہے تاہم بنی نوع انسان کو اس ہلاکت سے بچا سکیں جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے۔
جماعت کراچی اس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے دوسری جماعتوں سے آگے نکل گئی ہے ابھی ان کی تار مجھے ملی ہے کہ سال رواں میں ان کا وعدہ ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ کا تھا اس میں سے وہ اب تک پچانوے ہزار روپیہ جمع کر چکے ہیں اور باقی چھ ہزار روپیہ (وہ امید رکھتے ہیں کہ) اس مہینہ کے آخر تک جمع کر لیں گے اگرچہ ہمارا وعدوں کا سال یکم نومبر سے شروع ہو جاتا ہے لیکن ہماری ادائیگیاں کچھ عرصہ بعد تک چلتی رہتی ہیں لیکن جماعت احمدیہ کراچی اپنا وعدہ بھی اور ادائیگی بھی یکم نومبر سے پہلے پہلے کر دے گی انشاء اللہ اور آئندہ سال کے لئے انہوں نے ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ کی بجائے ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ کا وعدہ کیا ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ کراچی کی جماعت چونکہ پہلے ہی اپنے اخلاص اور قربانی میں بلند مقام پر ہے اور ان کا وعدہ ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ قریباً ان کی استعداد کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے میرا خیال تھا کہ اجتماع انصاراللہ میں جب میں تحریک جدید کے چندہ کے متعلق مختلف جماعتوں کے نمائندوں سے سوال کروں گا تو میں ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ ایک لاکھ ایک ہزار سے کچھ آگے بڑھیں چند روپے تو بہرحال بڑھنے چائیں لیکن زیادہ بڑھانے کے لئے نہیں کہوں گا لیکن وہ خود ہی ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ سے بڑھ کر ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ تک پہنچ گئے ہیں اس کے مقابلہ میں بہت سی جماعتیں ہیں جو اپنی قوت اور استعداد (اور اگر میں یہ کہوں کہ اپنے اخلاص کے مطابق تو یہ غلط نہیں ہو گا) کے مطابق وہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر تحریک جدید کی اہمیت واضح نہیں ہوئی اگر ان مخلصین جماعت پر ان کاموں کی اہمیت کو واضح کیا جائے اور بنی نوع انسان کی ضرورت کا احساس انہیں دلایا جائے اور جو تھوڑی بہت قربانیاں انہوں نے دی ہیں یا وہ آئندہ دیں گے ان سے جو شاندار نتیجے نکلے ہیں یا ہم اپنے ربّ سے توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ نکلیں گے وہ ان کے سامنے رکھے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے اس مالی قربانی میں پیچھے رہ جائیں۔ دفتر تحریک جدید کو بھی اور جماعت کے دوسرے عہدیداروں کو بھی زمینداروں کے سامنے یہ باتیں رکھنی چاہئیں اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمینداروں کی آمد بہت بڑھ گئی ہے گو بعض جگہ بعض دقتیں بھی ہیں لیکن اچھے بیج مل گئے ہیں۔ پانی کی بہتات ہے اور کھاد بھی نسبتاً سہولت سے مل جاتی ہے اس طرح زمینداروں کی آمدنیاں دو گنا تین گنا چار گنا ہو گئی ہیں میرے علم میں ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے زمینداروں کی بھی آمد پانچ پانچ گنا ہو گئی ہے مثلاً گذشتہ سے پیوستہ سال جس کی ساری کاشت میں گندم کی ستر پچھتر من پیداوار ہوئی تھی پچھلے سال ان کی پیداوار ساڑھے تین سو اور چار سو من کے درمیان چلی گئی بہرحال میرے ذاتی علم میں بعض ایسے زمیندار ہیں جن کی آمدنیاں دوگنا، تین گنا چار گنا یا پانچ گنا ہو گئی ہیں اگر کسی زمیندار کو اب دگنی آمد ہو رہی ہے اور اس زائد آمد سے اس نے اگر پہلے تحریک جدید میں کچھ نہیں دیا تھا تو وہ اب اس چندہ میں کچھ دے اور اگر اس نے پہلے کم دیا تھا تو اب کچھ زیادہ دے دے اللہ تعالیٰ فضل کرے تو ان کی فصلیں بہت زیادہ اچھی ہو سکتی ہیں اور اس طرح ان کی آمد اور بڑھ سکتی ہے اور پھر ساتھ ساتھ دعا بھی کرے۔
زمینداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے کھیتوں میں جا کر ضرور دعا کیا کریں اور خصوصاً وہ دعا کریں جو قرآن کریم نے سکھائی کہ مَاشَائَ اللّٰہُ لَاقُوَّۃَ اِلاَّبِاللّٰہِ (الکھف: ۳۶۱)یہ دعا جو قرآن کریم میں آتی ہے یہ زمینداروں اور باغوں کے مالکوں کی دعا ہے اگر آپ یہ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ آپ کے مال میں برکت دے آپ کی قربانیوں میں بھی برکت دے اور آپ کی اولاد میں بھی برکت دے ساری برکتوں سے آپ مالا مال ہو جائیں پھر دل میں یہ سوچیں کہ حقیر سی قربانیوں پیش کی تھیں اور ہمارا ربّ کتنا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے کہ اس نے کتنے ہی اچھے اور اعلیٰ نتائج ان کے نکالے ہیں دل میں تکبر اور ریا نہ پیدا ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲؍ نومبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭
ربوہ میں رہنے والا ہر شخص اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے ماحول کو گندہ نہ ہونے دے
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ ۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ مختلف مصیبتوں دکھوں یا دوسرے ناجائز تصرفات سے بچنا ہو تو امام کی پناہ میں آ جانا چاہئے۔
٭ ربوہ کوئی بڑا قصبہ نہیں لیکن سہولتوں کے لحاظ سے بڑے بڑے قصبوں سے بھی بہتر ہے۔
٭ اہل ربوہ اپنے نفوس، اپنے گھروں اور ماحول کو ظاہری نہیں مادی طور پر پاکیزہ بنانے کی کوشش کریں۔
٭ ربوہ میں کوئی ایک آدمی بھی گندے کپڑے میں نظر نہیں آنا چاہئے۔
٭ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے ربوہ کو بالکل صاف ستھرا شہر بنا دینا چاہئے۔




تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآینہ پڑھیں۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ (النساء: ۳۰)
وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ۔ (النحل :۷۳)
اس کے بعد فرمایا:۔
جس جگہ ہمارے ربوہ کی یہ آبادی اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہوئی اور ترقی کر رہی ہے یہ ایک بنجر زمین تھی ایک وقت اس زمین پر ایسا بھی آیا تھا کہ یہاں کے مقامی باشندے بھی یہاں سے اکیلے نہیں گزرا کرتے تھے بلکہ پانچ سات مل کر اس علاقے کو عبور کرتے تھے کیونکہ یہاں سانپوں کی بھی کثرت تھی اور چوروں اور ڈاکوئوں کے چھپنے کا بھی یہ مقام تھا اور بھیڑئیے وغیرہ بھی بعض دفعہ یہاں آ جاتے تھے ایک موقع پر ہمارے ایک احمدی بھائی جو حکومت میں افسر تھے یہاں سے گزرے وہ کسی طرف سے آئے تھے اور سرگودھا جا رہے تھے ان کے ڈرائیور نے انہیں کہا کہ اگر آج ہی واپسی ہونی ہو تو واپسی پر سورج غروب ہونے سے قبل اس علاقہ میں سے گزر جائیں ورنہ میں کار نہیں چلائوں گا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر اپنا فضل کیا اور اسے ان احمدیوں کی پناہ گاہ بنا دیا جو ۱۹۴۷ء کے فسادات میں اپنے مقامات سے اجڑ کر اور مہاجر بن کر ادھر آئے تھے انہوں نے یہاں آ کر پناہ لی اور تقویٰ کے اصول پر پناہ لی اور نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد پر پناہ لی کہ امام ایک ڈھال ہوتا ہے مختلف مصیبتوں، دکھوں یا دوسرے کے ناجائز تصرفات سے بچنا ہو تو امام کی پناہ میں آ جانا چاہئے چنانچہ اس آبادی میں بھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جماعت کے مرکز کی ڈھال بنے تب جاکر یہ جگہ آباد ہوئی۔
اب تو تعداد کے لحاظ سے یہ کوئی بڑا قصبہ نہیں لیکن سہولتوں کے لحاظ سے بعض بڑے بڑے قصبوں سے بھی بہتر ہے یہاں لڑکوں کا کالج ہے لڑکیوں کا کالج ہے دونوں ہائی سکول (لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے) ہیں اور متعدد محلوں میں چھوٹے بچوں کے لئے سکول قائم ہو چکے ہیں پھر ہسپتال ہے جن لوگوں کو باہر کے ہسپتالوں سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ تمام کوتاہیوں کے باوجود ان ہسپتالوں کے مقابلہ میں ہمارے ہسپتال میں بہت زیادہ سہولتیں ہیں بعض دفعہ ہمارے بھائی اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر نہیں کرتے اور غلط قسم کی شکایت اور شکوہ ان کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے پاکستان کا سب سے بڑا ہسپتال لاہور میں ہے ایک دفعہ ہم لاہور گئے وہاں میری ایک بچی کو یکدم اپنڈے سائٹس کا درد اٹھا اور آپریشن کروانا پڑا علاج کے دوران آٹھ دس دن اس ہسپتال کو اندر سے بڑے نزدیک سے مجھے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا وہاں جو کچھ ہوتا تھا اسے دیکھ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گو ہم ایک غریب سی جماعت ہیں لیکن ہمارے ہسپتال میں یہ غفلتیں اور بے پرواہیاں نہیں ہو سکتیں جو یہاں ہو رہی ہیں حالانکہ ہسپتال کے ڈاکٹر میرے واقف تھے اور جس قسم کا خرچ وہ بتاتے تھے وہ میں کر رہا تھا لیکن مجھے تسلی نہیں تھی ایک دفعہ میری اس بچی کے لئے ڈاکٹروں نے ایک ٹیکہ تجویز کیا اور ساتھ ہی تاکید کی کہ خالی یہ ایک دوائی ٹیکہ میں نہیں دی جائے گی بلکہ دوسری ایک دوائی بھی اس کے ساتھ ملا کر دی جائے گی کیونکہ اس کا دل پر بہت اثر ہوتا ہے اور بعض دفعہ مریض کی جان نکل جاتی ہے چونکہ میں وہاں کے حالات دیکھ چکا تھا اس لئے ٹیکہ لگاتے وقت میں نرس کی نگرانی کرتا تھا اور دیکھتا تھا کہ اس نے دوسری دوائی ملا لی ہے یا نہیں ایک دفعہ اس نرس نے بڑی ہوشیاری سے دوسری دوائی کی ٹکیہ ایک طرف پھینک دی اور خالی ایک ہی دوائی کا ٹیکہ کرنے لگی میں نے دیکھ لیا میں نے اسے ڈانٹا اور کہا ڈاکٹر نے بڑی تاکید کی ہے کہ صرف اس ایک دوائی کا ٹیکہ لگانے سے جان کا خطرہ ہو سکتا ہے اور تم لاپرواہی کر رہی ہو اس قسم کی حرکات جان بوجھ کر کی جاتی ہیں۔ اس دوائی کو پانی میں ابالنے پر صرف دو منٹ لگتے تھے اور وہ نرس گو پیڈ (Paid) تھی لیکن وہ یہ دو منٹ مریضہ کو دینے کے لئے تیار نہیں تھی بہرحال اپنی غربت کے باوجود یہاں کا ہسپتال بڑا اچھا ہے اور جو ہمارے کارکن ہیں ان کو اور غریبوں کو جہاں تک مجھے علم ہے ہم استعداد اور طاقت کے مطابق دوائی کی مدد دیتے ہیں۔
غرض یہاں بڑی سہولتیں ہیں اور جو لوگ یہاں شروع سے ہی آباد ہوئے ہیں جو تقویٰ کی بنیادوں پر اپنے مکانوں کی تعمیر کرکے آباد ہوئے تھے کیونکہ یہاں جنگل میں آباد ہو جانا کوئی معمولی قربانی نہیں تھی کسی زمانہ میں ایک ایک محلہ میں صرف ایک ایک یا دو دو مکان تھے اور بعض حصے اب بھی ایسے ہیں کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے مکان اکیلے ہیں اور چوری کا خطرہ رہتا ہے یا بعض دفعہ چوری ہو جاتی ہے ان کو تو میں تسلی دلاتا ہوں لیکن دل میں یہ سوچا کرتا ہوں کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب یہاں ہر محلہ میں ایک ایک دو دو مکان تھے کیونکہ ایک ہی رات میں تو مکان بن نہیں جاتا اب اٹھارہ بیس سال میں جا کر یہ آبادی ہوئی ہے۔
بہرحال جن لوگوں نے محلوں میں زمین لے کر اس پر مکان بنایا اور پھر اس میں رہائش اختیار کی شروع میں ظاہری لحاظ سے انہیں چوری کا خطرہ تھا لیکن اس خطرہ کو انہوں نے قبول کیا اور اس لئے قبول کیا کہ وہ جماعت احمدیہ کے مرکز کو مضبوط بنانا چاہتے تھے اور آباد رکھنا چاہتے تھے انہوں نے اس خطرہ کو اس لئے قبول کیا کہ ان کے دلوں میں یہ شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے امام کے قرب میں رہیں اور جمعہ کے موقعہ پر اور دوسرے مواقع پر بھی وہ اس کی باتیں سنیں اور نصیحت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے حصول کے زیاد سے زیادہ سامان اپنے لئے پیدا کریں۔
غرض یہ مخلصین کی آبادی ہے اس لئے جب کبھی کہیں خرابی نظر آتی ہے تو ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ہمارے احمدی کمزور ہیں کیونکہ اگر ان کے اندر اس قسم کی کمزوری ہوتی تو وہ یہاں آتے ہی نہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو منتظم ہیں وہ کمزور ہیں وہ دوستوں کو ان کی ذمہ داری یاد نہیں دلاتے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذَکِّر کے حکم کے ماتحت اس کی بڑی تاکید کی ہے اور فرمایا ہے تم انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے رہو پہلے ایک شخص کوئی غلطی کرتا ہے اور وہ نظر انداز کر دی جاتی ہے پھر دوسرا شخص وہی غلطی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ غلطی نہیں پھر تیسرا وہی غلطی کرتا ہے مثلاً ایک آدمی گندم چھپا لیتا ہے اسے سمجھانا چاہئے کہ تم غلطی کرتے ہو تمہاری یہ حرکت شریعت کے بھی خلاف ہے انسانی اخلاق کے بھی خلاف ہے حکومت وقت کے قانون کے بھی خلاف ہے اگر ایسا کیا جائے تو اسے سمجھ آ جائے گی اور باقی بھی یہ حرکت نہیں کریں گے لیکن اگر ہم اس شخص کو کچھ نہ کہیں تو دوسرا دکاندار کہے گا چونکہ فلاں نے ایسا کیا ہے اس لئے میں بھی ایسا کروں گا پھر تیسرا کہے گا میں بھی ایسا کروں گا اور چونکہ اس کے سامنے دو مثالیں ہوں گی اس لئے وہ کہے گا کہ میرے لئے تو ایسا کرنا بالکل جائز ہو گیا ہے پھر چوتھے کے سامنے تین مثالیں ہوں گی دسویں کے سامنے نو مثالیں ہو گی اور بیسویں کے سامنے انیس مثالیں ہوں گی۔
اس کی ذمہ دری ان لوگوں پر ہے جنہیں نظام جماعت نے ذمہ دار قرار دیا ہے ان لوگوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ اس جگہ اس قسم کی غلط باتیں نہیں ہونی چاہئیں استثناء تو ہر جگہ ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہاں کے رہنے والوں میں بڑی بھاری اکثریت مخلصین اور قربانی دینے والوں کی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں سمجھائیں اور وہ نہ مانیں۔
اس پس منظر میں میں چند باتیں اہل ربوہ کو کہنا چاہتا ہوں اوّل یہ کہ وہ اپنے نفوس اپنے گھروں اور اپنے ماحول کو ظاہری نہیں مادی طور پر پاکیزہ بنانے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہاں بہت کم لوگ ہیں جن کے کپڑے گندے نظر آتے ہیں گو یہاں ایسے لوگ ضرور ہیں جو گندے رہتے ہیں لیکن لائل پور، لاہور، سرگودھا اور کراچی وغیرہ شہروں کے مقابلہ میں جہاں بڑی کثرت سے گندے کپڑوں والے لوگ پھر رہے ہوتے ہیں یہاں ان کی تعداد بہت کم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن یہاں ایک آدمی بھی گندے کپڑوں میں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسلام نے ہمیں گندا رہنا سکھایا ہی نہیں اور ایسے لوگوں کو بڑے پیار سے کہنا چاہئے کہ اپنے کپڑے دھوئو ہر آدمی خود اپنے کپڑے دھو سکتا ہے اس میں کوئی دقت نہیں صرف خیال اور توجہ کی کمی ہے ایک جرمن یہاں رہے ہیں بعد میں تو ان پر کچھ ابتلا بھی آیا تھا لیکن جب وہ یہاں تھے مجھے کسی نے بتایا کہ وہ روزانہ رات کو رات کا لباس پہنتے تھے تو دن کے پہننے والے کپڑے دھو لیتے تھے اگر کپڑے روزانہ دھوئے جائیں تو شاید صابن کی بھی ضرورت نہ پڑے یا اگر ضرورت پڑے بھی تو بہت کم صابن کی ضرورت ہو۔
پھر گھر صاف ہونا چاہئے گھر کا جو ماتھا ہے وہ صاف ہونا چاہئے جس طرح ہمارے چہرہ پر نجاست لگی ہوئی ہو تو دیکھنے والے اسے پسند نہیں کریں گے اور نہ آپ اس کو پسند کریں گے اسی طرح آپ کے گھر کا جو فرنٹ ہے اس کا جو چہرہ (ماتھا) ہے وہ بھی آپ ہی کا چہرہ ہے اسے صاف رکھنا چاہئے بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ گھر کے اندرونے حصہ کو صاف کرتے ہیں تو کوڑا کرکٹ عین دروازہ کے سامنے پھینک دیتے ہیں کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لئے اگر کوئی انتظام نہیں تو وہ ہونا چاہئے اور اگر ہے تو گند اسی جگہ پھینکنا چاہئے جہاں ایسا کرنے کے لئے انتظام کیا گیا ہے اور اگر پہلے سے کوئی انتظام موجود نہیں تو جماعتی نظام کو یا دوسرے جو نظام ہیں ان کو اس طرف متوجہ کرنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ایسا انتظام کرو کہ ہماری گلیوں میں گندگی نہ ہو۔
پھر گلیوں کی نالیاں بھی صاف رکھنی چاہئیں پھر صرف ظاہری پاکیزگی ہی اصل چیز نہیں بلکہ یہ تو ایک علامت ہے ایک ذریعہ ہے اندرونی پاکیزگی کا اس لئے دل کے خیالات پاک ہونے چاہئیں آنکھیں پاک ہونی چاہئیں یعنی انسان بد نظر نہ ہو پھر زبان پاک ہونی چاہئے۔
ہمارے ہاں یہ مسئلہ ضرور ہے کہ ہر سال بہت سے خاندان یہاں آ کر آباد ہو جا تے ہیں ان خاندانوں کے بچے اپنے ساتھ اچھی عادتیں بھی لاتے ہیں اور بری عادتیں بھی لاتے ہیں مثلاً زمیندار ہیں گو ان میں سے ایک حصہ کو ذکر الٰہی کی عادت ہوتی ہے گالیوں کی عادت نہیں ہوتی لیکن بعض ایسے خاندان بھی ہوں گے جو اس لحاظ سے پاک نہیں ہوں گے کہ ان کے بچوں کی زبان پاکیزہ نہیں ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی زبان کو پاک کریں اور پاک رکھیں ان کی ڈیوٹی نہیں کہ ہمارے بچوں کی زبانیں گندی کر دیں منتظمین کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے بلکہ ہر احمدی جو یہاں رہتا ہے اس کا فرض ہے کہ جب اس کے کان میں کوئی گندی بات پڑے مثلاً کسی بچے نے گالی دی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے اور اس گالی سے منع کرے لیکن آرام سے اور پیار سے منع کرے ڈانٹنے کی ضرورت نہیں وہ اسے سمجھائے کہ ربوہ میں گالیاں نہیں دینی چاہئیں اگر ایک بچہ کو گالیاں دینے کی عادت ہے اور جب بھی وہ گھر سے باہر نکلتا ہے اس کی زبان سے گند نکلتا ہے تو پچاس ہو، یا ڈیڑھ سو دفعہ جتنے بھی وہ مواقع اصلاح کے پیدا کرتا ہے پاس سے گذرنے والے بھائی کو اسے سمجھانا چاہئے اور کہنا چاہئے دیکھو یہاں ربوہ میں گالی نہیں دینی چاہئے گالی دینا تو ہر مسلمان کے لئے بری بات ہے لیکن یہ ربوہ ہے یہاں احمدی بستے ہیں یہاں بہت احتیاط کی ضرورت ہے اس طرح دو چار دن میں اسے سمجھ آ جائے گی لیکن اگر آپ کان میں گالی کی آواز پڑے اور آپ چپ کرکے آگے چلے جائیں اور اس کی طرف متوجہ نہ ہوں تو آپ گنہ گار ہیں کیونکہ آپ کا فرض تھا کہ آپ اس بچے کی اصلاح کرتے جیسے وہ اپنے والدین کا بچہ ہے ویسے ہی وہ آپ کابھی روحانی بچہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے چپیڑ مارنے سے اصلاح نہیں ہو گی اور خصوصاً بچے کی اصلاح نہیں ہو گی ہاں ایک عمر ایسی بھی آتی ہے جب چپیڑ مارنے کی اجازت ہوتی ہے مثلاً نماز ہے اس کے لئے ایسی عمر دس سال بتائی گئی ہے دس سال سے پہلے چپیڑ مارنے کی اجازت نہیں لیکن دس سال کی عمر کے بعد اگر کوئی بچہ نماز میں سستی کرتا ہے تو اس کا والد یا سرپرست اس کو دو چار چپیڑیں مار دیتا ہے، ڈانتا ہے یا دھمکی دیتا ہے تو یہ جائز ہے لیکن عام طور پر ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ اگر بچے کو چپیڑ مارنے کی ضرورت ہوتی تو ہمیں پیدائش کے وقت اس کے کان میں اذان دینے کی بجائے دو چار چپیڑیں مارنے کا حکم ہوتا لیکن ہمیں حکم ہے اس کے کان میں اذان دو اس کا اثر بچہ پر بھی ہوتا ہے اور ہمیں بھی ایسا کرنے میں سبق دیا گیا ہے کہ بچے کے متعلق تمہارا یہ نظریہ غلط ہے کہ چونکہ یہ بچہ ہے اس لئے یہ بات نہیں سمجھتا کیونکہ لغو بات تو اسلام ہم سے نہیں کرواتا پس اذان دینے میں ہمیں سبق دیا ہے کہ اگر تم نے بچے کے متعلق یہ فیصلہ کرو کہ کم عقلی کی وجہ سے وہ بات سمجھ نہیں سکتا تو یہ غلط ہے۔ اس کا دماغ اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب بار بار اس کے کان میں نیکی کی باتیں پڑیں گی تو وہ نیک ہو جائے گا اور اس کی ابتداء پیدائش کے وقت ہی سے کرو غرض زبان گندی نہیں ہونی چاہئے۔
پھر بڑی عمر کے لوگ ہیں وہ بعض دفعہ بازاروں میں لڑ پڑتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ ساری دنیا کے بازاروں میں لڑائی ہوتی ہو گی لیکن ایک احمدی بازار میں لڑائی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم دنیا کے لئے ایک نمونہ ہیں اور اگر ہم دنیا کے لئے ایک نمونہ ہیں تو ہمیں نمونہ بننا چاہئے اور اگر ہم نمونہ نہیں بنتے تو ہمارا یہ دعویٰ بڑا بیہودہ اور لغو ہے پھر تو ہمیں جماعت احمدیہ میں شامل نہیں رہنا چاہئے کیونکہ جماعت احمدیہ میں تو اسی کو شامل رہنا چاہئے (جبر تو کوئی نہیں) جو جماعت احمدیہ کی ، اسلام کی اور نبی اکرمﷺ کی سنت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار ہو اگر وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس لیبل کا نہ ہم کو کوئی فائدہ ہے اور نہ آپ کو کوئی فائدہ ہے نہ آپ کا ربّ راضی ہو گا اور نہ سلسلہ کا نظام راضی ہو گا، بازاروں میں جھگڑا کرنا اور اونچی بولنا سب چیزیں منع ہیں اور ناپسندیدہ ہیں۔ جلسہ سالانہ قریب آ رہا ہے اس لئے میں ذکر کے حکم کے ماتحت یاددہانی کروا رہا ہوں چونکہ تین ہفتوں کے بعد رمضان شروع ہو جائے گا اس لئے پھر وقار عمل نہیں ہو سکے گا زبان اور مکان کے ماحول کی پاکیزگی کی ذمہ داری مقامی نظام پر ہے نظارت امور عامہ کو اس بات کی نگرانی کرنی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہیں اور جو اپنی عمر کے لحاظ سے خدام ہیں ان کے نفوس کی اور ان کے جسموں کی ظاہری صفائی اور پاکیزگی اور محلے کی گلیوں کی صفائی اور پاکیزگی کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ پر ہے اور گھروں کے اندر کی صفائی اور پاکیزگی کی ذمہ داری اس شخص پر ہے جس کو نبی اکرمﷺ نے اس گھر کا راعی قرار دیا ہے یعنی صاحب خانہ کی اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کو نہیں نبھاتا تو وہ نظام کے سامنے جواب دہ ہو گا میں بھی انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ رمضان سے قبل ایک یا دو بار بغیر بتائے چکر لگا کر دیکھو کہ آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو کس رنگ میں کس طرح اور کس حد تک نبھایا ہے۔
ایک بڑی اور اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں تاکیدی حکم ہے کہ غیر کے مال میں وہ منقولہ یا غیر منقولہ اس کی اجازت کے بغیر تصرف نہ کریں اور اس سے استفادہ نہ کریں غیر کے مال سے استفادہ کرنے کے لئے اس کی اجازت ضروری ہے مثلاً تجارت ہے اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے ہر دو نے ایک دوسرے کے اموال سے فائدہ اُٹھانا ہوتا ہے بیچنے والا خریدار کے روپیہ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور خریدنے والا بیچنے والے کی اس چیز سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے جو اس نے خریدی ہے مثلاً اگر اس نے گندم خریدی ہے تو وہ گندم سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اور بیچنے والا خریدار کے روپیہ سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے کیونکہ وہ نفع لے گا اور آگے اس کی اور گندم خریدے گا پھر بعض زمینیں لوگ کرایہ پر لے لیتے ہیں اور اس طرح مالک اور کرایہ دار دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں بعض دفعہ جماعتی نظام کو کسی فرد جماعت کی زمین سے استفادہ کی ضرورت ہوتی ہے تو جماعتی نظام جہاں تک مجھے علم ہے مالک سے ہمیشہ اجازت لیتا ہے مثلاً میں بڑا لمبا عرصہ خدام الاحمدیہ کا صدر رہا ہوں قادیان میں کبھی دارالانوار میں اور کبھی دارالشکر میں ہمارے اجتماع ہوا کرتے تھے ہر دو محلوں کی کمیٹیاں تھیں دارالانوار کی بھی ایک کمیٹی تھی اور دارالشکر کی بھی ایک کمیٹی تھی ان محلوں کے کھلے میدانوں میں جہاں کوئی آبادی نہیں تھی نہ تو وہاں کوئی درخت تھا نہ کوئی اور چیز اس زمین کو اجتماع کے کیمپ سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا لیکن اگر محلہ دارالانوار میں اجتماع ہونا ہوتا تو دارالانوار کی کمیٹی سے اور اگر دارالشکر میں اجتماعی ہونا ہوتا تو دارالشکر کی کمیٹی سے باقاعدہ درخواست دے کر اجازت لی جاتی تب وہاں کیمپ لگایا جاتا۔ اس کے لئے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی دوسرے کی چیز سے جو منقولہ ہو یا غیر منقولہ تم اس وقت تک استفادہ نہ کیا کرو جب تک عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا (البقرہ :۲۳۴)تم ایک دوسرے سے اجازت نہ لے لیا کرو۔
یہاں میرے علم میں یہ بڑی دکھ دہ بات آئی ہے کہ بعض چھوٹے دکانداروں نے (ممکن ہے بعض بڑے دکاندار بھی ہوں) زمین کے ان ٹکڑوں پر جن کے وہ مالک نہیں اور جن کے استعمال کرنے کی انہوں نے اجازت نہیں لی اپنے کھوکھے یا دکانیں بنا لی ہیں یہ ایسی چیزہے (ایسی ہر چیز جس میں کوئی اسلام کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہو) اسے ہم برداشت نہیں کریں گے خصوصاً جب اس کے ذریعہ معاشرہ میں بہت زیادہ فساد بھی پیدا ہو سکتا ہو۔ آپ یہ یاد رکھیں کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اب یہ بات میرے علم میں آ گئی ہے نومبر کے مہینہ (کیونکہ اٹھنے اور اٹھانے میں کچھ وقت لگے گا) کے آخر تک کوئی کھوکھا یا دکان کسی ایسی زمین میں باقی نہیں رہنی چاہئے جس کا دکاندار یا کھوکھے والا مالک نہیں یا مالک زمین سے اس نے اجازت نہیں لی اس میں یہ استثناء بھی نہیں ہے کہ دفتر آبادی یا نظارت امور عامہ یا کوئی اور شعبہ اس کی اجازت دے کیونکہ خداتعالیٰ نے انہیں یہ حق نہیں دیا کہ وہ غیر کی زمین میں اس کی مرضی کے بغیر تصرف کریں دفتر آبادی کا یہ حق نہیں کہ جو زید کے پاس زمین کا ایک ٹکڑہ بیچ دے اور وہ قانونی طور پر اس کی ملکیت بن جائے تو پھر کسی اور کو اجازت دے دے کہ وہ اس ٹکڑہ میں جا کر دکان کھول لے پھر ربوہ کے بعض ٹکڑے ایسے ہیں کہ سارا ربوہ ان کا مالک ہے۔ ان ٹکڑوں کو ہم اوپن سپیسز (Open Spaces)یعنی کھلی جگہیں کہتے ہیں وہ آبادی کے پھیپھڑے بھی کہلاتے ہیں ان کی وجہ سے ہوا زیادہ صاف رہتی ہے ان ٹکڑوں کو اس معنی میں آباد کرنا چاہئے کہ وہاں گھاس لگائی جائے، درخت لگائے جائیں اور بچوں کے کھیلنے کا انتظام کیا جائے کہ وہ وہاں کھلی جگہ میں ورزش کریں ہم ان ذمہ داریوں کو تو بھول گئے اور اس کی بجائے وہاں کوئی آرہ لگ گیا ہے یا کوئی اور چیز بنا دی گئی ہے یہ بالکل بہیودہ بات ہے میں یہاں یہ ہرگز نہیں ہونے دوں گا اور یہ بات میں اتنے وثوق کے ساتھ اس لئے کہتا ہوں کہ اکثر ہمارے بھائی ایسے ہیں جن کو کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی اب میں نے انہیں توجہ دلا دی ہے اور ان کو پتہ لگ گیا ہے کہ یہ چیز جائز نہیں اس لئے وہ اس چیز کو چھوڑ دیں گے۔
ممکن ہے کہ بعض دوست اس رنگ میں بُرا منائیں کہ ہمیں ان کا برا منانا کسی اور رنگ میں بُرا لگے اور ہم ان کی اصلاح کے لئے کوئی ایسی باتیں کریں جو ان کو اور بھی بری لگے لیکن بہرحال ایک احمدی مالک کی رضا مندی کے بغیر ایک باطل چیز سے ایک ہلاک ہونے والی دنیوی چیز سے ایک عارضی اور دنیوی نفع کیسے اُٹھا سکتا ہے جب کہ اسے یہ پتہ بھی ہو کہ اس طرح خداتعالیٰ ناراض ہوتا ہے جب تک کسی نے انہیں توجہ نہیں دلائی تھی، جب تک کسی ذمہ دار نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تھی اس وقت تک میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف کرے گا اور میری دعا بھی یہی ہے کہ خداتعالیٰ ان کو معاف کرے لیکن اب جبکہ انہیں یاد دلایا گیا ہے اور ان کو پتہ لگ گیا ہے کہ اسلام نے اس چیز کو جائز قرار نہیں دیا وہ اس کام سے باز نہ آئے تو وہ خداتعالیٰ کے نزدیک گناہگار ہوں گے قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم ان معاملات کو حکام کے پاس لے جائو اور وہ ان کے متعلق کوئی غلط فیصلہ بھی کر دیں تب بھی اللہ تم سے جواب طلبی کرے گا اس لئے قرآن کریم کی اس ہدایت کی روشنی میں میں نے کہا ہے کہ اگر آبادی کمیٹی یا نظارت امور عامہ یا کوئی اور ایجنسی اور شعبہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے تو یہ اجازت غلط ہے اگر کوئی شعبہ ایسا کرے گا تو وہ بھی ذمہ دار ہو گا اور گناہگار ہو گا۔ بہرحال جس نے غیر کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کیا اور اس سے فائدہ اُٹھایا وہ گناہگار ہے اور میرا اور جماعت کا بحیثیت جماعت فرض ہے کہ اپنے بھائی کو گناہگار ہونے سے بچائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میں نے تمہارے لئے حلال رزق کے سامان اور وسائل پیدا نہ کئے ہوتے اور شیطان تمہیں بہکا دیتا تب تو شاید تمہارا کوئی عذر ہو جاتا لیکن رَزَقَکُمْ مِّنَ الطّٰیِبٰتِ (النحل:۷۳)میں نے طیب رزق کے بے حساب سامان تمہارے لئے پیدا کئے ہیں اگر تم میرے اس عظیم اقتصادی نظام کے بعد بھی ناجائز باتوں کو اور ناجائز اختلافات سے مال اکٹھا کرنا چاہو یا دوسروں کی چیزوں سے ان کی اجازت کے بغیر فائدہ حاصل کرنا چاہو تو یہ درست نہیں ہے اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ (النحل :۷۳)کیا ایسے لوگ ایک ہلاک ہونے والی باطل چیز پر انحصار رکھتے ہیں اور ان کا یہ ایمان ہے کہ دنیا کی ضرورتوں کو اس قسم کے باطل افعال پورا کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں اور استعدادیں انہیں دی ہیں اور ان کیلئے رزق طیب کے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے وہ انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تم رزق طیب کے حصول کے سامان پیدا کرو اور اس کے نتیجہ میں روحانی طور پر تم میری برکات کے وارث بنو گے لیکن تم اس کا انکار کرتے ہو، تم اس کا کفر کرتے ہو، تم ناشکری بھی کرتے ہو اور اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے پھر تم اللہ تعالیٰ کے غضب سے کیسے بچ سکتے ہو۔
ہر احمدی بھائی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانے کی کوشش کرے اور جماعت کے نظام کا یہ فرض ہے کہ اس قسم کے باطل افعال کو روکے چند دنوں کے لئے اور وقتی طور پر تکلیف ہو گی لیکن میں کسی کا رازّق نہیں، نہ کوئی اور شخص دوسرے کا رازّق ہے رازّق تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس نے یہ کہا ہے کہ حلال اور طیب راہوں سے اموال کمائو اور اسی نے یہ فرمایا ہے کہ رزق حلال اور رزق طیب کے سامان میں نے پیدا کئے ہیں اور بے شمار پیدا کئے ہیں اور خدا یہ کہتا ہے کہ اگر تم طیب رزق کے حصول کی راہوں کو چھوڑو گے، غلط قسم کے تصرفات سے ناجائز، عارضی اور ہلاک ہونے والا فائدہ حاصل کرو گے تو تم خداتعالیٰ کے ناشکرے بندے بن جائو گے اور اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائے گا اور ہم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ خداتعالیٰ اس سے یا اس کے بھائی سے ناراض ہو جائے ہم تو ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کی پناہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور جس طرح ہمیں اپنی فکر ہے اسی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کی بھی فکر ہے اور ہم ان سے ایسے کام نہیں ہونے دیں گے (جہاں تک ہماری طاقت ہے) جس کے نتیجہ میں وہ خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں۔
پس ان چیزوں کی طرف آپ توجہ کریں صفائی ظاہری بھی ہو اور باطنی بھی اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جہاں تک اس ظاہری صفائی کا تعلق ہے کہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کے نفوس صاف ہوں یعنی ان کے کپڑے اور جسم صاف اور ستھرے ہوں یہ خدام الاحمدیہ کا کام ہے اور سڑکوں کی صفائی کی ذمہ داری بھی خدام الاحمدیہ پر ہے گھروں کے اندر کی جو صفائی ہے وہ مالک خانہ کی ذمہ داری ہے ربوہ میں رہنے والا ہر شخص اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے ماحول کو گندہ نہ ہونے دے اور قرآن کریم کے احکام کے خلاف غلط جگہ پر اور غیر کے مال میں جو تصرفات کئے گئے ہیں اور ناجائز استفادہ غیر کے مال سے کیا جا رہا ہے اس کو درست کرنا اور باطل کو حق نہ بتانا یہ کام نظام کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے شاید ایک مہینہ صبر کیا جا سکے اس سے زیادہ نہیں اور قرآن کریم ایسا کہتا ہے اور قرآن کریم کے ذریعہ خداتعالیٰ کا جو حکم ہمیں ملا ہے اس حکم کا اجراء کیا جا رہا ہو تو لَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ(النور:۳)پھر کسی کے متعلق یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اسے عارضی طور پر تکلیف ہو گی خداتعالیٰ جو کامل رافت والا یعنی الَرَّؤْوْف ہے وہ یہ کہتا ہے کہ یہ کام نہیں ہونے دینا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ماں سے زیادہ چاہے پھپھے کٹن کہلانے والا معاملہ ہو جائے گا۔ جب خداتعالیٰ (جو اَلرَّؤُوْف یعنی کامل راحت والا ہے) کے حکم کے نتیجہ میں کسی کو حقیقی ضرر نہیں پہنچتا تو ہم اس کے مقابلہ میں بڑے کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ بات خلاف عقل ہے خلاف اسلام ہے اور اس محبت کے جذبات کے خلاف ہے جو ہمارے دل میں خدا اور اس کے رسولﷺ کے لئے ہے اگر کسی کو تکلیف اس لئے ہوتی ہے تو صرف اس لئے کہ آپ اس کو غیر کا مال چوری نہیں کرنے دیتے۔ سنو اس کی تکلیف ناجائز ہے اور وہ حقیقی تکلیف نہیں ہے اس کی اصل تکلیف یہ ہے کہ وہ غیر کے اموال میں تصرف کرے اس تکلیف سے اسے نجات ملنی چاہئے کیونکہ اگر اس دنیا میں بھی اس کا بد نتیجہ نکلا تو وہ بہت برا ہو گا اور اگر یہاں برا نہ نکلتا اور اُخروی زندگی میں برا نکلا تو پھر بڑا بھیانک ہو گا کیا آپ اس بات کو پسند کریں گے کہ آپ کا ایک بھائی ننانوے پہلو قربانی اور نیکی کے رکھتا ہو اور ایک پہلو اس کا غفلت کا ہو اور اس پہلو کے نتیجہ میں وہ اپنے پر جہنم کا ایک دروازہ کھول لے میں تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کو برداشت نہیں کر سکتا کہ خداتعالیٰ میرے کسی بھائی یا بہن سے ناراض ہو اس لئے میں ہر وقت ان دعائوں میں لگا رہتا ہوں کہ اے خدا! تو ہمیں اپنی پناہ میں لے لے ہم سب کو اپنی پناہ میں لے لے آپ کو بھی یہ دعا کرنی چاہئے۔
جب ہم یہ دعا کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ سوچتے ہیں کہ اگر خداتعالیٰ سے یہ کہا جائے کہ وہ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور خود یہ کوشش نہ کریں کہ ہم تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اس کو اپنی ڈھال بنائیں یا اپنے بھائیوں کو اس طرف لے کر آئیں اور ان کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ اللہ کو اپنی ڈھال بنانے والے ہوں تو یہ درست نہیں۔
پس جو دوکانیں غلط جگہوں پر ہیں وہ فوراً اٹھا دی جائیں اور جو لوگ گندے کپڑے پہنتے ہیں ان کو صاف ستھرے کپڑے پہننے کی تلقین کی جائے خدام الاحمدیہ وقار عمل بھی منائے تاکہ اگر انہیں پانچ سات آدمی ایسے نظر آئیں جن کے کپڑے ٹھیک نہیں تو وہ ان سے کہیں کہ آپ یہ دھوتی لے لیں اور باندھ لیں اور کپڑے اتار کر ہمیں دے دیں ہمارے پانچ سات رضا کار ہیں وہ آپ کو کپڑے دھو دیں گے وہ ایک دفعہ ایسا کریں گے یا دوہ دفعہ کریں گے تو ان لوگوں خیال آئے گا کہ یہ دوست کیوں ہمارے کپڑے دھوئیں ہم آپ ہی کیوں نہ دھو لیں اصل بات یہ ہے کہ عزم ہونا چاہئے کہ یہ چیزیں یہاں نہ ہو یہ عزم ہونا چاہئے بڑوں میں بھی اور چھوٹوں میں بھی کہ ربوہ کے ماحول میں ناپاکی نظر نہیں آئے گی اور نہ ہم اپنے کانوں سے کوئی گندی اور ناپاک بات سنیں گے۔
ہاں ایک بات رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ بازاروں کی ناپاکی جو ہے وہ بھی دور ہونی چاہئے بعض دوکاندار کھانے کی بعض ایسی چیزیں بیچتے ہیں جنہیں (گو یہ بات پسندیدہ نہیں لیکن بعض دفعہ مجبوری ہوتی ہے) کھانے والے ان کی دوکانوں پر ہی کھاتے ہیں اور چھلکوں کوو ہیں پھنک دیتے ہیں مثلاً خربوزوں کے موسم میں خربوزوں کے چھلکے بازار میں پڑے ہوتے ہیں اور مالٹے کے موسم میں مالٹوں کے چھلکے وہاں پڑے ہوتے ہیں مالٹا کا موسم اب آ گیا ہے اور جلسہ سالانہ بھی آ رہا ہے اور اس موقعہ پر بڑی تعداد میں مالٹا یہاں استعمال ہوتا ہے اس لئے یہ انتظام ہونا چاہئے کہ زمین پر کوئی چھلکا پڑا ہوا نہ ہو دوکاندار کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے خرچ پر دکان پر ایک ڈرم رکھے اور اس کے اندر سارے چھلکے پھینکے جائیں ورنہ آپ اس کو وہ چیز بیچنے کی اجازت نہ دیں۔
بہرحال یہ عزم ہونا چاہئے کہ ہمارے ماحول میں گندگی نظر نہیں آئے گی اور یہ عزم ہونا چاہئے کہ ہمارے کان گندی باتوں کو نہیں سنیں گے اور یہ عزم ہونا چاہئے کہ ہم ان حقوق کی حفاظت کریں گے جو خداتعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں اور ان حقوق کی بھی حفاظت کریں گے جو ہمارے بھائیوں کو خداتعالیٰ نے دئیے ہیں اس کے نتیجہ میں غیر کی زمین میں اس کی مرضی کے بغیر کوئی نہیں بنا سکتا کیونکہ اس سے مالک کی حق تلفی ہوتی ہے اور سارے ربوہ کی حق تلفی ہوتی ہے اور سارا ربوہ زمین کے اس ٹکڑے کا مالک ہے ہمارے بچوں کو کھیلنے کے لئے جگہ نہ ملے اور وہاں کھوکھے لگ جائیں تو یہ درست نہیں اس زمین پر ہمارے بچوں کا زیادہ حق ہے اس وقت میرے ذہن میں نہیں لیکن جو بھی منتظم ہیں وہ ایک باقاعدہ پروگرام بنا کر میرے سامنے پیش کریں اور اس سال کے جلسہ سالانہ سے پہلے تو نہیں کیونکہ وقت بہت کم ہے لیکن اگلے جلسہ سالانہ سے پہلے ساری اوپن سپیسز (Open Spaces) صاف ہونی چاہئیں وقار عمل کے نتیجہ میں یا جہاں پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں پیسے خرچ کئے جائیں اللہ تعالیٰ اخراجات کا انتظام کر دے گا وہ میرے پاس آئیں اور جو مشکل ہو میرے سامنے بیان کریں بہرحال اگلے جلسہ سالانہ (۱۹۶۹ء) سے پہلے پہلے ان کھلی جگہوں کو صاف کر دیا جائے پانی کا انتظام کرکے ان میں درخت لگائے جائیں اور چھوٹے بچوں کے کھیلنے کا ان میں انتظام کیا جائے چھوٹے بچوں کی ہم نے تربیت کرنی ہے ان سے ورزش بھی کروانی ہے ان کے ذہنوں کو مصروف رکھنا ہے اور انہیں ایسے کام کی طرف لگانا ہے جو ان کے خیالات کو ناپاک کرنے والا نہ ہو کھیل کے وقت میں ان سے ورزش کرائی جائے جس طرح تحریک جدید نے بچوں کے لئے کھیلنے کا انتظام کیا ہوا ہے اور وہ بڑا اچھا انتظام ہے اسی طرح ہر ایک محلہ میں ایک سے زائد انتظام کئے جائیں معمولی خرچ ہے جو ان میدانوں کو صاف کرنے اور انہیں بچوں کے لئے کھیلنے کے قابل بنانے پر آئے گا اور یہ کام آئندہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے ہو جانا چاہئے اور پھر ایک پروگرام کے ماتحت ہر کھلی جگہ پر بچوں کے لئے کھیلنے کا سامان مہیا کر دینا چاہئے اس کام پر کچھ خرچ ہو تو کوئی بات نہیں کیونکہ بچوں کا حق ہے کہ ان پر بھی روپیہ خرچ کیا جائے اللہ تعالیٰ فضل کرے گا تو اخراجات بھی مہیا ہو جائیں گے کیونکہ جہاں تک ضرورت حقہ کا سوال ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے خود انتظام کر دیتا ہے یہاں بھی اللہ تعالیٰ انتظام کر دے گا۔
بہرحال ربوہ کا ماحول ایسا ہونا چاہئے کہ یہ دنیا کا بہترین مقصد ہو اب تو بعض دفعہ غیر آتے ہیں تو وہ طعنہ دیتے ہیں ہم ربوہ گئے تھے تو فلاں سڑک فلاں جگہ بڑی خراب تھی اور بعض دفعہ ایسا طعنہ ملتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ محلہ والے آدھا گھنٹہ بھی کام کرتے تو اس طعنہ سے ہم بچ جاتے صرف بات یہ ہے کہ اس طرف توجہ نہیں کی جاتی میں نے شروع میں کہا تھا کہ میں ربوہ کے مکینوں کو برا نہیں سمجھتا نہ میں انہیں کچھ کہنے کے لئے تیار ہوں کیونکہ بہرحال انہوں نے قربانی دی ہے اور یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں آخر وہ ساری دنیا کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں لیکن جن لوگوں کا یہ فرض تھا کہ وہ انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے رہیں وہ میرے نزدیک گنہگار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے اور اہل ربوہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو یاد دہانی کے بعد سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور ہمارا نہایت اچھا اور خوشگوار ماحول ہو ہم سوائے خدا کے کسی سے ڈرنے والے نہ ہوں ہم ملیریا کے مچھروں سے بھی نہ ڈریں ان کو ہم مار دیں کیونکہ جہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے خوفوں کو دور کرنے کے لئے جو تدابیر ہمیں بتائی ہیں ہم ان کو استعمال کریں ہم اگر عقل سے کام لیں تو ہم ملیریا سے نہیں ڈرتے اور ملیریا سے نہ ڈرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کو ۱۰۵ درجے کا بخار چڑھا رہے تب بھی ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے اگر ہمیں ہر وقت بخار چڑھا رہے تو ہم کام کیسے کریں گے بلکہ ملیریا سے نہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم وہ تدبیر کریں گے جو خداتعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اور مچھر مر جائیں گے۔
پھرمکھیاں جو ہیں وہ بھی مر جانی چاہئیں اگرچہ ایک فلائی لیش (Fly Lash) ہر ایک کو خریدنا پڑے گا یہ ایک قسم کا مکھی مار ہوتا ہے جو بازار میں مل جاتا ہے۔ چین نے سارے ملک کی مکھیاں مار دی ہیں وہاں حکومت نے حکم دے دیا تھا کہ ہر چینی خواہ چھوٹا ہو یا بڑا روزانہ ایک سو مکھیاں مری ہوئی ٹائون کمیٹی (یا جوبھی ان کا انتظام ہے) میں دے دیا کرے ورنہ آپ کو علم ہے کہ وہاں ڈکٹیٹر ہیں وہ ان کے ساتھ جو جی چاہے کر سکتے تھے۔ اس طرح انہوں نے سارے ملک کی مکھیاں مار دیں وہاں جو لوگ جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہاں کوئی مکھی نظر نہیں آتی یہ صحیح ہے کہ ان کی جدوجہد کے مقابلہ میں ہماری کوشش زیادہ ہو گی ہمیں زیادہ محنت کرنی پڑے گی کیونکہ انہوں نے سب جگہوں پر مکھیاں مار دیں لیکن اگر ہم یہاں ساری مکھیاں مار دیں گے تو باہر سے اور آ جائیں گی فرض کریں ہم جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے اس کام میں کامیاب ہو جائیں لیکن جلسہ سالانہ پر قریباً ایک لاکھ آدمی باہر سے یہاں آئے گا اگر ان میں سے ہر ایک پانچ مکھیاں اپنے جسم پر لے کر ربوہ میں داخل ہو تو پانچ لاکھ مکھیاں اور آ جائیں گی پھر وہ مکھیاں بچے دیں گی اور اس طرح ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہو جائے گی اس لئے پھر سارا سال ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ پس گو یہ بڑا مشکل کام ہے کیا ہم اس مشکل کام سے ڈریں گے ایک عزم ہونا چاہئے اور پھر ہر وقت یاد دہانیاں ہوتی رہنی چاہئیں۔
ہمارے لئے یہ سونے کا وقت نہیں اور نہ اگلی دو تین صدیاں ہمارے لئے سونے کا وقت ہے کیونکہ ہمارا کام ہے کہ ہم ایک دفعہ تمام بنی نوع انسان کو اسلام کے نور سے منور کر دیں اور پھر اس نور کو ان میں ٹھہرائے رکھیں یعنی اگلی نسلوں کی بھی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ اس نور سے منور رہیں اور دل چاہتا ہے کہ اس کے بعد بھی یہ نور قائم رہے لیکن تین صدیوں کی ذمہ داری تو اس نسل کودے دینی چاہئے اور اس کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے کرنا چاہئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور تدبیر بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی قیامت تک اسلام کو ہی غالب رکھے قرآن کریم کی محبت دل میں قائم رہے نبی اکرمﷺ کے احسانوں کے نیچے دبے رہنے کا احساس کبھی نہ مٹے کیونکہ آپ عظیم محسن ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کی رحمت بہت وسیع ہے اس کی ذات اور اس کی صفات کا صحیح علم حاصل رہے بنی نوع انسان کے دلوں میں اس پاک ذات کی محبت پیدا ہو جائے یہ ہمارا عزم ہے یہ ہمارا شوق ہے اسی کے لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پیدا کئے گئے ہیں پھر اگر آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بھول جائیں تو یہ بات میرے لئے کتنی تکلیف اور کتنے دکھ کا باعث ہو جاتی ہے کیونکہ مجھے اور بھی بہت ساری پریشانیاں رہتی ہیں آج کل احمدیوں کو تکلیفیں پہنچ رہی ہیں اور بعض دفعہ بڑی پریشانی پیدا ہو جاتی ہے اور تو میں کچھ کر نہیں سکتا ہر وقت دعائیں کرتا رہتا ہوں جہاں تک جماعت کے دوستوں کے لئے ممکن ہو انہیں مجھے پریشانیوں سے بچائے رکھنا چاہئے تاکہ دوسری جو پریشانیاں ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں یعنی جماعت کی پریشانیاں بھی اور افراد کی پریشانیاں بھی، ان کے دور کرنے کے لئے میں جس حد تک ممکن ہو تدبیر میں مشغول رہوں یا دعائیں کرتا رہوں اور اصل چیز تو دعا ہی ہے۔
یہ باتیں جو میں نے بتائی ہیں چھوٹی نہیں بلکہ بڑی اہم ہیں اور اثر کے لحاظ سے بڑی دور رس ہیں ان کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور فوری توجہ کرنی چاہئے اور رمضان سے پہلے پہلے ربوہ کو بالکل صاف کرکے صاف ستھرا شہر بنا دینا چاہئے بعد میں رمضان آ جائے گا اور اس مہینہ میں اس کام کے لئے بہت تھوڑا وقت دیا جا سکے گا غرض شہر کو صاف رکھا جائے تا جلسہ سالانہ پر جو لوگ ربوہ آئیں وہ ظاہری طور پر بھی ایک نہایت پاکیزہ شہر میں داخل ہو رہے ہوں پاکیزہ دل شہر میں بسنے والے ہوں پاکیزہ زبانیں اس فضا میں باتیں کرنے والی ہوں پاک آنکھیں اس ظاہری روشنی سے فائدہ اٹھا رہی ہوں روحانی آنکھیں پاکیزگی پھیلانے والی ہوں اگر ایسا ہو جائے تب تو زندگی کا کچھ مزہ ہے ورنہ یہ کیا زندگی ہے میں اپنی جگہ کڑھتا رہوں اور آپ اپنی جگہ پر گنہگار ہوتے رہیں کیا فائدہ اس زندگی کا؟ پس ساری جماعت ایک ہو کر اس مقصد کے حصول کیلئے ہر وقت کوشاں رہے جس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس جماعت کو قائم کیا ہے یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار جھنجھوڑا ہے اور کہا ہے کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو اد اکرو ورنہ میں ایک اور قوم پیدا کر دوں گا جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے گی پھر تم نہیں، وہ میرے فضلوں اور رحمتوں کے وارث ہوں گے میں سوچتا ہوں کہ وہ کیوں وارث ہوں ہم ہی کیوں وارث نہ ہوں ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح رنگ میں اور صحیح طریق پر جو خداتعالی کی نگاہ میں صحیح ہے نبھانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر ہی نازل ہو رہے ہوں اور ہمارے ہی ذریعہ سے وہ فضل غیر تک پہنچیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ (آمین)
٭…٭…٭
اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور پورا بھروسہ ہو تو اس مادی دنیا کے اسباب وہ خود اپنے فضل سے پیدا کر دیتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸ ؍نومبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ ۔ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ جماعت احمدیہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تصرف اور اس کی وحی پر ہے۔
٭ دنیا میں بسنے والے عاجز انسانوں پر اعتماد میں آٹھ قسم کی بنیادی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔
٭ تمام عارضی، ناقص اور بے وفا سہاروں کی بجائے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرنا چاہئے۔
٭ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے تو پھر اس کی عبادت اور تسبیح و تحمید میں مشغول رہنا پڑے گا۔
٭ ہر احمدی کو توکّل کے مقام سے نہیں ہٹنا چاہئے اسی میں ہماری بقا اور زندگی ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ۔ (یوسف: ۶۸)
قُلْ ھُوَالرَّحْمٰنُ اٰمَنَّابِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ھُوَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ (الملک:۳۰)
اس کے بعد فرمایا۔
انسان کی پیدائش ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ اگر وہ یکتا و تنہا ہو تو اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں اسے دوسروں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے دوسروں کا اعتماد حاصل کرنا پڑتا ہے دوسروں پر توکل کرنا پڑتا ہے ایک دوسرے کی مدد کرنی پڑتی ہے ا س کے بغیر اس زندگی کے کام کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
ایک توکل یا بھروسہ یا اعتماد اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اسے نظر انداز کرکے اور اس سے منہ موڑ کر حاصل کیا جاتا ہے اور ایک ایسا بھروسہ اور سہارا ہے جو اس کی وساطت سے اور اس کے ذریعہ سے حاصل کیا جاتا ہے چونکہ یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے اس لئے اسباب کی ضرورت الٰہی قانون کے مطابق انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن ان اسباب پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اگر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور پورا بھروسہ ہو تو اس مادی دنیا کے اسباب وہ خود اپنے فضل سے پیدا کر دیتا ہے۔ انبیاء علیھم السلام اور مقربین الٰہی کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہر وقت ان کی مدد کے لئے حاضر رہتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس دنیا میں مادی سامان کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ نبی اکرمﷺ کے گرد جو فدائی اکٹھے ہوئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے نتیجہ میں ہی اکٹھے ہوئے تھے اور اب اللہ تعالیٰ نے جو یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے نبی اکرمﷺ کے ایک عظیم روحانی فرزند کو مبعوث کیا ہے آپ کی جماعت کی بنیاد بھی اللہ تعالیٰ کے تصرف اور اس کی وحی پر ہے جیسا کہ اس نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے الہام یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ (نشانِ آسمانی ،روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ۳۹۹)
اور جن سامانوں کی ضرورت تھی ان کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ سامان تجھے دیئے جائیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ تیری طرف ایسے حالات میں اور اتنے فاصلوں سے آئیں گے کہ انسانی عقل دنگ رہ جائے گی۔
میں نے بتایا ہے کہ ایک بھروسہ اور توکل ایک جاہل انسان خداتعالیٰ سے دور ہو کر حاصل کرتا ہے لیکن اس قسم کے دنیوی سامان میں یا دنیا میں بسنے والے ان عاجز انسانوں میں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جن کے سپرد انسان اپنے بعض کام کرتا ہے آٹھ قسم کی بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں ایک خامی یہ پائی جاتی ہے کہ کوئی دنیا دار جو دوسرے کے لئے کام کرتا ہے یا کوئی دوسرا اس پر اعتماد رکھتا ہے اور اس کو اپنا سہارا بناتا ہے وہ تمام صفات حسنہ سے متصف نہیں ہوتا بعض باتیں اس کی مقدرت میں ہوتی ہیں اور بعض نہیں ہوتیں اس کے اندر بعض کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ جو شخص اس کا سہارا لیتا ہے وہ اس کی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا مثلاً بعض دفعہ انسان اپنے کسی اعتماد والے شخص سے دو تین یا چار مرتبہ اپنا کام کرواتا ہے تو وہ اس سے تنگ پڑ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بار بار آ کر مجھے تنگ کرتے ہو اب تم کسی اور سے اپنا کام کروا لو اور بعض دفعہ کوئی کام کرنا اس کی قدرت میں نہیں ہوتا بعض دفعہ دنیا میں اس کے ایسے مخالف ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کے پاس آیا تو ہم اسے دکھ دیں گے اور اگر وہی شخص کسی دوسرے آدمی کے پاس جائے تو یہ پہلا شخص اسے تنگ کرتا ہے اتنی بات کے دوران یہ نظارہ بڑی کثرت سے نظر آتا ہے ہر پارٹی ووٹروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور بیچارا ووٹر تو ایک ہی پارٹی کو اپنا ووٹ دے سکتا ہے اور اس طرح وہ ہر دوسری پارٹی کو ناراض کر لیتا ہے۔
دوسری خرابی یا نقص جو دنیوی بھروسوں میں ہمیں نظر آتا ہے یہ ہے کہ دنیا والے بغیر استحقاق اور بغیر معاوضہ کے کچھ نہیں دینا چاہتے بعض اگر آپ نے ان سے کوئی کام لینا ہے تو آپ کو بھی ان کے بعض کام کرنے پڑیں گے خواہ وہ کام ناجائز اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں اگر آپ ان کے کام نہ کریں تو وہ کہیں گے چلے جائو ہم آپ کا کام نہیں کریں گے۔
تیسری خرابی اور نقص جو دنیا کے سہاروں میں ہمیں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں بقاء حاصل نہیں ہوتی بہت سے خاندان کسی خاص شخص کی وجہ سے اور اس کے اثر و رسوخ کے نتیجہ میں اسی دنیا میں دنیوی کامیابیاں حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب اچانک وہ شخص فوت ہو جاتا ہے تو یہ خاندان بے سہارا ہو جاتے ہیں یا مثلاً بچے ہیں ان کا سہارا اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کو بنایا ہے اگر کوئی خاندان ایسا ہو کہ وہ اس سہارے کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب نہ کر لے اور یہ سمجھے کہ اگر والد فوت ہو گیا تو ہم بے سہارا ہو جائیں گے ہم دنیا میں کچھ نہیں کر سکیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اگر وہ زندہ رہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا سہارا ہے اس کی وجہ سے ہم دنیا میں ترقی کرتے چلے جائیں گے غرض باپ یا سرپرست کو ابدی حیات حاصل نہیں ہوتی اور وہ ایک دن مر جاتا ہے اور بچے یتیم اور بے سہارا رہ جاتے ہیں اور دنیا ان یتیموں کو سہارا نہیں دیتی اور نہ وہ دے سکتی ہے۔
چوتھا نقص دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ بعض دفعہ کسی کی مدد کرنا بھی چاہیں تو وہ اپنی ہر بات منوا نہیں سکتے مثلاً ایک شخص کسی بڑے حاکم کا دوست ہے وہ اس کے پاس جاتا کہ میرا فلاں کام کر دو اور اس کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دوست کا کام کر دے لیکن کام کرنے والا اس کا بھی افسر ہوتا ہے اور وہ اس کی بات نہیں مانتا اس طرح وہ اپنے دوست سے کہہ دیتا ہے بڑا افسوس ہے کہ میرا افسر میری بات مانتا نہیں غرض وہ اپنی بات منوانے کی قدرت نہیں رکھتا اور یہ بڑا بھاری نقص ہے اور جو سہارا وقت پہ کام نہ آئے اس کو انسان نے کیا کرنا ہے۔
پانچواں نقص دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ ابدی نہیں ہوتے یہ عطا غیر محدود نہیں ہوتی محدود ہوتی ہے اور انسان کی تو اپنی ساری ضرورتیں پوری ہوتیں ہیں اگر کسی کو پانچ دن کھانے کو مل جائے اور پھر پانچ دن کھانے کو نہ ملے تو دنیوی لحاظ سے وہ زندگی کوئی زندگی نہیں اگر چھ ماہ اس کی عزت قائم رہے اور اس کے بعد وہ جتنی مرضی ہو خوشامد کر لے لیکن اگلا آدمی اس کی حفاظت کے لئے تیار نہ ہو اور اس طرح اگلے چھ ماہ اسے ذلت پہنچے تو پہلے چھ ماہ کی عزت کو اس نے کیا کرنا ہے۔
چھٹا نقص دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ سہارا دینے والا حکمت کے پہلوئوں پر پوری نظر نہیں رکھتا اور نہ نظر رکھ سکتا ہے مثلاً ایک نوجوان نے ایف اے یا ایف ایس سی کا امتحان پاس کر لیا ہو اور کوئی شخص اسے یہ کہے کہ تم میڈیکل کالج میں داخلہ لے لو میں تمام اخراجات برداشت کروں گا لیکن اس نوجوان کا دماغ طب کی طرف جاتا ہی نہیں اس طرح گو اسے دنیا میں تعلیم کے لئے سہارا تو مل گیا لیکن وہ دو یا چار سال کالج میں ضائع کرکے اپنی تعلیم کو چھوڑ دیتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کام کا نہیں رہتا مثلاً وہ کوئی دوسری پڑھائی کرنے تک اوور ایج Over Age) (ہو جاتا ہے غرض دنیوی سہاروں میں ہمیں حکمت کاملہ نظر نہیں آتی۔
ساتواں بنیادی نقص دنیا کے سہاروں میں یہ ہے کہ وہ ربوبیت تامہ نہیں کر سکتے مثلاً ماں باپ ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بچوں کے لئے بڑا سہارا بنایا ہے لیکن جہاں تک ربوبیت تامہ کا سوال ہے وہ نہیں کر سکتے بسا اوقات وہ بچوں کے اخلاق اور ان کی طبیعتوں کو خراب کر دیتے ہیں اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں ایک عذاب ان کے لئے پیدا کر دیتے ہیں پس گو ربوبیت کے ظلی نظارے ہمیں ہر خاندان میں نظر آتے ہیں لیکن ربوبیت تامہ کا نظارہ ہمیں کسی ایک خاندان میں بھی نظر نہیں آتا۔
آٹھواں بنیادی نقص دنیا کے سہاروں میں یہ پایا جاتا ہے کہ چونکہ انسان کو کامل علم حاصل نہیں ہوتا اس لئے گو وہ بعض دفعہ نیک نیتی سے کسی دوسرے کو سہارا دیتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بڑا خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس کو پتہ نہیں تھا کہ چھ ماہ کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ گویا علم کامل نہ ہونے کی وجہ سے دنیوی سہارے اپنے وقت پر آکر ٹوٹ جاتے ہیں اور اس انسان کو ایک عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں جس نے اپنے دوسرے بھائی پر بھروسہ کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ اگر انسان کے سر میں روشنی اور جلاء ہو اس میں عقل ہو وہ ایک حد تک اپنے مفاد کا حقیقی علم رکھتا ہو اور حقیقی کامیابی چاہتاہو تو اسے صرف اس ہستی پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے جو تمام صفات حسنہ سے متّصف اور تمام نقائص سے مبرا ہے فرمایا۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ۔ (یوسف :۶۸) لفظ اللہ کے معنی اسلام، قرآن کریم، نبی اکرمﷺ اور بعد میں آنے والے لوگوں نے بالاتفاق یہ کئے ہیں کہ وہ وہ پاک ذات ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام کمزوریوں اور نقائص سے بری اور بالا ہے اور اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فیصلہ تو اسی اللہ ہی کا جاری ہونا ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس میں کوئی کمزوری اور نقص نہیں پایا جاتا۔ یہاں گو مُتَکَلَّم کا صیغہ استعمال ہوا ہے لیکن ایک اصول بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ صرف اسی ذات پر ہی تَوَکَّل کرنا چاہئے چنانچہ آگے اس کا بیان بھی ہو گیا ہے فرمایا عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَاگر کسی نے اعتماد اور بھروسہ کرنا ہو اگر کسی کو یہ احساس ہو کہ میں اکیلا اس دنیا میں امن کی اور آرام کی اور سکون کی زندگی بسر نہیں کر سکتا مجھے دوسروں کے سہارا کی ضرورت ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اسی کے لئے ایک ہی سہارا ہے جو کامل سہارا ہے اور جس پر پورا اعتماد کیا جا سکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اگر سہارا دینے پر تیار ہو جائے تو پھر انسان کسی اور چیز کا محتاج نہیں رہتا وہی سب کچھ کر دیتا ہے عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ انسان نے اگر دنیا میں کسی کا سہارا لینا ہے اس نے کسی پر توکل کرنا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ تم جھوٹے سہاروں کی بجائے سچے سہارے کی تلاش کرو اور کامل توکل اپنے ربّ پر رکھو کامل اعتماد اس کا حاصل کرو اسی کو اپنا سہارا بنائو۔
پھر فرمایا۔
’’قُلْ ھُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا‘‘ (الملک :۳۰) اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے کہ وہ احسان کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتا کہ جس پر وہ احسان کر رہا ہے اس نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے یا نہیں (گو اس پر تو احسان کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ کامل صفات والی ذات ہے اس کو کسی چیز کی کمی نہیں) اس کے اندر استحقاق پایا جاتا ہے یا نہیں پایا جاتا اگر انسان کے اندر کوئی خامی اور کمزوری ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی اور اداپسند آ جائے تو وہ کمزوری اور خامی دور ہو جاتی ہے ایسا شخص مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور بغیر کسی استحقاق کے اللہ تعالیٰ اس کو اتنی نعمتیں عطا کرتا ہے کہ وہ عاجز بندہ اس کی طرف جھکتا ہی چلا جاتا ہے اور اس کے راستہ میں فنا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا تم یہ کہہ دو کہ ہم نے اپنے رحمان خدا پر ہی توکل کیا ہے۔ ہمارا یہ دعویٰ کہ کامیاب اسلام نے ہی ہونا ہے کامیاب مسلمانوں نے ہی ہونا ہے ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ھُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (الملک :۳۰) یہ سب کچھ رحمان خدا کی رحمت کے نتیجہ میں ہو گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام غالب آئے اس لئے بہرحال یہ فیصلہ جاری ہو گا۔
اگر کسی نے بھروسہ کرنا ہے اور اس کے بغیر یہ زندگی گزر نہیں سکتی تو تمام عارضی اور ناقص اور بے وفا سہاروں کی بجائے اللہ تعالیٰ پر اسے بھروسہ کرنا چاہئے جو رحمان ہے وہ اسے اتنی نعمتیں دے گا کہ ان کے مقابلہ میں اس نے کچھ بھی کیا نہیں ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں کامل حیات کا مالک یعنی اَلْحَی ہوں، مجھ پر موت وارد نہیں ہوتی اگر تم مجھ پر توکل کرو گے اور مجھے اپنا سہارا بنا لو گے تو تمہیں یہ خوف نہیں ہو گا کہ جسے تم نے سہارا بنایا ہے وہ کہیں مر نہ جائے یا ان ویلڈ (Invalid) نہ ہو جائے بعض دفعہ ایسی بیماری آتی ہے کہ انسان کے ہاتھ پائوں کام نہیں کرتے یا بعض دفعہ مثلاً انسان پاگل ہو جاتا ہے پس گو اس دنیا کی زندگی کامل زندگی نہیں لیکن اس ناقص زندگی کا نسبتی طور پر جو کمال ہے وہ بھی باقی نہیں رہتا غرض اَلْحَیّ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے پس اے انسان! تو اسی پر توکل کر تَوَکَّلْ عَلَیْہِ۔ تو اس ذات پر توکل کر جو خود زندہ ہے اور سب زندگی اور حیات اس کامل حیات سے فیض یافتہ ہے اگر اس کی اس صفت کا جلوہ نہ ہو تو کوئی وجود زندہ نہیں رہ سکتااور یہ خطرہ ہی نہیں کہ کبھی وہ مر جائے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَيِّ الَّذِيْ لَایَمُوْتُ(الفرقان :۵۹)وہ اَلْحَی ہے موت اس پر آ ہی نہیں سکتی۔
پھر فرمایا اگر تم نے اللہ پر توکل کرنا ہے تو پھر تمہیں اس کی عبادت میں مشغول رہنا پڑے گا اس کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہنا پڑے گا تم اسی پر توکل رکھو اور یہ سمجھ کر رکھو کہ اس کی ذات اَلْحَیّ ہے تمام زندگی کا سر چشمہ اور منبع اسی کی ذات ہے زندگی کے لحاظ سے دنیا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ اس دنیا کی زندگی تو گزر جاتی ہے اور موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے پھر وہ اَلْحَیّ خدا ایک نئی زندگی اسے دیتا ہے پھر روحانی طور پر لوگ یہاں مر جاتے ہیں ان میں روحانیت باقی نہیں رہتی تو وہ اَلْحَیّ خدا ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ انسان اس میں ہو کر اور اس سے زندگی حاصل کرکے نئے سرے سے روحانی زندگی پا لیتا ہے پس فرمایا اگر تم نے توکل کرنا ہے اور تمہیں ضرور توکل کرنا پڑتا ہے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے تواَلْحَیِّ الَّذِی لَایُمْوتُ پر توکل کرو یعنی اس زندہ ہستی پر توکل کرو جس پر موت وارد نہیں ہوتی۔
پھر ہمیں دنیوی سہاروں میں یہ عیب نظر آتا ہے کہ وہ سہارا دینا چاہتے ہیں اور کام بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سہارا دینے اور کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس کی طاقت اور قدرت ان میں نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ (الشعراء :۲۱۸) میں غالب ہوں مجھے ہر قسم کی قدرتیں حاصل ہیں میں ایک بات کا فیصلہ کر لوں تو دنیا کی کوئی طاقت میرے اس فیصلہ کو ردّ نہیں کر سکتی میرا ہی حکم جاری ہے پھر دنیا دار انسان سو دفعہ خوشامد کرتا ہے۔ دس بار خوشامدوں کا نتیجہ نکل آتا ہے باقی ضائع ہو جاتی ہیں وہ تو بار بار دنیا کے سہاروں کی طرف جھکتا ہے لیکن دنیا کے سہارے بار بار اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ایسا نہیں ہوں میں جہاں عزیز ہوں وہاں الرحیم بھی ہوں جتنی دفعہ تم میرے سامنے آئو گے اتنی ہی دفعہ تم مجھ سے فیض حاصل کرو گے صرف خلوص نیت ہونا چاہئے اور توکل اپنی پوری شرائط کے ساتھ کیا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم مجھ پر بھروسہ کرو گے تو جو سہارا تمہیں ملے گا وہ حکمت سے خالی نہیں ہو گاوَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(الانفال :۵۰)تمہارا بھروسہ اس اللہ پر ہو گا جو حکیم ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان بعض دفعہ غلط دعا کرتا ہے اور اسے یہ نظر آتا ہے کہ اس کی وہ دعا قبول نہیں ہوئی لیکن حقیقتاً اس کی وہ دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ دعا سننے والا حکیم ہے وہ حکمت کاملہ کے نتیجہ میں دعا کو سنتا ہے وہ جانتا ہے کہ جو دعا اس شخص نے مانگی تھی وہ آخر فائدہ مند اور سود مند نہیں ہونی تھی اس لئے اس نے اسے ظاہری شکل میں ردّ کر دیا لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے جس کے لئے دعا کی گئی تھی اس نے کچھ ایسے سامان پیدا کر دئیے جو اس کے لئے زیادہ مفید تھے غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میری طرف آئو، مجھ پر بھروسہ رکھو، اگر تم مجھ پر بھروسہ رکھو گے تو میں تمہیں جو سہارا دوں گا وہ حکیم اللہ کا سہارا ہو گا وہ بے حکمت سہارا نہیں ہو گا، وہ بعد میں بد نتائج پیدا کرنے والا نہیں ہو گا وہ عارضی خوشیوں کے بعد دکھوں میں مبتلا کرنے والا نہیں ہو گا۔
میں نے بتایا تھا کہ دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نقص نظر آتا ہے کہ ان میں علم کامل نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے وہ سہارے ناقص ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرماتا ہے۔
وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَيْئٍ عِلْمًا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الفَاتِحِیْنَ (الاعراف :۹۰) کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی چیز ظاہری یا باطنی لحاظ سے اور اس کے علم سے بالا نہیں بعض اس کا جو ظاہر ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور ان باطنی قوتوں اور استعدادوں کو بھی وہ جانتا ہے جو بے شمار ہیں اور ایسی ہیں کہ انسان کو ان کا علم ہی نہیں صرف چند گنتی کی باتیں ہیں کہ جن کا علم انسان نے اپنی کوشش کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ سے صفتیں حاصل کرکے حاصل کر لیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہر چیز اس کے علم کے اندر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے کسی ہستی پر توکل کرنا ہو تو تمہیں اس ہستی پر توکل کرنا چاہئے جو کامل علم کی مالک اور ہر علم کا سر چشمہ اور منبع ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اَلْعَلِیْمٌ ہے وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَيْئٍ عِلْمًا(الاعراف:۹۰) ہر چیز اس کے علم کی وسعتوں کی چادروں میں لپٹی ہوئی ہے عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا (الاعراف :۹۰) اس لئے ہم اسی پر توکل کرتے ہیں چونکہ ہم ناقص علم کے نتیجہ میں غلط سہارے ڈھونڈتے ہیں اس لئے سہارا حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ میرے پاس آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں شخص کے پاس ہماری سفارش کر دیں اس شخص کا آپ کے ساتھ تعلق ہے اور میں اس کے نام سے وقف بھی نہیں ہوتا پس ناقص علم کے نتیجہ میں سہارا لینے والا بھی غلط سہارا لے لیتا ہے اور سہارا دینے والا بھی غلط سہارا دے دیتا ہے حالانکہ سہارا حاصل کرنے کے لئے انسان کو ایسی ہستی کی ضرورت ہے جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو اور وہ ایسی ہستی ہو کہ اگر سہارا مانگنے والا اس سے غلط سہارا بھی مانگ لے تو وہ اسے صحیح سہارا دے دے یعنی گو بظاہر اس کی دعا رد ہو جائے لیکن حقیقتاً وہ قبول ہو رہی ہو اور جو سہارا وہ دے جو مدد وہ کرے یا جو احسان وہ کرنا چاہے وہ کامل علم کے منبع سے پھوٹ رہا ہواور انسان کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا نہ ہو۔ جب ایسا سہارا انسان کو مل جائے تو پھر اس کے اور اس کے مخالفوں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسلام اور اسلام کے منکروں کے درمیان جو فیصلہ ہو گا وہ حق کے ساتھ ہو گا اس لئے یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الفَاتِحِیْنَ (الاعراف:۹۰)اے ہمارے ربّ! تو علم کامل کا مالک ہے اس لئے ہم صرف تجھ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں اور تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اور ہماری انسانی برادری کے درمیان سچ کے مطابق فیصلہ کر دے چونکہ یہ زمانہ ایک عالمگیر اخوت اور برادری کا ہے اس لئے اس زمانہ کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے اور ہماری انسانی برادری کے درمیان سچ کے مطابق فیصلہ کر دے کیونکہ تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے تیرا ہی حکم جاری ہے اور تیرے فیصلے ہی خیرو برکت والے ہیں تو علم کامل کا مالک ہے۔
غرض وہ آٹھ کمزوریاں جو دنیوی سہاروں میں پائی جاتی تھیں اور جن کے نتیجہ میں ہم ان سہاروں کو وفا والے اور صحیح فائدہ پہنچانے والے سہارے قرار نہیں دے سکتے ان آٹھ کمزوریوں کے مقابلہ میں ہمارے ربّ اللہ میں (جہاں تک توکل کا سوال ہے) آٹھ ایسی بنیادی صفات پائی جاتی ہیں کہ اگر ہم اس پر کامل توکل رکھیں (اور اسی پر توکل رکھنا چاہئے) تو ہمیں کامل سہارا مل جاتا ہے پھر ہم بے سہارا نہیں رہتے پھر ہمارے بچے جو یتیم ہو جاتے ہیں وہ یتیم نہیں رہتے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یتامی کے حقوق کی اتنی حفاظت کی ہے کہ ماں باپ بھی اپنے بچوں کے حقوق کی وہ حفاظت نہیں کر سکتے پھر ہم میں سے وہ جن کو دنیا دکھ دے رہی ہوتی ہے بے سہارا نہیں ہوتے ان کی بشاشت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ وہ اسی طرح بشاشت صادقہ کے ساتھ خداتعالیٰ کی عبادت اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی میں لگے رہتے ہیں اور وہ یقین کامل پر ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم نے اللہ کو سہارا بنا لیا ہے ہم صرف اسی پر ہی توکل کرتے ہیں اس لئے وہ اپنے فضل سے ہماری ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا اور ہمیں اپنی حفاظت میں بھی لے لے گا۔
اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کے نتیجہ میں جو چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے اور جس کا ذکر قران کریم نے فرمایا ہے وہ چیز دنیا کے سہاروں کے نتیجہ میں ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی اور جب تک اللہ تعالیٰ کو ہم اپنا سہارا نہ بنائیں اور اس پر توکل نہ رکھیں اپنے کام اس کے سپرد نہ کریں اس اعتماد کے ساتھ کہ ہم اپنے کام خود بھی اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک وہ ہمیں مدد نہ پہنچائے جب تک وہ ہمیں سمجھ نہ دے جب تک وہ ہمارے لئے سامان نہ پیدا کرے جب تک وہ دلوں میں ہماری محبت نہ پیدا کرے ہمارے لئے شفقت پیدا نہ کرے دنیوی سہاروں میں ہمیں وہ چیزیں نہیں مل سکتیں جو اللہ تعالیٰ کے سہارا سے ہمیں مل سکتی ہیں اور جو صرف اس وقت ہمیں ملتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ پر ہمارا کامل توکل ہو اور اللہ تعالیٰ ہمارے اس توکل کو قبول کرکے ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور ہمارا سہارا بن جائے۔
پھر دنیوی سہارے ہمیں پورے طور پر بدیوں سے نہیں بچا سکتے، دنیوی سہارے پورے طور پر اعمال بجا لانے کی ہمیں توفیق عطا نہیں کرتے بلکہ وہ تو ہمارے خیالات کو اور بھی گندہ کر دیتے ہیں پھر دنیوی سہاروں کے نتیجہ میں یہ خرابی پیدا ہوتی ہے کہ ہم بہتوں کے احسان کے نیچے آ جاتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بڑی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے مثلاً ایک کام ہم نے زید سے کروایا دوسرا بکر سے کروایا۔ تیسرا عمر سے کروایا۔ چوتھا کسی اور سے کروایا اور پانچواں کسی اور سے کروایا اس طرح ہم نے دس کام مختلف دس سہاروں سے کروائے اور پھر ایک ایسا موقع آ گیا کہ زید نے کہا کہ تم میرے زیر احسان ہو اس لئے تم میرا یہ کام کرو بکر نے کہا تم میرے زیر احسان ہو اس لئے تم زید کا کام بالکل نہ کرو اور اس طرح ہمارے لئے اگر ہم دنیا کے سہارے ڈھونڈتے ہیں تو بڑی تکلیف بن گئی ہم مصیبتوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن جو شخص صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور محض اس پر توکل کرتا ہے وہ غیراللہ سے آزاد ہو جاتا ہے پھر غیراللہ کی اسے کوئی فکر نہیں رہتی۔ وہ ایک ہی ہستی ہے جس کے ساتھ اس نے اپنا پختہ تعلق قائم کر لیا جس پر اس نے توکل کیا جس پر اس نے بھروسہ رکھا اور اپنی تمام کمزریوں کے باوجود یہ سمجھا کہ وہ پاک ذات اتنی عظیم ہے کہ وہ میری کمزوریوں کو نظر انداز کرکے مجھ پر احسان پر احسان کرتی چلی جائے گی اور چونکہ انسان غیراللہ کے احسانوں سے آزاد ہو کر بہت سے دکھوں سے بچ جاتا ہے اس لئے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ سکون کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گذارے اور اپنی زندگی کا اور اپنی حیات کا مقصد پورا کر لے۔
دوسری چیز جو ہمیں دنیوی سہاروں میں نہیں ملتی اور وہ صرف ہمیں اللہ پر ہی توکل رکھنے سے حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی غیر طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن کوئی دنیا دار شخص کسی دوسرے شخص کو اس رنگ میں سہارا نہیں دے سکتا کہ کوئی غیر چیز اسے نقصان نہ پہنچائے مثلاً وہ بیماریوں سے نہیں بچا سکتا فرض کرو وہ اس علاقہ میں حاکم اعلیٰ ہی ہے اور اس کی چلتی ہے لیکن پھر بھی وہ بیماریوں سے نجات نہیں دے سکتا آفات آسمانی سے وہ نہیں بچا سکتا اس کی اپنی اندرونی کمزوریوں سے اس کی اصلاح نہیں کر سکتا یہ ہو سکتا ہے کہ سہارا دیتے دیتے وہ اس کو اس قدر اٹھا لے کہ وہ اسے اپنا وزیر بنا لے لیکن پھر بعد میں کچھ عرصہ گذرنے پر اسے علم ہو کہ یہ شخص وزارت کا اہل نہیں اسی لئے وہ اسے وزارت سے ہٹا دے اور اس طرح دنیا کا ایک چھوٹا سا آسمان جو اس نے بنایا تھا وہاں سے اسے جھٹکا دے کر نیچے گرا دے اور اس کی ہڈی پسلی توڑ دے غرض کوئی دنیا دار شخص جو کسی دوسرے کے لئے اس دنیا میں سہارا بنتا ہے اس میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اس کو ہر قسم کے نقصانوں سے بچا لے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں وہ اگر کسی کا سہارا بنے تو اس کو ہر قسم کے نقصان سے بچا سکتی ہے۔
پھر دنیوی سہارے ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی خوشامدیں کرتے کرتے اور ان کے کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور پتہ نہیں وہ اور کیا کچھ کرتے ہیں لیکن اوّل تو وہ ان کی جزا دیتے ہی نہیںاور اگر وہ جزا دینا چاہیں تب بھی وہ بہترین جزا نہیں دے سکتے وہ ہر موقع پر ان کی مدد اور نصرت نہیں کر سکتے۔ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کو سہارا بنا لیتا ہے وہ اپنی زندگی میں یہ نظارہ جلوہ گر پاتا ہے جیسا کہ فرمایا
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ(ھود :۸۹) نیک خیالات اور صالح اعمال کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور محض اسے اپنا سہارا بنائے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ ہر قسم کی برائیوں اور بدیوں سے بچ سکتا ہے اور ہر قسم کے اعمال صالحہ میں بجا لانے کی قوت اور طاقت اسے حاصل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے غیر سے یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ایمانیات اور اعمال کے میدان میں مجھے جو بھی توفیق ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے ملے گی اس لئے عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُمیں صرف اس پر ہی بھروسہ رکھوں گا وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ اور بار بار اس کی طرف میں جھکوں گا۔
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ غیراللہ پر اگر کسی کا بھروسہ ہو تو محض وہ بھروسہ انسان کے لئے کافی نہیں مثلاً کسی نے کالج میں داخلہ لینا ہے تو کسی اور کو وہ سہارا بنائے گا اگر نوکری لینی ہے تو کسی اور کو وہ سہارا بنائے گا کیونکہ کالج والا سہارا اسے اس سلسلہ میں کوئی مدد نہیں دے گا اگر ترقی لینی ہے تو پھر کسی اور کو سہارا بنانا پڑے گا اگر بیماری سے شفا حاصل کرنی ہے تو اسے کسی اور کو سہارا بنانا پڑے گا مثلاً اسے طبیب کے پاس جانا پڑے گا لیکن وہ شخص جو محض اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا ہے اور اس کو اپنا سہارا بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے جیسے فرمایا
’’وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْجَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا‘‘ (الطلاق :۴)جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ ہی اس کے لئے کافی ہوتا ہے کسی غیر کی اسے حاجت نہیں ہوتی، اور اللہ تعالیٰ کافی اس معنی میں ہے کہ وہ اس قسم کی کامل ذات ہے کہ جو وہ چاہتا ہے کرکے چھوڑتا ہے اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ وہ اپنے مقصد کو پورا کر دیتا ہے اگر آسمان پر یہ فیصلہ ہو کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے گا اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے تو فَھُوَحَسْبُہٗ وہ اس کے لئے کافی ہے نہ کسی کا ڈر باقی رہتا ہے اور نہ کسی اور کا سہارا لینے کی ضرورت رہتی ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ اللہ تعالیٰ یقینا اپنے مقصد کو پورا کرکے چھوڑتا ہے لیکن چونکہ وہ حکیم بھی ہے اس لئے قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًاہر چیز کا ایک اندازہ اس نے مقرر کیا ہوا ہے مثلاً ابتلاء کے زمانہ کا ایک اندازہ ہے، امتحان کے زمانہ کا ایک اندازہ ہے جو دکھ خدا کی راہ میں اٹھائے جاتے ہیں ان کا بھی ایک اندازہ ہے وہ دکھ بھی ایک اندازہ کے اندر ہی رہتے ہیں وہ اتنے نہیں بڑھتے کہ انسان ان کے نیچے آ کر پس جائے اور اگر کسی کی قسمت میں شہادت کا انعام ہی لکھا ہو تو وہ اس کو مل جاتا ہے اور ایک عظیم جنت کا وہ وارث بن جاتا ہے غرض ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کیا ہے اس لئے انسان کو بے صبری اور جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے ہو گا وہی جو خدا نے چاہا ہے اور اس کا فیصلہ ہے لیکن ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ اندازہ مقرر کیا تھا کہ آپ کی شان اور عظمت کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے آپ کی زندگی میں ہی دنیوی لحاظ سے ایک فتح عظیم آپؐ کو عطا کر دی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ اندازہ مقرر کیا کہ تین صدیاں نہیں گذریں گی کہ اسلام دنیا میں غالب آ جائے گا ممکن ہے کہ وہ پہلی صدی کے بعد غالب آ جائے ممکن ہے دوسری صدی کے بعد وہ غالب آئے اس نے آخری حد تک مقرر کر دی ہے باقی حصہ ایمان بالغیب کے لئے چھوڑ دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس عرصہ میں اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے گا اور جو لوگ اسلام سے منہ موڑیں گے ان کی کوئی دنیوی حیثیت باقی نہیں رہے گی ان کی اتنی حیثیت بھی نہیں رہے گی جو آج کے معاشرہ میں چوہڑوں اور چماروں کی ہے اسلام ہی غالب ہو گا اور اسلام ہی معزز ہو گااور دنیا کی ہر جگہ ہر ملک، ہر شہر اور ہر قریہ خدائے واحد یگانہ کی تسبیح اور تحمید کر رہا ہو گااور نبی اکرمﷺ پر درود بھیج رہا ہو گا مقصد وہی پورا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے فیصلہ وہی جاری ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن اس نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر دیا ہے اور وہ اس انداز سے کے مطابق ہی ہو گا۔
پھر ایک اور فائدہ (جو بڑا اہم اور بنیادی ہے) جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے حاصل ہوتا ہے یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اگر ہم کامل بھروسہ اور اعتماد رکھیں اور اس پر توکل کریں تو وہ ہر قسم کی مضرتوں سے ہمیں محفوظ رکھ سکتا ہو لیکن اگر ہمارا توکل اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہو تو ہم اسی معنی میں ہر قسم کی مضرتوں سے محفوظ رہیں گے کہ اگر امتحان کے طور پر کوئی مضرات پہنچے تو اس انعام کے مقابلہ میں جو اس کے نتیجہ میں ہمیں پہنچتا ہے اس کو مضرات دکھ یا درد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس مضرت میں بھی بڑی لذت اور سرور ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ مجادلہ میں فرماتا ہے۔
وَلَیْسَ بِضَآ رِّھِمْ شَیْئًا اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(المجادلہ :۱۱) کہ منکر اسلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے مومن کو چاہئے کہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرے ابتلا اور امتحان میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں مگر وہ اس لئے نہیں آتے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کو ناکام کر دیں بلکہ وہ اس لئے آتے ہیں کہ جو مقصد اللہ تعالیٰ نے اس وقت پورا کرنا چاہا ہے وہ حاصل ہو اور خداتعالیٰ کے مقرب بندوں کی خوبیاں دنیا پر ظاہر ہوں اور دنیا جان لے کہ خداتعالیٰ کے یہ بندے انتہائی دکھوں اور تکلیفوں کے وقت بھی بے وفائی نہیں کیا کرتے بلکہ پختگی کے ساتھ اسی کے دامن سے چمٹے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ باوفا بھی وفا کا سلوک کرتا اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں اپنے مقصد پورا کرتا اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں اپنے انعاموں کی بارش برساتا ہے اور ان پر اپنے انعام اور احسان کو کمال تک پہنچا دیتا ہے پس محض اللہ پر اور صرف اللہ پر ہی توکل اور بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اسی طرح فرمایا ۔
وَدَعْ اَذٰھُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ(الاحزاب :۴۹) ان کی ایذا دہی کو نظر انداز کر دو کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ انسان اس کی طرف متوجہ ہو تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِاللہ پر توکل رکھو اور اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو گے تو تمہیں یہ معلوم ہو جائے گا تم پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ہی کارسازی میں کافی ہے اس کی مدد سے انسان اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے اور اسے چھوڑ کر اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
پھر ایک اور خرابی جو دنیوی سہاروں میں پائی جاتی ہے اور کہیں نہیں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب دوسرے لوگ ان کو اپنا سہارا بنا لیں ان کے ساتھ لگ جائیں ان کی خدمات کریں ان کی خوشامد کریں وغیرہ وغیرہ تو ان کو کچھ دنیوی فیض تو ان سے حاصل ہو جاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان کے دل میں ان کی محبت پیدا ہو اور جب تک محبت پیدا نہ ہو اوہ ان کی پوری شفقت اور ان کے انعاموں میں سے پورا حصہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن یہاں یہ بات نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ (آل عمران :۱۶۰) یعنی جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جائے اس کا کوئی دکھ باقی نہیں رہتا اس لئے فرمایا
اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَـلَاغَالِبَ لَکُمْ وَاِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَاالَّذِيْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ بَعْدِہٖ (آل عمران :۱۶۱) اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور نصرت کرنا چاہے تو کوئی اور طاقت یا ہستی تم پر غالب نہیں آسکتی لیکن اگر وہ تمہاری مدد اور نصرت چھوڑ دے تو خدا کو چھوڑ کر اور کون تمہاری مدد کرے گا اس لئے تمہیں چاہئے کہ اس پر کامل توکل کرکے اس کے محبوب بن جائو وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤمِنُوْنَ (آل عمران :ا۱۶)جب تم اس کے محبوب بن جائو گے تو اس کی نصرت کو تم حاصل کر لو گے اور تم ایسا نہیں کرو گے تو اس کی نصرت سے تم محروم ہو جائو گے اگر تم اس کے محبوب بن جائو گے تو تمہیں اس کی نصرت ملے گی اور تمہاری زندگی کا مقصد تمہیں حاصل ہو جائے گا۔ اس وقت سب سے بڑی تڑپ ایک احمدی کے دل میں یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آئے اس کی یہ تڑپ اور خواہش پوری ہو جائے گی ۔
پھر فرمایا کہ محدودے چند چیزیں نہیں ملنی بلکہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے اس کے محبوب بن جائو گے تو بہترین جزا جو کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے وہ تمہیں مل جائے گی اس دنیا میں بھی دیکھو خداتعالیٰ جب کسی پر احسان کرنے پر آتا ہے تو وہ اس کے توکل کا اس قسم کا اجر دیتا ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے۔
نِعْمَ اَجْرُ العٰمِلِیْنَ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ( العنکبوت :۵۹، ۶۰) یعنی اچھے عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہوتا ہے۔ وہ مومن جو اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں جو اپنے عقیدہ پر پختگی سے قائم رہتے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنے ربّ اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں اور اس یقین پر کھڑے ہوتے ہیں کہ اس توکل کے نتیجہ میں انہیں ایسے انعامات حاصل ہوں گے جو کسی اور جگہ سے حاصل نہیں ہو سکتے انہیں بہت اچھا اجر ملے گااور چونکہ اس توکل کے نتیجہ میں نِعْمَ اَجْرُ العٰمِلِیْنَوالی ہستی ان پر واضح ہو جاتی ہے اس لئے ایمان میں بھی وہ پختہ ہوتے ہیں اور اعمال صالحہ سے بھی وہ چمٹے رہتے ہیں اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ بات ان کے دماغ میں نہیں آتی کہ ہم عمل صالح کی بجائے عمل غیر صالح کریں ہم ایسے اعمال بجا لائیں جو خداتعالیٰ کی نظر میں محبوب نہ ہوں محمود نہ ہوں جب وہ ایسا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو ایسا اجر دیتا ہے کہ ساری دنیا کی نعمتیں ان کو مل جاتی ہیں بہترین جنتیں انہیں عطا ہوتی ہیں انہیں وہ لذت اور سرور ملتا ہے جس کا تصور بھی ہم یہاں نہیں کر سکتے وہ آرام انہیں نصیب ہوتا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم مجھ پر کامل توکل کرو گے اور توکل کی شرائط پوری کرنے والے ہو گے تو پھر میں تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کروں گا تمہاری ترقیات کے لئے تمہاری خواہشات کے پورا ہونے کے لئے اور تمہاری زندگی کے مقصد کے حصول کے لئے ایسے سامان مہیا کروں گا کہ جو نہ تم خود پیدا کر سکتے ہو اور نہ دنیا کی کوئی اور طاقت پیدا کر سکتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو تا تم کامیاب ہو جائو اور تا اگر دنیا تمہیں ایذا پہنچانے کی کوشش کرے تمہیں دکھ پہنچانے کی کوشش کرے تو اس ایذا اور دکھ کی آگ میں سے خوبصورت گلاب کے پھول نکلیں جسے دنیا جلا دینے والی چیز سمجھ رہی ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس آگ کو تمہارے لئے بَرْدًاوَّسَلٰمًا (الانبیاء:۷۰)بنا دوں گا ۔
پس ہر ایک احمدی کو توکل کے مقام سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹنا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری زندگی ہے اسی میں ہماری بقا ہے اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اسی میں سب خیرو برکت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرتا رہے کہ ہم ہمیشہ صرف اسی پر توکل رکھنے والے ہوں اور اس مقامِ توکل سے ہٹنے والے نہ ہوں جس پر وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔ (آمین)
٭…٭…٭

خطبہ جمعہ ۱۵؍ نومبر۱۹۶۸ء
ء ء ء
’’حضور علالت طبع کی وجہ سے نماز جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لاسکے‘‘۔
(الفضل ۱۷؍ نومبر ۱۹۶۸ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا کریں تا کہ ہمارے اور غیر کے درمیان ایک امتیازی حیثیت پیدا ہو جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲ ؍نومبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوہ۔ غیر مطبوعہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم کا رمضان کے مہینہ سے گہرا تعلق ہے۔
٭ روزہ کے ذریعہ تنویر قلب حاصل ہوتی ہے۔
٭ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم پر غور کرو گے تو ایک امتیازی مقام اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوگا۔
٭ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس سے قوت اور طاقت حاصل کرنی چاہئے۔
٭ اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہیں کہ ہم قرآن کریم کی ہدایت کی حکمتوں کو سمجھ جائیں۔



تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ذیل کی آیت پڑھی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِٓيْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ
(البقرہ :۱۸۶)
چند دنوں سے مجھے مَسَلْ کی درد اور پٹھے کے چڑھ جانے کی تکلیف رہی ہے اس سے مجھے بہت تکلیف رہی اور طبیعت میں بعض دفعہ بے چینی اور گھبراہٹ بھی پیدا ہوتی رہی ہے کیونکہ ایلو پیتھک کی دوائیں ایسی دی جاتی ہیں جو ضعف پیدا کرتی ہیں اور طبیعت میں بے چینی پیدا کرتی ہیں لیکن چونکہ رمضان کا بابرکت مہینہ آج سے شروع ہو گیا ہے اور روحانی دنیا میں ایک موسم بہار آ گیا ہے اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اپنی تکلیف کے باوجود مختصراً جماعت احمدیہ کے افراد کو ان برکات کی طرف متوجہ کروں جو اس مبارک مہینہ سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ایک آیت کا ٹکڑا میں نے ابھی تلاوت کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماہ رمضان کی برکات کے متعلق قرآن کریم نے بہت کچھ وضاحت سے بیان کیا ہے پھر قرآن کریم کا رمضان سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ اس کا نزول ہر سال دوبارہ، سہ بارہ، بار بار رمضان کے مہینہ میں ہوتا رہا ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی اکرمﷺ کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے اور وہی نزول ہے۔
اس آیت میں یہ بتانے کے بعد کہ قرآن کریم کا رمضان کے مہینہ سے ایک گہرا تعلق ہے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں تم تین برکات حاصل کر سکتے ہو اور ان برکات کے حصول کی طرف تمہیں متوجہ ہونا چاہئے۔ ایک یہ کہ قرآن کریم جس میں رمضان کی برکات کا ذکر ہے اور جو رمضان میں بار بار نازل ہوتا رہا ہے وہ ایک کامل ہدایت کے طور پر دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے۔ رمضان میں جس حد تک ممکن ہو علیحدہ ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کی طرف متوجہ ہونے کا ارشاد ہے اور ہر شخص قرآن کریم کی ہدایت یعنی وہ مذہبی تعلیم جو یہ لے کر آیا ہے اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے تو ایک تو یہ ھُدًی لِّلنَّاسِ ہے ہر شخص کے لئے یہ ممکن ہے کہ قران کریم کی ہدایت کا جو حصہ ہے وہ آسانی سے سمجھ لے اس کی چند ایک مثالیں میں دوں گا سارا قرآن مجید اس ہدایت سے بھرا ہوا ہے مثلاً یہ کہ نماز پڑھو اپنی شرائط کے ساتھ اس حد تک ہر شخص سمجھ سکتا ہے بلکہ جو مسلمان نہیں وہ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے کہ بعض مخصوص شرائط کے ساتھ التزام کے ساتھ نماز ادا ہونی چاہئے۔
قرآن کریم میں ایک ہدایت یہ بھی ہے کہ لَاتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (البقرہ:۱۸۹)کہ ناجائز طریقوں سے ایک دوسرے کے اموال سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا کریں ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ دوسروں کے اموال سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا اور دوسروں کے اموال کو ناجائز نقصان نہیں پہنچانا اس میں وسیع مضمون آ جاتا ہے لیکن وسعت میں جائے بغیر اتنی بات کہ دوسروں کے اموال باطل راہوں سے کھانے نہیں میں سمجھتا ہوں کہ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے چھ سات سال کے بچے کے سامنے یہ تعلیم رکھیں تو وہ سمجھ جائے گا کہ قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے ایک تو ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ ہر مسلمان کو قرآن کریم کی ہدایت کا علم ہونا چاہئے قرآن کیا کہتا ہے قرآن کس چیز سے روکتا ہے تو یہ ایسی چیز نہیں کہ جس کے متعلق کوئی شخص کہے کہ چونکہ میں پڑھا ہوا نہیں اس لئے ہدایت کا میں علم حاصل نہیں کر سکتا جو پڑھا ہوا نہیں وہ سن کر اس بات کو سمجھ سکتا ہے مثلاً یہاں اس خطبہ کے دوران بھی بہت سے دوست ایسے ہیں کہ جن کو مروّجہ علم جو ہے اسے حاصل کرنے کی توفیق نہیں ملی لیکن وہ بھی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے اور اس میں کوئی پیچیدگی نہیں پائی جاتی کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ نماز اپنی شرائط کے ساتھ ادا کرو اور دوسروں کے اموال نہ کھایا کرو یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے چاہے وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہے یا نہیں جانتا تو فرمایا یہ ھُدًی لِّلنَاسِ ہے ہر شخص اس کی ہدایت کا علم حاصل کر سکتا ہے رمضان کے مہینہ میں کثرت سے تلاوت کرنی چاہئے اور اس نیت سے کرنی چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم نے جو ہدایتیں دی ہیں ہمیں اس زندگی میں تاکہ یہاں کی زندگی بھی کامیاب ہو اور وہاں کی زندگی بھی پر سکون اور راحت بخش ہو وہ کیا ہیں؟
دوسری بات جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ صرف ہدایت ہی نہیں دیتا بلکہ یہ حکیم کتاب ہے اور حکیم خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے وہ دلائل بھی دیتا ہے تو جن کو دلائل کے سمجھنے کی قوت اور استعداد حاصل ہو تو اس استعداد کو کام میں لا کر رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کی جائے تو یہ حکمت معلوم کرنے کی بھی کوشش کریں جس سے قرآن کریم بھرا ہوا ہے۔
اور تیسری بات جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ فرقان بھی ہے یعنی حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والا ہے اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم پر غور کرو گے اور اس پہلو کی برکت سے بھی حصہ لینے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بھی ایک امتیازی مقام اللہ کی طرف سے حاصل ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ روزہ جو ہے اس روزے کے اندر رمضان کے اندر ساری چیزیں آتی ہیں خاص وقت تک خاص شکل میں کھانے پینے سے رکے رہنا خالی یہی روزہ نہیں ہے بلکہ بہت ساری اور باتیں رمضان سے تعلق رکھتی ہیں احکام رمضان سے تعلق رکھتی ہیں ان کو بجا لانا اور خیال رکھنا کہ کوئی غلط چیز نہ ہو جائے تاکہ ہمارا روزہ کامل شکل میں ہمارے ربّ کے حضور پیش ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اسی رنگ میں روزہ رکھا جائے اور خداتعالیٰ اسے قبول کر لے تو اس کے نتیجہ میں تنویر قلب حاصل ہوتی ہے اور انسان کا دل منور ہو جاتا ہے یہی فرقان ہے اور اس سے کشف کا دروازہ کھلتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی مادی دنیا میں جس حد تک انسان کی سمجھ اور پہچان اور علم اور نظر اور بصارت میں آ سکتا ہے وہ آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا دروازہ کھل جاتا ہے یہ تنویر قلب ہے جس پہ تمام اکابر صوفیاء کا اتفاق ہے کہ روزہ کے نتیجہ میں تنویر قلب حاصل ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے وجود کے نور کی نہریں ایسے لوگوں کے لئے جاری کرتا ہے اور اپنے نور کی لہریں انہیں دکھاتا ہے تنویر قلب ہوتی ہے جو حجابات ہیں وہ دور ہو جاتے ہیں کشف الغطاء ہو جاتا ہے دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس حد تک انسان کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق اس نور کو حاصل کرنا ہے اور اس نور کی پیدائش کے بعد انسان کے اس منور دل کا اس ہستی کے ساتھ ایک زندہ اور پختہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض ہے اور پھر وہ اس نور کے جلوے دیکھنے لگتا ہے یہ معنی ہیں تنویر قلب کے اور یہ معنی ہیں کشوف کے اور پہلا درجہ اس کا یہ ہے کہ ایسا شخص اَنَاالْمُوْجُوْدْ کی آواز سنتا ہے کیونکہ تعلق کا پیدا ہو جانا کوئی فلسفہ تو نہیں یہ تو ایک حقیقت ہے یا اس کا عدم ایک حقیقت ہے کہ یا وہ تعلق پیدا ہو گیا یا نہیں ہوا یہ کوئی فلسفیانہ خیال نہیں تو روزہ کے نتیجہ میں امتیازی مقام حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کے نتیجہ میں وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو انسان دوسرے مذاہب سے علی وجہ البصیرت یہ بات کر سکتا ہے کہ ہم نے اسلام کی برکات سے جو نور حاصل کیا ہے وہ تمہیں حاصل نہیں اور ان چیزوں کے لئے پھر دعا کی ضرورت ہے۔ اسی واسطے ان آیات کے ساتھ ہی دعا کی طرف متوجہ کیا کہ اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور کامل عاجزی کے ساتھ دعا کرو گے تو میں اسے قبول کروں گا میں نے بتایا تھا کہ ھُدًی لِّلنَاسِ والا حصہ جو ہے یعنی ہدایت کا معلوم ہو جانا وہ عام ہے ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے لیکن اس ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق پانا مشکل ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ توفیق حاصل نہ ہو تو اگرچہ ہدایت کا سمجھ لینا، علم کا حاصل کر لینا آسان ہے لیکن ہدایت پر عامل ہو جانا بڑا مشکل ہے اس لئے ہمیں دعا کی ضرورت ہے جب تک دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کو ہم حاصل نہ کریں ہدایت کی راہوں کا علم ہو جانے کے باوجود بھی ہدایت کی ان راہوں پر چلنے کے ہم قابل نہیں ہوتے۔
پھر بَیِّنَات یعنی حکمت کی باتیں ہیں اس کا تو ہے ہی دعا کے ساتھ تعلق اپنا تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں یعنی جو عام استعداد انسان کو خدا نے دی ہے اس استعداد اور عقل کے نتیجہ میں ہدایت کو حاصل کیا ہے اس پر عمل کرنے کے لئے دعا سے اللہ کی توفیق پانا ضروری ہے لیکن حکمت کی باتیں، رموز جو ہیں ہدایت کے اندر چھپے ہوئے کہ کیوں یہ احکام دئیے گئے ہیں ان کا تعلق دعا صرف دعا سے ہے قرآن کریم سے علوم کا حاصل ہو جانا طہارت پر منحصر ہے لَایَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ :۸۰) اور وہ تزکیہ نفس جس کے نتیجہ میں قرآن کریم کے علوم کھلتے ہیں وہ بازار سے نہیں خریدے جا سکتے نہ کسی مدرس سے حاصل کئے جا سکتے ہیں وہ تو خداتعالیٰ سے ہی مل سکتے ہیں اور دعائوں سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں پھر تنویرِ قلب یعنی پردوں کا ہٹ جانا اور خدا کے نور کا سامنے آ جانا اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق جو دل میں نور پیدا ہوا ہے اس کا اس نور کے ساتھ جو نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ہے ملاپ پیدا ہو جانا یا اَنَاالْمَوْجُوْد کی آواز سن لینا یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہے اور اسے بھی دعا سے حاصل کیا جا سکتا ہے تو یہ تین چیزیں جن کی طرف اس آیت میں ہمیں متوجہ کیا گیا ہے ہرسہ کے ساتھ دعا لگی ہوئی ہے ھُدًی لِّلنَاسِ والے حصہ کے ساتھ بھی، بَیِّنَاتکے حصہ کے ساتھ بھی، اور فرقان کے حصہ کے ساتھ بھی اسی وجہ سے اکابر مسلمان رمضان کے مہینہ میں ہمیشہ دعائوں پر بڑا زور دیتے رہے ہیں جیسے رات کی نماز کی طرف جسے ہم تہجد کہتے ہیں نوافل کہتے ہیں عوام کی سہولت کے لئے یہ پہلے وقت میں پڑھے جاتے ہیں اصل میں ان کا وقت پچھلی رات ہی ہے جس وقت ہم رمضان میں سحری کھاتے ہیں اس سے معاً پہلے آدھا گھنٹہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے جتنی بھی خدا توفیق دے وہ خدا کے حضور جھکے، علیحدگی میں تنہائی میں، عاجزی کے ساتھ اور نیستی کا لبادہ پہن کر اس کے سامنے جائے اور اس بات کا اقرار کرے کہ میرے اندر کوئی طاقت نہیں، میرے اندر کوئی قوت نہیں میں کوئی چیز حاصل نہیں کر سکتا تیرے فضلوں کو کیسے حاصل کر سکتا ہوں جب تک تیرا فضل مجھے اس کی توفیق نہ دے اس لئے اے ہمارے پیارے ربّ! جہاں تو نے بے شمار انعامات ہم پر کئے ہیں وہاں یہ فضل بھی کر کہ اس آیت میں جس فضل کے حصول کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے، اسے ہم حاصل بھی کر سکیں اور اس پر عمل بھی کر سکیں اور ہمیں حکمت سکھا عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَت ہم تیری باتوں کو تسلیم کرنے والے ہوں تاکہ شیطانی وسوسوں سے ہم محفوظ ہو جائیں، حکمت وہاں محفوظ ہو جاتی ہے اسے حفاظت میں لے لیتی ہے یا دین العجائز حفاظت میں لے لیتے ہیں جس کا تعلق ہدایت کے ساتھ ہے اور پھر ہمیں ایسا مقام دے کہ نہ صرف یہ کہ ہم اپنے اندر تیری رضا کو محسوس کرتے ہوئے ابدی اور انتہائی مسرتوں کو پانے والے ہوں بلکہ وہ لوگ جو بدقسمت ہیں اور جو تجھے پہچانتے نہیں تیری ذات اور صفات کا علم نہیں رکھتے ہمارے اس فرقان کے نتیجہ میں ہمارے اس امتیازی نشان کے نتیجہ میں ہماری دعائوں کی قبولیت اور تیری بشارتوں کے نتیجہ میں وہ بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں کہ انسانی طاقت سے یہ بالا چیزیں ہیں اور سوائے خدا کے جو تمام طاقتوں اور حکمتوں کا سر چشمہ اور منبع ہے انہیں حاصل نہیں کی جا سکتا۔ اس لئے ہمیں بھی اس پاک ذات کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس قوت اور طاقت کو حاصل کرنا چاہئے نہ صرف یہ کہ ہم اس کے ایسے بندے بن جائیں جیسا کہ وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے بلکہ وہ لوگ بھی جو تجھے پہچانتے نہیں وہ بھی ہماری عاجزانہ کوششوں سے تجھے پہچاننے لگیں اور تیرے انعامات کو جس طرح ہم حاصل کر رہے ہیں وہ بھی حاصل کرنے لگیں۔
تو ان تین برکتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے پہلے حصہ میں ہمیں توجہ دلائی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کریں اور فکر اور تدبر سے کام لیتے ہوئے ہدایت یعنی جو تعلیم ہے اسے سمجھنے اور یاد رکھنے کی کوشش کریں اور یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا کرتا رہے۔
پھر اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق چاہیں کہ وہ ہمارے اندر اس قسم کا تزکیہ نفس پیدا کر دے کہ ہم قرآن کریم کی ہدایت کی حکمتوں کو سمجھ جائیں اور وہ ہمارا استاد اور معلم بنے اور قرآن کریم کی ہدایتوں کی حکمتیں ہمیں سکھائے اور وہ خداتعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا کرے کہ ہمارے اور غیر کے درمیان ایک امتیازی حیثیت پیدا ہو جائے ہم کچھ اور ہوں وہ کچھ اور ہو دنیا دیکھ لے کہ ہمارے وجود میں اللہ کا نور نظر آتا ہے جو غیر کے اندھیروں میں نہیں پایا جاتا اور یہ تینوں چیزیں ہمیں حاصل ہو جائیں خدا کرے کہ ہمیں حاصل ہو جائیں۔ (آمین)
٭…٭…٭

فساد خواہ کسی شکل میں بھی ہو ہمارے محبوب ربّ کو ہرگز پسند نہیں ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۹ ؍نومبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم کے سات سَو احکام کو جاننا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
٭ قرآن کریم کا ہر حکم استقامت اور اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔
٭ شریعت اسلامیہ سختی کے ساتھ اس بات سے روکتی ہے کہ دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔
٭ اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھو گے اور شکر گزار بندے بنو گے تو پھر تم فساد پیدا نہیں کر سکو گے۔
٭ جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے گھر کا ایک حصہ وقتی استعمال کیلئے جماعت کے نظام کو پیش کریں۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنی کی تلاوت فرمائی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِٓيْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ
(البقرہ : ۱۸۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
پچھلے جمعہ میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کا ماہ رمضان سے بڑا گہرا تعلق ہے اور ماہ رمضان ہمیں ایک موقعہ عطا کرتا ہے کہ ہم قرآن کریم کی ان تین اصولی برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکیں استفادہ کر سکیں جو اس آیہ کریمہ میں بیان ہوئی ہیں۔ کثرت تلاوت (ھُدًی لِّلنَّاسِ)قرآنی تعلیم اور شریعت کے احکام سامنے لائے گی اور انسان کا ذہن انہیں یاد رکھے گا کثرت فکر و تدبر اور دعائوں کی کثرت اور عاجزی اور انکساری کا تحفہ اپنے ربّ کے حضور پیش کرنے سے قرآن کریم کی حکمتیں اور اسرارِ روحانی ایسے شخص پر کھلیں گے نیز اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ ہر شخص اپنی استعداد اور اخلاص اور صدق و وفا کے مطابق ایک ایسے مقام کو حاصل کرے گا جو اسے غیروں سے ممتاز کر دے گا۔
آج میں ھُدًی لِّلنَّاسِکے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں قرآن کریم میں سات سو احکام ہیں اور ان میں سے ہر ایک حکم کو جاننا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ایک مسلمان کا فرض ہے جو شخص جان بوجھ کر (اگرچہ وہ بعض احکام بجا لا رہا ہو) بعض احکام کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کا نافرمان اور اس کے غضب کے نیچے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے بر خلاف ایک قدم بھی نہ اٹھائو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی‘‘۔
(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد نمبر۱۹ صفحہ۲۶۔۲۷)
قرآن کریم کے ان سات سو احکام میں سے اس وقت پہلے تو میں یہی بیان کروں گا کہ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرہ: ۱۸۶) کہ جو شخص بھی صحت کی اور روزے کی بلوغت کی حالت میں رمضان کا مہینہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی بتائی شرائط کے مطابق روزہ رکھے۔
قرآن کریم نے جو سات سو احکام ہماری زندگیوں کو سدہارنے اور اعتدال پر لانے کے لئے بیان کئے ہیں ان میں سے دو اور احکام ہیں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں قرآن کریم کا ایک حکم یہ ہے کہ فساد نہ کرو اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں سے پیار نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگ اس کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں فساد کے لغوی معنی ہیں حد اعتدال سے نکل جانا معنی کی اس وسعت کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے ہر حکم سے بغاوت فساد ہے کیونکہ قرآن کریم کا ہر حکم استقامت اور اعتدال پر قائم رکھتا ہے فساد کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور کسی شکل میں بھی وہ ہمارے محبوب کو محبوب نہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے کہ دنیا میں بعض لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی باتیں پسندیدہ معلوم ہوتی ہیں وہ ملک اور قوم کے خیر خواہ دین کے بھائی اور خدا سے پیار کرنے والے سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وَاِذَاتَوَلّٰی سَعٰی فِي الْاَرْضِ لِیُفْسِدَفِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۔ (البقرہ : ۲۰۶)
یعنی جب بھی اسے موقع اور طاقت ملے وہ فساد پیدا کرنے کی غرض سے سارے ملک میں دوڑتا پھرتا ہے اور اس طرح حرث اور نسل کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے بہت سے معنی ہوسکتے ہیں۔
ایک معنی یہ بھی ہیں ایسا شخص جو خود کو ملک اور قوم کا ہمدرد اور خیر خواہ ظاہر کرتا ہے ان ذرائع اور اسباب پر ضرب لگاتا ہے جو دنیوی لحاظ سے قومی تعمیر کے کام آنے والے ہیں اور اُخروی لحاظ سے وہ کسی کو ان جزائوں اور ان انعامات کا وارث کرتے ہیں جن کے لئے خداتعالیٰ کا ایک مومن بندہ اس دنیا میں اس امید پر بوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں خداتعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ کر کھیتی کو کاٹے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْلَہٗ فِيْ حَرْثِہٖ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ۔
(الشوریٰ :۲۱)
کہ جو شخص آخرت کے انعامات کے لئے اس دنیا میں کام کرتا ہے اسے بہت ملے گا اس نے جو کام کئے ہیں ان سے بھی بہت زیادہ ملے گا اور جو اس دنیا کے لئے کام کرتا ہے اسے بھی ہم عام قانون کے ماتحت محروم نہیں رکھیں گے اس کو بھی ہم اس دنیا میں اس کے کام کا اجر دیں گے۔
لغت نے یہاں حَرْثٌ کے معنی تعمیری کاموں کے بھی کئے ہیں یعنی ایسے کام جن کے نتیجہ میں ملک اور قوم کی تعمیر ہوتی ہے پس جو لوگ قوم کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں توڑ پھوڑ کے ذریعہ یا لوٹ کے ذریعہ یا کوئی اور خرابی پیدا کرنے کے نتیجہ میں، وہ خداتعالیٰ کے اس حکم کو توڑنے والے ہیں کیونکہ جہاں عقل، اخلاق اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کسی دوسرے کی املاک کو یا قومی املاک کو نقصان پہنچایا جائے وہاں شریعت اسلامیہ اس سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ اس بات سے روکتی ہے کہ ان اموال کو نقصان پہنچایا جائے جو دوسروں کے ہیں یا خود اپنے ہیں کیونکہ اموال کے متعلق اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اصل ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے اسی لئے اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ جان تیری نہیں جان تو خدا کی ہے تجھے کس نے حق دیا ہے کہ تو جان کو لے چاہے وہ تیری اپنی ہی کیوں نہ ہو اور اسی لئے رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنی پلیٹ اور رکابی میں اتنا سالن نہ ڈالو کہ اس میں سے ایک لقمہ بھی ضائع ہو جائے کیونکہ کھانے کا جو لقمہ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے وہ تمہارا نہیں تم تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھا رہے تھے اس نے تمہیں اس لقمہ کو ضائع کرنے کا اختیار نہیں دیا غرض کھانے کے ایک لقمہ کا ضیاع بھی خدا اور اس کے رسولﷺ نے ناپسند کیا ہے کجا یہ کہ لاکھوں روپیہ کی املاک کو ضائع کر دیا جائے۔
پس دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچانے یا ان پر قابض ہو جانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک مہینہ ہوا میں نے اعلان کیا تھا کہ ربوہ میں ہر وہ دکان دار یا مکان والا جس نے غیر کی زمین پر (جو نہ تو اس کی ذاتی ملکیت ہے اور نہ اس نے وہ کرایہ پر لی ہے) دکان یا مکان بنایا ہوا ہے تو اسے اپنا وہ مکان یا دکان ۳۰؍ نومبر تک اٹھا لینی چاہئے اور یہ میعاد اس لئے دی گئی تھی کہ ایسا کرنے پر کچھ وقت لگتا ہے اور ایسا حکم نہیں ملنا چاہئے جو طاقت سے بالا ہو اعلان کرتے وقت میرا اندازہ تھا کہ اس عرصہ میں ایسی دکانیں اور مکان اٹھائے جا سکتے ہیں اور کاروبار سمیٹے جا سکتے ہیں اب تو رمضان کی ذمہ داری بھی آ گئی ہے رمضان کے مقدس مہینہ میں خصوصاً کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں اس بات کی اجازت کسی کو دی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم کے احکام کے خلاف دوسرے کی ملکیت پر ناجائز تصرف قائم رکھے ابھی تک جو رپورٹ مجھے ملی ہے وہ یہی ہے کہ دوست اس طرف متوجہ ہوئے ہیں اور انشاء اللہ کل ۳۰؍ نومبر تک یعنی وقت کے اندر اندر ناجائز طور پر تعمیر کردہ دکانیں اور مکانات خالی کر دئیے جائیں گے جو ایسا نہیں کرے گا وہ خداتعالیٰ کے اس انذار کے مطابق کہ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (القصص:۷۸) یعنی اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ خدا اور اس کے رسولﷺ اور اس کے خلفاء اس کے صلحاء اور نیک بندوں کی محبت سے محروم ہو جائے گا اور اگر کوئی ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت دے امید تو یہی ہے کہ ایسا ہم میں سے کوئی نہیں نکلے گا۔
فساد جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِي الْاَرْضِ اس سے مراد روحانی اور مذہبی فساد بھی ہے جب ملک میں بدامنی کے حالات پیدا کر دئیے جائیں تو وہ لوگ جو اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں خرچ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی روحانی غذا کے حصول کی طرف اپنی توجہ اس طرح قائم نہیں رکھ سکتے جس طرح وہ دوسرے حالات میں رکھ سکتے ہیں ان کے لئے بہت سی فکریں اور پریشانیاں پیدا کر دی جاتی ہیں غرض قرآن کریم نے فساد کو پسند نہیں کیا اسی طرح فرماتا ہے:۔
فَاذْکُرُوْٓا اٰ لَائَ اللّٰہِ وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (الاعراف: ۷۵)
اگرچہ یہ آیت حضرت صالحؑ کی قوم ثمود سے تعلق رکھتی ہے لیکن جہاں پرانے انبیاء کی زبان سے اصولی احکام بیان ہوتے ہیں ان کا تعلق ہر مسلمان سے بھی ہے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں جان بوجھ کر فساد مت کرو گویا اللہ تعالیٰ نے فساد کی طرف مائل ہونے کو اس کی نعمتوں کی ناشکری قرار دیا ہے اور فرماتا ہے اگر تم خداتعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھو اور اس کے شکر گزار بندے بنو تو پھر تم فساد نہیں پیدا کر سکتے اس لئے کہ (جیسا کہ میں نے بتایا ہے) نہ جان تمہاری اپنی ہے، نہ مال اپنا ہے، نہ مکان اپنا ہے، نہ زمین اپنی ہے ہر چیز خداتعالیٰ کی ملکیت ہے اللہ تعالیٰ ہی ان سب کا حقیقی مالک ہے ان اشیاء میں کسی فرد یا قوم کو اس حد تک تصرف کرنے کی اجازت ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اس فرد یا قوم کو اجازت دی ہو ورنہ نہیں پس یہ ساری نعمتیں ہیں تم خدا کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرو، اگر تم فساد کرو گے، توڑ پھوڑ سے کام لو گے، لوٹ مچائو گے، لوگوں کی جانوں کو یا ان کے اوقات کو نقصان پہنچانا چاہو گے تو تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر رہے ہو گے مثلاً ایک شخض ہے اس نے آٹھ گھنٹے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے اور تم نے ایسے سامان پیدا کر دئیے ہیں کہ وہ اپنے کام پر جا نہیں سکتا فساد کی وجہ سے اس کے رستے رک گئے ہیں تو اس کے بچے بھوکے رہیں گے گویا خداتعالیٰ نے اسے ایک نعمت دی تھی اور تم اس نعمت سے اسے محروم کرنے والے بن گئے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ نعمت خدا وندی کو یاد رکھتے اور اس کا شکر بجا لاتے ہیں وہ فساد نہیں کیا کرتے بلکہ اپنے مال کی، اپنی جانوں اور اپنے ہمسائیوں۔ بھائیوں۔ ہم ملک ہم قوم اور دنیا میں بسنے والے ہم عصروں کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے اموال کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ ہر چیز اور ہر مخلوق جو ان کی بصیرت اور بصارت کے سامنے آتی ہے اسے وہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے نہ وہ خود کو محروم کرنا چاہتے ہیں نہ دوسروں کو محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض قرآن کریم کے سات سو احکام میں سے دوسرا حکم جس کی طرف میں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ دنیا میں فساد نہ کرو۔ تیسرا حکم اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کا دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّارَزَقْنٰھُمْ سِرًّاوَّعَلَانِیَۃً
(ابراہیم :۳۲)
یعنی میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں یا ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں کہہ دو کہ (نمازوں کو قائم کریں اور) ہم نے انہیں بہت کچھ دیا ہے اور ہم نے جو بھی انہیں دیا ہے اس میں سے وہ ہماری راہ میں سِرًّاوَّعَلَانِیَۃً یعنی پوشیدگی میں بھی اور ظاہر میں بھی خرچ کریں اس مِمَّارَزَقْنٰھُمْ میں جیسا کہ احمدیوں کے سامنے یہ چیز بار بار آتی ہے صرف امول کی طرف ہی اشارہ نہیں بلکہ اوقات بھی اسی میں آجاتے ہیں استعدادیں بھی اس میں آ جاتی ہیں اموال بھی اس میں آ جانے چاہئے وہ غیر منقولہ ہوں یا منقولہ غرض اللہ تعالیٰ کی ہر عطا اس میں آ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں بہت کچھ دیا ہے اور جو بھی ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہماری راہ میں سِرًّا یعنی خفیہ طور پر اور پوشیدگی میں خرچ کرو اور کچھ عَلَانِیَۃً یعنی ظاہر طور پر خرچ کیا کرو اور خرچ کی بہت سی راہیں ہیں اور ان میں سے مختلف راہوں کی طرف ہم احباب جماعت کو بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں۔
اس وقت میں جس راہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ جلسہ سالانہ کے اخراجات ہیں ان اخراجات میں سے ایک حصہ تو چندہ جلسہ سالانہ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے جو ایک علانیہ خرچ ہے یعنی یہ ایسا خرچ ہے جو جماعت کے ریکارڈ میں آ جاتا ہے یہ بات منتظمین اور خلیفہ وقت کے سامنے آ جاتی ہے کہ فلاں فرد نے یا فلاں جماعت نے اس مد میں اتنا چندہ دیا ہے یا فلاں فرد اور فلاں جماعت نے اس بارہ میں سستی دکھائی ہے یہ خرچ تو بہرحال پورے ہونے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اور اس کی حکمت کاملہ سے جماعت کی مخلصانہ تربیت کے لئے ایک جلسہ کا انتظام کیا گیا ہے اور وہ جاری رہے گا انشاء اللہ۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس میں ظاہر طور پر اپنے اموال میں سے خرچ کرنا ہے۔
جلسہ سالانہ کا ایک اور خرچ بھی علانیہ ہے ہم احباب سے رضا کارانہ طور پر جلسہ سالانہ کے موقع پر اوقات دینے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ زندگی اور زندگی کا ہر سانس بھی اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ وَیُنْفِقُوْا مِمَّارَزَقْنٰھُمْ میں اس وقت چونکہ جلسہ سالانہ کے کاموں کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنے اوقات پیش کرو بعض دوست کسی جائز مجبوری کی وجہ سے خود یا اپنے بچوں کو جلسہ کے کاموں کے لئے پیش نہیں کر سکتے میں ان کو نصیحت کروں گا کہ وہ باقاعدہ اجازت لے لیں تا وہ نظام سلسلہ کی نگاہ میں سست اور کمزور نہ ٹھہریں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کو دنیا کا لالچ دین کی خدمات سے محروم کر دیتا ہے انہیں میں کہوں گا کہ یہ دنیا چند روزہ ہے تمہیں پتہ نہیں کہ کتنے دن تم نے یا تمہاری اولاد نے اس دنیا میں زندہ رہنا ہے اس لئے تم اس ابدی حیات کی فکر کرو کہ جہاں کی نعمتیں اگر تمہیں حاصل ہو جائیں تو پھر شیطان یا اس کے وسوسے انسان کو وہاں سے نکال نہیں سکتے ابدی رضا کی جنتوں کے مقابلہ میں اس دنیا اور اس کی عارضی خوشیوں کی کوئی قیمت نہیں ہے پس اگر جائز مجبوری اور عذر ہے تو نظام سے اجازت حاصل کر لو اور اگر عذر ناجائز اور بودا ہے تو پھر اپنی جانوں کی اور اپنی نسلوں کی فکر کرو اور خداتعالیٰ کی راہ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے اور اپنی نسل کے اوقات پیش کرو اللہ تعالیٰ بڑی رحمتوں اور بڑی برکتوں سے تمہیں نوازے گا۔
پھر اموال اور املاک جو ہیں وہ بعض دفعہ مستقل طور پر ہمیشہ کے لئے خدا کی راہ میں پیش کئے جاتے ہیں مثلاً ہم جو رقم بطور چندہ دے دیتے ہیں وہ رقم ہی مستقل طور پر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیتے ہیں یا پھر املاک کو عارضی طور پر خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کیا جاتا ہے اور اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں بعض دفعہ چندہ کا مطالبہ نہیں ہوتا بلکہ قرضہ حسنہ کا مطالبہ ہوتا ہے اور اس وقت صاحب حیثیت مخیر احباب بھی اور وہ احباب بھی جن کے پاس بہت تھوڑا سرمایہ ہوتا ہے کچھ رقم بطور قرضہ دے دیتے ہیں جب رقم کی ضرورت وقتی ہو اور یہ امید ہو کہ مثلاً ایک مہینہ یا ایک سال کے بعد یہ ضرورت باقی نہیں رہے گی اور رقم بھی واپس کی جا سکے گی تو اس وقت چندہ کی اپیل نہیں کی جاتی بلکہ قرضہ حسنہ کی اپیل کی جاتی ہے۔
اسی طرح بعض دفعہ املاک دینی کاموں کے لئے وقتی طور پر بھی پیش کی جاتی ہیں مثلاً جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم اپنے گھر کا ایک حصہ وقتی استعمال کے لئے جماعت کے نظام کو پیش کرتے ہیں اور یہ اپنے املاک کو وقتی طور پر خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کرنے کی ایک مثال ہے اور یہ علانیہ قربانی ہے جو کی جاتی ہے۔
ربوہ کے قریباً ہر گھر میں (قریباً میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں ایک انسان ہوں اور علم غیب نہیں رکھتا لیکن جہاں تک مجھے علم ہے وہ یہ ہے کہ ہر گھر میں) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ٹھہرتے ہیں اور جن گھروں میں رشتہ دار یا دوست یا واقف یا ان واقفوں کے واقف آ کر ٹھہرتے ہیں گھر والے ان کے لئے اپنے گھر کے بعض کمرے یا کمروں کے بعض حصے خالی کرتے ہین اور پھر ان کا خیال رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو اور اس طرح وہ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّاکے مطابق خفیہ طور پر خداتعالیٰ کے حضور قربانی دے رہے ہیں جماعت کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ ان کو بہت جزا دے کیونکہ یہ بھی بڑی قربانی ہے جو ربوہ کے مکین خداتعالیٰ کی راہ میں دے رہے ہیں مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اس راہ میں ربوہ والے بڑی ہی قربانی پیش کرتے ہیں اور بڑی بشاشت سے پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں صرف سِرًّا یعنی خفیہ طور پر ہی خرچ کرنے کا حکم نہیں بلکہ علانیہ خرچ کرنے کا بھی حکم ہے اس لئے اگر اور جہاں تک ممکن ہو سکے جلسہ سالانہ کے انتظامات کے لئے اپنے گھروں کے بعض حصوں کو خالی کرو تا کہ وَیُنْفِقُوْا مِمَّارَزَقْنٰھُمْ سِرًّا ہی پر آپ ٹھہر نہ جائیں بلکہ علانیہ طور پر خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کی کامل نعمتوں کے وارث بنیں۔
جلسہ سالانہ کے دنوں میں یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس دو کمرے ہیں تو وہ اس کی بیوی اور اس کے پانچ یا سات بچے ایک ہی کمرہ میں سمٹ سمٹا کر زمین پر سونے لگ جاتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ (اللہ تعالیٰ کے فضل سے دار مسیح (قادیان) بہت بڑی حویلی ہے لیکن) جلسہ سالانہ کے دنوں میں حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا (جن کے پاس میں رہا اور جنہوں نے میری پرورش اور تربیت کی) اکثر اوقات ضرورت کے وقت ہمیں زمین پر سلا دیتی تھیں اور اس میں ہمیں بہت خوشی ہوتی تھی ہمیں ایک مزہ آتا تھا پانچ سات سال کی عمر میں اصل روحانی لذت کا تو شعور نہیں ہوتا کیونکہ بچہ بلوغت کو نہیں پہنچا ہوتا لیکن اس فضا کے اثر کے نتیجہ میں بڑی بشاشت پیدا ہوتی تھی کہ جلسہ سالانہ کی ضرورتوں کی وجہ سے ہم زمین پر لیٹے ہوئے ہیں غرض جلسہ سالانہ کے موقع پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس دو کمرے ہیں تو وہ ایک کمرہ میں پرالی بچھا کر زمین پر سمٹ سمٹا کر سو جاتے ہیںا ور دوسرا کمرہ مہمانوں کو دے دیتے ہیں۔
ضمناً میں یہ بات بھی کہہ دوں کہ باہر سے آنے والے بھی بڑی محبت اور فدائیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ایک دفعہ جب میں افسر جلسہ سالانہ تھا رپورٹ کرنے والوں نے مجھے رپورٹ دی کہ فلاں گھر میں صرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے اور چالیس یا پچاس (صحیح تعداد مجھے یاد نہیں) کا کھانا وہ لے کر گیا ہے کہیں اس نے بددیانتی نہ کی ہو میں نے کہا چلو چیک کر لیتے ہیں۔ چنانچہ رات کو ہمارے آدمی پتہ لینے کے لئے گئے تو جتنے لوگوں کے متعلق رپورٹ تھی کہ اس سے زیادہ آدمی وہاں لیٹے ہوئے تھے یہ باہر سے آنے والوں کی قربانی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی یہ شان بھی ہمیں نظر آتی ہے کہ عام حالات میں اس تعداد کا چوتھا حصہ بھی اس کمرہ میں نہیں سو سکتا تھا پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کمرہ کو بڑا کر دیتے ہیں یا جسموں کو نقصان پہنچائے بغیر انہیں برکتوں سے بھر کر وقتی طور پر سکیڑ دیتے ہیں۔
غرض باہر سے آنے والے بھی عشق اور فدائیت کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں اور یہاں کے مکین بھی عشق اور فدائیت کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس عشق اور فدائیت کے جوش میں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صر ف سِرًّا یعنی خفیہ طور پر ہی قربانی پیش کرنے کا حکم نہیں بلکہ علانیہ طور پر قربانی دینے کا حکم بھی ہے پس اگر آپ کے پاس گنجائش ہو خواہ ایک غسل خانہ ہی کی کیوں نہ ہو تو ثواب کی خاطر نظام سلسلہ کو وہ غسل خانہ ہی دے دیں یا ایک کمرہ یا دو کمرے جتنی گنجائش ہو دے دیں تاکہ آپ سارے کے سارے انعامات کے وارث ہوں۔ خدا کرے کہ ہم خداتعالیٰ کے سب انعاموں کے ہمیشہ ہی وارث بنتے رہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲تا۵)
٭…٭…٭
رمضان المبارک ہمیںیہ موقعہ دیتاہے کہ ہم اپنے نفس، اپنے جذبات و خواہشات کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۶ ؍دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم صرف ہدایت کی راہ ہی نہیں دکھاتا بلکہ حکمت بھی بتاتا ہے۔
٭ حالات اور زمانہ کے لحاظ سے عمل صالح بھی بدلتے رہتے ہیں۔
٭ جب تک اللہ تعالیٰ فضل نہ کرے اپنے زور سے کوئی شخص پاک اور مطہر نہیں بن سکتا۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علوم کا ایک خزانہ قرآن کریم سے نکال کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔
٭ ماہ رمضان ترقیات حاصل کرنے کا موقعہ بہم پہنچاتا ہے۔




تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت کی تلاوت فرمائی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِٓيْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۔
(بقرہ: ۱۸۶)
گزشتہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات اپنی ہی غلطی کی وجہ سے پھر اِن مسلز (Muscles) کو سردی لگ گئی جن میں پہلے تکلیف تھی بے احتیاطی سے دیر تک کام کرتا رہا اور یہ خیال نہ رکھا کہ جسم کو گرم رکھوں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی صبح کو میرے لئے بستر سے اُٹھنا بھی مشکل ہو گیا شدید درد شروع ہوگئی پھر جسم کو گرم رکھا، دوائیں کھائیں تو اللہ تعالیٰ نے فضل کیا گو دواؤں کی وجہ سے ضعف ابھی باقی ہے لیکن میری یہ خواہش تھی کہ میں دوستوں کے سامنے ایک مختصر سا خطبہ اسی مضمون کے تسلسل میں دوں جو میں نے شروع کیا ہوا ہے اس لئے میں نماز جمعہ کیلئے آ گیا ہوں۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحبت کاملہ عطا کرے اور ہمیشہ ہی ساری ہی ذمہ داریوں کو نباہنے کی کماحقہ توفیق عطا کرے انسان تو عاجز بندہ ہے میں نے بتایا تھا کہ رمضان کے مہینہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہم قرآن کریم کی تین اصولی برکات سے مستفید ہونے کی انتہائی کوشش کریں ایک تو احکامِ شریعت سامنے لائیں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی ان راہوں پر چلنے کی اپنی طرف سے ہی ہمیں توفیق عطا کرے کہ اس کی توفیق کے بغیر تو انسان کچھ نہیں کر سکتا اس کے متعلق مختصراً ہی میں نے گزشتہجمعہ کچھ بیان کیا تھا۔
آج میں بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰیکے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی دوسری برکت جس کا ذکر اس نے اس آیت میں کیا ہے یہ بیان ہے کہ قرآن کریم صرف ہدایت کی راہ ہی نہیں بتاتا بلکہ حکمت بھی بتاتا ہے دلائل بھی دیتا ہے اور ان ہدایت کی راہوں سے جو چیزیں یا ماحول کے دباؤ لے جانے والے ہیں ان پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور ہمیں ان غلط راہوں کے فساد پر آگاہ کرتا ہے اور جو نیکیاں ہیں ان کو بھی بیان کرتا ہوں اصولاً تو وہ ایک ہی ہیں لیکن حالات اور زمانہ کے لحاظ سے عمل صالح بھی بدلتے رہتے ہیں مثلاً جس وقت منکرِ اسلام نے تلوار سے اسلام کو مٹانا چاہا اس وقت ایک مسلمان کی ذمہ واری کچھ اور تھیں اور جب اس میں ناکام ہو کر ہر قسم کے دجل کے حربوںکو اس کے خلاف استعمال کیا گیا تو اسی وقت ایک مسلمان کی ذمہ داریاں پہلی ذمہ واری سے مختلف ہو گئیں گو اصولی طور پر ان کی ایک ہی ذمہ داری رہی کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے اسلام کا دفاع اور اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ اصولی ذمہ واری ہے لیکن ایک زمانہ میں اس اصولی ذمہ واری کی کچھ اور شکل تھی اور دوسرے زمانہ میں اس اصولی ذمہ واری کی شکل کچھ اور بن گئی غرض قرآن کریم نے اپنے احکام کی حکمت اور دلائل بیان کئے قرآن کریم کے اسی فقرہ یا اسی حصہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اور اس کے معنی بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجو ہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہرایک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقینِ کامل اور معرفتِ تام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے پھر اسی تسلسل میں آگے جا کر اصولی طور پر آپ نے بیان کیا۔
’’بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۸۲)
اور اس آیت کے ایک معنی یہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہاں بیان کئے ہیں کہ قرآن کریم ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے احکام کی حکمتیں اور اس زمانہ کے فساد کو دور کرنے کے لئے جن دلائل کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ کھڑے کئے جاتے ہیں جنہیں یہ دلائل سکھائے جاتے ہیں پس اس برکت سے حصہ لینے کیلئے انتہائی جہاد تزکیہ نفس کے حصول کے لئے اور نہایت متضرعانہ دعائیں اس مجاہدہ کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ فضل نہ کرے کوئی شخص اپنی طاقت یا زور یا علم یا فراست یا عقل سے خدا کی نگاہ میں اپنے آپ کو پاک اور مطہر نہیں بنا سکتا اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور جو اس کے فضل سے طہارت اور تزکیہ کے نہایت ہی اعلیٰ مقام کو حاصل کر لیتے ہیں اور ان پر قرآنی انوار اور قرآنی اسرار اور قرآنی معارف کے دروازے کچھ اس طرح کھولے جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک خارق عادت حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے مَیں حضور کا ایک اقتباس اس وقت پڑھوں گا لیکن اس کے پڑھنے سے قبل میں یہ بتاتا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے خود اس مضمون کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَہٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
(الانعام: ۱۰۶)
یعنی ہم نے قرآن کریم کی آیتوں کو کئی طرح پھیر پھیر کے دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ ایک نُصَرِّفُ الْاٰیَات تو اس طرح ہے کہ مختلف طبائع کو اپیل کرنے والی جو باتیں تھیں وہ مختلف طبائع کے لحاظ سے قرآن کریم نے بیان کر دیں تا کہ کوئی طبیعت خداکے حضور یہ نہ کہے کہ میری فطرت کو تو تُو نے ایسا پیدا کیا تھا لیکن اس کے مطابق مجھے دلیل نہیں دی گئی اور ایک یہ ہے کہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سے نئے سے نئے دلائل اور نئے سے نئے حجج اور براہین لوگوں کو بتاتا رہتا ہے اور جن کو وہ یہ دلائل اور براہین سکھاتا ہے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ظلی طور پر معلم بنا دیتا ہے اور اس معلم کا کام یہ ہے کہ دَرَسْتَ تو لوگوں کو سکھلا دے ان کے سامنے بیان کر دے لیکن صرف یہ درس کافی نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِنُبَیِّنَہٗ لِقَوْمٍ یَّعْلمُوْنَ اور اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ہم نے یہ جاری کیا ہے کہ ایسے علماء ربّانی پیدا ہوتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خشیت سے معمور اور اس کے تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر قائم ہوتے ہیں اور لِنُبَیِّنَہٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ اللہ تعالیٰ ایسے علماء کی جماعت کے لئے قرآنی آیات کو کھول کر بیان کر دیتا ہے وہ مطہر نفس دنیا میں آ کر قرآن کریم کے اسرار کو حاصل کرتے اور پھر ان کا درس دیتے ہیں۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم حقیقی کے کامل ظل ہیں احکامِ قرآنی کو کھول کر بیان کرتے ہیںپس معلم تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے لیکن اس دنیا میں اگر کوئی کامل ظل معلم کی حیثیت میں پیدا ہوا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ھُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (الجمعہ:۳) کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَن پڑھ قوم میں انہی میں سے ایک فرد کو رسول بنا کر بھیجا ہے جو رسالت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہے یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہٖ وہ تمام احکام شریعت ان کے اوپر پڑھتا ہے جس بات کا ھُدًی لِّلنَّاسِ کے ساتھ تعلق ہے اس کو وہ کھول کر ان کو بتاتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں روزے رکھو دوسری شرائط کو پورا کرو، شور و غوغا نہ کرو، گالیاں نہیں دینی اپنی پوری توجہ قرآن کریم اور اس کی برکات کے حصول کی طرف پھیرنی ہے اپنے نفس کو (اس ماہ میں خصوصاً) مارنے کی کوشش کرنی ہے اور اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ میں جس مقام کا ذکر ہے اپنی استعداد کے مطابق اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے وَیُزَکِّیْھِمْ پھر اپنی قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں وہ ان کے نفوس میں بھی تزکیہ نفس پیدا کرتا ہے جب یہ تزکیہ نفس پیدا ہو جاتا ہے یعنی آپ کی قوتِ قدسیہ سے فائدہ اُٹھا کر اور آپ کے اُسوہ پر عمل کر کے انسان خدا کی نگاہ میں محبوب اور پیارا اور مطہر بن جاتا ہے تو پھر وہ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ کے اسرارِ روحانی ان کو سکھاتا ہے وَالْحِکْمَۃَ اور اس قرآن عظیم کی حکمت کی باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے طفیل ان پر ظہور ہونے لگ جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کامل اور مکمل ظلی معلم کے فیوض جاری ہوتے ہیں اور قیامت تک ایسے لوگ آپ کے فیض کے نتیجہ میں پیدا ہوتے رہیں گے جس طرح آپ ہی کے فیض کے نتیجہ میں آپ سے قبل آدم سے لے کر آپ کے زمانہ تک خدا تعالیٰ کے مقرب پیدا ہوتے رہے غرض اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ تزکیہ نفس کے بعد ہی تعلیم الکتاب کا امکان پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص جو اشخاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرتے ہوئے قرآن کریم کے جُوئا کے آگے اپنی گردن رکھ دیتے ہیں اور اپنے نفس کو کلی طور پر فنا کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں اور آپ کے طفیل اللہ تعالیٰ میں گم اور فنا ہو جاتے ہیں وہ قرآن کریم کی اس برکت سے ایک کامل اور مکمل حصہ پاتے ہیں آپ قرآن کریم کی برکات اور اس کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جو قرآن کریم کے متبعین پر مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں فرماتے ہیں۔
’’ازاں جملہ علوم و معارف ہیں جو کامل متبعین کو خوانِ نعمت فرقانیہ سے حاصل ہوتے ہیں جب انسان فرقان مجید کی سچی متابعت اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس کے امرو نہی کے بکلّی حوالہ کر دیتا ہے اور کامل محبت اور اخلاص سے اس کی ہدایتوں میں غور کرتا ہے اور کوئی اعراض صوری یا معنوی باقی نہیں رہتا تب اس کی نظر اور فکر کو حضرتِ فیاض مطلق کی طرف سے ایک نور عطا کیا جاتا ہے اور ایک لطیف عقل اس کو بخشی جاتی ہے جس سے عجیب و غریب لطائف اور نکاتِ علم الٰہی کے جو کلام الٰہی میں پوشیدہ ہیں اُس پرکھلتے ہیں‘‘۔
(براہین احمدیہہر چہار حصص روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۵۳۳،۵۳۲)
پھر فرماتے ہیں:
’’سو جو جو علوم و معارف دقائق حقائق و لطائف و نکات و ادلہ و براہین ان کو سوجھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبۂ کاملہ پر واقع ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے لوگوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تفہیم غیبی اور تائیدِ صمدی ان کی پیش رو ہوتی ہے اور اسی تفہیم کی طاقت سے وہ اسرار اور انوارِ قرآنی ان پر کھلتے ہیں کہ جو صرف عقل کی دُور آمیز روشنی سے کھل نہیں سکتے‘‘۔
(براہین احمدیہ ہر چہارحصص روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۵۳۴ بقیہ حاشیہ در حاشیہ)
پس یہ علامتیں قرآن شریف کے کامل تابعین میں اکمل اور اَتم طو رپر پائی جاتی ہیں وہ لوگ جو قرآن کریم کی اتباع میں کوشاں تو رہتے ہیں لیکن اپنی استعداد یا اپنے مجاہدہ کی کمزوری کے نتیجہ میں کامل تابعین کے مقام کو حاصل نہیں کر سکتے یا انہوں نے ابھی تک حاصل نہیں کیا اُن پر قرآن کریم کی یہ علامتیں اکمل اور اتم طور پر نازل نہیں ہو سکتیں لیکن اپنی اپنی کوشش اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق قرآن کریم کے انعامات اور اس کا فضلوں کی یہ علامتیں ان پر بھی نازل ہوتی ہیں کیونکہ صرف یہ تو نہیں کہ ایک بلند تر مقام تو ایک مسلمان کو مل سکتا ہے اور اس کے نچلے مقام اس کو نہیں مل سکتے یہ بات خلاف عقل ہے ہر شخص اپنی اپنی استعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعداد کے متعلق جو بڑے عجیب اور لطیف پیرایہ میں روشنی ڈالی ہے کے مطابق اور اپنی مخلصانہ اور مقبول کوششوں کے نتیجہ میں ان فیوض سے حصہ پا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں رکھے ہیں۔
میں نے سوچا کہ سب سے کم حصہ جوایک مسلمان خدا تعالیٰ کے اس عظیم قرآن کے فیوض سے حاصل کر سکتا ہے وہ اس قسم کی عقل ہے کہ وہ دوسروں کے بیان کردہ اسرار روحانی کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے یہ پہلا مرحلہ ہے یعنی ابھی اس کو وہ مقام تو حاصل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود اس پر اسرار قرآنی ظاہر کرے اور انوار قرآنی سے اسے منور کرے لیکن وہ اتنی عقل دے دیتا ہے کہ جن پر اسرار و انوار قرآنی بارش کی طرح نازل ہوتے ہیں ان کے بیان کردہ اسرار قرآنی کو ان کے منہ سے سننے یا ان کی کتابوں سے پڑھنے کے بعد وہ سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے کہتے ہیں نقل را عقل باید ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اسرار روحانی کو خواہ وہ بڑی وضاحت سے بیان کئے گئے ہوں سمجھ سکے مثلاً جو شخص متوجہ ہی نہیں جس کی توجہ بہک جاتی ہے وہ آدھی بات سنتا ہے اور آدھی سنتا ہی نہیں وہ سمجھے گا کیسے؟ مَیں نے یہ ایک موٹی مثال دی ہے جس کو بچے بھی سمجھ جائیں گے غرض کم سے کم فیض جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ عقل سلیم ہے جس کی نقل کے وقت بھی انسان کو ضرورت پڑتی ہے یعنی ایسے مامور اور صلحا اور علماء ربّانی جو خدا تعالیٰ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے طفیل علوم قرآنی حاصل کر کے انہیں دوسروں تک پہنچاتے ہیں ان علوم کو ایسے لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علوم کا ایک خزانہ قرآن کریم سے نکال کر دنیا کے سامنے رکھا ہے لیکن ابھی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ان علوم کو سمجھنے کے قابل ہے بعض دفعہ انسان کا دماغ یہ دیکھ کر چکرا جاتا ہے کہ اتنی حکمت کی باتیں ہیں غیر ان کو سمجھتے کیوں نہیں ان علوم سے قرآن کریم کی شان بلند ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور آپ کی برکتیں سامنے آتی ہیں غرض انمول جواہر اور ہیرے ہیں جو آپ کی کتب میں موجود ہیں لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے ہیں جو انہیں سمجھ سکیں۔
غرض کم سے کم مقام دوسروں کے بتائے ہوئے ہدایت کے دلائل اور حکمت کو سمجھنے کا ہے اور بڑے سے بڑا اور بلند تر مقام وہ خارق عادت مقام ہے کہ جس کے ساتھ کوئی اور مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان دو مقامات کے درمیان بے شمار مقامات ہیں جو ہم حاصل کر سکتے ہیں اور ان سے آگے ترقی کر سکتے ہیں آج ہم نے ایک مقصد کو حاصل کیا تو کل دوسرے مقام کو حاصل کر لیں گے غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیۃ کریمہ میں بیان کیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں تمہارے لئے ایک موقعہ عطا کیا گیا ہے کہ تم اپنے نفس کو جذبات اور خواہشات کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کی عادت ڈالو اور تکالیف برداشت کرنے کا اپنے جسموں کو عادی بناؤ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی قربانی ہم سے چاہتا ہے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کے بعد تو درحقیقت انسان کا کچھ رہتا ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں ایک مہینہ ایسا عطا کیا ہے کہ جس میں مَیں نے کہا ہے کہ تم میری خاطر بھوکے رہو جس میں مَیں نے کہا ہے کہ تم میری خاطر نیند کم کر لو جس میں مَیں نے کہا ہے کہ تم میری خاطر اپنا بہت کچھ چھوڑ دو تم اپنی خواہشات کو چھوڑ دو، تم نیکیاں کرو، اپنے اموال میں سے اور اپنے اوقات میں سے کچھ میری راہ میں دو تم میرے قریب تر آنے کی کوشش کرو تا کہ میرے ساتھ تمہارا اس قسم کا تعلق پیدا ہو جائے کہ تم نہ صرف یہ کہ دوسری باتیں سمجھنے لگ جاؤ جو میں ان کو مجسم حقیقی کی حیثیت سے بتاتا اور پڑھاتا ہوں بلکہ تم خود میرے شاگرد بن جاؤ۔ چاہے پہلی جماعت کے شاگرد ہی سہی لیکن میرے شاگرد بن جاؤ اور اس میں کامیاب ہو جاؤ گے تو پھر تم میری دی ہوئی توفیق سے دوسری جماعت میں بھی ہو جاؤ گے اور اس کے بعد پھر تیسری جماعت میں ہو جاؤ گے پھر کچھ عرصہ بعد تم ایم اے تک پہنچ جاؤ گے پھر تم ڈاکٹریٹ پوسٹ ڈاکٹریٹ کے مقام تک پہنچ جاؤں گے مادی دنیا میں بھی علمی تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے جس کتاب عظیم میں جس کتاب حکیم میں اور جس فرقان میں نہ ختم ہونے والے خزانے پائے جاتے ہیں اس کے متعلق بھی تحقیق کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا وہ کھولے جاتے ہیں وہ لوگ جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اُن کا مقام ارفع اور اعلیٰ ہے اور کامل اتباع کے نتیجہ میں کامل معرفت انہیں عطا کی جاتی ہے ان پر بھی مزید ترقیات کے دروازے بند نہیں ہوتے وہ بھی اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ سیکھتے چلے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل کرتے جاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماہ رمضان ترقیات حاصل کرنے کا ایک موقعہ بہم پہنچاتا ہے اس کو گنواؤ مت اگر تم رمضان کی عبادات خلوص نیت کے ساتھ اور میری بتائی ہوئی شرائط کے ساتھ ادا کرو گے تو تم میرے سکول میں میرے مدرسہ میں داخل ہو جاؤ گے جہاں صرف درس نہیں ہوگا بلکہ وہاں بیان بھی ہوگا وہاں دو کلاسیں ہوں گی ایک درس ہوگا یعنی جو دوسروں نے سکھایا وہ تم سمجھنے لگ جاؤ گے اور ایک بیان کی کلاس ہوگی کہ میں تمہیں خود سکھاؤں گا میں خود تمہارا معلم بن جاؤں گا اور کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ خود سکھانا شروع کر دے۔ پس رمضان کی اس برکت سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور میری خواہشات کو پورا کرے اور وہ خود ہمارا معلّم بنے۔
(روزنامہ الفضل ۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭
قرآن کریم کی ایک برکت فرقان ہے جس سے ہم رمضان میں زیادہ حصّہ لے سکتے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۳ ؍دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم اعتقادات کے لحاظ سے حق و صداقت اور باطل کے درمیان ایک نمایاں امتیاز پیدا کر دیتا ہے۔
٭ جتنا جتنا تقویٰ تم حاصل کرو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے رموز تم پر کھولے گا۔
٭ بدی سے نفرت کرو لیکن بد سے نہیں۔
٭ قرآن کریم نے ایک فرقان یعنی امتیازی مقام مسلمان کو لیلۃ القدر میں دیا ہے۔
٭ آدمی جتنا جتنا روحانی طور پر بلند ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ خطرہ ہے کہ اگر وہ گرا تو اس کی ہڈی پسلی قیمہ کی طرح پس جائے گی۔



تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی ۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ
(البقرہ: ۱۸۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کا رمضان کے مہینہ سے بڑا گہرا تعلق ہے قرآن کی اصولی برکات میں سے جو فرقان ہونے کی برکت ہے اس سے بھی اگر تم چاہو اور مجاہدہ کرو تو رمضان کے مہینہ میں زیادہ حصہ لے سکتے ہو فُرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق و باطل میں ایک امتیاز پیدا کر دے قرآن کریم کے متعلق جب فرقان کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی لئے جاتے ہیں کہ یہ ایک کامل اور مکمل ہدایت ہے جو ہر غلط اعتقاد کی نشان دہی بھی کر رہی ہے اور ہر صحیح اعتقاد کی طرف راہ نمائی بھی کر رہی ہے اوراعتقادات کے لحاظ سے حق اور صداقت اور باطل کے درمیان ایک نمایاں امتیاز پیدا کر دیتی ہے اسی طرح یہ ایسی کامل شریعت ہے جو صدق اور کذب کے درمیان بڑے نمایاں طور پر ایک امتیاز پیدا کرتی ہے ایک سمجھدار کو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ دکھا دیتی ہے اسی طرح جہاں تک اعمال کا تعلق ہے قرآنی تعلیم بتاتی ہے کہ کس قسم کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالح اور حمید ہیں اور کس قسم کے اعمال اور کون سے اعمال خداتعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہیں اور چونکہ یہ ایک کامل اور مکمل ہدایت نامہ ہے اس لئے یہ کتاب بڑی تاثیروں کی مالک ہے اس کتاب سے پہلے بھی شریعتیں نازل ہوتی رہی ہیں لیکن اضافی طور پر قرآن کریم کے مقابلہ میں وہ ناقص تھیں۔ جب انسان اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی میں انتہائی مدارج تک پہنچ گیا اور انسان کی بحیثیت انسان استعدادِ روحانی اس قابل ہو گئی کہ وہ کامل شریعت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکے تو اس وقت قرآن کریم کا نزول ہوا اور اس نے ہر قسم کے غلط اور صحیح، سچ اور جھوٹ، اعمال صالحہ اور ناپسندیدہ اعمال کے درمیان ایک فرق اور امتیاز پیدا کیا پہلی کتب گو اپنے زمانہ کے لحاظ سے کامل کتابیں تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو حق و باطل میں ہر قسم کا امتیاز پیدا کرنے والی ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہم سے یہ وعدہ کیا ہے۔
اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (الانفال: ۳۰) اگر تم اپنی راہ نمائی کے لئے قرآن کریم کو چنو گے اور پسند کرو گے اور اختیار کرو گے تو تمہیں بھی ایک امتیازی مقام دیا جائے گا اور تمہیں اللہ تعالیٰ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی توفیق دے گا اور قرآن کریم کی روحانی برکات کے طفیل تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو صحیح کو غلط سے اور ظلمت کو روشنی سے جدا کرتا چلا جائے گا اور تمہاری راہ کو سیدھا اور آسان کر دے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس روحانی تاثیر کے متعلق بہت کچھ لکھا اور فرمایا ہے لیکن میں نے اس موقعہ کے لئے ایک مختصر سا حوالہ لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کے روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلے آتے ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالمات الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں خدائے تعالیٰ ان کی دعائوں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید و نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے (یعنی ان کیلئے ایک فرقان بنا دیتا ہے) یہ بھی ایسا نشان ہے جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا‘‘۔
(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ ۲۲)
غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ قرآن کریم میں بہت بڑی روحانی تاثیرات پائی جاتی ہیں اور تم اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق ڈھالو اور ان احکام کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارو جو قرآن نے بتائے ہیں اس کے نتیجہ میں ایک طرف تو تمہاری عقل میں جلا پیدا ہو جائے گا اور دوسری طرف جتنا جتنا تقویٰ تم حاصل کرو گے جس قدر مقام قرب کو تم پا لو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے رموز تم پر کھولے گا اور تمہیں اپنا مقرب بنا لے گا وہ ایک امتیازی نشان تمہیں دے گا یہ ممتاز مقام ایک مسلمان کی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے ایک مسلمان کی ہر حرکت اور سکون میں ہمیں ایک امتیاز نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر حرکت اور سکون کے متعلق ہماری راہ نمائی فرمائی ہے مثلاً آپ نماز کیلئے آ رہے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے اور آپ نے خیال کیا کہ پہلی رکعت آپ کو ملتی ہے یا نہیں اور آپ دوڑنا چاہتے ہیں اس وقت اسلام آپ کے کان میں یہ آواز دیتا ہے اَلْوَقَار اَلْوَقَار تم اپنے وقار کا خیال رکھو یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو میں نے دی ہے ورنہ ہر حرکت جو ہم کرتے ہیں اس کے متعلق ہمیں ایک ہدایت دی گئی ہے اس کے متعلق ہمیں ایک نور عطا کیا گیا ہے اسی طرح ہمارا سکون ہے یعنی حرکت کا نہ ہونا بعض دفعہ ہمیں حرکت نہیں کرنی ہوتی مثلاً مراقبہ ہے محاسبہ نفس ہے یہ گو ویسے بھی ہو سکتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ انسان خالی الذہن ہو کر اور ہر قسم کے خیالات سے بچ کر تنہائی کے مقام پر جا کر ہی ظاہری سکون کی حالت میں ہوتا ہے اس کے اندر تو اپنی عاجزی اور خداتعالیٰ کے غضب کے خوف کی وجہ سے اور اس کی محبت کے پا لینے کے لئے ایک طوفان بپا ہوتا ہے لیکن دنیوی نقطہ نگاہ سے ہم اسے سکون کی حالت کہہ سکتے ہیں پھر انسان بولتا ہے بولنے یعنی نُطق کے متعلق اسلام نے ہمیں اتنی ہدایتیں دی ہیں کہ پہلی شریعتیں تو شاید اس کے ہزارویں حصہ تک بھی نہیں پہنچیں پھر ایک مسلمان جب خاموشی اختیار کرتا ہے یا جب اسے خاموشی اختیار کرنی چاہئے اس وقت وہ ہوائے نفس کے نتیجہ میں خاموشی اختیار نہیں کرتا بلکہ وہ اس لئے خاموش رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خاموش رہو مثلاً قرآن کریم کا درس ہو رہا ہے نماز ہو رہی ہے تو خدا کہتا ہے کہ خاموش رہو مجلس میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان میں سے ایک شخص بات کر رہا ہو تو اسلام کہتا ہے کہ دوسرے سب لوگ اس کی بات سنیں یہ نہیں کہ ساری عورتیں اکٹھی بولنے لگیں یا سارے مرد اکٹھے بولنے لگیں غرض مرد اور عورت ہر دو کو یہ حکم ہے کہ دوسرے کی بات کو خاموشی سے سنو، ہر وقت بولنا، زیادہ بولنا، بے موقع بولنا اور بلا وجہ بولنا اسلام پسند نہیں کرتا اس نے ہزار قسم کی پابندیاں اس پر لگائی ہیں۔
پھر ہمارے اندر نفرت اور رغبت کا جذبہ پایا جاتا ہے یہ ایک طبعی چیز ہے لیکن اس چیز کو بھی اندھیروں میں بہکتا ہوا نہیں چھوڑا گیا بلکہ قرآن کریم نے ایک نور پیدا کیا اور کہا کہ کسی شے سے اس وجہ سے ان حالات میں اور اس حد تک تم نفرت کر سکتے ہو پھر اس نے یہ کہا ہے کہ بدی سے نفرت کرو لیکن یہ نہیں کہا کہ تم بد سے نفرت کرو یہ ایک بڑا باریک فرق اور باریک امتیاز ہے جو قرآن کریم نے پیدا کیا ہے پھر رغبت ہے ہمیں حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت دوستی اور اخوت کے تعلقات کو ہم نے قائم رکھنا ہے۔ پھر غصہ ہے غصہ انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ ایک طبعی امر ہے بعض جگہ اس کا نکالنا ضروری ہے اور بعض جگہ اس کا دبانا ضروری ہے جس طرح ایک گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے اور وہ لگام اس کے سوار کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی طرح غصہ بھی انسان کے قابو میں ہونا چاہئے اور اس کا اظہار صرف اس وقت ہونا چاہئے اس کا اظہار صرف اس رنگ میں ہونا چاہئے اس کا اظہار صرف اس حد تک ہونا چاہئے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے اور جہاں اس نے کہا ہے کہ غصہ کو روکو وہاں ہمیں کاظمین بن جانا چاہئے ہمیں غصہ کو روکنا چاہئے گویا اللہ تعالیٰ نے ایک نور یہاں بھی عطا کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہاں غصہ کا اظہار کرنا ہے اور یہاں اظہار نہیں کرنا اور یہ نور قرآن کریم کی ہدایت ہے اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو انسان کو عقل اور فراست عطا کرتی ہیں۔
پھر غصہ کے مقابلہ میں خوشنودی ہے یہ بھی ہزار پابندیوں کے اندر ہے غرض ہمارے معاشرہ اور معیشت کے ہر پہلو کے متعلق اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور ہر پہلو کے بعض حصوں کو ہمارے لئے منور کر دیا ہے تاکہ ہم انہیں اختیار کریں اور بعض پہلوئوں کو اس نے ظلمات میں چھوڑا ہے تا ہماری نظر بھی ان پر نہ پڑے اس نے ہمارے لئے ان پر اندھیرا کر دیا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ جو بات اندھیرے میں ہو گی وہ ہمیں نظر نہیں آئی گی ہماری توجہ اس کی طرف نہیں ہو گی اسلامی تعلیم میں تربیت یافتہ ذہن اس چیز کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا جو خدا اور اس کے رسول کو ناپسندیدہ ہو۔
پھر عزم و ہمت ہے بڑے بڑے ہمت والے دنیا میں پیدا ہوئے مگر ان کی ساری ہمتیں دنیا ہی میں صرف ہو گئیں انہوں نے فساد بپا کیا قتل و غارت کی راہوں کو اختیار کیا اور لعنتوں کا طوق اپنی گردن میں لئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انسان نے ان کو بھلا دیا یا اگر اس نے یاد رکھا تو *** سے یاد رکھا۔ اس کے مقابلہ میں دین کے لئے بھی عزم اور ہمت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کے قرب کے مقامات کے حصول کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے بنی نوع سے ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے اسلام کی ہدایات پر صبر اور استقامت سے قائم رہنے کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے۔ غرض جہاں جہاں ایک مسلمان کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے قرآن کریم نے اس کی نشان دہی کر دی ہے اور جس غلط قسم کے عزم اور ہمت کے نتیجہ میں فساد پیدا کرنے سے اس نے ہمیں منع کر دیا ہے۔
پھر توجہ اور دعا ہے قرآن کریم نے اس کے متعلق بھی ہمیں بڑے لطیف پیرایہ میں ہدایات دی ہیں لیکن لوگ ان ہدایتوں کو بھول جاتے ہیں اگر کوئی بات جو انہیں پسند ہو اور جس کے لئے انہوں نے دعا کی ہو وہ قبول نہ ہو یا کوئی چیز جو انہیں پسند ہو وہ انہیں نہ ملے تو ان کے دل میں شکوہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ان بے شمار نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی دعا کے انہیں عطا کی ہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ تم خداتعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کو گزارو دعا کے لئے بعض شرائط اس نے لگائی ہیں اس کے بعض طریق اس نے بتائے ہیں دعا کی حکمتیں اور فلسفہ اس نے ہمیں بتایا ہے جہاں اس نے یہ نہایت حسین اور انمول چیز ہمارے ہاتھ میں دی ہے وہاں اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ خداتعالیٰ خدا ہے نعوذ باللہ وہ تمہارا غلام نہیں جب وہ تمہاری بات مانتا ہے تو وہ تم پر احسان کرتا ہے اور جب وہ اپنی بات منواتا ہے تب بھی وہ تم پر احسان کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے تمہارے ساتھ دوستوں کا سا سلوک کیا ہے ورنہ کجا بندہ اور کجا خدا کا پیار اور دوستی۔ وہ اپنے نیک اور مقبول بندوں کو یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری بات اس لئے نہیں مانتا کہ میں تم سے دشمنی کر رہا ہوں بلکہ وہ انہیں تسلی دینے کے لئے کہتا ہے کہ دنیا کی دوستیوں میں بھی تو تم یہی دیکھتے ہو کہ کبھی دوست تمہاری بات مانتا ہے اور کبھی وہ اپنی بات منواتا ہے اگر میں نے تم سے اپنی بات منوالی ہے تو تم یہ سمجھو کہ میں نے ایک دوست کا سا پیار تمہیں دیا میں نے تم سے دوستانہ سلوک کیا ہے یعنی میرا جو انکار ہے وہ بھی میری دشمنی اور غصہ کی علامت نہیں غرض یہ ایک ایسا لطیف اور وسیع مضمون ایک ایسا نور جس نے دعا اور توجہ کی دنیا کو منور کر دیا ہے قرآن کریم نے ہمیں دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہم نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جس کو فرقان کہا جا سکتا ہے اگر تم اس تعلیم پر عمل کرو گے تو تم ان لوگوں میں شامل ہو جائو گے جو اپنے غیر سے امتیاز رکھتے ہیں تمہاری ممتاز حیثیت ہو گی خدا کی نگاہ میں بھی اور انسان کی نگاہ میں بھی اپنوں کی نگاہ میں بھی اور غیروں کی نگاہ میں بھی تمہارا ظاہر اور باطن نور ہی نور ہو جائے گا اور یہ نور ہی ہے جو تمہیں تمہارے غیر سے ممتاز کرے گا۔
نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ (التحریم :۹) کے ایک معنی ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ چونکہ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملنا ہے اس لئے اس نور کی وجہ سے جو قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے نتیجہ میں تم حاصل کرو گے ایک مسلسل ترقی کے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے اور یہ نور تمہارے اعمال نامہ میں بھی لکھا جائے گا، وہ نور بڑھتا جائے گا، تم دیکھو گے کہ ایک یہ نورانی کام کیا ہے ایک یہ نورانی کام کیا ہے ایک یہ نورانی کام کیا ہے گویا ایک مثالی رنگ میں ہمیں بتایا ہے کہ نہ صرف تم اس دنیا میں اس نور کی اتباع کرتے ہوئے جو تمہارے آگے آگے پیدا کیا جائے گا تم آگے ہی آگے روحانی ترقیات کرتے جائو گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمہارا اعمال نامہ بھی چل رہا ہے اس میں بھی لکھا جارہا ہے مطلب یہ کہ صرف اس دنیا میں ہی تمہیں اس کے مطابق جزا نہیں ملے گی، اس دنیا میں ہی تم اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کے جلوے نہیں دیکھو گے بلکہ اُس دنیا میں بھی اپنے اس روحانی ارتقاء کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ خدا کی محبت کے جلووں کے حقدار قرار دئیے جائو گے، تمہارے اعمال نامہ میں یہ چیزیں ساتھ ہی ساتھ لکھی جائیں گی۔
قرآن کریم نے ایک فرقان یعنی امتیازی مقام مسلمان کو لَیْلَۃُ القَدَر میں دیا ہے اور اس کے متعلق نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اس کو تلاش کرو سارے بزرگ اس کے متعلق کہتے آئے ہیں ہماری جماعت کے خلفاء بھی جماعت کو غلط خیالات سے بچانے کے لئے اس کے متعلق بار بار توجہ دلاتے رہے ہیں میں بھی آج دوستوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں بعض ایسی گھڑیاں ہیں کہ سارا سال انسان جو بھی گناہ کرتا رہے ان میں ان کی معافی مل جاتی ہے ایک چور مثلاً یہ سمجھے گا کہ سارا سال چوری کرو، لوگوں کو لوٹو، حرام کھائو، بس اس گھڑی میں جا کر معافی مانگ لو جمعۃ الوداع میں دعا کر لو یا لیلۃ القدر (ظاہری شکل جو لوگوں نے بنائی ہوئی ہے اس کے مطابق رمضان کی ستائیسویں رات کو) کو بیدار رہ کر دعا کر لو یا رمضان کے آخری عشرہ کی دس راتیں جاگ لو تو سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
لَیْلَۃُ القَدَر تو تقدیر کی رات ہے اس دن اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرا بندہ اس نور کے نتیجہ میں جو اس کے ساتھ تھا اور اس کے اعمال نامہ میں اس کا اندراج ہوتا چلا گیا تھا اپنی زندگی کا ایک باب ختم کر چکا ہے اب جیسا کہ امتحان میں ہر پرچہ کے نمبر ہوتے ہیں اس باب کے اس کو نمبر مل جاتے ہیں اور وہی اس کی لیلۃ القدر ہے اگر وہ فیل ہو گیا اگر اس کے لئے سارا سال ہی نور نہیں رہا اگر اس نور میں اس نے ترقی نہیں کی اگر اس نے خداتعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرنے میں سستی اور غفلت سے کام لیا اگر اس کا اعمال نامہ خالی کا خالی پڑا ہے تو اس کے لئے ایک معنی میں لیلۃ القدر تو ہو گی مگر اس لیلۃ القدر میں یا جمعتہ الوداع میں یہ لکھا جائے گا کہ اس بندہ کو خداتعالیٰ کا نور حاصل کرنے کے مواقع دئیے گئے مگر اس نے ان سے فائدہ نہیں اُٹھایا اس لئے آج اگر یہ مر جائے تو یہ جہنم میں پھینک دیا جائے پس اس کی لیلۃ القدر تو ہو گی اس کی تقدیر کا اس دن فیصلہ تو ہو گیا مگر وہ فیصلہ خوشکن فیصلہ نہیں وہ پاس ہونے کا فیصلہ نہیں وہ خداتعالیٰ کی محبت کے حصول کا فیصلہ نہیں وہ خداتعالیٰ کے نور سے منور ہونے کا فیصلہ نہیں کیونکہ اعمال نامہ اس کا خالی پڑا ہے نور تھا ہی نہیں کہ اعمال نامہ میں اس کا اندراج کیا جاتا پس لیلۃ القدر کے یہ معنی نہیں جو لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں بلکہ لیلۃ القدر کے یہ معنی ہیں کہ اس دن زندگی کا ایک باب ختم ہوا اور ایک نیا باب شروع ہوا۔
پھر چونکہ خداتعالیٰ کے قرب کی راہیں ختم نہیں ہوں گی اس لئے اگر کوئی انسان چاہے کتنے ہی مقامات قرب حاصل کر لے تب بھی اس کے آگے بے شمار مقامات قرب ہیں جن کو وہ حاصل کر سکتا ہے لیلۃ القدر پر اس کی زندگی کا ایک باب ختم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے آج اس کی تقدیر کا فیصلہ کر دو کہ اس کی سال بھر کی خلوص نیت سے کی ہوئی عبادتوں اور اطاعتوں اور اسلام (اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ) یعنی فرمانبرداری کے مظاہروں کا آج میں خاص طور پر انعام دیتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس لیلۃ القدر میں اپنے بعض بندوں کو خاص انوار سے نوازتا ہے اور بعض کو عام انوار سے (جو معمول سے زیادہ ہوتے ہیں) نوازتا ہے اور انکو کہتا ہے کہ پہلی لینڈنگ (Landing) (اگر کسی عمارت میں کئی منزلوں تک سیڑھیاں چڑھ رہی ہوں تو ایک جگہ آ کر ایک حصہ سیڑھیوں کا ختم ہو جاتا ہے اور ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے) تم پہنچ گئے کچھ رفعتوں کو تم نے حاصل کر لیا ہے اب ایک باب تمہاری زندگی کا ختم ہو گیا ہے نیا باب اس عزم اور ہمت اور دعا اور توجہ سے شروع کرو کہ سال گزرنے کے بعد ہم اس سے بلند مقام پر ہوں گے نیچے نہیں گریں گے اور نہ ہی موجودہ جگہ پر ٹھہریں گے پھر یہ باب بھی ختم ہو جاتا ہے پھر اگلا باب شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ اعمال نامہ کی کتاب کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ پہلے دن سے آخری دن تک یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہمارا انجام بخیر ہو کیونکہ ایک شخص اپنی زندگی کے ایک حصہ میں جتنا جتنا روحانی طور پر بلند ہوتا ہے اتنا ہی اس کے لئے زیادہ خطرہ ہے کہ اگر وہ گرا تو اس کی ہڈی پسلی قیمہ کی طرح پس جائے گی پانچ فٹ کی بلندی سے کوئی گرے تو اسے تھوڑی چوٹ لگتی ہے لیکن اگر کوئی چار منزلوں کی بلندی سے گرے تو اس کے لئے بچنا مشکل ہو جاتا ہے پس جہاں انسان کے لئے رفعتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مقامات قرب اسے عطا کئے جاتے ہیں وہاں اس کو برے انجام سے ڈرایا بھی جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ انجام بخیر کی دعا کرو کیونکہ اگر کسی وقت بھی شیطان کا حملہ تم پر کامیاب ہو گیا تو تمہیں زیادہ خطرہ ہے تم خداتعالیٰ کی *** اور غضب کے نیچے دوسروں کی نسبت زیادہ آئو گے۔ جو لوگ دین العجائز اختیار کرتے ہیں آپ مشاہدہ کریں گے کہ ان میں سے بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے کہ شیطان ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ ابھی بہت تھوڑا پیار اللہ تعالیٰ کا انہوں نے حاصل کیا ہے ابھی یہ نچلے درجہ میں ہیں اگر میں انہیں جھنجھوڑوں تو اس کا کیا فائدہ ہو گا گو شیطان چھیڑتا تو ان لوگوں کو بھی ہے لیکن ان میں سے اکثر دین العجائز اختیار کرنے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں مگر جتنا جتنا کوئی بلند ہوتا ہے اتنا ہی بلعم باعور بننے کا خطرہ اس کیلئے پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی بیسیوں نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں۔ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں بھی ہمیں اس کی مثال ملتی ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام بھی اور رسول کریمﷺ کی محبت پیار اور قرب کا مقام بھی حاصل کیا لیکن بعد میں ٹھوکر لگی اور کہیں سے کہیں گر گیا غرض زندگی کا ایک باب لیلۃ القدر کو ختم ہوتا ہے پھر خدا کہتا ہے دعا کرو کہ آئندہ باب زندگی کا جب ختم ہو تو اس سے اچھا نتیجہ نکلے تم میری نگاہ میں میرے زیادہ پیار کے مستحق قرار پائو اور وہ لیلۃ القدر تمہارے لئے انفرادی طور پر اس سے بہتر لیلۃ القدر بن جائے اور دعا کرتے رہو کہ انجام بخیر ہو اور جب یہ کتاب بند ہو تو اس کے آخر میں یہی لکھا جائے کہ خدا کا پیارا بندہ خدا کی گود میں چلا گیا یہ نہ لکھا جائے کہ خدا نے اس بندہ سے ایک حد تک پیار تو کیا اور ایک حد تک محبت کا سلوک کیا مگر اس بندہ نے خدا کے پیار اور محبت کے سلوک کی قدر نہ کی۔ تب وہ خدا کی نگاہ سے دھتکارا گیا اور شیطان کی گود میں پھینک دیا گیا اس واسطے جہاں لیلۃ القدر کی تلاش کرو وہاں انجام بخیر ہونے کی دعائیں ہمیشہ کرتے رہو اور لیلۃ القدر یا کسی اور گھڑی کے غلط معنے لے کر جو نورانی نہیں ظلماتی ہوں اپنی زندگیوں کو اور اپنی نسلوں کو ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرو۔ ہلاکت سے اپنے کو بھی بچائو اور اپنوں کو بھی بچائو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی بچائو۔
خداتعالیٰ ’’اسلام‘‘ کا تقاضا کرتا ہے خداتعالیٰ کہتا ہے کہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر میرے حضور میں حاضر ہو جائو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ تم نیکی کی توفیق نہیں پا سکتے اگر میرا فضل نہ ہو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ اس کتاب میں ہدایت کے سامان بھی ہیں اور حکمت کے سمندر بھی ہم نے اس کتاب میں بند کر دئیے گئے ہیں اور اسے فرقان بنایا ہے اس پر چل کر اور اس پر عمل کرکے تم خدا کی نگاہ میں ایک ممتاز مقام تو حاصل کر سکتے ہو لیکن میرے فضل کے بغیر اس مقام کا حاصل کرنا ممکن نہیں اس لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہے اور اپنے بندہ کو وہ جو بنانا چاہتا ہے اس کی نگاہ میں ہم وہی بن جائیں اور ایک دفعہ اس کی محبت اور اس کا پیار حاصل کرنے کے بعد کبھی اس کے غضب کی نگاہ ہم پر نہ پڑے یہاں تک کہ ہم اس زندگی سے گزر جائیں اور ابتلاء اور امتحان کا دروازہ جو ہے وہ بند ہو جائے اور ابدی جزا اور ابدی محبت اور ابدی پیار کا زمانہ ہمارے لئے شروع ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر فضل کرے۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ۱ تا۴)
٭…٭…٭
ہمارے نوجوانوں کو جلسہ سالانہ پر چوبیس گھنٹے اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کیلئے ڈیوٹی پر سمجھنا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ۔ربوہ )
ء ء ء
٭ اسراف سے ورے ورے، ہر خدمت جو ممکن ہو سکتی ہے وہ مسافر کی کرو۔
٭ جلسہ سالانہ کے موقع پر جذبۂِ خدمت کے نہایت حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
٭ ہماری دوسری نسل کے کندھوں پر جس قدر بوجھ پڑے گا تیسری نسل کے کندھوں پر اس سے زیادہ بوجھ پڑے گا۔
٭ اگلی نسل کے وقت دس کروڑ سے زائد احمدی ہوں گے ان کا زیادہ تر کام مرکز میں رہنے والوں کو ہی کرنا ہوگا۔
٭ مہمان کی ضرورت جائز ہے یا نہیں آپ کا کام نہیں آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اس ضرورت کو ذمہ دار منتظمین تک پہنچا دیں۔


تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِٓيْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَیُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُبِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo (البقرہ :۱۸۶۔۱۸۷)
اس کے بعد فرمایا ۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھو میں تم سے بڑا ہی پیار کرنے والا ہوں میں نے جو احکام تمہیں تمہاری ترقیات کے لئے دئیے ہیں ان میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ تمہارے لئے کوئی تنگی نہ پیدا ہو بلکہ آسانی اور سہولت کے ساتھ تم ان ذمہ داریوں کو بجا لاتے رہو جو تم پر ڈالی گئی ہیں (یہ اور بات ہے کہ کبھی فطرت بہانہ سہولت کو بھی تنگی سمجھنے لگتی ہے اور انعام کو بھی ایک کوفت محسوس کرتی ہے)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام بھی دئیے ہیں وہ اس لئے دئیے ہیں کہ ہم جسمانی لحاظ سے بھی اور دنیوی زندگی میں بھی اور روحانی طور پر بھی اور اُخروی زندگی میں بھی فلاح کو حاصل کریں اور ان احکام میں اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ ہمارے لئے تنگی اور مجبوری کے حالات نہ پیدا ہوں اور ایسا نہ ہو کہ انسان کو یہ احساس ہو کہ مجھ میں ان احکام کو بجا لانے کی قوت اور طاقت تو نہیں ہے لیکن میرا ربّ مجھ سے یہ مطالبہ کر رہا ہے۔
چونکہ یہاں ہمارا محبوب آقا ہمیں رمضان کے متعلق ہدایات دے رہا ہے اس لئے اس نے دو چیزوں کو ہمارے سامنے رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو تو پھر رمضان کے روزے نہیں رکھنے اور جب ہم اسلام کی اور قرآن کریم کی مجموعی تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو اگر تم مریض ہو تو میں نے مریض کے بہت سے حقوق قائم کئے ہیں اور اگر تم سفر پر ہو تو میں نے مسافر کے بہت سے حقوق قائم کئے ہیں لیکن ان تمام حقوق کے باوجود گھر میں جو آرام و آسائش ہے وہ سفر میں نہیں مل سکتا اس لئے میں تمہارے لئے سہولت پیدا کرتا ہوں اور تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم سفر میں ہونے کی حالت میں رمضان کے روزے نہ رکھو جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس سہولت کی قدر نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے اس پیار کو نہیں سمجھتا وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قدر محبت اور پیار کا سلوک ہم سے کیا ہے کہ انسان شرم کے مارے اپنی گردن جھکا لیتا ہے اور پھر وہ گردن جھکی ہی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پیشانی نیستی کے آثار لئے اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے حقوق سفر کا ذکر کیا ہے اور نبی کریمﷺ نے ان آیات قرآنیہ کی نہایت ہی حسین تفسیر بیان کی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں یہ فرماتا ہے کہ کامل نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے مسافر پر اپنا مال خرچ کرتا ہے سورہ بقرہ ہی کی آیت ۲۱۶ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو اموال تم خرچ کرتے ہو یا دوسری نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہیں مثلاً وقت ہے خدمت کرنے کی اہلیت ہے (یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں) اور تم اس کی رضا کے حصول کے لئے اس راہ میں خرچ کرتے ہو ان میں مسافروں کا بھی حق ہے یعنی اگر تم مسافر پر ان چیزوں کو خرچ کرو گے تو اس مسافر پر تمہاری طرف سے احسان نہیں ہو گا بلکہ یہ اس کا حق ہے جو تم ادا کر رہے ہو گے سورئہ نساء کی ۳۷ ویں آیت میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسافر کے ساتھ بہت احسان کا سلوک کرو اور سورۃ الاسراء کی ۲۷ ویں آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مسافر کو اس کا حق دو اور اسراف کا رنگ اختیار نہ کرو جیسا کہ فرمایا۔
وَاٰتِ ذَاالقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَاتُبَذِّرْتَبْذِیْرًا (بنی اسرائیل: ۲۷)
یعنی اسراف سے ورے ورے مسافر کی ہر ضرورت کا خیال کرو یہ تو نہیں کہ مسافر کی خاطر اور اس کی خدمت میں خداتعالیٰ کے دوسرے احکام کو انسان بھول جائے اسراف سے ورے ورے، ہر خدمت جو ممکن ہو سکتی ہے وہ مسافر کی کرو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ دیکھو جب تم سفر میں ہوتے ہو تو ہم نے تمہارے لئے کس قدر آرام کا ماحول پیدا کیا ہے ہم نے تمہارے بھائیوں کو کہا ہے کہ تم ہماری محبت کی وجہ سے اور ہماری رضا کے حصول کے لئے جو اموال خرچ کرتے ہو ان میں مسافر کا بھی حق ہے ہم نے اس خرچ کو تمہارا حق قرار دیا ہے اور تمہارے بھائیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ تمہارا حق تمہیں ادا کیا جائے پھر یہی نہیں کہ تمہارا حق ادا کیا جائے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ حق سے زائد دو احسان کرو اور بہت احسان کرو اور اس قدر احسان کرو کہ اسراف سے ورے ورے ہر ممکن خدمت اس کی بجا لائو۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ پھر بھی سفر میں تمہیں تمہارے جیسی سہولت نہیں ملے گی ہم تمہارے لئے سہولت چاہتے ہیں اس لئے ہم نے تمہیں اجازت دے دی ہے اور کہا ہے کہ رمضان کے روزے سفر کی حالت میں نہ رکھا کرو اب دیکھو یہ کتنی پیاری تعلیم ہے اور کس قدر محبت کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے۔ اس محبت اور پیار کے اظہار کی وجہ سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایک تو ہم ہر وقت خداتعالیٰ کی حمد کرتے رہیں خداتعالیٰ کی کبریائی ہر آن بیان کرتے رہیں اور دوسرے خداتعالیٰ کی کامل صفات کو ہر وقت اپنے تصور میں رکھیں اور جس محبت کا وہ ہم سے اظہار کرتا ہے اس کا جواب اسی قسم کی محبت سے دیں انسان بشری کمزوریوں سے تو بچ نہیں سکتا لیکن اپنے ماحول میں جس قدر پیار کسی سے کر سکتا ہے جس قدر محبت وہ کسی سے کر سکتا ہے وہ سب سے زیادہ پیار اور محبت شکر کے طور پر اپنے ربّ سے کرے چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی ہے اور پھر ہدایت کے ساتھ ہماری سہولتوں اور آسانیوں کا خیال رکھا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم کسی موقع پر بھی کمزوری نہ دکھائیں اور اس کی حمد کرتے ہوئے ان سہل راستوں پر جو مستقیم راستے ہیں اس کے قرب کی طرف بڑھتے چلے جائیں (صراط مستقیم ہی ایک سہل راستہ ہے کیونکہ جو چکر اور بل کھاتا ہوا راستہ ہے وہ سہل نہیں ہوا کرتا جو راستہ ایک میل مسافت طے کرانے کی بجائے دس میل کی مسافت طے کرا کے منزل مقصود تک پہنچاتا ہے وہ سہل نہیں ہو سکتا)۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں چونکہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہوں اس لئے میں نے تمہارے لئے ایک صراط مستقیم بنا دیا ہے اور اس راستہ پر بھی جگہ بہ جگہ تم ایسے احکام پائو گے کہ جو تمہاری سہولت کا سامان پیدا کر دیں گے تم اس راستہ پر چلتے ہوئے رمضان کے روزے رکھو گے تو تمہارے کانوں میں تمہارے ربّ کی نہایت ہی محبت بھری آواز آئے گی کہ اگر تم سفر پر ہو تو روزہ نہ رکھنا میں تمہاری سہولت کے سامان پیدا کرنا چاہتا ہوں اگر مریض ہو (طبیعت بہانہ جو نہ ہو) انسان واقعہ میں مریض ہو اور ڈاکٹر کہتا ہو کہ روزہ تمہاری صحت کو مستقل طور پر خراب کر دے گا یا تم اس روزے کو برداشت نہیں کر سکتے یا تمہارے لئے مثلاً ہر دو یا تین گھنٹے کے بعد دوا کھانا ضروری ہے تو تم روزے نہ رکھو پھر بعض ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جن کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ ہر دو گھنٹہ یا تین گھنٹہ کے بعد تم کچھ کھائو ورنہ تم مر جائو گے ان کی کانسٹی ٹیوشن (Constitution) یعنی جسم کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ ان کے معدہ میں غذا نہیں رہتی یہ مستقل نیم بیماری کی قسم ہے ان کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کھانے کی ضرورت پڑتی ہے ایسے مریضوں کو ڈاکٹر کہے گا کہ اگر تم نے اپنی صحت کو برقرار رکھنا ہے اور خود اپنے آپ کو جسمانی طور پر ہلاکت میں نہیں ڈالنا تو تمہیں ہر دو تین گھنٹہ کے بعد کچھ کھانا چاہئے پھر بعض بیماریاں ایسی ہیں جن میں خون کی شکر کم ہو جاتی ہے اور اگر وہ شکر جسم کو نہ ملے تو انسان بے ہوش ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ موت واقع ہو جاتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ بعض دفعہ آدھ آدھ گھنٹہ کے بعد میٹھے کی طرف دوڑتے ہیں کیونکہ جسم میٹھا مانگ رہا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے میٹھا دو ورنہ میں گیا ایسے شخص کو خدا کہتا ہے کہ تم رمضان میں روزہ نہ رکھو اور اس لئے روزہ نہ رکھو کہ تمہارے لئے یہ سیدھا راستہ ہم نے ہلاکت اور سختی اور تنگی پیدا کرنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ سہولت اور آسانی کے لئے بنایا ہے ہم اپنے پیار کی وجہ سے جو سہولتیں تمہیں دے رہے ہیں ان کو پیار اور شکر اور حمد کے ساتھ قبول کرو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم ناشکر گزار ہو جائو گے۔
اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے ایک مسافر کے کتنے حقوق قائم کئے ہیں اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کہا ہے کہ جو اموال بھی تم میری راہ میں میری رضا کے حصول کے لئے خرچ کرو ان میں مسافر کا بھی حق ہے تم اس حق کو ادا کرو اور صرف اس کا حق ہی ادا نہ کرو بلکہ اس پر احسان کرو اور یہ وہ مسافر ہے جومیرا یا تمہارا مہمان بنتا ہے ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس مسافر کا کیا حق ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، محمد رسول اللہﷺ اور اللہ تعالیٰ کا مہمان بنتا ہے۔ اس کے حقوق تو ایک عام مسافر سے بہرحال زیادہ ہوں گے اب ان حقوق کی ادائیگی کا ایک موقعہ جلسہ سالانہ پر آ رہا ہے۔
میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے بچپن کے زمانہ میں جذبہ خدمت کے نہایت حسین نظارے دیکھے ہیں ایک دو نظارے میں نے دوستوں کے سامنے ایک دفعہ بیان بھی کئے تھے نظارے اتنے حسین ہیں کہ انہیں بار بار بیان کرنا چاہئے تا ہماری جو چھوٹی پود ہے نئی نسل ہے ان کو بھی پتہ لگے کہ مہمان کی خدمت کیسے کی جاتی ہے؟ ایک دفعہ میں بہت چھوٹی عمر کا تھا مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں داخل ہوا تھا یا شاید پانچویں جماعت میں ہوں گا یعنی یہ قرآن کریم حفظ کرنے کے معاً بعد کی بات ہے ہمارے چھوٹے ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) افسر جلسہ سالانہ ہوا کرتے تھے آپ ہماری تربیت کی خاطر ہمیں اس عمر میں اپنے ساتھ لگا لیتے تھے آپ ہر لحاظ سے ہمارا خیال بھی رکھتے تھے اور پورا وقت ہم سے کام بھی لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ رات کے گیارہ گیارہ بجے تک آپ ہم سے کام لیتے تھے چاہے وہ دفتر میں بٹھائے رکھنے کا ہو یا خطوط وغیرہ فائل کرنے کا ہو ان کے علاوہ دوسرے تمام کام جو اس عمر کے مطابق ہوں ہم سے لیتے تھے ایک دن آپ نے مجھے کہا (رات کے کوئی نو دس بجے کا وقت ہو گا) کہ مدرسہ احمدیہ میں جو مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر آئو کہ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں آپ میں سے بہتوں کے ذہن میں مدرسہ احمدیہ کا نقشہ نہیں ہو گا مدرسہ احمدیہ میں دو صحن تھے ایک بڑا صحن تھا اس کے ارد گرد رہائشی کمرے تھے چند ایک کلاس روم بھی تھے لیکن زیادہ تر رہائشی کمرے تھے ایک چھوٹا صحن تھا جس کے ارد گرد چھوٹے کمرے تھے اور وہاں کلاسیں ہوا کرتی تھیں جلسہ کے دنوں میں ان کمروں میں بھی مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ حضرت میر صاحبؓ نے کہا کہ ان چھوٹے کمروں کا چکر لگا کر آئو اور دیکھو کہ کسی مہمان کو تکلیف تو نہیں کسی کو کوئی ضرورت تو نہیں اس دن حضرت میر صاحبؓ نے معاونین میں چائے تقسیم کروائی تھی جلسہ کے دنوں میں ایک یا دو دفعہ رات کے دس بجے کے قریب چائے تقسیم کی جاتی تھی۔ اس چائے میں دودھ اور میٹھا سب کچھ ملا ہوا ہوتا تھا اور نیم کشمیری اور نیم پنجابی قسم کی چائے ہوتی تھی بہرحال اس دن وہ چائے تقسیم ہوئی تھی میں وہاں جا کر کمروں میں پھر رہا تھا دوستوں سے مل رہا تھا اور ان سے ان کے حالات دریافت کر رہا تھا ایک کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا میں اس میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ ہمارا ایک رضا کار جو چھوٹی عمر کا تھا وہ آبخورے میں چائے لے کر باہر سے آیا۔ کمرے میں ایک مہمان کو بخار چڑھ گیا تھا اس نے یہ سمجھا کہ یہ رضا کار میرے لئے گرم چائے اور دوائی وغیرہ لے کر آیا ہے مجھ سے چند سیکنڈ ہی قبل وہ دروازہ میں داخل ہوا تھا اس مہمان نے غلط فہمی میں (کیونکہ ہمارے احمدی مہمان بھی بڑی عزت والے ہوتے ہیں اس مہمان کو اسی شام کو بخار چڑھ گیا تھا اور بڑا تیز بخار تھا اس کو غلط فہمی ہو گئی تھی) اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا تم میرے لئے گرم چائے لائے ہو تم بڑے اچھے اور ’’بیبے‘‘ بچے ہو (اسی قسم کا کوئی فقرہ اس نے کہا) اب یہ اس بچہ کے لئے انتہائی امتحان اور آزمائش کا وقت تھا اگر اس بچے کے چہرہ پر ایسے آثار پیدا ہو جاتے جن سے معلوم ہوتا کہ یہ اس کے لئے چائے نہیں لایا بلکہ اپنے لئے لایا ہے تو اس مہمان نے کبھی چائے نہیں لینی تھی میں باہر کھڑا ہو گیا اور خیال کیا کہ اگر میں اندر گیا تو نظارہ بدل جائے گا میں نے چاہا کہ دیکھو یہ کیا کرتا ہے اس رضا کار نے نہایت بشاشت کے ساتھ اور اصل حقیقت کا ذرہ بھر اظہار کئے بغیر اس کو کہا ہاں تم بیمار ہو میں تمہارے لئے چائے لے کر آیا ہوں اور اگر کوئی دوائی لینا چاہتے ہو تو لے آئوں اب یہ خدمت ایسی تو نہیں کہ ہم کہیں کہ ہمالیہ کی چوٹی سر کی لیکن کتنا پیار اور حسن تھا اس بچے کے اس فعل میں اس نے اپنے نفس پر اتنا ضبط رکھا اس لئے کہ اس کی یہ خواہش اور جذبہ تھا کہ میں نے مہمان کی خدمت کرنی ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو اس کی ہلکی سی ہچکچاہٹ بھی اس مہمان کو شرمندہ کر دیتی اور اس نے کبھی چائے نہیں پینی تھی لیکن اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور کسی اظہار کے کہا ہاں! میں آپ کے لئے ہی لے کر آیا ہوں۔
یہ نظارہ اس قسم کا حسین تھا کہ اس وقت بھی جبکہ میں آپ کو یہ بات سنا رہا ہوں وہ کمرہ، اس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا، اس لڑکے کی شکل وہ مہمان، وہ رخ جس طرح بیٹھے ہوئے تھے میرے سامنے ہیں اس نظارہ کو میرے ذہن نے محفوظ رکھا ہے اور میں جب بھی اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوں بڑا حظ اُٹھاتا ہوں۔
پس یہ جذبہ ہے خدمت کا جس کا مطالبہ خدا اور اس کا رسول اور اس رسول کے عظیم روحانی فرزند آپ سے کر رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لئے یہ جذبہ ہم میں ہونا چاہئے خداتعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تم باہر جاتے ہو اگر تم مسافر ہوتے ہو تو میں تمہارے حقوق کی حفاظت کرتا ہوں کیا تم میرے ان مہمانوں کی خدمت نہیں کرو گے جو جلسہ کے موقع پر یہاں آ رہے ہیں؟ اگر ہم جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے والے مہمانوں کی خدمت نہیں کرتے تو یہ بڑی ناشکری کی بات ہو گی یہ انسانیت سے گری ہوئی بات ہو گی یہ شرافت سے گری ہوئی بات ہو گی یہ احمدیت کے مقام سے گری ہوئی بات ہوگی یہ اسلام کے مقام سے گری ہوئی بات ہو گی۔ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرنا اور پھر ایسی بات کرنا بڑی ذلیل بات ہے جو زبان خداتعالیٰ کا نام لیتی ہے اس کو جو وقار اور عزت حاصل ہونی چاہئے یہ اس سے گری ہوئی بات ہے۔
ہم نے بچپن کی عمر میں بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی یعنی یہ کہا جائے گا کہ تم پانچ گھنٹے کام کرو اور باقی وقت تم آزاد ہو۔ ہم صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دس گیارہ بجے گھر میں واپس آتے تھے۔ وہ فضا ہی ایسی تھی اور ساروں میں ہی خدمت کا یہ جذبہ تھا کوئی بھی اس جذبہ سے خالی نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) کہتے تھے کہ اب تم تھک گئے ہو گے کھانے کا وقت بھی ہو گیا ہے اب تم جائو لیکن ہمارا گھر جانے کو دل نہیں چاہتا تھا بس یہ ہوتا تھا کہ دفتر میں بیٹھے ہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے جو کام ملتا ہے وہ کر رہے ہیں۔
خدمت کا یہ جذبہ اس قدر تھا کہ آپ میں سے اکثر (بہتوں کو نہیں) یاد ہو گا کہ ایک دفعہ جلسہ گاہ چھوٹی اور تنگ ہو گئی تھی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شدید ناراض ہوئے تھے لوگ جلسہ گاہ میں سما نہیں سکے تھے قادیان میں جلسہ گاہ کے چاروں طرف گیلریاں بنی ہوتی تھیں ان پر لوگ بیٹھتے تھے اینٹوں کی سیڑھیاں سی بنا کر ان پر لکڑی کی شہتیریاں رکھی جاتی تھیں بہرحال اس سال جلسہ گاہ چھوٹی ہو گئی تھی اور حضرت مصلح موعودؓ بہت ناراض ہوئے تمام کارکن بڑے شرمندہ پریشان اور تکلیف میں تھے اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ہمت کریں تو اس جلسہ گاہ کو راتوں رات بڑھا سکتے ہیں لیکن میری عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے میں نے خیال کیا کہ میری اس رائے میں کوئی وزن نہیں ہو گا ہمارے ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ بھی دفتر میں کام کرتے تھے میں نے انہیں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رات رات میں جلسہ گاہ کو بڑھا دیں گے آپ ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاقؓ افسر جلسہ سالانہ) کے سامنے یہ تجویز پیش کریں۔ وہ کہنے لگے یہ خیال تمہیں آیا ہے اس لئے تم ہی یہ بات پیش کرو مجھے یاد ہے کہ میری طبیعت میں یہ احساس تھا کہ چھوٹی عمر کی وجہ سے میری رائے کا وزن نہیں ہو گا لیکن یہ کام کرنا ضرور چاہئے ماموں جان سید محموداللہ شاہ صاحبؓ کو خیال تھا کہ چونکہ یہ خیال مجھے نہیں آیا اس کو آیا ہے اس لئے اس کا کریڈٹ میں کیوں لوں لیکن میں نے کہا میں نے یہ بات پیش نہیں کرنی آپ ہی کریں اور ضرور کریں میں نے کچھ لاڈ اور پیار سے ان کو منا لیا چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی حضرت ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) نے دوستوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور بالآخر یہ رائے پاس ہو گئی اور سارا دن کام کرنے کے بعد سینکڑوں رضا کاروں نے ساری رات کام کیا ریتی چھلہ سے شہتیریاں اٹھا کر جلسہ گاہ میںلے گئے جو ہمارے کالج کی عمارت (جس میں پہلے ہائی سکول ہوتا تھا) کے پاس تھی ایک طرف کی ساری سیڑھیاں جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں توڑی گئیں اور دوسری سیڑھیاں بنائی گئیں رضا کار مزدوروں کا کام کرتے رہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت جلسہ گاہ بڑی بنائی جا چکی تھی بس آخری شہتیری رکھی جا رہی تھی تو ہمارے کانوں میں صبح کی اذان کے پہلے اللہ اکبر کی آواز آئی (وہ آواز اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے) صبح کی اذان کے وقت وہ کام ختم ہوا اور جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ جلسہ گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے سارے لوگ اس جلسہ گاہ میں سما گئے اور جتنی ضرورت تھی اس کے مطابق جلسہ گاہ بڑھ گئی۔
میں اس وقت یہ بتاناچاہتا ہوں کہ جو تربیت ہمیں دی گئی تھی وہی تربیت سب احمدی نوجوانوں کو ملنی چاہئے یہ خیال ان میں پیدا نہ ہو کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہم نے پانچ یا سات گھنٹے ڈیوٹی دینی ہے اور اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے ان کی اس رنگ میں تربیت ہونی چاہئے یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ صبح سے لے کر رات دس بجے تک کام کریں گے اور جب ڈیوٹی ختم ہو اور پھر کوئی اور کام پڑ جائے تو ہم ساری رات کام کریں گے اور پھر اگلے دن بھی کام کریں گے آرام نہیں کریں گے۔ دیکھو جلسہ سالانہ کے دنوں میں چند پیسے لے کر جو نانبائی ہمارے تنوروں پر روٹی لگانے کے لئے آتے ہیں ان کی تعداد کم ہوتی ہے اور تنور زیادہ ہوتے ہیں اور زیادہ نانبائیوں کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ہر جلسہ پر درجنوں ایسے نانبائی آتے ہیں جو دونوں وقت روٹی لگاتے ہیں اور چونکہ اور نانبائی نہیں ہوتے اس لئے ہم (ہم سے مراد جماعت کا نظام یعنی افسر جلسہ سالانہ اور ان کا ماتحت عملہ ہے) بعض دفعہ ان کو جاگنے کی دوائیں دیتے ہیں اور عام طور پر ایک اچھا نانبائی آپ کے لئے روٹی پکانے کے لئے ایک ہزار دفعہ آگ میں سر دیتا ہے اور ان میں سے بعض چار پانچ روپیہ کی خاطر جو انہیں مزید مل سکتے ہیں ایک ہزار دفعہ کی بجائے دو ہزار دفعہ اس آگ میں سر دیتا ہے تب وہ آپ کے لئے روٹی پکاتا ہے۔ پھر کیا تم اپنے خدا کی جنت میں دو ہزار دفعہ سر دینے کے لئے تیار نہیں اگر تم اس کے لئے تیار نہیں تو بڑی بد قسمتی ہے میں اس وقت خصوصاً نوجوانوں اور ایسے چھوٹی عمر کے بچوں کو جن کی عمر بالکل چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے درمیان ہے یعنی اطفال الاحمدیہ۔ مخاطب ہو رہا ہوں اور افسروں کو بھی جو کام لینے والے ہیں اور منتظمین ہیں کہتا ہوں کہ تمہارا یہ فرض ہے کہ انہیں صحیح تربیت دو کیونکہ اس قسم کی تربیت کے بغیر وہ ان ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکیں گے جو ایک وقت میں ان کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان سے سلوک ہی یہ رکھا ہے کہ اسے ایک چھوٹی سی عمر دی ہے۔ انسان عام طور پر پچاس سال ساٹھ سال یا ستر سال زندہ رہتا ہے اور جنہیں زیادہ عمر دی جاتی ہے وہ سو سال تک پہنچ جاتے ہیں اس کے بعد دوسری نسل آتی ہے اس نے پہلوں کی جگہ لینی ہوتی ہے یہ نسل پہلوں سے زیادہ مضبوط ہونی چاہئے کیونکہ ترقی کرنے والی قوموں کی ذمہ داریاں دن بدن بڑھتی رہتی ہیں پھر دوسری نسل کے کندھوں پر جس قدر بوجھ پڑے گا تیسری نسل کے کندھوں پر اس سے زیادہ بوجھ پڑے گا کیونکہ اس وقت کام زیادہ ہو گئے ہوں گے مثلاً احمدیت کی مثال ہی لے لو اب اگر چالیس پچاس ملکوں میں احمدیت پھیلی ہوئی ہے اور ان کے کام ہمیں کرنے پڑتے ہیں لیکن جب اگلی نسل آئے گی تو اس وقت ساٹھ ستر ملکوں میں احمدیت پھیل چکی ہو گی پہلے اگر تیس چالیس لاکھ آدمی تھے تو دوسری نسل کے وقت ستر اسی لاکھ یا ایک کروڑ آدمی ہوں گے اس سے اگلی نسل کے وقت دس کروڑ سے زائد احمدی ہوں گے اور ان کا کام زیادہ تر مرکز میں رہنے والوں کو ہی کرنا ہو گا ان پر ہی زیادہ بوجھ پڑے گا اگر ان بچوں کو جن کے کندھوں پر انتظامی لحاظ سے پہلی نسل سے زیادہ بوجھ ہو گا ہم تربیت نہیں کریں گے تو وہ یہ بوجھ کیسے اُٹھائیں گے؟
سات آٹھ دن لگاتار کام کرنا ایسی بات نہیں جو ہو نہ سکے بڑی عمر کے لوگ (گو دوسرے بوجھ تربیت کے نتیجہ میں اٹھا سکتے ہیں) یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ عمر کے لحاظ سے ان بوجھوں کی قسم بدل جاتی ہے مثلاً ایک نوجوان ہے وہ وزن زیادہ اٹھا لے گا لیکن جو ستر سال کا بوڑھا ہے اور اس کی کمر خم ہے وہ وزن زیادہ نہیں اُٹھا سکے گا ہاں اگر کوئی اور کام اس کے مناسب حال ہو تو وہ کر لے گا مثلاً شاید وہ وقت زیادہ خرچ کر دے اپنی نیند کا وقت کم کر دے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۱۹۴۷ء کی بات ہے اس وقت جسم میں زیادہ طاقت تھی میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ میں اس سال ایک دو ماہ متواتر نہیں سویا سارے علاقہ میں آگ لگی ہوئی تھی احمدی اور دوسرے تمام مسلمان مصیبت میں مبتلا تھے ہمیں تو کبھی بھی یہ بات یاد نہیں آئی لیکن اس وقت کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ وہ کون سے فرقہ کی طرف منسوب ہوتا ہے سارے مسلمان تھے اور اسلام کا دشمن ان کو تنگ کر رہا تھا ان دنوں ایک دو ماہ متواتر میں اس معنی میں نہ سویا کہ میں چوبیس گھنٹے دفتر ہی میں رہتا تھا اگر ایک بجے رات کو لیٹتا تھا تو ڈیڑھ بجے میرے ساتھی مجھے جگا دیتے تھے اور کہتے تھے فلاں کام پڑ گیا ہے فلاں جگہ سے یہ خبر آئی ہے اس طرح پندرہ پندرہ منٹ یا آدھا آدھا گھنٹہ کرکے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی نیند لیتا تھا ایک مہینہ لگاتار میں نے اس مشقت کو برداشت کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تربیت ہی ایسی ہوئی تھی اور پھر خالی میری ہی مثال نہیں تھی بلکہ سب کا یہی حال تھا بلکہ ممکن ہے کہ بعض ایسے ساتھی بھی ہوں جو مجھ سے بھی کم نیند لیتے ہوں کیونکہ وہ میرا بڑا خیال رکھتے تھے اور میں کئی دفعہ اس کے متعلق سوچ کر شرمندہ بھی ہوتا تھا اب اگر یہ کہا جائے کہ پانچ گھنٹہ کی ہماری ڈیوٹی لگا دو اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے یہ ذہنیت قابل برداشت نہیں ہمارے رضا کار چوبیس گھنٹہ ڈیوٹی پر ہیں ہاں جو جائز ضرورتیں ہیں وہ پوری ہونی چاہئیں مثلاً انسان نے غسل خانہ میں بھی جانا ہے اس نے روٹی بھی کھانی ہے اگر ایک نوجوان خدمت کے جذبہ اور شوق کے ساتھ گھر سے آیا ہے اور گھر میں اسے ایک گھنٹہ کا کام ہے تو اس کو ایک گھنٹہ کی اجازت ملنی چاہئے گھر جا کر بھی تو اس نے مہمانوں کا کام ہی کرنا ہے لیکن ڈیوٹیاں وغیرہ جو لگائی جاتی ہیں یہ سرے سے ختم ہونی چاہئیں پتہ نہیں یہ برائی ہمارے اندر کب سے پیدا ہو گئی ہے؟ ہمارے آقا کے ان مہمانوں کے حقوق اگر ادا کرنے ہوں تو ہمارے رضا کاروں کو چاہئے کہ وہ بروقت حاضر ہوں اور سارا وقت حاضر رہیں۔
تربیت کے سلسلہ میں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا وہ بھی میں بیان کر دیتا ہوں ہمارے ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) جو بڑا لمبا عرصہ افسر جلسہ سالانہ رہے بڑی دھیمی طبیعت کے اور بڑے نرم دل تھے میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا رہا ہوں میں نے ان کو شاذ ہی غصہ میں دیکھا لیکن ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک مہمان ان کے پاس آیا اور اس نے شکایت کی کہ میں آج ہی یہاں پہنچا ہوں جب میں اپنے رہائش کے کمرہ میں پہنچا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا اور کوئی رضا کار موجود نہیں تھا یہ غالباً جلسہ کے ابتدائی دنوں کی بات ہے یعنی ۲۳ یا ۲۴؍ دسمبر کی بات ہے جب مہمان آنے شروع ہوتے ہیں حضرت ماموں صاحب کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے اس رضا کار کو بلایا جو اس کمرہ پر مقرر تھا مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے اور میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ جب وہ آیا تو حضرت میر صاحبؓ نے اس سے کوئی بات نہیں پوچھی بلکہ آگے بڑھ کر اسے ایک چپت لگائی وہ لڑکا خاصی بڑی عمر کا تھا یعنی اپنی کلاس میں جو لڑکے بڑی عمر کے ہوتے ہیں وہ ان میں سے ایک تھا دیکھنے میں جوان لگتا تھا۔ حضرت میر صاحبؓ نے چپت لگانے کے بعد اس سے پوچھا کہ تم ڈیوٹی سے غیر حاضر کیوں ہوئے تم نے غیر حاضری کی وجہ سے مہمان کو اس وقت تکلیف پہنچائی ہے جب تمہیں اسے خوش آمدید کہنا چاہئے تھا مہمان آیا ہے اور پریشان ہوا ہے۔
یہ صحیح بات ہے کہ پہلے دن اتنا کام نہیں ہوتا لیکن سب سے مشکل اور ضروری کام یہی ہے کہ آدمی کو کام نہ ہو اور پھر بھی وہ حاضر رہے یہ کام بہت ضروری ہے لیکن مشکل بھی ہے یہ مشکلات آپ نے ہی حل کرنی ہیں آپ کے سوا انہیں کون حل کرے گا کام ہو یا نہ ہو آپ کو ڈیوٹی پر حاضر رہنا چاہئے آپ کو وقت پر حاضر ہونا چاہئے اور پھر حاضر رہنا چاہئے۔
پھر مہمان باہر سے آتا ہے رستہ میں اسے تکلیف پہنچتی ہے اس کے بچوں کو تکلیف پہنچتی ہے آخر سفر سفر ہی تو ہے سفر کی وجہ سے مہمان کی طبیعت میں بسا اوقات چڑ پیدا ہو جاتی ہے (یہ ایک طبعی چیز ہے) اور وہ بعض دفعہ غصہ کا اظہار بھی کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس نے غلط طور پر غصہ کا اظہار کیا ہے لیکن آپ کا یہ کام نہیں کہ اس کے غصہ کے مقابلہ میں آپ غصہ کا اظہار کریں بلکہ آپ کا یہ کام ہے کہ مہمان سے اخلاق اور تواضع سے پیش آئیں اور اس کی عزت کریں اور تکریم کریں اس کی سختی کو برداشت کریں یعنی اگر کوئی مہمان اپنے سفر کی کوفت کی وجہ سے آپ پر سختی کرے تو اس سختی کو برداشت کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اس کا حق ہے اور یہ حق اس کو ملنا چاہئے تمہارا کیا جاتا ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ بر وقت کھانا لائیں اور انہیں کھلانے کا انتظام کریں بعض دفعہ رضا کار اپنی بے پرواہی کے نتیجہ میں جلسہ گاہ سے واپس آتے ہوئے باتیں شروع کر دیتے ہیں اور ڈیوٹی کی جگہ پر دیر سے پہنچتے ہیں اور مہمانوں کو کھانے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے پھر بعض دفعہ رضا کار کھانا کمرہ میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یہ درست طریق نہیں اس سے مہمان کو تکلیف ہوتی ہے مہمان کو کھانا پوری عزت اور اکرام کے ساتھ ملنا چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان کا حق ہے۔
پھر مہمان کی ہر جائز ضرورت پوری ہونی چاہئے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ شرم کی وجہ سے اور بعض دفعہ تربیت کی کمی کی وجہ سے مہمانوں کی جائز ضرورتوں کو رضا کار ذمہ دار منتظمین تک نہیں پہنچاتے بعض دفعہ رضا کار سمجھتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ ہم گئے تو اس دوائی یا دودھ یا کسی اور ضرورت کا انتظام بھی ہو گا یا نہیں اللہ تعالیٰ مہمان کی ہر جائز ضرورت کا انتظام کرے گا انشاء اللہ آپ وہ ضرورت ان منتظمین تک پہنچا دیں جن کا اس سے تعلق ہے اگر وہ اسے جائز سمجھیں گے تو وہ اسے پوری کر دیں گے لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ مہمان کی ضرورت جائز ہے یا نہیں آپ کا کام نہیں آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اس ضرورت کو ذمہ دار منتظمین تک پہنچا دیں۔ نبی کریمﷺ نے مہمان نوازی کو اتنی اہمیت دی ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حج کے موقع پر حضرت عباسؓ نے نبی اکرمﷺ سے اجازت چاہی کہ وہ حج کے ایک ضروری رکن کو چھوڑ دیں اور ان کا حج بھی پورا ہو جائے کیونکہ اجازت کا یہی مطلب ہو سکتا ہے اور وجہ یہ بتائی کہ میں نے مکہ میں جا کر حاجیوں کو پانی پلانے کا انتظام کرنا ہے کیونکہ یہ کام میرے سپرد ہے۔ آپ نے فرمایا تمہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے اب دیکھو نبی اکرمﷺ نے مہمان نوازی کی خاطر حج کے ایک اہم رکن کو چھوڑنے کی اجازت دے دی یہ اجازت رسول کریمﷺ نے خود اپنی طرف سے نہیں دی تھی آپ کا یہ حق نہیں تھا کہ آپ خدا کی مرضی کے بغیر کسی کو ایسی اجازت دیں اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی اجازت دی تو اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ آپ حضرت عباسؓ کو یہ رکن چھوڑنے کی اجازت دے دیں کہ مہمانوں کو پانی پلانے کا انتظام کرنے کے لئے مکہ چلے جائیں تو نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ بڑے پیار سے اپنے مہمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور پھر خدمت خود کرتے تھے یہ کام کسی اور کے سپرد نہیں کرتے تھے بلکہ بعض دفعہ جب آپ دیکھتے کہ مدینہ میں کوئی گھر ایسا نہیں جو ان سارے مہمانوں کو سنبھال لے تو آپ خود انہیں ساتھ لے جاتے اور فرماتے ان کو میں سنبھال لیتا ہوں وہ غربت کا زمانہ تھا جگہیں بھی تنگ تھیں مثلاً ایک دفعہ دس کے قریب مہمان تھے آپ نے فرمایا تم میرے ساتھ چلو آپ کی سادہ زندگی تھی ہماری بھی سادہ زندگی ہونی چاہئے اسی لئے خداتعالیٰ نے کہا ہے اسراف نہ کرنا جو تمہیں میسر آئے وہ پیش کر دو جس حد تک تم خدمت کر سکو کرو تمہیں ثواب مل جائے گا اور اس کو بھی آرام مل جائے گا مثلاً پیار سے بات کرنا بشاشت سے بات کرنا خوش اخلاقی سے بات کرنا اس پر تو کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا پھر جس طرح بعض صحابہؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ خود بھوکے رہے اور مہمانوں کو کھانا کھلایا نبی اکرمﷺ کے متعلق بھی آتا ہے کہ بعض اوقات سارا گھر بھوکا رہتا تھا اور مہمانوں کو کھانا کھلا دیتے تھے پھر خدمت اپنے ہاتھ سے کرتے تھے یہ نہیں کہ کسی اور کے سپرد کر دیں وہ فدائی صحابہؓ جو آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے کیا وہ گھنٹہ یا دو گھنٹہ کے لئے آ کر آپ کے مہمانوں کی خدمت نہیں کر سکتے تھے؟ وہ ضرور ایسا کر سکتے تھے بلکہ وہ تو سمجھتے کہ اس سے بڑھ کر ہماری کیا عزت افزائی ہو گی کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ تم آ کر میرے مہمانوں کی خدمت کرو لیکن آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ مہمانوں کی خدمت خود کرتے اور اس کو کسی اور کے سپرد نہ کرتے یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی ہمیں نظر آتا ہے آپ سادہ اور بے تکلف طریق پر مہمانوں کی خدمت کرتے تھے یہاں بھی سادہ اور بے تکلف طریق پر مہمان کی خدمت ہونی چاہئے اور اس خیال سے اور اس نیت سے ہونی چاہئے کہ وہ ہمارے مہمان ہیں، ہمارے آقا کے مہمان ہیں اور انکے حقوق ان حقوق سے بہرحال زائد ہیں جو ایک عام مہمان کے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن کریم میں بیان کیا ہے یا نبی اکرمﷺ نے ان کے متعلق ہدایت دی ہے غرض اس جذبہ خدمت کے ماتحت ایک احمدی کو رضا کار کی حیثیت سے ان مہمانوں کی خدمت کرنی چاہئے کہ ایک طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور اس مہمان نوازی کا بھی شکریہ ادا ہو جائے کہ اس نے فرمایا ہے کہ دیکھو میں نے تمہارے حق کو قائم کر دیا ہے بلکہ حق سے زائد احسان کی تمہارے بھائیوں کو تعلیم دی ہے میں نے ان سے تمہارے ساتھ حسن سلوک کرنے کے لئے کہا ہے میں نے لوگوں کے اموال میں تمہارا حق رکھ دیا ہے تاکہ تمہیں یہ احساس نہ ہو کہ کوئی ہم پر احسان کر رہا ہے میںنے ان سے تو کہا کہ وہ تم پر احسان کریں یعنی جو تمہارا حق ہے اس سے بھی زائد دیں اور تمہارے لئے اس خدمت کو حق کہہ دیا تاکہ تمہاری عزت نفس محفوظ رہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کی خدمت کرتا ہے تو یہ خدمت اس مہمان کا حق ہے جو وہ وصول کر رہا ہے وہ اس سے خیرات نہیں مانگ رہا یعنی مال خرچ کرنے والے کے مال کا جو حصہ مہمان پر خرچ ہو رہا ہے وہ خرچ کرنے والے کا حق نہیں بلکہ خداتعالیٰ کہتا ہے وہ مہمان کا حق ہے اور مہمان کا حق اس کو دے دو اور اتنے سامان کرنے کے بعد بھی فرمایا کہ دیکھو پھر بھی تمہیں اپنے گھر جیسا آرام نہیں ملے گا اس لئے تم سفر میں رمضان کے روزے نہ رکھنا بڑا ہی پیار کا سلوک ہے جو خداتعالیٰ نے ہم سے کیا ہے پیار کے اس سلوک پر شکر واجب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میرے جو مہمان مرکز میں آئیں اور تمہیں ان کی خدمت کی توفیق ملے تم ان کی خدمت کا اس طرح خیال رکھنا جس طرح میں نے تمہارا خیال رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا۔
میں ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جس طرح رمضان کے آخری جمعہ (جس کو جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے) کے ساتھ بہت سی بدعات لگ گئی ہیں اسی طرح یہ ہو سکتا ہے کہ درس القرآن کی جو آخری دعا ہے وہ بھی ایک بدعت نہ بن جائے لہذا اس سال اس رنگ کی دعا نہیں ہو گی بلکہ جب درس ختم ہو گا تو اس وقت دو منٹ کی دعا کر دیں دعا کے بغیر تو ہماری زندگی ہی نہیں اس لئے میرا یہ مطلب نہیں کہ ہم دعا کے بغیر بھی ایک سانس لے سکتے ہیں ہماری تو زندگی ہی دعا پر منحصر ہے لیکن دعا پر زندگی کا یہ انحصار تقاضا کرتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو بدعت کا رنگ نہ دے دیں اور اس سے بچتے رہیں اس سال یہ بات نہیں ہو گی لیکن ایک اور رنگ میں میں دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں اسلام نے اجتماعی دعا کا بھی حکم دیا ہے اور انفرادی دعا کا بھی حکم دیا ہے اس لئے آج عصر اور مغرب کے درمیان یعنی روزہ کھولنے تک دوست جس حد تک ممکن ہو سکے انفرادی دعائوں میں لگے رہیں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کرے اور زندگی اور بقا کے چشمہ سے جو دوری ہے اور نبی اکرمﷺ کے ذریعہ سے جو تعلق وہ اللہ تعالیٰ سے پیدا کر سکتے ہیں وہ پیدا نہیں کر رہے اللہ تعالیٰ اس دوری کو قرب میں تبدیل کرنے کے سامان پیدا کر دے اور انسان اپنے خالق اور اپنے ربّ کوپہچاننے لگے اور وہ روحانی اور جسمانی خزائن جو اسلام کے ذریعہ انسانیت کو ملے ہیں ان روحانی اور جسمانی خزائن سے انسان فائدہ اٹھانے لگے اور ان کی قدر کو پہچاننے لگے اور جماعت کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنی پناہ میں ان کو رکھے اور خود ان کی سپر ہو جائے اور دشمن کا ہر وار اپنی قدرت پر سہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی جسم تو نہیں اس نے تو ’’کن‘‘ ہی کہنا ہے پس وہ اپنی قدرت کی ڈھال پر مخالف کا ہر وار سہے اور ہر وار ناکام کرے اور جو وعدے اس نے ہم سے کئے ہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو اس کی محبت کو زیادہ سے زیادہ پاتے چلے جائیں گے۔ اس کوشش کی وہ توفیق دے اور اپنے فضل سے اس کو قبول کرے اور اپنی محبت اور رضا ہمیں دے اور ہمیں اس مقام پر لا کر کھڑا کرے کہ جو خدا کی محبت اور اس کے پیار کا مقام ہے جب ساری لذتیں اور سارے سرور اور سارے مزے اور سارے عیش اور سارے آرام اور ساری سہولتیں خدا ہی میں انسان کو نظر آتی ہیں اور اس کو چھوڑ کر ہر چیز اس کے لئے دکھ کا موجب اور تکلیف کا باعث بن جاتی ہے پس ہر احمدی جس تک میری یہ آواز پہنچے ہر مرد اور عورت ہر بڑا اور بچہ آج عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت جس حد تک ممکن ہو سکے تنہائی میں گذار دے اور دعائوں میں مشغول رہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح دعا کی توفیق دے اور پھر اسے قبول کرے اور خدا کرے کہ برکات کے وہ چشمے جو رمضان میں ہم پر کھلے ہیں ان کا دہانہ بڑھتا ہی چلا جائے اور زیادہ سے زیادہ اس کی رحمتیں ہمیں ملتی رہیں۔ (آمین) (روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴ ؍فروری ۱۹۶۸ء صفحہ۲ تا۷)
٭…٭…٭

نیکی، تقویٰ اور قربِ الٰہی کی سب راہیں قرآن عظیم سے ہی وابستہ ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۶۸ء بر موقعہ جلسہ سالانہ بمقام جلسہ گاہ۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ قرآن کریم نیکی، تقویٰ اور قرب کی سب راہوں کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
٭ اپنی قوتوں اور استعدادوں کی کامل تربیت کیلئے قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کریں۔
٭ ہدایت کے اصول اور ان اصول کی فروع اور شاخوں کے صحیح علم کا حصول رحمت باری پر موقوف ہے۔
٭ قرآن کریم کی بتائی ہوئی روشن اور منور راہوں پر چلنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر نہیں ملتی۔
٭ دعاؤں میں لگے رہو، خود کو نیست محض خیال کرو اور سب نور اور سب رحمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جانو۔


تشہد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَيْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ
(النحل : ۹۰)
اس کے بعد فرمایا:
کل سے انفلوائنزا کا اثر نمایاں ہو رہا ہے سر درد بھی ہے اور حرارت بھی اور انفلوائنزا کی دوسری علامات بھی بڑھ رہی ہیں لیکن گلا جو کل بالکل بیٹھ گیا تھا وہ نسبتاً بہتر ہے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
اس وقت میں مختصراً اپنے بھائیوں کو اس آیت کے مضمون کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن عظیم نیکی، تقویٰ اور قرب کی سب راہوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جس شخص نے اپنی سب استعدادوں کی کامل تربیت کرنی ہو اور اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر زیادہ سے زیادہ قرب الٰہی کو پانا ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کرے۔
دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں یہ بیان فرمائی ہے کہ ہدایت کے اصول اور ان اصول کی فروع اور شاخوں کے صحیح علم کا حصول رحمت باری پر موقوف ہے اگرچہ قرآن کریم نے ہدایت کی سب راہوں کو منور کیا ہے لیکن اس نور کو دیکھنے کی آنکھ رحمت باری کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔
تیسری بات اس آیہ کریمہ میں ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے سامان پیدا ہو جائیں کہ تم قرآن کریم کی بتائی ہوئی روشن اور منور راہوں کو سمجھنے لگو تو پھر ایک اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ ان راہوں پر چلنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ملتی نہیں اور اللہ تعالیٰ نے چوتھی بات اس آیۂ کریمہ میں ہمیں یہ بتائی ہے کہ رحمت کے حصول کے ذرائع بھی قرآن کریم نے ہی ہمیں بتائے ہیں ان ذرائع کے حصول کے لئے قرآن کریم کی طرف توجہ کرو اور قرآنی تعلیم کے مطابق عمل کرو اور جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے دعائوں میں لگے رہو اور خود کو نیست محض سمجھو اور سب نور اور سب رحمت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جانو اور اس سے دعا کرتے رہو کہ وہ ہمارا پیارا عَزَّاسْمَہٗ تمہیں ان راہوں کے سمجھنے اور ان کے جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب اس رحمت کا نزول انسان پر ہو جاتا ہے تو اس کو اس کی خوشیاں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی وہ جنت مل جاتی ہے کہ جس کی قیمت کا تصور بھی ہمارے دماغ نہیں کر سکتے۔
قرآن کریم نے یہ سب باتیں بیان کرنے کے بعد مسلمانوں کے لئے عظیم بشارت کا پیغام دیا ہے قرآن کریم کی اس عظیم بشارت کا پیغام آج میں اپنے بھائیوں کو پہنچاتا ہوں اس دعا کے ساتھ ایک مسلمان کو جو بشارتیں رَبِّ رَحِیْم نے دی ہیں وہ ہمیشہ ہی ہم احمدیوں کو ملتی رہیں۔ (آمین)
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۵؍ فروری ۱۹۶۹ء صفحہ۲)
٭…٭…٭
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نیا سال جو آتا ہے وہ ہم پر پہلے سے بڑھ کر زیادہ
ذمہ داریاں عائد کرتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳ ؍جنوری۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ مومن کسی ایک مقام پر ٹھہرتا نہیں۔
٭ قربانی دینا بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
٭ جو شخص خست اور بخل سے بچایا جاتا ہے کامیابی اسی کو نصیب ہوتی ہے۔
٭ محبت،اخوت اور اُلفت کا بہترین مظاہرہ جلسہ سالانہ میں ہوتا ہے۔
٭ ہم ایک عید سے نکل کر ایک نئی عید کے زمانہ میں داخل ہو رہے ہیں۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی۔
وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ (محمد: ۱۸)
پھر حضور انور نے فرمایا:۔
نیا سال نئی برکتوں، نئی ذمہ داریوں کے ساتھ آ گیا ہے۔ ذمہ داریاں بھی پہلے سے بڑھ کر اور انعامات کے وعدے اور بشارتیں بھی پہلے سے زیادہ لے کر۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومن کسی جگہ ٹھہرتا نہیں بلکہ مقامات قرب میں بلند سے بلند تَر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ سورۂ محمد کی اس آیت میں ہی جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ہدایت کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت کے مزید سامان ان کے لئے پیدا کر دیتا ہے۔ اِھْتَدٰی کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو اپنی عقل اور فراست سے کام لیتے ہیں اور فطرت انسانی میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی جو Urge اور شدیدخواہش پائی جاتی ہے اس کے مطابق قرب کی راہوں کو تلاش کرتے ہیں اور علیٰ وجہ البصیرت اس مقام پر قائم ہوتے ہیں کہ اطاعتِ رسول (ﷺ) کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے وہ ہر وقت اور ہر آن اُسوہ ٔنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہدایت کے نتیجہ کے نیک ہونے کے بہترین کامیابیوں کے، رضا کی راہوں کو پا لینے کے، اس کی رضا کو حاصل کر لینے کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں مزید نیکیوں کی توفیق بھی بخشتا ہے کیونکہ ہدایت کے معنی میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے مزید بڑی نیکیوں کی توفیق وہ عطا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مومن جب اپنی زندگی میں قرب کے بعض مقام حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید قرب کی راہیں اُسے دکھا دی جاتی ہیں پھر وہ مزید ترقیات کرتا ہے وَاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اپنے مقام قرب و ہدایت کے مطابق وہ معزز اور مکرم بن جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ (الحجرات:۱۴) اللہ تعالیٰ ان کے مناسبِ حال ان کی استعداد کے مطابق اور اپنی استعداد کو جس حد تک اُنہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا اس کے مطابق، ان کا تقویٰ اپنی نگاہ میں، ان کی عزت انہیں عطا کر دیتا ہے۔
اس آیہ کریمہ میں جو بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مومن کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ اس کو مزید رفعتوں کی طرف لے جاتا ہے اگر وہ حقیقی اور مخلص مومن ہو اور اس کی زندگی کا ہر نیا سال اسے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب کر دیتا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اسے زیادہ معزز بنا دیتا ہے۔ پس ہر نیا سال جو ہماری زندگیوں میں آتا ہے وہ ہم پر پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں بھی ڈال رہا ہوتا ہے اور پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہماری عزت کے سامان بھی پیدا کر رہا ہوتا ہے اور مومن بندہ مخلص اللہ کے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے تو میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان معنی میں جو قرآن کریم نے ہمیں بتائے ہیں، ہمارا یہ سال جو ہم پر چڑھا ہے پہلے سے زیادہ برکتوں والا سال ہو۔ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کو پہلے سے زیادہ پانے والے ہوں اور اس کی محبت جو ہمارے دلوں میں ہے وہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر جائے اور بہتر ثواب اس محبت کا اپنے ربّ کی طرف سے ہمیں ملے۔ پس اس معنی میں نیا سال آپ کیلئے بھی اور میرے لئے بھی اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔
جس سال میں سے ہم گزر چکے ہیں اس کا اختتام ہمیں بڑا بابرکت نظر آیا یہ بھی مصلحت ہی تھی کہ سال کے آخر میں ہمارا جلسہ سالانہ رکھا گیا ہے۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت سی برکات کا نزول ہوا اور اس جماعتِ مخلصین نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہت ایثار اور فدائیت اور محبت اور اُلفت اور اخوت کے مظاہرے کئے۔ ربوہ کے رہنے والوں پر جو ایک غریبانہ زندگی بسر کرتے ہیں مالی لحاظ سے جلسہ بڑا بوجھ ڈالتا ہے کیونکہ ان کے رشتہ دار عزیز دوست اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ان کے گھروں میں آ کر ٹھہرتے ہیںاور علاوہ اس سادے کھانے کے جو جماعتی نظام کے ماتحت اُنہیں دیا جاتا ہے اور بہت سے خرچ ہیں جو انہیں کرنے پڑتے ہیں جنہیں وہ بشاشت کے ساتھ کرتے ہیں اور بہت سی تکالیف ہیں جو انہیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور وہ بشاشت اور مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے پاک بندوں کے متعلق جو یہ فرمایا
یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر:۱۰)
یہ نظارہ بڑی وضاحت کے ساتھ اور پوری طرح روشن ہو کر جلسہ کے ایام میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے کہ اپنی جانوں کی، اپنی تکلیف کی، اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اپنے بھائیوں کے آرام میں اور اس جدوجہد میں کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے اپنے اوقات کو بھی خرچ کرتے ہیں اور اپنے آراموں کو بھی قربان کرتے ہیں اور اپنے مال بھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں جلسہ سالانہ ہر سال یہ نظارہ پیش کرتا ہے لیکن چونکہ ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ مہمان آتے ہیں اس لئے ہر سال صرف یہ بات ہمارے سامنے نہیں آتی کہ ایک ایثار پیشہ جماعت دنیا میں قائم ہو چکی ہے بلکہ یہ نظارہ خاص طور پر ہمارے سامنے آتا ہے کہ یہ ایثار پیشہ جماعت ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ ایثار دکھاتی اور قربانیاں دیتی ہے اور ان تمام مطالبات کو پورا کر رہی ہے جو جلسہ کے یہ چند ایام ان سے کرتے ہیں۔ ہر سال پہلے سے زیادہ قربانی اور پہلے سے زیادہ بشاشت اور لذت کے ساتھ وہ قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ربوہ کے مکینوں کو اس کی بہترین جزا دے۔ اس قسم کی قربانی دینا بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا اور قربانی دینے کی توفیق وہی پاتے ہیں جو ہدایت کے پہلے دو تقاضوں کو پورا کر چکے ہوں یعنی اپنی عقل اور فطرت کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں اور عقل کا جو یہ تقاضا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو ہدایت آئے اسے قبول کرو دنیا کا کوئی عقلمند یہ تو نہیں کہے گا کہ اگر اللہ کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو اسے قبول نہ کرو وہ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں لیکن یہ کہ وہ کہے کہ ہدایت تو اللہ کی طرف سے ہے لیکن عقل کہتی ہے کہ اسے قبول نہ کرو کوئی بھی یہ نہ کہے گا اور فطرت انسانی کے اندر یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ حقیقی سکون اور مسرت اور خوشحالی کی زندگی وہی پاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ایک حقیقی اور زندہ تعلق قائم کر لیتے ہیں۔ فطرت انسانی کو اس کے بغیر تسلی نہیں ہوتی۔ تو جو شخص عقل سے کام لیتا اور فطرت کے اندر جو ایک تقاضا اور ایک Urge ہے اسے پورا کرتا ہے اور یہ عزم کئے ہوتا ہے کہ میں نے اپنے ربّ سے تعلق کو قائم کرنا اور پختہ کرنا ہے تو پھر جب اس کے کان میں اللہ کی آواز اس کے کسی مامور کے ذریعہ سے پڑتی ہے تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اطاعت رسول کرتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ ہمارے کان میں تو وہ آواز پڑی کہ جو سب پہلی آوازوں سے زیادہ شیریں تھی اور حسین تھی اور اس کے ساتھ احسان کے اس قدر جلوے تھے کہ پہلی قوموں نے اپنی اُمتوں کے انبیاء کے وجود میں احسانوں کے وہ جلوے نہیں دیکھے۔ ہمارے کان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پہنچی۔ ہم نے اس آواز دینے والے کے وجود میں خدا تعالیٰ کی الوہیت کے کامل مظہر کو دیکھا۔ اسی حسن اور اسی احسان کے ساتھ اور دیوانہ وارلبیک کہتے ہوئے ہم اس پاک وجود کی طرف دوڑے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایت ہمارے لئے نازل ہوئی ہم نے اسے پہچانا اسے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد اپنے ربّ سے باندھا اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ کہا کہ درجہ بدرجہ تمہیں روحانیت میں بلند تر کرتا چلا جاؤں گا تم ایک مقام تک جب پہنچو گے قرب کی اور رضا کی نئی راہیں تم پر کھولوں گا اور ان پر چلنے کی تمہیں توفیق عطا کروں گا اور تمہارا اس نئے مقام کے مناسب حال جو تقویٰ ہے تمہیں دوں گا اور تم میری نگاہ میں پہلے سے زیادہ معزز اور مقرب بن جاؤ گے۔
اس سلسلہ میں ایک نظارہ ایثار کا تو میں نے بتا ہی دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُؤلٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الحشر:۱۰)
کہ جو شخص خست اور بخل سے بچایا جاتا ہے حقیقی کامیابی اسی کو نصیب ہوتی ہے۔ پس ہم نے ایسے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جلسہ میں مشاہدہ کیا کہ وہ بے نظیر اور بے مثال ہے۔
جلسہ کی حاضری کے متعلق مختلف اندازے ہیں بعض لوگوں کا اندازہ تھا کہ جلسہ گاہ کے اندر اور باہر جو ہزاروں کی تعداد میں دوست تھے اور جو گھروں کی چھتوں پر یا پہاڑیوں کی چوٹیوں پر تھے ان کی تعداد شاید لاکھ کے قریب ہو اور عورتیں اس کے علاوہ تھیں لیکن یہ اندازہ اگر صحیح نہ بھی سمجھا جائے تو بھی عورتوں کو شامل کر کے (بشمولیت اہالیان ربوہ) لاکھ کا مجمع تو ضرور تھا (بہت سے دوست صبح آتے ہیں شام چلے جاتے ہیں) ان کے لئے ایام جلسہ میں امن اور پیار اور محبت کی فضا پیدا کی جاتی ہے یہاں وہ ایسی چیز دیکھتے ہیں جو دنیا کی کسی اور جگہ انہیں نظر نہیں آتی تو جماعت اس موقع پر مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ کا حسین ترین مظاہرہ کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی وارث ہوتی ہے جو اس نے وعدہ کیا ہے کہ اُؤلٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ حقیقی کامیابی یہی لوگ پانے والے ہیں تو ایک تو ہمیں پچھلے سال کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور انعاموں کا نزول اس رنگ میں بھی نظر آیا۔
پھر ہمیں ایک اور نظارہ بھی نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ محبت اور پیار اور اُلفت اور اخوت اور امن اور سکون کی ایسی فضا اور ایسے مظاہرے ہوتے ہیں کہ دنیاکی کسی اور جگہ وہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسی ہی یا اس سے بھی بڑھ کر نظر آئی تھی لیکن بعد میں ہم اسے بھول گئے اور اس انتباہ کی طرف متوجہ نہ ہوئے جو قرآن کریم نے ہمیں کیا تھا کہ:۔
ھُوَ الَّذِٓیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَo وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْط لَوْاَنْفَقْتَ مَافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (الانفال: ۶۳،۶۴)
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس نے اپنی خاص قدرت سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوطی کے ساتھ آپس میں باندھ دیا ہے اور اس رنگ میں باندھا ہے کہ اگر زمین کی ساری دولت اور زمین کے سارے اموال اس غرض کے لئے خرچ کر دئے جائیں تب بھی اس کے نتیجہ میں وہ اُلفت پیدا نہیں ہو سکتی تھی جو جماعت مومنین کے دلوں میں پیدا کر دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے کیا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں غالب کرے گا اور چونکہ وہ حکیم ہے اس نے اپنی حکمت کاملہ سے جہاں اور بہت سے سامان اس مقصد کے حصول کے لئے پیدا کئے ایک سامان یہ بھی پیدا کیا کہ اس نے مومنوں کے دلوں کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اخوت اور محبت کے رشتہ میں باندھ دیا اور ایسا انعام کیا کہ آدمی جب سوچتا ہے تو شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں اور وہ یہ کہ اس آیت میں ان مومنوں کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے نہ کہ ان کی کسی خوبی کے نتیجہ میں اُلفت اور محبت کے اس رشتہ میں اس مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ یہ تعریف کی ہے کہ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ یعنی تیری تائید اپنی مدد اور مومنوں سے کی تو اپنی نصرت اور مومنوں کو بریکٹ کر دیا ایک جگہ جمع کر دیا۔
یہ کتنا بڑا انعام ہے کہ جو لوگ اپنے نفوس کو اور اپنی جانوں کو خدا کے حضور پیش کر دیتے اور اس کی منشاء کے مطابق اور اس کے ارادہ کے پورا کرنے کیلئے ایک جان ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی نصرت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ نصرت اور مومنوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیتا ہے اس سے بڑھ کر کسی انسان کو خداتعالیٰ سے اور کیا انعام مل سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے جن کی خاطر اس عالمین کو پیدا کیا گیا تھا خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی نصرت اور ان مومنوں کے ساتھ تیری مدد کی۔ جماعت مومنین کو خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا انعام دیا ہے کتنا رتبہ ان کا بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے جو کچھ پایا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی پایا لیکن آپ کے طفیل مومنوں نے یہ کتنا بڑا انعام پایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور مومنوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک بڑا انعام ہے اس کو ضائع نہ کر دینا۔ فرمایا:۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَٓائً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَ کُمْ مِنْھَا
(آل عمران: ۱۰۴)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ جس قدرت کاملہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک جان کر دیا ہے اور بھائی بھائی بنا دیا ہے اس کی ناقدری نہ کرنا جس رسی سے اس نے تمہیں باندھا ہے اس رسی کو کبھی نہ چھوڑنا اور پراگندہ مت ہو جانا۔
وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَٓائً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ
یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اللہ کا فضل ہے جو اس نے تم پر کیا دنیا ایذا رسانی کی دنیا تھی۔ بھائی بھائی کا دشمن تھا بھائیوں سے زیادہ باہمی اُلفت و اخوت پیدا کر دی۔ آج بھی ساری دنیا میں ہمیں یہی نظر آتا ہے بھائی بھائی کا دشمن، خاندان خاندان کا دشمن، علاقہ علاقے کا دشمن اس رسی کو توڑ کے محبت کی اس قید و بند سے آزاد ہوگئے اس نعمت خداوندی کو ٹھکرا دیا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس رسی کی قید سے باہر نکلو گے اَعْدَٓائً تم دشمن بن جاؤ گے اور جو اُلفت خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہارے اندر پیدا کی تھی اور تمہیں ایک جان کر دیا تھا اس نعمت خداوندی سے تم محروم ہو جاؤ گے اور جس طرح اس سے قبل آگ کے گڑھے کے کنارے پر تم کھڑے ہوئے تھے اور خدا کے فضل نے تمہیں اس سے بچا لیا تھا پھر تم وہیں جا کے کھڑے ہو جاؤ گے اور آگ کے اندر گرنے کا بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا سوائے اس کے کہ توبہ کے ذریعہ پھر تم خدا کی حفاظت میں آ جاؤ تو یہ حقیقت کہ کوئی قوم یا جماعت اس طرح اُلفت کے اور محبت کے بندھنوں میں باندھی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی نعمت ہے جیسے کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اور اس نعمت کو جماعت پر نازل ہوتے ہم نے جلسہ سالانہ پر دیکھا ایک لاکھ کے قریب مردوزن کا اجتماع ہو اور نہ کوئی لڑائی ہو نہ جھگڑا، نہ کوئی شور ہو نہ شرابہ یہ چند دن اس طرح سکون اور محبت کی فضا میں گزر گئے کہ ہمیں تو گزرتے ہوئے پتہ بھی نہ لگا۔ جب وہ گزر گئے تو ہم نے کہا مہمان رخصت ہوگئے اُداسیاں باقی رہ گئیں پس جہاں ایک لاکھ آدمی کا اجتماع ہو اور آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر ممکن ہی نہیں جہاں پچاس آدمی کسی اور جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں آپس میں لڑ پڑتے ہیں اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑے مجاہدے بڑی دعائیں کرنی پڑیں جس ماحول میں سے احمدی نکل کر جماعت میں داخل ہوئے تھے جب تک ان کی پوری تربیت نہیں ہوئی ماحول کا ان پر اثر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سختی کے ساتھ ان کی تربیت کرنے کیلئے ایک جلسہ اس لئے ملتوی کرنا پڑا کہ تمہیں یہاں خداتعالیٰ کی نعمتوں کے حصول اور ان پر حمد پڑھنے کیلئے اکٹھا کیا جاتا تھا لیکن اس اُلفت کا تم نے چونکہ نظارہ پیش نہیں کیا اس لئے میں جلسہ نہیں کرتا تا کہ تمہیں اچھی طرح سبق مل جائے۔ پھر بڑی دعاؤں کے ساتھ، بڑی توجہ کے ساتھ جماعت کی تربیت کی اور وہ درخت مضبوطی کے ساتھ اپنی جڑوں پر کھڑا ہو گیا۔ آج ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں۔ اس درخت کو لگانے والا، اس درخت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی برکتوں سے سیراب کرنے والا وجود تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود تھا ہر قسم کے خطرے سے محفوظ کرنے کیلئے آپ نے اپنا وقت بھی خرچ کیا۔ اپنا سب کچھ لگا دیا ہر وقت دعاؤں میں لگے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بشارتیں دیں پھر ایک جماعت پیدا ہوگئی جس کی اخوت و اُلفت کے نظارے ہمیں نظر آتے ہیں لیکن محبت اور اخوت اور اُلفت کے بندھنوں میں بندھے ہونے کا بہترین مظاہرہ انسان جلسہ سالانہ کے ایام میں دیکھتا ہے۔ اتنا بڑا اجتماع ہو اور اس قدر سکون اور خلوص اور پیار میرے علم میں تو بچوں کی بھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی جو بعض دفعہ نا سمجھی کی عمر میں ہو جاتی ہے۔ کتنا بڑا فضل اور کتنی بڑی رحمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس جماعت پر خصوصاً ایام جلسہ میں نازل کیں۔ خالی یہ نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا ہمیں یہ وعدہ بھی دیا گیا ہے کہ ہر نیا سال جو تم پر آئے گا وہ تمہیں میرے زیادہ قریب کر دے گا۔ تم پہلے سے بھی زیادہ میری نعمتوں کے وارث ہو جاؤ گے اس لئے کہ ہر نیا سال جو آئے گا وہ نئی ذمہ داریاں لے کے آئے گا اور پہلے سے زیادہ قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہوگا۔ تم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا میں تم پر اپنے انعامات کرتا چلاجاؤں گا۔ کتنا عظیم وعدہ ہے کتنی عظیم بشارت ہے جو ہمیں دی گئی ہے ہم میں سے کون بدبخت ہوگا جو خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کو ٹھکرا دے اور ان وعدوں کو بھول جائے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش نہ کرے۔ ہم ایک عید سے نکل کر ایک نئی عید کے زمانہ میں داخل ہو رہے ہیں اس عید کے لئے ہم نے تیاری کرنی ہے جس طرح دنیوی عید کے لئے ہم تیاری کرتے ہیں اس عید کے لئے ہم نے ان تمام ذمہ داریوں کو نبھانا ہے جو ہم پر ڈالی گئی ہیں عید کی وجہ سے اور ان تمام مطالبات کو پورا کرنا ہے جو عید انسان کے اوپر ڈالتی ہے عام گھروں میں جو عید منائی جاتی ہے وہ بھی بہت سی نئی ذمہ داریاں لے کر آتی ہے یہ تو وہ عید ہے جس میں ہم نے پیدا کرنے والے اللہ کے حسن و احسان کے (اس کی بشارتوں کے مطابق) پہلے سے زیادہ جلوے دیکھنے ہیں۔ پس پہلے سے بڑھ کر پہلے سے زیادہ برکتوں والی، پہلے سے زیادہ انعامات کے وعدوں کے ساتھ اور بشارتوں کے ساتھ آنے والی ایک نئی عید میں ہم داخل ہو رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس سال کو بھی ہمارے لئے حقیقی معنوں میں عید بنائے اور اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ نعمت اور فضل سے ہمیں نوازے اور اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر ہمارا تقویٰ ہمیں دے اور ہم اس کی نگاہ میں معزز ہو جائیں۔ اس کی توفیق کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا۔ اے ہمارے ربّ! ہم جانتے ہیں اور ہم علیٰ وجہ البصیرت اس بات کا تیرے حضور اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی خوبی نہیں ہے کوئی طاقت نہیں ہے کوئی قوت نہیں ہے کوئی حقیقی جذبۂ فدائیت نہیں ہے ہر چیز ہم نے تجھ سے لے کر تجھ سے ہی توفیق پا کر تیرے حضور پیش کرنی ہے۔ پہلے سے زیادہ ہمیں توفیق عطا کر اور جو تیری توفیق سے ہم تیرے حضور پیش کریں وہ پہلے سے زیادہ ہو اور تو اسے قبول کر اور پہلے سے زیادہ نعمتوں سے ہمیں نواز۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭


ہمیں حضرت مختار احمد شاہجہانپوری جیسے ایک نہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں فدائی اور اسلام کے جانثار چاہئیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰ ؍جنوری ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ مربی بننے کے لئے فراست اور گداز دل کی ضرورت ہے۔
٭ قرآن کریم کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی عقل کو تیز کیا جائے۔
٭ ایک حقیقی مربی کے اوصاف
٭ جس دل میں خشیت نہیں وہ دل منیب نہیں وہ قلب سلیم نہیں۔
٭ خداتعالیٰ کی نگاہ میں حفیظ بننے کی کوشش کریں۔



تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
ہماری جماعت کے ایک اور سردار (حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ) کل ہم سے جُدا ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ ایک بے نفس خدمت کرنے والے بزرگ تھے جنہوں نے بیماری کی حالت میں بھی بظاہر ایک مختصر سی دنیا میں جو ان کے ایک کمرے پر مشتمل تھی تبلیغ اور تربیت کا ایک وسیع میدان پیدا کر دیا تھا۔ آخر وقت تک آپ کا ذہن بالکل صاف اور حافظہ پوری طرح کام کرنے والا رہا اور آپ اس قدر تبلیغ کرنے والے اور اس رنگ میں تربیت کرنے والے بزرگ تھے کہ ہماری جماعت میں کم ہی اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یعنی ہم نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا ہے۔ ہم سارے کے سارے اسی کے لئے ہیں۔ ہماری زندگی کے لمحات، ہمارے اموال، ہماری خواہشات، ہمارے جذبات، ہمارے آرام سب کچھ اسی کے حضور پیش ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ایک دن ہم اس کے حضور پیش ہوں گے تو وہ ہماری ان حقیر کوششوں کی بہترین جزا دے گا۔ اللہ کرے کہ ہمارے اس بزرگ بھائی کو جو اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا ہے احسن جزا ملے اور خدا کرے کہ ہم بھی (اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی) اس کے فضلوں کے وارث بنیں۔
حضرت حافظ مختار احمد صاحبؓ کی وفات پر میں نے بہت دعا کی کہ اے میرے ربّ! غلبہ اسلام کی جو مہم تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جاری کی ہے اس کی سرحدوں میں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ ہمارے کام بڑھ رہے ہیں اور ہماری ضرورتیں زیادہ ہو رہی ہیں۔ ہمیں حضرت حافظ صاحبؓ جیسے ایک نہیں، سینکڑوں نہیں ہزاروں فدائی اور اسلام کے جانثار چاہئیں تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ جہاں جہاں اور جس قدر اسلام کی ضرورت تقاضا کرے تیرے فضل سے اسلام کو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی ملتے رہیں تا تکمیل اشاعتِ ہدایت یعنی اسلامی شریعت کی اشاعت کی تکمیل کا جو زمانہ آج پیدا ہوا ہے اس زمانہ کے تقاضوں کو جماعت پوری کرتی رہے اور اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے اور تمام قومیں اور تمام ملک اور ہر دل خدائے واحد ویگانہ ربّ رؤوف و رحیم کو پہچاننے لگے اور اس کی محبت ان کے دل میں پیدا ہو جائے اور وہ جو اس محبت کو قائم کرنے کیلئے سب سے اچھے سامان لے کر آیا اور دنیا کا محسن اعظم ٹھہرا اس کی محبت اور اس کے لئے شکر کے جذبات بھی انسانیت کے دل میں پیدا ہوں تا کہ وہ اس طرح اپنے ربّ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ پا سکے۔
اس موقعہ پر میں نے ایک ضرورت کا بھی اظہار کیا ہے۔ یعنی غلبہ اسلام کی مہم کی سرحدوں پر ایسے فدائیوں کی ضرورت ہے جو اپنا سب کچھ قربان کر کے اور مثالی زندگی گزارتے ہوئے اسلام کی خدمت میں مشغول رہیں۔ میں اپنے مربی بھائیوں کو آج اسی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کی نگاہ میں صحیح مربی بننے کے لئے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک نور فراست دوسرے گداز دل۔ قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میں عقل کے نقص کو دور کرنے والا اور اس کو کمال تک پہنچانے والا ہوں اور اس کی جو خامیاں ہیں وہ میرے ذریعہ دُور ہونے والی ہیں اور اس کے اندھیرے میرے ذریعہ روشن ہونے والے ہیں۔ نیز قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میرے نزول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ گداز دل پیدا کئے جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ ٔیوسف میں فرماتا ہے۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (یوسف: ۳)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم کو نازل کرنے اور ایک ایسی کتاب بنانے میں جو اپنے مضامین کو کھول کر بیان کرتی ہے ایک حکمت یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سے صحیح کام لے سکے یعنی عقل میں جو فی نفسہٖ ایک بنیادی خامی ہے کہ آسمانی نور کے بغیر اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے اس خامی کو قرآن کریم دور کرے۔ جس طرح ہماری آنکھ باوجود تمام صلاحیتوں کے اور دیکھنے کی سب قوتیں رکھنے کے اپنے اندر یہ نقص بھی رکھتی ہے کہ وہ خود دیکھنے کے قابل ہے ہی نہیں۔ جب تک بیرونی روشنی اسے میسر نہ ہو۔
ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری آنکھ دیکھتی ہے لیکن وہ اندھیروں میں نہیں دیکھتی۔ ایسے وقت میں جب رات ہو اور بادل چھائے ہوئے ہوں تو ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتا۔ آنکھ کے قریب ترین ناک ہے اندھیرے میں وہ اسے بھی نہیں دیکھ سکتی۔ انگلی اس کے قریب لے آؤ تو اس اندھیرے میں وہ اسے بھی نہیں دیکھ سکتی۔ غرض باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے کی سب صلاحیتیں اس میں رکھی ہیں اسے ایک قید میں بھی جکڑا ہے اور فرمایا ہے کہ سورج کی روشنی کے بغیر یا بیرونی روشنی کے بغیر تمہاری قوتیں ظاہر نہیں ہوں گی۔ اس قید میں مقیّد کر کے اللہ تعالیٰ نے ساری قوتیں اسے عطا کر دیں۔ اسی طرح عقل صحیح کام نہیں دے سکتی۔ وہ اس وقت تک اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے جب تک کہ آسمانی نور اور روشنی اسے عطا نہ ہو۔ سورۂ یوسف کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ عقل کے استعمال کے سب سے روشن سامان قرآن کریم کے ذریعہ نازل کر دیئے گئے ہیں۔ اگر بنی نوع انسان نے اپنی عقلوں سے صحیح فائدہ اُٹھانا ہو بہترین فائدہ اُٹھانا ہو تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقل کے لئے قرآن کریم کے انوار مہیا کریں۔ تب ان کی عقلیں منّور ہو کر صحیح طور پر کام کر سکیں گی۔
یہ صحیح ہے کہ دنیا میں دنیوی طور پر ایک حد تک عقل کام کر رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعویٰ قرآن کریم میں کیا ہے اس پر اس وجہ سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا اس لئے کہ قرآن کریم ہی کے کچھ حصے پہلے انبیاء کو دیئے گئے تھے۔ ان حصوں نے انسانی عقل میں ایک جلا پیدا کی یہ جلا دنیوی طور پر انسان کے ساتھ رہی گو روحانی طور پر یہ جلا اور روشنی انسان سے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل نہ کرے چھین لی جاتی ہے۔ بہرحال عقل نے ترقی کی اس نے ارتقاء کی ایک منزل طے کر لی اور دنیوی لحاظ سے وہ پہلے کی نسبت بہتر ہوگئی (دینی لحاظ سے اس کے لئے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کی ہدایت پر وہ چلتی رہے) پھر ایک کے بعد دوسرا نبی آیا اور دنیوی عقل نے اور ترقی کی، پھر اور ترقی کی، پھر اور ترقی کی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آ گیا اور قرآن کریم کا نزول ہوا جو اس عالمین کے لئے اور انسانی عقل کے لئے تمام اندھیروں کو دور کرنے والا نور ہے۔ قرآن کریم کے نزول کے وقت دنیوی عقل پہلے انبیاء کی ہدایتوں کے نتیجہ میں ایک حد تک مدارج ارتقاء طے کر چکی تھی لیکن وہ پھر بھی اس کا کمال نہیں تھا۔ دنیوی لحاظ سے بھی قرآن کریم کی لائی ہوئی روشنی میں انسانی عقل نے ترقی کی ہے جیسا کہ پچھلے چودہ سَوسال میں انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آج کل یورپ میں جو دنیوی علوم ترقی یافتہ شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں ان تمام علوم کی بنیاد ان بنیادی مسائل اور پیچیدگیوں کے حل ہونے پر ہے کہ جو بنیادی مسائل مسلمانوں نے معلوم کئے اور جن پیچیدگیوں کو مسلمانوں نے دور کیا اسی بنیاد پر یورپ کے فلسفہ اور سائنس کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ غرض دنیوی لحاظ سے وہ عقل چھینی نہیں جاتی بلکہ انسان ترقی کرتا رہتا ہے اور اس نے ترقی کی ہے لیکن بہرحال ایک جگہ آ کر اس نے رک جانا تھا کیونکہ پھر اور مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہوگی جن پر زیادہ بلند ہونے والی دنیوی عمارتیں کھڑی کی جا سکیں۔ یہ مضبوط ترین بنیاد قرآن کریم نے کھڑی کی اور یہ اکمل اور اعلیٰ نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی عقل کو عطا کیا۔ یہ وعدہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا کہ قرآن کریم کے کچھ نئے علوم سکھائے جائیں گے اور دنیوی عقلوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تیز کیا جائے گا اور پھر انسان دنیوی لحاظ سے اور بھی ترقی کرے گا لیکن اس وقت میں دنیوی عقل کے متعلق بات نہیں کر رہا یہ بات ضمناً آگئی ہے۔
میں اپنے مربیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی عقل کو تیز کیا جائے اور ایک مربی کی ذمہ داری دو طرح سے عقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ایک اس طرح کہ اس کی اپنی عقل اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے بلکہ روشنی میں چلنے والی ہو اور دوسرے اس طرح کہ اس نے خود اپنی ذات ہی کو منور نہیں کرنا بلکہ اسلام کے نور کو غیر تک بھی پہنچانا ہے۔ اس کے لئے بھی قرآن کریم نے بہت سے انوار ہماری عقل کو عطا کئے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں آیات کو مختلف طریقوں سے اور پھیر پھیر کر بیان کیا ہے (صَرَّفْنَا) تا لوگ ہماری آیات کو سمجھیں۔ اس میں ہمیں اور خصوصاً ایک مربی کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان ہر دلیل کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس کی اپنی انفرادیت ہے، اپنی ایک دنیا ہے، اس کے جذبات ہیں، اس کی عقل ہے، اس عقل کی تربیت ہے، اس کا علم ہے، اس کا ماحول ہے، اس کی عادتیں ہیں، اس کا ورثہ ہے اور اس قسم کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو اس پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ بعض دلائل کو اس کی طبیعت قبول نہیں کرتی لیکن بعض دوسری دلیلوں کو اس کی طبیعت مان لیتی ہے اور ان سے متاثر ہوتی ہے۔ غرض قرآن کریم نے جو دلائل کو پھیر پھیر کے بیان کیا ہے وہ اس لئے ہے کہ مربی کو ہر طبیعت کے مطابق دلیل مل جائے اور وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گویا ایک مربی کا یہ فرض ہوا کہ اوّل وہ ہر طبیعت کے مطابق بات کر رہا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کی طبیعت دیکھ کر اس سے بات کرنی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ وہ قرآن کریم کے اوپر عبور رکھتا ہو۔ قرآن کریم نے مختلف طبائع کے لحاظ سے جو دلائل ایک مربی کے ہاتھ میں دیئے ہیں ان کو وہ جانتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ فلاں شخص کی طبیعت ایسی ہے اور اس طبیعت کے لئے فلاں دلیل زیادہ مؤثر اور زیادہ کارگر ہو سکتی ہے۔
پس اگر کسی شخص نے خداتعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مربی بننا ہوتو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی روشنی سے اپنے لئے نور فراست اور عقل کی روشنی حاصل کرے اور قرآن کریم سے انتہائی محبت کرنے، وہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا ہو۔ قرآن کریم کو غور اور تدبر سے پڑھنے والا ہو۔ قرآن کریم سیکھنے کے لئے دعائیں کرنے والا ہو اور قرآن کریم کو سکھانے کے لئے بھی دعائیں کرنے والا ہو تا کہ دنیا اپنی کم عقلی کی وجہ سے اور اپنی اس عقل کے نتیجہ میں جس میں اندھیروں کی آمیزش ہوتی ہے خداتعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں فرمایا وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَایَعْقِلُوْنَ (یونس: ۱۰۱) یعنی جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل کو اس نور کی روشنی کی تاثیر سے متاثر نہیں کرتے جو قرآن کریم کے ذریعہ نازل کی گئی ہے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے۔ غرض ایک مربی نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے اور دنیا کو بھی۔ بنی نوع انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس نور سے وافر حصہ لینے کی کوشش کرے جو قرآن کریم عقل کو دیتا ہے اور دعاؤں میں مشغول رہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتا رہے کہ اسے بھی اور دنیا کو بھی اپنی کم عقلی اور اندھیروں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب نہ ملے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی عقل دے اور قرآنی انوار عطا کرے اور دنیا کو بھی سمجھ دے اور اسے قرآنی انوار دیکھنے کی توفیق عطا کرے تا کہ وہ اس کے غضب کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے ہوں۔
مربی کا ایک بڑا کام جماعتی اتحاد اور جماعتی بشاشت کو قائم رکھنا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جو نور مَیں عقل میں پیدا کرتا ہوں اسی کے نتیجہ میں قومی یکجہتی قائم رکھی جا سکتی ہے جیسا کہ سورہ حشر میں فرمایا۔
تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُھُمْ شَتّٰی ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ (حشر:۱۵)
یہاں ویسے تو مضمون اور ہے لیکن ایک بنیادی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم انہیں ایک قوم خیال کرتے ہو حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ قومی اتحاد اور قوم میں ایک مقصد کے حصول کے لئے بشاشت کا پیدا ہونا اس عقل کے ذریعہ سے ممکن ہے جسے خداتعالیٰ کے قرآن اور اس احسن الحدیث کی روشنی عطا ہو جو اس نے ہمارے لئے نازل کی ہے۔ اگر عقل کو انوار قرآنی حاصل نہیں تو پھر عقل اس بنیادی مسئلہ کو بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ یکجہتی اور اخوت اور اتحاد کے بغیر قومی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ پس ایک مربی کا یہ کام ہے کہ وہ کوشش کر کے قرآنی نور سے اپنی عقل کو منور کرے اور قرآن کریم نے جو اصول اور جو ہدایتیں اور جو تعلیم قوم میں بشاشت پیدا کرنے، محبت پیدا کرنے اور اخوت پیدا کرنے کے لئے دی ہیں انہیں سیکھے اور پھر ان کا استعمال کرے کیونکہ اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ جماعت میں بشاشت پیدا کرے۔ ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہو کہ میں خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہوا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل مجھ پر ہیں جو ان لوگوں پر نہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور اس وجہ سے اسے خداتعالیٰ کا ایک شکر گزار بندہ، اپنی عقل سے کام لینے والا بندہ اور قرآنی انوار سے نور لینے والا بندہ بن کر زندگی کے دن گزارنے چاہئیں۔
میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا نزول اس لئے بھی ہے کہ میں گداز دل پیدا کروں جیسا کہ سورۃ الزمر کی چوبیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِھًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ
یعنی ہم نے اس احسن الحدیث کو، اس بہترین ہدایت کو یعنی اس قرآن کریم کو اس کتاب کو جو متشابہہ بھی ہے اور مثانی بھی ہے یعنی تمام صداقتوں کو اپنے اندر جمع بھی رکھتی ہے اور جس جس پہلی کتاب کی صداقت اس نے لی ہے اس سے وہ مشابہت رکھتی ہے اور اس کے علاوہ دیگر نہایت اعلیٰ مضامین اس کے اندر پائے جاتے ہیں جو پہلی کتب سماوی میں نہیں پائے جاتے تھے اور اس کامل اور مکمل کتاب کے نزول کی ایک غرض یہ ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وہ لوگ جو اپنی فطری خشیت اللہ سے کام لیتے ہیں وہ حقیقی معنی میں قرآن کریم کے فیوض اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے گداز دل بن جائیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے اور بنی نوع کی ہمدردی سے گداز ہو جائیں۔ فرمایا ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یہ قرآن کریم کی ہدایت ہے لیکن کوئی شخص اپنے زور سے اسے حاصل نہیں کر سکتا یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ دعا کرو کہ اس حسین ہدایت کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کرنے والے بن جاؤ اور اس کی برکتوں سے حصہ لینے والے بن جاؤ۔
قرآن کریم کی ہر آیت اپنے اندر بڑے وسیع معانی رکھتی ہے لیکن اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس لئے بھی ہے کہ دلوں کو گداز کیا جائے اور فطرت انسانی کے اندر جو خشیت اللہ کا جذبہ رکھا گیا ہے اس کی ترقی اور ارتقاء کے سامان پیدا کئے جائیں۔ جس طرح آنکھ بغیر بیرونی روشنی کے دیکھ نہیں سکتی۔ جس طرح عقل بغیر انوار آسمانی کے ناقص رہ جاتی ہے اور وہ اپنے کمال کو حاصل نہیں کر سکتی اسی طرح دل بھی وہی دل (قلب سلیم) ہے کہ جو قرآنی برکات سے اللہ تعالیٰ کی خشیت اس رنگ میں اپنے اندر رکھتا ہو جس رنگ میں کہ خدا چاہتا ہے کہ وہ خشیت اللہ سے کام لے۔سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
فَاِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِالْمُخْبِتِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ
(الحج: ۳۵،۳۶)
یعنی تمہارا خدا اور معبود خدائے واحد ویگانہ ہے اس لئے (اَسْلِمُوْا) اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو اور اس کے حضور اس طرح اپنی گردن کو جھکا دو جس طرح ایک بکرا قصاب کی چھری کے سامنے مجبور ہو کر اپنی گردن جھکا دیتا ہے۔ تم طوعاً اور بشاشت کے ساتھ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بن جاؤ۔ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ اور ہم اس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان لوگوں کو اپنے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں جو خداتعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی وہ کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تو اس کا دل کانپ اُٹھتا ہے اس کا دل گداز ہو جاتا ہے جس کا دل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر گداز نہیں وہ محبت اور عاجزی کرنے والا نہیں بن سکتا اور جو عاجز نہیں جو مُخبت نہیں وہ اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا اور جو مسلمان نہیں وہ خدائے واحد ویگانہ کی پرستش نہیں کرتا۔
پس ایک مربی کو دوسروں کی نسبت زیادہ گداز دل ہونا چاہئے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ ہماری اس شریعت کی حفاظت کا کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے تو اس دعویٰ کا جو تقاضا ہے اسے پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ھٰذَا مَاتُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍo مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِo
(ق: ۳۳،۳۴)
یعنی میرا یہ وعدہ ہے کہ اس دنیا میں بھی جنت بعض لوگوں کے اس قدر قریب کر دی جائے گی کہ وہ اس دنیا کی حسوں کے ساتھ اسے محسوس کرنے لگیں گے اور میرا یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے ہے جو میرے حضور جھکتے ہیں۔ اوّاب ہیں اور (حَفِیْظٍ) وہ صرف منہ کے دعویٰ سے شریعت کی حفاظت کرنے والے نہیں بلکہ وہ صحیح طور پر اور حقیقی معنی میں شریعت کی حفاظت کرتے ہیں جہاں تک ان کی زندگی کا تعلق ہے وہ شریعت پر عمل کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے وہ معروف کا حکم دے کر اور منکر سے روکنے کے ساتھ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شریعت کی حفاظت وہی شخص کر سکتا ہے (مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَائَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ) جسے رحمان خدا اس کی کسی خوبی یا عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض بخشش اور عطا کے طور پر ایک گداز اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کی عظمت کو پہچاننے والا دل عطا کرتا ہے اور خشیت کا یہ دعویٰ محض ایسا دعویٰ نہیں جو صرف لوگوں کے سامنے کیا جائے بلکہ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْب اس کی تنہائی کی گھڑیاں اور اس کا باطن اس کے ظاہر کو اور اس کے ان لمحات کو جو وہ اجتماعی طور پر گزارتا ہے جھٹلاتا نہیں۔ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْب جس طرح اجتماع میں،لوگوں سے میل ملاقات اور معاشرہ کی ضروریات پورا کرتے وقت وہ اپنے دل کی خشیت کو اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تنہائی کی گھڑیوں میں اپنے ربّ کے حضور اس کی عظمت کا اقبال کرتے ہوئے اور اس کے جلال کا احساس رکھتے ہوئے وہ اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا اور اس کے مطابق اپنے ربّ کے حضور اوّاب بنتا ہے۔ یہ وہ قلب ہے جسے قلب منیب کہا جاسکتا ہے اور یہ وہ قلب سلیم اور قلب منیب ہے جو ایک مربی کے دل میں دھڑکنا چاہئے۔ اگر ایک مربی کے دل میں ایک قلب منیب نہیں دھڑکتا اگر اس کا دل تنہائی کے لمحات میں بھی خشیت اللہ سے بھرا ہوا اور لبریز نہیں اگر اس کا دل تنہائی کی گھڑیوں میں بھی اور میل ملاپ کے اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خشیت کے نتیجہ میں بنی نوع کی ہمدردی میںگداز نہیں تو پھر ایسا شخص جو اس قسم کا دل رکھتا ہو حفیظ نہیں یعنی شریعت کی حفاظت کرنے والا نہیں حالانکہ ہر مربی کا یہ دعویٰ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے (نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں) حفیظ ہوں۔ میرے سپرد شریعت کی حفاظت ہے اور میں نے اپنی زندگی اس کام کے لئے وقف کر دی ہے لیکن اگر اس کا عمل ایسا نہیں اگر اس کے اندر ریا پائی جاتی ہے اگر اس کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر اس کے اندر خداتعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی نہیں۔ ان کے ساتھ پیار نہیں، تعلق نہیں، اگر ان کی جسمانی اور روحانی تکلیف دیکھ کر اس کا دل تڑپ نہیں اُٹھتا، اگر ایسے وقتوں میں اس کا دل گداز ہو کر اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنے لئے اور ان کے لئے عاجزانہ طور پر بخشش اور بھلائی اور خیر کا طالب نہیں تو کیا ایسا دل حفیظ ہو سکتا ہے؟ نہیں۔ ایسا دل تو حفیظ نہیں۔ پس
اے میرے مربی بھائیو دل کو گداز رکھو اس معنی میں جس معنی میں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں (جن میں سے بعض کو میں نے اس وقت پڑھا ہے) حکم دیا گیا ہے۔ جس دل میں رحمان خدا کی خشیت نہیں اور جس دل میں یہ خشیت ظاہر اور باطن میں نہیں وہ دل منیب نہیں وہ قلب سلیم نہیں اور جو دل منیب و سلیم نہیں۔ تو جس سینہ میں وہ دھڑکتا ہے جن رگوں میں وہ خون کا دوران کر رہا ہے وہ سینہ اور وہ دل اور وہ شخص اور اس کی قوت عمل محافظ شریعت نہیں وہ مربی نہیں، وہ خادم نہیں، وہ اپنے ربّ کا غلام نہیں،عبد نہیں، وہ اس کی صفات کا مظہر نہیں۔ وہ تو خاکی جسم کا ایک لوتھڑا ہے جیسا کہ سؤر کے جسم کا ایک لوتھڑا یا کتے کے جسم کا ایک لوتھڑا ان کا دل ہوتا ہے۔ پس اپنے سینہ میں انسان کا منیب دل پیدا کرنے کی کوشش کرو اور حفیظ بننے کی کوشش کرو۔ اپنا دل خدا کے حضور ہر وقت گداز رکھو۔ تمہاری روح اس کے خوف سے، اس کی عظمت اور جلال کی خشیت سے پانی ہو کر اور پگھل کر اس کے حضور جھک جائے اور اپنی تمام عاجزی کے ساتھ انتہائی انکساری کے ساتھ تم اپنے بھائیوں کے سامنے ان کی ہمدردی اور غمخواری میں جھکے رہو۔ تمہارا نفس بیچ میں سے غائب ہو جائے یا تم ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے خادم نظر آؤ یا تم اسے اپنے خادم نظر آؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے بندے اس کی صفات کا اظہار کرنے والے ہو جاؤ۔ اس کی صفات کا مظہر بن جاؤ۔ جب دل گداز ہو جائے جب عقلوں میں جلا پیدا ہو جائے تبھی تم اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہو۔ تبھی تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے کہ جو توفیق دین کی خدمت کی اور عبادت کی اللہ تعالیٰ نے جو رحمن ہے حافظ مختار احمدصاحبؓ کو دی وہی توفیق تمہیں بھی عطا کرے دین کو سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے حفیظ بننے والوں کی ضرورت ہے۔ پس جنہوں نے ابھی تک خود کو پیش نہیں کیا وہ آگے بڑھیں اور جو اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ اپنے عمل سے آگے بڑھیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حفیظ بننے کی کوشش کریں تب رحمن خدا انہیں ان کے اعمال کا بہترین ثواب دے گا اور ان کی پاک اور گداز نیتوں کا اجر بھی انہیں ملے گا۔ خدائے رحمن کی طرف سے۔ خدا کرے کہ ہم پر ایسے ہی فضل نازل ہوں۔ خدا کرے کہ ہم میں سے ہر شخص ہی مربی بن جائے اور ہر مربی نور فراست اور ایک گداز دل رکھنے والا بن جائے۔ خدا کرے کہ یہ جنت جس کا وعدہ دیا گیا ہے ہمارے اتنی قریب ہو جائے کہ اس دنیا میں بھی ہم اس کی خوشبو اور اس کی مٹھاس اور اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگیں اور ایک اطمینان کے ساتھ ہم اس دنیا سے گزریں جس طرح اللہ تعالیٰ کے اَن گنت اور بے شمار فضل ہم پر اس دنیا میں ہوتے رہے ہیں اس زندگی میں بھی اس کے فضل بے شمار اور اَن گنت ہی ہوتے رہیں اور اس کے غضب کی جہنم میں ہمیں نہ دھکیلا جائے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍ فروری ۱۹۶۹ء صفحہ۲تا۷)
٭…٭…٭

ہمارا فرض ہے کہ ہم چوکس اور بیدار رہ کر فتنوں سے خود بھی بچیں اور دوسروںکو بھی بچائیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍جنوری ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں بھی اس قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔
٭ مفسدین کا اصل مقصد اسلام میں کمزوری پیدا کرنا ہوتا ہے۔
٭ جب چاہو مانو جب چاہو نہ مانو ’’اطاعت‘‘ تو ختم ہوگئی۔
٭ ایمان کے تقاضوںکو پورا کرو تو غیر تمہارے پر فتح نہیں پا سکے گا۔
٭ عزت کا سرچشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔



تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے سورۃ المائدہ کی مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:۔
یٰـآَ یُّھَا الرَّسُوْلُ لَایَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَا ھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْج وَمِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْاج سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَط یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْ تِیْتُمْ ھٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًاط اُوْلٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ لَھُمْ فِیْ الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِیْ الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدہ: ۴۲)
پھر فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیۂ کریمہ میں بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مخلصین کی جماعت دی گئی تھی اگرچہ وہ انتہائی طور پر فدائی اور جانثار اور ایثار پیشہ تھے۔ اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والے اور اپنے نفسوں کو اللہ تعالیٰ کے قدموں پر ڈال دینے والے تھے اور خدا کے لئے اور خدا کی رضا کی جستجو میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار تھے لیکن ان مخلصین کے ساتھ کچھ لوگ وہ بھی شامل تھے جن کا ایمان صرف زبان تک تھا جن کے دل ایمان سے خالی تھے۔
اس گروہ میں پھر دو قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔ ایک وہ جن کے دل اگرچہ ایمان سے اس وقت تک خالی تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں ایمان داخل ہو رہا تھا جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات: ۱۵)
کہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ تمہارے دلوں میں یا تم میں سے بعض کے دلوں میں بعد میں ایمان داخل ہو جائے اور تم پختہ طور پر اور سچے طریق پر ایمان لے آؤ۔ اسی وجہ سے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ سب لوگ جن کے دل ایمان سے ابھی خالی ہیں وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے اور اس قسم کی بداعمالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ کہ جن کے دل ایمان سے ابھی خالی ہیں لیکن جن کی زبان ایمان کا اقرار کرتی ہے ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کے متعلق اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔
جن کے دل ایمان سے خالی تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لیکن زبان سے ایمان کا اقرار تھا وہ پھر دو گروہوں میں تقسیم تھے ایک وہ جن کے متعلق یہ امید کی جا سکتی تھی کہ ایک وقت میں ان کے دلوں میں نورایمان داخل ہو کر ان کی روح کو اور ان کے دل کو اور ان کے جسم کو اور ان کے خیالات اور جذبات کو اور ان کی تمام استعدادوں کو منور کر دے گا لیکن ایک وہ تھے جن کے متعلق اس قسم کی امید ان کی ظاہری حالت کو دیکھ کر نہیں رکھی جا سکتی تھی اور انہی کا ذکر اس آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ جو یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِکفر کی اور فتنہ کی اور فسوق کی باتیں سننے کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتے ہیں اور اس قسم کی فاسقانہ باتیں پھیلانے کا میلان ان کی طبیعتوں میں ہے اور ان کے اعمال بھی کفر کی ملونی کی وجہ سے کافرانہ اعمال ہی کہلائے جاسکتے ہیں۔ ایمان کے امتحان کے وقت مضبوط دل والا تو ایمان کی پختگی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن یہ لوگ اپنے ایمان کی کمزوری کا اور کفر کی آمیزش کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فوراً اس قسم کے بداعمال کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ کا گروہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا جو کفر کی باتیں سنتے اور کفر کی باتوں کے پھیلانے اور کفر کی بداعمالیوں کی طرف سرعت سے متوجہ ہونے میں سب سے آگے تھا اس کی طبیعت کا میلان ہی اس طرف تھا۔
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہی فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا مقصد چونکہ اسلام کو اور اُمت مسلمہ کو کمزور کر دینا ہوتا ہے اس لئے ان لوگوں کا تعلق ان غیر مسلموں کے ساتھ رہتا ہے جو اسلام کے بظاہر نزدیک آتے تھے، باتیں سنتے تھے مسلمانوں کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے لیکن خلوص نیت کے ساتھ نہیں بلکہ بدنیتی کے ساتھ اور دو مقصد ان کے پیشِ نظر ہوتے۔ ایک تو اس قسم کے کمزور ایمان والوں سے تعلق پیدا کر کے جھوٹی باتوں کو وہ سنتے اور اخذ کرتے تھے۔ پھر غیر مسلموں میں جا کے یہ کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ’’مصلح‘‘ لوگوں نے یوں کہا کیونکہ ان لوگوں کے متعلق قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ فساد کی باتیں نہ کرو تو جواب دیتے ہیں۔ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْن (البقرہ: ۱۲) یہ یہودی جو تھے وہ مسلمانوں سے تعلق قائم کرتے اور باتیں سنتے تھے اور پھر دوسروں کو جا کے کہتے تھے کہ بڑے بڑے بزرگ مصلح خدمت گزار مسلمانوں سے ہم نے یہ باتیں سنی ہیں اور اس قسم کی جھوٹی باتیں پھیلا کر وہ اسلام کے خلاف مکر اور منصوبے کرتے تھے۔
دوسرے ان کا مقصد یہ تھا کہ صداقت کی باتیں، قرآن کریم کی آیات اور ان آیات کی تفسیر سنیں اور جس رنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان ہدایتوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے وہ دیکھیں، ان کے متعلق باتیں سنیں لیکن نیت یہ نہیں ہوتی تھی کہ صداقت کو صحیح شکل میں آگے پھیلائیں بلکہ وہ آیات قرآنی کو سنتے تھے اس نیت کے ساتھ کہ اس کا مفہوم اس رنگ میں پھیلائیں گے کہ اعتراض کرنے والے اسلام کو اعتراض کا نشانہ بنائیں اور اسلام کی اشاعت میں اس طرح ایک روک پیدا ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے فدائیوں کے ساتھ کمزور ایمان والوں کا جو گروہ شامل ہو گیا تھا اور کمزور ایمان والوں میں سے بھی وہ جو یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ کے مظاہرے کرتے تھے ان کا تعلق ایسے گروہوں کے ساتھ تھا کہ جو مسلمان نہیں تھے لیکن بظاہر شوق سے اسلام کی باتیں سنتے تھے اور نیت یہ ہوتی تھی کہ کچھ جھوٹی باتیں لیں اور پھیلائیں اور کچھ سچی باتیں لیں اور ان کا غلط مفہوم لے کر اسے بگاڑ کے لوگوں کے سامنے پیش کریں تا کہ اسلام اعتراض کا نشانہ بنے اور وہ لوگ جو اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں ان کے راستہ میں ایک روک پیدا ہو جائے اور اسلام کی فتح اور کامیابی کا زمانہ جو ہے وہ آئے ہی نہ یا اس میں تاخیر ہو جائے۔
بہرحال ان کی نیتیں اور ان کی خواہشیں اور ان کی کوششیں تو یہی ہوتی تھیں کہ اسلام کامیاب نہ ہو، ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے منافقوں کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کا تعلق فتنہ پیدا کرنے والے غیر مسلموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی تھا۔ ایسے کمزوروں کا تعلق فتنہ پرداز غیر مسلموں کے ساتھ تھا۔ یہاں مثال کے طور پر یہود کا ذکر ہے لیکن جب ہم اسلامی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت اسلام پھیلا تو جب قیصر مقابلہ پر آیا عیسائیوں میں ایسے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں جب کسرٰی مقابلہ میں آیا تو ایرانیوں میں ایسے لوگ تھے جو اس نیت کے ساتھ مسلمانوں سے تعلق پیدا کرتے تھے کہ کمزور مسلمانوں سے فائدہ اُٹھائیں اور غلط باتیں مشہور کر کے اسلام کو کمزور اور ناکام کرنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر یہاں یہود کا ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مفسدین کا اصل مقصد اسلام میں کمزوری پیدا کرنا ہوتا ہے اور یہ لوگ دو طریق اختیار کرتے ہیں۔ ایک اندرونی فتنہ کا اور ایک بیرونی فتنہ کا۔ بیرونی طور پر تو جھوٹی باتیں یا آیات قرآنی کا مفہوم غلط بیان کر کے اسلام کو اعتراض کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اندرونی طور پر اطاعت کی روح کو کمزور کرتے ہیں۔ اطاعت کی روح سَمْعًا وَّطَاعَۃً ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد نازل ہوتا تھا۔ آپ اس پر عمل کرتے تھے اور جس طرح اور جس رنگ میں آپ اس پر عمل کرتے تھے اپنے ماننے والوں سے یہ توقع اور امید رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اطاعت کا ایسا ہی نمونہ دکھائیں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی طرف سے کچھ کہا نہ اپنی طرف سے کچھ کر کے دکھایا جو کہا وہ خدا کا فرمان جو کیا وہ اس فرمان کے مطابق ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اندرونی دشمن اور بیرونی دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اگر اطاعت کی اس روح کو کمزور نہ کیا جائے تو وہ فتنہ نہیں پیدا کر سکتا۔ اس واسطے ان کی ساری توجہ اور ان کا بھرپور وار اس روح پر ہوتا ہے جو سَمْعًا وَّطَاعَۃً کی روح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ھٰذَا فَخُذُوْہُ کہ جو تمہاری مرضی کے مطابق ہو جس چیز میں تمہارا فائدہ ہو وہ حکم تو مان لیا کرو۔ یعنی جو بات تمہیں معقول نظر آتی ہے مان لیا کرو لیکن جو بات تمہاری عقل میں نہیں آتی جسے تم غیر معقول سمجھتے ہو وہ تم کیوں مانو اور جسے ہوائے نفس مضر پاتا ہے مفید نہیں پاتا اپنے لئے اسے کیوں مانو۔ اطاعت کی اس روح کو کمزور کرنے کیلئے یہ حیلہ کرتے تھے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر اس قسم کے احکام ہوں (چونکہ وسیع مفہوم ادا کرنا تھا اس واسطے احکام کی قسم کو معیّن نہیں کیا روح بتا دی ہے) جو تمہارے فائدہ کے تمہیں نظر نہ آتے ہوں۔ تمہاری خواہش کے مطابق نہ ہوں جو تم چاہتے ہو وہ نہ ہوں جو تمہارے نزدیک معقول نہ ہوں ایسی باتوں کو نہ مانا کرو بلکہ آزادی ضمیر کا واسطہ دے کر اور اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ہے اور بہت سی استعدادیں دی ہیں۔ ان کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ آخر خدا تعالیٰ نے تمہیں بھی عقل دی اور روحانی قوتیں دیں جس چیز کو تم اچھا نہیں سمجھتے آنکھیں بند کر کے کیوں مانو علیٰ وجہ البصیرت ماننا چاہئے پتہ نہیں کس کس رنگ میں وہ ان کو بہکاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے احکام ہوں تو مان لیا کرو۔ اس قسم کے احکام ہوں تو نہ مانا کرو۔ قسم نہیں بتائی لیکن طریق بتا دیا کہ جب چاہو مانو جب چاہو نہ مانو پس ’’اطاعت‘‘ تو ختم ہوگئی۔ وہ روح جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا رنگ چڑھا دیتی ہے۔ وہ روح جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم شکل بنا دیتی تھی۔ وہ روح جو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی تھی کیونکہ خدا نے یہی فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو اور آپؐ سے محبت کرو تب میرے محبوب بن سکو گے۔ دشمن کہتا ہے اس روح کو کچل دو تو نہ محمدؐ کے ہم شکل بنیں گے نہ (اپنی اپنی استعداد کے مطابق) صفات باری تعالیٰ کے مظہر بنیں گے نہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے نہ کامیاب ہوں گے کیونکہ اسلام کا مقصد ہی یہی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ اپنی اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر تمام بنی نوع انسان کو صفات باری تعالیٰ کا مظہر بنا کے اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیا جائے تا کہ خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات سے انسان زیادہ سے زیادہ حصہ لینے لگ جائے تو اندرونی دشمن اور بیرونی دشمن ہر دو کا مقصد ہے اسلام کو کمزور کر کے بظاہر ناکامی کی طرف اسے دھکیلنا اور ایک ہی بنیادی حربہ ہے جو وہ استعمال کرتا ہے اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو کمزور کر دینا ہے۔ جب اطاعت کی روح کمزور ہوگئی تو یہاں بھی اختلاف کیا وہاں بھی اختلاف کیا۔ ہزار دروازے فتنے اور فساد اور بغاوت اور فسوق کے کھل جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے منصوبوں اور ریشہ دوانیوں اور کارروائیوں کو دیکھ کر اے ہمارے رسول! غمگین نہ ہو ’’لَاتَحْزَنْ‘‘ کی وجہ قرآن کریم نے دوسری جگہ بتائی ہے اور دل کی مضبوطی کے سامان پیدا کئے ہیں۔فرمایا کہ
وَلَاتَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَلَاتَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَo اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل: ۱۲۸،۱۲۹)
دشمن جس دروازے سے چاہے آئے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا اس واسطے کہ اللہ کی مدد اور نصرت اسے ملتی ہے جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا اور نیکیوں کو احسن طور پر بجا لاتا ہے تو لَاتَحْزَنْ میں یہ حکم ہے کہ غمگین مت ہو کیونکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر تم قائم ہو اور احسن اعمال بجا لانے میں تمہارا کوئی مثیل نہیں ہے۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے دشمن کا مکر کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی کی وضاحت آپ نے فرمائی تھی۔ جب یہ کہا لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ: ۴۰) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ناکامی اور نامرادی کا خوف دل میں نہ لا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا خدا ہمارے ساتھ ہے اور جو شخص تقویٰ پر قائم ہو احسن اعمال بجا لانے والا ہو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں وہ ناکام کیسے ہو سکتا ہے؟ تو یہاں پر لَاتَحْزَنْ کا مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے رسول! ہم تمہارے ساتھ ہیں تم ناکام نہیں ہوسکتے اس واسطے ناکامی کا کوئی غم نہیں۔
دوسرے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا تھا کہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو تو ہماری مدد اور نصرت اس رنگ میں تمہارے شامل حال ہو جائے گی کہ غیر تمہارے پر فتح نہیں پا سکے گا۔ تمہارے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جیسا کہ آل عمران میں فرمایا:۔
وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (اٰل عمران: ۱۴۰)
اگر تم حقیقی مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوتو کامیابی تمہارے نصیب میں ہے۔ اس واسطے تمہیں غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اوّل المؤمنین تھے۔ آپ سے بڑھ کر کوئی مؤمن نہیں تھا تو یہاں یہ فرمایا کہ تم اوّل المؤمنین ہو تم نے ہی کامیاب ہونا ہے اس واسطے لَاتَحْزَنَ پریشان ہونے کی، غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کو ملائکہ کی مدد اور ان کی بشارتیں ملتی ہیں۔ پس یہاں یہ معنی ہوں گے کہ ملائکہ تمہاری مدد پر ہر وقت کمربستہ ہیں لَاتَحْزَنْ اندرونی اور بیرونی دشمن کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ تم یہ غم نہ کرو یعنی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ اسلام کہیں کمزور نہ ہو جائے، ناکام نہ ہو جائے۔اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا ہے:۔
فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ: ۳۹)
جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآنی کی اتباع کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے ناکامی کا منہ نہیں دیکھتا وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ تو فرمایا لَاتَحْزَنْ جو ہم نے ہدایت نازل کی ہے تیری تو ساری زندگی، سارے اخلاق ہی اس ہدایت کا عملی نمونہ ہیں یعنی تیری زندگی قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہے اس واسطے تجھے غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو غم کا سوال ہی نہیں دراصل ہمیں یہ سارے سبق دیئے جا رہے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
لَایَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (یونس: ۶۶)
اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ تجھے ناکام کریں اور ذلیل کر دیں لیکن تجھے اس یقین پر قائم کیا گیا ہے کہ عزت کا سرچشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس واسطے جو مرضی وہ کہتے ہیں، کرتے رہیں۔ عزت تو تیرے ہی نصیب میں ہے۔ دنیا کا سب سے معزز انسان (جب سے انسان پیدا ہوا اور جب تک انسان اس دنیا میں رہے گا) تو ہے۔ تیرے طفیل پہلوں نے بھی عزت پائی اور بعد میں آنے والے بھی تیرے ہی طفیل عزت حاصل کریں گے۔ تمہیں اب سرچشمہ عزت بنا دیا گیا ہے تو چونکہ تیرے طفیل ہی سب کو عزت ملی ہے اس واسطے ان کے قول ان کے منہ کی باتیں بے نتیجہ ہیں، بے اثر ہیں۔ عزت کا مالک تو تو ہی ہوگا۔ لَاتَحْزَنْ غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ تیرے طفیل اسلام ہمیشہ معزز رہے گا۔ اسلام ہمیشہ ملائکہ کی بشارتیں حاصل کرتا رہے گا اور اسلام اور اُمت مسلمہ ہمیشہ اعلیٰ رہے گی اور خداتعالیٰ ہمیشہ متقیوں کے ساتھ رہے گا۔ ان متقیوں کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآنی پر عمل کرنے والے ہیں۔ اس واسطے لَاتَحْزَنْ اے رسولؐ! تجھے ان اندرونی دشمنوں کی یہ حرکتیں اور یہ منصوبے جو وہ کر رہے ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اس خیال میں نہ ڈالیں کہ وہ کامیاب اور تو ناکام ہو جائے گا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو یقین اور پختگی کے ساتھ اس حقیقت پر قائم تھے لیکن آیات قرآنی میں جن کے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں اس قسم کا مضمون اگر بیان ہو تو ہم لوگوں کو سبق دینے کیلئے یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامیاب تو تم ہی نے ہونا ہے پھر ان لوگوں کوموقع کیوں دیا جاتا ہے ایذاء پہنچانے اور سازشیں کرنے کا؟ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بھی بتا دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو اس قسم کی مفسدانہ حرکتوں کی مہلت اور اجازت اس لئے دی جاتی ہے کہ ان کا امتحان لیا جائے اور اس امتحان کے نتیجہ میں ان کا اندرونہ آشکار ہو جائے اور لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ مصلح ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود فساد سے ان کے دل بھرے ہوئے اور ایمان سے ان کے دل خالی ہیں۔ اس لئے ان کے اندرونہ کو ظاہر کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ایسا موقع دیتا ہے اور جس دل میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ تقویٰ اور طہارت نہ دیکھے تو اے ہمارے رسولؐ! یا تم اے اُمّتِ مسلمہ!! ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے جب ان کے دل تقویٰ اور طہارت سے خالی ہیں تو تمہارا تقویٰ اور تمہاری طہارت اور پاکیزگی جسے خدا تعالیٰ کے فضل سے تم نے حاصل کیا ان لوگوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ان میں خلوص نہیں، عشق الٰہی نہیں، محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں۔ اطاعت قرآن نہیں۔ اتباع اسوۂ نبویؐ نہیں۔ ان کے دلوں میں کوئی بھی پاکیزگی اور طہارت نہیں۔ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کی نعرہ بازی سے تو کچھ نہیں بنتا۔ خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ پاک دل اور مطہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دلی ناپاکی کو ظاہر اور آشکار کرنا چاہتا ہے اس لئے ان کو اجازت دی ہے کہ اس قسم کی حرکتیں کرو اس لئے اجازت نہیں دی کہ وہ اسلام کو یا مسلمانوں کو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ نقصان کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو کسی کمزوری کا امکان نہیں کسی نقصان کا بھی امکان نہیں۔ بعد میں آنے والوں کے لئے یہ وعدہ ہے کہ خلوص پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ کا عشق پیدا کرو۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرو قرآن کریم کی ہدایت کی اتباع کرو۔ اُسوۂ نبی کو اپناؤ اور وہی رنگ چڑھاؤ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تو پھر تمہیں بھی کوئی خطرہ نہیں۔ پھر اندرونی اور بیرونی دشمن جو چاہیں کرتے رہیں بے فکر ہو کر اپنے کام میں لگے رہو۔ ایک طرف اللہ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہو تو دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کرتے رہو۔ کامیابی تمہارے نصیب میں ہی ہے۔ غیر تمہارے اوپر کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اس آیہ کریمہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس طرح اس قسم کی ایک چھوٹی سی جماعت پائی جاتی تھی بعد میں آنے ولوں میں بھی اس قسم کی جماعت پائی جائے گی۔ اس قسم کے لوگ ہوں گے جو ایمان کا دعویٰ کریں گے جو مصلح ہونے کا نعرہ لگائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ فتنہ، فساد اور فسق اور فجور کی باتیں سننے کی طرف دوڑیں گے اور ایسی باتوں کو پھیلائیں گے اور بداعمالیوں میں وہ زندگی کے دن گزار رہے ہوں گے۔ جماعت مومنین میں بھی فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کے مفسدانہ تعلقات بھی غیر مسلموں کے ساتھ ہوں گے، یہودی ہوں، عیسائی ہوں، آتش پرست ہوں، دہریہ ہوں، بدمذہب ہوں جو بدنیتی کے ساتھ اور شرارت کے ساتھ مسلمانوں سے تعلق قائم کریں گے اور غلط باتیں ایسے لوگوں سے سن کے، جھوٹی باتیں ایسے لوگوں سے سن کے یہ کہہ کے پھیلائیں گے کہ بڑے بزرگ مسلمانوں نے یوں کہا اور یوں کہا یا سچی باتوں کو بدل کے اور ان میں تحریف کر کے پھیلائیں گے تا کہ اسلام پر اعتراض کرنا بعض ناسمجھوں کے نزدیک آسان ہو جائے اور اس طرح شرارت پیدا ہو اور اسلام میں ضعف پیدا ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں جب روم فتح ہوا تو وہاں ایک جماعت مسلمانوں کے ساتھ ایسی شامل ہوگئی۔ جب ایران فتح ہوا تو مسلمانوں کے ساتھ ایسی جماعت شامل ہوگئی۔ جب سپین فتح ہوا تو وہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسے لوگ شامل ہوگئے جو مسلمانوں کی طرح لباس پہننے والے، مسلمانوں کی طرح باتیں کرنے والے، مسلمانوں کی طرح اپنے اعتقادات کو قرآن کریم کی تعلیم پر قائم کرنے کا اظہار کرنے والے تھے لیکن تاریخ اس قسم کے فتنوں سے بھری ہوئی ہے۔ اندر سے وہ دشمن تھے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے اور کرتا رہا کہ ان کی اسلام دشمنی ظاہر ہوتی رہی اور ہمیشہ ہی وہ خدا کی نگاہ میں اور اس کے پیاروں کی نگاہ میں حقارت کے اور بے عزتی کے مقام کو حاصل کرتے رہے۔ اسلام کے لئے جو انہوں نے چاہا اپنے نفسوں کے لئے اسی بے عزتی اور حقارت کو انہوں نے پایا۔
ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دشمن کا یہ فتنہ تو جاری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی اس سے پاک نہیں رہا آئندہ بھی کوئی زمانہ اس قسم کے شرپسندوں سے پاک نہیں ہوگا۔ اس لئے اے مخلصین اُمّتِ مسلمہ! تمہارے لئے اصولی طو رپر ایک ہی ہدایت ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور آپؐ کے اسوہ اور سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم ایسے لوگوں کے فتنہ سے خود بھی بچو گے اور دوسروں کو بھی بچاؤ گے۔
پس سنت نبوی کو تم مضبوطی سے پکڑو۔ تم پر یہ فرض عاید کیا گیا ہے کہ ایسے فتنوں سے اپنے نفس کو بھی بچاؤ اور اپنے بھائیوںکو بھی بچاؤ اور کسی قسم کی کمزوری یا گھبراہٹ کا اظہار نہ کرو۔ تمہارے دل اس یقین پر قائم ہونے چاہئیں کہ اس قسم کے فتنے الٰہی جماعتوں کو مضبوط کیا کرتے ہیں انہیں کمزور نہیں کیا کرتے۔
دوسرے تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ جیسا کہ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ اس دنیا میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسوائی اور بے عزتی اور کم وقعتی کا مقام بنایا ہے۔ تمہاری نگاہ میں بھی وقعت کا کوئی مقام انہیں حاصل نہ ہو بلکہ خِزْیٌ کا جو مقام خداتعالیٰ نے اسلام کے دشمنوں کے لئے مقدر کیا ہے اسی مقام پر تم انہیں دیکھو اور ویسا ہی ان سے سلوک کرو اور مطہر نہ سمجھو کیونکہ خداتعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہی نہیں ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو مطہر سمجھے، قرار دے یا مطہر کے ساتھ جو اس کا سلوک ہے وہ سلوک اس سے کرے اور ہمیں یہ بھی بتایا کہ تمہیں چاہئے کہ تم اس یقین پر پختگی سے قائم رہو کہ اسلام کے مٹانے یا اس کے کمزور کر دینے کے منصوبے جہاں بھی، جس رنگ میں بھی کئے جائیں وہ کامیاب نہیں ہوا کرتے جیسا کہ رسول مقبول محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے لَایَحْزُنْکَ کا نمونہ دنیا کو دکھایا تھا۔ بڑے ابتلاء آئے، فتنے کھڑے ہوئے، منصوبے کئے گئے لیکن آپ اسی بشاشت کے ساتھ خداتعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں پوری طرح ڈوبے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی محبت کو کامل طور پر حاصل کرتے ہوئے اس دنیا کی زندگی کے دن گزارتے رہے۔ پس یہ نمونہ اس میدان میں آپ نے پیش کیا۔ اس نمونہ کو سامنے رکھو اور اللہ تعالیٰ پر اور اس کی بشارتوں پر اور اس کے وعدوں پر کامل یقین رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ وعدہ پورا ہو جو اس نے محمد رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا کہ تیرے روحانی فرزندوں میں ایک عظیم اور جلیل فرزند کھڑا کروں گا جو تیری عزت کو، جو تیری محبت کو، جو تیری عظمت کو ساری دنیا میں قائم کرے گا اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کو اپنے کمال تک پہنچا دے گا۔
ہم لوگ اس مسیح، اس فرزند جلیل کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ اس سے تو ہم بچ نہیں سکتے یعنی یہ نہیں کر سکتے کہ ان کا وجود ہی مٹ جائے لیکن ان کے فتنوں سے بچنا اور اپنے بھائیوں کو بچانا اور آگاہ کرنا اور خود چوکس اور بیدار رہنا ہمارا فرض ہے اور ہمیں اس یقین پر قائم کیا گیا ہے۔ اسلام ہی کی آخر کار فتح ہوگی۔ تو اس قسم کے فتنے ہمیں بیدار کرنے کے لئے آتے ہیں ہمیں کمزور کرنے کیلئے نہیں آتے اور ہوگا وہی جو خدا نے چاہا ہے اور خدا چاہے گا۔ ہوگا وہی کہ خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے اور قرآن کریم کی ہدایت کا جُؤا اپنی گردنوں پر رکھنے والے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ ہوگا وہی جو خدا نے کہا کہ اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آ جائے گا اور ہر ملک اور ہر قوم حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی خاک ہونے میں اپنا فخر سمجھے گی۔ آمین (روزنامہ الفضل ربوہ۵؍ مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا ۶)

جمعۃ المبارک
(۲۴؍ جنوری۱۹۶۹ء)
ء ء ء
’’حضور رحمہ اللہ علالت طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف نہیں لا سکے‘‘۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍ جنوری ۱۹۶۹ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

ہم پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرض عائد کیا ہے کہ ہم اس کی محبت میں فنا ہو کر اس کی مخلوق کی خدمت میں لگے رہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍جنوری ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ جماعتِ احمدیہ کا سیاست سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
٭ اسلام حقیقتاً اس آگ کا نام ہے جو دو طرفہ ہوتی ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔفاتحہ کی شکل میں ایک کامل دعا سکھائی ہے۔
٭ جماعت کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ سچے مسلمانوں کا ایک گروہ پیدا ہو جائے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر مخلوق کی خدمت میں لگے رہیں۔



تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور نے فرمایا:۔
جماعت احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے جس کا سیاست سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے اس حیثیت میں ہمارا پہلا اور آخری تعلق اپنے ربّ سے ہے۔ غیر اللہ سے ہمارا جو بھی تعلق ہے وہ بالواسطہ ہے یعنی غیر اللہ سے سب تعلقات اللہ تعالیٰ کی وساطت سے اس کے حکم اور منشاء سے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ہیں۔ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اور اس کی ساری زندگی کی جدوجہد کی غرض اور مقصد اپنے اللہ سے ایک زندہ اور مضبوط تعلق قائم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مضبوط روحانی تعلق پیدا کرنے کی جو راہ اسلام نے ہمیں سکھائی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ’’اسلام اور دعائے فاتحہ‘‘ ہے۔ اسلام کے معنی ہیں کہ انسان اپنی سب خواہشات اور اپنے سب ارادوں اور اپنی تمام مرضیوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دے اس کا اپنا کچھ نہ رہے جس طرح انسان کی چھری کے سامنے بکرا اپنی گردن کو رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح انسان اللہ کی رضا کی چھری کے سامنے اپنے وجود کو رکھ دے اور اس رنگ میں اپنے پر موت وارد کرنے کی کوشش کرے کہ اللہ کی طرف سے اسے ایک نئی زندگی عطا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ اسلام حقیقتاً اس آگ کا نام ہے کہ جو دو طرفہ ہوتی ہے ایک طرف انسان کے دل میں اپنے ربّ کے لئے محبت کی آگ شعلہ زن ہوتی ہے اور دوسری طرف انسان کے دل کی یہ محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی ہے اور اس دو طرفہ شعلہ کے نتیجہ میں اللہ کی عظمت اور جلال کے جلوہ کے بعد انسان کا اپنا کچھ باقی نہیں رہتا سب کچھ اللہ کا ہو جاتا ہے اور جب محبت کا یہ مقام انسان کو حاصل ہو جائے تب وہ اپنی پہلی زندگی تو ختم کر چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایک نئی زندگی عطا ہوتی ہے اور یہ نئی عطا، یہ نئی زندگی ایسی ہے جس کا ہر سائنس خداتعالیٰ کے لئے وقف ہے۔ جس کا ہر جذبہ، جس کی ہر خواہش، جس کی ہر لذت خدا کے لئے اور خدا سے ہے کوئی چیز اس کی اپنی باقی نہیں رہتی اس دنیا میں جو عام قانون چل رہا ہے اس کے مطابق مسلمان بھی، ہندو بھی، سکھ بھی، عیسائی بھی، دہریہ بھی، بدمذہب بھی، خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے بھی ایک نئی زندگی گزار رہے ہیں وہ زندگی تو ختم ہوگئی لیکن ایک مسلمان کو ایک نئی زندگی ملتی ہے اور یہ زندگی اسے ایک موت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ وہ خدا کے لئے ایک موت قبول کرتا اور خدا کی عطا سے ایک نئی زندگی کو پاتا ہے۔ اس نئی زندگی میں اس کے تمام خیالات، اس کے تمام رحجانات، اس کے تمام جذبات، اس کے تمام تعلقات ایک نیا رنگ رکھتے اور اللہ کی روشنی سے منور اور اس کی محبت سے اصلاح یافتہ ہوتے ہیں اور نئی زندگی میں جو تعلقات غیراللہ سے ہوتے ہیں وہ اپنے اندر ایک نیا رنگ رکھتے ہیں۔ دنیا کے لئے دنیا سے تعلق نہیں رکھا جاتا۔ خدا کے لئے خدا کی مخلوق سے تعلق پیدا کیا جاتا ہے اور یہ محبت کا مقام انسان کو یہ سبق دیتا ہے کامل اطاعت کے بعد انسان یہ جانتا ہے کہ میں یہ دوسری زندگی حاصل نہیں کر سکتا نہ اس زندگی کو قائم رکھ سکتا ہوں جب تک کہ مجھے دعا کا سہارا حاصل نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ فاتحہ کی شکل میں انسان کو ایک کامل دعا سکھائی ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’دعائے فاتحہ‘‘ نام رکھا ہے پس کامل اطاعت کے ساتھ کامل دعا کا ہونا ضروری ہے تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر کامل فیوض جاری ہوتے ہیں اس کامل دعا میں ہمیں جو سکھایا گیا ہے وہ اتنا گہرا اور اتنا وسیع ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقعہ پر غیر مذاہب کو یہ چیلنج دیا کہ وہ اپنی تمام کتب سماوی میں سے وہ مضمون نکال کے دکھا دیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں سورہ فاتحہ کی سات آیات میں بیان کیا ہے۔ تو اس میں بڑی گہرائی، بڑی وسعت ہے اس کے سینکڑوں معنی ہو چکے ہیں اور جب تک دنیا قائم ہے سینکڑوں ہزاروں معنی ہوتے رہیں گے یہ دعا اپنی کامل حیثیت میں قائم ہے اور انسان اس سے فائدہ اُٹھاتا رہے گا اس وقت میں اس تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتا اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی پھر کسی وقت اس نقطہ نگاہ اس زاویہ سے دوستوں کے سامنے سورہ فاتحہ کی تفسیر رکھوں گا۔
اس وقت میں صرف مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ سچے مسلمانوں کا ایک گروہ پیدا ہو جائے جن کی زندگی پر ایک موت وارد ہو اور وہ دنیا سے کُلّی طور پر منقطع ہو جائیں اور ان کا دنیا سے کوئی واسطہ نہ رہے اور ایک کامل دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کچھ اس طرح جذب کریںکہ انہیں ایک نئی زندگی ملے جو پہلی سے مختلف، جو پہلی سے کہیں زیادہ حسین، جو پہلی سے بہت زیادہ دنیا کی خدمت گذار۔ آج ہمارے ملک کے جو حالات ہیں وہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے خدا سے ایک نئی زندگی پائی اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے بنی نوع انسان اور خدا کی دوسری مخلوق کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم جو سیاسی جماعت نہیں، سیاسی طور پر تو ہم اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتے لیکن روحانی جماعت ہونے کی حیثیت میں روحانی طور پر اپنے بھائیوں کی خدمت کر سکتی ہے اور ہمیں کرنی چاہئے اور وہ خدمت دعا کے ذریعہ ہے میںان دنوں خاص طور پر جماعت سے خواہش رکھتا ہوں اور اس کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے ملک کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ہر فتنہ اور شر سے محفوظ رکھے۔ اس وقت جو فتنہ اور شر ہمیں نظر آتا ہے میں نے بڑا غور کیا ہے میرا ذاتی تاثر ہے کہ اس کی براہ راست ذمہ داری کسی بھی سیاسی پارٹی پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ ایک خطرناک منصوبہ ہمارے ملک کو تباہ کرنے کیلئے کسی اور جگہ بنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس حد تک تو سیاسی پارٹیوں پر ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے اندر کیوں گھسنے دیتے ہیں جن کا ان کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں اور اس طرح ان شرپسند ایجنٹس کو موقعہ مل جاتا ہے کہ لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے کام کریں لیکن میرے نزدیک براہ راست کسی سیاسی پارٹی پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ میرے نزدیک وہ اس کے ذمہ وار نہیں ہیں اور نہ اسے پسندکر سکتے ہیں کہ ملک کو اس طرح تباہ کر دیا جائے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہمیں ایک مذہبی اور روحانی جماعت ہونے کے لحاظ سے اس سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں گو ایک شہری کی حیثیت سے ہمارا ہر فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ہم پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرض عائد کیا ہے کہ ہم اس کی محبت میں فنا ہو کر اس کی مخلوق کی خدمت میں لگے رہیں اور ہمارے نزدیک خدا کی مخلوق کی جو بہترین خدمت کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کے لئے ہر وقت دعاؤں میں لگے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ہر قسم کے فتنہ اور شر سے اور تباہی سے اور انتشار سے محفوظ رکھے اور ہمارے ملک اور ہماری قوم کو توفیق دے کہ وہ دینی اور دنیوی لحاظ سے ترقی پر ترقی کرتے چلے جائیں اور رفعتوں پر رفعتیں حاصل کرتے چلے جائیں۔
پس ہم اپنے بھائیوں، اپنے ملک، اپنی قوم کی دعاسے مدد کر سکتے ہیں اور اس میں ہمیں بخل خست نہیں دکھانی چاہئے بلکہ اپنے لئے بھی اس زمانہ میں دعائیں چھوڑ دو اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتیں خود پوری کرے گا اور اپنے بھائیوں کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہو کیونکہ میرے نزدیک جو منصوبہ کسی شرپسند دماغ نے بنایا ہے اس کا اصل مقصد مسلمان اور اسلام کو ضعف پہنچانا ہے اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمان کو اس شیطانی منصوبہ کے شر سے محفوظ رکھے اور آسمان سے فرشتوں کو نازل کرے جو ہماری اس قوم کی حفاظت کریں اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جن حالات کے نتیجہ میں اُمت مسلمہ میں ضعف پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:۔
دوست میرے لئے بھی دعا کریں جلسہ کے ایام سے انفلوائنزا کا ہلکا اثر چلا آ رہا ہے شاید ہلکے اثر ہونے کی وجہ سے لمبا اثر ہو گیا ہے کبھی ہلکی حرارت ہوتی رہی ہے کبھی گلے میں زیادہ تکلیف کبھی نسبتاً آرام۔ بہرحال اگرچہ کل سے کچھ افاقہ محسوس کرتا ہوں لیکن پوری طرح اثر ابھی دور نہیںہوا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور بیماری کو دور کرے تا کہ ان ضروری فرائض جن میں دعا بھی ایک بڑا فرض ہے ان ضروری فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ رہے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۸؍ فروری ۱۹۶۹ء صفحہ۲ و۳)
٭…٭…٭


حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کوولی بنانے والوں کی اللہ تعالیٰ ہر حال میں حفاظت اور نصرت فرماتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ فروری۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ )
ء ء ء
٭ غلط راہوں کو اختیار کر کے ظلم میں تسلسل پیدا نہ کرو۔
٭ مومن ظلم کے مقابلہ میں دعاؤں کے تیر اُن کی طرف واپس کرتے ہیں۔
٭ ہمارا بھروسہ اس آقا پر ہے جس میں تمام صفات حسنہ جمع ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ کی ولایٔت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
٭ ہم ظالم کبھی نہیں بنیں گے۔ ہم ظلم کو مٹائیں گے۔



تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:۔
اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (الاعراف: ۱۹۷)
پھر فرمایا:۔
دنیا میں مظلوم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مظلوم تو وہ ہے کہ جب اس پر ظلم کیا جائے تو وہ خود ظلم کا بدلہ لینے کی تدبیر کرتا ہے۔ جب اسے دکھ دیا جائے تو وہ دُکھ دینے والے کو دکھ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اسے گالی دی جائے تو وہ گالی کے مقابلہ میں گالی دیتا ہے۔ جب اس پر افترا کیا جائے، تہمت لگائی جائے، جھوٹ باندھا جائے تو وہ اپنے دشمن پر اتہام لگاتا، افترا کرتا اور جھوٹ باندھتا ہے۔ جب دنیا میں اس کے خلاف اور اسے ذلیل کرنے کیلئے سازشیں کی جائیں تو اس قسم کی سازشوں کے مقابلہ میں وہ اپنے مخالف کے خلاف سازش کرتا ہے۔ ہر موقعہ پر اپنے مخالف کے خلاف جو تدبیر کرتا ہے وہ اس پر بھروسہ کر رہا ہوتا ہے یا وہ اپنے اثر و رسوخ پر بھروسہ کر رہا ہوتا ہے یا وہ اپنے علم پر بھروسہ کر رہا ہوتا ہے یا وہ اپنی فراست پر، اپنی ہمت پر، اپنے خاندان پر اور اپنے جتھے پر بھروسہ کر رہا ہوتا ہے۔ ہزار بت ہیں جن پر وہ بھروسہ کرتا ہے۔ ہزار بت ہیں جن کی وہ پرستش کرتا ہے اور ظلم کے مقابلہ میں ظالمانہ تدبیر کے نتیجہ میں ظلم کے تسلسل کو جاری کرتا اور اپنی طرف سے دوام بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ظلم کو مٹانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس کو لمبا کرنے، اس کو قائم کرنے اور اس کو دائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بت پرست یا کم علم یا جاہل یا اپنے نفسوں پر قابو نہ پانے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کی جہنم میں پڑنے والے ہیں۔ خواہ بظاہر ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ہی کیوں نظر نہ آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہت سے قاتل اور مقتول ہر دو خدا کے غضب اور قہر کی جہنم میں پڑتے ہیں اس لئے کہ بظاہر جو مظلوم نظر آتا ہے وہ مظلوم اس لئے بنا کہ اس کی ظالمانہ تدبیریں اتفاقاً ناکام ہو گئیں اور دوسرے ظالم (جو اس کے مقابل پر تھا )کی ظالمانہ تدبیریں اتفاقاً کامیاب ہوگئیں بے شک دنیا کی نگاہ بظاہر مظلوم کو مظلوم سمجھتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ اسے ایسا ہی ظالم سمجھتی ہے جیسا کہ اس شخص کو ظالم سمجھتی ہے جس کی ظالمانہ تدبیر کامیاب ہوگئی۔ اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایک کو غضب کی نگاہ سے اور دوسرے کو پیار کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ ہر دو کو ان کی نیت اور کوشش کی وجہ سے غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ ہر دو ظلم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک ان میں سے کامیاب ہوا اور دوسرا ناکام ہوا۔ بہرحال ہر دو کی نیت اور کوشش یہ تھی کہ وہ دوسرے پر ظلم کریں۔
غرض ایک تو وہ مظلوم ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مظلوم ہونے کے باوجود ظالم ٹھہرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آتا ہے اور اس کی رحمت، اس کی مدد اور نصرت سے محروم ہوتا ہے لیکن کچھ اور مظلوم بھی ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں اور وہ مظلوم وہ ہیں کہ جب کوئی شخص انہیں گالی دیتا ہے تو وہ مقابلہ میں گالی نہیں دیتے جب ان پر کوئی شخص افترا کرتا ہے تووہ مقابلہ پر افترا نہیں کرتے جب ان پر کوئی شخص تہمت باندھتا ہے تو وہ تہمت باندھنے والے پر تہمت نہیں باندھتے۔ جب انہیں قتل کرنے کے منصوبے کئے جاتے ہیں تو وہ اپنے دفاع کی احتیاطی تدابیر تو کرتے ہیں لیکن اپنے دشمن کو قتل کرنے کی سازشیں نہیں کرتے۔ جب ان کے پیاروں کو بُرا بھلا کہا جاتا ہے تو ان کے سینے تو زخمی ہو جاتے ہیں ان کے جگر تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں ان کے دل توخون کے آنسو بہاتے ہیں لیکن وہ اس وقت اپنے دکھ دینے والوں کے ’’پیاروں‘‘ پر اس قسم کے آوازے نہیں کستے بلکہ وہ اپنے مخالف کے دینی یا روحانی پیاروں کے نام بھی عزت اور احترام سے لیتے ہیں اس لئے کہ یہ خدا کا وہ برگزیدہ گروہ ہے جن کے دل اور جن کی روحیں یہ اقرار کرتی ہیں اور جن کی زبان پر یہ جاری ہوتا ہے اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ اللہ جو تمام خوبیوں کا مالک، تمام قدرتوں کا منبع اور سرچشمہ ہے میرا مددگار ہے میرا دوست اور میرا آقا ہے۔ جب میرا آقا باوجود میرے انتہائی طور پر عاجز ہونے کے مجھ سے دوستوں کا سا سلوک کرتا ہے باوجود میری ہر قسم کی غفلتوں اور کوتاہیوں کے وہ مجھ سے محبت کا سلوک کرتا اور میری مدد پر ہر وقت تیار ہے اور اسی ذات پر میرا بھروسہ ہے تو میں کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جس کی وہ مجھے اجازت نہ دے کیونکہ میں اپنے فہم و فراست کو بت نہیں بناتا۔ میں اپنے مال کو بت نہیں بناتا میں اپنی جرأت و شجاعت کو بت نہیں بناتا۔ میں اپنے جتھہ کو یا اپنے اثر و رسوخ کو یا اپنے وقار کو بت نہیں بناتا بلکہ تمام خوبیوں کا مالک میں اس خدائے واحد و یگانہ کو سمجھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا۔ جس نے میری ربوبیت کے سامان کئے جس نے مجھ سے یہ وعدہ کیا کہ اگر تم مجھ پر بھروسہ کرو گے۔ اگر تم صرف میری ہی پرستش کرو گے۔ اگر تم میرے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیار کرو گے اگر تم اس صراط مستقیم پر چلو گے جو میں نے اپنی کامل اور مکمل کتاب کے ذریعے تمہارے سامنے رکھی ہے تو میں تمہارا مددگار ہوں گا۔ میں تمہارا حامی ہوں گا۔
پس جو شخص خود کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے جو شخص اپنے ربّ کو پہچانتا ہے اور اس کی توحید کا عرفان رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک ذاتی محبت اپنے دل میں اور اپنے صحن سینہ میں اپنے ربّ کے لئے موجزن پاتا ہے وہ غلط راہوںکو اختیار کر کے ظلم میں تسلسل نہیں پیدا کیا کرتا بلکہ یہ وہ گروہ ہے، یہ وہ جماعت ہے جو ظلم کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ اسے آگے نہیں چلنے دیتے۔ چاروں طرف سے ان پر اَلْسِنَہ حَدَّادْ کے تیر برستے ہیں لیکن وہ چاروں طرف محبت کے کلمے واپس کرتے ہیں۔ چاروں طرف سے ان پر آوازے کسے جاتے ہیں اور ان کے سینہ کو چھلنی کیا جاتا ہے۔ ان کو دکھ دیا جاتا ہے ان کے بزرگوں کو گالیاں دی جاتی ہیں لیکن وہ اس کے مقابلہ میں خدا کے حضور جھکتے اور دعاؤں کے تیر ان کی طرف واپس کرتے ہیں۔ ان دعاؤں میں سے بڑی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے ربّ یہ لوگ ناسمجھ ہیں تو ان کو سمجھ عطا کر کہ وہ تیرے بندوں پر ناجائز طور پر ظلم نہ کریں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ ایک مومن کا مقام یہ ہے کہ وہ مظلوم ہونے کی حیثیت میں جب اس پر انتہائی ظلم کیا جا رہا ہو ظلم کے مقابلہ میں ان راہوں کو پسند نہیں کرتا جو اس کے خدا کو محبوب نہیں۔ وہ ان طریقوں پر چلتا ہے جن طریقوں پر چل کر وہ اپنے ربّ کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ میرا بھروسہ اس آقا پر ہے جس میں تمام صفات حسنہ جمع ہیں اور جس میں کوئی بُرائی اور کوئی نقص اور کوئی خامی اور کوئی کمزوری نہیں اور اس نے میری ہدایت کے لئے، مجھے اپنی پناہ میں لینے کے لئے اور مجھے دنیا کے ظلموں سے محفوظ کر لینے کے لئے (نَزَّلَ الْکِتَابَ) ’’اَلْکِتَابَ‘‘ کو نازل کیا ہے اور اس کتاب میں وہ سب سامان جمع کر دئے ہیں کہ جو ایک انسان کو خوشحال زندگی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہیں، ایسی خوشیاں جمع کر دی ہیں جودنیوی غموں کو بھلا دیتی ہیں اور ایسی مسرتیں رکھ دی ہیں جو دنیا داروں کے تیروں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے زخموں میں درد نہیں پیدا ہونے دیتیں۔ یہ وہ گروہ ہے جو ’’اَلْکِتَاب‘‘ پر عمل کر کے اپنے آقا کی دوستی اور اس کی مدد اور نصرت کو حاصل کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ وَھُوَیَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حفاظت اور ترقی اور ربوبیت کی ذمہ داری لیا کرتا ہے جن کی نیتوں میں کوئی فتور نہ ہو اور جن کے اعمال میں کوئی فساد نہ ہو۔ جو صالح ہوں اور ہر قسم کے ظاہری اور باطنی فسادوں سے بچنے والے ہوں اللہ تعالیٰ ان کا متولی ہو جاتا ہے۔ ان کی ذمہ واری لے لیتا ہے وہ دنیا کو کہتا ہے کہ تم ان کے خلاف ہر قسم کی سازشیں کر لینے کے باوجود کامیاب نہیں ہو گے اس لئے کہ میرے یہ بندے میری پناہ میں آگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کی انہوں نے اپنے نفسوں کی اصلاح کی انہوں نے ہر قسم کے فساد سے خود کو بچایا یہ میری نگاہ میں صالح بن گئے اور میں ان کا ذمہ دار ہوں۔ میں ان کی حفاظت کروں گا۔ جب ان کو مدد کی ضرورت ہو گی میں ان کی مدد کیلئے آؤں گا۔ جب ان کو ڈھال کی ضرورت ہوگی میں ان کی ڈھال بنوں گا۔ جب ان پر دشمن کا وار ہوگا میری قدرت اس وار کو روکے گی اور ان کو تباہ اور ناکام نہیں ہونے دے گی۔ ہاں صالح کی آزمائش کے لئے یا اس اظہار کے لئے کہ یہ قوم واقعہ میں صالحین کی قوم ہے میں انہیں آزماؤں گا ضرور۔ انفرادی طور پر میں ان سے قربانیاں بھی لوں گا۔ ان کے اموال بھی لوٹے جائیں گے ان کے گھر بھی تباہ کئے جائیں گے ان کی جانیں بھی لی جائیں گی اور میری طرف منسوب ہونے والے اور میری گود میں بیٹھ کر اس کی لذت کا احساس رکھنے والے یہ افراد بڑی بشاشت سے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے تا ان کی قربانیاں اس حقیقت اور صداقت پر مہر بن جائیں کہ ان کے دوسرے بھائی بھی جو اس قسم کا دعویٰ کرتے ہیں اپنے دعویٰ میں سچے ہیں ورنہ زبان کے دعوے تو لایعنی ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ افراد سے قربانی لیتا ہے تا وہ جماعت کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرے اور تا وہ یہ بتائے کہ یہ وہ جماعت ہے جس کا ہر فرد اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ولایت پر قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عقل کو بھی تسلی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا ولی ہوں مگر شیطان بہرحال اپنا کام کرتا ہے اس لئے دل میں یہ شُبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت اور ہر آن ہمیں کیسے ملے گی۔ دشمن خفیہ سازشیں کر رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والی جماعت کو ان سازشوں کا علم تک نہیں ہوتا۔ بعض ایسے دشمن ہوتے ہیں جو خفیہ ہوتے ہیں اور خدا کی جماعت کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دشمن ہیں یا دوست کیونکہ انسان کا علم تو محدود اور ناقص ہے اس لئے قرآن کریم نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔
وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء: ۴۶)
اللہ تمہارے دشمنوں کو تم سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ خفیہ دشمنوں کو بھی جانتا ہے اور دشمنوں کی خفیہ سازشوں اور ان کی خفیہ دشمنیوں کو بھی جانتا ہے اور چونکہ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور تم نے اس کو اپنا ولی بنایا ہے اس لئے تمہیں تسلی رہنی چاہئے۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا وَّکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْراً (النساء: ۴۶) وہ ہستی ہی ولی ہونے کے قابل اور اہل ہے جس کا علم وسیع ہو اور جس کی قدرت میں کوئی نقص اور خامی نہ ہو اور اس چیز کو ہمارے نفوس پر اور ہمارے ذہنوں پر واضح کرنے کے لئے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو آتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی مرضی کے بغیر اور اس کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر اس کی مخالف بن کر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے۔
وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَيْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا
(فاطر: ۴۵)
یعنی جب اللہ تعالیٰ ولی بنتا ہے تو اس کا عبد اور اس کا غلام اس پر اس لئے بھروسہ کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو زمین و آسمان میں کوئی چیز ناکام نہیں کر سکتی کیونکہ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا اس کے علم اور اس کی قدرت نے ہر شی کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ کوئی خفیہ وار اللہ تعالیٰ پر نہیں کیا جا سکتا اور کوئی بھرپور کامیاب وار بھی اللہ تعالیٰ پر نہیں کیا جا سکتا۔ خفیہ وار تو اس پر اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ علیم ہے اور کامیاب وار اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قدیر ہے۔ وہ سب قدرتوں کا مالک ہے کوئی وجود یا لوگوں کا کوئی مجموعہ اور جماعت ایسی نہیں ہو سکتی جو خداتعالیٰ سے چھپ کر خفیہ سازشوں کے نتیجہ میں اس کے ارادوں میں خلل ڈالے اور انہیں ناکام کر دے اور نہ دنیا میں کوئی ہستی ایسی ہے اور نہ ساری دنیا (مجموعی طور پر) میں ایسی طاقت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شئی کا فیصلہ کرے تو اس کے فیصلہ میں روک بن جائے یا جب وہ اپنی جماعت کی حفاظت پر کھڑا ہو جائے تو وہ کامیاب وار اس کی جماعت کے خلاف کرے۔ وہ قدیر ہے اس کی قدرت نے ہر شئی کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر کوئی چیز ہو نہیں سکتی اور چونکہ وہ علیم اور قدیر ہے اس لئے کوئی تدبیر اس کی تدبیر کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتی اور جس کی تدبیر کے خلاف کوئی تدبیر کامیاب نہ ہو سکے اسی کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ (الحج:۷۹) وہ سب سے اچھا آقا، سب سے بہتر دوست ہے اور سب سے زیادہ ناصر و مددگار اسی کی ذات ہے اور اسی پر خدا کے بندے اور خدا کی جماعتیں بھروسہ کیا کرتی ہیں۔ ہمارے جسم انسانی جذبات کی وجہ سے دکھ تو اُٹھاتے ہیں اس سے وہ بچ نہیں سکتے لیکن ہمارے سینوں میں بزدلی کے خیالات نہیں آتے۔ ہمارے سینوں میں مایوسی کے خیالات نہیں آتے۔ ہمارے دلوں میں اپنے ربّ کے خلاف بدظنی کے خیالات نہیں پیدا ہوتے۔ ہمارے دل زخمی تو ہوتے ہیں مگر ہمارے سینے اللہ تعالیٰ کے نور اور اس پر توکل سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کی تسلی دینے والی آواز تسلی دیتی ہے کہ گھبراؤ نہیں میں جس کی تدبیر کے مقابلہ میں کوئی تدبیر نہیں ٹھہر سکتی تمہارا حامی اور مددگار ہوں۔
پس جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ قرآن کریم کے اس ارشاد کے مطابق ’’اللہ‘‘ کی ولایت حاصل کرنے کی کوشش کریں جس نے الکتاب یعنی قرآن کریم کو ایک کامیاب ہدایت کے طور پر اُتارا ہے۔ اس کو صحیح معنی میں اپنا آقا بنائیں یعنی اس کی نگاہ میں بھی وہ اس کے عبد بن جائیں اور وہ ان کا آقا ہو اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے (جیسا کہ اس مختصر سی آیت میں بڑی وضاحت سے بتایا گیاہے) کہ ’’اَلْکِتَاب‘‘ پر پوری طرح عمل کریں اور ایک کامل اور مکمل کتاب سے وہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو کامل اطاعت کے ساتھ اور پوری مستعدی کے ساتھ اس کی بتائی ہوئی راہوں پر چلتا ہے۔ جو شخص اطاعت میں کامل نہیں جو اپنے مجاہدہ میں ناقص ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اس رنگ میں تو حاصل نہیں کر سکتا جس رنگ میں وہ شخص حاصل کرتا ہے یا وہ جماعت حاصل کرتی ہے جو اپنی اطاعت میں کامل ہو اور جو اپنے مجاہدہ میں کوئی خامی اور نقص نہیں رکھتی۔
پس اللہ تعالیٰ ولی تو ہے لیکن وہ ولی اس کا بنتا ہے جس نے اس کی کامل کتاب پر عمل کیا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے غیروں کی گالیاں سنیں اور انہیں برداشت کیا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے غیروں کے ظلم سہے اور اُف نہ کی اور ظلم کے مقابلہ میں ظالمانہ راہوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ یہ سمجھا کہ ظلم کو روکنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بندبنایا ہے۔ ظلم اس بند سے ٹکرائے گا اور واپس چلا جائے گا۔ میں ظلم کو مکان اور زمان کے لحاظ سے آگے نہیں بڑھنے دوں گا سارے ظلم اپنے پر سہہ لوں گا اور دوسروں کو ظالمانہ سازشوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کروں گا۔ میں ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہیں کروں گا بلکہ میں ظلم کے مقابلہ میں محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور حسن سلوک اور عمل صالح اور قول سدید دکھاؤں گا اس لئے کہ میرا ربّ مجھ سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنی پناہ میں لے لے اور حقیقی معنی میں وہ مجھے اپنا عبد اور غلام بنا لے اور سچے طور پر وہ میرا آقا بن جائے۔ وہ میرا حامی اور مددگار بن جائے اور میرے کاموں کی ذمہ داری اُٹھا لے تب میں دشمن کے ہر شر اور ہر منصوبہ اور ہر سازش اور ہر وار سے محفوظ ہو جاؤں گا۔ اس صورت میں ہی مَیں ان سے محفوظ ہو سکتا ہوں اس کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔
پس جماعت کے ہر فعل، جماعت کی ہر فکر اور جماعت کے ہر تدبر سے یہ آواز اُٹھنی چاہئے۔ اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ اللہ ہمارا ولی ہے۔ اس کے سوا نہ ہم کسی سے ڈرتے ہیں اور نہ کسی سے خوف کھاتے ہیں اور نہ کسی کی طاقت کی وجہ سے ہم پر ایسا رُعب طاری ہوتا ہے کہ ہم یہ سمجھنے لگیں کہ شاید وہ ہمیں ناکام کر دے گا۔ ہم مظلوم ہیں اور ہم مظلوم رہیں گے۔ ہم ظالم کبھی نہیں بنیں گے۔ ہم ظلم کو مٹائیں گے۔ ہم ظلم پر ہمدردی اور غمخواری کا پانی چھڑکیں گے تا شیطان کی یہ آگ ٹھنڈی ہو جائے۔ ہم اس میں اپنے غصہ اور اپنے تکبر اور اپنے شرک کی لکڑیاں نہیں ڈالیں گے کہ یہ آگ اور بھڑکنے لگ جائے۔
غرض جماعت یہ دعائیں کرتی رہے کہ اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ میں جس مقام کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ وہ مقام انہیں عطا کرے اور سچے طور پر وہ خدا کی پناہ میں آ جائیں اور خدا ان کی مدد اور نصرت کے لئے ہر وقت تیار ہو اور اس طرح پر وہ دشمن کی سازش اور اس کے وار سے محفوظ ہو جائیں۔ اس مقام کے حصول کے لئے جس قسم کی قربانیاں خدا چاہتا ہے وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے حضور وہ قربانیاں پیش کریں تا بنی نوع انسان پھر امن اور محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری کی فضا میں زندگی گزارنے لگیں اور ظلم کا تسلسل ٹوٹ جائے اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔ نہ ظالم دنیا میں نظر آئے اور نہ مظلوم دنیا میں نظر آئے۔ بھائی کو بھائی نظر آئے بہن کو بہن نظر آئے۔ باپ کو بیٹا نظر آئے بیٹے کو باپ اور ماں نظر آئیں۔ خاوند کو بیوی نظر آئے اور بیوی کو خاوند نظر آئے۔ الغرض انسان کو انسان نظر آئے لیکن کسی کو نہ ظالم نظر آئے نہ مظلوم نظر آئے۔ خدا کے سب بندے خدا کی امان اور اس کی رحمت کے نیچے اکٹھے ہو جائیں اور وہ جو دنیا کا محسن اعظم تھا اس کے ٹھنڈے سایہ تلے آ جائیں اور امن اور فلاح اور کامیابی اور سکون کی زندگی گزارنے لگیں۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۲؍ مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭

اسلام کی عظمت کے مٹانے کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴ ؍فروری بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ سوائے عاجزانہ راہوںکے اختیار کرنے کے نجات کی کوئی راہ نہیں۔
٭ تمہارے ایمان کی صداقت کو پرکھنے کے لئے تمہارا امتحان لیا جائے گا۔
٭ اے خدا تو ہمیںہر حالت میں اور ہر معنی میں صبر کی توفیق عطا کر۔
٭ رضائے الٰہی کے حصول کے بعد تمہیں اس کی ناراضگی کبھی نہیں ملے گی۔
٭ غلبہ اسلام کے لئے جو بھی تقاضا ہے جماعت کا فرض ہے کہ پورا کرے۔


تشہد و تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ۔
اسلام کی قوت کم کرنے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے مٹانے کے لئے دنیا میں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طریقوں سے بھی منصوبے ہو رہے ہیں اور سازشیں کی جا رہی ہیں اور ان تمام منصوبوں اور ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیاہے۔ جب ہم اپنے نفسوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو خود کو بے کس اور کمزور پاتے ہیں۔ سوائے توکل کے کوئی پناہ نہیں پاتے۔ سوائے دعا کے کوئی چارہ نہیں دیکھتے۔ سوائے عاجزانہ راہوں کے اختیار کرنے کے نجات کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ اسی لئے گزشتہ سال میں نے جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ دوست کثرت سے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمْ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰٓی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں اور میں نے جماعت سے کہا تھا کہ جو دوست بڑی عمر کے ہیں۔ یعنی جن کی عمر ۲۵ سال سے اوپر ہے وہ ہر روز کم از کم دو سَو بار یہ دعا پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس کی تسبیح بیان کریں اور جن کی عمر ۱۵ سے ۲۵ سال تک ہے وہ یہ دعا سَو بار ورد کریں اور جن کی عمر ۷سال سے ۱۵سال تک ہے وہ یہ دعائیں ۳۳ بار پڑھیں اور جن کی عمر۷ سال سے کم ہے وہ چھوٹے بچے بھی جو الفاظ اُٹھانے لگتے ہیں جنہوں نے بولنا شروع کیا ہوتا ہے ان سے بھی ان کی مائیں یا ان کے والدین یا ان کے مربی یہ دعا کم از کم ۳ بار پڑھوا دیا کریں۔
میں نے یہ تحریک مارچ کے وسط میں کی تھی اور مارچ کے آخر کسی وقت محرم شروع ہو رہا تھا۔ میں نے تحریک کی تھی کہ یکم محرم سے ایک سال تک کے لئے دوست یہ دعا کرتے رہیں اس کے بعد میں نے جون میں احباب جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے ذمہ جو کام ہے وہ بڑا سخت ہے وہ بڑا مشکل ہے۔ ہم کمزور ہیں۔ اسلام کا مخالف ظاہری اور مادی اور دنیوی لحاظ سے ہر قسم کی طاقتیں رکھنے والا ہے اور اسکے پاس تمام اسباب موجود ہیں۔ ظاہر پر نگاہ ڈالیں تو ہم مقابلہ کرنے کے قابل نہیں لیکن ہمیں اپنی قوتوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنی بشری کمزوریوں سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم اپنی بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خود کو محروم کر دیں اور اس طرح اسلام کی فتح کا دن قریب لانے کی بجائے ہماری ہستیاں انہیں دور لے جائیں۔ اس لئے بڑی عمر کے احباب جماعت جو ۲۵ سال سے زائد عمر کے ہیں وہ سَو بار استغفار پڑھا کریں اور ان میں سے جو چھوٹی عمر کے ہیں ۱۵سے ۲۵ سال کی عمر کے ۳۳ بار اور اور ۱۵ سے کم عمر والے ۱۱ بار استغفار پڑھا کریں۔ اس کے بعد میں نے جماعت کو کم از تعداد مقرر کئے بغیر یہ تحریک کی تھی کہ یہ دعا کثرت سے پڑھیں۔
رَبِّ کُلُّ شَيْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا
میں آج ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ سال ختم ہونے والا ہے دوست دعائیں چھوڑیں نہ! بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جو حالات رونما ہو رہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعاؤں کو کم کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ کریں۔ کم سے کم کی تعداد تو میں وہی رکھنا چاہتا ہوں بڑھانا نہیں چاہتا لیکن خداتعالیٰ جن لوگوں کو ہمت اور توفیق دے اور جن کے دلوں میں اسلام کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا شعلہ پہلے سے زیادہ شدت سے بھڑک رہا ہو وہ پہلے سے زیادہ کثرت کے ساتھ حمد اور تسبیح اور درود کا ورد کریں۔
اس کے علاوہ میں آج ایک نئی دعا بھی ان دعاؤں میں شامل کرنا چاہتا ہوں دوست اس دعا کو بھی کثرت کے ساتھ پڑھیں اور وہ یہ ہے۔
رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (البقرہ: ۲۵۱)
یہ دعا قرآن کریم میں روایتًا ہی بیان ہوئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہی انبیاء علیہم السلام کو دعائیں سکھاتا رہا ہے اور جب ان کو قرآن کریم میں دوہرایا گیا ہے تو اسی غرض سے دوہرایا گیا ہے کہ ایک مسلمان بھی ان دعاؤں کی طرف متوجہ ہو اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دعا میں یہ سکھایا ہے کہ یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا! ہمیں کمال صبر عطا کر اور ہمیں ثبات قدم بخش۔ پاؤں میں کبھی لغزش نہ آئے اور وہ جو تیرے اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اور مخالف اور تیری توحید کے خلاف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے خلاف منصوبے باندھنے والے اور سازشیں کرنے والے ہیں ان کے مقابلہ میں خود ہماری مدد کو آ تا کہ تیری توحید قائم ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت کو انسان کا دل تسلیم کرنے لگے اور وہ آپ کی برکات اور فیوض سے حصہ لے۔
اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا اَفْرِغْ کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ جب کنوئیں سے ڈول میں پانی نکالا جائے تو اس کو اس طرح اُنڈیلا جائے کہ وہ خالی ہو جائے۔ یعنی پورے کا پورا پانی ڈال دیا جائے۔ پس اس ڈول کو خالی کر دینے کو افراغ کہتے ہیں۔ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمیں صبر کا کمال عطا کر ہم پر سارے کا سارا صبر نازل کر۔
قرآنی محاورہ میں صبر کے بہت سے معانی ہیں۔ صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے نفس کو سختی کے ساتھ احکام شریعت کا پابند بنایا جائے اور ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کے خلاف کمال مجاہدہ کیا جائے۔ یعنی اوامر کی اتباع اور پیروی اور تعمیل احکام اور جو نواہی ہیں ان سے پورے طور پر بچنا اور اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کرنا کہ وہ کہیں ہوائے نفس کا شکار نہ بن جائے اور یہ سب کچھ رضائے الٰہی کی خاطر کرنا۔
تو یہ دعا ہے کہ اے خدا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا ہمیں اس رنگ میں کمال صبر عطا کر کہ ہم تیری شریعت کے کامل اور سچے متبع بن جائیں اور وہ راہیں جو تیری ناراضگی کی طرف لے جانے والی ہیں ان راہوں کو اپنے نفس پر کُلّی طور پر مسدود کر لیں۔ ہوائے نفس کا شکار نہ بنیں اور یہ اس لئے نہ کریں کہ ہمیں دنیا کے اموال ملیں اور ہمارے دل میں اس دنیا کی لذتوں کی جو خواہش ہے وہ پوری ہو بلکہ یہ اس لئے کریں کہ ہمیں تیری رضا مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا کی یہ دعا کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ اوامر پر کاربند رہو اور نواہی سے بچتے رہو کہ عمل کی توفیق اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور دعا سے اسے حاصل کرنا چاہئے۔
صبر کے ایک معنی یہ ہیں (اگر اس پہلے معانی کو دو کہہ دیں یعنی شریعت کے احکام کی پابندی اور نواہی سے بچنا تو) اس کے تیسرے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصائب آئیں ان سے انسان گھبرائے نہیں بلکہ انہیں بشاشت کے ساتھ برداشت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم میری شریعت پر عمل کرو گے اور منکر سے بچو گے۔ جب تم میری بتائی ہوئی تعلیم کی دنیامیں اشاعت کرو گے ۔جب وہ دنیا جو نفس پرستی اور عیش پرستی میں محو ہے ان کو ان کی برائیوں سے روکو گے تو یقینا وہ تمہارے خلاف ہر قسم کے منصوبے کریں گے۔ سازشیں کریں گے ان کے شر سے بچنے کیلئے مجھ سے دعا کرو۔ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا کہ اے ہمارے ربّ! ہم تیرے منہ کی خاطر تیرے حکم پر کاربند ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور تیری ناراضگی کے خوف سے تیری بتائی ہوئی نواہی سے بچتے ہیں لیکن ہمیں یہ اندھی دنیا ستانے لگ جاتی ہے۔ ہمیں دکھ دینے لگ جاتی ہے یہ نہیں چاہتی کہ تیرا بول بالا ہو۔ تیری شریعت قائم ہو۔ یہ اندھی دنیا نہیں چاہتی کہ اسلام کی جو مسرتیں ہیں وہ انہیں ملیں کیونکہ اس طرح انہیں دنیا کی مسرتیں اور لذتیں اور عیش چھوڑنے پڑتے ہیں۔ ہم تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اگر اس راہ میں مصائب آئیں جیسا کہ الٰہی جماعتوں پر آیا کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے فضل سے یہ توفیق دینا کہ ہم ان مصائب کے مقابلہ میں صبر سے کام لیں اور ہمارے دل گھبرا نہ جائیں اور ہم ان مصائب کے وقت ایسا نمونہ دکھائیں کہ دنیا پر ان کا اچھا اثر ہو اور دنیا یہ سمجھنے لگے کہ جب خدا کے اتنے کمزور بندے ہر قسم کے مصائب کو برداشت کر رہے ہیں تو ضرور کوئی بات ہے ان کی توجہ اس طرف پھرے کہ یہ تہی دست اور قوتوں سے خالی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ایسی قوت اور طاقت ہے جس قوت اور طاقت کا انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔
پس صبر کے ایک معنی ہیں دشمن کے منصوبوں اور سازشوں کا حوصلے اور جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہا کرو کہ اے ہمارے ربّ! اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا جومنصوبے اسلام کے خلاف باندھے جائیں جو سازشیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جائیں تو ہمیں حوصلہ اور جرأت عطا کر کہ ہم ان کا مقابلہ کریں اور انہیں تیرے فضل سے ناکام بنا دیں۔
پھر صبر کے چوتھے معنی اس امتحان کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا لیتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ صرف ایمان کا اقرار اور دعویٰ یا اعلان جو ہے وہ تمہارے کام نہیں آئے گا۔ تمہارے ایمان کی صداقت کو پرکھنے کیلئے تمہارا امتحان لیا جائے گا اور وہ امتحان مختلف طریقوں سے ہوگا۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حوادث زمانہ کی شکل میں امتحان کا پرچہ ڈالے گا۔ بچے فوت ہو جائیں گے۔ حوادث آئیں گے فصلیں تباہ ہو جائیں گی۔ تجارتوں میں گھاٹے پڑیں گے لوگ طعنے دیں گے کہ مسلمان ہوگئے، احمدی ہوگئے دیکھو! تمہیں کتنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو خالی دعویٰ کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لے گا اور تمہیں حوادثِ زمانہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت پورے صبر سے ان حوادث کو برداشت کرنا تمہارا کام ہے۔ تمہارا سینہ ایسے امتحان کے وقت تنگ نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمہارے سینہ میں ایک بشاشت پیدا ہونی چاہئے کہ خدا نے میرا امتحان لیا اور خدا نے اپنے فضل سے مجھے توفیق دی کہ میں اس کے اس امتحان میں کامیاب ہوجاؤں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہو ’’اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا‘‘ کہ اے ہمارے ربّ! تو جب بھی ہمارا امتحان لینا چاہے ساتھ ہمیں اس کی توفیق بھی دے کہ ہم تیرے اس امتحان میں کامیاب بھی ہوں اور جو ہمارے حقیر اعمال ہیں ان کا نتیجہ تیری خوشنودی اور رضا کی شکل میں نکلے۔ صبر کے پانچویں معنی ہیں زبان پر قابو رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہو ’’اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا‘‘ کہ اے خدا! ہمیں اس بات کی قوت بخش کہ ہم اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھیں اور اسلام کی اشاعت میں اور اسلام کے حق میں جو جدوجہد کی جائے اس کے وہ پہلو جو اخفاء میں رکھے جانے چاہئیں ہم انہیں اخفاء میں رکھیں، ان کو ظاہر نہ کریں اور تو نے ہماری زبان پر جو پابندیاں لگائی ہیں ہم صبر کے ساتھ ان پابندیوں کو اُٹھانے والے ہوں۔ صبر کے چھٹے معنی ہیں برداشت کے ساتھ انتظار کرنا، بے صبری نہ دکھانا۔ سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہا کرو کہ رَبَّنَـآاَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا اے ہمارے ربّ! ہمیں کمال صبر عطا کر۔ تو نے ہم سے بہت سے وعدے کئے ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہوں گے ایسا نہ ہو کہ ہمارے نفس جلدی کی خواہش کریں اور وہ یقین جو ایک مومن کے دل میں اپنے ربّ کے وعدوں پر ہونا چاہئے وہ یقین قائم نہ رہے اور ہم بے صبری دکھائیں اور پھر بے صبری کے نتیجہ میں ایسے بول بول دیں یا ایسے اعمال کر لیں جو تجھے ناراض کر دیں اور ہم تیری بشارتوں سے محروم ہو جائیں۔ پھر تو کوئی اور قوم یا کوئی اور نسل پیدا کرے جو تیرے وعدوں کی حامل ہو۔ جن کے حق میں تیری بشارتیں پوری ہوں۔ اے خدا! ایسا نہ ہو بلکہ ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرنے کی توفیق عطا کر اور ہمیں اس میں بھی کمال بخش تا ہم بے صبری کی مضرات سے بچنے والے ہوں اور صبر کے ساتھ تیرے وعدوں کا انتظار کرنے والے ہوں کیونکہ تو اپنے وعدوں کا سچا ہے تو نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت سب انسانوں کے دلوں میں بٹھائے گا۔ اس آسمانی فیصلے کا اس دنیا میں اجراء تو ضرور ہوگا لیکن اپنے وقت پر ہوگا۔ اس کیلئے ہمارے امتحان لئے جائیں گے اس کیلئے ہم سے مجاہدے طلب کئے جائیں گے۔ اس کے لئے ہمیں مصائب میں سے گزرنا پڑے گا۔ اس کیلئے ہمیں ان منصوبوں اور سازشوں کے خلاف تدابیر کرنی پڑیں گی جو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جا رہی ہیں۔ اے خدا تو ہمیں ہر حالت میں اور ہر معنی میں صبر کی توفیق عطا کر رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا صبرکے جو مختلف معنی مفردات راغب میں بیان کئے ہیں وہ دراصل مختلف آیات قرآنی کی تفسیر ہی ہیں اور جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ان معانی کو خود قرآن کریم میں پاتے ہیں جیسا کہ سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَـیْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ (یونس:۱۱۰)
اس میں پہلے معنی جو شریعت کے احکام پر سختی سے کاربند رہنے کے ہیں۔ اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے۔ قرآن کریم کی شریعت نے جو احکام تمہارے سامنے رکھے ہیں ان کی اتباع کرو۔ ’’وَاصْبِرْ‘‘ اور پورے مجاہدہ کے ساتھ، پورے زور کے ساتھ اپنے نفسوں کو احکام شریعت کا جو دائرہ ہے اس کے اندر باندھے رکھو اور قید رکھو۔ بے قیدی کی زندگی نہ گزارو۔ یعنی اتباعِ وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں صبر سے کام لو۔ یعنی پورے طور پر اپنے نفسوں پر زور دے کر شریعت کی پابندی کرو اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھو اور بے قید زندگی گزارنے کی کوشش نہ کرو۔ ’’وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ‘‘ اور اس میں چھٹے معنی بھی آ جاتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں کہ تم صبر کے ساتھ انتظار کرو۔ ہوگا وہی جو خدا نے چاہا اور پسند کیا۔ ہوگا وہی جس کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے لیکن ہوگا وہ اپنے وقت پر۔ اس واسطے بے صبری نہ دکھاؤ۔ صبر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرلے۔
’’وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ ‘‘ اوربہترین فیصلہ وہی کیا کرتا ہے۔ دنیا فیصلے کرتی اور اس کے فیصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دنیا کامیابیوں کی خواہش رکھتی اور ناکامیوں اور نامرادیوں کا منہ دیکھتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا فیصلہ کر دیتا ہے تو وہ’’ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ‘‘ جوفیصلہ کرتا ہے وہی ہوتا ہے لیکن ہوتا اس وقت ہے جو اس فیصلے کے ہونے کے لئے مقدر ہو۔ تمہیں بشارتیں دی گئی ہیں۔ اپنے وقت پر پوری ہوں گی لیکن تمہیں صبر سے انتظار کرنا پڑے گا۔ تمہیں صبر کے ساتھ امتحانات میں سے گزرنا پڑے گا۔ مصائب کو برداشت کرناپڑے گا مخالف کے منصوبوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ہوائے نفس سے بچنا پڑے گا۔ نفس کو مارنا پڑے گا خدا کے لئے موت کو اختیار کرنا پڑے گا تا تمہیں ایک نئی زندگی ملے اور احکام شریعت پر سختی کے ساتھ پابند رہنا پڑے گا۔ یہ کرنا پڑے گا اگر تم نے ان بشارتوں کا وارث اور حامل بننا ہے تو ’’وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہَ‘‘ صبر سے کام لویہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو جائے اور فیصلے کا اجراء ہو جائے اور وہ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ ہے اس کے فیصلوں کے وقت کی تعیین وہی جانتا ہے اور اس کے فیصلے حق و حکمت سے پُر ہوتے ہیں اور بھلائی سے معمور ہوتے ہیں۔
صبر کے ایک معنی مصائب کو خدا کی راہ میں برداشت کرنا اور ان پر گھبراہٹ ظاہر نہ کرنا ہے۔ اس کے متعلق سورۂ لقمان میں فرمایا۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (لقمان:۱۸) کہ تجھے خدا کی راہ میں جو تنگی و ترشی، دکھ اور مصیبت پہنچے اس پر صبر سے کام لے اور یقینا یہ بات ہمت والے کاموں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں ہی کو پسند کرتا ہے جن کے اندر ایک عزم ہوتا ہے جن کے اندر یہ یقین ہوتا ہے کہ میں خدا کے لئے اپنی زندگی گزار رہا ہوں اور جو شخص خدا کے لئے اپنی زندگی کو گزارتا ہے وہ ناکام اور نامراد نہیں ہوا کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بشارتیں اس کے حق میں پوری ہوتی ہیں اور وہی جماعت آخرکار دنیا میں کامیاب ہوتی ہے جس جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کہ وہ اسے کامیاب کرے گا۔
خدا تعالیٰ کا آسمانوں پر یہ فیصلہ ہے اور زمین پر اس فیصلے کا اجراء ہوگا کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس فیصلے کے اجراء کے لئے ایک زمانہ مقرر کیا ہے اور اس فیصلے کے اجراء میں ہمیں شامل کرنے کے لئے اور ان بشارتوں کا حامل بننے کے لئے اس نے بہت سی ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور ایک مومن ان ذمہ داریوں کی ادائیگی سے گھبراتا نہیں۔ وہ سختیوں کو برادشت کرتا اور مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا اور آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے قادر و توانا ربّ پر محکم یقین رکھتا ہے اور ان مصیبتوں کو کچھ چیز نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی اور زائل ہونے والی چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتوں کا جووعدہ دیا گیا ہے وہ لازوال نعمتیں ہیں وہ عارضی نعمتیں نہیں ہیں۔ وہ پائیدار رضا اور خوشنودیٔ الٰہی ہے۔
وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ
میں نے کہا ہے کہ صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے۔ زبان زیادہ تر اس وقت بے قابو ہوتی ہے جس وقت ایک دوسری بے قابو زبان انسان پر اندھا دھند وار کر رہی ہوتی ہے۔ طبیعت میں ایک جوش اور غصہ پیدا ہوتا ہے اور زبان سختی کے مقابلہ میں سختی کی طرف جھک جاتی ہے لیکن ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے فَاصْبِرْعَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ (طہ: ۱۳۱) جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں تمہیں غصہ تو آئے گا۔ تمہارے نفسوں میں جوش تو پیدا ہوگا۔ تمہاری زبان بے قابو ہونے کے لئے تڑپ رہی ہوگی مگر اس زبان پر وہ لگام ڈالے رکھو جو لگام میں نے تمہیں دی ہے۔ اسے بے قابو نہ ہونے دو۔
فَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ صبر سے کام لینا کیونکہ جب تم زبان کو قابو میں رکھو گے تو آسمان سے کئی زبانیں تمہارے حق میں کھلیں گی اور فرشتے آئیں گے اور ان دکھوںکا جواب، ان گالیوں کا جواب، ان سختیوں کا جواب، فرشتے دیں گے لیکن اگر تمہاری زبان بے قابو ہوگئی تو پھر تم فرشتوں کی مدد سے محروم ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زبان کو قابو میں رکھنے کیلئے ہم تمہیں ایک تدبیر بتاتے ہیں۔ ہم تمہیں ایک نسخہ دیتے ہیں جب زبان سختی کے مقابلہ میں سختی کرنا چاہے تو یہ نسخہ استعمال کرو۔ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ (طہ:۱۳۱) تم اپنی زبان کو اس وقت اپنے ربّ کی حمد میں لگا دو اور اس کی تسبیح میں لگا دو اسی آیت کے آخر میں فرمایا۔ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طہ:۱۳۱) یعنی اس وقت اس غرض سے حمد اور تسبیح شروع کر دو تا کہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرو۔ پس زبان کو قابو میں رکھنے اور زبان کی سختیوں اور زبان کے طعنوں اور زبان کی ایذاء اور زبان کے وار کا مقابلہ زبان سے نہیں کرنا۔
فَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ دشمن طعنہ دے گا۔ دشمن زبان سے سختی کرے گا، افتراء کرے گا، اتہام لگائے گا، سینوں کو چھلنی کر دے گا لیکن تمہاری زبان ان زبانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے نہیں بنائی گئی بلکہ تمہارے منہ میں زبان اس لئے رکھی گئی ہے کہ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ کہ خدا کی حمد کرتے رہو اور اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ پس جب غیر کی زبان، مخالف کی زبان اسلام پر ناجائز اعتراض کر کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے ہودہ افتراء باندھ کر تمہارے دلوں کو دکھائے تو تمہاری زبان اپنے قابو میں رہے اور اس کو قابو میں رکھنے کیلئے اس زبان سے خدا کی حمد اور اس کی تسبیح کے ترانے گانے شروع کر دو۔ ہمیں بعض دوسری آیات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ صبر کا حمد اور تسبیح سے بڑا تعلق ہے جیسا کہ آیہ مذکورہ یعنی فَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ میں بھی بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اور بعض دوسری آیات میں بھی صبر یا صبر کی بعض اقسام کا بڑی وضاحت کے ساتھ حمد اور تسبیح سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے اس لئے مجھے خیال آیا کہ جہاں ہم نے تسبیح اور تحمید کرنی ہے وہاں حصول صبر کے لئے بھی دعا کریں۔ اس دعا میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت ہے کہ
رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
ان آیات میں جو میں نے بعد میں دوستوں کے سامنے رکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے صبر کے مختلف معانی اور اس کی حکمتیں بیان کی ہیں ’’رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا … الخ‘‘ دعائیہ الفاظ میں ہے ہمیں اس طرف متوجہ کرنے کیلئے اور ہمارے دل میں ایک تڑپ پیدا کرنے کیلئے کہ ہمیں صبر کے حصول کیلئے دعا کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ سورۂ نحل (آیت: ۱۲۸) میں فرماتا ہے:۔
وَاصْبِرْ صبر کرو لیکن اللہ کی توفیق کے بغیر تم صبر نہیں کر سکو گے۔
’’وَمَاصَبْرُکَ اِلاَّبِاللّٰہِ‘‘ اللہ کی مدد کے بغیر تم صبر کر نہیں سکتے اس واسطے جب ہمارے اس حکم کی تعمیل کرنا چاہو کہ صبر سے کام لو تو تمہارے لئے ضروری ہو کہ خدا کے حضور جھکو کہ اے خدا! تو نے ہمیں (ان تمام معانی میں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے) صبر کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ہم کمزور بندے جانتے ہیں اور تو بھی جانتا ہے کہ اپنے طور پر صبر کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں اس لئے تو ہماری مدد کر۔
’’وَمَاصَبْرُکَ اِلاَّبِاللّٰہِ‘‘ کے تقاضا کے مدِّ نظر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھا دی کہ
رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا… الخ
اے ہمارے ربّ! ہمیں کمال صبر عطا کر کیونکہ خود ہی دوسری جگہ فرمایا تھا۔
’’وَمَاصَبْرُکَ اِلاَّبِاللّٰہِ‘‘ اللہ کی مدد کے بغیر صبر نہیں ہو سکتا۔ صبر کے حصول کے لئے خداتعالیٰ کی مدد کو اگر ہم اپنے الفاظ میں حاصل کرنے کی کوشش کریں تو الفاظ کے نقص کی وجہ سے شاید اس کو پا نہ سکیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی دعا کے ذریعہ صبر کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چونکہ خداتعالیٰ کے کلام میں جو دعائیں ہوتی ہیں وہ کامل ہوتی ہیں اس لئے اس کامل دعا کے نتیجہ میں اگر ہم خلوص نیت کے ساتھ اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ اس دعا کو کریں اس حقیقت اور ان معانی کو سمجھتے ہوئے جو اس میں بیان کئے گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ دعا ہمارے حق میں پوری ہو جائے گی اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود وہ دعا سکھا دی یہ بتانے کے بعد کہ ’’وَمَاصَبْرُکَ اِلاَّبِاللّٰہِ‘‘ صبر خدا کی مدد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ کی مدد کیسے حاصل کرنی ہے؟ خداتعالیٰ کہتا ہے دعا میں تمہیں سکھا دیتا ہوں جو یہ ہے۔
’’رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا‘‘ اب اس سے فائدہ اُٹھانا تمہارا کام ہے اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ (النحل:۱۲۸) کہ جب خدا کی مدد اور خدا کے فضل سے اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں جو صبر کے حصول کے لئے ہم نے تجھے سکھائی ہے تو صبر کی طاقت پائے تو ’’وَلَاتَحْزَنْ عَلَیْھِمْ‘‘ دشمن کے جو حالات ہیں وہ تجھے اس غم میں نہ ڈالیں کہ کہیں اسلام کو وہ نقصان نہ پہنچا دیں اور جوتدبیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تو کوئی تکلیف محسوس نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میری ہدایت کے مطابق تم صبر کرو گے تو میں تمہارے اس غم کو دور کر نے کے سامان پیدا کر دوں گا کہ کہیں دشمن اپنی مخالفانہ تدابیر میں کامیاب نہ ہو جائے اور تمہیں دل کے اس درد اور دل کے اس احساس سے بھی نجات دے دوں گا کہ مِمَّا یَمْکُرُوْنَ (النحل:۱۲۸)ان کی جو سازشیں ہیں ان سے اسلام کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کہیں نقصان نہ پہنچ جائے۔ نہ ان کے مکر کامیاب ہوں گے نہ ان کے منصوبے اپنی مراد کو پہنچیں گے۔ اگر تم میری ہدایت کے مطابق صبر سے کام لو گے اور اس صبر کو دعا کے ذریعہ سے کمال طور پر حاصل کر لو گے تو پھر جو دشمن کے منصوبے اور سازشیں ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گی۔ تمہیں جو خوف اور غم ہے وہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ یاد رکھو کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرہ: ۱۵۴) اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ (اٰل عمران: ۱۴۷) اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو اور جسے اللہ کا پیار حاصل ہو اس کو دنیا کا کوئی مکر نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَایَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا (اٰل عمران:۱۲۱) اگر تم صبر سے کام لو گے اور اللہ ہی کو اپنی ڈھال بناؤ گے اور اس کی پناہ میں آ جاؤ گے تو دشمن جتنے چاہیں منصوبے کرتے رہیں، سازشیں کرتے رہیں،مکر کرتے رہیں ’’لَایَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا‘‘ ۔ پس اس آیت میں بڑا زبردست وعدہ ہے جو ایک مومن کو دیا گیا ہے دشمن جو مرضی تدبیر کریں، مکر کریں، شازش کریں،منصوبہ باندھیں لَایَضُرُّکُمْ وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ اگرتم صبر سے کام لو گے۔ اگر تم حقیقتاً اللہ کی پناہ میں آ جاؤ گے تو شیطان اور اس کی ذرّیت کے وار کبھی تمہارے خلاف کامیاب نہیں ہوں گے پس اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو۔ اس کی ہدایت کے مطابق صبر کے شامیانوں کے نیچے خود کو لے آؤ۔
دوسرے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ’’ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا‘‘ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرو اور صبر پر دوام کے حصول کے لئے بھی دعا کرو یعنی یہ بھی دعا کرو کہ تمہیں کمال صبر کی توفیق ملے اور یہ بھی دعا کرو کہ تمہیں صبر پر دوام کی توفیق بھی ملے۔ ہمیشہ ملتی رہے یہ نہیں کہ چند سال تو خدا کے لئے تکالیف برداشت کر لیں اور پھر دل ٹوٹ گیا اور ہمت ہار بیٹھے اور جو کچھ حاصل کیا تھا وہ بھی کھو بیٹھو اور انجام بخیر نہ ہوا۔ اس واسطے ثبات قدم کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو اور ثبات قدم خدا کے فضل سے اس کو ملتا ہے جو صبر سے کام لیتا ہے۔
سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْ کُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ (محمد:۸)
اے مومنو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو یقینا تمہیں اس کی مدد حاصل ہو جائے گی اور جب اس کی مدد حاصل ہوگی تو تمہیں ثباتِ قدم بھی مل جائے گا۔ یہاں ’’اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ‘‘کا فقرہ استعمال کیا گیا ہے اور مفرداتِ راغب ہمیں بتاتی ہے کہ جب قرآن کریم نے یہ محاورہ استعمال کیا ہو کہ انسان اگر اللہ کی مدد کرے۔ وہ اللہ جو کہ قادر مطلق اور غنی اور بے نیاز ہے اس کو اللہ کی مدد ملتی ہے تو جب یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہو کہ جو شخص اللہ کی مدد کرے تو یہ نتیجہ نکلے گا یا وہ نتیجہ نکلے گا تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کا محتاج ہے بلکہ اس کے معنی ہوتے ہیں۔
اوّل یہ کہ اس کے بندے کی مدد کرے۔
دوسرے یہ کہ اس کے دین کی مدد کرے۔
تیسرے یہ کہ اپنی مدد کرے اللہ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کرنے سے اپنی مدد کرے اس عہد کی رعایت کرنے سے جو اس نے اپنے ربّ سے باندھا ہے پس اللہ کی مدد کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کا جوا اپنی گردن پر رکھ لے اور جن باتوں سے اللہ نے اسے روکا ہے ان سے وہ بچے، یہ معنی ہیں اللہ کی مدد کرنے کے اور یہی معنی جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں صبر کرنے کے ہیں۔ یعنی صبر اور نصرت ایک مفہوم کے لحاظ سے قریباً ہم معنی ہیں تو اللہ تعالیٰ اگرچہ یہاں نصرت کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن اس معنی میں استعمال کرتا ہے جس معنی میں صبر کے لفظ کو بھی استعمال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بالفاظ دیگر یہ فرمایا کہ اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ اگر تم صبر سے کام لو گے یَنْصُرْکُمْ تو وہ تمہاری مدد کو آئے گا اور اُس کی مدد کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں نیکیوں پر دوام حاصل ہو جائے گا۔ تمہیں مصائب کے برداشت کرنے کی اور دکھوں اور سازشوں اور دشمن کے مکر کے برداشت کرنے کی اور زبان کو قابو میں رکھنے کی دائمی قوت عطا ہو جائے گی، ثبات قدم عطا ہوگا یعنی یہ نہیں کہ ایک سال تو نہیں طاقت ملی اور اگلے سال پھر تم جہنم میں چلے جاؤ بلکہ جب تم اللہ کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہارا ثباتِ قدم تمہیں اس جنت سے پھر نکلنے نہیں دے گا کیونکہ وقت جو بھی تقاضا کرے گا تم اس کو پورا کرنے والے ہوگے۔
آج کا دن اسلام کے غلبہ کے لئے جو تقاضا کرتا ہے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس کو پورا کرے اور خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر صبر سے کام لو گے تو تمہیں ثباتِ قدم عطاہوگا۔ پھر تم نیکیوں پر ایک دوام پاؤ گے اور رضائے الٰہی کے حصول کے بعد تمہیں اس کی ناراضگی کبھی نہیں ملے گی۔
پھر فرمایا:۔
وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ اسلام کا جو منکر اور مخالف ہے وہ اسلام کو کمزور کرنے کیلئے جو بھی تدبیر کرے اس کے خلاف ہماری مدد کر۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں مدد تو کرتا ہوں لیکن میں مدد ان لوگوں کی کرتا ہوں جو میرے احکام کو مانتے اور میری خاطر اور میرے حضور ہر قسم کی مطلوبہ قربانیوں کو پیش کرتے ہیں اور تم اس کی توفیق بھی مجھ سے ہی پا سکتے ہو اس لئے تم دعا کرتے رہا کرو۔
رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
پس میں آج اس دعا کے کرنے کی تحریک کر رہا ہوں۔ اس دعا کے جو وسیع معانی ہیں میں نے ان کو ایک حد تک بیان کر دیا ہے۔ ان معانی کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جس حد تک ممکن ہو یہ دعا کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ دن میں کم از کم ۳۳ بار یہ دعا کیا کریں۔ اس پر زیادہ وقت نہیں لگے گا اور یہ کام زیادہ قربانی نہیں چاہتا لیکن اگر آپ ان معانی کو ذہن میں رکھ کر یہ دعا کریں تو یہ بات بڑی برکتوں کا موجب ہوگی۔
اس وقت ایک بڑی وسیع اور گہری سازش اسلام کے خلاف ہو رہی ہے جو دراصل پہلے عیسائیت کے خلاف تھی جو بہت حد تک کامیاب ہوگئی۔ اب اس نے اپنا رُخ اسلام کی طرف پھیرا ہے اور اس سازش کی تفاصیل جب سامنے آتی ہیں تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسان کو اپنی کمزوری اور بے بسی کا شدت سے احساس ہونے لگتا ہے اور انسان کا ذہن پریشان ہو جاتا ہے کہ اتنی بڑی بین الاقوامی سازش کا اسلام ہمارے ذریعہ سے (کیونکہ خدا نے ہمیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے) کس طرح مقابلہ کرے گا۔ تب اللہ تعالیٰ ہمت بڑھانے کے لئے اور عزم کو پیدا کرنے کیلئے اور اپنے وعدوں پر پختہ یقین پیدا کرنے کیلئے ان دعاؤں کی طرف توجہ دلا دیتا ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ جماعت کو کہوں کہ یہ دعائیں کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دعاؤں کے نتیجہ ہی میں اگر وہ خلوص نیت سے کی جائیں اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے کی جائیں۔ ہمیں ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے گاجو اس نے ہم پر ڈالی ہیں۔ ہمیں ہر معنی میں، ہر حالت میں، ہر وقت میں صبر کی توفیق عطا کرے گا ثبات قدم دے گا اور ایسے افعال کی توفیق دے گا کہ جس کے نتیجہ میں اس کی مدد انسان کو مل جاتی ہے۔ اگر یہ دعائیں نہ ہوتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا سہارا نہ ہوتا اگر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر یقین نہ ہوتا تو انسان ایک لحظہ کے لئے سوچ نہ سکتا کہ اسلام کے خلاف اتنی عظیم سازش ناکام ہوکر رہ جائے گی۔
مجھے ایک اور سازش کی تفاصیل کا ابھی چند دن ہوئے علم ہوا اور جب میں نے پڑھا میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پھر جب میں نے قرآن کریم کو دیکھا تو ہر وہ بات جس کا ذکر سازش میں کیا گیا ہے اس کا ردّ میں نے قرآن کریم میں پا لیا اور اس سے دل کو تسلی ہوگئی کہ اس علّام الغیوب نے اس سے قبل کہ اسلام کے خلاف اس پُرانی سازش کی تفصیل کا اظہار ہو ہمارے دل کی تسلی کے لئے اس سازش کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کر کے ان کی ناکامی کے متعلق بشارت یا وعدہ دیا ہوا ہے۔
پس انسان بڑا کمزور ہے اور اللہ تعالیٰ عظیم قدرت اور عظیم شان والا ہے۔ خود سوچو کہ ہمارے جیسے کمزور انسانوں کو خدا یہ کہے کہ میں تمہارے ذریعہ سے اسلام کو غالب کرنے والا ہوں۔ انسان کے کان میں جب یہ آواز پہنچتی ہے تو عقل مند انسان پر اسی وقت ایک موت وارد ہو جاتی ہے۔ لاشئی محض ہونے کا احساس بیدار ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کو نیم مُردہ سے ظاہر کرنا چاہتا ہے یعنی ایک نیست کے ذریعہ اپنی کامل قدرتوں کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور انتخاب کر لیا ہے میرے اور تمہارے جیسے انسانوں کا۔ پھر خدا تعالیٰ ایک یقین بخشتا ہے، عرفان عطا کرتا ہے۔ تدبیریں سمجھاتا ہے، خود دعائیں بتادیں کہ یہ دعائیں پڑھو۔ میرے حضور آؤ۔ اپنے پر موت وارد کرو (پھر موت وارد کرنے کے طریقے بتا دیتا ہے) میری رضا کو حاصل کرو رضا کے حصول کے لئے دعائیں اور تدابیر سکھا دیتا ہے ایک کمزور میں اپنی کامل قدرتوں کا جلوہ دکھا کے دنیا کو اس بات کے تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتا ہوں کہ اس ذرّہ ناچیز نے ایک روحانی انقلابِ عظیم بپا کیا حالانکہ اس انقلابِ عظیم کو بپا کرنے والا خود وہی ہوتا ہے اور اس کی قدرت کے جلوے ہوتے ہیں لیکن بیچ میں ایک پردہ لے آتا ہے۔
خدا کرے کہ وہ ذرّہ ناچیز ہم ہی بن جائیں۔ اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے کوئی اور اس کا وہ ذرّہ ناچیز نہ بنے بلکہ ہمیں ہی اس کی کامل رحمت، اس کا کامل فضل، اس کی کامل رضا حاصل ہو اور اس کی اس تقدیر اور حکم کا اجراء ہمارے ذریعہ سے ہو جو آسمانوں پر ہوچکا اور جس کا زمین پر اجراء ہونے والا ہے۔ یعنی توحید حقیقی کا قیام۔ اسلام کا عالمگیر غلبہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل فتح۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۹؍ مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا ۷)

مذہب کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی محبت کو حاصل کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱ ؍فروری ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ کثرت سے استغفار کرو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپ لے۔
٭ ایٹمی قوت کے غلط استعمال کو انسانی قوت تسلیم نہیں کرتی۔
٭ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے لئے اخلاقی، روحانی قوتیں، طاقتیں اور استعدادیں عطا کی گئی ہیں۔
٭ جب تک استقامت نہ ہو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہیں کر سکتے۔
٭ قرآن کریم کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کرکے عبد بننے کی کوشش کرو۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ
(حٰمٓ السّجدہ: ۷)
اس کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں فرماتا ہے کہ تو دنیا میں اعلان کر دے کہ میںبھی تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں اللہ تعالیٰ نے میرے پر کامل وحی کی ہے۔ جس کی غرض یہ ہے کہ انسان کا اپنے ربّ کے ساتھ ایک پختہ اور حقیقی تعلق قائم ہو جائے۔ تمہاری طرح کا ایک انسان ہونے کے باوجود میں نے اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم پر عمل کر کے اور خداتعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے تقاضوں کو پورا کر کے اس سے ایک پختہ اور سچا اور حقیقی تعلق پیدا کر لیا ہے۔ اسی طرح تم بھی ایک پختہ تعلق اپنے ربّ سے پیدا کر کے اس کی رضا اور اس کی رحمت کو حاصل کر سکتے ہو۔
پس شریعت اسلامیہ کے نزول کی اصل غرض بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تمام مذاہب کے نزول، تمام صحف سماوی کے نزول اور تمام انبیاء کی بعثت کی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی استعداد اور قوت کے مطابق اپنے ربّ سے ایک تعلق جو حقیقی ہو جس میں کوئی فساد نہ ہو جو سچا ہو قائم کرے۔ انسانی قویٰ میں بہترین نشوونما کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک اعلیٰ اور ارفع شریعت نازل ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نے یہ ثابت کیا کہ اس شریعت پر عمل پیرا ہو کر انسان کا اپنے ربّ کے ساتھ اس قسم کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں اس کی ہر قسم کی رحمتوں اور اس کی ہر قسم کی رضا کا وارث بن جاتا ہے اور ایک ایسی زندگی پاتا ہے جس سے بہتر کوئی زندگی ہو نہیں سکتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو حاصل کیا ہے۔ اسی طرح تم بھی اگر چاہو تو ان نعمتوں کو حاصل کر سکتے ہو۔ شرط یہ ہے کہ تم اپنے خدائے واحد و یگانہ کی معرفت حاصل کر لو اور اس کی عظمت اور جلال کے تقاضوں کو پورا کرو اور جب تم اس سے ایک دفعہ تعلق قائم کر لو تو پھر تمہارے پاؤں میں لغزش نہ آئے تمہیں استقامت کا مقام حاصل ہو تمہیں صبر کا مقام حاصل ہو تو تم بھی میری طرح اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنے ربّ کی نعمتوں کے وارث ہو جاؤ گے لیکن اس بات کو یاد رکھو کہ جس طرح میں ایک بشر ہوں تم بھی بشر ہو اور بشری کمزوریوں کے ضرر سے بچنے کیلئے خداتعالیٰ کی مغفرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے وَاسْتَغْفِرُوْہُ تم کثرت کے ساتھ استغفار کرو اور اتنی کثرت کے ساتھ استغفار کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تمام بشری کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور جب تمہاری تمام بشری کمزوریاں خداتعالیٰ کی مغفرت کی چادر کے نیچے چھپ جائیں گی تو تمہاری تمام بشری قوتیں اور استعدادیں خداتعالیٰ کے حکم سے صحیح نشوونما پائیں گی اور تم خداتعالیٰ کے قرب کو حاصل کروگے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَائَٓ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِ (بقرہ:۲۰۸)
کہ یہ حکم سننے کے بعد کہ ایک کامل اور مکمل شریعت کا نزول ہو چکا اور ایک حقیقی اور سچے تعلق باللہ کا سامان پیدا ہو گیا اس لئے اے نوع انسان فَاسْتَقِیْمُوْا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جنہوں نے اپنے نفوس کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کے لئے بیچ ہی ڈالا اور عمر بھر کا سودا کر لیا یہ نہیں کہ آج ایک عہد باندھا اور کل اسے توڑ دیا۔ یہ نہیں کہ آج تو اپنے ربّ سے ایک سودا کیا اور کل اسے فسخ کیا اور بلکہ عمر بھر کے لئے انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے نفوس کا اپنے ربّ کی رضا کے لئے سودا کر لیا اور اس طرح پر انہوں نے اپنے اس ربّ کی رأفت اور رحمت کے جلوے دیکھے جو ان لوگوں کے لئے رؤوف ہے جو اس کے حقیقی بندے بن جاتے ہیں اور اس قدر حسین جلوے دیکھے کہ ان کی وجہ سے اُمّم سابقہ اُمت مسلمہ پر رشک کریں۔
جس نفس کے سودے کا یہاں ذکر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو جو اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں اسے جو باطنی اور ظاہری قوتیں اور استعدادیں عطا ہوئی ہیں وہ اس غرض کے لئے ہیں کہ انسان اپنے ربّ سے سودا کر لے یعنی یہ عطا ہے وہ ظاہری اعضاء کے لحاظ سے ہو یا باطنی اور روحانی قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے ہو، ہے ہی اس غرض کے لئے کہ انسان اپنے ربّ سے ایک زندہ اور سچا تعلق پیدا کر لے اور اس کی نعمتوں کا وارث بنے۔ جو قوتیں اور استعدادیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں ان کی اصل غرض یہی ہے کہ ایک اسے اللہ تعالیٰ کی کمال معرفت حاصل ہو جائے دوسرے اس معرفت کے نتیجہ میں حقیقی پرستش اور عبودیت پر دوام اسے مل جائے اور تیسرے اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھنے کے بعد وہ اس کی محبت میں فنا ہو جائے۔ انسانی فطرت بھی اسی کی گواہی دیتی ہے اور اس پر شاہد ہے کہ انسان نے جب بھی اپنے اعضاء کو جو خدا تعالیٰ کی عطا تھے اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کو جو روحانی ارتقاء کے لئے اسے دی گئی تھیں غلط راہوں پر استعمال کیا تو اس کے نفس نے تسلی نہیں پائی۔ ہم ایک موٹی مثال لے لیتے ہیں آج کی دنیا میں انسان نے خداداد قوتوں اور طاقتوں کے استعمال سے ذرّے کی طاقت (جسے ایٹامک انرجی Atomic Energyکہتے ہیں) کا علم حاصل کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ذرّہ میں جو قوت چھپا رکھی تھی انسان نے خداتعالیٰ کی دی ہوئی عقل، فراست اور سائنس (انسان جو سائنس کے تجربے کرتا ہے ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی روشنی پیدا ہوتی ہے) کے نتیجہ میں اس کا علم حاصل کیا لیکن جہاں اس نے اس کا ایک حد تک صحیح استعمال کیا یعنی اس نے اسے انسان کے فائدہ کے لئے استعمال کیا وہاں بڑی حد تک اس کا استعمال اس رنگ میں بھی کیا کہ وہ انسان کی ہلاکت کا موجب بن جائے۔
اب دیکھو یہ ایک قوت ہے اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ انسان نے اس کا ایک حد تک غلط استعمال کیا ہے اور اس غلط استعمال یا غلط استعمال کے امکان کے خلاف وہ لوگ بھی آئے دن مظاہرے کر رہے ہیں جو خداتعالیٰ کے بھی منکر ہیں۔ ایٹمی قوت کے غلط استعمال کے خلاف یہ مظاہرے اس بات پر شاہد ہیں اور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسانی فطرت ان چیزوں کو پسند نہیں کرتی۔ ابھی ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم نہیں ابھی انہوں نے اس کا عرفان حاصل نہیں کیا اس کے باوجود ان کے اندر سے یہی آوازنکل رہی ہے کہ ان قوتوں اور استعدادوں کو غلط طریق پر استعمال نہیں کرنا۔ انہیں اس کے صحیح استعمال کا پتہ بھی نہیں لیکن اس کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ اسی طرح اور ہزاروں مثالیں ہیں کہ جب انسان اپنے اندرونی اور بیرونی اعضاء کو یا اپنی ظاہری اور باطنی قوتوں اور استعدادوں کو اس رنگ میں استعمال کرتا ہے کہ وہ اپنے ربّ سے دور ہو جاتا ہے تو انسانی فطرت اندر سے اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو اور یہ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ تمام قویٰ اور قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں انسان کو اس لئے ملیں کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرلے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہو جائے۔اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا دائمی مقام اسے حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھ کر اس کی محبت کا شعلہ اس طور پر انسان کے صحن سینہ میں بھڑکے کہ اس کا وجود بالکل فنا ہو جائے کیونکہ اس کے بغیر وہ دلی سکون اور اطمینان اور خوش حال زندگی کا احساس اپنے اندر نہیں پاتا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے وسائل بتائے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ تم یہ کرو اور وہ کرو تب تم اس مقصد کو حاصل کر سکو گے جس مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جس مقصد کے لئے تمہیں خاص قسم کے اعضاء اور خاص قسم کی طاقتوں والے اعضاء دیئے گئے ہیں اور جس مقصد کے لئے تمہیں اخلاقی اور روحانی قوتیں، طاقتیں اور استعدادیں عطا کی گئی ہیں۔اس مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول، اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور مقام عبودّیت پر قائم ہونے کا ایک وسیلہ خداتعالیٰ نے استقامت بتایا ہے یعنی ایک دفعہ اس کے ہوگئے تو پھر عمر بھر کے لئے اسی کے ہوگئے۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کی کوئی مخالفت، دنیا کی کوئی ایذاء رسانی، دنیا کا کوئی دکھ اور دنیا کی کوئی شے بھی اس تعلق کو قطع کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ استقامت کے یہی معنی ہیں اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے جو میں نے شروع میں پڑھی تھی یعنی خالی زبان سے یا نیم معرفت سے توحید باری، ذات باری اور صفات باری کی معرفت حاصل نہیں کرنی بلکہ فَاسْتَقِیْمُوْا اِلَیْہِ تم نے یہ معرفت ایسے اعمال کے ساتھ کرنی ہے جو صحیح بھی ہوں اور درجہ بدرجہ اس کی طرف لے جانے والے بھی ہوں۔ انسان پختگی کے ساتھ اس پر کھڑا ہو جائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ تم اسے اپنی طاقت سے حاصل نہیں کر سکتے اس لئے تم خدا تعالیٰ کی مغفرت چاہو تا اسے حاصل کر سکو۔
قرآن کریم نے اس مقصد کے حصول کے لئے کہ جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے بہت سے وسائل ہمیں بتائے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس نے انسان کو بہت سے وسائل بتائے ہیں کہ جن کے ذریعہ اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عرفان حاصل ہو۔ وہ علی وجہ البصیرت یہ یقین کرے کہ اللہ واقع میں موجود ہے، دہریت کا ذرہ بھی اس کے اندر باقی نہ رہے اور وہ اس یقین پر قائم ہو کہ خدا واحد ہے اور شرک کا کوئی پہلو اس کی فطرت کے اندر باقی نہ رہے اور وہ یہ یقین کرے کہ اللہ وہ ذات ہے جو تمام صفات حسنہ سے متّصفہے اور اللہ وہ ذات ہے جس کے اندر کسی کمزوری اور نقص اور ناپاکی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا یعنی جس معنی میں اسلام اور قرآن کریم نے اللہ کو پیش کیا ہے اس اللہ کی معرفت اسے حاصل ہو جائے اور اس کی عظمت اور جلال کے نتیجہ میں انسان عبد بننے کی طرف مائل ہو، عبد بننے کی کوشش کرے اور پھر قرآن کریم کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کر کے عبد بن جائے اور اس مجاہدہ کے نتیجہ میں جو اسلام نے بتایا ہے وہ خداتعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوؤں کو اپنی زندگی میں پائے اللہ تعالیٰ کی محبت اسے حاصل ہو اور وہ اس کا عاشق ہو جائے اللہ تعالیٰ کی محبت اسے حاصل ہو اور وہ اس کا محبوب بن جائے۔ اس طرح اس کا مقصد اسے حاصل ہو اس مقصد کے حصول کی جو راہیں بتائی گئی ہیں ان میں ایک استقامت ہے یعنی جب رشتہ جوڑا تو پھر طوفان، آندھیاں، زلزلے، ساری دنیا کی نفرت اور ساری دنیا کی کوشش اس رشتہ کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو۔ ایک دفعہ اس پیارے کے پیار میں گم ہوئے تو پھر اس محبت کے سمندر سے سر باہر نہیں نکالنا۔ یہ ہے استقامت اور جب تک استقامت حاصل نہ ہو یعنی ہمیشہ کے لئے پختہ عہد نہ ہو اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کے دائمی فضلوں کو حاصل نہیں کر سکتے اور اس آخری کامیابی اور فلاح کے وارث نہیں بن سکتے جس کا وعدہ اس نے اسلام کو دیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وسیلہ کے متعلق فرماتے ہیں:۔
’’چھٹا وسیلہ اصل مقصد کے پانے کیلئے استقامت کو بیان فرمایا گیا ہے یعنی اس راہ میں درماندہ اور عاجز نہ ہو اور تھک نہ جائے اور امتحانوں سے ڈر نہ جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلاَّ تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰٓـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھراستقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اُترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہوگئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔ اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ استقامت سے خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرضِ خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خداتعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کردے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے تواس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں۔ صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں ذلت پر خوش ہو جائیں موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوسرے دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے۔ نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سرا سر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہرچہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضا و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہرگز بے قرار ی اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے۔ یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک میںسے اب تک خوشبو آ رہی ہے۔ اسی کی طرح اللہ جلّشانہ اس دعا میں اشارہ فرماتا ہے۔ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں استقامت کی راہ دکھلا دے وہی راہ جس پر تیرا انعام و اکرام مترتب ہوتا ہے اور تو راضی ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ فرمایا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو۔ جاننا چاہئے کہ دکھ اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نور اُتارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں۔ جب باخدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ربّ کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خداتعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے بلکہ سچا محب بلا کے اُترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو ناچیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بُکلّی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے اسی کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِ (البقرہ:۲۰۸) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمت خاص کے مورد ہیں۔ غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی جس کو سمجھنا ہو سمجھے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۴۱۹تا۴۲۱)
پس اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی رحمت اور اس کی خوشنودی اور اس کی محبت کو پانے کا ایک وسیلہ استقامت ہے۔ یعنی جو رشتہ اس سے جوڑا وہ کسی حالت میں قطع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس طور پر استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحی کی اتباع کرے گا اور شریعت اسلامیہ کی پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے حق میں وہ فیصلہ کر دے گا جو اس نے انہیں بشارت کے رنگ میں پہلے بتا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ یونس میں فرماتا ہے۔
وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ (یونس: ۱۱۰)
اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ جو وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ کے طفیل انسان کی حقیقی بھلائی اور ابدی مسرت کے لئے قرآن کریم کی شکل میں نازل کی گئی ہے جو شخص اس کی اتباع کرتا ہے اور صبر کا نمونہ دکھاتا اور استقامت کے مقام کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے اور بشارتیں پوری ہوتی ہیں جو اُمت مسلمہ کو دی گئی ہیں جو ہر اُس شخص کو دی گئی ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے آپ کو منسوب کرتا اور قرآن کریم کا جوا اپنی گردن پر رکھتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نزول کے لئے اتباع وحی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صبر اور استقامت نہایت ضروری ہے جو شخص صبر میں کمزوری دکھاتا ہے استقامت یعنی ثبات قدم میں کمزور ہوتاہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شریعت نازل ہوئی ہے اس کی اتباع صحیح طور پر اور صحیح رنگ میں نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سے مدد نہیں چاہتا استغفار نہیں کرتا اور خود کو کمزور پا کر اپنے ربّ کی قوت کا سہارا نہیں لیتا اور اپنی محبت میں اس قدر وفا کا نمونہ نہیں دکھاتا جو دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والا ہو اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کا حکم جو وعدہ کے رنگ میں اسے دیا گیا ہے نازل نہیں ہوتا اور بشارتیں پوری نہیں ہوتیں لیکن جو صبر کا نمونہ دکھاتا ہے اور کامل اتباع اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتا ہے اور سچے طور پر مستقیم بن جاتا ہے اور کسی صورت میں بھی استقامت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارتیں عملی رنگ میں اس کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور اس دنیا میں بھی اس کے لئے ایک جنت پیدا کی جاتی ہے جس کا وہ احساس رکھتا ہے اور جس کی لذت اور جس کی مسرت سے وہ محظوظ ہوتا ہے۔
ہم سے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ اگر ہم قرآن کریم کی شریعت کی کامل اتباع کریں گے اور اخلاص کے ساتھ اسلام پر عمل پیرا ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اگر ہم یہ خواہش رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمارے حق میں، ہماری زندگیوں میں اور ہماری نسل میں پورا ہو تو ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم صبر کا وہ نمونہ دکھائیں جو ہم سے پہلوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دکھایا اور ہم مستقیم بن جائیں، ہم استقامت پر کھڑے ہونے والے بن جائیں، ہم کسی صورت میں کسی مصیبت کے وقت، کسی دکھ کے وقت، کسی ابتلاء کے وقت، کسی آزمائش کے وقت، کسی طوفان کے وقت اور ساری دنیا کے حملوں کے اوقات میں اپنے خدا کے دامن کو نہ چھوڑیں۔ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ اس وقت تک جب خدا کا حکم نازل ہو جائے۔ اگر ہم اس مقام کو حاصل کر لیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے ھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس کا فیصلہ جب نازل ہو جائے گا جب اسلام دنیا میں غالب ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمارے زندگیوں میں پورے ہو جائیں گے تو ہمارے جسم کے ذرّہ ذرّہ سے یہ آواز نکلے گی کہ اللہ ہی خَیْرُ الْحَاکِمِیْنَ ہے۔ وہی خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ ہے اس کے مقابلہ میں کس کی حکومت اور کس کا فیصلہ چلتا ہے۔
خدا کرے کہ ہم حقیقی طور پر احمدی مسلمان بن جائیں خدا کرے کہ ہم مستقیم الحال ہو جائیں۔ خدا کرے کہ ہمارے مزاج میں وہ اعتدال پیدا ہو جائے جو اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سچی معرفت پیدا ہو جائے۔ ہمیں اس کے فضل سے اس کی عظمت اور اس کے جلال کے مشاہدہ کی توفیق ملے کہ جس مشاہدہ کے بعد انسان حقیقی رنگ میں، حقیقی طور پر اس کا عبد بن جاتا ہے اور عبد بن کر اس کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے دیکھتا اور پھر کامل طور پر اپنے نفس سے فانی ہو جاتاہے اسی کی محبت میں غرق ہو جاتا اور اسی میں محو ہو جاتا ہے کیونکہ اس مقام کو حاصل کئے بغیر اس استقامت کو دکھلائے بغیر اور مخالفت کے مقابلہ میں صبر کا مظاہرہ کئے بغیر وہ وعدے ہمارے حق میں پورے نہیں ہو سکتے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں۔ خدا کرے کہ اس کی توفیق سے ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح رنگ میں نبھانے والے ہوں۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭

انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے پیار کا قرب حاصل کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۸؍ فروری ۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ تمہارے اندرونی راز اور گہرے خیالات سے بھی واقف ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اسے یونہی نہیں چھوڑ دیا۔
٭ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بغیر کوئی شے ترقی نہیں کرسکتی۔
٭ انسانی فطرت قرب خاص کی خواہش رکھتی اور اس کی متلاشی ہے۔
٭ عمل کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:۔
فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ (ہود: ۶۲)
اس کے بعد فرمایا:۔
قرآن مجید سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تین قسم کا ہے ایک قرب عام ہے اور اس قرب کو پانے والے ہر قسم کے درخت جانور اور ہر قسم کی مخلوقات ( جس میں انسان بھی شامل ہے) اس قرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں فرمایا ہے کہ وہ اپنی قدرت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ ہر چیز کو جانتا ہے، ہر چیز سے باخبر ہے، درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا کہ وہ اس کے علم اور منشاء کے مطابق نہ ہو اور جو دانے انسان کی نظر سے زمین سے اوجھل ہو جاتے ہیں ان پر بھی اس کی نگاہ ہوتی ہے کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں۔ انسان کو اس نے کہا کہ میں تمہارے اندرونی راز اور گہرے خیالات سے بھی واقف ہوں۔ قرآن کریم کی بیسیوں آیات اللہ تعالیٰ کے اس قرب عام کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیونکہ قرب کے بغیر اس قسم کا علم تصور میں نہیں آ سکتا۔ اس قرب کو ہم قرب خالقیت و قیومت اور ربوبیت بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کسی چیز کے سب سے قریب وہی ہستی ہوتی ہے جو اسے بنائے اور پیدا کرے۔ پس جس ہستی کے دست قدرت سے مخلوق معرض وجود میں آئی اور جس نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک کو وہ خواص عطا کئے جو اس نے عطا کئے۔ وہی اس مخلوق کو اور اس کے خواص کو بہترین طور پر جانتی ہے اور اس کے قریب تر ہے۔ جس نے پیدا کیا وہی اپنی پیدا کی ہوئی چیز کو جانتا ہے۔ یہ بات ہو ہی نہیں سکتی کہ کسی غیر کو اس خالق کی مخلوق کے متعلق پورا علم ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے دنیا کا کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا۔ انسان نے سائنس کے ذریعہ بہت سے علوم حاصل کئے ہیں اور سب عقلمند سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ابھی وہ علوم کے سمندر کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ غرض پیدا کرنے والے نے جو خواص کسی چیز میں رکھے ہیں اس کا کچھ علم انسان اس پیدا کرنے والے کی دی ہوئی طاقتوں سے حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کا حقیقی علم اس کے متعلق پوری اطلاع اور اس کے خواص کی حقیقت کو وہ نہیں پا سکتا۔
غرض خلق یعنی پیدائش کا ایک قرب ہے ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے دست قدرت سے نکلی ہے اور یہ ایک قرب ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اسے یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ ہر حیات ہر چیز اور اس کے خواص کی بقا اسی کے سہارے کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہر آن اور ہر وقت ہر شے کے خواص کو سہارا دیئے ہوئے ہے اور اسی کی وجہ سے وہ قائم ہے جب یہ قرب بُعد میں بدل جائے اور اس کا سہارا نہ رہے۔ یعنی جس چیز سے وہ اپنے سہارے کو کھینچ لے اس پر فنا آ جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صرف خلق ہی نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بعض صفات اور خواص ہی عطا نہیں کئے بلکہ اس نے قانون ارتقا بھی جاری کیا اور ہر ایک کو اپنے سہارے کے ذریعہ اس کے کمال تک پہنچانا چاہا ہے غرض خلق کی وجہ سے اور قیومیت کے نتیجہ میں ہر آن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سہارے کی محتاج ہے اور اس کی ربوبیت کے بغیر کوئی شے ترقی نہیں کر سکتی اور اپنے دائرہ کے اندر کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ تین صفات (خالقیت، قیومیّت اور ربوبیت) جلوہ گر ہو کر قرب عام کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔ ہر چیز بوجہ مخلوق ہونے کے اور خداتعالیٰ کے سہارے اور ربوبیت کے محتاج ہونے کی وجہ سے اس کے قریب ہے کیونکہ خالق قیوم اور ربّ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے قریب آتا ہے تا ہر شے کی پیدائش کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو۔ اس قرب عام میں انسان اور غیر انسان سب برابر ہیں۔ اس قرب کے لحاظ سے جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے اسی طرح ایک بیل، ایک درخت اور ایک پتھر بھی خداتعالیٰ کا قرب رکھتا ہے کیونکہ بُعد ہلاکت ہے بُعد فنا ہے۔ غرض ہر وہ چیز جو ہلاک شدہ نہیں اور فنا کا طوفان اس پر نہیں چلا وہ بتا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب عام اسے حاصل ہے۔ اس میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے انسان اور غیر انسان میں کوئی فرق نہیں لیکن انسانی فطرت اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی بنائی ہے کہ وہ صرف اس قسم کے قرب سے تسلی نہیں پاتی بلکہ وہ قرب خاص کی خواہش رکھتی اور اس کی متلاشی ہے لیکن اس قرب تک پہنچنے میں ایک اور قرب بھی بیچ میں آ جاتا ہے اور یہ دوسری قسم قرب کی اور پھر تیسری قسم قرب کی صرف انسان سے تعلق رکھتی ہے۔
دوسری قسم قرب کی جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ کے قہر کا قرب ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کا بندہ بنے اور اس کا مقرب بن جائے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے اور اس سے طاقت پا کر اپنی استعدادوں کو اس کی راہ میں اس طرح ترقی دے اور اپنے خواص کو اس کے نور سے کچھ اس طرح اُجاگر کرے کہ وہ قرب (بندگی کا قرب) اسے حاصل ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے لیکن بعض انسان اس سے دور بھاگتے ہیں اور جب ایسے انسان اپنے ربّ سے دور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کا پیچھا کرتا ہے اور اپنے قہر کے قرب سے ان کو واپس لاتا ہے جس طرح کسی زمانہ میں بھاگنے والے غلام پر کوڑے برسائے جاتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے غضب کا کوڑا ایسے لوگوں پر پڑتا ہے اور ان کی واپسی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ اسی قرب کی قسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بِالْکٰفِرِیْنَ کہ وہ ان لوگوں کو جو اس کے منکر ہیں اور اس کی ذات اور صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اپنے غضب کا نشانہ بنانے کیلئے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ ان پر اپنا غضب نازل کرتا ہے اور اس طرح انہیں پھر واپس لے آتا ہے۔
یہ دوسری قسم قرب کی گو صرف انسان سے تعلق رکھتی ہے لیکن ایک ایسے بدبخت انسان سے تعلق رکھتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تو اپنی رحمت میں زندگی گزارنے کیلئے پیدا کیا تھا لیکن وہ ناشکری اور ناقدری کرتے ہوئے جاہلانہ راہوں کو اختیار کرتا اور بُعد اور دُوری کے راستوں پر چل پڑتا ہے۔ پس گو یہ قرب صرف انسان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس قرب کی وجہ سے نہ کوئی انسان خوش ہو سکتا ہے اور نہ اس کے لئے یہ کوئی فخر کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لئے اس کے قریب آیا کہ اس کے غضب کا کوڑا اس پر برسے۔ لیکن یہ قرب ضروری تھا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ظاہر نہ ہوتی تو انسان کو یہ علم نہ ہو سکتا کہ کن باتوں کی وجہ سے خداتعالیٰ ناراض ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان اس کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
تیسری قسم کا قرب رحمت کا قرب ہے جب اللہ تعالیٰ انسان سے پیار کرنے کے لئے اس کے قریب آ جاتا ہے اور اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور اس کے لئے دنیا میں انقلابات عظیمہ پیدا کرتا ہے جو دنیا کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر کے انہیں غلاموں کی طرح دوڑاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ اس قرب کے مختلف مدارج ہیں اور اس کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ اس قسم کا قرب پانے والے انسان پر صرف اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے جلوے ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ اس پر اس کے مجیب ہونے کے جلوے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ پس یہ قرب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا قرب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قریب اور مجیب صفات کے جلوؤں کا قرب ہے یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے قریب بھی ہوتا ہے اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ میں مجیب ہوں۔
میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی ہر شئے کے قریب ہے لیکن انسان کے علاوہ جو مخلوق ہے جو ذی شعور نہیں ان کو یہ علم نہیں کہ ان کے اندر خداتعالیٰ کا نور بھی جلوہ گر ہے اس کا حسن بھی جلوہ گر ہے اس کی ربوبیت بھی جلوہ گر ہے، اس کی خالقیت بھی جلوہ گر ہے، اس کی قیومیت بھی جلوہ گر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے قریب تو ہے لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا جلوہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اس کام کے لئے بنے ہی نہیں۔ دوسری قسم کا قرب بھی گو انسان سے مخصوص ہے لیکن اس میں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کے جلوے تو ظاہر کرتا ہے مگر پیار سے اپنے مجیب ہونے کے جلوے ظاہر نہیں کرتا ہاں وہ قہر اور غضب کے جلوے ظاہر کرتا ہے۔ تیسری قسم کا قرب پیار کا قرب ہے اسی کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ایک ایسا گروہ تھے جنہوں نے انتہائی تکالیف برداشت کیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ربّ کا ساتھ نہیں چھوڑا اس لئے کہ ان لوگوں پر اس رب کے جلوے ظاہر ہوچکے تھے جو قَرِیْبٌ بھی ہے اور مُجِیْبٌ بھی ہے۔ وہ اپنی زندگیوں میں زندہ خدا کی زندہ تجلی مشاہدہ کرتے تھے اور اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پیدا ہوگئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو اگر پیسا جائے اور پھر ان کو نچوڑا جائے تو جو شربت اور نچوڑ نکلے گا وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہوگی۔ یہ لوگ ہر قسم کے مصائب میں سے گزرتے تھے لیکن خداتعالیٰ سے ان کا تعلق پختہ رہتا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے وہ اِدھر اُدھر نہیں ہوتے تھے اس لئے کہ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے جلوے دیکھے تھے۔ اس کے بغیر کوئی قوم اس قسم کی قربانیاں پیش نہیں کر سکتی جو صحابہؓ نے پیش کیں۔ اس کے بغیر انسان کی فطرت اس قسم کی تسلی نہیں پکڑ سکتی کہ ایک لگن ہے ایک جوش ہے ایک آگ ہے جو دل میں بھڑک رہی ہے کہ میرا ربّ مجھ سے خوش ہو جائے۔ اس سے میرا تعلق قائم ہو جائے۔ اس قسم کا قرب حاصل نہ کرنے والے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے جلوے تو دیکھ لیتے ہیں کیونکہ وہ ذی شعور ہیں اور روحانیت رکھتے ہیں لیکن وہ اسی قسم کے جلوے ہیں جو ایک درخت پر بھی ظاہر ہوتے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ درخت ذی شعور نہیں اور اسے ان کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے بھی دیکھتے ہیں جب وہ اس کے قہر کا قرب کسی اور قوم یا گروہ پر نازل ہوتے دیکھتے ہیں لیکن انہیں یہ علم کیونکر حاصل ہو کہ ان کا ربّ ان سے خوش ہو گیا ہے اس بات کا تو تبھی پتہ لگ سکتا ہے جب قرب رحمت خداتعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے جلوے دکھائے۔ غرض صرف خداتعالیٰ کے قریب ہونے کا جلوہ فطرت انسانی کو تسلی نہیں دے سکتا اسی لئے انبیاء علیہم السلام اور ان کی باوفا جماعتوں نے اپنے اپنے زمانہ اور استعداد کے مطابق خدائے قریب ہی کے جلوے نہیں دیکھے تھے بلکہ خدائے مجیب کے جلوے بھی دیکھے تھے اور ان کا اپنے پیدا کرنے والے سے ایک زندہ تعلق پیدا ہو گیا تھا اس کے بغیر وہ قربانیاں دے ہی نہیں سکتے تھے۔ اس کے بغیر وہ مقصد حاصل ہی نہیں ہو سکتا تھا جو انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر نگاہ ڈالیں تو عبودیت کا ایک ایسا سمندر نظر آتے ہیں جس کا تعلق ہمیں اس خدا سے نظر آتا ہے جو ان کے قریب بھی رہا اور جو مجیب بھی تھا۔ یعنی وہ سوال کرتے تھے اور یہ جواب دیتا تھا۔ وہ مانگتے تھے اور یہ عطا کرتا تھا۔ مجیب کے معنی میں یہ دونوں باتیں آ جاتی ہیں یعنی اس سوال کا جواب الفاظ میں بھی دینا اور سوال میں جو بھیک مانگی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ فلاں نعمت مجھے عطا کر۔ اس مطلوبہ نعمت کا عطا کرنا جو وہ مانگتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت ہی تھی اور جو خداتعالیٰ انہیں دیتا تھا وہ بھی اس کی رضا اور محبت ہی تھی اور اپنی ساری مخلوق کو اس نے کہا کہ یہ میرے خاص اور محبوب بندے ہیں تم ان کے کام میں لگ جاؤ اور یہ چیز سچے مذہب اور اس کے پیروؤں کی ایک سچی نشانی ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام کی غرض اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ انسان کا تعلق اس ربّ سے ہو جائے جو محض قریب ہے مجیب نہیں تو اس نے نہ اسلام کی حقیقت کو پہچانا، نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو سمجھا اور نہ مقصد حیات کا اسے کچھ علم ہے۔
تمام مذاہب کا یہی مقصد تھا کہ انسان کا تعلق قریب اور مجیب خدا سے ہو جائے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے یہ مقصد اپنے کمال کو پہنچ گیا یعنی کامل تعلق باللہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی پیروی سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ کے سچے متبعین سینکڑوں سالوں سے قریب مجیب ربّ کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اس پر فدا ہیں اور قیامت تک یہی ہوتا چلا جائے گا۔ فطرت انسانی یہ چاہتی ہے اور اس کے بغیر اس کی تسلی نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے ربّ کو اس طرح پہچانے کہ اس کی ذات اور صفات کے دونوں پہلو اس کے سامنے آ جائیں۔ یعنی ایک قریب ہونے کا پہلو اور ایک مجیب ہونے کا پہلو۔ اس فطرتی تقاضا کو اسلام پورا کر رہا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ میں لاکھوں انسان ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے خداتعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھے اور جان و دل سے وہ اس پر فدا ہوگئے۔
اگر فطرت انسانی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا تعلق زندہ خدا سے اس رنگ میں پیدا ہو جائے کہ وہ اپنی زندگی میں خداتعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے زندہ جلوے دیکھتی رہے اس کے بغیر وہ تسلی نہیں پا سکتی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لئے اسلام نے کونسی اصولی تعلیم دی ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس خدا کے قریب ہونا چاہتے ہو جو قریب بھی ہے اور مجیب بھی ہے اور تم اس کا قرب، اس کی رحمت اور اس کی محبت کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو دو چیزوں کو اختیار کرو اور وہ دو چیزیں استغفار اور توبہ ہیں۔ استغفار اس لئے کہ انسان ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔ اس کو خدا تعالیٰ نے دو قسم کی طاقتیں عطا کی تھیں ایک نیکی کی اور دوسری بدی کی۔ اس کو اختیار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھاکہ تم کمال قرب کو تبھی حاصل کر سکتے ہو کہ تم اپنی مرضی سے اور میری راہ میں قربانیاں دے کر اس راہ کو اختیار کرو جو میری طرف لاتی ہے اور یہ مرضی ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک دونوں چیزوں کا اختیار نہ ہو یعنی بدی کا بھی اختیار نہ ہو اور نیکی کا بھی اختیار نہ ہو۔ یعنی انسان چاہے تو بدی کر سکے اور چاہے تو نیکی کر سکے۔ بدی کی طاقت انسان کے اندر ایک فطرتی نقص پیدا کرتی ہے نفس امارہ غالب آ جاتا ہے اور کمزوریوںکو بالا دستی مل جاتی ہے اور ہوائے نفس کی طرف میلان طبع ہو جاتا ہے۔ اس فطرتی کمزوری کو ڈھانپنے کے لئے استغفار ضروری ہے انسان اپنی ذات میں کامل نہیں لیکن وہ اپنے اس کمال تک پہنچ سکتا ہے جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے اور اس کمال تک پہنچنے کے لئے اسے ایک کامل ذات سے طاقت اور علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ استغفار ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اپنے ربّ کے حضور جھکو اور اس بات کا اقرار کرو کہ اے خدا تو نے ہمیں اپنے قرب کی رفعتوں تک پہنچانے کیلئے دوسری مخلوق سے ممتاز کیا ہے اس معنی میں کہ تو نے ہم میں بدی کی طاقت بھی رکھ دی اور نیکی کی طاقت بھی رکھ دی اور کہا کہ اپنی مرضی سے نیکیوں کو اختیار کرو اور اپنی مرضی سے بدی کو چھوڑو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں قرب کے کمال تک پہنچا دوں گا چونکہ تو نے ہمیں بدی کی طرف میلان بھی دیا ہے اور ہم کمزور انسان ہیں اس لئے ہم اس بدی پر اور اس شیطان پر اس وقت تک غلبہ حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تو ہماری مدد کو نہ آئے جب تک تیری طاقت کا سہارا ہمیں حاصل نہ ہو پس تو ہمیں سہارا دے تو ہماری مدد کو آ تا کہ ہماری بشری کمزوریاں ڈھک جائیں اور ہم سے بدیاں سرزد نہ ہوں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کثرت سے استغفار کیا کرو اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہاری مدد کو آؤں گا اور تمہاری بشری کمزوریوں کو ڈھانک دوں گا اور تمہاری ترقیات کی راہوں میں جو روکیں ہیں وہ دور ہو جائیں گی اور تمہاری فطرت اپنے بدی کے میلان کو بھول جائے گی اور دوسرا میلان جو روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرنے کا میلان ہے اس میں پوری توجہ سے منہمک ہو جائے گی تا وہ روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرے اور خدا تعالیٰ کے قرب کو پائے۔ پس اس آیت میں قریب اور مجیب خدا سے ملانے کی ایک راہ استغفار بتائی گئی ہے۔
دوسری راہ توبہ کی بتائی گئی ہے جب بشری کمزوریاں دور ہو جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی طاقت سے نیکی کر سکتا ہے یا اپنے اعمال کے اچھے نتائج اپنے زور سے نکال سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم عاجزی اور انکساری کے ساتھ میری طرف رجوع کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف بھاگو۔ جب تم اس کی طرف رجوع کرو گے اور اسے پا لینے کے لئے اس کی طرف بھاگو گے، اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش کرو گے، دعاؤں میں منہمک رہو گے اور تمہارے سینے خداتعالیٰ کے ذکر سے معمور رہیں گے تو جس تیزی کے ساتھ تم اس کی طرف بڑھ رہے ہوگے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ وہ رجوع برحمت ہوگا۔
پس استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع یہ دو باتیں اصولی طور پر ایسی ہیں جن کے نتیجہ میں خدائے قریب و مجیب کے ساتھ تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ تمام بدیوں سے رکنے کی طاقت استغفار سے ملتی ہے اور طاقت حاصل کرنے کے بعد ہر قسم کی نیکیاں بجا لانے کی کوشش ’’توبہ‘‘ کے اندر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزی اور انکساری کے ساتھ رجوع ہو یعنی انسان خود کو کچھ نہ سمجھے اور اس حقیقت پر علیٰ وجہ البصیرت قائم ہو کہ خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کئے بغیر نہ میں نیک اعمال کر سکتا ہوں اور نہ اس کے فضل کے بغیر کسی ظاہری نیک عمل کا اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ عمل کی توفیق بھی اس کے فضل سے ملتی ہے اور عمل کا اچھا نتیجہ بھی اسی کے فضل سے نکلتا ہے۔ پس فرمایا کہ اگر تم استغفار کا طریق اختیار کرو اور توبہ کی راہ پر گامزن ہو جاؤ تو اس کے نتیجہ میں تم اپنی زندگیوں میں یہ محسوس کرو گے کہ تمہارا ربّ قَرِیْبٌ مُجِیْبٌ ہے۔ وہ محض قریب ہی نہیں کیونکہ قریب تو وہ ہر شے سے ہے بلکہ وہ مجیب بھی ہے۔
دراصل خدا تعالیٰ کے قرب کے جلوے یا اس کا علم یا اس کی معرفت یا اس پر جو دلائل ہیں وہ اس لئے ہیں کہ انسان ان کے بعد خدائے مجیب کی تلاش کرے کیونکہ انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا قرب تو ہر ایک کو حاصل ہے کوئی شئی جو اس کی پیدا کردہ ہے (اور کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی پیدا کردہ نہ ہو) وہ اس سے دور نہیں ہو سکتی اس لئے کہ وہ خالق ہے قیوم ہے اور ربّ ہے۔ غرض ایک قسم کا قرب تو ہر شے کو حاصل ہے۔ وہ ہر مخلوق (چاہے وہ انسان ہو یا غیر انسان) کو حاصل ہے۔ پھر انسانوں کے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جنہیں قہر اور غضب کا قرب حاصل ہے اور یہ قرب ہمیں پسند نہیں۔ ہم اس پر راضی نہیں جب ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تو حاصل ہوا مگر قہر اور اس کے غضب کے کوڑے کے ذریعہ سے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کس کی طبیعت چاہتی ہے کہ اسے اس قسم کا قرب حاصل ہو؟ دوسرا گروہ انسانوں کا وہ ہے جنہیں خدا تعالیٰ کی رحمت کا قرب ملتا ہے۔ یہ رحمت کا قرب جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو وہ اس پر نہ صرف قریب ہونے کے رنگ میں اپنی صفات کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ مجیب ہونے کے جلوے بھی ظاہر کرتا ہے۔ انسان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں انسان کو اس کی ضرورتیں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے اور متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں عطا کی جاتی ہیں۔ وہ جو کچھ مانگتا ہے اسے عطا کیا جاتا ہے۔ جب تک انسان کا تعلق قریب اور مجیب ربّ کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک انسانی فطرت تسلی نہیں پا سکتی۔ اس وقت تک انسان کو روحانی مسرتیں حاصل نہیں ہو سکتیں کیونکہ روحانی مسرتیں انسان کو اسی وقت حاصل ہوتی ہیں جب خدا کے قریب ہونے کے جلوے بھی ہوں اور مجیب ہونے کے جلوے بھی ہوں جب یہ تعلق قائم ہو جاتا ہے تو انسان خدا تعالیٰ کو ہر غیر سے زیادہ قریب پاتا ہے۔ وہ اسے ہر غیر سے زیادہ طاقتور اور محبت کرنے والا دیکھتا ہے۔ غیر تو انسان کی نظر میں محض ایک لاشی ہو جاتا ہے کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتا ہے تو وہ کون غیر ہے جو اس سے پرے یا اس کے کناروں پر اسے نظر آ سکے کیونکہ خدا ایک عظیم ہستی ہے اس کا جلال تو انسانی درختِ وجود کی جڑیں جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ پھر اس کو غیر کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی اور نہ وہ غیر کو کچھ سمجھتا ہے۔ غیر سمجھتا ہے کہ میں بڑا طاقت ور ہوں اور اگر چاہوں تو خداتعالیٰ کی جماعت کو مٹا سکتا ہوں لیکن وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی جماعت کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ہوتا ہے۔ وہ کسی ایسی راہ کو اختیار نہیں کر سکتے جو اس سے دور لے جانے والی اور اس کے غضب اور قہر کو بھڑکانے والی ہو۔ ان لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے ہوتے ہیں اور کسی غیر کی احتیاج باقی نہیں رہتی۔ روحانی جذبات کی تسکین کے لئے اس کا حسن موجود ہے اور ضرورتیں اور حاجتیں پوری کرانے کے لئے اس کے احسان کے جلوے ہیں۔ پس نہ غیر کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ غیر کی ضرورت باقی رہتی ہے جو شخص خود کو اپنے ربّ کی گود میں پائے تو کیا اسے کسی اور کی گود کی نرمی اور گرمی کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ یہی وجہ تھی کہ بہتوں نے خدا کے لئے اپنی ماؤں کو قربان کر دیا حالانکہ ان ماؤں کی گود کی نرمی اور گرمی میں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا کیونکہ اس کے مقابلہ میں انہیں ان کے ربّ کی محبت زیادہ نظر آئی ہماری جماعت کے ہر فرد کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ تیسری قسم کا قرب حاصل کرے یعنی وہ اس ربّ کا قرب حاصل کرے جو اسے اپنی پوری عظمت اور جلال اور حسن و احسان کے ساتھ قریب بھی نظر آئے اور اپنی ساری طاقتوں اور قدرتوں کے ساتھ اسے مجیب بھی نظر آئے کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو تبھی ہم ہر قسم کی روحانی مسرتیں حاصل کر سکتے ہیں اور تبھی ہم ان لوگوں میں داخل ہو سکتے ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ
یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ (تذکرہ طبع چہارم صفحہ۳۹)
نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ایسے لوگ تمہیں دیئے جائیں گے جن کا تعلق محبت اور تعلق قرب مجیب خدا کے ساتھ ہوگا اور صرف اسی صورت میں وہ بشارتیں ہماری زندگی میں پوری ہوں گی اور ان وعدوں کے ہم وارث بنیں گے جو بشارتیں اور وعدے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیئے تھے اور اس چیز کو پانے کے لئے اصولی طور پر استغفار اور توبہ کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنی میں استغفار کرنے اور اپنی طرف عاجزی اور انکساری کے ساتھ رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری تمام کمزوریوں کو ڈھانک کر اور نیکیوں کی توفیق عطا کرکے ہمارے وجود کو ایسا بنا دے کہ ہم میں بھی اس کے حسن و احسان کے جلوے نظر آنے لگیں تا ہم عاجز بندے اسی کے حسن اور احسان کے نتیجہ میں اس کی مخلوق کو اس کی طرف واپس لوٹالانے میں کامیاب ہو جائیں۔ آمین (روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۵)
جمعۃ المبارک
( ۷؍ مارچ۱۹۶۹ء)
ء ء ء
حضور رحمہ اللہ علالت طبع کے باعث نماز جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف نہیں لا سکے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ۹؍ مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ۱)
٭…٭…٭

ہمارا سہارا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اسی کے سہارے ہم زندہ رہیں گے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ مارچ۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ اسلام کو غالب کرنے کا کام اللہ تعالیٰ کی مدد سے انجام پائے گا۔
٭ صبر سے کام لو اور دعاؤں میں ہمہ تن مشغول رہو۔
٭ صبر اور استقامت کا نمونہ اپنے ربّ کے حضور پیش کریں۔
٭ علماء مکی زندگی کے حالات کو جماعت کے سامنے بار بار رکھیں۔
٭ ہمارا یہ زمانہ مکی زندگی سے مشابہ ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ تلاوت فرمائی:۔
یٰٓـایَّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرۃ:۱۵۴)
اس کے بعد فرمایا:۔
گزشتہ چند روز سے بخار اور کھانسی کی کافی تکلیف رہی۔ ایک دن تو کافی تیز بخار ہو گیاتھا پھر کئی روز حرارت رہی اور گلے اور ناک کی نالی میں بہت بلغم پیدا ہوتا رہا اور بیماری نے بڑی تکلیف دی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اب پہلے سے تو آرام ہے لیکن ابھی گلے اور سینے کی نالی میں کچھ تکلیف باقی ہے۔ بیماری کا ضعف بھی ہے۔
اس وقت میں مختصراً اپنے بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا سہارا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور اس کی مدد اور اس کے سہارے کے بغیر ہماری زندگی ممکن نہیں۔ ہم اسی کے سہارے زندہ ہیں۔ ہم اسی کے سہارے زندہ رہیں گے اور تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس کی مدد سے وہ انجام پائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کیلئے جو بہت سے طریق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائے ہیں ان میں سے دو باتیں وہ ہیں جو اس مختصر سی آیت میں بیان ہوئی ہیں جس کی ابھی میں نے تلاوت کی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری مدد اور نصرت حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ صبر سے کام لو اور دعاؤں میں ہمہ تن مشغول رہو اس کے بغیر تم میری مدد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لئے احباب جماعت کو چاہئے کہ وہ صبر کے مقام پر پختگی سے قائم رہیں اور خدا کے بتائے ہوئے طریق پر، خدا کی رضا کے حصول کیلئے اس کی مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کیلئے صبرو استقامت کا وہ نمونہ اپنے ربّ کے حضور پیش کریں جو نمونہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً اپنی مکی زندگی میں دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تاریخی لحاظ سے دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ ایک آپ کی مکی زندگی ہے ایک آپ کی مدنی زندگی ہے۔ مکی زندگی میں ظاہری اعتبار سے حالات مدنی زندگی سے مختلف تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو زندگیوں یا زندگی کے ہر دو ادوار میں مختلف حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی اور ایثار کا بہترین نمونہ اور اُسوہ دنیا کے لئے پیش کیا۔
عام طور پر جماعت کے سامنے مدنی زندگی کی زیادہ تفاصیل آتی رہتی ہیں اور مؤرخین نے بھی عام طور پر مدنی زندگی کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ہمیں اس تفصیل سے آپ کی مکی زندگی کے حالات تواریخ نے بھی نہیں بتائے میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان پر اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں یہ دو دَور آتے رہتے ہیں۔ ایک وہ دور جو مکی زندگی سے مشابہ ہوتا ہے۔ ایک وہ دور جو مدنی زندگی کے مشابہ ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے جو زمانہ زیادہ مشابہت رکھتا ہو اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اُسوہ اُمت محمدیہ کے سامنے ہونا چاہئے جو مکی زندگی کے زمانہ میں آپ نے قائم کیا جس طرح آپ نے ہر موقعہ پر دکھوں کو برداشت کیا اور صبر کا نمونہ دکھایا۔ ہر روز ظلموں کا نیا سلسلہ شروع کیا جاتا اور ہر نئے سلسلہ کے مقابلہ میں ہمیں آپ کے صبر اور استقامت اور توکل اور خداتعالیٰ کی بشارتوں پر کامل یقین کا ایک حسین نظارہ نظر آتا ہے۔ مخالف نے ہر نیا منصوبہ جو آپ کے خلاف باندھا وہ ظلم کا ایک نیا دور بھی تھا اور ماضی کے ظلم کے ادوار کی ناکامی کا اعلان بھی ہوتا تھا کہ ہم نے اس قسم کے ظلم کئے، ناکام ہوئے اب ظلم اور Oppression کے نئے طریقے نکالنے چاہئیں پھر وہ نیا دور ختم ہو جاتا پھر ایک نیا منصوبہ بندھتا۔
بہرحال مکی زندگی ہمارے سامنے ان حالات کے لحاظ سے صبر اور دعا کے بہترین نمونے پیش کرتی ہے۔ علماء جماعت کو چاہئے کہ مکی زندگی کے حالات کو جماعت کے سامنے زیادہ تفصیل سے اور بار بار رکھیں۔ ہمارا یہ زمانہ اسلام کے لئے جدوجہد اور اسلام کی خاطر قربانیاں دینے کا مکی زندگی سے مشابہ ہے۔ تیرہ سالہ ظلم سہنے کے زمانہ میں ایک موقعہ پر بھی آپ یا آپ کے صحابہؓ نے جوابی کارروائی نہیں کی اور ان سختیوں کو بشاشت کے ساتھ رَجُوْعٌ اِلَی اللّٰہِ اور اَنَابَتْ اِلَی اللّٰہِ کے ساتھ برداشت کیا اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم ہوتا تھا اور یہی بشارت ملتی تھی کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ تم مشرکوں سے اعراض کرو انہیں معاف کرتے رہو۔ آخر نتیجہ وہی نکلے گا جو میں چاہتا ہوں لیکن میری راہ میں ہر قسم کی قربانی دینا اور اس قسم کے حالات میں اُمت مسلمہ کو جو قربانیاں انہیں دینی چاہئیں ان کی راہ نمائی کے لئے ایک کامل اور مکمل اُسوہ قائم کرنا تمہارا کام ہے، ہوگا وہی جو خدا نے چاہا اور صبر کرنے والوں نے پایا وہی جو خدا نے انعام مقرر کیا تھا لیکن صبر اور دعا کے نتیجہ میں۔ پس جماعت اپنے اس دور میں خصوصاً مکی زندگی کے حالات اپنے سامنے رکھے اور اس قسم کے صبر اور صلوٰۃ کا نمونہ اسلام کے مخالفین کے سامنے رکھے۔ جس قسم کے صبر اور دعا کا نمونہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی میں دکھایا تھا۔ اگر ہم بحیثیت جماعت سارے مل کے آج اسی طرح کا نمونہ اسلام کی فتح اور اسلام کے غلبہ کے لئے دنیا میں قائم کریں جو نمونہ کہ ہمیں اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتا ہے تو وہ وعدے بھی جو اس دور کی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو دیئے ہیں ہمارے حق میں پورے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق دے کہ اس کی جو رضا ہے اس رضا کے مطابق صبر اور دعا کے ساتھ ہم اپنی زندگیوں کو گزاریں اور اس کی توفیق سے جب ہم اس قربانی کو پیش کریں تو اس کے فضل کے ہم اسی طرح وارث ہوں جیسا کہ ہم سے پہلے بزرگ وارث ہوئے تھے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۱؍ اگست ۱۹۶۹ء صفحہ۳ و۴)
٭…٭…٭

سچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ کوشش کرے اور دعائیں کرے کہ وہ صراط ِمستقیم سے بھٹک کر اِدھر اُدھر نہ ہوجائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱ ؍مارچ ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ اسلام نے ایک نہایت حسین نظام زندگی قائم کیا ہے۔
٭ سوشلزم میں فردِ واحد کو انفرادی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی۔
٭ سوشلزم میں تمام آزادیاں اجتماعی مفادات کے تابع ہیں۔
٭ فردِ واحد کو یہ حق نہیں کہ وہ حقیقی اور غیر مشروط ملکیت کا دعویٰ کرے۔
٭ اسلامی معاشرہ احسان کی بنیاد پر قائم ہے۔



تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ : ۱۱۳)
اس کے بعد فرمایا۔
اسلام نے ایک نہایت ہی حسین نظام زندگی قائم کیا ہے اس لئے جب دنیا میں نظام زندگی کے متعلق مختلف نظریات پیش کئے جائیں تو ہر ایک سچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نظریات کا مقابلہ اور موازنہ اسلامی نظامِ زندگی سے کرے اور کوشش کرے اور دعائیں کرے کہ وہ صراط مستقیم سے بھٹک کر اِدھر ُادھر نہ ہو جائے۔
اس وقت سوشلزم Socialism)) کا لفظ خاص طور پر زیر بحث آ رہا ہے ہمارے کچھ لیڈر اسلامک سوشلزم Socialism) Islamic ) قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ان کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اس لئے آج میں سوشلزم کے متعلق اور اسلام کے قائم کردہ نظامِ زندگی کے بعض پہلوئوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
سوشلزم کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس کے ایک معنی تو اصطلاحی ہیں اور دوسرے عام لغوی معنی ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اصطلاحی معنی میں سوشلزم اس نظریہ یا اصول کو کہتے ہیں کہ کسی فردِ واحد کو انفرادی آزادی حاصل نہ ہو بلکہ تمام افراد کی آزادیاں جو ہمارے نزدیک ان کا حق ہے ساری کی ساری اجتماعی مفادات کے تابع کر دی جائیں۔
‏ Socialism principle that individual freedom should be completly subordinated to interests of community.
‏(The concise Oxford Dictionary)
اس بنیادی اور اصطلاحی معنی کے جو نتائج نکلتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمام ذرائع پیدا وار حکومت کی (یا حکمران طبقہ کی) ملکیت ہوں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ اپنی طبیعت کے رجحان کے مطابق آزادانہ طور پر تجارت یا کوئی اور کام کر سکے یا اپنی اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے وہ اپنے اموال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں خرچ کر سکے گویا ہر قسم کی آزادیاں فرد واحد سے چھین کر اجتماعی زندگی کے تابع کر دی جاتی ہیں اور اجتماعی زندگی کیسی ہونی چاہئے؟ اس کا فیصلہ حکمران طبقہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس اصطلاحی معنی کے لحاظ سے سوشلزم اور کمینونزم(اشتراکیت) میں کوئی فرق نہیں ہے جیسا کہ خود کمیونسٹ یعنی اشتراکی لیڈروں کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ سوشلزم وہ طریق ہے جو ہم کمیونسٹ اختیار کرتے ہیں اس سلسلہ میں ایک تازہ حوالہ میری نظر سے گذرا ہے میں وہ حوالہ دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
ایک روسی ہیں جن کا نام کرنل اے لیانیٹر (Col. A Leontyer)ہے یہ کرنل صاحب روس کے مشہور تنقید کرنے والے لوگوں میں سے ہیں اور روس میں فوجی خیالات کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں اُنہوں نے پچھلے دنوں کی اخبار میں ایک نوٹ لکھا تھا اس کے بعض اقتباسات روسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کرکے انگلستان کے ایک رسالہ انٹیلی جنس ڈائجسٹ(Intelligence Digest)نے اپنے فروی ۱۹۶۹ء کے ایشو میں نقل کئے ہیں ان کا ایک چھوٹا سا حصہ اس وقت سنانے کے لئے میں نے لیا ہے میں پہلے انگریزی کے الفاظ پڑھ دیتا ہوں پھر اس کا مفہوم اردو میں بیان کر دوں گا کرنل صاحب لکھتے ہیں۔
‏ In the circumstances any attempts to frustrate the advance of World socialism are doomed to failure...... Our enemies have learned nothing....They are still talking about socialism without communists. But this is just as absurd as sea without water.
ایک لمبا مضمون ہے جو انہوں نے لکھا ہے اور آخر میں انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان حالات میں ساری دنیا میں سوشلزم کے پھیلانے کے لئے جو جدوجہد ہو رہی ہے اس کو ناکام بنانے کی ہر کوشش خود نامراد رہے گی یہی مقدر ہے پھر وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے دشمنوں نے ابھی تک کچھ بھی نہیں سیکھا وہ ہمارے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے اور نہ ان کے اندازے درست ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک وہ اپنی گفتگو میں ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کمیونسٹوں کے بغیر بھی سوشلزم کو قائم کیا جا سکتا ہے یا کوئی ایسی جگہ یا ملک یا فرقہ ہو سکتا ہے جہاں سوشلزم ہو لیکن اس کی باگ ڈور کمیونسٹوں کے ہاتھ میں نہ ہو ابھی تک وہ اس قسم کی بیہودہ اور احمقانہ باتیں کرتے ہیں اور اس قسم کے خیالات کا اظہار ایسا ہی احمقانہ ہے جسے سمندر کا تصور بغیر پانی کے۔ جب ہم سمندر کا لفظ بولتے ہیں تو دماغ میں پانی کا تصور اس کی پوری وسعتوں اور گہرائیوں کے ساتھ آتا ہے اور یہ کرنل صاحب(جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے) جو روس کے مشہور نقاد اور وہاں کی فوج کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں لکھتے ہیں کہ کمیونسٹوں کے بغیر سوشلزم کا تصور نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح جس طرح پانی کے بغیر سمندر کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے وہ سیاسی لیڈر جو اسلامک سوشلزم (Islamic Socialism) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں انہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ وہ سوشلزم کا لفظ ان اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ اس لفظ کو اس کے لغوی معنوں میں استعمال کرتے ہیں یا پھر یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے اورلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحََ ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنے لئے ایک اصطلاح بنائے۔ اب میرا یا آپ کا یہ حق نہیں کہ ہم کسی کے منہ میں وہ بات ڈالیں جو اس کی زبان سے نہیں نکلی اور پھر اس کے خلاف بدزبانی یا سخت گوئی سے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ اسلامک سوشلزم (Islamic Socialism) میں لفظ سوشلزم ہم اس کے ان اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں کرتے جو کمیونسٹوں کے بغیر نہ کسی جگہ رائج ہوا اور نہ رائج ہو سکتا ہے بلکہ ہم اسے اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتے ہیں اور اسلامک سوشلزم (Islamic Socialism) سے ہماری مراد یہ ہے کہ اسلام کے بتائے ہوئے قوانین اور اصول کے مطابق انسان انسان میں معاشی اور اقتصادی مساوات پیدا کرنا چاہتے ہیں اگر ان کا یہ دعویٰ ہو تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے تم جو مرضی کہو ہم تو اعتراض کرتے چلے جائیں گے تم بے شک یہ کہو کہ ہم اس لفظ کو اس کے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں کر رہے، ہم تمہارے خلاف تقریریں کرتے رہیں گے، مضمون لکھتے رہیں گے۔ یہ طریق تو درست نہیں اور خلاف عقل ہے لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میرا آپ کا اور ہر پاکستانی کا یہ حق ہے کہ وہ ان سیاسی رہنمائوں کو ادب کے ساتھ یہ مشورہ دے کہ جب سوشلزم کے لفظ کے استعمال کے نتیجہ میں ذہنوں میں ایک الجھن پیدا ہوتی ہے اور اسلام کے مخالفوں کے دلوں میں ایک امید پیدا ہو سکتی ہے تو آپ اس لفظ کو کیوں استعمال کرتے ہیں جب آپ سوشلزم کا لفظ استعمال کریں گے تو وہ لوگ جو اسلام سے محبت رکھتے ہیں یا اپنے ملک سے محبت رکھتے ہیں ان کے دلوں میں یہ خوف پیدا ہو گا کہ کہیں دشمن اس لفظ کے استعمال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ملک میں سوشلزم کو اس کے اصطلاحی معنی میں قائم کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ہمارا ایک طبقہ اس لفظ کا گرویدہ ہو چکا ہو گا اور اشتراکیوں کے دلوں میں یہ امید پیدا ہو گی کہ آج سوشلزم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کل اس ملک میں اسے اس کے اصطلاحی معنی میں عملی رنگ میں قائم کیا جا سکتا ہے اور وہ اپنی چالیں چلنے لگ جائیں گے اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پس ہم انہیں یہ مشورہ دے سکتے ہیں اور ہمیں مشورہ دینا چاہئے کہ آپ سوشلزم کا لفظ استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور اس سے کمزوری پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ ’’اسلام کا سوشو اکنامک سٹرکچر (Soico Econonic Structure)’’اسلام کا اقتصادی اور معاشی انصاف‘‘ اور اس قسم کے اور بہت سارے لفظ ہیں آپ وہ لفظ استعمال کریں تا کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو اور آپ کو اس میں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
میرے نزدیک ہمیں کسی کے سوشلزم کے لفظ کے استعمال پر غصہ نہیں آنا چاہئے نیز ہمارے اس مشورہ پر ہمارے ان سیاسی رہنمائوں کو بھی طیش نہیں آنا چاہئے کیونکہ یہ مشورہ انہیں ادب کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور ہمدردی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ دیا جا رہا ہے۔ ایسا لفظ کیوں استعمال کیا جائے جو ہمارے ملک میں اور ہمارے ملک سے باہر غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موجب ہو سکے۔
جہاں تک کمیونزم(اشتراکیت) یا سوشلزم یا دوسرے مختلف ازم جن میں کیپٹیل ازم بھی شامل ہے، کا تعلق ہے ان کے متعلق ہم مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام اس قدر کامل اور مکمل نظام زندگی پیش کرتا ہے کہ دنیا میں معاشی اور اقتصادی مساوات کے قیام کی کوئی انسانی کوشش اس کی ہوا کو بھی نہیں پہنچتی وہ اس کی رفعتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ اس لئے ہمیں اسلامی نظام زندگی کو سمجھنے اور اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسلام کا نظام زندگی جس میں معاشیات اور اقتصادیات بھی شامل ہیں ایک مرکزی نقطہ پر قائم ہے اور وہ ہے ’’اللہ‘‘ اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ’’اللہ‘‘۔ تمام صفات حسنہ سے متصف اور اپنی ذات میں اور صفات میں کامل ہے ہمارا پیدا کرنے والا ہے، وہ ہمارا آقا ہے، ہمارا ربّ ہے وہ ہمیں زندگی بخشتا ہے اور ہماری زندگی کو قائم رکھنا بھی اسی کا کام ہے اور ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اس لئے ہمیں ہر وقت اس سے ایک زندہ تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے ہر مخلوق کا وہی خالق ہے اور ہر خلق کا کوئی مقصد ہے اور وہ مقصد یہ ہے اے انسان! کہ ہر چیز کو تیرے لئے پیدا کیا گیا ہے پس کسی فردِ واحد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حقیقی اور غیر مشروط ملکیت کا دعویٰ کرے۔ ہر انسان کے پاس جو چیز بھی ہے وہ بطور امانت کے ہے اور اپنی امانتوں کو دیانتداری کے ساتھ ادا کرنا اس کا فرض ہے۔ اسلام نے اللہ تعالیٰ کی تمام ایسی صفات کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے اور وہ تشبیہی صفات کہلاتی ہیں۔
اس مرکزی نقطہ یعنی ’’اللہ‘‘ کے تصور سے دو خط ممتد ہوئے یعنی دو لکیریں نکلیں ایک خط یا لکیر کو ہم وہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہتے ہیں جو بندے کو خدا تک پہنچاتاہے یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی اور دوسرا وہ خط ہے جو بندہ کو بندہ کے ساتھ اخوت اور محبت اور ہمدردی اور غم خواری اور احسان اور ’’ایتاء ذی القربی‘‘ کے رشتوں کے ساتھ باندھتا ہے اسے ہم حقوق العباد کا راستہ کہتے ہیں یعنی وہ راستہ جس پر چل کر اسلام کی تعلیم کے مطابق حقوق العباد حاصل کئے جانے چاہئیں۔ ان دونوں خطوط یا لکیروں کا ذکر اس آیۂ کریمہ میں ہے جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم دو حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک یہ کہ اللہ کی رضا کے لئے اپنی تمام خواہشات کو ترک کر دیا جائے اور اس کی رضا کے لئے اپنے پر موت وارد کی جائے اور اس سے ایک نئی اخلاقی اور روحانی زندگی حاصل کی جائے۔ اس حصہ کا ذکر مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ میں ہے دوسرا خط یا لکیر جو اس مرکزی نقطہ سے نکلی وہ ’’وَھُوَمُحْسِنٌ‘‘کا خط یا لکیر ہے اسلام کی مادی تمدنی، معاشی، سیاسی، اقتصادی تعلیم اسی سے تعلق رکھتی ہے۔
احسان کے ایک معنی ہیں خوبصورت بنانا اور دوسرے معنی ہیں نیک عقائد اور نیک تعلیم کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا۔ انسان کو انسان سے باندھنے والے اس خط کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ہم نے انسانی معاشرہ کی جو تعلیم دی ہے اگر تم اس پر چلو تو دنیا میں ایک نہایت حسین اور جمیل معاشرہ قائم ہو جائے گا تو اس معاشرہ کی بنیاد احسان پر ہے۔ احسان کے معنی ہیں جتنا حق دوسرے کا مجھ پر ہے میں اسے اس سے زیادہ دوں اور جتنا حق میرا دوسرے پر ہے میں اس سے کم حق اس سے وصول کروں۔ جتنے جھگڑے آج دنیا میں یا آج کل بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پیدا ہو گئے ہیں یہ ’’احسان‘‘ کی نیگیشن (Negation) یعنی نفی ہے یعنی ہر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ دو یا وہ یوں کہتا ہے کہ جو میرا حق ہے وہ مجھے دو اور جو تمہارا حق ہے وہ میں دینے کے لئے تیار نہیں اور اس طرح فتنہ کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلامی معاشرہ احسان کی بنیاد پر قائم ہے یعنی ہر شخص اور ہر گروہ اپنے حق سے کم وصول کرنے میں بشاشت محسوس کرے اور جو حق دوسرے کے اس پر ہیں اسے اس سے زیادہ دینے میں خوش ہو اگر یہ معاشرہ قائم ہو جائے تو کوئی جھگڑا باقی نہیں رہتا مثلاً قران کریم نے ہر انسان کا یہ حق قائم کیا ہے کہ وہ بھوکا نہیں رہے گا یعنی کم سے کم خوراک جو اس کی زندگی کے قیام اور اس کی صحت کی بحالی کے لئے ضروری ہے وہی اسے ملنی چاہئے اگر قرآن کریم میں صرف اسی قدر بیان ہوتا تو پھر بھی جھگڑا پیدا ہونے کا احتمال تھا کہ معلوم نہیں ابھی ضرورت پوری ہوئی ہے یا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ انسان کی زندگی کے قیام اور صحت کی بحالی کے لئے جو کم سے کم خوراک درکار ہے اس کو اس سے کچھ زیادہ دو تا کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، بدظنی پیدا نہ ہو، اگر مثلاً ایک کارخانہ دار ایک مزدور کو اس کے حق سے کچھ زائد دینے پر اصرار کرے اور مزدور سے اپنے حق سے کچھ کم لے رہا ہو تو بڑا پر سکون اور اطمینان بخش معاشرہ پیدا ہو جاتا ہے اگر کوئی مزدور اپنے حق سے کچھ لینے پر بھی غصہ میں نہ آئے اور دوسرے کو اس کے حق سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہو تو پھر بھی کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہو گا یعنی ہر شخص کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ میں نے دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینا ہے۔ ایک سرمایہ دار کی یہ کوشش ہو گی کہ مزدور یا کسان کو اس کے حقوق سے زیادہ مل جائے اور مزدور اور کسان یہ کوشش کریں گے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق دوسروں کا اس پر جو حق بنتا ہے ہم اس سے کچھ زیادہ ہی دے دیں تو کوئی حرج نہیں اگر اس بات میں مقابلہ ہو جائے تو بڑا ہی حسین اور اطمینان بخش معاشرہ قائم ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ خالق کل مالک کل کے مرکزی نقطہ سے نکلا ہوا پہلا خط(یعنی حقوق اللہ) جو ہے اس کا بھی ایک اثر اور ایک عکس آپس کے تعلقات پر پڑتا ہے اور اس آیت سے جو میں نے تلاوت کی ہے تین باتوں کا پتہ لگتا ہے جن کی طرف میں مختصراً اشارہ کر دیتا ہوں۔
اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق بندہ پر ہیں ان کو ادا کیا جائے وہ ہمیں پیدا کرنے والا ہمیں زندگی بخشنے والا، ہمیں قائم رکھنے والا، ہماری ربوبیت کرنے والا، ہمیں استعدادیں بخشنے والا اور ان استعدادوں کو کمال تک پہنچانے والا اور ساری دنیا کو ہماری خدمت پر لگانے والا ہے ہر آن ہمارا ہر ذرہ اس کے احسانوں کے نیچے دبا ہوا ہے ہمیں اس کے شکر گذار بندے کی حیثیت سے زندگی کے دن گذارنے چاہئیں اور جو شخص ان حقوق کی ادائیگی میں اپنے نفس پر ایک موت وارد کرتا اور اپنی خوشیوں کو اس کی رضا کے لئے چھوڑتا ہے اس کے اس فعل کا اثر انسان کے آپس کے تعلقات پر بھی بہت گہرا پڑتا ہے مثلاً پہلی بات ہمیں ایسے مسلم کے متعلق جو بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ کی تعلیم پر کار بند ہے یہ نظر آئے گی کہ وہ ایک خوف زدہ دل سے اپنے مخالف کی بات سنے گا اور تحمل سے اس کو جواب دے گا۔ جو شخص خوف زدہ دل کے ساتھ اپنے مخالف کی بات نہیں سنتا اس میں انانیت ابھی باقی ہے اور جو تحمل کے ساتھ اسے جواب نہیں دیتا اس کا نفس ابھی موٹا ہے اس نے ابھی اپنے نفس کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان نہیں کیا۔
دوسرا اثر ان حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ پر یہ پڑتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو دیانت داری کے ساتھ اور ایثار اور قربانی اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں اور وحدت باری میں گم اور فنا ہیں وہ خشک جھگڑوں میں کبھی نہیں پڑتے وہ سخت گوئی اور بدزبانی کو کبھی اپنا شیوہ نہیں بناتے وہ دوسروں پر وحشیانہ حملے نہیں کیا کرتے ان کو تو ہر وقت اپنی فکر رہتی ہے وہ اپنے نفسوں کی اصلاح میں لگے رہتے ہیں ان کا دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جائے کہ جس کے نتیجہ میں وہ اپنے محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا کرنے میں ناکام ہو جائیں اور اس کے غضب کو مول لے لیں۔ غرض حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں باہمی محبت اور پیار اور انکساری اور عاجزی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور انسان ایک دوسرے کو کھانے کو نہیں دوڑتا۔ زبانیں تیز نہیں کی جاتیں بلکہ دعائیں دی جاتی ہیں کیونکہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ تیسرا اثر جو حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ پر پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کے عقائد اور خیالات اور نظریات کا مخالف ہو وہ اپنے مخالف کی جان اور مال اور عزت کو تباہ کرنے کے پیچھے نہیں پڑتا، اس کا دشمن نہیں بن جاتا اور اسے نابود کرنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ تشدد کا نعرہ نہیں لگاتا اور نہ ظالمانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے بلکہ انصاف اور خدا ترسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے وہ پیار اور محبت سے اپنے نظریات کو قائم کرنا چاہتا ہے اور پیار اور محبت کے ساتھ اپنے حقوق کو لینا چاہتا ہے کیونکہ جو شخص غیر کی جان یا اس کے مال یا اس کی عزت کا دشمن ہوا اس کے دل میں ایک بت ہے وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کر رہا وہ خدا میں ہو کر اپنے حقوق کے حصول کی کوشش نہیں کر رہا وہ اپنے نفس کو اتنا مضبوط اور طاقت ور سمجھتا ہے کہ کہتا ہے کہ جس بات کو میں صحیح سمجھتا ہوں وہ ہونی چاہئے نہیں تو میں دوسرے کی گردن کاٹ دوں گا لیکن وہ شخص جو بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ کی ہدایت کا قائل ہو اور اس پر عمل پیرا ہو وہ اپنے مخالف کے عقائد اور اس کے نظریات کو سن کر اس سے دشمنی کی بجائے محبت کا سلوک کرتا ہے اور اس کو کاٹنے کی بجائے اس کی مدد کو آتا ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے سے اس کی مدد کر۔
(صحیح البخاری کتاب المظلوم باب اَعِنْ اَخَاکَ ظالِمًا اَوْمظلومًا)
پھر دشمنی کہاں رہی پھر تو محبت قائم ہو گئی۔
غرض یہ تین موٹے اثر ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں حقوق العباد، باہمی تعلقات اور نظام حیات پر پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صحیح معنی میں مسلم بن جائو اور اپنے پر ایک موت وارد کرکے اپنی ساری خوشیوں کو خدا کی خوشی اور رضا پر قربان کر دو تو اس کے دو نتیجے نکلیں گے، ایک تو حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر پائو گے دیکھو دنیا میں کوئی ایسا معاشرہ یا کوئی ایسا نظریہ یا کوئی ایسی جدوجہد نہیں جس کا یہ دعویٰ ہو کہ ہم غریب کو اس کا حق دلاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہمیں خداتعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ سے ہمیں اجر ملے گا۔ کمیونزم کیپیٹل ازم یا دوسرے جو ازم ہیں ان میں یا تو خدا کا تصور نہیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا ملنے کا تصور نہیں کیپیٹیلسٹ اقوام اگرچہ زبانی طور پر اپنے ایک خود تراشیدہ معبود کو مانتی ہیں لیکن وہ یہ دعویٰ نہیں کرتیں کہ اگر ہم نے اقتصادی مساوات قائم کی تو اس کے بدلہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا اپنے محبوب کی طرف سے اجر ملے گا لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نتیجہ میں سب سے بڑا فائدہ تمہیں یہ ہو گا کہ اس دنیا میں بھی تمہیں ایک جنت مل جائے گی اور اخروی دنیا کے جنت کے بھی تم وارث بنو گے (فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ) پھر جو جنت اس دنیا میں ملے گی اس میں دو خصوصیتیں ہوں گی ایک تو خوف نہیں ہو گا دوسرے حزن نہیں ہو گا۔ جب ہر شخص دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینے کے لئے تیار ہو گا تو کسی کو یہ ڈر تو نہیں ہو گا کہ میرا حق مارا گیا ہے یا مارا جا سکتا ہے خوف کا تو سوال ہی نہیں رہتا ہر شخص اس کوشش میں ہو گا کہ وہ اپنے بھائی کو اس کے ان حقوق سے کچھ زیادہ دے جو اسلام نے مقرر کئے ہیں اور جب ہر شخص کو اس کے حق سے بھی زیادہ مل جائے گا تو غم کس بات کا؟
خدا کرے کہ یہ جنت ہمارے اس ملک میں بھی اور ہم سب کے لئے بھی قائم ہو جائے۔ ہمیں حقوق سے بھی زیادہ ملنے لگے۔ احسان کی بنیاد پر ہمارا معاشرہ قائم ہو جائے ہمیں کوئی خوف نہ ہو کوئی حزن نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں۔(آمین)

قرآن کریم سے انتہائی پیار کرو اس کا حسن اپنے اوپر چڑھاؤ اور اس کے نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرو
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍ مارچ۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ ہمارا ہر بچہ، جوان اور بوڑھا، مرد عورت قرآن کریم جانتا ہو۔
٭ دنیا کی کوئی روشنی قرآن کریم کے نور کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
٭ قرآن کریم ہی ہماری زندگی اور روح ہے۔
٭ فطرت انسانی کی کمال نشوونما کے سامان قرآن کریم میں ہیں۔
٭ قرآن کریم کے معارف کے حصول کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کا فضل ہے بیماری کا زور تو ٹوٹ گیا ہے لیکن ابھی کھانسی کی وجہ سے گلے پر اثر ہے نیز کچھ نقاہت بھی باقی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے وہی فضل کرنے والا ہے۔
فروری ۱۹۶۶ء میں مَیں نے جماعت کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ وہ قرآن کریم کی طرف خاص اور پوری توجہ دیں اور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا ہر بچہ، جوان اور بوڑھا، مرد عورت قرآن کریم جانتا ہو اور جانتی ہو جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس کا ترجمہ جلد سے جلد سیکھیں اور پھر اپنی ساری زندگی کو ہی ایک طرح قرآن کریم پر غور اور تدبر کرنے اور اس کے احکام اور شرائع پر عمل کرنے کی طرف متوجہ رہیں اور ایک عظیم مجاہدہ اپنے نفس اور اپنے ماحول کو پاک کرنے کیلئے کریں۔
اس تحریک پر قریباً تین سال ہوچکے ہیں اور اس کا پہلا دور ختم ہو گیا ہے۔ اس عرصہ میں ایک حد تک مخلصین جماعت نے اس طرف توجہ دی اور ایک حد تک اس کے اچھے نتائج نکلے۔ لجنہ اماء اللہ ربوہ نے ربوہ میں بڑا اچھا کام کیا ہے۔ اسی طرح ربوہ سے باہر بعض لجنات نے بھی اور خدام اور انصار اور دوسرے عہدہ داروں نے بھی اس کی طرف بہت توجہ دی اور اپنے ماحول میں قرآن کریم کے علوم کے سکھانے، ان کے سمجھنے سمجھانے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو فضل سے نوازا اور بڑے خوش کن نتائج نکلے لیکن پھر بھی ہماری کوشش کا نتیجہ سَو فیصدی نہیں نکلا یعنی ان تین سالوں میں ہر وہ شخص جو اپنی عمر اور سمجھ اور استعداد کے لحاظ سے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا سیکھ سکتا تھا یا ترجمہ سیکھ سکتا تھا یا اس کی تفسیر کے بعض حصے سیکھ سکتا تھا اس نے ایسا نہیں کیا۔
قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے اس میں اتنا حسن ہے کہ انسانی احساس اس کا احاطہ نہیں کر سکتا اور یہ مبالغہ نہیں کیونکہ یہ حسن اس قسم کا ہے کہ عقل احساس انسانی کو بھی حسن بخشتا ہے اور قرآن کریم میں اس قدر نور ہے کہ دنیا کی کوئی روشنی اس کے نور سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے نہیں کہ یہ ہماری خوش فہمی ہے بلکہ اس لئے کہ ہمارے ربّ نے یہ فرمایا ہے کہ سورج کو بھی نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم کے طفیل دیا گیا تو جو طفیلی انوار ہیں ان کا مقابلہ حقیقی انوار سے نہیں کیا جا سکتا۔
پھر یہ کتاب احسان سے بھری ہوئی ہے دنیا کا کون سا فرد بشر ہے جس پر قرآن کریم نے احسان نہیں کیا۔ اگر مسلمان قرآن کریم پر پوری طرح عمل کرنے والے ہوں تو دنیا کے ہر فرد بشر کو اس کے احسان کی زنجیروں کے اندر جکڑ لیں۔ ہماری اپنی سستی ہے۔ احسان کرنے کی راہیں تو موجود ہیں احسان کا منبع تو موجود ہے احسان کی تعلیم اور ہدایت تو موجود ہے انسانی فطرت میں راہِ احسان پر چلنے کی قوت اور استعداد تو موجود ہے۔ ہم سستی کرتے ہیں اور جس حد تک سستی کرتے ہیں دنیا کو اس کے احسانوں سے محروم کر دیتے ہیں تو جہاں تک قرآنی تعلیم کا تعلق ہے قرآن کریم بنی نوع انسان پر اس قدر احسان کرتا ہے کہ دنیا میں کسی ماں کے بچہ نے اس قدر احسان کرنے والی کتاب پیش نہیں کی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نہایت ارفع مقام ہی تھا کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس قسم کی ایک کامل اور احسان کرنے والی کتاب نازل کی۔ آپ عالمین کے لئے رحمت بنے اور قرآنی تعلیم عالمین کے لئے احسان کا باعث بنی۔ اس عظیم کتاب کی طرف توجہ نہ کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ قرآن کریم ہی ہماری زندگی اور روح ہے اگر قرآن کریم کی عطا کردہ زندگی ہم میں نہ ہو تو ہم ایک مردہ لاشہ ہیں جس کا یہ حق تو ہے کہ چیلیں اور کتے اور بھیڑیئے اس لاش کو کھائیں لیکن جس کا یہ حق نہیں کہ خداتعالیٰ کے فرشتے اس پر آسمانوں سے درود بھیجیں اور اس کے لئے دعائیں کریں۔ میں نے اس سلسلہ میں بعض خطبات بھی دیئے تھے اور قرآن کریم کی بعض آیات کی روشنی میں جماعت کو بتایا تھا کہ یہ کتاب کس قدر حسن اور احسان سے بھری ہوئی ہے۔ ان خطبات میں مَیں نے بتایا تھا کہ قرآن عظیم وہ کامل کتاب ہے جس میں سابقہ کتب سماویہ کی اصولی ہدایتیں اور تعلیمیں ہی جمع نہیں کی گئیں بلکہ تمام علوم حقہ صحیحہ کے اصول اور بنیادی حقائق بھی اس میں پائے جاتے ہیں اور یہ ایک ایسا آسمانی صحیفہ ہے جو اپنے معانی اور فوائد کے لحاظ سے اس خصوصیت کا حامل ہے کہ فطرت صحیحہ انسانیہ کسی اور ہدایت اور تعلیم کی احتیاج اس کے بعد محسوس نہیں کر سکتی۔ فطرت انسانی کی سب قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشوونما کے سامان اس میں پائے جاتے ہیں اور اس کی اتباع کرنے والوں کو ربّ کریم کی طرف سے اجر کریم عطا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی قرآن عظیم قرآن مکنون بھی ہے اور اس کے معارف کے حصول کے لئے انتہائی مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ ہوائے نفس سے دل خالی ہو تب اللہ تعالیٰ کا پیار ملتا اور انوار قرآنی سے دل معمور ہوتا ہے کیونکہ جب تک اللہ کی نگاہ میں انسان پاک اور مطہر نہ ٹھہرے دلوں پر حقائق قرآنیہ کا نزول ممکن نہیں۔
پھر میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے وَھُوَالْحَقُّ کہ احکام شریعت قرآنیہ پر عمل پیرا ہوئے بغیر روحانی رفعت اور بزرگی کا حصول ممکن نہیں کیونکہ اس اتباع کے نتیجہ میں ہی خدائے بزرگ و برتر کی صفات کی جھلک انسانی اخلاق میں نظر آتی ہے اور حسن و احسان باری کا یہ عکس دنیا کی نظر میں ایسے انسان کو تعریف و ثنا کا مستحق ٹھہراتا ہے اور ہر صاحب عقل و بصیرت اس کی حمد کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے انسان نیکی اور خیر کے وہ کام کرنے کی توفیق پاتا ہے کہ صرف اسی کی نسل ہی نہیں بلکہ آئندہ نسلیں بھی اس کے احسان کے نیچے دبی ہوئی خود کو محسوس کرتی ہیں اور اسے نیک نام سے یاد کرتی ہیں اور اس کا ذکر خیر باقی رہتا ہے۔
اسی طرح میں نے بتایا تھا کہ قرآن عظیم میں کامل حُسن اور کامل تعلیم اور کامل ہدایت پائی جاتی ہے اور اس بے مثل اور واحد ویگانہ کی ذات کے پَر تو نے کتاب عظیم کو بھی بے مثل بنا دیا ہے۔ اگر ہم اس کے احکام اور اس کی شرائع پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم بھی ایک ایسی قوم بن جائیں گے جس کی مثال دنیا میں نہ ہوگی۔ دنیا ہمارے وجود میں اس قدر حسن، محبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور حسن سلوک دیکھے گی کہ اس کی مثال اُمت محمدیہ کے باہر کہیں نظر نہ آئے گی۔
پھر میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ بعض کو اپنے قہر اور غضب کا مورد ٹھہراتا ہے اور انہیں ’’دُوری‘‘ کے بھیانک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی خوشنودی اور رضا کے عطر سے ممسوح کئے جاتے ہیں ان ہر دو قسم کے انسانوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے کھول کر بیان کیا ہے اور ایسے موثر طریق پر بیان کیا ہے کہ دل نرم ہوتے اور خَشْیَۃُ اللّٰہِ سے بھر جاتے ہیں اور سینہ ودل کی سب روحانی بیماریوں کو شفاء حاصل ہو جاتی ہے اور قرآن کریم کی تعلیم ان راہوں کو روشن کرتی ہے جو اللہ کے قرب تک پہنچانے والی ہیں درجہ بدرجہ اور منزل بمنزل انسان اللہ سے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اپنے نیک انجام تک پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اسے اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔
قرآن کی ہی آیات سے میں نے ان مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی اور مختلف طریقوں سے اپنے بزرگوں، اپنے بھائیوں، اپنے بچوں اور اپنی بہنوں کو اس طرح متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ قرآن سے انتہائی پیار کرو قرآن کا حسن اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرو۔ قرآن کریم کے نور سے منور بنو اور دنیا کو روشنی عطا کرو۔ اسی غرض کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگرچہ جماعت نے اس طرح ایک حد تک توجہ دی ہے اور ایک حد تک اس کے خوشکن نتائج بھی نکلے ہیں لیکن ہماری تسلی کے مطابق سَو فیصدی اچھے نتائج نہیں نکلے اور جیسا کہ میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا میں سمجھتا ہوں کہ اس جدوجہد کا ایک دور ختم ہو گیا ہے اور اب ہمیں ایک نیا دور شروع کرنا چاہئے۔
اس کیلئے میری تجویز یہ ہے کہ اصلاح و ارشاد میں ایک ایڈیشنل ناظر مقرر ہو جو تعلیم قرآنی اور جو اس کے دیگر لوازم ہیں ان کا انچارج ہو۔ مثلاً وقف عارضی کی جو تحریک ہے اس کا بڑا مقصد بھی یہ تھا اور ہے کہ دوست رضاکارانہ طور پر اپنے خرچ پر مختلف جماعتوں میں جائیں اور وہاں قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی کلاسز کو منظم کریں اور منظم طریق پر وہاں کی جماعت کی اس رنگ میں تربیت ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کا جوا بشاشت سے اپنی گردن پر رکھیں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔ وقف عارضی کا نظام بھی اسی ناظر اصلاح و ارشاد کے سپرد ہونا چاہئے اور بہت سی تفاصیل ہیں ان کو انشاء اللہ مشاورت میں مشورہ کے ساتھ طے کر لیا جائے گا اور ایک نگران کمیٹی ہوگی جو مشتمل ہو ناظر اصلاح و ارشاد، ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد اور ایک تیسرے ہمارے ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد ہیں ان پر، نیز انصار اللہ کے صدر اور خدام الاحمدیہ کے صدر پر۔ یہ پانچ عہدیدار ایک کمیٹی کی حیثیت سے اس بات کی نگرانی کریں کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی محبت پیدا کی جائے۔ اس کے حقائق اور اس کے معارف سیکھنے کے سامان پیدا کئے جائیں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا ہوتا ہے اور جماعت کے سارے دوستوں کی اور ساری بہنوں اور بچوں اور بچیوں کی اس رنگ میں تربیت کی جائے کہ وہ نہ صرف ایک علمی کتاب کی حیثیت سے قرآن کریم کو پڑھنے والے ہوں بلکہ ایک ہدایت نامہ کے طور پر اسے سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد نزول ہو تا وہ مقصد جلد پورا ہو جس مقصد کے حصول کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو قرآن کریم کے نور سے منور کیا جائے اور ہر دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کی جائے اور اسلام جیسا کہ خدا کی بشارتیں ہیں تمام دنیا میں ایک غالب، ایک محسن، ایک حسین مذہب کی شکل میں پوری طرح قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب قدرتوں کا مالک ہے اور اسی کی قوت اور طاقت سے غلبہ اسلام ممکن ہو سکتا ہے اسی کی قوت پر ہمارا بھروسہ ہے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۴؍ مئی ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ ہمہ تن اور ہر آن
علومِ قرآنی کے حصول کے لئے کوشش میںمصروف رہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍اپریل۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ مجالس موصیان قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا کام کریں۔
٭ نظام وصیت کامل تقوی اور روحانی رفعتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔
٭ مجالس موصیان کے صدر اور نائب صدر منتخب کریں۔
٭ انصار اللہ تعلیم القرآن کی ذمہ داری پوری کریں۔
٭ خدام الاحمدیہ پر آئندہ اشاعت اسلام کا بوجھ پڑنے والا ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
مشاورت کے ایام میں شدید کھانسی کے دوران بھی مجھے کام کرنا پڑا جس سے جسم بہرحال کوفت اور ضعف محسوس کرتا ہے۔ بہرحال وہ فریضہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ادا ہو گیا ویسے تو اللہ تعالیٰ ہی حافظ ہے لیکن آج کل ٹائیفائیڈ سے بچنے کیلئے ٹیکہ لگوانے کا موسم ہے میں نے وہ ٹیکہ لگوایا جس کے نتیجہ میں دو تین دن سے سارے جسم میں شدید درد ہے سر جکڑا ہوا ہے اور حرارت اور بے چینی کی تکلیف رہی ہے اور اب تک یہ تکلیف چلی آ رہی ہے گو آج نسبتاً افاقہ ہے۔کھانسی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرق ہے مگر نقاہت بہت ہے لیکن چونکہ قرآن کریم کی تعلیم کا مسئلہ بڑی ہی اہمیت رکھتا ہے اور اس سلسلہ میں مَیں بعض باتیں کہنا چاہتا تھا اس لئے میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اپنی بیماری کے باوجود اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کے سامنے مختصراً وہ باتیں رکھوں اور ہدایات دوں۔
سب سے پہلے میں موصی صاحبان کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں کچھ عرصہ ہوا موصیوں اور موصیات کی تنظیم قائم کی گئی تھی اور میرا ارادہ تھا کہ بعض کام اس تنظیم کے سپرد کروں لیکن کچھ روکیں بیچ میں پیدا ہوتی رہیں اور صرف تنظیم ہی قائم ہوئی اور شائد اس میں بھی کچھ سستی پیدا ہوگئی ہو۔ کیونکہ ابھی تک ان سے کوئی خاص کام نہیں لیا گیا خدا چاہتا تھا کہ یہ تنظیم قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے سے اپنا کام شروع کرے اس لئے جہاں جہاں بھی یہ تنظیم قائم ہوئی ہو اس کے صدر صاحبان اور موصیات میں سے جو نائب صدر ہیں وہ
۱۔ ایک ماہ کے اندر اندر جائزہ لے کر رپورٹ کریں کہ ان کے حلقہ میں کس قدر موصی ہیں۔
۲۔ ان میں سے کس قدر قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں۔ جو قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کتنے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں اور جو موصی موصیات قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں یا جانتی ہیں ان میں سے کتنے قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نظام وصیت کی بنیاد اپنے اموال کے دسویں حصہ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر نہیں رکھی تھی یہ تو ایک نچلا درجہ تھا جو موصیوں کے سامنے رکھا گیا تھا۔ اصل غرض جس کے لئے نظامِ وصیت کو قائم کیا گیا تھا وہ کامل تقویٰ کا حصول اور انسان کو ان روحانی رفعتوں کے حصول کے مواقع حسب استعداد بہم پہنچانا تھا جو انسان اپنے ربّ سے نئی زندگی حاصل کرنے کے بعد حاصل کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک ہی فقرہ میں جو بڑا جامع ہے ہر موصی پر اس فریضہ کو قائم کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو سچا اور صاف مسلمان ہو‘‘۔
(الوصیت۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۲۰)
دراصل ایسے گروہ کے قیام کے لئے ہی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بناء پڑی کہ ایک ایسی جماعت بھی قائم ہو جو ہر قسم کی قربانی دے کر اپنے نفسوں میں دین اسلام کو قائم کرتی اور دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی موصی قرآن کریم کا علم ہی نہ رکھتا ہو تو پھر وہ اس تیسری شرط کو کیسے پورا کر سکتا ہے۔ وہ اسے ہرگز پورا نہیں کر سکتا اس لئے نظام وصیت کی جو بنیادی غرض ہے اس کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر موصی قرآن کریم پڑھنا جانتا ہو اس کا ترجمہ جانتا ہو اور اس کی تفسیر کے حصول میں ہمہ تن اور ہر وقت کوشاں رہے۔
قرآن کریم کی تفسیر قرآن کریم کے ترجمہ کی طرح ایسی نہیں کہ پڑھ لیا اور آ گیا اور کام ختم ہو گیا کیونکہ قرآن کریم میں تو علوم کے غیر محدود خزانے ہیں۔ اسی لئے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر موصی کو قرآن کریم کی تفسیر آتی ہو۔ دنیا میں ہمیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آئے گا جو قرآن کریم کی پوری تفسیر جانتا ہو کیونکہ اس کتابِ مکنون سے نئے سے نئے علوم ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور وہ انسان کے علم میں زیادتی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم مختلف علوم کی طرف راہنمائی کرتا ہے بہرحال قرآن کریم کی تفسیر کو پورے طور پر حاصل کر لینا تو ممکن نہیں ہاں یہ ممکن ہے اور یہ فرض ہے ہر مسلمان کا (خصوصاً نظام وصیت میں منسلک ہونے والوں کا) کہ وہ ہمہ تن اور ہر آن علومِ قرآنی کے حصول کی کوشش میں مصروف رہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی کوششوں میں برکت ڈالتا رہے۔ اگر موصی قرآن کریم سے غافل ہوں اور جاہل ہوں موصی ہونے کی بنیادی شرط کو پورا نہیں کر سکتے اس لئے ہر وہ شخص جو موصی ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم ناظرہ جانتا ہو۔ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو۔ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کی کوشش کرتا رہتا ہو اور اگر پہلے غفلت ہوچکی ہو تو اس غفلت کو دور کیا جائے میں سمجھتا ہوں کہ چھ مہینے کا عرصہ کافی ہے چھ مہینے کے اندر اندر ہر موصی کو اس کی استعداد کے مطابق قرآن کریم آ جانا چاہئے جو بڑی عمر کے دیہات میں رہنے والے موصی ہیں انہوں نے بے شک ایک حد تک قرآن کریم کو بزرگوں کی زبان سے سن کر سیکھا ہے اور ان میں سے بعض قرآن کریم کے احکام کو ان افراد سے بھی شاید زیادہ جانتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہونے چاہئیں کہ وہ قرآن کریم کو پڑھنا سیکھیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور پھر تفسیر پڑھ پڑھ کر اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ کوشش خود اگر نیک نیتی کے ساتھ ہو تو کامیاب کوشش کا نتیجہ پیدا کر دیتی ہے یعنی اگر ایسی کوشش ہو جو حالات زمانہ کی وجہ سے یا اللہ تعالیٰ کی بعض دیگر مصلحتوں کی وجہ سے اپنے کامیاب اختتام تک نہ پہنچ سکے تو وہ بھی خلوص نیت کی وجہ سے وہی پھل پاتی ہے جو ایسی کوشش پا رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے نیک انجام کو پہنچ گئی مثلاً جو لوگ جنگ بدر (جو اسلام کی پہلی جنگ تھی) میں شریک ہوئے ان کی دو طرح کی کوششیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ تھے جن کی کوشش اسی میدان میں ختم ہوگئی انہوں نے جام شہادت پی لیا اور وہاں خدا کی راہ میں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک قربانی دے دی لیکن کچھ اور لوگ تھے جو بدر کے میدان میں بھی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے موت سے کھیلتے رہے اور اس کے بعد ہر جنگ کے میدان میں اور ہر مجاہدہ کے میدان میں اُنہوں نے خلوص، نیک نیتی اور اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت کے تعلقات کا مظاہرہ کیا۔ دیکھنے میں ان لوگوں کی قربانیوں کا مجموعہ ظاہری طور پر اس قربانی سے مختلف اور بڑا ہے جو شروع میں ہی پیش کی گئی اور پھر قربانی کا زمانہ ختم ہو گیا اور جزا کا زمانہ شروع ہو گیا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن لوگوں کی قربانیوں کا زمانہ ابتدائے اسلام ہی میں ختم ہو گیا ان کی جزا ان لوگوں کی جزا سے کم ہوگی جن کی قربانیوں کا زمانہ لمبا ہو گیا کیونکہ جن کی قربانیوں کا زمانہ ابتدائے اسلام ہی میں ختم ہوا ان کی نیت اور ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا نہیں کرتا تھا کہ وہ محدود عرصہ تک قربانی دیں اور پھر خدا تعالیٰ سے غفلت برتنے لگ جائیں اور محمد رسول اللہ ﷺ سے دُوری کی راہ کو اختیار کریں۔ ان کے دل میں یہی تڑپ تھی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک اللہ کے لئے سانس لینے والے ہوں اور جب تک ان کے سانس میں سانس رہا وہ اپنی نیت کے مطابق قربانیاں دیتے چلے گئے اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل مصلحت سے ان کی قربانی اور ان کے عمل کے زمانہ کو ختم کر کے ان کی جزا اور ثواب اور اجر کا زمانہ شروع کر دیا تو وہ یہی تڑپ لے کر اِس دنیاسے اُس دنیا میںداخل ہوئے کہ اگر اللہ انہیں پھر زندگی دے تو وہ اسی طرح موت سے لپٹیں گے اور اگر پھر اللہ تعالیٰ انہیں زندگی دے تو پھر بھی وہ ایسا ہی کریں گے۔ اسی طرح تڑپ کے ساتھ انہوں نے اس دنیا کو چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبہ کی جزا دوسروں کی جزا کے برابر ہی ان کو بھی دی۔
اگر کوئی موصی یہ سمجھتا ہو کہ اس وقت میری عمر ۷۵ سال ہے اور آج تک میں نے کبھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی اگر میں اب قرآن کریم پڑھنا اور سیکھنا شروع کروں تو میں اسے ختم نہیں کر سکتا تو میں اس کو کہوں گا کہ جو مثال میں نے ابھی دی ہے اس پر غور کرو۔ اگر تم قرآن کریم پڑھنا یا اس کا ترجمہ سیکھنا یا اس کی تفسیر سیکھنا شروع کر دو گے تو اگر ایک آیت پڑھنے کے بعد تم اس دنیا سے رخصت ہوگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں وہی جزاء دے گا جو اس نے ان لوگوں کے لئے مقدر کی ہے جن کواس کی طرف سے سارا قرآن کریم ناظرہ پڑھنے اس کا ترجمہ سیکھنے اور اس کی تفسیر جاننے کی توفیق ملی کیونکہ جو کوشش بدنیتی کی وجہ سے نہیں بلکہ آسمانی فیصلہ کے نتیجہ میں بظاہر بند ہوتی نظر آتی ہے وہ بند نہیں ہوا کرتی اپنی جزا کے لحاظ سے وہ کوشش اور وہ عمل اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کی قدرت کاملہ میں جاری ہی سمجھا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہمارا ربّ اپنے حقیر اور نااہل بندوں کو جزا دیا کرتا ہے ورنہ کون انسان ابدی جزا کا مستحق ہو سکتا ہے یہ تو اس کی رحمت کا سلوک ہی ہے کہ اس کے ایک عاجز بندے کو اس کے محدود اعمال کا غیر محدود بدلہ مل جاتا ہے۔ پس اس خیال سے مت ڈرو کہ شاید ہم قرآن کریم ناظرہ ختم کرنے سے قبل اس دنیا کو چھوڑ جائیں یا قرآن کریم کا ترجمہ ختم کرنے سے قبل اس دنیا کو چھوڑ جائیں۔ اگر آپ نے پہلے غفلت کی ہے تو اس غفلت کے بدنتائج سے بچنے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اب آپ جس عمر میں بھی ہوں پوری محنت اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھنے اور سیکھنے کی کوشش کریں۔
پس ایک تو موصیوں کے صدر اور نائب صدر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے موصیوں کا جائزہ لے کر ایک ماہ کے اندر اندر ہمیں اس بات کی اطلاع دیں کہ کس قدر موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر موصی کو (تینوں معنی میں جن کی تشریح میں پہلے کر چکا ہوں اب دہرانے کی ضرورت نہیں) قرآن کریم آتا ہو اور تیسری ذمہ داری آج میں ہر اس موصی پر جو قرآن کریم جانتا ہے یہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ وہ دو ایسے دوستوں کو قرآن کریم پڑھائے جو قرآن کریم پڑھے ہوئے نہیں اور یہ کام باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کی اطلاع نظارت متعلقہ کو دی جائے۔
انصار اللہ کو آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے طوعی اور رضاکارانہ چندوں کی ادائیگی میں سست ہوچکے ہیں (اللہ تعالیٰ آپ کو چست ہو جانے کی توفیق عطا کرے) لیکن مجھے اس کی اتنی فکر نہیں جتنی اس بات کی فکر ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایک ذمہ داری تو خود قرآن کریم سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں (مردوں اور عورتوں) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق راعی بنائے گئے ہیں۔ آپ ان دونوں ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تر ان کی طرف متوجہ ہوں ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اُٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور ایسے احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ راعی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآنِ کریم کے سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہئے اور انصار اللہ کی تنظیم کا یہ فرض ہے کہ وہ انصار اللہ مرکزیہ کو اس بات کی اطلاع دے اور ہر مہینہ اطلاع دیتی رہے کہ انصار اللہ نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا ہے اور اس کے کیا نتائج نکلے ہیں۔
خدام الاحمدیہ کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ اشاعت اسلام کا بڑا بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑنے والا ہے کوئی ایک طفل یا کوئی ایک نوجوان بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو احمدیت کے مقصد سے غافل رہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی سے غافل رہے جو ہمارے ربّ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا ہے گو ہر عمر میں انسان کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے لیکن عام حالات میں ایک ساٹھ سالہ ادھیڑ عمر کے انسان کی طبعی عمر اس نوجوان کی عمر سے کم ہوتی ہے جو ابھی سولہ یا سترہ سال کا ہے آپ اپنے روحانی بنک یا خزانہ (اگر یہ لفظ اس جگہ کے لئے استعمال ہو جہاں خزانہ رکھا جاتا ہے) کو اگر آپ چاہیں تو بہت زیادہ بھر سکتے ہیں لمبی عمر ہے جس شخص نے کئی فصلیں کاٹنی ہوں اس کے گھر میں دانے بہت زیادہ ہوں گے اگر وہ دانے جمع کرے اور اگر دانے بیچے تو مال زیادہ ہوگا لیکن جس شخص نے ایک ہی فصل کاٹنی ہو یا دو فصلیں کاٹنی ہوں تو اگر اس کا پیٹ بھر جائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے لیکن اس دنیا میں تو پیٹ بھر جاتا ہے مگر اُخروی زندگی کی جو نعماء ہیں ان کے متعلق کوئی شخص یہ سوچ نہیں سکتا کہ بے شک وہ نعماء ہمیں تھوڑی مقدار میں مل جائیں زیادہ کے ہم امیدوار نہیں ان نعمتوں کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق کوشش ہونی چاہئے ۔ پس خدا م الاحمدیہ کی تنظیم اپنے طور پر بحیثیت خدام الاحمدیہ اس بات کا جائزہ لے اور نگرانی کرے کہ کوئی خادم اور طفل ایسا نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتا ہو یا مزید علم حاصل کرنے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ اسی طرح لجنہ اماء اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات اور ناصرات الاحمدیہ ان لوگوں کی نگرانی میں جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے قرآن کریم پڑھ رہی ہیں یا نہیں۔ میں لجنہ اماء اللہ پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کر رہا کہ وہ سب کو قرآن کریم پڑھائیں کیونکہ اس سے تو باہم تصادم ہو جائے گا کیونکہ میں نے کہا ہے کہ ہر ایک موصی دو اور افراد کو قرآن کریم پڑھائے اگر مثلاً اس کی بیوی قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی تو وہ پہلے اپنی بیوی کو ہی پڑھائے گا یا میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر رکن انصار اللہ اس ماحول میں جس ماحول کا وہ راعی ہے قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ جن پر قرآن کریم پڑھانے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے (جہاں تک مستورات اور ناصرات کا تعلق ہے) وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ رہے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں رہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور مستورات اور ناصرات کو پڑھانا شروع کر دیں اور اس کی اطلاع مرکز میں ہونی چاہئے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ پوری ہمت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تعلیم القرآن کے اس دوسرے دور میں داخل ہوں اور خدا کرے کہ کامیابی کے ساتھ (جہاں تک موجودہ احمدیوں کا تعلق ہے) اس سے باہر نکلیں۔ ویسے یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ نئے بچے، نئے افراد، نئی جماعتیں اور نئی قومیں اسلام میں داخل ہوں گی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا تو ساری دنیا کا معلم بننے کی تربیت آپ ہی کو حاصل کرنی چاہئے۔ خدا جانے آپ میں سے کس کو یہ توفیق ملے کہ وہ ساری دنیا میں تعلیم القرآن کی کلاسیں کھولنے کا کام کرے لیکن اگر ہم آج تیاری نہ کریں تو اس وقت اس ذمہ داری کو جو اس وقت کی ذمہ داری ہوگی ہم نباہ نہیں سکیں گے۔
غرض موصیوں کی تنظیم بھی اور انصار اللہ کی تنظیم بھی اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم بھی اور لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم بھی اس طرف پورے اخلاص اور جوش اور اہمیت کے ساتھ متوجہ ہو جائیں اور کوشش کریں کہ جلد سے جلد ہم اپنے ابتدائی کام کو پورا کر لیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے تفسیر القرآن تو نہ ختم ہونے والا کام ہے وہ تو جاری رہے گا۔ اس سلسلہ میں مَیں سمجھتا ہوں کہ جن دوستوں کے پاس تفسیرصغیر نہیں ہے انہیں تفسیر صغیر خرید لینی چاہئے کیونکہ وہ ترجمہ بھی ہے اور مختصر تفسیری نوٹ بھی اس میں ہیں۔ عام سمجھ کا آدمی بھی بہت سی جگہوں میں صحیح حل تلاش کر لیتا ہے جو اس کے بغیر اس کیلئے مبہم رہیں۔
جماعتی تنظیم کا یہ کام ہے وہ تعلیم القرآن کے کام کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے نیز وہ یہ دیکھے کہ انصار اللہ، موصیان، خدام، لجنہ اور ناصرات کے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آخری تین چارمنٹ سے ضعف کی وجہ سے مجھے چکر آ رہے ہیں کھڑا ہونا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور صحت عطا فرمائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭

انسان کی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور صرف اس کا بندہ بنے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍اپریل۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کردو۔
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بنوگے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی سیرت اور اخلاق پر چڑھاؤ۔
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت اورعبودیت کے لئے پیدا کیا ۔
٭ شیطان تمہاری نیکیوں کو تمہاری ہلاکت کا باعث نہ بنا دے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ قرآنی آیات پڑھیں۔
وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ
(الذٰرٰیت: ۵۶ تا۵۷)
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَo حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo (البینۃ: ۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
سورۂ ذاریات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگرچہ نصیحت اور یاددہانی سے وہی لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ایمان کے قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا کرے لیکن پھر بھی تم تمام بنی نوع انسان کو نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ انہیں یہ بات سمجھاتے چلے جاؤ کہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور انسان صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ بنے۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت کا کیا مفہوم ہے؟ یعنی یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ چونکہ پیدائش انسانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے تا کہ مقصدِ حیات حاصل ہو اس آیۂ کریمہ میں ’’عبادت‘‘ کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اللہ کے نزدیک اور شریعت اسلامیہ کی رو سے اس کے کیا معنی ہیں؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خداتعالیٰ نے سورۂ بیّنہ میں فرمایا کہ انہیں صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ دین کو محض اور محض اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس فقرہ یعنی مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں اللہ تعالیٰ نے عبادت کے اس مفہوم پر روشنی ڈالی ہے جو خدا تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ پرجب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ لغت کی رُو سے الدِّیْنُ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جن میں سے میرے خیال میں مندرجہ ذیل گیارہ معانی یہاں چسپاں ہوتے ہیں۔
دین کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ’’عبادت کرنا‘‘ اَلدِّیْنُ الْعَبَادَۃُ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے جب یہ کہا کہ انسان اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت اور پرستش صرف اور صرف اللہ کے لئے ہو اور اللہ ہی کی عبودیت اختیار کی جائے۔ انسان اپنی جہالت اور گمراہی کے نتیجہ میں بسا اوقات اپنی پرستش میں غیر اللہ کو شامل کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی یہ عبادت بعض دفعہ ظاہری ہوتی ہے۔ بعض دفعہ خفیہ اور باطنی ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ انسان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اس کی عبادت کرنے لگ جاتے ہیں اور منتیں ماننے لگ جاتے ہیں یا بے جان مخلوق کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اس مخلوق کو خوش کر کے یا ان کی وساطت سے اللہ خالق ہر دو جہان کو خوش کر کے کوئی فائدہ اُٹھا لیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہر قسم کی عبادات صرف میری ہی کی جائیں اور میرے غیر کو عبادت اور پرستش میں شریک نہ کیا جائے یعنی توحید خالص ہو۔
(۱) خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے (خواہ بت ہو یا انسان، سورج ہو یا چاند یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکرو فریب (ہو) منزہ سمجھنا۔
(۲) ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر ربّ اور فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اس کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔
دین کے دوسرے چسپاں ہونے والے معنی کی رُو سے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کو صرف اللہ کے لئے خالص کر دو کیونکہ الدِّیْنَ کا لفظ الطَّاعَۃَ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ صرف عبادات ہی کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرنا بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری کو بھی اللہ کے لئے خالص کر دینا ہے یعنی محبت و اطاعت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرانا اور اسی میں کھوئے جانا۔
یہ بہت وسیع مضمون ہے اگر ہم اپنی زندگیوں کا محاسبہ کریں تو ہمیں اپنی زندگی میں بھی بہت سے واقعات ایسے نظر آئیں گے جب ہم نے اللہ کی اس خالص اطاعت کا حق ادا نہیں کیا ہوگا۔ مثلاً ہم قانون کی اطاعت اس نیت سے نہیں کر رہے ہوں گے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ قانونِ وقت کی اطاعت کرو بلکہ اس لئے کر رہے ہوں گے کہ اگر ہم نے قانونِ وقت کی اطاعت نہ کی تو ہمیں مصیبت میں پڑنا پڑے گا یعنی دنیا کی مصیبت سے بچنے کیلئے وہ اطاعت ہے اللہ کی رضا کے حصول کے لئے وہ اطاعت نہیں تو نیت کی بیماری اور نیت کی کمزوری اور نیت کی جہالت ہمیں اپنی زندگی میں بھی نظر آتی ہے اور بُرے ماحول میں تو یہ چیز بڑی کثرت سے نظر آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جس عبادتِ خالصہ کے لئے تمہیں پیدا کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کو خالصۃً اللہ کے لئے کرو اور اَرْبَابٌ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ کی اطاعت نہ کرو۔ اس طرح پر ایک تو انسان ہر قسم کی غلامی سے بچا لیا گیا اور اس کی ہر قسم کی دینی و دنیوی ترقیات کے لئے اور دینی و دنیوی انعامات کے حصول کے لئے ایک ہی کی غلامی کو کافی سمجھا گیا (جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّاِسْمُہٗ) اور اس میں یہ فرمایا گیا ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جس بندگی اور عبادت کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اور صرف اللہ کے غلام اور بندے بنو کسی اور کی اطاعت نہ ہو۔ کسی اور کے لئے اطاعت نہ ہو کسی انسان کو خوش کرنے کے لئے فرمانبرداری کا اظہار نہ ہو ہر قسم کی اطاعت اور فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی بیرونی دباؤ کے نتیجہ میں نہ ہو مثلاً جس وقت بچہ اپنے بالغ شعور کو نہیں پہنچتا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عمر میں اس پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ نماز پڑھو۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر بچہ دس سال کا ہو جائے تو اس پر دباؤ ڈال کر اس سے نماز پڑھوانی چاہئے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ نماز پڑھانے کے لئے بیرونی دباؤ کی اجازت دی گئی ہے غلط ہے کیونکہ دس سال کے بچے کو تو کوئی بالغ شعور ہی نہیں ہوتا وہ اللہ کے حضور عاجزانہ دعا کے لئے علی وجہ البصیرت جھکنے کی بلوغت کو ابھی نہیں پہنچا ہوتا جس کا مطلب یہ ہوا کہ دس سال کے بچے کو تو ہم نے اس پر دباؤ ڈال کر نماز پڑھوانی ہے اور دس سال کی عمر سے لے کر بلوغت صلوٰۃ کی عمر تک جو درمیانی عرصہ ہے اس میں اسے وہ تعلیم اسلامی اور صحیح تربیت دینی ہے کہ اس کے دل میں نماز کی محبت اور شوق پیدا ہو اور دلی شوق سے وہ نماز پڑھنے لگے۔ اس لئے نہیں کہ اس کے باپ نے دس سال کی عمر میں اسے زبردستی نماز پڑھائی تھی بلکہ اس لئے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوچکا ہوگا کہ نماز کے بغیر، صلوٰۃ کے بغیر عاجزانہ گریہ و زاری کے ساتھ خدا کے حضور جھکنے اور اسی سے ہر شے طلب کرنے کے بغیر میری زندگی زندگی نہیں۔ اگر ہم یہ روح جو نماز کی ہے اور دعا کی ہے اپنے بچے کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں یا کامیاب نہ ہوں تو ہمیں یہ نظارہ نظر آئے گا کہ ایک تو وہ بچہ ہے جسے دس سال کی عمر میں بوجہ شعور، علم اور ذہنی ارتقاء کے فقدان کے ہم زبردستی نماز پڑھاتے ہیں لیکن جس وقت وہ بالغ ہوتا ہے تو بعض دفعہ روحانی رفعتوں کے حصول کے میدان میں وہ اپنے باپ سے بھی مقابلہ کر رہا ہوتا ہے اور اپنے عاجزانہ مجاہدہ کو اپنے باپ سے بھی بڑھانے کی کوشش کرتا ہے یعنی ایک قسم کا روحانی مقابلہ سا شروع ہو جاتا ہے تو وہی بچہ جس پر دس سال کی عمر میں نماز کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا اور اس سے دعائیں مانگتا ہے لیکن مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والا ایک وہ بچہ بھی ہے کہ دس سال کی عمر میں ہم نے اس پر دباؤ ڈالا اور نماز پڑھائی لیکن خدا تعالیٰ نے صحیح تربیت کی ذمہ داری جو ہم پر عائد کی تھی وہ ذمہ داری ہم نے پوری نہیں کی وہ دباؤ کے نیچے نماز پڑھتا رہا اور کسی موقع پر بھی ہم نے اس کو یہ نہیں سمجھایا یا اسے سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ دعا میں ہی انسان کی ساری زندگی ہے اور اگر انسان ہر وقت دعا اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے تبھی وہ دینی و دنیوی نعمتوں کا وارث بنتا ہے چونکہ ہم نے اس کی اس رنگ میں تربیت نہیں کی اس لئے جس وقت وہ بالغ ہوتا ہے اور اس دباؤ سے آزاد ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو مسجد سے بھی آزاد سمجھ لیتا ہے پھر وہ نماز کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ ہم بڑے بدقسمت ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس بدقسمتی کا چشمہ تو تمہاری اپنی غلط تربیت سے پھوٹا اور تم نے یہ سمجھ لیا کہ صرف دباؤ ڈالنا ہی کافی ہے اور یہ نہیں سمجھا کہ دباؤ ڈالنے سے تمہارا مقصد یہ تھا کہ ایک نیم شعوری سی عادت پڑ جائے اور تمہیں ایک موقع دیا گیا تھا کہ تم اپنے بچے کی صحیح رنگ میں تربیت کر کے صحیح شوق پیدا کرو گے کہ وہ نمازیں ادا کرنے لگ جائے لیکن تم نے وہ موقع ہاتھ سے کھو دیا۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے اطاعت کو اور فرمانبرداری کو خالص رکھنا۔ کسی قسم کے دباؤ کے نتیجہ میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرنی کیونکہ اس صورت میں تو وہ غیر تمہیں اگر اس کی طاقت ہو اس فرمانبرداری کی جزا دے گا جس کے ڈر سے یا جس کو خوش کرنے کے لئے تم نے ظاہرۃً اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی لیکن اس وجود میں یہ طاقت نہیں تمہارا فعل بے نتیجہ نکلے گا اور تمہیں کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا۔
اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ بہت سی غیر اللہ کی اطاعتیں ہمیں ایسی بھی نظر آتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ مثلاً خدا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو گے تو میرے محبوب بنو گے آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرو گے تو میرے محبوب بنو گے۔ آپ کے اسوہ کو اپنی زندگیوں میں قائم کرو گے آپ کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ گے تو میرے محبوب بنو گے ایسی اطاعتیں جو بظاہر ایک اور رنگ رکھتی ہیں وہ بھی دینی جامہ پہن لیں گی اگر تم اس اطاعت کو اس لئے کرو کہ اللہ کہتا ہے اطاعت کی جائے اور جہاں اللہ نہ کہتا ہو وہاں اطاعت نہ کرو مثلاً خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کرنی ہے ان کا ادب و احترام کرنا ہے۔ یہ خدا کا حکم ہے لیکن جو شخص خدا کے حکم کے نتیجہ میں ماں باپ کی اطاعت کرتا ہے اور اس اطاعت اور فرمانبرداری اور اس ادب و احترام کے پیچھے یہ روح کام نہیں کر رہی ہوتی کہ میرا باپ مجھے مال دے گا یا ورثہ میں شاید مجھے دوسرے بھائیوں سے زیادہ حق دے دے بلکہ روح یہ ہوتی ہے کہ میرا ربّ کہتا ہے کہ اپنے ماں باپ کی اطاعت کرو، ادب و احترام کرو اس لئے میں اطاعت کر رہا ہوں تو پھر اس کو ثواب ملے گا۔ بعض جاہل ماں باپ اس سلسلہ میں اپنی اولاد کو امتحان میں بھی ڈالتے ہیں کہتے ہیں شرک کرو۔ خدا کہتا ہے کہ اگر ماں باپ کہیں کہ شرک کرو تو شرک نہیں کرنا ایسی اطاعت نہیں کرنی ان کے ساتھ نرمی، محبت اور پیار کا سلوک کرنا ہے۔ ادب و احترام کرنا ہے لیکن ماں باپ کے کسی ایسے حکم کی اطاعت نہیں کرنی جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو اور اس کی ناراضگی مول لینے والا ہو۔
پس مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ میں اگر ’’اَلدِّیْنُ‘‘ کے معنی اطاعت کے کئے جائیں تو اس کا مفہوم یہ نکلے گا کہ ہم نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ ہماری عبادت کرے۔ اللہ اور اس کے بندوں کی اطاعت و فرمانبرداری صرف اس لئے ہو کہ اللہ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ اللہ کی فرمانبرداری اس لئے نہ ہو کہ دنیا ہمیں بڑا بزرگ سمجھے گی اور بندے کی فرمانبرداری اس لئے ہو کہ خدا کہتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کرو۔ اگر وہ قادر و توانا کہتا ہے کہ ان کی فرمانبرداری نہ کرو تو نہیں کریں گے۔ ماں باپ کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اگر وہ معروف کا حکم نہ دیں اگر وہ شرک کی طرف لے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اسی کے لئے ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کے ایک معنی مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ میںہمیں یہ بتائے گئے ہیں کہ اللہ کے اخلاق کا رنگ اپنے پر چڑھاؤ کیونکہ دین کے معنی سیرت کے ہیں تو مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ کے معنی ہوں گے کہ اپنی صفات پر صفات باری کا رنگ چڑھاؤ اور ان کے اظہار کو محض اللہ کے لئے اسی کی سیرت میں اور اسی کی صفات سے رنگین ہو کر کرو۔ گویا اس میں ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ‘‘ کا مفہوم ہے کہ اللہ کے اخلاق اور اس کی صفات کا رنگ اپنی سیرت اور اخلاق پر چڑھاؤ۔ مثلاً اگر تم اپنے اخلاق پر مغربیت کا رنگ چڑھاؤ گے، اگر تم اپنے نفس پر اسراف کرنے والوں کا رنگ چڑھاؤ گے۔ اگر تم اپنے نفس پر بخل کرنے والوں کا رنگ چڑھاؤ گے تو پھر تم خدا کی خالص عبادت کرنے والے نہیں۔ تمہارا تعلق محبت ان لوگوں سے ہے جن کے رنگ میں تم رنگین ہونا چاہتے ہو۔ اگر تمہارے دل میں اللہ کی خالص محبت اور عبودیت ہو تو پھر تو تم اسی کی نقل کرو گے، اسی کے اخلاق کو اپناؤ گے اگر انسان اللہ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کر لے تو اس کا ہمارے معاشرہ میں اتنا حسین نتیجہ نکلتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں یہ بھی بڑا ہی وسیع مضمون ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ رزاق ہے تو جس رنگ میں اللہ تعالیٰ رزاق ہے اسی رنگ میں انسان کو جس حد تک خدا تعالیٰ نے اسے توفیق دی ہے رزاق بننا چاہئے۔ اب اللہ تعالیٰ رزاق ہے ابوجہل کو بھی رزق دے رہا تھا اس کو بھوکا نہیں مارا بلکہ ایک وقت میں مسلمانوں کو بھوک کے امتحان میں سے گزارا اور ان پر سختیاں آئیں مگر ان لوگوں کو اس زمانہ میں اس امتحان میں نہیں ڈالا پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنا انتقام لیا اس وقت مکہ والوں کو قحط کے امتحان میں ڈالا اور مومن اور کافر میں ایک امتیاز پیدا کیا کہ جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو طاقت ملی انہوں نے مسلمانوں کو بھوکا رکھا اور ان کے لئے قحط کے آثار پیدا کئے۔ لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو طاقت ملی آپ کسی کو بھوکا نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ یہ بات خدا تعالیٰ کی سنت اور اس کے اخلاق اور صفات کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ان کے اخلاق ظاہر ہونے چاہئیں کہ واقعہ میں میری صفات سے متصف اور میرے ہم رنگ بن رہے ہیں۔ خدا نے مکہ والوں کے لئے آسمانی حوادث کے نتیجے میں قحط کے سامان پیدا کئے تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مکہ والوں کے لئے رزق کے سامان پیدا کئے۔
پھر ہم مثلاً جزا دیتے ہیں، بدلہ دیتے یا سزا دیتے ہیں جزا سزا دونوں اکٹھے چلتے ہیں بعض دفعہ ہمیں گھر میں بچوں کو سزا دینی پڑتی ہے، کان کھینچنے پڑتے ہیں جو مُنصف ہوں ان کو اپنے عہدے کی وجہ سے کسی نتیجہ پر پہنچ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے، سزا دینی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری صفت مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ جس رنگ میں اس دنیا میں ظاہر ہو رہی ہے وہی رنگ اپنے اندر پیدا کرو۔ جب تمہیں مالک بننے کی توفیق یا موقع ملے تو اس وقت اس بات کا خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ ہم تو عذاب اس لئے دیتے ہیں کہ یہ شیطان سے اپنا تعلق توڑ دیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کریں اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث بنیں۔ یعنی عذاب کا مقصد ہی رحمت کے حصول کا امکان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پس غصے سے کسی کو سزا نہیں دینی چاہئے بعض دفعہ یہاں سکول ماسٹروں کو بھی بڑی سختی سے سمجھانا پڑتا ہے کہ بچوں کو سزا دیتے وقت غصے کا اظہار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے ربّ کی صفت کے مطابق اصلاح کا خیال رکھا جائے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے تم پر بڑا ہی ظلم کیا ہو خواہ ظلم کی انتہا ہی کیوں نہ ہو گئی ہو اگر تم یہ دیکھو کہ معاف کرنے میں اس کی اصلاح ہے تو تم اسے معاف کر دو۔ اپنے سارے احساسات اور جذبات کو خدا کے لئے قربان کر کے اس کی صفات کا رنگ اپنے پر چڑھاؤ۔
پس یہ ایک وسیع مضمون ہے جو ہماری کتب میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب میں نے یہ کہا کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت اور عبودیت کے لئے پیدا کیا ہے تو میرا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان میری صفات کا رنگ اپنی صفات پر چڑھائے اور میری نقل کرے غیر اللہ کی نقل نہ کرے میری نقل میں اپنی بھلائی سمجھے اور پائے، میرے غیر کی نقل میں کوئی بھلائی نہ دیکھے اور نہ پائے، نہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب دیکھو! اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا میں کتنا فسادِ عظیم پیدا ہو گیا۔ اس وقت دنیا میں بعض ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو دنیوی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری کوششیں دنیا کیلئے وقف کر دیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اس دنیا سے انہیں حصہ دے دیا اور ساتھ ہی یہ تنبیہہ کر دی کہ اُخروی زندگی میں تمہیں کوئی انعام نہیں ملے گا۔ ان تمام ترقیات کے ساتھ ان کے اخلاق کے بعض پہلو نہایت بھیانک ہیں بہت سی دوسری قومیں جو ترقی یافتہ نہیں وہ بسا اوقات ان دنیوی لحاظ سے ترقی یافتہ اقوام کی خوبیوں کی طرف اتنی توجہ نہیں دیتیں جتنی ان کی بداخلاقیوں بد اعمالیوں اور بدعادات کی نقل کرنے کی طرف توجہ دیتی ہیں حالانکہ دنیا میں ہمیں کوئی ایسا وجود نظر نہیں آتا جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ اگر ہم کُلّی طور پر اس کی نقل کریں گے اور اس کی عادات کو اپنی عادت بنانے کی کوشش کریں گے اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی کریں گے اس کے اخلاق کا اپنے اخلاق پر رنگ چڑھائیں گے تو ہر پہلو سے ہم دین و دنیا کی حسنات حاصل کریں گے۔ سوائے اس ہستی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جو انسانوں میں پیداتو ہوئی لیکن جس کا اپنا وجود کلیۃً اور کاملۃً فنا ہو گیا اور جس پر ہر زاویۂ نگاہ سے ہمیں خدا کا رنگ ہی نظر آیا اور جس کے ہر مسام سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے نور کی کرنیں ہی پھوٹتی ہوئی نظر آئیں۔ آپ کی نقل کرنا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنانا دراصل اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانا ہے کیونکہ آپ کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظاہرہ کرنے میں گزری۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ایک بڑا وسیع مضمون ہے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر ہوا ہے ان کو سامنے رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ آپ کی ذات بہترین اُسوہ ہے تو جب ہمیں یہ کہا گیا کہ اگر میرا پیار حاصل کرنا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرو تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ اگر میرا پیار حاصل کرنا ہے تو میرے اخلاق کا رنگ اپنے اندر پیدا کرو کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وجود سے فانی اور خدا میں ایسے گُم تھے کہ آپ کی زندگی میں انسان کو صرف اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے جلوے نظر آتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب یہ حکم دیا تو ساتھ اس بات کا بھی اعلان کر دیا کہ میں نے انسان کو یہ طاقت اور استعداد دی ہے کہ وہ میرے اخلاق اپنے نفس میں پیدا کر سکے کیونکہ اگر اُس کو یہ طاقت اور استعداد بخشی نہ جاتی تو اس سے مطالبہ بھی نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان! میں نے تجھے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اور اس عبادت کے سب تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے جن قوتوں اور استعدادوں کی ضرورتیں تھیں وہ میں نے تجھے عطا کیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اور میں تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ عبادت کا حق پورا نہیں ہوگا جب تک مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ ہو کر میری عبادت نہیں کرو گے اور دین کے ایک معنی وَرع کے ہیں کہ سب نیکیاں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے کی جانی چاہئیں۔ شیطان بہت سے نیک اعمال کرنے والوں کے دلوں میں بھی ریا وغیرہ بہت ساری بُری باتیں پیدا کر دیتا ہے (اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے) تو فرمایا کہ تمہیں میری راہ میں نیک اعمال بجا لاتے وقت اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ شیطان تمہاری نیکیاں تمہاری ہلاکت کا باعث نہ بنا دے۔ تکبر، ریا، خود پسندی اور دوسرے کی تحقیر اور تذلیل کرنے کی عادت وغیرہ بہت سے چور دروازے ہیں جن سے شیطان داخل ہوتا اور انسان کی نیکیوں کو کھا جاتا اور انہیں تباہ کر دیتا ہے تو فرمایا نیک اعمال بجا لاؤ کیونکہ اس کے بغیر میری عبادت کا حق ادا نہیں ہوتا اور اس کے بغیر تمہاری روحانی ترقیات کے سامان بھی پیدا نہیں ہو سکتے لیکن اپنی نیکیوں کی مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ ہو کر حفاظت کرو ہم نے صرف اس کے لئے نیکیاں کرنی ہیں دکھاوے کے لئے نہیں کرنیں۔ ریا نہیں ہوگا تکبر نہیں ہوگا۔ دوسرے کو ذلیل کرنے کا کوئی تصور یا خیال دماغ میں نہیں ہوگا وغیرہ شیطان جن چور دروازوں سے داخل ہوتا اور نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے ان سارے چور دروازوں کو بند کر کے خالصۃً نیک اعمال بجا لانے سے عبادت کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
میرے ذہن میں جو مضمون آیاہے یہ اس کی تمہید تھی جو ابھی ختم نہیں ہوئی کیونکہ بیماری کا ابھی تک میری طبیعت پر اثر ہے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ اگلے جمعہ کے خطبہ میں اس مضمون کو پورا کر دوں گا اور پھر اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی دوسری چیزوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے بیان کرنے اور آپ کو سمجھنے اور مجھے اور آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۸؍ جون ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرتے ہیں وہ انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کر لیتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اپریل۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ عبادت کے تقاضوں کا ذکر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں ہے۔
٭ عبادت مخصوص اطاعت حکم کو چاہتی ہے۔
٭ کوئی سائنس دان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑ کر کچھ حاصل کیا ہے۔
٭ عبادت کے تقاضوں کو پورا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاؤ گے۔
٭ گندی عادات والا حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا نہیں کر سکتا۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ
(الذریت: ۵۶ تا۵۷)
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَoلا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo (البینۃ: ۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
گزشتہ جمعہ میں نے بتایا تھا کہ ان آیاتِ قرآنیہ پر مجموعی غور کرنے سے جو مضمون ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے میری طرف سے جو پیغام رُسَل کے ذریعہ اور بہترین رنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جن و انس کی طرف بھیجا جاتا رہا ہے یا بھیجا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اپنے ربّ کی عبادت کرو وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ تاکہ جس غرض اور جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ مقصدِ حیات پورا ہو، نیز یہ حکم دیا ہے کہ اس عبادت کے تمام تقاضوں کو پورا کرو۔ عبادت کے تقاضوں کا ذکر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں ہے الدِّیْنِ کے مختلف معانی مختلف تقاضوں کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ چار تقاضوں کے متعلق جو عبادت سے وابستہ ہیں میں گزشتہ خطبہ میں مختصراً بیان کر چکا ہوں۔ پانچوں تقاضا جو یہ حکم بنی نوع انسان سے کرتا ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے یہ ہے کہ الدِّیْنَ کے معنی الْحُکْمُ یعنی حکم کے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادت یہ نہیں کہ تم میرے بتائے ہوئے طریق پر نماز یا نماز باجماعت ادا کرو یا دوسری عبادت بجا لاؤ لیکن ان احکام سے جو اوامر و نواہی کی شکل میں تمہاری زندگی سے تعلق رکھنے والے ہیں غافل ہو جاؤ۔ کبھی غیر کی طرف دیکھو اور اس کا حکم ماننے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ کبھی اپنے نفسوں کے اندر جھانکو اور ہوائے نفس تمہیں خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے لگے۔ عبادت سے یہ مراد نہیں بلکہ عبادت مخصوص اطاعت حکم کو چاہتی ہے۔ یعنی حکم اللہ ہی کا جاری ہو۔ اس معنی کی طرف سورہ یوسف میں بڑی وضاحت سے توجہ دلائی گئی ہے فرمایا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ (یوسف:۴۱) حکم صرف اللہ کا ہے اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہٗ (یوسف:۴۱) اس نے یہ حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے اور کسی کی عبادت نہیں کرنی۔ اس سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہئے اور خالصۃً اللہ کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ حکم اسی کا جاری ہو اور ہمیں دو شکلوں میں اس کا حکم جاری نظر آ رہا ہے ایک تو انسان کے دائرہ اختیار کو علیحدہ کر لیں تو اس میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم اس طرح جاری ہوتا ہے کہ جو وہ کہتا ہے اس کی مخلوق وہی کرتی ہے۔ فرشتوں کے متعلق ان کی صفت بیان کرتے ہوئے ایک جگہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ جو انہیں کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے ایک لطیف استدلال اور بھی کیا ہے اور وہ یہ کہ ہر وہ چیز جو اس طرح خداتعالیٰ کا حکم مانتی ہے کہ اس کو انکار کا اختیار نہیں وہ فرشتوں کے وجود میں آ گئی ہے یعنی وہ بھی فرشتہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیا کا ہر ذرّہ فرشتہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جو بھی حکم ہو وہ اس کے سامنے سرِاطاعت خم کرتا ہے۔ اس کے لئے یہ ممکن نہیں۔ اسے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ جو اللہ اسے کہے وہ نہ کرے۔ پس ہر وہ چیز جو خدا کا حکم اس طرح مانتی ہے کہ اس کو انکار کا اختیار نہیں وہ فرشتوں کی صف میں آ کھڑی ہوتی ہے۔
بہرحال اس مخلوقِ دنیا میں حکم اللہ ہی کا چلتا ہے اور جس دنیا کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں تو عدم اطاعت کا امکان اور گنجائش ہی نہیں۔ خدا تعالیٰ کے قانون نے اس کی مخلوق کو جکڑ رکھا ہے اور اس طرح جکڑا ہے کہ انسانی عقل ششدر اور حیران رہ جاتی ہے کہ اس نے بے شمار صفات ایک ذرّہ ناچیز میں پیدا کر دیں اور وہ الٰہی قوانین کے مطابق خدا تعالیٰ کے حکم اور منشاء کے مطابق کام کرتا چلا جاتا ہے۔ ابھی ہم نے اٹامک انرجی (ایک ذرہ کے اندر جو طاقت مخفی تھی اس)کا علم ایک حد تک حاصل کیا ہے لیکن بڑا احمق ہوگا وہ سائنس دان جو یہ سمجھے کہ ذرہ کی طاقت کا سارا علم ہمیں حاصل ہو گیا ہے۔ آگے دیکھیں اسے کیا ملتا ہے لیکن بہرحال اتنی بڑی طاقت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ایک معمولی سے ذرہ کے اندر بند کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اس قسم کے اجرا کا ذکر اپنی ایک فارسی نظم میں بڑے لطیف پیرایہ میں کیا ہے کہ درخت کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں گاڑ دیا۔ اب وہ گھوڑے کی طرح کود پھر نہیں سکتا (گھوڑے پر اس نے بعض اور قوانین لگا دیئے) جن درختوں کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم موسمِ خزاں میں پت جھڑ کرو گے وہ موسم خزاں میں ہی پت جھڑ کرتے ہیں۔ جن درختوں کو اس نے کہا کہ تم موسمِ بہار میں پت جھڑ کرو گے وہ موسم بہار میں ہی پت جھڑ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی درخت اپنی مرضی سے اپنے پتے جھاڑ کر اور ننگ دھڑنگ ہو کر دنیا کے سامنے آ جائے مثلاً موسم خزاں میں پتے جھاڑنے والے درخت موسم بہار میں آئیں اور کہیں کہ ہم ان درختوں کی طرح جو موسم بہار میں پہلے پتے جھاڑ کر نئے پتے نکالتے ہیں اپنے پتے جھاڑکر بہار کے موسم میں نیا لباس پہنیں گے اللہ تعالیٰ نے کہا ہم نے جو لباس تمہیں دینا تھا وہ موسم خزاں میں ملتا ہے موسم بہار میں ہم تمہیں وہ لباس نہیں دے سکتے۔
بہرحال ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہے انسان نے سائنس میں بڑی ترقی کی ہے لیکن کوئی سائنس دان بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ کرتا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑ کر کچھ حاصل کیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے قانون کو نہ سائنس دان توڑتا ہے اور نہ توڑ سکتا ہے۔ چاہے وہ خدا کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔ اگر وہ خدا کو نہ مانتا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے قانون کی بجائے قانونِ قدرت کہہ دے گا اللہ تعالیٰ کے نئے سے نئے احکام اور قوانین انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن یہ کہ کوئی سائنس دان اللہ تعالیٰ کے کسی قانون کو توڑ کر کوئی نئی چیز بنائے۔ یہ کسی سائنس دان کا دعویٰ نہیں اور نہ یہ بات اس کے دماغ میں آ سکتی ہے چاہے وہ خدا کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔ غرض ایک تو اس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے۔ دوسرا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے اجرا کا ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی جسے اس نے کہا کہ میں تجھے بعض ایسے احکام دوں گا جن کے متعلق تجھے یہ قدرت اور اختیار بھی دوں گا کہ اگر تو چاہے تواس کا انکار کر دے۔ اب ایک ظاہر بین نگاہ میں (جو محض ظاہر کو دیکھتی ہے) گویا انسان نے خدا کا حکم توڑ دیا وہ سمجھتا ہے کہ خدا کا حکم اس معنی میں جاری نہیں تھا حالانکہ حکم کو توڑنے کی طاقت اور قوت اللہ تعالیٰ نے ہی اسے دی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک انسان کو جو خدا کے حکم کو بشاشت کے ساتھ اپنی مرضی اور اختیار سے قبول کرنے والا ہو پیدا ہی نہ کرتا تو یہ شکل ہمارے سامنے نہ آتی۔ اللہ تعالیٰ کا ایسی مخلوق پیدا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا کو یا فرشتوں کو یا شیطان کو یہ بتائے کہ ہم نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے کہ جو اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے ہمارے احکام کے نیچے اپنی گردن رکھتی ہے۔ خواہ ایسا کرنے میں دنیوی اور جسمانی طور پر اسے کتنی ہی تکلیف کیوں محسوس نہ ہو لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم اپنی پوری شکل میں یہاں بھی جاری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا صرف یہ حکم نہیں کہ تم میری عبادت کرو اور اس کے تقاضوں کو پورا کرو بلکہ جو حکم اور فیصلہ اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے یہ ہے کہ تم میرے احکام اوامر اور نواہی کی پابندی کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کروں گا اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم جہنم میں جاؤ گے۔ یہ ہے پورا بنیادی حکم جو اس آزاد انسان کی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس حکم کو کوئی شخص توڑ نہیں سکتا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑوں گا اور جن باتوں سے رکنے کی اس نے مجھے تعلیم دی ہے وہ میں کروں گا اور پھر بھی میں خدا کی جنت میں چلا جاؤں گا۔ یہ ہو نہیں سکتا حکم خدا کا ہی جاری ہے۔ خدا کی جنت میں وہی جائے گا جو برضا و رغبت اپنے اختیار اور مرضی اور بشاشت سے قربانیاں دیتے ہوئے ان احکام کو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی زندگی میں پورا کرے گا۔ اسی کے نتیجہ میں اسی کی جنت ملتی ہے مگر وہ بدقسمت اور بدبخت گروہ جو اپنے ربّ کی عظمت اور اس کے جلال کو پہچانتا نہیں وہ اپنی مرضی سے اور اس اختیار سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے اللہ تعالیٰ کے احکام کے ایک حصہ کو بظاہر توڑتا ہوا نظر آتا ہے لیکن دراصل وہ اسے توڑ نہیں رہا دراصل اس کے سامنے دو راستے ہیں ان دونوں راستوں میں سے غلط راستہ کو جو مستقیم نہیں وہ اختیار کرتا ہے لیکن پہنچتا وہیں ہے جہاں اسے یہ غلط راستہ پہنچاتا ہے یعنی دوزخ میں۔ یہ نہیں کہ وہ غلط راستہ پر چلنا شروع کر دے اور اسی غلط راستہ کو مجبور کرے کہ وہ اسے جنت تک پہنچا دے۔ یہ بات ہمیں نظر نہیں آتی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم میرے اوامر کو اور میرے نواہی کو خالصۃً میرے لئے قائم کرو۔ دنیا میں میری عظمت اور جلال کو قائم کرو اور اس محاذ پر جو طاقتیں حملہ آور ہوں میرے فدائی بن کر ان کا مقابلہ کرو۔ یہ حملے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک اندرونی ایک بیرونی۔ تم ان دونوں کامقابلہ کرو۔
پس کہا مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ جہاں تک میرے احکام ، اوامرونواہی کا تعلق ہے تم اخلاص کے ساتھ اور محض اللہ کے لئے ان کو اپنی زندگیوں میں قائم کرو تو تم میری عبادت بجا لانے والے ہوگے ورنہ نہیں۔ نفس کی خواہشات ہیں جن کو ہم ہوائے نفس کہتے ہیں۔ سستیاں ہیں غفلتیں ہیں بے اعتنائی ہے۔ عظمت باری ہے اور جلالِ باری کے احساس کا فقدان یا اس کی کمی ہے۔ یہ ساری چیزیں انسان کو خدا تعالیٰ کے فرمودہ کے خلاف اور اس کے احکام کے خلاف لے جاتی ہیں۔ پس خدا نے کہا کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرہ کے متعلق، اقتصادیات کے متعلق، سیاست کے متعلق یا جس دائرہ کے اندر بھی تمہیں غلبہ ملے یا تمہیں راعی بننے کی توفیق ملے اس کے اندر میرا حکم جاری ہونا چاہئے۔ اگر تم اس دائرہ میں میرے حکم کے اجرا کی کوشش کرو گے تو تم میرے سچے اور حقیقی عبادت گزار بندے بنو گے ورنہ نہیں بنوگے۔
پس پانچواں تقاضا اللہ تعالیٰ کی عبادت کا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے یہ ہے کہ اس کے حکم کو ہم قائم کرنے والے ہوں اور اوامرو نواہی کی نگرانی کرنے والے ہوں کہ ہمارے ماحول میں ہمارے نفسوں سمیت خدا کے حکم اور امر کے خلاف کوئی نہ جائے اور اس نے ہماری روحانی اور جسمانی ترقیات کے لئے جو پابندیاں ہم پر لگائی ہیں ان کا احترام کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں نفسانی خواہشات اور ارادوں کو کچھ نہ سمجھا جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کوئی دوسری ایجنسی، کوئی دوسرا گروہ یا جماعت اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی میں اپنے اثرورسوخ کے نتیجہ میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عبادت کے اس تقاضا کو پورا کرو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاؤ گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور:۴۹) جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی پر ثباتِ قدم دکھاتا ہے اور استقلال اور استقامت کے ساتھ ان پر قائم ہو جاتا ہے اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا خیال نہیں رکھتا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آ سکتا۔
چھٹا تقاضا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ہم سے کرتی ہے یہ ہے کہ انسان اپنی اس زندگی میں بہت سی عادتیں پیدا کر لیتا ہے وہ عادتیں پختہ ہو جاتی ہیں۔ ان عادات کے متعلق بھی ہر وقت ہوشیار اور چوکنا رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے۔ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ ۔ اَلدِّیْنُکے ایک معنی عادت کے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے اندر یا ان لوگوں میں جن کے تم راعی مقرر کئے گئے ہو کوئی ایسی عادت نہیں پیدا ہونی چاہئے جو عبادت میں اخلاص کے سوا کچھ اور ہو یعنی جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کو قائم کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہو۔ ماحول کے بد اثرات عاداتِ بد پیدا کر دیتے ہیں اور ان کے بہت بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔ تمہاری عادات بھی خالصۃً اللہ کے لئے اور اس کی رضا کی تلاش میں ہونی چاہئیں۔ وہ اس غرض سے ہونی چاہئیںکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں حاصل ہو۔
عادات کا تعلق عبادات سے بڑا گہرا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سی جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے اور عبادات میں ان کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے مخلص بندے ترقی بھی کرتے رہتے ہیں یعنی وہ اپنی قربانی کو بڑھاتے رہتے ہیں تا ان کو دوہرا ثواب مل جائے۔ بعض انسانوں کی عبادتیں یا یوں کہنا چاہئے کہ ہر انسان کی بعض عبادتیں زندگی کے بعض حصوں میں ایسی ہوتی ہیں جن کی اسے عادت نہیں پڑتی۔ نفس اور عبادت میں ایک قسم کا جہاد شروع ہو جاتا ہے اور کبھی سستی ہو جاتی ہے تو انسان خطرے میں پڑ جاتا ہے لیکن پھر ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ انسان اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً الٰہی جماعتوں میں اخلاص میں ترقی کرنے والے ہزاروں ہمیں نظر آتے ہیں جو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اپنے نیک انجام کو پہنچتے ہیں لیکن اِکّا دُکَّا ایسا بھی نظر آتا ہے جو اخلاص میں ترقی کرتے کرتے بلند مقام پر پہنچ جانے کے بعد پھر وہاں سے واپس آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہِ جو لوگ اپنے اندر یا اپنے ماحول میں یا اپنے بچوں میں اچھی عادتیں پیدا نہیں کرتے وہ بڑا خطرہ مول لے رہے ہوتے ہیں۔ بچوں میں کسی نیک کام کی عادت پڑ جائے تو وہ بہت مفید ہوتی ہے۔ مثلاً مسجد میں آنے کی عادت ہے میں نے ایسے بچے تو دیکھے ہیں جو چھوٹی عمر کی وجہ سے اور بعض دفعہ تربیت کی کمی کی وجہ سے مسجد میں آتے ہیں تو آدابِ مسجد کا خیال نہیں رکھتے لیکن مسجد میں آنے کی عادت بڑی اچھی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ بعد میں آدابِ مسجد کا خیال بھی رکھنے لگ جائیں گے لیکن اگر بدعادات پڑ جائیں تو نیک اعمال خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ نیک اعمال کے راستہ میں بدعادات روک بن جاتی ہیں ان کے نتیجہ میں غیر کے سامنے بھی جھکنا پڑتا ہے مثلاً بعض قومیں ہیں انہیں ایک خاص اقتصادی معیار کی عادت پڑ جاتی ہے اور جب ان کا یہ معیار خطرہ میں ہوتا ہے تو وہ دوسری قوموں کے سامنے جھک جاتی ہیں وہ انہیں کہتی ہیں کہ ہمیں کچھ دو ورنہ ہم مرے۔ حالانکہ انہیں کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہوتا صرف عادت کی وجہ سے وہ موت کا احساس پاتے ہیں۔ میں ا س کی ایک مثال دیتا ہوں اگر ہمارے ملک میں کپڑا درآمد کرنا بند کر دیا جائے تو ہمارے ملک کے شاید ۹۹ فیصدی شہری ایسے ہوں گے جن کو اس کا کوئی احساس ہی نہ ہوگا لیکن ایک فیصدی یا شاید ہزار میں سے ایک ایسا بھی ہوگا جو شور مچانا شروع کردے گا کہ ہم مارے گئے ہم مارے گئے کیونکہ ان کو ہر دوسرے مہینہ نیا سوٹ اور وہ بھی دو تین سَو روپے فی گز والے کپڑے کا پہننے کی عادت ہوتی ہے اور یہ عادت غیروں کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر کپڑا میسر آ جائے تو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ خواہش رکھنا کہ باہر سے کپڑا ضرور آتا رہے میرے نزدیک بے غیرتی ہے۔ کئی دفعہ مجھے خیال آتا ہے کہ اگر باہر سے کپڑے کی درآمد بالکل بند کر دی جائے یا باہر سے موٹروں کی درآمد بالکل بند کر دی جائے یا اور بہت سی چیزیں ہیں اگر ان کی درآمد بند کر دی جائے تو ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ نقصان کی بجائے ہمیں فائدہ ہوگا۔ مثلاً عورتوں کے استعمال کی چیزیں لپ سٹک اور فیس پوڈر وغیرہ ہیں ان کی درآمد بند کر دینے سے نقصان کی بجائے ملک کو فائدہ ہوگا جو مستورات ان چیزوں کا استعمال کر رہی ہیں ان کی صحت پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کے حقیقی آرام پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کی عزت اور وقار پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ان کی جو زندگی خدا کے نزدیک مقدر ہے یعنی عام حالات میں جتنے سال انہوں نے زندہ رہنا ہے اس پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن جن مستورات کو ان چیزوں کی عادت پڑ چکی ہے وہ شور مچا دیں گی کہ ’’ہائے مر گیاں لپ سٹک دے بغیر کس طرح زندہ رہواں دیاں‘‘ حالانکہ لپ سٹک کا ان کی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہاں ان کی عادت کے ساتھ اس کا ضرور تعلق ہے۔ غرض بُری عادتوں میں سب سے زیادہ خرابی یہ ہے کہ وہ انسان کو غیراللہ کی طرف جھکنے پر مجبور کر دیتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ کوئی انسان اپنی نشوونما اور اپنی ارتقاء کے لئے غیر اللہ کا محتاج نہیں ہے لیکن گندے ماحول کے نتیجہ میں ایسی بُری عادتیں پڑ جاتی ہیں کہ بعض مضحکہ خیز مطالبے شروع ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک لپ سٹک یا موٹر کا سوال ہے یا درآمد کئے ہوئے کپڑوں کا سوال ہے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ان کے استعمال کو ترک کرنے سے قوم کو فائدہ پہنچ سکتا ہے نقصان کوئی نہیں پہنچے گا۔ ان لوگوں کو بھی جن کو مثلاً بڑی بڑی کاریں استعمال کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اس کا کوئی نقصان نہیںپہنچے گا۔ جہاں تک کپڑے کا سوال ہے اگلے دس پندرہ سال تک ان کی عادتیں پوری ہوتی رہیں گی کیونکہ انہوں نے اتنے جوڑے بنائے ہوئے ہیں کہ وہ دس پندرہ سال تک چلیں گے۔ صرف جہاں تک روز نئے سوٹ اور جوڑے پہننے کا سوال ہے اس میں ضرور فرق پڑے گا۔
بعض مردوں کو یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینہ ایک نئے سوٹ میں ملبوس نظر آئیں یا بعض مستورات سمجھتی ہیں کہ ہمیں ہر روز ایک نیا جوڑا پہننا چاہئے اور یہ نہایت گندی عادت ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ غریب طبقہ کے دلوں میں بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے۔ ملک میں ہزار قسم کی خرابیاں اور فساد پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو دو تین جوڑوں سے بھی آدمی کام لے لیتا ہے۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ روز نیا جوڑا پہنو ہاں اس نے یہ حکم دیا ہے کہ صاف رہو۔ صاف لباس میں ملبوس رہو اور دو جوڑے کپڑے رکھنے والے بھی صاف رہتے ہیں اور میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں کے پاس دس دس جوڑے کپڑے ہوتے ہیں وہ بعض دفعہ اتنے گندے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بیٹھا نہیں جاتا۔ ان کے کپڑوں اور جسموں سے بدبو آ رہی ہوتی ہے۔
غرض گندی اور بُری عادت خدا سے دُور لے جاتی ہے اور قومی خدمات میں سستی پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے۔ جس شخص نے حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر دو کو ادا کرنا ہو اس کے اندر بُری اور گندی عادت نہیں ہونی چاہئے اگر اس میں بُری اور گندی عادت ہے تو یا وہ حقوق اللہ کو ادا نہیں کر سکے گا یا حقوق العباد کو ادا نہیں کر سکے گا۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس بات کا خیال رکھو کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ جو عادت بھی تمہارے اندر پیدا ہو وہ ایسی نہ ہو کہ نیک اعمال میں روک بنے غیر اللہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کرے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں روک پیدا کرے۔ اس کے مقابلہ میں ایسی عادت ڈالو جن کے نتیجہ میں نیک اعمال بشاشت سے سرزد ہوتے رہیں جن کے نتیجہ میں انسان اپنی طبیعت اور عادت سے مجبور ہو جائے کہ ہر وقت خداتعالیٰ کے سامنے سربسجود رہے اور اس کے ذکر میں محو رہے اور جن کے نتیجہ میں جب اللہ تعالیٰ کے احکام کو دیکھ کر بنی نوع انسان کی ہمدردی جوش میں آئے تو ہر انسانی عادت بنی نوع انسان کی ہمدردی پر اُسے مجبور کر رہی ہو اور قومی خدمت میں سست نہ کر دے۔
ساتواں تقاضا اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم سے یہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے ماحول میں ایک حاکم کی حیثیت رکھے گا اور وہ اپنے ماحول پر غالب ہوگا۔ تم راعی بن جاؤ گے۔ ایسے حالات میں تم میں سے جسے جس حد تک غلبہ اور طاقت اور اثر اور نفوذ حاصل ہو وہ اسے اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر دے یعنی وہ اپنے غلبہ اور طاقت کا غلط استعمال نہ کرے بلکہ اس کا ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی اسے حاصل ہو اور جو کچھ کیا جائے اس کی اطاعت میں کیا جائے۔
ہمارے ہاں کہتے ہیں ’’اللہ مالک ہے‘‘ یہ محاورہ بڑا پیارا ہے حقیقت یہی ہے کہ اللہ ہی مالک ہے۔ اللہ کے سوا وہ کونسی ہستی ہے جو کسی چیز کی بھی مالک ہو اور جو بھی غلبہ اور طاقت ملتی ہے وہ خداتعالیٰ سے ہی ملتی ہے۔ وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ (البقرۃ: ۲۴۸) اللہ جسے چاہتا ہے طاقت اور غلبہ اور حکومت دیتا ہے۔ حکومت سے مراد صرف کسی قوم یا ملک کی بادشاہت نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر ایک گھر کا ایک بادشاہ ہے۔ اپنے ماحول کا ایک بادشاہ ہے سکول کا ایک بادشاہ ہے یعنی اپنے اپنے ماحول میں ہر ایک کو طاقت اور غلبہ حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مُلک اور طاقت اور غلبہ اور بادشاہت تو اللہ کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمتِ کاملہ سے اپنے بندوں میں سے بعض کو کسی نہ کسی رنگ میں غلبہ یا اثرورسوخ دیتا ہے۔ طاقت عطا کرتا ہے اس لئے تم اس طاقت اور غلبہ اور اثر کو اسی طرح استعمال کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جس طرح اس نے ایک اور آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ (فاطر:۱۴) لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ (التغابن:۲) یعنی اللہ تعالیٰ ربّ ہے۔
ساری بادشاہت اور غلبہ اور طاقت اس کو حاصل ہے جہاں تک تمہارا تعلق ہے لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ تم اپنی زندگیوں کو اس طرح گزارو کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اور اس کے مالک ہونے کا احساس دنیا میں پیدا ہو اور یہ احساس پیدا ہو کہ وہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے کیونکہ جو اس کے بندے بن جاتے ہیں وہ ایسے کام کرتے ہیں کہ انسان کو مجبور ہو کر ان کی تعریف کرنی پڑتی ہے اور جب انسان کو مجبور ہو کر اللہ کے بندوں کی تعریف کرنی پڑتی ہے تو اللہ جس نے اس بندہ کو پیدا کیا کس قدر تعریف اور حمد کا مستحق ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی طاقت کے استعمال میں تمام بدیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائے کہ انسانی عقل اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ جس اللہ کی طرف یہ منسوب ہونے والا ہے اس کی حمد۔ اس کی تعریف الفاظ اور بیان سے باہر ہے۔ ایسے انسان میں تکبر نہیں پیدا ہوتا کیونکہ جب انسان اس یقین پر قائم ہو کہ تمام طاقت اور غلبہ اور بادشاہت اللہ کی ہے۔ وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَۃٗ مَنْ یَّشَآئُ (البقرہ:۲۴۸) انسان کوجو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی منشا اور ارادہ سے ملتا ہے تو پھر اس کی اپنی تو کوئی خوبی نہ رہی۔ اس لئے اس کی زبان پر اپنی بڑائی کی بجائے لَافَخْرَ کا نعرہ ہوتا ہے۔ یعنی وہ کہے کہ مجھ میں کوئی فخر کی بات نہیں۔ میں اپنے اندر کوئی خوبی نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے رحم اور فضل سے مجھے یہ عطا کیا ہے اور ایسا شخص کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اللہ کی مخلوق کو دکھ پہنچانے والا ہو۔ ایسا انسان کبھی ظالم نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس یقین پر کھڑا ہوگا کہ بادشاہت اللہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے (باپ ہونے کی حیثیت سے، ماں ہونے کی حیثیت سے، ماسٹر ہونے کی حیثیت سے یا پرنسپل ہونے کی حیثیت سے، اپنی جماعت کے صدر یا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے یا دوسری ہزار حیثیتوں میں) انسان کو طاقت اور غلبہ ملتا ہے صرف کسی ملک یا قوم کی بادشاہت کی حیثیت سے ہی نہیں۔ انسان یہ کہتا ہے کہ یہ طاقت اور غلبہ تو دراصل خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ وہی ہر چیز کا مالک ہے اس نے مجھے طاقت اور غلبہ میں جس کا وہ منبع اور سرچشمہ اور حقیقی مالک ہے اس لئے شامل کیا ہے کہ میں اس کی مخلوق کی بھلائی کے کام کروں۔ ایسا انسان ظلم کر ہی نہیں سکتا۔
غرض اَلدِّیْنُ کے ایک معنی غلبہ کے بھی ہیں اور صحیح عبادت کا ساتواں تقاضا یہ ہے کہ وہ غلبہ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ ہو یعنی خالص اللہ کے لئے انسان اپنے اپنے ماحول میں اپنے غلبہ کا استعمال کرنے والا ہو اور خدا کی حمد کے جذبہ کو انسان کے دل میں پیدا کرنے والا ہو تکبر اور ظلم اور دوسری ایسی بُرائیاں جو اللہ کی طرف منسوب ہونے والوں میں نہیں پائی جانی چاہئیں وہ اس میں نہیں پائی جانی چاہئیں۔ باقی حصہ میں انشاء اللہ پھر بیان کروں گا۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۵؍جون ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۶)

٭…٭…٭

حقیقی عبادت کا تقاضا ہے کہ انسان محض رضا الٰہی کی خاطر دنیوی تدابیر کو اختیار کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍اپریل۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرکے عبادت کے تقاضے پورے کرو۔
٭ عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک دنیوی تدابیر اختیار نہ کریں۔
٭ انسان اپنی قوت اور استعداد کے مطابق صفت علیم سے متصف ہو سکتا ہے۔
٭ ایک حد تک تم اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کر سکتے ہو۔
٭ انسانی فطرت بنیادی طور پر شریف واقع ہوئی ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّلِیَعْبُدُوْنِ (الذٰرِیٰت:۵۷)
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَoلا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo (البینۃ:۶)
پھر فرمایا:۔
میں نے پچھلے دو خطبات میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی سچی اور حقیقی عبادت کرے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے بھی اور کامل اور مکمل شریعت لانے والے خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھی انسان کو صرف ایک ہی بنیادی حکم دیا اور وہ یہ ہے کہ انسان صرف اس کی عبادت کرے۔
اسلام نے قرآن کریم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ عبادت کے یہ معنی نہیں کہ انسان دنیا سے علیحدہ ہو جائے اور بظاہر خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے بلکہ حقیقی عبادت کے بہت سے تقاضے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ انسان سب تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو۔ عبادت الٰہی جو ذمہ داریاں انسان پر عائد کرتی ہے ان ذمہ داریوں کو نباہنے والا ہو۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا یہ مضمون مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے فقرہ میں بیان ہوا ہے۔ یعنی صرف عبادت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ یہ کہہ کر عبادت کا حکم دیا گیا ہے کہ عبادت کرو اور دین کو اس کے لئے خالص کرو تب عبادت کے تقاضے پورے ہوں گے۔ عبادت کے سات تقاضوں کے متعلق میں پچھلے دو خطبات میں بیان کر چکا ہوں۔
دین کے آٹھویں معنی تدبیر کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکو گے اگر تمہاری تدابیر خالصۃً میرے لئے نہ ہوں۔ اس سے ہمیں پہلی بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے تدابیر کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ تدبیر کو عبادت کا ایک حصہ بنا دیا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے اور پھر یہ سوچنے یا یہ کہنے کو بُرا سمجھا ہے کہ جو خدا چاہے گا وہ ہو جائے گا جس کا حقیقتاً یہ مطلب ہوتا ہے کہ اگر ہم تدبیر کریں تو پھر ہماری مرضی چلے گی جو خدا چاہے گا وہ نہیں ہوگا۔ ایک سیکنڈ کے لئے بھی ہم یہ تصور اپنے دماغ میں نہیں لا سکتے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تدبیر ضرور کرو ہوگا وہی جو خدا چاہے گا لیکن تم پر یہ فرض ہے کہ تم جائز تدابیر سے کام لو جو شخص اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی نعمتوں سے کام نہیں لیتا وہ اللہ تعالیٰ کا ناشکرا اور اس کا کفر کرنے والا ہے اور وہ شرک میں ملّوث ہے تو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے اس فقرہ میں دین بمعنی تدبیر یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ جائز تدبیر ضرور کرنی ہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تم جو بھی تدبیر کرو اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو۔ اسے تم عبادت کا حصہ بناؤ۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے کمال پر پہنچنے کی وجہ سے (اگر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن پر عمل کیا جائے) تو ہر دنیوی تدبیر کو عبادت کا رنگ دے دیتا ہے۔
ایک شخص اپنے گھر کے کمروں میں روشندان بناتا ہے وہ یہ نیت بھی کر سکتا ہے کہ ہوا آئے گی، روشنی آئے گی، دھوپ آئے گی مجھے اور دنیوی فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس نیت کی بجائے یہ نیت کرو کہ کان میں اذان کی آواز آئے گی۔ وقت پر باجماعت نماز کے لئے پہنچ جاؤں گا تو یہ اس روشن دان کی تدبیر اخلاص کے اس پہلو کی وجہ سے عبادت بن جائے گی۔ روشن دان اسی طرح دھوپ دے گا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ گرم اور گندی ہوا اسی طرح باہر نکل جائے گی۔ روشنی بھی اسی طرح آئے گی لیکن یہ تدبیر عبادت بن جائے گی کیونکہ تم نے نیت یہ کی کہ اذان کی آواز سننے کے لئے میں نے ایک راستہ رکھا ہے۔ انسان کے محبت کے تعلقات طبعی طور پر بعض دوسرے انسانوں سے ہوتے ہیں، بیوی سے، بچوں سے، بھائی بہنوں سے، بڑے گہرے دوستوں سے محبت اور اخوت کا تعلق ہوتا ہے۔ یہ تعلق سارے انسان ہی ایک دوسرے سے قائم کرتے ہیں لیکن جو سچا اور حقیقی عبد نہیں، حقیقی مسلمان نہیں وہ ان تعلقات کو محض ایک دنیوی تدبیر سمجھتا ہے۔ بیوی کو خوش کرنے کیلئے وہ بہت سی باتیں کرتا ہے۔ وہ چھوٹی عمر کے بچوں کو خوش کرنے، ان کو بہلانے اور انہیں کھیل کود میں مصروف رکھنے کیلئے بہت سی باتیں کرتا ہے۔
ایک بادشاہ کا قصہ مشہور ہے ایک دن وزیر اس کے کمرہ میں آیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بادشاہ کا بیٹا اس کی پیٹھ پر سوار ہے اور وہ گھوڑا بنا ہوا ہے۔ (ہمارے ملک میں بھی بچوں میں یہ رواج ہے کہ ایک گھوڑا بن جاتا ہے اور دوسرا سوار) وہ انسان تھا بادشاہ ہوا تو کیا۔ اس کے دل میں وہی جذبات تھے وہ اپنے بچے کو کھیل میں مصروف رکھنا چاہتا تھا۔
غرض اپنے بچے کے لئے گھوڑا بننا عبادت بھی ہو سکتی ہے اگر نیت یہ ہو کہ میں اپنی اولاد کے دل میں ان کی چھوٹی عمر میں ہی یہ بات گاڑ دینا چاہتا ہوں کہ میرے اندر کوئی خوبی نہیں۔ میں خدا کا ایک عاجز انسان ہوں۔ کسی برتری کا احساس اس کے اندر نہ ہو۔ اس نیت کے ساتھ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو۔ تو وہ عبادت بن جائے گی۔ گھوڑا بننا بھی خدا تعالیٰ کو بڑا پیارا لگے گا لیکن خلوص نیت ہونا چاہئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض احادیث میں آتا ہے کہ جب آپ کے بچے آپ کے پاس آتے تھے تو آپ کھڑے ہو جاتے تھے اور کھڑے ہو کر ملتے تھے۔ اب ایک ایسا وجود (صلی اللہ علیہ وسلم) کہ ساری دنیا اس کے دروازے پر کھڑے رہنے میں فخر محسوس کرے لیکن اس کی بے نفسی خدا کے لئے تھی اور یہ سبق سکھانے کے لئے تھی کہ اگر میں تمہیں کھڑے ہو کر ملتا ہوں تو پھر وہ کونسی ہستی ہے کہ اس کے پاس کوئی ملنے کے لئے آئے اور وہ اس سے کھڑے ہو کر نہ ملے تو عاجزانہ راہوں کی نشاندہی کے لئے جو بزرگ اس قسم کے کام کرتے ہیں وہ محض دنیوی محبت نہیں ہوتی بلکہ خدا کے لئے اپنے دین کو، اپنی تدبیر کو وہ خالص کر رہے ہوتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہیں ایک راستہ ایسا بتاتے ہیں کہ تم تمام جائز دنیوی تدابیر کو دینی رنگ دے سکتے ہو اور میری رضا کو ان کے ذریعہ سے حاصل کر سکتے ہو لیکن جو شخص تدبیر میں خلوص نیت کے تقاضا کو پورا نہیں کرتا وہ خدا کو راضی نہیں کر سکتا ہر کام میں مقصد یہ ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ کام کرنا ہے نکّما نہیں بیٹھنا لیکن کام اس نیت سے کرنا ہے کہ میں خدا کو راضی کرنا چاہتا ہوں۔ خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ مجھے نیچے پھیلا ہوا ہاتھ پسند نہیں جو ہاتھ اوپر ہے یعنی دینے والا ہاتھ وہ مجھے پسند ہے جو منگتا ہاتھ ہے وہ مجھے پسند نہیں۔
ایک شخص ایک کلہاڑی اور رسی لیتا ہے اس کے مخلص دوست اسے ہر چیز مفت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ کہتا ہے نہیں مجھے ایک کلہاڑی اور ایک رسی مہیا کر دیں اور وہ بھی مفت نہیں لوں گا بطور قرض دے دیں کیونکہ مجھے قرض کی ضرورت ہے۔ میں خود کماؤں گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہوں گا۔ اس کا لکڑیاں کاٹنا اور ان کا گٹھا بنا کے بازار میں لے جا کر بیچنا یہ ایک عام تدبیر نہیں جو محض دنیا کے لئے اور پیٹ کی خاطر کی جاتی ہے بلکہ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ اس کے بجا لانے میں ہر حرکت و سکون خدا کو بڑا پیارا ہے۔
صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سے جن لوگوں نے خدا کی رضا کے لئے قرض لے کر ایک رَسّی کا ٹکڑا اور کلہاڑی لی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قیصرو کسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں لا ڈالے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے رزق کمانے میں خدا کے لئے خلوص نیت کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ خدا تعالیٰ کوکتنا پیارا لگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کی اور کہا کہ رزق کی کمائی میں تم نے اپنی تدبیر کو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کی روشنی میں کیا ہے۔ مجھے تمہاری یہ تدبیر پسند آئی ہے۔ قیصروکسریٰ نے تو جائز اور ناجائز وسائل سے دولت کو جمع کیا تھا لیکن میں جائز طریق پر وہ ساری دولت لا کر تمہارے قدموں پر رکھ دیتا ہوں۔
پس عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک انسان دنیوی تدابیر نہ کرے۔
تدبیر کرنا ضروری ہے لیکن جب کوئی تدبیر کرے تو دنیا کی خاطر نہ کرے بلکہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کی روشنی میں کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی تدبیر کسی دوسرے انسان کے خلاف نہیں ہو گی۔ کوئی تدبیر کسی انسان کو بے عزت کرنے کیلئے نہیں ہوگی۔ کوئی تدبیر کسی انسان کے جذبات کو مجروح کرنے کے لئے نہیں ہوگی کہ جو حفاظت اللہ نے اسے دی ہے۔ اس حفاظت کو وہ توڑنے والی ہو۔ میں اس وقت زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ سینکڑوں باتیں ہیں جن کا قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اُسوہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے گروہ کی کوئی تدبیر ایسی نہیں ہوتی جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ وہ معاشرے میں فساد پیدا کرنے والی، حقوق تلف کرنے والی، اتہام لگانے والی، جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی وغیرہ ہو ایسی کوئی تدبیر نہیں ہوگی۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تدبیر کرو مگر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن ہوکر کرو۔ پھر کوئی تدبیر ایسی نہیں ہوگی جس میں شرک کی ملاوٹ ہو۔ پھر جس نے اپنی تدبیر خدا کی رضا کے لئے کی وہ اس تدبیر پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ اس کی تدبیر اگر ناکام ہو جائے تو وہ خدا سے کوئی شکوہ نہیں کر سکتا۔ اگر اس کی تدبیر کے نتیجہ میں کسی کو دکھ پہنچ جائے تو اس سے وہ خوش نہیں ہو سکتا۔ بعض دفعہ انسان کا ارادہ کسی کو دکھ پہنچانے کا نہیں ہوتا لیکن ناسمجھی کی وجہ سے یا لاعلمی کی وجہ سے کوئی ایسی تدبیر کرتا ہے جس سے کسی اور کو دکھ پہنچ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں یہ شخص خوش نہیں ہوتا بلکہ انتہائی طور پر رنجیدہ ہوتا ہے۔ دلی جذبات کے ساتھ اس سے معذرت کرتا اور اس سے معافی مانگتا ہے کہ میں نے تو کبھی ارادہ نہیں کیا تھا کہ آپ کو تکلیف پہنچے۔ اپنی سوچ کے مطابق ایک جائز تدبیر کی تھی مجھے افسوس ہے کہ آپ کو نقصان پہنچ گیا۔
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر تدابیر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کی ہدایت کے ماتحت ہوں تو ہر شخص دوسرے کا خادم بن جاتا ہے کسی شخص کو دوسرے سے خطرہ نہیں رہتا۔ امن کا ایک ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جاتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اتنی اعلیٰ اور احسان کرنے والی تعلیم دی ہے کہ صرف میری عبادت کرو۔ عبادت کے حقوق ادا کرو۔ ان میں سے ایک یہ حق ہے کہ تمہاری کوئی تدبیر ایسی نہ ہو جس میں اللہ کے لئے خلوص نیت نہ ہو۔
دین کے نویں معنی حساب یا محاسبہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی عبادت کا قیام محاسبہ کا تقاضا کرتا ہے۔ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے مطابق محاسبہ کے طریق کو اختیار کئے بغیر انسان حقیقی عبادت کر نہیں سکتے۔ ایک تو محاسبہ نفس ہے انسان اپنے نفس کا حساب لیتا ہے اور اسے لینا چاہئے اور محاسبہ کے نتیجہ میں اسے علی وجہ البصیرت علم حاصل ہوتا ہے یعنی اس کا علم ظنی نہیں ہوتا بلکہ یقینی ہوتا ہے ہم دن رات اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں رات کیسے گزری دن کیسے گزرا۔ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں جن دیگر تقاضوں کا ذکر ہے وہ ہم نے پورے کئے ہیں یا نہیں۔ اس طرح آدمی سوچتا ہے تو اس کی غلطیاں سامنے آتی ہیں۔ پھر وہ ان کو دور کرتا ہے کسی کو تکلیف پہنچائی ہوتی ہے تو اس کا تدارک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم عبادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہو تو خلوص نیت کے ساتھ تمہیں محاسبہ کرنا پڑے گا۔
پھر قرآن کریم کے دوسرے مقامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اُسوہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اس حساب یا اس محاسبہ کے کیا کیا تقاضے ہیں اس کی آگے بڑی لمبی تفصیل آ جاتی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں یقینی علم حاصل کرنا پڑتا ہے اور یقینی علم حاصل کرنے سے ظن اور محض ڈھکوسلہ باقی نہیں رہتا۔ ہم اس کے لئے جو موٹا استدلال کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں وہ دل کے پوشیدہ خیالات سے بھی واقف ہے۔ انسان خود اپنے اعمال اور خیالات کو بھول جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بھولتا۔ وہ اس کے سامنے ہوتے ہیں انسان اپنے نفس کا اپنے خیالات کا اپنے فکر اور تدبیر کا بسا اوقات یقینی علم نہیں رکھتا۔ حتیّٰ کہ چھوٹے چھوٹے اعمال بھی حافظہ سے نکل جاتے ہیں۔ مثلاً آپ میں سے کسی سے پوچھا جائے کہ آج سے دس دن پہلے دوپہر کے وقت تم نے کیا کھایا تو میرے خیال میں کوئی بھی صحیح جواب نہیں دے سکے گا۔ غرض ہم اپنے عمل بھی یاد نہیں رکھتے ہمارے دل میں جو خیالات آتے ہیں، وساوس پیدا ہوتے ہیں یا ہوائے نفس جو ذلیل خواہشات پیدا کرتا ہے وہ ہمیں بھول جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کو تو نہیں بھولتے کیونکہ وہ وہ ہستی ہے جس کا علم کامل ہے، جس کے علم نے ہر شئی کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اس علم کامل کی بناء پر وہ محاسبہ کرتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے محاسبہ کرنا ہو تو جہاں تک اس کے بس میں ہو وہ یقینی علم پر قائم ہو اس کے بغیر محاسبہ ہو ہی نہیں سکتا۔ نہ اپنے نفس کا نہ غیر کا تو اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو ایسا بنایا ہے کہ وہ جو چیز یاد رکھنا چاہے اور اس کی طرف توجہ کرے کہ میں یہ چیز نہیں بھولوں گا وہ چیز نہیں بھولتا باقی چیزیں بھول جاتا ہے۔ خواب میں بھی یہی ہوتا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے میں خواب دیکھ رہا تھا ایک بڑی مُسَجَّعْ اور مُقَفّٰی عبارت چھوٹے چھوٹے فقروں میں ہے جو کسی جماعت کی تعریف میں کہے گئے ہیں اور میں اونچی آواز سے پڑھ کر سنا رہا ہوں اور مجھے بڑا لطف آ رہا ہے کیونکہ وہ ساری عبارت بہت عجیب ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ الٰہی تصرف نے لکھوائی ہے جس سے بھی لکھوائی ہے خواب میں یہ خیال نہیں کہ یہ کس نے لکھی ہے جسے میں پڑھ کر سنا رہا ہوں کچھ لوگ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جو اس کے مخاطب ہیں اور جس وقت میں اس فقرہ پر پہنچا ’’تمہارا دامنِ فخر تہی ہے‘‘ توخواب میںہی میں نے کہا یہ بڑا لطیف فقرہ ہے میں اسے نہیں بھولوں گا اور جب میری آنکھ کھلی تو میں باقی سارے فقرے بھول گیا تھا لیکن یہ فقرہ نہیں بھولا۔ میں نے اسی وقت اسے لکھ لیا یعنی تمہارے دامن میں فخرو مباہات سے کوئی چیز نہیں ہے فخرومباہات سے تم بالکل پاک ہو۔
غرض انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ اگر وہ توجہ کرے اور ارادہ کرے تو وہ چیزیں نہیں بھولتا۔ تو اس مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں جو یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ تم نے بہت سے محاسبے کرنے ہیں اس میں یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ باتیں جن کو محاسبہ کے ساتھ تعلق ہو ان کی طرف تمہیں توجہ دینی پڑے گی اور ارادہ کرنا پڑے گا کہ تم ان کو یاد رکھو۔
ہم گھر میں اپنے بچوں کا محاسبہ کرتے ہیں لیکن بعض ماں باپ اپنے بچوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے جب انہیں کوئی غیر آ کر کہتا ہے کہ میں تمہیں اپنے ذاتی مشاہدہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ تمہارے بچے کو بُری صحبت کی وجہ سے گندی گالی دینے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اب غیر نے تو سن لیا اس کی اس طرف توجہ ہوگئی لیکن اس کا باپ بڑے آرام سے کہہ دیتا ہے کہ میں نے تو کبھی اس کے منہ سے گالی نہیں سنی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جو ذمہ داری حساب کی تھی، محاسبہ کی تھی جس کے بغیر قرآنی تعلیم کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی سچی اور حقیقی عبادت نہیں ہوسکتی تم نے اس کے تقاضے کو پورا نہیں کیا اور خود کو تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ:۳) پر عمل کرنے کا اہل نہیں بنایا۔
میں بتا رہا تھا کہ اصل تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ ہے کیونکہ ہر چیز کا اس نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس کے محاسبہ کے متعلق احادیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں۔ حدیث میں ہے مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ اور مَنْ نُوْقِشَ فِی الْحِسَابِ عُذِّبَ (مختلف روایتیں ہیں) یعنی قیات کے دن اللہ تعالیٰ نے جس کا حساب لینا شروع کر دیا وہ سمجھ لے کہ اس کو سزا مل گئی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جن کو معاف کر دیتا ہے ان کو کہہ دیتا ہے کہ جاؤ تم سے نہیں پوچھتے۔ اس کے علم سے تو ایسے شخص کی کمزوریاں چھپی ہوئی نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ کو پورا علم ہوتا ہے کہ اس نے یہ گناہ کئے اور یہ غفلتیں اور یہ کوتاہیاں کیں۔ جو ذمہ داریاں نباہنی چاہئیں تھیں نہیں نباہیں لیکن اس کی رحمت اپنے بندے کے لئے جوش میں آتی ہے وہ کہتا ہے کہ تم نے بعض ایسے کام بھی کئے جن سے میں تم سے خوش ہوا۔ جاؤ کوئی حساب نہیں۔
پس اس حدیث کی رُو سے قیامت والے دن جس کا اللہ تعالیٰ نے حساب لینا شروع کر دیا وہ ہلاک ہو گیا۔ حساب کی تو اسے ضرورت نہیں اس کا تو علم کامل ہے۔ خدا تعالیٰ دوسروں کو بتانا چاہتا ہے کہ میں اس کو پکڑ رہا ہوں اس کی گرفت کر رہا ہوں۔
صفت علیم کا ایک مظاہرہ ہے انسان علام الغیوب تو نہیں بن سکتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود اسے غیب کا کچھ علم دے دے لیکن انسان اپنی قوت اور استعداد کے مطابق خداتعالیٰ کی صفت علیم سے متصف ہو سکتا ہے پوری طرح تو کوئی بھی علیم نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کا دنیا میں کوئی مثیل نہیں ہے اس کی ہستی بے نظیر ہے۔ وہ اَحَدْ ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کہ ایک حد تک تم اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا کر سکتے ہو اور تمہیں پیدا کرنی چاہئے تو اس کی صفت علیم بھی ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے ورنہ ہم یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے۔ اس کے نباہنے کے پھر آگے طریق ہیں لیکن انسان کے علم میں ہونا چاہئے۔ مثلاً بچے کی اچھی بُری عادتیں علم میں ہونی چاہئیں بعض ماں باپ بچے پر بڑی سختی کرتے ہیں۔ وہ ان سے اپنی عادتیں چھپانے لگ جاتا ہے اور یہ اس کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ باپ کو تو دراصل بچوں کا گھوڑا ہی بننا چاہئے۔ اس کی ساری ذمہ داری جو اُٹھانی ہے۔ جس بچے کے ساتھ باپ اس قسم کا بے تکلف ماحول پیدا کرے گا جس طرح بادشاہ نے پیدا کیا تھا کہ اپنے بچے کو پیٹھ پر بٹھا لیا اور کمرے میں دوڑ رہے ہیں۔ اس صورت میں بچہ کوئی چیز نہیں چھپائے گا اور جب ظاہر کرے گا تب ہی تو وہ اس کا حساب بھی لے سکے گا نا! یعنی محاسبہ کر سکے گا کہ یہ اس کے اندر بُری چیز ہے اس کو اب روکنا چاہئے۔ یہ اس کے اندر اچھی چیز ہے لیکن ابھی پوری طرح نمایاں نہیں ہوئی اس لئے اس کو اُجاگر کرنے کے لئے اسے کوشش کرنی چاہئے۔
پھر اور ہزار قسم کے محاسبے ہیں۔ محاسبہ حکومت بھی کرتی ہے یہ تو اس کی ذمہ داری ہے لیکن کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مُسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ (بخاری کتاب الوصایا باب تاویل قولہ من بعد وصیۃ یوصی بہا۔ الخ) راعی بننے کیلئے محاسبہ کرنے کی صفت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے جس کے لئے علیم ہونا بڑا ضروری ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ
’’محتسب را درون خانہ چہ کار‘‘
اس کا مطلب یہی ہے کہ جو درون خانہ نہیں ہے وہ چیز اس کے علم میں آنی چاہئے ورنہ تو وہ اپنا کام نہیں کر سکتا لیکن جو درون خانہ ہی محتسب ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے وہ ماں باپ ہیں ان کو اپنے گھر کے پورے ماحول کا علم ہونا چاہئے تا کہ کسی گند کا دروازہ ان کے گھر میں نہ کھلے۔
پس عبادت کا یہ تقاضا ہزار قسم کی ذمہ داریاں ہم پر ڈالتا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کی رو سے حساب اور محاسبہ اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہونا چاہئے۔ اس طرف بھی ہمیں بڑی توجہ دینی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ تربیت محاسبہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ مثلاً ہم نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں دیکھا ہے ہم نوجوانوں کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھیں۔ ان میں اچھے اخلاق پیدا ہوں۔ بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک قائد اپنے تیس، چالیس یا پچاس، سَو خدام کا محاسبہ کرتا ہے ایک دوسرا خادم ہے وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس کو پتہ نہیں میں نے ان نوجوانوں سے کام کیسے لینا ہے۔ نہ ان کی عادات سے واقف، نہ ان کی استعداد سے واقف ہے تو محاسبہ کس طرح کر سکتا ہے۔ محاسبہ تو علم کے بغیر نہیں ہو سکتا تو جس حد تک انسان کے لئے دائرہ حساب کے اندر معلومات کا حصول ممکن ہو اس حد تک اسے ضرور معلومات حاصل کر لینی چاہئیں۔ اس کے بغیر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قائد یا سائق یا زعیم کا خدام سے ذاتی تعلق ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں جس محاسبہ کا تقاضا کیا گیا ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ قادیان کی بات ہے ہم نے بظاہر ایک باغی دماغ رکھنے والے نوجوان کا محاسبہ کیا۔ کسی کام میں بھی وہ حصہ نہیں لیتا تھا۔ بغاوت کرتا تھا کوئی بات نہیں مانتا تھا۔ پہلے میں نے سائق سے کہا کہ تم اس کو سمجھاؤ۔ اس طرح اس کی اصلاح کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ پھر محلہ میں ہمارے دوسرے مہتممین نے اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ کسی مرحلے پر بھی وہ بغاوت چھوڑنے پر تیار نہ ہوا آخر میں نے اس کو بلایا۔ مجھے اس وقت تک اس کے متعلق ذاتی علم نہیں تھا میں نے سوچا کہ مجھے اس کی طبیعت، فطرت، ضرورت اور باغیانہ خیالات کی وجہ (یعنی نظام خدام الاحمدیہ سے بغاوت میری مراد ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسلام سے بھی بغاوت کیونکہ وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ نہیں دے رہا تھا اللہ تعالیٰ کا بھی باغی بن گیا تھا) کا علم ہونا چاہئے اس کے بغیر میں اس کی اصلاح کیسے کر سکوں گا۔ چنانچہ میں نے بڑے آرام سے بڑے پیار سے اس سے باتیں کرنی شروع کیں۔ اس کے چہرے سے پتہ لگتا تھا کہ اس کی طبیعت میں بڑا تناؤ ہے۔ کوئی ایک گھنٹہ تک اس سے باتیں کرنے سے میں سمجھ گیا کہ بیماری کیا ہے؟ دراصل اس کی بیماری کی جڑھ اپنے باپ کے خلاف جائز یا ناجائز شکایت کی بنا پر بغاوت تھی کہ باپ محبت نہیں رکھتا۔ میرے حقوق ادا نہیں کرتے۔ جب مجھے یہ پتہ لگا تو بجائے اس کے کہ جو چھ مہینے سے اس کے خلاف کیس بنا ہوا تھا کہ اس کو سوٹیاں لگنی چاہئیں میںنے یہ فیصلہ بدل دیا اور اپنے دل میں کہا کہ اس کو کچھ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس کی اصلاح مدِنظر ہے۔ سوٹیاں کھا کے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ میں نے اس کو کہا کہ دیکھو میں تم سے عمر میں زیادہ بڑا نہیں ہوں۔ تمہارے باپ جتنا نہیں ہوں لیکن تم سمجھو کہ آج سے میں تمہارا باپ ہوںتمہیں کوئی شکایت، کوئی دُکھ ہو، کوئی تکلیف ہو تم میرے پاس آؤ جس حد تک مجھے طاقت ہوگی، میرے امکان میں ہوگا میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں تمہاری شکایت دُور کرنے کی کوشش کروں گا۔ وہ وہاں سے اُٹھا ساری بغاوتیں دور ہو گئیں۔ تعاون کرنے لگ گیا۔
غرض جب تک علم نہ ہو آپ محاسبہ کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے آپ اس نوجوان کا محاسبہ کرتے تو غلط نتیجہ پر پہنچ جاتے۔ بہت سے انسان بدقسمتی سے ٹوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف غلط محاسبہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے جب یہ کہا کہ کسی کو سزا یا معانی دینے کا فیصلہ اس کی اصلاح کو مدِنظر رکھ کر کرنا ہے تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ پہلے اس کی طبیعت سے واقفیت حاصل کرو کہ اگر تمہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ شخص کس طبیعت اور مزاج کا ہے تو تمہیں یہ کیسے پتہ لگے گا کہ معافی سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا سزا دینے سے اصلاح ہو سکتی ہے اور یہ حکم بھی دراصل اسی محاسبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کہ صحیح علم کے بغیر وہ محاسبہ نہیں ہو سکتا جس کا مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کا قرآنی فقرہ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبادت کے لئے تم پیدا ہوئے ہو اور یہ تمہیں کرنی چاہئے لیکن اگر تم حقیقی اور سچی عبادت کرنا چاہتے ہو تو تمہیں میرے لئے دین کو خالص کرنا ہوگا اور میری رضا کے لئے محاسبہ کے میدان میں ہر قدم اُٹھانا پڑے گا۔ تمہارا جو قدم میری رضا کے لئے نہیں ہوگا وہ ہلاکت کی طرف، وہ دوزخ کی طرف، میری ناراضگی کی طرف لے جانے والا ہوگا۔ اس کے لئے محاسبہ کے میدان میں سزا یا معافی دیتے وقت اس شخص کا اس کے ماحول کا صحیح علم رکھنا بڑا ضروری ہے۔ دنیا میں بڑے فسادات اسی وجہ سے آج پیدا ہو رہے ہیں۔ اٹلی میں اور بعض دوسرے ممالک میں طالب علموں نے ہنگامے کئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے ان طلباء کے جو راعی ہیں اور جو ان کی تعلیم، اخلاق اور تربیت کے ذمہ دار ہیں وہ علم کے بغیر قدم اُٹھاتے ہیں اور مشفقانہ اصلاح کی بجائے غلط طریق پر غصہ نکالتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ ان کو عقل سے، پیار سے سمجھائیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ بعض لوگ پھر بھی شیطان کی گود میں بیٹھنا ہی پسند کریں گے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ انسانی فطرت بنیادی طور پر شریف واقع ہوئی ہے لیکن آج کا انسان انسانیت سے بھی دور جا چکا ہے مذہب تو بعد کی بات ہے پہلے تو ایسے لوگوں کو ہم نے انسان بنانا ہے پھر اس کے بعد خدا اور رسول کی باتیں ان کو سنائی جائیں گی۔ جو شخص فطرت کے مسخ ہو جانے کے نتیجہ میں انسان کی بجائے گدھے اور بھیڑیے کے اخلاق اپنے اندر رکھتا ہے اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کو انسان بنایا جائے، پھر انسان سے روحانی انسان، خدا رسیدہ انسان، اللہ کا پیارا اور محبوب انسان بنایا جا سکتا ہے لیکن جو اپنے اخلاق و اطوار میں انسان ہی نہیں مذہب اس کے لئے کیا کر سکتا ہے اور مذہب کا حسن یعنی اسلام کا (میرے نزدیک اس وقت سچا مذہب اسلام ہی ہے) حسن اور اسلام کے احسان کو وہ سمجھ ہی کیسے سکتا ہے پہلے لوگوں کو انسان بنانا چاہئے۔ انسانی اقدار پیدا کرنے کی جن لوگوں پر ذمہ داری ہے وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور انسانیت دن بدن حیوانیت کی طرف دھکیلی جا رہی ہے اور کسی کو اس کی فکر نہیں۔ آپ کو اس کی فکر ہونی چاہئے۔ یہ سوچنا چاہئے کہ وہ مخلوق جسے اللہ تعالیٰ نے انسان بنایا تھا وہ حیوانیت کی طرف کیوں مائل ہو رہی ہے اور ان کو واپس انسان بنانے کیلئے ہمیں کیا کوششیں کرنی چاہئیں۔ پھر آپ میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ کتنی بڑی ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہیں پہلے ان کو انسان کے دائرہ کے اندر لائیں گے پھر ان کو کہیں گے کہ دیکھو انسان کی روحانی، جسمانی، اخلاقی، دینی اور دنیوی ترقیات کے لئے اسلام نے تمہارے ہاتھ میں کتنی حسین تعلیم دی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تم پر کتنا بڑا احسان کیا ہے لیکن جب تک ان کے اندر ایک گدھے کی یا ایک بھیڑیئے کی یا ایک سانپ کی یا ایک بچھو کی خاصیت رہتی ہے وہ آپ کی بات سمجھ ہی نہیں سکتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاگل ہو گئے ہیں جو ہمارے پاس یہ تعلیم لے کر آ گئے ہیں۔
پس ضروری ہے کہ پہلے ان کو انسان بنایا جائے اور جن پر انسان بنانے کی ذمہ داری ہے وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، وہ محاسبے کی ذمہ داریوں کو نہیں نباہتے۔ ہم مسلمان احمدیوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے مختلف معانی کے لحاظ سے جتنی ذمہ داریاں ڈالی ہیں ہم ان پر غور کرتے رہیں اور ان کو نباہنے کی کوشش کرتے رہیں۔ دو اور ذمہ داریاں ہیں وہ انشاء اللہ اگلے خطبہ میں بیان ہو جائیں گی۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۶؍ جون ۱۹۶۹ء صفحہ۱ تا۶)
٭…٭…٭

اپنے تمام فیصلوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی محبت، اطاعت اور اس کی رضا پر رکھیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍مئی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ انسان کو سچی حقیقی اور خالص عبادت کے لئے پیدا کیا گیا۔
٭ ہماری زندگیاں فیصلوں کا مجموعہ ہیں۔
٭ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا ہی حکم چلتا ہے۔
٭ خدا اور رسول کے فیصلہ پر اپنا اجتہاد نہیں کرنا چاہئے۔
٭ بدلہ لیتے ہوئے خود ظالم نہ بن جاؤ۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ
(الذٰرِیٰت: ۵۶،۵۷)
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَoلا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo (البینۃ: ۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
پچھلے خطبات میں مَیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی سچی، حقیقی اور خالص عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے اصولاً انہیں ایک ہی حکم دیا گیا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اللہ کے غیر کی پرستش نہ کرو۔ شریعت کی ساری تعلیم اور ہدایت۔ اس کے سب احکام اور نواہی اسی مرکزی نقطہ کے گرد گھومتے ہیں اور عبادت کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس فقرہ میں بیان کی ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ
دین کے مختلف معانی حقیقی عبادت کے مختلف تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس وقت تک میں نوتقاضوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں۔ دین کے دسویں معنی جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں قضا یا فیصلہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زندگیاں ایک نقطۂ نگاہ سے فیصلوں کے گٹھڑ ہیں۔ ہم صبح سے لے کر شام تک بیسیوں سینکڑوں بلکہ بعض دفعہ ہزاروں فیصلے کرتے ہیں۔ ہم اپنے متعلق بھی فیصلے کرتے ہیں۔ مثلاً ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا ہم نے اپنے اوقات کو گپ شپ میں خرچ کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کو معمور کرنا ہے۔ ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آج کے مختلف کاموں کو کن اوقات میں کرنا ہے۔ مجھے قریباً ہر روز سوچ کر یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ میں نے اپنے کاموں کو کس پروگرام کے ماتحت کرنا ہے۔ مثلاً ڈاک میں فلاں وقت دیکھ سکتا ہوں اس لئے میں ڈاک اس وقت دیکھوں گا یا فلاں کام فلاں وقت کروں گا۔ بعض وقت دوست بے وقت ملنے کے لئے آ جاتے ہیں اور میرا سارا پروگرام درہم برہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی میں اپنی مرضی کرتا ہوں اور کبھی ان کی بات مان لیتا ہوں۔ بہرحال مجھے ہر روز اپنے کاموں کے متعلق فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور آپ میں سے ہر ایک کو بھی ہر روز کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ چاہے انسان کو احساس ہو یا نہ ہو لیکن انسان کا دماغ فیصلے کرتا ہے۔ مثلاً انسان اصولی طور پر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں، اپنے اقرباء اور ان لوگوں سے جو اس پر انحصار رکھتے ہیں اور وہ ان کا راعی ہے کس قسم کا سلوک کرے بعض لوگ اپنی طبیعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر ان کی طبیعت میں سختی ہے تو ان کا سلوک سخت ہوتا ہے۔ اگر ان کی طبیعت میں ضرورت سے زیادہ نرمی ہے تو ان کا سلوک اپنے لواحقین سے ضرورت سے زیادہ نرم ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کو نظر انداز کرنے والے بن جاتے ہیں۔
اسی طرح ہم اپنے ہمسایوں کے متعلق بعض فیصلے کرتے ہیں مثلاً ایک شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرے ہمسائے کا مجھ پر بڑا حق ہے۔ اس کی ہر ضرورت کو میں اسی طرح پورا کروں گا جس طرح میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی ضرورتوں کو پورا کروں گا۔ بعض لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمسائے نے ایک مصیبت ڈال رکھی ہے۔ آج یہ چیز لینے آ گیا ۔ دس دن کے بعد دوسری ضرورت کو بیان کر دیا اور کسی چیز کا مطالبہ کر دیا۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ قیمت کے لحاظ سے شائد مہینہ بھر کے مطالبات چند پیسوں کے ہوں لیکن چونکہ ان کی طبیعتوں کا رحجان اس طرف ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ہمسایوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی کہ وہ ہمیں ہر روز تنگ کرتے رہیں۔ اس لئے وہ ان سے وہ سلوک نہیں کرتے جو وہ ان سے اس صورت میں کرتے کہ ان کے فیصلے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَکے مطابق ہوں اور اگر ان کا فیصلہ ان احکام کے مطابق ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں تو ان کا سلوک اور ہوتا اور ان کے احساسات اور جذبات یہ ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتنا فضل کیا ہے کہ اس نے ہمارے ہمسائے کو ایک دھیلہ یا دو پیسہ کی ضرورت پیدا کر دی اور اس طرح اس نے ہمارے لئے ایک عظیم ثواب کا سامان پیدا کر دیا۔ وہ اس رنگ میں بھی سوچ سکتے ہیں اور اپنے فیصلے کر سکتے ہیں۔
غرض ایک نقطۂ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگیاں فیصلے ہی فیصلے ہیں۔ وہ فیصلوں کا مجموعہ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح روئی کی گانٹھیں بنا دی جاتی ہیں اور روئی کے ریشے ان کے اندر آ جاتے ہیں ۔ ہماری زندگی کے فیصلوں کی ہر روز ایک بیل (Bale) یعنی گانٹھ بنتی ہے وہ فیصلے وقت کے پریس میں دب جاتے ہیں اور شام کو ہم معمولی سی گٹھڑی فیصلوں کی لاتے ہیں۔ حالانکہ اس گٹھڑی میں اسی طرح بے شمار فیصلے ہوتے ہیں جیسے روئی کی گانٹھ میں بے شمار ریشے ہوتے ہیں ہمارا دن فیصلے کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان فیصلوں کی بنیاد دو چیزوں پر رکھ سکتے ہو۔ ایک میری محبت اطاعت اور میری رضا کی جستجو پر اور دوسرے اپنی مرضی پر اگر تم اپنے فیصلوں کی بنیاد اپنی مرضی پر رکھو گے یا اللہ کے سوا کسی اور کی مرضی پر رکھو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی پرستش اور عبادت کا حق ادا نہیں کر رہے ہو گے۔ اگر تم اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ اگر تم عبادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے فیصلوں کو خالصۃً للہ بنانا پڑے گا اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم مشرک بن جاؤ گے تم دہریہ بن جاؤ گے تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے نہیں ہو گے۔
پس اَلدِّیْنُ الْقَضَآئُ دین کے معنی قضا کے ہیں اور قضا کا لفظ دو موٹے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو یہ لفظ حکم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرے یہ قضا کے فیصلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں ہم یہ دونوں معنی لے سکتے ہیں۔ بہرحال ایک معنی قضا کے حکم دینا، اپنے یا غیر کے متعلق فیصلہ کرنا یا ہدایت دینا یا ڈائرکٹو دینا ہیں۔ ان لوگوں کو جو ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ہدایت دینا ہمارا فرض ہے۔ مثلاً ہیڈ ماسٹر ہے، پرنسپل ہے، گھر کا مالک ہے، محلہ کا عہدہ دار ہے۔ ان سب کو حکم یہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ کرنے لگو تو اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارے فیصلہ کی بنیاد احکام الٰہی پر ہو اس کے بغیر تمہارا عبادت کا دعویٰ غلط ہوگا۔ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں خدائے واحدو یگانہ کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کی پرستش نہیں کرتا لیکن جس وقت محلہ میں کوئی ہدایت دینی ہو کوئی حکم جاری کرنا ہو تو وہ تعصب اور حسد سے کام لیتا ہے اور اگر کوئی پریذیڈنٹ تکبر حسد یا تعصب کی بناء پر فیصلہ کرتا ہے تو خدائے واحد کی عبادت کیسی کہ اس نے خدا کے لئے اس چیز کا بھی خیال نہیں رکھا کہ وہ تعصبات سے پا ک ہو کر اور حسد کو کُلّی طور پر اپنے خیالات سے باہر پھینک کر اپنے فیصلے کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ فیصلہ حکم، ہدایت یا ڈائرکٹو کی شکل میں ہو جو ایک قاضی باہم جھگڑوں میں کرتا ہے وہ فیصلہ خالصۃً اللہ کے لئے ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایت کے ماتحت ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے اس معنی کے لحاظ سے قضا کے جو بعض پہلو نمایاں طو رپر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے مثلاً ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ اسراء (بنی اسرائیل) میں فرماتا ہے۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلاَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (بنی اسرائیل:۲۴)
ہم نے فیصلے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ماتحت کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر قسم کے شرک سے بچا جائے۔ اس کے بغیر حقوق اللہ ادا نہیں ہو سکتے۔ انسان ایک چیز کے حصول میں بڑا پیسہ خرچ کرتا ہے اور بعض دفعہ ناجائز خرچ بھی کرتا ہے اور بعض دفعہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں اپنے پیسے خرچ کرنے کی وجہ سے اور اپنے مال کی بدولت اپنے مقصود کو حاصل کر لوں گا اور نہیں جانتا کہ اس مال پر بھی اللہ کا تصرف اس کا فیصلہ اور اس کی قضا جاری ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑے انعام کرتا ہے اور بے شمار انعام ایسے ہیں کہ وہ جب کرتا ہے تو انہیں واپس نہیں لیتا لیکن بعض انعامات کو وہ واپس لیتا ہے تا بندہ یہ نہ بھول جائے کہ جو انعامات اس سے چھینے گئے وہ اس کی کسی خوبی یا اس کی کسی عزت یا اس کی کسی طاقت کی وجہ سے نہیں چھینے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہی وہ چیزیں اس کے پاس رہنے دی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ انسان کو بچے دیتا ہے۔ اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہَ بعض استثناء ہیں۔ ہر خاوند اور بیوی کو وہ بچے دیتا ہے اس کا یہی قانون ہے۔ خدا کہتا ہے کہ بچوں کے متعلق جو تم فیصلہ کرو جو بھی Decision تم لو وہ خالصۃً میری رضا کے لئے ہو۔ میری محبت میں ہو اور میری اطاعت کے لئے ہو۔ ماں کہتی ہے بچے پر دین کا زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔ بیچارے کو تکلیف ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ بچہ میرا تھا۔ میں اسے واپس لے لیتا ہوں۔ چنانچہ وہ اسے وفات دے دیتا ہے۔ پھر ماں وہاں بھی ناشکری کرتی ہے۔ وہ پیٹنا شروع کر دیتی ہے لیکن نیک مائیں تیمارداری میں اور علاج میں پورا زور لگانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر بشاشت کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں۔ یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے والے ماں اور باپ وہ ہیں کہ جب وہ بچہ کے متعلق فیصلے کر رہے ہوں گے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے فیصلے کر رہے ہوں گے ان کو پتہ ہے کہ یہ خدا کا انعام ہے ہمارا اس پر زور نہیں۔ وہ جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔ اس لئے جو خدا کی چیزہے اس کو خدا کی محبت میں محو اور اس کے نور سے منور رکھنا ضروری ہے وہ اس کی اس رنگ میں تربیت کرتا ہے لیکن جو لوگ اس رنگ میں بچوں کی تربیت نہیں کرتے وہ دراصل شرک اور کفر کر رہے ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہم اسے تکلیف کیوں دیں خدا کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے۔ میری بندگی کے لئے اسے تیار کرو اور میری راہ میں مشقتیں برداشت کرنے کی اسے عادت ڈالو لیکن ماں باپ کا فیصلہ الٰہی فیصلہ کے خلاف ہو جاتا ہے۔ تب اس بندہ کو جھنجھوڑ کر جگانے سے اللہ تعالیٰ کی ایک دوسری قضا آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اس دنیا سے اُسے اُٹھا لیتی ہے۔ اسی طرح اموال ہیں یا دوسری چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اپنے بندوں کو دیتا ہے جب بندہ ان کی قدر نہیں کرتا جب بندہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبادت پر قائم نہیں رہتا۔ جب بندہ ان انعامات کو اپنے علم یا اپنے زور یا اپنی فراست یا اپنے تجربہ یا اپنے مال کا نتیجہ سمجھتا ہے تو خدا کہتا ہے تم غلطی پر ہو۔ یہ میرا انعام تھا اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے کسی زور یا تجربہ یا محنت یا علم کے نتیجہ میں تمہیں ملا ہے تو دیکھو میں ایک اور فیصلہ صادر کرتا ہوں اور یہ مال تم سے چھین لیتا ہوں (وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ۔ البقرۃ: ۱۵۶) مومنوں کا امتحان ہوتا ہے۔ کمزوروںکی کمزوری دُور کرنے کا طریق اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار کیا ہے کہ وہ انہیں آزماتا ہے۔ دیکھو اب گندم تیار تھی زمیندار بڑے خوش تھے کہ بڑی اچھی فصل ہے۔ حکومت کاخیال تھا کہ شاید پچھلے سال سے دس لاکھ ٹن گندم زیادہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ گندم دینا یا گندم کو روک لینا میرے اختیار میں ہے۔ بے شک تمہاری مصنوعی کھادیں اور تمہارے نئے بیج استعمال کئے گئے اور یہ ٹھیک ہے کہ یہ چیزیں میرے دیئے ہوئے علم کے مطابق پیدا کی گئی ہیں لیکن ان کا نتیجہ نکالنا بھی اسی طرح میرے ہاتھ میں ہے جس طرح ان چیزوں کا بنا لینا میرے دیئے ہوئے علم کے نتیجہ میں ہے۔ میری پیداکی ہوئی اشیاء کے نتیجہ میں ہے۔ ’’لاشیئی‘‘ محض سے کوئی یہ چیزیں پیدا نہیں کر سکتا۔ ویکم (Vacuum) اور خلاء میں سے تو انسان کوئی چیز نہیں پیدا کر سکتا ہاں خدا کی پیدا کردہ مختلف اشیاء کی شکلیں بدلنے کا اس کو اختیار دیا گیا ہے اور اس قانون کے مطابق اختیار دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے وضع کیا ہے اور جس قانون کو انسان بدل نہیں سکتا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو استعمال کرنے کے بعد انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اشیاء سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ فخر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے علم، اپنے زور، اپنے تجربہ اور انوسٹمنٹ (Investment) یعنی سرمایہ لگانے کے نتیجہ میں کھاد بنائی۔ میں نے ٹیوب ویل لگائے، میں نے نئے بیج نکالے اور اب ان چیزوں کے نتیجہ میں مجھے بڑی مقدار میں گندم مل جائے گی لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ بات میرے اختیار میں ہے کہ میں جس رنگ میں چاہوں نتیجہ نکالوں۔ چند دن ہوئے میرا اندازہ ہے کہ پندرہ بیس منٹ کیلئے ژالہ باری ہوئی اور بعض زمینداروں کے کھیت اس طرح صاف ہو گئے کہ گویا وہاں گندم بوئی ہی نہ گئی تھی۔ پھر کسی کا روپیہ میں سے بارہ آنے نقصان ہوا کسی کا آٹھ آنے نقصان ہوا۔ کسی کا چار آنے نقصان ہوا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی جو مرضی تھی وہ پوری ہوئی اور جب وہ مرضی پوری ہوئی تو بعض بندوں نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مَاشَا اللّٰہَ۔ لَاقُوَّۃَ اِلاَّبِاللّٰہِ خدا کے فیصلہ اور منشاء اور اس کے ارادے کے بغیر تو کوئی چیز ہوتی نہیں اور یہ چیز اس کی تھی اس نے واپس لے لی۔ ایک ہاتھ سے اس نے یہ چیز ہمارے ہاتھ میں پکڑائی اور دوسرے ہاتھ سے واپس لے لی اور کہا میں تمہاری آزمائش کروں گا اور دیکھوں گا کہ تم یہ چیز میری سمجھتے ہو یا اپنی سمجھتے ہو۔ چنانچہ اس نے کسی سے تو روپیہ کا روپیہ واپس لے لیا، کسی سے روپیہ میں سے بارہ آنے واپس لے لئے، کسی سے اٹھنی واپس لے لی۔ کسی سے چونی واپس لے لی اور کسی سے دونی واپس لے لی۔ پھر دیکھا کہ ان کا ردِّ عمل کیا ہے۔ کیا ان کے ہونٹ لٹکتے اور پھڑپھڑاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں یا وہ بشاشت کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو کچھ باقی رہ گیا ہے اس کے کنارے پرکھڑے ہو کر الحمدللہ پڑھتے ہیں۔ اگر وہ دوسرا طریق اختیار کرتے ہیں تو وہ حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کی عبادت میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں لیکن جو لوگ شکوہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ ہمیں ملا وہ بھی تو ہمارا حق نہ تھا وہ بھی خدا کی چیز تھی اور اس نے ہمیں اپنے فضل اور انعام کے طور پر دی تھی ان کی عبادت حقیقی نہیں۔ وہ شرک میں مبتلا ہیں۔ غرض جو چیزیں ہم سے چھینی جاتی ہیں ان کے متعلق بھی ہمارا ایک ردِّ عمل ہوگا اور جو چیز باقی رہ جاتی ہے اس کے متعلق بھی ہم فیصلہ کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ فیصلہ کرے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے ظلم سے زبردستی چھین لیا ہے اور جو چیز باقی رہ گئی ہے وہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کروں گا تو ایسا آدمی بڑا احمق ہے کیونکہ جو کچھ رہ گیا ہے اس پر بھی تو وبال آ سکتا ہے اس پر بھی تو ہلاکت کی آندھیاں چل سکتی ہیں اس پر بھی تو تباہی آ سکتی ہے یا اس کے نتیجہ میں اس کے گھر میں بیماری پیدا ہو سکتی ہے اگر خدا کا یہی منشاء ہو تو۔ مثلاً باغ کامالک بڑے فخر سے پھل توڑ کر لاتا ہے اور اس پھل کے اندر خداتعالیٰ نے بیماری کے کیڑے پیدا کئے ہوتے ہیں وہ وہ پھل چھپا کر گھر لاتا ہے کہ رستہ میں اسے کوئی غریب اور محتاج نہ مل جائے کہ اسے وہ پھل دینا پڑے اور گھر آ کر بچوں کو کہتا ہے میں تمہارے لئے یہ پھل چھپا کر لایا ہوں آؤ اسے کھاؤ۔ بچے وہ پھل کھاتے ہیں اور بیمار ہو جاتے ہیں اور بعض ان میں سے مر بھی جاتے ہیں کیونکہ اس پھل میں بیماری کے کیڑے تھے اور جن لوگوں سے وہ پھل چھپا کر لاتا ہے وہ اس بیماری سے بچ جاتے ہیں۔ پس اگر پھل میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے یا بچے ہیں کچھ ان میں سے خدا نے لے لئے اور کچھ باقی رہ گئے ہیں۔ اگر مال میں سے کچھ حصہ خداتعالیٰ نے لے لیا ہے اور کچھ باقی رہ گیا ہے یا جسمانی طاقت میں سے کچھ اللہ تعالیٰ لے لیتا ہے اور کچھ باقی رہ جاتی ہے تو یہ بھی خدا تعالیٰ کا انعام ہے۔ ایک عزیز مجھے ملنے کیلئے آیا وہ بہت مستعد چوکس اور چوبیس گھنٹے کام کرنے والا نوجوان تھا اور بڑا مخلص تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا امتحان لیا اور اس کو بیمار کر دیا۔ اپنڈے سائٹس کا دورہ اسے ہوا جس کا اپریشن ہوا۔ کل وہ مجھے ملنے آیا تو اس کا حلیہ بالکل بدلا ہوا تھا مجھے اس پررحم آیا اور میں نے اس کے لئے دعا بھی کی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جسمانی طاقت بھی واپس لے لیتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے میری ساری طاقت اور قوت چھینا چاہتا تھا میں بڑا چالاک ہوں میں نے یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ کے ماتحت (یعنی وہ سمجھتا ہے کہ میں خدا کو دھوکہ دے رہا ہوں) چالاکی کر کے کچھ طاقت اپنی بچا لی ہے نعوذ باللہ تو اس سے بڑھ کر اور کوئی حماقت نہیں ہو سکتی جو طاقت باقی رہ گئی وہ بھی خدا کی دَین اور اس کا انعام ہے اس پر الحمدللہ پڑھنی چاہئے تا کہ جو کمی پیدا ہوگئی ہے وہ دور ہو جائے اللہ تعالیٰ پھر اپنا فضل کرے۔
غرض اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ہی کا حکم چلتا ہے اور بڑا احمق اور بدبخت ہے وہ شخص جو یہ سمجھنے لگے کہ آدھا خدا کا حکم چلتا ہے اور آدھا میرا چلے گا۔ حکم خدا ہی کا چلے گا اسی لئے ہمیں خدا نے کہا اس نے ہمیں تنبیہہ کر دی اور ہمیں یہ ہدایت دے دی تا کہ ہم اس کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں کہ جب تم نے Decision لینے ہوں جب تم نے فیصلے کرنے ہوں تو یاد رکھو کہ تمہارا کوئی فیصلہ، تمہارا کوئی Decision ، تمہارا کوئی ڈائرکٹو (Directive) تمہاری کوئی ہدایت اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی ہدایتوں کے خلاف نہ ہو اور تمہارا ہر فیصلہ اس کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم خدا کے مخلص عبادت گزار بندے بن جاؤ گے۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم عبادت کرتے ہوئے دنیا کو نظر بھی آؤ گے لیکن خدا کی نگاہ میں تم ان لوگوں میں شامل نہیں ہوگے جن کے متعلق وہ کہتا ہے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عبادت کو خالصۃً اللہ کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔ پس شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہونا چاہئے اور وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اس میں اللہ تعالیٰ نے آپس کے معاشرہ کو اور باہمی تعلقات کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا ہے۔ گو یہاں اس نے صرف وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا کہا ہے لیکن اس میں تمام معاشرہ کے حقوق کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ انسان کی اپنی زندگی میں دو حیثیتیں ہوتی ہیں کبھی وہ اپنی زندگی میں محسن ہوتا ہے وہ دوسروں کے لئے اور ان کی بھلائی کے لئے کام کر رہا ہوتا ہے اور کبھی وہ سینکڑوں آدمیوں کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کی بھلائی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہاں بتایا کہ جب تم معاشرہ کے اس حصہ کو دیکھو اور دیکھو کہ سینکڑوں لوگ تمہاری بھلائی کیلئے کام کر رہے ہیں (والدین کا لفظ محض علامت کے طور پر ہے) تو تم نے بھی اس کے بدلہ میں احسان کرنا ہے۔ تم خود کو دیکھو ایک دنیا تمہاری خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ تم پر احسان کر رہی ہے۔ مزدور کام میں لگے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے لئے کپڑا بنارہے ہیں۔ زمیندار کام میں لگے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے لئے کھانے پینے کا انتظام کر رہے ہیں۔ درزی کام میں لگے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے لئے کپڑے سِی رہے ہیں۔ کارخانے لگے ہوئے ہیں اور ہمارے لئے وہ کاغذ بنا رہے ہیں جس پر میں یہ نوٹ لکھتا ہوں یا جب موقع ہو تو آپ بھی اپنی ضروری یادداشتیں اس پر لکھتے ہیں۔ وہ قلمیں بنا رہے ہیں غرض ہزار ہا چیزیں ہماری ضرورت کی ہیں جو دوسرے لوگ ہمارے لئے بنا رہے ہیں۔ یہ ان کا احسان ہے ورنہ ہمارا کسی پر کوئی حق نہ تھا کہ وہ ہمارے لئے کپڑے سیئے۔ ہمارے لئے قلم بنائے، ہمارے لئے کاغذ بنائے یا ہمارے لئے غلّہ اُگائے وغیرہ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سارا احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اس نے یہ سب انتظام کیا ہے۔ اس نے ہمیں ایک ہی والد نہیں دیا۔ اس نے ہمیں ایک ہی والدہ نہیں دی جو ہماری پرورش کرتی اور ہمارے لئے ہزار قسم کے دُکھ اُٹھاتی ہے بلکہ ساری دنیا کو اس نے ہمارے کام پر لگا دیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ سب جو تمہارے لئے کام پر لگے ہوئے ہیں ان پر تم نے بھی احسان کرنا ہے۔ یہ تعلیم حقوق العباد کے متعلق پوری اور مکمل تعلیم ہے جو ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہے۔
پھر قضاء کے متعلق ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نظر آتا ہے کہ فیصلے اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہی نہ ہوں بلکہ بشاشت سے بھی ہوں اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ (احزاب:۳۷) جب خدا اور اس کے رسول کا فیصلہ ہو تو پھر اپنا اجتہاد نہیں کرنا بعض لوگ وہاں بھی اپنا اجتہاد شروع کر دیتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایات موجود ہیں قرآن کریم میں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یا آپ کی سنت اور اُسوہ میں۔ اس وقت یہ کہنا کہ یہ پُرانے زمانے کی بات ہے اب یہ حکم نہیں چلتا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی دائمی شریعت میں جو احکام نازل کئے ہیں ان کی پابندی ضرور کرو۔ اگر یہ پابندی ہم نہیں کرتے تو پھر ہمارے فیصلے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے مطابق نہیں۔ وہ خالصۃً خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کے حصول کے لئے نہیں بلکہ ہم اپنی دنیا بسانا چاہتے ہیں اور اس دنیا کو حسین اور منور نہیں بنانا چاہتے جس دنیا کو اللہ تعالیٰ اپنی ہدایتوں اور اپنے انوار کے ذریعہ خوبصورت اور منور دُنیا بنانا چاہتا ہے۔ پس فرمایا اگر تم بشاشت کے ساتھ احکامِ الٰہی کے سامنے اپنی گردنیں رکھو گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے ارشادات کو قبول کرو گے تب عبادت کا حق ادا ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔
اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جہاں واضح ارشادات نہ ہوں وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجتہاد کی اجازت دی ہے لیکن اجتہاد کی یہ اجازت اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ اس میں نفس کی ملونی نہ ہو بلکہ اجتہاد دعاؤں کے ساتھ ہو۔ عاجزی کے ساتھ ہو۔ پوری کوشش اور محنت کر کے پہلی مثالوں کو دیکھ کر قرآن کریم پر غور کر کے اور احادیث نبوی کو سامنے رکھ کر ہو۔ سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اُسوہ ہمارے سامنے ہے اپنے فیصلوں کو اس کے مطابق کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر تم اجتہاد کرو تا تمہارا اجتہاد مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کامصداق ہو۔ تمہارا اجتہادی فیصلہ خالصۃً اللہ کے لئے اور اس کی اطاعت میں ہو۔
تیسری چیز جو قضاء کے متعلق بنیادی طور پر ہمیں قرآن کریم میں نظر آتی ہے یہ ہے کہ ہر فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہونا چاہئے اگر ہمارے فیصلے حق اور انصاف پر مبنی نہیں تو پھر ہم صرف دنیا ہی کے گناہگار نہیں ہیں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بھی گناہگار ہیں۔ ہم اس کی پرستش کا حق ادا نہیں کر رہے۔
ہمارے ملک میں بھی اور بعض اورملکوں میں بھی سفارش کی *** پیدا ہو گئی ہے اور جس ملک کے فیصلوں کی بنیاد حق و انصاف کی بجائے سفارشوں پر ہو میرے نزدیک خدا ایسے حالات میں اس ملک کو ترقی نہیں دے سکتا۔ احمدیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں کہ حق کے بغیر کوئی چیز لینے کی کوشش نہ کریں اور نہ اس کی خواہش کریں اور دعاؤں پر زور دیں۔ یہ صحیح ہے کہ جب تک سفارش کا کُلّی طور پر قلع قمع نہیں کیا جاتا اس وقت تک جائز حقوق کے حصول کے لئے بھی سفارش کی ضرورت پڑے گی اور یہ قوم کی بدقسمتی ہے لیکن پوری کوشش کرنی چاہئے کہ سفارشات سے بچا جائے۔ یہ قومی فریضہ ہے (آگے چل کر میں بتاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ نے قومی فرائض یا بین الاقوامی فرائض کی ادائیگی پر کس رنگ میں زور دیا ہے) خصوصاً جو ہماری اگلی نوجوان نسل ہے اس کے اندر تو یہ چیز داخل کر دینی چاہئے کہ نہ وہ سفارش کریں گے اور نہ سفارش کو برداشت کریں گے ہمارے فیصلے حق و انصاف پر ہونے چاہئیں۔ سفارشوں پر ہمارے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں اور نہ رشوت پر۔
گیارہویں معنی دین کے جزا اور بدلہ کے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بدلہ لینے اور بدلہ دینے یعنی جزاوسزا کے میدان میں جو ہمارے فیصلے ہیں اور اعمال جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ خالصۃً اللہ کے لئے ہونے چاہئیں۔ جزا لینا اور جزا دینا دونوں باتیں اس کے اندر آ جاتی ہیں دونوں میں مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَکی ذہنیت پیدا ہونی چاہئے۔
ہمارا جو سلوک اپنے انسان بھائیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہوتا ہے۔ دنیا اسے احسان کہتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ احسان نہیں ہے۔ اسلام نے احسان کے لفظ کو اپنی ایک اصطلاح مقرر کر کے اس میں استعمال کیا ہے اس لئے کسی کے ذہن میں خلط نہ ہو۔ احسان کے جو معنی دنیا لیتی ہے اس معنی میں اسلام حسن سلوک کرنے والے کے لئے احسان کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ وہ جزا لینے سے انکار کی ذہنیت پیدا کرتا ہے یعنی ایک سچا مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں بدلہ نہیں لوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے بدلہ اور جزا لینے سے متعلق اعمال میرے اس حکم کے ماتحت اور میری اس ہدایت کے مطابق ہونے چاہئیں کہ لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّ لَاشُکُوْرًا (الدھر:۱۰) ہم تم سے کسی جزا کی خواہش نہیں رکھتے نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں بدلہ دو یہاں تک کہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ تم ہمارا شکر ادا کرو۔ بدلہ لینے کا تو سوال ہی نہیں۔ پس جہاں تک جزا اور مکافات اور بدلہ کا سوال ہے وہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ خالصۃً اللہ کے لئے ہونا چاہئے۔
میں نے بتایا ہے کہ دین کے اس معنی کے لحاظ سے دو پہلو ہیں۔ (ا) بدلہ لینا (۲) بدلہ دینا۔ بدلہ لینے کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ہر حسن سلوک اس معنی میں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے احسان کا لفظ استعمال کیا ہے ایسا ہونا چاہئے کہ تمہارے دل میں نہ صرف یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ شخص اس کا بدلہ دے گا۔ احسان کے مقابلہ میں احسان کرے گا بلکہ تمہیں یہ خیال بھی پیدا نہ ہو کہ کم از کم اسے میرا شکر تو ادا کرنا چاہئے بعض لوگ کسی کی تھوڑی سی خدمت کر کے کہہ دیتے ہیں بڑا ناشکرا ہے یہ شخص۔ اس نے ہمارا شکر بھی ادا نہیں کیا۔ خدا تعالیٰ تمہیں کہتا ہے کہ تم اس کی بھی توقع نہ رکھو کہ وہ تمہارا شکر ادا کرے گا۔ پس جس نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت کی ہے جس نے دنیا کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے خود مصائب برداشت کئے ہیں اس کو خدا کا یہ حکم ہے کہ تم نے جزا لینے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا۔ تم نے یہ بھی نہیں سوچنا کہ اس شخص کو تمہارا شکر گزار ہونا چاہئے۔ یہ اسلام کی نہایت عجیب تعلیم ہے اور اسے قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ میں اس وقت صرف یہ بات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم بدلہ لینے کے میدان میں یہ خیال کرو گے کہ جس شخص سے تم نے حسن سلوک کیا جس کی تم نے خدمت کی اور جس کی تکلیف کو دور کرنے کی تم نے کوشش کی اسے تمہیں اس احسان کا کچھ بدلہ دینا چاہئے۔ اسے کم از کم تمہارا شکر ادا کرنا چاہئے تو تم نے خداتعالیٰ کی پرستش کا حق ادا نہیں کیا۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی سچی اور حقیقی عبادت کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ راہ ہے کہ تم بنی نوع انسان کی خدمت کرو۔ تم ان سے حسن سلوک کرو۔ تم اپنے بھائیوں کے لئے مصائب برداشت کرو۔ تکلیفیں اور دکھ سہو اور ہر چیز کو بھول جاؤ تمہیں یہ خیال ہی نہ رہے کہ تم نے کچھ کیا ہے کیونکہ تم نے جو کچھ بھی کیا ہے اپنے ربّ کی رضا کے حصول کے لئے کیا ہے۔ اگر واقعہ میں تمہارا دعویٰ سچا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کر رہے ہو لیکن اگر تم نے وہ احسان خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں کیا تو تم نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ تم اس دعویٰ میں جھوٹے ہو کہ تم مشرک نہیں ہو بلکہ توحید خالص پر قائم ہو۔ غرض یہ جزا لینے کے متعلق اصولی تعلیم تھی۔
جس شخص پر احسان ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ایک اور زاویۂ نگاہ سے مخاطب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ (الرحمن:۶۱) کہ کیا احسان کا بدلہ اور احسان کی جزا احسان کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی جس شخص نے حسن سلوک کیا اس کو تو یہ کہا کہ تم نے بدلہ میں احسان کی توقع نہیں رکھنی کیونکہ تم نے جو کچھ کیا ہے میری خاطر کیا ہے اور جس کے ساتھ حسن سلوک ہوا تھا جس کی خاطر اس نے دکھ اُٹھائے تھے جس کی خدمت کی گئی تھی اس کو یہ کہا کہ اگر تم میری سچی پرستش کرنا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو۔ مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ اگر تم اپنے خدمت گزار بندوں، اپنے پیار کرنے والے بھائیوں کی جو تمہاری خاطر دکھ اُٹھاتے ہیں اسی طرح خدمت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگے (جب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے) اور تمہارے دل میں شکر کے جذبات نہیں ہوں گے تو تم نے خدا تعالیٰ کی پرستش کا حق ادا نہیں کیا۔ اگر تم توحید خالص پر قائم رہنا چاہتے ہو اور اس حکم کی تعمیل کرنا چاہتے ہو کہ وَمَااُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ تو تمہارا فرض ہے کہ جب کوئی بھائی تم سے محبت اور پیار کا احسان اور ایتائے ذی القربیٰ کا سلوک کرے تو تم اس کے مقابلہ میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اس سے بڑھ کر سلوک کرنے کی کوشش کرو اور اس کے لئے اپنے دل میں انتہائی شکر کے جذبات پیدا کرو۔ شکر کے جذبات پیدا کرو۔ یہ تعلیم تو احسان کا بدلہ لینے اور دینے سے متعلق تھی۔ جزا اور سزا کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نے کسی کو دکھ پہنچایا ہو تو اس کے متعلق بھی جزا اور بدلہ کا سوال ہوتا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے جو بنیادی حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ جَزٰٓؤُاسَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا (الشّورٰی:۴۱) یعنی جتنی کسی نے بدی کی ہے جتنا دکھ کسی نے پہنچایا ہے جتنا ظلم کسی نے کیا ہے جتنا مال کسی نے غصب کیا ہے اس سے زیادہ اسے نقصان نہ پہنچاؤ، جتنی ٹھیس احساسات کو کسی نے پہنچائی ہے اتنی ٹھیس پہنچانے کی تمہیں اجازت ہے زیادہ کی نہیں۔
جہاں تک احساسات کو ٹھیس پہنچانے کا سوال ہے انسان کو یہ جرم معاف ہی کر دینا چاہئے میرے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا ہے ورنہ کم از کم میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اگر کوئی میرے جذبات کو ٹھیس پہنچائے تو میں اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچاؤں۔
بہرحال اگر کسی نے کسی سے کوئی بُرائی کی ہو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے بدلہ میں اس سے زیادہ بُرائی نہیں کرنی کیونکہ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (الشّورٰی:۴۱) اللہ تعالیٰ ظالم کو پسند نہیں کرتا۔ جب اس نے تم پر ظلم کیا تو اللہ تعالیٰ کی نفرت کی نگاہ اس پر پڑی۔ اگر تم بدلہ لیتے ہوئے خود ظالم بن جاؤ گے تو خدا کی نفرت کے مستحق ہوگے اس کے پیار کے مستحق نہیں ہوگئے تو جَزٰٓؤُاسَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا جتنا کسی نے ظلم کیا ہے اس سے زیادہ کا تمہیں حق نہیں۔ تمہیں بدلہ لینے کا زیادہ سے زیادہ جو حق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تم نے بُرائی کے مطابق بدلہ لینا ہے کیونکہ اگر تم نے زیادتی کی تم نے تعدی کی، تو تم یاد رکھو کہ جو سلوک خدا کا ظالم کے ساتھ ہوگا وہی سلوک تمہارے ساتھ ہوگا۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ اور یہ سلوک محبت کا نہیں ہوگا نفرت کا ہوگا۔
یہ تو زیادہ سے زیادہ بدلہ لینے کا حق ہے جو تمہیں دیا گیا ہے لیکن اگر تم اپنے پیدا کرنے والے اور پیارے ربّ کی عبادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہو تو فَمَنْ عَفَاوَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشّورٰی: ۴۱) تمہارے لئے یہ اجازت ضرور ہے کہ تم انتقام لینا چاہو تو بُرائی کے مطابق بُرائی کر سکتے ہو لیکن تمہارا یہ نظریہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی چونکہ میرے ساتھ لڑائی ہوگئی ہے اس لئے میں اب بغیر بدلہ لئے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ کام ایک مسلمان کا کام نہیں قرآن کریم یہی کہتا ہے۔
ویسے اللہ تعالیٰ نے جذبات کو ٹھنڈا کر دینے کیلئے بڑی عجیب تعلیم دی ہے اس نے انسان کے خیالات کو بدل دیا ہے۔ ہمارے زمیندار بھائی پانی کے کھال پر لڑ پڑتے ہیں۔ ایک زمیندار دوسرے زمیندار کی دو فٹ زمین لے لیتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ دو فٹ زمین واپس لینے کے لئے بعض اوقات پہلے کو قتل کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم تمہیں ایک اصول بتا دیتے ہیں تم اس کی روشنی میں بدلہ لے سکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے نفس کو بھول جاؤ۔ تم یہ نہ سوچو کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے اور میرا ایک حق چھینا گیا مجھے وہ حق واپس ملنا چاہئے۔ تم یہ سوچو کہ میرا ایک بھائی ظالم بنا۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی اس نے مول لی مجھے اس کی فکر کرنی چاہئے۔ اسے خداتعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے سامان کرنے چاہئیں۔ اگر تم فوراً یہ بات سوچو گے تو تمہاری طبیعت کا جوش جاتا رہے گا۔ تمہارے جذبات ٹھنڈے ہو جائیں گے پھر تم یہ سوچو کہ بدلہ لینے کا جتنا حق تمہیں دیا گیا ہے وہ حق لینے سے اس کی اصلاح ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر وہ حق لینے سے اس کی اصلاح ہوتی ہے تو وہ حق تم اس نیت سے نہ لو کہ تمہیں مثلاً پانچ سَو روپے مل جائیں گے بلکہ اس نیت سے لو کہ پانچ سَو روپیہ کی وجہ سے اس کی اصلاح ہو جائے گی اور پھر اگر تم یہ سمجھو کہ اگر اس سے میں نے وہ حق واپس لیا جو اس نے مجھ سے چھینا ہے تو وہ اپنے ربّ سے اور بھی دُور ہو جائے گا اس کی ذہنیت ہی اس قسم کی ہے تو تم اپنے دل میں یہ کہو کہ میں اپنے بھائی کی خاطر اس لئے کہ وہ کہیں خدا سے اور بھی زیادہ دور نہ ہو جائے اور اس سے بُعد کی راہوں کو وہ اختیار نہ کرے اپنے پانچ سَو روپے چھوڑتا ہوں یہ رقم میری نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
خداتعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں وہ مجھے اس کا بدلہ دے گا اور خدا کہتا ہے فَاَجْرُہٗ عَلٰی اللّٰہِ میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ میں تمہیں اس کا بدلہ دوں گا۔ غرض ایک ہی فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے حق چھڑوا بھی دیا اور حق سے زیادہ دے بھی دیا اس نے کہا اگر اصلاح کا امکان ہو تو اپنا حق چھوڑ دو اور گھبراؤ نہیں تمہارے پانچ سَو یا ہزار روپے جو ضائع ہوئے ہیں یا کوئی اور نقصان پہنچا ہے فَاَجْرُہٗ عَلٰی اللّٰہِ میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ تمہارا نقصان پورا کر دوں یہ غریب انسان (اور خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں دنیا کی ساری دولت بھی کسی کے پاس ہو تو وہ غریب ہی ہے) ہمیں کیا دے سکتا ہے۔ اس غنی نے تو ہم سے یہ وعدہ کر لیا کہ تم اس کی اصلاح کے لئے اپنا حق چھوڑو گے تو میں اپنی وسیع رحمت کے نتیجہ میں تمہیں بدلہ دوں گا تمہیں کوئی نقصان نہیںہوگا۔
پس میں نے بتایا کہ جزا لینے اور جزا دینے کے متعلق قرآن کریم نے بعض احکام دیئے ہیں جو اصولی ہیں تفصیلی نہیں اور جہاں کسی پر ظلم ہوا ہے تو اس ظلم کا بدلہ لینے یا خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بدلہ لینے کا ارادہ ترک کر دینے کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے بعض اصولی احکام دیئے ہیں اور وہ یہ کہ جزا اور بدلہ اور مکافات سے تعلق رکھنے والے فیصلے خالصۃً اللہ کے لئے ہونے چاہئیں۔ اگر یہ فیصلے خالصۃً اللہ کے لئے نہیں ہوں گے تو تمہاری نمازیں یہ ثابت نہیں کریں گی کہ تم خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرتے ہو بلکہ ان احکام کو توڑ دینا یہ ثابت کرے گا کہ تم خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کر رہے اس لئے اگر تم خدا کی حقیقی پرستش کرنا چاہتے ہو تو عبادت کے اس تقاضا کو پورا کرو کہ جزا لینے اور جزا دینے کے متعلق تمہارے فیصلے خالصۃً اللہ کے لئے ہوں اس کی محبت میں ہوں اس کی اطاعت میں ہوں اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲؍ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا ۷)
٭…٭…٭


عبادت کی ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے
تین چیزیںبنیادی ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍مئی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ بندے اور اس کے خالق کے درمیان عبودیت تامہ کا تعلق قائم ہو۔
٭ غیر اللہ کی اطاعت بھی احکامِ الٰہی کی روشنی میں ہو۔
٭ جب تم فیصلہ کرو تو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق کرو۔
٭ دعا کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان ضروری ہے۔
٭ اسلام نے ہر فرد واحد کے نفس کے حقوق کو تسلیم کیا ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:۔
وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo
(الذّٰریٰت:۵۶،۵۷)
وَمَآ اُمِٓرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنo لا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o (البینۃ:۶)
اس کے بعد حضور نے فرمایا :
میں نے پچھلے خطبات میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان آیات میں جو میں خطبہ سے پہلے تلاوت کرتا ہوں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ انسانی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ بندے اور اس کے خالق اور ربّ کے درمیان عبودیت نامہ کا تعلق قائم ہو جائے اور اس کا بندہ اسی کی عبادت کرے اور پھر بتایا کہ عبادت سے اس قسم کی عبادت مراد نہیں جو دوسرے مذاہب والے اپنے خیال کے مطابق یا بگڑی ہوئی تعلیم کے مطابق کرتے ہیں مثلاً دنیا میں بعض مذاہب ایسے ہیں جو ہفتے میں ایک بار کسی معین وقت میں کسی خاص جگہ پر عبادت کر لینا کافی سمجھتے ہیں اور انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ اس طرح وہ حق جو اللہ تعالیٰ نے بطور ربّ اور خالق اور رحمن اور رحیم اور مالک کل ہونے کے ہم پر قائم کیا تھا وہ ہم نے ادا کر دیا ۔ بعض ایسے مذاہب ہیں جن کے لئے ہفتے میں ایک دن بھی کسی خاص جگہ جمع ہو کر عبادت کرنا ضروری نہیں قرار دیا گیا ۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض خیالوں خیالوں میں اللہ تعالیٰ کو یاد کر لینا کافی ہے َ پھر بندے پر اس کے ربّ کے تمام حقوق جو ہیں وہ ساقط ہو جاتے ہیں، ذمہ داریاں جو ہیں وہ ادا ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان آیات میں یہ فرمایا ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن ہو کر کروا ور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ فقرہ انسان پر عبادت سے تعلق رکھنے والی گیارہ ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔
اختصار کے ساتھ میں نے ان خطبات میں ان گیارہ ذمہ داریوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اب ’’دین‘‘ کے مختلف معانی کی رو سے اپنے ربّ سے محبت کرنے والے ایک بندے پر یہ فقرہ جو گیارہ ذمہ داریاں ڈالتا ہے وہ یہ ہیں کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہو۔ اسے واحدویگانہ یقین کرتے ہوئے اس کی عبادت اور پرستش کی جائے، کسی قسم کا شرک ظاہری یا باطنی، جلی یا خفی نہ ہو، نہ کسی کو عزت و احترام کا وہ مقام دیا جائے جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس رنگ میں کرو کہ اطاعت اور فرمانبرداری صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہو، غیر اللہ کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالو، اللہ تعالیٰ کے بندے بن کر اور اس بندگی میں ہر غیر سے آزاد ہو کر اپنی زندگیوں کے دن گزارو۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور جہاں بندوں کی اطاعت کرنی پڑے وہ بھی کسی غیر اللہ کے دبائو سے یا برے خیالات کے نتیجہ میں نہ ہو بلکہ احکام الٰہی کی روشنی میں ہو۔
حقیقی عبادت تیسری بات کا جو تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اخلاق اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے مطابق بنائے جائیں، کیونکہ دین کے معنے سیرت کے ہوتے ہیں۔ غیر اللہ کے اخلاق کا کوئی بدنما داغ اپنی سیرت کی نورانی چادر پر نہ لگنے دو۔ تمہاری زندگی میں جن اخلاق کا بھی مظاہرہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا پر تو اور عکس ہو، اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھانے کی کوشش کرو۔
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن میں عبادت صحیحہ کا جو چوتھا تقاضا بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سب تقویٰ اور زہد و تعبد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔ کیونکہ دین کے معنے ورع کے بھی ہوتے ہیں اور پانچویں ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اللہ تعالیٰ کے بندوں پر یہ ڈالتی ہے کہ جس جس حلقہ میں انہیں اختیار اور حکومت حاصل ہو، حکومت کے معنے صرف ملک کی حکومت کے نہیں ہوتے بلکہ خاندان کا ایک حاکم ہے اسے نبی اکرم ﷺ نے راعی قرار دیا ہے۔ ہر انسان کا ایک دائرہ اثر ہوتا ہے جس میں اس کی مرضی چلتی ہے۔ تو فرمایا جس جس دائرہ اثر میں تمہاری مرضی چلتی ہو تم یہ کوشش کرو کہ اس دائرہ اثر میں تمہاری مرضی نہ چلے بلکہ تمہارے اللہ کی مرضی چلے۔ ہوائے نفس کو یا اللہ کے غیر کو خوش کرنے کے لئے کوئی کام نہ کیا جائے کوئی حکم نہ دیا جائے کوئی ہدایت نہ ہو۔
دین کے چھٹے معنے میں نے یہ بتائے تھے کہ تمہاری عادات بھی ایسی ہوں کہ ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو ماحول کے بد اثرات بدعادات پیدا کر دیتے ہیں اس لئے ماحول کے بداثرات سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بچو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنے میں اچھی عادتیں پیدا کرو اور انہیں پختہ کرنے کی کوشش کرو۔
ساتواں حکم یہ ہے کہ جب تمہیں غلبہ مل جائے تو غلبہ اور طاقت کا استعمال احکام الٰہی کی روشنی میں ہو او رآٹھویں یہ کہ یہ زندگی تدابیر کا مجموعہ ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جنہیں ہم عادتاً کرتے ہیں اور ان کو تدبیر نہیں سمجھتے۔ گرمیوں کے دنوں میں یہ بھی ایک تدبیر ہے کہ ہم رات کو باہر پانی کا گھڑا رکھتے ہیں تا کہ ہمیں صبح نسبتاً ٹھنڈا پانی مل جائے۔ لیکن یہ ایسی عادت ہے کہ کسی سے بات کرو تو وہ کہے گا یہ بھی کوئی تدبیر ہے لیکن ہر کام جو ہم کرتے ہیں دراصل وہ تدبیر ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں ایک نتیجہ نکلتا ہے۔ مثلاً گھر والی صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کرتی ہے یہ بھی ایک تدبیر ہے تا کہ رات کے بھوکے معدے کو کچھ کھانے کو ملے۔ نبی کریم ﷺ کی عادت تھی کہ گھر میں گھر کے کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ اگر خاوند مثلاً برتن دھونے لگ جائے یا اگر انہوں نے کھانا اکٹھے کھانا ہے تو برتن لگائے یا کوئی اور کام کرے یہ بھی ایک تدبیر ہے اور یہ بھی ایک تدبیر ہے کہ کھانے کا ایک لقمہ بھی ضائع نہ ہو۔ کیونکہ کسی اور بھائی کا اس سے فائدہ ہو سکتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنی رکابی میں اتنا ہی ڈالو جو ختم کر سکو زیادہ نہ ڈالو۔ ہمارے ملک میں یہ بری رسم پیدا ہو گئی ہے کہ بہت سے لوگ جب مہمان ان کے ہاں آئیں وہ ان کی رکابیوں میں اپنی مرضی کے مطابق کھانا انڈیل دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے نتیجہ میں نبی اکرم ﷺ کے ایک ارشاد کی بے حرمتی ہو گی۔
دو سال ہوئے میں راولپنڈی گیا تھا تو وہاں ایک دوست کے ہاں سے دعوت کا کھانا آیا ۔ میں نے اپنی ضرورت کے مطابق کھانا ڈالا۔ ان کی ربۃ البیت باہر کھڑی غور سے دیکھ رہی تھیں کہ ہمارا پکاہوا کھانا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں یا پیٹ پھاڑ کر کھاتے ہیں۔ ان سے رہا نہ گیا وہ اندر آگئیں اور کہنے لگیں میں تو جٹی ہوں میں تو اپنی مرضی کی مقدار آپ کی رکابی میں ڈالوں گی۔ میں نے کہا اپنی مرضی پوری کرو کھانا تو میں نے اتنا ہی ہے جتنا میں نے کھانا ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں (وہ کھانا تو شاید ضائع نہیں ہو اہو گا انہوں نے محبت سے کھا لیا ہو گا) بعض دفعہ ضائع بھی ہو جاتا ہے۔
غرض نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جو تدبیر بھی تم کرو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔ اب پلیٹ میں کھانا ڈالنا یہ بھی ایک تدبیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اتنا ڈالنا جتنا آدمی کھالے۔ دوسروں کے دکھاوے کے لئے ڈالنا یا جتنے کی اسے بھوک ہے اس سے کم ڈالنا تا کہ لوگ سمجھیں کہ بڑا عبادت گزار ہے اور اسے کھانوں سے کوئی رغبت نہیں اور پھر جب علیحدگی میں گئے تو اپنا پیٹ بھر لیا۔ یہ خدا کی رضا کے لئے اپنی پلیٹ میں کھانا نہیں ڈالا بلکہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے کے لئے اور اس کی مخلوق کو دھوکہ میں رکھنے کے لئے تھوڑی سی غذا ڈالی گئی یا اپنی امارت کا مظاہرہ کرنے کے لئے مہمانوں کے سامنے ایک ایک قاب لاکر رکھ دیا۔ یا فی مہمان ایک دیگ پکوا دی یا ایک اونٹ ذبح کر دیا تو وہ تدبیر جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں۔ پس آٹھویں ذمہ داری ہم پر یہ ڈالی گئی ہے کہ جو تدبیر بھی تم کرو کسی چھوٹے مقصد کے لئے وہ تدبیر ہو یا کسی بڑے اہم مقصد کے لئے وہ تدبیر ہو، جو تدبیر بھی ہو اصل مقصد اس تدبیر سے یہ ہو کہ تمہارا ربّ تم سے خوش ہو جائے۔
نویں یہ کہ جب نفس کا اپنے دوسرے بھائیوں کا جن کی تربیت کی ذمہ داری تم پر ہے محاسبہ کرنے لگو تو وہ محاسبہ احکام باری جل شانہٗ کی روشنی میں ہو کسی تکبر یا غصہ یا نخوت یا حقارت کے نتیجہ میںنہ ہو۔ بعض لوگ مثلا بے دھڑک اپنے منہ سے نکال دیتے ہیں کہ فلاں علاقے کے لوگوں میں یہ یہ برائیاں ہیں۔ اب یہ بھی ایک محاسبہ ہے لیکن یہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے والا محاسبہ نہیں ہے ۔ نفس سے محاسبہ شروع ہوتا ہے اور خاموشی کے ساتھ اور احساسات اور جذبات کو لیس لگائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے بندوں کو ا سکے قریب لانے کے لئے انسان محاسبہ کرتا ہے۔
دسویں ذمہ داری حقیقی عبادت کی ہم پر یہ ڈالی گئی ہے کہ جب تم فیصلہ کرو تو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور احکام کے مطابق فیصلہ کرو۔ اور گیارہویں ذمہ داری یہ ڈالی گئی ہے کہ جب تم بدلہ دو یا جب تم بدلہ لینے کی امید رکھو، ہر دو صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور نبی اکرم ﷺ کی سنت ملحوظ ہو۔ بدلہ لینے کے متعلق میں نے بتایا تھا (یاد دہانی کرا دیتا ہوں) کہ مثلاً اپنے نفس کے علاوہ غیر کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق بدلہ لینے کا جو اصول بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تم نہ بدلے کی خواہش رکھو اور نہ یہ خواہش رکھو کہ وہ تمہارا مشکور ہو گا ۔ جب تم نے احسان کیا ہے تو اس کے بدلے میں احسان کی امید یا خواہش یا شکر گزار ہونے کی امید یا خواہش نہ رکھو۔
بہر حال میں نے اصولی طور پر دو تین باتیں بتائی تھیں ۔ یہ گیارہ ذمہ داریاں مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کی آیت کا ٹکڑا ہم پر ڈالتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تین ذمہ داریاں اس قسم کی ڈالیں جن کا ان گیارہ کی گیارہ ذمہ داریوں سے تعلق ہے اور دراصل ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نباہنے کے لئے وہ تین چیزیں بنیاد بنتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو نباہنے سے جو عمارت کھڑی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی محبت کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے فدائیت کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہر قسم کے ایثار کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے ظلم سہنے کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے ظلم کو معاف کرنے کی وغیرہ وغیرہ جتنے نیک اعمال ہیں ان سے ایک بنیاد قائم ہوتی ہے جو جنت میں گھر بنتا ہے وہ یہی گھر ہے نا جو ہم اس دنیا میں روحانی طور پر تیار کررہے ہوتے ہیں۔
اس کی بنیاد تین چیزوں پر قائم کی گئی ہے جن میں پہلے یہ ہے حُنَفَآئَ کہ یہ ذمہ داریاں جب تم نباہو ان میں ثبات قدم ہو، مستقل مزاجی ہو، تمہاری ساری کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے لئے گزرنے والی ہو۔ جب تم اس کی عبادت کرو تو یہ نہیں کہ چند دن عبادت کی اور چند دن چھٹی لی۔ روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو کام کئے جاتے ہیں ان میں رخصتیں نہیں ہوتیں۔ بلکہ ذمہ داری کے عائد ہونے کے دن سے گزر جانے کے دن تک وہ کام لگاتار اور باقاعدگی سے کرنا ہوتا ہے ۔ یہ نہیں کہ سکولوں کی رخصتوں کی طرح دس مہینے نماز پڑھی اور دو مہینے نماز سے چٹھی ہو گئی۔ نماز باجماعت تو پانچ وقت ہی سوائے اس جائز مجبوری کے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سختی سے بچانے کے لئے ہم پر رحم کرتے ہوئے سہولت دی ہے۔ اس کے علاوہ مسجد میں آکر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ سینکڑوں احکام الٰہی جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور ان کی ہزاروں فروعات جو نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور آپ کی سنت میں پائی جاتی ہیں۔ ان پر باقاعدگی کے ساتھ استقلال کے ساتھ عمل کرنا ضروری ہے حُنَفَآئَ ہونا چاہئے، ثبات قدم ہونا چاہئے۔ استقلال ہونا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر تو یہ شکل بنے گی کہ ہماری زندگی کے کچھ دن خدا کے لئے گزرے اور کچھ دن شیطان کے لئے گزرے ۔ لیکن ہمارا خدا یہ کہتا ہے کہ اگر تم سب کچھ مجھے دینا نہیں چاہتے تو میں تم سے کچھ بھی لینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ پھر سب کچھ ہی شیطان کی گود میں جا کر ڈال دو اور اس دنیا کی جہنم اور اس دنیا کی جہنم کے وارث بنو۔ لیکن اگر میرا بننا ہے تو میرے ہو کر ساری زندگی کے دن گزارنے ہوں گے۔ اگر تم آدھا مجھے اور آدھا میرے غیر کو دینا چاہو تو جو مجھے دو گے وہ بھی میں قبول نہیں کروں گا۔
پس فرمایا کہ عبادت اور اس کی ذمہ داریاں اور اس سلسلہ میں جو احکام بجا لانے ہیں ان میں ثبات قدم ہونا چاہئے استقلال ہونا چاہئے باقاعدگی ہونی چاہئے، اور بشاشت اور رضا ہونی چاہئے اس کے بغیر تو انسان کو ثبات قدم نہیں ملتا۔
اس سلسلہ میں دوسری چیز جو بنیاد ہے وہ ہے یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ اس میں دو چیزیں آگئی ہیں ۔ قر آن کریم نے صلوٰۃ اور زکوٰۃ کو مختلف معانی میں استعمال کیا ہے ۔ بعض جگہ تو ایک خاص عبادت جو ہم پانچ وقت فرائض کے طور پر کچھ سنتوں اور نوافل کے طور پر ادا کرتے ہیں اس کو صلوٰۃ کہا جاتا ہے اور زکوٰۃ اس مقررہ لازمی چندے کو کہا جاتا ہے جس کی تفاصیل قرآن اور احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان دو الفاظ کو بنیادی معانی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی ابتدا میں سورہ بقرہ کے شروع میں ہی ایک بڑا لطیف اصولی مضمون بیان ہوا ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد دنیا تین گروہوں میں منقسم ہو جائے گی ۔ (۱) ایمان لانے والے (۲)کھلم کھلا انکار کرنے والے اور (۳) منافقانہ راہوں کو اختیار کرنے والے۔ وہاں ساری باتیں جو بیان کی گئی ہیں وہ اصولی ہیں۔ وہاں بھی
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo لا الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo
(البقرہ:۳،۴(
میں یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَاور مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنجو دو فقرے استعمال ہوئے ہیں ان کی بجائے یہاں یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا لزَّکٰوۃَ کے دو فقرے ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں اور یہ دو چیزیں تمام اعمال صالحہ اور عبادات کی بنیاد ہیں۔
صَلٰوۃ سے مراد بنیادی دعا ہے جس کے کرنے کا حکم بطور فریضہ کے دیا گیا۔ ایک وہ دعا ہے جو ضرورت کے مطابق انسان کرتا ہے ۔ ہر فرد کی ضرورت مختلف ہوتی ہے ہر شخص کی ضرورت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے وہ حسب ضرورت اپنے ربّ سے مانگتا ہے اور اس کے فضل سے پاتا ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جوتے کا اگر ایک تسمہ بھی ٹوٹ جائے اور اس کی ضرورت ہو تو یہ نہ سمجھنا کہ زور بازو سے تم اسے حاصل کر سکو گے۔ بوٹ کا تسمہ بھی تم اپنے خدا سے مانگو۔ پس ایک تو یہ انفرادی دعا ہے جو انفرادی حالات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ لیکن ایک بنیادی دعا ہے یعنی عاجزانہ اپنے ربّ کے قدموں پر گر جانا جو بطور فریضہ کے قائم کی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۱) ایک معنی یہ بھی کئے ہیں کہ یہاں یہ حکم ہے کہ مجھ سے دعا کرو تو یہاں یہ فریضہ ہے اور آپ نے اس کی بڑی لطیف تفسیر بیان کی ہے ۔ یہاں دعا کو اس دعا کے معنوں میں استعمال کیا ہے جو فرض ہے اور پھر آگے اس کی قبولیت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ یہاں اور سورہ بقرہ کے شروع میں اور بعض دوسری جگہوں پر صلوۃ کا لفظ اس دعا کے معنوں میں آیا ہے جو فریضہ ہے ۔ ہر ایک شخص کے لئے کرنا ضروری ورنہ عبادت اور اس کے لوازمات پورے نہیں ہوتے اور انسان سچے طور پر اپنے ربّ کی عبادت نہیں کر سکتا۔ اور اس دعا کی ماہیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان کی ہے کہ چونکہ بندہ اپنے ربّ کی عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے انسانی فطرت میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے ربّ کی طرف جھکے ۔ لیکن اس کی فطرت میں کمزوری بھی ہے۔
پس اس دعا کی ماہیت یہ ہے کہ پہلے رحمان کی رحمانیت جوش میں آتی ہے اور اپنے بندہ کو وہ اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ پھر اس کو تھوڑے سے قرب کے حاصل ہو جانے کے بعد کچھ ہوش آجاتا ہے اور اس کی فطرت بیدار ہوتی ہے اور جاگ اٹھتی ہے۔ پھر بندے کی فطرت میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں خدا کا قرب حاصل کروں اور پھر بندہ اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے ۔ یعنی یہ دو کششیں ہیں، ایک اللہ کی کشش جو اس کی رحمت کے جوش سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور ایک بندے کی کشش جو اس کی فطرت کے بیدار ہونے کے بعد یا اس کی روحانی بلوغت کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور یہ دو کششیں مل کر بندے کو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص مقام قرب عطا کرتی ہیں۔ یہ خاص مقام قرب صرف انسان کو عطا ہوتا ہے دوسری چیزوں کو عطا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ قرب کی کئی قسمیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب تو ہر شے کو حاصل ہے۔ لیکن ایک قرب عام ہے ایک قرب خاص ہے۔ بندے کو قرب خاص عطا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے (پیچھے بندے کا ذکر ہے کہ ایسا انسان جو ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی رحمانیت جوش میں آتی ہے تو اس کی فطرت بیدار ہوتی ہے تو یہ حالت پیدا ہو جاتی ہے) اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے۔ ‘‘
(برکات الدعاء۔ روحانی خزائن جلد۶ صفحہ نمبر۱۰)
یہ ہے اس دعا کی ماہیت یعنی جب تک انسان کو یہ مقام حاصل نہ ہو وہ عبادت کا مفہوم ہی نہیں سمجھ سکتا۔ اس کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ تم عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہو عبادت کے یہ تقاضے ہیں عبادت تم پر یہ ذمہ داریاں ڈالتی ہے اس لئے پہلی شرط یہ ہے کہ تم پختہ عزم کرو کہ ہم ایک دفعہ صراط مستقیم کو حاصل کرنے کے بعد اس راہ سے نہیں بھٹکیں گے، بلکہ خواہ کچھ ہو جائے ثبات قدم دکھائیں گے۔ ساری دنیا کے پہاڑ مل کر ہم پر گرنے کی کوشش کریں اور ہمیں قیمے سے بھی باریک ذروں میں منتقل کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ یہ وعدہ بھی ہو کہ اگر تم اپنے ربّ سے تعلق توڑ دو تو تم اس فنا سے بچ سکتے ہو تو خدا کا بندہ کہے گا کہ نہیں مجھے اس جسم کی فانی زندگی منظور نہیں ۔ روحانی زندگی اور اس کی بقاء کا انحصار اس بات پر ہے کہ میرا اپنے ربّ سے تعلق قطع نہ ہو اور میں اس سے دوری کی راہ کو اختیار نہ کروں۔
پس جب یہ جذب پیدا ہو جاتا ہے اور انسان کی فطرت بیدار ہو جاتی ہے تو وہ اس کے نتیجہ میں کامل یقین ،کامل امید، کامل محبت، کامل وفاداری ، کامل ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ فنا کے میدانوں میں سے گزرتا ہے یعنی اس پر ایک فناوارد ہوتی ہے اور پھر جب وہ ان میدانوں کو عبور کر لیتا ہے تو کیا دیکھتاہے بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ یہ عبادت کا حق ادا ہو گیا نا، تب اس کی روح اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور پھر وہ سر اس آستانہ سے کبھی اٹھتا نہیں۔
پس حُنَفَآئَ کے بعد یہ بتایا کہ یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ چونکہ تم میری عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ اس لئے اس مفہوم میں دعا کو قائم کرو۔ تا کہ اس کے اوپر وہ عمارت کھڑی ہو سکے جو تمہاری جنت کی عمارت ہے اس قسم کی دعا کا کیا اثر ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے، وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے‘‘۔
(لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۲۲۳)
نماز ظل ہے اصل نہیں اصل یہ صلوٰۃ یہ دعا ہے جو فرض ہے۔ جس کی بنیاد پر صحیح اور سچی اور حقیقی عبادت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ پھر فرمایا:۔
’’ اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے۔ ‘‘
جب آستانہ الوہیت نظر آگیا، جب خدا تعالیٰ کا قرب ہمیں مل گیا، جب خدا تعالیٰ کے ساتھ جو حی و قیوم اور صفات حسنہ کا مالک اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور بقاء اس کی مرضی اور منشاء کے بغیر ممکن نہیں اور کسی فرد کو صرف اسی رنگ میں بقاء ملتی ہے جس رنگ میں وہ چاہتا ہے ۔ مثلاً ہمارے جسموں کو اس نے بقا نہیں دی فنا دی ۔ لیکن ہماری روح کو اس نے باقی رکھا اور جسم سے زیادہ انعامات کا اسے وارث بنایا تو اس دعا کی جو بنیادی حیثیت رکھنے والی ہے ایک خاصیت یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں انسانی روح خدا کے ہر حکم کو ماننے کے لئے مستعد رہتی ہے۔
اس دعا کی دوسری صفت یا دعا کے نتیجہ میں جو روح میں صفت پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی روح اس دعا کے نتیجہ میں اپنے ربّ کے حضور جھکتی ہے۔ چنانچہ آپ ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے۔ اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے‘‘۔
دنیا کے سارے رشتے اور تعلقات فی نفسہا اس انسان کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتے بلکہ اتنی اور اس حد تک اور اس وقت تک کوئی حقیقت ہے جتنی جس حد تک اور جس وقت تک خدا کہے کہ اس حقیقت کو اس تعلق کو قائم رکھنا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے انسان پر بڑی بھاری ذمہ داری ماں باپ کی خدمت کی، ان کی عزت و احترام کی، ان کی اطاعت کی اور ان کا کہا ماننے کی ڈالی ہے۔ لیکن ایک حد بھی مقرر کر دی ۔ اگر شرک کی بات کریں، خدا سے دوری کی بات کریں تو پھر ان کی بات نہیں ماننی۔ اس سے ورے ورے ان کی عزت کرنی ہے، ان کا حترام کرنا ہے ان کی اطاعت کرنی ہے، ادب سے پیش آنا ہے۔ انہیں اُف تک نہیں کہنا۔ ہر طرح ان کو آرام دینا ہے اور خوش رکھنے کی کوشش کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بے شمار ذمہ داریاں ہیں ۔ لیکن ساتھ یہ کہدیا کہ اگر شرک کی کوئی بات کریں، خدا سے دور لے جانے والی کوئی بات کریں تو پھر ان کی بات نہیں ماننی۔ تو ایسی روح تمام تعلقات توڑ دیتی ہے جو خدا کے سوا ہوں ۔ صرف ایک تعلق جو حقیقی تعلق ہے اس کا قائم ہو جاتا ہے اور اس تعلق کے نتیجہ میں پھر جس سے خدا جس حد تک تعلق قائم کرنے کو کہتا ہے بندہ وہ تعلق قائم کرتا ہے نہ اس سے زیادہ نہ کم۔ گویا ہر ماسوا اللہ حقیقت میں کچھ نہیں نہ کوئی عظمت اس کی، نہ کوئی جلال اس کا، نہ کوئی عزت اس کی، نہ کوئی احترام اس کا، نہ کوئی خوف اس کا، نہ کوئی ڈر اِس کا ، کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔
سب کچھ خدا کے لئے ہو گیا۔ خدا سے ایک رشتہ محبت قائم ہو گی۔ جس کے بعد کوئی اور رشتہ قائم نہ رہا۔جس کے بعد کسی اور رشتہ محبت کی ضرورت باقی نہ رہی۔ یہ دوسری صفت ہے جو اس قسم کی دعا میں پائی جانی چاہئے۔ جس کے نتیجہ میں اس روح میں بھی یہ حقیقت پیدا ہو جاتی ہے پھر آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’ اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے خیال بکلّی کھو دیتی ہے۔ اور اپنے نقش وجود کو مٹا دیتی ہے۔ یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے۔ ‘‘
دوم : تو یہ تھا کہ کوئی غیر جو ہے وہ باقی نہیں رہتا۔ اس کے ساتھ جو بھی رشتہ ہے وہ خدا میں ہو کر اس کے احکام کی روشنی میں قائم ہوتا ہے۔
تیسرا یہ ہے کہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رہتا۔ اپنا وجود بھی خدا کے سپرد ہو جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کا جو خلاصہ نکالا ہے وہ یہ ہے کہ اس اصلی اور بنیادی دعا کے لئے دو چیزوں کا تصور ضروری ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا تصور اس کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کا عرفان اور اس حقیقت کا احساس کہ یہ صفات کاملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں اور یہ کہ کوئی اور وجود اس کی صفات کاملہ کے کام میں کوئی روک نہیں پیدا کر سکتا۔ جب اس کی صفت کا جلوہ ہوتا ہے تو ہر شے جو اس کے مخالف ہوتی ہے وہ ہلاک کر دی جاتی ہے، فنا کر دی جاتی ہے۔
پس ایک تو یہ تصور اس روح میں قائم ہوتا ہے اور ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بڑی عظمت و جلال والا ہے اور وہ صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس کی یہ صفات حسنہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ اور کوئی اَور طاقت اور کوئی اَور صفت اور کوئی تدبیر اور حیلہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے مقابلہ میں کامیاب اور کارگر نہیں ہو سکتا۔
دوسرا تصور یہ ہے کہ میں کچھ نہیں ۔ یہ اپنی ذلت اور نیستی کا تصور ہے۔ دراصل عبودیت کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ جب تک انسان اس حقیقت پر نہ قائم ہو جائے کہ میں لاشے محض ہوں اور لاشے محض ہونے کے باوجود اس کو کام کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ غرض اپنی ذلت اور نیستی کے ساتھ ہی اس کو یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے گا (اور اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے) وہ تائید کرے گا (اور اس کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے) اور جب اس کی توفیق اور تائید و نصرت حاصل ہو جائے تو وہ وجود جو لاشے محض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے ایسے کاموں کی توفیق پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہیں۔
ان دو تصورات کے نتیجہ میں وہ حقیقی بنیادی دعا انسان کو حاصل ہو جاتی ہے جس میں تین خاصیتیں ہیں۔ یعنی جس کے نتیجہ میں دعا کرنے والے میں تین خاصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور جس کے نتیجہ میں اس محل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے جو محل روحانی طور پر اس دنیا میں جنت کا محل اور اُس دنیا میں جنت کا محل ہوتا ہے۔
پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میں اس نماز کا ذکر نہیں جو ابھی خطبہ کے بعد مثلاً جمعہ کی نماز پڑھیں گے یا پھر مغرب اور عشا۔ فجر اور ظہر اور عصر کی نماز ہر روز یہاں پڑھتے ہیں بلکہ اس بنیادی دعا کا تعلق تمام حقوق اللہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی حق بھی ادا نہیں ہو سکتا جو اس بنیاد کے اوپر کھڑا نہ ہو۔ کیونکہ انسان اگر اپنے کو بھی کچھ سمجھے تو وہ خدا کا حق کیسے ادا کر سکے گا۔ اگر وہ غیر اللہ کو کچھ سمجھے تو وہ خد اکا حق کیسے ادا کر سکے گا۔ پس یہ وہ بنیادی دعا ہے جو ہر مومن مسلمان پر فرض ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے وہ تعلق محبت پیدا ہو جاتا ہے جس تعلق محبت کو پیدا کرنے کے لئے انسان کی پیدائش ہوئی ہے اور وہ ان نعماء کا وارث ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندے کے لئے مقدر ہیں۔
سورہ بقرہ کے شروع میں بھی اسی معنے میں یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کا فقرہ استعمال کیا گیا ہے۔ غرض عبادت کی روح یہ دعا ہے اس کے بغیر ِبظاہر نظر آنے والی عبادت ایک مردہ لاشہ ہے، لیکن اگر اس عبادت میں دعا کی یہ روح پیدا ہو جائے تو پھر وہ زندہ ہے اور زندہ کا تعلق زندہ سے پیدا ہو سکتا ہے ۔ زندہ روح کا تعلق پھر زندہ خدا سے ہو جائے گا۔ پس حقوق اللہ کی ادائیگی میں روح عبادت یہ دعا ہے یہ صلوٰۃ ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔
عبادت کی کچھ ذمہ داریاں حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہیں ویسے تو زکوٰۃ کا سارے ہی حقوق کے ساتھ تعلق ہے ۔ لیکن نمایاں طور پر براہ راست اس کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ نظر آتا ہے۔ میں نے بڑا سوچا میرے نزدیک اس کا تعلق صرف حقوق العباد کے لئے ہی سمجھنا درست نہیں ہے ویسے زکوٰۃ روح خدمت ہے۔ اس دنیا میں حقوق انسانی کی ادائیگی اور نوع انسانی کی جو خدمت ہے اس کے ساتھ اس کا نمایان طور پر تعلق ہے۔ بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہے وہ خدمت سے کچھ مختلف ہے۔ محض خادم کا تعلق نہیں بلکہ فانی کا تعلق ہے۔ اس وجہ سے وہ چیز وہاں اتنی نمایاں نہیںہوتی، لیکن بہر حال وہاں بھی اس کا تعلق ہے۔
ایک دوسرے نقطہ نگاہ سے گیارہ کی گیارہ باتیں جن کا مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن میں ذکر ہے ان کی دوسری بنیاد زکٰوۃ ہے۔ یہ وہ زکوٰۃ نہیں جس کی شرائط پوری ہونے پر چالیسواں حصہ یا بعض لازمی چندوں کے دوسرے مقررہ حصے ادا کئے جاتے ہیں۔ زکوٰۃ کے مختلف معانی ہیں اور بعض آیات قرآنی میں تمام لغوی معنے چسپاں ہو جاتے ہیں اور وہاں ہمیں بڑی لطیف تفسیر ملتی ہے۔
اس معنی کی رو سے جو میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی حقیقت کا حامل ہے زکوٰۃ کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق تسلیم کیا جائے اور اسی کو مالک حقیقی سمجھا جائے اور خدا کا جو حق ہے اس کی آگے اس تقسیم میں جو اس نے اپنے کسی بندے کے سپرد کی ہے خدا کے قائم کردہ حق کے مطابق خرچ کیا جائے۔ پس زکوٰۃ کے معنے یہ ہوئے کہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ مثلاً ہر چیز جو میری ہے یا آپ میں سے کسی کی ہے حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اور مالک حقیقی کے حکم اور ارشاد کے مطابق اس تمام عطا کا مصرف ہونا چاہئے۔ جہاں وہ حق قائم کرے وہاں وہ حق ادا ہونا چاہئے۔ اسلام ایک حسین مذہب ہے اس نے صرف دوسروں کے حقوق کو ہی قائم نہیں کیا بلکہ خود ہر فرد واحد کے نفس کے حقوق کو بھی تسلیم کیا اور ان کی ادائیگی کا حکم دیا۔ اگر یہ حقوق قائم نہ کئے جاتے تو کسی کے اپنے نفس کا کوئی حق نہ بنتا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا
(بخاری کتاب الصوم باب مَنْ اَقْسَمَ عَلیٰ أَخِیہ لیفطر فی التطوع)
تیرے نفس کے بھی کچھ حقوق ہیں جو خدا تعالیٰ نے قائم کئے ہیں اور تیرا یہ فرض ہے کہ تو ان حقوق کو ادا کرے۔ ایک حق مثلاً نفس کا یہ ہے کہ اس کو متوازن غذا ملے کہ اس کی صحت قائم رہے اور اپنی زندگی میں وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکے۔ وہ یہ سمجھے کہ میری زندگی کا ہر سانس اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ یہ اسی کا ہے میرا کوئی حق نہیں کہ میں جس طرح چاہوں اپنی زندگی کے اوقات کو خرچ کروں۔ جب اسے نیند آتی ہے اور جسم تھک جاتا ہے تو جسم کہتا ہے میں نے سونا ہے ۔ اللہ کا بندہ اس وقت یہ سوچے گا کہ سونا کیوں؟ کیا خدا نے میرا یہ حق تسلیم کیا کہ اس دنیا میں تم تھک جائو گے اور تمہیں نیند کی ضرورت پڑے گی اس وقت نیند کی ضرورتوں کو ان شرائط کے ساتھ جو اسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کی ہیں پوری کر سکو گے۔ یہ تمہارا حق ہے یعنی چیز خدا کی تھی اس نے اپنی رحمت سے یہ حق عطا کیا اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو قرآن کریم کہتا ہے:
جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا (النباء:۱۰)
تمہاری نیند کو تمہارے لئے راحت کا باعث بنایا ہے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں کوئی حکمت ہونی چاہئے۔ یہ کہنے سے کہ ہم نے تمہاری نیند کو تمہارے لئے راحت کا باعث بنایا ہے اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
ایک حکمت یہ ہے کہ خدا یہ کہتا ہے کہ اگر میں تمہارا حق تسلیم نہ کرتا کہ تم اپنی زندگی کے کچھ لمحات راحت اور آرام اور اپنی طاقتوں کو زیادہ مضبوط بنانے اور پوری طاقت حاصل کرنے کے لئے نیند لو تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم سوتے۔ لیکن چونکہ تمہارے جسم کو میں نے اس طرح بنایا ہے کہ تمہارا دل اور تمہارا دماغ اور تمہارا جسم کوفت محسوس کرے گا اور چاہے گا کہ میں نیند لوں اس لئے ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ (بخاری کتاب الصوم) اور تیرے نفس کا ایک حق یہ ہے کہ جب وہ تھک جائے اور اس کو راحت اور آرام کی ضرورت پڑے تو وہ سو جائے ۔ پس ہماری زندگی کے سارے لمحات اللہ تعالیٰ کے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے سونے کا حق پیدا کیا اور ہمیں اجازت دی کہ سو جائو ورنہ خداکا مومن بندہ مر جاتا مگر اونگھتا نہ، اس کو دوسری طرف یہ بھی تو حکم تھا نا ! کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ اور وہ خدا تعالیٰ کی سنت دیکھتا کہ لَاتَأْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَانَوْمٌ (البقرہ:۲۵۶)
اور کہتا کہ میںبھی نہیں سوئوں گا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا پھر تو اپنی اس زندگی کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ تیرے قوٰی آہستہ آہستہ کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔ حالانکہ تیری ذمہ داریاں تو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ تو انہیں کیسے نباہے گا۔ پس نیند کا یہ حق قائم کر دیا اور جہاں یہ ذکر ہے کہ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں یا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسلیم کرتے اور ہر چیز کا مصرف اور خرچ خدا کی ہدایت کے مطابق ہو تو صحیح سمجھتے ہیں ورنہ ہمارا اپنا کوئی حق نہیں۔
ہمارے ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ بڑے قیمتی جبے پہنا کرتے تھے کسی نے اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو مونہہ میں ایک لقمہ بھی نہیں ڈالتا جب تک میرا خدا نہ مجھے کہے کہ تو یہ لقمہ منہ میں ڈال اور کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے یہ نہ کہے کہ یہ قیمتی لباس پہن۔
دراصل اللہ تعالیٰ ہر بندہ سے اسی طرح مخاطب ہوتا ہے کسی سے اپنے مکالمہ سے مخاطب ہوتا ہے ان قائم کردہ حقوق کو دہرانے سے جو قرآن اور نبی اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث میں قائم ہو چکے ہیں اور کسی کے لئے وہ دہراتا نہیں لیکن مقررہ حقوق اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمسائے کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، اقرباء کے حقوق، اہل محلہ کے حقوق، بنی نوع انسان کے حقوق غرض ہر ایک کے حقوق قائم کر دئیے ہیں اور یہ کہا کہ تیرا یہ حق نہیں ہے کہ تو اپنے طور پر کسی کے حقوق قائم کرے۔ تو اپنا حق بھی قائم نہیں کر سکتا۔ جب تک وہ ہماری طرف سے قائم نہ ہو۔ یہ ہیں زکوٰۃ کے معنی، یعنی ہر چیز کو خدا کا سمجھ کر، ہر حق اسی کا تسلیم کرتے ہوئے ہر شے خدائی عطا سمجھتے ہوئے جتنی چیز جس جگہ خرچ کرنے کا حکم ہو اور جس قدر اپنے نفس کا یا کسی اور کا حق اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہو اس کے مطابق خرچ کرنا یہ زکوٰۃ ہے اور یہ بنیادی چیز ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے اس کا تعلق نمایاں طور پر حقوق العباد سے ہے، لیکن ایک حد تک عبادت کے ہر تقاضے سے اس کا تعلق ہے۔
پس فرمایا کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ تم خدائے واحد کی عبادت کرو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن ہو کر یعنی ان تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں ۔ پھر یہ نہیں کہ چند دن ان تقاضوں کو پورا کرو اور پھر چھوڑ دو۔ بلکہ حَنَفَآئً یعنی ثبات قدم ہونا چاہئے۔ اگر تم میرے فضلوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہارا انجام بخیر ہو توتمہیں ثابت قدم رہنا پڑے گا۔
دوسرے یہ کہ جو روح عبادت ہے اسے زندہ رکھنا پڑے گا اور تم یہ نہیں کر سکتے۔ پس دعا کرنی پڑے گی کہ اے خدا! ہماری روح عبادت کو زندہ رکھ۔ اور زندہ رکھنے کی ہمیں توفیق عطا کر۔
پس دو تصور اپنے ذہن میں لائو ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بڑی عظمت اور جلال والا ہے اور وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس کی تمام صفات حسنہ ہر وقت کام کر رہی ہیں۔ کسی وقت بھی معطل نہیں ہوتیں اور خدا تعالیٰ کی جو صفات کام کر رہی ہیں ان کے خلاف جو کوشش اور سعی ہو گی وہ ناکام ہو جائے گی اور دوسرے یہ تصور کہ میں ذلیل تر اور محض لاشے ہوں جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید حاصل نہ ہو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ دو تصور اس روح کو بیدار کرتے ہیں اور زندہ رکھتے ہیں اور جب یہ تصور روح کو زندہ کر دیتے ہیں تو اس وقت تین خاصیتیں ایسی روح میں پیدا ہو جاتی ہیں اور ان خاصیتوں کے پیدا ہونے کے بعد ہی دراصل اس عمارت کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس کا تعلق عبادت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ ہے۔
دوسرے فرمایا کہ خالی اس قسم کی دعا نہیں بلکہ یہ بھی تسلیم کرو کہ تمہیں جو بھی میسر آیا ہے۔ جو بھی ملا ہے مثلاً تمہاری قوت تمہاری استعدادیں، تمہارا علم، تمہاری طاقت، تمہارا جتھہ، تمہارے خاندان اور تمہارا اثر و رسوخ وغیرہ اور تم جس علاقے میں ہو وہاں کی Mineral Resources یا دوسرے بہت سے اموال جو مختلف ملکوں یا خطوں میں زراعت یا معدنیات وغیرہ کے نتیجہ میں ملتے ہیں حتی کہ تمہاری زندگی کے سب لمحات یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ فرد واحد بھی اس کا مخاطب ہے اور قومیں بھی اس کی مخاطب ہیں اور چونکہ یہ سب کچھ اللہ کا ہے، ان کی تقسیم، ان کا مصرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ حقوق کی روشنی میں ہونا چاہئے ۔ چونکہ ہم تمہیں سونے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس لئے سو لیا کرو اور آرام اور راحت حاصل کیا کرو۔ تا کہ تم اگلے دن تازہ دم ہو کر اپنے کام میں لگو۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑا حق نفس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جو قوتیں اور استعدادیں دی ہیں وہ اپنے دوسرے وسائل اور عطایا اس طرح خرچ کرے کہ یہ قوتیں اور استعدادیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور فضل کے نتیجہ میں اپنے کمال تک پہنچ جائیں تا کہ انسانی پیدائش کا مقصد پورا ہو۔ ایک مقصد ہے اصولی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا۔ ایک مقصد ہے انفرادی، جو فرد فرد سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ تمام نفوس جو پیدا کئے گئے وہ قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے مثلاً محمد رسول اللہ ﷺ کے برابر تو نہیں ۔ ہر ایک نے اپنی قوت اور استعداد کے مطابق جسمانی اور دنیوی، روحانی اور اخروی مسرتوں اور رفعتوں کے حصول کی کوشش کرنی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ حقوق قائم کئے اور ہمارے جسم کی بھلائی کے لئے،ہمارے نفس کی بھلائی کے لئے، دنیوی ترقی اور روحانی ترقیات کے لئے ہمیں ہزاروں تعلیمات دی ہیں اور کہا ہے کہ یہ تمہارا حق ہے اگر انسان سوچے اور خدا کا شکر گزار بندہ بنے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں تمہیں صرف مصیبتوں میں ڈال کر امتحان لینا چاہتا ہوں،بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تمہارے حقوق بھی قائم کرتا ہوں تا کہ تم ترقی کرو ۔ یعنی حقوق ملیں اور اس کا فائدہ بھی تمہیں حاصل ہو یعنی حق کے ملنے کا وقتی فائدہ بھی اور حق ملنے سے جو شاندار نتیجہ نکلا اس سے ابدی فائدہ بھی حاصل ہو اور یہ کہا کہ تمہارے حق کو قائم کرتا ہوں اور قائم کرنے کے دو فائدہ ہوئے ایک تو یہ کہ انسان کے دل سے یہ خوف نکل گیا کہ خدا کی ساری چیزیں ہیں میں کیوں استعمال کروں۔ کیوں کھائوں، میں کیوں پہنوں، میں کیوں مکان بنا کر دھوپ اور بارش سے اپنی حفاظت کروں، خدا تعالیٰ نے کہا میں تمہارے ان حقوق کو تسلیم کرتا ہوں، تم ان کو پورا کرو، دوسرے بنیادی طور پر یہ فائدہ ہوا کہ کسی اور کو یہ حق نہیں پہنچا کہ دخل اندازی کرے یا اعتراض کرے کہ تم کھاتے کیوں ہو، تم پیتے کیوں ہو، تم اس مکان میں رہتے کیوں ہو، جیساکہ کسی نے اس بزرگ پر اعتراض کیا تھا تو انہوں نے کہا مجھے خدا کہتا ہے میں کھاتا ہوں، پس حق قائم ہو گیا دنیا کا اعتراض دور ہو گیا۔ انسانی نشوونما اور انتہائی ترقی اور کمال تک پہنچنے کا دروازہ کھل گیا پھر دوسروں کے حقوق بھی قائم کئے ایک حسین معاشرہ قائم ہو گیا۔ ایک ایسا معاشرہ کہ اگر وہ واقعہ میں قائم ہو جائے جیسا کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے بعد کے زمانہ میں تقریباً تین سو سال تک قائم رہا تو دنیا میں ایک ایسا عظیم انقلاب بپا ہو جائے کہ روس کا انقلاب اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہ رکھے۔ اتنی حیثیت بھی نہ رکھے جتنی ہاتھی کے مقابلہ میں ایک مکھی کی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، اگر تم میری عبادت اور اس کے لوازمات کو پورا رکرو گے، اس کے حقوق کو ادا کرو گے، تو اس کے نتیجہ میں تم ایک ایسی قوم بن جائو گے ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ جس کے اوپر کوئی ضعف اور تنزل نہیں آئے گا۔ ہلاکت اور فنا نہیں آئے گی اگر تم ان احکام پر عمل کرو جو ان دو چھوٹی سی مختصر آیات میں بیان ہوئے ہیں تو ایک قائم رہنے والی اور دنیا کے مربی اور استاد بننے والی قوم بن جائے گی۔
اگر ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریںتو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نبی کریم ﷺ نے آپ کی پاک صحبت میں اور بعد میں آنے والوں نے دو صدیوں تک (یعنی پہلی صدی کے بعد آنے والی دو صدیوں میں) آپ کی قوت قدسیہ اور آپ کے صحابہ سے فیض حاصل کرنے کے بعد ثابت قدمی کا سبق بھی سیکھا۔ انہوں نے روح عبادت کو بھی حاصل کیا۔ انہوں نے زکوٰۃ یعنی روح خدمت کو بھی پایا اور اس طرح پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ان تمام حقوق کو ادا کیا اور اس رنگ میں ادا کیا جس رنگ میں کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ ان حقوق کو ادا کریں خواہ وہ حقوق ان کے نفسوں سے تعلق رکھتے تھے خواہ وہ حقوق ان کے بیوی بچوں سے تعلق رکھتے تھے۔ خواہ وہ حقوق ان کے والدین اور اقرباء سے تعلق رکھتے تھے، خواہ وہ حقوق ان کے ہمسایوں یا اہل محلہ یا شہر میں بسنے والوں سے تعلق رکھتے تھے یا ان کی دنیا میں بسنے والوں سے تعلق رکھتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا کے محسن بنے ،دنیا کے مربی بنے ،دنیا کے استاد بنے ،خدا کا قرب پانے والے اور اس کے حصول کی راہیں دکھانے والے بنے، قرب کے حصول کے سامان پیدا کرنے والے بنے ،چنانچہ متعصب دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ واقعہ میں وہ دنیا کے محسن اعظم تھے۔
سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ کیوں اور کیسے ایسے بنے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس لئے بنے کہ میں نے قرآن کریم میں جو ہدایتیں دی تھیں ان پر انہوں نے عمل کیا ۔ تکبر اور خودستائی، خود رائی اور خود نمائی ان میں نہیں تھی انہوں نے خدا میں ہو کر ایک نئی زندگی پائی تھی۔ کیونکہ اپنے اوپر انہوں نے ایک موت وارد کر لی تھی۔ وہ اس حقیقت پر قائم ہو چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے بغیر اس دنیا میں بھی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی اور وہ اس حقیقت کو بھی پہنچانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے جو حقوق اس دنیا میں قائم کئے ہیں اگر کوئی قوم ان حقوق کی ادائیگی میں سستی اور غفلت سے کام لے تو کبھی کامیاب نہیں رہ سکتی۔ چونکہ انہوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا وہ اس انعام کے وارث بنے اور یہ بڑا زبردست انعام ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے کہ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ یہ قائم رہنے والی جماعت، یہ تنزل کے طوفانوں سے محفوظ رہنے والی جماعت کا دین ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے جو دین کے ثبات قدم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی بنیادوں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اس کے حکموں کو سمجھنے لگیں اور اس کی عبادت اس رنگ میں کریں جس رنگ میں وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس کے سچے اور پکے اور کامل اور حقیقی بندے بن جائیں اور ہمارا اپنا کچھ بھی باقی نہ رہے ہم اس کی خاطر، اسی کے حکم سے، اس میں محو ہو کر فنا اور موت کو اپنے اوپر وارد کریں اور اس سے ایک نئی زندگی جو پیار کی زندگی، جو محبت کی زندگی، جو احسان کی زندگی ہو اسے حاصل کریں اور خدا کرے کہ زکوٰۃ کے ادا کرنے میں جو بنیادی تعلیم ہمیں دی گئی ہے کہ ہر شے کا مالک اللہ ہے اور اس کا انفاق اور خرچ اور اس کے حکم اور حق کے قیام کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اس حقیقت کو ہم سمجھنے لگیں اور اس کے نتیجہ میں ہر اس شخص کو جس کا حق خدا نے قائم کیا ہے ہم اس کا حق ادا کرنے لگیں تا کوئی کدورت، کوئی بے چینی ، کوئی نفرت کوئی بغاوت، اس دنیامیں قائم نہ رہے اور سب ایک برادری کی حیثیت میں اپنے ربّ کے قدموں میں اکٹھے ہو جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے والے ہوں اور یہ دنیا بھی ہمارے لئے جنت بنے اور اس دنیا کے بعد کی جو زندگی ہے اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ جنت کے سامان پیدا کرے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۹؍جولائی۱۹۶۹ء صفحہ ۲تا۹ )
٭…٭…٭

مجالس خدام الاحمدیہ روحِ خدمت اور انصار اللہ روحِ تربیت کے ماتحت اپنے پروگراموں کی طرف متوجہ ہوں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍مئی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ نماز باجماعت ادا کرنا اسلامی عبادت کی روح سے تعلق رکھتا ہے۔
٭ روحانی سستی ربوہ میں ہو یا باہر برداشت نہیں کی جا سکتی۔
٭ اہلِ ربوہ کو چوکس اور بیدار ہونا چاہئے۔
٭ ربوہ کے متعلق نظارت امور عامہ اور اصلاح و ارشاد سے رپورٹ آنی چاہئے۔
٭ ربوہ میں قادیان کی طرح محبتِ الٰہی کا وہ رنگ پوری طرح نظر نہیں آتا۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
جو مضمون میں نے اپنے گزشتہ چند خطبات میں شروع کیا تھا اس مضمون سے ہٹ کر آج میں بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ اگلے جمعہ سے اس تسلسل میں میرے خطبات شروع ہو جائیں گے۔
پہلی بات آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اہل ربوہ کا ایک حصہ مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنے میں پھر سست ہو گیا ہے۔ نماز باجماعت ادا کرنا اسلامی عبادت کی روح سے تعلق رکھتا ہے اور عبادت کی روح مختلف شکلوں میں اس دنیا میں قائم کی گئی ہے۔ نماز (جس طرح ہم مساجد میں ادا کرتے ہیں) میں روحِ عبادت کی ایک ظاہری شکل ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ قانون بنایا ہے کہ نہ روح جسم کے بغیر کام کر سکتی ہے اور نہ جسم میں روح کے بغیر زندگی کے آثار پائے جا سکتے ہیں۔ اس لئے اسلام نے ہمیں آئندہ کے متعلق جو خبریں دی ہیں ان میں یہ بھی بتایا ہے کہ اس جسم سے جدا ہونے کے بعد ہماری روح کو دو جسم دو مختلف اوقات میں عطا کئے جاتے ہیں۔ ایک جسم تو عارضی برزخ کے زمانہ کا جسم ہے یعنی روحِ انسانی کو عارضی طور پر اس زمانہ میں اس نئے جسم میں رکھا جاتا ہے اور جس دن حشر ہوگا قیامت آئے گی انسانی روح کو وہ جسم عطا کیا جائے گا جس کے نتیجہ میں اور جس کی وجہ سے ہماری روح اور ہماری زندگی اس دنیا میں وہ تمام احساسات رکھے گی جو اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ان لذتوں اور سرور (اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر کی آگ) کا احساس بھی رکھے گی جن کا تعلق اس زندگی کے ساتھ ہے۔ جس طرح اس جسم اور روح کا آپس میں تعلق ہے اسی طرح ہماری عبادتوں کے ان حصوں کا جو حقوق اللہ کہلاتے ہیں اور ہماری عبادتوں کے ان حصوں کا بھی جو حقوق العباد کہلاتے ہیںایک روح اور جسم سے تعلق ہے۔
جب قومیں گرتی ہیں تو وہ چھلکے پر ہاتھ مارتی اور اس پر خوش ہو جاتی ہیں یعنی ظاہری شکل انہیں خوش کرنے لگتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں روح بیچ میں سے غائب ہو جاتی ہے۔ وہ چھلکا مغز سے خالی ہوتا ہے اور ایک سست اور بے عمل فلسفی سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس کو کافی سمجھتا ہے۔ یعنی ایک فلسفیانہ دماغ بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ روح کافی ہے جسم کی ضرورت نہیں لیکن یہ اس سنّت کے خلاف ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جاری کی ہے۔ جسم کاہونا بھی ضروری ہے اور روح کا ہونابھی ضروری ہے اور جب تک یہ دونوں چیزیں جمع نہ ہوں اس وقت تک نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جس کے اس ضمن میں یہ معنی ہوںگے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیںہو سکتا اگر محض یہ خیال ہو کہ روحِ عبادت قائم رکھنی چاہئے جسم کی ضرورت نہیں یا ظاہر کی پابندی کی جائے اور اس کے پیچھے روح نہ ہو تو ان ہر دو صورتوں میں یہ خدا کی نگاہ میں ایک لغو فعل ہوگا۔
پس یہ نماز جو ہم مساجد میں جمع ہو کر اداکرتے ہیں۔ یہ اسی صلوٰۃ کی ظاہری شکل اور اس روحِ عبادت کا جسم ہے جو روح عبادت کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ پس جہاں ہمیں روح کی ضرورت ہے وہاں جسم اور ظاہری شکل کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر میرے نزدیک روح کی موجودگی کا دعویٰ باطل ہوگا۔
ایک زندہ جماعت اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی طرف منسوب ہونے والے صرف دعویٰ کے طور پر اور لفظاً اس کی طرف منسوب ہوں مگر حقیقتاً وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی جماعت اور اُمت مسلمہ سے کئے ہیں اور جن کا پورا کرنا ضروری ہے یہ روحانی سستی ربوہ میں ہو یا باہر کی جماعتوں میں برداشت نہیں کرنی چاہئے جب بھی ہمیں کسی جگہ ذرا سی سستی بھی نظر آئے ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ سارے محلہ کو اور سارے احمدیوں کو چوکس اور بیدار ہو کر اس سستی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
خدا کا فضل ہے کہ جماعت کا بڑا حصہ روح اخلاص رکھتا ہے لیکن بشری کمزوریوں کی وجہ سے وہ اس بات کا بھی محتاج ہے کہ اسے بار بار یاددہانی کرائی جائے۔ الٰہی سلسلوں میں بعض منافق بھی ہوتے ہیں ان میں سے بہتوں کو تو اللہ تعالیٰ ہدایت بھی دے دیتا ہے اور بعض بدقسمت اسی نفاق کی حالت میں اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہدایت کی کوشش کرتے رہیں اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی اپنے فضل کو پہچاننے کی توفیق دے اور اس فضل کے حصول کے لئے ان کے اندر ایک جنون پیدا کرے تا وہ اپنی ہر چیز کو قربان کر کے خداتعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والے ہوں۔ پس یہ درست ہے کہ جماعت میں بعض منافق بھی موجود ہیں جن کی ہدایت کیلئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے لیکن جماعت کے اکثر افراد ہر لحاظ سے اچھے ہیں اعتقاد کے لحاظ سے بھی اور عمل کے لحاظ سے بھی۔ وہ نمازوں سے بھی محبت اور پیار رکھتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے گھر میں اٹکے رہتے ہیں گو اخلاص میں کمی نہیں لیکن ایک حصہ جماعت کا سست ہے۔ زندگی میں انسان کو ایک عظیم جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اسی حصہ جماعت کے افراد اپنی اس جدوجہد اور اس مجاہدہ کے ابتدائی دور میںہوتے ہیں ان کو اپنے بھائیوں کے سہارے اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت تھی تبھی تو خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِّرِ وَالتَّقْوٰی اگر کسی انسان کو اپنے بھائی کے سہارے، تعاون اور مدد کی ضرورت نہ ہوتی تو اس حکم کی بھی ضرورت نہ تھی۔ یہ حکم ہمیں بتا رہا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں روحانی ارتقاء کے مدارج طے کرتے ہوئے دوسروں کے سہاروں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے اور یہ سہارا دینا آپ کا فرض ہے۔ اس کے بغیر سست فرد کی سستی دُور نہیں ہو سکتی۔ اس کے بغیر غافل غفلت کے پردوں کو چیر کر نورانی فضا میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پس اپنے کمزور بھائیوں کو سہارا دیا کریں۔
پچھلے دنوں مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے ایک محلہ کے دکاندار نماز باجماعت کی ادائیگی میں سستی دکھاتے ہیں تو میں نے انہیں بُلا کر اس طرف توجہ دلائی اور بعد میں رپورٹیں آنے لگ گئیں کہ اذان ہونے کے بعد فوراً دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور دکاندار مسجد میں چلے جاتے ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا ان میں پھر سستی پیدا ہوگئی ہے اور انہیں دوبارہ یاددہانی کرانے کی ضرورت پڑی ہے یا بعض نوجوان طالب علم ہیں جن کے متعلق یہ شکایت پیدا ہوئی ہے نوجوانوں کو سہارا کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جس طرح ایک چھوٹا بچہ جب اپنی جسمانی نشوونما میں چلنے کے مرحلہ پر پہنچتا ہے تو شروع میں اس کی انگلی پکڑنی پڑتی ہے وہ بار بار گرتا ہے اور بار بار اسے سنبھالنا پڑتا ہے۔ اسی طرح روحانی ارتقا میں بھی نوجوان (اور بعض دفعہ بڑی عمر کے لوگ بھی) ایک ایسے مقام سے گزرتے ہیں کہ انہیں زیادہ سہارا کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس مقام سے گزرنے کے بعد وہ روحانی راستہ پر چھلانگیں مارتے ہوئے آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن ایک وقت ان کی زندگی میں ایسا بھی آتا ہے کہ ان کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی انگلی ہمیں پکڑنی پڑتی ہے اس کے بغیر وہ روحانی میدانوں میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔
اہل ربوہ کو ایسے موقعوں پر فوراً چوکنا اور بیدار ہو جانا چاہئے اگر مساجد میں آبادی کم نظر آئے تو اس کی وجہ کا علم ہونا چاہئے اور اس نقص کو دُور کرنا چاہئے۔ ایک نقص یہ بھی ہے کہ ذمہ دار افسر سمجھتے ہیں کہ دو چار ہفتے رپورٹ دے دینا کافی ہے اور اس کے بعد وہ رپورٹ دینا بند کر دیتے ہیں۔ ہمارے مقامی انتظام میں جو منتظم ہیں اور صدر عمومی کہلاتے ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر دو ہفتہ بعد صدرصاحبان کے مشورہ سے ایک رپورٹ دیا کریں کہ کہاں سستی ہے اور کہاں چستی ہے۔ مجھے بہرحال اطلاع ملنی چاہئے کہ ربوہ کے مکین دینی کاموں میں کس رفتار کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں کیونکہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اور یہ بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔
اس پندرہ روزہ رپورٹ کے علاوہ ربوہ سے متعلق ایک رپورٹ نظارت امور عامہ کی طرف سے آنی چاہئے ایک رپورٹ نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے آنی چاہئے اور یہ رپورٹیں دونوں نظارتوں کے اپنے اپنے کاموں کے لحاظ سے ہوں۔ مثلاً نظارت اُمورِ عامہ کی طرف سے یہ رپورٹ آنی چاہئے یا یوں کہیں کہ ان کی رپورٹ میں یہ بھی ہونا چاہئے کہ اس مہینہ میں کتنے لوگ ایسے ربوہ میں رہائش پذیر ہوئے ہیں جن کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں۔ پھر ایسے جو لوگ پہلے سے یہاں رہتے ہیں ان کا کوئی کام ایسا تو نہیں جو ہماری روحانی و اخلاقی فضا کو خراب کرنے والا ہو۔ ایسے بہت سے خاندان ہیں جو گو جماعت میں شامل نہیں لیکن ہم سے بہت تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ہم سے دُنیوی تعلقات ہیں ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے بچہ کو چیفس کالج میں بھی داخل کر سکتے ہیں لیکن وہ یہاں آ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو ہمارے سکو ل اور کالج میں داخل کراتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کو رہائش کے لئے مکان بھی کرایہ پر لینا پڑتا ہے۔ ان کا جماعت کے دوستوں کے ساتھ ظاہری اور دنیا دارانہ تعلق بڑااچھا ہوتا ہے اور جماعتی تنظیم کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن ان کی اور خصوصاً ان کے نوکروں کی تربیت اس تربیت سے مختلف ہوتی ہے جو عام طور پر ایک احمدی کی ہوتی ہے۔ پھر جماعت میں بھی نئے آدمی داخل ہوتے ہیں اور ان کی تربیت پر ایک وقت لگتا ہے گو ایسے دوستوں کے احمدی ہونے پر ۵۔۶ مہینے بھی گزر جائیں تو ان کی ذہنیت بڑی حد تک بدل جاتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرتا ہے لیکن پھر بھی ان لوگوں کی تربیت ایسی نہیں ہوتی جو ایک پُرانے تربیت یافتہ احمدی کی ہوتی ہے پھر وہ جان بوجھ کر نہیں اپنی عادت سے مجبور ہو کر اور عدمِ تربیت کے نتیجہ میں بہت سی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جنہیں ہم پسند نہیں کرتے اور جن کے نتیجہ میں ربوہ کی بااخلاق فضا پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔
یہ درست ہے کہ جماعت سے باہر کے خاندانوں کے تعلقات ہمیں اچھے لگتے ہیں اور دنیوی لحاظ سے جتنا ان کو ہم سے تعلق ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارا ان کے ساتھ تعلق ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت میں رخنہ پڑے جو احمدیت اور احمدیت کی تربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے یعنی اچھا امن پسند شہری ہونا اور مہذب اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا مسلمان ہونا ہمیں ہر وقت چوکس رہ کر ان چیزوں کو اپنی نظر کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہماری فضا مکدر ہو جاتی ہے۔ ربوہ کے متعلق نظارت امور عامہ کی رپورٹ مستقل حیثیت میں آنی چاہئے اور آپس میں مشورہ کر کے نہیں آنی چاہئے تا کہ میں کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکوں اگر آپس میں تضاد ہو تو پھر میں تحقیق کے ذریعہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہوں۔
ہم نے اس شہر کو قادیان کی یاد میں آباد کیا ہے اور قادیان میں باوجود اس کے کہ وہاں ہندو، سکھ اور دہریہ وغیرہ لوگ بھی رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے وہاں ایک خاص رنگ جماعتی ماحول میں پیدا کر دیا تھا۔ یہاں نہ ہندو ہیں اور نہ سکھ ہمارے رستہ میں کوئی روک نہیں لیکن پھر بھی محبتِ الٰہی کا وہ رنگ پوری طرح ہمیں نظر نہیں آتا جو قادیان میں نظر آتا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے (اور یہ بڑی نمایاں وجہ ہے) کہ اس عرصہ میں ہزاروں کی تعداد میں جماعت میں نئے دوست شامل ہوئے ہیں۔ ان کے بچے ہمارے نقطہ نگاہ سے زیادہ تربیت یافتہ نہ تھے۔ ان کے دل میں تربیت حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور وہ ربوہ میں آبا ہوگئے اور انہوں نے بچوں کو یہاں سکولوں میں داخل کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض بچے ہمارے ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ بعض دفعہ یوں ہوتا ہے کہ دیہات سے چار، پانچ بچے آ جائیں تو جس محلہ میں وہ رہیں وہاں سے شکایتیں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ بچے گالیاں دیتے ہیں۔ باہر سے جو آدمی آئے اسے پس منظر کا پتہ نہیں ہوتا اس لئے وہ کہہ دیتا ہے کہ ربوہ میں تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ میں فلاں جگہ سے گزر رہا تھا میں نے دیکھا دو تین بچے ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے۔ اس کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ دو تین بچے ایسے نئے احمدی خاندانوں کے بچے ہیں جو ابھی مہینہ دو مہینہ ہوئے یہاں آباد ہوئے تھے لیکن صرف یہ کہہ دینا موجب تسلی نہیں کیونکہ اگر ہم نے ان کی تربیت نہ کی تو دو چار مہینے کے بعد وہ ہماری فضا کو خراب کر دیں گے اور یہاں کے رہنے والے بچوں کو بھی انہیں دیکھ کرگندی گالیاں دینے کی عادت پڑ جائے گی اور بجائے اس کے کہ وہ یہاں آ کر تربیت حاصل کریں وہ ہمارے دوسرے بچوں کی تربیت بھی خراب کر دیں گے اس لئے ہمیں ہر وقت چوکنا اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
پھر نظارت اصلاح و ارشاد کا تربیت کا کام ہے ان کی طرف سے بھی رپورٹ آنی چاہئے کہ اہل ربوہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان فرمودہ تفسیر اور دوسرا اسلامی لٹریچر پڑھنے اور خطبات سننے کی طرف متوجہ ہیں جہاں تک خطبات کا سوال ہے آج بھی اگر آپ مردم شماری کریں تو ایک حصہ افراد جماعت کا اس وقت یہاں موجود نہیں گو ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ ان کا عذر جائز ہے اور ان پر کوئی الزام نہیں آتا مگر بعض ایسے بھی ہیں جو محض سستی کی وجہ سے جمعہ کے لئے نہیں آئے ورنہ وہ آ سکتے تھے اور جن کے کانوں میں خلیفہ وقت کی آواز نہیں پہنچتی یا کم پہنچتی ہے وہ تربیتی اُمور کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو سکتے۔ ہمارا کام ہے کہ کوشش کریں تا وہ لوگ جو خطبات سننے سے محروم ہو جاتے ہیں وہ بھی خطبات سن لیا کریں۔
بہرحال ساری تفصیل کے بعد آج میں جس چیز کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور جس پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نماز باجماعت میں باقاعدگی پیدا کی جائے اور اس کے لئے بشاشت پیدا کی جائے پھر مسجد کے ماحول سے محبت پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کی طرف ساری جماعت کو انصار اللہ کو بھی خدام الاحمدیہ کو اور جماعت کی تنظیم کو بھی متوجہ ہونا چاہئے اور جماعتی تنظیم کا یعنی جو تنظیم یہاں مقامی طور پر قائم ہے فرض ہے کہ ہر پندرہ روز کے بعد مجھے ایک رپورٹ دیا کریں تا مہینہ ڈیڑھ مہینہ کا وقفہ سستی میں گزرنے کے بعد مجھے صرف مخلصین کی رپورٹوں سے ہی علم نہ ہو کہ کوئی سستی واقع ہوگئی ہے بلکہ تنظیم کی طرف سے بھی اس کا علم ہو جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہاں رہنے والوں کی اکثریت مخلصین کی ہے اگر کوئی سستی پیدا ہو جائے تو شروع میں ہی اس سستی کو دور کیا جا سکتا ہے۔
دوسری بات میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک پیارے کے احسانوں کے بندھنوں میں بندھے ہونے کی بناء پر اور اس کی حسین یاد میں ہم نے جماعت میں فضل عمر فاؤنڈیشن قائم کی تھی اس کے لئے دوستوں نے رقوم کی ادائیگی کے لئے وعدے کئے اور رقوم ادا کرنی شروع کیں اور یہ فیصلہ ہوا کہ تین سال کے اندر اندر تمام وعدے پورے ہو جائیں تا وہ مقصد جلد پورا ہو جس کے حصول کے لئے ہم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد میں ان رقموں کو پیش کیا ہے فضل عمر فاؤنڈیشن کیا کام کرے گی؟ انہوں نے بعض کام تجویز کئے ہیں جو وہ اپنے محدود دائرہ میں کریں گے۔ ان کے کام جماعت کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک تو وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یاد میں ایک لائبریری کی عمارت بنانا چاہتے ہیں اور انشاء اللہ اللہ توفیق دے گا تو صدر انجمن احمدیہ اس ظاہری جسم کو جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے تیار ہوگا۔ کتابوں، علوم کے خزانوں اور ان علوم کے خزانوں سے فائدہ اُٹھانے والوں سے بھر دے گی، پھر اس میں روح بھی آ جائے گی اور اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔ پھر تحقیقی مضامین لکھوانا ہے اور ان کی اشاعت کا انتظام کرنا ہے۔ مجھے اس وقت ان کاموںکی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جس چیز کو میں اس وقت خاص طور پر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تین سال بس گزرا ہی چاہتے ہیں۔ ۳۰؍ جون کو وصولیوں کے کھاتے بند کر دیئے جائیں اور سوائے استثنائی حالات کے کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کوئی رقم اس فنڈ میں دے کیونکہ اصل چیز روپیہ نہیں، اصل چیز لائبریری کی عمارت نہیں جو اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے سے تیار کی جائے گی۔ وہ تو کوئی ایسی یادگار نہیں اصل یادگار یہ ہے کہ اس روح کو زندہ رکھا جائے جو روح ہمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی میںنظر آتی تھی۔ ہمیں آپ کی زندگی میں یہ روح نظر آتی تھی کہ آپ نے اپنے دن رات اللہ کے نام کی عظمت کو قائم کرنے کیلئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احسانات کی اشاعت کے لئے گزارے جو آپ نے بنی نوع انسان پر کئے۔ آپ کا ہر لمحہ خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف تھا۔ اگر ہمیں آپ سے محبت ہے، اگر ہمیں آپ سے پیار کا تعلق ہے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے نفس میں اور اپنی نسل میں یہ یادگار قائم کرے گا کہ ہمارے اوقات بھی خدا کی عظمت کو قائم کرنے کے جذبات سے معمور ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام کے قیام کے لئے بھی ہمہ وقت کوشش اور جدوجہد سے بھرے ہوئے ہوں۔ ایک مومن کی اصل نشانی تو یہی ہے لیکن چونکہ یہ مادی اور ظاہری اسباب کی دنیا ہے اس میں ظاہری سامان بھی استعمال کئے جاتے ہیں اس لئے بعض ظاہری علامات کے طور پر ہم نے بعض کام کرنے کا پروگرام بنایا ہے اور اس کے لئے ہم نے بہت سے وعدے اور عطایا لکھوائے ہیں۔ ان کی ادائیگی ۳۰؍ جون سے پہلے ہو جانی چاہئے اب صرف قریباً ڈیڑھ ماہ باقی رہ گیا ہے۔ جن دوستوں نے ابھی تک اپنے وعدوں کی رقوم کو ادا نہیں کیا وہ اس طرف متوجہ ہوں کیونکہ ۳۰؍جون کو جیسا کہ میں نے بتایا ہے سوائے استثنائی حالات کے وصولیوں کے کھاتے بند کر دیئے جائیں گے اور استثنائی حالات جیسا کہ آپ جانتے ہیں سَو دو سَو یا ہزار میں ایک آدھ فرد کے ہوتے ہیں۔ یہ وہم نہ رہے کہ کسی کی غفلت یا سستی استثنائی حالات پیدا کر دے گی۔ غفلتیں اور سستیاں استثنائی رعایتوں کا مستحق نہیں بنایا کرتیں۔ ہاں شاید وہ بعض افراد کو استثنائی سزاؤں کا مستحق بنا دیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ تمہارے وعدہ کے متعلق تم سے جواب طلبی کی جائے گی۔ خدا سے ڈرتے ڈرتے اپنے وعدوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا اگر ایک شخص کے حالات حقیقتاً اس طرح بدل گئے ہیں کہ وہ اپنے وعدہ کو پورا نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اس پر کوئی الزام نہیں اور ہمارے دلوں میں بھی اس کے خلاف کوئی شکوہ نہیں لیکن جو لوگ سستی کے پردوں کے پیچھے پناہ لینا چاہتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سستیوں کے پردے دنیا کی آنکھ سے بعض چیزوں کو اوجھل کر دیں تو کر دیں خداتعالیٰ کی ناراضگی سے نہیں بچا سکتے۔
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ زیادہ مستعدی سے اپنے پروگراموں کی طرف متوجہ ہوں اور بحیثیت مجلس اپنے اندر ایک فعال زندگی پیدا کریں۔ ہر دو مجالس کا ایک حصہ بڑا ہی اچھا کام کر رہا ہے اور قابلِ رشک ہے۔ اگر خدام الاحمدیہ ہیں تو وہ انصار اللہ کے لئے قابل رشک ہیں اور انصار ہیں تو جماعت کے لئے قابل رشک ہیں۔ خدا کے لئے فدا ہونے والی اور اپنے نفسوں اور اموال کوفدا کرنے والی زندگیاں ہیں جو وہ گزار رہے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو دنیا کے غلط اصول کے مطابق تینتیس فیصد کام کر کے کامیاب ہونے کی امید رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گناہوں کی معافی کا وعدہ تو دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ لوگ جن کی بدیاں اور جن کے گناہ ان کی نیکیوں اور اعمال صالحہ کا احاطہ کر لیں گے انہیں بہرحال جہنم کی تکلیف میں سے گزرنا پڑے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ معاف کرنا چاہے تو یہ اس کی شان اور قدرت ہے وہ اس کا بھی مظاہرہ کرتا ہے اور ہمارے دلوں میں اپنی محبت اور عظمت کو اس طرح بھی قائم کرتا ہے لیکن اس نے ایک عام اصول یہ بنایا ہے کہ اگر گناہ اور بدیاں نیکیوں اور اعمال صالحہ کو اپنے احاطہ میں لے لیں تو جہنم کی تکلیف میں سے گزرنا پڑے گا۔ اگر آپ جیومیٹری کی ایک شکل کے ذریعہ اس احاطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو جو دائرہ دوسرے کو اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے ہے وہ قریباً ۵۵ فیصد بنتا ہے۔ پس اگر سَو میں سے ۴۵ نیکیاں ہوں اور ۵۵ بداعمالیاں ہوں تو بداعمالیوں کی سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ بداعمالیوں نے سارے راستے بند کر دئے۔ انہوں نے ایک ایسا چکر ڈال لیا ہے کہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ لیکن اگر ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ نیکیاں پچاس فیصد سے زائد ہوں تو پھر اگر بدیاں احاطہ کرنے کی کوشش کریں تو وہ احاطہ کر نہیں سکیں گی کیونکہ ایک دروازہ کھلا رہ جاتا ہے اور وہ نجات کا دروازہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور وہاں سے اپنے بندے کو اپنے احسان سے نکال لیتا ہے۔ اس گرفت سے اسے چھڑا لیتا ہے جو اس کی بدیوں نے اس کے گرد احاطہ کر کے کی ہوئی ہوتی ہے غرض اس دنیا کے غلط اصول کے مطابق تو ایک نوجوان تینتیس فیصد نمبر لے کر کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو قانون قرآن کریم میں وضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ پاس ہونے کے لئے کم از کم پچپن فیصد نمبروں کی ضرورت ہے استثنائی صورت اس کے علاوہ ہے۔ خداتعالیٰ کسی پر رحمت کرنا چاہے تو وہ اور بات ہے۔ اس کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ پس نیکیوں کا پلڑا بدیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں کے پلڑے پر غالب اور وزنی رہنا چاہئے۔ نیکیوں کا دائرہ بدیوں کے دائرہ سے بڑا ہونا چاہئے ورنہ نجات کی راہ عام اصول کے مطابق بند ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی خاص قدرتوں کی تجلیات کا تو ذکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ویسے بھی فضل ہی کرتا ہے لیکن عام اصول کے مطابق اگر بدیاں اس طرح پھیلی ہوئی ہوں کہ باہر نکلنے کا راستہ تنگ ہو تو پھر نیکیوں کے باوجود انسان ہلاکت میں چلا جاتا ہے۔ نیکیوں کی توفیق بھی فضل الٰہی سے ہی ملتی ہے۔ اسی واسطے اسلام نے یہ کہا ہے کہ نجات خدا کے فضل کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔
خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو صرف اس بات سے خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ انہوں نے ۳۰ فیصد یا ۴۰ فیصد نمبر لے لئے ہیں۔ خدمت بنی نوع انسان کی اس تنظیم کو تو سَو فیصد سے کم نمبروں پر خوش ہونا ہی نہیں چاہئے۔ انسان چونکہ فطرتاً کمزور ہے اس لئے ہم دس پندرہ فیصدی کا چھوٹا سا مارجن (Margin) رکھ لیتے ہیں یعنی اگر پچاسی یا نوے فیصد کامیابی نہ ہو تو وہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ ان دونوں تنظیموں کو یاد رکھنا چاہئے کہ انصار اللہ کی تنظیم میں تربیت اور حصول قربِ الٰہی پر زور دیا گیا ہے اور خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں خدمت بنی نوع انسان اورحصول قرب الٰہی پر زیادہ زور ہے۔ اگر آپ سوچیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اگر یہ خدمت کی روح غائب ہو جائے تو انسانی اقدار قائم نہیں ہو سکتیں اور اگر انسانی اقدار قائم نہ ہوں تو روحانی ترقیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ روحانی ترقیات کے لئے جتنی ہدایتیں اور شریعتیں نازل کی گئی ہیں وہ انسان پر نازل کی گئی ہیں وہ گدھے یا گھوڑے یا بیل یا دوسرے جانوروں پر نازل نہیں کی گئیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شرعی تقاضوں کو پورا کر کے روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان میں انسانی اقدار قائم ہوں۔ اگر انسان انسانی اقدار کو قائم نہیں کرتا تو روحانی ارتقاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اورجب کسی سلسلہ میں یا کسی قوم میں یا بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان میں روح خدمت نہ ہو اس وقت تک اس سلسلہ یا اس قوم یا بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان میں انسانی اقدار قائم نہیں ہو سکتیں۔اگر ہم انسانی اقدار کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدمت کی روح کو زندہ کرنا پڑے گا اور اس خدمت کی زندہ روح کو لے کر کام کے میدان میں سرگرم عمل رہنا خدام الاحمدیہ کا ضروری پروگرام ہے۔ خدام الاحمدیہ اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے اس کام میں لگ جائیں کیونکہ خدمت اسلام و احمدیت تقاضا کرتی ہے خدمت انسان کا۔ جو شخص انسان کی خدمت نہیں کرتا وہ احمدیت کی خدمت نہیں کرتا۔ احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز ہیں اور اسلام نے بنی نوع انسان کی بحیثیت بنی نوع انسان خدمت کی ہے۔ وہ ایک مسلمان کو بُلاتا ہے اور کہتا ہے تم نے انسان کی خدمت کرنی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دہریہ جو مجھ کو گالیاں دیتا ہے (تم نے اس کے حقوق کو بھی تلف نہیں کرنا) اس کے حقوق کی بھی تم نے حفاظت کرنی ہے تب یہ امید ہو سکتی ہے کہ وہ کسی وقت اپنے پیدا کرنے والے ربّ کی طرف رجوع کرے۔ اگرتم اس کے حقوق تلف کرو گے تو وہ کون سی ایجنسی دنیا میں دیکھے گا جو یہ ثابت کرے گی کہ پیدا کرنے والے ربّ کی ربوبیت سے کوئی انسان باہر نہیں۔
پس خدام الاحمدیہ کا کام ہے انسان کی خدمت، اس کے بغیر نہ اسلام کی خدمت ہو سکتی ہے اور نہ خداتعالیٰ کے احکامِ عبادت کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ آپ اس خدمت کے جذبہ کو، اس خدمت کی روح کو زندہ رکھ کرکام کریں اور دنیا کو خدا کے نام پر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں کہ واقعی مسلمان بنی نوع انسان کا خادم ہوتا ہے۔ اگر آپ اسلام کے خادم ہونے کی حیثیت میں بنی نوع انسان کو یہ تسلیم کروا دیں کہ اسلام کا خادم بنی نوع انسان کا خادم ہوتا ہے تب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احسانوں کو سمجھنے لگیں گے جو واقعۃً آپ نے ان پر کئے ہیں اور جن کو وہ اس وقت سمجھتے نہیں اور جس کے بغیر محبت اور پیار کا وہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا جو بنی نوع انسان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونا چاہئے۔ پس خدام الاحمدیہ روحِ خدمت کے ماتحت اپنے پروگراموں پر عمل کریں اور انصار اللہ روحِ تربیت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے پروگرام پر عمل کریں۔
روحِ تربیت بھی روحِ خدمت ہی ہے صرف اس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ اس لئے ہر دو تنظیمیں اس طرح بنی نوع انسان کی خدمت میں لگ جائیں اور لگی رہیں کہ اپنے نفسوں کا بھی خیال رکھیں، اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کا بھی خیال رکھیں، پھر یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو اپنے اندر سمیٹ لے اور خدا کے نام پر اسلام کی اشاعت میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو ہر وقت تیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے کی توفیق عطا کرے۔ اہل ربوہ کو نماز باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور ذمہ دار دوستوں کو ان کی نگرانی کی توفیق عطاکرے۔ فضل عمرفاؤنڈیشن میں جماعت کے دوستوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو وعدے لکھوائے ہیں وہ ان کی ادائیگی کر دیں تا وہ بہترین جزا کے وارث بنیں۔ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ تکبر اور ریاء کے بغیر اپنے اپنے پروگرام اور دائرہ کے اندر بے نفس اور بے لوث خدمت کرنے والے ہوں کہ اللہ کی توفیق سے ہی سب نیکیوں کی توفیق عطا ہوتی ہے اور اللہ کے فضلوں سے ہی نیکیوں اور اعمال صالحہ کے نیک انجام نکلتے ہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴؍ مئی ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۷)
٭…٭…٭

تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں اور اُن الٰہی برکتوں کا احساس کریں جو اُس کے نتیجہ میں ہمیں حاصل ہوئی ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍مئی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ تحریک جدید کا ایک نمایاں پہلو تربیت جماعت ہے۔
٭ تحریک جدید کے ذریعہ مختلف ممالک میں جماعتیں قائم ہوئی۔
٭ تحریک جدید کے ذریعہ ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا ہے۔
٭ فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدوں کی ادائیگی کریں۔
٭ وقف عارضی کی مالی قربانی سرا ہوتی ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
چند دن سے مجھے سر درد کی تکلیف تھی لیکن کل یہ تکلیف بہت شدت اختیار کر گئی۔ اس وقت کچھ افاقہ ہے۔ میں اس وقت مختصراً جماعت کو ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ تحریک جدید کے چندوں کے وعدے اور ان کی ادائیگی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کی شکل میں اپنی ایک عظیمیادگار چھوڑی ہے اور اس کے جو نمایاں پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک نمایاں پہلو تو تربیت جماعت کا ہے۔ آپ ایک لمبا عرضہ اسلام کی ضروریات جماعت کے سامنے رکھ کر جماعت کو آہستہ آہستہ تربیت اور قربانی اور ایثار کے میدانوں میں آگے سے آگے لے جاتے چلے گئے۔
دوسرا نمایاں پہلو (جس وقت تحریک شروع ہوئی تھی اس وقت تو پاکستان نہیں تھا۔ پاک و ہند اگر کہہ دیا جائے تو دونوں زمانوں کی طرف اشارہ ہو جائے گا) پاک و ہند سے باہر جماعتوں کا قیام ہے۔ ۱۹۳۴ء میں جب یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ بیرون پاک و ہند بہت کم جماعتیں تھیں۔ ایک آدھ ملک میں کچھ لوگ احمدیت سے متعارف اور اس کی حقانیت کے قائل تھے۔ لیکن تحریک جدید کے اجرا کے ساتھ (جو یقینا الٰہی تحریک ہے) بڑی کثرت سے مختلف ممالک میں جماعت ہائے احمدیہ قائم ہوئیں۔ پھر ان کی تربیت ہوئی اور اب آپ سے (جو مرکز میں رہنے والے ہیں یا مرکز جس ملک میں ہے وہاں کے باشندے ہیں) وہ کسی صورت میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ یہاں بھی کمزور احمدی پائے جاتے ہیں غیر ممالک میں بھی کمزور احمدی پائے جاتے ہیں لیکن جس رنگ کا اخلاص، فدائیت اور بے نفسی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ہمیں جماعت احمدیہ کی بھاری اکثریت میں یہاں نظر آتا ہے اسی طرح بیرون ملک کی جماعتوں میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ پھر جس طرح ہماری حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہم سے پیار کرتا اور اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اسی طرح ان لوگوں سے بھی وہ اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے۔ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہا۔ آج تو یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جو ہمیں نظر آ رہی ہے لیکن ۱۹۳۴ء میں یہ ایک ایسا تخیل تھا کہ اگر آج کی تصویر لوگوں کے سامنے رکھ دی جاتی تو ان کی اکثریت اس کی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ ہوتی مگر اس مرداولوالعزم نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے یہ کام شروع کیا اور خداتعالیٰ نے اس میں بڑی برکت ڈالی۔
تیسری نمایاں چیز جو ہمیں تحریک جدید کے کام میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ غیر مذاہب کو اس کی وجہ سے اور اس کے کاموں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور وہ جو اپنی جہالت اور عدمِ علم کی وجہ سے اسلام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ آج وہ اسلام کے عقلی دلائل اور اسلام کی تاثیرات روحانیہ اور تائیداتِ سماویہ سے مرعوب ہو رہے ہیں۔ ایک انقلابِ عظیم بپا ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس عظیم انقلاب کی ابتدائی شکل ظاہر ہو گئی ہے۔ اس کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا یعنی جب ہم ان اقوام کے دل اپنے اور ان کے ربّ کے لئے جیت لیں گے اور ساری دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جانے لگے گا اور اسلام مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے گا۔
بہرحال اس انقلاب عظیم کے آثار ہمیں نظر آ رہے ہیں اور یہ بھی حیران کن ہیں۔ انقلاب مختلف مدارج میں سے گزرتا ہے۔ ایک دور اس کا یہ ہے اور وہ بھی عقل کو حیرانی میں ڈالنے والا ہے کہ آج سے چند سال پہلے اسلام کے خلاف اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منکرین اسلام کس طرح متکبرانہ غراتے تھے اور آج وہی لوگ ہیں جو احمدی مربیوں اور مبلّغوں سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں اور بات کرنے سے کتراتے ہیں اور تحریک جدید کے کام کا یہ حصہ جو ایک نمایاں خصوصیت کے رنگ میں ہمیں نظر آتا ہے اس کے ساتھ یہ کام بھی ہوا ہے کہ ان ممالک میں قرآن کریم اور اس کی تفسیر کی بڑی کثرت سے اشاعت کی گئی ہے لیکن ابھی بہت روپے کی ضرورت ہے۔ ابھی بڑے فدائی مبلّغوں کی ضرورت ہے۔ ابھی بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے ابھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کیلئے بڑے مجاہدہ کی ضرورت ہے تا کہ ہم انتہائی اور آخری کامیابی دیکھ سکیں لیکن جو کام ہوا ہے وہ بھی معمولی نہیں۔ تراجم ہوگئے۔ اسلامی تعلیم سے واقفیت ہوگئی۔ تفسیر پڑھنے لگے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کے ملکوں میں رہنے والے ہمارے احمدی بھائیوں سے اگر آپ کسی مسئلہ پر بات کریں تووہ شاگرد کی طرح سامنے نہیں بیٹھے ہوتے بلکہ آپ سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ قرآن کریم کی کوئی آیت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پیش کر کے آپ کی بات کو ردّ کرتے ہیں۔ غرض انہوں نے اسلام اور احمدیت کو علیٰ وجہ البصیرت قبول کیا ہے اور اس سے ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پیدا ہوئی۔ بڑے شوق سے علم قرآن کو سیکھا اور اب وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ ہر جگہ اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کے علوم کو پیش کرتے ہیں اور خدا کے فضل سے غالب آتے ہیں۔
پس قرآن کریم کے تراجم اور تفسیر کی اشاعت یہ بھی ایک نمایاں کام ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مخلصین جماعت سے لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم ہمیشہ ہی بھوکے ہیں اور کسی مقام پر دل تسلی نہیں پکڑتا کیونکہ غیر متناہی ترقیات کے دروازے ہم پر کھولے گئے ہیں۔ ہر نئے دروازے میں داخل ہونے کے بعد اس سے اگلے دروازے میں داخل ہونے کو ضرور دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کو ہی (اگر وہ مسخ نہ ہو چکی ہو) ایسا بنایا ہے۔
بہرحال ہمیں ترقی کے میدان آگے نظر آ رہے ہیں (اللہ کی رحمت سے) اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نہ مٹنے والے نشان ہمیں پیچھے نظر آ رہے ہیں۔ تحریک جدید کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہمیں نظر آتی ہے اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ سردرد کی وجہ سے میں اس وقت زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ جماعت کو میں اس وقت اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بہت بڑی نشانی تحریک جدید کی شکل میں اپنے پیچھے چھوڑی ہے۔
آپ کے وصال کے بعد جماعت کے مشورہ سے ہم نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے جماعت نے مالی قربانیاں دیں اور اس کے سپرد بعض کام بھی کئے گئے ہیں لیکن تحریک جدید کے مقابلہ میں یہ مالی قربانیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جتنی اس وقت تمام دنیا کے احمدیوں نے تحریک جدید کے لئے مالی قربانی دی ہے شاید اس کا بارہواں یا پندرہواں یا بیسواں حصہ بھی فضل عمر فاؤنڈیشن کی مالی قربانی نہ ہو کام بھی اس (فضل عمر فاؤنڈیشن) کے محدود ہیں اور اس کے وعدوں کی وصولی کا زمانہ بھی ۳۰؍ جون کو ختم ہو رہا ہے۔ اس لئے آپ اس کی طرف زیادہ توجہ دیں ( میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک جدید کی طرف توجہ نہ دیں۔ ہماری بھاری اکثریت ایسی ہے کہ جو دونوں تحریکوں کے وعدے پورے کر سکتی ہے) لیکن بہرحال ۳۰؍ جون کو فضل عمر فاؤنڈیشن کا کھاتہ تو بند ہو جائے گا لیکن تحریک جدید کا کھاتہ تو نہ اس سال بند ہوگا اور نہ اگلے سال۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور بھی بہت ساری تحریکیں خلفائے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جاری کرے گا۔ اس میں دوست کبھی کسی شکل میں اور کبھی کسی شکل میں مالی قربانی بھی دیں گے۔
اب میں نے وقف عارضی کی جو تحریک کی ہے اگر ایک ہزار آدمی پندرہ دن کے لئے باہر جائے تو ان کے کرایہ کا خرچ ان کے زائد کھانے کا خرچ وغیرہ ملا کر لاکھوں کی رقم بن جاتی ہے لیکن اس کی شکل ایسی ہے کہ جو کسی حساب یا چندے میں نہیں آتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ظاہر اور باطن خرچ کی ہدایت دی گئی ہے خداتعالیٰ نے اس کے لئے یہ راستہ کھول دیا ہے کہ تحریک جدید میں تم ظاہری طور پر چندے دیتے ہو یہ اعلانیہ چندے ہیں ریکارڈ ہوتے ہیں۔ چھپتے ہیں۔ رپورٹیں پڑھی جاتی ہیں لیکن کچھ ایسے خرچ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں کئے جاتے ہیں جو اعلانیہ نہیں ہوتے بلکہ سِرًّا ہوتے ہیں۔ وقف عارضی کی مالی قربانی کی طرح۔تحریکیں تو ہوتی رہیں گی لیکن بہت سی تحریکیں ایک خاص وقت پر شروع ہوتی ہیں لیکن وہ چلتی چلی جاتی ہیں جب تک کہ قوم زندہ رہے اور وہ اپنی آخری اور انتہائی فلاح کو حاصل نہ کرلے۔ تحریک جدید بھی اسی قسم کی تحریکیوں میں سے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وقف عارضی کو بھی اسی طرح چلنا چاہئے اور تحریکیں بھی اپنے وقت پر ہوتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس مقام سے گرنے سے بچانے کے لئے جہاں وہ آج پہنچ چکے ہیں ان کے اوپر اُٹھانے کا سامان کر دیا ہے۔ دماغ میں ایک بات آتی ہے پیش کر دی جاتی ہے۔ بشاشت سے قبول کی جاتی ہے اور کام شروع ہو جاتا ہے۔
اس سال ممکن ہے فضل عمر فاؤنڈیشن کا سال ختم ہونے کی وجہ سے تحریک جدید کے وعدوں میں کمی ہو۔ تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں تک بھی نہیں پہنچے۔ قریباً بیس ہزار روپے کا فرق ہے۔ گزشتہ سال پانچ لاکھ نوے ہزار کے وعدے تھے۔ اس سال اس وقت تک پانچ لاکھ ستر ہزار کے وعدے ہوئے ہیں اور ابھی وعدے لکھوانے میں اور ادائیگیوں میں بھی بڑا وقت ہے لیکن ہم نے اپنے سامنے جو ایک Target رکھا ہے یعنی ہم نے جو فیصلہ کیا ہے کہ تحریک جدید میں اتنی رقم جمع ہو پاکستان کی جماعت کو وہ جمع کرنی چاہئے اور یہ طے شدہ منصوبہ سات لاکھ نوے ہزار کے بجٹ پر مشتمل ہے اس کے مقابلہ میں یہ وعدے بہت کم ہیں۔
جیسا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ جماعت میں استعداد ہے کہ وہ تحریک کا سات لاکھ نوے ہزار کا بجٹ پورا کر سکے اگر وہ تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں اگر وہ ان الٰہی برکتوں کا احساس رکھیں جو تحریک جدید میں معمولی اور حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ہم نے حاصل کی ہیں اگر وہ اسلام کی ضرورت کو پہچانیں اور یہ یقین رکھیں کہ ضرورتِ وقت سے شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں جو ہم دے رہے ہیں لیکن جتنا ہم دے سکتے ہیں وہ ہمیں دینا چاہئے تا کہ جو ہم نہیں دے سکتے اور جس کی ضرورت ہے اس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی برکت سے پورا کر دے۔ پس وعدوں کے لکھوانے کی طرف فوری توجہ دیں اور پھر ۳۰؍ جون کے بعد وصولیوں میں زیادہ تیزی پیدا ہو جائے گی اللہ تعالیٰ ہم سب کو مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے ادا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ یکم جون ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

دنیا کا کوئی اقتصادی نظام نفع رسانی میں اسلام کے اقتصادی نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتا
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍مئی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ ہر انسان کی قوت اور استعداد مختلف بنائی گئی ہے۔
٭ ہمیں ایک دوسرے کی مدد، معاونت اور تعاون کی ضرورت ہے۔
٭ فلاح اُخروی کا تمام دارومدار انصاف اور خدا شناسی پر ہے۔
٭ اسلام کا نظام دیگر نظاموں سے ارفع اور اعلیٰ ہے۔
٭ اسلام کا اقتصادی نظام عبادت کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے۔


تشہدو تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لَیْعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَoلا حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ o(البینۃ:۶)
اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَط نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعضًا سُخْرِیًّاط وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَO (الزخرف:۳۳)
اس کے بعد فرمایا:
کل مجھے معدہ کی سوزش کی وجہ سے بہت تکلیف رہی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کافی افاقہ ہے۔ مگر طبیعت کی علالت اور گرمی کی شدت مختصر خطبہ چاہتی ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اختصار کے ساتھ اپنے چند پچھلے خطبات کے سلسلہ مضمون کو بیان کروں جو بیچ میں رہ گیا تھا۔ ان خطبات میں مَیں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خالص اور حقیقی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور سچی پرستش گیارہ تقاضے انسان سے کرتی ہے۔ جو آیت میں نے اپنے اس مضمون کی بنیاد بنائی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے یہ تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ہر حرکت و سکون اور انسان کے ہر عمل اور انسان کے ہر شعبہ زندگی کے ساتھ ان تقاضوں کا تعلق ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ادا نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کی ادائیگی میں ان گیارہ تقاضوں کا خیال نہ رکھا جائے اور جب تک ان میں یہ گیارہ خصوصیات نہ پائی جائیں۔
آج میں ایک شعبہ زندگی کو لے کر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ انسان انسان کے اقتصادی تعلقات ہیں۔ سورہ زخرف کی جو آیت میں نے آج تلاوت کی ہے اس میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے اس پر روشنی ڈالی ہے یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ صحیح اور نفع رساں اقتصادی نظام صرف وہ نظام ہے جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ اس آیہ شریفہ سے پہلے منکرین اسلام یا یوں کہنا چاہئے کہ کفار مکہ یا اس وقت وہاں جو قوم کے سردار تھے ان کا یہ اعتراض بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو مکہ اور طائف کے بڑے بڑے رئوسا میں سے کسی ایک پر کیوں نہ اتارا تا کہ وہ اپنی دنیوی وجاہت اور دولت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو زیادہ اچھی طرح سنا سکتا اور ہم لوگ (یعنی کفار مکہ اور اعتراض کرنے والے) اس کی بات کی طرف زیادہ کان دھرتے بجائے اس کے کہ ایک یتیم اور بے کس اور بے ہنر امی کو منتخب کیا اور اس پر قرآن کریم کو نازل کر دیا وہ قرآن کریم جس کے متعلق دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک عظیم کتاب ہے۔ عظیم کتاب کو ایک عظیم انسان پر اترنا چاہئے تھا یہ جاہلانہ اعتراض پیش ہوا تو اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اصولی صداقت کو بیان کیا جس میں اس اعتراض کا جواب بھی آجاتا ہے اور ایک بنیادی اور اصولی صداقت پر بحث بھی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اور نبی کریم ﷺ کو خاتم النّبیین اور افضل الرسل بنا کر دنیا کی طرف مبعوث کرنا جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کرنا کہ وہ اپنی صفات کی بہترین تجلیات نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے ظاہر کرے گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں ہے یہ کسی انسان اور خصوصاً اس زمانہ کے انسان کا حق نہیں تھا جو گمراہی اور ضلالت اور فساد میں اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا خداتعالیٰ کی رحمت بندہ کے ظلم اور فساد کو دیکھ کر جوش میں آئی اور اس نے یہ جلوہ دکھایا جو حسین تر اور اعلیٰ تر اور ارفع ترتھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس کام کے لئے منتخب کیا اور اپنے حسن کا پورا جلوہ آپ پر چڑھا دیا اور اپنے احسان کی پوری قوت اپنی ظلیت میں آپ کے اندر ودیعت کر دی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کی طرف ایک کامل انسان اور ایک محسن اعظم کی حیثیت میں مبعوث کیا۔ رحمت کا یہ جلوہ اتنا عظیم تھا کہ ایسا جلوہ انسان نے نہ کبھی دیکھا اور نہ دیکھے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی رحمت کا ایک عظیم جلوہ تم پر ظاہر کیا اور تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ رحمت کا یہ جلوہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے جو تمہاری نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا کیوں ظاہر ہوا ہے۔ کسی بڑے رئیس کے ذریعہ سے کیوں ظاہر نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصولی صداقت بیان کی کہ اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ کیا قسام ازل کی رحمتوں کی تقسیم وہ کر سکتے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو آگے تقسیم کرے۔ یہ انسان کے اختیار میں نہیں۔ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ روحانی دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والی رحمتیں تو ایک طرف رہیں وہ رحمتیں جن کا تعلق اس دنیوی زندگی کی معیشت کے سامانوں کے ساتھ ہے ان کی تقسیم بھی وہ نہیں کر سکتے۔ وہ تقسیم بھی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور جس رنگ میں اس نے ان کو تقسیم کیا ہے ایک معمولی عقل والے انسان کو بھی نظر آتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ اور وہ تقسیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دنیوی معیشت اور دنیوی زندگی کے سامانوں کی تقسیم ہم نے اس رنگ میں کی ہے کہ ہم نے ہر انسان کی قوت اور استعداد مختلف بنا دی ہے۔ ہر طبیعت کا میلان ہم نے مختلف بنا دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو بوجھ اٹھانے کی طاقت عطا کی ہے۔ قادیان میں ایک سکھ مزدور تھا وہ اتنی طاقت رکھتا تھا کہ پانچ چھ من بوجھ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا تھا اور دوسروں سے دوگنی تگنی مزدوری لیا کرتا تھا۔ اب اسے یہ طاقت ملاوامل یا کسی زید بکر نے نہیں دی تھی اسے یہ طاقت اللہ تعالیٰ ہی نے دی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے قوت اور استعداد اپنی مرضی سے جتنی چاہی ہے کسی کو دی ہے اور یہ چیز ایسی ہے جو انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ یعنی قوت اور استعداد کی تقسیم کفار مکہ کے ہاتھ میں نہیں اور نہ کسی اَور انسان کے ہاتھ میں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان قوتوں کے نتیجہ میں اقتصادی تفاوت پیدا ہو گیا۔ ایک کو اللہ تعالیٰ نے بڑی زبردست انتظامی قوت دی اور تجارتی سوجھ بوجھ عطا کی اس نے کروڑوں روپیہ کی ایک انڈسٹری کو منظم کر لیا اور اس طرح کروڑ پتی بن گیا اس کے مقابلہ میں ایک مزدور جو چھ من یا سات من بوجھ اٹھاتا ہے وہ گو دوسروں سے زیادہ اجرت لے رہا ہوتا ہے لیکن بہر حال پہلے شخص کی طرح اس کے پاس زیادہ دولت نہیں ہوتی۔ جب وہ بیمار ہو جاتا ہے تو اس کے پاس علاج معالجہ کے لئے کوئی پیسہ نہیں ہوتا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری تقسیم کی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے حقوق کو قائم کیا ہے جب ایک بندہ جس کے پاس زیادہ دولت نہیں بیمار ہو جاتا ہے تو ہم خود اس کے ذمہ دار بن جاتے ہیں۔ ہم اس کے علاج اور دوائوں کا انتظام کرتے ہیں۔ ہم نے اقتصادی نظام ہی ایسا بنا دیا ہے کہ دنیا میں اس قسم کا انتظام ہوتا رہے۔
پھر چونکہ اقتصادی نظام کے نتیجہ میں دنیوی سامانوں یا پیداوار کی تقسیم مشتبہ ہو سکتی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ قوت اور استعداد دونوں کو شامل کر کے انسان کو کہا کہ ان چیزوں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالو پھر تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ تمہارے اختیار میں یہ بات نہیں کہ تم کسی کو جتنی چاہو طاقت قوت اور استعداد دے دو اور اس کے نتیجہ میں معاشی زندگی میں اور اقتصادی لحاظ سے تفاوت پیدا ہو جائے جس کے دور کرنے کا پھر تم سامان کرو۔ غرض اللہ نے فرمایا ہے دیکھو ہم نے بعض کو بعض قوتیں دی ہیں اور بعض دوسرے انسانوں کو کچھ اَور قوتیں دی ہیں۔ کسی کی طبیعت میں کوئی ہنر رکھ دیا ہے اور کسی کی فطرت میں ایک دوسرا میلان پیدا کر دیا ہے۔ اور جب اس بات کا نتیجہ نکلتا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کوئی تو دولت مند ہو گیا اور کوئی درویش فقیر اور نادار بن گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ سارا نظام اس لئے نہیں ہے کہ تم میں سے بعض بعض کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں لِیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا بلکہ اس چیز سے ہم منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا لَایَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ (الحُجُرٰت:۱۲) یہ تفاوت ہم نے اس لئے رکھا ہے کہ بعض بعض کے لئے کاربرار اور خادم بن جائیں۔ کسی کو ایک خاص قسم کی قوت اور استعداد دینا اور دوسرے کو وہ قوت اور استعداد نہ دینا بلکہ اس کی بجائے کوئی اور قوت اور استعداد دینا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ بعض کو معزز اور بعض کو حقیر بنانا چاہتا ہے، بلکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس نے انسان کو باہمی معاشرہ میں تمدنی زندگی گزارنے والی مخلوق بنایا ۔ اس کی راہ میں آسانی پیدا کرنے کے لئے اور ہر ایک کو دوسرے کا خادم بنانے کے لئے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس نے مختلف قوتوں اور مختلف استعدادوں کے ساتھ اس کو پیدا کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف ایک پر ہی سارا بوجھ نہیں پڑتا۔ فرد واحد کو تو چھوڑو اگر ایک خاندان کو بھی اپنے سارے کام خود کرنے پڑتے تو دنیا ایک عذاب بن جاتی۔ اس خاندان کے افراد مثلاً خود روئی اگاتے، خود چنائی کرتے خود ہی کاتتے اور خود ہی اس کا کپڑا بناتے تا وہ اپناننگ ڈھانک سکیں۔ پھر دوسری مختلف اجناس ہیں وہ اجناس بھی وہ خود اُگاتے۔ مثلاً وہ خود گندم اگاتے پھر اس کے لئے محنت کرتے پھر خود ہی اس کو کاٹتے ۔ خود ہی گہائی کرتے، خود ہی اڑاتے اور پھر خود ہی گھر میں دانے لاتے، انہیں صاف کرتے پھر ان کو خود ہی چکی سے پیستے، پھر آٹا گوندھتے اور اس سے روٹی بناتے۔ اس طرح کی ہماری سینکڑوں ضرورتیں ہیں کچھ تو ان میں سے جائز ضرورتیں ہیں اور کچھ ہمیں عادتیں پڑی ہوئی ہیں اور وہ عادتیں ہمارے لئے ضرورت کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ سینکڑوں کام ہیں جو دوسرے لوگ ہمارے لئے کر رہے ہیں۔ کپڑے کی ضروریات ہیں۔ مثلاً پگڑی کیلئے ململ چاہئے کھدر کی پگڑی پہنیں تو میرے جیسے آدمی کو سارا دن سر درد ہی ہوتی رہے۔ بہت کم لوگ اس کے وزن کو برداشت کر سکیں۔ پھر عورت کا اپنا مزاج ہے اور مرد کا اپنا مزاج ہے ۔ پھر رنگ ہیں گھر کی ایک لڑکی ایک رنگ کو پسند کرتی ہے تو دوسری لڑکی دوسرے رنگ کو پسند کرتی ہے۔ غرض ہزار قسم کے کام ہیں۔ اگر کسی خاندان کے افراد کو وہ سب کام خود ہی کرنے پڑتے تو یہ دنیا انسان کیلئے جہنم بن جاتی۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں تمہارے آرام کے لئے مختلف قوتیں اور مختلف استعدادیں دی ہیں تا تم ایک دوسرے کے خادم بنو، ایک دوسرے کے کاربرار بنو اور ایک کے اوپر ہی سارا بوجھ نہ آپڑے اور اس طرح پر بنی آدم کی مہمات اور اس کے روحانی اور جسمانی کاموں میں آسانی پیدا ہو جائے۔ مثلاً روحانی کام یہ ہیں کہ انسان رات کو اٹھ کر عبادت کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اندھیرے میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ اب چاہے دیا ہی ہو یا بجلی کی روشنی اس میں بہر حال دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان باتوں کی حکمت اور فلسفہ کو سمجھتے نہیں اور جس غرض کے لئے یہ تمام کارخانہ مختلف قوتوں اور استعدادوں کا بنایا گیا ہے اس کے نتیجہ میں تم اپنے آپ کو خادم سمجھنے کی بجائے آقا سمجھنے لگ جاتے ہو اور ایک دوسرے کو حقارت اور استہزاء سے دیکھنے لگ جاتے ہو۔ لیکن ہم تم کو یہ بتاتے ہیں کہ رَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْن اس میں بڑے لطیف پیرایہ میں اسلام کے اقتصادی نظام کی فوقیت دوسرے تمام اقتصادی نظاموں پر ظاہر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ظالمانہ اور مفسدانہ نظام معیشت اور اقتصادیات تم اپنے سرمایہ یا وحشیانہ قوت سے دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہو اس کی نسبت رَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ تمہارے ربّ کی رحمت بہتر ہے ۔ اس آیت سے پہلے قرآن کریم کا ذکر آیا ہے جس کی وجہ سے اعتراض ہوا تھا۔ اسی کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اور رَحْمَتُ رَبِّکَ سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم، اس کی تعلیم اور ہدایت زیادہ تر نفع رساں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی جو تفسیر فرمائی ہے مَیں اس وقت اپنے الفاظ میں وہ تفسیر بیان کروں گا۔ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے۔ الفاظ میرے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ
۱۔ انسان کی فطرت اور طبیعت میں ہے کہ وہ مل جل کے زندگی گزارے اور ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کے بغیر اس کا کوئی کام انجام پذیر نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ میں نے ابھی مختصراً اشارہ کیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔
۲۔ اگر ہمیں ایک دوسرے کی مدد، معاونت اور تعاون کی ضرورت ہے تو اس کے نتیجہ میں یقینا ہمیں ایک دوسرے سے معاملہ کرنا پڑے گا۔
۳۔ اور جب ہم ایک دوسرے سے معاملہ کریں گے تو پھر معاوضہ کا سوال پیدا ہو جائے گا۔ اگر کسی کا وقت لیا ہے تو یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس کو اجرت کتنی دینی ہے اور اگر اس کی مثلاً کپڑا بننے کی استعداد نے ہماری مدد کی ہے تو یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس کی قیمت کیا دینی ہے۔ غرض معاونت کے نتیجہ میں معاوضہ کی ادائیگی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔
۴۔ اب یہ ایک اقتصادی سوال ہے لیکن دنیا دار دنیا میں غرق ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتا ہے اس لئے یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر اس معاوضہ کی ادائیگی کو انسان پر ہی چھوڑا جائے تو حقوق تلف ہو جائیں گے۔ اور یہ خطرہ معمولی نہیں بلکہ بڑا بھاری خطرہ ہے۔ چونکہ انسان اکثر غفلت کے پردوں میں اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتا اس لئے انسان کی عقل اور اس کی قوت منتظمہ پر اس معاملہ کو چھوڑنے کے نتیجہ میں ایک بھاری خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ بہت سوں کے حقوق تلف ہو جائیں گے۔ ان حقوق کو تلف ہونے سے بچانے کے لئے ایک ایسے منصفانہ قانون کی ضرورت ہے جو حق و صداقت پر قائم ہونے کی وجہ سے انسان کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غَفْلَتُ مِنَ اللّٰہِ سے روکتا رہے تا انسانی معاشرہ اور نظام اقتصادیات میں ابتری اور فساد واقع نہ ہو پس چونکہ حقوق کے تلف ہونے کا خطرہ تھا اس لئے اس خطرہ کو دور کرنے کے لئے ہماری عقل بھی یہ کہتی ہے کہ ایک ایسا قانون ہونا چاہئے جو انصاف اور حق و صداقت پر قائم ہو اور انسان کو ظلم کی راہیں اختیار کرنے اور تعدی کی راہیں اختیار کرنے، بغض و فساد کی راہیں اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی راہوں کو اختیار کرنے سے روکے اس کے بغیر صحیح اور ہر ایک کی تسلی کرنے والا نظام زندگی یا نظام اقتصادیات قائم نہیں کیا جا سکتا۔
۵۔ معاش اور نظام زندگی اور معاد اور فلاح اُخروی کا تمام مدار انصاف اور خداشناسی پر ہے۔ دونوں چیزوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اکٹھا رکھتا ہے۔ یعنی حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں اکٹھے ہی رکھے گئے ہیں کیونکہ اصل غرض حقوق اللہ کی ادائیگی سے اللہ کو راضی کرنا ہے اور اس کی ایک راہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں ان حقوق کو ادا کیا جائے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جائے غرض (۱) اس دنیوی زندگی، دنیوی حیات کا نظام اور (۲) اُخروی مسرتوں کا حصول اور اُخروی فلاح ہر دو کا مدار حق و انصاف اور خداشناسی پر ہے جب تک معرفت نہ ہو اور جب تک اس معرفت کے نتیجہ میں نظام حیات کو صحیح اور منصفانہ اصول پر قائم نہ کیا جائے اس وقت تک نہ اُخروی زندگی کی خوشیاں حاصل ہو سکتی ہیں اور نہ یہ دنیا جنت بن سکتی ہے ۔ یہاں بھی عذا ب اور دکھ اور رنج ہے اور تکلیف ہو گی اور وہاں بھی اللہ ہی حافظ ہے۔
۶۔ اس لئے انصاف اور خدا ترسی کو مضبوطی سے قائم کرنے کے لئے ایسا قانون چاہئے جو عدل و انصاف کی باریک راہیں بتلاتا ہو اور عرفان و معرفت الٰہی کے حقائق پوری صحت اور وضاحت سے بیان کرتا ہو۔
۷۔ اس قانون کا بنانے والا وہ ہونا چاہئے جو سہو و خطا اور ظلم و تعدی سے بالکل پاک ہو اور جو اپنی ذات میں صاحب عظمت اور صاحبِ عزت و احترام ہو تا کہ اس کی عظمت اور عزت کی وجہ سے ایک عقلمند انسان بڑی بشاشت سے اس قانون کو قبول کرے۔ غرض یہ قانون ایسا ہونا چاہئے جو عدل کے تمام تقاضے، جو انصاف کے تمام تقاضے، جو حقوق اللہ کی ادائیگی کے تمام تقاضے اور جو حقوق العباد کی ادائیگی کے تمام تقاضے پورے کرنے والا ہو اور پھر بنا بھی اس ہستی کی طرف سے ہو جو انسان کی نگاہ میں سہو و خطا اور ظلم و تعدی سے پاک ہو اور اس کی اپنی عزت اور عظمت اور جلال اتنا ہو کہ اس کے نتیجہ میں انسان اس کے بنائے ہوئے قانون کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو۔
۸۔ آٹھویں چیز اس آیت میں جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی ہستی اللہ تعالیٰ ہی کی ہستی ہے جو تمام عظمتوں کا مالک اور تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے۔ جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک اور منزہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور شریعت ہی انسان کو ایک کامل اور منصفانہ نظام معیشت اور نظام اقتصادیات عطا کر سکتی ہے۔ رَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْن اور دنیوی مال و متاع جمع کرنے کے لئے جو نظام دنیوی لوگ بناتے ہیں وہ اس کے مقابلہ میںکوئی حقیقت نہیں رکھتے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ انسان کو تسلی دلانے والے نہیں ہیں۔ پس رَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْن میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اعلان کیا کہ اسلام کا نظام سب دیگر نظاموں سے ارفع اور اعلیٰ ہے جس میں سب انسانوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے اور کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہوتی اس کے برعکس دنیا کے سب دوسرے نظام ناقص اور انسانی حقوق کی حفاظت سے قاصر اور کسی نہ کسی رنگ میں ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہیں۔
ہم مختلف اقتصادی نظاموں پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اصولی طور پر دو قسم کے نظام ہیں ایک نظام وہ ہیں جن کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی ہے اور ایک نظام وہ ہیں جن کی بنیاد لا مذہبیت پر رکھی گئی ہے جن نظاموں کی بنیاد بظاہر مذہب پر رکھی گئی ہے وہ بھی ظالمانہ ہیں۔ اس وقت مَیںکسی مذہب کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن ایک مذہب جس کے ماننے والے اس وقت دنیا میں بڑا ہی اثر اور رسوخ رکھتے ہیں اس میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص تیرے مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اس کا مال غصب کرنا خواہ وہ کسی ذریعہ سے ہو، کسی حیلہ سے ہو جائز ہے یہ ان کا اقتصادی اصول ہے۔ اقتصادیات میں پیداوار کے مسائل ہیں کہ چیزیں کس طرح پیدا کی جا سکتی ہیں یا تقسیم پیداوار کے مسائل ہیں کہ آگے ان چیزوں کو کس طرح سب میں تقسیم کرنا چاہئے اس مذکورہ مذہب کے اقتصادی نظام کی بنیاد اس بات پر ہے کہ جو تیرے مذہب کو مانتا نہیں اس کا مال کھانا جائز ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے مذاہب ہیں وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور شرمندگی کے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا یہ اصول ہے کہ جس شخص کا ہمارے مذہب کے ساتھ تعلق نہیں یا جس شخص کا ہمارے مذہب کے اس حصہ سے تعلق ہے جو ہمارے نزدیک بڑا ذلیل اور حقیر ہے اور باوجودیکہ اس کا تعلق ہمارے مذہب کے ساتھ ہے ہمارے مذہب نے اس کے کوئی حقوق تسلیم نہیں کئے۔ ان کا مال کھا لینا جائز ہے۔ غرض اقتصادی نظام کی بنیاد اسلام سے باہر چاہے مذہب پر ہو تب بھی ہمیں ظالمانہ نظر آتی ہے۔ کم از کم وہ ایسی نظر نہیں آتی جو تمام انسانوں کے اقتصادی حقوق کی حفاظت کرنے والی ہو۔
دوسری قسم کا اقتصادی نظام ہمیں وہ نظر آتا ہے جو لا مذہبیت کی بنیاد پر قائم ہے اور اس کی دو نمایاں شکلیں ہمارے سامنے ہیں ایک کو ہم ’’سرمایہ داری‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ایک کو ہم ’’اشتراکیت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ دونوں اقتصادی نظام لا مذہبیت کی بنیادوں پر قائم ہیں یعنی ان کا یہ دعویٰ نہیں کہ ان اصولوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت دنیا میں رائج کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا اس سے کیا تعلق۔ ہم کماتے ہیں اور پیدا کرتے ہیں ۔ہم جس طرح چاہیں پیداوار کو آگے تقسیم کریں ’’اور جس طرح چاہیں‘‘ کی آگے جو شکلیں نکلتی ہیں وہ سب ظالمانہ ہوتی ہیں۔
اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے ایک فقرہ رَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْن میں بڑی وضاحت سے یہ اعلان کیا کہ جو اقتصادی نظام اسلام دنیا کے سامنے رکھ رہا ہے دنیا کا کوئی اور اقتصادی نظام نفع رسانی میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ویسے اس نظام کے ماننے والے اپنے دل کی خواہشات کے مطابق اس کی خوبیاں بیان کرتے رہیں تو اور بات ہے لیکن ٹھوس دلائل کے ساتھ کوئی نظام اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا کہ اس نے انسانیت کے حقوق کی اسی طرح حفاظت کی ہے جس طرح اسلام نے تمام انسانوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے۔
پس صرف یہ بات نہیں کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا اقتصادی نظام بہترین ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ جو نظام قرآن کریم کو نازل کرنے والے خدا کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ دنیا کی طرف آیا ہے وہی انسان کے لئے اقتصادیات کا بہترین نظام ہے اور وہ تمام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے کسی کی حق تلفی نہیں ہونے دیتا اور اسلام کا یہ دعویٰ اس لئے ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام عبادت کے ان گیارہ تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے جن کی طرف مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
آج تو تمہید ہی بیان ہو سکی ہے آگے مَیں بیان کروں گا انشاء اللہ کہ اسلام کا اقتصادی نظام عبادت کے گیارہ تقاضوں کو کس طرح پورا کرتا ہے اور اگر کسی تقاضا کے متعلق کوئی بنیادی بات نظر آتی ہے تو قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ منکر اسلام جو کام کرتا ہے، جو دعویٰ کرتا ہے، جو اعلان کرتا ہے، جو بات کرتا ہے وہ حقیقی عبادت کی خصوصیتوں اور اس کے تقاضوں کے خلاف ہے اس لئے وہ اسلام کے اقتصادی نظام کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍جولائی۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۵)
٭…٭…٭…٭

ہر فرد کی قوت اور استعداد کو کمال تک پہنچانے کیلئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسے میسر ہونی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍جون۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ اسلام کا اقتصادی نظام عبادت کے تمام تقاضوںکو پورا کرتا ہے۔
٭ عبادت اور پرستش سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اَور کی نہیں کرنی۔
٭ قوتوں اور استعدادوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔
٭ اسلام کے اقتصادی نظام میں کوئی تفریق نہیں ہوگی۔
٭ خالص اسلام کا اقتصادی نظام قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :۔
میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جو اقتصادی نظام وہ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے وہی ارفع اور برتر نظام ہے اور یہ اس لئے کہ اسلام کا اقتصادی نظام عبادت کے ان تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے جن کی طرف ہمیں اسلامی تعلیم متوجہ کرتی ہے۔
اگر ہم زیادہ تفصیل سے غور کریں اور اس مضمون پر سوچیں کہ عبادت کے سارے تقاضوں کا اسلام کے اقتصادی نظام سے کیا تعلق ہے تو ایک عظیم مضمون ہمارے سامنے آتا ہے۔
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں عبادت کے جس پہلے تقاضا کی طرف اشارہ کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ عبادت اور پرستش سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی نہیں کرنی جس کے معنے اسلامی تعلیم کی رو سے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے منزہ سمجھنا۔ دنیا کی تاریخ اور دنیا کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اس کے معنے یہ ہونگے کہ کسی بت کو خدا کا شریک نہیں ٹھہرانا۔ کسی انسان کو خدا کا شریک نہیں بنانا چاند اور سورج اور پیپل وغیرہ کے درختوں اور سانپوں اور پتھروں کو بھی خدا کا شریک نہیں بنانا نہ ہی اپنے نفس اپنی تدبیر اور اپنے مکر و فریب کو خدا تعالیٰ کا شریک بنانا ہے۔
اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات کو خالصۃً لِلّٰہ قرار دینا یعنی ان صفات کو بجز ذات باری کسی اور میں قرار نہ دینا اور بظاہر جو ربوبیت کرنے والے ربّ اور فیض پہنچانے والے وجود ہیں انہیں بھی حقیقی رب تصور نہیں کرنا بلکہ ایسے وجودوں کو جو حقیقتاً ایک حد تک اس اسباب کی دنیا میں دوسروں کو فیض پہنچانے والے اور ان کی ربوبیت کرنے والے ہیں ان سب کو اللہ کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔ پس نہ ذات باری میں اور نہ صفات باری میں کسی کو شریک قرار دینا اور اس دنیا کو صفات باری کے جلوے ہی سمجھنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے کہ جو صفات اشیا ہیں وہ آثار صفات باری ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہر چیز کے اندر جو خصوصیت جو صفت جو اثر پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی نہ کسی صفت کا جلوہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کا نام سنت اللہ یا قانون قدرت رکھا ہے۔
پس نہ ذات باری میں نہ صفات باری میں کسی دوسرے کو شریک قرار دینا ہے۔ یہ عبادت کا پہلا مطالبہ تھا ویسے اسلام کے ہر حکم میں عبادت کے ان تمام حقیقی تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اسلام کا اقتصادی نظام بھی عبادت کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا اقتصادی نظام صفات باری کی بنیادوں پر اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ ان صفات حسنہ کا اظہار بھی ہو اور ان میں کسی اور کے شریک ہونے کو برداشت بھی نہ کیا جائے۔ غرض خالصۃً صفات باری پر اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد ہے میں چند مثالیں دے کر اس مضمون کو واضح کروں گا۔
جیسا کہ میں نے کہا ہے ساری صفات باری اسلام کے اقتصادی نظام میں جلوہ گر ہیں لیکن پہلی بڑی صفت جو اس نظام میں ہمیں جلوہ گر نظر آتی ہے جس کے اوپر میں سمجھتا ہوں کہ سارے نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کی صفت ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت رب کے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر شئی اور ہر جاندار کے اندر مختلف قوتیں اور استعدادیں پیدا کیں اور ہر شخص کے اندر ان قوتوں اور استعدادوں کی حد بندی کی پھر یہ کہ ہر قوت اور استعداد کی نشوونما کے سامان پیدا کئے ہرقوت کے لئے وہ چیز پیدا کر دی کہ جو اسے میسر آجائے تو وہ قوت اپنے کمال کو پہنچ جائے اس کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ ساری دنیا انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ ہر فرد بشر کی تمام قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کو اس کے کمال تک پہنچایا جا سکے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اس کی قوت یا استعداد کو نشوونما تک پہنچانے کے سامان میسر نہیں تو وہ شخص مظلوم ہے اور اس کا حق مارا گیا ہے کیونکہ اللہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ نے جو سامان اور جو اسباب اس کی قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشوونما کے لئے اور ان کے کمال تک پہنچانے کے لئے پیدا کئے تھے وہ اسے حاصل نہیںہوئے۔
اسلام کا اقتصادی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر فرد بشر کو ہر وہ چیز میسر آجاتی ہے جو اس کی قوتوں اور استعدادوں کے صحیح نشوونما کے لئے اور انہیں کمال تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے اور اس طرح اس کا حق مارا نہیں جاتا اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ قوتوں کی غلط نشوونما کے لئے جس جس چیز کا انسانی ذہن یا اس کا معاشرہ مطالبہ کرتا ہے اسلام کے اقتصادی نظام میں وہ اسے میسر نہیں آئے گی کیونکہ وہ چیز اس کے لئے پیدا ہی نہیں کی گئی وہ اس کا حق ہی نہیں بنتا اس غرض کے لئے وہ قوت یا وہ چیز پیدا نہیں کی گئی ہے لیکن اس کی تفصیل میں میں بعد میں جائوں گا۔
غرض اسلام کا اقتصادی نظام یہ نہیں کہتا کہ ضروریات زندگی کے لئے کم سے کم جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہمیں مہیا ہونی چاہئیں۔ اسلام کا اقتصادی نظام یہ کہتا ہے کہ ہر فرد کی قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما اور انہیں کمال تک پہنچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسے میسر ہونی چاہئے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت ہر دو میں اس چیز کا عام طور پر خیال نہیں رکھا گیا لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ ان قوتوں اور استعدادوں کی حفاظت کرنے اور انہیں انحطاط سے بچانے کے سامان بھی اللہ نے پیدا کئے ہیں اس لئے ہر وہ چیز جو اس ارتقا کے راستے میں روک ہے اس نشوونما کے راستے میں روک بنتی ہے اسے دور کرنے کا انتظام بھی اسلام کے پیش کردہ اقتصادی نظام میں موجود ہے مثلاً بعض دفعہ ہماری بیماری روک بن جاتی ہے۔ اگرچہ آدمی سنت اللہ کو نظر انداز کرتے ہوئے یا غفلت کی وجہ سے یا بعض دفعہ جان بوجھ کر خدا کے قانون کو توڑتے ہوئے وہ خود بیمار ہوتا ہے اس کے باوجود اس غافل انسان کی صحت کی ذمہ داری اسلام کے اقتصادی نظام نے اپنے ذمہ لی ہے صرف کپڑا اور روٹی اور مکان وغیرہ جو ہیں ان کو ہی ضرورت نہیں سمجھا گیا بلکہ ہر وہ چیز جس کی انسانی قوتوں اور استعدادوں کی حفاظت اور نشوونما اور ان کو کمال تک پہنچانے کیلئے ضرورت ہے اسلام کہتا ہے کہ وہ چیز مہیا ہونی چاہئے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں (میں ایک ہی مثال دوں گا ورنہ یہ مضمون بڑا لمبا ہو جائے گا) اور ان کے ذہنی نشوونما میں گندی سوسائٹی اور گندا ماحول روک بن جاتا ہے اسلام کا نظام (اسے آپ اقتصادی نظام یا معاشرتی نظام کہہ لیں کیونکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں) یہ کہتا ہے کہ اس کی قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما میں بری صحبت روک بن رہی ہے اس لئے یہ روک دور کرو۔ اللہ تعالیٰ نے سارے معاشرے کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی نگرانی کرنے والے ہوں۔
چھوٹی جماعتوں میں عام طور پر زیادہ خرچ نہیں ہوتا ماں باپ اتنا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن بسا اوقات ایک بچے کو پوری غذا میسر نہیں آرہی ہوتی لیکن وہ بڑے اچھے نمبر لے کر دسویں جماعت پاس کر لیتا ہے اس کا دماغی رجحان ڈاکٹر بننے کا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ باوجود بچے کی طبیعت کے اس رجحان کے اکثر والدین اس کو آرٹس کی طرف کیوں لے جاتے ہیں میرے ذاتی علم میں بعض ایسی مثالیں ہیں کہ ماں باپ نے یہ سوچا کہ بچہ کا رجحان تو میڈیکل لائن اختیار کرنے کا ہے جس کے بعد وہ میڈیکل کالج میں داخل ہو سکتا ہے لیکن اگر سائنس کے مضمون لے تو خرچ زیادہ آئے گا اس لئے اس کو آرٹس کی طرف لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ظلم ہے اسے ذ ہنی طور پر ڈاکٹر بننے کے لئے پیدا کیا گیا تھا اسے وہ تمام سہولتیں میسر آنی چاہئیں جن کی بناء پر وہ ڈاکٹر بن سکے۔
پھر میں نے کالج میں دیکھا ہے بعض لڑکے بڑے ذہین ہوتے ہیں بڑے محنتی ہوتے ہیں لیکن انہیں کھانے پینے کے لئے جو میسر آتا ہے اس سے وہ اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اسلام کا اقتصادی نظام ہمیں یہ کہتا ہے کہ تمہارا یہ فرض ہے کہ تم دیکھو کہ بچے کو صرف زندہ رہنے کے لئے غذا نہ ملے بلکہ اسے اس کے ذہنی رجحان کے مطابق غذا دو تا وہ صحت مند ڈاکٹر بنے۔ جس کے لئے دوسرے مضمونوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور اچھے ذہن کو اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے محنت بہر حال زیادہ کرنی پڑتی ہے اس واسطے دماغی کام جتنا بوجھ اس پر ڈال رہا ہے اسے اسی قسم کی غذا ملنی چاہئے ایک شخص مثلاً سارا دن ہل چلاتا ہے وہ اپنی طبیعت اور جسمانی کام کی وجہ سے زیادہ آٹا استعمال کر کے اپنی صحت کو برقرار رکھتا ہے لیکن کالج کے ایک طالب علم کو جو کلاس کے علاوہ دس پندرہ گھنٹے کام کر رہا ہو اس کو وہی آٹا دے دیں تو وہ اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا بلکہ وہ شاید اور زیادہ بیمار ہو جائے کیونکہ اسے اور قسم کی غذا کی ضرورت ہے۔ پس اسلام کا اقتصادی نظام یہ کہتا ہے کہ ایسے طالب علم کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا ملنی چاہئے۔
میں ایک دفعہ اپنے کالج کے دفتر سے گھر کی طرف جا رہا تھا راستے میں مجھے ایک طالب علم ملا جس کے متعلق مجھے علم تھا کہ وہ بڑا محنتی اور ہوشیار طالب علم ہے کوئی مہینے ڈیڑھ تک یونیورسٹی کے امتحان ہونے والے تھے میں نے دیکھا کہ اس کا رنگ زرد اور منہ پر دھبے پڑے ہوئے ہیں بیمار شکل ہے یہ دیکھ کر مجھے بڑا سخت صدمہ پہنچا کہ میں نے اس کی صحت کا خیال نہیں رکھا ویسے وہ عام کھانا تو کھا رہا تھا لیکن ایسے کھانے پر اسلام کا اقتصادی نظام نہیں ٹھہرتا۔ میں نے سوچا کہ میں نے ظلم کیا کشتی رانی کرنے والے طلبہ کو تو میں سویابین دیتا ہوں لیکن جو دن رات محنت کرنے والے طلبہ ہیں ان کو میں سویابین نہیں دیتا میں نے تو بڑی غلطی کی ۔ چنانچہ اس کو تو میں نے کہا کہ مجھ سے سویابین لے جا کر استعمال کرنا (لیکن بعد میں میں نے تمام محنتی ذہین طلبہ کو سویابین دینے کا انتظام کر دیا) پہلے اسے مناسب حال غذا نہیں مل رہی تھی اب جب اسے مناسب حال غذا ملی تو پندرہ دن کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کے دھبے دور ہو گئے چہرے پر سرخی آگئی آنکھوں میں زندگی اور توانائی کی علامات نظر آنے لگیں اور وہ امتحان میں بڑی اچھی طرح سے پاس ہوا اچھے نمبر تو وہ ویسے بھی لے لیتا لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ساری عمر کے لئے وہ بیمار پڑ جاتا کئی ایسے عوارض اسے لاحق ہو جاتے جن سے چھٹکارا پانا اس کے لئے ناممکن ہو جاتا۔
پس اسلام کا اقتصادی نظام صرف یہ نہیں کہتا کہ ایسے طالب علم کو صرف زندہ رکھنا ہے اسلام کا اقتصادی نظام یہ کہتا ہے کہ ایسے طالب علم کی خدا داد قوت اور استعداد کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے جو بھی اس کی ضرورت ہے وہ پوری کرنی ہے پھر آگے جا کر اس کے لئے یہ انتظام بھی ہونا چاہئے کہ وہ میڈیکل کالج میں داخل بھی ہو سکے پھر یہ انتظام بھی ہونا چاہئے کہ بعد میں Research میں اگر اس کا دماغ چلتا ہے تو اس کی انتہا تک پہنچ جائے۔
خد اتعالیٰ نے اس دنیا میں قوموں کے درمیان مقابلے اور مسابقت کی روح پیدا کی ہے ان میں سے بعض مقابلے جائز اور اچھے ہیں بعض بُرے بھی ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے لیکن اچھی باتوں میں ہم نے بہر حال مقابلہ کرنا ہے جب تک یہ انتظام نہ کیا جائے اس وقت تک ہم ان قوموں سے جو دنیا کے ہر میدان میں اس وقت ہم سے آگے نکلی ہوئی ہیں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسلام کے اقتصادی نظام پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم ان سے مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ جن برائیوں میں وہ پھنسے ہوئے ہیں اسلام کا اقتصادی نظام ہمارے نوجوانوں کو ان سے محفوظ رکھے گا۔
غرض اسلام کا اقتصادی نظام اس بنیاد پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اس کی قوتوں اور استعدادوں کو بھی پیدا کیا ان قوتوں اور استعدادوں کے مطابق سامان بھی پیدا کئے اور پھر ان کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے سامان بھی پیدا کئے۔ اسلام کا اقتصادی نظام صفات باری کے پر تو کے نیچے ہر انسان کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نے تو کوئی چیز پیدا نہیں کی پھر ہمیں یہ بتایا کہ چونکہ ایک طرف ہر ایک کو قوت دی اور اس قوت کی صحیح نشوونما کے لئے ہر قسم کے سامان دئیے تو دوسری طرف مختلف انسانوں کو مختلف قوتیں اور استعدادیں دے کر ایک تفاوت پیدا کر دیا اور یہ تفاوت ابتلا اور امتحان کیلئے پیدا کیا۔ اسلام کے نزدیک کسی کا مالدار ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے نہ کسی کا غریب ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے ناراض ہے بلکہ ہر دو کو اللہ تعالیٰ نے ایک امتحان اور ابتلا میں ڈالا اگر وہ اس پر پورے اترے تو ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی جنت کے سامان پیدا کر دئیے ہر قسم کی رضائے الٰہی کے سامان یعنی اس دنیا کی زیادہ سے زیادہ نشوونما اور ارتقا اور زیادہ سے زیادہ قرب الٰہی کے حصول کے سامان پیدا کر دئیے۔
اگر یہ تفاوت نہ ہوتا ایک شخص کے اندر انتظامی قابلیت اور تجارتی میلان طبع نہ ہوتا تجارت کی سوجھ بوجھ نہ ہوتی تو وہ کروڑ پتی نہ بنتا اس کو کہا کہ تو اپنی قوت کو نشوونما دے اور جائز ذرائع سے جتنا کما سکتا ہے کما۔ جب اس نے کما لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا کہ جو ہم نے تمہیں کمانے کی قوت دی تھی اور تجارت کی سوجھ بوجھ عطا کی تھی اس کے نتیجہ میں تم نے پانچ کروڑ روپیہ کما لیا لیکن اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ پانچ کروڑ تمہارا نہیں کیونکہ اس میں سے تین کروڑ روپیہ وہ ہے جس کا تعلق تیرے بھائیوں کے ساتھ ہے وہ اس سے فائدہ حاصل کریں گے اس واسطے 3/5ان کو دے دے۔
تقسیم پیداوار کے جو اصول ہیں وہ اسی بنیاد پر بنائے گئے ہیں کہ ہر انسان کی ضرورت (اس وسیع معنے میں جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے) پوری ہونی چاہئے جائز ضرورت ہو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی چیز نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے آثار نہ ہوں اس میں خالص اطاعت ہو اور جتنی ضرورتیں ہیں روحانی جسمانی وغیرہ ان کے سامان ہوں (آگے اس کی بڑی لمبی تفصیل ہے) لیکن ہر ضرورت پوری ہونی چاہئے۔ اگر اس کی قوت اور استعداد ایسی بنائی کہ وہ اس معاشرے کو حسین بنانے میں تو کامیاب ہوا لیکن اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنے Dependents (زیر کفالت افراد) کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو خدا تعالیٰ نے اسے کہا کہ تم گھبرائو نہیں یہ تفاوت جو آپس میں رکھا گیا ہے اس کے نتیجہ میں تیری ضرورت کی اشیا ہم نے دوسرے کے گھر میں اس کی قوتوں کی وجہ سے بھیج دی ہیں لیکن سے یہ حکم دیا ہے کہ وہ تیرے گھر واپس کرے۔ پس اس طرح ایک امن کا معاشرہ قائم ہو جاتا ہے۔
پھر رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کی صفت کے نتیجہ میں جو اقتصادی نظام قائم ہوا اس میں نسل کا یا قوم کا یا مذہب کا کوئی دخل نہیں رکھا گیا کیونکہ ربوبیت عالمین کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مخلوق کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ اس مخلوق میں سے مثلاً کوئی ابوجہل بن جاتا ہے ۔ پس اس کی اقتصادی ضرورتیں تو بہر حال پوری ہونی چاہئیں کیونکہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ نے اسے پیدا کیا اور اس کی ضرورتوں کو بھی پیدا کیا اور اس کی قوتوں اور طاقتوں کو بھی پیدا کیا وہ اس سے حساب لے گا بعض دفعہ اس دنیا میں بھی لیتا ہے اور بہتوں کا اس دنیا میں حساب نہیں لیتا اس دنیا میں لے لیتا ہے لیکن ان کے ساتھ جو سلوک ہے (اس وقت میں اقتصادی سلوک کی بات کر رہا ہوں) وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کی صفت کو قائم کرتے ہوئے ہونا چاہئے۔ ربوبیت عالمین کا جلوہ اس کے اندر نظر آنا چاہئے ۔ ایک شخص اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے، ایک دوسرا ہے جو بتوں کی پرستش کرتا ہے ایک دہریہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ مجھ سے دور جا رہا ہے توخود نقصان اٹھائے گا میں رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ہوں اگر تم میرے بندے ہو تو میرے قائم کردہ اقتصادی نظام پر تمہیں عمل کرنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جب میں نے اس گالیاں دینے والے انسان کو پیدا کیا اس کی قوتوں اور طاقتوں کو بھی میں نے ہی پیدا کیا اور ان کی نشوونما کے تمام جسمانی اسباب بھی میں نے پیدا کئے بعض کو اس نے ٹھکرا دیا میری طرف سے اس کو سزا ملے گی لیکن جس قسم کے نشوونما کے سامان تم پیدا کر سکتے ہو ان میں روحانی بھی آجاتے ہیں یعنی اس کو تبلیغ اور وعظ و نصیحت کرنا اخلاقی بھی آجاتے ہیں کہ اس کو سمجھانا کہ یہ چیزیں اخلاق کے لئے بری ہیں اور جسمانی بھی آجاتے ہیں کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا۔ اگر آج ابوجہل کے کسی مثیل کے ہاں یا بت پرست کے ہاں یا ہندو کے ہاں بچہ پیدا ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھا ڈاکٹر بننے کی طاقت دی ہو اور اسی قسم کا ایک اور بچہ اعلیٰ قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ ایک مسلمان کے گھر پیدا ہو تو اسلام کا اقتصادی نظام یہ کہتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرنا بلکہ ہر دو کی قوتوں کی نشوونما کے سامان مہیا کرنے ہیں ان سے تعاون کرنا ہے ان کی مدد کرنی ہے اور پوری کوشش کرنی ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو بڑھاتے چلے جائیں اور ممکن ہے اپنی اپنی Linesمیں اپنی اپنی شق میں وہ سب سے اچھے اور چوٹی کے ڈاکٹر بن جائیں۔ ایک بت پرست کا بیٹا ہو گا ایک خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے کا بیٹا اور خود بھی توحید باری پر قائم ہو گا لیکن جہاں تک اقتصادی تعلقات کا سوال ہے اسلام یہ کہتا ہے کہ ان تعلقات کو رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ بعض مذاہب یا بعض فرقے دینے کی بجائے حقوق غصب کرنے کی طرف بھی مائل ہو جاتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جو نظام صفت ربوبیت کے جلوے دکھانے کے لئے قائم کیا گیا ہے اس میں یہ بات نہیں برداشت کی جا سکتی کہ چونکہ عقیدہ ہم سے مختلف ہے اس لئے ان کو لوٹ لو۔ غرض دنیا کے خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو اسلام کا اقتصادی نظام جہاں جاری ہو گا وہاں کوئی تفریق نہیں ہو گی ایک ہی معیار ہو گا اور وہ یہ کہ جتنی طاقت رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ نے اس کو دی ہے جتنی استعداد اس کو عطا کی گئی ہے اس وقت اور استعداد کی صحیح اور وپوری نشوونما کا سامان ہم نے مہیا کرنا ہے۔
غرض اسلام کا اقتصادی نظام ان چار بنیادی صفات باری پر قائم ہے رَبّ، رَحْمٰن، رَحِیْمِ اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ لیکن نمایاں ربوبیت عالمین ہے ۔ ربوبیت عالمین کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جس کے پاس زائد چلا گیا وہ آگے دوسروں کو کیوں دے؟ دوسرے کا حق کیوں تسلیم کرے؟ اس لئے فرمایا کہ وہ مالک ہے حقیقی ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے غیر اللہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ پس چونکہ وہ مالک ہے اس واسطے مالک نے جو رب ہے اپنی مرضی اور علم کامل سے یہ حکم دیا ہے کہ کس کو دو کس کو نہ دو۔ اور اگر دو تو کتنا دو ۔ ایک کروڑ پتی خدا رسیدہ مسلمان صبح و شام استغفار کرتا ہے دعائیں کرتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ قرآن کریم نے اس کے مال کی تقسیم کے کون سے راستے بیان کئے ہیں تا کہ میں اس کے مطابق تقسیم کروں ۔ جتنا حق مجھے دیا ہے وہ حق میں لے لوں اور جو دوسروں کا حق ہے اسے میں غضب کرنے والا نہ بنوں پس جو مالک ہے وہی حق قائم کر سکتا ہے یعنی ربّ نے پید اکیا پھر وہ مالک ہے قوتیں اور استعدادیں بھی اس کی ملکیت ہیں اور ان کی نشوونما کے سامان بھی اسی کی ملکیت ہیں اور اس نے بتایا ہے کہ کتنا کسی کو دینا ہے اور ربوبیت عالمین کی و جہ سے یہ اعلان کیا کہ ہر شخص کی ضرورت اس حد تک پوری کرو کہ اس کی نشوونما میں کوئی نقص پیدا نہ ہو اور اس کی یہ نشوونما اپنے کمال کو پہنچ جائے پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ زید سے لے کر بکر کو دینے کا کیا حق ہے اور کیوں ایسا کیا جائے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت یہ بتائی کہ میں مالک ہوں تمہاری ملکیت ہی نہیں۔ جب ہر چیز میری ہے تو جس طرح میں کہوں اسی طرح تمہیں خرچ کرنی چاہئے اور جو حقوق میں قائم کروں وہی حقوق قائم ہوں گے کسی اور کا حق نہیں کہ وہ حق کو قائم کرے کیونکہ وہ مالک نہیں اسے اختیار ہی نہیں ہے اس کی ملکیت کا دعویٰ ہی غلط ہے۔
حقوق کے قیام میں پھر آگے دو چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں دراصل یہ امہات الصفات ہی ہیں جن کے گرد سارا اقتصادی نظام چکر لگا رہا ہے۔ ربوبیت اور رحمانیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک تو قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشوونما کے سامان پیدا کئے اور کسی حق یا محنت کے بغیر اپنی طرف سے دے دیا ابھی انسان پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے یہ سامان پیدا کر دئیے اور پیداوار یعنی جو اللہ تعالیٰ نے خلق کیا ہے اس کو آگے دو حصوں میں تقسیم کر دیا پہلا حصہ رحیمیت کے نتیجہ میں ملتا ہے کہ جتنی مزدوریاں اور اجرتیں ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو حقوق پیدا ہوتے ہیں وہ رحیمیت کے نتیجہ میں ہوتے ہیں یعنی کوئی جو بھی کام کرتا ہے اسے اس کام کا بدلہ ملنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اقتصادی نظام میں بھی کہا ہے کہ جتنا جتنا کسی نے کام کیا اتنا اتنا اسے ملنا چاہئے اور وقت پر ملنا چاہئے اور ایسے رنگ میں ملنا چاہئے کہ دینے والے کو یہ خیال نہ ہو کہ گویا میں احسان کر کے دے رہا ہوں اور اس کو ستانے اور تنگ کرنے لگ جائے یہ اس کا حق ہے اسی طرح جس طرح اگر وہ کسی کو قرض دے اور جب واپس لینے آئے تو اگلا کہے کہ دو دو پیسے کر کے لے لیا کرو کچھ لوگ قرض لے کر ایسا کرتے ہیں کہ احسان جتاتے ہیں کہ میں نے تم سے پانچ ہزار روپیہ لیا تھا دیکھو میں کتنا اچھا اور بااخلاق انسان ہوں میں نے تیرے پیسے مارے نہیں ہیں اور وہ واپس کر دئیے ہیں پس بعض لوگ اس طرح بھی کرتے ہیں۔
غرض رحیمیت کے جلوے بھی ہمیں اسلام کے اقتصادی نظام میں نظر آرہے ہیں اور آگے اسلام نے اس کی بڑی تفصیل بتائی ہے کہ مزدور کو وقت پر اور پوری مزدوری دو اور ان دونوں باتوں کو بنیادی طور پر لازمی قرار دیا ہے لیکن چونکہ ربوبیت عالمین کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ میں بعض نے امیر بن جانا تھا اور بعض نے غریب اس لئے خالی رحیمیت کے اوپر پیداوار کی تقسیم کو نہیں چھوڑا کہ جتنا کوئی کما لیتا ہے کما لے بلکہ ساتھ مالکیت کو بھی لگایا ہے کہ اگر اپنی ضرورت سے وہ کم کمائے یعنی اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ اس کے بچوں وغیرہ یا خاندان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سو اکائیاں (سو یونٹ) درکار ہوں وہ بڑی محنت کرتا ہے ۔ اس کے بچے بھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتے اور ان کا خرچ بھی صحیح ہے لیکن ان کو ساٹھ اکائیاں ملتی ہیں یعنی اس کی ضرورت میں سے ۴۰ فیصد کم رہ جاتا ہے تو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ مسلمان کو کہتا ہے کہ میں مالک ہونے کی حیثیت سے تمہیں کہتا ہوں کہ اس کے لئے میں نے جو چیز پیدا کی تھی اس میں سے اسے صرف ۶۰ فیصد ملا ہے اسے ۴۰ فیصد ابھی نہیں ملا یہ ۴۰ فیصد اسے مہیا کرو جو تمہیں امانتاً مل چکا ہے۔
پس اسلام کا اقتصادی نظام سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام ہر دو سے بالکل مختلف ہے ایک تو مثلاً یہی کہ جو نظام رَبُّ الَعٰلَمِیْنَ کی صفت کے جلوے سمیٹے ہوئے ہے سرمایہ داری کا نظام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ سرمایہ داری کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جن اقوام کو موقعہ ملا انہوں نے دوسری اقوام کو لوٹا۔ خود امیر بنے دوسروں کے حقوق غصب کئے اور جو اپنے حقوق نہیں تھے وہ سمجھے کہ یہ ہمارے حقوق ہیں اور وہ پورے ہونے چاہئیں افراد ہی کو غریب نہیں کیا قوموں کو بھی غریب کر دیا دوسری طرف اشتراکی نظام ہے اس میں (سرمایہ داری میں بھی بعض خوبیاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بنیادی حکم دیا ہے کہ جس کی برائیاں زیادہ ہوں وہ ترک کر دینے کے قابل ہے) بھی کچھ خوبیاں ہیں لیکن اسلام کے اقتصادی نظام سے یہ اشتراکی نظام بھی مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسلام تو ہے ہی خوبی ہی خوبی، خیر ہی خیر اور حسن ہی حسن اسلام کے اقتصادی نظام پر کوئی بدنما داغ نہیں ہے کیونکہ یہ ہر انسان کے حقوق بشمولیت اقتصادی حقوق کی حفاظت کرنے والا ہے لیکن جب روس میں اشتراکی نظام قائم ہوا تو بڑے بڑے سرمایہ داروں کے حقوق نظر انداز کر دئیے گئے بجائے اس کے کہ اس ملک کے دوسرے شہری افراد جن کے پچاس فیصد حقوق پورے ہو رہے تھے اور پچاس فیصد حقوق تلف ہو رہے تھے اور یہ بڑے سرمایہ دار جن کے پاس ان کے اصل حقوق سے زیادہ مال موجود تھا ان سب سے یکساں سلوک کیا جاتا اور سرمایہ داروں سے صرف اتنا کہا جاتا کہ یہ زائد مال تمہارا نہیں ہے یہ لائو اور غریبوں کے حقوق کو پورا کرو ان سے ا موال ہی نہیں چھینے بلکہ زندگیاں بھی چھین لیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو قوت اور استعداد ان کو دی تھی وہ بھی ہلاک کر دی گئی۔
خدا کی تقدیر ہی چلتی ہے لیکن یہ کبھی کسی شکل میں سامنے آتی ہے اور کبھی کسی شکل میں کبھی اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کے حسن کے اظہار کے لئے اپنی تقدیر کو دنیا میں ظاہر کرتا ہے کبھی اپنے بندوں کی بدصورتی کے اظہار کے لئے اپنی تقدیر کو ظاہر کرتا ہے ۔ پس ان بندوں کی بدصورتی کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس صورت میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے امیروں کو قتل ہی کر دیا اور ایک بڑا ظالمانہ رویہ اختیار کیا۔
اسلام اس ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا جس طرح اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتا کہ غریب پر ظلم ہو کیونکہ اسلام کی نگاہ میں جیسے ایک امیر خدا کی مخلوق ہے ویسے ہی ایک غریب بھی اس کی مخلوق ہے اور جیسا کہ ایک غریب اس کی مخلوق ہے ویسا ہی ایک امیر بھی اس کی مخلوق ہے ہر دو کے حقوق کی حفاظت اسلام اور اسلام کا اقتصادی نظام کرتا ہے لیکن نہ سرمایہ داری کا عمل اور نہ اشتراکیت کا طریق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہر انسان کے حق کو اس نے قائم کرنا اور ادا کرنا ہے اور نہ اس پر پورا اترتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خداتعالیٰ کی عبودیت کے پہلے تقاضے کا جلوہ ہمارے سامنے اسلام کا اقتصادی نظام یہ پیش کرتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں ہر انسان میں جو قوت اور استعداد پائی جاتی ہے رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ نے اس کی صحیح اور کامل نشوونما کی ذمہ داری لی ہے کوئی دوسرا نظام اس قسم کی ذمہ داری نہیں لیتا۔
پس اسلام کا اقتصادی نظام مستقل حیثیت میں ارفع اور اعلیٰ شکل میں دنیا مین قائم ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے جتنے تقاضے ہیں انہیں پورا کرنے والا ہے۔ پہلا تقاضا یہ تھا کہ صفات باری تعالیٰ کے جلوے نظر آئیں کیونکہ اسلام جو توحید کو قائم کرنے والا ہے اس کے تمام احکام خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ظاہر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے سامان پیدا کرنے والے ہیں اس کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو توحید سے دور لے جانے والی ہو اس کی ہر تعلیم توحید کے قریب لے جانے والی ہے۔
غرض یہ اپنی نوعیت کا اکیلا ہی نظام ہے کوئی دوسرا نظام اس کے مقابلے پر نہیں آسکتا اور بعض لوگ جو اسلام کی خوبیوں سے واقف نہیں وہ بعض دوسرے نظاموں کی خوبیوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں وہ اسلام پر کسی دوسری چیز کا پیوند لگانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر سونے پر پیتل کا پیوند لگایا جائے تو وہ سونے کی قدر و منزلت کو دوبالا نہیں کر سکتا۔ اسلام کا نظام تو ایک سونا ہے دوسرا ہر نظام کوئی تانبا ہے، کوئی پیتل ہے، کوئی لوہا ہے، کوئی کچھ ہے اور کوئی کچھ۔ اسلام کے اقتصادی نظام کے ساتھ اس کا مقابلہ ہی نہیں ۔ پس خالص اقتصادی نظام قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے گیارہ تقاضوں میں سے عبادت کا پہلا تقاضا یہ تھاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اسلام کا اقتصادی نظام اللہ تعالیٰ کی صفات میں غیر اللہ کی شرکت کے تصور سے منزہ ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جوتقاضے انسان پر عائد ہوتے ہیں مثلاً کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائو۔ اسلام کا اقتصادی نظام ان تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے اور صفات باری تعالیٰ کی بنیادوں پر جو اقتصادی نظام قائم کیا جائے اس کا مقابلہ وہ نظام نہیں کر سکتے جن کے قائم کرنے میں معرفت الٰہی اور عرفان صفات باری کا کوئی تعلق نہ ہو اور انسان کی اپنی عقل اور اپنی سمجھ بوجھ پر جن کا انحصار ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

اسلام کا اقتصادی نظام اُمہات الصّفات
پر مبنی اور قائم ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍جون۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ اسلام کا اقتصادی نظام قوموں میں خلل ڈالنے والا مطالبہ قبول نہیں کرتا۔
٭ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے ایک قوت اور دائرہ مقرر کر دیا ہے۔
٭ جدوجہد، مقابلہ اور مجاہدہ کے بغیر صحیح نشوونما نہیں ہو سکتی۔
٭ اسلام کے اقتصادی نظام میں ہر فرد بشر کی جائز ضرورتیں پوری ہونگی۔
٭ قوتوں اور استعدادوں میں فرق ربّ العالمین نے پیدا کیا ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :۔
میں بتا رہاتھا کہ سب مذاہب کی غرض ہی یہ تھی کہ توحید خالص کو قائم کیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ قرآن کریم کی تعلیم کے نتیجہ میں انسان کو وہ روشنی مکمل طور پر عطا کی ہے جو توحید خالص کو قائم کرتی اور واضح کرتی اور اپنے جلوؤں میں انسان کے دل اور دماغ اور روح کو لپیٹ لیتی ہے۔ اسلام کی ساری ہی تعلیم توحید باری کو قائم کرنے والی اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہے اور اسلام کا اقتصادی نظام ان خصوصیات کا ہی حامل ہے۔
میں نے بتایا تھا کہ اسلام کا اقتصادی نظام امہات الصفات (سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی جو چار صفات بیان ہوئی ہیں) پر مبنی اور قائم ہے اور خصوصاً اس میں ہمیں رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے جلوے نظر آتے ہیں۔
ربّ کے معنی ہیں اوّل جس نے انسان کو پیدا کیا۔ دوسرے یہ کہ جس نے ہر شخص کو مختلف قوتیں اور استعدادیں عطا کیں اور تیسرے یہ کہ جس نے ہر انسان کی روحانی، اخلاقی، ذہنی اور جسمانی طاقتوں اور قوتوں کو ایک دائرہ استعداد میں محدود اور مقید کیا۔ جیسا کہ فرمایا :۔
فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا- (الفرقان:۳)
چوتھے معنی رب کے یہ ہیں کہ جس نے ان قوتوں کو زوال سے بچانے اور ہلاکت سے محفوظ رکھنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی انہیں پیدا کیا۔ پانچویں یہ کہ جس نے حقیقی اور کمال نشوونما کے سامان پیدا کئے اور ان صفات کی وجہ سے اسلام کا اقتصادی نظام بہت سے حقوق قائم کرتا ہے۔
وہ پہلا حق یہ قائم کرتا ہے کہ ہر فرد بشر کو اپنے دائرہ استعداد میں اپنی روحانی اخلاقی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو نشوونما تک پہنچانے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ چونکہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ نے اس کیلئے پیدا کی ہے اس لئے یہ اس کا حق ہے کہ وہ چیز اسے ملے بطور حق کے نہ بطور احسان اور صدقہ و خیرات کے۔
دوسری اصولی بات جو ہمارے سامنے آتی ہے یہ ہے کہ ہر ایسا مطالبہ جو انسان کی جسمانی ذہنی اخلاقی اور روحانی قوتوں میں خلل پیدا کرنے والا اور ہلاکت کی طرف لے جانے والا ہے وہ حق نہیں باطل ہے اس لئے رد کر دیا جائے گا مثلاً یورپین اقوام کے عوام بعض دفعہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں شراب اتنی نہیں ملتی جتنی ہم پینا چاہتے ہیںیا سؤر کی چربی امیروں کو میسر ہے اور ہم بیچارے غریب اس سے محروم ہیں۔ یہ فقرہ میں نے اس لئے بولا ہے کہ جب میں آکسفورڈ گیا تو مجھے یہ خیال تھا کہ کہیں کالج والے مجھے غلط قسم کے کھانے نہ دیں چنانچہ میں پہلے ہی دن باورچی خانہ میں گیا جو بہت بڑا تھا اور سب سے بڑے باورچی سے جا کر کہا کہ ایک تو میں گوشت نہیں کھائوں گا کیونکہ وہاں ذبیحہ نہیں ملتا تھا اور دوسرے تم جو مچھلی اور انڈا میرے لئے پکائو اس کو چربی میں نہ پکانا، مکھن میں پکانا وہ باورچی مسکرایا اور کہنے لگا غریب طالب علم یہاں پڑھنے کے لئے آتے ہیں وہ سؤر کی چربی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے یعنی ان کی مالی حالت ہی ایسی نہیں ہوتی کہ ہم ان کے لئے سؤر کی چربی خرید کر کھانا پکائیں اور ان سے پیسے لیں اگر ان حالات کو دیکھ کر غریب یہ کہے کہ سؤر کی چربی یا گوشت ہمیں بھی ملنا چاہئے تو اسلام کا اقتصادی نظام حرام چیز نہ صرف اس کو نہیں دے گا بلکہ جو امیر ہے اس کو بھی وہ حرام چیز نہیں دے گا۔پھر دل بہلاوے کے لئے دنیا میں جوئے کی قسم کی بیسیوں کھیلیں بنائی گئی ہیں جن کے نتیجہ میں کروڑوں اربوں روپیہ غریب کا امیر کی تجوریوں کو بھرتا ہے۔ اس قسم کے دل بہلاوے جو ہیں ان کے مطالبے اسلام کا اقتصادی نظام منظور نہیں کرے گا وہ ایسے مطالبے کو رد کر دے گا کیونکہ یہ بھی ایک اقتصادی سوال ہی ہے یعنی پیسے کے ساتھ اس کا تعلق ہے اس کے نتیجہ میں ذہنی، اخلاقی اور روحانی گراوٹ پیدا ہوتی ہے اسی طرح عیاشی کے بہت سے مطالبات ہیں یورپین اقوام جب اپنی ذاتی دلچسپیوں کے لئے اور اپنے ملک کی خاطر لوٹ کھسوٹ کے لئے دوسرے ملکوں پر دھاوا بولتی اور وہاں فوجیں بھجواتی ہیں تو سپاہیوں کے ساتھ ایک فوج کنچنیوں کی بھی بھیجی جاتی ہے بہر حال یہ ان کا ایک مطالبہ ہے۔ لیکن اسلام عیاشی کے اس قسم کے مطالبات کو منظور نہیں کرتا۔ غرض ہر وہ مطالبہ جو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتوں میں خلل پیدا کرنے والا ہو گا اسلام کا اقتصادی نظام اسے رد کر دے گا۔
تیسری خصوصیت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے ایک قوت پیدا کی ہے اور ایک دائرہ مقرر کر دیا ہے۔ انسان اس سے باہر نہیں جا سکتا لیکن اگر کسی شخص کا یہ مطالبہ ہو کہ مجھے اتنے پیسے ملنے چاہئیں تا کہ میں یہ کروں وہ کروں (آگے مثال اس کو واضح کرے گی) اور وہ مطالبہ دائرہ استعداد سے آگے بڑھنے والا ہو تو اسلام کا اقتصادی نظام اسے رد کر دے گا مثلاً اگر کوئی طالب علم جو بالکل غبی ہے اور جس کی قابلیت میٹرک سے آگے پڑھنے کی ہے ہی نہیں یہ مطالبہ کرے کہ میں غریب ماں باپ کا بیٹا ہوں میں آگے پڑھ نہیں سکتا مجھے وظیفہ دیا جائے تا کہ میں کالج میں پڑھوں تو چونکہ کالج میں پڑھنے کی طاقت اور قوت ذہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے نہیں دی گئی اس لئے اس کا یہ مطالبہ رد کر دیا جائے گا کیونکہ اس کا یہ حق نہیں بنتا اس کے اندر اس کی قوت ہی نہیں۔ اس کی قوت اور دائرہ استعداد اس کے حق کو معین کرتا اور اس کی حد بندی کرتا ہے یا ایک امیر کہے کہ میں نے اپنا کچھ روپیہ اپنے نا اہل بچہ کی تعلیم کے اوپر خرچ کرنا ہے تو صحیح اسلامی اقتصادی نظام اس امیر کو بھی خرچ نہیں کرنے دے گا کیونکہ اس کے نتیجہ میں کسی اور کی حق تلفی ہوتی ہے۔
دوسری مثال میں نے اس وقت جامعہ احمدیہ کی لی ہے میں سمجھتا ہوں کہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے ہر اس طالب علم کا حق ہے جو ذہنی ، اخلاقی ، جسمانی اور روحانی قوتوں کے لحاظ سے اس قابل ہو کہ وہ حقیقی معنی میں خادم دین بن سکے۔ قربانیاں دے سکے اور اس روح سے کام کر سکے جو روح ایک واقف زندگی میں ہونی چاہئے ایسا شخص ہی جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے مطالبہ کر سکتا ہے اگر ہم ایسے طالب علم کی بجائے ایک ایسے طالب علم کو داخل کر لیتے ہیں جس کا دائرہ استعداد جامعہ احمدیہ کے نقطہ نگاہ سے ایسا نہیں کہ وہ جامعہ احمدیہ میں علم حاصل کر کے اسلام کا مبلّغ بنے تو ہم کسی اور کی حق تلفی کر رہے ہیں کیونکہ اس کے لئے وہ روپیہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ اس نے ہر ایک کے لئے اتنا ہی پیدا کیا ہے جتنی اس کو استعداد اور قوت ملی ہے ایسے مطالبات جو انسان کی قوتوں کی کامل نشوونما میں روک بنیں رد کئے جائیں گے مثلاً قوت ابھرتی ہے اس سے کام لینے سے، قوت ابھرتی ہے آپس میں مقابلہ کروا کر اور اس کی مختلف صورتیں ہیں اور جدو جہد، مقابلہ اور مجاہدہ (یعنی حصول علم کے لئے کچھ کرنے، قربانی دینے اور تکلیف اٹھانے) کے بغیر صحیح نشوونما ہو نہیں سکتی۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ طلبہ کی طرف سے ناجائز رعایات کے مطالبے اسلام کا اقتصادی نظام نامنظور کر دے گا مگر اس کے ساتھ ہی ان کو سب جائز سہولتیں بھی مہیا کی جائیں گی ۔ یعنی ہر جائز چیز ، ہر جائز سہولت ان کو دی جائے گی۔ ہر وہ انتظام کیا جائے گا جو ان کی نشوونما میں ممد ہو۔ لیکن یہ مطالبہ کہ ہمیں مثلاً چالیس فیصد نمبروں پر سیکنڈ ڈویژن دی جائے یا اس قدر نمبروں پر ہمیں پاس کر دیا جائے بعض حالات میں ناجائز ہے۔
جن قوموں نے دنیوی لحاظ سے ترقی کی ہے انہوں نے اپنے بعض امتحانات کے لئے ستر فیصد نمبر لینے والے کو بھی فیل قرار دیا ہے ابھی چند مہینے ہوئے ایک پاکستانی احمدی کا خط میرے پاس آیا جو انگلستان میں ایک کورس کے لئے گئے تھے انہوں نے لکھا کہ میں نے پہلے تین پرچوں کا امتحان دیا دو پرچوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے نوے فیصدی سے اوپر نمبر ملے اور میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن ایک پرچہ میں مجھے صرف ستر فیصد نمبر ملے اور میں فیل ہو گیا ہوں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اگلے امتحان میں اس میں بھی کامیاب کر دے۔ پس جو دنیوی لحاظ سے آگے بڑھنے والی قومیں ہیں انہوں نے دنیوی ترقیات کے لئے اس نقطہ کو سمجھا ہے ۔ لیکن اصولی طور پر حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ ناجائز رعایت جو حقیقی نشوونما میں روک بنتی ہے جرأت کے ساتھ رد کر دینی چاہئے لیکن طالب علم کو ہر وہ جائز سہولت میسر آنی چاہیے جو اس کی نشوونما میں ممد اور معاون ہو اور اس کے لئے اسے مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے ۔ اس کے لئے اسے ایجی ٹیشن کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے ہر چیز اسے میسر آنی چاہئے جو اس کی ذہنی قوتوں کی نشوونما کو ان کے کمال تک پہنچانے والی ہو ان کی بہترین تعلیم کا انتظام کیا جائے اگر سائنس لی ہے تو بہترین اپریٹس ( Apparatus) دیا جائے بہترین لائبریریاں قائم کی جائیں مناسب اور طیب غذا کا انتظام کیا جائے ایک مزدور اور ایک طالب علم کی غذائی ضروریات میں فرق ہے اس فرق کو مدنظر رکھا جائے۔ اس کی ذہنی ارتقاء کے لئے با اخلاق ماحول ضروری ہے وہ پیدا کیا جائے پھر عقلمند اور ہمدرد اساتذہ ضروری ہیں خود اعتمادی اور عزت نفس پیدا کرنے کے لئے سینکڑوں وسائل ہیں جو انہیں میسر آنے چاہئیں تا کہ ہمارا بچہ، ہمارا ایک مسلمان بچہ (میں اس وقت اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق بات کر رہا ہوں) پوری طرح خود اعتمادی کے وصف سے متصف ہو۔ اس میں عزت نفس ہو، وہ با اخلاق ہو، جو ہمدردانہ اور مشفقانہ سلوک اس نے اپنے اساتذہ سے پایا وہی ہمدردانہ اور مشفقانہ سلوک وہ آگے پہنچانے والا ہو اس کی غذائی ضرورتیں جو تعلیم کے لحاظ سے ضروری ہیں اسے میسر آنی چاہئیں مثلاً کوکا کولا یا سیون اپ کی بجائے طالب علم کو دودھ پینا چاہئے اتنی رقم اگر وہ دودھ پر خرچ کرے اور وہ اس کو ہضم کر سکتا ہو (کیونکہ بعض انسان دودھ ہضم نہیں کر سکتے) تو یہ اس کے لئے بہتر ہے اگر کوئی شخص دودھ ہضم نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بعض ایسی چیزیں پیدا کی ہیں کہ اگر وہ دودھ میں ملا دی جائیں تو وہ ہضم ہو جاتا ہے مثلاً سونٹھ کی گٹھی ہے ربۃ البیت جب دودھ کو ابالنے کے بعد رکھتی ہے تو اگر وہ اس میں سونٹھ کی ایک گٹھی ڈال دے تو ایک تو دودھ پھٹے گا نہیں، دوسرے اس کا وہ بچہ بھی اس دودھ کو ہضم کر لے گا جو عام طور پر اسے ہضم نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے طریق ہیں جن کو اختیار کر کے دودھ کو ہضم ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے ۔ بہرحال ایک طالب علم کو مناسب اور طیب غذا ملنی چاہئے اسے مناسب ماحول ملنا چاہئے اسے بااخلاق ماحول ملنا چاہئے اساتذہ کا انتخاب سفارشوں کی بجائے ان کے استاد ہونے کی اہلیت اور تربیت کرنے کی اہلیت کی بناء پر کرنا چاہئے تا کہ طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہو ان میں عزت نفس پیدا ہو۔ جس قوم کا ہر بچہ اپنی قوت اور استعداد کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ قوم اپنے کمال کو پہنچ گئی لیکن جس قوم کے نصف بچوں کی قوتیں اور استعدادیں اپنے نشوونما میں کمال کو نہ پہنچ سکیں تو وہ قوم اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ بات اس قوم کی غلط پالیسی کے نتیجہ میں ہو یا اس کے غلط منصوبوں کے نتیجہ میں۔ اس کی جہالت کے نتیجہ میں ہو یا اس بات کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہو کہ ہر بچہ کی قوتوں کو ان کے کمال تک پہنچانا چاہئے۔ بہر حال جس قوم کے نصف بچوں کی قوتیں اور استعدادیں اپنے کمال کو نہیں پہنچتیں وہ آدھی قوم ہے، پوری قوم نہیں اور وہ اس قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جس قوم کے ہر فرد بشر نے اپنی ہر قوت اور کمال اور طاقت کو نشوونما میں اپنے کمال تک پہنچا دیا ہے۔
چوتھی بات اسلامی اقتصادی نظام میں ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ہر فرد بشر کی سب جائز ضرورتیں اسلام کے اقتصادی نظام میں پوری ہوں گی اور اس کے سارے حقوق کی حفاظت کی جائے گی ۔ میں دو ایک مثالیں دے سکتا ہوں اور ان مثالوں میں اس طرف اشارہ کر دیتا ہوں تا آجکل جو مختلف الجھنیں ہیں وہ اس وقت سننے والوں کے سامنے آجائیں مثلاً مزدور کو نقصان پہنچانے کے لئے سرمایہ دار کو یہ حق نہیں ہو گا کہ وہ لاک آوٹ (Lockout) یعنی تالا بندی کرے دنیا نے ظالمانہ غصہ نکالنے کا ایک طریق یہ بھی ایجاد کیا ہے کہ جس وقت مزدور اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو تنگ کرنے کیلئے سرمایہ دار اپنے دروازوں پر تالے ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نہ تم سے کام لیں گے اور نہ مزدوری دیں گے ایسا کرنے کی اجازت اسلام کا اقتصادی نظام نہیںدے گا۔ اسی طرح مزدور کو بھی سٹرائیک (Strike) کے ذریعہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی ۔ کیونکہ اسے بغیر سٹرائیک (Strike) کے حقوق مل رہے ہوں گے۔ غربت اور حقیقی ضرورتوں سے محرومی کی زنجیروں نے اسے اپنے شکنجہ میں نہ جکڑا ہو گا کہ وہ انہیں توڑنے کی ضرورت محسوس کرے یہ صحیح ہے کہ اسے نکما بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے گی کیونکہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانا نشوونما کو کمال تک پہنچانے کی ضد ہے لیکن اگر تلاش روزگار کے باوجود اسے کام نہ ملے یا اس کا دائرہ استعداد اس کی اور اس کے خاندان کی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکے تو اسلام کا اقتصادی نظام اس کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔ مثلاً ایک شخص کو صرف اتنی طاقت ملی ہے کہ وہ درمیانہ درجہ کی مزدوری کر سکتا ہے اور وہ مزدوری کرتا بھی ہے لیکن صرف اتنے پیسے کماتا ہے کہ جس سے تین آدمیوں کا شریفانہ گزارہ ہو سکے لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو کمانے کی قوتیں دوسروں کے مقابلہ میں کم دیں اس نے اس کو ایک اور نعمت سے نوازا اور اس کو ایک بچہ کی بجائے آٹھ بچے دے دئیے یا اس کو ایک بچہ دیا جو اتنا ذہین ہے کہ اگر اس کے ذہن کی پوری نشوونما ہو سکے تو وہ ڈاکٹر عبدالسلام بن سکتا ہے یعنی اپنے علم میں اپنے مضمون میں وہ دنیا کے چوٹی کے دماغوں کا مقابلہ کر سکتا ہے تو ایسے مزدور کو بھی فکرکی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے آٹھ بچوں کا پیٹ پالنا بھی اسلام کے اقتصادی نظام کی ذمہ داری ہے اور اس بچہ کی صحیح نشوونما کر کے اس کی ذہنی طاقت کو اور قوت کو اور استعداد کو اس کے کمال تک پہنچانا کہ وہ دنیا کے گنتی کے چند سائنس دانوں میں شمار ہونے لگے۔ اس کمال تک پہنچانا بھی اسلام کے اقتصادی نظام کی ذمہ داری ہے خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کو ٹھکرا کر خدا تعالیٰ کا ناشکرا بندہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
پانچویں یہ کہ قوتوں اور استعدادوں میں تفاوت رَبُّ الْعَالَمِیْنَ نے پیدا کیا ہے اس تفاوت کو تسلیم کرنا بندہ خدا کا کام ہے ۔ اس کے نتیجہ میں حسد نہیں پیدا ہونا چاہئے اس کے نتیجہ میں نفرت اور بغض نہیں پیدا ہونا چاہئے اس کے نتیجہ میں استہزا اور حقارت کے جذبات نہیں پیدا ہونے چاہئیں (کسی دماغ میں یہ پیدا ہو سکتے ہیں اور کسی دماغ میں وہ پیدا ہو سکتے ہیں) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے کا خادم بنانے کے لئے یہ تفاوت رکھا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عاجزی کے مقام پر لانا تھا۔ سرمایہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ نے خادم بنایا اور وہ اس طرح کہ اس کو کہا کہ تو ان بیکسوں یتامیٰ اور مساکین کے لئے جا کر محنت کر اور پیسے کما کیونکہ جب اس نے پیسے کمائے تو خد انے یہ نہیں کہا کہ میںنے جو قوت تمہیں دی تھی اس قوت کی وجہ سے تم نے پیسے کمائے ہیں میں نے تمہیں جو ذہن دیا تھا اور میں نے تمہیں جو انتظامی قابلیت دی تھی اس کے نتیجہ میں تو لاکھ پتی ہو گیا ہے اس لئے یہ مال تیرا ہے جس طرح تو چاہے اسے خرچ کر ۔ خدا تعالیٰ نے اسے یہ نہیں کہا بلکہ اس نے اسے یہ کہا کہ میں نے تمہیں جو قوتیں بھی دی تھیں وہ بطور خادم کے دی تھیں تو نے ان قوتوں کا صحیح استعمال کر کے مال کو جمع کر لیا ہے اور بطور خادم کے جمع کیا ہے۔ اب میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں نے یتامیٰ اور مساکین (یا جن کو ہم سائل اور محروم بھی کہہ دیتے ہیں) کے حقوق تمہارے مال میں مقرر کئے ہیں اس لئے تو یہ مال ان کے ہاتھوں میں جا کر دے۔ غرض ایک امیر کو بھی خادم بنایا اور ایک غریب کو بھی خادم بنایا ہر ایک کواپنے مقابلہ میں اس کا مقام بتا دیا اور وہ عاجزی کا مقام ہے اور ہر ایک کو کہا کہ دوسرے سے استہزا نہیں کرنا ، نفرت نہیں کرنی دشمنی نہیں کرنی ، حقارت سے پیش نہیں آنا، سب کو اخوت اور ہمدردی اور شفقت اور محبت کے بندھنوں میں باندھ دیا اور کہا کہ جو معاشرہ ہم قائم کرتے ہیں اس میں ہر قوت چھوٹی ہو یا بڑی خادم کی حیثیت رکھتی ہے۔ معزز وہی ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرے۔ نہ سرمایہ دار کی دولت اس کی عزت کا باعث ہے اور نہ کوئی مزدور اور کسان تمسخر اور استہزا کا نشانہ ۔ دونوں بھائی شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
چٹھی بات جو اس اقتصادی نظام میں جو خدا تعالیٰ کی صفات پر مبنی ہے (میں صفات کو لے رہا ہوں) وہ یہ ہے کہ جو لوگ خود نہیں کما سکتے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے اس نظام میں نظر آتے ہیں ۔ مثلاً ایک بچہ ہے وہ خود نہیں کما سکتا اس لئے باپ کو کہا کہ تونے اس بچہ کا حق ادا کرنا ہے۔ بعض ماں باپ عدم تربیت کی وجہ سے بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم ماں باپ ہیں اس لئے جو چاہیں کریں۔ خدا کے نزدیک جو چاہیں کریں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تم ماں باپ ہو بچہ کا فرض ہے کہ وہ ماں باپ کا احترام تمہیں دے اور یہ بچہ ہمارا بچہ ہے تمہارا فرض ہے کہ اس کے حقوق تم ادا کرو یا مثلاً ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے۔ وہ ایک ہی شخص کمانے والا ہے اور وہ اتنا ہی روز کماتا ہے کہ جس میں اس کا اور اس کے خاندان کا گزارہ ہوتا ہے ایک دن وہ بیمار ہو گیا اسے ملیریا بخار ہو گیا اور وہ دو دن کیلئے مزدوری نہ کر سکا تو اسلام کے اقتصادی نظام میں ان دو دنوں کی اجرت بھی اسے ملے گی کیونکہ کوئی اور شخص اس کیلئے کما رہا ہے اوراس کی ضرورت کو پورا کیا جا رہا ہے ۔ کسی کی محنت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوہ کے نتیجہ میں۔
ساتویں بات ہمیں اس نظام میں یہ نظر آتی ہے کہ اس نظام میں ہر شخص خدائے رحیم کی رحیمیت کے حسن کا گرویدہ ہے کیونکہ جو مزدوری وہ کرتا ہے اس کے متعلق انتظام کیا گیا ہے کہ اسے اجرت صحیح اور بر وقت ملتی رہے۔
اور آٹھویں یہ کہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اس نے ہر فرد بشر کی قوت کا دائرہ محدود اور معین کر دیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی مزدور سے اس کی طاقت سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا ۔ جس طرح کوئی غریب یا مسکین اپنے دائرہ استعداد سے بڑھ کر کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کوئی شخص اس کی طاقت اور استعداد سے زیادہ کام نہیں لے سکتا۔ (لیکن دائرہ استعداد میں کمال نشوونما و ارتقاء کے سب سامان اس کے لئے فراہم اور مہیا کئے جائیں گے) کیونکہ یہ ربوبیت عالمین کے خلاف ہے اور اسلامی اقتصادی نظام اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس لئے کسی سے بھی اس کے دائرہ استعداد سے بڑھ کر کام لینے کی اجازت نہیں۔ پس یہ نظام طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ مگر جہاں تک حقیقی ضرورتوں کا سوال ہے وہ سب پوری کی جاتی ہیں۔
اس نظام میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کے جلوے بھی ہمیں نظر آتے ہیں کوئی شخص اقتصادی لحاظ سے اپنا یا غیر کا حق اسلام کے اقتصادی نظام میں قائم نہیں کرتا بلکہ سارے حقوق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں مقرر کئے ہیں امیر کے بھی اور غریب کے بھی۔ اس نے جائز راستے کمانے کے بھی بتائے اور جائز راستے خرچ کے بھی بتائے۔ ناجائز کمائی کے راستوں کو بھی بند کیا اور ناجائز خرچ کے راستوں کو بھی بند کیا۔ اسلام کا اقتصادی نظام اللہ تعالیٰ کی مالکیت کو ثابت کرتے ہوئے کسی انسان کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنا یا کسی غیر کا حق قائم کرے بلکہ حقوق کے قیام کا سارے کا سارا حق اللہ تعالیٰ کو دیتا ہے اس لئے باہمی رنجشوں کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ یٰس میں فرمایا ہے :۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقْوْا مِمَّارَزَقَکُمُ اللّٰہُلا قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْیَشٓائُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ ق اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ (یٰس:۴۸)
کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے اس سے اگر وہ یہ نتیجہ نکالیں کہ اللہ کی اس عطا کو جس طرح وہ چاہیں انہیں خرچ کرنے کا حق ہے تو یہ غلط ہے وہ کہتے تو یہ ہیں :
اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْیَشٓائُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ
کہ جسے اللہ چاہتا خود ہی دے دیتا ہمارے ذریعہ اس نے کیوں دلوانا تھا وہ تو سارے خزانوں کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں تو یہ رزق اس لئے دیا گیا ہے کہ تمہیں ابتلا میں ڈالا جائے یہ دنیا تو ابتلا اور امتحان کی دنیا ہے تمہیں یہ رزق میں نے اس لئے دیا ہے کہ میں تمہیں خادم بنانا چاہتا تھا میں نے تمہیں خادم بنایا ہے اور تمہیں کہا ہے کہ تم لاکھوں روپے کمائو تا کہ ان یتامیٰ اور مساکین کی لاکھوں کی ضرورت پوری کی جائے جن کو ہم نے براہ راست نہیں دیا اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ تمہیں یہ باتیں کھلی کھلی گمراہی اور حقیقت سے ناواقفیت اور اللہ تعالیٰ کی صفات سے جہالت کا نتیجہ ہیں۔ تو اس قسم کے میلان اور رجحان کو اسلام کا اقتصادی نظام تسلیم نہیں کرتا۔ دنیا میں مختلف فلسفیانہ نظریے یا سکولز آف تھاٹ (Schools of Thought) ہیں اور انہوں نے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں۔ لیکن اسلام کسی انسان کے قائم کردہ حقوق کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اسلام ہر دائرہ میں (اقتصادی دائرہ میں بھی) صرف اس حق کو تسلیم کرتا ہے جس کو خود اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اور جس حق کو اللہ نے قائم نہیں کیا اسے اسلام حق تسلیم نہیں کرتا۔
عبادت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اطاعت صرف اللہ کی کی جائے ۔ یعنی شعار عبودیت میں غیر اللہ کو شریک نہ بنایا جائے اس سے جیسا کہ میں نے بتایا تھا انسان غیر اللہ کی غلامی سے یکسر آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کے غیر کی غلامی کی جو مختلف شکلیں ہمیں نظر آتی ہیں ان میں سے ایک اقتصادی غلامی بھی ہے۔ ایک کتاب ہے ’’Waters Flowing East Word‘‘ اس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ بعض منصوبے دنیا میں اس لئے بھی بنائے گئے ہیں کہ تمام انسانوں کو اقتصادی زنجیروں میں جکڑ کر غلام بنا دیا جائے اور اس کے لئے ایک طریق یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر امدادی قرضے دئیے جائیں۔ اس کتاب میں اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان قرضوں سے کیا کیا خرابیاں پیدا ہوتی ہیںاور کس قسم کی زنجیریں انسان یا قوموں کے گرد لپٹ جاتی ہیں۔ اس کی تفصیل شاید میں کسی اور موقعہ پر بیان کروں اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تقاضا بھی اسلام کے اقتصادی نظام کو پورا کرنا چاہئے تھا اور یہ اقتصادی نظام اسے پورا کرتا ہے اور انسان کو ہر قسم کی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ مثلاً بین الاقوامی قرضوں کی بنیاد جیسا کہ اس کتاب نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے سود پر ہے سودی قرضے دئیے جاتے ہیں مثلاً دس کروڑ روپیہ قرض دیا اور اس کی میعاد تیس سال مقرر کر دی یعنی وہ بڑی رعایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تیس سال میں قرضہ واپس کر دینا اور پانچ فیصدی سود دیدینا اور تیس سال تک پانچ فیصد سود دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کروڑ روپیہ پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ سود ادا کیا جائے گا اور سرمایہ اسی طرح باقی رہے گا کتاب میں بتایا گیا ہے کہ منصوبہ بنانے والوں نے جان بوجھ کر یہ منصوبہ بنایا ہے تا اقوام عالم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک مسلمان کو یہ کہا کہ
تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِّرِ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ:۳)
اپنے باہمی تعلقات میں وہ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ میں نے اس وقت بین الاقوامی تعلقات کی مثال دی ہے اس لئے میں انہی کی روشنی میں اس آیت کے معنے کروں گا کہ تمہارے بین الاقوامی تعلقات نیکی اور تقویٰ کے اصول پر مبنی ہوں اور گناہ یعنی حقوق اللہ کے توڑنے اور زیادتی اور عدوان یعنی حقوق العباد کے توڑنے میں ایک دوسرے کے ممد اور معاون کبھی نہ بننا۔ غرض حقوق اللہ کو قائم کرنے اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے بین الاقوامی تعلقات مضبوط اور پختہ طور پر استوار کرنے چاہئیں نہ اس لئے کہ اقوام عالم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ کیونکہ اللہ کا بندہ صرف ایک کا غلام بن سکتا ہے یعنی اپنے مقصد پیدائش کے لحاظ سے صرف ایک ہی ذات کا انسان غلام بن سکتا ہے اور وہ اللہ کا وجود ہے اور ہر وہ غلامی جو اس غلامی کے علاوہ ہے خدا کی نگاہ میں محبوب اور پیاری نہیں اور نہ انسان کو اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے اسلام کے اقتصادی نظام میں ہر قسم کی اسیری اور غلامی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ صرف ایک کی غلامی ہے۔ عبودیت واحد ویگانہ ہی کے لئے ہے اور اس پر ہم سب کو فخر کرنا چاہئے۔ باقی پھر انشاء اللہ
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰ ؍جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۶)
٭…٭…٭


زیادہ سے زیادہ توجہ سے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کی جائے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جون۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ موصی صاحبان کم از کم دو افراد کو قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھائیں۔
٭ انسان قرب کے مقامات کو فضلِ الٰہی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا۔
٭ ساری آسمانی کتب سورۂ فاتحہ کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
٭ علم قرآن کے لئے تزکیۂ نفس، طہارتِ قلب کی ضرورت ہے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر سورۃ فاتحہ شائع ہوگئی۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورنے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی:۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ (الحجر:۸۸)
پچھلے دنوں گرمی لگ جانے کی وجہ سے مجھے کافی تکلیف رہی ہے جس کا اثر ابھی تک باقی ہے۔ آج میں اپنے اصل مضمون سے جو میں نے شروع کیا ہوا تھا ہٹ کر ایک بنیادی امر کی طرف پھر دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ تعلیم القرآن کا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ میں بہت دفعہ بتا چکا ہوں قرآن کریم ہماری زندگی اور روح ہے اگر اس روح کو ہم اپنے نفسوں اور ماحول میں زندہ نہ رکھیں تو دوسرے لاشوں کی طرح ہم بھی ایک لاشہ ہوں گے۔ خدا کی نگاہ میں ایک زندہ فرد یا ایک زندہ جماعت نہیں سمجھے جائیں گے۔ میں نے موصی صاحبان اور موصی صاحبات سے بھی کہا تھا کہ وہ کم از کم دو افراد کو ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم سکھائیں۔ اگر ترجمہ نہ آتا ہو اور اگر ترجمہ آتا ہو تو پھر اس کی تفسیر سکھائیں۔ قرآن کریم ناظرہ آنا چاہئے اس کا ترجمہ آنا چاہئے اور اس کی تفسیر آنی چاہئے۔ غرض قرآن کریم کو سمجھنے کی قابلیت پیدا کرنی چاہئے۔
میں نے اس کے لئے چھ ماہ کا عرصہ رکھا تھا لیکن بہت سے دوستوں نے میری توجہ اس طرفپھیری ہے کہ چھ مہینے کے اندر سارے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لینا یا بہتوں کے لئے ناظرہ پڑھ لینا بھی ممکن نہیں۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم نہ ختم ہونے والا سمندر ہے۔ انسان ساری عمر قرآن کریم سیکھتا رہے پھر بھی وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے قرآنی علوم سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔
بہرحال چونکہ بہت سوں کے لئے چھ ماہ کے عرصہ میں قرآن کریم ناظرہ سیکھنا یا اس کا ترجمہ سیکھنا مشکل ہے۔ بعض کے لئے شائد ممکن ہی نہ ہو اس لئے اس مدت کو چھ ماہ سے بڑھا کر جیسا کہ دوستوں نے مشورہ دیا ہے میں ڈیڑھ سال تک کر دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ڈیڑھ سال میں سارے نہیں تو بڑی بھاری اکثریت اگر وہ دل سے قرآن کریم پڑھیں تو قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیں گے اور ترجمہ سیکھنے والے ترجمہ سیکھ لیں گے ویسے تو ہمارے خاندان میں بھی بعض بچے ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی علم ہے کہ انہوں نے چھ ماہ کے اندر قاعدہ یسرنا القرآن اور قرآن کریم ناظرہ ختم کر لیا تھا لیکن سب بچے یا سب بڑے بھی ایسے نہیں ہوتے اس لئے کوئی حرج نہیں کہ چھ ماہ کی مدت کو ڈیڑھ سال میں تبدیل کر دیا جائے لیکن شرط یہی ہے کہ کام میں سستی اور غفلت پیدا نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ محنت اور زیادہ سے زیادہ توجہ سے قرآن پڑھا اور پڑھایا جائے۔
قرآن کریم کی تفسیر کا جہاں تک تعلق ہے اور قرآن کریم کے معانی اور مطالب اور معارف کے سمجھنے کا جہاں تک تعلق ہے اس کے دو حصے ہیں ایک تو یہ ہے کہ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پاکیزہ اور مطہر نہ ٹھہرے اس وقت تک اللہ تعالیٰ ایسے بندہ کا معلّم اور استاد نہیں بنا کرتا۔ وہ پاک ہے اور پاک کے ساتھ ہی وہ اپنے تعلق کو قائم کرتا ہے۔ اس لئے بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ کوئی شخص قرب کے مقامات کو فضلِ الٰہی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا۔
قرآن کریم پر غور اور فکر اور تدبر کرنے کے لئے ایک بڑا وسیلہ اور ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے شروع میں جو سورۂ فاتحہ ہے اور اُمّ الکتاب کہلاتی ہے اسے آدمی پڑھے اور اس کے مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی جو تفصیل ہے اس کا اجمال سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے اور یہ سورۃ اُمّ الکتاب ہے اس کے بطن سے قرآن کریم کے مضامین نکلتے ہیں۔ اگر کوئی شخص سورۃ فاتحہ کو اپنی سمجھ اور استعداد کے مطابق اچھی طرح سمجھ لے تو اس کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا اور اس کے مطالب اور معانی اور معارف حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی مختلف کتب میں اور اپنی تقاریر میں جو بدریا الحکم میں چھپیں سورۂ فاتحہ کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں اور دنیا کو یہ چیلنج بھی دیا کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے پاس جو آسمانی صحیفے ہیں ان کے بعد قرآن کریم کی ضرورت نہیں تھی۔ میں تمہیں اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ قرآن کریم تو قرآن عظیم ہے۔ اس کے شروع میں سات آیات پر مشتمل ایک مختصر سی سورۃ ہے اس کے اندر جو معانی اور معارف اور اسرار سماوی پائے جاتے ہیں اور اس میں جو روحانی حکمتیں ہیں ان کا اپنی تمام آسمانی کتب سے مقابلہ کر کے دیکھو تو تم اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ تمہاری ساری آسمانی کتب تو سورۂ فاتحہ کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
اس چیلنج کو میں نے بھی ایک دو دفعہ دہرایا ہے ڈنمارک میں عیسائیوں کا جو وفد مجھے ملا تھا اپنے انٹرویو (ملاقات) کے آخر میں میں نے انہیں یہ چیلنج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں دیا تھا کہ سورۃ فاتحہ سے اپنی کتب کا مقابلہ کر کے دیکھ لو (ان شرائط اور تفاصیل کے ساتھ جن کا ذکر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دعویٰ کے مقابلہ میں کیا ہے) تو تم پر خود عیاں ہو جائے گا کہ تمہارے ہاتھ میں اس وقت جو آسمانی کتب ہیں وہ ضرورت زمانہ کو پورا نہیں کرتیں۔ آج کے زمانہ کی ضرورت کو صرف قرآن کریم پورا کرتا ہے اور سورۂ فاتحہ میں اس قسم کی معرفت اور حکمت کی باتیں اور اسرارِ روحانی بیان ہوئے ہیں کہ تمہاری کتب مل کر بھی اس قسم کے علوم اپنے اندر نہیں رکھتیں۔چنانچہ انہوں نے اپنی جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں اس چیلنج کا بھی ذکر کیا ہے۔
غرض دنیا کو مقابلہ کی دعوت دی گئی تھی اور دنیا سے مراد یہ نہیں کہ ہر کس و ناکس کھڑا ہو کر کہے کہ مجھ سے مقابلہ کر لو بلکہ دنیا میں مختلف مذاہب یا مختلف مذاہب کے جو مختلف فرقے ہیں ان کے جو سردار ہیں ان کو یہ چیلنج ہے مثلاً Catholiciem ہے کیتھولک فرقہ کا سربراہ اس وقت پوپ ہے اگر پوپ صاحب یہ چیلنج قبول کریں تو ہم مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں یا ہندوؤں کے دوسرے فرقے ہیں ان کے جو سردار ہیں وہ مقابلہ کے لئے آئیں۔ مذہب کوئی کھیل اور تماشہ نہیں کہ جب اس قسم کا کوئی چیلنج دیا جائے، دعوت مقابلہ دی جائے تو کوئی شخص کھڑا ہو جائے جس کو نہ کوئی علم ہو نہ کوئی فضیلت ہو اور نہ اثر اور وجاہت اور وہ کہے میرے ساتھ مقابلہ کر لو۔ اس قسم کے تماشے نہ عقلی اور نہ روحانی طور پر ہی پسند کئے جاسکتے ہیں۔ البتہ جو مختلف فرقوں کے سردار ہیں وہ اکیلے اس دعوت کو قبول کریں یا اپنے ساتھ سَو یا ہزار یا دس ہزار آدمی ملا کر بھی مقابلہ کرنا چاہیں تو ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں۔
غرض اس لحاظ سے بھی یہ ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورۂ فاتحہ کی جو تفسیر کی ہے اس کو مجموعی طور پر شائع کر دیا جائے کیونکہ اگر ان فرقوں میں سے کوئی مقابلہ کے لئے آئے تو وہ پہلا سوال یہ کرے گا کہ وہ کونسے معارف اور حقائق ہیں جو اس سورت میں پائے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سورۃ فاتحہ پر مشتمل تفسیر کی ایک جلد آگئی ہے پھر انشاء اللہ دوسری جلدیں بھی آئیں گی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بہت سی تفاسیر کی ہیں تفسیر کبیر میں بھی اور دوسری کتب اور متعدد خطبات میں بھی، میں نے حکم دیا ہے کہ ان کو بھی اکٹھا کیا جائے۔ پھر اس کے علاوہ جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سکھائے جو نئی چیزیں سامنے آئی ہیں ان کے مدِّنظر ایک تفسیر خود بھی لکھی جا سکتی ہے۔ بہرحال سورۃ فاتحہ کے مطالب اکٹھے ہو کر ایک جلد میں آگئے ہیں یعنی وہ مطالب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان کئے ہیں۔ ادارۃ المصنفین ربوہ کی طرف سے یہ خوبصورت کتابت کے ساتھ، خوبصورت طباعت کے ساتھ، اچھے کاغذ پر شائع ہو چکی ہے اور جِلد ہو کر آنی شروع ہوگئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کو غور کے ساتھ اس پہلی جلد کو پڑھ لینا چاہئے اور اس نیت سے پڑھنا چاہئے کہ قرآن کریم سارے کا سارا اس اجمال کی تفصیل ہے۔ اگر کسی شخص کی عقل اور سمجھ اور اس کی محبت ان علوم پر حاوی ہو جائے جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں تو قرآن کریم کے بہت سے مطالب اس کے لئے آسان ہو جائیں گے۔ البتہ وہ جو کتابِ مکنون والے حصے ہیں ان کے لئے تو بہرحال تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلب کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بھی سکھائے۔ یہ کتاب میرے نزدیک کم تعداد میں شائع ہوئی ہے۔ تین ہزار کی تعداد تو بہت تھوڑی ہے۔ اس کی قیمت بھی غالباً دس روپے ہے۔ جماعت کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے صرف خریدنے کے لئے نہیں پڑھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور جو پڑھنے کی طرف توجہ کرے گا اسے کتاب تو خریدنی پڑے گی اسے بار بار پڑھیں جو شخص چار پانچ چھ دفعہ اس کو غور سے پڑھ جائے اس کے لئے مضمون سمجھنا آسان ہو جائے گا ویسے ایک دفعہ پڑھنے سے ایک عام دماغ سارے مطالب سمجھ بھی نہیں سکے گا کیونکہ اس کے بعض حصے دقیق بھی ہیں۔ بعض حصے پڑھے لکھوں کو مخاطب کر کے لکھے گئے تھے۔ بعض عوام کو مخاطب کر کے لکھے گئے تھے۔ سورۃ فاتحہ کی وہ تفسیر جس کے مخاطب عوام ہیں اس کا سمجھنا آسان ہے لیکن جس کے مخاطب خواص تھے جو دقیق زبان بولنے والے تھے ان کی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں مخاطب کیا تھا پھر جو عربی میں تفسیر ہے اس کا ترجمہ بھی ساتھ دے دیا گیا ہے اس واسطے سورۃ فاتحہ کی ساری تفسیر آپ پڑھ سکتے ہیں اور سیکھ سکتے ہیں اس کی طرف توجہ کریں اور خدا کرے کہ ایک دو ماہ کے اندر ہی ہمیں اس کی دوبارہ اشاعت کی ضرورت پڑ جائے اور خدا کرے کہ کارکنوں کو ہمت اور سمجھ عطا ہو کہ وہ پھر جلد اس کا (اور اگر اس میں کچھ غلطیاں رہ گئی ہیں تو ان کو دور کر کے) دوسرا ایڈیشن شائع کریں۔ عربی کے حصہ میں اعراب کی کچھ غلطیاں ہیں ان کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ اُردو میں بھی بعض غلطیاں ہیں لیکن عربی کے اعراب کی درستی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ دوسرا ایڈیشن جو انشاء اللہ جلدی چھپے گا اس میں کوئی غلطی نہیں رہنی چاہئے اِلاماشاء اللہ انسان بہرحال کمزور ہے لیکن اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی غلطی نہ رہے۔
غرض سورۃ فاتحہ کی یہ مجلد تفسیر جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مختلف کتب اور مختلف اخباروں میں جو آپ کی تقریر یا گفتگو چھپی ہے ان سے Quatations لئے گئے ہیں۔ یہ آپ حاصل کریں اور غور سے پڑھیں۔ خدا کرے کہ اس کے نتیجہ میں جو روحانی اور جسمانی اور اخلاقی اور ذہنی فوائد اور منافع ہم حاصل کر سکتے ہیں ان سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی برکت سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والے ہوں۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۶؍ جون ۱۹۶۹ء صفحہ۷ تا۹)
٭…٭…٭

اسلام کا اقتصادی نظام انسان کے بنائے ہوئے تمام نظاموں سے بہتر، ارفع، اعلیٰ اور احسن ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍جون۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ خداتعالیٰ ساری قوتوں اور استعدادوں کا بخشنے والا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ ہر عیب، نقص اور کوتاہی سے پاک ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنے اخلاق پر چڑھاؤ۔
٭ اُمہات الصفات ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں ظاہر کرنی چاہئیں۔
٭ اسلام کا اقتصادی نظام غیر کی غلامی سے چھڑوانے والا ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :۔
میں پچھلے خطبات سے دوستوں کے سامنے یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ اسلام کا اقتصادی نظام کیا اور کیسا ہے؟ اور میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میںہمیں وضاحت سے تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے واحد و یگانہ کی پرستش و عبادت کرے اور قرآن کریم کی ایک آیت (الذّٰرِیٰت:۵۷) میں اس مقصد کی طرف اس بنیادی تعلیم کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ‘‘ (البینۃ:۶) کہ عبادت جو ہے وہ دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے ہونی چاہئے۔
میں نے بتایا تھا کہ دین کے گیارہ لغوی معانی اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں اس سلسلہ مضمون کے تین خطبات الفضل میں چھپ چکے ہیں ان میں نومعانی کے متعلق ابتدائی مضمون آچکا ہے اور اس تمہید کے بعد جس کا بنیادی تعلیم سے تعلق ہے میں نے قرآن کریم کی ایک آیت جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے حضور کی بیان فرمودہ تفصیل کو اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے مضبوط اور پختہ دلائل کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اسلام جو اقتصادی نظام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے وہ انسان کے بنائے ہوئے ہر قسم کے اقتصادی نظام کی نسبت بہتر اور ارفع اور اعلیٰ اور احسن ہے۔ اس کے بعد عبادت کے ان گیارہ تقاضوں کو اسلام کا اقتصادی نظام کس طرح اور کیسے پورا کرتا ہے۔ مضمون کے اس حصہ کے متعلق اس وقت میں بیان کر رہا ہوں۔
ایک خطبہ اس پر پہلے ہو چکا ہے۔ آج میں عبادت کے تیسرے تقاضے کو لیتا ہوں۔ عبادت کا تیسرا تقاضا جو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ دین کے معنی سیرت اور خلق کے بھی ہوتے ہیں۔ ’’ الدِّیْنَ‘‘ ’’ السِّیْرَۃُ ‘‘ یعنی سیرت کو عربی زبان میں دین بھی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ پیدا ہونا چاہئے۔ اگر تمہارے اخلاق اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر نہیں رکھتے تو تم عبادت کے تقاضا کو پورا نہیں کر سکتے اور زندگی کے ہر شعبہ میں جو یہ مقصد تھا کہ حقیقی توحید کو قائم کیا جائے اس مقصد کو تم حاصل نہیں کر سکتے۔
اس موقعہ پر میں ایک اور بات ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے ایک حصہ کا تو آج کے مضمون کے ساتھ براہ راست تعلق ہے یعنی جو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ یَا فَنَا فِیْ اَخْلَاقِ اللّٰہِ ‘‘ کا فقرہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے ۔ لیکن اس کے جو دوسرے حصے ہیں ان کا تعلق بھی ان گیارہ تقاضوں کے ساتھ ہے۔ نیز جس رنگ میں وہ اسلام کے اقتصادی نظام میں جلوہ گر ہیں ان کے ساتھ ہے اور وہ مضمون یہ ہے کہ ان عالمین یا اسUniverseیا جو بھی مخلوق ہے خواہ وہ ہمارے علم میں ہو یا نہ ہو یا ہمارا تخیل اور تصور وہاں تک پہنچ سکے یا نہ پہنچ سکے بہر حال جو بھی مخلوق ہے جو چیز بھی موجود ہے ساری کی ساری اس بنیاد پر قائم، موجود اور زندہ ہے کہ خدائے واحد سب کا پیدا کرنے والا اور ساری قوتوں اور استعدادوں کا بخشنے والا ہے یعنی توحیدِ حقیقی اور توحید خالص ایک خالص حقیقت ہے باقی سارے حقائق نسبتی ہیں مگر یہ ایک زندہ اور ہمیشہ رہنے والی اور پختہ بات ہے اس میں کوئی شبہ نہیں، کوئی تبدیلی نہیں ۔ اس سے کوئی انکار نہیں ہو سکتا دنیا کی حیات اور بقا اس حقیقت پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے وہ اپنی ذات اور صفات میں اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ کامل ہے اس میں کوئی نقص نہیں۔
یہ توحید ہمیں دنیا میں مختلف شکلوں میں نظر آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق ہے توحید خالص کے چھ جلوے ہمیں نظر آتے ہیں۔ آپ کا یہ بیان کردہ مضمون الحکم میں چھپا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ توحید پہلے دو قسموں میں منقسم ہوتی ہے۔ ایک کو تو ہم توحیدِ علمی کہتے ہیں اور دوسری کو ہم توحیدِ عملی کہتے ہیں ۔ پھر ہر دو قسم کی توحید ایسی ہے جس کا تعلق ایک تو حقوق اللہ سے ہے دوسرے حقوقِ نفس سے ہے اور تیسرے حقو ق العباد سے ہے۔ پس دونوں قسم کی توحید کے چھ جلوے ہمیں نظر آتے ہیں علمی توحید کے معنے یہ ہیں کہ وہ حقیقی توحید جو علم سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی صفات بیان کیں اپنی وحدت کے،اپنے احد ہونے کے دلائل دئیے اور آسمانی نشانوں سے بھی ثابت کیا کہ میں ہی اکیلا سب قدرتوں کا مالک اور سب فیوض کا سرچشمہ اور سب انوار کا مرکزی نقطہ ہوں۔ بہرحال علمی توحید وہ ہے جو علم سے حاصل کی جاتی ہے اور عملی توحید وہ ہے جو عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیان کردہ مضمون اپنے الفاظ میں بیان کروں گا۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ اور اس کے حقوق کا تعلق ہے توحید علمی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حقوق کو شناخت کیا جائے۔ ان کا عرفان اور معرفت حاصل کی جائے یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک جاننا اور اسے مبدء ہر ایک فیض کا اور جامع تمام خوبیوں کااور مرجع و مآب ہر ایک چیز کا سمجھنا اور اسے ہر عیب اور نقص اور کوتاہی سے پاک جاننا۔ کیونکہ وہ تمام صفات کاملہ کا جامع ہے اور معبود حقیقتاً وہی ہے وہی اس بات کا سزاوار ہے کہ انسان کا معبود بنے۔ پس جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا سوال ہے توحید علمی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کو حاصل کیا جائے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں توحید عملی یہ ہے کہ اس کی اطاعت اخلاص سے بجا لانا اور اطاعت میں کسی غیر کو شریک نہ ٹھہرانا مثلاً جب بھی یہ سوال پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے اور سرمایہ داری یہ کہتی ہے تو اطاعت اللہ تعالیٰ کی ہو سرمایہ داری کی نہ ہو یا مثلاً یہ سوال ہو کہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے اور باپ یہ کہتا ہے احکام میں تضاد پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے باپ کی بات نہیں ماننی یا مثلاً یہ سوال ہو کہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے اور ایک شخص جس کا کسی فرد پر بڑا ہی احسان ہے وہ دنیوی محسن یہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے اس کی بات نہیں ماننی۔ کیونکہ سب سے بڑا محسن جو ہم اپنے ذہن میں اور تخیل میں لا سکتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے بیشک یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مثلاً وہ ایک یتیم بچہ تھا اس محسن شخص نے اسے پالا اس کو ذہین پایا اور اس کی تعلیم پر خرچ کیا، اس کی تربیت کا خیال رکھا، اس کو گندے ماحول سے بچایا، اس کی نیک ماحول میں پرورش کی۔ ہر وقت نیکی کی باتیں،ترقی کرنے کی باتیں اورترقی کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی باتیں اس کے دل میں ڈالیں۔ پھر اگر وہ پاکستان کا رہنے والا ہے تو اس نے پوسٹ گریجوایٹ کے بعد اس کو انگلستان بھیجا پھر وہ مشہور سائنسدانوں سے بھی آگے نکل گیا۔ یہ سارا خرچ اس شخص نے برداشت کیا پھر وہ واپس آیا اس شخص کی ایک ہی لڑکی تھی اس نے اپنی لڑکی سے اس کی شادی کر دی اس طرح اسے اپنی ساری جائیداد کا مالک بنا دیا کتنا بڑا احسان اس محسن نے اس پر کیا لیکن اگر اس محسن کا قول یا حکم یا اس کی خواہش اور مرضی اللہ تعالیٰ کے حکم یا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور رضا کے خلاف ہو تو توحید عملی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیوی محسن کی بات نہ مانی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بات مانی جائے کیونکہ اس محسن کو جو کچھ بھی قدرت ملی، جو مال ملا، جو نیک نفسی ملی، جو دل کی پاکیزگی ملی، جو ہمدردی ملی، محبت اور اخوت کا جو جذبہ ملا وہ سب خدا کی طرف سے ملا۔ پس اصل فیض کا منبع یہ محسن نہیں ہے بلکہ وہ ذات ہے جس نے اس دنیوی محسن کو وہ سامان دئیے کہ جن سے وہ احسان کر سکتا تھا اور پھر اسے احسان کرنے کی توفیق دی۔ اقتصادیات میں بھی یہ سوال پیدا ہو گا جس کا توحید عملی فی حقوق اللہ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے کہ اقتصادی نظام کے قیام میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے یا غیر اللہ کی بات بھی کبھی مان لینی ہے اسلام یہ کہتا ہے کہ اقتصادی نظام میں بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی اطاعت نہیں کرنی کسی اور کی بات نہیں ماننی۔ مثلاً Hippes ہیں۔ انگلستان میں ان کا بڑا زور ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں چرس اور دوسری قسم کے نشے مہیا ہونے چاہئیں اور ان کا وہاں بڑا اثر و رسوخ بھی ہے بڑے بڑے عہدے دار بھی ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کیلئے چرس مہیا کی جائے حالانکہ یہ ایک بڑی خطرناک چیز ہے لیکن انگلستان اور یورپ کے دوسرے ممالک میں بڑی کثرت سے اس کی عادت پڑ گئی ہے یہ ایک اقتصادی مسئلہ بھی ہے آیا یہ چیز پیدا کرنی ہے یا نہیں اور اگر تقسیم کرنی ہے تو کس طرح اسی طرح اس کی قیمتوں وغیرہ سے متعلق بیسیوں سوالات ہیں جو نظام اقتصادیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ اقتصادی نظام اس مطالبہ کو رد کر دے گا۔
اللہ تعالیٰ نے عبادت کے دوسرے تقاضے میں فرمایا تھا کہ اقتصادیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے کسی اکثریت یا کسی موثر اقلیت کی بات نہیں ماننی پچھلے خطبہ میں میں نے بین الاقوامی قرضوں کا ذکر کیا تھا آج میں نے دوسری مثال بیان کر دی ہے۔
غرض توحید عملی کا جہاں تک حقوق اللہ کے ساتھ تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اخلاص سے کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کسی غیر کو شریک نہیں کرنا یہ نہیں ہو سکتا کہ بعض باتوں میں تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر لی اور بعض باتوں میں کسی غیر اللہ کی اطاعت کر لی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹھکرا دیا ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مبدء فیوض ہے اس لئے اپنی بہبود کے لئے،اپنی ترقی کے لئے،اپنی خوشحالی کے لئے، اپنی تکالیف کو دور کرانے کے لئے اس سے دعا مانگیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو اس قابل ہی نہ سمجھیں کہ وہ ان ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے بغیر یا اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف پورا کر سکتا ہے اس واسطے ہر وقت اس پر نظر رکھنا اور اس کی محبت میں کھوئے رہنا یہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والی توحید عملی ہے۔
پھر نفس کا حق ہے توحید علمی جو حقوق نفس سے تعلق رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ نفس کو پہچاننا۔ جس طرح توحیدعلمی اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھنے والی یہ تھی کہ اس کی ذات اور صفات کی معرفت اور عرفان کو حاصل کرنا۔ توحید علمی حقوق نفس سے تعلق رکھنے والی یہ ہے کہ اپنے نفس کے حقوق کو پہچاننا اور جو نفس کی آفات ہیں اور جو نفس امّارہ کے رذائل ہیں ان سے ہر وقت مطلع اور چوکس رہنا کہ کہیں ان کی وجہ سے ہلاکت کے سامان نہ پیدا ہوجائیں کیونکہ یہ جو نفس کی کمزوریاں نفس کی آفات، نفس امارہ کی بد خصلتیں ہیںاور نفس کی جو بیماریاں ہیں ان کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی وحدت اور اس کی توحید سے دور چلا جاتا ہے اور توحید کے تقاضے پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اب جو نفس کی بیماریاں ہیں ان میں ہمیں نظر آتا ہے کہ عجب ہے، ریا ہے، تکبر ہے، کینہ ہے، حسد ہے، غرور ہے، حرص ہے، بخل ہے، غفلت ہے اور ظلم ہے بہت سارے اخلاق رذیلہ ہیں۔ پس انسان کو ان کا علم ہونا چاہئے اور اس کے Conscious Mind میں ہر وقت یہ رہنا چاہئے کہ میرا نفس بڑا کمزور ہے میرے نفس میں جو قسما قسم کی بد خواہشات پیدا ہوتی ہیں میں نے ان کی طرف نہیں دیکھنا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر وقت نگاہ رکھنی ہے یہ توحید علمی حق نفس سے تعلق رکھتی ہے۔ جب انسان کو یہ علم حاصل ہو جائے کہ میرے نفس میں کیا کیاکمزوریاں ہیں اور میرا نفس مجھے کن ہلاکتوں کی طرف لے جاتا ہے اور ان سے بچنے کا کیا سامان ہے تو اس سے ایک ہی ذات کی عظمت ثابت ہوتی ہے جس میں کوئی عیب نہیں اور جو اپنی ذات میں واحد و یگانہ ہے ہر آدمی جب اپنے نفس کو ٹٹولے اور اس کا مطالعہ کرے اور اس کی آفات اور کمزوریوں سے آگاہ ہو تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ دنیا میں ہر مخلوق عیوب سے پُر اور نقائص سے بھری ہوئی ہے ایک ہی ذات بے عیب ہے اور تمام عیوب سے منزہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہ توحید علمی ہے یعنی اپنے نفس کے علم نے ہمیں بتایا کہ خدا تعالیٰ واحد ویگانہ ہے، اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی کیونکہ ہم نے گردن کو جھکایا، پھر دل اور سینہ پر نگاہ ڈالی، جس میں ہزار کیڑے نظر آئے، ہزار نقائص نظر آئے ان برائیوں نے ان کمزوریوں نے، ان نقائص نے، ان عیوب نے جھنجھوڑ کر اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تمام عیوب سے پاک خدائے واحد ویگانہ ہی کی ذات ہے۔
ہمیں توحید علمی سے جہاں تک حق نفس کا تعلق تھا اقتصادیات کے میدان میں یہ پتہ لگا کہ اگر ہم حرص سے کام لیں گے، اگر ہم بخل سے کام لیں گے اگر ہم ظلم سے کام لیں گے تو وہ نظام قائم نہیں ہو سکے گا جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ۔ بخل اور حرص سے ہم کام لیں گے تو جو غیر کا حق ہے وہ اس کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
میںنے پہلے بتایا تھا کہ یہ جو ہر قسم کا تفاوت انسانوں میں پایا جاتا ہے جس میں دولت کا تفاوت بھی ہے یہ اس لئے نہیں کہ دولت مند خدا تعالیٰ کی نگاہ میں معزز ہے اور کریم ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ اس کے ذریعہ سے اس کا امتحان لینا چاہتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک آدمی کو ایک کروڑ روپیہ دیا اور اسے کہا کہ تیرا اس میں حصہ صرف دو لاکھ ہے باقی ۹۸ لاکھ جن کا حصہ ہے ان تک پہنچا دو اس کی تفصیل انشاء اللہ بعد میں زیر بحث آئے گی۔
پس اگر بخل اور حرص ہے تو جو مال بطور امتحان کے خدا تعالیٰ نے اسے دیا ہے وہ حقدار کو نہ دے گا بلکہ دوسرے کا حق چھیننے کی کوشش کرے گا کہ میرے پاس ہی آجائے پھر ظلم کرے گا نفس کی حرص اور بخل اور ظلم ہی کی آفت تھی کہ قرآن کریم نے کہا کہ تولتے وقت صحیح تولا کرو۔
بخل، حرص اور ظلم کی یہ تثلیث بھی بڑی ظالم بنتی ہے کہ جو کہتی ہے کہ دیتے وقت کم تول، لیتے وقت زیادہ تول پھر قرآن کریم نے کہا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھا کر لوگوں کا مال لے لیتے ہو یہ باطل ہے قرآن کریم نے باطل کا لفظ حق کے مقابل پر استعمال کیا ہے۔
پس جو حق خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس کو یہ حرص اور بخل اور ظلم توڑنے والا ہے اور یہ نفس کی کمزوریاں اقتصادی خرابیوں کا موجب بنتی ہیں۔ غرض انسان کو یہ پتہ لگنا چاہئے اور اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نفس میں بڑی کمزوریاں ہیں مثلاً بخل ہے، حرص ہے اور ظلم ہے، دوسرے ہزار قسم کے اخلاق رذیلہ ہیں جو نفس میں پائے جاتے ہیں جن سے مغلوب نہیں ہونا، شکست نہیں کھانی، اس توحید علمی سے یہی نتیجہ نکلتا ہے اور ہر نفس یہی نتیجہ نکالے گا کہ ہر عیب سے پاک اور ہر کامل صفت سے متصف اللہ ہی کی ذات ہے۔
جہاں تک توحید علمی کا حق نفس کے ساتھ تعلق ہے وہ یہ ہے کہ انسان عزم کرے کہ ان اخلاق رذیلہ کا میں نے بالکل قلع قمع کر دینا ہے اور ان کو کاٹ کر رکھ دینا ہے یعنی بجائے اس کے کہ نفس امّارہ انسان پر غالب ہو وہ نفس امارہ اور اس کی ساری خواہشات کو ملیا میٹ کر دے اور ان پر وہ کاری ضرب لگائے کہ ان کا خطرہ ہی باقی نہ رہے۔ پس عملاً نفس امارہ کی برائیوں اور کمزوریوں پر غالب آجانا یہ توحید عملی ہے اور اس کے ساتھ پھر یہ بھی کہ تمام رذائل سے خود کو محفوظ کر لینے کے بعد تمام صفات حسنہ اور اچھے اخلاق اور فضائل کا زیور پہن لینا اور صفات حسنہ سے متصف ہو جانا یہ توحید عملی حق نفس سے تعلق رکھنے والی ہے اور ایک موحد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے بالکل خالی کر لے اور اس طرح پر توحیدِ عملی حق نفس میں ثابت ہو جاتی ہے کہ نفس کی ہر وہ کمزوری جو غیر اللہ کی طرف جانے والی ہے اس سے انسان بچ جاتا اور اس پر غالب آجاتا ہے اور دل غیر اللہ سے خالی ہو جاتا ہے اور دل اللہ کے اخلاق اور اللہ تعالیٰ کے انوار سے بھر جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نفس کو فنانی اللہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ صوفیاء کی ایک اصطلاح ہے جس کے یہی معنے ہیں کہ نفس امارہ کی تمام برائیوں سے بچ کر نفس مطمٔنہ جن اخلاقِ فاضلہ کے نتیجہ میں اطمینان حاصل کرتا ہے انسان کا اخلاق حسنہ کے اس زیور سے آراستہ ہو جانا یہ فنا فی اللہ کا مقام ہے کیونکہ غیر پھر بیچ میں نہیں رہتا۔
پانچویں قسم کی توحید علمی حقوق العباد سے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو اپنے جیسا کمزور اور لاشے محض سمجھنا سارے بندوں کا ایک دوسرے پر حق ہے کہ ہر شخص اس یقین پر قائم ہو کہ جس طرح میں عاجز بندے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں لاشے محض ہوں ہر دوسرا انسان بھی ویسے ہی لاشے محض ہے پھر وہ کشکول لے کر دوسرے کے پاس نہیں جائے گا وہ تہجد کے وقت اٹھ کر اپنے خدا سے مانگے گا گویا تمام بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی مخلوق اور بندہ سمجھنا اور بالکل ہیچ اور نیست جاننا اور دوسرے یہ کہ اس بات پر قائم ہونا کہ جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں وہ توفیق باری کے بغیر محض اپنے زور سے ادا ہو نہیں سکتے ایک طرف یہ کہ اپنے زور سے انسان اپنا یا کسی اور کا حق قائم نہیں کر سکتا دوسری طرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کا جو حق قائم کیا ہے وہ اسے ملنا چاہئے یہ حقوق العباد سے تعلق رکھنے والی توحید علمی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی ربّ ہے اس نے ساری قوتوں کو پیدا کیا ہے ۔ ہندوئوں کی طرح یہ نہیں کہ روح بھی اللہ تعالیٰ کی طرح ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور مادی ذرّات بھی اور ان کے خواص بھی خدا تعالیٰ کی مخلوق نہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ اللہ ربّ ہے اور اس نے اس تمام کائنات کو پیدا کیا ہے اسی نے طاقتیں اور استعدادیں پیدا کیں اور حقوق قائم کئے ہیں ایک یہ کہ دوسرے کو بھی اپنے جیسا لاشے محض سمجھنا اور دوسرے یہ کہ ہر شخص کا جو حق ربّ العٰلمَین نے قائم کیا ہے اسے سمجھنا اس کا علم رکھنا۔
اس توحید علمی سے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہے عظمت ایک ہی ذات کی ثابت ہوتی ہے وَعَزَّاِسْمُہٗ وَجَلَّ شَانُہٗ اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف وہی ہے جو اپنی ذات میں کامل ہے کیونکہ دوسرے کامل نہیں اس لئے کہ ان کے بعض حقوق انہیں کوئی دوسرا دے رہا ہے اگر وہ کامل ہوتے تو وہ اپنا ہر ایک حق خود لے رہے ہوتے لیکن یہاں تو یہ نظر آتا ہے کہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں کہ جو یہ کہے کہ میں اپنا حق اپنے زور سے لے رہا ہوں اس کو تو ایک عام جواب ہمارا بچہ بھی یہ دے دے گا کہ کیا تم نے اپنی ماں کا دودھ اپنے زور سے حاصل کیا تھا؟ کوئی بھی شخص جس میں ذرا بھی عقل ہو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنی ماں کا دودھ اپنے زور بازو سے حاصل کیا تھا وہ تو عاجز تھا اگر ماں اس کے حق کو تسلیم نہ کرتی تو اس کو یہ حق نہ ملتا بعض مائیں بعض نادان ڈاکٹروں کے مشورہ سے بچوں کو ان کے اس حق سے محروم کرتی رہی ہیں اب پھر ان کو عقل آرہی ہے اور وہ سمجھنے لگی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حق سے بچے کو محروم کرنا ظلم ہے بچہ پر بھی اور اپنے نفس پر بھی اور اس طرح یہ ثابت کر دیا کہ بچے کو اس کا حق ماں کی مامتا نہیں دیتی بلکہ اللہ تعالیٰ کا رحم دے رہا ہے، اس کی ربوبیت دے رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اب کچھ عقل دے دی ہے اور اکثر ڈاکٹر پھر اس طرف آرہے ہیں کہ اگر ماں بچے کو دودھ نہ پلائے تو اس کی صحت پر بہت برا اثر پڑے گا کیونکہ قدرت نے ایسا نظام قائم کیا ہے کہ اگر ماں بچے کو دودھ پلائے تو وہ بہت ساری بیماریوں سے بچ جاتی ہے۔
پس توحید علمی سے انسان یہ معرفت حاصل کرتا ہے کہ عظمت ایک ہی ذات کی ہے اور ہر دوسرا انسان میرے جیسا عاجز انسان اور بے مایہ انسان اور ہر قسم کی قوت اور اہلیت سے خالی انسان ہے جس کو جتنی بھی طاقت ملی ہے وہ اس خدائے عظیم اور ربّ رحمن کی طرف سے ملی ہے جس نے ان تمام جہانوں کو پیدا کیا ہے۔
توحید عملی حقوق العباد سے تعلق رکھنے والی یہ ہے کہ حقیقی نیکی بجا لانا یعنی دوسروں سے جو تعلقات ہیں وہ اسی اصول پر قائم ہونے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو حق قائم کیا ہے وہ ادا ہو (پہلے یہ تھا کہ حق ادا ہونے چاہئیں) اب یہ ہے کہ حق ادا ہوں صرف یہ نہ ہو کہ ہونے تو چاہئیں۔ بہت سے لوگ کہہ دیا کرتے ہیں (آپ کو بھی اپنی زندگی میں تجربہ ہوا ہو گا) بہت سی مشکلات ہیں نا یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے‘‘۔ سچی صحیح گل پر دیکھو نا بڑی مجبوریاں ہو جاندیاں نیں‘‘ (بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں) ان مجبوریوں سے قتل بھی ہو جاتے ہیں، چوریاں بھی ہو جاتی ہیں، ڈاکے بھی پڑ جاتے ہیں اور حق تو وہ مان رہا ہوتا ہے۔
پس توحید علمی یہ تھی کہ حقوق ادا ہونے چاہئیں توحید عملی یہ ہے کہ حقوق ادا ہونے شروع ہو جائیں۔ یہ دیکھ کر کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے انسانوں کے مجھ پر حقوق عاید کئے ہیں وہ ان حقوق اور ذمہ داریوں کو بجا لائے اور اصلح طریق سے بجا لائے یعنی اس کے نتیجہ میں دوسرے کی قوتوں کی بہترین نشوونما ہو سکے اور موحد کی ان حقوق کے ادا کرنے میں یہ غرض نہیں ہوتی کہ دنیا میں اس کی نیک نامی ہو، لوگ واہ واہ کہیں، تالیاں بجائیں، نعرے لگائیں، دنیوی طور پر اس کی وجاہت ہو جائے یہ نہیں بلکہ موحد کی صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا تعالیٰ کے اخلاق میں فانی ہو جائیں اور فَنَا فِیْ اَخْلَاقِ اللّٰہِ کا مقام اسے حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے، اپنی مخلوق کے جو حقوق قائم کئے ہیں صفاتِ باری تعالیٰ کے پر تو کے نیچے آکر بہتر طریق پر وہ حقوق ادا ہو جائیں اور ہر فرد کی سب قوتیں اور استعدادیں اسی طرح سب اقوام عالم کی قوتیں اور استعدادیں اپنے نشوونما میں اپنے کمال تک پہنچ جائیں۔
پس عبادت کا تیسرا تقاضا یہ تھا کہ تَخَلُّقْ بِاَخْـلَاقِ اللّٰہِ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ربّ العٰلَمِیْن ہوں میں نے اپنی مخلوق پیدا کی ان کے اندر کچھ قوتیں پیدا کیں اور یہ اصول قائم کیا کہ تدریجی ارتقا کے ذریعہ یہ قوتیں اور استعدادیں اپنے نشوونما کے کمال کو پہنچ جائیں۔ اس میں تدریجی ارتقا کے لئے اور دائرہ استعداد کے اندر کمال تک پہنچنے کے لئے جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ میں نے پیدا کر دی اگر کسی کو وہ چیز نہیں ملتی تو اس کا حق مارا گیا۔
پھر جو دوسرا اقتصادی تقاضا ہے (ہم اقتصادیات کی بات کر رہے ہیں) وہ یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو نظام اقتصادیات میں جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے وہ نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو یہ جو چرس کا مطالبہ ہے یا یہ جوئے کی کھیلیں ہیں امریکہ ہی میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ان کے اڈے ہیں۔ پس یہ اقتصادی مطالبہ بڑی بھاری اکثریت کا ہے کہ ہمیں ہماری Entertainmentکے لئے، ہمارے نفسوں میں سکون پیدا کرنے کے لئے یہ سامان مہیا ہونے چاہئیں۔ یہ ہیں تو ہلاکت کے سامان لیکن وہ کہیں گے کہ یہ ہماری کھیلوں کے سامان ہیں یہ ہماری دلچسپی کے سامان ہیں یہ ہمیں ملنے چاہئیں ورنہ ہم مارے گئے ہماری حق تلفی ہو گئیہے بعض دفعہ باتوں باتوں میں یہ اقوام اس چیز میں بھی مقابلہ کر لیتی ہیں کہ ہم بڑے امیر ہیں ہمارا ایک عام مزدور ہفتہ میں دس بوتلیں شراب کی پیتا ہے اور تمہارا غریب ملک ہے تمہارے مزدور کو صرف چھ بوتلیں شراب کی ملتی ہیں (یہ چھ بھی *** اور وہ دس بھی *** اسلام کا اقتصادی نظام تو شراب کے ایک قطرہ کا بھی روادار نہیں ہے) پس یہ مطالبہ غلط ہے یہ اطاعت کے اصول کے خلاف ہے ۔ پچھلی عالمگیر جنگ میں انہوں نے کتنا گند مچایا تھا۔ حالانکہ یہ اقوام بڑی مہذب کہلاتیں ہیں (اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے) انہوں نے اپنی فوجیں جب غیر ملکوں میں ظلم اور تعدی کے لئے بھجوائیں تو فوج کے ساتھ کنچنیوں کی فوج بھی جاتی تھی کہ بیچارے اپنی جان دینے کے لئے جا رہے ہیں جو فرصت کے اوقات ملتے ہیں ان میں وہ بدمعاشی کر کے سکون بھی نہ حاصل کریں۔ پس خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اطاعت میری کرنی ہے، غیر اللہ کی اطاعت یا نفس کی خواہشات کی اطاعت نہیں کرنی اور تب ایک حسین معاشرہ اور ایک احسن اقتصادی نظام قائم ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔
عبادت حقیقی کا تیسرا تقاضا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنے اخلاق پر چڑھائو یہ توحید عملی کو قائم کرنے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصولاً عقلاً اور اگر کسی کو عرفان حاصل ہو تو عرفاناً یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس عالمین، اس دنیا کا بنیادی پتھر توحید باری تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس کے بغیر انسان نہ اس زندگی میں اور نہ اس زندگی میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اطاعت تب ہی ہو سکتی ہے جب تم اپنے اخلاق پر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھائو گے۔ اگر تمہارے اخلاق پر اللہ تعالیٰ کا رنگ نہیں تو اطاعت کا دعویٰ اور اس بات کا دعویٰ کہ جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے اس کی رضا کے لئے ہم بھی وہی چاہتے ہیں یہ غلط ہو گا۔
میں نے پچھلے خطبات میںبتایا تھا کہ اقتصادی نظام میں بھی ہمیں بنیادی طور پر چار صفات کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں باقی اور صفات بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں مگر یہ چار صفات جو امہات الصفات کہلاتی ہیں اقتصادی نظام میں بھی یہی صفات بنیادی حیثیت کی حامل ہیں یعنی اس میں صرف فروعی صفات جلوہ گر نہیں بلکہ امہات الصفات بھی وہاں جلوہ گر ہیں باقی صفات باری تعالیٰ جن کا انسان سے تعلق ہے وہ ان کے ساتھ مختلف رشتوں سے منسلک ہو کر جلوہ دکھاتی ہیں۔
خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنی پہلی صفت بیان کی کہ میں ربّ العالمین ہوں او رہمیں حکم دیا کہ ظلّی طور پر تمہیں بھی ربّ العالمین بننا پڑے گا اگر تم وہ اقتصادی نظام قائم کرنا چاہتے ہو جو میں قائم کرنا چاہتا ہوں۔
ربّ کی صفت ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی شخص اچھا ہو یا برا اس کے ارتقا اور اس کی نشوونما کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے ان سے اسے محروم نہیں کیا ابوجہل کو بھی دیا اور اس جیسے دوسروں کو بھی دیا ہر ایک کو دیا وہ جو اللہ تعالیٰ کو گالیاں نکال رہے ہیں ان کو بھی دیا (اس عطا کا وہ بہت جگہ غلط استعمال کرتے ہیں) لیکن اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دئیے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ مجھے برا بھلا کہنے والے ہیں میرا انکار کرنے والے ہیں اور جو توحید پر قائم ہیں ان کو ہر قسم کا دکھ پہنچانے والے اور ایذا دینے والے ہیں وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا ربوبیت عالمین کی صفت برابر جلوہ گر ہو رہی ہے پھر اس ربوبیت کے ساتھ رحمانیت کا تعلق ہے، کیونکہ قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما میں ایک وقت انسان پر ایسا بھی آتا ہے کہ بغیر کسی عمل کے احساناً اگر اسے کوئی چیز نہ ملے تو اس کی نشوونما نہیں ہو سکتی موٹی مثال تو بچے کی ہے بچہ پیدا ہوا تو اس نے کیا عمل کیا کون سا حق اس نے اپنے عمل سے قائم کر لیا تھا کہ اس کو ماں کا دودھ ملے کوئی بھی نہیں بچہ پیدا ہوا ہے پہلی چیخ ماری ہے اس کی ماں کو اللہ تعالیٰ دودھ دے دیتا ہے کہ لے اس کو پلا یہ رحمانیت کا جلوہ ہے۔
پس اسلام کے اقتصادی نظام میں ہر اس شخص کی ضرورت کا خیال رکھا گیا ہے کہ جس کی عملی زندگی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی کہ اس کو اجرت ملنے کا سوال پیدا ہو اجرت ملنے کا ابھی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی اس نے کوئی کام ہی نہیں کیا مثلاً ایک ذہین طالب علم ہے اقتصادی نظام میں اس کی پڑھائی کا انتظام ہونا چاہئے اس کے ذہن کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کی ذہنی نشوونما کے لئے جن سامانوں کی ضرورت تھی وہ میں نے پیدا کر دئیے ہیں ۔ اب اے زید، اے بکر، اے فلاں، اے فلاں غاصب اور ظالم بن کر اس کا جو حق ہے وہ مار نہ لینا وہ ذہن بتا رہا ہے کہ اس کے ذہن کی نشوونما کے سامان پیدا کئے گئے ہیں پھر ایک شخص ہے اس کے مسلز (Muscles) اور اعصاب میں بیج کے طور پر اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقت رکھی ہے اور وہ دنیا کا چوٹی کا پہلوان بن سکتا ہے پس اگر اس کے اندر رستم پہلوان بننے کی طاقت اور قوت اور استعداد ہے تو اسے رستم پہلوان بننا چاہئے تا وہ اس طرح اسلام کی خدمت کر سکے۔ غرض ربّ العالمین کا یہ اعلان ہے کہ اس قوت اور اس استعداد کو اس کے نشوونما کے کمال تک پہنچانے کے سامان میں نے اس دنیا میں پیدا کر دئیے ہیں وہ اسے ملنے چاہئیں۔ اسی طرح جس کو انجینئر بننے کا دماغ ملا ہے اس کو فلسفہ پڑھا کر اس کے دماغ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
ہمارے ملک میں بہت سے ذہن اس لئے ضائع ہو جاتے ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں ملتا باپ کو صرف اتنا دیا کہ وہ فلسفی بنا سکے اور بیٹے کو اللہ میاں نے دماغ اتنا دے دیا کہ وہ انجینئر بنے سائنس اور آرٹس کے مضمونوں میں فیسوں کا فرق ہے ۔ بعض ایسے خاندان بھی ہیں کہ جن کی مالی حالت ایسی ہے کہ وہ اس چھوٹے سے خرچ کو بھی برداشت نہیں کر سکتے باپ کہتا ہے عزیز من دل بھی کرتا ہے کہ تو انجینئر بنے، تو حساب میں سو فیصدی نمبر بھی لیتا ہے لیکن میں کیا کروں میرے پاس فیس کے پیسے نہیں حالانکہ خدا نے کہا تھا کہ اس کی فیس کے پیسے میں نے پیدا کئے ہیں کوئی چور تھا جس نے اس کی فیس کے پیسے چرا لئے اور وہ چور ہمارا غیر اسلامی نظام ہے چاہے وہ کمیونزم کا نظام ہو یا سرمایہ داری کا نظام ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جس طرح میں ربّ ہوں، میں نے ہر قوت کی نشوونما کے لئے استعداد پیدا کی اور سامان پیدا کئے ہیں تم اگر میری ظلّیت میں ربّ بنو گے اور اس خلق کا رنگ اپنے اوپر چڑھائو گے تب میری عبادت کا حق ادا کر سکو گے اور دنیا میں وہ نظام قائم ہو سکے گا جو میں اقتصادی طور پر قائم کرنا چاہتا ہوں۔
پھر (جیسا کہ میں نے ابھی مثالیں دی ہیں) رحمانیت اور رحیمیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے (جس کو یہ لوگ بھول جاتے ہیں اور پھر اقتصادی ضرورت پوری نہیں ہوتی) کہ مزدور کی مزدوری صحیح طور پر مل جائے تب بھی اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ اس صورت میں تو صرف صفت رحیمیت کے جلوے کافی ہو جاتے کہ جتنا کسی نے کام کیا اتنا اس کو مل گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ربّ کا جلوہ، رحمان ہونے کا جلوہ اور مالک ہونے کا جلوہ جو ہے وہ بھی ساتھ ساتھ ہونا چاہئے تب جا کر مزدور کی ضرورت کما حقہ پوری ہوتی ہے اور اسے اس کا پورا حق ملتا ہے۔
مزدور کی ضرورت کیا ہے ؟ میرا دعوٰی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور اس کا صحیح جواب نہیں دے سکتا اس سوال کا جواب کسی بھی ازم نے کسی بھی اقتصادی نظام نے نہ دیا ہے اور نہ دے سکتا ہے اسلام نے اس کا جواب دیا ہے اور اسلام ہی دے سکتا تھا۔
اسلام نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ہر مزد ور ہر فرد بشر کی ضرورت کی تعیین اس کی قوتیں اور استعدادیں کرتی ہیں۔ پس اس کی قوت اور استعداد کی نشوونما کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے دراصل وہ اس کی ضرورت ہے اور وہی اس کا حق ہے۔ اسلام نے ضرورت کی یہ تعریف کی ہے اور چونکہ بعض Units افراد کے مجموعہ کے ہوتے ہیں اس لئے ہم کہیں گے ہر فرد کو ہر خاندان کو اور ہر قوم کو (کیونکہ بین الاقوامی معاشرہ اور نظام جو ہے اس پر بھی یہ اصول اثر انداز ہوتا ہے) وہ سب کچھ ملنا چاہئے کہ جو اس قوت اور استعداد کے مطابق ہو جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے تاکہ اس کی صحیح نشوونما ہو سکے یہ اس کی ضرورت اور حق ہے اور یہ تعریف آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔
بہر حال اللہ تعالیٰ رحیمیت کے ماتحت کہتا ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ میری سچی اور حقیقی عبادت کرو تو تمہاری زندگی میں دوسروں سے سلوک کرتے ہوئے میری رحیمیت کے جلوے میری ظلّیت میں نظر آنے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزدور کو جو اجرت پر کام کر رہا ہے (دہاڑی پر ہو یا ہفتہ وار یا مہینہ یا سال کے بعد یا چھ ماہ کے بعد مختلف شکلوں میں دنیا میں اجرتوں کی ادائیگی ہمیں نظر آتی ہے) اسے پوری اجرت ملنی چاہئے بالفاظ دیگر اسلام یہ کہتا ہے کہ تمہاری اقتصادی زندگی میں میری رحیمیت کے جلوے نظر آنے چاہئیں کسی شخص کو اس کی اجرت کے حق سے کم نہ دیا جائے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کی ضرورت پھر بھی بہت سے حالات میں پوری نہیں ہو گی باقی ماندہ ضرورتوں کا اللہ تعالیٰ نے علیحدہ انتظام کیا ہے۔ لیکن بہرحال رحیمیت کے جلوے کا یہ تقاضا ہے کہ اجرت کا جتنا کسی کا حق بنتا ہے اس سے کم نہ ملے۔
پھر مالک ہونے کا خُلق ہے۔ انسان حقیقی رنگ میں تو کسی چیز کا مالک نہیں حقیقی مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ظلیت میں اسے مالک بھی بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ ساری دنیا کی چیزوں کا ہوں تو میں ہی مالک لیکن جس حد تک میں نے تمہیں طاقت دی ہے اس حد تک میری ظلّیت میں مالک ہونے کی صفت اپنے اندر پیدا کرو اور یہ جو تفاوت استعداد کے نتیجہ میں کثرت اموال کی پیدائش ہوتی ہے اس کی صحیح تقسیم مالک ہونے کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ مالک ہے اس کی ظلّیت میں ہم نے جو کچھ لیا ہے ہمیں اپنے اخلاق اور اعمال میں اسی مالک ہونے کا جلوہ نظر آنا چاہئے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہے تو میرا (اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ جائز طریقے سے، حلال طریقے سے تم نے کمایا ہوا ہے) لیکن مالکیت کے جلوے اس کی تقسیم میں نظر آئیں گے ایک صحابیؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ ایک لاکھ اونٹ خریدے ایک اور دوست آگئے انہوں نے کہا اسی قیمت پر میرے ساتھ سودا کر لو انہوں نے کہا منظور ہے لیکن ایک شرط پر کہ ہر اونٹ کی نکیل مجھے دے دو کہتے ہیں کہ نکیل کی قیمت اس وقت ایک اٹھنی تھی چنانچہ انہوں نے دو منٹ کے اندر پچاس ہزار روپیہ کما لیا بعض لوگوں کے روشن ذہن اس طرح پر کام کرتے ہیں وہ جائز کمائی تھی ہمارے وہ بزرگ صحابی عجیب انسان تھے ویسا ہی ہر انسان کو بننا چاہئے۔ جس وقت وہ پچاس ہزار روپیہ گھر میں لائے تو انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ میں اس کا مالک ہوں انہوں نے سوچا کہ حقیقی مالک تو اللہ تعالیٰ ہے اس نے مجھے ایسی عقل دی کہ میں نے ایک دو منٹ کے سودے میں پچاس ہزار روپیہ کما لیا اور اب میں دیکھوں گا خدا تعالیٰ مجھے اس کے متعلق کیا حکم دیتا ہے میں اسے کہاں اور کیسے خرچ کروں یہ وہ طریق ہے جس کے مطابق ہر مسلمان کو خرچ کرنا چاہئے اور اس طرز پر اسلامی مملکت کا منصوبہ بننا چاہئے۔ یعنی مال حلال کمانے کی آزادی اور خرچ کرنے پر اسلامی پابندیاں اور جیسے اسلام کہتا ہے ویسے ہی حقوق کی کماحقہ ادائیگی۔
پس مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں دین کے تیسرے معنی کے لحاظ سے عبادت کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ خدا کا رنگ اپنے اوپر چڑھایا جائے۔ اس کی رو سے اسلام کا اقتصادی نظام یہ فرض عائد کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی امہات الصفات ہیں مثلاً اس کا ربّ ہونا، رحمن کا ہونا، رحیم ہونا اور مالک ہونا، ان کی ظلیت کے طور پر (یعنی بطور ظل کے) یہی صفات ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں ظاہر کرنی چاہئیں اور اسی طرح اقتصادی زندگی میں بھی ۔ کیونکہ وہ بھی ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے اس کو باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بڑے زور سے اپنی جماعت کو یہ نصیحت بھی فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’ جو شخص …… ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اس کا پہلا فرض یہی ہے کہ… یہی چاروں صفتیں (سورۂ فاتحہ والی) اپنے اندر بھی قائم کرے۔ ورنہ وہ اس دعا میں کہ اسی سورۃ میں پنجوقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ یعنی اے ان چار صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے سراسر جھوٹا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بننا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الٰہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کر لے تا اپنے محب کے رنگ میں آجائے۔
ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ میں خدا کے نقش قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خُلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔
ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لئے مدد کرنا۔ یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جو خدائی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے۔ ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے نہ نفس کے جوش سے، یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچا عابد کہ جو تمام الٰہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راستباز کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے لئے بھی یہی پسند کرے۔ ‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد نمبر۱۵ صفحہ ۵۱۸،۵۱۹ )
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی تفسیر کرتے ہوئے ’’اعجاز المسیح‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ یہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :۔
’’اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کسی بندہ کے لئے ممکن نہیں کہ اس وَاحْدَہٗ لَاشَرِیْک کی بارگاہ سے توفیق پانے کے بغیر عبادت کا حق ادا کرے اور عبادت کی فروغ میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطائوں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پرہیزگاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلاتکلف اور بلاتصنع یعنی نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جائو اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دو اور نہ کسی قول اور بات سے اس کے دل کو زخمی کرو۔ بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مر جائو اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر لو اور جو کوئی تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں۔ اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور انسان کی غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو۔ ‘‘
(اعجاز احمدی۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۱۶۸،۱۶۹)
عبادت کے مختلف تقاضوں کی طرف جماعت کو نصیحت کے رنگ میں متوجہ فرمایا ہے۔
بہر حال اس وقت میں یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جو اقتصادی نظام دنیا میں وہ قائم کرتا ہے کوئی دوسرا اقتصادی نظام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس کی دلیل دیتے ہوئے اس کی خوبیوں اور اس کے حسن کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ دیکھو! ہمارا قائم کردہ اقتصادی نظام ان خوبیوں کا، اس حسن کا ان احسانوں کا حامل ہے۔ یہ باتیں تم دوسرے نظاموں میں بھی تو دکھائو۔ اگر ہم اقتصادی مسائل کا اور دنیا نے ان کے جو حل پیش کئے ہیں۔ حقوق اگر دئیے ہیں تو وہ اور اگر غصب کئے ہیں تو وہ اس لحاظ سے دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ساری دنیا میں ہمیں اس قدر بھیانک ظلم پھیلا ہوا نظر آتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں جب بھی مسلم نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کی اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھا۔ اس نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا کہ غیربھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ان کو فائدہ مل رہا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں ربّ العالمین ہوں۔ میں نے دنیا کو سمجھانے کے لئے ایک مثال بھی دی یعنی خدا تعالیٰ نے کہا میں ابوجہل کو کھانا دیتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میرا بندہ محمد (ﷺ) میری صفات کا کامل رنگ اپنی صفات پر رکھتا ہے اچھا میں قحط پیدا کر دیتا ہوں پھر دیکھو جو بندہ میرے رنگ میں رنگین ہے وہ تمہیں کھانے کو دیتا ہے یا نہیں اگر وہ کھانے کو دیتا ہے تو ثابت ہوا کہ میں ہی تمہیں کھانے کو دے رہا تھا اگر وہ نہ دے تو پھر تمہارا اعتراض صحیح ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کھانے کو نہیں دے رہا تھا بلکہ بت دے رہے تھے ایک انتہائی سخت قحط پیدا کر دیا اور اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے گردنیں اکڑا کے چلنے والوں اور سارے عرب میں یہ اعلان کرنے والوں کی کہ ہم تلواروں سے اسلام کو نیست و نابور کر دیں گے گردنیں جھکا دیں۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مانگا کہ ہم بھوکے مر رہے ہیں کھانے کو دو۔ اس وقت آپ کا عمل اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک جلوہ تھا اور وہ جلوہ اس رنگ میں نظر آیا کہ آپؐ نے ان کے لئے کھانے کا انتظام کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اصل حقیقت توحید باری تعالیٰ ہے وہی کھانا دے رہا تھا لیکن بت پرست کہتے تھے کہ نہیں ہمارے بت دے رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میری توحید کو قائم کرنے والا ،میری صفات کے جلوے دکھانے والا اور میرے اخلاق کے رنگ میں دنیا کے اخلاق کی تربیت کرنے والا ہے اس کا ایک جلوہ تمہیں دکھا دیتے ہیں اور ہر عقلمند سمجھ جائے گا کہ جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو مل رہا تھا تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا تھا وہی ربّ العالمین ہے۔
غرض اسلام نے اپنے اقتصادی نظام کی بنیاد سب سے پہلے ربوبیت عالمین پر رکھ کر ہر انسان کو ہر مخلوق کو اسلام کی تعلیم کے زیر احسان کر دیا پھر حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے ۔ دنیا کے دبائو تم پر پڑیں گے تم نے جرأت سے ان کا مقابلہ کرنا ہے اور ہر حالت میں فنانی اخلاق اللہ کے مقام کے حصول کے لئے مجاہدہ کرنا ہے ۔ پس ہر چیز جو ہمیں نظر آتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے کسی نہ کسی حکم کو پورا کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے حقوق کی ادائیگی کے لئے پیدا کی گئی ہے مثلاً یہ حکم ہے کہ تیرا ہمسایہ بھوکا نہ رہے۔ایک شخص کو زیادہ دیا ہے گھر میں جو دانہ ہے اس کا ایک حصہ وہ ہے کہ جس سے خدا کا حکم پورا کرنا ہے یا یہ حکم ہے کہ اپنے بچے کو اس کے ذہن کے مطابق تعلیم دلوائو کئی ظالم ماں باپ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی مالی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اگر وہ تھوڑی سی قربانی کریں تو وہ بچے کو پڑھا سکتے ہیں لیکن وہ قربانی نہیں کرتے اور کہہ دیتے ہیں کہ رات کو کلب جانے کا خرچ برداشت کریں یا بچے کو پڑھائیں وہ کہتے ہیں نہیں جی ہم کلب کا خرچ کریں گے بچہ بے شک پڑھے یا نہ پڑھے۔ چنانچہ بعض ماں باپ میٹرک یا ایف اے یا بی اے بی ایس سی کے بعد بچوں کی پڑھائی چھڑوا دیتے ہیں کہ اگر ایف ایس سی یا بی ایس سی کرے گا تو میڈیکل کالج میں جائے گا زیادہ خرچ ہو گا یا کہتے ہیں کہ ایم اے پر رک جا حالانکہ اس کا دماغ کہیں زیادہ ترقی کر سکتا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم آگے نہیں پڑھائیں گے کیونکہ ان کی عیش و عشرت کی زندگی پر یہ پڑھائی اثر انداز ہوتی ہے۔
غرض ہر مخلوق، ہر چیز جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے وہ اپنے کسی حکم کے پورا کرنے کے لئے ہے اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ ہر دانے پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ کس کے پیٹ میں جانا ہے ۔ ہم مسلمان احمدیوں کو حقائق اشیاء کے علم کے حصول کے لئے گہری فکر کی عادت ڈالنی چاہئے یہ محض فلسفہ نہیں ہے ایک حقیقت ہے ۔ پس ہر چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے کسی نہ کسی حکم کی بجاآوری کے لئے پیدا کی ہے اور اس کا جو استعمال ادائیگی حق میں نہیں ہوتا وہ غلط استعمال ہے۔ خدا کے غضب کا مورد بن جاتا ہے ۔ یہ کہنے والے کہ ہمارے مزدور زیادہ شراب پیتے ہیں زیادہ سینما دیکھ سکتے ہیں۔ ایک دن میں کسی کے پاس تین تین دفعہ سینما دیکھنے کے پیسے ہوتے ہیں یا وہ عیاشی اور بدمعاشی اور بداخلاقی میں اپنا پیسہ دوسروں کی نسبت زیادہ خرچ کر سکتے ہیں یہ ہم سنتے چلے آئے ہیں اب وہی قومیں تباہی کے گڑھے پر کھڑی ہیں انہیں نظر آرہا ہے کہ وہ تباہ ہو گئے ہیں اور ہمارے جو چھوٹے بچے ہیں (خدا کرے بڑوں کو بھی اتنی زندگی عطا ہو) انہیں یہ نظارہ نظر آجائے گا کہ وہ قومیں تباہ ہو گئیں جو ساری دنیا کو اپنا غلام بنانے لگی تھیں۔ اسلام نے کہا کہ غلام صرف ایک کا بننا ہے کسی غیر کی غلامی نہیں ہے۔ اسلام کا اقتصادی نظام غیر کی غلامی سے چھڑوانے والا ہے اور خدائے واحدو یگانہ کی غلامی جو نہایت اچھی غلامی ہے اور خوشحال غلامی ہے اور مسرتوں اور خوشیوں سے لبریز غلامی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس غلامی کی زندگی، اس اطاعت کی زندگی میں باندھ دیا ہے۔ اگر وہ سمجھے اور عقل سے کام لے۔
غرض اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد ان چار صفات پر ہے اور سارا اقتصادی نظام اس پر چل رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے صرف اسلام ہی نے فرد اور خاندان اور قوم کی ضرورت کی تعیین اور تعریف کی ہے اور اس کو محدود کیا ہے اور اس سے زائد کے جو مطالبے ہیں اسلام ان کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ ایک شخص جس کو میٹرک تک پڑھنے کا ذہن دیا ہے اگر صحیح اسلامی حکومت ہو تو اگرچہ وہ ا میر گھرانہ ہی میں کیوں نہ پیدا ہوا ہو اسے میٹرک کے بعد گیارھویں میں داخلہ نہ ملے گا اس کا دماغ ہی نہیں ہے یہ نظام سارے کا سارا منصوبہ بندی پر قائم ہے اور اس کے بغیر چل نہیں سکتا اور بڑا تفصیلی جائزہ لینا پڑے گا۔ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے تھے کہ اپنی طاقت اور حالات کے مطابق جائزہ لے لیتے تھے وہ کافی تھا اب دنیا کے حالات بدل گئے ۔ جب بھی یہ اقتصادی نظام قائم ہوا اس کی بنیاد بہت زیادہ Statistics پر ہو گی۔ تب ساری ضرورتوں کی تعیین ہو گی۔ ہر بچے کے ٹسٹ ہونگے کہ کہاں تک اس کا دماغ ترقی کر سکتا ہے اور کن کن Lines پر یہ چل سکتا ہے پھر ان Lines پر ان کو چلایا جائے گا ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قانون چل رہا ہے کہ ایک چنگا بھلا انسان ۴۰،۴۵ سال کی عمر میں بعض دفعہ وفات پا جاتا ہے ۔ بعض بچے صحت مند ہوتے ہوئے چھوٹی عمر میں مر جاتے ہیں یہ اس کا اور قانون چل رہا ہے غرض اس قسم کے بھی ذہین بچے ہونگے جو اپنی ذہانت کو کمال تک نہیں پہنچا سکیں گے۔ لیکن وہ بچہ جس کو اللہ تعالیٰ زندگی دے گا اس کو اسلام کا اقتصادی نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق بھی دے گا کہ وہ اپنی ذہنی قوتوں کو اجاگر کرتا چلا جائے اور ان کی نشوونما اس کے کمال تک پہنچ جائے اور اسلام نے ہر شخص اور ہر خاندان کی ضرورت کی تعریف یہ کی ہے کہ میں ربّ العالمین ہونے کی حیثیت میں جو قوتیں اور استعدادیں پیدا کرتا ہوں ساتھ ان کے سامان بھی پیدا کرتا ہوں اس واسطے ہر فرد اور ہر خاندان اور ہر قوم کی قوتوں اور استعدادوں کو انتہائی کمال تک نشوونما کے ادوار میں سے گزارتے ہوئے پہنچانے والی ضرورت وہ ضرورت ہے جو ہر فرد کی ضرورت اور ہر خاندان کی ضرورت اور ہر بچے کی ضرورت اور ہر بڑے کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کے مطابق اس سے سلوک کرنا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا تھا رحمانیت کے بڑے حسین جلوے نظر آتے ہیں آپ کو چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال ہوتا تھا حالانکہ ابھی ان کا عمل تو شروع نہیں ہوا تھا نہ اسلام کے حق میں ان کی قربانیاں تھیں پھر مالک ہونے کا جلوہ کہ قربانی باپ نے دی اور آگے صلہ بچوں کو مل گیا یہ مالک ہی کر سکتا ہے نا ! یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہی کر سکتا ہے نا! خدا کی امانت تھی وہی حقیقی مالک ہے اور اسی نے کہا کہ میں یہ اصول وضع کرتا ہوں اس کے مطابق تم خرچ کیا کرو۔ا س میں غیر بھی شامل ہے اور تمہارے نفس کا بھی حق ہے اس سے کم اگر کوئی تمہیں دینا چاہے تو ظالم ہے۔ جیسا کہ روس میں کمیونزم نے امیروں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا یہ اتنا ہی ظلم ہے جتنا غریب کو اس کے حقوق سے محروم کرنا ظلم ہے ان دو ظلموں میں کوئی فرق نہیں ۔ جو ایک امیر کا حق ہے بحیثیت انسان کے، بحیثیت ربّ العالمین کی ایک مخلوق کے بحیثیت ان قوتوں اور استعدادوں کے جو اسے ربّ العالمین نے دی ہیں۔ اس کا جو حق ہے وہ اس کو ملنا چاہئے۔ چاہے کوئی امیر گھرانے میں پیدا ہو اور چاہے کوئی غریب گھرانے میں پیدا ہو لیکن کوئی ’’ازم‘‘ تو غریب کی پروا نہیں کرتا اور کوئی ’’ازم‘‘ امیر کی پروا نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ازم اللہ تعالیٰ کی عطا کے ایک حصہ کو ٹھکراتا اور کفران نعمت کرتا ہے لیکن اسلام کا اقتصادی نظام اللہ تعالیٰ کی ہر عطا سے صحیح فائدہ اُٹھاتا اور شکران نعمت کرنے والاہے خدا کرے کہ ہم اس کے شکرگزار بندے بنیں۔ آمین
( روزنامہ الفضل ربوہ۶؍اگست ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا ۱۰)

بشاشت سے ایک دوسرے کو ملنا بہت بڑا خلق ہے کوئی گالیاں بھی دے رہا ہو تو اس کا کوئی اثر نہیں لینا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴ ؍جولائی ۱۹۶۹ء بمقام مسجد احمدیہ کلڈنہ۔ مری غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ نیکی کی باتیں بار بار یاد کرواتے رہا کرو۔
٭ معجزے انسانوں پر اتنا اثر نہیں کرتے جتنا اچھے اخلاق کرتے ہیں۔
٭ ایک دوسرے سے بشاشت اور حسن سلوک سے پیش آئیں۔
٭ ہمارا کالج تبلیغ کا ادارہ نہیں بلکہ تعلیم کا ادارہ ہے۔
٭ تلخ ترش باتوں کو مسکراتے ہوئے برداشت کیا جائے۔


تشہد و تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
’’کل شام مجھے ضعف کی اور پھر سر درد کی تکلیف ہو گئی تھی سر درد ابھی تک ہے اس لئے آج میں مختصر خطبہ دینا چاہتا ہوں اور اپنے مضمون کے تسلسل میں جو باتیں کہنا چاہتا تھا وہ میں چھوڑتا ہوں کیونکہ وہ مضمون ذرا لمبا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر مسلمان کو یہ حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی باتیں بار بار یاد کرواتے رہا کرو میں اس وقت اسی حکم کے ماتحت بعض اصولی چیزیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ اور اس کے استحکام کے لئے اور اس کی برتری کے ثبوت کے لئے ہمارے ہاتھ میں بنیادی اہمیت کی جو چیزیں دی ہیں ان میں سے ایک تو ایسے زبردست دلائل ہیں جنہیں قرآن کریم نے ان صداقتوں کے ثبوت میں ہمارے سامنے رکھا ہے جن کو قرآن کریم دنیا کے سامنے پیش کرتا اور جس کے نتیجہ میں توحید باری تعالیٰ کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ مسلمان بعض دفعہ اس چیز کو بھول جاتے ہیں اور قرآن کریم جو علاوہ اور بے شمار برکتوں کے، دلائل سے پُر ایک کتاب بھی ہے اس کی طرف توجہ نہیں دیتے اور بہت سے بودے اور نامعقول دلائل سے متاثر ہو جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مایوسی کے اس دور میں جس وقت آپؐ کی بعثت ہوئی تھی(اب تو وہ مایوسی بہت حد تک دور ہو چکی ہے) مسلمانوں کو تسلی دینے کے لئے فرمایا تھا کہ اسلام حق اور صداقت پر مبنی ہے اس لئے انہیں کسی فلسفیانہ دلیل یا کسی علمی برہان سے خائف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسلام کو علمی طور پر اس قسم کی برتری دی گئی ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ جب اسلام کے خلاف یا اس کے نظریات کے خلاف جو دلائل دئیے گئے ہیں ان سے زیادہ مضبوط دلائل اسلامی نظریات کے حق میں جماعت احمدیہ دنیا کے سامنے پیش کرے گی بلکہ دنیا اس وقت جن دلائل کو نہایت معقول اور موثر سمجھتی ہے ان کا کھوکھلا پن ظاہر کیا جائے گااور وہ وقت عنقریب آنے والا ہے اس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں اس وقت دنیا میں ایسے انسان پیدا ہو چکے ہیں جنہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اسلام کے خلاف دئیے جانے والے دلائل اور خاص نظریات ہم نے دنیا کو دھوکا دینے کے لئے جان بوجھ کر رائج کئے ہیں اور اس قسم کا پروپیگنڈہ کیا ہے کہ لوگ ان کو صحیح سمجھنے لگ جائیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ہمارا منصوبہ تھا کہ ہم نام کے فلسفی، نام کے اکنانومسٹ، نام کے سیاستدان پیدا کریں اور پھر ان کو پریس کے ذریعہ سے دنیا میں مشہور کریں اور ان کا ایک عالمی مقام پیدا کریں اور اس پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں لوگ ان کی باتیں صحیح سمجھنے لگ جائیں حالانکہ ہم جنہوں نے اس کا پروپیگنڈہ کیا ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ لغو اور جھوٹی باتیں ہیں جن کے حق میں کوئی دلیل نہیں اور جن کا کوئی وزن نہیں۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کو وہ علمی خزانہ دیا گیاہے کہ جو نہ صرف اسلام کے خلاف کھڑے ہونے والے علوم اور ان کے دلائل کو توڑے گا بلکہ ان کا بے ہودہ اور کھوکھلا پن بھی دنیا پر ثابت کرے گا۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۲۵۴،۲۵۵)
اللہ تعالیٰ جب کوئی پیشگوئی فرماتا ہے یا کوئی بات کہتا ہے تو چونکہ وہ قادر مطلق ہے اس کے ارادہ اور منشاء کے مطابق دنیا میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے جس کی میں نے ایک مثال دی ہے کہ بڑے بڑے فلاسفر جو دراصل اسلام پر اعتراض کرنے والے اور دہریت کو دنیا میں مقبول کرنے والے ہیں ان کے متعلق خود اس منصوبہ کے بانیوں کی یہ باتیں ظاہر ہو گئی ہیں(اگرچہ وہ چاہتے نہیں تھے) کہ وہ اس قسم کے فلاسفر پیدا کریں گے اور پھر پریس پر تصرف کے نتیجہ میں ان کو بین الاقوامی شہرت دیں گے اور انسان کے دماغ میں غلط نظریات گھسیڑ دیں گے تاکہ انسان کو تباہی کی طرف لے جانے میں وہ کامیاب ہو جائیں۔
قرآن کریم میں جو دلائل دئیے گئے ہیں ان کا ایک حصہ تو وہ ہے جن کو ہم علمی اور عقلی دلائل سے موسوم کر سکتے ہیں اور دوسرا حصہ اسلام کے علم اور اس کے نور کا وہ ہے جس کا تعلق آسمانی نشانوں سے ہے پس اسلام کی برتری اور اس کے غلبہ اور استحکام کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسری چیز جو مسلمانوں کو دی ہے وہ آسمانی تائیدات اور آسمانی نشانات ہیں۔
ان آسمانی نشانوں کا ایک حصہ علمی ہے قرآن کریم کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ میں کِتَابِ مَکْنُونْ یعنی چھپی ہوئی کتاب ہوں پس قرآن کریم ایک ہی وقت میں کتاب مبین بھی ہے اور کِتَابِ مَکْنُونْ بھی ہے، کتاب مبین کے حصہ کو تو ہم اپنے مجاہدہ سے سیکھ سکتے ہیں قرآن کریم کی تفاسیر اور کلام کی دوسری کتابوں کو پڑھنے پر اگر انسان پانچ دس، پندرہ گھنٹے روزانہ خرچ کرے تو اگر اللہ تعالیٰ نے اسے ذہن دیا ہے بالکل غبی نہیں ہے تو یہ دلائل سمجھ بھی لے گا، یاد بھی رکھ سکے گا اور اس کا علم بھی بڑھ جائے گا لیکن اس کے علاوہ قرآنی علوم کے ایک حصہ کا تعلق آسمانی تائیدات سے بھی ہے اور وہ وہ حصہ ہے جسے قرآن کریم نے کتاب مکنون یعنی چھپی ہوئی کتاب ٹھہرایا ہے جس طرح دوسری تائیدات سماویہ کے لئے تزکیۂ نفس کی ضرورت ہے اسی طرح اس حصہ قرآن کے علوم کے حصول کے لئے بھی تزکیۂ نفس کی ضرورت ہے۔ جب انسان ہر قسم کی نفسانی آفات کو کچل کر خداتعالیٰ کی خاطر پاکیزگی کی راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیتا ہے کہ وہ ان راہوں پر چل سکے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ پاکیزہ اور مطہر بن جائے۔ پھر ایسے شخص کو ایک تو کتاب مکنون کا حصہ بھی دیا جاتا ہے اور دوسرے معجزات بھی دئیے جاتے ہیں جن کو خوارق کہتے ہیں یعنی خداتعالیٰ کے اس محبوب بندے اور ایک عام انسان کے درمیان ایک فرقان ایک امتیاز پیدا کیا جاتا ہے۔
یہ جو خوارق کہلاتے ہیں یا آسمانی نصرتیں ہیں یہ آگے مختلف شکلوں کی ہوتی ہیں ایک تو مثلاً سچی خوابوں کا دیکھناہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام پر جو ایک ظلمت کا زمانہ آیا تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے مقربین کا گروہ اس طرح تھا جیسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حالانکہ وہ اپنے پہلے زمانے اور آخری زمانے کے مقابلہ میں بہت کم تھے بایں ہمہ وہ سمندر کی طرح تھے۔ تنزل نسبتی ہوا کرتا ہے اور جب اس درمیان کے زمانے کا مقابلہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اسلام ایک تنزل کے دور سے گذرا ہے لیکن اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی دور سے مقابلہ کریں جب کہ وہ اپنے عروج پر پہنچے ہوئے تھے تو ان کے مقابلہ میں یہ بہرحال زیادہ ہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ کی قوت قدسیہ اور تاثیرات روحانیہ کا مقابلہ دنیا کا کوئی اور نبی نہیں کر سکتا۔
پس سچی خوابیں ہیں، پیش خبریاں ہیں لیکن دنیا اتنی اندھی ہے کہ وہ ان چیزوں کو سمجھ ہی نہیں سکتی۔ ابھی چند دن ہوئے مجھے ایک غیر مبائع دوست ملنے کے لئے آئے اثنائے گفتگو میں مجھے ان کی ایک بات سے بڑی روحانی کوفت پہنچی۔ میں ان سے یہ بات کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل نبی اکرمﷺ کے فیوض اور آپ کی برکات سے ہم نے حصہ وافر پایا اور جو لوگ احمدی ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بڑا فضل نازل کرتا ہے اور ان سے پیار کا سلوک کرتا ہے چنانچہ میں نے انہیں یہ مثال دی کہ افریقہ کے ایک ملک میں ایک غریب باورچی جس کی دنیا کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں اسے اللہ تعالیٰ نے ایک دن یہ خواب دکھائی کہ اسی ملک کا پرائم منسٹر Prime Minister)) ایک دکھ اور تکلیف میں ہے اور یہ مصیبت اس نے اپنے ہاتھ سے پیدا کی ہے حالانکہ یہ اس وزیراعظم کا راز تھا۔ اس باورچی کو اس کے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔(ویسے آج ہمارے ایک احمدی دوست وہاں کے گورنر جنرل ہیں) اُنہوں نے وہاں کے مبلّغ کو بھی نہیں بتایا تھا حالانکہ وہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں، بڑے دلیر آدمی ہیں(یہاں بعض ایسے دوست بھی ہیں کہ جنہیں اگر تھوڑی سی بھی افسری مل جائے تو وہ گھبرا جاتے ہیں کہ احمدیہ مسجد میں جائیں یا نہ جائیں) لیکن خداتعالیٰ نے ان کو اپنے ملک کا گورنر جنرل بنایا ہے وہ ہر جمعہ کی نماز میں شامل ہوتے ہیں(وہ لوگوں کے لئے ایک نشان بھی ہیں) میرے اس خواب کی مثال بیان کرنے پر وہ دوست کہنے لگے کہ یہ تو اس کی اتنی راز کی بات تھی خداتعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اس باورچی کو یہ بتاتا۔ ضرور اس کو پتہ لگ گیا ہو گا کس قدر بدظنی ہے۔ یہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے کتنا پیار کا سلوک ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ اس کو بتانا چاہتا تھا کہ اے باورچی! تو نے میری خاطر احمدیت کو قبول کیا اور اسلام کی خاطر قربانیاں دی ہیں میری نگاہ میں تیرے ملک کے پرائم منسٹر Prime Minister)) سے تیری عزت زیادہ ہے۔ خداتعالیٰ اس کو بات بتا کر اس کی عزت اور اپنے پیارے کا اعلان کر رہا تھا مگر یہ بات ان کے دماغ میں نہیں آتی اور دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی لیکن جن کو یہ باتیں سمجھ آ گئی ہیں ان کو یہ بھولنی نہیں چاہئیں ورنہ ہمارا بھی وہی حشر ہو گا جو پہلوں کا ہوا تھا۔
جو آسمانی نشان یا خوارق ہیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک چیز بڑی نمایاں کرکے دنیا کے سامنے پیش کی ہے یہ ایک ایسی بات ہے کہ عام طور پر انسان کا دماغ اس طرف جا ہی نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرمﷺ کو جو سب سے بڑا معجزہ عطا ہوا تھا وہ اچھے اخلاق کا معجزہ ہے آپؐ کو ایسا خلق عظیم عطا ہوا تھا جس کی دنیا جہان میں کوئی مثال نہیں مل سکتی غرض یہ خلق ایک خارق عاد ت چیز ہے جو نبی کریمﷺ کو عطا ہوئی اور اب آپؐ کی ظلیت اور آپؐ کے طفیل اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے تمام جماعت نے حاصل کی ہے۔
آج میں جہاں اور باتوں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں وہاں خاص طور پر اچھے اخلاق پیدا کرنے کے متعلق بھی توجہ دلانا مقصود ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کے خلق عظیم کے نمونہ پر اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس مادی دنیا میں بعض دوسرے خوارق اتنا اثر نہیں پیدا کرتے جتنا اچھے اخلاق پیدا کرتے ہیں مثلاً کفار مکہ کا ایک لمبے عرصہ تک مخالفت اسلام کے باوجود اور دنیا میں اس زمانہ کے لحاظ سے سب سے بڑی طاقت ہونے کے باوجود سرنگوں ہو جانا یہ بھی ایک بہت بڑا معجزہ تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے معجزے انسانوں پر اتنا اثر نہیں کرتے جتنا اچھے اخلاق کرتے ہیں۔ فتح مکہ اپنی جگہ ایک حقیقت اور ایک بڑا عظیم معجزہ ہے اور اسلام کے حق میں عظیم الشان نشان ہے لیکن اس عظیم فتح کا کفار مکہ پر اتنا اثر نہیں ہوا جتنا ان پر اسی دن اخلاقی معجزہ کا اثر ہوا تھا۔ کیونکہ جب تک نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء‘‘(تاریخ الخمیس فتح مکہ) کا اعلان نہیں ہوا اسی وقت ان کے دلوں کی حالت اور تھی لیکن جب آپﷺ نے اس عظیم خلق اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کے جنہوں نے ساری زندگی آپ کو تکلیفیں دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی سارے گناہ معاف کر دئیے تو ان کے دلوں کی حالت فوراً بدل گئی۔
ایک دوسرے سے بشاشت سے ملنے اور حسن سلوک سے پیش آنے کا جو خلق ہے اس کے بعض منفی پہلو بھی ہیں جو اخلاق کو گھن کی طرح کھاتے رہتے ہیں جیسے مثلاً راولپنڈی کے ارد گر کی بہت ساری زمین Erosion کے نتیجہ میں خراب ہو گئی ہے۔ اسلامی اخلاق کو بھی بعض دفعہ Erosion لگ جاتا ہے پس ایسی بد اخلاقیوں سے بچنا چاہئے اس کے برعکس ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے ہر ایک کے ساتھ پیار سے ملنا چاہئے خصوصاً غریب لوگوں سے۔ خصوصاً اس سے جو دنیا کا دھتکار ہوا ہے خصوصاً اس سے جو سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں وہ لاوارث ہے۔ اس کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ لاوارث نہیں ہے کیونکہ ربّ العلمین کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو اس کی کسی مخلوق کو لاوارث نہیں رہنے دیں گے وہ نبی اکرمﷺ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو بھی لاوارث نہیں رہنے دیں گے۔
ہمارا ایک مسئلہ ہے۔ جماعت احمدیہ غیروں کا جنازہ نہیں پڑھتی۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ ٹھیک ہے اور اس پر ہمارے مخالف کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ نماز جنازہ پڑھنا فقہی اصطلاح میں فرض کفایہ ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ دس آدمی پڑھ لیں تو باقی اُمت مسلمہ گناہگار نہیں ہوتی کیونکہ اس کا جنازہ ہو گیا لیکن اگر ایک بھی نہ پڑھے تو ساری کی ساری اُمت مسلمہ گناہگار ہو جاتی ہے پس معترض سے پوچھنا چاہئے کہ تمہارے نزدیک بھی مسئلہ یہ ہے کہ جب احمدی تمہارا جنازہ نہ پڑھیں تو وہ گناہگار نہیں ہوتے کیونکہ دوسروں نے پڑھ لیا ہے پس کیا تمہارا اعتراض اس بات پر ہے کہ وہ گناہگار کیوں نہیں ہوئے یہ تو کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ہو اگرچہ ایسا شاذ ہی ہو گا ممکن ہے بیس یا پچاس سال میں جا کر ایسے حالات پیدا ہوں کہ جہاں کسی غیر معروف مسلمان کا جنازہ ہو اور سوائے احمدیوں کے کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھنے والا نہ ہو تو ان کا فرض ہے کہ وہ اس نامعلوم شخص کی نماز جنازہ پڑھیں کیونکہ نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب ہونے والے کسی شخص کو ہم لاوارث نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے دل میں جو آنحضرتﷺ کی محبت اور پیار ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہر وہ شخص جو آپؐ کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ لاوارث نہیں سمجھا جا سکتا اگرچہ ہمارے نزدیک ایسے لوگ وہ اپنی زندگی میں سخت غلطی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کے بعض حکموں کی نافرمانی کر رہے ہیں لیکن یہ باتیں اپنی جگہ ہیں ان میں سے اگر کوئی شخص اس حالت میں ہو زندہ ہو یا مردہ یعنی وہ لاوارث قرار دیا گیا ہو تو ہم اس کو لاوارث نہیں رہنے دیں گے ایسی صورت میں ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے اس کی ہر ممکن مدد کرے اور اگر وہ کسمپرسی کی حالت میں فوت ہو گیا ہے تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھے۔ اس طرح دنیا کو یہ بتا دینا چاہئے کہ نبی کریمﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لاوارث نہیں ہو سکتے اس طرح اور اس سے بڑھ کر دنیا کو یہ احساس دلانا بھی ہمارا فرض ہے کہ ربّ العلمین کی طرف منسوب ہونے والے بھی لاوارث نہیں ہیں اگر وہ بھوکے ہیں تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ان کی بھوک کو دور کرے اگر وہ ننگے ہیں تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس کے ننگ کو ڈھانکنے کا انتظام کرے پھر ایسے لوگوں کے بعض ہونہار بچے ہوتے ہیں اگر احمدی انفرادی یا اجتماعی یا جماعتی طور پر ان کے پڑھانے کا انتظام کر سکتے ہوں تو یہ بات بھی بہترین اخلاق کی مظہر ہے۔
میں ٹی۔ آئی کالج کا پرنسپل رہا ہوں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بالکل معین اور واضح ہدایت دے رکھی تھی کہ اس کالج کو چلانے اور اس پر روپیہ خرچ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قوم کو تعلیم دلائی جائے یہ تبلیغ کا ادارہ نہیں ہے بلکہ تعلیم کا ادارہ ہے۔ اس لئے بسا اوقات ہم بعض بڑے بڑے مخالفوں کو جو عملاً مخالفت کرنے والے تھے لیکن اگر وہ مستحق ہوتے تھے تو ہم ان کو مالی امداد دیتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کے فسادات میں دو ایسے طالب علم بھی تھے جو اپنی جہالت اور جنون میں بہہ کر احمدیوں کے خلاف برپا کی جانے والی شورش جس میں گھروں کو جلانا اور احمدیوں کو مارنا پیٹنا وغیرہ شامل تھا اس میں وہ حصہ لیتے تھے اور مجھ سے وظیفہ حاصل کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہمارے کالج کے ایک استاد میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہاں سے یہ وظیفہ لے رہے ہیں اور احمدیوں کے گھروں کو جلانے والے mobs میں جا کر شامل ہو جاتے ہیں(اگرچہ میرے نزدیک ان کا یہ طرز عمل ایک کمزوری کے مترادف تھا لیکن بہرحال انسان کا دماغ اس طرف بھی جا سکتا ہے) میں نے انہیں جواب دیا کہ میں ان کو اس لئے تو وظیفہ نہیں دے رہا کہ احمدیوں کے گھروں کو آگ نہیں لگا رہے میں ایک ایسے معاملہ کی جس کے متعلق وہ خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں کس طرح جواب طلبی کر سکتاہوں۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ اچھا ان کو میرے پاس لائو میں ان سے سوال کرتا ہوں۔ وہ میرے پاس آئے میں نے ان سے کہا کہ دیکھو بات یہ ہے کہ جہاں تک مذہب کے عقائد کے غلط یا صحیح ہونے کا تعلق ہے تم اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہو گے۔ مگر سوچ لو تم یہ یہ حرکتیں کر رہے ہو خداتعالیٰ جب تم سے ان کے متعلق پوچھے گا تو تم کیا جواب دو گے تم نہ میرے سامنے جوابدہ ہو اور نہ میں تم سے پوچھتا ہوں لیکن ہوسٹل کے قواعد میں نے بنائے ہوئے ہیں ان کے متعلق تم سے جواب طلبی ہو سکتی ہے اس واسطے رات کو نو بجے کے بعد ہوسٹل سے غائب نہیں ہونا۔ دن کو جو تمہاری مرضی آئے کرتے رہو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ نصیحت اور چیز ہے سمجھانا اور چیز ہے لیکن میں تمہیں نہیں روکوں گا اور نہ ہی اس کی وجہ سے میں تمہارا وظیفہ بند کروں گا۔ گو میرے نزدیک یہ باتیں اچھی نہیں لیکن اگر تم ان کو بُرا نہیں سمجھتے تو یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تعلق میرے ساتھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اس کے سامنے جا کر جواب دہ ہونا۔
پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی کبھی اس دنیا میں کبھی اگلے جہان میں جواب طلبی کرے گا اگلے جہان میں تو سب کی جواب طلبی ہو گی لیکن بعض کی اس دنیا میں بھی ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹھکرا دیتے ہیں ان کے ساتھ اس کا اس قسم کا سلوک تو نہیں ہوتا جو اس کا اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا، ان کی تکلیفوں کو دور کرنا اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کاملہ کے نتیجہ میں کسی کو ربوبیت سے محروم نہیں کرتا حتیٰ کہ بعض دفعہ ایسے لوگوں کی دعائوں کو بھی شرف قبولیت بخشتا ہے اگر ہم خداتعالیٰ کے بندے ہیں اور یقینا ہم اس کے بندے ہیں اس نے ہمیں علیٰ وجہ البصیرت اس یقین پر قائم کیا ہے کہ بندگی صرف اس کی کرنی ہے اور قرآن کریم کی رو سے بندگی کے کیا معنے ہیں؟ اس کی صحیح تفسیر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سیکھی ہے۔
پس ہمارا حسن سلوک اور ہمارے اخلاق کا معیار وہ اخلاق ہونے چائیں جن کو قران کریم نے بیان کیا ہے یا جن کا نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ سے پتہ لگتا ہے یا جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تفسیر کی اور اپنے اسوہ سے ہمیں بتایا کہ جہاں تک دنیوی ضروریات کے پورا کرنے کا سوال ہے قطع نظر اس کے کہ کسی کا کیا عقیدہ ہے وہ پوری ہونی چاہئیں اور جہاں تک روحانی ضروریات کا سوال ہے قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جبر کے بغیر نیکی و تقویٰ اور حق و صداقت کو محبت اور پیار سے ہر انسان کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔
پس علمی دلائل جو ہم اپنے مجاہدہ سے سیکھ سکتے ہیں اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھائے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور طہارت قلب اور تزکیہ نفس کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتے ہیں یہ ایک مستقل حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے حق میں ہمارے ہاتھ میں ایک بڑا زبردست ہتھیار دیا ہے اور ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے خداتعالیٰ سے علم حاصل کیا اور آگے دوسروں کو سکھایا پھر وہ آسمانی تائیدات جن کا اس مادی دنیا کے ساتھ تعلق ہے جیسے مثلاً مکہ کا فتح ہو جانا ایک زبردست نشان تھا۔ رسول کریمﷺ کا کفار مکہ کی زبردست مخالفتوں کے باوجو دمکہ سے بحفاظت نکلنا بڑا عظیم نشان ہے پھر قیصر و کسریٰ کے متعلق پیشگوئیوں کا پورا ہونا ایسے خوارق عادت نشان ہیں جو ظاہری اسباب پر نظر رکھتے ہوئے انہونی باتیں دکھائی دیتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پوری کر دیتا ہے مگر یہ تائید آسمانی یعنی نصرت الٰہی اور توفیق باری تعالیٰ انسان کو خلق عظیم کا ظل دنیا پر ظاہر کرنے سے ملتی ہے اور یہ بات اپنے اثر کے لحاظ سے بہت زیادہ مؤثر ہے۔
پس ہمیں ساری چیزوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ وہ تمام علوم جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا آپ کے خلفاء کے ذریعہ جماعت کو دئیے ہیں وہ سیکھنے چاہئیں اور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا معلم اور استاد بن جائے اگر ہر احمدی یہ سوچے کہ میرے لئے یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر یہ فضل کرے اور وہ خود میرا معلم بن جائے تو اسے بڑی لذت محسوس ہو گی ہماری جماعت میں آج بھی سینکڑوں ہزاروں آدمی ایسے بھی ہیں جو تھوڑی یا بہت تعلیم اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں ہمارے نوجوان مبلّغ باہر جاتے ہیں ان کے علم یا ان کی قابلیت یا ان کی وجاہت پر ہمیں بھروسہ نہیں ہوتا ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہی ہماری توقعات کو پورا کرتا ہے اور ہمیں دکھ میں نہیں ڈالتا اور بڑے بڑے پادری ہمارے مبلغین سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ بلّی گراہم جیسا بڑا آدمی جس کے متعلق کہتے ہیں کہ امریکہ کے پریذیڈنٹ نے اسے خاص طور پر بلا کر کئی گھنٹے تک اس سے باتیں کیں جب وہ افریقہ میں آیا تو ہمارے نوجوان مبلغوں نے جن کی دنیوی حیثیت(اب مدد کا ایک حصہ دنیوی حیثیت والا بھی بن گیا ہے) نہ ہونے کے برابر ہے بیچارے غریب جنہیں پیٹ بھر کر کھانے کے لئے بھی نہیں ملتا تھوڑا سا پڑھے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے فضل کی انگلی پکڑ کر وہاں پہنچ گئے تھے اور ہم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا تھا وہ اس کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے چنانچہ اس کو افریقہ میں ان الفاظ میں یہ اعلان کرنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے چرب زبانی تو دی ہے لیکن آسمانی تائید اور آسمانی نشان میرے ساتھ کوئی نہیں جب اس کو یہ کہا گیا کہ تم کہتے ہو کہ نجات خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانے پر منحصر ہے تو قبولیت دعا جسے خود حضرت مسیح علیہ السلام نے(جسے تم خداوند یسوع کہتے ہو) ایمان کی نشانی بتائی ہے اس میں مقابلہ کر لو۔ مگر اس نے کہا کہ آسمانی تائید؟ اللہ تعالیٰ کی محبت کا سلوک اور خداتعالیٰ کا اپنی قدرت کاملہ سے اس بات کا اظہار کرنا کہ یہ لوگ میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور یہی غالب ہیں اس چیز سے میں نے حصہ نہیں لیا البتہ باتیں جتنی مرضی چاہو مجھ سے کروا لو لیکن باتیں تو ایک دہریہ بھی کر لیتا ہے۔ ایسے ہزاروں آدمی ہیں جو لوگوں کے جذبات کو بہا کر لے جاتے ہیں حالانکہ وہ سوشلزم یا کمیونزم پر تقریر کر رہے ہوتے ہیں۔ پس چرب زبانی بھی ایک ملکہ ہے جس طرح کسی انسان کو اللہ تعالیٰ یہ طاقت دیتا ہے کہ وہ بیس تنوری روٹیاں کھا جائے اور بیس پچیس روٹیاں کھا لینے والے آدمی فی الحقیقت دنیا میں موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح اس سے ملتی جلتی طاقت یہ ہے کہ موٹے موٹے پچاس الفاظ ایک منٹ میں آگے پیچھے جوڑ کر اس طرح کہہ دینا کہ لوگ سمجھیں بڑا چرب زبان ہے۔ بڑا Orator یعنی فصیح و بلیغ مقرر ہے یا جس طرح کسی کو یہ طاقت ہو کہ برف پڑی ہو اور وہ ایک ہی قمیص میں پھر رہا ہو۔ ٹھیک ہے یہ ایک خاص قسم کی طاقت ہے لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دنیا کے لئے مفید ہو اور ہم کہہ سکیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کرکے دنیا پر ایک خاص قسم کا احسان کیا ہے۔ یونیورسٹی میں کیمسٹری کے ایک پروفیسر خواجہ صلاح الدین صاحب ہیں وہ سردیوں میں ایک ہی قمیص میں پھرتے رہتے ہیں۔ اب یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے لیکن انسانیت کا اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے جلوے ہر طرح ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں دراصل یہ سکھانا مقصود ہوتا ہے کہ ہم نے زینت کے طور پر جو کپڑے بنائے ہیں اس سے تمہارا امتحان لینا بھی مطلوب ہے کیونکہ جو لوگ ننگے ہوں ان کا ننگ ڈھانکنا تمہارا فرض ہے اگر ہر انسان بندر کی طرح کپڑے کی ضرورت سے بے نیاز ہوتا تو اس کا یہ خُلق کیسے ظاہر ہوتا کہ جن کے پاس کپڑے نہیں ہیں وہ انہیں کپڑے مہیا کرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو کچھ بنانا ہوتا ہے اس کے مطابق اسے قوتیں اور استعدادیں بخشی ہیں اس لئے ایک احمدی کو ہر دوسرے انسان بلکہ ہر مخلوق جاندار سے بھی غیر جاندار سے بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ قرآن کریم نے ان چیزوں کے متعلق بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے میں قلت وقت کی وجہ سے اس وقت ان میں نہیں جا سکتا۔
بہرحال جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ بشاشت سے، مسکراتے چہرے سے ایک دوسرے سے ملنا ایک بہت بڑا خلق ہے کوئی گالیاں بھی دے رہا ہو تو اس کا کوئی اثر نہیں لینا چاہئے اگر ایک سپاہی کی یہ خوبی ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں وہ آگے ہی آگے بڑھ رہا ہوتا ہے اور قوم اس پر فخر کرتی ہے تو ایک مسلمان احمدی کی بھی یہ شان ہے کہ گولیوں سے زیادہ گالیاں اسے مل رہی ہوتی ہیں لیکن وہ اسی طرح مسکرا رہا ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو بچانا چاہے تو گالیاں بھی کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں اس لئے یہ گالیاں میرا کیا بگاڑ لیں گی۔
لاہور میں کالج کی طالب علمی کے زمانہ میں ایک دفعہ قادیان جاتے ہوئے امرتسر تک ایک شخص میرا ہمسفر تھا جس نے مجھے بے نقط سنانی شروع کر دیں۔ میں مسکرا کر اس سے باتیں کرتا رہا اور وہ مجھے گالیاں دیتا رہا۔ میں مسکرا کر اسے جواب دئیے جائوں اور وہ مجھے گالیاں دیتے جائے یہاں تک کہ امرتسر آ گیا جب میں وہاں اترا تو اس سے رہا نہ گیا اور بے اختیار کہنے لگا کہ اگر سب آپ کی طرح تبلیغ کریں تو آپ ہمیں بہت جلد اپنے ساتھ ملا لیں گے۔ میں جان کر آپ کو گالیاں دے رہا تھا(کچھ تو اس کی عادت بھی معلوم ہوتی تھی لیکن بعض مخالف بھی بڑے شریف معلوم ہوتے ہیں وہ ایسی بات منہ پر نہیں لاتے) اور میں آزمانا چاہتا تھا کہ آپ کے اندر قوت برداشت کتنی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے(اور آپ نے بھی اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا ہو گا) کہ اگر کسی کی تلخ ترش باتوں کو مسکراتے ہوئے برداشت کیا جائے تو اگلے آدمی کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ سچے ہیں بہرحال کوئی کسی بھی نیت سے بُرا بھلا کہہ رہا ہو دکھ دے رہا ہو، ایذا پہنچا رہا ہو، اس کے ساتھ ہمارا سلوک انہی اخلاق کے مطابق ہونا چاہئے جن کو نبی اکرمﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ سے دنیا میں قائم فرمایا ہے۔(آمین)
٭…٭…٭

اقتصادیات پر اثر انداز ہونے والی
آفاتِ نفس سے بچنے کا حکم
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍جولائی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ نفسِ امّارہ کے بُرے خیالات کا قلع قمع کریں۔
٭ دنیا میں تمام حقوق اللہ تعالیٰ ہی قائم کرتا ہے۔
٭ نفسِ امّارہ کی آفات اقتصادیات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
٭ سُود سے اقتصادی غلامی پیدا ہوتی ہے۔
٭ اسلام کے اقتصادی نظام میں امیر اور غریب کا حق قائم کیا گیا ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیتِ مبارکہ پڑھی۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ- (البینۃ:۶)
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
اس سلسلہ خطبات میں میں اسلام کے اقتصادی نظام پر روشنی ڈال رہا ہوں اور میں بتا رہا ہوں کہ اسلام کے اقتصادی نظام سے تعلق رکھنے والے تمام احکام (اوامرو نواہی) اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کے لئے دئیے گئے ہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ حقیقی اور خالص عبادت کے گیارہ تقاضے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں بیان ہوئے ہیں
خالص عبادت کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی آفات کو سمجھے اور نفسِ امارہ کے برے اور گندے میلانوں کو سمجھ کر ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توحید کے بارے میں بحث کرتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ توحید چھ قسم کی ہوتی ہے میں نے اس کا ذکر ذرا تفصیل سے پچھلے ایک خطبہ میں کیا تھا میں نے بتایا تھا کہ ایک قسم کی توحید وہ ہے جو انسان کے نفس کے حق کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور پھر آگے اس کی دو قسمیں ہیں ایک حق نفس کے ساتھ تعلق رکھنے والی توحید علمی اور دوسری حق نفس کے ساتھ تعلق رکھنے والی توحید عملی۔ حقِ نفس سے تعلق رکھنے والی توحید علمی یہ ہے کہ انسان نفس کی کمزوریوں اور نفس کے عیوب اور نفس کی آفات اور نفس کے رذائل کا علم رکھے اور حق نفس سے تعلق رکھنے والی توحید عملی یہ ہے کہ ان آفات نفس سے بچنے کی کوشش کرے۔ نفسِ امّارہ کے مطالبوں سے مغلوب نہ ہو بلکہ غالب ہو کر نفسِ لوّامہ کی ہدایتوں کے ماتحت نفسِ مطئمنّہ کی تلاش میں زندگی کے دن گزارے اور پھر اسے حاصل کرے۔ حقِ نفس سے تعلق رکھنے والی اس توحید کو ہم ورع یا زہد و تعبد کا نام بھی دیتے ہیں یعنی ان آفات کو جاننا اور ان سے بچنے کی کوشش کرنا اور ان پر غالب آنا نفس کی آفات کا بڑا گہرا تعلق اقتصادیات سے بھی ہے اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کو نظر انداز کر دیا جائے اور نفس کی خواہشات کی پیروی کی جائے تو ایک ایسا اقتصادی نظام قائم ہوتا ہے جو انسانیت کے لئے تباہ کن ثابت ہوتا اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا موجب بنتا ہے۔
نفس کی پہلی آفت ظلم ہے ظلم کے لغوی معنی یہ ہیں کہ اپنے نفس کے جو حقوق ہیں ان سے زائد طلب کرنا اور جو غیر کے حقوق ہیں ان کو روکنا اور ان کو ادا نہ کرنا یہ ہر دو کام یعنی دوسرے کی حق تلفی اور اپنے لئے حق سے زیادہ چاہنا اور حاصل کرنا یہ ظلم ہے کیونکہ یہ ہر دو وَضْعُ الشَّيْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ کے دائرہ کے اندر آتے ہیں۔
اس ظلم کے نتیجہ میں بہت سی اقتصادی برائیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ قرآن کریم نے ان کا وضاحت سے ذکر کر کے ان سے منع فرمایا ہے بلکہ اس کو *** ذہنیت قرار دیا ہے کہ انسان اپنا حق تو اصل حق سے زائد سمجھے اور دوسرے کے حق کو اس کے اصل حق سے کم سمجھے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ یٰسین میں فرماتا ہے ۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْیَشَآئُ اللّٰہٗ اَطْعَمَہٗٓ- (یٰسٓ:۴۸)
فرمایا کہ دنیا میں بعض لوگ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری یعنی کفران نعمت کرنے والے ہوتے ہیں جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازا اور رزق عطا کیا ہے اس رزق اور ان نعمتوں کو ان حقوق کے مطابق خرچ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی حق قائم نہیں کیا۔ ہم خود حقوق کو قائم کرتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے حق کو قائم کرنا تھا تو محتاج اور اپنے حق سے محروم نظر آنے والوں میں سے اللہ تعالیٰ کسی کو بھی محتاج و محروم نہ رکھتا وہ خود ان کے حقوق ادا کر دیتا۔
پس ایسے لوگ دوسروں کے حقوق کے متعلق اس اصل سے انکار کرتے ہیں کہ دنیا میں تمام حقوق اللہ تعالیٰ ہی قائم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جو کسی کا حق قائم کرنے کی مجاز ہو کیونکہ اس نے ہمیں پیدا کیا اور اسی نے ہمیں قوتیں اور استعدادیں عطا کیں اور پھر ان کی نشوونما کے سامان بھی پیدا کئے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی ہے جو پیدا کرتا ہے وہی ہر ایک کو بہتر جانتا اور وہی ہر ایک کے حق کو قائم کرسکتا ہے کسی دوسرے کو تو نہ ان قوتوں اور استعدادوں کا علم ہے نہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مخلوق باری تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کوئی فیصلہ کرے مگر یہ ناشکرے لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اموال میں دوسروں کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو عزت و اکرام کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ عزت و اکرام کی نشانی اور علامت جانتے ہیں۔ جیسا کہ سورۂ فجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَامَا ابْتَلٰـہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ (فجر:۱۶)
کہ جب اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بعض کو آزمانا چاہتا ہے تو ایک خاص قسم کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ڈال دیتا ہے اور اس آزمائش سے ان کے لئے عزت اور وجاہت کے حصول کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں نعمتوں سے نوازتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اگر تم اس رزق کو اور ان نعماء کو میری ان ان ہدایتوں کے مطابق خرچ کرو گے تو میری نگاہ میں تم معزز بن جائو گے۔ بعض لوگ تو اس بات کو سمجھتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جو اس راز کو سمجھتے ہی نہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ رَبِّیْ اَکْرَمَنِ یعنی میرے اندر کچھ اس قسم کی ذاتی خوبیاں ہیں کہ میرا رب بھی میری عزت و اکرام کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ حالانکہ ان کو یہ نعماء اس لئے دی گئی تھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ان کو جائز طور پر خرچ کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت و اکرام کو حاصل کریں۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھتے نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یتیم کی عزت نہیں کرتے، مسکین کے حقوق ادا نہیں کرتے اور جو مال انہیں ملتا ہے نہ صرف وہ مال جسے وہ خود کماتے ہیں بلکہ وہ مال بھی جسے وہ ورثہ میں پاتے ہیں جس کی کمائی میں ان کی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوتا اس سارے مال اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ باقی نعمتوں کا بھی غلط استعمال کرتے ہوئے اسے وہ عیش و عشرت میں اُڑا دیتے ہیں ۔ وہ مال سے انتہائی محبت کرتے ہیں اس کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔ اس کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اور اس مال کی خاطر اللہ تعالیٰ کو ٹھکرا دیتے ہیں اور دنیا کی اس عارضی عزت کی خاطر ابدی طور پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کے شرف سے خود کو محروم کر لیتے ہیں۔ حالانکہ جب اللہ تعالیٰ کی عزت کی نگاہ انسان پر پڑ جاتی ہے تو انسان ہر قسم کی مسرتوں کا وارث بن جاتا ہے۔
پس نفس کی پہلی اور بنیادی آفت یہ ظلم ہی ہے گو باقی آفات نفس بھی ظلم ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان شکلوں کو ہم نے مختلف نام دئیے ہیں کیونکہ ہر آفت کا تعلق یا تو اپنے حق سے زائد لینے یا حق سے کم دینے سے ہے۔
نفس کی دوسری آفت حرص یعنی لالچ ہے مثلاً مال سے بہت زیادہ محبت کرنا سورۃ فجر کی مذکورہ بالا آیت کے بعد اس سورۃ کے آخر میں بھی اس کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (الفجر:۲۱)
اس خصلت رذیلہ کے نتیجہ میں اقتصادی دنیا میں دو زبردست اور ہلاکت کی طرف لے جانے والی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان مال کے لالچ کے نتیجہ میں احتکار کرتا ہے یعنی اس کے پاس جو اشیا اور اموال فروخت کے لئے ہوتے ہیں وہ ان لوگوں کو جنھیں ان کی ضرورت ہوتی ہے قیمتاً بھی نہیں دیتا بلکہ ان کو روکے رکھتا ہے اور اس طرح مخلوق خدا کو تکلیف میں ڈالتا ہے حالانکہ ان لوگوں کا یہ حق خدا تعالیٰ نے قائم کیا تھا کہ اس سامان کو جو اللہ تعالیٰ نے اس وقت پیدا کیا اس میں سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے خریدیں لیکن یہ شخص لوگوں کو ان کی ضرورت کے وقت خریدنے کے حق سے محروم کر دیتا ہے اور مال کو روک رکھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے اور یہ لالچ کار فرما ہوتا ہے کہ اس طرح محدود و معین دائرہ میں قحط کے آثار پیدا ہوں گے اور وہ زیادہ قیمت پر مال کو بیچ کر فائدہ اٹھائے گا۔ اس طرح حرص کے نتیجہ میں وہ دوسرے کو اس کے حقِ خرید سے محروم کر دیتا ہے۔ اسلام نے اس سے سختی سے منع کیا ہے۔
دوسرے اس حرص اور لالچ کے نتیجہ میں ہمیں اقتصادیات کے اندر ایک ظلم عظیم نظر آرہا ہے اور وہ سود ہے کیونکہ اس سود کے نتیجہ میں آج دنیا کی جو شکل عملاً ہمیں نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے ایک چھوٹے سے گروہ کے پاس دنیا کے سونے اور چاندی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔
سود سے اقتصادی غلامی پیدا ہوتی ہے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زکٰوۃ کے نظام کو جاری کیا ہے۔ جس طرح سود بنی نوع انسان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا ایک عظیم منصوبہ ہے اسی طرح نظام زکٰوۃ اس اقتصادی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کا ایک عظیم حربہ ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے نفس کی اس آفت سے بھی انسان کو اسلام کے اقتصادی نظام کے ذریعہ بچایا ہے کیونکہ فرمایا ہے احتکار نہیں کرنا، سود نہیں لینا، بلکہ اس کے مقابلہ میں زکوۃ کو ادا کرنا ہے تا کہ اس طرح لوگوں کے وہ حقوق ادا ہو جائیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ویسے زکوٰۃ کے Institution (نظام ) کے نتیجہ میں ہر فرد واحد کے اقتصادی حقوق پورے طور پر ادا نہیں ہو سکتے۔ تا ہم بہت سے افراد کے اقتصادی حقوق ادا ہو جاتے ہیں اور جو حقوق ادا نہیں ہوتے ان کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسرے احکام دئیے ہیں۔
نفس کی تیسری آفت حسد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تمنا اور خواہش رکھنا کہ وہ شخص جو کسی نعمت کا مستحق ہے اس سے وہ نعمت چھن جائے اور اس کے لئے کوشش بھی کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے یہ ہدایت دی ہے کہ حسد نہیں کرنا اور تاکیداً فرمایا ہے کہ جن لوگوں کے پاس میری نعمتوں سے تمہیں کچھ نظر آتا ہے اور میں نے ان کا یہ حق قائم کیا ہو کہ یہ نعمتیں ان کے پاس رہیں کیونکہ وہ ان کا استحقاق رکھتے ہیں تو ان کے متعلق تمہارے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا جو حق قائم کیا ہے اس سے وہ محروم ہو جائیں اور نہ ہی اس کے لئے تمہیں کبھی کوشش کرنی چاہئے۔
نفس کی چوتھی آفت جو اقتصادیات پر بڑا گہرا اثر ڈالتی ہے وہ بخل کی آفت ہے ۔ بخل کے معنے بھی حق کو ادا نہ کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ بخل یہ ہے کہ کسی چیز کو دوسرے کو دینے سے روکے رکھنا جس کے روکے رکھنے کا اسے کوئی حق نہ تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زید کا بکر پر اللہ تعالیٰ نے ایک حق قائم کیا تھا اور بکر یہ حق ادا کرنے سے گریز کرتا ہے اس کو بخل کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ بخل کی آفت فخر و مباہات کے منبع سے سرا بھارتی ہے، اور بخل سے پرہیز کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ فخر و مباہات سے اجتناب کیاجائے۔
پس بخل کے معنے یہ ہوئے کسی کا حق تھا اور یہ حق کسی دوسرے پر تھا لیکن جس پر حق تھا وہ یہ حق حقدار کو ادا نہیں کر رہا۔ اللہ تعالیٰ سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے :۔
وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَابَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَاتَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ- (آل عمران:۱۸۱)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخیل کے لئے اس کا بخل اچھے نتائج پیدا نہیں کرے گا یہ اس کے لئے خیر کا موجب نہیں ہو گا۔ بعض قومیں بڑی بخیل ہیں اگر آپ ان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ اپنے تاریخی ادوار میں اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی لعنتوں کی وارث بنتی رہی ہیں۔ خیر کی وارث کبھی نہیں بنیںکیونکہ فرمایا ہے بَلْ ھُوَ شَرٌّلَّھُمْ اس بخل کا نتیجہ خیر ہو ہی نہیں سکتا بلکہ ان کی بعض دنیوی ترقیات کے لئے، ان کے ذہنی نشوونما کے لئے ان کی اخلاقی ترقیات کے لئے اور ان کی روحانی ترقیات کے لئے برا نتیجہ نکلے گااور پھر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو نیک قوتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں وہ اس رنگ میں اپنے نشوونما کے کمال کو نہیں پہنچ سکیں گی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کو حاصل کر سکیں بلکہ ان کا یہ بخل اللہ تعالیٰ کی طرف سے *** کا موجب بنے گا اور انہوں نے بخل کی وجہ سے پوسروں کے حقوق ادا نہ کر کے جو اموال یا سونا اور چاندی وغیرہ جمع کئے ہیں وہ ان کے کسی کام نہیں آئیں گے وہ ان کے گلے کا طوق بنا دئیے جائیں گے اگرچہ ایسا اس دن ہو گا جس دن اللہ تعالیٰ ان کی اس تباہی کا فیصلہ کرے گا تاہم اس دنیا میں بھی بعض قوموں کی تباہی کا وقت قریب آرہا ہے اور احمدیت کی ترقی کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کی ہے تمہارا کوئی حق اس پر نہیں ہے کیونکہ اس کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور جو حقیقی مالک ہو یہ اسی کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ جو اس کی چیزیں ہیں وہ کس کو کس رنگ اور کس طریق سے پہنچنی چاہئیں۔ بعض دفعہ وہ خود ایسا انتظام کرتا ہے کہ حق دار کو اس کا حق مل جاتا ہے یا بعض دفعہ پورا نہیں تو ایک حد تک حقدار کو اس کا حق مل جاتا ہے۔ یعنی کلی طور پر اپنے حقوق کے لینے میں وہ محروم نہیں رہتا لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ حق تو زید کا ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ بکر کو دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے بکر! یہ تیرا حق نہیں یہ تو میں نے تیری ترقی کے لئے سامان پیدا کئے ہیں کہ تو جس کا حق ہے اسے پہنچا دے جو چیز تیری نہیں تھی جو چیز کسی دوسرے کی تھی اگر میرے کہنے پر میری رضا کے حصول کے لئے بخل سے بچتے ہوئے تو یہ چیز اس کے حقدار کو پہنچا دے گا تو تیرا اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ درحقیقت یہ چیز تیری تھی ہی نہیں البتہ اس میں تیرے لئے بہت فائدہ ہے کیونکہ اس طرح تم میری رضا کو، میری محبت کو، تم میرے پیار کو اور ہر اس خیر کو جس کا منبع مَیں ہوں اور ہر اس فیض کو جس کا سرچشمہ مَیں ہوں پا لو گے۔
بخل کے نتیجہ میں انسانی فطرت اس طرف بھی مائل ہو جاتی ہے کہ جب انسان ماپ اور تول والی چیزوں کو لینے لگتا ہے تو زیادہ لیتا ہے یعنی دوسرے کے حق کو چھیننے کی کوشش کرتا ہے اور جب اسے کوئی چیز دینے لگتا ہے تو کم تول کر یعنی کم اور چھوٹے پیمانے سے اس کو ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (انعام:۱۵۳)
کہ ماپ اور تول کو تم حق و انصاف کے ترازو پر تولا کرو اس میں صرف کَیْل اور میزان ہی نہیں بلکہ معنی کے لحاظ سے ہر ایک چیز کا پیمانہ مراد ہے مثلاً باہمی معاہدات ہوتے ہیں کہ اس قسم کی چیز دینی لینی ہے جیسے مثلاً روئی ہے تو اس قسم کی روئی ہو۔ گندم ہے تو اس قسم کی گندم ہو۔ ویسے اب گندم کی بھی بہت سی قسمیں نکل آئی ہیں تا ہم لین دین میں اس معاہدہ کی اصل روح کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قومیں جو اپنے عہد و پیمان کو انصاف سے پورا کرنے والی نہیں ہوتیں وہ اقتصادی لحاظ سے کبھی نہیں اُبھریں۔قرآن کریم میںیہ بھی آتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہیں کہ
اِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ (اَلْمُطَفِّفِیْن:۴)
کہ جب تول کر دیتے ہیں یا وزن کرتے ہیں یا پیمائش کرتے ہیں یا ایک معیار مقرر کرتے ہیں تو اس معیار پر پورے نہیں اُترتے مثلاً ہاکی ایک کھیلنے کی چیز ہے بچے اس مثال کو سمجھ جائیں گے اگر کسی کالج نے درجنوں کے حساب سے ہاکیاں خریدنی ہیں اور دکاندار ایک معیاری ہاکی انہیں دکھاتا ہے لیکن اگر بعد میں وہ اس معیار کی ہاکیاں نہ دے تو یہ چیز بھی اسی آیت کے نیچے آجاتی ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اسلام کے اقتصادی نظام کو ایسا بنایا ہے کہ بخل اس میں کوئی مفسدانہ کھیل کھیل ہی نہیں سکتا بلکہ بخل کے نتیجہ میں جو مختلف شکلوں کی حق تلفی ہو سکتی تھی اسلام کے اقتصادی نظام میں اس حق تلفی کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔
نفس کی پانچویں آفت ریا ہے یعنی دکھاوے نمائش کے لئے کام کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جو اقتصادی اصول وضع کئے ہیں ان میں ریا اور نمائش کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے جو لوگ ریا سے کام لیتے اور نمائش یعنی دکھاوے کے لئے کام کرتے ہیں وہ اپنے اصل حقوق سے زیادہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں یا زیادہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کسی فرد واحد کی قوتوں اور استعدادوں کی صحیح اور کامل نشوونما کے لئے ریا اور نمائش کی ضرورت نہیں ہے۔ عقل بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی اور مذہب اسلام بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور ہر وہ چیز جس کی فرد واحد یا خاندان یا قوم یا اقوام کی قوتوں اور استعدادوں کی صحیح اور کامل نشوونما کے لئے ضرورت نہ ہو اس کی اسلام کے اقتصادی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
قرآن کریم میں نمائش کرنے والوں اور دکھاوے کے طور پر کام کرنے والوں کا بھی ذکر موجود ہے اور پھر ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے :
اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا (اَلْبَلَد:۷)
کہ ایسا انسان کہے گا میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کر دیا یہیں اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ہے کہ مال خرچ کرنا فی نفسہٖ کوئی نیکی نہیں ہے۔ حق کی ادائیگی میں مال خرچ کرنا نیکی ہے کسی کو کوئی چیز دینا نیکی نہیں ہے بلکہ کسی کا اصل حق ادا کرنا نیکی ہے اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ اگر کسی کا مال اس لئے خرچ ہوا ہے کہ اس طرح بعض لوگوں کے حقوق ادا ہو جائیں تو یہ ایک نیکی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح تم میری رضا کے وارث بن جائو گے لیکن اگر تمہارا خرچ اس وجہ سے نہیں اپنے مال کو تم اس مقصد اور اس غرض کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ تم مال کو محض نمائش اور دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہو جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ میرے پاس بڑا مال ہے اور اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہو کہ تمہارے پاس جو مال ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کے حقوق قائم کئے ہیں اور تجھے وہ مال اس لئے دیا گیا ہے کہ تو دوسروں کے ان حقوق کو ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنے لیکن تو اس چیز کو بھول جاتا ہے اور بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے نمائش کے طور پر بے تحاشا مال خرچ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض بے وقوف اور بصارت اور بصیرت سے محروم شاید اس کے نتیجہ میں تیری تعریف بھی کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تعریفی نگاہ تجھ پر نہیں پڑ سکتی اور نہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے تجھ سے عزت و احترام کا سلوک کر سکتے ہیں۔
اس آیت کے آگے جو آیات ہیں ان میں دو اصولی باتیں بیان کی گئی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق کی ادائیگی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک غلامی سے چھڑانے کے لئے اور دوسری غربت کو دور کرنے کے لئے ۔ ان ہر دو کا اس حق کی ادائیگی سے تعلق ہے ۔ غلامی سے صرف وہی غلامی مراد نہیں جو ایک وقت تک بڑی بھیانک شکل میں دنیا میں رائج رہی ہے اور اب بھی نیم ظاہری شکل میں غلاموں کی نسلیں امریکہ میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ غلامی کا طوق بظاہر ان کی گردن میں نہیں ہوتا لیکن دنیا کا کوئی عقلمند اور خدا ترس انسان ان کو آزاد بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ مختلف قوانین میں مختلف روایات میں جکڑے ہوئے ہیں مختلف نفرتوں مختلف حقارتوں اور مختلف حق تلفیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
ایک اور غلامی بھی ہے جو اگرچہ اس طرح کی غلامی تو نہیں لیکن وہ غلامی ضرور ہے کیونکہ ہر وہ شخص جو ایک ایسے ماحول میں پرورش پا رہا ہے کہ مال کے علاوہ جو اس کے دوسرے حقوق ہیں وہ اسے نہیں مل رہے وہ بھی تو غلام ہے وہ بھی جکڑا ہوا اور قید ہے،وہ آزاد نہیں،کیونکہ وہ اس چیز میں آزاد نہیں کہ وہ اپنی قوتوں اور استعدادوں کے مطابق صحیح نشوونما پا سکے اس لئے وہ غلام ہی ہے خواہ دنیا اس کو غلام سمجھے اور اس کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش کرے اور خواہ دنیا اس کو غلام نہ سمجھے اور اس کی غلامی کی زنجیروں میں اسے جکڑا رکھنے کی کوشش کرے بہرحال اس کی غلامی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت اچھا ذہن دیا ہے لیکن اس کا ماحول اس کے ذہن کی کماحقہ، نشوونما نہیں ہونے دیتا، وہ تو درحقیقت غلام ہی ہے اس کے ہاتھ تو بندھے ہوئے ہی ہیں وہ باوجود احساس رکھنے کے اپنی قوتوں کی نشوونما نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ وہ اپنی غلامی کا احساس ہی نہیں رکھتا چنانچہ فرانس کے ایک سیاسی مفکر نے شاید اسی حقیقت کے پیش نظر ایک جگہ لکھا ہے :
‏’’A slave is to be forced to be free‘‘
یعنی ایک غلام کو زبردستی آزاد بنانا پڑے گا کیونکہ اسے اپنی غلامی کا احساس نہیں۔ اس مفکر کی منطق اور فلسفہ کے بعض حصوں سے تو اسلام اختلاف رکھتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض دفعہ غلام کو اپنی غلامی کا احساس تک نہیں ہوتا اسلام نے پہلے اسے غلامی کا احساس دلایا ہے۔ پھر اس کی آزادی کے لئے ہر قسم کے سامان پیدا کئے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے سورۂ بلد کی ان آیات میں فرمایا ہے کہ مال کو ڈھیروں ڈھیر خرچ کر دینا کوئی خوبی نہیں ہے۔ خوبی یہ ہے کہ اموال کو اس رنگ میں خرچ کیا جائے کہ دنیا سے ہر قسم کی غلامی مٹ جائے۔ وہ غلامی بھی جو ایک بھیانک شکل میں نظر آتی ہے اور وہ غلامی بھی جو بہت سی آنکھوں سے پوشیدہ رہتی ہے اور بعض دفعہ اس غلام کی آنکھ سے بھی پوشیدہ رہتی ہے اور اسے اپنی غلامی کا خیال ہی نہیں ہوتا لیکن ہر قسم کی غلامی دور ہونی چاہئے اس معنی میں کہ ہر آدمی اس بات میں آزاد ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر اپنی استعدادوں کی نشوونما کو کمال تک پہنچا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے رزق کی تقسیم میں عزت و احترام کے حصول کا سامان رکھ دیا ہے یعنی ایک شخص کو مال دے دیا ہے۔ سارے مال پر جس کا حق نہیں اور دوسرے کو براہ راست نہیں دیا جس کے حق کو اس نے قائم کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے کہا کہ جن کو میں نے ان کے نفس کے حقوق سے زائد (یعنی ہر ایک کے نفس کے بھی تو کچھ حقوق ہیں ) دیا ہے وہ ان کا نہیں ہے۔ میرے کہنے پر میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میری رضا کے حصول کے لئے میری محبت کو پانے کے لئے اس زائد مال کو ان لوگوں کو دے دو جن کے حقوق کو میں نے اسلامی شریعت میں قائم کیا ہے کیونکہ اس طرح تم میری نگاہ میں عزت کو حاصل کر لو گے۔
پس ہر قسم کی غربت کو دور کرنے اور ہر قسم کی غلامی سے انسان کو چھڑانے کے لئے تھوڑا یا بہت مال حق کی ادائیگی میں خرچ کئے جانے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ اسلام میں اس کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تم میری رضا کو حاصل کر سکو گے۔ لیکن اگر یہ دو مقاصد مدِّنظر نہ ہوں حق کی ادائیگی سامنے نہ ہو بلکہ صرف یہ خیال ہو کہ اگر میں نمائش کے طور پر مال کو خرچ کروں گا تو دنیا میں میری واہ واہ ہو گی اور دنیا کی بصارت و بصیرت سے محروم آنکھ مجھے غلط قسم کی عزت دے دے گی تو یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش کی غرض سے مال کے خرچ کرنے کے نتیجہ میں انسان کو کبھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح نفس کی اور بہت سی آفات ہیں جن کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلام کے اقتصادی نظام پر پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس کی ہر آفت کا ذکر قرآنی تعلیم میں کیا ہے اور اس سے بچنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اور ساتھ ہی اس سے بچنے کا طریق بھی بتایا ہے قرآن کے تمام نواہی یعنی یہ نہیں کرنا۔ یہ نہیں کرنا وغیرہ کا تعلق اسی سے ہے۔ ان آفات نفس کا تعلق چونکہ انسانی زندگی کے ساتھ ہے اور چونکہ اقتصادیات بھی انسانی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اس لئے اقتصادیات سے بھی ہے۔ چند موٹی موٹی آفاتِ نفس اور نفس امّارہ کے میلان جو نمایاں طور پر اقتصادیات پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کا میں نے اس وقت ذکر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کا قائم کردہ اقتصادی نظام سرمایہ داری یا اشتراکیت کے قائم کردہ اقتصادی نظام سے بہت مختلف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں خالص اور حقیقی عبادت کا پانچواں تقاضا یہ بتایا تھا کہ احکام یعنی اوامر و نواہی خالصۃً للہ ہوں اوامر کی پیروی کی جائے اور نواہی سے بچا جائے۔ دراصل آفاتِ نفس سے بچنا اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانا (جو اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کا تیسرا تقاضا تھا) ممکن نہیں یعنی یہ دونوں تقاضے پورے نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم جاری نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جس بات کا حکم دیا ہے وہ کی جائے اور جس بات سے روکا ہے وہ بات نہ کی جائے اور اقتصادیات میں بھی (مثلاً ابھی میں نے پانچ آفتوں کا ذکر کیا ہے) ان آفتوں سے اسی صورت میں بچا جا سکتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرے اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کی جائے اور دین کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جائے تو دنیا میں ایک حسین اقتصادی نظام قائم ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جس قسم کے اقتصادی نظام کو وہ قائم کرنا چاہتا ہے وہ ہر اس اقتصادی نظام سے اعلیٰ اور برتر ہے جسے کوئی انسان یا کوئی قوم یا ساری اقوام مل کر بھی دنیا میں قائم کرنا چاہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی نظام میں جہاں تک مستحقین یا محرومین کی، جن کو حقوق نہیں مل رہے ضرورتیں پوری کرنے کا سوال ہے۔ اسلام کسی کی ضرورت کے پورا کرنے کے سوال کو اُٹھاتا ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے حق کو ادا کرنے کا سوال اُٹھاتا ہے ان دونوں میں حقیقتاً بڑا فرق ہے جو آدمی ضرورت پوری کروانا چاہتا ہے وہ فقیر بن جاتا ہے جیسا کہ آپ نے سفر کرتے ہوئے دیکھا ہو گا کہ جب کسی جگہ بس یا کار یا ریل ٹھہرتی ہے تو بھیک منگا سامنے آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں صبح سے بھوکا ہوں مجھے کچھ کھانے کو دو ضرورت اس نے پیش کی بھیک منگا بن گیا نا! پس باقی سارے نظاموں نے محروم کو فقیر اور بھیک منگا بنا دیا ہے پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ ان نظاموں نے ضرورت کا نام بھی لیا مگر اس کی تعریف نہیں کی۔ اس کی وضاحت نہیں کی کہ ضرورت سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس اقتصادی نظام میں جسے وہ قائم کرنا چاہتا ہے ضرورت کی بجائے حق کے تصور کو پیش کیا ہے یعنی ہر فرد واحد کے جو حقوق ہیں وہ ادا ہونے چاہئیں جس نظام میں ہر ایک کے حقوق ادا نہیں ہوتے وہ نظام درحقیقت غاصب ہے کیونکہ کسی کی صرف ضرورت کا ذکر کر کے اس کے سارے حقوق کو پورا نہ کرنا دراصل اسے محتاج اور فقیر اور بھیک منگا بنانے کے مترادف ہے اس کے مقابلہ میں اسلام کے اقتصادی نظام نے نہ صرف ضرورت کو تسلیم کیا ہے بلکہ ہر شخص کے اصل حق پر زور دیا ہے اور ضرورت کی بڑی لطیف تعریف کی ہے اور کسی نظام نے ایسی تعریف نہیں کی۔ اسلام کے اقتصادی نظام میں ضرورت سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد واحد کے جو حقوق ہیں وہ ادا ہونے چاہئیں اگر وہ ادا نہیں ہوتے تو وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اس کے غضب کے نیچے ہیں کیونکہ ان کے اموال میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کا حق رکھا تھا جسے وہ ادا نہیں کر رہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ہر انسان کو جو قوت اور استعداد بخشی ہے اس کی نشوونما کو اس کے کمال تک پہچانے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے عام اقتصادی نظاموں میں کہا جاتا ہے کہ جو ضروریات زندگی ہیں وہ دے دو۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں اس سے کام نہیں چلے گا۔ دوسرے نظام جب دینے پر راضی بھی ہوتے ہیں تو کم سے کم دینے پر راضی ہوتے ہیں۔ اسلام کا اقتصادی نظام کہتا ہے کہ کم سے کم نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ دینا چاہئے یعنی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے دینا ہے اور اس سے زیادہ کچھ اور ہو نہیں سکتا ورنہ اسراف ہو جائے گا او راسراف ایسی چیز ہے کہ اس کا حق خدا تعالیٰ نے قائم نہیں کیا۔
اسی طرح جو امیر ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کی زبان سے کہلوایا ہے ’’وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ ‘‘ (بخاری کتاب الصوم بابُ مَنْ اَقْسَم علی اخیہ لیُفْطر فی التطوع) ہم تیرا حق بھی قائم کرتے ہیں کیونکہ تیرے حق کی تعیین یہ ہے کہ تیرے اور تیرے خاندان کے جو قویٰ ہیں، جو طاقتیں اور استعدادیں ہیں ان کو کمال تک پہنچانے کے لئے تمہیں جن چیزوں کی ضرورت ہے ہم تمہیں دیتے ہیں اور جو اس سے زائد ہے اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا کے اندر آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری عیاشیوں کے جو اخراجات ہیں وہ تمہارا حق نہیں کیونکہ تمہاری قوت، قابلیت، طاقت اور استعداد کی نشوونما کے لئے ان کی ضرورت نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے امیر کا جو حق تسلیم کیا ہے غریب اس سے چھین نہیں سکتا جیسا کہ اشتراکیت نے ظلم کرتے ہوئے امر اء سے ان کا حق چھین لیا۔
پس اسلام کے اقتصادی نظام میں امیر کا بھی حق قائم کیا گیا ہے اور غریب کا بھی حق قائم کیا گیا ہے مانگنے کو برا سمجھا اور اپنی بحث میں اس چیز کو نہیں لایا اور کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے ہر شخص کا حق قائم کیا ہے وہ حق اس کو ملنا چاہئے اگر افراد اس حق کو نہیں دیتے، اگر وہ طوعی طور پر اس حق کو پورا نہیں کرتے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ حق دار کو اس کے حقوق دلوائے آگے اس کے لئے بڑی محنت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کا ذکر خود ’’ الدین‘‘ میں بیان ہوا ہے۔ اس پر بحث انشاء اللہ بعد میں ہو جائے گی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ۸؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۸)
٭…٭…٭


ہماری ہر عادت اللہ کے حکم اور فرمان کے
مطابق ہونی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍جولائی۱۹۶۹ء بمقام مسجدمبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ انسان کی صحیح نشوونما کے لئے عادت ایک بڑی ضروری چیز ہے۔
٭ نکما پن ایک نہایت ہی مہلک چیز ہے۔
٭ نکمے پن کی عادت کی وجہ سے سفارش جنم لیتی ہے۔
٭ وقت کا ضیاع ایک قومی نقصان ہے۔
٭ قرآن کریم نے منصوبہ بندی کی طرف بہت توجہ دلاتی ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :
پچھلے چند خطبات سے میں اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق سلسلہ وار ایک مضمون بیان کر رہا ہوں۔ میں بتا چکا ہوں کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے ربّ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور حقیقی اور خالص عبادت انسان سے گیارہ تقاضے کرتی ہے جن کا ذکر قرآن کریم کی ایک آیت کے اس ٹکڑا میں بیان ہوا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ(البینۃ:۶)
دین کے گیارہ معنے یہاں چسپاں ہوتے ہیں چونکہ خالص عبادت انسان کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتی ہے اس لئے ان گیارہ کے گیارہ تقاضوں کا تعلق اسلام کے اقتصادی نظام سے بھی ہے۔
پانچ تقاضوں کے متعلق میں اس سے قبل بتا چکا ہوں صحیح اور حقیقی عبادت کا چھٹا تقاضا یہ ہے کہ عادت اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو کیونکہ ’’ الدین ‘‘ کے معنے ’’العادۃ‘‘ کے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اس کی نشوونما کے لئے ایک قوت یہ بھی رکھی ہے کہ وہ اپنے اندر جسمانی اور روحانی مدارج کے حصول کے لئے عادت صحیحہ پیدا کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو یہ قوت عطا ہونا واقعی اس پر بڑا رحم ہے۔
روحانی لحاظ سے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو مخلصین کی جماعت ملی تھی جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے قبل انہیں خدا تعالیٰ اور اسلام کے لئے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے قیام کے لئے ایک آنہ خرچ کرنے کی بھی عادت نہیں تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو مالی قربانی دینے کی عادت ڈالنی شروع کی ۔ ابتداء میں بعض لوگوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک چونی دی اور آپ نے ان کا نام اپنی کتاب میں لکھ دیا چنانچہ اب قیامت تک ان کی وہ قربانی یاد رکھی جائے گی۔ شاید نئی نسل یہ پڑھ کر حیران ہو کہ اس سے زیادہ تو اطفال اپنے جیب خرچ سے بچا کر دے دیتے ہیں اس لئے کیوں اس وقت کی قربانی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کر کے ان لوگوں کو ایک ابدی زندگی عطا کی جس کے نتیجہ میں قیامت تک ان کی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی اور ان پر درود بھیجتی رہیں گی۔ دراصل یہ اہمیت اس لئے دی گئی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دھیلا خرچ کرنے کی بھی عادت نہیں تھی ان کے لئے تو چونی بھی بڑی چیز تھی اور پھر یہی لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد زندگی دی اور جن کے لئے ان کی صحیح تربیت کے نتیجہ میں صحیح عادتیں پیدا ہو جانے کی وجہ سے رفعتوں کا حصول بڑا آسان ہو گیا تھا۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں پر قربانیاں دیں۔ مگر خدا تعالیٰ اور اس کے بندے پر احسان نہیں جتایا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم فضل سمجھا۔
غرض انسان کی صحیح نشوونما کے لئے عادت ایک بڑی ضروری چیز ہے ۔ پہلوان جب ڈنڈ پیلتے ہیں تو وہ اپنے شاگردوں کو کہتے ہیں کہ پہلے پانچ ڈنڈ نکالو اور پھر دس بیس دفعہ غرض جوں جوں جسم کو ان کی عادت پڑتی جاتی ہے توں توں ڈنڈ پیلنے کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ کسی موقع پر بھی یہ نہ سمجھ لینا کہ اس وقت تمہاری قوتوں کی جو حالت ہے وہ اس کا کمال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے :
وَمَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ- (البینۃ:۶)
کہ تم میں ہر عادت جو پیدا ہو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت ہو۔ فرمان الٰہی کے ماتحت ہو انسان کو بحیثیت انسان مختلف قسم کی جو قوتیں اور قابلیتیں عطا کی گئی ہیں اس کی عادات ان کی نشوونما میں ممد ہوں انہیں ہلاکت کی طرف لے جانے والی نہ ہوں۔ انسان کو نیکی اور بدی کی اجازت و اختیار کے نتیجہ میں اس کے اندر اچھی اور بری ہر دو قسم کی عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں بری عادت سے بچنا اور نیک عادات پیدا کرنا حقیقی اور سچی عبادت کے لئے ضروری ہے۔
ایک بہت بُری عادت جسے بعض مخفی ایسوسی ایشنز (Associations ) نے بعض اوقات میں بعض جگہوں پر جان بوجھ کر ان لوگوں کو تباہ کرنے کے لئے جن کو وہ اپنا مخالف سمجھتی تھیں یا جن کو تباہ کرنے میں وہ اپنا فائدہ دیکھتی تھیں اس قسم کی عادت پیدا کرنے کے لئے کوشش کی ہے ۔ یہ نکما پن کی عادت تھی۔ میرے نزدیک نکمے پن کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے قویٰ پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا جتنا بوجھ وہ اپنی نشوونما کے اس مخصوص دور میں برداشت کر سکتا ہے۔ یہ بوجھ بتدریج بڑھتے چلے جاتے ہیں ممکن ہے بعض قسم کے بوجھ آخری عمر میں گھٹتے ہی چلے جائیں۔ لیکن بہر حال جسمانی طور پر (روحانی طور پر تو وہ نہیں گھٹتے) نشوونما کے ابتدائی دور میں یہ بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن کسی کا اپنی قوت اور قابلیت پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا جتنا وہ نشوونما کے اس دور میں یا اس مخصوص وقت میں برداشت کر سکتا تھا یہ نکما پن ہے۔ بوجھ کا ایک حصہ وقت سے تعلق رکھتا ہے کہ اتنا وقت کام کرو۔ اب یہ تو درست ہے کہ ہر آدمی کے کام کی نوعیت مختلف ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے اس کو ایک طاقت دی ہے۔ پس جتنا زیادہ سے زیادہ بوجھ وہ برداشت کر سکتا ہو (اپنے وہم کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت کے نتیجہ میں) اتنا وقت اپنے کام میں خرچ کرنا چاہئے۔ اگر وہ اتنا وقت خرچ نہیں کرے گا تو وہ اس کام میں زیادہ قوت لگا نہیں سکے گا۔ دنیا کے کاموں میں تو شاید ہم ٹھہر جائیں۔ لیکن روحانی طور پر تو اوقات بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ انسان کسی اور رنگ میں کسی اور طرف سے کچھ بچاتا ہے اور ادھر دے دیتا ہے۔
پس نکما پن ایک نہایت ہی مہلک چیز ہے یہ عادت روحانی لحاظ سے بھی، اخلاقی لحاظ سے بھی اور (ہم چونکہ اس وقت اقتصادیات کی بات کر رہے ہیں اس لئے) اقتصادی لحاظ سے بھی بڑی ہی مہلک ہے فرض کریں ہم نے کسی چیز کی پیداوار معلوم کرنے کے لئے سال یونٹ مقرر کیا ہے اس اعتبار سے کسی فرد یا خاندان یا ملک کی سال کی مجموعی پیداوار اس کی دولت متصور ہو گی یہ کاغذ پر پرنٹ کئے ہوئے نوٹ (روپے) اصل دولت نہیںبلکہ کسی فرد یا کسی خاندان کی یا کسی ملک کی دولت وہ پیداوار ہے جو ایک سال کے اندر ہوتی ہے اگر کسی ملک کے باشندے اپنے اوقات کار میں سے بیس فیصدی ضائع کر دیتے ہیں بیکار بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے ہیں، سینما میں چلے جاتے ہیں اور دوسری قسم کے شوز ( Shows) دیکھنے لگ جاتے ہیں اور اپنے اصل کام کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دیتے تو اس ملک کی پیداوار سو کی بجائے اسّی رہ جاتی ہے۔ اس پر اگر وہ شور مچائیں کہ ہماری ساری ضرورتیں پوری کرو تو ظاہر ہے کہ جب انہوں نے وہ چیز پوری پیدا ہی نہیں کی تو کس طرح سب کی ضرورتیں پوری اور سب کے حقوق ادا ہو سکتے ہیں۔
اگر ایک طالب علم روزانہ بارہ گھنٹے کی بجائے یا دس گھنٹے پڑھنے کی بجائے صرف تین گھنٹے پڑھائی کرے اور باقی وقت ضائع کر دے اگر فرض کریں ہمارے کالجوں میںایک لاکھ طالب علم ہوں تو اس طرح نکمے پن کی وجہ سے روزانہ تعلیم کے نو لاکھ گھنٹے ضائع ہوئے یعنی انہوں نے اپنی پڑھائی کے اوقات میں سے ۷۵ فیصدی حصہ نکمے پن کی وجہ سے ضائع کر دیا۔ پس ایک ایسی قوم جس کے طالب علم اتنے کاہل ہوں وہ ایک ایسی قوم سے جس کے بچے اپنے اوقات میں سے بمشکل ایک فیصدی وقت ضائع کرتے ہوں (کوئی نہ کوئی استثنا تو ہر جگہ ہوتا ہے) دنیوی اعتبار سے کیسے مقابلہ کر سکتی ہے۔
آکسفورڈ میں جو طالب علم کلاس کی پڑھائی کے علاوہ دس بارہ گھنٹے روزانہ پڑھتا تھا وہ پڑھائی میں بڑا اچھا طالب علم سمجھا جاتا تھا اور جو طالب علم روزانہ اوسطاً سات آٹھ گھنٹے پڑھتا تھا اس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ درمیانے درجے کا طالب علم ہے جبکہ چار پانچ گھنٹے روزانہ پڑھائی کی اوسط بتانے والے طالب علم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بڑا آوارہ ہے اس کو پڑھائی کی طرف توجہ نہیں لیکن ہمارے ملک میں روزانہ چار پانچ گھنٹے کی اوسط سے پڑھنے والا ٹاپ (Top) کے سکالرز Scholars) ) میں شمار ہوتا ہے۔
پس اگر معیار میں یہ فرق ہو تو اس محنتی قوم کے ساتھ ہمارے بچے ان تمام اچھے ذہنوں کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کئے ہیں کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکمے پن کی عادت بنیادی طور پر بڑی مہلک ہے۔ اور اقتصادیات پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ پیداوار اور پیداوار کی تیاری اس سے شدید متاثر ہوتی ہے۔ میں نے طالب علم کی مثال دی ہے اور وہ اقتصادی مثال ہی ہے کیونکہ وہ مستقبل کی پیداوار کی تیاری ہے اگر ہم ٹیکنیشن (Technician) نہیں بنائیں گے اگر ہمارے ہاں انجینئرز Engineers)) طالب علم نہیں ہوں گے اگر ڈاکٹر نہیں ہوں گے اگر وکیل نہیں ہوں گے اگر پولی ٹیکنیشن (Polytechnics) میں پڑھنے والے نہیں ہوں گے اور جو ہوں گے وہ وقت ضائع کرنے والے ہوں گے تو ہماری پیداوار کیسے سو فیصد ہو گی۔
غرض یہ طالب علمی کا زمانہ اقتصادی پیداوار کی تیاری کا زمانہ ہے یعنی اس نسل نے آگے جا کر اپنے اپنے فن، مہارت اور کوشش کے نتیجہ میں اقتصادی طور پر کچھ پیدا کرنا ہے یا اس نے مادی چیزیں پیدا کرنی ہیں جیسے کارخانوں میں کپڑے بنتے ہیں یا اس نے سروسز (Services) پیدا کرنی ہے۔ جیسے ڈاکٹر کی سروس ہے۔ وکیل کی سروس ہے۔ اقتصادی زبان میں ان سروسز کو کموڈی ٹی (Commodity) بھی کہا جاتا ہے یہ سروسز اقتصادیات کا ایک باقاعدہ حصہ ہیں۔ پس اقتصادی میدان میں بھی نکمے پن کا پیدا نہ ہونے دینا ایک اہم اور بنیادی چیز ہے۔
اس نکمے پن کی عادت کی اصل محرک اور سب سے بڑا سبب بعض تخریب پسند خفیہ انجمنیں ہیں جس طرح انسان کی پیدائش کے وقت سے شیطان اس کے ساتھ لگا ہوا ہے اسی طرح یہ انجمنیں بھی ہزاروں سال سے تخریبی کام کرتی چلی آرہی ہیں جہاں بھی ان کو موقعہ ملتا ہے وہ اپنا کام کرتی چلی آرہی ہیں۔ اس سلسلہ میں بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں میں صرف ایک مثال دے دیتا ہوں۔ وہ بھی پرانی ہے تا کہ کسی کو اپنی طرف خیال نہ چلا جائے۔
یہ ۱۸۲۲ء کی بات ہے، ایک خفیہ انجمن کے ایک لیڈر نے جس کا نام Petittiger تھا اپنے ایک ماتحت افسر کو جو کسی دوسری جگہ خفیہ کام کر رہا تھا ایک ہدایت نامہ بھجوایا۔ اس ہدایت نامہ کا پہلا حصہ اس نکما پن کی مثال سے تعلق نہیں رکھتا لیکن اس حصہ کو بھی سن لیں تو اچھا ہے شاید یہ کسی وقت میرے بھی اور آپ کے بھی کام آجائے۔ وہ لکھتا ہے :
"It is essential to isolate the man from his family and cause him to lose his morals"
کہ دنیا میں ہم جو شرارت اور تباہی مچانا چاہتے ہیں اور جو تخریبی کارروائی کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو اس کے خاندانی بندھنوں سے آزاد کر دیا جائے اور اس کے اندر بداخلاقی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
ایک تو یہ ہدایت تھی دوسرے جہاں سے میں نے یہ اقتباس لیا ہے وہاں اس نے پہلے کچھ الفاظ چھوڑے ہوئے ہیں یعنی ڈاٹس (Dots) ڈالے ہوئے ہیں اور ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس خالی جگہ سے اس کی کیا مراد تھی، وہ لکھتا ہے :
"He loves the long talks of the cafe, the indleness of the shows ..... teach him discreetly to tire of his daily work, and in this way...... after having shown him how tiresome all duties are inculcate in him the desire for another existence."
(Trail of the serpent by inquire within page 91 published by britons publishing co, North Devon 1936)
’’ یعنی ایک تو اس کے اندر بداخلاقی پیدا کرو اور پھر ایسے حالات پیدا کرو کہ اس کے اندر یہ عادت پیدا ہو جائے کہ وہ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر یا کلب میں بیٹھ کر یا اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر (جگہ سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا) چائے یا کافی Coffee)) کی ایک پیالی پر لمبی لمبی گپیں مارنے کا عادی بن جائے اس طرح جب وہ رات کو دیر سے سوئے گا تو صبح دیر سے اور تھکا ہوا اُٹھے گا ، جس کے نتیجہ میں اس کے قویٰ سو فیصدی صحیح اور نتیجہ خیز کام نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح اس کو سینما، تھیٹر اور کئی قسم کے دوسرے تماشے دیکھنے کی عادت ڈالو اور بڑی ہوشیاری سے اسے یہ بات ذہن نشین کرا دو کہ یہ روز روز کی مزدوری توبڑی مصیبت ہے۔ ‘‘
ایک شخص جس نے سارے خاندان کو پالنا ہے اور قوم بنانی ہے اس کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ محنت اور مزدوری تو ایک مصیبت ہے ایک تباہی ہے جو اقتصادی لحاظ سے امراء نے مچا رکھی ہے اور اس طرح اس کے دماغ میں یہ ڈال دو کہ یہ جو ہم ایک سبز باغ دکھا رہے ہیں (کمیونزم یا اشتراکیت وغیرہ)اس Existence (زندگی) سے اس کو پیار ہونے لگ جائے کیونکہ یہ نظریہ زندگی بظاہر اس سے کہے گا کہ کام کرنے کی ضرورت نہیں بس ہر چیز مل جائے گی ہر ضرورت پوری ہو جائے گی۔ امراء سے چھین چھان کر تمہاری ضرورتیں پوری کر دیں گے۔ حالانکہ نہ انہوں نے اس نظریہ پر عمل کیا ہے اور نہ عقلاً کر سکتے ہیں لیکن جب کسی کو احمق بنانا ہو تو جس چیز سے کوئی دوسرا احمق بن جائے احمق بنانے والا وہ چیز اس کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔
میں یہ بتا رہا تھا کہ نکمے پن کی عادت ان بنیادی مہلک عادتوں میں سے ہے جو انسان کی زندگی کو ہر لحاظ سے تباہ کر دیتی ہیں اور اس عادت کا اقتصادیات پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے اگر کسی فرد یا خاندان یا قوم کو نکما بیٹھنے کی عادت ہے تو اس فرد کی اس خاندان کی، اس قوم کی اقتصادی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ نوجوان نسل کا نکما پن بھیانک اور بے آبرو مستقبل کا ضامن ہے۔
انگلستان میں اس وقت مصیبت پڑی ہوئی ہے کیونکہ میں نے اوپر جو حوالہ پڑھا ہے وہ ۱۸۲۲ ء کا ہے جس سے یہ بات عیاں ہے کہ وہاں خفیہ انجمنوں کی تخریبی کارروائیاں بہت پہلے سے شروع ہیں مجھے (قیام انگلستان کے دوران میں) احمدی مزدوروں نے بتایا کہ ہم سے یہ انگریز مزدور بڑے ناراض رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تم اتنا کام کیوں کرتے ہو؟ ہماری طرح نکما پن کیوں اختیار نہیں کرتے؟ وہاں کے مزدوروں میں نکمے پن کی عادت کا یہ حال ہے کہ اگر ایک مزدور اپنے نگران سے کہے کہ مجھے پیشاب آیا ہے تو اس کا نگران باوجود یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ بہانہ بنا رہا ہے اسے روک نہیں سکتا ورنہ انگلستان بھر میں ایک ہنگامہ بپا ہو جائے اور لوگ بھڑوں کی طرح پیچھے پڑ جائیں کہ جی اتنا ظلم ! پیشاب کرنے سے روکا گیا ہے لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ ایک مزدور کہتا ہے میں نے پیشاب کرنے جانا ہے مگر وہ اخبار ہاتھ میں پکڑتا ہے سگریٹ کی ایک ڈبیا جیب میں ڈالتا ہے اور پیشاب کرنے چلا جاتا ہے اور ایک گھنٹہ تک اخبار پڑھ کر اور سگریٹ کی ڈبیا ختم کر کے آرام سے باہر نکل آتا ہے کوئی بھی اسے کچھ کہہ نہیں سکتا ورنہ لیبر یونین یا ٹریڈ یونین والے انتظامیہ کے پیچھے پڑ جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی حالت اقتصادی اور اخلاقی ہر دو لحاظ سے (یہاں دونوں کا ذکر ہو چکا ہے) اتنی گر گئی ہے کہ وہاں کے بعض عقلمند لوگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اگر اس کی اصلاح نہ کی گئی تو ہم تباہی کے گڑھے میں گر جائیں گے۔ ویسے اس لحاظ سے وہ قابل رحم بھی ہیں کہ وہ ان بیماریوں میں خود مبتلا نہیں ہوئے بلکہ خفیہ انجمنوں نے بڑی کوشش سے، بڑی ہوشیاری سے انہیں ان بیماریوں میں مبتلا کیا ہے۔
نکمے پن کی عادت کی وجہ سے ایک اور بنیادی خرابی جنم لیتی ہے اور وہ سفارش ہے۔ مثلاً ایک طالب علم دوران سال محنت نہیں کرتا امتحان قریب آتا ہے تو اسے فکر ہوتی ہے میں پاس نہیں ہو سکوں گا چنانچہ جب وہ امتحان کے ہال میں جاتا ہے تو بعض دفعہ چاقو سے سفارش کرواتا ہے ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک سنٹر میں جو صاحب امتحان لینے گئے انہوں نے پہلے ہی دن یہ نظارہ دیکھا کہ ہر لڑکے نے ساڑھے پانچ انچ بلیڈ کا سپرنگ والا چاقو کھول کر اپنے اپنے ڈسک پر رکھ لیا اور آرام سے ایک دوسرے سے پوچھ کر اور کتابیں نکالکر پرچہ حل کرنا شروع کر دیا بیچارے امتحان لینے والے کا برا حال ہو گیا وہ ڈر کے مارے کچھ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے یونیورسٹی کو رپورٹ کی وہ سنٹر بند ہوا پھر یونیورسٹی نے ہمارے کالج کو لکھا (جس سے ہمیں اصل واقعہ کا علم ہوا) کہ آپ اپنے کالج کے سٹاف میں سے کوئی ایسا ممبر دیں جو وہاں جا کر دلیری سے امتحان لے یہ تو چاقو کی سفارش تھی پھر پیسے کی سفارش اور اثر و رسوخ کی سفارش الگ ہے۔
آخر سفارش کی ضرورت کیوں پڑی؟ سفارش کی ضرورت اس لئے پڑی کہ سفارش کروانے والے مثلاً طالب علم نے اپنی زندگی کے ایک دور میں (جو ہماری مثال میں اس کا امتحان سے پہلے سال دو سال کا دور ہے) اپنے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی بجائے گپیں ہانکنے، یونہی بیکار ہوائی قلعے تعمیر کرنے، سوئے رہنے اور اسی طرح کی نکما پن کی دوسری عادتوں میں اپنا وقت ضائع کر دیا۔ جب امتحان قریب آیا، اس کو فکر پیدا ہوئی، فیل ہو گیا تو بدنامی ہو گی سال مارا جائے گا۔ اس کو یہ بھی نظر آرہا ہوتا ہے کہ شاید سفارش پر اس کو نوکری بھی مل جائے اگر پاس نہ ہوا تو کوئی اور آدمی سفارش کروا کر وہ جگہ لے جائے گا چنانچہ وہ سفارش کروا کر پاس ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
دراصل اس نکمے پن کی وجہ سے انسان کے قویٰ صحیح اور پورے طورپر نشوونما حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے اوپر وہ زیادہ سے زیادہ بوجھ نہیں پڑا، جس کے اٹھانے کے لئے اس نے تدریجی طور پر خود کو قابل بنا لینا تھا مزید بوجھ اُٹھانے کا اگر وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جس میں تدریج کارفرما ہوتی ہے اپنے مقام اور وقت کے لحاظ سے اور تربیت کے لحاظ سے اور حاصل کردہ نشوونما کے لحاظ سے جتنا بوجھ اُٹھا سکتا تھا اُٹھاتا تو سفارش کی ضرورت بھی نہ پڑتی اور قوم کو ایک ذہن کے ضائع ہونے کا نقصان بھی نہ ہوتا۔
سفارشوں سے حصول مال کی کوشش بھی نکمے پن کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قوت عطا کی ہے اور ساتھ ہی ہمیں تسلی بھی دی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو قوت تو اتنی دی کہ وہ صرف پانچ افراد کا پیٹ بھر سکے یا کپڑے وغیرہ کا انتظام کر سکے اور ان کی دوسری اقتصادی ضروریات کا کماحقہ خیال رکھ سکے لیکن عملاً اس کا خاندان دس افراد پر مشتمل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو تسلی دیتا ہے کہ میں صرف رحیم ہی نہیں، بلکہ رحمان بھی ہوں۔ تم اپنی طرف سے پوری کوشش کرو اپنی طاقت اور قوت کو خرچ کرو تمہیں اس کا بدلہ مل جائے گا اس طرح خدا کی صفت رحیمیت کے ماتحت پانچ افراد کا تو گزارا ہو گیا باقی پانچ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اسے تسلی دی کہ میری صفت رحمان بھی ہے میں نے ان کا انتظام کیا ہوا ہے ۔ میں نے ان کے حصہ کا مال کسی اور کو دیا ہوا ہے اور اس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمہارے باقی ماندہ افراد کے حق کو تمہارے تک پہنچائے تا کہ تمہارے حقوق پورے ہوں۔ لیکن جو شخص نکما رہتا ہے اس کی قوتیں اپنے نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچ سکتیں۔ ایک بیمار پھل کی طرح اس کی نشوونما بھی داغدار ہو گی اس کی شخصیت کی اس کے نفس کی کماحقہ نشوونما نہیں ہو سکے گی اور اس طرح انسان کا مقصد حیات پورا نہیں ہو سکے گا کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندے میں اپنی صفات کا ظل دیکھنا چاہتا ہے یہی اس کی پیدائش کی غرض ہے اور عبادت الٰہی کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حسن میں رنگین ہو جائے اور اس کے احسان کے جلوے اس کے نفس سے پھوٹنیشروع ہو جائیں یہ عبادت کا ایک طبعی نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے اس سے نہ صرف خود انسان کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ دنیا کو بھی فائدہ پہنچتا ہے لیکن ایک شخص جسے مثلاً اللہ تعالیٰ نے ترقی کرنے کی سو اکائیاں عطا کی ہوں مگر وہ اپنے نکمے پن کی وجہ سے ان میں سے پچاس کو ضائع کر دے تو وہ اس سیب کی طرح ہے جس کا آدھا حصہ گلا سڑا ہوا ہوتا ہے یا اس کی حالت اس آم کی سی ہے جس کی ایک طرف کیڑا لگ جاتا ہے اور دوسری طرف سے قابل استعمال بھی ہوتا ہے یا ایک ایسی سیڑھی کی طرح ہے جو درمیان میں سے ٹوٹ گئی ہو یا اس کی مثال ایسے پرندے کی ہے جس کے اڑن پروں (پرندوں کے جو پَر ہوتے ہیں ان کے بعض حصے پرندے کو اڑنے میں مدد دیتے ہیں اور بعض اس کے Balance(توازن) کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں) میں سے دو چار پَر گر گئے ہوں اور وہ اتنی پرواز کے قابل نہ رہا ہو جتنی پرواز کی طاقت اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کر رکھی ہے۔ ہم نے بعض دفعہ شکار کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ اگر کسی مرغابی کے پر کا اگلا حصہ معمولی سا بھی زخمی ہو جائے تو وہ اپنی ڈار کے ساتھ اڑ نہیں سکتی۔ غرض جو چیز اپنی ڈار کے ساتھ اڑ نہیں سکتی اس کے متعلق آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پھر وہ منافقوں کی ڈار کے ساتھ مل جاتی ہے۔ منافق کے اندر بھی پہلے تھوڑی سی کمزوری پیدا ہوتی ہے پھر گلے شکوے پیدا ہوتے ہیں جس کی ذمہ داری دراصل خود اس پر عائد ہوتی ہے پھر وہ ایسی تکلیف محسوس کرتا ہے جو درحقیقت کسی اور کی پیدا کردہ نہیں ہوتی۔
بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں قابلیتیں اور طاقتیں عطا کیں اور ہمیں حکم دیا کہ تم اپنی قابلیت کی زیادہ سے زیادہ نشوونما کرو اور ساتھ یہ تسلی بھی دی کہ میں نے تمہاری طاقتوں اور قابلیتوں کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کے سامان بھی پیدا کر دئیے ہیں لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی دَین یا عطا کو ضائع کر دیتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے کسی کے عضلوں کو بڑا مضبوط بنایا ہے مگر وہ اپنی اس طاقت کو عیاشی اور مختلف نشوں کی وجہ سے ضائع کر دیتا ہے تو وہ اپنے کمال کو پہنچ نہیں سکتا۔ مختلف قسم کے نشے انسان کی جسمانی اور ذہنی طاقتوں کو مضمحل اور اس کی اخلاقی اور روحانی طاقتوں کو تباہ کر دیتے ہیں پھر ایسا انسان ان رفعتوں تک پہنچ نہیں سکتا جن رفعتوں تک پہنچنا اللہ تعالیٰ اس سے چاہتا تھا اور جن رفعتوں تک پہنچنے کو اللہ تعالیٰ پیار کی نگاہ سے دیکھتا اور اپنی محبت سے نوازتا مگر جس شخص نے اپنے ربّ کی معرفت کو حاصل کیا جس نے اپنے نفس کو پہچانا جو علیٰ وجہ البصیرۃ اس حقیقت پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے نہایت ہی اعلیٰ اور ارفع درجہ کے قرب کے حصول کے لئے پیدا کیا ہے مگر پھر وہ اپنی غفلت کوتاہی اور نکمے پن کی وجہ سے اس مقام کو حاصل نہیں کر سکا۔ اس سے بڑھ کر اور دوزخ کیا ہو گی جس میں وہ اس احساس کی وجہ سے جلتا رہتا ہے کہ میں نے تو اپنے ربّ کی محبت اور پیار کو حاصل کرنا تھا مگر میں اپنے گناہوں کی وجہ سے اسے حاصل نہیں کر سکتا۔
بہر حال دنیا کے مختلف ملکوں مختلف خطوں اور مختلف خاندانوں میں گندی عادتیںاس قدر وسعت سے پیدا ہو چکی ہیں کہ اگر میں ان کو گنوانا شروع کر دوں تو شاید ان کی ضخیم کتابیں بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اصولی طور پر تمہاری ہر عادت میرے حکم اور فرمان کے ماتحت ہونی چاہئے، تمہاری ہر عادت کو تمہاری قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما میں ممد ہونا چاہئے کیونکہ میں نے ان کی کماحقہ نشوونما کے لئے سامان پیدا کر دئیے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے مالی قربانی کی عادت ہوتی ہے وقت کی قربانی کی عادت ہوتی ہے۔ بہت سے تہجد پڑھنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے ابتدا میں ہفتہ میں ایک بار پندرہ منٹ کے لئے اٹھنا شروع کیا، پھر ہفتے میں دوبارہ پندرہ منٹ کے لئے اٹھنا شروع کیا پھر پندرہ منٹ کے لئے سارا ہفتہ اُٹھتے رہے پھر پندرہ منٹ سے ہوتے ہوتے آدھا گھنٹہ، پھر گھنٹہ اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ تک اٹھنے کی توفیق ملی اور اس طرح عادت زیادہ سے زیادہ پختہ ہوتی گئی۔
جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ انسان کا اپنے اندر نیک عادت ڈالنے کی قابلیت کی توفیق پانا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مبتدی کو روحانی ارتقا کے دور میں ایک عظیم مجاہدہ کرنا پڑتا ہے وہ بڑی کوشش سے اپنے نفس پر زور ڈال کر اور قربانی دے کر خدا تعالیٰ کے لئے کام کر رہا ہوتا ہے بعد میں اس پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس کی عادتیں پختہ ہو کر اتنی ترقی کر جاتی ہیں کہ وہ بغیر کسی احساس کے قربانی دیتا ہے ۔ حتی کہ اس کے Conscious Mind میں بھی نہیں ہوتا کہ میں خدا تعالیٰ کے لئے کچھ کر رہا ہوں۔ چنانچہ وہ اس سے بھی آگے نکل جاتا ہے اور پھر اپنی طاقت کے مطابق اور زیادہ بوجھ ڈالتا ہے تا کہ مزید ذمہ داریوں کے بجا لانے کی عادت پڑے۔ ہم نے دیکھا کہ نئے احمدی شروع شروع میں کسی کے آوازے کسنے پر ہی گھبرا جاتے ہیں پتہ نہیں کیا ہو جائے گا اس معمولی سی مخالفت پر کہہ دیتے ہیں یہ تو بڑی مصیبت پڑ گئی لیکن پرانے احمدی ماشاء اللہ ۱۹۵۳ء کی آگ میں سے بھی نکل جاتے ہیں وہ۱۹۶۸ء کی آگ میں سے بھی گزر جاتے ہیں ان کو اس مصیبت کا احساس تک نہیں ہوتا بلکہ زبردست سے زبردست مخالفت کو بھی ہنستے ہوئے برداشت کر لیتے ہیں۔ ان کی قوت برداشت کا تو یہ عالم ہے کہ ۱۹۴۷ء کی آگ میں سے بھی ہنستے ہوئے نکل آئے تھے حالانکہ حکومت بھی ظالم اور لوگ بھی خونخوار بنے ہوئے تھے سکھوں کو بھی ایک جنون تھا آخری دنوں میں مسجد مبارک کی دیواروں پر قریباً روزانہ ہی گولیاں آکر لگا کرتی تھیں گرمیوں کے دن تھے ہم اوپر بیٹھے قہقہے لگا رہے ہوتے تھے کوئی پروا ہی نہیں ہوتی تھی کیونکہ قربانیاں دینے سے مخالف حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ جب اس قسم کی عادت پیدا ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کہتا ہے اور آگے بڑھو میرے اور قریب آجائو لیکن بری عادت اس سے الٹ سمت میں چل رہی ہوتی ہے یعنی وہ انسان کو خدا تعالیٰ سے دور سے دور تر لے جا رہی ہوتی ہے آج آدھ گھنٹہ ضائع کر دیا ریسٹورنٹ میں بیٹھے گپیں لگاتے رہے پھر اور شوق پیدا ہوا پہلے ہفتہ میں ایک دن ضائع کرتے تھے پھر دو دن اور پھر تین دن حتی کہ سارا ہفتہ ہی ضائع کرنا شروع کر دیا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس کا نتیجہ بڑا ہی خطرناک نکلتا ہے انسان کی قوتوں کی نشوونما نہیں ہو پاتی۔ انسان خدا تعالیٰ کا پیار کھو دیتا ہے دنیا کی عزت بھی چلی جاتی ہے کیونکہ دنیا کی عزت تو اس شخص کو ملتی ہے جس کو خدا تعالیٰ عزت دینا چاہے اور وہ اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔
وقت کا ضیاع ایک قومی نقصان ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سارے پاکستانی اپنی استعداد کے مطابق اقتصادی میدان میں اپنا پورا زور لگا دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا معیار زندگی ایک سال کے اندر اندر دگنا تگنا نہ ہو جائے۔ پیداوار کے حصول میں خالی ہاتھ یا پائوں کا کام نہیں (بعض کام پائوں سے بھی کئے جاتے ہیں) یا ہتھوڑے کا کام نہیں ہوتا بلکہ عقل کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے مثلاً ایک شخص اپنی پوری توجہ (Concentration) سے ایک کام کر رہا ہے وہ ایک چیز کو آدھ گھنٹے میں تیار کر دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کام کرنے والا ایک دوسرا مزدور اسی چیز کو ایک گھنٹے میں بھی تیار نہیں کر سکتا۔ پس توجہ بھی تو آخر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک عطا ہے، ایک قوت ہے اگر یہ اور دوسری تمام طاقتیں اور قوتیں اس رنگ میں کام کرنے لگ جائیں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ کام کریں تو ہماری اقتصادی حالت دگنی تگنی اچھی ہو جائے مگر ہم دوسروں کی نقلیں اتارنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں، اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں عبادت کا چھٹا تقاضا یہ بتایا ہے کہ تمہاری ہر عادت اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے حکم کے تابع اور ہر برائی کے خلاف جنگ کرنے والی ہونی چاہئے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تو پابندی کرتا ہوں لیکن میری عادتیں، میری خواہشات اور میری مرضی کے مطابق ہوں گی تو ایسا شخص پورے طور پر متقی نہیں کہلا سکتا نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتا ہے۔ حالانکہ عادت صحیحہ کی صورت میں وہ اپنی استعداد کے مطابق اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتا تھا۔
حقیقی عبادت کا ساتواں تقاضا مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی قسم کا کوئی اثر یا رسوخ حاصل ہو تو تمہارا یہ غلبہ، یہ طاقت، یہ اثر اور یہ رسوخ اور یہ راعی ہونا خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو کیونکہ ’’ الدین ‘‘ کے ایک معنے غلبہ و اقتدار کے بھی ہیں ۔ جس طرح سامراجی (Imperialists) حکومتیں دنیا میں تباہی مچاتی رہی ہیں دیکھنا کہیں تم بھی اس غلبہ و اقتدار کی صورت میں غیر اقوام کو اقتصادی طور پر لوٹنا شروع نہ کر دینا بلکہ ایسی صورت میں تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم خداتعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو کر اقتصادی ذمہ داریوں کو نبا ہو۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ربّ العالمین ہے تمہیں جہاں جہاں اور جس جس رنگ میں اثرو رسوخ حاصل ہو اس کے استعمال میں ربوبیت عالمین کا تقاضا مدنظر رہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ تم عالمین کے کسی ایک حصے کی ربوبیت اور دوسرے حصے کی ہلاکت کی تجاویز سوچنے لگ جائو بلکہ اس عالمین کی ہر مخلوق کی ربوبیت کے لئے کام کرنے کی تجاویز سوچنا اور پھر عملاً ان کے مطابق کام بھی کرنا تمہارا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندرونی حسن کو اجاگر کرنے کے لئے اپنی صفت رحمان کا ظل بننے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ بیشک نہ کسی سے تمہارا کوئی تعلق ہے، نہ کسی کا تم پر کوئی احسان ہے، نہ کسی سے کسی قسم کے فائدہ کی تمہیں امید ہے بایں ہمہ اگر تم دیکھتے ہو کہ کسی کے بعض حقوق اسے نہیں مل رہے تو تم اسے وہ حقوق دلوانے یا خود دینے کی کوشش کرو ۔ تمہارا یہ عمل دراصل رحمانیت کا ایک جلوہ ہے کیونکہ جس کے حقوق ادا کرنے کی تم کوشش کر رہے ہو اس نے کوئی کام نہیں کیا کہ اسے اُجرت دینی ہے اس نے کوئی احسان نہیں کیا کہ اس کا بدلہ چکانا ہے۔
یہ مضمون فی ذاتہ بڑا وسیع ہے کیونکہ ہر راعی کے ساتھ اس کا تعلق ہے ۔ جس طرح عادتیں بے شمار ہیں اسی طرح راعی ہونا بھی ان گنت جہات سے ممکن ہے عملاً اس دنیا میں کوئی کس کس راعی کو گن سکتا ہے ۔ سکول یا کالج کے لڑکے ہیں۔ اب سکول کے ہیڈ ماسٹر ہوں یا کالج کے پرنسپل ان کا صرف یہی دیکھنا کام نہیں ہے کہ طلبہ کی پڑھائی ٹھیک ہو رہی ہے یا نہیں، بلکہ ان کا فرض ہے کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ لڑکوں کی صحت و تندرستی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے مثلاً غذا ہے، دوا ہے، یا وقت پر آرام پہنچانا ہے، ضرورت کے مطابق کپڑے مہیا کرنے ہیں کیونکہ یہ بھی صحت پر اثر ڈالتے ہیں انہیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا یہ ساری چیزیں ان کے پاس ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں ہیں تو وہ ان کا انتظام کریں ۔ کیونکہ ہمارے رب نے فرمایا ہے کہ میں ہر انسان کو قوتیں دینے کے بعد ان کے نشوونما کے کمال تک پہنچنے کے سامان پیدا کر چکا ہوں۔ اگر کسی کو وہ سامان میسر نہیں آرہے تو وہ مظلوم ہے ۔ اس مظلومیت سے اور اس ظلم سے چھڑانے کی کوشش کرنا از بس ضروری ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکو گے جب تک کہ اقتدار یعنی راعی ہونے کی حیثیت میں تمہارے کام خالصۃً میرے لئے اور میرے احکام کے ماتحت نہیں ہوں گے اگر تمہارے کام میرے لئے ہوں گے تو میری عبادت کا حق ادا ہو جائے گا تمہیں میرا پیار حاصل ہو جائے گا۔ تمہیں میری رضا کی جنتیں مل جائیں گی پھر یہ دنیا وہ دنیا بن جائے گی جو میں بنانا چاہتا ہوں لیکن اگر تم راعی بننے کے ساتھ اپنی مرضی چلائو گے اگر تم راعی بننے کے بعد نکمے پن کی عادت کی وجہ سے ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہ دو گے جن کی طرف تمہیں توجہ دینی چاہئے تو پھر تم میرے غضب کو مول لینے والے بن جائو گے۔
اس حصہ کا بھی ہمارے اقتصادی نظام سے بڑا تعلق ہے کیونکہ جیسا کہ (اس وقت تو میں اسی پر اکتفا کروں گا طبیعت میں کچھ کمزوری کا احساس بھی ہے) میں پہلے بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم نے تدبیر یعنی منصوبہ بندی کی طرف شروع سے توجہ دلائی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بڑی ضروری ہے کہ جو آدمی ذمہ داری کی جگہ پر ہوں (ذمہ داری کی جگہیں تو کروڑوں ہیں صرف اعلیٰ حکام ہی ذمہ داری کی جگہ پر نہیں ہوتے، ذمہ داری کے لحاظ سے گھر کا مالک بھی ذمہ دار ہے) ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے دائرہ کے اندر حالات سے واقفیت پیدا کریں۔ ہر وقت بیدار اور چوکس رہ کر اپنے ماحول میں بسنے والوں کی ضرورتوں اور حقوق کو معلوم کرنے کے بعد ان کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں لیکن اگر وہ ضرورت مند کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور حق دار کے حقوق کو ادا کرنے کا انتظام نہیں کر سکتے۔ تو پھر ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان ضرورتوں اور حقوق کے متعلق اس مرکزی اتھارٹی سے رجوع کریں جس کا یہ کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق اس دنیا میں اسلام کے اقتصادی نظام کو قائم کرے مثلاً ہمارے ملک میں تو ابھی تک گندم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مزدور کے پیٹ بھرنے کا مسئلہ حل طلب ہے لیکن وہ ملک جو ہر لحاظ سے ہم سے آگے ہیں وہ گندم کی سرحدوں سے نکل کر دودھ کی چراگاہوں (Pastures) میں داخل ہو چکے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نہ صرف سکول میں جانے والے بچوں کے لئے بلکہ دوسرے تمام آدمیوں کو بھی دودھ ملنا چاہئے ورنہ لوگوں کی صحت برقرار نہیں رہے گی۔ قرآن کریم نے گندم اور دودھ کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی بلکہ یہ کہا ہے کہ میں نے ہر فرد واحد کی صحت اور تندرستی کا انتظام کیا ہے۔ ہر شخص کو اس کی عمر کے لحاظ سے پورے طور پر صحت مند اور توانا رکھنے کے لئے جس قسم کی غذائوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے سامان پیدا کر دئیے ہیں ویسے عمر عمر کے لحاظ سے غذائیں بدل جاتی ہیں مثلاً ماں کی گود میں جو بچہ ہے وہ صرف ماں کے دودھ پر گزارہ کر سکتا ہے اور یہ غذا اس کی عمر کے لحاظ سے بہترین غذا ہے جب اسے ذرا ہوش آتا ہے دانت نکال لیتا ہے ہاتھ پائوں مارنے لگتا ہے تو اگر اس کے آس پاس کوئی کھانا کھا رہا ہو تو اس سے چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر وہ دوسری غذا کھانی شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری صحت و تندرستی کو بہتر سے بہتر حالت میں رکھنے کے لئے ہر قسم کے سامان مہیا کر دئیے ہیں تمہیں وہ سامان ملنے چاہئیں۔
پھر دوسرے ’’ازم‘‘ دوسرے اقتصادی نظاموں کی طرح اسلام صرف Bare Necessisties of Life یعنی خالی ضرورتوں ہی کا خیال نہیں رکھتا بلکہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اسلام کا اقتصادی نظام یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کو اچھی سے اچھی صحت کے میسر آنے، اچھی سے اچھی حالت میں ذہن کو برقرار رکھنے بہترین اخلاق کے حاصل کرنے اور روحانیت میں بلند سے بلند تر ہوتے چلے جانے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ پیدا کی گئی ہیں اور وہ تمہیں ملنی چاہئیں تم ان کو تلاش کرو اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے اپنے حقوق لے نہیں سکتے تم ان کے حقوق ادا کرو اور دلوائو۔
اسلام نے کم سے کم پر آکر خاموشی اختیار نہیں کی، بلکہ اسلام ہر قوت کو، ہر استعداد کو، ہر قابلیت کو اس کے کمال میں دیکھنا چاہتا ہے اور جب سارے انسان بحیثیت مجموعی اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اپنی نشوونما کے کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو اسے کمال قرب الٰہی کا نام دیتا ہے، ایک دنیا دار شخص صرف دنیا کی طاقتوں کو استعمال کرتا ہے، اس کو دنیا مل جاتی ہے لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں صرف دنیوی طاقتیں ہی نہیں دیں، بلکہ بے شمار جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی قوتیں اور قابلیتیں بھی دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ان قوتوں اور استعدادوں کو ان کے نشوونما کے کمال تک پہنچا کر میرا کمال قرب حاصل کرو۔ یہی حقیقی عبادت کی اصل روح اور غرض ہے اور اسی لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔
غرض ہم اس مضمون کے اس حصہ کو اس رنگ میں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ حقیقی عبادت کا یہ ساتواں تقاضا دراصل اسلام کے اقتصادی نظام کو یہ حسن اور خصوصیت بخشتا ہے کہ جب ہر طاقتور اپنی طاقت کو اس رنگ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاتا ہے کیونکہ اسے اپنی طاقت کو اس رنگ میں خرچ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی قوتیں اپنی نشوونما کی انتہا تک پہنچ جائیں۔ لوگوں کے سارے حقوق ان کو مل جائیں اور ان کی ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍اکتوبر۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۹)
٭…٭…٭

اسلام کے اقتصادی نظام میں ہر قسم کے
اسراف کی سخت ممانعت ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍جولائی۱۹۶۹ء بمقام مسجدنور۔ راولپنڈی)
ء ء ء
٭ اسلامی تعلیم انسان کی تمام قابلیتوں کی کامل نشوونما کرتی ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے قرب کے لئے پیدا کیاہے۔
٭ حقیقی تدبیر کرنے والی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
٭ ہمیں ہرچیز میں ایک تدریجی ارتقاء نظر آتا ہے۔
٭ ہر ایک کو کم از کم ضروریات زندگی ضرور میسر آنی چاہئے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
اسلامی تعلیم انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتی اور انسان کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کی کامل نشوونما کرتی ہے میں گزشتہ متعدد خطبات سے اسلام کے اقتصادی نظام کو ایک خاص نقطۂ نگاہ سے بیان کر رہا ہوں۔ میں نے بتایا تھا کہ جس طرح ہر دوسرے شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اسلامی تعلیم عبادت کے سب تقاضوں کو پورا کرتی اور اس مقصد کے حصول میں ممد و معاون ہوتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے مقصد حیات یعنی اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ محبت اور قرب کا تعلق حاصل کر لیتا ہے ۔ اسی طرح اقتصادیات کا بھی زندگی کے ایک شعبہ سے تعلق ہے ۔ اس شعبہ زندگی کے متعلق بھی انسان کو ایک کامل اور مکمل تعلیم دی گئی ہے اور جو اسلامی ہدایات اقتصادی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں وہ درحقیقت عبادت ہی کا ایک حصہ ہیں اور عبادت کے سب تقاضوں کو باحسن وجوہ پورا کرتی ہیں۔
میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کی اس آیۂ کریمہ
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ خُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (البینۃ:۶)
میں مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں ایسے گیارہ تقاضوں کا ذکر ہے جن کا حقیقی عبادت سے تعلق ہے ۔ اس حقیقی عبادت کا تعلق ہماری زندگی کے ہر شعبہ سے انسان کے ہر فعل بلکہ اس کی ہر حرکت اور سکون سے بھی ہے۔ غرض اسلام کا اقتصادی نظام بھی حقیقی عبادت کے ان تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے جن کا ذکر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں پایا جاتا ہے ۔
آج میں حقیقی عبادت کے جس تقاضے کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ ان گیارہ تقاضوں میں سے آٹھواں تقاضا ہے ۔ لغت میں ’’الدِّیْنَ ‘‘ کے ایک معنی تدبیر کے بھی کئے گئے ہیں ۔ پس اس لحاظ سے مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے معنے یہ ہوں گے کہ اے بنی نوع انسان ! تمہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور اس عبادت کے سب تقاضوں کو پورا کرو۔ منجملہ ان تقاضوں کے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تمہاری ساری کی ساری تدابیر اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کا رنگ رکھنے والی ہوں۔
قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ مدبر حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے وہی ساری تدابیر کا سرچشمہ اور منبع ہے۔ اس سارے عالمین یعنی آسمانوں اور زمین پر اسی کی تدبیر محیط ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَ (الرعد:۳)
کہ اللہ تعالیٰ ہر امر کے متعلق تدبیر کرتا ہے اور اس کا انتظام کرتا ہے اور وہ یہ انتظام اس لئے کرتا ہے کہ وہ مخلوق جسے اس نے اختیار دیا ہے عقل و سمجھ اور فکر و تدبر کی قوت عطا کی ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس تدبیری نظام میں بہت سی نشانیاں اور علامات اور نمونے قائم ہو جائیں تا کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے تو لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَکی رو سے اس کا اللہ تعالیٰ سے ایک قرب، ایک محبت کا تعلق قائم ہو جائے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔
پس غور و فکر کرنے والا انسان اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ عالم اور یہ سارا الٰہی نظام واقعی اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے بے شمار پہلوئوں پر مشتمل ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے قرب کے لئے، اپنے وصال کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ سجدہ میں فرماتا ہے ۔
یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ(سجدہ:۶)
اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو قائم کرنے کے لئے تدبیر کرتا ہے، منصوبہ بناتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منصوبہ انسان کے منصوبہ سے بہت ہی مختلف ہوتا ہے انسان کو بہت سے اعداد و شمار اکٹھے کرنے پڑتے ہیں، گھنٹوں سوچنا پڑتا ہے دوسروں سے مشورے لینے پڑتے ہیں اور جو حقیقی مومن ہیں ان کو بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب جا کر انسانی منصوبہ بنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں وہ تو زمان و مکان کی قیود سے بالا ہستی ہے وہ اپنی تدبیر کا ایک سیکنڈ میں (اگرچہ سیکنڈ کا تعلق وقت سے ہے اور یہ محاورہ غلط سہی لیکن اپنے مفہوم کو سمجھانے کے لئے اس کے بغیر چارہ نہیں۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں یا کروڑویں حصہ یا جو بھی کہہ لیں اس کے اندر) اپنی تدبیر کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ ’’ کُنْ فَیَکُوْنَ ‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔
بہر حال ہمیں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم کو جاری کرنے کے لئے تدبیر کرتا ہے اور اس کی یہ تدبیر آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ اس لئے حقیقی تدبیر کرنے والی ہستی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوق سے جداگانہ قوتیں اور استعدادیں دی ہیں۔ ایک ہرن کی قوت اور قابلیت انسان کی قوت اور قابلیت سے مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس رنگ میں جسمانی قویٰ بخشے ہیں اس قسم کے قویٰ دوسری مخلوق یعنی جانداروں وغیرہ کو نہیں عطا کئے۔ حالانکہ جسمانی لحاظ سے انسان اور دوسرے جاندار بظاہر ایک جیسے اور مشترک القویٰ ہیں۔ لیکن جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی قویٰ اور قابلیتیں بخشی ہیں اس رنگ میں جانوروں کو طاقت اور قابلیت عطا نہیں کی کیونکہ ایک انسان کو جو جسمانی قوت، قابلیت اور استعدا د دی گئی ہے اس کا اثر اس کے اخلاق پر پڑتا ہے لیکن ایک ہرن کو جو جسمانی قوت اور طاقت دی گئی ہے اس کا اثر اس کے اخلاق پر نہیں پڑتا کیونکہ اخلاق کا تعلق انسان سے ہے ہرن سے نہیں۔ انسان کو جو جسمانی قوتیں عطا ہوئی ہیں ان کی صحیح یا غلط نشوونما کے نتیجہ میں اس کا ذہن بھی متاثر ہوتا ہے اس کے اخلاق بھی متاثر ہوتے ہیں اور اس کی روحانیت بھی متاثر ہوتی ہے لیکن ایک ہرن یا کسی دوسری جاندار چیز کے ذہن یا اخلاق یا روحانیت کے متاثر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جانوروں کی ذہنی نشوونما صرف عادت یا تجربے سے تعلق رکھتی ہے ۔ عقل و فکر اور تدبر و بیان کی قوت انہیں حاصل ہی نہیں یہ شرف صرف انسان کے حصہ میں آیا ہے۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علاوہ جسمانی قوتوں اور قابلیتوں کے اسے ذہنی اور اخلاقی اور روحانی قوتیں اور قابلیتیں بھی عطا کی تھیں اور ساتھ ہی ہر قسم کی قوتوں کی کامل نشوونما کے سامان بھی پیدا کئے تھے اور اس سے الٰہی منشاء یہ تھا کہ انسان جہاں اپنی جسمانی قوتوں کی نشوونما کو اس کے کمال تک پہنچائے وہاں وہ اپنی ذہنی، اپنی اخلاقی اور اپنی روحانی قابلیتوں کو بھی ان کے نشوونما کے کمال تک پہنچائے۔ اس کے لئے انسان کو کسی حد تک آزادی اور اختیار دینا ضروری تھا اور چونکہ اختیار دینا تھا اس لئے یہ بھی ضروری تھا کہ اس کے لئے ہدایت یا رہنمائی کے سامان مہیا کئے جائیں تا کہ اس ہدایت کی رہنمائی میں اس کی تمام قوتوں کی کماحقہ نشوونما ہو سکے اور وہ بنیادی ہدایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائو۔ یہی وہ بنیادی ہدایت ہے جس کا تمام انبیاء پر چار کرتے رہے ہیں ہر ایک اُمت نے اپنے اپنے وقت میں اپنی قوتوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے اس ہدایت سے فائدہ اُٹھایا لیکن اُمت محمدیہ تو نبی اکرم ﷺ کے فیوض کے نتیجہ میں اور اس کامل ہدایت کی وجہ سے جو آپ پر نازل ہوئی خیر اُمت قرار دی گئی ۔ اس تعلیم سے اُمت محمدیہ نے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا اورا نہیں اُٹھانا بھی چاہئے تھا کیونکہ قرآن کریم سے باہر اس قسم کی کوشش کہ انسان اپنے ربّ کی صفات کا کامل طور پر ہمرنگ بن جائے اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا لباس جسے ہم لباس تقویٰ بھی کہتے ہیں وہ پہن لے یہ شرف اُمت محمدیہ کے باہر ممکن ہی نہیں کیونکہ دوسرے مذاہب کے پاس کامل شریعت نہیں ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے چونکہ صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما کے سامان بھی پیدا کئے ہیں۔ اس لئے جہاں تک انسان کا تعلق تھا اللہ تعالیٰ نے تدبیر کامل کے ایک حصہ کو انسان کے لئے چھوڑ دیا۔ لیکن جہاں تک دوسری مخلوق مثلاً جانوروں اور درختوں اور پودوں کا تعلق تھا، پتھروں اور ہیروں اور جواہرات کا تعلق تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں پر اپنی تدبیر کا کامل جلوہ ظاہر فرمایا۔ ان کی ساخت وپرداخت میں کسی اور کی مدد یا ان کی اپنی تدبیر کی کوئی ضرورت باقی نہیں رکھی۔ ہر چیز کی جتنی اور جس رنگ کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ضروری سامان پیدا کر دئے مثلاً ہرن ہی کو دیکھ لیجئے اس کے کھانے کی جو ضرورت تھی اس کے سامان پیدا کر دئیے گئے۔ ان کے لئے یہ ضرورت باقی نہیں رہی کہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کوئی اقتصادی منصوبہ بنائے یہی حال دوسری مخلوق کا ہے کیونکہ ان کو وہ عقل نہیں دی گئی جو انسان کو دی گئی ہے ۔ ان کو وہ اخلاقی قوتیں اور استعدادیں نہیں عطا کی گئیں جو انسان کو عطا کی گئی ہیں ان کو وہ روحانی قوتیں اور قابلیتیں نہیں دی گئیں جو انسان کو عطا ہوئی ہیں۔ پس یہ جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں اور استعدادیں صرف انسان کو بخشی گئی ہیں۔ ان قوتوں کی نشوونما کے لئے ضروری تھا کہ انسان کو اختیار دیا جائے اور پھر اس کو کہا جائے کہ یہ راستہ ہدایت کا ہے اور یہ راستہ گمراہی کا ہے۔ ہدایت کے راستہ پر چلو گے تو اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرو گے اپنی قوتوں کو ان کی نشوونما کے کمال تک پہنچا سکو گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ قوتیں اسی لئے ودیعت کی ہیں کہ وہ اس کا قرب حاصل کرے کیونکہ جو شخص اپنی ہر قسم کی قوتوں اور استعدادوں کو صحیح راہوں پر پرورش کر کے ان کی نشوونما کے کمال تک پہنچاتا ہے وہی کمال قرب الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے ورنہ اس کے بغیر قرب الٰہی کا حصول ممکن ہی نہیں۔
پس چونکہ انسان کی ہر قسم کی قوتوں اور استعدادوں کی کمال نشوونما مطلوب تھی اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ میں انسان کو بھی شامل کیا اور کہا کہ اے انسان! میں نے تجھے ہر دوسری مخلوق پر فوقیت بخشی ہے۔ دوسری مخلوق کے لئے تدبیر کرنا ضروری نہیں لیکن تیرے لئے ضروری ہے کیونکہ تیری کامیابی اس کے بغیر ممکن ہی نہیں لیکن تیری ہر تدبیر مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے مطابق خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے اگر تیری تدبیر خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہو گی تو پھر تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا تو اپنی قوتوں اور قابلیتوں کی صحیح نشوونما نہیں کر سکے گا۔
سورہ سجدہ میں مذکورہ آیت نمبر ۶سے پہلے اور بعد کی بھی بہت سی آیات میں دراصل یہی مضمون بیان ہوا ہے چونکہ خطبہ میں زیادہ لمبا مضمون بیان نہیں ہو سکتا اس لئے میں نے اس میں سے بعض ٹکڑے منتخب کر لئے ہیں۔ شاید ان میں سے بھی مجھے کچھ چھوڑنے پڑیں گے غرض سورہ سجدہ کی اس چٹھی آیت میں بتایا کہ مدبر حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہی آسمانوں اور زمین کی تدبیر میں لگا ہوا ہے۔ اس کے بعد آٹھویں آیت میں فرمایا :الَّذِیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیيئٍ خَلَقَہٗ
کہ اللہ تعالیٰ نے جو مدبر حقیقی یعنی آسمانوں اور زمین کی تدبیر میں لگا ہوا ہے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اعلیٰ طاقتوں کے لئے پیدا کیا ہے۔
ہمیں ہر چیز میں ایک تدریجی ارتقا نظر آتا ہے ۔ درخت میں بھی، اور جانور میں بھی، تدریج کا اصول جاری ہے حتیّٰ کہ اگر ہم اپنی نظر کو زمانہ کی وسعتوں میں پھیلا کر دیکھیں تو ہمیں صاف پتہ لگتا ہے کہ جمادات میں بھی تدریجی ترقی کا اصول کارفرما ہے مثلاً زمین سے ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد کوئلہ اور ہیرے اور جواہرات بھی بنتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اس میں بڑی طاقتیں رکھی ہیں میری تدبیر ہی کے نتیجہ میں میری مخلوق کی قابلیتیں اُجاگر ہوتی ہیں اور ان کی طاقتوں کی صحیح نشوونما ہوتی ہے۔ میری تدبیر کے نتیجہ میں میرے ہی منشاء کے مطابق ہر چیز اپنی شکل اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ ہیرا ہے کتنے نامعلوم سالوں اور زمانوں میں سے گزر کر وہ ہیرا بنا اسی طرح صدیاں گزرنے کے بعد کہیں جا کر پتھر کا کوئلہ بنتا ہے لیکن جو چیز پتھر کا کوئلہ بنتی ہے وہ کوئلہ نہیں بن سکتی تھی جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اندر یہ طاقت نہ رکھتا اور اس طاقت کے نشوونما کے سامان نہ پیدا کرتا۔
پس یُدَبِّرُ الْاَمْرَکے بعد ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر چیز کا مربی اور مدبر اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو بھی منصوبہ اس وقت دنیا کی ہر مخلوق پر حاوی اور حاکم ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کارفرما ہے جس کے نتیجہ میں ہر چیز کی اعلیٰ طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں لیکن انسان دوسری مخلوق سے مختلف ہے چنانچہ انسان کے متعلق اسی سورۃ کی دسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ثُمَّ سَوّٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ قَلِیْـلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ - (السجدہ: ۱۰)
ہم نے انسان کو مکمل طاقتیں دی ہیں اور جیسا کہ ہمیں دوسری جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو جو طاقتیں عطا ہوئی ہیں ان طاقتوں کا تعلق صرف انسانی جسم سے نہیں بلکہ اس کے ذہن سے بھی ہے اس کے اخلاق سے بھی ہے اس کی روحانیت سے بھی ہے دوسری مخلوق کو صرف جسمانی طاقت ملی ہے جبکہ انسان کو یہ چاروں قسم کی طاقتیں ملی ہیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ایک حد تک انسانی ذہن سے کچھ خفیف سا ملتا جلتا ذہن جانوروں کو بھی ملا ہے لیکن وہ انسانی ذہن سے اتنا مختلف ہے اور اس میں اتنا فرق ہے کہ ہم اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مثلاً انسان کے علاوہ کوئی جانور چاند پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن انسان نے سوچا اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو سمجھا اور اس سے فائدہ حاصل کیا اور چاند پر پہنچ کر واپس بھی آگیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف جسمانی طاقتیں دی ہیں بلکہ ذہنی ، اخلاقی اور روحانی طاقتوں سے بھی نوازا ہے اور اس طرح انسان کو دوسری مخلوق کے مقابلہ میں ایک ارفع مقام عطا کیا ہے اس لئے فرمایا کہ میں نے ان طاقتوں کے عطا کرنے کے بعد ان کی کامل نشوونما کے لئے صرف وہ سامان پیدا نہیں کئے جو غیر انسان کی طاقتوں کے لئے پیدا کئے گئے تھے بلکہ ایک نیا سامان بھی پیدا کیا ہے اور وہ نفخ روح ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سب طاقتیں دینے کے بعد اس سے فرمایا کہ میں یہ طاقتیں تجھے دیتا ہوں اگر تو ان کی صحیح نشوونما کر سکے اور اس نشوونما کو کمال تک پہنچا سکے تو آخری نتیجہ یہ نکلے گا کہ تو میرا ایک پیارا بندہ بن جائے گا لیکن تو اپنی قوتوں اور طاقتوں کی صحیح نشوونما نہیں کر سکتا جب تک تجھے میرے الہام اور وحی کی روشنی حاصل نہ ہو اس لئے میں نے تیرے لئے یہ سامان بھی پیدا کر دیا ہے تا کہ یہ نعمت میسر آجانے کے بعد تیرے لئے یہ ممکن ہو جائے کہ تو اپنی طاقتوں کو اس رنگ میں کمال تک پہنچائے کہ تیرا ربّ تجھ سے راضی ہو جائے یہ شرف انسان کو نفخ روح یعنی الٰہی کلام کے نازل ہونے کے نتیجہ میں عطا ہوتا ہے ۔ ہر زمانہ کے لحاظ سے انسان بحیثیت نوع جس قدر اپنی قوتوں کو کمال تک پہنچا سکتا تھا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جس الہام کی ضرورت تھی ، جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ اس کو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ عطا کی جاتی رہی اور پھر نبی کریم ﷺ کے طفیل اور آپ کے ذریعہ سے وہ کامل ہدایت اور اکمل شریعت اور اعلیٰ تعلیم نازل ہوئی کہ اگر انسان اس پر عمل کرے تو انسانیت کے کمال کو پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین بندہ بن سکتا ہے ۔ یہ بلند مرتبہ پہلی امتوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا پہلی اُمتوں اور اُمت محمدیہ کے درمیان (بلحاظ مرتبہ و مقام کے) فرق کو میں نے دوسری آیات سے لیا ہے ویسے آیت زیر بحث میں عام معنی مراد ہیں یعنی ہر زمانہ کے انسان کو بحیثیت انسان یہ چاروں قسم کی قوتیں اور قابلیتیں عطا ہوتی رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے انسان دیکھ! میں نے تجھے جسمانی ، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتوں سے سرفراز کیا ہے اور پھر ان کی صحیح نشوونما کے لئے خود تیری رہنمائی کی ہے خود تیری انگلی پکڑی اور تجھے سیدھے راستے پر چلایا ہے ۔ ہم نے تجھے ایسے کان دئیے ہیں جو دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوئے۔ ہم نے تجھے ایسی آنکھیں دی ہیں جو دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوئیں۔ ویسے شاید ہمارے بچے حیران ہوں کہ آنکھ کی عطا کا صرف انسان پر حصر کیوں کیا جا رہا ہے حالانکہ ہرن کو بھی آنکھ دی گئی ہے ، عقاب کو بھی آنکھ دی گئی ہے ، مرغابی کو بھی آنکھ دی گئی ہے اور مرغی کو بھی آنکھ دی گئی ہے۔ تمام پرندوں چرندوں کو آنکھیں دی گئی ہیں حتیّٰ کہ رینگنے والے بعض کیڑوں تک کو آنکھیں دی گئی ہیں ۔ لیکن یہاں عام طور پر مخلوقات کو جو آنکھیں دی گئی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں ہے یہاں اس آنکھ کا ذکر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہو گا یعنی وہ نابینائی اور اندھا پن جس کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی وحی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے انقلاب کو دیکھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی قوتوں کو وہ کمال حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں کان دئیے ہیں جن سے تم میری وحی کو سن سکتے ہو میں نے تمہیں آنکھیں دی ہیں جن سے تم اپنی بصارت اور بصیرت کے نتیجہ میں میری آیات کو دیکھ سکتے ہو ۔ میں نے تمہیں ایسا ذہن عطا کیا ہے کہ کان اور آنکھ کے ذریعہ سے جو علم تم حاصل کرتے ہو اس سے وہ صحیح نتیجہ نکال سکتا ہے گویا انسان ان قویٰ کے ذریعہ اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے ہر فرد اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے ، ہر قوم اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے ۔ بنی نوع انسان اپنے کمال کو پہنچ سکتے ہیں۔ مسلمان قرآن کریم کے پہلے مخاطب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیروں سے ممتاز کرنے کے لئے فرقان بخشا ہے۔ اسلام مسلمان سے وعدہ کرتاہے کہ اگر وہ قرآنی تعلیم پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بن جائے گا اور اس کی عبادت کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی لازوال محبت اسے ملے گی جو کسی غیر کو مل ہی نہیں سکتی۔لیکن باوجود اس کے کہ ہم نے تمہیں غیر سے ممتاز کیا ہے پھر بھی قَلِیْـلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ تم میں سے بہت تھوڑے ہیں جو میرے شکر گزار بندے بنتے ہیں۔ویسے تو قرآن کریم کے مخاطب تمام بنی نوع انسان ہیں لیکن قرآن کریم جب اپنے مخاطب سے بات کر رہا ہو یا اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ اپنے بندے سے بات کر رہا ہو تو کبھی وہ ایک گروہ کو اور کبھی وہ دوسرے گروہ کو مخاطب کر لیتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس کے ایک معنی یہ بھی کر سکتے ہیں کہ مسلمان کو مخاطب کر کے کہا جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ تمہیں کان دئیے ، تمہیں آنکھیں دیں اور تمہیں دل دیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو سنو اس کے نشانوں کو دیکھو اور پھر صحیح نتیجہ اخذ کرو۔ اپنی قوتوں اور استعدادوں کی کماحقہ نشوونما کر کے اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرو۔ تم بڑے ہی خوش بخت انسان ہو جنہیں اسلام جیسا مذہب ملا ، اس پر عمل کرنے کی توفیق ملی اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جو انعام ہے یعنی محبت الٰہی وہ تمہیں نصیب ہوئی۔ لیکن اے وہ بدبخت انسان جس نے قرآن کریم کی آواز پر لبیک نہیں کہا تو کتنا بدبخت ہے فطرت کی آواز پر تو نے کان نہیں دھرے۔ اللہ تعالیٰ کی وحی کے نتیجہ میں ایک انقلاب عظیم بپا ہوا مگر تو نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور تو نے اپنے گردو پیش کے حالات سے وہ نتیجہ نہ نکالا جو ایک صحیح دل نکال سکتا تھا۔ آخر نتیجہ یہ نکلا کہ تو اللہ تعالیٰ کی ناشکری پر اتر آیا ۔ تو نے اس کے قرب کی راہوں کی بجائے اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کر لیا اور اس طرح تو اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا جس مقصد کے لئے تجھے پیدا کیا گیا تھا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے سورہ سجدہ کی اس مذکورہ بالا آیت (اور اس سے پچھلی آیتوں کو ملا کر کیونکہ سارا مضمون ایک ہی چل رہا ہے) میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان کو ہر لحاظ سے کامل اور مکمل طاقتیں عطا ہوئی ہیں اور پھر ان طاقتوں کی کماحقہ ، نشوونما کے لئے یہ سامان بھی پیدا کیا کہ اس کے لئے اپنی وحی کی روشنی کا حصول ممکن بنا دیا انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی محبت حاصل کرنے کی خواہش بھی موجزن ہو تو وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے انسانی طاقتوں کی صحیح نشوونما کے لئے اسے کان دئیے گویا کان کا ایک چشمہ جاری کیا اور جیسا کہ دوسری جگہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے یہ چشمہ اپنی پوری روانی کے ساتھ ، اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے روحانی وجود مبارک سے نکلاہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محض الہام تمہیں میرے قرب کا وارث نہیں بنا سکتا تھا کیونکہ الہام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اَور جگہ فرمایا ہے کہ یہ تو شہد کی مکھی کو بھی ہوتا ہے لیکن قرب الٰہی کا جو مقام انسان کو حاصل ہو سکتا ہے اور عملاً بہت سے انسانوں کو حاصل ہوا اور بالاخر رسول کریم ﷺ کے وجود میں اپنے عروج کو پہنچا وہ شہد کی مکھی کو تو حاصل نہیں ہو سکتا۔
پس فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے الہام کا چشمہ جاری کیا ہے لیکن جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ کہ تیرے اندر وہ مطلوبہ طاقت ہونی چاہئے کہ جس رنگ میں تجھے اللہ تعالیٰ کا الہام سننا چاہئے اس رنگ میںسنے اور پھر ساتھ ہی جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو دیکھنا چاہئے اس رنگ میں دیکھے اور پھر اس سے ایک صحیح نتیجہ نکالنے میں کامیاب بھی ہو جائے کیونکہ خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کا راز اسی میں مضمر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وحی پر غور کرنے اور اس کی آیات کو دیکھنے کے بعد انسان مختلف منصوبے بناتا ہے بعض منصوبے اس کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں ، بعض اس کے ذہن سے تعلق رکھتے ہیں ، بعض اس کے اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض اس کی روحانیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم اس وقت اس منصوبہ کی بات کر رہے ہیں جو اس کے جسم سے تعلق رکھتا ہے ۔ ویسے یہ سارے منصوبے درحقیقت ایک ہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں۔ لیکن ہم اس وقت اس کی ایک کڑی یعنی اقتصادی نظام کے متعلق بات کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے :
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرَضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسْیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ- (یونس:۳۲)
سورہ سجدہ کے شروع میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کو اپنی تدبیر سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اب یہاں یہ فرمایا ہے کہ اس تدبیر کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آسمان اور زمین سے انسان کے لئے رزق مہیا ہوتا ہے اور یہ دراصل آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے بہت سے جلووں میں سے ایک جلوہ ہے۔ سورہ سجدہ کی آیہ کریمہ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ میں جو ایک وسیع مضمون بیان ہوا تھا سورۃ یونس کی مندرجہ بالا آیت اس مضمون کے ایک باب کی طرف متوجہ کرتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر آسمانوں اور زمین میں کارفرما ہے اور ہمیں اس کے بہت سے جلوے نظر آتے ہیں ان میں سے ایک جلوہ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ کے الفاظ میں پنہاں ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے نتیجہ میں کائنات عالم میں تمام انسانوں کے لئے ’’رزق‘‘ کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔
’’رزق‘‘ کے معنے صرف کھانے کی اشیا کے نہیں ہوتے بلکہ اس لفظ کو ہم ضروریات زندگی کے تمام سامانوں سے تعبیر کر سکتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ کی اس تدبیر کے نتیجہ میں انسانی ضرورتوں کے پورا ہونے کے لئے تمام سامان پیدا ہوئے۔ آگے اس کی تقسیم میں دونوں پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا۔ یعنی نہ صرف سامان پیدا کئے بلکہ اس پیداوار اور اس عطا کی تقسیم کے لئے بھی ایک بڑا ہی حکیمانہ طریق بتایا۔ اقتصادیات میں بھی دو مسائل بڑے اہم ہیں ایک ہے پیداوار کا اور دوسرا ہے اس پیداوار کی تقسیم کا ۔ ہمارے تمام اقتصادی مسائل انہی دو نقطوں کے گرد گھومتے ہیں یعنی ایک چیز کو کتنی مقدار میں کتنے عرصے میں پیدا کیا جائے اور پھر اس کی پیداوار کو کس رنگ میں شہریوں میں تقسیم کیا جائے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے آسمان اور زمین میں تدبیر کی اور اس کے نتیجہ میں انسان کی ہر ضرورت کو پورا کر دیا۔ اب کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اے میرے رب تو نے مجھے جسمانی قوتیں اور طاقتیں تو بڑی عطا کی تھیں لیکن ان کی صحیح نشوونما اور اس کے کمال تک پہنچانے کے سامان مہیا نہیں کئے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اے خدا! تو نے مجھے ذہن تو بڑا اچھا دیا تھا لیکن تو نے مجھے ایسے سامان نہیں دئیے کہ میں اپنی ذہنی قوتوں کو ان کی نشوونما کے کمال تک پہنچا سکوں۔ میں نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا میں آگے پڑھ نہیں سکا اے خدا ! میں اس لئے نہیں پڑھ سکا کہ تو نے وہ سامان نہیں پیدا کئے جن سے میں اپنی پڑھائی کو آگے جاری رکھ سکتا۔ اسی طرح شخص یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اے میرے ربّ! تو نے مجھے اخلاقی قوتیں تو بہت عطا کی تھیں لیکن یہ اخلاقی قوتیں جن اصولوں سے اور جس ماحول میں پرورش پاتی ہیں اور اپنے کمال کو حاصل کیا کرتی ہیں تو نے وہ ماحول نہیں پیدا کیا ، وہ حالات نہیں پیدا کئے۔ اس لئے میری اخلاقی قوتیں اپنی نشوونما کی جدوجہد ہی میں ہلاک ہو گئیں اور اپنے نقطہ عروج کو نہیں پا سکیں۔ اسی طرح کوئی شخص یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اے خدا! تو نے مجھے روحانی قوتوں سے تو وافر حصہ عطا فرمایا تھا لیکن تو نے روحانی رفعتوں کے حصول کے سامان مہیا نہیں فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور یہی سچ ہے اور اللہ ہی حق ہے کہ میں نے ربّ العالمین کی حیثیت سے تمام قوتوں کو پیدا کیا اور ساتھ ہی ان کی نشوونما کے لئے جس جس چیز کی ضرورت و احتیاج تھی میں نے وہ بھی پیدا کر دی ہے اگر کسی شخص کی ضرورت پوری نہیں ہوئی تو وہ مظلوم ہے اور اس کے ماحول میں کوئی ظالم ہے جس کی وجہ سے اسے اپنا حق نہیں مل سکا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں چاہتا تو جس طرح میں نے ہرن کو قوت اور طاقت دی اور اس کی قوت اور طاقت کی نشوونما کے سامان پیدا کئے اور وہ اس کو مل بھی گئے اس کو کوئی منصوبہ نہیںبنانا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح میں تمہارے ساتھ بھی کر سکتا تھا انسانی جسم کے لئے جس قسم کی غذائوں کی ضرورت تھی وہ اسے بھی جانوروں کی طرح میسر آجاتیں اگر آپ کی آنکھیں ہیں یعنی ’’ اَلسَّمْعُ ‘‘ کے معنوں میں آنکھیں رکھتے ہیں اور آپ کو جنگل میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ بھیڑ بکریاں اکٹھی ایک گلے میں چر رہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ بکری ایک بوٹی کو منہ لگائے گی مگر جلد ہی ناک منہ چڑھاتے ہوئے اسے چھوڑ کر آگے نکل جائے گی کیونکہ یہ غذا اس کے لئے ٹھیک نہیں ہو گی۔ اس کے دو منٹ بعد بھیڑ آئے گی وہ اس بوٹی کو سنگھے گی اور پھر بڑی خوشی سے اسے کھانا شروع کر دے گی۔ غرض بکری کے لئے جو سامان پیدا کیا ہے اس کی فطرت کے اندر اس کے پہچاننے کی قوت رکھ دی ہے۔ وہ غذا اسے خودبخود مل جاتی ہے خود اس کی فطرت اس کا ڈاکٹر اس کا قائد و رہنما ہوتی ہے اسی طرح بھیڑ سے کہا کہ جو تیری ضرورت ہے وہ تجھے معلوم ہو جائے گی شیر کو کہا کہ جو تیری ضرورت ہے اس کا تجھے پتہ لگ جائے گا وغیرہ۔
غرض ہر چیز کو اس کی ضرورت کا خود بخود پتہ لگ جاتا ہے ۔ جانور تو پھر بھی کسی حد تک احساس رکھتے ہیں نباتات تک کو اپنی ضرورتوں کا پتہ لگ جاتا ہے مثلاً ہر درخت کی جڑوں کو پنپنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اس کا انہیں پتہ لگ جاتا ہے ۔ ہمارے ربوہ کی زمین میں شور اور کلر بہت زیادہ ہے اپنے دیگر افراد خاندان کی طرح مجھے بھی درخت لگانے کا بہت شوق ہے درختوں ، پودوں اور پھولوں سے پیار کرنا ہماری طبیعتوں میں رچا ہوا ہے شروع میں جب میں لاہور سے ربوہ منتقل ہوا تو میں نے لاہور سے کئی سو قسم کے پودے لا کر ربوہ میں لگائے لیکن آٹھ دس قسموں کے سوا باقی سب پودے مرجھا گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے ہوا کہ یہ نقل مکانی میں نے کی تھی مگر پودوں کو یہ فضا راس نہ آئی وہ مرجھا گئے ۔ جب میں نے پودا لگایا تو اس کی جڑوں نے محسوس کیا کہ یہاں کی مٹی ہمارے کھانے کی غذائیت نہیں ہے چنانچہ وہ ختم ہو گئے لیکن بعض پودے ایسے بھی تھے جنہوں نے بڑے شوق سے اس مٹی کو پسند کیا اور دنوں مہینوں میں انہوں نے اتنا قد نکالا اور اتنا پھیلائو آگیا کہ ہم حیران ہو گئے۔ ان میں ایک یوکلپٹس بھی تھا یہ شور زمین کو بہت پسند کرتا ہے ۔ جس شور اور کلر والی زمین میں اور کوئی درخت نہ اُگ سکتا ہو وہاں یہ بڑی آسانی سے ہو جاتا ہے۔
پس نہ صرف جانوروں بلکہ نباتات کے اندر اس کا ڈاکٹر بھی پیدا کر دیا۔ اس کا باورچی بھی پیدا کر دیا۔ اس کا درزی بھی پیدا کر دیا مثلاً اس کی فطرت میں درزی کا مظاہرہ ہم اس طرح دیکھتے ہیں کہ ایک درخت ہے اس کے پتے چکنے مخملی لباس کی خاصیت رکھتے ہیں بارش ہوتی ہے تو ایک سیکنڈ کے لئے پانی کا قطرہ ان پر نہیں ٹھہرتا فوراً پھسل کر نیچے بہہ جاتا ہے اس کے مقابلے میں ایک دوسرا درخت ہے جس کے پتوں میں کھدر کے کپڑے کی خاصیت ہوتی ہے بارش کا قطرہ پڑتا ہے تو ان کے اندر جذب ہو جاتا ہے ۔ پس ہر درخت کے پتوں کا اپنا کام ہے ہر ایک کو جس چیز کی ضرورت تھی اس قسم کا ماہر ڈاکٹر طبیب ، باورچی ، درزی وغیرہ سارے کے سارے شعبے خدا تعالیٰ نے اس کے اندر ہی قائم کر دئیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان سے فرمایا کہ میں نے تیرے ساتھ کسی اور قسم کا معاملہ کرنا ہے ۔ میں نے درخت کو اس لئے بنایا تھا کہ وہ تیرا خدمت گزار بنے اور تجھے میں نے اس لئے پیدا کیا اور پروان چڑھایا ہے کہ تو میرا خدمت گزار بنے اس لحاظ سے ان دونوں مخلوقوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے پس سَخَّرَلَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ (ابراھیم:۳۴) کہہ کر اس کائنات عالم کی ہر چیز اور ہر مخلوق کو انسان کی خدمت پر لگا دیا۔ فرمایا تیری پیدائش کی غرض یہ ہے کہ تو میرا خادم بنے اس لئے جو صفات میرے خادم میں ہونی چاہئیں وہ تجھے خود اپنے اندر پیدا کرنی پڑیں گی جو صفات تیرے خادم میں ہونی چاہئے تھیں اور وہ از خود پیدا نہیں کر سکتا تھا اور تو بھی اس میں پیدا نہیں کر سکتا تھا اس کا میں نے انتظام کر دیا ہے۔ تیری طاقت سے زیادہ تجھ پر بوجھ نہیں ڈالا لیکن تجھے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ میں نے تجھے اپنا خادم ، اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا اور تیری رہنمائی کی اور پھر تجھے جسمانی ، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتیں بھی عطا کیں اور ان قوتوں کی نشوونما کے کمال تک پہنچنے کے سامان بھی مہیا کئے اور ان کو جاننے پہچاننے اور ان سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے جو ذرائع تھے وہ بھی تجھے عطا کئے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کیا ہے اور تیری سمع اور بصر کے ہم مالک ہیں یعنی ہم نے انہیں پیدا کیا اور جس قسم کی سمع اور بصر ہونی چاہئے تھی وہ سمع اور بصر ہم نے پیدا کی ۔ سورۂ سجدہ کی آیت میں تھا جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ مگر سورۂ یونس کی آیۂ کریمہ میں سمع اور بصر کی ایک دوسری خصوصیت کا ذکر کرنے کے لئے جَعَلَ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ فرمایا ہے اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ یعنی اللہ تعالیٰ ہی کان اور آنکھ کا مالک ہے۔ سورۂ سجدہ کی آیۂ شریفہ میں عطا کا ذکر تھا کہ ہم نے یہ یہ سامان پیدا کئے ہیں اور یہ یہ نعمتیں عطا کی ہیں تم ان سے کماحقہ فائدہ اُٹھائو اور یہاں اس آیہ کریمہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ سمع اور بصر کا استعمال اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح ہم نے حکم دیا ہے کیونکہ ہم مالک ہیں تم مالک نہیں ہو۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اپنا خادم بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور اپنے فضل سے ساری دنیا کو تمہاری خدمت پر لگا دیا ہے تا کہ تمہارے قویٰ کی صحیح نشوونما ہو سکے ۔ تمہیں میرا حقیقی عبد بننے کے لئے جس ہدایت رہنمائی کی ضرورت تھی وہ بھی میں نے نازل کی بنی نوع انسان کی ترقیات کے لئے تازہ بتازہ کلام اُتارا اگرچہ کامل اور مکمل کلام اور کامل اور مکمل وحی کا نزول آنحضرت ﷺ پر ختم ہو گیا لیکن اس کامل وحی کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ذیلی وحی از بس ضروری تھی ۔ آسمان سے رحمت باراں کا نزول ہوتا ہے پانی بہہ کر دریائوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے اگر اس کے آگے بند نہ باندھے جائیں ، تالاب نہ بنائے جائیں یا دریائوں سے نہریں کھود کر پانی کو استعمال میں نہ لایا جائے تو پانی ضائع چلا جاتا ہے ۔ اسی طرح آسمان سے وحی کے نزول اور اس کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کے سامان ذیلی یا ظلی یا تابع وحی کی صورت میں پیدا کر دئیے اس وحی کو سننے کے لئے کان اور اس کے نتیجہ میں دنیا میں جو ایک تغیر عظیم پیدا ہوا اس کے دیکھنے کے لئے آنکھ اور اس روحانی انقلاب سے نتائج اخذ کرنے کے لئے دل بنایا ہے ۔ یہاں سورہ یونس کی آیہ مبارکہ میں اسی مضمون کو اس کے نتیجہ کے رنگ میں بیان فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہیں سمع اور ابصار دیں یعنی کان اور آنکھیں عطا کیں اور مالک ہونے کی حیثیت سے تمہاری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا دی ہے اور ان ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے ہدایت و رہنمائی کے سامان بھی مہیا کر دئیے ہیں۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کو ان کے مالک کے احکام کے مطابق استعمال میں لائو جس کے نتیجہ میں تمہارا دل صحیح تعلیم کو اخذ کرے اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے تمہارے اندر ہمت و عزم پیدا ہو۔ جب تم ایسا کرو گے تو نتیجۃً یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ مردہ قوم میں سے ایک زندہ قوم نکل آئے گی۔ اہل مکہ بتوں کو پوجتے تھے۔ ہر قسم کے گند میں مبتلا تھے ۔ اپنے خالق و مالک خدا سے دور ، اتنے دور کہ ان کی دوری ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتی مگر اسلام پر عمل پیرا ہونے سے ان کے اندر زندگی کے آثار نمودار ہوئے ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اور ان میں ابوجہل کا بیٹا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی پیدا ہوئے ۔ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ کا ایک عجیب نظارہ رونما ہوا۔ آسمان سے روحانی رزق کے نزول کے نتیجہ میں ان کے اندر ایک عجیب روحانی زندگی پیداہو گئی اس کے برعکس جو شخص سمع اور ابصار کے مالک کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتا اس کا باپ خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو وہ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الحَیِّ کا مصداق ہوتا ہے ۔ وہ کبھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں بن سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا حصول الٰہی ہدایتوں پر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں ان نظائر اور شواہد سے سمجھ لینا چاہئے کہ میں اس طرح پر اپنے امر اور اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے ذریعہ نافذ کیا کرتا ہوں اگر آدمی سمجھے اور غور کرے تو اس کے لئے اس نتیجے پر پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں کہ حقیقی سہارا اللہ تعالیٰ کا سہارا ہے اصل پناہ اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے ۔ اَفَـلَا تَتَّقُوْنَ پھر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے؟ تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہیں آتے؟ اس کو اپنا سہارا نہیں بناتے؟ اس کی انگلی نہیں پکڑتے کہ تم صحیح راہ پر چل کر اللہ تعالیٰ کے پیارے اتنے پیارے کہ جتنے بیٹے پیارے ہوتے ہیں بن جائو تم اس کے ایسے خادم بن جائو جن سے اللہ تعالیٰ انتہائی شفقت کرتا ہے تم اس کے ایسے عبد بن جائو جن سے وہ انتہائی محبت کرتا ہے۔
یہ تو تھا روحانی دنیا کا ذکر اب اقتصادیات کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اقتصادی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں زمین و آسمان میں جو بھی نعمتیں نظر آتی ہیں میں ان سب کا پیدا کرنے والا اور میں ہی سب کا رازق ہوں میں ہی ان تمام چیزوں کا مالک ہوں اس لئے میری ہدایات کے مطابق اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں سے کام لیتے ہوئے دنیا میں ایک ایسا اقتصادی نظام قائم کرو ایسا ہمہ گیر اقتصادی منصوبہ تیار کرو جو زندہ کرنے والا ہو مارنے والا نہ ہو ۔ اگر تم ایسا اقتصادی نظام قائم کرو گے جو زندگی بخش ہو ہلاک کرنے والا نہ ہو تو اس کے نتیجہ میں تمہارے ذہن میں ، تمہارے اخلاق میں اور تمہاری روح میں بھی ایک جلا پیدا ہو جائے گی جس سے وہ مقصد پورا ہو جائے گا جس کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔
اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ بن نہیں سکتا ، اللہ تعالیٰ کی بندگی کے سارے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے جب تک کہ انسانی تدبیر اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے ہمرنگ نہ ہو جائے کیونکہ مدبر حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے ۔ ہماری ساری تدبیریں بے نتیجہ ہیں اگر ہم اپنی تدابیر کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوہ کے رنگ میں رنگین نہیں بنا لیتے۔ اب چونکہ دیر ہو گئی ہے اس لئے میں اس حصہ کو چھوڑتا ہوں۔
قرآن کریم نے ایسے بہت سارے مکر اور تدابیر کا ذکر کیا ہے جو الٰہی تدابیر کے مقابلے پر کھڑی ہوتی اور ناکام ہوتی ہیں اس کی پھر آگے مثالیں دے کر ہمیں سمجھایاہے اور ہماری عقل اور ہمارے جذبات کو اپیل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دیکھو! جس کی تدبیر ہماری تدبیر کے قدم بقدم چلے گی وہ تو کامیاب ہو گا اور جس کی تدبیر ہماری تدبیر کے پہلو بہ پہلو نہیں چلے گی وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے مسلمان بندے! اقتصادی دنیا میں تیری ہر تدبیر اللہ تعالیٰ کی زمین و آسمان پر حاوی اقتصادی تدابیر کے مطابق اور ہمرنگ ہونی چاہئے۔ انسان کی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں جو تدابیر جاری کر رکھی ہیں یعنی اقتصادی نظام قائم کر رکھا ہے (یہ مسئلہ چونکہ بنیادی اور بڑا اہم ہے اس لئے میں اس کو بار بار دہرا رہا ہوں) اس کو رب العالمین کے چھوٹے سے فقرہ میں بیان کر دیا ہے ۔ کیونکہ رب العالمین کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ، ان کے اندر مختلف طاقتیں اور قوتیں و دیعت کیں۔ ان طاقتوں اور قوتوں کی کماحقہ ، نشوونما کا خود متکفل بنا اور اگر کسی شخص کو وہ سامان میسر نہیں آتے یا اس کا حق اسے نہیں ملتا (اب ہم انسان کی دنیا میں آجاتے ہیں) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ظالم ہے جو اس کا حق چھین رہا ہے انسانی ضرورت کی ہر چیز کو حق قرار دیا ہے اور اس ضرورت کے اظہار کو درخواست کرنے یا بھیک منگا بننے کی کیفیت سے دو چار نہیں ہونے دیا بلکہ فرمایا ہے درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے بھیک مانگنے کی نوبت کیوں آئے تمہاری ہر ضرورت تو تمہارا اپنا حق ہے جسے تم اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اس کی نشوونما کے لئے حاصل کر سکتے ہو البتہ ہر اس چیز کو رد کر دیا ہے جو انسانی طاقت اور استعداد کی نشوونما کے لئے ضروری نہ تھی مثلاً ایک کمزور ذہن کا بچہ جو 280نمبر لے کر میٹرک پاس کرتا ہے اگر وہ یہ کہے کہ میرا یہ حق بنتا ہے کہ مجھے کالج میں پڑھوایا جائے تو اس کو ایک مسلمان یہ کہے گا کہ دیکھو تم نے یہ ثابت نہیں کیا کہ آگے کالج میں پڑھنا تمہارا حق بنتا ہے کیونکہ اگر تو نے واقعی محنت کی ہے (عام طور پربچے اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ انہوں نے وقت ضائع کیا) اور اللہ تعالیٰ نے تجھے اتنی ہی قابلیت دی تھی کہ تو دسویں جماعت میں مر مر کے پاس ہوتا۔ سو تو پاس ہو گیا تو اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے ۔ تیرا ذہن آگے ترقی نہیں کر سکتا اب تیری مزید پڑھائی پر پیسہ خرچ کرنا دراصل پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے ربّ العالمین کی حیثیت سے انسان کے جملہ حقوق کی ادائیگی کے لئے تمام ضروری سامان پیدا کر دئیے لیکن چونکہ انسان کی ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما بھی ضروری تھی کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ کے ماتحت تدبیر کے ایک چھوٹے سے حصہ کو ایک حد تک انسان کے اختیار میں دے دیا اور اسے فرمایا کہ میرے کہنے کے مطابق چل تجھے میری رحمتوں اور میرے فضلوں کے نتیجہ میں بے انتہا خزانے مل جائیں گے اور پھر تو جو بھی تدبیر کرے گا وہ رب العالمین کی صفت کے ماتحت اس کی ربوبیت کی ظلیت میں ہو گی اس طرح تو میرے حکم کے مطابق اقتصادی نظام بنائے گا اور اسے جاری کر سکے گا ۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے تقسیم میں تفاوت پیدا کر دیا۔ کسی کو کمانے کی زیادہ طاقت دے دی اور کسی کو کم ورنہ تو ہمارا ہرن والا حال ہو جاتا یا شیر والا حال ہو جاتا اور جب انسان نے کما لیا تو فرمایا کہ اس میں سے خود دوسروں کے حقوق ادا کرو میں تمہیں بہت بڑا ثواب دوں گا۔ تیرے پاس جو مال ہے یہ دراصل تیری اخلاقی ، تیری ذہنی (غور کریں تو یہ بھی شامل ہے) اور تیری روحانی ترقی کے لئے ہے۔ وہ اس طرح پر کہ تیرے مال میں بکر کا حق بھی شامل ہے اب یہ تیری اخلاقی اور روحانی ذمہ داری ہے کہ تو بکر کا حق اسے پہنچا دے ادھر بکر کو یہ کہا کہ حق تو تیرا تھا تجھے استعداد بھی دی تھی لیکن تجھے تکبر اور غرور سے بچانے کے لئے میں نے تیرا حق کسی اور کو دے دیا ہے اب وہ تجھے دے دے گا ادھر اسلامی حکومت کو یہ کہا کہ اگر کوئی شخص رضا کارانہ طور پر دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتا تو یہ تمہارا کام ہے کہ تم حق دار کو اس کا حق دلوائو لیکن ا س دنیا میں مختلف Isms(ازمز) جب نعرے لگاتے ہیں تو وہ انسانی حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اسی طرح ان میں سے وہ جو اسلام کے اقتصادی اصول کو اچھا سمجھتے ہیں وہ بھی ان اصول کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں آپ اس بارہ میں غور کریں اور سوچیں۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اور سوچا ہے مجھے تو اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اگر وہ یہ کہیں کہ اسلام نے ایک حسین اقتصادی نظام قائم کیا ہے ہم اس پر چل کر دنیا کو اس کے اقتصادی حقوق دلوائیں گے تو اس کے ساتھ ہی انہیں اسلام کی عاید کردہ پابندیوں کو بھی ماننا پڑتا ہے ۔ لیکن ایک شخص جو شراب پینے کا عادی ہے وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں اسلام کے اقتصادی نظام کو جاری کروں گا جب کہ وہ خدا تعالیٰ کی عطا کے ایک حصہ کو خود ہی غلط طور پر استعمال کرنے والا ہے۔ اس واسطے ایسے لوگ زبانی طور پر تو اسلام کے اقتصادی نظام کی خوبیوں کو مانتے ہیں لیکن درحقیقت اس پر عمل پیرا ہونے کی طرف آتے ہی نہیں صرف کہہ دیتے ہیں کہ ہاں یہ بڑی اچھی تعلیم ہے ایک ہی بات ہے کوئی نام لے دو یہ اصولی طور پر ایک بات نہیں کیونکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے اسلام کے اقتصادی اصول کو اپنانا اور جاری کرنا ہے اور ان کے ذریعہ ہر ایک آدمی کے حق کو دینا اور دلانا ہے تو ساتھ ہی اسے اسلام کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کرنے کا بھی اقرار کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر حقوق کی کماحقہ ادائیگی ممکن ہی نہیں۔ مثلاً اسلام نے یہ پابندی لگائی ہے کہ اسراف نہ کرو اب جو شخص خدا تعالیٰ کے کہنے کے مطابق ایک لاکھ روپیہ کسی اور کازائد اپنے پاس رکھتا ہے اگر وہ اسراف کرتا ہے تو گویا اس نے ایک لاکھ روپیہ کسی غیر کا اسراف کی نذر کر دیا اب وہ یہ حق اصل حق دار کو کیسے پہنچائے گا غرض اسلام یہ کہتا ہے کہ اسراف سے کام نہ لو ورنہ تم وہ حق ادا نہیں کر سکو گے جو میں نے قائم کیا ہے اسی طرح اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ بخل نہ کرو کیونکہ اس صورت میں اگر تمہارے پاس روپیہ ہو گا بھی تو تم دوسرے کو دینے سے گھبرائو گے تمہاری طبیعت دوسرے کو دینے کے لئے تیار نہیں ہو گی۔ پس اسلام نے اسراف سے بھی بچایا اور بخل سے بھی ۔ افراط سے بھی بچایا اور تفریط سے بھی۔
اسلام کے اقتصادی نظام کی رو سے انسان کی تمام طاقتوں کی بہترین نشوونما کے لئے جو سامان پیدا کئے گئے ہیں ان سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لئے جو مال و دولت کسی کو حاصل ہوتی ہے اس کے رکھنے کی اسے صرف اس حد تک اجازت ہے جو اس کا حق ہے۔ پس یہ حق و حکمت پر مشتمل اقتصادی نظام اس بات کی بھی ضمانت دیتا ہے کہ اے انسان ! میرے دائرہ انتظام کے اندر تجھے امیر کہہ کر کوئی تیرا مال نہیں چھینے گا۔ تجھے امیر کہہ کر کوئی تیری جان لینے کے درپے نہیں ہو گا۔ تیرے بچوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ اسلام کے اقتصادی نظام کی رو سے کسی کی اپنی یا اس کے بچوں یا دوسرےDependents (متوسلین) کی جتنی اور جس قدر قوتیں اور استعدادیں ہیں ان کی صحیح اور کامل نشوونما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ ان کا اپنا حق ہے دنیا کی کوئی طاقت ان سے اس حق کو چھین نہیں سکتی۔ لیکن جو چیز ان کی ضرورت سے زائد ہے وہ دراصل ان کی نہیں بلکہ کسی دوسرے کی ہے اس لئے جو چیز زائد ہے اسے شراب میں اسے جوئے میں ، اسے سٹے میں ، اسے گھوڑ دوڑ میں ، اسے جوئے کی مشینوں میں مت لگائو (شیطان نے اب جوئے کی ہزار شکلیں بنا دی ہیں ۔ بعض ملکوں میں ہر گلی کے کونے پر جوئے کی مشینیں لگ گئی ہیں جس کی وجہ سے جوا کھیلنے کے لئے دوسرے ساتھی کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کی جگہ لوہے سے کام لے لیا گیا ہے اور لوگ جوا کھیلنے کیUrge خواہش کو وہیں جا کر پورا کر لیتے ہیں)
اسلام کا اقتصادی نظام کہتا ہے کہ میں نے یہ چیزیں تیرے لئے پیدا نہیں کیں تیرے قویٰ کی نشوونما میں ان چیزوں کا کوئی حصہ نہیں۔ اس واسطے تو ان چیزوں پر خرچ نہیں کر سکتا۔ پس امیر کے جائز حق کو تو قائم کیا لیکن دوسروں کی حق تلفی کی اسے اجازت نہیں دی۔
پس اسلام کے اقتصادی نظام نے انسانی ضرورت کی بڑی واضح اور معین تعریف کر دی ہے کہ انسان کی جسمانی ، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما کے لئے جس چیز کی جس قدر ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے اور وہ چیز اس سے چھینی نہیں جائے گی۔ لیکن جو چیز اس کی ضرورت سے زائد ہے اور اس کی قوتوں کی نشوونما کے لئے اس کی ضرورت نہیں وہ دراصل اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی ہے جس کو قوتیں تو عطا ہوئیں لیکن ان کی نشوونما کیلئے سامان میسر نہیں آئے ظاہر ہے اگر واقعی ہم خالق کل اور ربّ العالمین پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمیں اس کی صفات کا عرفان حاصل ہے تو پھر اس نظام کے سمجھنے میں کوئی ابہام اور الجھن باقی نہیں رہتی۔ کیسا حکیمانہ نظام ہے کہ ایک شخص کو کہا کہ جتنی قوتیں تجھے بخشی ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے سامان تمہیں عطا کر دئیے ہیں۔ دوسرے سے کہا کہ جتنی قوتیں تجھے عطا کی ہیں ان سے کماحقہ فائدہ اُٹھانے کے لئے تجھے پورے سامان میسر نہیں آئے۔ یہ تفاوت اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس طرح تمہاری اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشوونما کے سامان پیدا ہوں۔ ایک قربانی دینے والا ہو اپنے ربّ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور دوسرا تکبر اور غرور سے بچنے والا ہو اپنے ربّ کے قہر اور غضب کے خوف سے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں مختلف شکلوں میں سہارا دے کر انسان کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو بلند کیا ہے۔
پس یہ تفاوت پیدا کر کے ہمیں صاف طور پر بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ جہاں رزاق ہے وہاں وہ مالک بھی ہے جس کو جس قدر چاہتا ہے عطا کرتا ہے اس واسطے اس کی ہدایات کے مطابق رزق کا استعمال ہونا چاہئے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ زمین و آسمان میں اسی کی تدبیر کار فرما ہے اور انسانی قوتوں کی نشوونما کے لئے اس کی دوسری تدبیروں کے علاوہ ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے انسان کو اپنی وحی کے انعام سے سرفراز کیا۔ اس کے مطابق ہی انسان آگے ترقی کر سکتا ہے۔ یہاں مالک کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان کی سمع اور بصر اور اس کے دل حتی کہ اس کی ہر چیز کا میں ہی مالک ہوں۔ اس لئے ہر چیز کو میرے کہنے کے مطابق خرچ کیا جائے جس کا بالاخر یہ خوشکن نتیجہ نکلے گا کہ وہ دنیا جو اقتصادی لحاظ سے غلام بنائی گئی جو اقتصادی لحاظ سے ہلاکت کے گڑھے میں پھینکی گئی اور جو اقتصادی لحاظ سے موت کے منہ میں پڑی ہوئی ہے اسے ہمارے اس اقتصادی نظام کے قیام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوشحال اقتصادی زندگی نصیب ہو گی۔ چنانچہ میرے پاس جو بھی دوست آتے ہیں میں تو ان سے کہا کرتا ہوں کدھر بھاگے پھرتے ہو تم Minimum Necessities of Life (کم سے کم ضروریات زندگی) کی باتیں کرتے ہو یعنی یہ کہ ہر ایک کو کم سے کم ضروریات زندگی بہر حال میسر آنی چاہئیں۔ لیکن تم اس نظام زندگی کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو جو کہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانی ضروریات جو ہیں وہ بہر حال پوری ہونی چاہئیں۔ اسلام کے اقتصادی نظام میں کم سے کم کا کوئی تصور پایا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ دینے اور دلانے کی ہدایت موجود ہے یعنی جو چیز انسانی قوتوں کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے میں ممد و معاون ہے وہ اسے بہر حال زیادہ سے زیادہ میسر آنی چاہئے صرف Basic Necessities of Life (زندگی کی بنیادی ضروریات) مہیا کرنا یا نیم مُردہ اور نیم زندہ رکھنا یا محض زندہ رکھنا اور مرنے سے بچا لینا یہ تو کوئی بات نہیں حالانکہ یہی جسمانی طاقت تو ایک مومن کے روحانی ارتقاء میں ممد و معاون بنتی ہے جیسا کہ مقولہ مشہور ہے کہ روح تو بلند پروازی کی بڑی خواہش رکھتی ہے لیکن جسم ساتھ نہیں دے رہا جسم اس بلند پروازی کا متحمل نہیں یہ بات ٹھیک بھی ہے مثلاً ایک آدمی بیمار ہے وہ کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے رات گئے تک کھانستا رہتا ہے رات کے دو بجے تہجد پڑھنے کے لئے اُٹھنا اس کے لئے ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو معاف تو کر دے گا لیکن معافی اور چیز ہے اور تہجد کا انعام نہ ملنا اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔
خطبہ کافی لمبا ہو گیا ہے اور واپس بھی جانا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ مجھے دوستوں سے ملنے کی زبردست خواہش تھی میں اس وقت ملاقات سے معذور ہوں۔ آپ کو بعد میں کسی جمعہ کے دن یا کسی اَور موقع پر ملاقات کا وقت انشاء اللہ ضرور دوںگا کیونکہ آپس میں ملنا باتیں کرنا اور مشورے لینا جماعتی زندگی کے لئے بڑی ہی ضروری بات ہے البتہ یہ ضروری نہیں کہ ایک خاص بات کو سامنے رکھ کر مشورہ ہو ہزار قسم کی باتیں ہیں جن کا آپس میں ملنے ہی سے پتہ لگتا ہے دوست جب مجھ سے ملنے آتے ہیں ایک دوسرے کی سننے اور سنانے سے مجھے بہت سی نئی نئی باتوں کا علم ہوتا رہتا ہے ۔ حالات و واقعات کے مختلف پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ دوستوں کی انفرادی اور خاندانی مشکلات سامنے آتی ہیں تو دعا کے لئے تحریک ہوتی ہے۔ یہاں مسجد میں زیادہ لمبی باتیں ویسے بھی نہیں ہو سکتیں اس لئے امید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کریں گے اور اجازت دیں گے کہ نماز پڑھانے کے بعد واپس چلا جائو اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھر ملیں گے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۹؍اکتوبر۱۹۶۹ء صفحہ۲ تا۹)
٭…٭…٭

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے قلوب جیتنے کے لئے عظیم طاقتیں دی گئیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اگست ۱۹۶۹ء بمقام مسجد احمدیہ گلڈنہ۔ مری )
ء ء ء
٭ حضرت نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ حسن اخلاق کا معجزہ تھا۔
٭ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا معجزہ حسن سلوک کا معجزہ تھا۔
٭ حسن اخلاق اور حسن سلوک کے جلوے ہماری زندگیوں میں نظر آنے چاہئیں۔
٭ حسن تدبیر سے غلبۂ اسلام کی اہم ذمہ داری کو آئندہ نسلوں پر منتقل کریں۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
میں پچھلے چند خطبات سے اسلامی اقتصادیات پر جو مضمون بیان کرتا چلا آ رہا ہوں اس کا بقیہ حصہ انشاء اللہ ربوہ میں یا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کراچی میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں ایک دوسرے اہم مضمون کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری ہے اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت میں اس مضمون کو وضاحت سے بیان کر دیا جائے اور عملی رنگ میں اب اس عظیم مہم کے لئے تیاری شروع کر دی جائے جس کا وقت ہم سے تقاضہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ وہ اسلام کے تنزل کے بعد اسے دوبارہ ساری دنیا میں غالب کرنے کے سامان پیدا کرے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے یہ زمانہ شروع ہوچکا ہے اور اس کا ایک ابتدائی دور گزرنے کے بعد ہم ایک دوسرے مگر نہایت اہم دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
جیسا کہ احباب کو علم ہے۔ دو سال ہوئے میں نے یورپ کے سفر کے دوران مغربی اقوام کو یہ تنبیہہ کی تھی کہ اگر وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کی طرف رجوع نہیں کریں گے اس سے ایک زندہ تعلق قائم نہیں کریں گے تو ان کی تباہی کا زمانہ باوجود ان کی تہذیب کے عروج پر ہونے کے بالکل قریب ہے۔ ان کا ہلاکت و بربادی کے گڑھے میں گر جانا یقینی ہے لیکن ان اقوام کو صرف متنبہ کر دینا کافی نہیں۔ اس کے مقابلہ میں آج جو ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہے اس کو سمجھنا اور پہچاننا اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا از بس ضروری ہے۔ ورنہ ہم اسلام کا وہ انقلاب عظیم دنیا میں بپا نہیں کر سکتے جس کی ہمیں بشارت دی گئی ہے اور جس کی ہم خواہش اور توقع رکھتے ہیں۔ یہ انقلابِ عظیم جسموں کو ہلاک کرنے یا جسمانی طور پر انسان کو اسیر بنا لینے یا ذہنی طور پر اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے رونما نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ہمیں انسان کے دل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا ہوگا۔
آپ تاریخ اسلامی پر غور کریں آپ دیکھیں گے کہ قرون اُولیٰ میں اسلام کو اپنے زمانے کے لحاظ سے تمام اقوام اور تمام ممالک پر غلبہ حاصل ہوا پہلی تین صدیوں کے بعد اگرچہ اسلام کا دَورِ تنزل شروع ہو گیا تھا لیکن اس تنزل کے پہلو بہ پہلو مختلف علاقوں میں ہمیں اسلام کی ترقی کا زمانہ بھی نظر آتا ہے اور اس دورِ تنزل میں بھی اسلام کے حسن و احسان کے جلوؤں کی جھلک نظر آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ اسلام کے تنزل کے دور میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین پر قُربِ الٰہی کے دروازے اس کثرت سے کھلے ہوئے تھے کہ مقربین ایک سمندر کی طرح نظر آتے تھے گو اس وقت اسلام اپنے ابتدائی دور کے عروج کے مقابلہ میں تنزل کا شکار تھا لیکن پھر بھی غیراقوام یا غیرمذاہب کے زمانے اسلام کے اس دورِ تنزل سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔
اب پھر اسلام کے عروج کا زمانہ آ رہا ہے۔ یعنی اب پھر قربانی دینے کا، عقل کو خدا تعالیٰ کے لئے استعمال کرنے کا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لئے اپنی قوتوں اور استعدادوں کے خرچ کرنے کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ اسلام جب اپنے ابتدائی دور میں ساری دنیا پر غالب آ گیا تھا اس زمانہ کی تاریخ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں صرف یہی نظر نہیں آتا کہ مناظرے ہو رہے ہیں بحثیں ہو رہی ہیں علمی اور عقلی دلائل دیئے جا رہے ہیں جن سے قرآن کریم بھرا ہوا ہے بلکہ اس کے ساتھ اور اس سے بڑھ کر اور اس سے کہیں زیادہ اسلام کی دو اَور زبردست قوتیں دو حسین طاقتیں دنیا میں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ اسلام درحقیقت انہی دو طاقتوں کے نتیجہ میں دنیا میں غالب آیا تھا آج بھی ان دو طاقتوں کی ہمیں اشد ضرور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ قرار دیا ہے آپ کی محبت اور پیار میں سرشار ہو کر آپ کی اتباع کرنا انسان پر اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کے قرب کے دروازے کھول دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتنے اور اپنی طرف مائل کرنے کیلئے جو دو عظیم طاقتیں عطا کی گئی تھیں ان میںسے ایک توحسن اخلاق کی طاقت ہے اور دوسری حسن معاملہ یا حسن سلوک کی گو یہ دو الگ الگ فقرے ہیں لیکن دراصل یہ دونوں ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کے معجزے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ عربی میں ’’عَظِیْمٍ‘‘ کے لفظ کے استعمال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کیلئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے وہ اپنی نوع میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے مثلاً یہاں مری میں چیل کے درخت بہت ہیں۔ کسی چیل کے درخت کے متعلق یہ کہنا کہ یہ چیل کا عظیم درخت ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس علاقے میں اتنا بڑا چیل کا درخت اور کوئی نہیں یعنی اپنی نوع میں جس کو سب سے زیادہ عظمت حاصل ہو وہ ـعظیم کہلاتا ہے۔ کسی کو محض عظمت کا حاصل ہو جانا اسے عظیم نہیں بنا دیتا بلکہ جس آدمی کو سب سے زیادہ عظمت حاصل ہو وہ عربی زبان کے لحاظ سے عظیم کہلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے (اور درحقیقت دنیا کو بتانے کیلئے) فرمایا وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ کہ اے رسول! تجھے خُلقِ عظیم کا ایسا عظیم الشان معجزہ دیا گیا ہے کہ تجھ سے پہلے کسی نبی کو اس رنگ میں اس عظمت و شان کا معجزہ عطا نہیں ہوا اس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کے دل تیری طرف مائل ہوں گے۔ لوگ تجھ سے تعلق محبت قائم کریں گے وہ تیرے طفیل اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیۂ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بہت سے روحانی معجزات عطا فرمائے تھے ان میں سے آپ کا سب سے بڑا معجزہ حسن اخلاق کا معجزہ تھا آپ کے اس اخلاقی معجزہ نے دنیا کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور انہیں غفلت کے پردوں سے باہر نکالا۔
آپ کا دوسرا معجزہ جو دراصل اس اخلاقی معجزہ کے پہلو بہ پہلو چل رہا ہے وہ حسن معاملہ یا حسن سلوک کا معجزہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن کریم کے اس فقرہ میں فرمایا کہ اے رسول! تجھے ہم نے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ ساری دنیا یعنی پوری انسانیت کے لئے، قطع نظر اس کے کہ ان کے رنگ سفید ہیں یا گندمی سرخی مائل ہیں یا سیاہ قطع نظر اس کے کہ وہ چھوٹے قد کی قومیں ہیں یا لمبے قد کی۔ قطع نظر اس کے کہ وہ امیر ہیں یا غریب۔ قطع نظر اس کے کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں یا جاہل اور تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان کی طاقتوں اور قوتوں کی صحیح طور پر نشوونما ہوئی ہے یا غلط طور پر ہوئی ہے۔ ہم نے ہر ایک انسان کے لئے تجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دو زبردست ہتھیار عطا کئے گئے تھے ایک تو اخلاق ایسے کہ کسی آنکھ نے کسی اور میں ان کا مظاہرہ نہ دیکھا۔ دوسرے معاملہ ایسا کہ انسانیت اپنے کمال پر پہنچ کر بھی اس قسم کے حسن معاملہ یا حسن سلوک کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ آپ انسانی اخلاق کا بہترین نچوڑ اور مرکزی نقطہ تھے۔ اوّلین اور آخرین کے لئے برکات کا موجب تھے بنی نوع انسان کے لئے رحمتوں کا سرچشمہ تھے۔ میں نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بتایا تھاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اوّلین کے لئے موجب برکت و رحمت تھی اور آخرین کے لئے بھی موجب برکت و رحمت ہے۔
لیکن اگر ہم اس پہلو سے دیکھیں کہ ہم پر تو ذمہ داری آج کے انسان کی ہے۔ ہم پر تو یہ ذمہ واری آنے والے انسان یعنی اگلی نسلوں کی ہے۔ ہم نے ان انسانوں کی گردنیں کاٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ان کے سروں کے مینار نہیں کھڑے کرنے ہیں ہم اس کے لئے نہ تو پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم ہے بہت سے بادشاہوںکا دستور رہا ہے اور اس کو اُنہوں نے بڑے فخر سے بیان بھی کیا ہے کہ ہم نے فلاں لڑائی میں لوگوں کے اتنے سر قلم کئے اور پھر ان کا ایک مینار بنا دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے مبعوث نہیں ہوئے تھے کہ انسان کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھا جائے بلکہ آپ کی بعثت کی غرض تو یہ تھی کہ آپ کے فیوض کے نتیجہ میں انسان کے دل کی تاریکیاں اور ظلمتیں دور ہو جائیں انسان کا دل آپ کے نور نبوت سے معمور ہو جائے۔ اس محسن اعظم کی محبت اس رنگ میں موجزن ہو کہ انسان اس زندہ خدا سے تعلق قائم کرنے پر مجبور ہو جائے جس زندہ خدا کی رحمتوں اور فضلوں کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بلند مقام عطا ہوا۔
غرض یہ دو بڑے روحانی ہتھیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے۔ آگے ان دو بڑے فیوض کی بے شمار نہریں ہیں جن سے پہلے بھی سیراب ہوئے اور پیچھے آنے والے بھی سیراب ہوتے چلے جائیں گے یہ نہریں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاب طیبہ کے مرکزی نقطہ سے نکل کر اکناف عالم میں پھیل گئیں۔ یہ دو بڑی نہریں حسن اخلاق اور حسن سلوک کی نہریں ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں حق و صداقت پر مضبوطی سے قائم رہنے کا جو جلوہ نظر آتا ہے صرف یہی ہمارے لئے اُسوہ نہیں ہے بلکہ آپ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں خلق کے ہر پہلو میں اور حسن معاملہ کی ہر شق میں دنیا کے لئے کامل نمونہ تھے البتہ یہ دو بڑی صفات جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کو دی گئی تھیں ان میں ہمارے لئے بہت بڑا نمونہ قائم کر دیا گیاہے۔ اگر ہم اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جس مقصد کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بڑی اور بنیادی صفات کی پیروی اور آپ کا ظل بننے کی کوشش کریں تا کہ ہمارے ذریعہ سے آپ کے روحانی فیوض دنیا میں جاری ہوں۔ ا س وقت ان دو اخلاقی ہتھیاروں کے استعمال کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے کیونکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو حسن معاملہ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انہیں ان کے حقوق نہیں مل رہے آج انسانیت ایسے چوراہے پر کھڑی ہے کہ اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسے کماحقہٗ نباہنے کی کوشش کریں تو آپ انسانیت کو اس راہ پر لا سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والی ہے اور اسے اس راہ پر سے پرے ہٹا سکتے ہیں جو آج دہریت کی طرف،جو آج بداخلاقی کی طرف، جو آج ناانصافی کی طرف، جو آج انسانیت کی بدترین دشمنی کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر ایک کو نظر آ رہی ہے اور ایک ایسی بات ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس لئے آج یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے کہ کیا ہم بنی نوع انسان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور لے جانے والی راہ پر چلنے دیں گے یا ان کے دل جیت کر انہیں اس شاہراہ پرگامزن کر دیں گے جو سیدھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ربّ کی طرف لے جانے والی ہے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے جماعت احمدیہ کی یہ بڑی بھاری ذمہ داری ہے کیونکہ جماعت میں داخل ہونے کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں ہے کہ انسانیت کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ربّ کے لئے جیت لئے جائیں آپ میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ آپ تباہی کے گڑھے کے کنارے کھڑی انسانیت کو تباہی سے دوچار ہونے سے بچانے کی کوشش کریں اور آپ کی یہ کوشش صرف عقلی دلائل سے کامیابی کا منہ ہرگز نہیں دیکھ سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کا دماغ کچھ ایسا بنایا ہے کہ وہ ایک سچی دلیل کے مقابلہ میں ایک سوفسطائی دلیل گھڑ لیتا ہے اور انسانی دل اس پر تسلی پا جاتا ہے۔ ہم اس کو حماقت کہہ سکتے ہیں یا جو مرضی آئے کہہ سکتے مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بسا اوقات ہم کسی کو اس عقلی دلیل کے ذریعہ سے اُسے تباہی سے بچا نہیں سکتے لیکن جب وہ انسان جو اب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور ہیں اور آپ کے خلق عظیم سے بے بہرہ ہیں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور حسن سلوک کے جلوے بطور ظل کے ہماری زندگیوں میں نظر آنے لگ جائیں گے تو پھر وہ کسی اور حسن پر فریفتہ ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ دنیوی حسن خواہ کسی رنگ کا ہو مثلاً پھول کا حسن ہے اچھی زبان کا بھی ایک حسن ہے ہر خوبصورت چیز انسان کا دل موہ لیتی ہے اور انسانی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے تا ہم یہ سارے دنیوی حسن نسبتی ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ جو دو حسن پائے جاتے ہیں یہ حقیقی ہیں اگر کسی کو حقیقی چیز مل جائے تو وہ نسبتی چیز کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا کیونکہ انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ اگر اس کے سامنے حسن اخلاق اور حسن سلوک کے نمونے پیش کئے جائیں تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ اور عاشق بن جائے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق محبت قائم ہو جانے سے اللہ تعالیٰ کا پیار اسے حاصل ہو جائے لیکن ہم اس بھولی بھٹکی انسانیت کو تباہی سے بچانے میں صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ہماری زندگیاں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض سے مستفیض اور آپ کے حسن اخلاق اور حسن سلوک کے رنگ میں رنگین ہوں۔ اگر خدانخواستہ ہم اس میں کامیاب نہ ہوئے تو پھر انسانیت کے لئے ہلاکت یقینی ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتی۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ساری انسانیت کے بچاؤ اور حفاظت کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے اگر کوئی انہیں ہلاکت سے بچا سکتا ہے تو وہ آپ ہی ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم اور رحمۃ اللعالمین کے جلوے آپ پر ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ دو حسن ایسے ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسانی دل ان سے متاثر اور ان کی طرف مائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پس یہ ہماری دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں آج تو میں نے اس کی تمہید ہی بیان کی ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو اس کی تفصیل میں مجھے آٹھ دس خطبے دینے پڑیں کیونکہ جماعت میں جو زیادہ پڑھے لکھے نیز جو کم تعلیم یافتہ ہیں ہر ایک کو مدنظر رکھ کر بتانا پڑے گا ویسے ہماری جماعت میں اس معنی میں تو شائد ہی کوئی کم پڑھا لکھا ہو جس معنی میں یہ فقرہ عموماً استعمال کیا جاتا ہے بہرحال ہماری جماعت اپنے علم کے لحاظ سے، اپنی استعداد کے لحاظ سے مختلف لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو سمجھانا ضروری ہے ہر ایک کو اس کی ذمہ واری کا احساس دلانا لازمی ہے۔ ہر ایک کو یہ بات ذہن نشین کرانی ہے کہ انسانیت اس وقت خطرے میں ہے اور صرف وہی اس کو تباہی سے بچا سکتے ہیں اس لئے اپنی زندگی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کے جلوؤں سے منور بنائیں تا کہ لوگ آپ کی زندگی میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی چمک دیکھ سکیں۔ اگر آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق، اگر آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کے جلوے اپنی زندگی میں اپنے عمل سے غیر کو دکھا نہیں سکتے تو پھر یہ دعویٰ غلط ہے کہ انسانیت کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے کا فرض ہم پر عائد کیا گیا ہے اگر ہمیں یہ اہم کام سونپا گیا ہے تو پھر ہمارے لئے یہ از بس ضروری ہے کہ ہم ان دو روشنیوں، ان دو چمکوں اور ان دو حسنوں کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے دلوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ربّ کے لئے جیت لیں۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں کوشش کریں اپنی زندگیوں کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کے نور سے منور کر لیں اور ہماری زندگیوں میں آپ کے حسن سلوک کی جھلک نظر آنے لگے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کا انسان ہم سے پرے ہٹے او رہماری طرف دوڑا ہوا نہ آئے۔ ہمارے گلے سے آ کر لپٹ نہ جائے ہمارا ممنون احسان نہ بن جائے اور وہ برملا اعتراف نہ کرنے لگے کہ تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ہمیں وہ نور دکھایا جس نے ہمارے سارے اندھیروں کو دور کر دیا اور تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے اس مبارک چہرہ سے جوہر پہلو سے، ہر زاویہ سے اللہ تعالیٰ کا سراپا نور تھا اس سے ہمیں متعارف کرا دیا اور اللہ تعالیٰ جو ایک زندہ طاقت اور ایک زندہ وجود ہے اور جو حی و قیوم ہے اس کے ساتھ ہمارا زندہ تعلق قائم کر دیا کیونکہ اس کے باہر تو محض لفاظی ہے۔ بقاء اور قیام نہیں۔ اگر حی خدا کے ساتھ ہمارا تعلق نہیں تو ہماری زندگی کوئی زندگی نہیں اور اگر قیوم خدا کے ساتھ ہمارا تعلق نہیں تو ہماری بقاء کوئی بقاء نہیں اور حی و قیوم خدا کے ساتھ تعلق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسانی زندگی میں یہ دو عظیم خلق دو طرفہ طور پر جلوہ گر ہوں اس طرح ایک حسن کا ہالہ اور ایک نور کا ہالہ انسان کے دل کے گرد آ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں کسی ظلمت اور کسی اندھیرے کا اس ہالہ میں سے گزر کر اس کے دل تک پہنچنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
پس گم کردہ راہِ انسان کو بچانے اور سیدھے راستے پر لانے کی یہی ایک تدبیر ہے ورنہ قریب ہے کہ وہ ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے۔ اس کو ہلاکت سے بچانے کی ذمہ واری ہم پر عائد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کی بجا آواری کیلئے ہمیں نسلاً بعد نسلٍ قربانیاں دینی پڑیں گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ ہے کہ تین صدیوں کے اندر اندر اسلام تمام دنیا پر غالب ہو جائے گا اسلام کو دنیا پر کامل غلبہ بخشنے کے لئے ہی آپ کو مبعوث کیا گیا ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ جب تین صدیوں کے اندر اندر کہا گیا ہے تو تین صدیاں پوری نہیں ہوں کہ اسلام کو تمام دنیا پر کامل غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ ۵۰،۶۰ یا ۷۰ سال اُدھر سے کم ہو جائیں اور فرمایا ۹۰ سال ہی ادھر سے گذر چکے ہیں اس لحاظ سے ان تین سَو سالوں میں سے نصف زمانہ گزر چکا ہے۔ آگے ہماری تین چار یا پانچ نسلیں ہوں گی جن پر یہ ذمہ داری پڑے گی۔ پس حسن تدبیر سے اس اہم ذمہ داری کو آئندہ نسلوں پر منتقل کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
میں نے آج مختصراً دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے وہ عظیم انقلاب جو اسلام کے حق میں مقدر ہے اس کا وقت آچکا ہے۔ اس اسباب کی دنیا میں جو بھی انقلابات رونما ہوتے ہیں خواہ وہ جسمانی ہوں یا سیاسی اور خواہ وہ روحانی انقلاب ہوں اسباب ہی کے ذریعہ سے بپا ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے اس عظیم روحانی انقلاب کو رونما کرنے کیلئے ہمارے لئے یہ بڑا ہی ضروری ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنوں اور غیروں سب کے ساتھ جو حسن اخلاق اور حسن سلوک نظر آتا ہے وہ حسن اپنے اندر پیدا کریں تا کہ ہم انسانیت کے دل عملاً جیت سکیں اور ہم یہ دل جیت کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا رکھیں اور عرض کریں کہ اے ہمارے پیارے آقا! ہم نے نوعِ انسانی کے دل آپ کے لئے جیت لئے ہیں۔ اب یہ تحفہ قبول فرما کر اسے اپنے ربّ رحیم کے حضور پیش فرمائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور پھر ان کو نباہنے کی کماحقہ، توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۰؍ اگست ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا ۵)
٭…٭…٭

اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بچے کو بچپن کی عمر میں ہی اسلامی تعلیم کی بنیادی باتیں سکھانا شروع کر دینا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸ ؍اگست ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ بچے کو بچہ کہہ کر تربیت سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
٭ پہلی بنیادی چیز شرک سے اجتناب اور توحید کا قیام ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو انسان کی خادم بنایا ہے۔
٭ تم اپنے والدین کے لئے تشکر کے جذبات پیدا کرو۔
٭ اپنے نفس کی آفات سے بچنے کی کوشش کرو۔


تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰـبُنَيَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ
(لقمان : ۱۴)
اس کے بعد فرمایا۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بچے کو بچپن کی عمر میں ہی اسلامی تعلیم کی بنیادی باتیں سکھانا شروع کر دینا چاہئے جیسا کہ حضرت لقمان علیہ السلام کا بچے کو وعظ کے رنگ میں ان حقائق اور صداقتوں کی طرف متوجہ کرنا جو قرآن کریم کی صداقتیں اس زمانہ کے لوگوں کو دی گئی ہیں۔ اس طرح حضرت مریم علیہ السلام کا واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور اسی قسم کے دوسرے واقعات ہیں جن میں اسلام کی بنیادی تعلیم کو بیان کیا گیا ہے۔ ان سب واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کو بچہ کہہ کر اس کی تعلیم اور تربیت سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت ہمارے بہت سے بچے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات سے یہاں جمع ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بھی اس بنیادی تعلیم اور تربیت کے اصول پر غور کریں جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور اساتذہ کو خصوصاً چاہئے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے ان بنیادی باتوں کی وضاحت کرتے رہیں اور کوشش کریں کہ ہمارے بچوں کے ذہن میں یہ بنیادی ہدایتیں واضح ہو جائیں تاکہ ان کی زندگی اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے اوروہ اللہ تعالیٰ کے نور سے ہمیشہ دور نہ رہیں۔ سورۂ لقمان میں حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بچے کو جو نصیحت کی اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بچپن کے زمانہ سے ہی اسلامی تعلیم کی دس بنیادی باتیں بچوں کو بتاتے رہنا چاہئے اور ان کی تربیت اسی تعلیم کی روشنی میں کرنی چاہئے۔
پہلی اور بنیادی چیز(یعنی ان چیزوں میں سے بھی جو بنیادی ہے) شرک سے اجتناب اور توحید پر قائم ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ یہ بات بچے کے ذہن نشین کر دینی چاہئے کہ خدائے واحد و یگانہ کا کوئی شریک نہیں،نہ اس کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں۔ وہی ایک واحد و یگانہ ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا۔ عالمین کو پیدا کیا یعنی اس مخلوق کو پیدا کیا جو موجود ہے اور جس تک ہمارا علم یا ہماری نظر یا ہماراتخیل پہنچا ہے یا نہیں۔ ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ہے۔ کسی غیر کو اس کی ذات اور صفات میں شریک کرنا یہ ظلم عظیم ہے۔
ظلم کے معنے ہیں کسی چیز کو غیر محل میں رکھ دینا یعنی جو چیز خدا کی تھی اسے کسی غیر کو دے دینا۔ جو صفت محض اللہ تعالیٰ کی ظلیّت میں اور اس کی اتباع میں حاصل کی جا سکتی تھی فی نفسہٖ اس صفت سے متصف کسی غیر کو سمجھنا یا خود کو سمجھ لینا یہ غلط ہے اور غلط جگہ پر اس صفت کو منسوب کیا گیا ہے اور پھر فرمایا کہ نہ صرف یہ کہ خداتعالیٰ کی ذات اور صفات میں کسی غیر کو شریک نہیں ٹھہرانا بلکہ خدا کو واحد اور یگانہ سمجھنا(اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی) اور تمام صفات حسنہ سے اسے متصف سمجھنا اور یہ یقین رکھنا کہ جو بھی مخلوق ہے وہ درحقیقت اسی کی صفات کے جلوے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا وہ مخصوص جلوہ نہ ہوتا جو ہوا تو ہم جو آج یہاں بیٹھے ہیں پیدا بھی نہ ہوتے۔ یہاں جمع ہونے کا تو سوال ہی نہیں ہوتا وہ ایک خاص جلوہ تھا جس نے ہم میں سے ہر ایک کو خلق کیا پھر اس کو طاقتیں دیں پھر اس کی نشوونما کی پھر اس کو یہ توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچانے پہچان کر جماعت میں داخل ہو یا جماعت میں پیدا ہو کر آپ کو پہچانے اور پھر اس کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ ایک دین سکھانے کی کلاس ہے وہاں تم جائو اور اکٹھے ہو۔
میں نے ایک جلوہ کہا تھا لیکن حقیقتاً یہ بہت سے جلوئوں کا مجموعہ ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کا جلوہ نہ ہوتا یعنی اس کی صفات میں سے ایک صفت کا یہ جلوہ نہ ہوتا تو ہم یہاں اکٹھے نہ ہوتے۔ ہر چیز موجود ہے ہر چیز جو زندہ ہے وہ ترقی کی طرف جا رہی ہے یا تنزل کی طرف مائل ہے وہ جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے یا موت کی طرف چل رہی ہے وہ ہر حالت میں خداتعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت یا صفات کا جلوہ یا جلوے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان جلوئوں میں کسی غیر کو شریک نہ کرنا۔ اسلام نے بڑی تفصیل سے یہ بات بیان کی ہے یہ نہیں کہ خلق کے لئے تو اللہ کے جلوے کی ضرورت ہے لیکن تن ڈھانکنے اور پیٹ بھرنے کے لئے مارگسن اور سٹالن اور لینن کے جلوئوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ منوانا نہیں چاہتا بلکہ ہر کام کے لئے ہر چیز کے حصول کے لئے، ہر نیک خواہش کے پورا ہونے کے لئے، ہر ضرورت کے مل جانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے جلوے کی ضرورت ہے وہ جلوہ نہ ہو تو ہماری خواہش اور ہماری ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔
توحید کے اوپر قائم کرنا چاہئے۔ ہر رنگ میں اور ہر طریق پر توحید حقیقی کو بیان کرکے اور اگلی انسل کو اس بات پر پختگی سے قائم کر دینا چاہئے کہ خدا کی ذات و صفات میں کوئی شریک نہیں وہ خدا ہی واحد و یگانہ سب قدرتوں اور سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسی کے جلوے ہمیں مادی شکل میں نظر آتے ہیں سورج کی روشنی اسی کے نور کی ایک جھلک ہے چاند کی چاندنی اس کے حسن کا جلوہ دکھا رہی ہے پانی میں زندگی اسی کی صفت ’’حَیّ‘‘ کا ایک جلوہ ہے اور پھر انسان کا باقی رہنا اور صحت کے ساتھ باقی رہنا اس کی قیومیت کا مظاہرہ ہے غرض ہر چیز خواہ کسی شکل میں اور کسی رنگ میں ہمارے سامنے آئے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہی ہے جو اس رنگ میں اور اس شکل میں ہمارے سامنے آئی۔
اللہ تعالیٰ کی اس معرفت اور اس عرفان کے بعد محبت کا ایک بیج بچہ کے دل میں بویا جاتا ہے پھر وہ اپنی استعداد کے مطابق اس بیج کو بڑھانے میں خداتعالیٰ کی توفیق سے کامیاب ہوتا اور خداتعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوؤں کامشاہدہ کرتا ہے بہرحال بچے کو بچپن کی عمر میں ہی شرک سے اجتناب کی تعلیم دینی چاہئے اور اس کے دل میں توحید حقیقی کو قائم اور راسخ کر دینا چاہئے۔ یہ استاد کا کام ہے پھر اس کی جو بھی موجودات ہیں(موجود حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ میں نے بہت سی، بے شمار اور ان گنت مخلوق پیدا کی ہے اور اپنی اس مخلوق کو بعض رشتوں میں باندھ دیا ہے، تعلقات میں باندھ دیا ہے) یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوئوں کی زنجیر ہے اور جس طرح باپ بیٹے سے اس زنجیر کے ساتھ جکڑا ہوا ہے اسی طرح ایک انسان مکھی کے ساتھ بھی جکڑا ہوا ہے وہاں بھی ایک جلوہ ہے جس نے ان کو آپس میں باندھ دیا ہے باریکی میں میں نہیں جاتا آپ جلدی سے سمجھ جائیں گے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنی مخلوق میں ایک یہ جلوہ بھی دکھایا ہے کہ میں نے اپنی ہر مخلوق کو انسان کا خادم بنا دیا ہے اب اسی جلوے کے ساتھ ایک مکھی اور انسان ایک ہی زنجیر میں خادم اور مخدوم کی حیثیت میں بندھ گئے۔ ہر چیز انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے اور چونکہ ہر چیز انسان کی خادم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مخدوم یعنی انسان سے کہا تو اپنے زور سے مخدوم نہیں بنا اس تسخیر کے نتیجہ میں صرف تیرے حقوق ہی قائم نہیں ہوئے بلکہ اس تسخیر کے نتیجہ میں ہم نے تیری ذمہ داریاں بھی قائم کی ہیں اور تیرا فرض ہے کہ تو ہماری عائد کردہ ذمہ داریوں کی روشنی میں ہر چیز کے ساتھ جو اسی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے ویسا سلوک کرے جو ہم کہتے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری مخلوق میری صفات کے جلوئوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور اس طرح آپس میں حقوق اور ذمہ داریاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس نے انسان کو کہا(اور بچے کے ذہن میں یہ بات آنی چاہئے اور بچہ شاید اس عمر میں زیادہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے) کہ اگر میری رحمانیت کے جلوے نہ ہوتے تو تمہارا زندہ رہنا اور تمہارا پرورش پانا ممکن نہ ہوتا۔ بھلا یہ تو بتائو کہ اس کے کس حق کے نتیجہ میں جو اس نے اپنے زور سے پیدا کیا ہو اس کی ماں کی چھاتیوں میں اس کے لئے دودھ اُترا ۔ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہے میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر میں بھی ایک بچہ ایسا پیدا ہوا کہ پیدائش کے وقت اسے کچھ زخم آ گئے تھے ڈاکٹر(جو ہمارے ماموں ہی تھے) نے کہا کہ اس بچہ کو پانچ یا سات دن(مجھے صحیح طور پر یاد نہیں) چار پائی پر بھی نہ لٹانا ورنہ اس کی ہلاکت کسی بڑی سخت بیماری(مثلاً چاہے وہ زندہ رہے لیکن مفلوج ہو جانے) کا خطرہ ہے چنانچہ سال سے اس کے عزیزوں نے، اس سے محبت اور تعلق رکھنے والوں نے کئی دن تک دن اور رات اسے اپنے ہاتھوں پر رکھا۔ اب بتائیں اس بچہ نے کونسی کمائی کی تھی جس کی اجرت اسے مل رہی تھی؟ کمائی کا تو ابھی اس پر وقت بھی نہیں آیا تھا اسے تو ہوش ہی نہیں تھی۔ رحمانیت کے یہ جلوے احسان کی شکل میں خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک بچے کے لئے سب سے زیادہ اس کے ماں باپ میں ہمیں نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں سورہ لقمان میں جو تعلیم دی ہے اور بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ دیکھو پیدائش کے دن تم نے رحیمیت کا جلوہ نہیں دیکھا تھا۔ تم نے رحمانیت کا جلوہ دیکھا تھا اور رحمانیت کا جلوہ احسان کی شکل میں تمہارے ماں باپ نے دکھایا۔ ہر قسم کا احسان رحمانیت کا جلوہ ہے حق سے زائد دینا یا حق نہ ہو اور اسے دینا دونوں رحمانیت کے جلوے ہیں بہرحال یہ فرمایا کہ جہاں بھی تمہیں اپنے اوپر احسان نظر آئے تمہارے لئے توحید کی وجہ سے دو باتوں کا سمجھنا ضروری ہے کہ احسان مخلوق کی طرف سے مجھ پر ہو نہیں سکتا تھا جب تک کہ خدائے واحد و یگانہ مجھ پر احسان نہ کرنا چاہتا۔ اس واسطے شکر کا پہلا حقدار اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے بعد شکر کے حقدار وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے اظہار کے لئے اپنا آلہ کار بنایا اور چونکہ احسان کا یہ پہلا جلوہ ہمیں ماں باپ کے طرز عمل اور ان کی خدمت میں نظر آتا ہے اس لئے فرمایا وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (البقرہ:۸۴) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کوئی اور محسن ہو تو تم نے اس کے احسان کا بدلہ ’’ھَلْ جَزَٓائُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَانُ‘‘ (الرحمن:۶۱) کے ماتحت نہیں دینا بلکہ یہ اس لئے کہا کہ جب تم اس دنیا میں پیدا ہوئے تو تم نے خدائے واحد و یگانہ کی رحمانیت کے احسان کا ایک جلوہ دیکھا تھا اور وہ جلوہ تمہیں اپنے والدین کی وساطت سے نظر آیا تھا اس لئے اس پہلے جلوہ کی وجہ سے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے والدین کے لئے شکر کے جذبات پیدا کرو کیونکہ اگر تم نے رحمانیت کے اس احسان کے پہلے جلوے کا شکر نہ کیا تو تمہیں گندی عادت پڑ جائے گی اور تم دوسرے احسانوں اور رحمانیت کے جلووں کا بھی شکر ادا نہیں کرو گے پس تم پہلے جلوہ احسان اور جلوئہ رحمانیت سے شکر بجا لانا شروع کرو اور موت تک اپنا یہ وطیرہ اختیار کرو تم یہ عادت ڈالو کہ جب بھی تمہیں کسی طرف سے خدائے رحمان کا کوئی جلوہ نظر آئے گا تو تم اس شخص کے ممنون ہو جائو گے جو اس احسان اور رحمانیت کے جلوہ کا آلہ کار بنا۔ اس معنی میں رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا کیونکہ بندے تو احسان کرنے کے قابل ہی نہیں ہر عطا جو حق سے زائد ہے(ویسے تو حق کے مطابق عطا بھی خدا کی عطا ہے لیکن یہ حصہ میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا میں اس کی نفی نہیں کر رہا) وہ پہلے خداتعالیٰ کی عطا ہے پھر کسی آلہ کی اس مادی دنیا میں، اس عارضی دنیا میں کسی واسطہ کے نتیجہ میں وہ عطا حاصل ہوتی ہے غرض بچے کے دل میں شکر گزار بندہ بننے کی عادت بچپن سے ہونی چاہئے اور استاد کا یہ کام ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم بڑی وضاحت سے اس کے سامنے رکھے۔
اس مضمون کی ابتدائی بات میں نے اس وقت بتا دی ہے اساتذہ باقی باتیں خود دیکھ لیں حقوق اللہ، حقوق العباد، حقوق نفس اور آفات نفس سے بچنا ان سب باتوں کا ان آیات میں ذکر ہے۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر ان چند دنوں میں(گو ہمیشہ ہی یہ ہونا چاہئے) ان بچوں کی(گو بعض بڑی عمر کے دوست بھی ہیں لیکن زیادہ تر بچے ہی ہیں) تربیت کرنی چاہئے اور انہیں تعلیم دینی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر میں بڑے لطیف رنگ میں ہمیں ایک نصیحت کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے بچو!(وہاں گو حضرت لقمان علیہ السلام کا واسطہ ہے لیکن مخاطب تو خدا کے سارے ہی بچے ہیں) میں نے تمہارے اور ایک گدھے میں ایک فرق قائم کیا ہے۔ گدھا گدھا ہے اور تم انسان کے بچے ہو اس فرق کو بھولنا نہیں اور تم انسان کے بچے اس صورت میں رہ سکتے ہو جب کہ تم اپنے نفس کو نفس کی بدخواہشات سے محفوظ کر لو اور نفس کو نیکی کی باتوں اور فضائل نفس سے آراستہ کر لو اور انوار نفس سے منور کر لو۔ اگر تم یہ کر لو گے تو تمہاری آواز میں انسانی دبدبہ اور اثر ہو گا اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو چاہے تم چیختے رہو اور چیخ چیخ کے لوگوں کے کان پھاڑنے کی کوشش کرو تمہاری آواز اور گدھے کی آواز میں کوئی فرق انسانی فطرت محسوس نہیں کرے گی پس اگر تم نے انسان بن کر اسی دنیا میں زندگی گزارنی ہے اگر تم نے انسان کی خصلتوں کو حاصل کرکے گدھے سے اپنے آپ کو ممیز اور ممتاز کر لینا ہے تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے نفس کی آفات کو پہچانتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ نے نفس انسان کے لئے جو فضائل کے حصول کے مواقع رکھے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی نگاہ میں خوبصورت بنو اور اللہ کی نگاہ میں محسن بنو۔ وہ حسن جو اللہ کی نگاہ انسان کے اندر دیکھتی ہے اور دیکھنا چاہتی ہے اور وہ احسان جو اللہ کی نگاہ انسان کے اندر دیکھتی ہے اور دیکھنا چاہتی ہے اگر تم نے اس حسن اور اس احسان کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں گدھا سمجھ کر ذلیل نہیں کرے گی، تمہیں گدھا سمجھ کر حقیر قرار نہیں دے گی، تمہیں گدھا سمجھ کر غیر انسانی سلوک تم سے نہیں کرے گی۔ خدا کرے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسان بن جائیں اور خدا کرے کہ ہم اس کے فضل سے یہ توفیق پائیں کہ اپنی آئندہ نسل کو بھی انسان کے اس نور سے منور کرنے کی توفیق پائیں کہ جو انسان کو دوسری مخلوق سے ممیز کر دیتا ہے۔
ویسے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر مخلوق میں خدا کی صفات کے جلوے ہیں اور ایک رنگ کی روشنی جو صفاتِ الٰہی سے الگ نہیں کی جا سکتی وہ ان میں پائی جاتی ہے لیکن جو نور خدا انسان کو عطا کرنا چاہتا ہے وہ نور اس نے غیر مخلوق کو نہیں دیا اور نہ وہ دینا چاہتا ہے نہ یہ ممکن ہے کہ غیر انسان کو وہ نور مل جائے پس جس نور کے حصول کے لئے اس نے انسان کو پیدا کیا خدا کرے کہ ہمیں بھی اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھی وہ نور خدا کے فضل اور رحم سے مل جائے۔ اللھم آمین۔
٭…٭…٭


مربیان سلسلہ، عہدہ داران جماعت بلکہ ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ ضرور وقف عارضی میں شامل ہوں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ اگست ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ مومن کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھتا ہے۔
٭ تمام بدعات کا سرچشمہ ہوائے نفس ہے۔
٭ ہر احمدی دنیاوی کام بھی خداتعالیٰ کے لئے کرتا ہے۔
٭ وقف عارضی کی طرف توجہ دیں۔
٭ ایک مربی کے دل میں اپنے ربّ کریم رحیم کی محبت ہونی چاہئے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:۔
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَآئَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ بَلْ اَتَیْنٰھُمْ بِذِکْرِھِمْ فَھُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُّعْرِضُوْنَ (المؤمنون: ۷۲)
اس کے بعد فرمایا:۔
اس وقت میں دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے اس وقت تک پچھلے سال سے بھی کم وصول ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانبیاء کی ایک آیت میں فرمایا ہے کہ جو لوگ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اعمالِ صالحہ بجا لائیں گے یعنی ایک تو جن کے اعمال میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور دوسرے حالات کے تقاضوں کو وہ پورا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو ردّ نہیں کرے گا۔ فَـلَاکُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ اس میں ہمیں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ بجا لانے سے اللہ تعالیٰ کے پچھلے انعامات کا بھی پوری طرح شکر ادا نہیں ہو سکتا اس پر اجر کا حق نہیں بنتا دوسرے فَـلَاکُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ہمیں بتاتا ہے کہ گو حق تو انسان کا نہیں بنتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور فساد سے بچو گے اور ہر جہت سے تمہارے اعمال اعمالِ صالحہ ہوں گے تو پھر تمہاری یہ کوشش اورتمہاری یہ جدوجہد ردّ نہیں کی جائے گی بلکہ اس پر تمہیں مزید انعامات ملیں گے۔
مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ہر قدم پہلے سے آگے پڑتا ہے۔ وہ ترقی کی راہ اور رفعتوں کے حصول میں ہر دم آگے سے آگے اور بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قربانیاں ہر آن پہلی قربانیوں سے آگے بڑھ رہی ہوتی ہیں اس کی فدائیت اور اس کا ایثار اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جستجو میں اس کی کوشش اور مجاہدہ پہلے سے بڑا ہوتا ہے۔ مومن ایک جگہ ٹکتا نہیں اس سے اس کے دل، اس کے دماغ، اس کے سینہ اور اس کی روح کو تسلی نہیں ہوتی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ یہ جماعت مخلصین کی جماعت ہے (اِلاَّمَاشَآئَ اللّٰہُ ہر الٰہی جماعت میں منافق بھی ہوتے ہیں) اور ایک ایسی فدائی اور ایثار پیشہ جماعت ہے کہ جس کا قدم ہر وقت ترقی کی طرف ہی ہے۔ پھر یہ غفلت کیوں؟ اس سستی کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جماعت نے رضاکارانہ طور پر ایک مزید بوجھ قربانی کا اپنے کندھوں پر اُٹھایا تھا اور وہ بوجھ فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندوں کا تھا اور پچھلے چند مہینے ان وعدوں کو پورا کرنے کی طرف جماعت کے بہت سے احباب کی توجہ تھی اس لئے شائد کچھ کمی واقع ہوگئی ہو۔ اب اس کا زمانہ تو گزر گیا استثنائی طور پر بعض احباب کو اجازت دی جا رہی ہے اس لئے جماعت کو چاہئے کہ عارضی طور پر جو داغ ان کے کردار پر لگ گیا ہے یعنی وہ پچھلے سال سے بھی ان چندوں کی ادائیگی میں کچھ پیچھے رہ گئے ہیں اس کو جلد سے جلد دھو ڈالیں اور دو مہینوں کے اندر اندر ان کی قربانیاں پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ نظر آنی شروع ہو جائیں۔ امید ہے (اور اللہ تعالیٰ سے دعاہے) کہ جماعت اس بات کی توفیق پائے گی۔
دوسری بات میں اختصار کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مومنون کی اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے اور حسنات کے حصول کے سامان پیدا کرنے کیلئے ’’حق‘‘ کو اُتارا ہے یعنی ایک قائم رہنے والی اور دائمی شریعت اور صداقت اور حق اور حکمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اسی نزولِ حق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حدود مقرر کر دیئے ہیں۔ ہر انسان ایک انفرادیت اپنے اندر رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے۔ اسی کے مدِّنظر اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک ڈھیل بھی دی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہوں گے سات دروازے ایثار اور قربانی کی مختلف راہوں کو اختیار کرنے والوں کے لئے کھلیں گے کوئی ایک طرف سے خدا کی رضا کی جنت میں آ رہا ہے اور کوئی دوسری طرف سے لیکن کچھ وہ بھی ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور فضل کا خاص دروازہ ان کے لئے کھولا جائے گا خواہش تو ہر ایک کی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ خاص دروازہ جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھولا جائے گا وہی اس کے لئے کھلے کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص اپنی عاجزی کی انتہاء کو پہنچ گیا اور اس نے اپنا کچھ نہ سمجھا اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر رکھا۔ دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضل اور بلند تر ہستی ہے کہ جس نے خدا کی راہ میں وہ قربانیاں دیں کہ کسی ماں جائے کو یہ توفیق نہ ملی اور نہ ملے گی کہ اس قسم کی قربانیاں اپنے ربّ کے حضور پیش کرے لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنا یہی مقام سمجھا اور آپ اسی مقام پر قائم رہے کہ میں کچھ نہیں۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوسکتی ہے میرا اللہ کے اس ارفع قرب کو پا لینا بھی محض اسی کے فضل کا نتیجہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق نازل ہوا ہے اب حق تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کرے گا۔ اس ’’حق‘‘ نے کچھ حدود مقرر کی ہیں اور تمہاری خواہشات اور ہوائے نفس ان حدود سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اس کی تمہیں اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ زمین و آسمان کو جس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور انسان کو جس مقصد کے لئے اس زمین میں بسایا گیا ہے وہ مقصد حاصل نہ ہوتا اور اس طرح صالح معاشرہ کی بجائے ایک فاسد معاشرہ کی بنا رکھی جاتی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اسی غرض کے لئے اس نے حق کو اُتارا ہے اس لئے ہر وہ چیز جو اس غرض کے منافی ہے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس لئے حق تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کرے گا۔
یہ بڑا گہرا اور اہم مضمون ہے میں نے سوچا ہے کہ تمام بدعات کا سرچشمہ ہوائے نفس اور یہ اعلان ہے کہ آزادیٔ ضمیر ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غلط قسم کی آزادیٔ ضمیر سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آزادیٔ ضمیر تمہیں نہیں مل سکتی اور یہ فاسد آزادیٔ ضمیر وہ ہے جب آزادیٔ ضمیر کا نعرہ لگا کر انسان خدا کی مقرر کردہ حدود کو پھلانگتا اور ان سے باہر چلا جاتا ہے۔ ہاں ان حدود کے اندر آزادیٔ ضمیر ہے کسی کی طبیعت کسی نیکی کی طرف زیادہ مائل ہے ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق خدا کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگا رہتا ہے اور اسی کے فضل سے وہ اس کی رضا کو حاصل بھی کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو حدود ہم نے قائم کی ہیں انہی میں تمہاری بزرگی اور عزت ہے تم آزادی کا، اظہار رائے کی آزادی کا اور آزادیٔ ضمیر کا نعرہ لگا کر اگر ہماری قائم کردہ حدود کو پھلانگ کر پرے چلے جاؤ گے تو اس کے نتیجہ میں تمہاری سربلندی کے سامان پیدا نہیں ہوں گے تمہیں عزت نہیں ملے گی تمہارا رُتبہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور بندوں کی نگاہ میں بھی بڑھے گا نہیں بلکہ گھٹ جائے گا کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی انگلی کو چھوڑ کر اپنے نفس پر بھروسہ رکھا فَھُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُعْرِضُوْنَ۔ مگر انسان جب بہکتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے خدا اپنا ہاتھ آگے کرتا ہے اور کہتا ہے اس ہاتھ کو پکڑ اور میری گود میں آ بیٹھ اور وہ کہتا ہے نہیں میں تو اپنی مرضی چلاؤں گا اگر میری مرضی ہوگی تو تیری حدود کو توڑوں گا اور اس طرح وہ اس مقامِ عزت اور اس مقامِ احترام سے گر جاتا ہے جو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہے۔
اس آیت میں ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ ہم حدود کی نگرانی کے لئے محافظ کھڑے کریں تا کہ خدا کی مخلوق کو خدا کی ناراضگی اور خدا کے قہر کے جہنم سے بچانے کی کوشش کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی حدود پر کھڑے ہونے والے مجاہدوں میں وقف عارضی کے مجاہدین بھی ہیں سالِ رواں میں اس وقت تک (تین مہینوں میں) ایک ہزار سے زائد وفود باہر جا چکے ہیں گو بعض وفود اپنی جائز مجبوریوں کی وجہ سے اپنی مقررہ جگہوں پر پہنچتے نہیں لیکن بہرحال اتنے وفود یہاں سے منظم کئے گئے اور ان کو باہر بھجوایا گیا حسابی لحاظ سے میرا سات ہزار کا مطالبہ پورا ہو جاتا ہے بشرطیکہ ہر سہ ماہی میں اتنے ہی وفود منظم کئے جائیں لیکن سہ ماہی سہ ماہی میں بڑا فرق ہے مثلاً ایک فرق تو یہی ہے کہ بعض سہ ماہیوں میں کالج اور سکول کے طلباء وقف عارضی میں باہر جا سکتے ہیں کیونکہ انہیں چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن بعض سہ ماہیاں ایسی آتی ہیں جن میں کالج اور سکول کے طلباء باہر نہیں جا سکتے پھر بعض سہ ماہیوں میں زمیندار لوگ خداتعالیٰ کے قائم کردہ حدود کی حفاظت کے لئے باہر نکل سکتے ہیں اور بعض ایسے زمانے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دنیوی کاموں میں لگے رہتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی دنیاوی کام بھی خداتعالیٰ ہی کے لئے کرتا ہے۔ بہرحال وہ دنیوی کاموں میں خدا کی راہ میں چندہ دینے کی نیت سے یا اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے خیال سے محنت کر رہے ہوتے ہیں وہ انہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ یہ طبقہ اس زمانہ میں وقف عارضی کے لئے نہیں آ سکتا یہ سہ ماہی جو گزر چکی ہے ایسی تھی جس میں طالب علم وقف عارضی کی غرض سے باہر جا سکتے تھے اور میرے خیال میں بہت سے طالب علم گئے ہوں گے۔ آئندہ سہ ماہیوں میں ایسے نوجوان جو کالج اور سکول میں پڑھنے والے ہیں کم ملیں گے لیکن کم از کم اس تعداد کو جو گزشتہ سہ ماہی میں وقف عارضی میں جاچکی ہے پورا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے گو یہ تعداد بھی ہماری ضرورت کے لحاظ سے کم ہے لیکن ابھی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے گا اور وہ اور ترقی کرے گی۔ انشاء اللہ
غرض جماعت کے عام عہدہ دار اور مربی صاحبان وقف عارضی کی طرف زیادہ توجہ دیں میں جب مربیوں کی رپورٹیں دیکھتا ہوں ان کے کام کا جائزہ لیتا ہوں وہ مجھے ملتے ہیں یا ان کے حق میں بعض تعریفی کلمات آتے ہیں یا ان کے خلاف شکایات مجھے پہنچتی ہیں تو میرے ذہن میں ایک مجموعی تأثر قائم ہوتا ہے اور بہت سے مربیوں کے متعلق میرے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان خوش بختوں نے اپنے مقام کو پہچانا نہیں اور جو خوش بختی ان کے مقدر میں لکھی جا سکتی تھی اس پر وہ اپنے ہاتھ سے چرخیاں ڈال رہے ہیں مربی کو ایک نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آنا چاہئے اور وہ نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے مگر وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گو حقیقتاً جتنے مربی ہمارے پاس ہیں وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں لیکن ان کی تعداد کے لحاظ سے بھی ایک چوتھائی کام ہو رہا ہے اور تین چوتھائی کام ان کی غفلتوں کے نتیجہ میں نہیں ہوتا وہ گھر بیٹھے رہتے ہیں اور اپنے کام کی طرف توجہ نہیں کرتے ان کے اندر قربانی کی روح، جوش اور جنون کی کیفیت نہیں مجھے یہ دیکھ کر بڑا رنج ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنی رحمتوں کے اس قدر وسیع دروازے کھولے تھے مگر وہ ان کی طرف پشت کر کے کھڑے ہوگئے ہیں اور اس طرف قدم بڑھانے کا نام نہیں لیتے ان کو دعا کرنی چاہئے اور میں تو دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے اور ان کی بصیرت اور بصارت کو تیز کرے اور ان کے دل میں اس محبت کے شعلہ میں اور بھی شدت پیدا کرے جو ایک مربی کے دل میں اپنے ربّ کریم و رحیم کے لئے ہونی چاہئے۔
پس مربیوں کو بھی چاہئے او رعام عہدیداروں کو بھی چاہئے بلکہ ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو بھی اور اپنے بھائی کو بھی یہ تلقین کرے کہ وہ وقف عارضی میں شامل ہو۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک قربانی کی راہ ہے اور یہ راہ تنگ ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ قربانی کی راہوں پر چلے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو نباہنے کی توفیق ـعطا کرے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷؍ اگست ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۵)
٭…٭…٭

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اُسوہ حسنہ کی روشنی میں ہمیں ہر مقام کے انسان کا احترام کرنا چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ اگست ۱۹۶۹ء بمقام احمدیہ ہال۔ کراچی)
ء ء ء
٭ ہماری اس زمین کی ہر چیز مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔
٭ انسان کے وجود میں مٹی کی خلق احسن تقویم کو پہنچی۔
٭ بشر مٹی کی تخلیق کی انتہا اور روحانی تخلیق کی ابتدا ہے۔
٭ آج دنیا پیار کی بھوکی اور عزت و احترام کی متلاشی ہے۔
٭ خداتعالیٰ کے قرب کے لامحدود درجے اور منازل ہیں۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْالِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا (الکھف: ۱۱۱)
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ (حٰمٓ السجدۃ: ۷)
اس کے بعد فرمایا:۔
انبیاء علیہم السلام ہر قوم اور ہر زمانہ میں مبعوث ہوتے رہے ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بنی نوع انسان کو انسانی شرف اور عزت اورمرتبہ کا علم نہیں دیا گیا تھا کیونکہ ابھی وہ اپنی جسمانی اور روحانی ارتقاء کے دور میں اس مقام پر نہیں پہنچے تھے جہاں وہ اس بات کو سمجھ سکتے کہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے اور مقصد حیات بشریت ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لئے پہلی کتب کی تعلیموں کا تعلق صرف ان اقوام کے ساتھ نظر آئے گا جن کی طرف مختلف انبیاء مختلف زمانوں میں مبعوث ہوتے رہے اور پہلی کتب کی یہ تعلیمیں صرف اخلاقی اور روحانی تربیت ہی کے لحاظ سے نہیں بلکہ دنیوی تعلقات کے لحاظ سے بھی انسان، انسان میں فرق کرتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کے انبیاء کی تعلیمات میں بہت سی تحریف اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ یہ تعلیمات انسانی مقام اس کے شرف اور مرتبہ کو قائم کرنے والی نہیں ہیں۔
یہی حال بنی اسرائیل کے انبیاء کا ہے ایک زمانہ میں وہ بڑی مظلوم قوم تھی۔ ان کی قومی عزت خطرہ میں تھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُن کو انتقام کی تعلیم دی اُن میں عزت نفس پیدا کی۔ پھر گو وہ اس پر قائم نہ رہ سکی اور دوسری Extreems (انتہا) پر چلی گئی تا ہم ان انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی یہ غرض نہیں تھی کہ وہ اس بات کا بھی اعلان کریں کہ بنی نوع اِنسان اشرف المخلوقات ہیں اور آپس میں سب برابر ہیں لیکن چونکہ ایک خاص وجہ سے اور ایک خاص مقصد کے پیش نظر جس کا ذکر میں ابھی کروں گا انسانی شرف کو قائم کرنا تھا اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسان برابر ہیں اور ہمیں ایک ایسی تعلیم دی گئی جس میں انسانی شرف اور مرتبہ کو وضاحت سے بیان کر دیا گیا اور یہ تعلیم صرف عرب کے رہنے والوں کو مخاطب کر کے نہیں دی گئی۔ تمام عالمین کے انسان اس تعلیم کے مخاطب ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی مرتبہ کو سمجھانے کیلئے فرمایا۔ وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَٓا اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ (الروم: ۲۱) اللہ تعالیٰ کی زبردست نشانیوں اور اس کی قدرتوں کے حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک نظارہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے ہماری اس زمین کی ہر چیز مٹی سے پیدا ہوئی ہے مٹی کے اجزا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک خاص محسوس و مشہود شکل اختیار کر لیتے ہیں مثلاً پھلوں میں سے آم یا انگور وغیرہ ہیں۔ اناجوں میں سے گندم یا جو مکی یا باجرہ ہیں۔ لحمیات میں سے پرند وں کا گوشت ہے، چوپایوں کا گوشت ہے اور مچھلیوں کا گوشت ہے اسی طرح کی اور بھی بے شمار مختلف چیزیں ہیں مگر دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ اے انسان! ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہارے وجود میں مٹی کی خلق احسن تقویم کو پہنچی ہے مٹی کی خلق جو موزوں ترین اور بہترین شکل اختیار کر سکتی تھی وہ تمہارے وجود میں کمال کو پہنچ گئی ہے۔ سورۃ تین میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ غرض انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور احسن تقویم کی شکل میں انسان بطور بشر کے ہے پھر تَنْتَشِرُوْنَ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کی تسخیر کیلئے دنیا میں پھیلنا شروع کیا۔ پہلے تم نے اپنے ماحول کی چیزوں سے فائدہ اُٹھایا پھر چونکہ تمہاری فطرت میں یہ جذبہ رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول یعنی اپنے ملک کی چیزوں سے تسلی نہیں پاتی اور انسان سمجھتا ہے کہ ساری دنیا کی چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اس لئے وہ ساری دنیا میں پھرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا اور دنیا کی ہر چیز کو اس نے اپنے کام پر لگایا اور اپنے فائدہ کے لئے اُسے استعمال کیا۔
دراصل بشر اس مٹی کی تخلیق کی انتہا اور روحانی تخلیق کی ابتداء ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے سیرروحانی شروع ہوتی ہے۔ پھر آگے جتنی جتنی کسی میں ہمت ہوتی ہے وہ اس کے مطابق روحانی رفعتوں کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے البتہ بشریت سے پہلے روحانی رفعتوں کے حصول کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بشریت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد ہی انسانی مخلوق اللہ تعالیٰ کا قرب اور لِقا کا مقام حاصل کر سکتی ہے۔
پس بشریت کے مقام سے سیر روحانی کا آغاز ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام احسن تقویم رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے رسول تم دنیا میں اعلان کر دو اور اس عظیم الشان اعلان پرمشتمل ان آیات (اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) کوبشریت کے کمال کے ذکر سے شروع کر کے آگے سیرروحانی پر ختم کیا۔ اب ایک ایسے فرد واحد نے خدائی حکم کے ماتحت یہ اعلان کیا کہ میں تم جیسا ہی بشر ہوں۔ وہ خدا تعالیٰ کے قریب تر ہوا جیسا کہ خود قرآن کریم کی یہ آیہ کریمہ ہے۔
فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (النجم: ۱۰) اس حقیقت کی مظہر ہے اور اس سے زیادہ قرب کسی اور فرد بشر کے لئے حاصل کرنا تو کیا اُس جتنا بھی حصول ممکن نہیں چنانچہ آپ کی علو شان پر وہ حدیث قدسی بھی روشنی ڈالتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَ فْـلَاکَ یعنی اے رسول! اگر تیرا وجود پیدا نہ کرنا ہوتا، اگر تجھے دنیا کے لئے نمونہ نہ بنانا ہوتا تو میں مخلوق ہی پیدا نہ کرتا۔ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں تمہارے جیسا انسان ہوں، جہاں تک انسانی عزت، شرف اور مرتبہ کا سوال ہے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں کیونکہ جس طرح میں احسن تقویم یعنی بشریت کے لحاظ سے مٹی کا ایک پتلا ہوں اسی طرح تم بھی مٹی کے پتلے ہو، جس طرح میں اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہوں اسی طرح تم بھی اشرف المخلوقات کے فرد ہو جس طرح میں سیر روحانی میں بلند سے بلند درجات پا سکتا ہوں اسی طرح تم بھی بلند سے بلند درجے حاصل کر سکتے ہو اور یہ کہہ کر ایک طرف دنیا میں انسانی عزت اور شرف کو قائم کیا اور دوسری طرف ہر فرد بشر کو اس طرف بھی متوجہ کیا کہ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ اگر مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلند سے بلند مقام حاصل ہو سکتا ہے تو تمہیں بھی بلند درجہ کیوں نہیں حاصل ہو سکتا۔ تم بھی خدا کی راہ میں مخلصانہ کوششیں کرو، سچی قربانیاں دو، حقیقی مجاہدہ اختیار کرو، جذبۂ فدائیت اور عاشقانہ ایثار کے نمونے پیش کرو خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرنے لگ جائے گا، تم بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کر لوگے۔
اب اگر جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے اشرف المخلوقات کا فرد ہونے کے لحاظ سے ہر انسان کا مقام اتنا بلند ہے تو ظاہر ہے کہ ہم پر کس قدر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ آج دنیا ایک دوسرے کی عزت اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا سبق بھول چکی ہے۔ جو شخص امیر بن جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کچھ مال دے دیتا ہے (جو دراصل اس کے امتحان کے لئے ہوتا ہے) تو وہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میرا ربّ میری کچھ خوبیاں دیکھ کر مجبور ہو گیا تھا کہ مجھے مال عطا کرے اور دنیوی نعمتوں سے نوازے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ مال دے کر دراصل میرا امتحان لیا جا رہا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا مال و دولت میری عزت و احترام کی نشانی ہے اس لئے اپنے سے کم تر آدمی کو حقیر قرار دینے لگ جاتا ہے، اس کے ساتھ محبت اور حسن سلوک سے پیش نہیں آتا۔ اس کی عزت و احترام نہیں کرتا اگر وہ کسی وقت اس کے گھر میں آ جائے تو اسے دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے اور اگر کبھی اس سے بات بھی کرے گا تو اس حال میں کہ ماتھے پر تیوری چڑھانے اور آنکھوں میںغیض و غضب کے آثار نمودار ہوں گے مگر یہ امیر شخص اس حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے کہ بحیثیت بشر ہونے کے جو مقام اس کا ہے وہی مقام اس غریب آدمی کا بھی ہے جو اس کو ملنے آیا ہے۔ وہ یہ بھول رہا ہوتا ہے کہ اسلام تو انسانی عزت اور اس کے شرف کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہیں سے دراصل سیر روحانی کی ابتداء ہوتی ہے اور انسان اپنے مقصد حیات کو پا لیتا ہے اور سیرروحانی کی ابتداء صرف انسان سے ہو سکتی ہے گدھے یا گھوڑے سے نہیں ہو سکتی، گیدڑ یا چمگادڑ سے نہیں ہو سکتی، بھیڑیئے یا سؤر سے نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو بوجہ خادم انسان ہونے کے خادمانہ طاقتیں لے کر اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور خادمانہ زندگی گزارنا ہی اُن کا مقصد حیات ہے۔ ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے مسخر کی گئی ہے آگے یہ انسان کی اپنی سمجھ اور استعداد پر منحصر ہے کہ وہ ان سے کہاں تک فائدہ اُٹھاتا ہے لیکن ان کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کی خدمت کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ہمارے تصور اور گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو نہ صرف انسان کی خدمت پر مامور کیا ہے بلکہ انسان کو ان پر شرف اور رتبہ بھی بخشا۔ انسان کے وسیع تر اختیارات سے ان کو نیچے رکھا۔ ان کی فطرت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ چاہیں تو وہ انسان کی خدمت کریں اور چاہیں تو نہ کریں ورنہ تو ہماری شیروں سے بھی لڑائی ہوتی گیدڑوں سے بھی لڑائی ہوتی۔ بچھوؤں سے بھی لڑائی ہوتی آپس میں رقابت کی جنگ شروع ہو جاتی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ہر ایک چیز کو انسان کا خادم بنا دیا اور اُسے یہ کہا کہ میں تجھے جو بھی حکم دوں گا تیری فطرت اس کو قبول کرے گی اور اس سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھے گی۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی قرآن کریم کی اس آیۂ کریمہ یَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ (التحریم:۷) (یعنی فرشتوں کو اللہ تعالیٰ جو بھی حکم دیتا ہے وہ اس کے پابند ہوتے ہیں اس حکم سے باہر نہیں نکل سکتے) کی رو سے یہی تفسیر کی ہے کہ فرشتوں کی اس تعریف کے مطابق تو پھر مخلوق کا ہر ذرّہ فرشتہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت ہی نہیں دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنی مرضی سے ٹال سکیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ قہر خداوندی کو قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ انسان بسا اوقات تیار ہو جاتا ہے مگر یہ چیزیں تیار نہیں ہوتیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بڑا ہی احسان ہے کہ جس چیز کو اس نے ہماری خدمت پر لگایا ہے اس کو یہ اجازت ہی نہیں دی کہ وہ رسہ تڑوا کر بھاگ جائے اور ہماری خدمت کرنے سے انکار کر دے۔الغرض ساری چیزیں اپنے اپنے کام پر لگی ہوئی ہیں۔ انسان کو بشریت کے مقام پر لاکھڑا کیا اور فرمایا اے بنی نوع انسان! اس مٹی سے پیدائش کی جو بہترین شکل بن سکتی تھی وہ شکل میں نے تمہیں عطا کر دی ہے۔ احسن تقویم میں میں نے تمہیں پیدا کر دیا ہے۔ تمہیں اشرف المخلوقات بنا دیا ہے دنیا کی ہر چیز تمہاری خدمت پر لگا دی ہے۔ اب تمہاری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے خادم اور اس کے بندے بن جاؤ تمہارا کام اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا نہیں ہے تمہارا کام مخلوق کے آگے سرجھکانا اور اُن سے مانگنا بھی نہیں ہے نہ ہی تمہارا یہ کام ہے کہ تم بعض کو بعض پر ترجیح دو۔ تم اشرف المخلوقات ہو تم میں سے ہر ایک کی عزت اور شرف اور مرتبہ بحیثیت انسان ایک دوسرے کے برابر ہے یہاں تک کہ افضل البشر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق بتقاضائے بشریت دوسرے انسانوں ہی کی طرح تھے۔
درحقیقت یہ ایک عظیم اعلان ہے۔ جب ہم اس کے متعلق سوچتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں۔ اس قدر عظیم اعلان بنی نوع انسان کے سامنے کیا گیا ہے جس کی عظمت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھتا ہو اور اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہوتے ہوئے بشریت کے مقام سے سیرروحانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگئے اور ایسا عظیم قرب حاصل کیا کہ اس سے زیادہ قرب تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔ نہ کسی ماں جائے نے کبھی اتنا قرب حاصل کیا اور نہ ہی آئندہ کر سکتا ہے تا ہم آپ کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا گیا کہ بشر ہونے کی حیثیت میں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں۔ انسانی شرف اور اس کے احترام کے لئے اس سے بڑھ کر عظیم اعلان اور کیا ہو سکتا تھا آپؐ نے بنی نوع انسان سے فرمایا کہ جب ہر فرد بشر بطور بشر میرے جیسا ہے تو دو چیزیں لازم آتی ہیں یعنی اس سے آگے پھر دو نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر فرد بشر کی عزت و احترام لازمی ہے۔ اگر کوئی کسی کی بے عزتی کرے گا یا کسی کو بنظر حقارت دیکھے گا تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے کہ تم نے میری بے عزتی کی اور مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا کیونکہ میرا مقام شرف بطور بشر کے اس سے بڑھ کر نہیں ہے تم نے کسی کی بے عزتی کی تو گویا میری بے عزتی کی۔ اس واسطے یہ بات یاد رکھنا کہ کسی بھی شخص کی بے عزتی نہیں کرنی۔ کسی کو بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا ہر ایک کی عزت و احترام کرنا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں ایسی گندی عادت پڑ گئی ہے کہ بات بات میں ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ کا کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اُن کا ہر ایسا فعل دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہونے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والا ہے۔ آج دنیا پیار کی بھوکی ہے عزت واحترام کی متلاشی ہے آج دنیا میں ہمیں جو بے چینی نظر آ رہی ہے اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو بطور بنی نوع انسان کے اشرف المخلوقات نہیں سمجھا گیا حالانکہ سارے انسان ایک ہی طرح کے ہیں اور اشرف المخلوقات کے شرف سے مشرف ہیں بحیثیت بشر کوئی بھی کسی دوسرے سے بزرگ و برتر نہیں۔ اس لئے ہر مسلمان کو دوسرے کی عزت و احترام کرنا چاہئے۔ اگر وہ دوسرے کی عزت و احترام نہیںکرتا تو وہ دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترم نہیں کرتا یہ بڑا خطرناک مقام ہے۔ ہر آدمی کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے چہ جائیکہ ایک احمدی جو بدرجہ اولیٰ اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی خاطر یہ کارخانہ عالم وجود میں آیا تھا بشر ہونے کے لحاظ سے آپ کی عزت و احترام کی طرح ہر انسان کی عزت و احترام واجب ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے انسانی عزت و احترام کے قیام کا یہ ایک زبردست اعلان ہے۔ آج دنیا اس کی متقاضی ہے۔غیر تو غیر ہیں خود ہم مسلمانوں میں بھی اس طرف توجہ نہیں رہی۔ ہم نے غریب کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے لاوارث کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے یتیم کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے کم علم یا اَن پڑھ کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے اس کے برعکس دولت مند کی عزت کرنی شروع کر دی گئی ہے ہم مسلمان وجاہت اور دبدبہ سے مرعوب ہونے لگے حالانکہ خداتعالیٰ نے تو یہ فرمایا تھا کہ امیر و غریب بحیثیت انسان ہونے کے سب برابر ہیں۔ بشر ہونے کے اعتبار سے ایک سیاسی اقتدار کے مالک شخص اور ایک کم مایہ، غریب لاچار اور اَن پڑھ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور یہ آپس میں برابر ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا اس تعلیم کو بھول چکی ہے۔ انسانی فطرت اس کی بھوکی ہے۔ افریقہ کے رہنے والے کئی سَو سال سے مختلف نعروں کے درمیان محرومی اور بے عزتی کی زندگی گزارتے چلے آ رہے تھے۔ ہمارے مبلّغ وہاں گئے اُنہوں نے اسلام کی تبلیغ کی، اسلامی مساوات سے روشناس کرایا تو وہ حیران ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہم بھی اتنے ہی معزز ہیں جتنے یہ باہر سے آنے والے لوگ معزز ہیں کیونکہ دوسرے مشنریز (Missionaries) نے ان کو یہ احساس ہی نہیں دلایا تھا کہ بحیثیت انسان ہونے کے وہ بھی شرف اور مرتبہ رکھتے ہیں اور عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ اُن کے سامنے جب یہ تعلیم پیش کی گئی اور جب اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا کہ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو سب زمانوں اور مکانوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے جن کی عزت اربوں ارب لوگوں نے کی اور ہوتی چلی جائے گی جن کے لئے فدائیت کے بے نظیر نمونے پیش کئے گئے۔ آپؐ نے یہ فرمایا ہے کہ میں بلحاظ بشر ہونے کے تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ چنانچہ اتنے بڑے اور عظیم الشان انسان کی زبان مبارک سے رنگ و نسل کی تفریق کو یکسر مٹا دینے کی اس تعلیم سے وہ بے حد متاثر ہوتے ہیں اور اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کے دلوں میں عزت و احترام کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب وہ ہمارے مبلغوں سے گلے ملتے ہیں اور ان سے پیار و محبت کرنے لگے ہیں۔غرض اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ میںاللہ تعالیٰ نے جن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کی طرف متوجہ ہونا ہر ایک احمدی کے لئے از بس ضروری ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے جیسے ایک انسان ہو کر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سیرروحانی میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق انتہائی قربانیوں کے نتیجہ میں بلند تر روحانی مقام حاصل کر سکتے ہو۔ چنانچہ فرمایا مَنْ کَانَ یَرْجُوْالِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَـلًا صَالِحًا اس سے پہلے فرمایا تھا کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں اور بشر ہونے کے لحاظ سے میری عزت بھی اتنی ہی ہے جتنی تمہاری عزت ہے اور اس سے ہمیں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ دنیاوی تفاوت عزت و احترام یا ذلت اور حقارت کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ اسلام میں ان معنوں میں عزت یا ذلت کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جو زیادہ مالدار ہے وہ زیادہ باعزت ہے۔ کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا جو زیادہ چرب زبان ہے وہ زیادہ عزت والا ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جس کی تقریر لاکھوں کے مجمع کو مسحور کرتی چلی جاتی ہے اور وہ ایک دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے (دنیوی لحاظ سے کئی ایسے چرب زبان لوگ پیدا ہوئے ہیں) وہ زیادہ معزز ہے اور اسی طرح کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جس کو کم دولت ملی ہے یا سرے سے ملی ہی نہیں وہ ذلیل اور قابل حقارت ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو شخص اپنے ماحول میں کسی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کر سکا وہ ذلیل اور حقیر ہے۔ کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ایک شخص جو دنیوی علوم میں کمال حاصل کر لیتا ہے خدائے تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی زیادہ عزت و احترام ہے۔ احسن تقویم یعنی بشریت کے مقام سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی انسان کو کسی دنیوی وجہ سے معزز یا ذلیل قرار نہیں دیا۔ چنانچہ ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے جن کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہمارے اموال ہمیں معزز و محترم بناتے ہیں اور جو رَبِّيْٓ اَکْرَمَنِ (الفجر:۱۶) کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن جب بشریت یعنی احسن تقویم کے مقام سے انسان سیرروحانی میں بلند سے بلند ہونے لگتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تم میں سے بعض بعض پر اعزاز و اکرام پانے میں سبقت لے جائیں گے اور بعض اپنی بدعملیوں کی وجہ سے معزز نہیں رہیں گے۔ غرض احسن تقویم یعنی بشریت کا مقام انسانی عزت یا ذلت کا نقطۂ آغاز ہے۔
بنی نوع انسان نے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ (الحجرات:۱۴) کے ان الٰہی الفاظ میں کہ جو زیادہ متقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ معزز ہے پہلی دفعہ بشریت کے مقام سے بلندی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے یہ سنا کہ اب تم میں سے بعض معزز ٹھہریں گے اور بعض ذلیل اور بعض بعض سے زیادہ معزز ہوں گے اور بعض بعض سے نسبتاً کم۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ سیرروحانی سے بلند ہونے کا مرحلہ تم طے نہیں کر سکتے جب تک تم ہماری ہدایت پر عمل نہ کرو اور قرآن کریم نے بنیادی طور پر ہمیں یہ ہدایت دی کہ سیر روحانی میں بلندیوں کو وہی لوگ حاصل کر سکیں گے جو اعمال صالحہ بجالائیں گے یعنی ایک تو یہ کہ ان کے اعمال میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور دوسرے یہ کہ ان کے اعمال وقت اور موقع محل کے مطابق ہوں گے اور تیسرے یہ کہ ان کے اعمال خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے۔
پس وہ عمل جو فساد سے خالی ہو (اور فساد کے آگے لمبی تفصیل خود قرآن کریم نے بیان کی ہے میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتا) اور پھر وہ موقع و محل کے مطابق بھی ہو اور ایسا ہو کہ جس کو اختیار کر کے یہ کہا جا سکے کہ یہ وہ شخص ہے جو اس گروہ میں شامل ہو گیا جس کے متعلق آتا ہے وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ (الحج:۲۵) صراط حمید اس راہ کو کہتے ہیں کہ وہ جس منزل تک انسان کو پہنچائے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قابل تعریف ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی اس کی تعریف کرنے لگے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے پس جن اعمال میں یہ تین خصوصیتیں پائی جائیں گی وہ اعمال صالحہ کہلائیں گے اور ان اعمال صالحہ کے بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اعمال صالحہ بجا لانے میں کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معززبن جاؤ گے اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جاؤ گے۔ چنانچہ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات (جن کی میں نے شروع میں تلاوت کی تھی) کے علاوہ اور بھی کئی جگہ بار بار دہرایا ہے یہ بتانے کے لئے کہ توحید خالص کو قائم کرنا بڑا ہی ضروری ہے۔ سورۂ کہف کی آیۂ کریمہ کو توحید خالص کے ذکر سے شروع کیا اور اس کے آخر میں یہ فرمایا ہے کہ شرک سے پرہیز کرو۔ سورہ حٰمٓ سجدہ کی آیۂ کریمہ میں جہاں یہ اعلان فرمایا اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وہاںشروع میں یہ فرمایا کہ اب توحید خالص تمہیں بشر کے مقام سے اُٹھا کر قرب الٰہی کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتی ہے کیونکہ توحید خالص پر عمل قائم ہونا وحی الٰہی یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لئے فرمایا اِنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فرمایا وحی کے ذریعہ سکھایا ہے کہ تم روحانی رفعتوں کو کن ہدایات پر عمل کر کے حاصل کر سکتے ہو۔
جیسا کہ میں نے ابھی تشریح کی ہے پہلے یہ فرمایا تھا کہ اعمال صالحہ بجا لانا۔ دوسری جگہ فرمایا کہ خالی اعمال صالحہ بجا لانے کافی نہیں بلکہ استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ بجا لانا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ رمضان کے پہلے پندرہ دن روزے رکھ لئے اور دو دو گھنٹے تک نماز تراویح پڑھنے میں لگے رہے لیکن اگلے پندرہ دن تاش کھیلنے میں گزار دئے۔ فرمایا۔ فَاسْتَقِیْمُوْااِلَیْہِ اللہ تعالیٰ کی طرف انابت اور رجوع کی حالت میںاستقلال اور استقامت پیدا کرو اور یہی کیفیت اعمال صالحہ کے بجا لانے میں بھی پیدا کرو۔ پھر یہ فرمایا وَاسْتَغْفِرُوْہُ تم اپنے زور سے ایسا کر بھی نہیں سکتے اس لئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو۔ پس فرمایا اگر تم استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ پر قائم رہو گے اور اعمال صالحہ کی بجاآوری میں اپنی قوت اپنی استعداد، اپنی طاقت اور اپنی قابلیت، اپنے تقویٰ اور طہارت پر بھروسہ نہیں کرو گے، اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر کاربند رہتے ہوئے اس سے مددچاہو گے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی لقاء کو حاصل کر لوگے۔ اس کے بعد فرمایا ہے وَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ سورہ کہف کی آیہ کریمہ کے آخر میں فرمایا تھا لَایُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاکسی اور کو شریک فی العبادۃ نہیںکرنا۔ یہاں یہ فرمانے کے بعد کہ اعمال صالحہ بجا لانے میں استقلال اور استقامت سے قائم رہنا یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو زور بازو سے حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر تم یہ سمجھو کہ رضائے الٰہی کے حصول کی طاقت خود تمہارے اندر موجود ہے تو تم متکبر ہو کر خداتعالیٰ کی نگاہ سے گر جاؤ گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو اور اس سے یہ دعا کرتے رہو کہ وہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور اس نے جو طاقتیں اور قابلیتیں تمہیں عطا کی ہیں وہ انہیں اُجاگر کرے اور ان میں جلا بخشے۔ اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو تم نے مقصد حیات کو پا لیا اگر کامیاب نہ ہوئے تو سمجھو کہ تم توحید خالص سے بھٹک گئے۔ تم نے کچھ خدا کا اور کچھ اس کے غیر کا سمجھ لیا۔ تم کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے اور کبھی غیر اللہ کے سامنے جھکے۔ تم نے کبھی خداتعالیٰ پر توکل کیا اور کبھی اس کی مخلوق یعنی انسان وغیرہ کے آگے ہاتھ پھیلا دیا۔ اس صورت میں یاد رکھو وَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ شرک خواہ کسی قسم کا ہی کیوں نہ ہو انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کا مورد بنا دیتا ہے تم اس سے بچتے رہو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں ایک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عظیم الشان اعلان کروایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں۔ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر میں بشر ہونے کے باوجود مقرب الٰہی بن سکتا ہوں تو تمہارے لئے بھی یہ راہ کھلی ہے۔
پس انسانی شرف اور اس کے احترام پر مشتمل اس حکیمانہ تعلیم کی موجودگی میں تم ایک لحظہ کے لئے بھی یہ کیسے سوچ سکتے ہو کہ تمہارے اور ایک غریب بھائی، تمہارے اور ایک اَن پڑھ بھائی، تمہارے اور ایک مسکین بھائی، تمہارے اور ایک محروم بھائی، تمہارے اور ایک سائل بھائی کے درمیان فرق ہے جسے تم اپنی عزت اور اپنے محتاج بھائی کی ذلت پر محمول کرتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں تمہارے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آنی چاہئے اور ہر انسان کی خواہ وہ اپنی زندگی میں کسی بھی ادنیٰ مقام پر تمہیںنظر کیوں نہ آئے اس کی عزت و احترام کرنی چاہئے۔ اس کی ہمدردی اور خیر خواہی کرنی چاہئے اس کو اپنے سے کم تر اور ذلیل نہیں سمجھنا چاہئے۔ اُسے بھائیوں کا سا درجہ دیتے ہوئے اپنے برابر بٹھانا چاہئے اور اسے یہ احساس دلانا چاہئے کہ تم بھی ہماری طرح معزز ہو۔ پس ہمارے معاشرہ کا غریب اور کمزور حصہ اس حسن اخلاق اور اس حسن سلوک کا محتاج ہے وہ تمہارے پیاراور محبت کا بھوکا پیاسا ہے۔ تم ان کی اس بھوک اور پیاس کو مٹانے کی کوشش کرو تا کہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول مقبول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں جاگزیں ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ تعلیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اُسوۂ حسنہ ہی انہیں متاثر کر سکتا ہے اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دیکھو بشر کے مقام کو ایک جیسا کر کے اس میں اونچ نیچ نہ رکھ کر اس میں پہاڑیاں اور وادیاں نہ بنا کر خداتعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک مقام پر لاکھڑا کیا ہے اس کی کوئی حکمت ہونی چاہئے، اس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ خداتعالیٰ بغیر حکمت کے تو کوئی کام نہیں کرتا اور وہ حکمت یہ ہے کہ جب مٹی کے پُتلوں نے احسن تقویم کی شکل کو اختیار کر لیا اور اس میں بلند پردازی کی طاقت رکھ دی گئی تو فرمایا اب تم سیرروحانی شروع کرو اور خداتعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرو۔ تم عاجزانہ رنگ میں کوشش کرتے ہوئے، ہر وقت خداتعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے، اپنے آپ پر کوئی فخر نہ کرتے ہوئے، تکبر کی ہر *** سے بچتے ہوئے خداتعالیٰ کے سامنے جبین نیاز رکھ کر اس کی مدد طلب کرتے ہوئے، اس سے استغفار کرتے ہوئے ہر غیر سے منہ موڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے سیرروحانی کو شروع کرو اور اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو اس کے فضل اور اس کی رحمت کو حاصل کرو۔ اگر آپ بشر کو بشر کے مقام سے گرا دیتے ہیں تو آپ اس کو وہ پیغام کس طرح پہنچا سکتے ہیں جو احسن تقویم سے شروع ہو کر انسان کو بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ بشر کے مقام سے ورے ہمیں سیرروحانی نظر نہیں آتی۔ سیرروحانی کا آغاز بشریت کی سطح سے شروع ہوتا ہے اگر آپ ان کو بشر نہیں سمجھتے اور بشر کی حیثیت میں عزت و احترام کا وہ درجہ نہیں دیتے جو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہے تو آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام مؤثر طریق پر ان کے کانوں تک کیسے پہنچا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا ہے یا یہ کہ تم بشریت کے مقام سے سرفراز ہوئے لیکن تمہاری آخری منزل یہ نہیںہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا، تمہیں روحانی منزلیں طے کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور ان کی تو کوئی انتہا ہی نہیں کیونکہ جب خداتعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بے انتہا اور وراء الوراء ہے تو ظاہر ہے اس کے قرب کے بھی لامحدود درجے اور منازل ہیں۔ کسی بھی مقام پر جا کر وہ ختم نہیں ہوتے۔ پس اس نہ ختم ہونے والی منزل پر انسان کا ہر قدم جو پڑتا ہے اور ہر ساعت جو گزرتی ہے وہ اس کی زندگی کی بلکہ سارے انسانوں کی زندگیوں کی ساری لذتوں اور سرور سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ خوشی پہنچانے والی ہوتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی جھلک دنیا کے پیار اور محبت سے کہیں برتر اور اعلیٰ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کا مقابلہ ہی نہیںکیا جا سکتا۔ بہرحال آپ بنی نوع انسان تک یہ پیغام پہنچا نہیں سکتے جب تک پہلے آپ اس کو یہ خوشخبری نہ دے دیں کہ دیکھو اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ کااعلان کر دیا گیا۔ ایک عظیم الشان بشارت انسان کو مل چکی۔ احسن تقویم کا مقام اسے حاصل ہو گیا۔ ہر انسان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں پیدا ہوا ہو خواہ وہ کسی بھی زمانہ سے متعلق ہو انسانی شرف اور مرتبہ ہر دوسرے انسان کے مساوی اور برابر ہے۔ کوئی انسان دوسرے انسان سے برتر نہیں کسی کے متعلق زیادہ معزز اور کم معزز کا فقرہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جب انسان اپنا یہ مقام پہچان لیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسے دور میں داخل ہو جاتا ہے جس میں داخل ہونے کے بعد انسانی عزت قائم ہو جاتی ہے اُسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے لیکن اگر انسان اس دور میں داخل ہو کر اس دور کی ذمہ داریوں کو نہیں نباہتا اور فطرت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب اور نفرت اور حقارت کا مستوجب ٹھہرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر تمہاری فطرت اگر تمہاری روح اس کو برداشت نہیں کرتی تو پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سیرروحانی کو شروع کرو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شاہراہ پر قدم بقدم رفعتوں کے حصول کے بعد خدا تعالیٰ کے انتہائی قرب کو پایا وہی راہ ہم سب کے لئے کھلی ہے۔ اس راہ پر چل کر ہم بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتے اور اس کے غضب سے بچ سکتے ہیں۔ اس راہ کو اختیار کرتے ہوئے ہو سکتا ہے کسی کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار شاید کم آئے اور کسی کے حصہ میں زیادہ لیکن ہر ایک کو خدا تعالیٰ کا پیار میسر آ جاتا اور اس کی رضا حاصل ہو جاتی ہے۔ خدا کرے کہ بنی نوع انسان کا ہر فرد اس حقیقت کو سمجھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْـلُکُمْ کے الفاظ میں جو عظیم الشان اعلان کروایا گیا ہے ہر انسان اس ندا پر کان دھرے اور اپنی زندگی میں ہر لمحہ یہ کوشش کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کی اتباع کرے اور بنی نوع انسان کا حقیقی ہمدرد اور غمخوار بننے کی کوشش کرے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ اگست ۱۹۶۹ء بمقام الامتیاز۔ کراچی)
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنی پڑتی ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے موت دائمی حیات کا باعث بن جاتی ہے۔
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اللہ تعالیٰ کی صفات کا کامل مظہر تھا۔
٭ بنی نوع انسان کا خادم اور غم خوار بننا ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔
٭ اس وقت دنیا کا بہت بڑا حصہ عزت نفس کا متلاشی ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
قُلْ اِنَّ صَلَا تِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام: ۱۶۳،۱۶۴)
اس کے بعد فرمایا:۔
احباب جماعت کا یہ مشورہ تھا کہ آج احمدیہ ہال کی بجائے ایک جمعہ کی نماز یہاں ہو جائے اور اسی طرح مختلف حلقوں کی مساجد میں الگ الگ جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے۔ میں نے اس مشورہ کے پیش نظر اجازت دے دی۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ ضرورت سے زیادہ احتیاط تھی یا احتیاط کا یہی تقاضا تھا۔ بہرحال وہ مضمون جو آج میں بیان کرنا چاہتا تھا یعنی چاند پر انسان کے اُترنے کے متعلق اس کو میں نے چھوڑ دیا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس مضمون کو ساری جماعت کے سامنے بیان کر دوں اس لئے اس کی بجائے آج میں مختصراً ایک اور ضروری امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ مختصراً اس لئے کہ صبح جب میں اُٹھا تو میرے سر میں جگر کی خرابی کی وجہ سے چکر آ رہے تھے میں نے کروٹ لی تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ساری دنیا گھوم گئی ہے اب نسبتاً افاقہ ہے پھر بھی جھٹکے کے ساتھ یا رکوع سے اُٹھتے وقت چکر آنے کی تکلیف ہو جاتی ہے۔
چونکہ مجھے وہ مضمون چھوڑنا پڑا تھا اس لئے میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرمائے اور کوئی دوسرا مضمون میرے دماغ میں آ جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کے نتیجہ میں اپنے فضل سے میری زبان پر صبح ہی وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ کا فقرہ جاری کر دیا میں نے اس سے پہلی آیت کو ملا کر اس کے معانی و مطالب پر غور کیا دراصل ان دونوں آیتوں کے بڑے وسیع معانی ہیں لیکن اس وقت میں ان کے بہت سے معانی میں سے صرف ایک معنی بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔
اللہ تعالیٰ کا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دینا کہ اے رسول! آپ دنیا کو اپنے قول اور فعل سے یہ بتا دیں کہ میری عبادت اور میری قربانی بھی، میرا جینا بھی اور میرا مرنا بھی سب اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے۔ اس میں دراصل عبادت اور قربانی کا تعلق بھی ’’مَمَاتِیْ‘‘ ہی سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا سوال ہو یا اس کی راہ میں دوسری قربانیاں دینے کا سوال ہو، اس سے دعائیںکرنے کا سوال ہو یا اس کی تسبیح کرنے کا سوال ہو ان سب عبادات اور قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنی پڑتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا بندہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے موت کو قبول کرتا ہے تو یہ موت اس کی دائمی فنا کا باعث نہیں بنتی بلکہ اس کی دائمی حیات کا باعث بن جاتی ہے اگر انسان اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ میں فنا ہو کر اس کی ہر صفت اور اس کی ہر صفت کے ہر جلوے کے سامنے اپنی گردن رکھ دے تو اُسے اپنے ربّ سے ہر پہلو اور ہر زاویہ سے ایک کامل اور مکمل حیات نصیب ہوتی ہے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چونکہ جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں اس رنگ میں کامل اور مکمل تھیں کہ کوئی انسان پہلوں اور پچھلوں میں سے ان کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتا کیونکہ آپ نے کمالِ فنا کے ذریعہ ایک کامل حیات پائی تھی۔ آپؐ نے اپنی اس حیات مقدسہ کو اپنی ذاتی اغراض کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ آپ زندگی بھر توحید خالص کے قیام میں ہمہ تن کوشاں اور بنی نوع انسان کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے نفس پر موت وارد کرنے سے ذات تو پہلے ہی فنا ہو چکی ہوتی ہے اس لئے ذاتی اغراض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ تو ہمارے اس بیان میں تضاد واقع ہو جائے گا۔
پھر لَاشَرِیْکَ لَہٗ میں بتایا کہ ایسا انسان شرک کی ہر راہ سے بچنے والا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوؤں کا مظہر ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں اور ان سب کا اپنے علم میں احاطہ کرکے ان کا مظہر بننا انسان کے بس کی بات نہیں تا ہم انسانیت کے ساتھ جن صفات اور ان کے جلوؤں کا تعلق ہے ہر انسان بقدر استعداد اور کوشش ان کا مظہر بن سکتا ہے اور ایسے انسان کی زندگی دراصل اللہ تعالیٰ کے جلال کی مظہر اور اس کی عظمت اور کبریائی کے قیام کا باعث ہوتی ہے۔ ایسی مبارک زندگی میں سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہر اتم تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی عظمت اور کبریائی کو قائم کرنے میں دن رات ایک کر دیا اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق خصوصاً بنی نوع انسان کو ہر قسم کے دکھوں سے بچانے اور ہر قسم کے سکھ پہنچانے میں اپنے خلق عظیم کا بے نظیر مظاہرہ کیا۔
پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اللہ تعالیٰ کی صفات کا کامل مظہر تھا۔ آپ نے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کی کبریائی کو دنیا میں ظاہر کیا اُس رنگ میں نہ کسی اور انسان نے ظاہر کیا اور نہ کر سکتا تھا کیونکہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ کا کمال مظاہرہ آپ ہی نے کیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا سب سے زیادہ علم آپ ہی کو تھا کیونکہ جب تک الٰہی صفات کا علم نہ ہو اللہ تعالیٰ کی پیروی نہیں کی جا سکتی اور اس کی صفات کا مظہر نہیں بنا جا سکتا۔ اگر آپ قرآن کریم پر ایک سرسری نظر ڈالیں اور پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتب جس رنگ میں بھی وہ اس وقت موجود ہیں گو پوری طرح اپنی اصلی شکل میں وہ نہیں ہیں لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بھی نورانی جھلک اُن کے اندر نہیں پائی جاتی۔ بہرحال ان کتب سابقہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی اس تعلیم سے جو قرآن کریم پر مشتمل ہے مقابلہ و موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ جلوے اُن میں نظر نہیں آتے جو ہمیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ پر نازل ہونے والی تعلیم میں نظر آتے ہیں۔ غرض کتب سابقہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوؤں کے متعلق جو تعلیم دی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و معرفت پر مشتمل تعلیم کے مقابلے میں بڑی ناقص ہے اس لحاظ سے بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بہت بلند ہے۔
پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے نتیجہ میں ایک طرف عظمت و جلال الٰہی کو قائم کروں اور دوسری طرف بنی نوع انسان کی خدمت کرتا رہوں اس وقت دنیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ ووسلم کی حیات مقدسہ کے ہر دو پہلوؤں کے مظاہرے اور ہر دو جلوؤں کی محتاج ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا تعلق ہے دنیا اس سے ناواقف اور ناآشنا ہے اور وہ چیز جو اس الٰہی عظمت و جلال کے مقابلہ میں کروڑواں حصہ بھی نہیں ہے بسا اوقات انسان اپنا سر اس کے سامنے جھکا دیتا ہے حالانکہ ہر وہ سر جو خدا تعالیٰ کے آستانہ کے علاوہ کسی اور جگہ جھکتا ہے وہ ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ دراصل دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی ضرورت ہے لیکن لوگ آپ کے مقام کو پہچانتے اور اپنی ضرورت کو سمجھتے نہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اسلام میں انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں اُن سے بڑی بے اعتنائی برتی جا رہی ہے انسانی حقوق ادا نہیں ہو رہے ہیں۔ دراصل حقوق اور فرائض پہلو بہ پہلو چلتے ہیں اگر ہر انسان اپنے فرض کو پورا کرے تو ہر دوسرے انسان کے حقوق ادا ہو جائیں گے۔ اسی لئے قرآن کریم نے حقوق اور فرائض کو متوازی رکھا ہے۔ ہر ایک کو فرمایا ہے کہ تم پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور تم میں سے ہر ایک کے کچھ حقوق بھی قائم کئے گئے ہیں جو تمہارا فرض ہے اس کو تم ادا کرو جو تمہارا حق ہے اس کے ملنے کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔
غرض بنی نوع انسان کا خادم بننا اور بنی نوع انسان کا ہمدرد و غم خوار بننا ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔ آج اس وقت اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہمیں اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ ساری دنیا میں اقتصادی لحاظ سے انسان پر مختلف دل دہلا دینے والے دباؤ پڑ رہے ہیں اگر خدانخواستہ یہ دباؤ کامیاب ہوگئے تو بنی نوع انسان میں سے وہ حصے بھی کہ جو اس وقت تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں اس رشتہ کو منقطع کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور آپ سے قطع تعلق کر کے اپنی دنیوی ضروریات اور مقاصد کے حصول کے لئے دوسرے مختلف ازمزIsms (نظریات) سے رشتہ جوڑیں گے حالانکہ یہ مختلف Isms (نظریات) صحیح معنی میں انسانی ضروریات اور مقاصد کو قطعاً پورا نہیں کر سکتے۔ ہمارے لئے اگرچہ ہر دوسری چیز برداشت کرنا سہل اور آسان ہے لیکن اس چیز کو ہم کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ آج وہ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور خادم ہیں کل کو آپ سے دور چلے جائیں اور کارل مارکس یا لینن یا سٹالن یا کسی اور انسان سے اپنا تعلق قائم کر لیں اور ان کے ذریعہ سے اپنی ضرورتیں پوری ہونے کی توقع رکھیں حالانکہ ان کے نظریات اور خیالات خود اپنی ذات میں سراسر مبہم اور گمراہ کن ہیں یہ چند نعرے ہیں جن کی تعیین نعرے لگانے والوں یا نعرے لگوانے والوں کے دماغ میں بھی نہیں ہے۔ غیر معین چیز ویسے بھی حاصل نہیں کر جاسکتی۔ اس لئے کسی مقصد کے حصول کے لئے یہ ایک نہایت اہم اور ضروری بات ہے کہ وہ معین اور واضح طور پر ہمارے سامنے ہو اگر وہ معین اور واضح طور پر ہمارے سامنے نہیں تو اس کا حصول پہلے ہی دن سے ناممکن ہو جائے گا۔ قرآن کریم نے ہر مقصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کیونکہ یہ کتاب مبین ہے اور قرآن کریم نازل کرنے والے نے ایسا سامان پیدا کیا ہے کہ ہر زمانہ میں قرآن کریم کی تعلیم کے وہ حصے جو کتاب مکنون میں ہوتے ہیں وہ ظاہر ہوتے رہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقرب بندے پیدا ہوتے ہیں وہ ضروریاتِ وقت کو پورا کرنے والے نئے سے نئے علوم کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔
بہرحال قُلْ اِنَّ صَلَا تِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:۱۶۳)کے مطابق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُسوہ حسنہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر ایمان لانے کے بعد اس اُسوہ پر عمل کرنا ہمارے لئے بدرجہ اُولیٰ ضروری ہے یعنی ایک طرف ہم توحید خالص پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہمارا کسی اور سے نہ کوئی رشتہ باقی رہے نہ کسی اور سے کوئی محبت باقی رہے۔ نہ کسی اور سے کوئی تعلق باقی رہے۔ صرف اللہ تعالیٰ پر ہمارا توکل ہو۔ دنیا کے جتنے رشتے ہیں دنیا کے جتنے تعلقات ہیں وہ خدا میں ہو کر اس کی رضا کے لئے اور اس کی ہدایت کے مطابق ہوں۔ یہ دنیا اگرچہ تعلقات پر قائم ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کہے کہ ان رشتوں کو سمجھو تو اس وقت ہم ان رشتوں کو رشتہ سمجھیں۔ جب خدا تعالیٰ کہے کہ ان تعلقات کو قائم کرو تو اس وقت ہم ان تعلقات کو قائم کرنے والے ہوں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حکم اور ہدایت کے مطابق بنی نوع انسان کی اس رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں کہ اس کے بندے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو سمجھنے لگیں اور دوسری طرف اس کے بندوں کی دنیوی یا نفسانی تکالیف کو دور کریں جہاں تک نفسانی تکالیف کا تعلق ہے انسان کی ہر تکلیف اس کے نفس سے شروع ہوتی ہے ’’اِذَا مَرِضْتُ‘‘ (الشعراء:۸۱) والی حالت ہوتی ہے۔ ہر دکھ اپنے نفس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر جب خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے تو اس وقت وہ مریض ٹھیک اور وہ دکھ دُور ہو جاتا ہے۔
پس خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے اس وقت دنیا کا بہت بڑا حصہ پیار چاہتا ہے۔ دنیا کا بہت بڑا حصہ اپنی عزت نفس کا متلاشی ہے کیونکہ دنیا اس کو وہ عزت و احترام نہیں دے رہی جو اس کا حق تھا۔ دنیا کا بہت بڑا حصہ اپنے دکھوں کا مداوا چاہتا ہے اور دنیا کا بہت بڑا حصہ اس جستجو میں ہے کہ اس کی زندگی کس طرح سکون اور آرام سے گزرے اب دنیا کو یہ پیار و محبت یہ عزت و احترام، یہ دکھ درد کا مداوا اور یہ سکون اور آرام کی زندگی صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی میں بہم پہنچائی جا سکتی ہے۔ دنیا والے اس سکون اور آرام کو صرف اس وقت حاصل کرسکتے ہیں جب وہ اپنے نفسوں پر ایک فنا طاری کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات میں محو ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ سے ایک نئی زندگی پائیں جو دراصل سکون اور آرام کی زندگی ہوتی ہے۔ بشاشت اور خوشحالی کی زندگی ہوتی ہے لیکن ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا، انہیں یہ راہیں بتانا اب آپ کا فرض ہے جسے آپ زبانی تبلیغ اور عملی نمونے سے مؤثر رنگ میں نباہ سکتے ہیں اور ان پر یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تمہاری بھلائی اور بہتری، تمہاری خوشحالی اور فارغ البالی تمہارے حقوق کا کماحقہ، حصول صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آجاؤ۔ قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر رکھ لو وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ میں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے جس کی حقیقی تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ میں ہمارے سامنے ہے پس اس اُسوہ حسنہ کی پیروی میں قرآن کریم کی روشنی کو دنیا میں پھیلانا ہمارا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اس فرض کو کماحقہ، پورا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ۲ تا۴)
٭…٭…٭

چاند پر پہنچنا انسان کا ایک عظیم تاریخی کارنامہ ہے ہرگز قرآن کریم پر وجہ اعتراض نہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام احمدیہ ہال۔ کراچی)
ء ء ء
٭ آثارِ صفاتِ باری تعالیٰ کے مخصوص مجموعہ کا نام زمین ہے۔
٭ انسانی زندگی کی بقاء کا ایک بڑا ذریعہ ہوا ہے۔
٭ پتھروں میں اگر نمی نہ ہو تو یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
٭ آسمان اور زمین بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح ہیں۔
٭ زمینی حدود سے باہر ارضی صفات سے بے نیاز ہو کر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:۔
وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍo قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْھَاتَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تُخْرَجُوْنَo (الاعراف: ۲۵،۲۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
سالِ رواں ۲۱؍ جولائی کو زمین سے باہر نکل کر انسان کا پہلا قدم چاند پر پڑا اس میں شک نہیں کہ تسخیر عالَم کی عظیم جدوجہد میںانسان کا یہ بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے لیکن اس عظیم کارنامہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے بعض طبقوں میں بھی اور میرے خیال میں مذہبی دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں بھی کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے ذہنی انتشار پیدا ہوا۔ چنانچہ تنزانیہ سے مجھے ایک خط میں یہ اطلاع ملی کہ وہاں ہمارے مبلّغ کسی استقبالیہ دعوت میں شریک ہوئے اور اس موقع پر اُنہوں نے یہ باتیں سنیں کہ انسان کا چاند پر جانا قرآنِ کریم کے خلاف ہے اور اس قسم کی بات کو قبول کر لینا موجب کفر ہے۔ اسی طرح رنگون کے ایک خط میں یہ ذکر تھا کہ وہاں ہمارے مبلّغ نے بعض پڑھے لکھے لوگوں حتیّٰ کہ بعض علماء کو یہ کہتے سنا کہ اگر چاند پر انسان پہنچ بھی چکا ہو پھر بھی ہمیں اس پر یقین کرنے اور اس پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ غرض اس قسم کے کفر کے فتوی دیئے گئے اور عدمِ علم کی وجہ سے خلاف حقیقت باتوں کا اظہار کیا گیا۔ دوسری طرف خود ہمارے پاکستان میں ہمارے بعض علماء نے بڑے اچھے مقالے لکھے اور بعض مجالس میں پڑھے بھی گئے ہیں جن میں سے ایک مکرم محمد یوسف صاحب بنوری کراچی کے رہنے والے ہیں اُنہوں نے ابھی چند دن ہوئے اوقاف کے سیمینار میں تسخیر کائنات پر ایک بڑا اچھا اور معقول مقالہ پڑھا ہے اور اپنے مقالہ میں بعض قرآنی آیات کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کارنامے قرآن کریم کی تعلیم پر کوئی وجۂ اعتراض نہیں بنتے۔ اِس سلسلہ میں مَیں سمجھتا ہوں کہ تین سوال ہیں جن کا ہمیں جواب دیناچاہئے۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا زمین سے باہر انسان کا زندہ رہنا ممکن ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا دوسرے اجرام یعنی کروں پر آبادیاں ہیں یا نہیں اور کیا انسان دوسرے اجرام تک پہنچ سکتا یا تعلق کو قائم کر سکتا ہے یا نہیں اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم میں ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں کہ کبھی کسی زمانہ میں انسان دوسرے کروں تک پہنچ جائے گا؟
یہ تین سوال اگر حل ہو جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر کسی کے دماغ میں کوئی خلفشار یا کوئی بے چینی یا مذہب سے بُعد پیدا ہونے کا کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوگا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا انسان زمین سے باہر یعنی قرآن عظیم کی اصطلاح میں ’’الارض‘‘ کے جو معنی ہیں اس سے باہر زندہ رہ سکتا ہے یانہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس زمین یعنی ’’الارض‘‘ سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن زمین سے یہاں وہ تعریف مراد نہیں جو ایک غیر مسلم کے ذہن میں ہوتی ہے۔
مسئلہ زیر بحث کے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ زمین کی تعریف اور اس کے معنی سمجھنے کیلئے اس کتاب عظیم کی طرف رجوع کیا جائے جس نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے اور یہ اعلان فرمایا ہے کہ ’’فِیْھَا تَحْیَوْنَ‘‘ تم اسی میں زندگی بسر کرو گے اس کے باہر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن کریم کی اصطلاح میں الارض کسے کہتے ہیں۔
جس وقت اِدھر اُدھر بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور میرے کانوںتک بھی آوازیں پہنچ رہی تھیں اُس وقت میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور رہنمائی کی درخواست کی کہ وہ میرا خود معلّم بنے اور اس مسئلہ کی حقیقت کا علم بخشے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سارا مضمون یہ بتا کر سمجھا دیا کہ قرآن کریم سے الارض کی تعریف معلوم کر لو سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہو جائے گا۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے غور کرنا شروع کیا۔ آیاتِ قرآنیہ دیکھیں اور جس حد تک میری سمجھ میں آیا ہے وہ میں اس وقت دوستوں کے سامنے بیان کر دینا چاہتا ہوں لیکن قبل اس کے کہ قرآن کریم نے جو الارض کی تعریف کی ہے وہ بیان کی جائے اور اسے سمجھا جائے، یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مخلوق کسے کہتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات عالَم پیدا کی اس کے کچھ حصوں تک ہماری نظر پہنچی اور پھر تھک کر رہ گئی۔ کچھ حصوں تک ہماری دُور بینیں پہنچیں، پھر انہوں نے بھی اپنی عاجزی کا اقرار کیا کہ اس سے آگے تو ہم بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ پھر ہمارا تخیل بھی کہیں سے کہیں تک پہنچا لیکن خداتعالیٰ کی مخلوق تو انسانی تخیل سے بھی کہیں آگے تک پھیلی ہوئی نظر آئی۔ پس ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس عالمین کی بے شمار مخلوق کی تعریف اور حقیقت کیا ہے اس موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ آپ کے چند اقتباسات میں اس وقت پڑھ کر سناؤں گا اور پھر بتاؤں گا کہ مخلوق اسلام کے نزدیک قرآنِ کریم کی رُو سے کس چیز کا نام ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرامِ فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرّہ ذرّہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے یہ سب باعتبار اپنی مختلف خاصیتوں کے جو ان میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتداء میں اسی کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا‘‘۔ (نسیم دعوت۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۴۲۳،۴۲۴)
اسی طرح آپ ایک دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:۔
’’یہ ایک سِرّ ربوبیت ہے جو کلمات اللہ سے مخلوقات الٰہی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کو اپنی اپنی سمجھ کے موافق ہر یک شخص ذہن نشین کر سکتا ہے چاہے اس طرح سمجھ لے کہ مخلوقات کلماتِ الٰہی کے اظلال و آثار ہیں یا ایسا سمجھ سکتا ہے کہ خود کلماتِ الٰہی ہی ہیں جو بقدرتِ الٰہی مخلوقیت کے رنگ میں آ جاتے ہیں‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد۲ حاشیہ صفحہ۱۲۵)
یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے یہ جلوے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے وہ ایک جلوے کی صورت اختیار کر لیتاہے۔ کلمہ دراصل حکم ہے کُن کا کہ تم یہ شکل اختیارکر لو چنانچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور منشاء اور اس کے ارادے اور اس کے حکم سے صفاتِ الٰہیہ ایک مخلوقیت کا رنگ اپنے اوپر لے لیتی ہیں اور ایک حدوث میں متشکل ہو کر مخلوق بن جاتی ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’درحقیقت یہ ایک سِرّ اُن اسرارِ خالقیت میں سے ہے جو عقل کے چرخ پر چڑھا کر اچھی طرح سمجھ میں نہیں آ سکتے اورعوام کیلئے سیدھا راہ سمجھنے کا یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کرنا چاہا وہ ہو گیا… اور جس قدر قطع اور یقین کے طور پر قرآن شریف ہدایت کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہر یک چیز خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر و وجود پذیر ہوئی ہے اور کوئی چیز بغیر اس کے پیدا نہیں ہوئی اور نہ خودبخود ہے‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد۲ حاشیہ صفحہ۱۲۵تا۱۲۷)
اِسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔
’’ہاں بے شک یہ تو ہم مانتے ہیں اور مان لینا چاہئے کہ جو کچھ صفتیں جناب الٰہی کی ذات میں موجود ہیں انہیں صفات غیر محدود کے آثار اپنے اپنے وقتوں میں ظہور میں آتے ہیں نہ کوئی امر ان کا غیر اور وہ صفات ہر یک مخلوق ارضی و سماوی پر مؤثر ہو رہی ہے اور انہیں آثار الصفات کا نام سنّت اللہ یا قانون قدرت ہے‘‘۔
(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد۲ حاشیہ صفحہ۴۲،۴۳)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہر یک چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوںسے اثر پذیر ہوتی رہی۔ سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہو سکتی گو ہم اُن پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں‘‘۔
(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۴۵)
پس ’’مخلوق‘‘ قرآن کریم کی رُو سے ان صفات کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے حدوث کا جامہ پہن لیتی ہیں اور حادثیت کا وجود اختیار کر کے مخلوق بن جاتی ہیں ان کے سوا کوئی اَور چیز مخلوق نہیں کیونکہ یہ کائناتِ ارضی و سماوی اللہ تعالیٰ کے ان جلوؤں پر مشتمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک مادی رنگ میں وجود پذیر ہے۔ ویسے تو اب سائنس نے بھی اِس مسئلہ کو سمجھنا آسان بنا دیا ہے کیونکہ پہلے مادے اور Energy (طاقت) میں بہت بڑا فرق سمجھتے تھے۔ مادے کو ایک اَور چیز سمجھتے تھے اور اس کے پیچھے جو طاقت اور قوت کارفرما ہے اس کو ایک علیحدہ چیز سمجھتے تھے لیکن اب سائنس دانوں نے مادے کی جو نئی تعریف کی ہے وہ یہ ہے کہ :۔
‏ ``A matter is nothing but another form of enegry.``
یعنی یہ مادہ تو دراصل طاقت ہی کی ایک اَور شکل ہے۔ پس اس سے ہمارے لئے یہ سمجھنا آسان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے جلوے، اس کی صفات کے جلوے اس کے حکم اور ارادے سے مادی شکل میں متشکل ہو کر مخلوق بن جاتے ہیں جیسا کہ سائنس دانوں کے نزدیک Energy (طاقت) جو ہے وہی ایسی شکل اختیار کرتی ہے کہ وہ بالآخر مادہ بن جاتی ہے۔ ہمارے لئے اس نئی سائنسی تحقیق نے سِرِّربوبیت کو سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ پس ہر مخلوق صفاتِ باری تعالیٰ کا اثریا ظل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس نے حدوث کا جامہ پہن لیا ہے۔
غرض جب مخلوق کی حقیقت ہم پر کھل گئی تو ہمارے لئے زمین کی تعریف جو قرآن کریم نے بیان کی ہے اس کا سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں کہ مخلوق کسے کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی رُو سے زمین کی تعریف یہ ہوئی کہ صفاتِ باری تعالیٰ کے بے شمار جلوؤں یا آثارِ صفات باری تعالیٰ کے مخصوص مجموعہ کا نام زمین ہے۔ پھر آگے خود قرآن کریم نے اس مخصوص مجموعہ صفاتِ باری تعالیٰ یا مجموعہ آثارِ صفاتِ باری تعالیٰ کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں تا کہ ہمیں پتہ چل جائے کہ الارض کا لفظ کِن معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد آیات ہیں جن میں زمین کے متعلق بتایا گیا ہے کہ زمین یہ ہے۔ ہم نے زمین کو ایسا بنایا ہے اور ہم نے زمین میں یہ یہ خاصیتیں رکھی ہیں وغیرہ۔ اس وقت میں چند مثالیں دوں گا تا کہ مسئلہ زیر بحث کا سمجھنا آسان ہو جائے اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین کسے کہتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا (الانبیاء: ۳۳)
وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّالَمُوْسِعُوْنَ (الذّٰرِیٰت:۴۸)
وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً (النمل: ۶۱)
آسمان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات بیان کی ہیں۔ میں نے ان میں سے چند کو بعض خصوصیات کی وجہ سے لے لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ زمین وہ وجود ہے، وہ مخلوق ہے کہ جس کے گرد ہم نے آسمان کا ایک کمر بندباندھ رکھا ہے۔ اس کا (جیسا کہ قرآن کریم کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے) زمین پر بسنے والے انسانوں کو ایک فائدہ تو یہ ہے کہ دوسرے کروّں سے ریڈیائی لہریں جو زمین کی طرف آ رہی ہیں وہ اگر زمین پر اپنی اصلی حالت میں پہنچ جائیں تو انسان کی ہلاکت کا موجب بن جائیں۔ یہ آسمانی جَوّ روک بن جاتی ہے اور وہ زمین تک پہنچنے نہیں پاتیں۔ پھر شہابِ ثاقب ہیں جو بڑی تیزی سے ہماری اس آسمانی جَوّمیں داخل ہوتے ہیں اور اس کی کثافت کی وجہ سے ان میں آگ لگ جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے تو ان میں ایک دلچسپی کا سامان ہوتا ہے اور اُن کے لئے اس میں بس ایک نظارہ ہوتا ہے کیونکہ ان کو تو حقیقت معلوم نہیں ہوتی لیکن ہمارے لئے اس لحاظ سے دلچسپی کا موجب ہے کہ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی علوِّ شان کو جلوہ گر پاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز انسانوں پر کتنا بڑا رحم کیا ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ان شہب کی یلغار سے ہمیں بچا لیا اور ہماری حفاظت کے لئے آسمان بنا دیا پھر اس آسمان میں ہوا بھر دی اور اس کے بے شمار کام مقرر کر دیئے۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب بادل بنتے ہیں تو یہ ان کو اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور حکم کے ماتحت اُڑا کر اِدھر اُدھر لے جاتی ہے اور پھر جہاں خداتعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہاں بارش برسنے لگتی ہے۔
پھر ہوا ہمارے کانوں کے لئے بھی بہت ہی مفید اور ضروری چیز ہے۔ ہمارے کان کام ہی نہ کرتے اور بالکل بے کار چیز ہوتے اگر صوتی لہریں آواز کو ان تک نہ پہنچائیں۔ پس اگر ہوا نہ ہوتی اور اس میں صوتی لہروں کاانتظام نہ ہوتا تو ہمارے کانوں میں آواز ہی نہ پڑتی۔ اسی طرح انسانی زندگی کی بقاء کا ایک بڑا ذریعہ ہوا ہے۔ ہمارے پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن لیتے ہیں اور اس طرح ہماری زندگی کی بقاء کا انتظام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی مخلوق بھی پیدا کر دی ہے جو اپنی زندگی کا یہ سامان ہوا سے نہیں لیتی بلکہ پانی سے لیتی ہے۔ مثلاً مچھلی ہے جس ہوا پر انسانی زندگی کا مدار ہے وہی ہوا مچھلی کے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے کہ جس کے گرد ہم نے ایک آسمان بنایا ہے اور اس میں ہم نے انسان کے لئے بہت سے فوائد رکھے ہیں جن کے بغیر اس دنیا میں انسانی زندگی ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ اب تک کسی بھی سائنس دان نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی کر سکتا ہے اور نہ عقل اس کو قبول ہی کر سکتی ہے کہ ہوا کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے یا اس کے بغیر انسان سن سکتا ہے یا ہوا کے بغیر انسانی پھیپھڑے سانس لے سکتے ہیں یا انسان اُن ہلاکتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جن کی یورش بڑی تیزی اور بڑی وسعتوں کے ساتھ زمین پر ہو رہی ہے۔ پس قرآن کریم کی رُو سے زمین وہ مخلوق ہے، وہ مجموعہ صفات ہے جس کے گرد آسمان حلقہ کئے ہے اور پھر یہ بھی کہ اس کے اندر بہت سی مفید خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے کہ جس کے اندر جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَيْ ئٍ حَيٍّ(الانبیاء:۳۱)
کہ جس میں ہم نے ایک ایسا پانی پیدا کیا ہے جس پر حیات کا مدار ہے یعنی ہر دنیوی مخلوق کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے یہ زندگی شجر کی ہے تب بھی اور اگر حجر کی ہے تب بھی اس کا مدار پانی پر ہے۔ پتھروں کے ذرّے آپس میں نمی کی وجہ سے مل کر ٹھوس شکل میں نظر آتے ہیں اگر ان میں نمی نہ ہو تو یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ یہ ہیرا ہیرا نہ رہے۔ غرض یہ اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہے جس کی بدولت دنیا کی ہر چیز حیات پاتی ہے۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی وجہ سے یہ جلوہ معرض تعطل میں پڑ جائے تو پانی کے بند ہو جانے سے اجزائے عناصر میں ایسا انتشار پیدا ہو جائے کہ جس سے زندگی اور بقاء ممکن ہی نہ رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے جس میں اَلْمَآء جاری کیا۔ خالی مَآء نہیں فرمایا بلکہ اَلْمَآء کہہ کر اِس طرف اشارہ فرمایا کہ یہ پانی اپنے اجزاء کے لحاظ سے وہ مخصوص پانی ہے جس پر حیات اور اس کی بقا کا مدار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین صرف وہ نہیں جس میں ہم نے پانی پیدا کیا ہے بلکہ زمین وہ ہے جس میں ہم نے پانی کی مناسب تقسیم کا سامان بھی پیدا کیا ہے اور زمین کو Pollute (گندہ) ہونے سے محفوظ رکھنے کے سامان پیدا کر دیئے۔ صاف پانی اور گندے پانی کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی۔ اگرچہ وہ نظر نہیں آتی لیکن درحقیقت صاف اور گندے پانی کے درمیان ایک دیوار یا حدِّ فاصل قائم ہے۔ پس قرآن کریم کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے زمین کی تعریف یہ بھی کی ہے کہ جس میں ایسے مختلف اجزاء پر مشتمل پانی ہو جس پر زندگی کا سارا دارومدار ہو۔ پھر ایک طرف اس کی صفائی کا انتظام کیا گیا ہو اور دوسری طرف اس کی مناسب تقسیم کا بھی انتظام کیا گیا ہو۔ ہمیں صفات باری کے یہ مخصوص جلوے جس وجود میں نظر آ رہے ہیں قرآن کریم اس کو الارض (یعنی زمین) کہتا ہے۔ چنانچہ اِس حقیقت کا اظہار اِس آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَجَعَلَ خِلٰـلَھَآ اَنْھٰرًا وَّجَعَلَ لَھَارَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا (النمل: ۶۲)
جیساکہ مَیں نے ابھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی تقسیم اور صفائی کابھی انتظام کیا ہے۔ چنانچہ سورج کو کہا (سارے اجرامِ فلکی انسان کی خدمت پر مامور ہیں) کہ سمندروں کے پانی کو گرماؤ اور پھر اس سے بخارات کواُٹھاؤ اور پھر ہواؤں کو کہا یہ کمزور بخارات ہیں یہ وہ سفر کر نہیں سکتے جو ہم ان سے کروانا چاہتے ہیں اس لئے ان کو اپنے کندھوں پر اُٹھاؤ اور جہاں ہم کہتے ہیں وہاں انہیں لے جاؤ۔ پہاڑوں کو کہا کہ جب تک پانی کے باریک ذرّے آپس میں ٹکرائیں گے نہیں اس وقت تک پانی کی شکل میں زمین پر نازل نہیں ہو سکتے اس لئے تم ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ اس طرح بارش برسے اور پہاڑی ندی نالے دریاؤں کی شکل میں بہہ نکلیں اور ان دریاؤں کے ذریعہ سے زمین کی سیرابی اور شادابی کا انتظام ہو۔ پھر ان پہاڑوں سے یہ بھی کہا کہ دیکھو بادل تو جب ہم کہیں گے وہ آئیں گے لیکن تم کچھ Store (ذخیرہ) کر لو تا کہ تھوڑے بہت پانی کا سارے سال انتظام ہوتا رہے۔ چنانچہ برف کی شکل میں پہاڑوں پر Reservoirs (ذخیرے) قائم کر دیئے جن میں سے تھوڑا بہت پانی سارا سال ہی بہتا رہتا ہے۔ پس زمین وہ ہے جس میں پانی ہے اُن اجزاء کے ساتھ جن پر حیات کا انحصار ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں نے اس پانی کی آگے مناسب تقسیم کا بھی انتظام کر رکھا ہے۔ پھر پانی میں کچھ تو لوگوں نے گند ملانے تھے اور کچھ دوسرے گند مل جانے تھے اور Stagnation (کھڑے پانی) کی وجہ سے کیڑے پیدا ہو جانے تھے اور یہ مختلف Germs (جراثیم) ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے بارش برسائی جس سے دریا بہہ نکلے اور ان کے تیز بہاؤ کے ساتھ یہ سارے گند بہہ کر سمندر میں جا ملے جس سے سمندر کا پانی ناقابل استعمال ہو گیا۔ اگرسمندر کا یہ پانی حیات کا ذریعہ ٹھہرتا تو بیماری ہی بیماری ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بہت بڑا احسان فرمایا کہ سورج کی تپش سے سمندر سے نہایت صاف اور مصفّا پانی کے بخارات اُٹھائے۔ ہم Distil کر کے جو عرق نکالتے ہیںوہ بھی اتنا صاف نہیںہوتا جتنے یہ بخارات صاف ہوتے ہیں یا ہم پانی کواُبال کر جراثیم مارتے ہیں اس میں بھی وہ بات نہیں جو خداتعالیٰ کے اِس نظام میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ یہ دو پانی (ایک سمندر کا اور دوسرا دریاؤں وغیرہ کا) آپس میں مل نہیں سکتے۔ اِس گول زمین میں اونچائی اور نیچائی یعنی نشیب و فراز کا اصول اللہ تعالیٰ ہی چلا سکتا تھا انسان خواہ کتنا ہی سوچے اس کے دماغ میں تو یہ آ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً اگر آپ دو گیند بنائیں اور ان میں اگر زمین کی کشش وغیرہ کا حصہ نہ ہو تو آپ کو سمجھ بھی نہیں آ سکتی کہ ان میں اونچ نیچ کیسے رکھیں یا نشیب و فراز کیسے بنائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ نشیب میں گندے پانی کو رکھا اور اونچی جگہ پر صاف پانی کو رکھا جو برسات کے موسم میں موسمی بارشوں یا چشموں یا برف سے پگھلے ہوئے پانی سے دریاؤں کی شکل میں بہہ نکلتا اور ایسا حکیمانہ انتظام کر دیا ہے کہ یہ دونوں (سمندر اور دریاؤں وغیرہ کے) پانی آپس میں (خواص کے لحاظ سے) ملتے نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سمندر کا پانی دریاؤں کے پانی کو خراب کر دے بلکہ بادلوں کے ذریعہ، ہواؤں کے ذریعہ اور پہاڑوں کے انتظام کے ساتھ ایک ایسا نظام جاری کر دیا جس کے ذریعہ گندے پانی میں سے اچھے پانی کے انسان تک پہنچنے کا انتظام ہوتا رہتا ہے۔ غرض اس سارے انتظام کی بدولت ایک روک بھی ایسی پیدا کر دی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس روک کو دُور نہیں کر سکتی اور ایک پُل بھی ایسا بنا دیا کہ پانی کے جتنے فوائد ہم حاصل کرناچاہتے ہیں اس پُل کے ذریعہ ہمیں حاصل ہونے لگ گئے۔
پس قرآن کریم کی رُو سے یہی وہ اَلْاَرْضِ یعنی زمین ہے جہاں پانی ہے جو حیات اور زندگی کا منبع اور سرچشمہ ہے اور پھر زندگی کے اس سرچشمے کی آگے مناسب تقسیم کیلئے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں نے ایک عظیم انتظام کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کی ایک اَور خاصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ ایک جیسی زمین ہوتی ہے، ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہوتی ہے مگر اس میں مختلف قسم کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ کھیتوں کو دیکھئے زمین کے لحاظ سے یہ ایکڑ اور وہ ایکڑ دونوں برابر ہیں۔ ایک ہی نہر سے ہم انہیں پانی دے رہے ہوتے ہیں یا ایک ہی Tubewell (ٹیوب ویل) یا کنوئیں کے پانی سے وہ سیراب ہو رہے ہوتے ہیں یا ایک ہی قسم کی بارش بادلوں سے نازل ہوتی ہے اور فصلوں کو سیراب کرتی ہے لیکن ہم کہتے ہیں یہ زمین گندم کے لئے اچھی ہے، یہ زمین دھان کے لئے اچھی ہے، یہ زمین کپاس کے لئے اچھی ہے، یہ زمین تیل کے بیجوں کیلئے اچھی ہے، یہ زمین آم کے درخت لگانے کے لئے اچھی ہے، یہ زمین امرود کے پیڑوں کے لئے اچھی ہے، یہ زمین سنگترے مالٹے اُگانے کیلئے اچھی ہے اور یہ زمین جہاں کچھ اور نہیں اُگتا شور اور کلر والی ہے یوکلیپٹس کیلئے اچھی ہے۔ غرض ایک جیسی زمین اور ایک ہی جیسا پانی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک خاص حکمت کے ماتحت یہ انتظام کیا کہ اس میں سے مختلف نوع کی چیزیں پیدا ہوں (میں اس کی کسی قدر تفصیل آگے بیان کروں گا) جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی رُو سے زمین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں باوجود اس کے پہلو بہ پہلو ہونے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہونے کے مختلف انواع کے اجناس اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں۔ پس زمین کی یہ خصوصیت بھی دراصل خداتعالیٰ کے بے شمار جلوؤں پر مشتمل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَارَتْقًا فَفَتَقْنٰـھُمَا (الانبیا:۳۱)
زمین میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار جلوے ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ زمین ایک ہی وقت میں بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح بھی ہے اور فتق یعنی کھلنے یا اپنے مخفی رازوں کے ظاہر کرنے کی خاصیت بھی رکھتی ہے۔ ورنہ اگر حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں ایک ہی نسل میں وہ ساری کی ساری ایجادات جو انسان نے انسانی عمر میں کرنی تھیں یا وہ Discoveries (دریافتیں) یا معلومات حاصل کرنی تھیں ایک ہی وقت میں رونما ہو جاتیں اور یہ ریلیں اور ہوائی جہاز اور یہ راکٹ اور یہ مختلف قسم کی دوائیاں وغیرہ پہلے زمانوں ہی میں بنا لی جاتیںتو ہمارا یہ زمانہ بڑا Bore (اُکتا دینے والا) ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو ایک Urge (خواہش) رکھی ہے کہ وہ نئی سے نئی چیزیں تلاش کرے اس خواہش کو پورا کرنے کا اُسے کوئی سامان میسر نہ آتا۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح بھی ہیں اور اپنے اندر فتق کی خاصیت بھی رکھتے ہیں۔
ایجادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہے۔ انسان نئی سے نئی معلومات حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آسمان میں بھی آثارالصفات کے نوادر مخفی ہیں اور زمین میں بھی آثارالصفات کے نوارد مخفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء اور ارادہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ پس زمین کا ایک حصہ تو عیاں ہے اور اس کا ایک حصہ گٹھڑی کی طرح بندھا ہوا بھی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نظام کے ماتحت انسان کے اندر ایک Urge (خواہش) رکھی تھی، ایک عزم عطا کیا تھا، ایک ہمت دی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوؤں میں نئی سے نئی معلومات کو تلاش کرے۔ چنانچہ اس Urge (خواہش) کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیئے گئے جن سے انسان ہمیشہ فائدہ اُٹھاتا رہا ہے اور آئندہ بھی اُٹھاتا رہے گا۔ پس خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کی رو سے زمین بیک وقت رتق کی بھی اور فتق کی بھی اہلیت رکھتی ہے اور یہ فتق دراصل الٰہی منشاء اور حکم سے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان اس دنیوی زندگی میں دنیوی طور پر ارتقاء کے بے شمار مدارج طے کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی طے کرتا چلا جائے گا۔ ہمارا دماغ اس کی حد بست کرنے سے عاجز ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا کا قول اور اس کا فعل یکساں ہوتے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بیک وقت وہ کتابِ مبین بھی ہے اور کتابِ مکنون بھی ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کا جو فعل ہے یعنی خدا تعالیٰ کی صفات نے جو حدوث کا رنگ اختیار کیا اُس کے متعلق اس آیت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کی صفات کا جو جلوہ زمین کی صورت میں ظاہر ہوا ہے وہ بیک وقت رتق بھی ہے اور فتق کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ یہ زمین بندھی ہوئی بھی ہے اور اپنے ظاہر ہونے کی اہلیت بھی رکھتی ہے اس میں بظاہر کوئی تضاد نہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخفی رازوں کا انکشاف انسانی کوشش کا مرہونِ منت ہے۔ جب انسان کوشش کرتا ہے اور تلاش و جستجو میں اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کائنات کے مخفی راز اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں جس سے ترقیات کے نئے سے نئے میدان اُس کے لئے نکلتے چلے جاتے ہیں۔
قرآن کریم نے زمین کی ایک اَور خصوصیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے فرماتا ہے:۔
ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَوَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ (الانبیا:۳۴)
اب خالی یہ نہیں فرمایا کہ دن اور رات کو پیدا کیا بلکہ دن اور رات جس طرح پیدا ہوئے ان کا علم بہم پہنچانا بھی مدنظر رکھا۔ چنانچہ ہمارے یہ دن اور یہ راتیں جس شکل میں ہمارے سامنے آتی ہیں اور ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اس کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ زمین سورج سے ایک معین فاصلے پر ہے اور زمین ایک معین رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہی ہے اوریہ ایک خاص زاویہ پر اپنا محور بنا رہی ہے اور پھر زمین کی اپنی رفتار بھی معین و مقرر ہے۔ یہ سارے حقائق جن کے نتیجہ میں یہ دن جو ہماری اس زمین کا دن کہلاتا ہے وہ دن بنتا اور یہ رات جو ہماری اس زمین کی رات ہے وہ رات بنتی ہے۔
کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک ایسی کتاب پڑھنے کا موقع ملا جو ایک سائنس دان نے لکھی ہے اور جس میں اس نے خداتعالیٰ کے وجود پر بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کی ہستی کے منکر ہیں وہ ہر چیز کو اتفاقی کہتے ہیں اور ہرچیز کے بارے میں اتفاقی، اتفاقی کی رٹ لگاتے چلے جاتے ہیں۔ مگر ان سارے اتفاقات کا جمع ہو جانا اتفاقی نہیںہو سکتا۔ ایک سائنس یعنی ایک خاص علم ایجاد کیا گیا ہے جسے Science of chances (علم اتفاقات) کہتے ہیں۔ چنانچہ اس سائنس دان نے بھی اس خاص علم یا اس علم کے خاص اصول کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ حقائق اشیاء کی رُو سے ہستی باری تعالیٰ کا انکار نہیں ہو سکتا اس کی وہ مثال دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دس ہندسے لکھ کر قرعہ نکالیں ۱۰؍۱ چانس یہ ہے کہ ایک پہلے قرعہ میں نکل آئے اور اسی طرح ۱۰۰؍۱ چانس یا ۱۰۰۰؍۱ چانس یہ ہے کہ دوسری اور تیسری بار بھی ایک نکلے۔ علیٰ ہذا ا لقیاس۔ وہ لکھتا ہے کہ زمین اور اس پر انسان کا وجود، انسانی حیات کا امکان اور بقاء اور ارتقاء کی سہولتیں یہ اتنی چیزوں سے وابستہ ہیں کہ ہر چیز کو اور اس لمبے سلسلے کو Chance یعنی اتفاق کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا اس کے لئے کوئی جائز وجہ ہونی چاہئے جس کو ہماری عقل بھی تسلیم کرے۔ پھر اس نے آگے Chances (اتفاقات) گنوانے شروع کئے۔ وہ لکھتا ہے اگر زمین سورج سے اتنے فاصلے پر نہ ہوتی جتنے فاصلے پر اب ہے تو اگر اس فاصلے سے قریب ہوتی تو دنیا کی ہر چیز کوئلہ بن جاتی اور اگر تھوڑی سی دُور ہوتی تو ہر چیز یخ بستہ ہو کر رہ جاتی۔ اسی طرح چاند زمین سے ایک خاص فاصلے پر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر چاند زمین سے ایک نیزے کے برابر بھی قریب ہوتا تو سمندر کے جوار بھاٹے کی لہریں کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں تک پہنچ جاتیں مگر چاند کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر ہونے کی وجہ سے سمندر کی لہریں اعتدال پر رہتی ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ آخر یہ لہریں اعتدال پر کیوں رہتی ہیں۔ ان میں زبردست جوار بھاٹا کیوں نہیں اُٹھتا۔ اتفاق ہر چیز اتفاق۔ سورج سے زمین کا فاصلہ اتفاق، چاند سے زمین کا فاصلہ اتفاق، سورج کے گردزمین کا ایک خاص زاویہ اور محور پر ایک خاص رفتار سے گھومنا اتفاق، کہاں تک اتفاق، اتفاق کہتے چلے جاؤ گے۔ تمہیں ماننا پڑے گا کہ ان عالمین کے پیچھے ایک بالا رادہ ہستی ہے جس نے یہ ساری مخلوق پیدا کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں یہ بتایا ہے کہ دن اور رات جو تمہارے سامنے ہیں اور وہ تمہاری زندگی اور اس کی بقاء اور ارتقاء کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں یہ بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ رکھنا چاہتا ہے اور یہ زمین جس پر تم زندگی گزارتے ہو اس میں یہ خصوصیت ہے کہ سورج سے ایک معیّن فاصلے پر واقع ہے، چاند سے اس کا ایک خاص اور موزوں فاصلہ ہے، سورج کے گرد گھومنے کے لئے ایک خاص محور مقرر ہے اور ایک معیّن اور مقرر اندازے کے مطابق گردش کر رہی ہے وغیرہ حقائق پر مشتمل یہ حکیمانہ نظام دراصل ایک بالارادہ ہستی کے وجود کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے۔ غرض ان حقائق کے نتیجہ میں ہمارے یہ دن اور یہ راتیں وجود پذیرہوتی ہیں۔ فرمایا یہ وہ زمین ہے جس کے یہ دن اور یہ راتیں ہیں۔ ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار تجلّیات جلوہ فگن ہیں۔ پھر سورج اور چاند کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس زمین کا ایک خاص تعلق سورج اور چاند دونوں کے ساتھ ہے۔ مثلاً سورج زمین کو اتنی کھاد دے رہا ہے کہ اس ترقی یافتہ زمانے میں ساری دنیا کے کھاد کے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعی کھاد مجموعی طور پر اس کا کھربواں حصہ بھی نہیں بلکہ صحیح جزو بتانے کیلئے شاید ہمارے اعداد و شمار ختم ہو جائیں۔ اس سلسلہ میں باتوں باتوں میں ایک نئی تحقیق میرے ذہن میں آ گئی ہے وہ بھی میں بتا دیتا ہوں۔ سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ جب بادل آتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے ایک تو گرج کی آواز ہے جو بعض لوگوں کو ڈرا دیتی ہے اور بعض کو اللہ تعالیٰ کی حمد پر مجبور کر دیتی ہے۔ چنانچہ بادلوں میں چمکنے والی یہ بجلی نصف گھنٹے میں اتنی مصنوعی کھاد پیدا کر دیتی ہے جس کو ساری دنیا کے کارخانے ایک دن یا شاید ایک سال میں جا کر بھی تیار نہیں کرسکتے۔ بہرحال سورج اور چاند کے ساتھ زمین کا تعلق جس حد تک ہماری سائنس نے ہمیں بتایا ہے وہ ایک ظاہر و باہر حقیقت ہے۔ سورج کے ساتھ زمین کے تعلق کی ایک چھوٹی سی مثال میں نے ابھی دی ہے اب چاند کے زمین کے ساتھ تعلق کی بھی مثال دے دیتا ہوں جو چھوٹے بچوں کیلئے دلچسپی کا موجب بھی ہوگی۔ چاندنی راتوں میں یہ لمبی سی تر یعنی ککڑی اس رفتار سے بڑھ رہی ہوتی ہے کہ اس کی آواز انسان اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ چاند کی روشنی پھلوں کو فربہی بخشتی ہے اور پھر بھی چاند میں سے کوئی چیز کم نہیں ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی گوناگوں صفات کے جلوے ہیں جو سورج اور چاند کے زمین کے ساتھ تعلقات میں ہمیں یہاں اور وہاں نظر آتے ہیں۔ یہ ہے وہ زمین جسے قرآن کریم نے الارض کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔
اب میں ان جزئیات کے ذکر کو چھوڑ کر کہ ان کا بیان کرنا بھی ضروری تھا زمین کی بعض اصولی خصوصیات کی طرف آتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَيْ ئٍ مَّوْزُوْنٍ (الحجر:۲۰)
کہ ہم نے زمین میں ہر چیز موزوں پیدا کی ہے۔ موزوں کا لفظ ایک تو نسبت کو چاہتا ہے اور دوسرے یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جس میں متوازن ہونے کا مطالبہ ہے۔ چنانچہ اسی لئے قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ہم نے اس زمین میں میزان قائم کیا ہے، اس زمین سے تعلق رکھنے والے صفات باری تعالیٰ کے جلوؤں میں اصولِ توازن کارفرما ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں:۔
اَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ (الرحمٰن:۹)
کہ اس اصولِ توازن کو توڑنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ تم سخت نقصان اُٹھاؤ گے۔ مثلاً کھانے پینے میں Balanced Diet (متوازن غذا) کے محاورہ کو ہماری موجودہ سائنس نے بھی اختیار کر لیا ہے اور میزان کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن غذا کے اصول کو دریافت کیا ہے یعنی ہماری غذا کے جو معلوم اجزاء ہیں ان میں ایک معین توازن ہونا چاہئے۔ غذا میں اتنی پروٹین ہو اتنی مقدار میں لحمیات کی ہو اس میں اتنا میدہ ہو اس کے اندر وٹامن کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو۔ پھر Mineral Salts (نمکیات) ہیں۔ Fat یعنی چکنائی ہے جو گھی اور مکھن کی شکل میں ہوتی ہے۔ گھی صرف گائے بھینس کا نہیں بلکہ جو گھی مصنوعی طور پر تیار کئے جاتے ہیں مثلاً توریہ سے مصنوعی گھی تیار کیا جاتا ہے وہ بھی گھی کی ایک قسم ہے اور اس میں چکنائی پائی جاتی ہے۔ پس گھی اور پروٹین ہے میںنے سمجھانے کے لئے پروٹین کا مطلق لفظ بول دیا ہے ورنہ اس کی آگے آٹھ نو معلوم قسمیں ہیں ابھی اور آگے پتہ نہیں کتنی قسمیں معلوم ہوں۔ غرض غذا کی ان تمام چیزوں میں توازن ہونا چاہئے۔ ہر ایک چیز کو ایک اندازے کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔ پس غذا کے تمام اجزاء متوازن اور مناسب ہونے چاہئیں اور پھر غذا کے ہضم کا توازن بھی برقرار رکھنا چاہئے کیونکہ ہر چیز میں توازن کا اصول کارفرما ہے اس لئے جتنی غذا استعمال کی جائے اس کے ہضم کرنے کا بھی انتظام ہونا چاہئے کیونکہ قدرت نے ہر چیز میں توازن قائم کر رکھا ہے۔ شیر کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ دو اڑھائی بلکہ تین من تک شکار کا گوشت کھا لیتا ہے لیکن پھر وہ آرام نہیں کرتا بلکہ گوشت کو ہضم کرنے کیلئے جنگلوں میں کم و بیش پچاس میل کا چکر کاٹتا ہے پھر وہ سو جاتا ہے اور جب اُٹھتا ہے تو اسی بچے کھچے گوشت کا ناشتہ کرتا ہے کیونکہ اس کی بڑی خوراک یہی گوشت ہے پس شیر کو اللہ تعالیٰ نے آزادی اور اختیار نہیں دیا بلکہ اپنے حکم کا پابند بنایا۔ خداتعالیٰ نے اس کو فرمایا کئی من گوشت تجھے کھانے کو دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میں نے میزان کا جو اصول قائم کیا ہے وہ برقرار رہے اس لئے اس کو ہضم کرنے کیلئے تجھے کم و بیش پچاس میل کی دوڑ لگانی پڑے گی اور اگر ہم بھی اسی قسم کی دوڑ لگائیں تو بے شک شیر جتنا گوشت تو نہ کھا سکیں لیکن ہماری خوراک ضرور بڑھ جائے۔ ایک بنیاد جو اپنے سامنے بہی کھاتے کھول کر بیٹھا رہتا ہے اور ساتھ خوب مٹھائی (ہاں یہ بھی میزان خوراک میں ایک بڑا جزو ہے) کھاتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں اس پر چربی چڑھ جاتی ہے اور پیٹ بڑھ جاتا ہے اتنا کہ مثال کے طور پر ہم کہہ دیں کہ اس کے اندر ایک ہاتھی چھپ جائے۔ غرض اس سے اپنا پیٹ سنبھالا نہیں جاتا کیونکہ ایک تو اس نے غیر متوازن غذا کھائی اور جو کھائی اس کے ہضم کا انتظام نہیں کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے زمین کی ہر چیز کو موزوں پیدا کیا ہے۔ ہر چیز میں توازن کا قانون جاری کیا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ کسی چیز کی موزونیت نسبت سے تعلق رکھتی ہے یہ انسان کی نسبت ہے کیونکہ ہر چیز کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور پھر تمام انسانوں میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستو وہ صفّت ہے جن کے لئے یہ ساری مخلوق ظہور پذیر ہوئی۔ آپ انسانیت کا نچوڑ اور جوہرِ کامل ہیں۔ آپ کو انسانیت کا کمال حاصل ہوا۔غرض ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ کی علوِّ شان کا اظہار کر سکیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو میں نے تمہیں پیدا کیا، تمہیں بے شمار قابلیتیں عطا کیں۔ تمہارے اندر جسمانی قابلیتیں رکھیں۔ تمہارے اندر ذہنی قابلیتیں رکھیں۔ پھر تمہارے اندر اخلاقی قابلیتیں رکھیں تمہارے اندر روحانی قابلیتیں رکھیں اور ان قابلیتوں کی صحیح نشوونماکے لئے میں نے ہر موزوں چیز پیدا کر دی اگر تم چاہو تو تم اس سے فائدہ اُٹھا کر صحیح راہوں پر چل کر اپنی انفرادیت کی نشوونما کو اس کے کمال تک پہنچا سکتے ہو کیونکہ میں نے ہر چیز کو موزوں شکل میں پیدا کیا ہے۔
ایک موٹی مثال اس موزونیت کی افیون ہے۔ انسان کی بیماریوں کو دُور کرنے کے بھی اس میں اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کئے ہیں۔ چنانچہ طب یونانی میں افیون کو بڑی کثرت سے دواؤں میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک عام اندازہ کے مطابق ۷۵ یا ۸۰ فیصد نسخوں میں افیون ضرور شامل ہوتی ہے لیکن وہ ہر دوائی کا جزو بنتی ہے اپنی قدرتی اور طبعی اور موزوں شکل میں۔ اسی لئے طب یونانی کی تاریخ میں کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا کہ طب یونانی کے نسخوں کے استعمال کے نتیجہ میں کسی فردِ واحد کو افیون کھانے کی عادت پڑ گئی ہو کیونکہ ہر ایسے نسخہ میں خدا کے قانون کی روشنی میں تجربہ کر کے اس کی مقدار موزوں اندازے کے مطابق رکھی جاتی ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی ہونے لگا۔ چنانچہ اس کے بعض اجزاء کے اگر کسی شخص کو دو ٹیکے کر دیئے جائیں تو اس کو افیون کی عادت پڑ جاتی ہے اور اُدھر وہ دواؤں کی شکل میں موزوں مقدار میں ساری عمر کھاتا رہے تو پھر بھی اس کی عادت نہیں پڑتی۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسبت سے یعنی انفرادی طور پر جس جس قسم کے توازن کی ضرورت تھی اس اس شکل میں اُسے پیدا کیا۔ پھر ایک نوعی توازن قائم کیا جو مثلاً اجناس کے اندر کارفرما ہے۔ اسی طرح تمام پھلوں اورکھانے پینے کی اشیاء میں توازن قائم ہے اور یہ زمین ہے جس میں یہ موزونیت یہ میزان کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ قرآن کریم اسے کہے گا کہ انسان کے قویٰ اور اس کی قابلیتوں کی صحیح اور بہترین نشوونما کے لئے جس غذا کی جس شکل میں جس موزوں حالت میں اور جس متوازن صورت میں ضرورت تھی یہ اس زمین میں پائی جاتی ہے۔ غرض جس مجموعہ آثارِ الصفات میں موزوں غذا پائی جاتی ہے وہ زمین ٹھہری۔
پھر فرمایا:۔
وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الرَّجْعِoلا وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِoلا (الطارق:۱۲،۱۳)
یعنی زمین وہ ہے جو صدع ہونے کے اثر کو قبول کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یعنی زمین وہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے غیر محدود جلوؤں کے ساتھ ہمیشہ متوجہ رہتا ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ زمین آثارِ صفاتِ باری تعالیٰ کے مخصوص مجموعے کا نام ہے اس لئے زمین کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے غیر محدود جلوؤں کے ساتھ متوجہ رہتا ہے کیونکہ یہ ان غیر محدود مؤثرات کا اثر قبول کرنے کی ہمیشہ اپنے اندر اہلیت پاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار جلوؤں کا ظہور ہو رہا ہے اور زمین ان کو قبول کر رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو ہر وقت ظہور پذیر ہو رہے ہیں ان کے نتیجہ میں مخلوق میں نئے خواص پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً خشخاش کا دانہ ہے آج سے سَو سال پہلے انسان نے اس کے جو خواص معلوم کئے تھے آج ہم نے ان سے کہیں زیادہ معلوم اور دریافت کر لئے ہیں۔ پس ضروری نہیں کہ یہ نئے دریافت شدہ خواص سَو سال پہلے بھی اس میں موجود ہوں۔ ہو سکتا ہے اس سَو سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے جلوؤں کی وجہ سے مزید خواص رونما ہوئے ہوں۔ پس صفاتِ باری تعالیٰ کے یہ جلوے اور زمین کی قبولیت کے یہ آثار ابتدائے آفرینش سے اب تک جاری ہیں۔ زمین صفاتِ باری تعالیٰ کے جلوؤں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان مخصوص جلوؤں کا سلسلہ ایک لحظہ کے لئے بھی منقطع ہو جائے تو یہ سارا کارخانۂ عالم درہم برہم ہو جائے۔ اگر انسان ایک لحظہ کے لئے اس دائرۂ صفاتِ باری اور دائرہ قبولِ اثر یعنی زمین میں جو آسمان سے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کو اپنے اندر قبول و جذب کر کے ان کو زندگی اور بقاء اور تازگی اور نئے خواص کا جامہ پہنانے کی اہلیت ہے وہ نہ ہو تو اگر انسان ایک لحظہ کے لئے بھی اِس دائرہ سے باہر قدم رکھے تو ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآنِ کریم نے جس مخلوق کو زمین کہا ہے اس سے باہر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الفرقان:۳)
اِس مضمون پر قرآن کریم نے دو زاویوں سے روشنی ڈالی ہے۔ پہلے میں دوسرے نقطۂ نگاہ کو پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَاٰتٰـکُمْ مِّنْ کُلِّ مَاسَاَلْتُمُوْہُ (ابراہیم:۳۵)
اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اس وسیع مضمون کو اس صورت میں بیان فرمایا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے اور ہر دوسری مخلوق کو اس کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے لیکن اس میں اس سوال کا جواب نہیں آتا تھا کہ ہمیں جتنے خادم درکار تھے وہ دیئے گئے ہیں یا نہیں۔ یعنی جو چیز ہمیں میسر آئی ہے وہ تو بہرحال خادم ہے لیکن ہماری ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے جتنے خادم چاہئے تھے آیا وہ ہمیں ملے ہیں یا نہیں اس کا جواب اس فقرہ میں نہیں آتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَاسَاَلْتُمُوْہُ (ابراہیم:۳۵)
کہہ کر یہ تسلی بخش جواب دیا کہ تمہاری ساری قابلیتوں اور طاقتوں اور اجزاء اور جوارح نے جس جس چیز کا مطالبہ کیا تھا وہ ساری کی ساری تمہیں عطا کی گئیں۔ ہم نے تمہیں کان دیئے کان کا یہ مطالبہ تھا کہ صوتی لہروں کا انتظام کیا جائے ورنہ مجھ تک آواز کیسے پہنچے گی۔ پھر اس کا یہ تقاضا بھی تھا کہ میرے اندر وہ نظام بھی پیدا کیا جائے کہ جو میں سنوں یا محسوس کروں وہ دماغ کے اس حصہ تک پہنچا دوں جہاں اس کو پہنچنا چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے کان کے سارے مطالبے پورے کر دیئے۔ اسی طرح آنکھوں نے پہلا مطالبہ تو یہ کیا کہ یہ جسم ایسا ہے کہ جس کے ذرّے بدلتے رہتے ہیں اس لئے کھانے پینے کے ذریعہ ایسے ذرّے ہمارے جسم میں داخل ہوں جن میں آنکھ کا ذرّہ بننے کی قابلیت ہو ورنہ جس ذرّہ میں پاؤں یا ناخن بننے کی قابلیت ہے وہ اگر آنکھ میں جائے تو آنکھ کو سرخ تو شاید کر دے مگر اس کے کچھ کام نہیں آ سکتا۔ پس آنکھ کا جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے بہت ہی عجیب چیز ہے یہ فطرتی تقاضا تھا کہ اسے ایسے اجزاء یا ایسے ذرات میسر آئیں جو اس کا ذرہ بننے اور اس کے جوہر کو اُجاگر کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آنکھ کا یہ مطالبہ پورا کر دیا۔
آنکھ کا یہ مطالبہ تھا کہ میں از خود کوئی چیز نہیں ہوں مجھے باہر کی روشنی کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے باہر کی روشنی پیدا کر دی۔ آنکھ کا یہ تقاضا تھا کہ اُس تک خاص زاویوں سے روشنی کی لہریں پہنچیں تا کہ مختلف رنگوں اور سیاہ اور سفید میں فرق کر سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے آنکھ کے اس تقاضا کو بھی پورا کر دیا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس انسانی دل کے مطالبے تھے۔ اس کے ہاتھ کے مطالبے تھے۔ اس کی پنڈلی کے گوشت کے لوتھڑے کا یہ مطالبہ تھا کہ اے خدا جو Chemical Composition (کیمیکل کمپوزیشن) تو نے میری بنائی ہے اس کے نتیجہ میں ایسی چیز مجھے میسر فرما کہ اگر میں بیمار ہو جاؤں تو وہ کان میں پہنچنے کی بجائے تیرے حکم سے میرے گوشت کو صحت مند کرنے کی کوشش کرے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ایک تو ہر چیز کی کیمیکل کمپوزیشن اس طرح بنائی اور پھراس کے مناسب حال ہر چیز پیدا کر دی۔ فرمایا یہ دوا ٹانگ کے لئے اچھی ہے۔ یہ دوا ناخنوں کے لئے اچھی ہے۔ چنانچہ ایلوپیتھی کی رو سے بھی کان والی دوا ناک میں نہیں پڑ سکتی اور نہ ناک والی کان میں۔ یہ امتیاز، یہ سلیقہ یہ دوائی کا انتخاب دراصل ہر جسمانی عضو کی ضرورت کے مطابق ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انسان حتیّٰ کہ اس کے ہر ایک عضو کے تقاضا کے مدِّنظر اس کے مناسب حال چیزیں پیدا کر دیں۔ چنانچہ سورہ ابراہیم کی مندرجہ بالا آیہ کریمہ اسی حقیقت کی غماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے پیارے انداز میں فرمایا کہ ہر وہ مطالبہ جو تمہارے وجود نے ہم سے اپنی بقاء اور اپنے ارتقاء کے لئے کیا وہ ہم نے پورا کر دیا۔ یہ تو ایک زاویہ نگاہ تھا۔ دوسرا نقطۂ نگاہ جو دراصل پہلے بیان کرنا چاہئے تھا لیکن مصلحتاً میں نے اس کو پیچھے رکھا ہے یہ تھا کہ جو بھی تمہارے اندر قابلیت ہے اس کی بقاء اور ارتقاء اور کمالِ نشوونما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ ہم نے پیدا کر دی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
خَلَقَ کُلَّ شَيْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا (الفرقان:۳)
ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی حد بندی کر دی۔ اب اس آیت سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ انسان کو اسی زمین پر رہنے کی ضرورت کیوں ہے اور وہ زمین سے باہر اپنی زندگی کیوں نہیں گزار سکتا اس لئے کہ اس زمینی حدبندی کو توڑنا انسان کے بس کا روگ نہیں مثلاً ہمارے پھیپھڑے ہیں۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہوا پیدا کر دی اور ساتھ ہی یہ حد بھی لگا دی کہ ان انسانی پھیپھڑوں کی زندگی اس ہوا تک محدود ہے اس ہوا کے بغیر اور کسی چیز سے وہ زندگی حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ویسے اس میں شک نہیں کہ ہواؤں ہواؤں میں بھی فرق ہے۔ اگر ہم بلندی پر چلے جائیں تو سانس پھولنے لگ جاتا ہے، آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔ بہت ساری چیزیں ہیں کچھ ہمیں معلوم ہیں اور کچھ آگے چل کر انشاء اللہ معلوم ہوں گی۔
پس فرمایا کہ ہم نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کو محدود یعنی ایک حد کے اندر مقید کر دیا ہے وہ اس سے باہر نہیں جا سکتی۔ پھیپھڑے صرف اس ہوا سے آکسیجن لے سکتے ہیں جو اِس زمین میں پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے جسم صرف اس پانی سے زندگی حاصل کر سکتے ہیں جو اس زمین میں پیدا کیا گیا ہے ہماری آنکھ صرف روشنی کی ان لہروں کو دیکھ سکتی ہے جو لہریں اس غرض کے لئے اس زمین میں بنائی گئی ہیں۔ ہمارے کان جن صوتی لہروں کے ساتھ Tune (ٹیون) کئے ہوئے یعنی ان کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صوتی لہریں ہیں اور اپنی بے شمار خصوصیات کے لحاظ سے محدود ہیں اور پھر ان کو ایک تنگ دائرہ میں لہروں کے ساتھ Tune (ٹیون) کر دیا۔ اب انسان نے بعض ایسی وِسلیں (Whistles) بنا لی ہیں کہ جن کی آواز شکاری کتا سن لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کا آدمی نہیں سن سکتا اور جس شکار کے پیچھے وہ گیا ہوتا ہے اس کو بھی وہ آواز سنائی نہیں دیتی صرف شکاری کتے کو وہ آواز سنائی دیتی ہے۔ یعنی ایسی لہر دریافت کر لی ہے جو صرف کتے کے کان سن سکتے ہیں۔ غرض ہر چیز کی حدبندی کر دی یہ حد بندی کا ایک الگ وسیع مضمون ہے لیکن میں اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی صفات اس رنگ میں جلوہ گر ہوئیں کہ انسانی قویٰ کا جو بھی تقاضا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو اس چیز میں مخلوق کر دیا۔ اب یہ مضمون ہے جو اس آیہ کریمہ خَلَقَ کُلَّ شَيْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا میں بیان ہوا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو بھی قوت پیدا کی اس کو محدود اور مقید کر دیا۔ زمین میں جو صفات باری تعالیٰ کے جلوے تھے ان کے ساتھ انسان کو باندھ دیا۔ کان کی شنوائی کو صوتی لہروں کے ایک خاص حصے سے جوڑ دیا یہی حال آنکھ کا ہے۔ یہی حال زبان کا ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جو انسان بڑے شوق سے کھاتا ہے لیکن جانوروں میں سے بعض جانور ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے آپ وہ چیز ڈال دیں تو وہ ناک چڑھا کر پرے ہٹ جاتے ہیں اس چیز کو منہ تک نہیں لگاتے یعنی جس چیز کو جانور منہ نہیں لگاتے اُسے انسان کے مناسب حال بنا دیا۔ اس سے انسان کو خود ہی سوچنا چاہئے تا کہ اس کے دل میں غرور اور تکبر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو عظمت بخشی ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان نے جس چیز کو دھتکار دیا جانوروں نے اس کو قبول کر لیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جن میں سے بعض کا مَیں نے اِس وقت ذکر کیا ہے۔ مثلاً ہوا ہے، پانی ہے، پھر پانی کی آگے مناسب تقسیم کا انتظام ہے، کھانے پینے کی متنوع اشیاء ہیں، متوازن غذائیں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ عجیب نظارہ ہے کہ کھانے کی مختلف چیزیں ایک جیسی زمین اور ایک جیسے پانی سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ پھر ہر ایک چیز میں توازن کے اصول کارفرما ہیں۔
غرض تم نے زبانِ حال سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا ہے زمین تمہارے مطالبات کو پورا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی صفات کے جلوے اس دنیا میں اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ تمہاری کوئی قوت بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اے میرے ربّ! میں نے تجھ سے یہ مانگا تھا اور تو نے وہ مجھے دیا نہیں۔ یہ التجا دوسری دعا کی طرح نہیں ہے جو کبھی تو قبول ہو جاتی ہے اور کبھی ردّ کر دی جاتی ہے۔ یہ تو دراصل انسان کی ہر قوت، ہر عضو اور ہر استعداد کا فطرتی تقاضا ہے جس کا اظہار وہ زبانِ حال سے کر رہی ہوتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ کسی قوت کے ضائع ہونے کا امکان باقی نہیں رہا۔ اگر انسان از خود حماقت، تکبر یا اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی راہ اختیار نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان کی ہر قوت اپنے نشوونما کے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔
غرض زمین یا الارض وہ ہے جس کے اندر انسان کو خداتعالیٰ کی صفات کے بعض مخصوص جلوؤں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔ اس کی آنکھ کو بھی، اس کے کان کو بھی، اس کی زبان کو بھی، اس کی ناک کو بھی، اس کے جسم کے گوشت کے مختلف حصوں کو بھی، اس کے جسم کی ہڈیوں کے مختلف حصوں کو بھی، اس کے جسم کے اعصاب کے مختلف حصوں کو بھی، انسانی دماغ اور اس کے مختلف حصوں کو بھی فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا کی رو سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص جلوؤں کے ساتھ محدود و مقید کر دیا ہے۔ پس یہ ہے وہ زمین یا الارض جس میں انسان کی ہر قوت، ہر قابلیت، ہر استعداد اللہ تعالیٰ کی صفات کے مختلف جلوؤں میں سے کسی نہ کسی جلوے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے یہ زمین ہے اور اس زمین کے بغیر تم کہیں بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ انسانی عقل بھی یہی کہتی ہے کیونکہ ہمارے پھیپھڑے اسی ہوا کے محتاج ہیں۔ ہمارا جسم اسی زمینی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر انسان کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں صوتی لہریں اُن لہروں سے مختلف ہوں جن کے لئے کان Tune (ٹیون) کئے گئے ہیں تو کوئی آواز سنائی ہی نہ دے خواہ دنیا میں ایک ہنگامہ محشر ہی کیوں نہ بپا ہو لیکن انسان سمجھ رہا ہو کہ بالکل سکون ہے۔ بے شک یہ فضا زندگی سے لبریز کیوں نہ ہو مگر انسان اس میں کوئی ہل چل ہی محسوس نہ کرے۔ اسی طرح آنکھیں ہیں اگر یہ روشنی نہ ہو دوسری قسم کی روشنی ہو تو اس میں انسان تو اندھے کا اندھا رہے حالانکہ خدا کی مخلوق روشنی میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے، خوشی سے اپنی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ مگر اس کو کچھ نظر ہی نہ آئے۔ ٹٹولتا پھر رہا ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کا وہ جلوہ جس کے ساتھ انسانی آنکھ کو باندھ دیا گیا تھا وہ جلوہ وہاں نہیں ہوتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں نے یہ حد بندی کی ہے۔ تم اس حد بندی سے باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ یہ میری تقدیر ہے میں نے اپنی تقدیر کو چلایا ہے اور ہر ایک چیز کو ایک اندازے کے مطابق بنایا ہے تم میری اس تقدیر کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتے۔ پس اگر زمین کی یہ تعریف ہو کہ زمین اللہ تعالیٰ کی صفات کے مخصوص مجموعہ کا نام ہے یا آثار الصفات کے ایک مخصوص مجموعہ کا نام ہے جس کے ساتھ انسانی طاقتیں، قوتیں اور استعدادیں بندھی ہوئی ہیں اور جن کی پیدائش انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور جن کے علاوہ کوئی اَور چیز اس کیلئے فائدہ مند نہیں بن سکتی کیونکہ جو کچھ پیدا کیا گیا ہے وہاں اُسے وَاٰتٰـکُمْ مِّنْ کُلِّ مَاسَاَلْتُمُوْہُ کی رو سے عطا کیا گیا اور ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت تھی وہ اس زمین میں پیدا کر دی گئی۔ اگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ان مخصوص جلوؤں سے ملتے جلتے جلوے اس عالم کے کسی اور حصے میں بھی نظر آنے لگیں پھر تو وہ یہی زمین الارض ہوئی اس میں انسان زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ لیکن اس الارض کو جن معنوں میں قرآن کریم نے استعمال کیا ہے اِن معنوں کی رو سے اِس قسم کی زمین سے باہر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔
فِیْھَا تَحْیَوْنَ کی صداقت اٹل ہے انسانی زندگی کا مدار صفاتِ باری کے اسی زمینی جلوؤں کے ساتھ وابستہ ہے کیونکہ اس ارض کے باہر یہ زمینی جلوے مفقود ہیں اس لئے اس الارض سے باہر زندہ رہنا محال ہے۔ ہم ایک لحظہ کیلئے یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انسان کبھی ایسی دریافت یا اس قسم کی ایجاد کر لے گا جس سے قرآن کریم کی تعلیم یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو تفسیر فرمائی ہے اس پر اعتراض کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ہمارا مذہب اسلام بڑا پیارا مذہب ہے۔ ہماری کتاب قرآن کریم بڑی ہی عظیم اور حکمتوں سے پُر کتاب ہے۔ دلائل دے کر سمجھاتی ہے ہر چیز کو اس نے کتابِ مبین ہونے کی حیثیت میں کھول کر رکھ دیا ہے اور اس کے کتابِ مکنون ہونے کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ خود اپنے بندوں کو معلّم بناتا ہے۔ ان کواس کی حکمتیں سکھاتا اور اس کتابِ عظیم کے مخفی رازوں کو ان پر کھولتا ہے۔ دنیا میں کوئی ماں ایسا بچہ نہیں جنے گی جو قرآن کریم پر صحیح اور جائز اعتراض کر سکے کیونکہ جب بھی کوئی اعتراض پیدا ہوگا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے اُمت مسلمہ میں اپنا ایک ایسا بندہ پیدا کر دے گا جس کا خود وہ معلم بنے گا جس کو خود وہ اعتراض کا جواب سکھائے گا۔
پس فِیْھَا تَحْیَوْنَ میں قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی زندگی اور بقاء اسی اَ لْاَرْض تک محدود ہے۔ یعنی آثارِ صفاتِ باری کے مخصوص جلوؤں ہی میں وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ انسان اس اَ لْاَرْض کے ان جلوؤں سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ زندہ رہنے کا تصور ہی کر سکتا ہے۔ ہم چاند پر چند گھنٹے کے لئے اُترے نہ اپنے لباس سے باہر آنے کی جرأت کی۔ نہ اپنے کھانے کو چھوڑ کر کوئی اَور کھانے کا خیال آیا۔ نہ وہاں کوئی ہوا تھی جس میں سانس لے سکتے۔ پس جس کرہ پر ایک سانس بھی نہیں لیا قدم رکھ کر واپس آ گئے اس سے قرآن کریم کی ابدی صداقتوں پر تو کوئی حرف نہیں آتا بے شک یہ ایک کارنامہ ہے اور بہت بڑا کارنامہ ہے اس کو معمولی سمجھنا غلطی ہے لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ شان نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کتنی ذہنی اور دماغی قوت عطا کی ہے کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو صحیح رنگ میں استعمال کر کے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ لیکن اس پر ہم کو غرور کیوں؟ قانونِ قدرت کے مطابق وہاں گئے اور وہاں یہ بھی نہیں کیا اور نہ کر سکتے ہیں کہ (اس زمین سے باہر یعنی اس قسم کی ہوا کے بغیر) سانس لے سکیں کیونکہ کسی جگہ بھی بعینہٖ ایک قسم کے جلوے ظاہر نہیں ہوتے۔ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَانٍ
اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہیں کہ کوئی دو وجود یعنی مخلوقات کے کوئی دو فرد برابر نہیں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا کوئی جلوہ دہرایا نہیں جاتا البتہ صفاتِ باری تعالیٰ کے جلوے آپس میں ملتے جلتے ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں۔ پس اگر کسی وقت انسان ایسے کرّہ میں پہنچ جائے جہاں خدا تعالیٰ کے آثار الصفات کے جلوؤں کا وہ مخصوص مجموعہ اس زمین کے مخصوص مجموعے سے ملتا جلتا ہو یعنی ہوا ہو لیکن ممکن ہے آکسیجن میں کمی ہو۔ کان کے لئے جو صوتی لہریں Tune (ٹیون) ہوئی ہیں ان کا دائرہ تنگ ہو یا Overlap (اُورلیپ) کر رہا ہو یعنی کچھ آوازیں اس کی ہم سن سکیں اور کچھ نہ سن سکیں لیکن بہرحال کام تووہ کچھ نہ کچھ کرے گا یا آنکھوں کی روشنی اور زبان کی لذت یا وہاں جو ادویہ ہیں وہ ملتی جلتی ہوں۔ یوں ویسے ہم نے یہاں کب Perfect (صحیح) دوائیاں بنا لی ہیں۔ ابھی تو ملتی جلتی کو اکٹھا کرنے میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اسی حالت میں انسان زندہ رہ سکے گا کیونکہ وہ اس زمین سے ملتی جلتی زندگی ہوگی۔ اَلْاَرْضِ کا مفہوم اس پر بھی حاوی ہو سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی غیر محدود صفات کا تقاضا یہ ہے کہ جلوے Repeat (دہرائے) نہ جائیں۔ جب سے انسان نے آم کھانے شروع کئے ہیں بے شمار آم پیدا ہوئے لیکن ہر آم کا درخت بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور ہر آم کا پھل بھی اپنی انفرادیت کا حامل ہے۔ حساس دل و دماغ سے بہت ساری ایسی اصطلاحیں نکلتی ہیں جن کو ایک عام آدمی استعمال نہیں کر سکتا اور کسی چیز کے متعلق علم کا نہ ہونا عدمِ شئی پر دلالت نہیں کرتا۔ یعنی جس چیز کا ہمیں ابھی تک علم نہ ہو اس سے یہ نتیجہ نکالنا بڑی ہی نامعقول بات ہے کہ اس چیز کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
بہرحال خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کی رو سے الارض ایک مخصوص مجموعہ آثارِ صفات کا نام ہے۔ اس مخصوص مجموعہ سے دامن چھڑا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان جلوؤں سے جن کے ساتھ انسان کی مختلف قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا کے مطابق باندھی گئی ہیں ان سے الگ تھلگ رہ کر انسان زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی الارض پر خداتعالیٰ کے انہی جلوؤں پر ہے۔ آج ہم تمام سائنس دانوں کو بڑے دھڑلے سے یہ چیلنج دیتے ہیں کہ تم ان زمینی خصوصیات اور ان ارضی لوازمات کے بغیر کسی دوسرے کرّہ پر رہ کر تو دکھاؤ تم توانسان کا ایک ایسا پھیپھڑا تک نہیں بنا سکتے جو اس زمینی ہوا کا محتاج نہ ہو۔ تم تو ایسا انتظام بھی نہیں کر سکتے کہ پانی کے بغیر انسانی زندگی ممکن ہو۔ تم تو ایک ایسا نظام بھی نہیں چلا سکتے کہ جس سے متوازن غذا کے بغیر انسانی صحت کا قائم رکھنا ممکن ہو۔ صحت کے ساتھ ہی بقاء بھی آ جاتی ہے بعض دفعہ لمبی بیماری نوعمری کی موت پر منتج ہوتی ہیں۔ صحت کا عمر کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی صفات کے انہی جلوؤں پر ہے جنہیں زمین اپنے اندر سمیٹے ہے اور قانونِ قدرت کی صورت میں ہمیں نظر آتے ہیں۔
اس زمینی حدود سے باہر ان ارضی صفات سے بے نیاز ہو کر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ خلاصۃً آپ یاد رکھیں اور اطمینان پائیں کہ فِیْھَا تَحْیَوْنَ ایک زندہ صداقت ہے یہ اپنی ذات میں بالکل صحیح ہے لیکن آپ کے لئے اس تشریح کو مدّنظر رکھنا ہوگا جو ابھی میں نے زمین کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں بیان کی ہے ورنہ اس تشریح کے بغیر اگر آپ کسی سے بات کریں گے تو وہ آپ کو پاگل سمجھے گا۔ اب اس مضمون سے متعلق دو سوال یا دو حصے باقی رہ گئے ہیں یعنی فِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تُخْرَجُوْنَ کی تشریح رہ گئی ہے۔ وقت زیادہ ہو گیا ہے تین بجے تک کا میرا وعدہ تھا سو اب تین بج گئے ہیں یہ دو حصے انشاء اللہ کسی اگلے خطبہ میں آ جائیں گے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ سالانہ نمبر ۱۹۶۹ء صفحہ۱۳تا۲۲)
٭…٭…٭

سورۂ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں ہر احمدی کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا زبانی یاد ہونی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام احمدیہ ہال۔ کراچی)
ء ء ء
٭ اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی ترقیات کے لامحدود دروازے کھولے۔
٭ مومن جس طرح دن کو بیدار ہوتا ہے اسی طرح شب بیدار بھی ہوتا ہے۔
٭ مومن کو منافق دھوکا نہیں دے سکتا۔
٭ منافق مصلح کے لباس میں لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔
٭ منافق لوگ اپنے آپ کو بڑا عقلمندر اور ہوشیار سمجھتے ہیں۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورۂ بقرہ کی یہ ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں:۔
الٓمّٓoَ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَصلے فِیْہِج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَoلا الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَoلا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ق وَاُوْلٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَo خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْط وَعَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَo یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلاَّ اَنْفُسَھُمْ وَمَایَشْعُرُوْنَoط فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ م بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَo وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَاتُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِلا قَالُوْٓا اِنَّمَانَحْنُ مُصْلِحُوْنَo اَلآَ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰـکِنْ لاَّیَشْعُرُوْنَo وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ ط اَلَآاِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰـکِنْ لاَّیَعْلَمُوْنَo وَاِذَا لَقُوْالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا قَالُوْٓا اِنَّامَعَکُمْ لا اِنَّمَانَحْنُ مُسْتَھْزِئُ وْنَo اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰـلَۃَ بِالْھُدٰی ص فَمَارَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَاکَانُوْا مُھْتَدِیْنَo (البقرہ:۱ تا ۱۷)
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
اس وقت پہلے تو میں اس رنج و الم کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ کل ہمارے عزیز بھائی میجر عزیز احمد صاحب حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اچانک وفات پاگئے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ مرحوم بڑے مخلص اور دعا گو انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر میں انہیں لپیٹے رکھے۔ میں نمازوں کے بعد مرحوم کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا دوست اس میں شریک ہوں اور ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں۔ دوسرے دو ایک روز میں انشاء اللہ واپسی ہے۔ دل جانے کے خیال سے اُداس بھی ہے اور ربوہ پہنچنے کے لئے بے چین بھی۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سفر و حضر میں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ آپ دوستوں کو بھی اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے اور جس طرح میں اس وقت تک تمام احباب کیلئے باقاعدگی کے ساتھ دعا کرتے رہنے کی توفیق پاتا رہا ہوں آئندہ بھی مجھے آپ کے لئے اسی کے فضل سے دعائیں کرنے کی توفیق ملتی رہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل سے ان دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب مردوں اور عورتوں کو مجسم دعا بنا دے اور آپ سبھی مجسم دعا کی حیثیت میں اس کے قدموں میں جھکے رہیں اور ہمیشہ ہی وہ آپ کو پیار سے اُٹھا کر اپنی گود میں بٹھاتا رہے اور آپ اس کے فضلوں سے ہمیشہ ہمکنار رہیں۔ دراصل یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے مقام عجز و عبودیت کو پہنچانتے رہیں۔
پہلے تو میرا خیال تھا کہ اسلامی اقتصادیات پر جو سلسلہ مضمون شروع کر رکھا ہے (جس پر میں بہت سے خطبات دے چکا ہوں جن میں سے چھ سات خطبات چھپ چکے ہیں اور کچھ چھپنے والے باقی بھی رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ مضمون بھی ختم نہیں ہوا) اس تسلسل میں جو اصل مضمون ہے اسے پیچھے ڈال دوں اور سارے مضمون کو خلاصے کے طور پر ایک خطبہ میں بیان کر دوں۔ جب اصل مضمون بھی بیان ہو جائے گا تو یہ سارے خطبات ترتیب وار شائع ہوجائیں گے لیکن پھر مجھے خیال پیدا ہوا کہ یہ ترتیب بدلنی مناسب نہیں۔ اس لئے آج میں ایک تربیتی امر کے سلسلہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہئے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ مستحضر بھی رہنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر اسّی صفحات کا ایک رسالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تفاسیر کے متعلقہ اقتباسات پر مشتمل ہوگا شائع بھی کر دیں گے۔ مجھے آپ کی سعادت مندی اور جذبۂ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن اللہ تعالیٰ آپ پر نازل کر رہاہے امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کریں گے۔ مرد بھی یاد کریں گے عورتیں بھی یاد کریں گی۔ چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو اَزبر کر لیں گے پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مضمون بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم افضل الرسل ہیں۔ آپؐ انسان کامل ہیں۔ آپؐ پر کامل شریعت نازل ہوئی آپؐ خاتم النبیین کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ آپ ؐنے اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو جلوہ اپنے وجود میں دکھایا اس کے نتیجہ میں یہ دنیا تین گروہوں میں بٹ جائے گی ایک گروہ وہ ہے جو ایمان لائے گا۔ فرمایا ان کی بنیادی خصوصیات یہ ہوں گی کہ وہ اپنی تمام جسمانی اور ذہنی قوتوں اور صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دیں گے۔ اپنی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو انوار الٰہیہ سے منور بنا کر اس سے ساری دنیا کو مستفید کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے اور ان کی تیسری بنیادی خصوصیت یہ بتائی کہ اس دنیا میں آئندہ ظہور پذیر ہونے والے واقعات پر مشتمل جو پیش خبریاں دی گئی ہیں اور بشارتیں دی گئی ہیں۔ وہ ان پر اس طرح ایمان لاتے ہیں گویا کہ یہ باتیں پوری ہو چکی ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات، اس کی قوتوں اور اس کی طاقتوں پر یقین ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ ہو چکی ہو اور اگر اس کے راستہ میں کوئی روک پیدا ہو تو وہ اس روک کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی قربانی سے گریز نہیں کرتے۔ ان کو یہ پتہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے ضرور ہو کر رہے گی۔ اگر کوئی روک پیدا ہوئی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ہماری کوئی آزمائش مقصود ہے لہٰذا ہمیں اس آزمائش میں پورا اُترنا چاہئے تا کہ ہمیں ثواب اور اجر کے زیادہ مواقع عطا ہوں۔ وہ اس یقین پر بھی قائم ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جسمانی اور روحانی ترقیات کے لامحدود دروازے کھول رکھے ہیں اور ان کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے ہوئے کسی ایک مقام پر جا کر رک نہیں جاتے یا اسی کو کافی سمجھ کر وہیں بیٹھ نہیں جاتے بلکہ ان کی زندگی غیرمحدود ترقیات کے حصول میں ایک غیر محدود جدوجہد میں رواں دواں رہتی ہے۔ غرض سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس ہدایت یافتہ گروہ کی بنیادی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دوسرا گروہ منکرین اسلام کا گروہ ہے اور ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صداقت حقّہ کے قبول کرنے اور دلی بشاشت کے ساتھ قربانیاں دینے کی جو قابلیتیں اور قوتیں عطا کی تھیں یہ ان کو کھو بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں روحانی اثر کے قبول کرنے کی صلاحیت بخشی تھی جس سے یہ بہت کچھ سیکھ سکتے تھے لیکن ان کے دل پتھر ہو گئے اور اپنی فطرتی حالت میں نہیں رہے جو رقت کی اور رجوع کی اور توبہ کی اور عاجزی کی حالت ہے اور چونکہ ان کے دل پتھر ہونے کی وجہ سے اپنی فطری حالت پر نہیں رہے اس لئے فطرتی دینی اعمال بجا لانے کے قابل نہیں رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دل کی بہت سی دوسری امراض بتائیں اور ان کے علاج بھی بتائے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اندر ایک چیز یہ بھی نظر آتی ہے کہ ہم نے انہیں سننے کیلئے کان دیئے تھے اور سماع سے ہماری مراد یہ تھی کہ جب صوتی لہریں ہوا کے دوش پر ان کے کانوں تک پہنچیں تو پھر آگے ان کے اثرات ذہن پر پڑیں جس سے دل بھی متاثر ہوں کیونکہ قبول ہدایت کا ایک بڑا ذریعہ دل ہی ہے۔ انسان جب نیکی کی باتیں غور سے سنتا ہے تو اس کا ذہن تدبر سے کام لیتے ہوئے ان کے اثرات کو دل کی طرف منتقل کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں دل کے اندر ایک ایسا انقلاب اور ایک ایسا تغیر رونما ہوتا ہے کہ انسان قبولِ ہدایت کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ کوئی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہی نہیں صوتی لہریں ان کے کانوں سے ٹکراتی اور واپس ہو جاتی ہیں یا ایک کان میں گھستی ہیں اور دوسرے کان سے نکل جاتی ہیں۔ پھر ان کو آنکھیں اس لئے دی تھیں کہ وہ اس دنیا میں خدائے حَیُّ و قَیَّومْ کے قادرانہ تصرفات کا مشاہدہ کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے۔ تاریخ عالم پر نگاہ ڈالتے، مختلف آسمانی کتابوں کو غور سے پڑھتے اور پھر فکر و تدبر سے کام لیتے تو انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جب سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ یہ سلوک رہا ہے کہ جب بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہی اس کی طرف سے نازل ہونے والی ہدایت کو قبول کیا اس کی بارگاہ پر جھک گئے اور اس کی راہ میں قربانیوں سے دریغ نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کس طرح اپنے انعامات نازل کئے اور انہیں کس طرح اپنے فضلوں کا وارث بنایا۔ مگر جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی اس آواز پر کان نہ دھرے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو ٹھکرا دیا اور اس کی قدر نہ کی وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب کے بھنور میں پھنس کر ہلاکت سے دوچار ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان منکرین اسلام کی تو یہ حالت ہے کہ گویا ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ فطرتی لحاظ سے ان کی آنکھوں پر کوئی غلاف نہیں تھا۔ یہ تو انہوں نے خود اپنی آنکھوں پر چڑھا لیا ہے۔ ان کی اس حالت گھوڑے یا گدھے کی مانند ہے جس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ چلتے وقت کسی چیز کے خوف سے ڈر نہ جائے۔ پس انہوں نے بھی اس خوف سے کہ کہیں روحانیت کی کوئی جھلک ان کی آنکھوں میں نہ پڑ جائے (جو دنیوی عارضی مسرتوں سے ان کو دُور لے جائے) اپنی آنکھوں پر غلاف چڑھا لئے ہیں جس کی وجہ سے یہ حسن و احسان کے روحانی جلوے دیکھنے سے قاصر ہیں۔
بہرحال سورۂ بقرہ کی ان ابتدائی سترہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے منکرین کا ذکر کر کے ان کی جسمانی کیفیات اور ان کے روحانی امراض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے سامان عبرت مہیا فرمایا۔ پھر ان کو جھنجھوڑ کر یہ انتباہ فرمایا کہ اگر تمہاری حالت یہی رہی تو تم حق کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے۔ تم قبول حق کی توفیق صرف اسی صورت میں پا سکتے ہو کہ تمہاری روحانی اور اخلاقی کیفیت یہ نہ ہو کہ ہمارے اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈرانا یا نہ ڈرانا تمہارے لئے برابر ہو۔ چاہئے کہ اس کا ڈرانا تمہارے دلوں پر اثر انداز ہو۔ جب تک تمہارے اندر یہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی جب تک وہ مہریں جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے قلوب اور اپنے کانوں پر لگا لی ہیں ان کو تم توڑ نہ دو اور ہم نے آسمانی موثرات کو قبول کر لینے کیلئے تمہارے دل میں جو کھڑکیاں بنا رکھی ہیں۔ ان کو تم کھول نہ دو جب تک تم ان غلافوں اور ان پردوں کو جنہیں تم نے اپنی آنکھوں پر ڈال لیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے نور کے جلوؤں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے خود ہی تم نے اپنی آنکھوں پر پٹی کے طور پر باندھ رکھے ہیں تم ان کو ہٹا نہ دو، اس وقت تک تمہاری یہ حالت مبدل بہ اسلام نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کی توجہ کو تم حاصل نہیں کر سکتے۔ تم جب تک اپنی یہ حالت نہیں بدلتے خدا تعالیٰ سے دُور و مہجور رہو گے۔ دنیا کی جھوٹی اور عارضی لذت سے تم لطف اندوز تو ہو سکتے ہو لیکن اگر تمہاری یہی حالت رہے تو تم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کی حقیقی اور سچی لذت اور ابدی سرور کو کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ پس جب تک منکرین دین کی حالت نہیں بدلتی۔ اس وقت تک قرآن کریم کی تعلیم یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
ایک اَور گروہ بھی دنیا میں پیدا ہوگا اور یہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لائے لیکن درحقیقت وہ ایمان نہیں لاتے۔ ان کا یہ دعویٰ ٔایمان سراسر جھوٹا ہوتا ہے۔ پہلے دو گروہوں کا ذکر نسبتاً مختصر الفاظ میں فرمایا کیونکہ اس متن اور مضمون میں ان دو گروہوں کے بارے میں زیادہ کہنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں تھی کہ ان دونوں گروہوں کی خصوصیات اور کیفیات ظاہر و باہر ہوتی ہیں مگر جس گروہ کا ذکر وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے اس کے متعلق نسبتاً زیادہ باتیں بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ گروہ مارِ آستین بن کر اندر ہی اندر جماعت کے اجتماعی جسم کو ڈستا رہتا ہے۔ منکرینِ اسلام ظاہری طور پر باہر سے علی الاعلان حملہ آور ہوتا ہے اور مومن بندے اپنے اپنے اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس کے سامنے سینہ سپر رہتے ہیں وہ ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اس کے شب خون سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ایک مومن جس طرح دن کو بیدار اور باخبر رہتا ہے اسی طرح وہ شب بیدار بھی ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ رات کو سو جاتے ہیں دشمن ان پر تو شب خون مارتا اور بے خبری میں ان کو شدید نقصان پہنچاتا ہے لیکن وہ جو دن کو بھی ہوشیار ہو اور جو راتیں بھی خداتعالیٰ کی حمد اور اس کی ثناء کرتے ہوئے گزارتا ہو شیطان اس پر شب خون مارنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس لئے منکرین اسلام کی بعض بنیادی باتوں کے اظہار پر اکتفا فرماتے ہوئے یہ سبق دیا کہ منکرین کی بیماریوں کی تشخیص کو میں نے آسان کر دیا ہے۔ اس لئے میری ان ہدایتوں کی روشنی میں اپنی دلی ہمدردی اور غم خواری سے ان کے علاج میں کوشاں رہنا تمہارا فرض ہے لیکن یہ جو تیسرا گروہ ہے یہ ایک مومن کے لباس میں مگر ایک فتنہ گر کی حیثیت میں اُمت مسلمہ میں داخل ہوتا ہے اور اندر ہی اندر مفسدانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے اس لئے اس بات کی زیادہ ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ اس گروہ کی بُرائیوں اور بدخصلتوں کے متعلق زیادہ تفصیل سے بیان فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اس گروہ کے متعلق ان چند آیات میں بیان فرمائی ہیں وہ بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مومنوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ مجھے پہلے بھی کئی بار یہ خیال آیا ہے ابھی جب میں یہاں آ رہا تھا تو مجھے پھر یہ خیال آیا کہ ہمارے ربّ نے کس پیار اور کس اعتماد کے ساتھ ہمارا ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے کہ جس طرح یہ لوگ مجھے دھوکا نہیں دے سکتے کیونکہ میں عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ہوں، میرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، مجھ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں، مجھ پر کبھی غفلت طاری نہیں ہوتی غرض اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی صفات کی مالک ہے کہ اسے کوئی دھوکا نہیں دے سکتا کیونکہ اس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ لَارَیْبَ یہ خداتعالیٰ کی بلند شان ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ اسی طرح میرے مومن بندوں پر بھی منافقت کی کوئی چال کارگر نہیں ہو سکتی۔ منافق انہیں بھی کوئی دھوکا نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندے کو کتنا بڑا مقام عطا کیا ہے کہ اس کو بھی اپنے ساتھ Bracket (بریکٹ) اس بات میں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کو منافق دھوکا نہیں دے سکتے، یہاں منافق کے دھوکے سے بچنے میں اللہ تعالیٰ نے مومن بندے کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ یہ درحقیقت بڑے ہی پیار اور اعتماد کا اظہار ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہم پر بڑی بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ بالواسطہ طور پر اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس کے مومن بندے بھی اس کی طرح ہر وقت چوکس اور بیدار رہیں اور اپنے دائرہ عمل میں ہر چیز کا علم حاصل کریں۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوئی چیز ان سے پوشیدہ نہ رہے۔ اب مثلاً میرا علم جو ہے اس کا ایک حصہ ایک لحاظ سے دراصل آپ کا ہی علم ہے کیونکہ مجھے کراچی کی بیدار اور چوکس جماعت بھی اطلاع بھجوا رہی ہے، مجھے راولپنڈی کی بیدار اور چوکس جماعت بھی اطلاع بھجوا رہی ہے، مجھے پشاور کی بیدار اور ہوشیار جماعت بھی اطلاع دے رہی ہے غرض ہر جگہ سے جہاں بھی ہماری جماعت قائم ہے وہاں سے مجھے اطلاع مل رہی ہے اور چونکہ میرا اور آپ کا وجود ایک ہی ہے۔ اللہ کے فضل سے آپ میری آنکھیں ہیں جن کے ذریعہ سے میں دیکھتا اور علم حاصل کرتا ہوں آپ میرے کان ہیں جن کے ذریعہ سے میں سنتا اور حالات کی روش کو محسوس کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ کی فراست اور میری فراست دراصل ایک ہی تصویر کے دو رُخ یا ایک ہی پیالے کے مختلف اطراف ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح مجھے کوئی منافق دھوکا نہیں دے سکتا اس طرح میرے مومن بندے کی بھی یہی شان ہے اسے بھی کوئی منافق دھوکا نہیں دے سکتا۔ بڑے ہی پیار کا اظہار ہے لیکن ساتھ ہی بڑا بے چین اور پریشان کر دینے والا بیان بھی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہونی چاہئے کہ یہاں جس اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ہم اس اعتماد پر پورا اُترنے والے ثابت ہوں۔
فرمایا ان منافقوں کی دوسری علامت یہ ہے کہ ان کے دل میں مرض پیدا ہوچکا ہے اور یہ خود اپنے علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس لئے خداتعالیٰ کی صفات کا جو عام جلوہ ہے کہ جیسا کوئی بندہ ہوتا ہے اسی کے مطابق اس سے اس کا سلوک بھی ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض گھٹتا نہیں بلکہ فطرتی تقاضوں کی غلط روش سے ان کا مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم نے امراض قلوب پر متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے۔ دل کی ایک مرض نہیں ہوتی بلکہ متعدد امراض ہیں جس طرح جسم کی بھی ایک مرض نہیں انسان مختلف قسم کی غلطیاں کرتا رہتا ہے۔ صبح ایک قسم کی غلطی کر بیٹھتا ہے اور شام کو دوسری قسم کی غلطی کا مرتکب بن جاتا ہے ہر مرض کا تعلق انسان کے کسی نہ کسی غلط اقدام سے ہے انسان کی کسی نہ کسی غلط روش کے نتیجہ میںمرض لاحق ہوتی ہے اور ان آیات میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
اِذَا مَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِ (الشعراء:۸۱) ہر مرض بے اعتدالی اور غلط اقدام کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ تب وہ جسے اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور عطا کیا ہوتا ہے وہ اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر رجوع برحمت ہوتا اور اس سے پیار کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی شفاء کے جلوے اپنی زندگی اور اپنے ماحول میں مشاہدہ کرتا ہے۔ دل کا یہ بدقسمت مریض جس کی حالت واقعی قابل رحم ہوتی ہے کیونکہ وہ متعدد بار غلطیاں کر بیٹھتا ہے کئی بار شوخیاں دکھاتا ہے اور اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کو دھوکا دینے کے لئے سینکڑوں راہیں اختیار کرتا ہے۔ پس جس طرح جسمانی امراض بہت سی ہیں اسی طرح قلب کی روحانی امراض بھی بہت سی ہیں ان میں سے بعض بنیادی امراض پر قرآن کریم نے روشنی ڈالی ہے اور ان کا علاج بتایا ہے۔ ہومیوپیتھی نے ہمیں یہ اصول بتایا ہے کہ انسان کو بعض دفعہ سر سے پاؤں تک بیسیوں امراض لاحق نظر آتی ہیں۔ مرض ایک ہی ہوتی ہے باقی دراصل اس مرض کے نتائج ہوتے ہیں۔ اگر اس ایک بیماری کو دُور کر دو تو اس مرض کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دوسرے عوارض خود بخود ختم ہو جائیں گے اسی طرح وہ بنیادی مرض جو ایک منافق یا کمزور ایمان والے کے دل میں پیدا ہو سکتا تھا اس کا قرآن کریم نے تفصیل سے ذکر کر دیا باقی امراض کا ذکر چھوڑ دیا کیونکہ اگر یہ مرض دور ہو جائے تو دوسری متعلقہ امراض خود بخود دور ہو جائیں گی۔
بہرحال منافق کی دوسری علامت یہ بتائی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کو تو دھوکا دینا چاہتا ہے مگر اس کا اپنا یہ حال ہے کہ ہر قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ منافقت نے اس کے درختِ وجود کو پراگندہ کر کے رکھ دیا ہے اس کا جسم ایک آتشک زدہ کے جسم کے مشابہ ہے۔ جس طرح آتشک وغیرہ کے مریض کے اعضاء گلنے سڑنے لگ جاتے ہیں اس صورت میں وہ انسانی جسم کہلانے کا مستحق نہیں رہتا بلکہ عفونت اور گندگی کے ایک لوتھڑے کا مصداق بن جاتا ہے اسی طرح منافق بھی روحانی طور پر گندگی اور ناپاکیزگی اور عدمِ طہارت کی وجہ سے ایک لوتھڑا ہی ہوتا ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا حالانکہ وہ انسان کے زمرہ میں شامل ہے اور انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے لامحدود روحانی ترقیات کے لئے پیدا کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کی تیسری بیماری یا کمزوری یہ بتائی ہے کہ یہ اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں یعنی یا تو اپنی جہالت کے نتیجہ میں خود ہی مصلح بنے پھرتے ہیں اور یا پھر شرارت کی نیت سے ایک مصلح کا روپ دھار لیتے ہیں۔ بہرحال وہ ایک مصلح کے لباس میں اُمت مسلمہ میں گھسے رہتے ہیں اور اسے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دینے کے لئے منافقانہ کارروائیوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔ چنانچہ ہماری تاریخ میں اس قسم کی منافقانہ سرگرمیوں کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ بیسیوں مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بعض یہودی مسلمان علماء کی شکل میں مسلم معاشرہ کے جزو بن کر تباہی و بربادی پھیلاتے رہے۔ سپین میں مسلمانوں کی صدیوں تک حکومت رہی اور ایک وقت تک ان کے رعب اور ان کے علم و فضل اور ان کے اخلاق فاضلہ نے سارے یورپ پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی۔ بڑے بڑے مشہور پادریوں نے سپین میں آ کر مسلمانوں سے علوم و فنون سیکھے۔ اگرچہ ظاہری طور پر یا سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کا اقتدار سپین کے خطہ ہی پر تھا لیکن حقیقت میں ان کی حکومت سارے یورپ کے ذہن پر اور سارے یورپ کے دل پر تھی لیکن بعض یہودی مسلمانان اُندلس کی صفوں میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کی عبرتناک تباہی کا باعث بنے۔ شروع میں اُنہوں نے مسلمانوں سے کتابی علوم سیکھے کیونکہ اسلامی علوم سیکھنے کے لئے ایمان لانے کی شرط نہیں ہے۔ اب عام آدمی بھی مسلمان ہوئے بغیر اپنے ذہن اور حافظہ کی مدد سے اسلامی علوم کے ظاہری حصہ پر حاوی ہو سکتا ہے البتہ کتابِ مکنون والے حصے میں جا کر حقیقی نیک اور ظاہری نیک میں عقل و فکر اور غور تدبر کرنے والے فرق کر لیتے ہیں۔ بہرحال یہ لوگ دشمنی کی نیت سے اسلام میں داخل ہوئے ظاہری علوم سیکھ کر ’’حضرت مولانا‘‘ بن بیٹھے اور پھر اندر ہی اندر وہ فتنہ بپا کیا کہ چشم فلک نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھا ہو۔ مگر ایمان رکھنے والے اللہ تعالیٰ سے محبت کادم بھرنے والے مسلمانوں نے اُس وقت اپنی اس عظیم ذمہ داری کو فراموش کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے اعتماد سے فرمایا تھا کہ مجھے اور میرے مومن بندوں کو یہ منافق دھوکا نہیں دے سکتے۔ مگر مسلمانان اُندلس نے ایسے منافقوں کے فتنوں سے بچنے کیلئے ہوشیاری اور بیدار مغزی کا ثبوت نہ دیا۔دراصل ایک منافق کا ایک بہت بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان بن کر ایک آدمی کے پاس چلا جاتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ دیکھو آپ اتنے نیک اور بزرگ اور یہ اور وہ ہیں اور خلیفہ وقت کتنا ظالم ہے کہ اس نے پبلک میں آپ کو جھاڑ دیا حالانکہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑی عقل دی ہے آپ بڑے بزرگ ہیں۔ اگر وہ آدمی بدبخت ہے تو وہ اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے لیکن اگر اس آدمی پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے تو وہ آگے سے اسے جواب دیتا ہے کہ تم غلطی سے میرے دروازے پر آ گئے ہو تمہیں کسی اور طرف جانا چاہئے تھا۔ مجھے تو یہ پتہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کو کبھی نہ نیند آتی ہے اور نہ کبھی اُونگھ اور نہ ہی کبھی اس پر غفلت طاری ہوتی ہے میں بھی ظلّی طور پر خداتعالیٰ کی اُن صفات سے متصف ہونے کی حیثیت میں ہوشیار اور بیدار ہوں تم میرے پاس کیا لینے آگئے ہو ہماری جماعت میں ایسے دس بیس، سَو دو سَو واقعات سال میں رونما ہو ہی جاتے ہیں مجھے اطلاع ملتی رہتی ہے لکھا ہوتا ہے کہ میرے پاس منافق آیا تھا اور میں نے اسے یہ جواب دیا ہے۔
لیکن جن پر غفلت طاری ہوتی ہے یا جن کی حالت ایمان اور نفاق کے درمیان ہوتی ہے دل اور دماغ اور روح میں کچھ روحانی کمزوری ہوتی ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے منافق نہیں قرار دیا بلکہ فرمایا ہے کہ یہ کمزوریِ ایمان رکھنے والے ہیں دل کی ساری امراض کو نفاق نہیں کہا اگرچہ یہ امراض نفاق کا حصہ ضرور ہیں لیکن ان کو کلیۃً نفاق بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر کسی کے دل میں ایک فیصدی نفاق ہے تو وہ منافق نہ ہوا مگر اس کی حالت خطرہ سے باہر بھی نہیں ہوتی ایسے شخص کی اصلاح اور تربیت آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
پس منافق مصلح کے لباس میں دوست اور ہمدرد کی حیثیت سے لوگوں کے پاس جاتے اور ان کے ایمان کے اندر رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رخنہ ابتداء میں سُوئی کے ناکے کے برابر ہوتا ہے بظاہر بالکل معمولی سا نظر آتا ہے لیکن اندر سے گند کا ایک لوتھڑا بن جاتا ہے مثلاً آج کل سیب کا پھل عام ہے آپ نے دیکھا ہوگا بعض کیڑے سیب پر حملہ آور ہوتے ہیں آپ ایک سیب اُٹھائیں اس پر سُوئی کے ناکے کے برابر داغ نظر آئے گا اور جب اسے کھولیں گے تو دیکھیں گے کہ اندر موٹی موٹی سونڈیاں پھر رہی ہوں گی حالانکہ اس سیب پر بظاہر سُوئی کے ناکے سے زیادہ سوراخ نظر نہیں آئے گا۔
ضمناً میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کیونکہ سیب کی بات چل نکلی ہے اور میں سیب کو پسند کرتا ہوں کیونکہ دوسرے پھلوں کی نسبت بحالی صحت کیلئے مجھے یہ پھل زیادہ کھانا چاہئے۔ کرنل ڈاکٹر شوکت صاحب نے اس دفعہ پھر میرے پیشاب وغیرہ کا معائنہ کیا ہے اور اس میں پھر Suger (شوگر) معمول سے زیادہ پائی گئی ہے گو یہ کسی بے احتیاطی کی وجہ سے بڑھ گئی ہے آپ میرے لئے دعا کریں کہ جس طرح پہلے بھی عارضی طور پر یہ نظام Upset (اپ سیٹ) ہوا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلد ہی شفا عطا فرمائی تھی اب بھی چند دنوں میں آرام آ جائے تا کہ یہ عوارض کام میں سستی پیدا کرنے کا موجب نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہی صحت دینے والا اور شفا عطا کرنے والا ہے اسی پر ہمارا بھروسہ اور توکّل ہے مجھے یقین ہے کہ اگر آپ درد دل سے دعا کریں گے اور اگر مجھے بھی اللہ تعالیٰ دل سے دعا کرنے کی توفیق عطا کرے گا تو انشاء اللہ مجھے صحت اور شفا جلد حاصل ہو جائے گی۔
بہرحال سیب کے ذکر میں ضمناً یہ بات یاد آ گئی اور میں نے دعا کی تحریک کر دی ہے میں یہ بیان کر رہا تھا کہ سیب پر بظاہر ایک سوئی کے ناکے کے برابر داغ ہوتا ہے لیکن اندر سے شدید متاثر بلکہ کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے یہی حال نفاق کے داغ کا ہوتا ہے قرآن کریم کی رو سے یہ بھی شروع میں باریک سا دھبہ ہوتا ہے فرمایا ان معمولی سے دھبوں کو مٹانے میں غفلت سے کام نہ لینا تا ایسا نہ ہو کہ یہ دھبے پھیلتے پھیلتے سارے جسم پر محیط ہو جائیں اور انسان شیطانی ظلمات کے اندر گھر جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ منافق ایک مصلح کے روپ میں تمہارے سامنے آئے گا جب کبھی وہ تمہارے سامنے اس روپ میں آئے تو ہم تمہیں ایک جواب سکھاتے ہیں وہ جو اب تم اس کو دے دیا کرو تم اس سے کہہ دیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اَ لَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ تم اصلاح کا جو بھی جامہ پہنو ہم تمہیں پہچانتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ تم ہی مفسد ہو تمہارا مصلح کے روپ میں ہمارے سامنے آنا ہمیں دھوکا نہیں دے سکتا۔
منافق کی چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ منافق لوگ اپنے آپ کو بڑا عقل مند اور ہوشیار سمجھتے ہیں اور اپنے نفاق کو اپنی ہوشیاری کا نتیجہ سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی یہ حالت اوّل درجے کی حماقت کے مترادف ہوتی ہے لیکن یہ بات ان کے دماغ میں آتی ہی نہیں ان کا مرض لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ان سے کہا جائے کہ آخر یہ سارے مسلمان جو ہیں ان کے دلوں میں ایمان اور بے نفسی پائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے خلوص اور ایثار پایا جاتا ہے جس طرح اُنہوں نے اپنی تمام خواہشات اور اپنی بزرگیوں اور بڑائیوں کو اللہ تعالیٰ کی عزت اور عظمت پر قربان کر دیا ہے تم کیوں نہیں ان کے رنگ کو اختیار کرتے اور اپنے اندر ایمان اور بے نفسی پیدا کرتے منافق یہ سن کر جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ان بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ یہ تو احمق ہیں مالی قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے تو یہ اپنے بیوی بچوں کو بھوکا مار دیتے ہیں مگر قربانی ضرور دیتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی عقلمندی ہے کہ بیوی بچے بھوکے مرتے رہیں اور مالی قربانیوں پر زور ہو پھر جن منافقین کے گھر باہر ہوتے ہیں اور بظاہر ان کے گھروں کے پہرے یا حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اِدھر انہیں وقت کی قربانی دینے سے بھی گریز ہوتا ہے اور بہانہ بنا لیتے ہیں کہ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ (الاحزاب:۱۴) ہمارے یہاں تو پہرے کا انتظام نہیں اس لئے ہم سے وقت کی قربانی کا مطالبہ نہ کریں اور ہمیں باہر نہ بھیجیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حفاظت کا سارا دارومدار ان کی موجودگی پر ہے حالانکہ حقیقی محافظ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ہوتے ہیں ہمارے ملک میں بھی مختلف مواقع پر فسادات رونما ہوتے رہے ہیں اور بہت سے احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کی شان کو بچشم خود دیکھا ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ احمدی کا اکیلا گھر تھا ایک بپھرا ہوا مجمع اس پر حملہ آور ہوا مگر واپس چلا گیا اور اس گھر کے مکین احمدیوں کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچا سکا اور بعض دفعہ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ بعض احمدی گھرانوں میں مرد موجود نہیں تھے صرف عورتیں تھیں۔ چنانچہ جب بھی اس قسم کے گھر پر مشتعل ہجوم حملہ آور ہوا تو ان کے سامنے اکیلی عورت کھڑی ہو گئی اور خداتعالیٰ کے فرشتوں نے اس گھر کو اپنی حفظ و امان میں لے لیا اس حفاظت کا ایک زبردست نظارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت دکھایا جب آپ صرف بارہ آدمیوں کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے تھے جہاں ایک بڑے مشتعل ہجوم نے آپ پر حملہ کیا اور یہ نہتے دُہری چاردیواری کے اندر اپنے قادروتوانا خدا کے سہارے بیٹھے تھے۔ مادی لحاظ سے یا دنیوی سامانوں کے لحاظ سے اپنی مدافعت کا کوئی سامان ان کے پاس نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ جو عظیم قدرتوں کا مالک ہے اس کی حفاظت کا شرف انہیں حاصل تھا چنانچہ ہجوم باہر کا دروازہ توڑ کر اندر صحن میں داخل ہو گیا پھر اندر کے صحن کا دروازہ توڑ ہی رہے تھے کہ کسی نامعلوم وجہ سے اپنے آپ ہی واپس چلے گئے اب دنیا کو تو وہ وجہ نظر نہیں آ تی لیکن ہمیں تو وہ وجہ نظر آتی ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کا زبردست رُعب تھا جو ان کے دلوں پر ڈالا گیا اور وہ اس وجہ سے ڈر کر واپس چلے گئے چنانچہ یہ ایک عظیم معجزہ اور اللہ تعالیٰ کے پیار کا ایک عجیب مظاہرہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں رونما ہوا۔ جس سے ہمیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ پر توکل کریں گے تو ہمیں بھی اس طرح اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان حاصل رہے گی اور مخالف کا کوئی وار کامیاب تو کیا ہوگا وہ اس موقعہ پر خود ہی خائب و خاسر ہو کر لوٹ جائے گا۔
پس یہاں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر بار کو خدا کے سپرد کر کے خدا تعالیٰ کے لئے اپنا وقت دینے کیلئے چلا جاتا ہے وہی عقل مند ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ میرا گھر ننگا ہے پہرے کا کوئی انتظام نہیں اجازت دیجئے کہ میں جہاد میں شامل ہونے کی بجائے گھر بار کی حفاظت کروں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا شخص دراصل غیر محفوظ ہے وہ چاہے جتنے مرضی انتظام کرے، مضبوط سے مضبوط قلعے بنا لے وہ ملک الموت سے بچ نہیں سکتا وہ ایسے وقت میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
بعض دفعہ دشمن الٰہی سلسلہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور ظاہری لحاظ سے وہ سمجھتا ہے کہ میں غالب آ گیا ہوں چنانچہ وہ جماعت کے امام کو کہلا بھیجتا ہے کہ آپ لوگوں کی جان صرف اس صورت میں بچ سکتی ہے کہ آپ اس قسم کا ایک بیان جاری کر دیں لیکن اسے یہی جواب سننا پڑتا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کی حفاظت میں ہیں تم کیا تمہارے جیسے کروڑوں بھی آ جائیں ہمارا کچھ بھی بکاڑ نہیں سکتے ہمیں اپنے قادر و توانا خدا پر بھروسہ ہے اور یقین ہے کہ اس کی حفاظت ہمارے شامل حال ہے۔ اس حقیقی حفاظت اور سچی امان کو چھوڑ کر ہمارا جھوٹے وعدوں کی طرف متوجہ ہوجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پس الٰہی سلسلوں کا یہی حال ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی جذبہ عقلمندی کہلاتا ہے لیکن جو منافق ہیں جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں دیکھو ہم نے دنیوی حفاظت کیلئے کیسی عقلمندی، ہوشیاری اور چالاکی سے کام لیا کہ بیک وقت دعویٰ ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کی صفوں میں بھی شامل رہے اور پس پردہ منکرین اسلام سے بھی بنائے رکھی۔ وہ اپنی اس حماقت کو عقلمندی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد ہیں ان کے سروں پر اللہ تعالیٰ کے غضب کا کوڑا اسی طرح لہراتا ہے جس طرح بجلی آسمان سے کوندتی ہے اور جس چیز پر گرتی ہے آنکھ جھپکنے میں اس کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے۔ کراچی میں پتہ نہیں آپ کو ایسے موقعے ملتے ہیں یا نہیں مگر خدا تعالیٰ کے اس قہر کے کئی نشان دیہاتوں میں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے قہر سے بچائے۔ انسانی ہمدردی کے لحاظ سے احمدی یا غیر احمدی سب برابر ہیں۔ چنانچہ ابھی پچھلے دنوں کا یہ واقعہ ہے کہ ہماری زمینوں کے قریب ہی ایک غیر از جماعت زمیندار کے پانچ جانور (تین ایک طرف اور دو دوسری طرف آمنے سامنے) باندھے ہوئے تھے۔ اچانک بجلی گری اور ایک طرف کے دونوں جانوروں اور پاس کے درخت کے ایک حصے کو ایک سیکنڈ کے اندر بالکل راکھ بنا کر رکھ دیا اگر انسان اس درخت کو کاٹ کر اس کی راکھ بنانا چاہتا تو شاید اس کو کئی دن لگ جاتے مگر خدا تعالیٰ کے قہر کے اس ایک جلوے نے ایک سیکنڈ کے اندر درخت کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے یہ جلوے بھی اپنے اندر کئی سبق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھو میرے فضل اور میری رحمت کے بغیر ایک پل بھر کے لئے بھی تمہاری زندگی اس کی صحت اور بقاء قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر میرا فضل شامل حال نہ ہو تو میرے قہر کا ایک معمولی سا جلوہ تمہارے درخت وجود کو جلا کر خاکستر کر دے۔ اس لئے اپنی حفاظت کے لئے میری پناہ میں آ جاؤ اور میرے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کر لو۔ پس مومن بندہ اس حقیقت سے آگاہ اور باخبرہوتا ہے اور اسی لئے وہ ہمیشہ اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز رہتا ہے لیکن جب ایک منافق سے یہ کہا جائے کہ اپنے ربّ سے بے نفس ایثار اور سچے خلوص کا تعلق قائم کرو اور اس کے لئے جس قربانی کا مطالبہ ہو اس کو پورا کرو تو وہ آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان تو دراصل ایک پاگل پن کی دلیل ہے ایک مجنونانہ فعل اور احمقانہ حرکت ہے۔ ہم اتنے عقلمند ہو کر بھلا کیوں اس قسم کا ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دو ھُمُ السُّفَھَآئُ بیوقوف اور احمق تو دراصل تم ہی ہو لیکن بیوقوف اور احمق ہونے کے علاوہ بڑے بدبخت بھی ہو کہ تمہیں اپنی بیوقوفی اور حماقت کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ وہ احمق جو اپنی حماقت کا احساس رکھتا ہے وہ خود بھی بہت سی تکلیفوں سے محفوظ رہتا ہے اور دوسرے بھی اس کے آزار سے بہت حد تک محفوظ رہتے ہیں کیونکہ اسے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا دماغ نہیں دیا جتنا دوسروں کو دیا گیا ہے لیکن جو شخص اپنی حماقت کا احساس نہیں رکھتا وہ ہر وقت معرضِ خطرہ میں رہتا ہے اور نقصان سے دوچار رہتا ہے۔ اسی واسطے دانشمندوں کا یہ قول ہے کہ ایک بیوقوف دوست کی نسبت ہزار عقلمند دشمن اچھے ہوتے ہیں کیونکہ بسا اوقات ہزار عقلمند دشمن کسی کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو ایک بیوقوف دوست کے ہاتھوں اسے اُٹھانا پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ میری نگاہ میں اور میری صفات سے متصف میرے بندوں کی نگاہ میں بھی بیوقوف تم ہی ہو خواہ تم کتنے ہی عقلمند کیوں نہ بنتے پھرو۔ پس منافقین کی یہ بنیادی علامات ہیں جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنی منافقت کو عقلمندی سمجھتے ہیں خدائے رحمن کو بھی اپنا سردار سمجھتے ہیں اور شیطان کو بھی اپنا سردار سمجھتے ہیں اور جو خدا کا بندہ خدا کی صفت رحمانیت کا مظہر ہے وہ بھی ظلّی طو رپر رحمن ہے ہر انسان اپنے محدود دائرہ میں ظلّی طور پر اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کو منعکس کر کے ربّ بھی ہے رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے اور مالک بھی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ ہماری جماعت پر یہ فرض لازم ہے کہ دوست ان صفات باری تعالیٰ کو ظلی طور پر اپنے اندر بھی پیدا کریں۔ پس ایک ایسا شخص جو رحمن اور شیطان میں فرق نہیں کر سکتا وہ بھلا عقلمند کیسے ہو سکتا ہے؟ منافق بے شک اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے پھریں اللہ تعالیٰ کا ان کے متعلق فیصلہ یہ ہے کہ وہ پرلے درجے کے سفیہہ بڑے ہی بیوقوف اور سخت احمق ہیں کیونکہ یہ تو رحمن اور شیطان میں بھی فرق نہیں کر سکتے۔ یہ ان کی بیوقوفی اور حماقت کی دلیل نہیں تو اَور کیا ہے اس دورنگی کو عقلمند کون کہہ سکتا ہے کہ جب اپنے شیطان سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں لیکن مومنوں کے پاس آ کر اسی زبان سے مومنانہ جذبات کا اظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں اور بڑی چرب زبانی سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص خدائے رحمن اور شیطان ملعون میں فرق نہ کر سکے وہ سفیہہ یعنی پرلے درجے کا بیوقوف نہیں تو اور کیا ہے لیکن اپنی سفاہت کا احساس نہ رکھنے کی وجہ سے یا محض شرارت کی نیت سے عقلمند کے روپ میں تمہارے سامنے آئیں گے۔ بظاہر بڑے عقلمند بڑے مصلح نہایت ہمدرد اور پکے مومن۔ لیکن درپردہ منافق ہوں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے جماعت مومنہ! میں تم پر یہ اعتماد کر رہا ہوں اور تمہارے سامنے ان کی علامات کو کھول کھول کر اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ تم بھی ہمیشہ ایسے گروہ سے چوکس اور بیدار رہو جس طرح یہ لوگ مجھے بیوقوف نہیں بنا سکے اسی طرح یہ تمہیں بھی بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ (بِقُدْرَتِہِ الْکَامِلَہ)
پس اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہر سہ جماعتوں کے متعلق ان کی خصوصیات، کیفیات اور علامات کو ظاہر فرما دیا ہے مومنوں کے لئے غیر محدود ترقیات کے دروازے کھولے۔ منکرین اسلام کے متعلق فرمایا کہ جب تک ان کی یہی کیفیت رہے گی یہ ایمان لانے کی سعادت سے محروم رہیں گے انہیں اس وقت تک ایمان کی توفیق نہیں مل سکتی جب تک اپنی اس بنیادی کمزوری کو دور نہ کریں کہ اپنے ہاتھوں سے انہوں نے جو غلط قسم کی مہریں اور پردے اپنے دل، کان اور آنکھ پر ڈال لئے ہیں وہ ہٹا نہ دیں۔ جب تک ان کی یہ حالت تبدیل نہیں ہوتی انہیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے۔ اس سے ہمیں بھی یہ بتانا مقصود ہے کہ تم بھی دیکھو کہ وہ مہریں کیسی ہیں ان کو کس طرح توڑا جا سکتا ہے تا کہ ایمان سے محروم اپنے ان بھائیوں کی خدمت کر سکو چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ وہ پردے اس شکل کے ہیں، اس رنگ کے ہیں اور ان اثرات کے حامل ہیں لہٰذا تم ان پردوں کو ہٹا کر اپنے بھائیوں کو جو اس وقت تک ایمان کی دولت سے محروم ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھنے اور ان پر ایمان لانے کے قابل بنا سکتے ہو۔
پھر اس گروہ کا ذکر فرمایا جو مومن ہونے کا لیبل لگا کر مومن ہی کے روپ میں اُمت مسلمہ میں گھسے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفاق کا بیج بوتے ہوئے اُمت کے شیرازہ کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم نے کئی دوسری جگہ اس گروہ کی مختلف روحانی بیماریوں اور اس کی مفسدانہ کارروائیوں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن یہاں ان آیات میں اس گروہ سے متعلق چند بنیادی علامات کو واضح کیا گیا ہے جہاں تک ان کی بیماریوں اور ان کے فتنوں کا تعلق ہے ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جب بیماری کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا اس کی اپنی ذات کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن جب فتنہ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یوں دراصل ان کی بیماریاں اور ان کے فتنے ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں پس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے منافق کی بیماریوں، اس کے فتنوں وغیرہ کے متعلق اور پھر ان کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے اس کے متعلق وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ ان بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے مومن بندے اس کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہونے کی حیثیت میں ان کی بیماریوں کے علاج میں کوشاں رہتے ہیں۔ پس ان آیات میں منافقین کی بنیادی کمزوریوں کو بیان فرمایا۔ ان سے بچنے کی تلقین فرمائی اس لئے یہ مضمون اس اعتبار سے بنیادی حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں ان بیماریوں سے بچنے کی راہیں بتائی گئی ہیں۔ پس ہم میں سے ہر چھوٹے اور ہر بڑے اور ہر عورت اور ہر مرد کو یہ آیات زبانی یاد ہونی چاہیں تا کہ بوقت ضرورت ہم اس اعتماد پر پورے اُتر سکیں جسے اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر ہم پر کیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ مجھے دھوکا نہیں دے سکتے اسی طرح تمہیں بھی دھوکا نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے نتیجہ ہی میں سب کچھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم صحیح معنوں میں اس کے بندے بن جائیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے اس گروہ میں شامل کر دے جس گروہ پر کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بارش کے قطروں سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ نازل ہوتی رہتی ہیں۔ خداتعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل کرے، ہماری کمزوریوں کو ڈھانپ لے۔ ہماری خطاؤں کو معاف کر دے۔ ہمارے گناہوں کو بخش دے ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے۔
اس رحمتوں کا ہر جلوہ ہمارے لئے ظاہر ہو تا کہ ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائیں یعنی جس مقصد کے حصول کیلئے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ یعنی غلبہ اسلام اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت کو تمام بنی نوع انسان کے دل میں قائم کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا سچا عشق اور اس سے حقیقی محبت پر انسان کے دل اور دماغ اور اعلیٰ روح اور اس کے تمام جوارح حتیّٰ کہ جسم کے ذرّہ ذرّہ میں پیدا کرنا تاکہ ایک عاشق صادق کی حیثیت سے ہر شخص اپنے محبوب کی محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائے یہاں تک کہ اسی سمندر کا ایک قطرہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ہمیں سمجھ عطا کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق بخشے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ یکم اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۱۰)
٭…٭…٭

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض توحید باری تعالیٰ کا قیام اور نبی کریم ﷺ کی عزت کا دنیا میں قیام ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ ساری عزتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کا فخر اور مخلوقات کا شرف ہیں۔
٭ منافق کی نگاہ دنیا کے حجاب سے پرے نہیں جاتی۔
٭ اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ کر اپنے نفسوں میں پیدا کرو۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو۔ اس غرض کے نتیجہ میں جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے ہم پر چار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اوّل یہ کہ ہم اپنے نفسوں میں اور اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی توحید قائم کریں۔ علمی لحاظ سے بھی (یعنی عرفان اور معرفت کے لحاظ سے) اور عملی لحاظ سے بھی۔ دوسری ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ سے دُوری کی راہوں کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت انہیں حاصل نہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کرنے میں مدد دیں۔ ان کو تبلیغ کریں۔ اپنی زندگیوں کو کچھ اس طرح بنائیں کہ ہمیں دیکھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کیلئے تیار ہو جائیں اور جب وہ اس بات کے لئے تیار ہو جائیں تو ہم ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور عرفان اور وہ علم اور وہ حقائق پیش کریں جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں عطا کئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوؤں سے آشنا کریں۔ تیسری ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں، اپنی روح میں، اپنے ذہن میں اور اپنے عمل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے والے ہوں اور چوتھی ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم ساری دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کے لئے انتہائی کوشش کریں اور اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ فرمایا کہ میری بعثت کی اصل غرض یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کروں تو آپ نے دوسرے الفاظ میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے ایک ایسی جماعت دی جائے گی جو توحید حقیقی پر قائم ہوگی اور جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو جاننے اور پہچاننے والی ہوگی اور اس عزت کے لئے ساری ذلتیں قبول کرنے کیلئے تیار ہوگی۔
قرآن کریم فرماتا ہے۔
وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (المنافقون:۹)
کہ حقیقی عزت کا سچا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔
ساری عزتوں کا سرچشمہ اسی کی ذات ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ عزت حاصل کی کہ کسی ماں جائے نے نہ ایسی عزت حاصل کی اور نہ کبھی حاصل کر سکتا ہے۔ پس سب سے معزز خداتعالیٰ کی نگاہ میں اس عالمین میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کی ذات سب سے معزز اس لئے ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق میں انسانوں کے لئے اور ان کی روحانی ارتقاء کے لئے اپنی جن صفات کے جلوے دکھائے آپ نے ان صفات کو کامل طور پر اپنے اندر جذب کر لیا اور یہ کام کامل فنا کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ غرض آپ نے اللہ تعالیٰ میں ہوکر زندگی ڈھونڈنے کیلئے اور اس سے حیات پانے کے لئے اپنے اوپر ایک کامل فنا اور ایک کامل موت طاری کی۔ تب آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی اور ایک کامل زندگی عطا کی اور چونکہ فنا اور عبودیت کے اس ارفع مقام کو آپ کے سوا اور کسی نے نہیں پایا تھا اور اسی کے نتیجہ میں چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم تھے اس لئے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ معزز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کے فیوض کے نتیجہ میں پھر مومنوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس عزت کو حاصل کیا جیسا کہ اس آیت میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اصل عزت تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ پھر اس کا مظہراتم ہونے کی حیثیت میں اس کامل اور مکمل رسول کی ہے جو کامل اور مکمل شریعت لے کر آیا جو تمام انبیاء کا فخر اور تمام مخلوقات کا شرف ہے۔ پھر اس رسول کے طفیل ان لوگوں کو عزت ملتی ہے جو اس پر ایمان لائے اور اس کی تعلیم پر عمل کرتے اور اس سے تعلق محبت کو جوڑتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اگر تم میری نگاہ میں محبوب بننا چاہتے ہو تو تم میرے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع کرو۔ تم اپنے مقام کے لحاظ سے جتنی جتنی اطاعت کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جاؤ گے اسی قدر میری محبت تمہیں حاصل ہوتی چلی جائے گی۔ اگر تم میری نگاہ میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس پر ایمان لاؤ۔ اس کی کامل اطاعت کرو۔ اس کے مقام کو پہچانو اس عزت عظیمہ کا عرفان حاصل کرو جو اسے میری نگاہ میں حاصل ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کے ہر فعل کو ایک معزز فعل سمجھو اور اس کی اتباع میں اپنی نجات دیکھو تب تم میری نگاہ میں عزت پاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰـکِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ منافق اس بات کو سمجھتے نہیں۔ وہ بڑے بدقسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کو عزت نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں معزز بنا دیں ہم جسے چاہیں ذلیل کر دیں حالانکہ عزت کا سرچشمہ نفاق نہیں ہے، نہ عقلاً اور نہ شرعاً۔ عزت کا سرچشمہ تو اس خدائے پاک کی ذات ہے جو تمام عزتوں کا مالک ہے لیکن منافق جس کی نگاہ دنیا کے حجاب سے پرے نہیں جاتی دنیا میں اُلجھی رہتی ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ ہم مختلف قسم کا پروپیگنڈا کر کے یا مختلف قسم کی سازشیں کر کے یا منصوبے باندھ کر جس کو چاہیں گے عزت دیں گے اور جس کو چاہیں گے ذلیل کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم جاہل ہو تم کو پتہ نہیں کہ عزت اس کو ملتی ہے جس کا تعلق عزت کے سرچشمہ سے ہوتا ہے۔ اگر تم اپنا تعلق عزت کے اس سرچشمہ سے قائم نہیں کرو گے۔ اگر تم اپنا رشتہ اطاعت اور رشتہ محبت اس سرچشمہ سے نہیں جوڑوگے، اگر تم اس انسانِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور پیار اور اطاعت اور فرمانبرداری اور جاں نثاری کا تعلق قائم نہیں کرو گے جس کے طفیل اب ساری عزتیں تقسیم ہوںگی تو پھر تمہیں یا تمہارے منصوبہ کے نتیجہ میں کسی اَور کو کوئی عزت نہیں مل سکے گی۔
توحید کے قیام کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہے دو ذمہ داریاں ہیں۔ (۱)اپنے نفسوں میں توحید کو قائم کرنا (۲) دنیا میں توحید کو قائم کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے تو بے شمار ہیں وہ گنے نہیں جا سکتے۔ اس کی صفات بھی بے شمار ہیں لیکن جن صفات کو اس نے ہماری زندگی میں ظاہر کیا ہے ان میں سے چار اُمہات الصفات کہلاتی ہیں۔ یعنی اس کا ربّ ہونا، اس کا رحمن ہونا، اس کا رحیم ہونا اور اس کا مالک یوم الدین ہونا۔ اگر ہم ان چار صفات کو پوری طرح سمجھنے لگیں، اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے اور اس حقیقت کا اظہار ہم پر ہو جائے کہ ربّ کے کیا معنی ہیں۔ رحمن کی صفت کے جلوے کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ رحیمیت اپنا ظہور کس طرح کرتی ہے اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اپنے قادرانہ تصرف کو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کرتا ہے تو دوسری صفات کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لئے سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ان چار اُمہات الصفات کو بیان کیا اور ان کی طرف توجہ دلائی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کے مطابق ہم پر بڑا زور دیا کہ ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرو اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا حکم اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کریں کیونکہ اگر ہم ان اُمہات الصفات کو جو تعداد میں چار ہیں خود نہ سمجھیں اور ہماری عقل میں ان کی کیفیت اور ان کی ماہیت (جس حد تک ہماری سمجھ ہے) نہ آئے تو ہم اس کے مطابق اپنی زندگی میں وہ صفات کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔ صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کیلئے ان صفات کی معرفت کا حصول ضروری ہے ورنہ ہم اپنی زندگیوں میں ان صفات کے پیدا کرنے کی نتیجہ خیز اور ثمر آور کوشش نہیں کر سکتے۔
رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے معنی بڑے وسیع ہیں اس وقت میں اس صفت کے متعلق صرف ایک اصولی بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے معنی ہیں پیدا کرنے کے بعد تکمیل کا متکفل ہو جانا یعنی جو فطری مطلوب تھا اس کو پوراکرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو کسی خاص غرض کے لئے پیدا کیا ہے۔ انسان کو جس غرض کے لئے اس نے پیدا کیا ہے اور اس غرض کے حصول کے لئے اس کو جن قوٰی کے ساتھ پیدا کیا ہے ان قویٰ کے تدریجی ارتقاء کے بعد ان کو کمال تک پہنچانے کی ذمہ داری اس نے اپنے اوپر لی ہے۔ اس معنی میں وہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ہے۔
ذمہ داری اس معنی میں اس نے اپنے پر لی ہے کہ اس نے فرمایا کہ میں رحمن ہوں تمہاری تکمیل کے لئے اور جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس کے حصول کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ میں تمہیں دوں گا۔ انسان کو اللہ کا بندہ بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور حقیقی معنی میں ایک عبد ہونے کے لئے جس جسمانی قوت یا روحانی طاقت و استعداد کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے وہ طاقت اسے دی اور اس کی نشوونما کے لئے جن اسباب مادیہ کی ضرورت تھی وہ اسباب مادیہ پیدا کئے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے ہم پر ظاہر ہوئے۔ ہمارے لئے وہ جلوے اس وقت بھی ظاہر ہوئے کہ ابھی زمانہ کروڑوں سال بعد ہماری پیدائش کا منتظر تھا مگر خدائے علام الغیوب کو چونکہ ہمارا پتہ تھا کہ اس طرح ہم اس کی مشیت سے پیدا ہونے والے ہیں اس لئے کروڑوں اربوں سال پہلے جن چیزوں کی ہمیں اس وقت پیدائش کے بعد ضرورت تھی اور جن کی پیدائش پر کروڑوں اربوں سال گزر جانے تھے وہ کروڑوں اربوں سال پہلے پیدا کر دیں۔
رحمانیت کے جلوؤں میں بڑا ہی حسن و احسان ہمیں نظر آتا ہے۔ ہر چیز جو ہمیں ملی یہ زمین اور اس کا جو فاصلہ سورج اور چاند سے ہے پیدا کی اور پھر زمین میں یہ قابلیت رکھی کہ وہ پانی کے بعد اس قسم کی غذا پیدا کرتی ہے کہ جو ہمارے جسم کو متوازن غذائیت (Nutsition) دے سکے۔ متوازن غذا دے سکے اگر زمین میں مثلاً تیزاب جو ہماری غذا کا ایک حصہ ہے اتنا ہوتا جتنا اس وقت اس میں سٹارچ (Starch) یعنی نشاستہ ہے تو یہ غذا ہم کھا کر زندہ نہ رہ سکتے۔ غرض ہمارے جسموں کو جس متوازن طیب غذا کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں وہ خصوصیات پیدا کیں کہ وہ ایک خادم کی حیثیت سے اس متوازن غذا کے ہمارے لئے سامان کرے۔ پھر رحیمیت ہے رحیمیت کے معنی ہیں کہ متضرعانہ دعاؤں اور اعمالِ صالحہ کو قبول کرتے ہوئے ان کا اچھا اور نیک بدلہ ہمیں دیتا ہے۔ ہماری متضرعانہ دعاؤں اور اعمال صالحہ میں بہت سے نقائص رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے اور جو نقص رہ جاتا ہے اس کو دُور کر دیتا ہے تا عملِ صالح ضائع نہ ہو۔ غرض رحیمیت کے معنی میں پردہ پوشی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور رحیمیت کے معنی میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ عمل صالح کا نیک نتیجہ جس صورت میں نکل سکتا تھا عمل وہاں تک نہیں پہنچا اس میں کچھ نقص رہ گیاہے تو اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اس نقص کو دور کرتی ہے اور اس طرح چشم پوشی سے کام لے کر عمل صالح کا وہ نتیجہ نکال دیتی ہے جو اس کا بہتر نتیجہ (ثمرہ حسنہ) نکلنا چاہئے تھا۔ غرض چشم پوشی کرنا اور نقص کو دور کرنا تا تضیع اعمال نہ ہو۔ اعمال صالح ضائع نہ ہو جائیں۔ رحیمیت کا کام ہے۔ انسان اپنی انتہائی کوشش اور اپنی نہایت عاجزانہ دعاؤں کے باوجود اس بات پر یقین نہیں کر سکتا اس بات پر تسلی نہیں پا سکتا کہ اس کے اعمال میں کوئی نقص نہیں رہ گیا۔ اگر خداتعالیٰ کی رحیمیت کے جلوؤں میں اس نقص کو دور کرنے اور چشم پوشی کے جلوے شامل نہ ہوتے تو ہمارے نیک اعمال کا نیک نتیجہ ہرگز نہ نکلتا۔ غرض اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کا نیک نتیجہ نکالتا ہے اور اس نیک نتیجہ کے نکالنے میں جس حد تک چشم پوشی کی ضرورت ہوتی ہے وہ چشم پوشی کرتا ہے اور جس حد تک ہمارے اعمال کے نقائص کو دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان نقائص کو دور کرتا ہے اور ہمارے اعمال اور ہماری دعاؤں کا نیک نتیجہ نکال دیتا ہے۔
پھر نیک نتیجہ رحیمیت کے جلوؤں میں صرف استحقاق پیدا کرتا ہے۔ جس طرح ایک طالب علم جب امتحان دیتا ہے تو اس کی کوششوں کا نیک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بی۔ اے یا ایم۔ اے پاس کر لیتا ہے۔ یہ ایک نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دعائیںکرنے والے اور محنت کرنے والے طلباء کی کوششوں کا نکالتا ہے۔ لیکن بی۔ اے پاس کر لینا یا ایم۔ اے پاس کر لینا جو نتیجہ ہے یہ پورا بدلہ نہیںہے بلکہ اس نتیجہ سے بدلہ کا استحقاق پیدا ہوتا ہے یعنی بی۔ اے پاس کرنے کے بعد جس قسم کی نوکری کسی کو مل سکتی ہے اس قسم کی نوکری اسے مل جانی چاہئے۔ ایم۔ اے پاس کرنے کے بعد جس قسم کی نوکری اُسے مل سکتی ہے وہ نوکری اُسے مل جانی چاہئے۔ یہ نتیجہ ہے جو رحیمیت کے جلوؤں کے بعد کسی کے اعمال کا نکلتا ہے یعنی ایک استحقاق پیدا ہو جاتا ہے لیکن دنیا میں استحقاق پیدا ہونے کے باوجود وہ بدلہ نہیں ملتا جس کا وہ استحقاق مطالبہ کر رہا ہوتا ہے۔ ہزاروں بی۔ اے اور ایم۔ اے مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ ابھی کراچی کے قیام کے دوران مجھے ایک احمدی دوست نے بتایا کہ میں سڑک پر جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر سڑک پر کام کرنے والے مزدوروںپر پڑی۔ وہ مزدور اِدھر اُدھر سے مٹی اُٹھا کر سڑک پر ڈال رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک مزور عام مزدوروں کی طرح کا نہیں۔ اس میں کوئی ایسی بات پائی جاتی تھی کہ اس نے میری توجہ کو جذب کر لیا۔ یہ مزدور مجھے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ یہ ان کا تاثر تھا بہرحال انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنی کار کھڑی کر لی اور اس مزدور کے پاس گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں بی۔ اے پاس ہوں لیکن نوکری نہیں ملتی اس لئے میں نے سڑک کوٹنے یا سڑک پر مٹی ڈالنے کی مزدوری کر لی ہے۔ پس اگر دنیا رحیمیت کے جلوؤں کے پر تو کے نیچے کسی طالب علم کو پاس کر دے (یعنی کوئی مثلاً بی۔ اے پاس کر لے) تو کر دے لیکن ضروری نہیں کہ دنیا مالکیت یوم الدین کا نتیجہ ظاہر کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہو۔ خیر اللہ تعالیٰ نے اس احمدی افسر کے ذریعہ اپنی مالکیت کا جلوہ دکھانا تھا چنانچہ اُنہوں نے اس مزدور کو کہا کہ میں فلاں فیکٹری میں ہوں تم وہاں میرے پاس آ جانا میں تمہارے لئے کوئی نوکری تلاش کروں گا۔ چنانچہ وہ مزدور دوسرے دن ان کے پاس گیا اُنہوں نے اس کے لئے کوئی جگہ معلوم کرنے کی کوشش کی۔ انہیں معلوم ہوا کہ اس وقت فیکٹری میں کوئی ایسی جگہ خالی نہیں جہاں کسی بی۔ اے پاس کو لگایا جائے۔ اس لئے انہوں نے اس کو ایک ایسے مزدور کی جگہ دلوا دی جس کو فیکٹری دس روپے یومیہ دیتی تھی۔ ممکن ہے کہ وہ باہر تین چار روپیہ لے رہا ہو اور اس طرح اسے قریباً تین سَو روپے ماہوار کی نوکری مل گئی۔
غرض اللہ تعالیٰ صرف رحیم نہیں یعنی یہ نہیں کہ جو شخص امتحان دے وہ صرف اس کا نتیجہ نکال دے اور اسے پاس کر دے بلکہ وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنٖہے۔ ویسے تو بندہ بڑا ہی عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی رحمت کے نتیجہ میں اس کی دعاؤں کو قبول کرتا اور اس کی کوششوں کو سراہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایک استحقاق پیدا کر دیتا ہے یعنی وہ کہتا ہے تمہارامیں نے یہ حق قائم کر دیا ہے پھر وہ اس سے وہ حق چھینتا نہیں بلکہ جو حق رحیمیت کے جلوے نے قائم کر دیا تھا وہ حق اسے دیتا ہے اس کے سامان پیدا کرتا ہے۔
ایک تو ہمیں یہ معرفت حاصل ہونی چاہئے کہ سوائے اللہ کے کوئی ذات ایسی نہیں جو تربیت کی متکفل ہو جو نشوونما کو کمال تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتی ہو۔ ماں باپ بھی یہ ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ کتنے ماں ماپ ہیں جن کے بڑے ذہین بچے ہوتے ہیں لیکن وہ ان کی تربیت نہیں کر سکتے دنیا کی کوئی مخلوق بھی یہ تربیت نہیں کر سکتی لیکن ہمیں انسان کی بات کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات کے مقام پر کھڑا کیا ہے۔ کوئی انسان اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ربوبیت نہیں کر سکتا۔ انسان اگر یہ کہے کہ میں اپنے زور سے یہ کروں گا تو وہ نہیں کر سکتا۔ بہتوں نے دعویٰ کئے لیکن وہ اپنے دعوؤں کو سچا کر کے نہ دکھا سکے۔ آپ روس کے کمیونزم کو لے لیں آپ سوشلسٹ ممالک کے سوشلزم کو لے لیں آپ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے دعاوی کو لے لیں کسی جگہ بھی آپ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ ہر شخص کی اس معنی میں ربوبیت ہو رہی ہے۔ بعض کی وہ ربوبیت کرتے ہیں مثلاً فیورٹزم (Favouritims) ہے لیکن یہاں بعض کا سوال نہیں یہاں سوال یہ ہے کہ وہ ہر مخلوق کی تربیت کے متکفل ہوں اور ایسا وہ نہیں کرتے بلکہ انہوں نے تو مزدور کی تنخواہ اور ڈیلی ویجز (Daily Wages) کے ساتھ ایسا قانون باندھ دیا ہے کہ کم ہی مزدور ہیں جن کے حقوق انہیں ملتے ہیں جن کی ربوبیت کے یہ لوگ متکفل کہلائے جا سکتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہاری جسمانی اور روحانی استعدادوں کی نشوونما کریں گے اور اس کے لئے تمام سامان مہیا کرنے کے ہم ذمہ دار ہیں لیکن وہ عملاً ایسا کر نہیں سکے۔ غرض ربوبیت کی صفت کے اندر جو یہ ذمہ داری ہے یہ کہیں نہیں پائی جاتی صرف خدا کے بندوں میں ہمیں یہ نظر آ سکتی ہے اور جو دوسری ذمہ داری ہم پر ہے اس کے ماتحت ہمیں خدا کا بندہ بننا چاہئے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو محض اس کی صفات کا عرفان کافی نہیں بلکہ اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ تو یہ ایک فلسفہ ہے جس کا حسن اور نہ احسان غیر کا دل موہ لینے کے قابل ہے جب تک وہ حسن اور احسان کا جذبہ ہمارے اندر پیدا نہ ہو اس وقت تک ہم دنیا میں توحید کو قائم نہیں کر سکتے۔
پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے اور جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق اور طاقت عطا کی ہے وہ اپنے دائرہ میں پرورش کا متکفل ہو مثلاً اگر وہ خاندان کا بڑا فرد ہے تو وہ اپنی استعداد کے مطابق پرورش کا متکفّل ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور پھر جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے بھی وہ ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے۔ جماعت بحیثیت جماعت اپنے اندر ربوبیت کی صفت پیدا کرنے کیلئے۔ اس لئے کوشش کرے کہ وہ سمجھے کہ دنیا میں ہم نے توحید باری کو قائم کرنا ہے اور جب تک ہم اپنے نظام میں، اپنے کام میں اور اپنے عمل میں ربوبیت کی صفت پیدا نہیں کریں گے ہم دنیا میں توحید کو قائم نہیں کر سکتے۔ غرض جس وقت تک ہر فرد جماعت بحیثیت ایک فرد جماعت، جماعت کے کام میں اپنی ذمہ داری کو نہ نباہے اس وقت تک توحید حقیقی دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی۔
پس ہم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ربوبیت کی صفت انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنے اندر پیدا کریں۔ پھر رحمانیت کے جلوے ہیں۔ ہمارے پہلوں نے بڑی خوبصورتی اور بڑے حسن کے ساتھ ان جلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک بچے کو روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ یہ کیوں روتا ہے۔ اس بچے کی ماں نے بتایا کہ چونکہ دودھ پیتے بچے کا راشن منظور نہیں کیا جاتا اس لئے میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے۔ اب بچہ گندم یا کھجوریں وغیرہ نہیں کھا سکتا لیکن چونکہ دودھ چھڑانے کے نتیجہ میں اس کی جسمانی تربیت اور نشوونما پر ایک بُرا اور گندہ اور مہلک اثر پڑتا ہے اور اس کا اثر پھر روحانی تربیت پر بھی پڑے گا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خدائے رحمن کی صفت کو اپنے نظام میں جاری فرمایا اور دودھ پیتے بچوں کے لئے راشن مقرر کر دیا۔ ہم سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ایسی دے سکتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم ہر وقت چوکس اور بیدار رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے دنیا کو ان کی زندگی میں اور ان کے نظام میں نظر آئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے حسن اور اس کے احسان سے دنیا متعارف ہو جائے اور اس کی طرف کھنچی چلی آئے اور غیراللہ کے سارے رشتے اس کے نتیجہ میں کٹ جائیں اور صرف خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ تعلق اطاعت اور تعلق عبودیت اور تعلق غلامی قائم ہو اور قائم رہے۔
یہ ذہنیت ہماری جماعت میں پیدا ہونی چاہئے اگر یہ ذہنیت ہماری جماعت میں پیدا نہ ہو اور اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے دنیا کو نہ دکھا سکیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو بھی دنیا میں قائم نہیں کر سکتے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ میری اور کوئی غرض نہیں کہ میں توحید باری قائم کرنا چاہتا ہوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنا چاہتا ہوں۔
رحیمیت کے جلوے بھی (جیسا کہ میں نے کہا ہے) ہمیں دکھانے چاہئیں، مالکیت کے جلوے بھی ہمیں دکھانے چاہئیں۔ اگر آپ غور کریں تو آپ بھی میری طرح اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اگر ہم اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی ان چاروں اُمہات الصّفات کے جلوے دکھانے میں کامیاب ہو جائیں تبھی اور صرف اسی صورت میں ہم خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام کے سلسلہ میں ہماری ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کرکے اپنی زندگی میں ان صفات کو قائم کر دیں اور دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنی زندگی میں دکھا کر دنیا کو اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دکھانے کے بعد اس کی معرفت کے حصول کا ذریعہ بنیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید قائم ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عزت عطا کی ہے کہ انسان کا تصور بھی اس عظیم عزت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ہم آپؐ کے ہر قول اور ہر فعل کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ آپ کے ہر قول کو اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن کریم کی تفسیر سمجھیں اور آپ کے ہر فعل کو ایسا حسین سمجھیں کہ اس کو اپنے لئے اُسوہ اور ایک قابل تقلید نمونہ سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو، آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے لئے اُسوہ نہ سمجھیں اور اس کی بجائے کوئی اور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو نہ سمجھا اور نہ اُسے قائم کرنے کی کوشش کی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو جیسا کہ وہ حسین ہے اور احسان کرنے والا ہے سمجھنے لگیں اور اپنی زندگی کیلئے اسے نمونہ بنائیں اور اس طرح پر دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کی کوشش کریں تو دنیا بڑی جلد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کی گرویدہ ہو جائے گی۔ کیونکہ اس وقت دنیا میں حقیقی معنی میں نہ کہیں حسن نظر آتا ہے اور نہ کہیں کوئی محسن نظر آتا ہے۔ محسن حقیقی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ جسمانی اور دنیوی طور پربھی اور روحانی اور اُخروی لحاظ سے بھی آپ ہی کی ذات محسن اعظم ہے اور آپ ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو انسان نے اس رنگ میں اور اس شان میں اور اس حسن میں اور اس احسان میں پہچانا اور اس سے تعلق رکھا۔
اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی ذات کے لحاظ سے بھی اور اپنی صفات کے لحاظ سے بھی بے مثال و مانند ہے لیکن اس کے قریب تر اور اس کے مشابہ تر جو وجود پیدا ہوا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کہا۔ میری صفات کے مظہر اتم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں اگر ہم آپ کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنے لئے اُسوہ اور نمونہ سمجھیں اور بنائیں تو اپنی استعداد کے مطابق ہم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوں گے اور ایک لحاظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کا موجب بنیں گے اور دوسرے لحاظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو دنیا میں قائم کرنے کا وسیلہ بنیں گے۔
پس جماعت کو یہ نہ بھولنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ دنیا میں توحید کو قائم کیا جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کیا جائے۔ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا لیکن اس چھوٹے سے فقرہ میں جیسا کہ میں نے ابھی مختصراً بیان کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ کر اپنے نفسوں میں انہیں پیدا کرنا (۲) ان صفات کا اپنے نفسوںمیں جلوہ دکھا کر دنیا کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعارف کروا کر انہیں اس طرف لے کر آنا کہ وہ بھی اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا کریں (۳) تیسری ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو اپنے نفسوں میں قائم کرنے والے ہوں یعنی ہمارے ہر قول اور ہر فعل سے یہ ثابت ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اب بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری عزتوں کا سرچشمہ ہیں اور ہر فیض کی کنجی آپ کو عطا کی گئی ہے۔آپ کا وجود خدا نما ہے اور اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے قرب کو پا لینے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی اطاعت ضروری ہے ہمیں چاہئے کہ ہمارا ہر فعل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق ہو ورنہ دنیا یہ کہے گی کہ تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فلاں اُسوہ کی پیروی نہ کر کے آپ کی عزت پر یہ دھبہ لگایا ہے۔ تمہارے نزدیک وہ فعل خدا کی نگاہ میں اتنا معزز نہیں تھا کہ اس کی پیروی کی جائے۔ غرض ہمارے فعل کے نتیجہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر دنیا کی نگاہ میں نعوذ باللہ ایک داغ پیدا ہوتا ہے حقیقتاً تو وہ داغ نہیں ہوتا کیونکہ اس داغ کے ہم ذمہ دار ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذمہ دار نہیں لیکن دنیا کی نگاہ میں ایک داغ پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یوں سمجھنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کی آنکھ میں ایک دھبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب کوئی دنیا دار اپنی اس داغدار آنکھ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے تو وہی دھبہ جو اس کی آنکھ کا ہے آپ کی شخصیت پر بھی اسے نظر آتا ہے جیسے بڑی عمر کے اور بوڑھے لوگ بعض دفعہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری نظر دھندلاگئی ہے یعنی ہر چیز ہمیں دھندلی دھندلی نظر آتی ہے حالانکہ وہ چیز دھندلی نہیں ہوتی بلکہ جو آنکھ دھندلا گئی ہے اس کا اثر اس کے نفس پر یہ پڑا کہ وہ چیز اُسے دھندلی نظر آئی۔ پس ہماری غلطی کے نتیجہ میں یہ نگاہ جس کو ہم نے داغدار کیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک داغ دیکھتی ہے۔ گو یہ حقیقت ہے کہ وہ داغ وہاں نہیں ہے بلکہ اس آنکھ میں داغ ہے لیکن اس کا نتیجہ تو اتنا ہی بھیانک اور خطرناک ہے جتنا نعوذ باللہ اس صورت میں ہو تا کہ اگر ممکن ہوتا تو اس کی نظر کی طرح آپ کی شخصیت پر بھی داغ ہوتا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جس کو ہماری آنکھ داغدار دیکھتی ہے اس کی ہم پیروی کیوں کریںاور قصور ہمارا ہوتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی غفلت اور بے توجہی کے نتیجہ میں اور اپنی سستیوں اور اُن وساوس کے نتیجہ میں جو شیطان نے ہمارے دل میں پیدا کئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو چھوڑ دیا ہم نے آپ کے بعض نمونوں کو چھوڑ دیا اور اس طرح پر ہم اس چیز میں کامیاب نہ ہوئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم کریں۔ یہ ایک بڑا نازک معاملہ ہے۔ بڑی اہم ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد کی گئی ہے۔
ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں کے ہر پہلو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کا حسن و احسان پیدا کرنے کی کوشش کریں تا اس کے نتیجہ میں یہ اندھی دنیا خدا کے فضل سے روشنی حاصل کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو پہچاننے لگے اور اس طرح پر وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی عزت کا مالک بنایا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عزتوں کی تقسیم کیلئے ایک منبع قرار دیا تھا اس کو پہچاننے لگیں اور اس کے طفیل اور اس کے ذریعہ سے اور اس کی قوت قدسی کے نتیجہ میں اور اس کے افاضۂ روحانی کے بعد اللہ تعالیٰ کی عزت کو پہچاننے لگیں جو اصل عزتوں کا مالک ہے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ۳ تا۷)

ہمارے اقتصادی نظام کی منصوبہ بندی اور اس کے فیصلوں کی بنیاد حق و حکمت پر مبنی ہونی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ اعداد و شمار کو چھپایا نہ جائے بدنیتی سے استعمال نہ کیا جائے۔
٭ اللہ تعالیٰ کا امر ہی زمین پر چلتاہے۔
٭ مظہر اَتم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔
٭ فیصلے کرتے وقت تمام رعایا کا خیال رکھو۔
٭ جب بھی کوئی منصوبہ بنائیں آئندہ نسل کا خیال رکھیں۔


تشہد و تعوذ اور سورہ ٔفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :
اسلام کی اقتصادی تعلیم کے اصول اور فلسفہ کے متعلق جو خطبات میں دیتا رہا ہوں انہیں کے تسلسل میں میرا آج کا خطبہ ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم نے جب مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کا حکم فرمایا تو دین کے جو گیارہ لغوی معانی یہاں چسپاں ہوتے ہیں ان سب تقاضوں کو پورا کرنے کا حکم دیا۔ اسلام نے عبادت محض ذکر کو یا محض دعا کو یا محض عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کو قرار نہیں دیا بلکہ اسلامی تعلیم انسان کے ہر عمل کے متعلق ایسی ہدایت دیتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ایک مخلص بندہ اپنے عمل کو اس کی ہدایت کے مطابق کرے تو اس کا ہر عمل خواہ وہ دنیادار کی نگاہ میں ایک دنیوی عمل ہی کیوں نہ ہو عبادت بن جاتا ہے ۔ اسلام نے انسان کی اجتماعی زندگی اور اقتصادی تقاضوں کے متعلق بھی ایک حسین تعلیم ہمیں عطا کی ہے۔ اگر ہم اپنے اقتصادی تعلقات اور اقتصادی زندگی میں اسلام کی بتائی ہوئی تعلیم کو مدنظر رکھیں اور اس پر عمل کریں تو ہماری ہر اقتصادی کوشش بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت بن جاتی ہے۔
دین کے آٹھ معانی کے متعلق میں ا س سے پہلے بیان کر چکا ہوں ۔ اس کے نویں ، دسویں اور گیارہویں معنی کے متعلق میں نے بیان کرنا ہے۔ سو دین کے نویں معنے حساب کرنا ، محاسبہ کرنا ہیں ۔ دسویں معنے ہیں فیصلہ اور گیارہویں معنے ہیں جزا اور بدلہ۔ میں نے اس سلسلہ کے پچھلے خطبہ میں دین کے آٹھویں معنے اور آٹھویں تقاضا کے متعلق کچھ بیان کیا تھا۔ میرا وہ بیان تدبیر کے متعلق تھا کیونکہ میں نے جس ترتیب سے یہ معانی لکھے ہیں اس کے لحاظ سے دین کے آٹھویں معنے تدبیر کے ہیں اور اسی پر میں نے خطبہ دیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ میں ایک عظیم اقتصادی نظام دنیامیں قائم کرنا چاہتا ہوں اس لئے اقتصادیات کو اپنی ڈگر پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ اس کے لئے تدبیر کرنی پڑے گی ، منصوبہ بنانا پڑے گا۔ سالانہ ، چار سالہ ، پانچ سالہ یا دس سالہ جیسا کہ ضرورت ہو پلان (Plan) بنانے پڑیں گے۔ سکیمیں بنانی ہوں گی ، منصوبے تیار کرنے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے سارے منصوبوں کو خالصۃً میرے لئے بنانا اور اپنے سارے منصوبوں کو اس طرح تیار کرنا کہ اس کے نتیجہ میں تم میری صفات کے مظہر بنو۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین اور باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے جن کا تعلق تدبیر کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم منصوبہ بنائو گے اور تم اپنے اس منصوبہ کی تیاری میں میری صفات کا مظہر بنو گے تو تمہارے سامنے یہ بات آئے گی کہ اس کے لئے تمہارے پاس سارے اعداد و شمار ہونے چاہئیں ساری ضرورتیں تمہارے سامنے ہوں کسی ایک خطہ کی ضرورت نہیں بلکہ تمہیں رعایا کے تمام شہروں اور تمام خطوں کی ضرورتوں کو سامنے رکھنا پڑے گا کیونکہ مکمل اعداد و شمار تیار کرنے کے بعد ہی وہ منصوبہ بنایا جا سکتا ہے جو اس تدبیر کے مطابق ہو جو اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ۔ مدبر حقیقی تو اسی کی ہستی ہے اسی کی تدبیر اور اسی کا حکم اور اسی کا امر آسمانوں اور زمین پر چلتا ہے لیکن چونکہ اس نے انسان کو اعلیٰ روحانی ترقیات کے لئے پیدا کیا تھا اس لئے اس نے انسان کو یہ اختیار دیا کہ چاہے وہ ہدایت کی راہ کو اختیار کرے اور چاہے وہ شیطانی راستوں پر چلنے لگے۔ اس اختیار دینے کے نتیجہ میں اور اس وجہ سے کہ اس نے بڑی اخلاقی اور روحانی اور جسمانی ترقیات کرنی تھیں ، جہاں تک انسان کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کے ایک حصہ کو انسان کے سپرد کیا اور اسی وجہ سے تفاوت پیدا کیا۔ کسی کو ایک قسم کی قوتیں اور استعدادیں عطا کیں اور دوسرے کو ایک اَور قسم کی قوتیں اور استعدادیں عطا کیں تا تمام بنی نوع انسان ایک دوسرے کی خدمت میں لگے رہیں اور جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں ان حقوق کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق قائم کرنے والے ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ساری تدبیر خود ہی کر دیتا جیسا کہ اس نے درختوں کے متعلق ساری تدبیر خود کر دی یا جیسا کہ ہیرے کے بننے میں جو مختلف قوتیں چاہئیں تھیں اور جتنا زمانہ چاہئے تھا اور جتنے دوروں میں سے گزر کر مٹی کے ذرّوں نے ہیرا بننا تھا یہ سارا انتظام اللہ تعالیٰ نے خود کر دیا ۔ ہیروں کو اپنی ارتقا کے لئے اور اپنی خصوصیات کو کمال تک پہنچانے کے لئے کسی منصوبہ کے بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے لئے روحانی ترقیات مقدر نہیں تھیں۔ یہی حال درختوں اور جانوروں کا ہے ۔ انسان کے علاوہ ہر مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کامل اور مکمل تدبیر ، ایک کامل اور مکمل منصوبہ کہ جس کے کسی حصہ پر بھی ان کا اپنا اختیار نہیں بنا دیا اور اس کے مطابق یہ دنیا چل رہی ہے لیکن انسان کے ساتھ اس نے ایسا سلوک اس لئے نہیں کیا کہ اس کے لئے روحانی ترقیات مقدر تھیں اس نے ان روحانی ترقیات کے حصول کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو پا لینے کی خاطر بہت سے کام اپنے اختیار سے کرنے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اشیاء تو سب بنا دیں لیکن ان سے کام لینے کی قوتیں اور استعدادیں جو تھیں ان میں تفاوت پیدا کر دیا اور مختلف قوتوں اور استعدادوں کے نتیجہ میں جو پیداوار ہوئی اس کی تقسیم کے لئے خود ہدایت دی اور انسان کو کہا کہ تم میرے حکم سے صاحب اختیار تو ہو لیکن میرا یہ بھی حکم ہے کہ اگر تم نے اپنے اس اختیار کو میری ہدایت کے مطابق استعمال نہ کیا تو تم میرے غضب کے نیچے ہو گے اور اگر تم اس اختیار کو جو میں نے تمہیں دیا ہے میری ہدایت کے مطابق استعمال کرو گے تو تم میری رحمت کے سایہ تلے ہو گے اور میری خوشنودی کو تم حاصل کرو گے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے تدبیر کا ایک حصہ انسان کی روحانی ترقیات کی خاطر اس کے سپرد کیا اور اس کو کہا کہ یہ اشیاء تو میں نے بنا دی ہیں اور میں نے تمہیں بہت سی قوتیں بھی عطا کی ہیں۔ اب تم اپنے اختیار سے بہت سی ترمیمیں ان اشیاء میں کر سکتے ہو مثلاً میری مخلوق کے اجزا کو تجزیہ کے ذریعہ تم پھاڑ سکتے ہو اور علیحدہ کر سکتے ہو اور پھر ترکیب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق انہیں ایک نئی شکل میں جوڑ سکتے ہو چنانچہ نائیلون وغیرہ کے جتنے کپڑے ہیں یا بہت سے رنگ اور بہت سی جرم کش ادویہ وغیرہ ہیں وہ اسی قانون کے مطابق انسان کو ملیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور انسان نے اللہ تعالیٰ کی ہر اس صفت کا مظہر بننا تھا جو ہماری زندگی سے تعلق رکھتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ظلی طور پر اس کے خالق بننے کے سامان پیدا کر دئے اگر وہ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو انسان اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا مظہر نہ بنتا اگر اللہ تعالیٰ جو مدبر حقیقی ہے اس کو منصوبہ بنانے کی قوت نہ عطا کرتا تو اس میں اس صفت کا مظہر بننے کی طاقت نہ ہوتی پھر وہ مقصد حاصل نہ ہو سکتا جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے ۔ مظہر اتم تو رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے لیکن ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق ذات باری کا مظہر بن سکتا ہے اور مظہر بننے کے جو سامان تھے وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ہیں۔
غرض مدبر حقیقی تو خدا تعالیٰ ہی ہے لیکن تدبیر کا ایک حصہ اس نے انسان کے سپرد کیا اور کہا کہ اگر تم میرے مدبر ہونے کی صفت کا مظہر بنو تو تم میرے قرب کو پا لو گے کیونکہ ہر قسم کا قرب الٰہی حقیقۃً مظہر صفات باری ہونے کی جھلک ہے مثلاً اللہ تعالیٰ پاک ہے اس لئے جب انسان پاک ہوتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اس لئے جب انسان اپنی خداداد طاقتوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے ایک شاکر بندہ کی حیثیت میں خلق کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’خالق‘‘ کا مظہر بن جاتا ہے ۔ وہ بعض اجزا کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر ترکیب کے ذریعہ یعنی ان کو ملا کر نئی شکلیں بنا دیتا ہے اور اس میں نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ صفات باری کا مظہر بنے اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جس رنگ میں ہے اسی طرح اس کی اس صفت کا مظہر بننے کے نتیجہ میں اس کی ربوبیت کے جلوے بھی دنیا دیکھے ، یعنی بنی نوع انسان اس کے نفس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جلوے دیکھنے والے ہوں اور اس طرح ان میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کی رغبت پیدا ہو اور ان کے لئے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا آسان ہو جائے کیونکہ جب وہ دیکھیں گے کہ ان جیسا ایک انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن گیا ہے تو پھر ہم صفات باری کے مظہر کیوں نہیں بن سکتے۔ غرض تدبیر کے اس حصہ کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے سپرد کیا۔ اور اس کے متعلق جو اقتصادیات سے تعلق رکھنے والا مضمون تھاوہ میں پہلے پچھلے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب تم میری ہدایت کے مطابق اس میدان میں جس میں تمہیں اختیار دیا گیا ہے تدبیر کرو گے اور منصوبے بنائو گیپلان (Plan) تیار کرو گے ، سکیمیں سوچو گے ، تو تمہیں تین چیزوں کی ضرورت پڑے گی ایک تو سٹیٹسٹکس (Statistics) یعنی اعداد و شمار تمہارے سامنے ہونے چاہئیں ورنہ تمہارے منصوبہ کی وہ غرض پوری نہیں ہو گی جو میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ذریعہ پوری کروں۔ پھر جب تم ان اعداد و شمار کو اپنے سامنے رکھو گے تو غور و فکر کر کے تمہیں کچھ فیصلے کرنے پڑیں گے اور تیسرے جب تم کچھ فیصلے کرو گے تو تمہارے بہت سے فیصلے جزا کے طور پر ہوں گے یعنی ان کے نتیجہ میں کسی فرد کو یا کسی گروہ کو بدلہ مل رہا ہو گا ۔ تمہارے یہ تینوں عمل خالصۃً میرے لئے ہونے چاہئیں اور اس غرض سے ہونے چاہئیں کہ میرا رنگ تمہاری صفات پر چڑھے اور تم میری صفات کے مظہر بننے کے قابل ہو جائو۔
فرمایا جو حساب ہے یعنی اعدادو شمار ہیں وہ خالصۃً میرے لئے اکٹھے کئے جائیں اعداد و شمار کو چھپایا نہ جائے ، نہ بدنیتی سے استعمال کیا جائے۔ یہ معمولی حکم نہیں ہے بلکہ بڑا ایک اہم حکم ہے کیونکہ ہم اس دنیا میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب اعداد و شمار اکٹھے کئے جاتے ہیں تو ان میں انسان (جو اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا) بڑا دجل بھی کرتا ہے ۔ مثلاً تنزانیہ (مشرقی افریقہ) سے جب غیر ملکی عیسائی حکومت جانے لگی تو اس کو پادریوں نے یہ تاثر دیا کہ وہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے اور چونکہ ان لوگوں کا دستور یہ ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے کام خوبصورت شکل میں کرتے ہیں خواہ اندر سے نیت دجل کی ہی کیوں نہ ہو ۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ بڑی اچھی بات ہے یہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے اس لئے جب ہم اس ملک سے جائیں گے تو حکومت عیسائیوں کے سپرد کر دیں گے کیونکہ دنیا میں جمہوریت کا یہی اصول ہے کہ اکثریت کی حکومت ہوا کرتی ہے۔ انہوں نے شہریوں کے اعدادو شمار اکٹھے کئے۔ سنسز (Census) کے ان اعداد و شمار کے نتیجہ میں انہیں پتہ لگا کہ تنزانیہ میں سب سے زیادہ بد مذہب ہیں ، دوسرے نمبر پر مسلمان ہیں اور سب سے کم عیسائی ہیں۔ اب ایک مصیبت پڑ گئی کیونکہ جس نیت سے سنسز (Census) کی گئی تھی وہ پوری نہ ہوئی۔ انہوں نے ملک کی حکومت عام تاثر کے ماتحت عیسائیوں کے سپرد کر دی اور سنسز (Census) کے نتائج کا اعلان آج تک نہیں کیا۔ پس سٹیٹسٹکس (Statistics) کا علم جو اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر ہمیں دیا ہے انسانی ذہن اس کو بھی دجل اور ظلم کی راہوں پر استعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے یہ کام نہیں کرنے ۔ تم جب بھی اعداد و شمار اکٹھے کرو تو یہ مقصد تمہارے سامنے ہونا چاہئے کہ تمام مادی اشیا اور اسباب تمام بنی نوع انسان کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور سب کے حقوق ادا ہونے چاہئیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان کا رنگ کیا ہے۔ ان کا مذہب کیا ہے ، ان کے خیالات کیا ہیں ، ان کے اخلاق کیسے ہیں۔ ان کا جو حق اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے وہ انہیں ملنا چاہئے کوئی دہریہ ہو یا بدمذہب یا اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو گالیاں دینے والا اور دکھ پہنچانے والا ہو ، اس کی جسمانی اور ذہنی (اخلاقی اور روحانی مطالبات تو ایک اور شکل میں پورے کئے جاتے ہیں) قوتوں کی صحیح نشوونما کے لئے جن مادی اسباب کی ضرورت ہے وہ اس کے لئے رب العالمین نے پیدا کئے ہیں۔ تم بھی جب اپنے کسی منصوبہ کے لئے اعداد و شمار اکٹھے کرو تو اس بات کا خیال رکھو کہ رعایا میں سے کوئی فرد واحد بھی ایسا نہ رہے جس کو اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ حق نہ ملے۔ اعدادو شمار کو غلط رنگ میں استعمال نہیں کرنا ، بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔
اس زمانہ میں اعداد و شمار اکٹھے کرنے مشکل نہیں اس وقت بہت سی سہولتیں حاصل ہیں۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر گھر کے متعلق معلومات حاصل کر کے رجسٹر بنا لئے تھے اور ان کی مادی ضرورتیں ایک اصول کے ماتحت پوری کی جاتی تھیں اور وہ اصول یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو حق کسی کا قائم کیا ہے وہ اسے مل جائے اور اگر پھر بھی کچھ اموال بچ جائیں تو انہیں بعض دوسرے اصولوں کے ماتحت تقسیم کر دیا جائے یعنی اللہ تعالیٰ نے مثلاً کسی کو اتنی قوتیں اور استعدادیں دی ہیں کہ اموال کی سو اکائیاں (سو یونٹ) اس کی کامل نشوونما کے لئے چاہئیں تو پہلا اصول حضرت عمر ؓ نے یہ قائم کیا کہ یہ سَواکائیاں (یونٹ) اس شخص کو مل جانی چاہئیں خواہ وہ کوئی ہو اور اگر زائد اموال بچ جائیں جیساکہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کو دیکھتے ہوئے جو بے نفس صحابہ پر کیا گیا تھا انہیں ساری دنیا کے اموال عطا کر دئیے تھے ۔ قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں لا ڈالے تھے پھر بھی وہ بے نفس رہے۔ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں انہوں نے اپنی زندگی کے دن گزارے۔ ان کی ضرورتوں (ضرورت سے مراد وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ اس سے وہ حق مراد نہیں جو دنیا نے خود مقرر کر لیا ہے)کو پورا کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے بعد اموال بچ جاتے تھے اور یہ اموال جو بچ جاتے تھے ان کی تقسیم کے لئے بھی حضرت عمرؓ نے بعض اصول وضع کئے تھے جن کی تفصیل میں اس وقت جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ان اصول کے مطابق ان اموال کو تقسیم کر دیتے تھے۔ بہر حال پہلا مطالبہ جو ہمارے ربّ نے ہم سے کیا ہے یہ ہے کہ جب تم اعداد و شمار اکٹھے کرو تو وہ اعداد و شمار صحیح ہوں اور پھر جب ان اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر تم کوئی منصوبہ بنائو ، تو اس بات کا خیال رکھو کہ وہ منصوبہ صرف پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہ ہو۔ وہ منصوبہ صرف مشرقی پاکستان کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہ ہو ۔ وہ منصوبہ صرف سندھ کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہ ہو ، وہ منصوبہ صرف صوبہ سرحد کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہ ہو بلکہ وہ ایک ایسا منصوبہ ہو جس سے ہرپاکستانی شہری کو فائدہ پہنچتا ہو ورنہ تم مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیَْنَ نہیں ہو گے۔ دنیا میں تم چالاکیاں کر کے شاید بعض لوگوں کی نظر میں عزت بھی حاصل کر لو، لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تم صرف اسی وقت عزت حاصل کر سکتے ہو جب تمہارے منصوبے صحیح اعداد و شمار کی بنا پر اس رنگ میں تیار کئے جائیں کہ اعداد و شمار کے استعمال میں دجل نہ ہو ، بے انصافی نہ ہو ۔ رعایا جن کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری تم پر عائد کی گئی ہے ان سب کے وہ حقوق جو اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں اور جن کی طرف راہنمائی اس شخص یا اس خاندان یا اس خطہ کی قوتیں ، قابلیتیں اور استعدادیں کر رہی ہیں پورے ہو جائیں یعنی سارے پاکستانیوں کے حقوق پورے ہو جائیں۔ پھر اگر کچھ بچ جائے یعنی اگر زائد پیداوار ہو تو اس کے متعلق قرآن کریم نے بعض اور احکام دئیے ہیں ان پر عمل کیا جائے گا۔
تیسرے یہ فرمایا کہ اعداد و شمار جو ہوں گے ان کے متعلق تمہیں کچھ فیصلے کرنے پڑیں گے مثلاً ایک بنیادی فیصلہ تو یہی ہے کہ دجل سے کام نہیں لینا۔ غرض اس کا جو منفی حصہ ہے وہ تو اس پہلے مطالبہ سے تعلق رکھتا ہے کہ اعداد و شمار کے استعمال کے وقت دجل نہیں کرنا ، ظلم نہیں کرنا ، بے انصافی نہیں کرنی بلکہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول پر منصوبے بنانے چاہئیں اور اعداد و شمار کا جو صحیح استعمال ہے وہی استعمال ہو غلط استعمال نہ ہو۔
۱۹۴۷ء میں جب بائونڈری کمیشن بیٹھا تو اس کمیشن کے سامنے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دجل کیا گیا۔ ہندوئوں نے یہ دجل کیا کہ انہوں نے بائونڈری کمیشن کے سامنے یہ بات پیش کر دی کہ گو ضلع گورداسپور کی مجموعی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں لیکن ضلع کی بالغ آبادی میں اکثریت ہندوئوں کی ہے اور چونکہ ووٹ بالغ آبادی نے دینا ہے اس لئے یہ ضلع بھارت میں شامل ہونا چاہئے۔ ہم جب وہاں سے واپس آئے تو ہم سب بہت پریشان تھے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اگر ہمیں ۱۹۳۵ء کی سنسز رپورٹ (Census Report) مل جائے کہ اس وقت تک سب سے آخر میں ۱۹۳۵ء میں ہی سنسز (CENSUS) ہوئی تھی اور ایک کیلکولیٹنگ مشین Calculating Machine مل جائے جو جلد جلد ضرب اور تقسیم کرتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے راتوں رات ایک ایسا نقشہ تیار کر سکتا ہوں کہ اس سے ضلع گورداسپور کی بالغ آبادی کی صحیح تعداد (Census) کے اصول کے مطابق معلوم ہو جائے گی ۔ سنسز (Census) کے متعلق انہوں نے بعض اصول مقرر کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کے لحاظ سے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ہر گروپ کی وفات کی فی صد انہوں نے مقرر کی ہوئی ہے۔ وہ تو ایک سال کی عمر سے شروع کرتے ہیں لیکن ہم نے ایسی عمر سے یہ کام شروع کرنا تھا کہ انہیں ۱۹۴۷ء میں بلوغت تک پہنچا دیں مثلاً انہوں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ تین سال کی عمر کے بچے چار سال کی عمر کے ہونے تک سَو میں سے پچانوے رہ جائیں گے۔ پھر چار سال سے پانچ سال کی عمر کے ہونے تک وہ سَو میں سے اٹھانوے رہ جائیں گے۔ بہر حال انہوں نے بعض اسی قسم کے اصول وضع کئے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر گروپ کو ضربیں اور تقسیمیں دے کر ہندوئوں اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد نکالنی تھی اور وہ تعداد معلوم کرنی تھی جو ۱۹۴۷ء میں بالغ ہو چکی تھی اور جو پہلے بالغ تھے ان کی تعداد تو پہلے ہی دی ہوئی تھی، میں نے حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فوراً مناسب انتظام کر دیا۔ راتوں رات مجھے شاید پچاس ہزار یا ایک لاکھ ضربیں دینی پڑیں اور تقسیمیں کرنی پڑیں لیکن بہر حال ایک نقشہ تیارہو گیا اور اس نقشہ کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلم بالغ آبادی کی فی صد مجموعی لحاظ سے کچھ زائد تھی۔ کم نہیں تھی۔ اگلے دن صبح جب مکرم چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے یہ حساب پیش کیا تو ہندو بہت گھبرائے کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے اور انہیں خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ بہر حال میں بتا رہا تھا کہ اعداد و شمار کو ظالمانہ طریق پر بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمارے رب کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہیں سٹیٹس ٹکس (Statistics) یعنی اعداد و شمار پر اپنے منصوبہ کی بنیاد رکھنی پڑے گی لیکن ان اعداد و شمار کا استعمال مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ماتحت ہونا چاہئے۔ اس میں دجل نہیں ہونا چاہئے۔ ظلم نہیں ہونا چاہئے، بے انصافی نہیں ہونی چاہئے۔ حق تلفی نہیں ہونی چاہئے اعداد و شمار کا استعمال ہماری ہدایت کے مطابق ہو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اعداد و شمار جب تمہارے سامنے آئیں گے تو تمہیں کچھ فیصلے کرنے پڑیں گے مثلاً یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کپڑا بننے کے کتنے مزید کارخانوں کی ضرورت ہے۔ شکر کے کارخانے کتنے اور چاہئیں۔ لوہا کتنا چاہئے۔ سیمنٹ کتنا چاہئے۔ ہزار قسم کی چیزیں ہیں جن کی آج دنیا میں ضرورت پڑتی ہے ان میں سے ہر چیز کے متعلق فیصلہ کرنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ فیصلہ اس کی صفات کے پر تَو کے نیچے ہونا چاہئے ، تا تم اس کی رحمت کے سایہ تلے رہو اور اس لئے اس کی رحمت کے سایہ تلے رہو کہ اس طرح تم اس کی صفات کے مظہر بن جائو۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی قضا اور فیصلے کو بنیادی رنگ میں کس طرح پیش کیا ہے ، کیا تعلیم دی ہے ، کیا بتایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات جب فیصلے کرتی ہیں تو ان کی کیا شکل ہوتی ہے جب ہم قرآن کریم پر اس لحاظ سے غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللّٰہُ یَقْضِیْ بِالْحَقِّ (مومن:۲۱) جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے تو وہ حق و حکمت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔ اس لئے اس نے فرمایا اے میرے بندو! جب تم یہ فیصلہ کرو کہ اقتصادی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کس قسم کے منصوبے تیار ہونے چاہئیں تو ’’حق‘‘ کو مدنظر رکھو۔ ’’حق‘‘کے لفظ کو عربی زبان موافقت اور مطابقت کے معنے میں استعمال کرتی ہے لیکن میں چونکہ اقتصادیات کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کے مطابق تمہارے فیصلے ہونے چاہئیں۔ اس کے معنے یہی ہیں کہ وہ فیصلے حکمت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ یہ بات بھی حقوق کے اندر ہی آجاتی ہے مثلاً حکیمانہ فیصلہ یہ ہو گا کہ ہر عمر کے لحاظ سے جس قسم کی غذا ہماری رعایا کو چاہئے وہ غذا اس عمر کے گروپ کے لئے مہیا کی جائے اور منصوبہ اس کے مطابق بنایا جائے مثلاً دودھ ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر تک دودھ بڑا ضروری ہے۔ بڑی دیر کی بات ہے میں جب انگلستان میں پڑھا کرتا تھا اس وقت بھی انگریزقوم کو اس طرف توجہ تھی اور لوگ بڑا اچھا خالص دودھ موٹروں وینز Vans) میں جو سامان اٹھانے کے لئے ہوتی ہیں) میں لادے چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں میں بھی پھرتے رہتے تھے۔ بعض دفعہ بعض بچوں کو میں نے اس نیت سے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا کہ مجھے ان کے اخلاق اور عادات کے متعلق علم حاصل کرناہوتا تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ بے تکلف ہو جائیں۔ اسی طرح سکولوں وغیرہ میں بھی خالص دودھ مہیا کیا جاتا تھا۔
یہ تو ایک مثال ہے۔ اصول یہ ہے کہ ہر عمر کے لحاظ سے مختلف قسم کی غذائوں کی ضرورت ہوتی ہے اور حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جس قسم کی غذا کی کسی عمر کے بچے کو ضرورت ہے وہ غذا اسے ملنی چاہئے۔ پھر ایک ہی عمر میں بچے کانسٹی ٹیوشنلی (Constitutionally) یعنی بناوٹ کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں اور بناوٹ کا یہ اختلاف ، اختلاف غذا کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک بچہ ایسا ہے جس کا جسم زیادہ دودھ مانگ رہا ہے۔ ایک بچہ ایسا ہے جس کا جسم زیادہ پروٹینز (Proteins) مانگ رہا ہے ایک بچہ ایسا ہے جس کا جسم زیادہ سٹارچ (Starch) مانگ رہا ہے۔ ایک بچہ ایسا ہے جس کا جسم زیادہ فیٹ (Fat) یعنی چکنائی اور مکھن وغیرہ مانگ رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے فیصلے حکمت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ رب العالمین نے جو قوتیں عطا کی ہیں ان کی کامل نشوونما ہونی چاہئے اور اس کامل نشوونما کے لئے ایک بچہ کا جسم ہمیں کچھ کہہ رہا ہے اور دوسرے بچہ کا جسم ہم سے کچھ اَور مطالبہ کر رہا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے فیصلے حکمت کے ماتحت ہونے چاہئیں اور جس قسم کی پکار کسی کی قوت اور استعداد کی ہے اس پکار کو سننا تمہارا فرض ہے اور اس کی ضرورت کو پورا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔
پھر اس میں یہ بھی آجاتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت ساری رعایا کا خیال رکھنا چاہئے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ، ساری رعایا سے مراد میری اس کی مجموعی حیثیت نہیں ، بلکہ اس کے گروپ بنائے جائیں ، کیونکہ کسی گروپ کا زبان حال سے اقتصادی لحاظ سے کچھ مطالبہ ہے اور کسی کا کچھ مطالبہ ، اور یہ سارے مطالبے پورے ہونے چاہئیں کیونکہ اگر ہم یہ مطالبے پورے نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کی نشوونما اپنے کمال تک نہیں پہنچ سکتی اور مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے نشوونما میں اپنے کمال تک پہنچے اور یہی مقصود ہے اسلام کی اقتصادی تعلیم کا اور اس کے لئے ساری تفصیل اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے۔
’’حق ‘‘ کے معنے بہت وسیع ہیں اور یہ آیت جو میں نے ابھی پڑھی ہے انسان کے ہر شعبہ زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ، لیکن میں اس وقت اقتصادیات کے متعلق بات کر رہا ہوں اور بار بار اس بات کو اس لئے دہراتا ہوں تا کسی کے دماغ میں خلط یا اشتباہ پیدا نہ ہو ۔ بہر حال حق کے معنی کے اندر یہ آتا ہے کہ اقتصادی حقوق کی ادائیگی کے لئے کس چیز کو مدنظر رکھا جائے یعنی جن اندازوں کے مطابق کوئی چیز چاہئے ان کے لحاظ سے وہ چیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور جس وقت اس چیز کی ضرورت ہو اس کو فورسی (Foresee) کرنا حق کا تقاضا ہے۔ مثلاً پہلے یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ اگلے دس سال کے بعد پاکستان کی آبادی اتنی ہو جائے گی اور پھر اس آبادی کو مدنظر رکھ کر اس وقت کے لئے منصوبہ تیار کرنا یَقْضِیْ بِالْحَقِّ کے اندر آجاتا ہے ۔ حق کے لغوی معنی کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے کہ وقت اور اندازہ کا خیال رکھا جائے یعنی یہ بات اس کے معنی کے اندر پائی جاتی ہے کہ ایسے وقت میں وہ چیز حاصل ہو ، جب اس کی ضرورت لاحق ہو ۔ کئی ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے دس سال پہلے تیاری کی جاتی ہے۔ مثلاً غذا کا مسئلہ ہی ہے ، پہلے ہمارے ملک میں غذا کی پیداوار میں کمی ہو گئی تھی۔ اب ہمارے ملک میں غذا کی پیداوار ضرورت کے مطابق ہو گئی ہے لیکن چونکہ آبادی بڑھ رہی ہے اس لئے منصوبہ بناتے وقت آج ہمیں دس سال بعد کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ ورنہ ہم دس سال بعد اپنی ضرورت کو پورا نہیں کر سکیں گے جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ’’حق‘‘ کے معنی میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ آئندہ نسلوں کا خیال رکھنا بھی حال کی نسل پر لازم ہے۔ بہر حال اسلامی اقتصادی تعلیم کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کا حق جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے پورا ہو اور پھر جس وقت کے لئے وہ حق قائم کیا گیا ہو اس وقت وہ حق پورا ہو۔ یعنی ایک تو یہ ہے کہ آج جو حقوق کسی کے قائم کئے گئے ہیں وہ پورے ہوں لیکن زندگی اور موت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے کوئی آتا ہے اور کوئی چلا جاتا ہے ۔ حقوق کے نقشہ میں ہر آن تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ مجموعی طور پر نسل بڑھ رہی ہے اور نسل بڑھنی ہی چاہئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے ۔ ہمارے نزدیک اب پھر دنیا میں ایک غلط قسم کا دَور شروع ہوا ہے۔ جس وقت میں پڑھا کرتا تھا اس سے دس پندرہ سال پہلے انگلستان میں ایک بڑی مہم چلی تھی کہ نسل نہ بڑھائی جائے اور جب ہم پڑھا کرتے تھے اس وقت انہوں نے کہا کہ اگر نسل بڑھنے کی یہی رفتار رہی تو آئندہ سَو سال کے بعد کوئی انگریز باقی نہیں رہے گا ۔ سب انگریز مر چکے ہوں گے ۔ اس لئے زیادہ بچے پیدا کرو۔ انسان چونکہ جاہل ہے ، غیب کی باتوں کا اسے علم نہیں۔ اس لئے وہ غلط اندازے کر کے غلط فیصلے کر جاتا ہے ۔
نسل بہر حال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور وہی رزّاق ہے اس لئے ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن منصوبہ بندی کا جو کام ہے وہ ایک حد تک اور ایک دائرہ کے اندر ، اللہ تعالیٰ نے انسان کے سپرد کیا ہے۔ اس دائرے کے اندر جب بھی ہم کوئی منصوبہ بنائیں تو اس میں اگلی نسل کا خیال رکھنا ضروری ہے اور پھر اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حق کی ادائیگی ہو اور جب بھی کوئی حق پیدا ہو قوم اس کو ادا کرنے کے لئے پہلے سے تیار ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ عدل و انصاف پر ہوتے ہیں ، اس کے دوسرے معنے یہ کئے گئے ہیں ۔ میں تمہیداً بیان کردوں کہ اس آیت کے جو معنے پہلے کئے گئے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ لیکنفَاِذَا جَآئَ رَسُوْلُھُمْ قُضِيَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ (یونس:۴۸)
کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امت کی طرف رسول بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہی عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جاتے ہیں اور حقوق قائم کئے جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا وجود اور کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ہر جہت سے کامل ہو اور جو ہر علم پر محیط ہو اور اللہ تعالیٰ ہی حق کو قائم کر سکتا ہے۔
پس فرمایا: فَاِذَا جَآئَ رَسُوْلُھُمْ قُضِيَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ (یونس:۴۸) کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ خاتم النبیین کی حیثیت میں ایک کامل اور مکمل شریعت لے کر آئے تو تمام حقوق کو قائم کرنے اور تمام حقوق کی ادائیگی کے متعلق جو تعلیم تھی وہ بھی اپنے کمال کو پہنچ گئی۔
قُضِيَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ میں پیداوار کی تقسیم کے متعلق ہدایت دی گئی ہے۔ جب کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے تو اس کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو ہوتا ہے پیدا کرنا اور دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس منصوبہ نے جو پیدا کیا ہے اس کو تقسیم کرنا۔ اب مثلاً باوجود اس کے کہ ہماری حکومت اور ہمارے ملک کا یہ منصوبہ بڑا کامیاب ہوا ہے کہ ضرورت کے مطابق اجناس ملک میں پیدا ہو جائیں اور اب ہمارے ملک میں مجموعی لحاظ سے غذا کی کمی نہیں ہے ، یعنی مجموعی لحاظ سے جتنا کھانا سارے پاکستانیوں کو ملنا چاہئے تھا وہ پیدا ہو گیالیکن اس کے باوجود آپکو ملک میں بھوکے نظر آئیں گے اس لئے کہ رزق تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق پیدا ہو گیا لیکن اس کی تقسیم جو انسان نے کرنی تھی وہ صحیح نہیں ہوئی ، اس کے اندر نقص رہ گیا ہے۔ اسی نقص کی وجہ سے گو گندم وافر مقدار میں ملک میں موجود ہے مگر پیٹ بھوکے ہیں۔ پیٹ خالی ہیں کیونکہ ان پیٹوں تک گندم نہیں پہنچتی۔ اس کا انتظام نہیں کیا گیا۔ قُضِيَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ میں ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب تم کوئی منصوبہ بنائو تو وہ منصوبہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں سب کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہو۔ اور اگر تم خدا ئی ہدایت پر عمل کرو گے تو ایسا ہو گا کہ اس کی تقسیم بھی منصفانہ ہو گی اور پھر اس کے بعد کوئی پیٹ بھوکا نہیں رہے گا، کوئی تن ننگا نہیں رہے گا۔ کوئی خاندان بغیر سایہ کے نہیں رہے گا۔ کوئی بیمار یہ حسرت دل میں لے کر نہیں مرے گا کہ میرا علاج ہونا چاہئے تھا مگر مجھے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ نہ ننگ نظر آئے گا اور نہ کوئی ہاتھ مانگنے کے لئے دوسرے کے سامنے پھیلے گا۔ ہر شخص کی عزت قائم ہو گی۔ ہر شخص کو اس کا حق مل رہا ہو گا لیکن حق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ، وہ حق نہیں جو لوگ اپنی طرف سے بنا لیں۔
تیسری بات جو منصوبہ بناتے وقت مدنظر رکھنی چاہئے جزا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جزا بھی مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیَْنَ کے ماتحت ہو یعنی خالصۃً اللہ کے لئے ہو۔ میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ جب ہم کوئی منصوبہ بناتے ہیں تو بہت سوں کو کچھ بدلے بھی دیئے جاتے ہیں۔ یہ منصوبہ کا ایک لازمی حصہ ہے لیکن چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اس حصہ کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں انشاء اللہ اگلے جمعہ بیان کروں گا۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۶؍نومبر۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا ۸)
٭…٭…٭

کارکنوں کی اُجرت ان کی بہترین کارکردگی کے مطابق معیّن ہونی چاہئے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ منصوبہ بندی کے ساتھ تین چیزوں کا تعلق ضروری ہے۔
٭ انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا چاہئے۔
٭ تمہاری کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہئے۔
٭ کارکن کو آخری عمر میں ہر قسم کی پریشانیوں سے محفوظ رکھنا چاہئے۔
٭ نئے کارخانوں کی ان کو اجازت ملنی چاہئے جنہوں نے اپنے زائد مال کو خدا کی راہ میں خرچ کیا ہو۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
میں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ تدبیر اور منصوبہ اور Planning(پلاننگ) کا وہ حصہ جو انسان کے اختیار میں دیا گیا ہے اور جس کے متعلق یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنتے ہوئے اپنی تدابیر کیا کرو ، یا اپنا منصوبہ بنایا کرو اس تدبیر کے ساتھ یا اس منصوبہ بندی کے ساتھ تین چیزوں کا تعلق ضروری ہے۔ اوّل: اعداد و شمار اکٹھے کرنے کادوم: ان اعداد و شمار کے پیش نظر منصوبہ بندی کی تفاصیل طے کرنے کا۔ میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں اپنے اس مضمون میں جو اقتصادیات سے تعلق رکھتا ہے ان دو باتوں کے متعلق جو دراصل ’’اَلدِّیْنُ ‘‘ کے دو معنوں (نویں اور دسویں تقاضے) پر مشتمل ہیں بیان کیا تھا۔ آج اس منصوبہ بندی کی تیسری شق یعنی اَلدِّیْنُ کے گیارھویں معنے کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔
’’اَلدِّیْنُ ‘‘ کے گیارہویں معنے یہ ہیں کہ جو بھی تدبیر کی جاتی ہے یا جو بھی منصوبہ بنایا جاتا ہے اس کے ایک بڑے حصے کا تعلق جزا اور بدلے سے ہوتا ہے۔ پس ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی منصوبہ بندی میں ایسے فیصلے کئے جائیں کہ جن کا تعلق جزایا بدلہ دینے سے ہو تو اس میں بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان جلووں کو جنہیں قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے دیکھتے ہیں اور ان پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جزا یا بدلہ دینے کے لئے جو جلوے ہیں وہ اصولی طور پر ان آیات میں بیان ہوئے ہیں جن کی میں اس وقت مختصراً تفسیر بیان کروں گا اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے :
وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (العنکبوت:۸)
کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جزا اور بدلہ دینے کے سلسلہ میں اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ انسان کے اعمال کی جو بہترین جزا ہو سکتی ہے وہ جزا اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے یعنی انسانی اعمال کی جزا یا بدلے کا تعلق ان جلووں کے ماتحت ہوتا ہے جس کا ذکر اس آیہ کریمہ میں کیاگیا ہے۔
پس ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب ہماری منصوبہ بندی بدلہ دینے کے فیصلے کرے تو یہ فیصلے بہترین بدلہ کے مظہر ہونے چاہئیں۔ بہترین بدلہ محض مزدوری یا اجرت کے اصول پر نہیں دیا جا سکتا ایک تو اس لئے کہ یہ ایک اندھا اصول ہے اس کی رو سے مثلاً ایک اچھے کام کرنے والے Unskilled (غیرماہر) مزدور کو بھی عام طور پر وہی تنخواہ دی جاتی ہے جو ایک درمیانے درجے کے ایسے مزدور کو ملتی ہے۔ ایک بڑے عقلمند اور بڑے ذہین اور بڑی توجہ سے کام کرنے والے کلرک یا کسی کارخانے کے افسر کو جس کی کارکردگی کے نتیجہ میں پیداوار میں معتدبہ اضافہ ہوتا ہے اور آمدنی میں بڑی ترقی ہوتی ہے ایک مقررہ تنخواہ دی جاتی ہے اگر اس کی جگہ کوئی درمیانے درجہ کا افسر آجائے تو اس کو بھی وہی تنخواہ ملے گی جو اس اچھے افسر کو دی جاتی رہی ہے حالانکہ ان دونوں کی حسن کارکردگی میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا اظہار اس قسم کے اندھے ماحول سے پاک ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نور ہی نور ہے اور وہ تو بصارت اور بصیرت کا منبع اور سرچشمہ ہے اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور اس کی تمام صفات کی طرح یہ جزا اور بدلہ دینے کی صفت بھی ہر چیز کی ضرورت کے مطابق جلوہ گر ہوتی ہے۔
پس ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تمہارے اقتصادی نظام میں جب بھی اجرتوں کی ادائیگی کا سوال پیدا ہو تو اس وقت اس بات کو بھولنا نہیں چاہئے کہ کام کرنے والے ہر مزدور یا کلرک کو ، ہر افسر یا منتظم یا مینجر کو اس کام کی بہترین اجرت ملنی چاہئے۔ تاہم انسان کا علم محدود ہے اور اس کے راستہ میں ہزار روکیں ہیں اور اس نقص اور کمزوری ہی کے نتیجہ میں تنخواہ کا اصول بنایا گیا۔ بالعموم کمزوری دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو اس لحاظ سے کہ انسان کا علم ناقص ہے ہر چیز انسان کے سامنے نہیں ہوتی اور دوسری کمزوری یہ ہے کہ جو بات اس کے اختیار اور طاقت میں ہے اس میں بھی وہ کمزوری دکھاتا ہے وہ اتنی محنت نہیں کرتا جتنی اسے کرنی چاہئے تھی اور جس کی وہ قدرت رکھتا تھا مثلاً ایک کارخانہ ہے اس میں پانچ سو یا ایک ہزار مزدور کام کر رہا ہے تو اگر اسلامی اصول کو اس میں پوری طرح لاگو کیا جائے تو یہ ضروری ہو گا کہ ایک رجسٹر ہو جس میں ہر مزدور کی کارکردگی درج ہو کیونکہ اس کی مزدوری یعنی اس کے کام ہی نے یا اس کی توجہ اور اس کی محنت ہی نے اس کارخانے کی مجموعی پیداوار پر ایک خاص اور خوشکن اثر ڈالنا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے مزدوروں کا پیداوار میں ایک جیسا حصہ نہیں ہے کیونکہ ہر ایک کی قابلیت اور توجہ کا معیار الگ الگ ہے ایک مزدور ہے جس میں زیادہ قابلیت ہی نہیں اپنی قابلیت کے لحاظ سے وہ بے شک پوری توجہ بھی دیتا ہے لیکن کم قابلیت ہونے کی وجہ سے وہ اتنا پیدا نہیں کر سکتا نہ پیدا کرتا ہے کہ جتنی پیداوار ایک دوسرے مزدور کی ہے۔ پس جب تک پورے حالات سامنے نہ ہوں اس وقت تک یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کس کو کتنی اجرت ملے اور پھر یہ بھی کہ ایسی اجرت بہترین اجرت بھی کہلا سکتی ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں اجرتوں کا جو اصول کارفرما ہے اس کی رو سے شاید مزدوریوں یا اجرتوں میں فرق کرنا مشکل ہو جائے چنانچہ اس مشکل کو دور کرنے کے لئے انسانی ذہن نے ایک اور راستہ بھی سوچا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس راستے کو صحیح اور پورے طور پر اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے جلوے اجرتوں کی تعین کے سلسلہ میں ہم اپنی زندگیوں میں دکھا سکتے اور اس طرح ہم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن سکتے ہیں اور یہ مزدوروں کو بونس دینے کا رواج ہے۔ مختلف کارخانے اپنے مزدوروں کو مختلف شکلوں میں مختلف نسبتوں سے بونس دیتے ہیں لیکن اسلامی اصول ادائیگی اجرت کے مطابق اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ اس کے مطابق اجرتوں کی تعیین کرنی چاہئے شاید ہی کوئی کارخانہ ہو جو عمل کر رہا ہو۔
پس اگر ایسے رجسٹر ہوں جن میں ہر ایک مزدور کی حسن کارکردگی درج ہو تو سب مزدوروں کو ایک جیسی مزدوری ملنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور اسی طرح جب سال گزرنے کے بعد نفع کا حساب لگایا جائے مثلاً ایک کارخانے کو پچاس لاکھ روپیہ نفع ہوا اس نفع میں سارے شریک ہیں یا اکثر شریک ہوں گے لیکن ان کا حصہ مختلف ہونا چاہئے کیونکہ ایک وہ مزدور ہے جس کی قابلیت بھی زیادہ تھی اور جس نے محنت بھی زیادہ کی اور جس نے کام بھی زیادہ توجہ اور محبت اور پیار سے کیا اور اس نیت سے کیا کہ اس طرح زیادہ سے زیادہ پیداوار جو میں کر سکتا ہوں وہ میں کروں گا۔ پس ایسے قابل ، ذہین ، محنتی اورنیک نیت مزدور کا حصہ بہر حال زیادہ ہونا چاہئے۔ اس کے برعکس ایک ایسے مزدور کا حصہ جس میں اتنی قابلیت بھی نہیں ، توجہ اور محنت سے کام کرنے کی اسے عادت بھی نہیں سستی سے کام کرتا ہے وہ نہیں ہوناچاہئے جو ایک اچھے مزدور کا ہے۔ پس مجموعی نفع میں حصہ دار بنانے میں ہر ایک کی حسن کارکردگی مدنظر رکھنی چاہئے۔
بہر حال حکم یہی ہے کہ تم بہترین عمل بجا لائو۔ تمہاری کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہئے اور پھر جس کی جتنی کارکردگی ہے اس کے مطابق مجموعی نفع میں اس کا حصہ معین ہونا چاہئے۔ اس صورت میں بہترین جزا بنتی ہے ورنہ محض تنخواہ یا اجرتوں کے اصول پر بہترین جزا یا بدلہ دینے کی صورت نہیں پیدا ہو سکتی اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب میں اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ کے اصول کے مطابق کسی کے عمل کی بہترین جزا یا بدلہ دیتا ہوں تو تمہیں میری اس صفت کا بھی مظہر بننا چاہئے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی یہ صفت دنیا میں جلوہ گر ہے اسی طرح تمہیں بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا مظہر بنتے ہوئے اپنی زندگی میں اس قسم کے فیصلے کرتے وقت بہترین جزا ، بدلہ دینے کا جلوہ دکھانا چاہئے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات میں دوسری قسم کا جلوہ یہ نظر آتا ہے وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل:۹۸) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں بہترین جزا دیتا ہوں یہاں یہ اصول بیان فرمایا کہ میں بہترین عمل کے مطابق بدلہ دیتا ہوں یعنی محنت سے کام کرنے والوں پر بہترین کام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی اس بہترین جزا یا بدلہ دینے کی صفت کاجلوہ ظاہر ہوتا ہے۔ ایک شخص مثلاً سال میں بارہ مہینے کام کرتا ہے اور اس کے نو مہینے کی کارکردگی بڑی اچھی ہے لیکن تین مہنیے کا کام کسی مجبوری کی وجہ سے جس میں بیماری بھی ہو سکتی ہے ایسی بیماری جس کے نتیجہ میں رخصت لینے پرمجبور نہیںہوا لیکن جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی پر اثر پڑا۔ پس اس کی اجرت کی تعیین اس کے بہترین کام کے زمانہ کے لحاظ سے ہونی چاہئے یہ نہیں کہ سمودیا جائے یا یہ نہیں کہ کم کارکردگی یعنی اس کی مجبوری کی وجہ سے جو اس کی کارکردگی متاثر ہو گئی تھی اور اسمیں کسی قدر نقص واقع ہو گیا تھا۔ اس کے مطابق اس کی اجرت کی تعیین کی جائے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دراصل اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ کام کرنے والا خواہ مزدور ہو یا کلرک کوئی اور منتظم ہو یا مینجر ، جو بھی ہو اسے اپنی قوت اور قابلیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے پوری توجہ اور محنت سے کارکردگی دکھانی چاہئے اور جنہوں نے ان کی اجرت چکانی تھی اور ان کی مزدوری کی تعیین کرنی تھی ان سے یہ فرمایا ان کی اجرت کی ادائیگی ان کے بہترین کام کے زمانہ کے مطابق ہونی چاہئے یعنی وہ زمانہ جو ان کی کارکردگی کا بہترین زمانہ ہے اس کے مطابق ان کی اجرت یا مزدوری کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ یہ فیصلہ خواہ تنخواہ کی صورت میں ہو یا مجموعی نفع میں شرکت کی صورت میں ، دونوں صورتوں میں بہترین کارکردگی کے مطابق اُجرت معین ہونی چاہئے۔ اس صورت میں ایک اچھے مزدور کو ان ایام میں بھی وہی کچھ ملے گا جن میں وہ بیمار رہا ہے ۔ بیماری کی وجہ سے اس کو چھٹی لینی پڑی ہو یا بیماری کی وجہ سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی ہو۔ بعض دفعہ مثلاً ہلکے سردرد کی وجہ سے انسان سمجھتا ہے کہ میں اتنا بیمار نہیں کہ رخصت لوں لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اتنا تندرست بھی نہیں کہ حسب معمول زیادہ قابلیت اور محنت اور توجہ سے بہترین کام انجام دے سکے لیکن جب عذر جائز ہو اور بہانہ جو طبیعت کا تقاضا نہ ہو ، صحیح عذر ہو ، واقع میں وہ بیمار ہو ، رخصت لینی پڑے یا بیماری کی وجہ سے اس کے کام پر اثر پڑا ہو ، تو اس کے کام میں اس نقص کی بنا پر اس کی تنخواہ یا اس کے نفع کے متوقع حصہ پر اثر نہیں پڑنا چاہئے بلکہ اس کا جو بہترین کام ہے اور بہترین کارکردگی رہی ہے اس کو اس کے مطابق ہی اجرت ملے گی۔ اگر وہ خدا نخواستہ بیمار ہو جائے تو بیماری کے ایام میں پوری اجرت ملے گی۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں بہترین عمل کی بہترین جزا سے متعلق جو حکم دیا ہے اس پر ہمیں بھی غور کرنا چاہئے ہمارے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے کارکنان اللہ تعالیٰ کے فضل سے خواہ ہم ان کو واقف کہیں یا نہ کہیں بہر حال وہ ایک طرح کے واقف زندگی ہی ہیں کیونکہ وہ قربانیاں دیتے ہیں اپنے حقوق کو چھوڑتے ہیں (قربانی کا آخر یہی مطلب ہے نا کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے حقوق کو چھوڑ دیتا ہے) پس اگر اس طرف پہلے توجہ نہیں ہوئی تو اب اگر یہ ممکن ہو ہماری اتنی آمدنی ہو کہ ہم بیماری کی رخصتوں میں اپنے کارکنان کو پوری تنخواہ (جو کہ پہلے ہی کم ہے) دے سکیں تو ان کو ضرور دینی چاہئے۔ ویسے ہمارے سارے کارکنان خوشی سے قربانی دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی دوسرے رنگ میں ان کی اس قربانی کی انشاء اللہ بہترین جزا عطا فرمائے گا لیکن اقتصادی دنیا کے لئے اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون وضع کیا ہے اور اپنے اس جلوہ کا اظہار فرمایا ہے کہ میں جو سب سے اچھا عمل ہو اس کے مطابق جزا دیا کرتا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اگر انسان اس کی صفات کا مظہر بننا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت کے سب سے اچھے عمل اور اس کی سب سے اچھی کارکردگی کے مطابق اسے اُجرت یا مزدوری دیا کریں اور اسی اصول کے مطابق پنشن مقرر ہونی چاہئے۔ ویسے روحانی لحاظ سے انسان کی پنشن اس کی موت کے بعد کی نئی زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ موت حقیقۃً اس زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کی ابتدا ہے اور یہیں سے روحانی طور پر پنشن کا آغاز ہوتا ہے اور اس دوسری زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی اصول ہے کہ بہترین عمل کے مطابق جزا ملے گی لیکن اس دنیا کے حقوق کو اللہ تعالیٰ نے اس بنیادی اصول پر قائم کیا ہے کہ اس شخص یا اس کے خاندان کی قابلیتوں کے مجموعہ کی نشوونما کے کمال کے لئے جس چیز کی اسے ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملنی چاہئے۔
اس دنیا میںانسان جس وقت پنشن کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس وقت عام طور پر اس کے خاندان کے بہت سے افراد خود کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اس کے پندرہ بیس سال پہلے کے حقوق نہیں رہتے بلکہ کم ہو جاتے ہیں۔ ان حقوق کو مدنظر رکھ کر اگر پنشن بنتی ہو تو پھر ٹھیک ہے ۔ اس کی تنخواہ کا نصف اس کی پنشن مقرر ہو گی یا مثلاً بیس سالہ سروس ہے تو شاید تنخواہ کا۳؍۱حصہ بطور پنشن کے ملتا ہے ۔ یہ سارے اصول بنے ہوئے ہیں لیکن ان اصولوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اس اصول پر ہونی چاہئے جس کا جلوہ اس نے دکھایا ہے کہ جب بھی جزا یا بدلہ دینے کا سوال پیدا ہو میری صفات کے اس جلوہ پر عمل کرتے ہوئے بہترین جزا یا بدلہ کے طور پر مجموعی اجرت یا مجموعی نفع حصہ رسدی دینے کی کوشش کی جائے۔
اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شادی بڑی عمر میں ہوئی یا جن کے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت بعض بڑے بچے فوت ہو گئے اور جس وقت وہ اپنی پنشن کی عمر کو پہنچے تو ان کی ساری اولاد تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو اچھا ذہن بھی عطا کر رکھا تھا۔ پس اجرت کے لحاظ سے یہ رحیمیت کے جلوے ہیں رحمانیت کے جلووں کا علیحدہ اصول ہے رحیمیت کے جلووں میں یعنی جو اس نے کام کیا ہے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس دنیا میں اتنا تنوع پایا جاتا ہے کہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو نہیں ہانکا جا سکتا۔
پس ایسے پنشن پانے والے جن پر ان کے حالات کے مطابق بوجھ ویسا ہی ہے کم نہیں ہوا۔ کوئی بیٹا کما نہیں رہا بچیوں کی شادی نہیں ہوئی ان کو پنشن پوری تنخواہ کے برابر ملنی چاہئے سوائے اس کے کہ انسان اپنی سہولت کے لئے رحیمیت کے ان جلوؤں کو رحمانیت کی صفت کے جلووں کے اندر لے آئے اور اس کی ضرورت کو دوسری طرح پوری کر دے یہ تو ٹھیک ہے اس صورت میں اس کی پنشن نصف رہے یا ایک تہائی یا چوتھائی رہے اگر اور صفت باری کے جلوؤں کی مظہریت میں اس کے سارے حقوق اس کو مل جاتے ہیں تو فبہا ، اس کے سارے حقوق اس کو مل گئے لیکن اگر رحمانیت کے جلووں کی مظہریت میں یا ان کے مظہر بننے کی جدوجہد میں اس کے وہ حقوق نہیں ملے تو سمجھ لینا چاہئے کہ رحیمیت کے جلوے ان کی حفاظت کر رہے ہیں اگر رحیمیت کے جلووں سے اس کے بعض حقوق کو نکالنا ہے تو پھر ضروری ہے کہ انسان رحمانیت کے جلووں میں اس کو لے آئے کہ قطع نظر اس کے کہ کسی کی کارکردگی کیا تھی اللہ تعالیٰ نے جو اس کے حقوق قائم کئے ہیں وہ انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے۔ بہر حال ہر ایک آدمی کے حقوق ادا ہونے چاہئیں اور اس کو آخری عمر میں ہر قسم کی پریشانیوں سے محفوظ رکھنا چاہئے۔
یہ تو تھا اس جزا سے تعلق رکھنے والا مضمون جو کارکردگی کے نتیجہ میں ایسی کارکردگی ، ایسی ذمہ داری ، ایسی محنت جو بڑی نمایاں ہے اور جس کے مطابق دنیا مزدوریاں دیا کرتی ہے اس کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ بعض جزا اور اجر یا بدلے ایسے نہیں ہوتے جو ان ظاہری پیمانوں پر پورے اتریں۔ چنانچہ جب منصوبہ بندی ہوتی ہے Private Sector (پرائیویٹ سیکٹر) میں یعنی جہاں مختلف سرمایہ داروں نے روپیہ لگانا ہو بغیر کسی ایسے اصول کے جن کا اللہ تعالیٰ مطالبہ کرتا ہو مختلف لوگوں کو مختلف قسم کے کارخانے لگانے کی اجازت دے دی جاتی ہے یا ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں جن کا تعلق اس کے حق سے نہیں بنتا وہ حق جو اللہ تعالیٰ نے معین اور قائم فرمایا ہے مثلاً ایسے اشخاص جو کارخانہ کھولنے کے متمنی ہوتے ہیں ان سے کہہ دیا جاتا ہے کہ Bank Balance (بینک بیلنس) دکھائو یا دوستیاں ہیں یا سفارشیں ہیں وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کی نالائقیاں اس اقتصادی دنیا میں چل رہی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں بھی اپنی بعض صفات کے جلووں کا ذکر قرآن کریم میں فرمایا ہے مثلاً آج یا کل کے اخبار میں تھا کہ شکر کے کچھ اور کارخانے لگانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کپڑا بنانے کے کچھ اور کارخانے لگوانے کی بھی ضرورت ہے۔ اب یہ کارخانے لگانے کی کسی نہ کسی پارٹی کو اجازت دی جائے گی۔ ان سے کہا جائے گا کہ ہم سہولتیں دیتے ہیں تم یہ کارخانے قائم کرو ۔ یہ بھی دراصل ایک قسم کی جزا یا بدلہ ہے جو ان کو دیا گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس قسم کی اجازت کو بھی جزا یا بدلہ قرار دیا ہے لیکن کس چیز کی جزا ؟ کیا اس چیز کی جزا کہ خونی رشتہ تھا ؟ کیا اس چیز کی جزا کہ مخلصانہ دوستی تھی ؟ کیا اس چیز کا بدلہ کہ یہ پہلے ہی بڑا سرمایہ دار تھا؟ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو قبول نہیں کرتا اور نہ ان کو جائز وجہ قرار دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰیo وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ
(طٰہٰ:۱۲۷،۱۲۸)
فرمایا جو شخص یا گروہ یا جماعت یا Management (انتظامیہ) اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل نہیں کرتی اور اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے احکام کو بھلا دیتی ہے وہ رحمت کی تقسیم کے وقت بھی بھلا دی جاتی ہے اور جوجو خدائی ہدایت اور شریعت سے باہر نکل جاتا ہے اور اسراف کرتا ہے اور اپنے نفس کے حقوق سے زائد رکھنا چاہتا ہے یا زائد لینا چاہتا ہے اور دوسرے کی حق تلفی کرتا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہوتا ہے کہ رحمت کی تقسیم کے وقت اس کو ترک کر دیا جاتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے :
سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰـتِنَا سُوْئَٓ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یَصْدِفُوْنِo
(الانعام:۱۵۸)
اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک یہ جلوہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو اس کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے انہیں اللہ تعالیٰ اس بے عملی کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے اور اس دنیا میں عذاب کی ایک شکل یہ ہے کہ وہ اس کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ان دنوں آیات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ اس قسم کا منصوبہ بناتے وقت کہ کس پارٹی کو شکر کا کارخانہ لگانے کی اجازت دی جائے یا کس پارٹی کو کپڑا بنانے کا کارخانہ لگانے کی اجازت دی جائے یہ امر مدنظر رہنا چاہئے کہ صرف وہ پارٹی یہ کارخانے لگانے کی مستحق ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اقتصادی اصولوں پر عمل کیا ہو اور وہ حقوق اپنے زائد اموال میں سے ادا کئے ہوں جن کے ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہر ایسے شخص کو ہدایت کر رکھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جنہیں اس نے کمانے کی توفیق عطا فرمائی تھی یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم نے تمہیں یہ توفیق عطا کی ہے کہ تم اپنے حقوق نیز دوسروں کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے جن اموال کی ضرورت ہے اس سے زیادہ کما لو اور یہ اس لئے تھا کہ تم میری بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق ان زائد اموال کو (یہاں جب میں زائد اموال بولتا ہوں تو وہ اموال مراد ہیں جو ان کے اپنے حقوق کی ادائیگی سے زائد ہیں) میرے دوسرے بندوں کے جائز حقوق کی ادائیگی میں خرچ کرو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو کارخانہ دار اپنی کمائی کے زائد اموال میں سے دوسرے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں خرچ نہیں کرتا اس کا یہ حق نہیں ہے کہ اسے ایک نیا کارخانہ کھولنے کی اجازت دی جائے بلکہ یہ حق تو اس کا بنتا ہے جو اپنے زائد اموال کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں خرچ کرتا ہے لیکن وہ جو اسراف کرتا ہے اور ظلم سے کام لیتا ہے اور اپنے لئے وہ حقوق تسلیم کروانا چاہتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں دئیے اور دوسروں کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور جو زائد اموال اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لئے دئیے گئے تھے یعنی یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو اموال ایسے شخص کو دئیے جاتے ہیں اس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ حصہ جو اس کے اپنے حقوق ، اس کے خاندان کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہیں لیکن اس کے ان اموال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اپنے اموال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بھی حاصل کرے اس کے انعام اور فضل کا وارث بھی بنے یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق قربانی کرے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے مگر یہ شخص اس دوسری ہدایت پر عمل نہیں کرتا اور اسراف کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جو یہ ہدایت ہے کہ صرف اپنے حقوق لینے کی تمہیں اجازت ہے سوائے اس کے کہ جب ساروں کے حقوق ادا ہو جائیں پھر بھی اموال بچ جائیں اور اس دنیا میں ایسا ہو جاتا ہے پس اس صورت میں اس کو فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے خرچ کی جو جائز راہیں کھولی ہیں ان پر تم اپنا روپیہ خرچ کر سکتے ہو ناجائز یا حرام اخراجات کی اجازت نہیں دی جا سکتی یعنی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اے میرے ربّ ! تو نے مجھے کمانے کی توفیق عطا کی تھی میں نے تیری اس توفیق کے نتیجہ میں ایک سال میں دس لاکھ روپیہ کمایا۔ تو نے میرے حقوق قائم کئے تھے میں نے اپنے حقوق کے طور پر یا اپنے خاندان کے حقوق کے طور پر یا اپنے Dependents(ڈی پنڈنٹس) کے حقوق کے طور پر دو لاکھ روپیہ خرچ کیا۔ آٹھ لاکھ روپیہ جو بچ گیا تھااس میں سے میں نے تیرے بندوں کے مطالبہ پر (حکومت کے مطالبہ پر) جن کا کام منصوبہ بنانا اور ساری قوم کا خیال رکھنا ہے چھ لاکھ روپیہ ان کو دے دیا اور اس طرح کسی غیر کا کوئی حق میرے ذمہ باقی نہیں رہا کیونکہ میرے ذمہ جتنے بھی حقوق بنتے تھے وہ میں نے سارے کے سارے ادا کر دئے ۔ اب دو لاکھ روپیہ میرے پاس بچتا ہے مجھے اجازت دی جائے کہ جس طرح میں چاہوں اسے خرچ کروں ، چاہوں تو شراب پیوں ، عیش و عشرت میں اپنا وقت گزاروں یا نمائش کروں ، اسراف یا ریاء سے کام لوں کیونکہ میرے جو حقوق تو نے قائم کئے تھے وہ مجھے مل گئے اور تیرے بندوں کے جو حقوق تھے وہ ان کو مل گئے اس لئے اس دو لاکھ کے زائد روپیہ کو جائز یا ناجائز راہوں پر خرچ کرنے کی مجھے اجازت ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے فرماتا ہے کہ بیشک تو نے اپنی اس ذمہ داری کو نباہا کہ اپنے اور اپنے خاندان کے حقوق کو پورا کیا اور دوسروں کے بھی حقوق کو ادا کیا اور اس ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہو گیا مگر ان ساری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد جو تمہارے پاس مال بچ گیا ہے تم اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بنائو اللہ تعالیٰ کے غضب کو مول لینے کا موجب نہ بنائو کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف کام کرو گے تو اس کے نتیجہ میں تمہاری چاروں قسم کی قابلیتیں جن کی تفصیل پہلے خطبات میں بیان ہو چکی ہے کی صحیح اور کامل نشوونما نہیں ہو سکے گی بلکہ ان کی نشوونما میں روک پیدا ہو جائے گی۔ تمہارا اسراف کرنا ، تمہارا ظلم کرنا، تمہارا ریاء کرنا اور تمہارا نمائش کے طور پر اپنے زائد اموال کو خرچ کرنا یہ ساری چیزیں تمہاری قابلیتوں کو اجاگر کرنے کا ذریعہ نہیں بنیں گی بلکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم بنا دیں گی۔ اس لئے اپنے زائد اموال کو اس رنگ میں خرچ کرو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کے غضب کی نگاہ نہ پڑے بلکہ تم پر ہمیشہ اس کی رحمت اور اس کے پیار کی نگاہ پڑتی رہے۔
جس عذاب کا سورہ انعام میں ذکر کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ تو اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً یہی ہے کہ اگر ایک مسلم حکومت کسی کارخانہ دار کو یہ کہے کہ چونکہ تم نے خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اپنے زائد اموال کو خرچ نہیں کیا اس لئے نئے کارخانے لگانے کی تمہیں اجازت نہیں دی جائے گی حکومت کا یہ فیصلہ ہی اس کی طبیعت کے لحاظ سے اس دنیا میں اس کے لئے کافی عذاب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہو کہ اسکو عذاب ہی ملے (اس کے غضب سے ڈرتے رہنا چاہئے) تو اس سے بھی سخت تر عذاب میں بھی وہ مبتلا کر سکتا ہے کیونکہ اگر ذہنیت یہ ہو کہ جو مال ملا ہے وہ سب اپنے پاس ہی رکھنا ہے اور اس کو خداتعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا ذریعہ نہیں بنانا تو پھر ایک وقت میں آکر اس کے اموال میں زیادتی کے جو راستے ہیں اگر ان کو بند کر دیا جائے تو یہ اس کیلئے ایک بہت بڑا عذاب بن کر رہ جاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ حکم دیا ہے کہ جب تم کوئی تدبیر کرو یا کوئی منصوبہ بنائو اور تم اس کے لئے نیک نیتی کے ساتھ اعداد و شمار اکٹھے کرو کسی چیز کو پس پردہ نہ رہنے دو ۔ جہاں جہاں بھی کسی چیز کی ضرورت تھی تم نے اس کے پورا ہونے یا پورا کرنے کے لئے فیصلے کئے اور تمہارا اس سے سوائے اس کے کوئی اور مقصد نہیں کہ تم اس کے ذریعہ سے میری رضا حاصل کرو۔ اس لئے تمہارے یہ فیصلے میری صفات کے جلووں کے مظہر بننے کے لئے تھے اور پھر تم نے جو منصوبہ بنایا اس میں جزا کے دو حصے ہیں۔ ایک کام کرنے والے کی اجرت کا حصہ ہے جس کی ادائیگی ’’اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ‘‘ کے اصول کے مطابق اور ’’بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل میں آنی چاہئے۔اگر تمہیں اس اصول کی رو سے تفصیل طے کرنے میں مشکل نظر آئے یعنی یہ مشکل کہ کسی کی تنخواہ کم اور کسی کی زیادہ ہو تو پھر مجموعی نفع میں حصہ دار بنائو یعنی مزدوروں کی مقررہ تنخواہ یا اُجرت کے علاوہ ان کو حسن کارکردگی کے مطابق مجموعی نفع میں بھی شریک کرو اور یہ تو کام کرنے والے کی اُجرت تھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے جلوے کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کی صفت رحیمیت کا ایک اور جلوہ تمہاری زندگیوں میں اس طرح بھی نظر آنا چاہئے کہ ایسے کارخانے دار جو اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی پیروی کرنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے سب اقتصادی احکام کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تم ان کی عزت و احترام کرو اور انہیں مزید کارخانے لگانے کی اجازت دو کیونکہ وہ اپنے اور اپنے خاندان اور دوسرے لواحقین کے حقوق کی کماحقہ ، ادائیگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق کو بھی پورا کرتے ہیں اور ان ذمہ داریوں سے کماحقہ ، عہدہ برآ ہو جانے کی صورت میں ان کے پاس جو زائد اموال بچ جاتے ہیںوہ ان اموال کو بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس کی مخلوق کی بہتری اور بہبودی کے لئے خرچ کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے زائد اموال تو اس لئے عطا فرمائے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کے مطابق جائز طریق پر خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنیں لیکن انہوں نے عقل سے کام نہ لیا غفلت کے پردوں میں پڑے رہے اور اپنے زائد اموال کو ان راہوں پر خرچ کیا جن راہوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔
فرمایا جب تک یہ دنیا قائم ہے منصوبے تو بنتے رہیں گے جب بھی نیا منصوبہ بنے گا نئے کارخانے لگانے کی ضرورت پڑے گی ایسے لوگ تمہارے پاس آئیں گے اور کہیں گے ہمارے پاس بڑا سرمایہ ہے ہمیں مزید کارخانے کھولنے کی اجازت دی جائے ایسے وقت ان سے کہہ دیا جائے کہ تمہارے پاس جو سرمایہ ہے وہ ظلم کے نتیجہ میں جمع ہوا ہے اس کی تو تمہیں سزا ملنی چاہئے نہ کہ انعام انہیں نئے کارخانے لگانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے البتہ ان لوگوں کو اجازت ملنی چاہئے جنہوں نے اس سے قبل اپنے زائد اموال کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق خرچ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان سے ’’ اَلدِّیْنُ ‘‘ کے معنوی لحاظ سے اقتصادیات سے تعلق رکھنے والے جو گیارہ مطالبے کئے ہیں میں نے ان مطالبات پر مشتمل اقتصادی مضمون کو اختصار کے ساتھ اس کی محض اصولی باتوں کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
اب اس مضمون کے دو حصے باقی رہ جاتے ہیں ایک تو وہ جن کا حق (ابھی تو اصولی طور پر بتایا تھا کہ دوسروں کا بھی حق پیدا ہو جاتا ہے) اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے یعنی ان لوگوں کے متعلق بتانا باقی رہ جاتا ہے جن کے حقوق یا ضروریات اسی طرح کی ہوتی ہیں جس طرح دوسرے صاحب اموال کی ہوتی ہیں مگر اس دنیا میں دنیوی نظاموں کے ماتحت عدم انصاف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے وہ محروم رہ جاتے ہیں یا جن کو بھیک منگاہونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے یہ کون کون سے لوگ ہیں؟ قرآن کریم نے ان کا اصولی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ غرض ایک تو ان لوگوں کے متعلق ذکر کرنا باقی رہ گیا ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے مجھے علم دیا ہے کہ قرآن عظیم کا یہ سارا مضمون سورہ فاتحہ میں بھی پایا جاتا ہے اس لئے میں نے ارادہ کیا تھا کہ اس سارے مضمون کا خلاصہ اور اجمال سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کر دوں تا کہ یہ ساری باتیں اکٹھی ہو کر سامنے آجائیں یہ دو مضامین ابھی باقی ہیں جن پر انشاء اللہ آئندہ روشنی ڈالوں گا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۹؍نومبر۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۸)
٭…٭…٭

اللہ تعالیٰ نے تین نعمتیں (۱) تفسیر القرآن (۲) شرفِ انسانی (۳) خلافت راشدہ کا قیام عطا فرمائی ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام دارالذکر ۔لاہور)
ء ء ء
٭ اپنی قوت اور طاقت کے مطابق تدبیر کو انتہا تک پہنچا دو۔
٭ اِیَّاکَ نَعْبُدُ ریاء کی بیماریوں کا علاج ہے۔
٭ حضرت مسیح موعود ؑکی کتب کا پورے فکر، غور، تدبر کے ساتھ مطالعہ کریں۔
٭ قرآن کریم کو شرف انسانی کے قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔
٭ خلافت ایک نعمت ہے اس کی قدر کریں۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے الفاظ میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ مجھ سے مدد مانگنے سے قبل میری پہلی عطایا کی قدر کرو۔ میں نے تمہیں قوتیں، قابلیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں۔ تمہارے اندرر فعتوں کے حصول کا مادہ ودیعت کیا ہے۔ تمہارے لئے اپنے قرب کی راہوں کو آسان کیا ہے۔ میں نے تمہیں اپنا مقرب بنانے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے ان رفعتوں کے حصول اور ان سیدھی راہوں پر چلنے کے لئے میں نے جو سامان پیدا کئے ہیں تمہارا فرض ہے کہ تم ان کی قدر کرو اور اپنی تدبیر میں پوری طرح انہماک اور جدوجہد کے ساتھ مشغول رہو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنیادی طور پر جتنی بھی طاقتیں اور قوتیں عطا کی ہیں صرف اس لئے عطا کی ہیں کہ ان کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکے۔ اسلام کی حسین تعلیم نے ان چیزوں کو بھی جو ایک دنیادار کی نگاہ میں دنیوی حیثیت کی حامل ہیں اخلاقی اور روحانی بنا دیا ہے انسان طبعاً اپنے ساتھی سے محبت اور پیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ فرمایا کہ تمہاری فطرت کے اس تقاضا کو بھی میں نے اس لئے بنایا ہے کہ اس طرح بھی تو میری محبت اور رضا کو حاصل کرے یعنی اگر لوگ یہ نیت کر لیں کہ ہم نے اپنے ساتھی کے ساتھ یا اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہے اس کے جذبات کا خیال رکھنا ہے اس کے آرام کا خیال رکھنا ہے اور یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرنا ہے تو اس صورت میں انسان کی یہ نیک نیتی اس کے دنیوی اور ذاتی کاموں کو بھی روحانی رنگ دے دے گی۔ اُس کے اس خلوصِ نیت کے باعث اس کے اعمال پر جو رنگ چڑھے گا وہ اُسے اللہ تعالیٰ کی محبت کی نگاہ کا مورد بنا دے گا۔
پس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں کو بھی اور اسی طرح انسان کو ملنے والی دوسری ہر قسم کی نعمتوں کو بھی صحیح اور پورے طور پر استعمال میں لانا نہایت ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے الفاظ میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ جب تم ہر عطائے الٰہی کو فضل الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر لو گے اور اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دو گے تو پھر میرے پاس آنا اور نہایت عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر میرے حضور یہ عرض کرنا کہ اے خدا! تو نے اپنے فضل سے مجھے یہ قوتیں عطا کیں اور ان کی نشوو نما کے لئے ہر قسم کے سامان پیدا کئے۔ میں نے اپنی قوت کے مطابق اپنی طاقت کے مطابق اور اپنی استعداد کے مطابق تیرے عطا کردہ سامانوں کو تیری رضا کے حصول کے لئے استعمال کیا لیکن نہ تو میرا بھروسہ اپنی ان قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں پر ہے جو تو نے مجھے عطا کی ہیں اور نہ میرا تکیہ اُن اسباب پر ہے جو تو نے میرے لئے پیدا کئے ہیں۔ یہ قوتیں اور طاقتیں بے نتیجہ اور یہ استعدادیں بے کار ہو جاتی ہیں اور یہ اسباب بے سود ہو کر رہ جاتے ہیں اگر تیرا فضل شامل حال نہ ہو اس لئے تو اپنا فضل فرما اور اپنی رحمت سے ہماری کوششوں میں برکت ڈال تا کہ ہمیں اپنی زندگی کا مقصد حاصل ہو جائے۔
پس اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں اور دوسری نعماء کماحقہٗ استعمال کریں۔ اُن سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں، تدبیر کریں اور پھر اس کو انتہا تک پہنچائیں اور پھر اپنی کوششوں پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اُسی سے دعا کرتے رہیں اور اس کے حضور جھکے رہیں کیونکہ دین و دنیا کی کوئی بھی بھلائی اور بہتری اُس کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے سب سے بڑی نعمت قرآن عظیم ہے۔ یہ ایک مکمل ہدایت نامہ اور کامل شریعت ہے یہ سرچشمہ ہے ہر خیر کا، یہ منبع ہے ہر برکت کا اور یہ ذریعہ ہے ہر فیض کے پانے کا۔ لَارَیْبَ یہ ایک عظیم کتاب ہے جس کی عظمتوں کی کوئی انتہاء نہیں۔ اس عظیم کتاب کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ یہ کتاب مبین ہے یعنی اس کے وہ عمیق اسرار جو ہم سے پہلوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کئے اور ہم تک پہنچائے۔ جب تک اُن کے لئے ان اسرار اور ان رموز اور ان نئی سے نئی حکمتوں، دلائل عقلیہ اور فلسفہ یا اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی نئی راہوں کی نشاندہی نہیں ہوئی تھی یہ ساری چیزیں قرآن کریم کے دوسرے حصے یعنی کتاب مکنون کا حصہ تھیں لیکن جب ہمارے اسلاف میں سے نامور بزرگوں نے قرآن کریم کے بعض حقائق کو ہمارے سامنے پیش کیا، اس کے اسرار اور رموز سے پردہ اُٹھایا، عقلی اور نقلی دلائل سے اس کی صداقتوں کو ثابت کیا تو ان کی اس تشریح و توضیح کے نتیجہ میں ہمارے لئے یہ کتاب مبین بن گئی کیونکہ اس کے رموز و اسرار پر سے پردہ ہم سے پہلے آنے والوں نے اُٹھایا تھا لیکن جس طرح گلاب کے پھول کی پتیاں ایک کے بعد دوسری کھلتی ہیں اور خرد نمائی اور حسن و خوبصورتی کو دوبالا کرتی چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح قرآن عظیم کی علم و عرفان کی باتیں گلاب کے پھول کی پتیوں کے مشابہ ہیں۔ جب اس کے پُرحکمت کلمات پر سے پردہ اُٹھتا ہے تو ہمیں نیچے اَور پتیاں نظر آتی ہیں۔ ایک نیا زمانہ آتا ہے ایک نئی نسل پیدا ہوتی ہے وہ قرآن مبین سے یعنی جو پہلے تفسیر ہو چکی ہے اس سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔ پھر لوگ دعائیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے ان کیلئے نئی پتیاں کھلتی ہیں اسرار روحانی سے پردہ اُٹھاتے جاتے ہیں انہیں نئے طریقوں کا علم ہوتا ہے نئے علوم کا پتہ لگتا ہے۔
قرآن کریم کا ایک پہلو تو مبین ہے اور اس پہلو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر نسل اضافہ کرتی چلی آئی ہے اور ہر نسل ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کتابِ مکنون اور اس کی حکمتوں کی وارث بھی بنتی رہی ہے۔ ہر نسل کو نئے سے نئے علوم حسبِ ضرورت اور بتقاضائے حالات دیئے جاتے رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اس نے کسی چیز کو بے سہارا نہیں چھوڑا۔
ہمارے اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تاثیروں نے اس انتہائی جوش کی حالت میں آئندہ زمانوں کے لئے بہت سے اسرار کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیئے اور جن کا ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ اُن کے لئے یہ سامان پیدا کر دیئے کہ ان کا سمجھنا نسبتاً آسان ہو جائے کیونکہ ایک حد تک تفسیر ہو چکی ہے اور ایک حد تک باقی ہے۔ بہرحال اس وقت اس قرآن عظیم کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی کتب میں پائی جاتی ہے اگر ہم قرآن عظیم سے دین اور دنیا کی خیر حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اِس نعمت کی قدر کریں اگر ہم قرآن کریم کی ہدایتوں کی طرف متوجہ نہ ہوں گے اگر ہم قرآن کریم کے احکام کی پابندی نہیں کریں گے اگر ہم قرآن کریم سے اس قسم کا عشق نہیں کریں گے تو ہمیں دین اور دنیا کی بھلائی کس طرح مل سکتی ہے ہمیں اس نعمت کی حتی المقدور قدر کرتے رہنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تاثیرات سے ہمیں بھی کتابِ مکنون کا حصہ ملتا رہے جو ہماری زندگی کی پریشانیوں کو دور کرنے والا اور اُلجھنوںکو سُلجھانے والا ہو۔ پس اگر ہم مبین والے حصے کی جو دراصل ایک عظیم نعمت ہے جو ہمیں دی گئی ہے اس کی قدر نہ کریں اور اس سے فائدہ نہ اُٹھائیں تو ہماری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جو کچھ تمہیں دیا ہے پہلے اُس کی قدر کرو یعنی اُسے پورا پورا استعمال کرو اور اس سے کماحقہ، فائدہ اُٹھاؤ۔ پھر میرے پاس آؤ اور کہو اے خدا! تو نے ہماری فطرت میں ایک غیر محدود Urge (خواہش) ایک جذبہ اور ایک شوق رکھا ہے۔ ہم پہلوں سے جو حاصل کر سکتے تھے وہ ہم نے حاصل کیا اب ہم دعا کرتے ہیں کہ تو اپنے فضل سے ہم پر مزید ترقیات کے دروازے کھول دے اور ہمیں قرآن عظیم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اور قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے کی توفیق عطا فرما لیکن اگر ہم پر جو عطا ہو چکی ہے جو کچھ ہمیں مل چکا ہے ہم اس کی قدر نہ کریں اُس کا صحیح استعمال نہ کریں۔ اُس سے پورا فائدہ نہ اُٹھائیں تو ہماری دعا ردّ کر دی جائے گی۔ اس قسم کی دعا ہمارے منہ پر مار دی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میں نے تمہیں دیا ہے اس کی تو تم نے صحیح قدر نہیں کی اور اس سے تو تم نے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا اب جس چیز کو مجھ سے مانگ رہے ہو اس سے تم کیسے فائدہ حاصل کرو گے یا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کیسے کر سکوگے؟ پس ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جو کچھ مل چکا ہے اس کی قدر کرو اور اس سے حتی المقدور فائدہ اُٹھاؤ، اپنی قوت اور طاقت کے مطابق اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دو اور اس کے بعد میرے پاس آؤ اور مجھ سے مانگو، میں تمہیں نئی نعمتیں دوں گا، میں تم پر اپنے فضلوں کے دروازے کھولوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ ریاء اور نمائش کے زہر کا تریاق ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں جتنی قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر صرف اس کی رضا کے حصول کے لئے ہیں۔ اُس کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کے لئے ہیں۔ پس جب انسان اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں اور دوسری ہر قسم کی نعمتوں کا استعمال اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش محض اس لئے کرے کہ خداتعالیٰ کی رضا اس کو حاصل ہو تو پھر ریاء نہیں ہوگا نمائش نہیں ہوگی، کسی کو دکھانے کی خواہش نہیں ہوگی۔ نمائش کے ذریعہ سے لوگوں کی واہ واہ حاصل کرنے کی خواہش اور ارادہ نہیں ہوگا۔ یہ مقام تو فنا کا مقام ہے جب غیر اللہ سے دل تہی ہو جاتا ہے تو اس میں صرف اللہ تعالیٰ کا خیال رہ جاتا ہے جو شخص ہر مخلوق شجر حجر وغیرہ کو استعمال میں لا کر فائدہ اُٹھا سکتا ہے ہر نعمت کو جو آسمان سے آتی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ذریعہ سے نازل ہوتی ہے اس کو محض اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اور جو بھی میں نے کرنا ہے وہ خداتعالیٰ کے لئے کرنا ہے تو پھر انسان کے کسی بھی عمل میں ریاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے انسان کے کسی بھی کام میں حتی کہ اس کے دماغ کے کسی گوشہ میں بھی ریاء کا کوئی دخل ہی نہیں ہوسکتا۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ ریاء کی بیماریوں کا علاج ہے کیونکہ انسان جب سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے یہ اپنی کسی قوت پر اور نہ اپنی کسی قابلیت پر بھروسہ کرنا ہے اور نہ ہی دوسری نعمتوں کو خدائی کا درجہ دینا ہے بلکہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھنا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا، سب کچھ کر لینے کے بعد اور تدبیر کو انتہا تک پہنچانے کے بعد بھی میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہتے ہوئے جھکنا ہے اور یہ کہنا ہے کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا وہ میں نے کر لیا ہے جو کچھ میں کر سکتا تھا یا جو میرے بس میں تھا وہ تو ہو چکا لیکن میں جانتا ہوں کہ اس کے باوجود میں تیرے فضلوں کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک تیرا ارادہ، تیری مدد، تیری نصرت میرے ارادے اور میری کوشش کے شامل حال نہ ہو۔ پس اس صورت میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے دعائیہ الفاظ انسانی تکبر اور غرور اور نخوت کے بھوت کی گردن پر ایک تیز چھری کا کام دیتے ہیں۔ اس دعا کے ذریعہ انسانی تکبر اورغرور اور نخوت کے بھوت کا سر کچل دیا جاتا ہے اور انسان تکبر اور غرور، نخوت اور خود بینی کے زہر سے ہلاک ہونے سے بچ جاتا ہے کیونکہ انسان کے لئے اس دنیا میں اس زندگی میں ایک ہی موت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے فنا ہو جانے کی موت ہے یہ موت بھی ہے اور ایک لِقا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا اور اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے بقا اور زندگی کا حصول ہے۔
پس اس وقت جو سب سے بڑی نعمت مجھے نظر آتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ بھی غور کریں تو اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ سب سے بڑی نعمت جو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قرآن کریم کی تفسیر کے خزانے ہیں کہ جن سے ہم جتنا بھی فائدہ اُٹھائیں یہ خزانہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اس لئے اِس خزانے کی قدر کرنا ضروری ہے اور اپنے چھوٹے بڑے ہر قسم کے مسائل کو اس کی روشنی میں سلجھانا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی طرف سے اپنی زندگی کے مسائل کو سُلجھانا شروع کریں گے تو ناکام ہوں گے۔ قرآن کریم کی ہدایت ہی کے ذریعہ انفرادی اور اجتماعی مسائل کا صحیح حل تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے بغیر ممکن نہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ہمارے لئے ایک کامل ہدایت نامہ بنایا اور پھر قرآن کریم کی اس کامل ہدایت اور حسین تعلیم کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ایک نہایتہی اہم چیز یعنی آپ کی تفسیر ہمارے ہاتھ میں دے دی اگر اس کے بعد بھی ہم غافل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر بدقسمت انسان کوئی نہیں ہوگا۔ اس لئے میں بار بار جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ایک خزانہ ہے اس کے دروازے کھولو، کتابیں پڑھو اور اُن پر غور کرو۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عطا مثلاً زبان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زبان صرف اس لئے نہیں دی کہ ہم کھانے کی چیزوں کا مزہ چکھیں یا ہم باتیں کریں۔ یہ اغراض تو ساتھ ہی حاصل ہو جاتی ہیں جس طرح پنجاب کی ضرب المثل ہے کہ بعض چیزیں ’’جھنگے وچ مل جاندیاں نیں‘‘ زبان کے ذریعہ مزہ چکھنا یا باتیں کرنا ذیلی ہیں اللہ تعالیٰ نے زبان ہمیں اس لئے عطا کی ہے کہ ہم اس کو ذکر الٰہی کرنے کا ذریعہ بنائیں اور ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہیں اور یہ ایک بڑی نعمت ہے اس لئے کہ جو ذکر زبان سے کیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے اور اس کے لئے نہ مال خرچ کرنا پڑتا ہے اور نہ دنیوی اسباب لگانے پڑتے ہیں، نہ اپنے کاموں کا حرج کرنا پڑتا ہے۔ صرف عادت ڈالنے کی بات ہے اس لئے نیکی کی عادت ڈالنی چاہئے ہم اپنی زندگی کا ہر زندہ لمحہ جوسویا ہوا نہیں ہوتا بلکہ بیدار ہوتا ہے اس کو ہم ذکرِالٰہی میں لگا سکتے ہیں۔ پس زبان کی اصل غرض یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ذکرالٰہی میں مشغول رہے۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قلب میں رقت طاری ہو جانے کی ایک طاقت و خاصیت رکھی ہے جسے خشوع و خضوع بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عبادت کرتے وقت اس طاقت کو بھی استعمال کرنا چاہئے۔ بعض لوگ دل کے بڑے سخت ہوتے ہیں اُن پر خشوع و خضوع کی حالت کبھی طاری نہیں ہوتی حالانکہ بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کے چالیس دنوں میں ایک دن بھی (انہوں نے بڑی ڈھیل دی ہے درحقیقت چالیس کا سوال نہیں اگر کسی کی آنکھ سے روزانہ) آنسو نہ بہیں تو اسے اپنی فکر کرنی چاہئے وہ ہلاکت اور جہنم کی طرف جا رہا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ بڑا فضل کیا ہے کہ ہمارے دل میں یہ قوت اور طاقت ودیعت کی ہے کہ اس کی یاد میں اور اس کی محبت میں اور اس کی محبتوں کے جلوؤں کی تلاش میں خشوع و خضوع کی حالت پیدا کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی کو یہ توفیق ملتی ہے تو اُس کا ہر وہ آنسو جو ریاء کے بغیر جو خود نمائی کے بغیر جو محض خداتعالیٰ کے لئے انسان کی آنکھ سے ٹپکتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اپنے دامنِ رحمت میں جذب کر لیتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اس میں ریاء اور تکبر اور خود نمائی اور خود رائی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ دو باتیں تو میں نے ضمناً بیان کر دی ہیں میں قرآن کریم کی تفسیر کے سمجھنے کے سلسلہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی اعلیٰ درجہ کی قوت دی ہے اور یہ ہے فکر اور غور کرنے کی قوت اور یہ اس لئے دی ہے کہ ہم قرآن اور اس قرآن عظیم کی جو تفسیریں پہلے بزرگوں نے کی ہیں اور اب اس زمانے میں جو بہترین تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے اور جس کا دائرہ قیامت تک وسیع ہے اور پھر جو تفسیر آپ کے خلفاء کی کتابوں میں پائی جاتی ہے اس کو ایک نعمت سمجھتے ہوئے اس کے سمجھنے سمجھانے کے لئے غور و فکر کریں اور ان حقائق سے پُر کتابوںکو مہجور کر کے نہ چھوڑ دیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے ذریعہ قرآن کریم کے حقائق سمجھ کر ان پر عمل پیرا رہنے پر ہماری نجات منحصر ہے اسی میں ہماری اپنی خوشحالی اور ہماری اگلی نسلوں کا آرام اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو بار بار پڑھنا اور ان سے فائدہ اُٹھانا اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے ماتحت آتا ہے کیونکہ یہ ایک عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل ہے تم اس سے فائدہ اُٹھاؤ اور جب فائدہ اُٹھانے کی پوری تدبیر کر لو اور جب ان تفسیروں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں اور سامانوں کے استعمال پر اپنا پورا زور لگا چکو تو خداتعالیٰ فرماتا ہے پھر میرے حضور آؤ اور مجھ سے مانگو اور کہو کہ اے ہمارے رب! تو نے ہم پر بڑی نعمتیں نازل کیں اور تو نے سب سے بڑی نعمت قرآن عظیم کی شکل میں عطا کی اور پھر ان کی تفسیر کرنے کے لئے تو نے دنیا میں اپنے مطہرین کا گروہ بھیجا، اُنہوں نے تفسیریں لکھیں، پھر تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور ہمیں اُن پر ایمان لانے کی توفیق بخشی، ہم نے آپ کی کتابوں کو پڑھا اپنی طرف سے ان کو سمجھنے کی مقدور بھر کوشش کی، اپنی طرف سے یہ کوشش بھی کی کہ جن ہدایتوں پر وہ مشتمل ہیں اُن پر عمل پیرار ہیں لیکن ہماری یہ ساری کوششیں بے کار ہیں۔ اگر تیرا دست قدرت یاوری نہ کرے، ہم فائدہ تو تب ہی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ تیری مدد ہمارے شامل حال ہو، جب تیری نصرت کے ہم مستحق ٹھہریں۔ پس اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہم تیرے پاس مدد و نصرت لینے کے لئے آئے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ تیری مدد کے بغیر ہماری کسی کوشش یا تدبیر کا کوئی نتیجہ کہیں نکل سکتا ہے اور نہ اسباب کے کسی استعمال کا فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ کسی فکر اورغور اور تدبر کا نہ خشوع کا کیونکہ خشوع و حضوع میں بھی بعض دفعہ شیطان کا دخل آ جانے سے بناوٹ آ جاتی ہے۔ انسان خود رو رہا ہوتا ہے اور دراصل وہ شیطانی آنسو ہوتے ہیں، اُسے خود بھی پتہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے تو امان ہے ورنہ امان کہیں بھی نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عبادت کے تقاضے کو پورا کر لو گے تو پھر میں تمہارے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہنے کی رو سے تم نے جو مجھ سے مدد مانگی ہے اور نصرت طلب کی ہے وہ میں تمہیں عطا کروں گا میں تمہاری مدد کے لئے آ جاؤں گا لیکن میری مدد کے حصول سے قبل تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں عبادت کے جن تقاضوں کا ذکر ہے تم ان تقاضوں کو پورا کرنے والے بنو کیونکہ جو شخص خداداد قوتوں اور طاقتوں اور اس کی عطا کردہ دوسری نعمتوں سے لاپروا ہی برتتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور شوخی اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ پس ادب کا طریق اور عاجزی کی راہ یہی ہے کہ ہم اس کی عطا کردہ قوتوں یا صلاحیتوں یا دوسرے مادی اسباب اور روحانی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن اُن کو بُت بھی نہ بنائیں یہ سمجھنا تو حماقت ہے کہ کوئی شخص اپنی قوت، اپنی قابلیت یا اپنی عقل و فراست یا اپنے فکر و تدبر کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ ساری چیزیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو روحانی نعمتیں بخشی ہیں ان کے صحیح استعمال کے باوجود ہم روحانی رفعتیں حاصل نہیں کر سکتے جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو کیونکہ روحانی رفعتیں یا روحانی بلندیاں جن ستونوں کے سہاروں پر کھڑی ہیں وہ انسان کے بنائے ہوئے ستون اور سہارے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ستون اور سہارے ہیں۔ ان سہاروں کے بغیر انسان رفعتوں اور بلندیوں پر کھڑا رہ ہی نہیں سکتا جو شخص اپنے آپ کو بڑا بلند سمجھنے لگتا ہے مگر خداتعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا سہارا نہیں لیتا وہ بلندیوں سے گرتا ہے اور اس کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں اور اس کا درختِ وجود ذرّہ ذرّہ ہو کر رہ جاتا ہے جس طرح افریقہ کا جنگلی بھینسا جب غصے میںکسی انسان کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہے تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ انسانی جسم کے ذرّوں کو ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے یہ تو خداتعالیٰ کی ایک ادنیٰ مخلوق ہے مگر جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جائے اس کے جسم کے کروڑویں حصہ کا بھی کہیں پتہ نہیں لگ سکتا۔ پس ان برائیوں سے بچتے رہنا چاہئے لیکن یہ نہیں کہ ہم خداداد قوتوں اور صلاحیتوں کو نظرانداز کر دیں اور کوئی کوشش نہ کریں، کسی تدبیر کو عمل میں نہ لائیں مگر دعا یہ ہو اللہ تعالیٰ سے کہ یہ ہو جائے اور وہ ہو جائے ایسی دعا ہرگز قبول نہیں ہو سکتی یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ایک زمیندار اپنے کھیت میں گندم کا بیج نہ ڈالے اور چھ مہینے تک یہ دعا کرتا رہے کہ اے خدا! مجھے اس کھیت سے بہت سا رزق عطا فرما۔ اگر کسی کے کھیت سے چالیس من گندم نکلا کرتی ہے تو میرے کھیت سے سَو من نکلے لیکن اس نے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں بویا ہو تا اگر وہ ان چھ ماہ کے دوران ہر رات خدا کے حضور دعائیں کرتا رہے تب بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوگی اس لئے کہ اسے خداتعالیٰ نے جو قوت عطا کی تھی اور اس مقصد کے حصول کے لئے جو سامان اور ذرائع پیدا کئے تھے ان کی اس نے قدر نہیںکی اور ان کے استعمال کرنے کو نظر انداز کر دیا لیکن دوسری طرف ایک وہ شخص ہے جو اپنے کھیت میں وقت پرگندم کا بیج بوتا ہے اور بڑی محنت سے اس کی دیکھ بھال بھی کرتا رہتا ہے اورپھرساتھ ہی دعا بھی کرتا رہتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کی دعا قبول ہو کیونکہ خدا تعالیٰ تو مالک بھی ہے، وہ تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے وہ ہمارا خادم تو نہیں ہے کہ ہم جو بھی اس سے کہیں وہ اسے فوراً مان لے اگر وہ کوئی دعا قبول کرتا ہے تو یہ اس کا احسان ہے یہ اس کا فضل ہے۔ ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ ضرور ہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اس قسم کے نظارے بھی دکھاتا رہتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت سے پورا فائدہ بھی اُٹھاتا ہے اپنے ذرائع کو کماحقہ، استعمال بھی کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے میں بھی لگا رہتا ہے۔ بایں ہمہ اس کی کوشش بے سود، اس کی تدبیر بیکار اور اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور یہ واقعات ہمارے لئے عبرت کے اسباق کے طور پر رونما ہوتے ہیں اور اس کے بعد بھی کسی کی روحانی اور جسمانی آنکھ نہ کھلے تو ایسے شخص سے بڑھ کر بدبخت کون ہو سکتا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے مجھے ضلع کیمل پور کے ایک دوست نے لکھا کہ ہمارے گاؤں کی خریف کی فصل بڑی اچھی تھی اور لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہماری محنت میں برکت ڈالے گا اس لئے اس سے ہمیں کافی رزق حاصل ہوگا اس نے لکھا کہ آٹھ دس دن ہوئے بارش ہوئی تھی (ہمارے ربوہ میں بھی ہوئی تھی، لاہور میں بھی ہوئی تھی) اس بارش کے دوران صرف ایک منٹ کے لئے ژالہ باری ہوئی اور کھیتوں میں کھڑی ہر چیز کو زمین کے ساتھ ملا دیا اور ان کے لئے زرق کی کشادگی کے جو سامان نظر آ رہے تھے سارے کے سارے ختم ہوگئے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اگر وہ دعاؤں میں لگے رہے تو ان کے رزق کے سامان پیدا ہو جائیں گے ان میں احمدی بھی ہیں اور دوسرے بھی ویسے ان معاملات میں احمدی غیر احمدی کا کوئی سوال نہیں جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے دیتا ہے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں ان کی تنگی کو دور کر دے گا کیونکہ خدا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اس واقعہ سے لوگوں کو یہ سبق دینا مقصود تھا کہ تدبر کو انتہا تک پہنچانے کے بعد بھی جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ میں محض اپنی تدبیر کے ذریعہ نیک نتیجہ پیدا کر لوں گا وہ بڑا ہی احمق اور غلطی خوردہ ہے نیک نتیجہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور اس کے بارے میں آگے آئے دن مختلف نظارے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے فائدہ اُٹھانے کے لئے فطری قوت کا صحیح اور پورا استعمال ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قوت بطور احسان کے عطا فرمائی ہے اس لئے مسائل پر غور کرتے رہناچاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہماری بہتری کے لئے اپنے اوپر ایک کامل فنا وارد کی اور خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں کامل طور پر گم کر دینے کی مقبول کوشش کی۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس کوشش کو قبول فرمایا) اور اس کا نیک نتیجہ یہ نکالا کہ جو آپ چاہتے تھے وہ عمل میں آ گیا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنا زبردست مجاہدہ کیا کہ اپنا کچھ باقی نہ رہا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا فی اللہ کا مقام حاصل ہو گیا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کا وجود باقی نہ رہا اور اکمل طور پر فَنَا فِی الرَّسُوْلِ کا مقام عطا ہوا۔ ویسے تو اُمت محمدیہ کے تمام اخیارو ابرار ظلّی طور پر اس فناء کے مقام کو حاصل کر کے ہی سب کچھ پاتے رہے لیکن اس راہ میں ان کی ظلیت اور ان کی فنا کامل نہیں ہوتی تھی اور آئندہ بھی اس معنی میں کامل نہیں ہوگی۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مبارک وجود ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو فَنَا فِی اللّٰہِ اور فَنَا فِی الرَّسُوْلِ کا بلند ترین مقام عطا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں بھی آپ نے اپنے آپ کو کامل طور پر فنا کر دیا اور اپنے نبی متبوع حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں بھی ایسے گم ہوگئے اور آپ کے ایسے کامل ظل بنے اور ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوگئے کہ گویا ایک ہی تصویر کے دو رخ بن گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حقیقت کو ایک اور مثال دے کر واضح کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کا کثرت سے ذکر فرمایا ہے۔ حضور نے فرمایا ہے کہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کا شفاف آئینہ ہو ایسا مصفّٰی آئینہ کہ جس سے زیادہ مصفّٰی ممکن نہ ہو اس شفاف اور مصفّٰی آئینہ میں جب کوئی شخص اپنی شکل دیکھتا ہے تو اس میں اس کے صحیح اور اصلی نقوش منعکس ہو جاتے ہیں چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس روحانی فرزند کے آئینہ محبت میں نگاہ ڈالی تو آپ کی شکل مبارک کا کامل انعکاس اس کے اندر جلوہ گر ہو گیا اور اس طرح دونوں ایک ہی وجود (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے دو دو جلوے بن گئے اس کمالِ فنا اور اس کمال ظلیّت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ روحانی مقام حاصل ہوا کہ ہزاروں لاکھوں ابرار اور اخیار اور مجددین اور خلفائے راشدین آپ کی ماتحتی میں قیامت تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور یہ سارے کے سارے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے حصہ لیتے رہیں گے اور اب جو بھی روحانی مقام ہے وہ دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور آپ کے روحانی فیض کا نتیجہ ہے ورنہ اور کچھ نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے روحانی فیض سے کامل طور پر مستفیض ہوئے۔ آپ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اپنے آپ کو ایسا کھو دیا اور آپ پر اس قدر فداہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کامل ظلیّت میں آپ نے ایسا مقام حاصل کیا کہ مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَایٰ (خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۵۹)کہ جس نے میرے اور میرے نبی متبوع حضرت محمد مصطفی ﷺکے درمیان فرق کیا اس نے میرے مقام کو نہیں پہچانا اور جو بعد میں آنے والے ہیں وہ بھی آپ کے ظل ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کو پانے والے ہیں اور ان کے لئے بھی کتابِ مکنون سے اپنے اپنے زمانے کے حالات اور اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق معنی کھلتے چلے جائیں گے اور کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قیامت تک کیلئے رموز قرآنی اور اسرار کتاب ربّانی بتائے گئے ہیں اور آپ کی کتابوں پر جتنا کوئی غور کرے اتنے ہی نئے سے نئے علوم اور نئے سے نئے معرفت کے نکتے اسے ملتے رہتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا پورے فکر اورغور اور تدبر کے ساتھ مطالعہ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور ہر احمدی ماں اور باپ کا یہ فرض ہے کہ اس کا بیٹا بھی اور اس کی بیٹی بھی خداتعالیٰ سے محبت کرنے والے اور قرآن کریم کی تفسیر کو سیکھنے والے ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھتے رہیں تا کہ قرآنی علوم سے وہ بہرہ ور ہوتے رہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی بنیادی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت قرآن عظیم ہے اور اس کی خصوصاً وہ تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کو جو نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات ہر وقت تمہارے سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مختلف نعمتیں عطا کی ہیں مثلاً مختلف قوتوں یا قابلیتوں کی شکل میں، مختلف اسباب کی شکل میں یا قرآن کریم کی مختلف تفاسیر کی شکل میںیا زبان کی شکل میں یا خشوع و خضوع کی شکل میں یا فکر و تدبر کی شکل میں یہ ساری خداداد قوتیں اور قابلیتیں اور یہ سارے سازوسامان اور یہ سارے خداداد ملکات خداتعالیٰ کی رضا کے حصول میں خرچ ہونے چاہئیں۔ جب اس طرح عبادت کی جائے اور دنیوی اعمال بجا لائے جائیں تو پھر تم اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہنے کے مستحق ٹھہرتے ہو پھر تمہیں میرے حضور دعا کرنی چاہئے اور مجھ سے ہی مانگتے رہنا چاہئے اور یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبول فرمائے اور مزید رفعتوں کے حصول کے دروازے کھول دے۔ پس اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت تو قرآن کریم ہے اور پھر اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نعمت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفاسیر کی شکل میں عطا کی ہے۔ اس لئے اس کی قدر اسی طرح ہوسکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے ہمیشہ پڑھتے پڑھاتے رہنے کا تسلی بخش انتظام ہوتا رہے۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اور عظیم نعمت جس کا میں اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ شرف انسانی ہے۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اس انسانی شرف کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں خدائے رحمان جس نے اس کامل کتاب کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے یہ اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کو شرف انسانی کے قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے تمہارا شرف اور تمہارا مرتبہ، تمہاری عزت اورتمہارا احترام قائم ہو۔ غرض انسان کی عزت اور اس کے شرف کو قائم کرنے کے لئے قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ اس بنیادی نکتہ کو بھول جانے کی وجہ سے دنیا میں بدامنی اور بے چینی، فساد اور ظلم کا دور دورہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے مسلمانوں نے فراموش کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن بدن تنزل کی گہرائیوں میں اُترتے چلے گئے جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے امیر غریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کا مرتبہ اور شرف اور عزت ایک جیسی بنائی ہے بنیادی طور پر انسان شرف کے لحاظ سے تمام لوگ باہم برابر و یکساں ہیں۔ قرآن کریم نے انسانی شرف اور عزت میں باہم مساوات کا اعلان کرتے ہوئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہاں تک کہلوایا ’’اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ‘‘ فرمایا۔ اے اشرف المخلوقات جہاں تک اشرف المخلوقات ہونے کا سوال ہے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے میں بھی تمہارے جیسا ایک انسان ہوں اور تم بھی میرے جیسے ایک انسان ہو یہ واقعی شرف انسانی کے قیام کے لئے بڑا عظیم الشان اعلان ہے اور مسلمانوں کی بڑی ہی بدقسمتی ہے کہ وہ اس کو فراموش کرتے چلے آنے کی وجہ سے نقصان اُٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جب یہ کہا کہ میرے حضور جھکو اور یہ کہو کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ یعنی یہ کہ جو نعمتیں تو نے ہمیں عطا کی ہیں ہم ان کی قدر کرتے اور ان کو صحیح استعمال کرتے اور تیری رضا کے حصول کی کوششوں میں انہیں لگاتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسری نعمت عظمیٰ شرف انسانی کے قیام کی صورت میں رونما ہوئی ہے یعنی ہم نے تمام بنی نوع انسان کی بحیثیت انسان عزت اور شرف اور احترام کو قائم کرنا ہے اور ایک دوسرے سے معاملہ کرتے ہوئے انسان کی عزت نفس اور اس کے انسانی شرف کا خیال رکھنا ہے اور ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہے کہ جس سے میں مخاطب ہوں یا جس سے میں کوئی معاملہ کر رہا ہوں یا جو اپنی ضرورت کے پورا کروانے یا اپنے حق کے حصول کے لئے میرے پاس آیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بحیثیت انسان میری طرح ہی عزت اور شرف رکھتا ہے یہاں تک کہ عزت نفس اور شرف انسانی کے اعتبار سے فخر انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ویسے ہی انسانی شرف کے مالک ہیں جیسے ایک دوسرے آدمی کا انسانی شرف قائم کیا گیا ہے۔ آپ یہ یاد رکھیں کہ شرف انسانی کے لحاظ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس شرف انسانی کی بنیاد پر اخلاقی رفعتوں اور روحانی بلندیوں کے سامان پیدا کئے اور خدا تعالیٰ کے پاک بندوں میں ایک حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے انتہائی سے انتہائی بلند ہونے کی کوشش کی تو اس بلند پروازی میں سیدنا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے نکل گئے اور ایسے بلند ترین مقام کو حاصل کیا کہ اس سے زیادہ تو کیا اس جتنا بھی کسی کے لئے پانا نہ پہلوں کے لئے ممکن ہوا اورنہ پچھلوں کے لئے بھی ممکن ہوگا بعض فلسفی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیوں پابندی لگا دی؟ پابندی کا یہاں سوال نہیں ہے روحانی انعامات کے حصول میں کوئی روک نہیں ہے لیکن ہمارے علام الغیوب خدا نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ نہ پہلے اور نہ بعد میں آنے والے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اس بلند ترین مقام کو پہنچ سکیں گے جس بلند ترین مقام پر آپؐ پہنچے تھے۔ انسان کی تمام قوتیں جن کی شرفِ انسانی کے قائم ہونے کے بعد ابتداء ہوئی ہے ان کے لحاظ سے اس دوڑ میں تو آپ ہی آگے نکلے لیکن مقابلے میں جہاں سے دوڑ Start (سٹارٹ) یعنی شروع ہوتی ہے آپ نے دیکھا ہوگا دس پندرہ آدمی قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر دوڑ شروع ہوتی ہے، اگر قطار میں سارے Competitor (مقابلہ میں حصہ لینے والوں) کو کھڑا کر دیا جائے تو بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ اس لحاظ سے قطار میں کھڑے ہونے کی حیثیت میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جب روحانی میدان میں دوڑ شروع ہوگئی تو دوسرے آپ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے۔
میں نے بڑا سوچا ہے اور بڑی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت دنیا میں جو ہر قسم کا فساد پایا جاتا ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان کو اس کا وہ شرف اور مرتبہ نہیں دیاگیا جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عطا کیا ہے۔ اگر آج ہم ایک دوسرے سے عزت و احترام کا سلوک کرنے لگیں اگر ہمارے دماغ میں ہر وقت یہ موجود رہے کہ میرا مخاطب خداتعالیٰ کی نگاہ میں انسان ہونے کی حیثیت سے وہی مقام رکھتا ہے جتنا کہ میرا محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر قسم کا فساد مٹ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے اخلاقی اور روحانی طور پر بلند سے بلند تر ہوتے چلے گئے اور ایسے مقام تک پہنچ گئے کہ کسی ماںکے بچے کو وہ مقام نصیب نہیںہو سکتا یہ تو ایک حقیقت ہے لیکن اگر یہ بات مدنظر ہو کہ انسان ہونے کے لحاظ سے میرا مخاطب وہی عزت اور شرف کا مقام و مرتبہ رکھتا ہے جو انسانی لحاظ سے میرے اس محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے تو پھر اس کے نتیجہ میں انسانی دل میں دوسرے کے لئے جو عزت واحترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ دراصل اس کا حق ہے اس سے کم نہیں اگر آج انسان انسان کو اس کا انسانی شرف اور مرتبہ دینے کے لئے تیار ہو جائے اگر آج انسان انسان کی عزت کرنے لگ جائے۔ اگر آج انسان کے دل میں دوسرے کی عزت و احترام پیدا ہو جائے تو یہ فتنے جو آج ہمیں دنیا میں نظر آ رہے ہیں یہ قتل وغارت کے جو بھیانک نظارے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں یا ہم اخباروں میں پڑھ رہے ہیں ان کا سَو فیصدی نہیں تو نوے فیصدی ضرور علاج ہو جائے۔
پس میں اس وقت مختصراً احباب جماعت کو اس طرف متوجہ کرناچاہتا ہوں کہ آپ کی عزت آپ کا شرف صرف اُس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جس وقت تک کہ آپ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور شرف اپنے دل میں اس معیار کا پیدا کریں جس معیار کا خدا چاہتا ہے کہ میرے بندے کے دل میں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور پیار پیدا ہو (میں اس وقت پیار والے مضمون کے اس حصہ کو نہیں بیان کر رہا) اور عزت و احترام پیدا ہو اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ہر دوسرے انسان کی عزت و احترام بحیثیت انسان حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی آپ کے دل میں بھی ہو اگر یہ نہیں تو کچھ نہیں اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کی تو اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کی عزت کو اس وجہ سے کہ وہ انتہائی طور پر قربانیاں دے کر اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دنیا کے دلوں میں پیدا کر رہی ہے ساری دنیا میں قائم کر دوں گا کس طرح پورا ہوگا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں یہ وعدہ بیان ہوا ہے اور اس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے یہ بات کھلی ہوئی کتاب کی طرح واضح ہے لیکن آپ کے حق میں یہ وعدہ صرف اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ آپ دنیا میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بھائی کی عزت قائم کرنے والے ہوں کیونکہ ہر دوسرا انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانی بھائی ہے یا انسانی بہن ہے اگر آپ اس عزت کو قائم کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں آپ معزز ہیں اور وہ وعدے آپ کے حق میں پورے ہو سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے دیئے گئے ہیں لیکن اگر آپ کے دل میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے بھائی یا بہن کی وہ عزت نہیں جو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے تو پھر آپ کے حق میں وہ وعدے ہرگز پورے نہیں ہو سکتے۔ خدائی وعدے تو ضرور پورے ہوں گے مگر اللہ تعالیٰ کوئی اور قوم پیدا کرے گا یا کسی اور نسل کے ذریعہ سے وہ وعدے پورے ہوں گے کیونکہ یہ خدائی وعدے ہیں جو پورے ہو کر رہیں گے لیکن آپ لوگ تو اس سے محروم رہ جائیں گے اور اس سے زیادہ کوئی بدقسمتی نہیںہو سکتی۔
پس دوسری نعمت جو ہے وہ شرف انسانی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا ہے کہ بحیثیت انسان تمام لوگ برابر ہیں یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی دوسرے انسان میں بھی بلحاظ شرف انسانی کوئی فرق نہیںہے البتہ یہ صحیح ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کا وہ قرب حاصل کیا، اللہ تعالیٰ کا وہ پیار حاصل کیا کہ جو کسی دوسرے کے لئے ممکن ہی نہیں نہ صرف یہ بلکہ آپ کے طفیل سارے بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار میں سے ایک حصہ پانا ممکن ہو گیا۔ اگرچہ سب لوگوں نے اس سے حصہ پایا تو نہیں لیکن جہاں تک امکان کا تعلق ہے سارے بنی نوع انسان کے لئے قیامت تک کے لئے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ آپ کے پیار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کا پیار حاصل کریں لیکن اگر ہم اپنے تصور میں وہ مقام لائیں جہاں سے اخلاقی اور روحانی میدانوں میں دوڑ شروع ہوئی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شرف انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان کو ساری اور یکساں حیثیت دی جائے۔ پس سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک شدید جذبہ ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونا چاہئے اور وہ شرف جو خداتعالیٰ نے انسان کو بحیثیت انسان کے دیا ہے ہماری نگاہ میں ہر دوسرا انسان اس کا مستحق ہو۔ ہمارے عمل میں اس کو یہ محسوس ہو اور ہمارے تعلقات میں اُسے یہ جلوہ نظر آئے تب جا کر وہ حسن و احسانِ اسلام کا گرویدہ ہوگا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوگی۔
پس یہ دوسری بنیادی نعمت عظمی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تقاضے میں یہ تھا کہ میں نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا صحیح اور پورا استعمال کرو جس کو ہم دوسرے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ تدبیر کو انتہاء تک پہنچاؤ۔ ایسا کرنے کے بعد پھر میرے پاس آؤ تب میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
تیسری نعمت عظمیٰ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت ہم احمدیوں کو حاصل ہے وہ خلافت راشدہ کا قیام ہے چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے اس کے متعلق میں مختصراً کچھ کہوں گا چند بنیادی باتیں بتا دیتا ہوں ان کی بھی آپ کو قدر کرنی چاہئے ایک ہے خلافت اور ایک ہے خلیفہ ان دونوں میں فرق ہے۔ خلافت نظام ہے اور خلیفہ جتنی بھی اللہ تعالیٰ اس کو زندگی دے وہ اللہ تعالیٰ کی منشاء سے منتخب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو مسندِ خلافت پر بٹھاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصطلاح میں خلافت قدرت ثانیہ کی مظہر ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت کا وہ جلوہ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مجسم قدرت قرار دیا ہے ہمیں آپ کے وجود میں اور آپ کے مشن میں نظر آتا ہے یعنی قدرت کا یہ جلوہ قدرت ثانیہ میں بھی نظر آتا ہے۔ خلافت کے اندر اس عظیم قدرت کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب طریق اختیار کیا ہوا ہے (البتہ یہ عجیب ہماری نگاہ میں ہے اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی مشیّت تو ہمارے تصور سے بالا ہے) اور وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو جو بالکل کم مایہ اور ناچیز اور جو کچھ بھی نہیں ہوتا اور اپنے آپ کوکچھ بھی نہیں سمجھتا اس کو مسندِ خلافت پر بٹھا دیتا ہے اور اس کمزور اور کم مایہ وجود کے ذریعہ سے دراصل وہ اپنی قدرتوں کا نشان دکھانا چاہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی ایسے آدمی کو چنے جس کے متعلق دنیا پہلے ہی سمجھے کہ وہ آسمانوں پر پہنچا ہوا ہے تو پھر اس طرح تو اس قدرت ثانیہ کے جلوؤں میں بہت اشتباہ پیدا ہو جائے۔
ہماری جماعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت کے جو کرتا دھرتا لوگ تھے اور جن کا دل کرتا تھا کہ سب کچھ صدر انجمن کو مل جائے اور ہر چیز ہمارے کنٹرول میں اور ہمارے ہاتھ میں آ جائے اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ وہ سمجھے کہ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ حضرت مولوی نورالدینؓ صاحب جو ہمارے نہایت ہی پیارے خلیفہ اوّل ہیں ان کومنتخب کر کے خلیفہ بنا لیا جائے اور بتانے والوں نے بتایا ہے اور تاریخ نے اس کو ریکارڈ کیا ہے کہ آپس میں جب باتیں کرتے تھے تو کہتے تھے کہ بڈھا ہے دو چار سال میں ختم ہو جائے گا اور پھر ہر چیز ہمارے پاس آ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ یہ بظاہر عقل وہنر رکھنے والے تھے ماہر و تجربہ کار تھے جن کے ہاتھ میں سارا اقتدار تھا مگر ان کی نگاہ میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑے عالم دین یا بزرگ کی شکل میں نہیں آتے تھے بلکہ وہ انہیں ایک ایسے بڈھے کی شکل میں دیکھتے تھے جس پر عنقریب دورِ فنا آنے والا ہوتا ہے مگر وہ عظیم شخص جس پر بظاہر بڑھاپے کا عالم بھی طاری تھا جسے بڑھاپے کی کمزوریاں بھی لاحق تھیں اور جس کے متعلق یہ سمجھا گیا تھا کہ ہم جو چاہیں گے اس سے منوا لیں گے۔ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوا تو ان کی ایک غلطی پر اس نے ان کو وہ جھاڑ پلائی کہ ساروں کی چیخیں نکل گئیں اور آنسو تھے کہ تھمتے نہیں تھے اس وقت وہ جلال کا جلوہ جو دنیائے احمدیت نے دیکھا اور تاریخ احمدیت نے جسے محفوظ رکھا وہ اس بوڑھے کی طاقت کا جلوہ نہیں تھا بلکہ خداتعالیٰ کے اس وعدے کا جلوہ تھا کہ میں جس کو بھی اس منصب پر فائز کروں گا میرے جلال اور جمال کو تم اس کے وجود میں مشاہدہ کرو گے۔ اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوگا۔
پھر ایک زمانہ گزرا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عظیم کام لئے ہیں جو ہماری Younger Generation (ینگرجنریشن) یعنی نوجوان نسل ہے ان کو تو وہ زمانہ یاد نہیں کیونکہ ان کی پیدائش سے بھی پہلی کی بات ہے جس وقت آپ خلیفہ مقرر ہوئے تواپنے آپ کو بڑا کرتا دھرتا سمجھنے والے جماعت سے نکل گئے لیکن اعتراض یہی کرتے رہے اور پروپیگنڈا بھی اسی بات کا کرتے رہے کہ دیکھو جی ایک بچے کو چن لیا گیا ہے اس کو نہ عقل ہے نہ شعور بھلا یہ جماعت احمدیہ کا کام کیسے سنبھال سکے گا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اِس بچے کو وہ سمجھ اور فراست عطا کی کہ دنیا کے بڑے بڑے دماغ اس کے سامنے جھک گئے مثلاً محترم چوہدری ظفراللہ خاں صاحب ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ دماغ دیا ہے لیکن دنیوی لحاظ سے یہ اعلیٰ اور عظیم دماغ اس ناتجربہ کار وجود کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوا اس لئے کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ تم میری قدرت ثانیہ کا جلال اور جمال خلفاء میں دیکھو گے وہ قدرت ثانیہ کے رنگ میں تمہارے پاس آئیںگے چنانچہ بڑے بڑے عالم اور فاضل لوگ آپ کے پاس آئے ان سے باتیں ہوئیں ان میں عیسائی بھی تھے اور دہریئے بھی لیکن سب کو آپ کے علم و فضل کے سامنے جھکنا پڑا اُنہوں نے کہا تھا کہ یہ ناتجربہ کار ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ناتجربہ کار ہے مگر جو اس کے ساتھ لگے ہیں وہ ایک سے ہزار ہو جائیں گے اور تم جو اپنے آپ کو بڑا تجربہ کار سمجھتے ہو جو تمہارے ساتھ لگے ہیں وہ ہزار سے ایک ہو جائیں گے پس تجربہ کوئی چیز نہیں یہ بات تو صرف اللہ تعالیٰ کو سزوار ہے جس کا علم ہر چیز پر محیط ہے وہ لوگ تجربے کے گھمنڈ میںتھے اور خداتعالیٰ کا یہ عاجز بندہ خدائے علام الغیوب کے علم کامل کے سہارے پر کام کر رہا ہے۔ اب دیکھو کہ تجربہ کاری کا کیا نتیجہ نکلا اور خدائے تعالیٰ کی نصرت سے کیا نتیجہ نکلا۔
پھر خلافت ثالثہ کا وقت آیا اس وقت ہماری جماعت میں بڑے عالم بڑے بزرگ بڑے ولی موجود تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے انتخاب کی نظر مجھ عاجز کم مایہ پر پڑی اس نے اپنے قادرانہ تصرف کی انگلیوں میں مجھے لیا اور مسندِخلافت پر بٹھا دیا۔ میں اپنی ذات میں جو ہوں وہ میں ہی جانتا ہوں آپ نہیں جانتے۔ آپ اگر میری اس کم مائیگی کا تخیل بھی کریں تو تصور میں بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے جہاں تک مجھے اپنی اس عاجزی کا علم ہے میں تو بالکل ہی ایک کم مایہ انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کے فضل کی جھلک دیکھتا ہوں۔ اس کے یہ بے شمار نشانات بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتے ہیں مگر جتنا اللہ تعالیٰ زیادہ پیار کرتا ہے جتنی وہ زیادہ نعمتیں نازل کرتا ہے اتنا ہی میرا سر اور زیادہ اس کے حضور جھک جاتا ہے ایک دفعہ مجھے اسی کیفیت میں یہ خیال آیا کہ انسان زمین پر اپنی پیشانی رکھ کر سجدہ کیوں کرتا ہے تو مجھے میرے ذہن نے یہ جواب دیا کہ انسان زمین پر اپنی پیشانی رکھ کر اپنی عاجزی کا اظہار اس لئے کرتا ہے کہ زمین سے بھی نیچی چیز اسے کوئی اور میسر نہیں آ رہی ہوتی ورنہ وہ اور زیادہ جھک جائے۔
پس خلافت ایک نعمت ہے اگر آپ اس کی قدر کریں گے اگر آپ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں گے تو اس میں آپ کی اپنی دین و دنیا کی بھلائی ہے اور اگر آپ اس کی قدر نہیں کریں گے اور آپ اس سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے تو میرا کوئی نقصان نہیں ہے اس واسطے کہ خلیفہ وقت کو اپنی ہر قسم کی عاجزی اور کم مائیگی کے باوجود خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک غنا کا مقام بھی حاصل ہوتا ہے اور اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے کہ اس کی ہر طاقت اور اس کی ہر کوشش کا سہارا اور تکیہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی قوت اور اس کی طاقت یعنی اس کی نہایت اعلیٰ صفات اس کا تکیہ اور سہارا نہ ہوں تو ایک لحظہ کے لئے بھی کسی خلیفہ وقت کا زندہ رہنا ہی ممکن نہ ہو۔ جس وقت اس کی ذمہ داریوں کا ہجوم اس پر یلغار کرتا ہے یا جس وقت طعن کرنے والی زبانیں اس پر حملہ آور ہو رہی ہوتی ہیں تو اس وقت وہ اپنے ربّ کی طرف بھاگتا ہے اور اپنے ربّ میں گم ہو کر مخالف طاقتوں کی طرف منہ کرتا اور مسکراتا ہے اور اس کے لب پر یہ ہوتا ہے۔ ع
نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں
اس کو کوئی فکر نہیں ہوتی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کے ایسے بندے منافقوں، سست اعتقادوں اور متکبروں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور ان کو ایک مردہ کیڑے کی طرح سمجھتے ہیں اور خدا کی قسم آپ نے جو بھی فرمایا ہے بالکل سچ فرمایا ہے جس شخص نے علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھ لیا ہے کہ میرے اندر کوئی طاقت نہیں کوئی ہنر نہیں اور جس نے علیٰ وجہ البصیرت یہ یقین حاصل کر لیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مسندِخلافت پر اس وعدہ سے بٹھایا ہے کہ میں تیری قوت بنوں گا، میں تیرا معاون بنوں گا، میں تیرا مدبر بنوں گا اور میں تیری تدبیروں کو ان کے کامیاب نتائج تک پہنچاؤں گا۔ اس کو کس بات کی فکر ہے لیکن اس کو کس بات کا فخر اور غرور اسی واسطے ہم عاجز بندے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں خداتعالیٰ کی ہر نعمت کو پا کر اور اس کے فضلوں کا ہر آن مشاہدہ کرنے کے بعد صرف ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ’’ لَافَخْرَ‘‘ کہ ہم میں کوئی خوبی نہیں۔
خدا کرے کہ آپ ان تینوں قسم کی بنیادی نعمتوں کو سمجھنے لگیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی اپنے پیارے ربّ سے توفیق پائیں اور آپ پر اس کے قرب اور اس کے پیار کی نگاہ پڑے اور آپ کو آپ کی زندگی کا مقصد مل جائے۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۵؍ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ۲ تا۷)
٭٭٭

ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کیلئے ہم نے اپنی خداداد طاقتوں، تدبیروں اور مخلصانہ دعاؤں سے کام لینا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ غلبۂ اسلام کے لئے کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دینا۔
٭ غلبہ ٔ اسلام کے لئے عظیم بشارتیں دی گئی ہیں۔
٭ نشاۃ ٔثانیہ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے۔
٭ منکرینِ اسلام ان بشارتوں کے راستہ میں روڑے اٹکائیں گے۔
٭ اپنی ساری طاقتیں خدا کی راہ میں وقف کر دو۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
مَایَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَلَاالْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (البقرہ: ۱۰۶)
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِٓرَط عَلَیْھِمْ دَائِٓرَۃُ السَّوْئِط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (التوبہ:۹۸)
وَمَاتَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ (البقرہ:۱۹۸)
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَاللّٰہِ (البقرہ: ۱۱۱)
وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَـلَارَٓادَّلِفَضْلِہٖ (یونس: ۱۰۸)
اس کے بعد فرمایا:۔
ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں۔ بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہم اسلام کو غالب کر دیں۔ اسی جدوجہد اور اسی کوشش میں ہم نے اپنی ان خداداد طاقتوں اور قوتوں، اپنی تدبیر اور اپنی ان مخلصانہ دعاؤں سے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں کام لینا ہے کسی غیر نے ہماری مدد نہیں کرنی کسی غیر نے ہم سے تعاون نہیں کرنا اور ہمارے کام کو کامیاب کرنے کیلئے کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دینا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسی لئے فرمایا کہ وہ لوگ جو اسلام کے منکر ہیں مشرکین میں سے ہوں یا اہل کتاب میں سے۔ وہ ہرگز اس بات کوپسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں اُمت مسلمہ کو دی ہیں ان بشارتوں کی اُمت مسلمہ وارث ہو۔ یہاں محض ’’خیر ‘‘ کا لفظ نہیں کہا گیا بلکہ اس خیر کا ذکر کیا گیا ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ویسے تو ہر خیر ہی آسمان سے نازل ہوتی ہے لیکن بعض بھلائیاں بعض بہتریاں اور بعض کامیابیاں آسمان سے نازل بھی ہوتی ہیں اور ان کے نزول کی بشارت بھی دی جاتی ہے اور اسی طرف اس آیت میں اشارہ ہے جو میں نے تلاوت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے غلبہ کے متعلق بڑی عظیم بشارتیں دی ہیں۔ ان بشارتوں کا تعلق آپ کی نشاۃ اُولیٰ سے بھی ہے اور ان کا تعلق آپ کی نشاۃ ثانیہ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے بھی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آسمان سے فیصلہ ہوا کہ اس طرح ہم اپنے دین کو دنیا پر غالب کریں گے۔ آسمان سے بشارت ملی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے کامل اور سچے متبعین دنیا پر غالب آئیں گے اور اسلام کی حکومت ساری دنیا پر ہوگی۔ یہ لوگ جن کا تعلق مشرکین اور اہل کتاب سے ہے۔ جو اسلام کا انکار کر کے اس کی حقانیت اور صداقت کو تسلیم نہیں کرتے یہ صرف یہ نہیں چاہتے کہ اسلام غالب نہ ہو بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جو باتیں انہیں اللہ کی طرف منسوب کر کے سنائی جاتی ہیں وہ بھی مسلمانوں کے حق میں پوری نہ ہوں اور ان کو یہ پسند نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اسلام کو جو بشارتیں دی ہیں (وہ آسمان سے نازل ہوئیں اور آسمان سے ان کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا ہونے کا وعدہ ہے) وہ بشارتیں اُمت مسلمہ کے حق میں، وہ بشارتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں، وہ بشارتیں آپ کے کامل اور سچے متبعین کے حق میں پوری ہوں۔
پس یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ جو مشرک یا اہل کتب میں سے منکر ہیں ان کی مدد سے مسلمان اس مقصود کو حاصل کر سکیں گے جو مقصود ان کے سامنے رکھا گیا ہے۔ یہی نہیں کہ یہ لوگ کوئی مدد نہیں کریں گے بلکہ مخالفت کریں گے اور اس حد تک ضد سے کام لیں گے کہ نہ صرف انسان کے اپنے منصوبے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق وہ بناتا ہے ان کے راستہ میں روڑے اٹکائیں گے بلکہ ان بشارتوں کے رستہ میں بھی روڑے اٹکائیں گے جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ آسمان سے آئی ہیں یا جن کے متعلق ان کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شائد یہ آسمان سے آئی ہوں لیکن اس یقین کے باوجود کہ ان بشارتوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا شبہ میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ بشارتیں اُمت مسلمہ کے حق میں پوری نہ ہوں۔
دوسری طرف ایک اور گروہ ہے اور وہ منافقوں اور سست اعتقادوں کا گروہ ہے۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ خود قربانیاں دینے سے گھبراتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ قربانیاں نہیں دیتے بلکہ مخلصین کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کامیاب نہ ہو اور اس کوشش کے بعد پھر یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِٓرَ وہ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ ان کی کوششیں کامیاب ہو جائیں گی اور تم گردش زمانہ میں پھنس جاؤ گے اور تم پر ایسی مصیبت نازل ہوگی جو چاروں طرف سے گھیر لے گی اور جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوگا اور پھر اس کے معنی خالی انتظار ہی کے نہیں بلکہ اپنی کوشش کے بعد اپنی اس بدکوشش کے نتیجہ کا انتظار کرتے ہیں اور کوشش ان کی یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح تم گردشِ زمانہ میں پھنس جاؤ۔ کسی طرح تم مصیبتوں میں گھر جاؤ۔ اس طرح جکڑے جاؤ ان دکھوں میں اور ان ناکامیوں میں کہ کامیابی کی کوئی راہ تمہیں نظر نہ آئے باہر نکلنے کا کوئی راستہ تمہارے لئے نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ عَلَیْھِمْ دَائِٓرَۃُ السَّوْئِ کہ تمہارے خلاف جن دکھوں یا جن مصیبتوں یا جن ناکامیوں یا جن بدبختیوں کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں اور پھر اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کی کوششیں بار آور ہوں گی۔ ان کی یہ کوششیں بار آور نہ ہوں گی بلکہ ان کے گرد ان کی بدبختی کچھ اس طرح سے گھیرا ڈالے گی کہ وہ اس سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے انہیں تو دعاؤں کی طرف کچھ خیال ہی نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ دعاؤں کو اگر ان میں اخلاص ہو سنتا ہے لیکن یہ دعائیں نہیں کرتے ان کا سارا بھروسہ ان کی اپنی کوششوں پر ہوتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں متکبرانہ کھڑا ہوتا ہے اور غرور سے کام لیتا ہے اس کی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ علیم ہے وہ مومن کے دل کو بھی جانتا ہے اور اس کے اخلاص سے بھی واقف ہے اور وہ منافق کے دل کو بھی جانتا اور اس کے بدخیالات سے بھی واقف ہے۔ اس لئے یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو ہی مخصوص کرتا ہے اور اسے ہی نوازتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اور جس کی کوشش اس کے حکم اور اس کی رضا کے مطابق ہوتی ہے اور جس کا دل کلیۃً غیر سے خالی ہوتا اور جس کا سینہ صرف اور صرف اپنے ربّ کی محبت سے معمور ہوتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ سمیع اور علیم ہے اس لئے کوئی مشرک ہو یا اہل کتاب، منکر ہو یا منافق اور سست عقیدہ اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں بلکہ ان لوگوں کے اعمال ثمر آور ہوتے ہیں جو اپنی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کوئی غیر تمہاری مدد کو نہیں آئے گا کیونکہ تم نے ہر غیر کو انذار اور انتباہ کر دیا ہے کہ ان کے اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کا اعتقاد اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں ہے۔
تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں نذیر بھی ہو۔ تمہارا یہ کام ہے کہ تم منکرین کو اور منافقوں اور سست اعتقاد والوں کو جھنجھوڑتے رہو۔ تم انہیں تنبیہہ کرتے رہو۔ تم انہیں جتلاتے رہو کہ جن راہوں پر تم چل رہے ہو وہ اللہ سے دُوری کی راہیں ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں نہیں ہیں۔ تم ان بتوں کے خلاف جہاد کرتے ہو جنہیں وہ خدا کا شریک بناتے ہیں۔ تم ان کو ان موٹے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہو جن کو انہوں نے خدا کا شریک بنا لیا ہے۔ تم دلیل کے ساتھ تم عاجزانہ راہوں کے اختیار کرنے کے خوش ثمر حاصل کرنے کے بعد انہیں بتاتے ہو کہ تمہارا تکبر کسی کام نہیں آئے گا۔ تم ان کے غرور کا سر توڑتے ہو تاکہ ان کی روح اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہے۔ وہ تم سے محبت کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ تمہاری مدد اور نصرت کے لئے کیسے آ سکتے ہیں پس تم نے ہی وہ سب کچھ کرنا ہے جو کرنا ہے۔ تم نے ہی وہ تمام ذمہ داریاں اپنی کوششوں اور اپنی دعاؤں اور اپنی قربانیوں اور اپنی تدبیروں کے ساتھ نبھانی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر ڈالی ہیں اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ یہ یاد رکھو کہ ہر وہ کام جس کے نتیجہ میں آسمان سے خیر نازل ہوتی ہے وہ خدا سے پوشیدہ نہیں رہے گا اس لئے یہ خوف نہیں کہ کوئی حقیقی نیکی یا کوئی مخلصانہ قربانی ضائع ہو جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ مگر تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو قابلیتیں اور قوتیں عطا کی ہیں تم ان کا صحیح استعمال کرو (وَمَاتَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ) تبھی تمہارے افعال ثمر آور ہوں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں گے اور جو مخلصانہ کوششیں تم کرو گے( تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ) اللہ تعالیٰ ان کی جزا دے گا۔ ایک تو یہ کہ اس کے علم میں ہوگا اور دوسرے یہ کہ اس کا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس لئے تمہاری ہر کوشش بارآور ہوگی۔ اس کا نتیجہ نکلے گا اور اس کے نتیجہ میں تمہارا مقصود تمہیں حاصل ہوگا اور اس کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کی راہیں کھولی جائیں گی اور ایک تو کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں اور چونکہ ہر چیز اس کے علم میں ہے تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ تمہاری ہر کوشش کا ایک نیک نتیجہ نکلے گا گو یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ دنیا کے ارادے تمہارے ارادے اور اللہ کے ارادے کے موافق نہیں ہیں۔ تمہارا ارادہ یہ ہے کہ تم اپنا سب کچھ قربان کر کے اللہ کے اسلام کو دنیا میں قائم کرو نہ مشرک کا یہ ارادہ ہے اور نہ اہل کتاب میں سے جو منکر ہیں ان کا یہ ارادہ اور خواہش ہے اور نہ منافق اور سست اعتقاد والے کا یہ ارادہ اور خواہش ہے۔پس تمہارے اور تمہارے ربّ کے ارادے ایک شاہراہ پر گامزن ہیں اور منکر اور منافق کے ارادے اور خواہشات اس کے اُلٹ طرف جا رہی ہیں۔ یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ جو تمام قدرتوں کا مالک ہے اور ہر چیز اس کے قادرانہ تصرف میں ہے۔ نتیجہ وہی نکلا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے دنیا جو چاہے سوچے۔ دنیا جو چاہے خواہش رکھے۔ دنیا جس طرح چاہے اسلام کے خلاف کوششیں کرے اور کرتی رہے۔ دنیا ہر تدبیر اسلام کے مقابلہ پر کرے۔ دنیا بعض دفعہ اپنی جہالت کے نتیجہ میں اپنے بد ارادوں کے حصول کے لئے دعا بھی کرتی ہے۔ سو وہ دعا بھی کرے کہ جو اللہ کا منشاء ہے وہ پورا نہ ہو اور جو ان کا منشاء ہے وہ پورا ہو جائے۔ اس قسم کی دعائیں کرتے ہوئے چاہے ان کے ناک گھس جائیں نہ ان کی تدبیر کامیاب ہوگی نہ ان کی دعائیں ثمر آور ہوں گی اور نہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا کیونکہ ہر دعا اور ہر سوال اللہ سے جو اس کے ارادہ اور منشاء اور رضا کے خلاف ہوتا ہے وہ دعا کرنے والے کے منہ پر مار دیا جاتا ہے قبول نہیں ہوتا۔
غرض محض دعا کافی نہیں اس دعا کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہو۔ پھر محض تدبیر کافی نہیں۔ ان اعمال کی ضرورت ہے جو مشکور ہوں جن کا اللہ تعالیٰ کوئی نتیجہ نکالے اور وہ ضائع نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ ایک بڑی ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری راہ میں ہر منکر اور منافق اور سست اعتقاد روکیں ڈالے گا۔ پھر کام مشکل بھی ہے۔ اگر یہ لوگ روکیں نہ بھی ڈالتے تب بھی یہ آسان نہ ہوتا۔ ساری دنیا کے دلوں کو خدا اور اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا آسان کام نہیں اگر شیطان روکیں نہ بھی ڈالے تب بھی بڑا مشکل کام ہے لیکن یہاں تو یہ صورت ہے کہ کام مشکل بھی ہے اور ساری دنیا اس کام کی مخالف بھی ہے اور چاہتی یہ ہے کہ ہماری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ اسلام کو کامیابی اور کامرانی حاصل نہ ہو اور اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے وہ ہر قسم کی تدبیریں کرتے ہیں قربانیاں دیتے ہیں وہ اپنے مالوں کو پیش کرتے ہیں مثلاً اسلام کے مقابلہ میں اس وقت صرف عیسائیت ہی جتنی رقم، جتنی دولت اور جتنا مال خرچ کر رہی ہے اس کا شاید ہزارواں حصہ بھی جماعت احمدیہ کے پاس نہیں کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ غرض مخالفین اسلام کو ناکام کرنے کیلئے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں لاکھوں کی تعداد میں زندگیاں وقف کرتے ہیں۔ اربوں کی مقدار میں اموال دیتے ہیں اور صاحب اقتدار لوگوں کی پشت پناہی میں منصوبے باندھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر تمہارے دل میں وہ اخلاص ہو جس سے میں پیار کرتا ہوں اگر تمہارے اعمال مخلصانہ بنیادوں پر ہوں جو مجھے پسند ہیں اور جن کو میں قبول کرتا ہوں تو نتیجہ تمہارے حق میں نکلے گا۔ خواہ دنیا جتنا چاہے زور لگا لے خواہ منافق اندرونی فتنوں سے ہر قسم کا فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ منکر کو بھی ناکام کرے گا۔ اللہ تعالیٰ مفسد اور منافق کو بھی کامیابی کی راہ نہیں دکھائے گا لیکن یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مختلف قسم کی قوتیں اور قابلیتیں عطا کی ہیں تم وہ ساری کی ساری خدا کی راہ میں وقف کر دو اور پھر تم کہو کہ اے خدا! ہم نے اپنی طرف سے جو بھی ہمارا تھا وہ خلوص نیت سے تیرے حضور پیش کر دیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم غریب ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم بے مایہ ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم کمزور ہیں مگر اے خدا ہم نے تیرے دامن کو پکڑا اور ہم اس یقین پر بھی قائم ہیں کہ تو سب قدرتوں والا ہے تو ایسا کر کہ ہماری کوششیں تیری نظر میں مقبول ہوں اور تیرے وعدے ہماری زندگیوں میں پورے ہوں تا کہ اس دنیا میں ہشاش بشاش تیری جنتوں میں داخل ہو کر تیری دوسری جنتوں میں داخل ہونے کے لئے یہاں سے کوچ کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور توفیق دے کہ ہم اس مرکزی نقطہ کو سمجھیں کہ یہ ذمہ داری جو ہم پر ڈالی گئی ہے یہ ہم نے ہی نبھانی ہے۔ کسی اور نے آ کے نہیں نبھانی اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی استعدادوں کی نشوونما اس رنگ میں کریں کہ جس رنگ میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم کریں اور اپنی ہر طاقت، اپنی ہر قوت، اپنی ہر استعداد اور قابلیت پر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ چڑھانے کی کوشش کریں۔ بے نفس ہوں اور فنا کی چادر میں خود کو لپیٹ لیں اور اللہ تعالیٰ میں گم ہو جائیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۵)
٭…٭…٭

غلبۂ اسلام کی عظیم بشارتیںہمیں دی گئی ہیں لیکن عظیم قربانیوں کا بھی ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ انسان محض اپنی قربانی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا۔
٭ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کا کام ہمارے سپرد ہے۔
٭ روس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بشارتیں بھی ملی ہیں۔
٭ عرب ممالک کی پریشانیاں حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ دور کی جائیں گی۔
٭ حضرت مسیح موعود ؑ نے اسلام کی صداقت میں زبردست دلائل دیئے ہیں۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:۔
یکم نبوت ۱۳۴۸ ہش یعنی یکم نومبر ۱۹۶۹ء سے تحریک جدید کا نیا سال شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اسی پر توکّل اور بھروسہ رکھتے ہوئے جو قادر و توانا ہے جو حسن و احسان کا منبع و سرچشمہ ہے جس کی توفیق کے بغیر انسان کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اس کے فضل کو جذب کرے۔ ہم اپنے اس نئے سال کو شروع کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔
تحریک جدید کا یہ سال دفتر اوّل کا چھتیسواں دفتر دوم کا چھبیسواں اور دفتر سوم کا پانچواں سال ہوگا۔ گذشہ سال میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہم پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور ان وعدوں کے مطابق جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہم سے کئے تھے ہمارے مالوں میں برکت ڈالی ہے۔اگر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس کی راہ میں اپنے اموال کو اور بھی زیادہ خرچ کریں تو اس کے فضلوں کے اور بھی زیادہ وارث بنیں گے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم سال رواں میں سات لاکھ نوے ہزار روپے تحریک جدید کے جمع نہ کر سکیں۔
یہ Target (ٹارگٹ) جو میں نے جماعت کے سامنے رکھا تھا وہاں تک ہم نہیں پہنچ سکے۔ گو گذشتہ سال کے مقابلہ میں قریباً اسی ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ابھی دو لاکھ سے اوپر کا فرق ہے سات لاکھ نوے ہزار روپے کے مقابلہ میں جو وعدے ہوئے ہیں وہ چھ لاکھ بیس ہزار روپے کے ہیں لیکن میری طبیعت میں گھبراہٹ نہیں پیدا ہوئی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی غفلت کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک اور وعدہ جماعت نے کیا ہوا تھا جس کی ادائیگی کا زمانہ ختم ہو رہا تھا اور جس کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت بھی تھی اور جس کی طرف میں نے بھی جماعت کو بار بار متوجہ کیا اور وہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدوں کو پورا کرنا تھا چونکہ جماعت اس طرف متوجہ رہی اور جماعت نے اس میں بھی کافی مالی قربانی دی ہے۔ اس لئے ہمارے سامنے جو مقصود تھا کہ ہم تحریک جدید کے لئے سات لاکھ نوے ہزار روپے جمع کر لیں گے اس میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ اس عرصہ میں (صحیح اعداد و شمار تو اس وقت ہمارے ذہن میں نہیں) میرا اندازہ ہے کہ پانچ سات لاکھ روپے پاکستانی جماعتوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن میں ادا کئے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان پانچ سات لاکھ روپے کی ادائیگی کے ساتھ ہی انہوں نے تحریک جدید کے لئے اسّی ہزار روپے کی زائد رقم کا وعدہ کیا ہے تو باوجود اس کے کہ جو Target (ٹارگٹ) مقرر کیا گیا تھا اس تک ہم نہیں پہنچنے پائے لیکن پھر بھی جماعت نے بڑی ہمت سے کام لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور قربانیوں میں اَور بھی زیادہ برکت ڈالے اور ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
یہ بھی بڑی خوشکن بات ہے کہ مالی جہاد میں حصہ لینے والوں کی تعداد میں قریباً اڑھائی ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے الحمدللہ۔ ایک اور چیز ہمارے سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے تحریک جدید کے ہر دفتر (یعنی اوّل، دوم، سوم) کے عطیہ کی جو فی کس اوسط بنتی ہے وہ جماعت کے سامنے پیش کی تھی اور میں نے بتایا تھا کہ دفتر اوّل میں حصہ لینے والوں کے چندوں کی اوسط فی کس ۶۴ روپے بنتی ہے لیکن دفتر دوم میں حصہ لینے والے کی اوسط فی کس صرف ۱۹ روپے بنتی ہے۔ دفتر دوم کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ ترقی کا بڑا وسیع میدان ان کے سامنے ہے۔ دفتر دوم کو اس طرف بھی کچھ توجہ ہوئی ہے۔ چنانچہ سالِ رواں میں ۱۹ روپے کے مقابلے میں جو اوسط بنی ہے وہ ۲۴ روپے فی کس ہے یعنی ۵ روپے فی کس کا اضافہ ہوا ہے یہ بھی خوشکن ہے لیکن اس اضافہ پر ٹھہرنا نہیں چاہئے بلکہ آئندہ سال اس سے بھی زیادہ اچھی اور خوشکن اوسط فی کس ہونی چاہئے۔
ایک اَور بات جس کی طرف میں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک جدید کے وعدے جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلہ میں اس سال اسّی ہزار روپے زائد کے ہیں اور یہ وعدے چھ لاکھ تیس ہزار روپے کے ہیں لیکن اس وقت تک وصولی صرف تین لاکھ اسّی ہزار روپے ہوئی ہے یعنی یکم اپریل تک دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ اَور وصول ہونا چاہئے میں سمجھتا ہوں کہ دفتر کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ رقم پوری ہوجائے گی کیونکہ گذشتہ چھ ماہ میں بڑا حصہ وہ تھا جس میں جماعت کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدے پورا کرنے کی طرف توجہ تھی۔ یہ وعدے خداتعالیٰ کے حضور پیش ہو چکے (سوائے چند استثنائی حالات کے) اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے۔ ہم اس کے فضل اور رحم پر بھروسہ رکھتے ہیں جو ہم نے کیا یا جو کر سکے ہیں اس کے اوپر ہمارا بھروسہ نہیں کیونکہ انسان محض اپنی قوت یا طاقت یا مال کی قربانی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے خدا کرے کہ ہم اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود جو حقیر رقم بھی اس کے حضور پیش کر چکے ہیں وہ اسے اپنے فضل سے قبول فرمائے اور ہم سب کو اپنی رحمت سے نوازے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ بقیہ دو لاکھ پچاس ہزار روپے کے وعدے بھی انشاء اللہ تعالیٰ چند ماہ کے اس بقیہ عرصہ میں یعنی یکم اپریل تک وصول ہو جائیں گے۔
بعض بڑی جماعتیں مالی قربانی کے لحاظ سے بڑی ہی سست واقع ہوئی ہیں جن میں سے ایک راولپنڈی کی جماعت ہے۔ دوست ان کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ میرا تاثر یہ ہے کہ جہاں تک کوشش کا تعلق ہے اس میں وہ کمی نہیں کرتے لیکن جہاں تک انسانی کوشش میں برکت کا سوال ہے ان کی کوششوں میں برکت نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ جس خرابی کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوگئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہ خرابی یا یہ بیماری دُور ہو جائے بعض دفعہ تکبر جماعتی بھی ہوتا ہے یعنی بعض جماعتوں میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے ایسے ہی جس طرح بعض افراد میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے یہ بھی شائد کسی تکبر یا نخوت یا خودپسندی یا اپنے مقام کو نہ پہنچاننے یا دوسرے مقام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے برکت سے محروم ہوگئے ہیں۔ بہرحال خداتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی کس قسم کی بیماری ہے جس نے ان کے کام سے برکت کو چھین لیا ہے۔ خدا کرے کہ ان کے کام بابرکت ہوں۔ وہ شافی مطلق جس کی تشخیص بھی صحیح ترین اور سب سے اچھی اور جس کا علاج بھی بہترین علاج ہے وہ ان کا طبیب بنے اور وہ ان کی بیماری کو دور کرے تا ان کی کوششوں کے بھی بہترین نتائج نکلنے شروع ہوجائیں کچھ اور مقامات بھی ایسے ہوں گے اللہ تعالیٰ سب پر ہی فضل کرے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق جو کام لگایا ہے وہ بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل ہے تحریک جدید کے ذمہ یہ کام ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پھر سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا۔ یہ مجلس اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کرے اور ساری جماعت ان کے ساتھ شامل رہے کیونکہ سارے ایک جان ہی ہیں یہ کام بڑا ہی مشکل ہے۔ اس میں اندرونی رکاوٹیں بھی ہیں اور بیرونی رکاوٹیں بھی۔ ایک طرف روس ہے جو بالکل دہریہ ہے اللہ تعالیٰ کو ہی نہیں مانتا اس کے قائدین نے ایک وقت میں تو ساری دنیا میںیہ اعلان کیا تھا کہ (نعوذ باللہ) ہم زمین سے اللہ تعالیٰ کے نام کو اور آسمانوں سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو مٹا دیں گے۔ یہ لوگ روحانیت میں اس قسم کے ہیں لیکن آخر ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بندے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ پھر سے وہ اپنے پیدا کرنے والے رحیم و کریم کو پہچاننے لگ جائیں اور اس کے فضلوں کے وارث بن جائیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ یا تو وہ اپنے ربّ کی طرف رجوع کریں گے یا وہ اس دنیا سے اس طرح مٹا دیئے جائیں گے جس طرح آج سے پہلے اللہ تعالیٰ کے سامنے باغیانہ اور مفسدانہ طور پر کھڑی ہونے والی قوموں کے نام و نشان مٹا دیئے گئے۔ انسانی تاریخ نے ان میں سے بعض کی ہلاکت کے حادثہ کو محفوظ رکھا اور ان کے کچھ واقعات ہمیں معلوم ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ ہزاروں ہزار بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ ایک لاکھ اور چند ہزار کی قومیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی طرف اللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوئے ان میں سے اکثر ایسی ہی ہوں گی۔ جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور وہ دنیا سے مٹا دی گئیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ ان سے دوسروں کو عبرت کا سبق نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے تاریخ انسانی نے ان قوموں کے نام اور ان کی تاریخ اور ان کے واقعات جس رنگ میں اور جس طور پر اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر بھڑکا اس کو یاد اور محفوظ نہیں رکھا۔ اس قوم یعنی Russia (روس) کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ یہی انزار کیا ہے کہ اگر تم اپنے ربّ کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو ہلاک ہو جاؤ گے۔ اس قوم کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بشارتیں بھی ملی ہیں۔ پھر یورپ ہے، امریکہ ہے۔ اگرچہ یہ اقوام بحیثیت قوم اس رنگ میں اس طور پر دہریہ اور اللہ تعالیٰ کی دشمن تو نہیں جس طرح روس ہے لیکن ان کی عملی حالت اور ان کے ایک حصہ کی ظاہری حالت بھی ایسی ہی ہے جیسے روس میں بسنے والوں کی۔ پھر جزائر کے رہنے والے ہیں ان کی حالت بھی نیک اور پاک نہیں یہ سب اقوام اللہ سے دُور اور اس کے پیار سے محروم ہیں۔
اسی لئے یہ سب اقوام خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں اور اس پر ایمان لانے والوں کی دوست اور ہمدرد نہیں ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت مثلاً مشرق وُسطیٰ کے عرب ممالک جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کے اوپر ہر قسم کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ان کو ہر طرح سے ذلیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان سے بے انصافی برتی جا رہی ہے لیکن ہمارے پیارے خدا عزاسمہ، نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں خوشخبری دی ہے اور آپ کو الہاماً بتایا گیا ہے کہ عرب ممالک کی پریشانیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے دور کی جائیں گی اور اصلاح احوال کے سامان پیدا ہوں گے۔ اسی طرح اہل مکہ کے متعلق خدائے ذوالجلال نے یہ پیش خبری دی کہ اہل مکہ خدائے قادرکے گروہ میں داخل ہو جائیں گے (نورالحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۱۹۷) اب مسلم ممالک سے جو بے انصافی ہو رہی ہے اس بے انصافی کو دور کرنے کیلئے ہمارے کندھوں پر دو قسم کے بوجھ ڈالے گئے ہیں۔ ہم پر دو قسم کی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی صحیح تربیت اور حقیقی اصلاح کریںتا کہ ان کے دلوں میں حقیقی نیکی اور تقویٰ پیدا ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس طرح محبوب بن جائیں جس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی رحمتوں سے حصہ پانے والے تھے۔
ہم پر دوسری ذمہ داری یہ عائد کی گئی ہے کہ وہ قومیں جو خدا تعالیٰ سے دوری اور بُعد کے نتیجہ میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں پر ظلم ڈھا رہی ہیں۔ ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو ایک زندہ رسول ہیں جن کے روحانی فیوض و برکات قیامت تک جاری ہیں اور خدائے قادر و توانا کی طرف جو زندہ خدا اور عظیم قدرتوں والا خدا ہے اور ہر قسم کی صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں ہے اور جس کا قہر ایک لحظہ میں ہر چیز کو ہلاک اور ملیا میٹ اور نابود کر سکتا ہے۔ اس زندہ خدا اور اس زندہ رسول کی طرف ان کو لانے کی کوشش کریں اور تبشیر کے ساتھ انذار کے پہلو کو مدنظر رکھیں۔ ہم ان کے پاس جائیں اور ان کو جھنجھوڑیں ان کو جگانے اور بیدار کرنے کی کوشش کریں مگر وہ اس طرح خواب میں بدمست پڑے ہیں کہ ہماری آواز سننے کے وہ اہل ہی نہیں اور جو نیند سے بیدار ہیں وہ ہماری آواز کو سننے کے لئے تیار نہیں لیکن اگرچہ وہ ہماری آواز کو سننے کے لئے تیار نہیں اگرچہ ان میں سے بہت سے روحانی لحاظ سے اتنی گہری نیند میںمدہوش ہیں کہ ہماری آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ تم جاؤ اور ان کو جگاؤ اور بیدار کرو اور ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی طرف لے کر آؤ اور اسلام نے جس ہستی کو اللہ کے طور پر پیش کیا ہے اس سے ان کو متعارف کراؤ اور ان کے دلوں کے سارے اندھیروں کو اسلام کے نور سے منور کرنے کی کوشش کرو اور ان کے اندر نیکی اور تقویٰ کا بیج بو دو۔ اس غرض کے لئے پہلے زمین صاف کرنی پڑتی ہے اور اسے کاشت کے قابل بنانے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ پھر اس قسم کا بیج بویا جاتا ہے ہم کمزور اور بے بس اور بے مایہ ہیں مگر کام بڑا ہی اہم ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ ذمہ داری بڑی ہی بھاری ہے جو ہمارے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے مگر ساتھ ہی ہمیں بڑی بشارتیں بھی دی گئی ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کے ذرّوں کی مانند دیکھتا ہوں (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۶۹۱) جس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ریت کا ذرّہ مٹی میں مل تو جاتا ہے لیکن اس پر مٹی کا اثر نہیں ہوتا۔ اسی طرح روس میں اسلام قبول کرنے والوںکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا تقویٰ عطا ہوگا کہ وہ اس گندے ماحول میں بھی اپنی سعادت مندی اور نیک فطرتی کا اظہار کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی آواز کو سن کر اس پر لبیّک کہنے والے اور اسی پر جان دینے والے ہوں گے اور وہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ بے شمار ہوں گے۔ اکثریت انہی لوگوںکی ہو جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا‘‘۔ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۲۴۷) ہندوقومیں جو نہ صرف اس وقت بھارت میں بلکہ بڑی Minorities (اقلیت) کی حیثیت میں بعض دوسرے ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں ان کے متعلق ہمیں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ اسلام قبول کریں گی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اپنا کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوں گی۔
اسی طرح آپ نے فرمایا ہے۔
’’اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۶۹)
ان بدبختوں اور بدقسمتوں کا دلی تعلق زندہ اور قادر خدا سے قائم کرنا اور اس کیلئے انتہائی قربانیاں دینا اور ایثار دکھانا اور تضرع اور خشوع سے دعاؤں میں لگے رہنا۔ یہ ہے وہ ذمہ داری جو ہم پر عائد کی گئی ہے۔
پھر انگلستان کے متعلق بشارت دی گئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ ’’میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مُدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں بعد اس کے میں نے بہت سے سفید پرندے پکڑے ‘‘۔ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۱۴۷)
پس ساری دنیا ہی انتہائی گند کے اندر مبتلا ہے۔ مثلاً روس ہے وہاں کے لیڈروں نے اپنی بدبختی کی وجہ سے یہ دعویٰ کر دیا کہ ہم دنیا سے اللہ تعالیٰ کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے۔ (نعوذباللہ) پھر یورپ کے بسنے والے بداخلاقیوں کے گند اور کیچڑ میں لت پت ہو رہے ہیں۔ آپ لوگ یہاں رہتے ہوئے اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
انگلستان کے یہ سفید پرندے الٰہی نور کے سامانوں سے بے حد غافل ہیں۔ ان کی ظاہری سفیدی پر اتنے بدنما دھبے پڑے ہوئے ہیں کہ انسانی عقل دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ انسانی دل اور روح کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر منور بنایا تھا لیکن اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے ان ظلمتوں کو پیدا کر لیا جنہوں نے ان کے نور کو ان کے ماحول سے باہر نکال دیا اور وہ روحانی لحاظ سے اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پس روس میں ریت کے ذرّوں کی طرح احمدی مسلمانوں کو پیدا کرنے کی کوشش کرنا آپ کی ذمہ داری ہے یورپ و امریکہ اور ایشیا اور جزائر کے رہنے والوں کو انتباہ کرنا اور کوشش کرنا کہ وہ ان اعمال کو چھوڑ دیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے اور وہ اعمالِ صالحہ بجا لائیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اور اس کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں۔ یہ بھی آپ کا کام ہے۔ عرب ممالک میں اصلاحِ احوال کے سامان پیدا کرنا یہ بھی آپ کا کام ہے۔ مکہ کے مکینوں کو قادر و توانا کی فوج میں فوج در فوج داخل کرنا یہ بھی آپ کا کام ہے۔ یہ بڑے ہی اہم کام ہیں او ربڑے ہی مشکل کام ہیں جو ہمارے سپرد کئے گئے ہیں اگر وہ زندہ خدا ہمارے ساتھ نہ ہوتا اور آج بھی ہمیں اس کی بشارتیں نہ مل رہی ہوتیں تو ہم تو زندہ ہی مر جاتے۔ ان بشارتوں اور اس انذار اور ان ذمہ داریوں سے جماعت کا ایک طبقہ غفلت برت رہا ہے ان کو بھی ہم نے ہوشیار اور بیدار کرنا ہے۔
اس وقت جو کام بھی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے کرنا ہے وہ جماعت احمدیہ نے کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم یا کسی جماعت کو بشارتیں دیتا ہے تو یہ تو نہیں کرتا کہ آسمان سے فرشتے بھیج دے اور وہ اس اسباب کی دنیا میں کامیابی کے سامان پیدا کر دیں۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ساری دنیا کو اپنا پیغام پہنچانے کیلئے اپنی آواز کو بلند کیا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام دنیا پر غالب آئے گا تو اس کے مقابلے میں جب شیطان نے اپنی میان سے تلوار کو نکالا تا کہ مسلمانوں کو ہلاک اور اسلام کو مٹا دے تو اس تلوار کا مقابلہ کرنے کیلئے فرشتے نہیں آئے تھے بلکہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے ربّ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا تھا۔ اُنہوں نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی گردنیں اس طرح آگے رکھ دیں جس طرح ایک بھیڑ مجبوری کی حالت میں قصائی کی چھری کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو دیکھ کر اور اس اخلاص پر نگاہ کر کے ان کی گردنوں کی حفاظت کے بھی سامان پیدا کر دیئے اور اسلام کے غلبہ کے بھی سامان پیدا کر دیئے لیکن آج تلوار کا زمانہ نہیں آج زمانہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اسلام کی روحانی تلوار کا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد۵صفحہ۲۵۴حاشیہ )
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کُند ہوگا جب تک دجّالیّت کو پاش پاش نہ کردے‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ۳۰۵)
اسی طرح ایک اَور جگہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا (یعنی اسلام ہی ساری دنیا کا مذہب اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ساری دنیا کے پیشوا ہوں گے) میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۷)
لیکن اس درخت کی آبپاشی کے لئے اور اس کی حفاظت کے لئے اور اُس میں نلائی کرنے کیلئے قربانی آپ نے دینی ہے آسمان سے فرشتوں نے آ کر یہ کام نہیں کرنا۔ اسلام کے غلبہ اور اسلام کی فتح کا بیج تو بو دیا گیا لیکن اگر وہ بیج اپنی نشوونما کے لئے ہماری جانیں مانگے تو ہمیں جانیں قربان کر دینی چاہئیں۔ اگر وہ درخت یہ کہے کہ اے احمدیو! میں نے تمہارے خون سے سیراب ہونے کے بعد بڑھنا اور پھولنا ہے اور پھل دینے ہیںتو احمدیوں کو اپنے خون پیش کر دینے چاہئیں۔ اگر ہم سے یہ مطالبہ ہو کہ تمہارے روپے کی ضرورت ہے تو ہمیں اپنے اموال پیش کر دینے چاہئیں تا کہ ساری دنیا میں اسلام کے مبلّغ پہنچیں اور وہاں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی صداقت میں جو زبردست دلائل دیئے ہیں وہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے (جیسا کہ اب بھی بعض سے یہی سلوک ہوتا ہے) ان کے ذریعہ سے غافل اور اندھیرے میں بسنے والے بندوں کو آسمانی نشان بھی دکھائے جہاں بھی اس نیت کے ساتھ ایک احمدی مبلّغ پہنچا ہے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے اس نے حیران کن نظارے دیکھے ہیں اور جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کے دلوں میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق پیدا کرتا ہے۔
پس تخم تو بویا گیا یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور ثمر آور ہوگا لیکن اس تخم کی نشوونما کیلئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے اس کو ہم نے پیش کرنا اور مہیا کرنا ہے۔ غرض یہ عظیم بشارتیں ہیں جو ہمیں دی گئی ہیں اور عظیم قربانیاں ہیں جن کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے۔
پس آؤ ہم آج یہ عہد کریں کہ ہم سے جس قسم کی عظیم قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے ہم اپنے ربّ کے حضور وہ قربانیاں پیش کریں گے تا کہ ہماری یہ عظیم خواہش کہ ہم اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے ساری دنیا کے انسانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو پیدا ہوتے دیکھیں، یہ خواہش پوری ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور وہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور وہ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انتہائی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان قربانیوں کو قبول فرمائے اور اپنے پیار کی اور اپنی رضا کی چادر میں ہمیں لپیٹ لے۔ ایک پیار کرنے والی ماں کی طرح ہمیں اپنی گود میں بٹھا لے۔ اللھم آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۴؍ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحہ۳ تا۶)
٭…٭…٭

ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات میں تمام مجالس کی نمائندگی ضروری ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ زندہ اور فعال الٰہی جماعت ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
٭ اجتماعات میں ہر جماعت کی نمائندگی کم از کم معیار ہے۔
٭ ہر مجلس کا ایک ایک نمائندہ ان اجتماعات میں ضرور پہنچے۔
٭ ہر سہ تنظیمیں مختلف روایتیں رکھتی ہیں اور ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔
٭ توحید پر قائم ہونے اور معرفت الٰہی کیلئے نمونوں کی ضرورت ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
پچھلے دنوں ناصرات الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا، بڑی رحمتیں نازل کیں اور ہر طرح خیروبرکت کے ساتھ یہ اجتماع انجام پذیر ہوئے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جیسا کہ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک زندہ فعال الٰہی جماعت ہر قدم آگے ہی آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے یہ اجتماع بھی گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ بارونق اور زیادہ بابرکت اور زیادہ مخلصانہ ماحول میں ہوئے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
انصار اللہ کے اجتماع میں سب سے زیادہ مجالس کی نمائندگی تھی لیکن اس نمائندگی کی تعداد بھی صرف ۳۴۶ کے قریب تھی جب کہ ہماری مغربی پاکستان کی جماعتیں قریباً ایک ہزار ہیں۔ ہمارا مقصد ہمیں صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جب ہم یہ کوشش کریں اور ہماری روایت اور معمول یہ ہو کہ ان اجتماعات میں ہر جماعت کی نمائندگی ضرور ہو اور یہ کم سے کم معیار ہے۔ ترقی کے مختلف مدارج میں سے گزرتے ہوئے ابھی ہم اس کم سے کم معیار تک بھی نہیں پہنچے۔ دوسرے اس لئے بھی کہ جیسا کہ میں بار بار جماعت کو توجہ دلاتا رہا ہوں اور توجہ دلارہا ہوں۔ احمدیت کی پیدائشی نسل جو اب جوان ہو رہی ہے یا پندرہ سال کو پہنچ رہی ہے (سات سال کی عمر کے بعد بچے مجلس اطفال الاحمدیہ کے ممبر بنتے ہیں اور بچیاں ناصرات الاحمدیہ کی ممبر بنتی ہیں اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد بچیاں لجنہ اماء اللہ میں اور بچے مجلس خدام الاحمدیہ میں شامل ہوتے ہیں) یہ اِنْفَلو (Inflow) یعنی جوانوں یا جوان ہونے والوں کا بہاؤ تسلسل کے ساتھ ہمارے بڑے دریا میں داخل ہوتا ہے۔ اس میں بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز زیادتی ہو رہی ہے اگر آج سے پچیس سال پہلے جب ہم قادیان میں تھے ہر سال ایک ہزار نئے خدام عمر پندرہ سال ہونے کی وجہ سے مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل ہوتے تھے تو آج میرے خیال میں ان کی تعداد کئی ہزار ہے۔ صحیح اعداد و شمار تو مجھے معلوم نہیں لیکن کئی گنا زیادہ خدام کی عمر کو پہنچ کر مجلس خدام الاحمدیہ میں داخل ہونے والے آج احمدی نوجوان ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہلے کی نسبت زیادہ کوشش کے ساتھ اور زیادہ وسیع انتظام کے ماتحت اس نئی نسل کو سنبھالنا اور ان کی تربیت کرنا ہے۔ جب تک ہم ہر احمدی کو خواہ وہ باہر سے لٹریچر پڑھنے کے بعد دلائل کا قائل ہونے کے بعد یا خواب کے ذریعہ یا بعض نشانات دیکھ کر احمدیت میں داخل ہونے والا ہے۔ یا وہ عمر کے لحاظ سے احمدی گھرانہ میں پیدا ہونے کے بعد اطفال الاحمدیہ میں شامل ہوا پھر خدام الاحمدیہ میں آیا۔ ناصرات میں ایک بچی شامل ہوئی پھر وہ لجنہ اماء اللہ میں آئی۔ بہرحال ہر نئے داخل ہونے والے احمدی کی صحیح تربیت ضروری ہے اور اسے علی وجہ البصیرت احمدیت پر قائم ہونا چاہئے اور اس کا دل اور اس کا سینہ اور اس کا ذہن اور اس کی روح اس یقین کے ساتھ بھرے ہوئے ہونے چاہئیں کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اب احمدیت کے ہاتھوں مقدر ہے اور اس عظیم جدوجہد کے لئے انتہائی قربانیوں کی ضرورت ہے اور ان انتہائی قربانیاں پیش کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کے عظیم وعدے ہیں اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہیں تو اللہ تعالیٰ ایک نہایت ہی پیار کرنے والے باپ کی طرح ہمیں اپنی گود میں بٹھا لے گا اور خود ہمارا حافظ و ناصر ہوگا اور اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی ہمیں وہ نعمتیں عطا کرے گا کہ جو دنیا داروں کے تصور میں بھی نہیں آ سکتیں خود ہماری عقل ان نعمتوں کے حصول سے قبل ان کا صحیح تصور حاصل نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ یقین ہوگا کہ ہم ایک صداقت اور سچائی پر قائم ہیں اور یہ یقین ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند کی حیثیت میں اور ایک عظیم انقلاب پیدا کرنے کیلئے مبعوث کیا اور ہمیں آپ کے جوارح بنایا جیسا کہ آپ نے خود تحریر فرمایا ہے اور جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ’’اے میرے درخت وجود کی شاخو!‘‘ پس ہم سب احمدی آپ کے جوارح ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک روحانی طور پر آپ ہی کا عضو ہے اور آپ کو آپ کے ان جوارح کو اور آپ کے درخت وجود کی شاخوں کو اللہ تعالیٰ نے عظیم بشارتیں دی ہیں اور ان چیزوں پر علی وجہ البصیرت یقین رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے۔
جو احمدیت میں پہلے داخل ہو چکے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں ثبات قدم عطا کیا اور کوئی ٹھوکر انہیں نہیں لگی اور مختلف قسم کے ابتلاؤں اور امتحانوں میں سے وہ گزرے۔ دنیا نے ان کے لئے آگ جلائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس آگ کو ٹھنڈا کیا۔ دنیا نے انہیں دکھ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لذت کے سامان پیدا کئے۔ وہ تو علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہیں کہ احمدیت ایک ایسی صداقت ہے اور اسلام کی صحیح شکل اس رنگ میں ہے کہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم وعدہ ہے کہ اسلام آج دنیا میں اپنی اس اصلی شکل میں غالب آئے گا۔ یہ لوگ دنیا اور دنیا والوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے ربّ سے ہر دم خائف رہتے ہیں کہ کہیں شیطان وسوسہ ڈال کر انہیں ان کے ربّ کی محبت سے دور نہ لے جائے اور وہ اللہ تعالیٰ پر اس قدر عظیم بھروسہ اور توکل اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہمارے دل اخلاص سے بھرے ہوئے ہوں اگر ہمارے سینے اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی سے معمور ہوں تو اللہ تعالیٰ بہرحال ہمیں دھتکارے گا نہیں وہ ہمیں دور نہیں پھینک دے گا وہ ہمیں اپنے ساتھ لگا لے گا اور اپنا قرب ہمیں عطا کرے گا اور اپنی رضا کی جنتوں میں ہمیں داخل کرے گا۔ ایک پختہ یقین اور ایمان کی بشاشت ان کے چہروں پر ہوتی ہے لیکن جو بعد میں آنے والے ہیں وہ باہر سے عقلی دلائل یا کسی ایک آدھ خواب کے نتیجہ میں یا دوسرے نشانات دیکھ کر احمدیت میں داخل ہوئے یا احمدیت میں پیدا ہوئے اور پھر شعور کو پہنچے اور خدام الاحمدیہ میں شامل ہوئے ان کی صحیح تربیت ضروری ہے۔ میں کئی بار آپ کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں اور اس تربیت ہی کے لئے مجلس اطفال الاحمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کو قائم کیا گیا ہے۔
مجلس خدام الاحمدیہ جماعت احمدیہ کا ایک نہایت ضروری حصہ اور ہماری مرکزی تنظیم کے ماتحت ایک نہایت ہی اہم اور نسبتاً مختصر تنظیم ہے گو اس کا تعلق عمر کے لحاظ سے جماعت کے ایک حصہ سے ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے اور ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ گو ہر جماعت کے نوجوان سارے تو اجتماع میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن ان کا ایک ایک نمائندہ اس اجتماع میں ضرور پہنچے اس کے لئے آج میں ایک کمیٹی بنا دیتا ہوں یہ کمیٹی تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ اور ہمارے مربی صاحبان اور معلم صاحبان کی ہوگی اور مستقل طو رپر ہوگی۔ لجنہ کے نمائندے جہاں تک ان کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کے نمائندے جہاں تک ان کا تعلق ہے اور انصار اللہ کے نمائندے جہاں تک ان کا تعلق ہے اپنے اپنے دائرہ کے متعلق لائحہ عمل تجویز کرنے کیلئے اس کے ممبر ہوں گے اور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ آئندہ ہم کم سے کم معیار پر ضرور پہنچ جائیں یعنی تمام جماعتوں کے نمائندے لجنہ اماء اللہ، ناصرات الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماعوں میں ضرور شامل ہوں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں صرف اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے جو اب تک ہوتی نہیں رہی اور جو جماعتی نظام ہے وہ میرے سامنے ذمہ دار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ میں نگرانی کروں گا کہ ان جماعتوں میں ہر جماعت کی نمائندگی ضرور ہو یعنی جماعت میں جو افراد خدام الاحمدیہ کی عمر کے ہیں وہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہوں اور اس طرح اپنی جماعت کی نمائندگی کریں جو افراد انصار اللہ کی عمر کے ہیں ان کی نمائندگی انصار اللہ کے اجتماع میں ہونی چاہئے۔ اسی طرح ہر جماعت کی مستورات اور ناصرات الاحمدیہ کی نمائندگی لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں ہونی چاہئے۔ اگر چھوٹی سی جماعت ہے ایک نمائندہ ہی وہاں سے آ جائے لیکن ہر جماعت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ان اجتماعوںمیں شامل ضرور ہو کیونکہ جو نمائندے ان اجتماعوں میں شامل ہوں گے وہ ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی لے کر واپس جائیں گے۔
مجوزہ کمیٹی کو اجتماعوں سے تین ماہ قبل اپنا کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر وہ ایک منصوبہ بنا کر اور مجھ سے مشورہ کر کے یہ کام کریں اور سارے مربیوں، معلّموں اور انسپکٹران مال تحریک جدید اور انسپکٹران مال صدر انجمن احمدیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی جماعتوں کے نمائندے ان اجتماعوں میں ضرور بھجوائیں۔
یہ تو ظاہری تنظیم کے لحاظ سے تھا۔ یہاں جس رنگ میں ان کی تربیت ہوتی ہے اس کے لئے زیادہ توجہ کے ساتھ پروگرام بننا چاہئے اور پھر اس پروگرام کو زیادہ کوشش کے ساتھ کامیاب بنانا چاہئے۔ مجھے جو رپورٹیں ملی ہیں وہ خوش کن ہیں مثلاً لجنہ اماء اللہ کی رپورٹ ہے کہ اس سال ہم نے گذشتہ سال سے زیادہ احاطہ قناتوں میں گھیرا تھا لیکن پہلے ہی دن یہ محسوس ہوا کہ یہ جگہ کم ہے چنانچہ پھر کافی بڑا حصہ جگہ کا اس احاطہ کے ساتھ ملایا گیا خدام الاحمدیہ نے بھی اس سال مقامِ اجتماع کافی بڑا بنایا تھا لیکن پچھلے سال کی نسبت کافی بڑا مقامِ اجتماع ہونے کے باوجود بہت سے دوست شامیانے سے باہر تھے انصار اللہ کا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے بھی مقامِ اجتماع گذشتہ سال سے بڑا بنایا تھا لیکن اس احاطہ سے جو قناتوں کے درمیان گھرا ہوا تھا قریباً پچاس فیصدی جگہ قناتوں کو ہٹا کر اس کے ساتھ ملائی گئی لیکن پھر بھی کافی افراد شامیانے سے باہر کھڑے تھے۔ پس یہ تو خوشی کی بات ہے کہ افرادِ جماعت کی توجہ اس طرف زیادہ ہو رہی ہے۔
اسی طرح جو مختلف پروگرام ہیں ان کے متعلق بھی جو رپورٹ ملی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا معیار خداتعالیٰ کے فضل سے گرا نہیں بلکہ پہلے سے بلند ہی ہوا ہے۔ ہرسہ تنظیمیں مختلف رواتیں رکھتی ہیں ان میں سے ہر ایک کے اندر ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ جب میں انصار اللہ کا صدر تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تھی کہ ان کے سالانہ اجتماع کا پروگرام اس طرح بنایا جائے کہ ایک مضمون سے لے کر یکے بعد دیگر مختصر تقاریر کی جائیں یا لکھے ہوئے مضمون پڑھے جائیں اور پھر اس رنگ میں پڑھے جائیں کہ ان کا اثر دماغوں پر بہت گہرا اور وسیع ہو۔ اصل میں تو ہمارا مضمون ایک ہی ہے اور وہ توحید باری ہے لیکن توحید باری کو سمجھنے کے لئے اور بہت سی راہیں ہمیں اختیار کرنی پڑتی ہیں مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری عظیم اور بڑی حسین زندگی کا اگر نچوڑ نکالا جائے اور وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) یہی حال رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا ہے۔
قرآن کریم زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی تعلیم ہمیں دیتا ہے لیکن اس ساری تعلیم کا خلاصہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اسلام کی بھی یہی غرض ہے۔ جتنے اولیاء اب تک پیدا ہوئے ہیں وہ اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد سمجھتے تھے اور ان کی عزت و احترام کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ توحید باری کو قائم کر دیں اور انسان کی توجہ ہر اس ناقص اور کمزور اور خبیث چیز سے پھیر دیں جو اللہ سے دور لے جانے والی ہے۔
اصل چیز توحید باری ہے لیکن توحید کو سمجھنے توحید کی معرفت حاصل کرنے اور توحید پر قائم ہونے کے لئے نمونوں کی ضرورت ہے اور بہترین نمونہ اور اُسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے چونکہ ہر عقل کو سمجھانے کی ضرورت تھی اس لئے قرآن کریم نے ہر عقل کو مخاطب کیا اور ہر انسان کی سمجھ کے مطابق اسے دلائل بھی دیئے اور اس کی توجہ نشانات کی طرف بھی پھیری۔ بڑے سادہ دماغ والوں اور اَن پڑھوں کو بھی اللہ تعالیٰ بڑے پیار سے بہت سی سچی خوابیں بھی دکھا دیتا ہے تا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ انسان کشوف کے حصول کی قوت اور طاقت نہیں رکھتا۔
پس اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ ہر طور اور طریق سے اپنے بندوں کو یہ سمجھاتا ہے کہ تم صرف میری بندگی اور عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ اِدھر اُدھر نہ دیکھنا ورنہ خسارہ اور ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ پروگرام جو ہیں جہاں تک اس کی آؤٹ لائنز (Out Lines) اور اصول جو ہیں وہ تو بنے ہوئے ہیںان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن نئے سے نئے طریق پر، نئے سے نئے دلائل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے نشانات کو جو نئے سے نئے آسمان سے نازل ہو رہے ہیں۔ بڑوں کے سامنے بھی اور نوجوانوں کے سامنے بھی اور بچوں کے سامنے بھی مردوں کے سامنے بھی اور عورتوں کے سامنے بھی رکھ کر انہیں چاروں طرف سے گھیر کر اس مرکزی نقطہ کے سامنے لے آنا چاہئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ اسی کی طرف ہر چیز رجوع کرتی ہے۔ ابتداء میں بھی وہ اسی سر چشمہ سے نکلتی ہے اور اپنی پوری وسعتوں کے بعد بھی وہ اسی چشمہ کے محتاج رہتے ہوئے اسی کی طرف لوٹتی ہے۔
اللہ ایک مرکزی نقطہ ہے اور کوئی ایسی خوبی نہیں جس کا منبع اور سرچشمہ وہ نہ ہو۔ خداتعالیٰ کی معرفت اور اس کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کرنا ہمار ی زندگی کا مقصد ہے۔ یہی احمدیت کا مقصد ہے یہی اسلام کا مقصد ہے۔ یہی نبی اکرم ﷺکی ساری عمر کی انتہائی جدوجہد کا مقصد تھا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہے۔ پس پروگرام تو وہی ہے لیکن اس کا معیار نہیں گرنا چاہئے بلکہ بلند ہونا چاہئے۔ ان مختلف اجتماعات کے فیوض کم نہیں ہونے چاہئیں بلکہ انہیں وسیع سے وسیع تر ہوتے رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا۔ اسی لئے اسی سے مدد اور نصرت مانگنی چاہئے اسی کے حضور عاجزانہ جھکنا چاہئے کہ اے خدا! تو نے ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ ہم احمدیت میں نئے داخل ہونے والوں کی صحیح تربیت کریں لیکن ہم کمزور بندے ہیں تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری مرضی اور تیری خواہش اور تیرے ارادہ کے مطابق تیرے ان بندوں کی تربیت ایسے رنگ میں کر سکیں کہ حقیقی معنی میںوہ تیرے بندے بن جائیں اور اے خدا! تو نے ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ اس نور سے ساری دنیا کے دلوں اور سینوں کو منور کریں جو آج اسلام سے دور اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے ہیں ان کو اسلام کے حلقہ میں لاکر انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں بٹھا دیں۔ ہم کمزور ہیں بے حد کمزور ہیں اور تو بڑی طاقتوںوالا ہے تیری ہی طاقت پر ہمارا بھروسہ اور ہمارا توکل ہے۔ پس تو ہماری مدد کو آ۔ تو خود ہی ہمارے ہاتھ بن، ہمارا ذہن بن اور ہماری آنکھ بن اور ہمارے جذبات بن۔ خود ہم سے کام لے ہمیں اپنا آلہ کار بنا کہ اس کے بغیر ہم اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی بندہ بننے اور اپنی نصرت کو اس طور پر حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکیں اور اس کی رضا کو اور اس کی خوشنودی کو حاصل کر سکیں۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲؍ اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ۳ تا ۵)

رمضان پانچ بنیادی عبادات روزہ، نماز اور نوافل، تلاوت قرآن کریم، سخاوت اور آفاتِ نفس سے پرہیز کا مجموعہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍نومبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ رمضان میں ہر قسم کی آفاتِ نفس سے بچنے کی کوشش کرو۔
٭ سخی دل انسان اپنے اثر ورسوخ سے بھی دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
٭ رمضان میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی جائے۔
٭ قرآن کو اس کے ترجمہ کے ساتھ لوگوں کو پڑھایا جائے۔
٭ رمضان عبادات کا مجموعہ، عظیم مجاہدہ اور عظیم کوشش ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
ماہِ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ رہا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس مہینے میں تمام قسم کی عبادتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرنے یا ادا کرنے پربہت کچھ کہا گیا ہے۔ رمضان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔
پہلے تو روزہ ہے دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر قیام اللیل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے چوتھے سخاوت اور پانچویں آفاتِ نفس سے بچنا ہے ان پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ عبادات ماہِ رمضان کہلاتی ہیں۔
جہاں تک روزہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حکم دیا اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ (بخاری کتاب الصّوم باب ھل یقول اِنّی صائم اذا شتم) یعنی روزہ گناہوں سے بچاتا اور عذابِ الٰہی سے محفوظ رکھتا ہے۔ انسان کی روحانی سیر کی ابتدا گناہوں سے بچنے سے شروع ہوتی ہے اور اس سیر روحانی کی انتہا اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچتے ہوئے اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے پر ختم ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ روزہ کا اور رمضان کے مہینے کی عبادتوں کا قیام اس غرض سے ہے کہ انسان ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بھی محفوظ رہے اور اس کی رضا کی جنتوں میں بھی داخل ہو جائے اس لئے ہم تمہیں اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔
فَـلَایَرْفُثْ وَلَایَصْخَبْ (بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذاشتم) یعنی نہ زبان سے کوئی گناہ کرے اور نہ ہاتھ سے کوئی گناہ کرے۔
حقوق العباد کا تعلق دو ہی چیزوں سے ہے اور دو ہی گناہوں سے حقوق تلف کئے جاتے ہیں۔ کبھی زبان سے حق تلفی کی جاتی ہے کبھی عمل سے حق تلفی کی جاتی ہے اور یہاں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ یہ مہینہ خاص تربیت کا ہے جو بقیہ گیارہ ماہ بھی تمہارے کام آئے گا اس ماہ میں یہ عادت پختہ کر لو کہ نہ اپنی زبان سے تم نے کسی کو دکھ پہنچانا ہے اور نہ اپنے عمل سے کسی کی حق تلفی کرنی ہے۔
پس روزہ جو ہے یا صیام کا نظام جو ہے جسے قرآن کریم نے ماہِ رمضان کہا ہے پانچوں عبادتوں پر مشتمل ہے اس کی غرض یہ ہے کہ انسان گناہوں سے محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرے اور اس کا طریق یہ ہے کہ زبان سے بھی کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ہاتھ سے بھی کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے حق قائم کیا ہے اس حق کو قائم کیا جائے اور ادا کیا جائے۔ اس میں حق نفس بھی آ جاتا ہے اور جو شخص اس حکمت کو سمجھتا اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالتا اور رمضان کے مہینے میں سختی سے اس پر کاربند ہوتا ہے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان میں اس پر جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں (بخاری کتاب الصوم باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان) ا ور دوسری جگہ فرمایا کہ اس پر آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ جس کا مفہوم یہی ہے کہ آسمان کے دروازے کھلتے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آسمان کے دروازے کھلتے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کی توفیق ملتی ہے اور انسان حسن قبول کی جزا حاصل کرتا ہے۔ انسانی اعمال کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور اس سے بہتر بدلہ دیتا ہے جس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور انسان کو اپنے ربّ کی طرف سے اعمال صالحہ بجا لانے کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور پھر وہ اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حسن قبول کا مقام پاتے ہیں تو اُس وقت فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ ہو ہی جاتے ہیں۔ جنت ہی کا دروازہ ہے جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے اندر وہ لوگ داخل ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعمال صالحہ کی توفیق پائی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان اعمال صالحہ کو قبول کیا۔
پس رمضان کے مہینے میں روزہ ہم پر اس لئے فرض نہیں کیا گیا کہ ہم تکلیف اُٹھائیں۔ اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ (بخاری کتاب الایمان باب الدین یسر) اللہ کے دین یعنی دین اسلام میں کسی پر کوئی ایسی تنگی نہیں ڈالی گئی جو اس کے جسمانی یا دیگر قویٰ کی نشوونما میں روک بنے بلکہ سارا دین اور دین کے سب احکام کی غرض ہی یہی ہے کہ انسان سہولت سے اور آرام سے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جائے اور اس سے ہمیں یہ بھی پتہ لگا جیسا کہ دوسری جگہ بھی اس کی وضاحت ہے کہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنا ہم پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ صوم ہم پر فرض کیا گیا ہے اور ان دو میں بڑا فرق کیا ہے شریعت اسلامیہ نے۔بھوکا تو ایک غریب بھی رہتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صائم نہیں ہوتا۔ بھوکا تو ایک بیمار بھی رہتا ہے۔ ڈاکٹر اسے کہتا ہے کہ تیری بیماری ایسی ہے کہ ۲۴گھنٹے یا بعض دفعہ ۴۸ گھنٹے تیرے معدے میں غذا نہیں جانی چاہئے لیکن خداتعالیٰ کی نگاہ میں ایسا شخص صائم یعنی روزے دار نہیںہوتا۔ بھوکا تو وہ بھی رہتا ہے جو جنگل میں راہ گم کر دیتا ہے اور کئی کئی دن تک اسے کھانے کو نہیں ملتا لیکن وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صائم نہیں ہوتا۔ پس محض بھوکا رہنا انسان کو روزہ دار نہیں بناتا بلکہ وہ بھوکا رہنا اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے جس میں انسان دو پہلو اختیار کرتا ہے۔ ایک شہوت نفس سے بچنے کا پہلو جو کہ ایک عام Symbol (سمبل) اور علامت ہے اور جس میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ہر قسم کی آفات نفس سے بچنے کی کوشش کرو اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ جو اس لئے اللہ تعالیٰ کی تدبیر نے بھوکے رکھے ہیں کہ وہ بھوکے رہ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں ان کے پیٹ بھرنے کے لئے سعی اور کوشش کی جائے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوسرے اصول کے متعلق بھی ہمارے لئے اپنی زندگی میں ایک بہترین اُسوہ اور کامل نمونہ قائم کیا چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے۔
کَانَ اَجْوَدُ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ
(بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبی ﷺ یکون فی رمضان)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ویسے بھی بڑے سخی تھے اور دوسروں کو سکھ پہنچانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے لیکن رمضان کے مہینے میں تیز ہوائیں اپنی تیزی میں آپ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ اس قدر جود اور سخا پائی جاتی تھی پھر صرف پیسے کی نہیں بلکہ دوسروں کو خیر اور بھلائی پہنچانے کیلئے ایک سخاوت ہوتی ہے۔ سخی دل انسان صرف اپنے مال یا اپنی دولت ہی سے دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے بھی دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اپنے وقت سے بھی دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اپنی دعاؤں سے بھی فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے۔ انسان اپنی اس فطرتی سخاوت کا مختلف طرق سے اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی سخی تھے لیکن رمضان کے مہینے میں آپ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ تمہیں بھوکا اس لئے نہیں رکھا گیا کہ تم بھوک کی تکلیف اُٹھاؤ بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ دوسروں کی بھلائی کے کام کرو، نیکی کے کام کرو اور دوسروں کو سُکھ پہنچانے کی سعی کرو۔ اپنے پیسے سے بھی، اپنے اثرورسوخ سے بھی اور اپنی دعاؤں سے بھی۔
پس رمضان کے مہینے میں دن کے وقت شہوت نفس سے بچا جاتا ہے اور دوسرے کھانے پینے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شہوت نفس سے بچنا اصولی طور پر ایک علامت ہے ایک سبق ہے کہ ہر قسم کی آفات نفس سے بچنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا۔
مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ
(بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ)
یعنی جو شخص صداقتکو چھوڑ کر جھوٹ اور زُوْرٌ اور باطل کی باتیں کرتا اور باطل اصول ہی پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے اور شہوت نفس کو چھوڑ دے کیونکہ خدا تعالیٰ کو وہ مقبول نہیں ہوگا۔ صرف وہ ترک مقبول ہوگا جس کے نتیجہ میں انسان اس حکمت اور اصول کو سمجھنے والا ہو جس حکمت اور اصول کا یہاں سبق دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ نہ تو زبان ناپاکی اور گندگی کی راہوں کو اختیار کرے اور نہ جوارح باطل کے میدانوں میں کوشاں نظر آئیں بلکہ زبان پر حق و صداقت جاری ہو اور حق و صداقت کے چشمے انسان کے جوارح سے پھوٹنے والے ہوں تب خدا تعالیٰ اس وجہ سے کہ انسان نے روزے کی حکمت کو سمجھا اور اس حکمت کے سمجھنے کے بعد اس نے وہ اعمال بجا لائے جو خدا تعالیٰ کو پیارے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس پر رجوع برحمت ہوگا اور نجات اور جنت کے دروازے آسمانوں پر کھولے جائیں گے اور قرب کی راہوں پر چلنا اس کے لئے آسان ہو جائے گا۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں قیام الیل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ آپ نے فرمایا:۔
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ
(بخاری کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان)
یعنی جو شخص راتوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی حمد کے لئے اور اس کے بندوں کے لئے دعائیں کرتے ہوئے جاگتا اور شب بیداری اختیار کرتا ہے اس لئے کہ وہ ایمان کے تضاضوں کو پورا کرنے والا ہو اور اس لئے کہ جب وہ اس دنیا میں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھے کہ وہ ان کوششوں کو قبول کرے گا اور اس کے نتیجہ میں اس کو آخرت کی نعماء ملیں گی۔ جو ایسا کرے گا غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ جو کوتاہیاں اور غفلتیں اس سے ہو چکی ہوں گی اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحیمیت کے جوش میں ان کوتاہیوں کو ڈھانپ لے گا اور کوئی جزائے بد جس کا وہ دوسری صورت میں مستحق ہو تا وہ اسے نہیں ملے گی۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان کے مہینے میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم کرتا ہے اس کا بھی اُسے ثواب ملتا ہے کثرت تلاوت قرآن کریم کا ثواب بھی اور دوسرے ثواب بھی محض خداتعالیٰ کے فضل سے ملتے ہیں۔ جب انسان اس فضل کو جذب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اس طرح جب اللہ تعالیٰ کے رحیم ہونے کی صفت جوش میں آتی ہے تب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی رضا کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے جزا دیتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت نیکی تو ہے لیکن صرف اسی صورت میں کہ شرائط پوری ہوں۔ قرآن کریم کی تلاوت تو عیسائی بھی کرتے ہیں مگر وہ اس کی تلاوت اس نیت سے کرتے ہیں کہ قرآن کریم پر اعتراض کریں۔ قرآن کریم کی تلاوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے مگر آپؐ نے اس پاک ترین نیت کے ساتھ تلاوت کی کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ فضل آپؐ پر نازل ہوا۔ پس کثرت تلاوت قرآن کریم ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ خلوص نیت بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر تلاوت کی جو نعمتیں ہیں یا قرآن کریم کی جو نعمتیں ہیں وہ انسان کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم کے فیوض سے انسان تبھی حصہ وافر لے سکتا ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کو جوش میں لائے۔ اسی لئے رمضان کے مہینے میں کثرت تلاوت پر زور دیا گیا ہے حالانکہ اور بہت سی روحانی مشقّتیں (اگر دنیا کا محاورہ استعمال کیا جائے) اس پر ڈالی گئی تھیں۔ دن کو بھوکا پیاسا رہنا اور پابندیاں سہنا اور پھر لوگوں کا خیال رکھنا اور پھر یہ بھی دیکھنا کہ دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے رمضان کے دنوں میں اسے باہر جانا پڑے گا اور اسے جانا چاہئے اگر اس نے روزے کا حق ادا کرنا ہے۔ پھر رات کے نوافل ہیں لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود مثلاً قرآن کریم کی اس تلاوت اگر خود قاری ہو یا اس سماع کے علاوہ اگر وہ خود قاری نہ ہو تراویح پڑھ رہا ہو اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی جائے۔
ہمارے بزرگ محدثین یعنی علم حدیث کے جو علماء تھے وہ تو رمضان کے مہینے میں اپنی حدیث کی کتب کے مسودات اور پوتھیاں وغیرہ کو بند کر دیتے تھے اور صرف قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ رمضان میں قرآنِ کریم کی کثرت سے تلاوت کی جائے۔ دوسرے بزرگ صحابہؓ بھی بڑی کثرت سے تلاوت کرتے تھے۔ بعض تو تین دن کے اندر سارے قرآن کریم کو ختم کر لیتے تھے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کو تین دن میں ختم کرنے کا ویسے ہی شوق ہوتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو تین دن میں ختم کر لیا۔ دراصل اس طرح جلدی جلدی سمجھے بغیر تین دن میں قرآن کریم کو ختم کرنا ثواب نہیں ہے البتہ قرآن کریم پر جو شخص عبور رکھتا ہے وہ اگر قرآن کریم کو جلدی پڑھتا جائے تب بھی چونکہ اس نے قرآن کریم کو کثرت سے پڑھا ہوا ہوتا ہے اس لئے سارے معانی اس کو یاد آنے شروع ہو جاتے ہیں اور نئے معانی پر اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کے فضل سے عبور حاصل کرتا چلا جاتا ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ اس طرح تین دن کے اندر قرآن کریم کو پڑھ لیا لیکن جس شخص کو معمولی ترجمہ آتا ہے اگر وہ ریل گاڑی کی طرح تین دن میں قرآن کریم کو ختم کرنا چاہے تو یہ اس کے لئے ثواب کا کام نہیں ہے۔ قرآن کریم کوئی ٹونہ یا تعویذ یا جادو نہیں ہے۔ قرآن کریم تو حکمت اور انوار سے پُر اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی کتاب ہے جس کے علوم سے حصہ لینا چاہئے نہ یہ کہ محض جلدی جلدی تلاوت کر لی جائے جو دوسروں کو کیا خود اپنے آپ کو بھی سمجھ نہ آئے۔ پس اگر انسان پورے غور سے اور پوری طرح سمجھتے ہوئے قرآن کریم پڑھ سکتا ہے تو پھر جتنی تیزی سے وہ چاہے پڑھے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک سیپارہ غور سے پڑھ سکتا ہے تو اس کو ڈیڑھ سیپارہ نہیں پڑھنا چاہئے اور میں سمجھتا ہوں اگر کوئی ایسا شخص ہو اور ضرور ایسے ہوں گے جن کو شروع سے پڑھنے کی توفیق نہیں مل سکی۔ ہم نے کئی ایک کو تعلیم بالغاں کے ذریعہ قرآن کریم پڑھوایا ہے جس طرح مثلاً اب بھی ہم تاکید کر رہے ہیں کہ قرآن کریم کو اس کے ترجمہ کے ساتھ لوگوں کو پڑھایا جائے۔ اگر کوئی آدمی صرف ایک ربع یعنی سیپارے کا چوتھا حصہ غور سے پڑھ سکتا ہے تو اس کو آدھا سیپارہ نہیں پڑھنا چاہئے کیونکہ ہم نے ایسا نہیں کرنا کہ ایک چکر بنایا اور اس کو چکر دے کر کہہ دیا کہ ایک کروڑ دفعہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی حمد یا اس کی تسبیح بیان کر دی ہے۔
قرآن کریم کو پورے غور سے پڑھنا اور اس نیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے کہ ہم اس پر عمل کرنے والے ہوں تب تلاوت قرآن کریم کا فائدہ ہے اور تب اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے جلوے انسان دیکھتا ہے۔ پس خداتعالیٰ کے رحیم ہونے کی صفت کے ساتھ ماہِ رمضان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سی باتیں مجھے چھوڑنی پڑیں گی۔ چند باتیں جو میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں ان میں تلاوتِ قرآن کریم کی کثرت بھی ہے۔ تلاوت ِقرآن کریم کا خداتعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کا ایک پہلو اس کی صفت رحیمیت کی وجہ سے جوش میں آتا ہے اور قرآن کریم کے فیوض سے وہی شخص مستفید ہو سکتا ہے جس کے لئے خداتعالیٰ کی صفت رحیمیت جوش میں آتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا ہے۔
’’کسی فرد انسانی کا کلامِ الٰہی کے فیض سے فی الحقیقت مستفیض ہو جانا اور اس کی برکات اور انوار سے متمتع ہو کر منزل مقصود تک پہنچنا اور اپنی سعی و کوشش کے ثمرہ کو حاصل کرنا یہ صفت رحیمیت کی تائید سے وقوع میں آتا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۴۲۰)
پس قرآن کریم پر غور کرنا اور یہ عہد اور یہ نیت کرنا کہ ہم اس کے احکام پر عمل کریں گے اور پھر عملاً سعی اور کوشش کرنا یہ ساری چیزیں اس وقت ثمر آور ہوتی ہیں جب انسان اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے اس کی صفت رحیمیت کو جوش میں لاتا ہے اور صفت رحیمیت کی برکت سے کلامِ الٰہی سیکھتا ہے۔چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بھی فرمایا ہے وہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہی ہے اس لئے آپ کی اس عبارت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ میرے کلام کو، اس کلام عظیم یعنی اس قرآن کریم کو جو نور محض کے چشمہ سے ہمارے لئے نور محض بن کر نکلا ہے اس سے تم حقیقی فائدہ صرف اسی صورت میں اُٹھا سکتے ہو اور اس کی برکات اور اس کے انوار تمہیں صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں کہ تم اس کو غور سے پڑھو۔ قرآن کریم کے یہ برکات اور یہ انوار جن سے ہم نے متمتع ہونا ہے یہ فی ذاتہا ہمارا مقصود نہیں بلکہ یہ ذریعہ ہیں ایک اور مقصد کے حاصل کرنے کا یہ مقصد قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم قرآن کریم کے فیوض اور برکات اور اس کے انوار سے متمتع ہونے کے بعد قرب الٰہی کو صرف اس صورت میں حاصل کر سکتے ہو کہ خدائے رحیم کی رحمت جوش میں آنے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ۔
’’جس قدر کسی کے دل میں خلوص اور صدق پیدا ہوتا ہے جس قدر کوئی جدوجہد سے متابعت اختیار کرتا ہے اسی قدر کلامِ الٰہی کی تاثیر اس کے دل پر ہوتی ہے اور اسی قدر وہ اس کے انوار سے متمتع ہوتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۴۲۰،۴۲۱)
پس اس کے لئے کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ کوشش اور مجاہدہ پانچ جہتوں سے محفوظ کر کے ماہِ رمضان میں رکھا ہے یعنی ایک یہ کہ روزہ رکھنا ہے جس کے معنی ہیں کہ نفسانی شہوات سے پوری مستعدی اور پوری بیداری اور جوش کے ساتھ محفوظ رہنے کی کوشش کرنا اور جو اعمالِ صالحہ ہیں جن کو قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے اور جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل جو ش مارتا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے یہ اعمالِ صالحہ بجا لانا اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کرنا تلاوتِ قرآن کریم اور قیام اللیل کے ساتھ۔ میں تلاوت قرآن کریم اس لئے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ اگر کسی جگہ کوئی ایسی بات آتی یا کوئی ایسا مضمون بیان ہوتا جس سے خدا تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی بڑائی اور اس کی رفعت ثابت ہوتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد میں لگ جاتے اور جس وقت وہ جگہ سامنے آتی جہاں خدا تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کا بیان ہوتا تو آپ استغفار میں لگ جاتے دراصل قرآن کریم کی تلاوت کا یہی طریق ہونا چاہئے۔
پس رمضان میں ان ساری چیزوں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور عبادات کا یہ مجموعہ عظیم مجاہدہ اور عظیم کوشش ہے اور یہ ایک ایسی کوشش ہے جس نے اس کے دن اور رات کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ایسی کوشش ہے جس میں نفس کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ تزکیہ نفس اور طہارتِ قلب کی طرف بہت توجہ کی گئی ہے اور ہر شخص کو سکھ پہنچانے اور ہر شخص کو دکھوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ مختلف کوششیں جن کا تعلق دن سے بھی ہے اور رات سے بھی ہے۔ جن کا تعلق ایثار اور قربانی سے بھی ہے یعنی شہوت سے بچنا اور کھانے پینے کو چھوڑنا اور جن کا تعلق مستعدی اور عزم و ہمت کے ساتھ غیروں سے حسن سلوک سے پیش آنے سے بھی ہے پھر ان کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہے۔ یعنی قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی ثناء اور اس کی تسبیح کو کثرت سے بیان کرنا۔ اسی طرح ان کا مجموعی طور پر حقوق العباد سے بھی تعلق ہے۔ پس قریباً تمام عبادات کے متعلق اصولی طور پر ہمیں اشارہ کر دیا گیا ہے پس رمضان میں انسان خدا کی راہ میں گویا اپنی جدوجہد کو اس کے کمال تک پہنچا دیتا ہے اور جس وقت انسان اپنی کوشش کو اس کے کمال تک پہنچاتا ہے اس وقت اگر اللہ تعالیٰ کا فضل جو دراصل اس کی رحیمیت کا فضل ہے جوش میں آئے تو اللہ تعالیٰ اس کو جزا دیتا ہے اور جس وقت اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت کسی سے سلوک کرنا چاہتا ہے تو صرف اس کی کوشش ہی کی اسے جزا نہیں دیتا بلکہ ایک تو اس کا فضل ہمیں اس طرح نظر آتا ہے کہ انسان بہرحال کمزور ہے وہ کوشش تو کرتا ہے لیکن اس کی کوشش میں بہت سے نقائص رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحیمیت کے نتیجہ میں ان نقائص کو دور کرتا اور انسان کے اعمال کو ضائع ہونے سے بچا لیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان کوشش کرتا ہے لیکن اس کی کوشش اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کو سہارا دیتا ہے اور اس کی کوشش کو کمال تک پہنچا دیتا ہے۔ پس نقص کوئی نہ رہا اور کمال تک پہنچا دیا اور یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہیں انسان کی اپنی کوشش سے حاصل نہیں ہوتیں کیونکہ انسانی کوشش کسی صورت میں بھی نقص سے خالی نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہی کی ایک ذات ہے جس کے اندر کوئی عیب نہیں۔ انسان نہ تو بے عیب ہے اور نہ اس کی کوئی کوشش مکمل اور غیرناقص ہے۔ انسان کی کوشش کا نقص سے پاک ہونا ناممکن ہے۔ البتہ انسان کی سچی اور پُرخلوص کوشش کے نقص کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے۔ انسان کی کوئی ایسی کوشش نہیں ہو سکتی جو سَوفیصدی کمال کو پہنچنے والی ہو۔ پس جہاں انسانی کوشش میں کوئی نقص ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس نقص کو دور کر دیتی ہے یا جہاں کوشش اُدھوری ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اس کو کمال تک پہنچا دیتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کا یہ فضل شاملِ حال نہ ہو انسان نجات کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نجات اسی کی ہوگی جو خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرے گا۔ کوئی شخص اپنی کوشش کے نتیجہ میں نجات حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ کوئی شخص اپنی کوشش کے نتیجہ میں یا اپنی تدبیر کے نتیجہ میں اپنے کسی کام کو مکمل اور بے عیب اور غیر ناقص نہیں بنا سکتا۔ اس کی کوششیں سَوفیصدی مکمل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ غفلت سے، اُونگھ سے اور نیند سے تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے انسان پر تو غفلت اور اُونگھ اور نیند طاری ہو جاتی ہے اور یہ اُونگھ اور نیند ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جس طرح جسمانی طور پر اُونگھ اور نیند ہے اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان پر اُونگھ اور نیند کے زمانے آ جاتے ہیں پس جب کہ انسانی کوششوں پر اُونگھ اور نیند طاری ہو جاتی ہے اور یہ اُونگھ اور نیند ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جس طرح جسمانی طور پر اُونگھ اور نیند کا زمانہ آتا ہے وہ مکمل کیسے ہوسکتی ہے وہ مکمل ہو ہی نہیں سکتی اور یہ ایک بڑی واضح اور موٹی بات ہے کہ جب تک کوئی کام اپنے کمال کو نہ پہنچے اس کی جزا مل ہی نہیں سکتی۔ مثلاً جو شخص سَو میل پیدل چلنے کے بعد ربوہ سے ایک میل کے فاصلے پر آ کر تھک کر بیٹھ گیا وہ ربوہ نہیں پہنچ سکتا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ۱۰۱ میل کا سفر تھا سَو میل طے کر لئے اب یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ربوہ پہنچ گیا یہ کیسے سمجھ لیا جائے۔ عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی اس لئے کہ جب تک کوشش مکمل نہ ہو اس وقت تک نیک نتیجہ اور بہترین ثمرہ نکل نہیں سکتا جو نکلنا چاہئے اور اگر کوئی شخص ۱۰۱ میل کا مثلاً سفر کر سکتا ہے لیکن راستے میں بہک گیا اور اس نقص کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہوتا چلا گیا اور اس میں طاقت ہی ۱۰۱ میل کا سفر کرنے کی تھی لیکن ۱۰۱ میل کا سفر طے کرنے کی کوشش کے باوجود اپنے اس نقص کی وجہ سے ربوہ نہیں پہنچ سکا۔ پس اگر ایسا نقص ہو تو اللہ تعالیٰ اس نقص کو دور کر دیتا ہے اور جب کوشش ناتمام ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے تمام اور کامل کر دیتا ہے اس کو اپنے فضل سے مکمل کر دیتا ہے۔ اس کی مدد کرتا ہے۔ پس جب تک خدا تعالیٰ کی مدد انسان کے شامل حال نہیں ہوتی اس وقت تک اس کو اپنی کوشش کا ثمرہ نہیں مل سکتا اور ہماری عقل بھی یہی تسلیم کرتی ہے کہ اس کو کوئی ثمرہ نہیں ملے گا۔ غرض نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل ضروری ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نجات ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ انسان کا کوئی عمل ایسا نہیں جو ناقص نہ ہو اور کوئی عمل ایسا نہیں جو اُدھورا نہ ہو۔ انسان کا عمل سَوفیصدی مکمل نہیں ہو سکتا اس نقص کو دور کرنے والا، اس کمی کو پورا کرنے والا، اس اُدھورے پن کو مکمل کرنے والا دراصل اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہوتا ہے اس لئے جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو انسان کو نجات نہیں مل سکتی اور اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں مختلف قسم کی کوششوں اور مجاہدات کو اکٹھا کر دیا ہے۔ جسم کا مجاہدہ ہے، زبان کا مجاہدہ ہے، اعمال کا مجاہدہ ہے، خدا تعالیٰ کی یاد میں اوقات بسر کرنے کا مجاہدہ ہے قرآن کریم پر کثرت سے غور اور فکر اور تدبر کرنے کا مجاہدہ ہے اور بھی بہت سے مجاہدات اکٹھے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دعا کیا کرو۔ دعائیں کرنا بھی ایک مجاہدہ ہے۔ میں نے ابھی نوافل کے متعلق جو کہا تھا وہ بھی دعائیں کرنے کے لئے ہوتے ہیں یعنی سب کوششوں کے بعد خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرنا کہ اے خدا! ہم نے اپنی طرف سے اپنی سی کوشش کر لی لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہماری کوشش ناقص ہے اور ہم نے پورا زور لگایا لیکن ہم مانتے ہیں کہ ہم پورا زور لگائیں تب بھی وہ بات نہیں بنتی اور ہم منزلِ مقصود تک پہنچ نہیں سکتے اس لئے ہم تیرے حضور عاجزانہ طور پر جھکتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ اے رحیم خدا! ہم پر رحم فرما اور ہماری کوششوں اور سعی اور خلوص نیت میں اگر کوئی نقص ہے تو اس کو دور کر دے۔ اگر کوئی کمی ہے تو اس کو پورا کر دے ہماری کوششیں اُدھوری ہیں۔ ہم انسان ہیں ہماری کوششوں کے کمال تک پہنچنے کیلئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اپنے رحم سے مہیا فرما۔ اے ہمارے ربّ رحیم! ہماری کوششوں کا وہ نتیجہ نکال جو ہمارے لئے جنت اور قرب اور رضا کے حصول کا باعث بنے او رہم تیرے محبوب بن جائیں جس طرح کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہم تیرے عاشق اور عاجز بندے ہیں اور جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم تجھ ہی میں فنا ہو جانے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔
پس رمضان کا بابرکت مہینہ آ رہا ہے اس ماہ میں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے حکم سے بہت سی کوششیں کرنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو بھی اور مجھے بھی ان کوششوں کو صحیح طور پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق کمال تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اے خدا اے رحیم خدا! ہم جانتے ہیں کہ اگر تیرا رحم ہمارے نقص کو دور نہ کرے، اگر تیری رحیمیت ہماری کوشش کو آخری مقصود تک پہنچانے میں اس کا سہارا نہ بنے تو ساری کوششوں کے باوجود ہم اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ پس ہمارے لئے اپنی رحمت کو جوش میں لا اور ہمیں وہ تمام نعمتیں اور انوار اور برکات وافر طور پر عطا فرما جن کا تعلق تیرے اس پاک ماہ رمضان سے ہے۔ اللھم آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ۲ تا۶)
٭…٭…٭

رمضان المبارک صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ باندھنے کا مہینہ ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍نومبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ رمضان المبارک پانچ عبادات پر مشتمل ہے۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کو صبر کا مہینہ کہا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔
٭ آفات نفس سے بچنے کے لئے حدود کی پابندی ضروری ہے۔
٭ دعائیں تبھی قبول ہوتی ہیں جب انسان عبودیت کا تقاضا پورا کرے۔


تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں:۔
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّعَلَی الْخَاشِعِیْنَo الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ: ۴۶،۴۷)
اس کے بعد فرمایا:۔
گذشتہ جمعہ، میں نے بتایا تھا کہ ماہِ رمضان پانچ عبادات پر مشتمل ہے ایک عبادت تو روزہ رکھنا ہے دوسرے فرض نمازوں کے علاوہ قیام لیل ہے۔ یعنی رات کے وقت نوافل ادا کرنا اور عاجزانہ طور پر اپنے ربّ کے حضور جھک کر اس سے ہر قسم کی خیر طلب کرنا۔ تیسرے کثرت تلاوتِ قرآن۔ چوتھے سخاوت اور پانچویں آفاتِ نفس سے بچنے کی کوشش جو بذاتِ خود ایک عبادت ہے۔
روزہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے دنیا کے آرام، آسائش اور کھانے پینے کو چھوڑتا ہے اور دوسرے یہ کوشش کرتا ہے کہ کسی اور کو اس کی زبان یا ہاتھ سے کوئی دکھ نہ پہنچے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتا اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف یہ بات محبوب نہیں ہو سکتی کہ کسی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بھوکا پیاسا رہا بلکہ اس کے پیچھے جو حکمت ہے اور اس میں جو سبق دیا گیا ہے اس حکمت اور سبق کو یاد رکھ کر اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سخاوت حقوق العباد کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ علامت ہے تمام حقوق العباد کی ادائیگی کی اور اس میں یہ فرمایا ہے کہ بنیادی حکم یہ ہے کہ دوسروں سے تعلقات میں صرف عدل اور انصاف پر نہیں ٹھہر جانا بلکہ جودوسخا کرنی ہے اگر ہر شخص یہ کوشش کرے کہ میرے بھائی انسان کا جو حق ہے میں نے صرف وہی ادا نہیں کرنا بلکہ میں نے اس حق سے زائد ادا کرنا ہے تو ساری بیماریاں معاشرہ کی اور ساری خرابیاں اقتصادیات کی خود بخود دور ہو جاتی ہیں اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو نفس کی آفات ہیں میں ایسی نفسانی خواہشات جو انسان کو ناپاکی کی طرف بُلا رہی ہوں اور اسے گندگی کی طرف دھکیل رہی ہوں ان خواہشات نفس اور آفات نفس سے بچنے کی کوشش کی جائے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بُرائی سے بچنے کے لئے اس قدر احتیاط برتو کہ نفس کے جائز حقوق کو بھی ایک حد تک چھوڑ دو مثلاً میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات بہرحال جائز ہیں لیکن روزہ کے ایام میں روزہ کے دوران ان تعلقات کو قائم کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ رات کے وقت تو ان تعلقات کو قائم کرنے کی اجازت ہے لیکن روزہ کے وقت اسلام نے یہ تعلقات بھی چھڑوا دیئے۔ یہ سبق دینے کے لئے کہ آفاتِ نفس سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حدود قائم کی ہیں ان حدود کے قریب بھی آدمی نہ جائے۔ ہاں ان حدود سے وَرے اجازت ہے۔ حد ایک باریک لکیر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ اس باریک لکیر کے قریب بھی نہ جاؤ۔ (دوسری جگہ اس کی وضاحت کر دی ہے) بلکہ کافی وَرے رہوتا کہ تم کسی قسم کا کوئی خطرہ مول نہ لو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ماہ رمضان) کو صبر کا مہینہ بھی کہا ہے اور جو آیت ابھی میں نے تلاوت کی ہے یعنی وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے۔ اس کا ایک بطن میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صبر کے ذریعہ یعنی رمضان کی ذمہ داریاں نبھاہنے، عبادات بجا لانے اور دعا کے ساتھ مجھ سے مدد مانگو وہ دعا جو عبادت ہے وہ تو صبر کے اندر آ جاتی ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا ہے۔ یہ ماہ صبر یا ماہ رمضان پانچ عبادات پر مشتمل ہے۔ ان عبادات میں دعا بھی شامل ہے۔ رات کے نوافل بھی شامل ہیں لیکن اس ماہ کی دعا یعنی ماہ رمضان کی دعا جو نوافل ہیں اور جو عبادات کے طور پر ہیں اس کے علاوہ ایک اور دعا کا یہاں ذکر کیا گیاہے۔ نماز جو عبادت ہے وہ تو صبر کے اندر آتی ہے لیکن یہاں الصلوٰۃ کے لفظ سے اس معنی میں جو مَیں کر رہا ہوں ایک خاص دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے استعانت حاصل کرنے، مجھ سے مدد حاصل کرنے اور استمداد کی خواہش ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ جتنی طاقت اور قوت اب تک تمہیں مل چکی ہے اور عطا ہو چکی ہے اسے تم میری راہ میں خرچ کرو یعنی اپنی تدبیر کو اپنی انتہاء تک پہنچاؤ۔
صبر جن عبادات کی طرف اشارہ کر رہا ہے (میں نے بتایا ہے کہ یہ لفظ اصولی طور پر تمام ذمہ داریوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے) وہ یہ ہیں۔
۱۔ دنیا کو خدا کے لئے چھوڑنا۔ ۲۔ خدا کے لئے آفاتِ نفس سے بچنا۔ ۳۔ اللہ کی رضا کے لئے دوسروں سے عدل و انصاف سے بڑھ کر جود و سخا کا معاملہ کرنا۔ ۴۔ اپنے محبوب کی محبت کی تڑپ کی وجہ سے راتوں کی نیند بھول جانا اور اس کا احساس بھی نہ رکھنا۔ ہر وقت اور راتوں کو اُٹھ کر بھی اللہ کے حضور جھکنا اس سے پیار کا اظہار کرنا اور اس کے پیار کو طلب کرنا۔ ۵۔ آفاتِ نفس سے بچنا۔ یہ پانچوں چیزیں اس جگہ صبر کے لفظ کے اندر آ جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ماہِ رمضان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شَہْرُ الصَّبْرِ (یعنی صبر کا مہینہ) بھی کہا ہے اور صبر کے معنی ہیں استقلال کے ساتھ ان باتوں پر کاربند رہنا اور بندھے رہنا (جیسے ایک آدمی دو چیزوں کو باہم باندھ دیتا ہے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں) اسی طرح صبر کے معنی میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان خود کو ان چیزوں سے جن کا ہماری عقل تقاضا کرتی ہے یا جن کا ہماری شریعت (قرآن کریم) تقاضا کرتی ہے اس طرح باندھ لے کہ پھر جدائی کا امکان ہی باقی نہ رہے اور اس معنی کے لحاظ سے صبر کے اندر تمام ذمہ داریاں اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ثباتِ قدم کا حصول اور ان کو پوری ہمت اور عزم کے ساتھ ادا کرنا سب چیزیں آ جاتی ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ربّ العالمین کی مدد چاہتے ہو تو تمہیں آج تک ربّ العالمین نے جو کچھ دیا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کرو۔ صلوٰۃ کا لفظ جو یہاں نمایاں کر کے دیا گیا ہے اس سے مراد عام عبادت یعنی نماز نہیں۔ ایک دعا تو وہ ہے جو تدبیر اور دعا کو بریکٹ کرنے کی کیفیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ یعنی دعا کرتے وقت انسان خدا کی حمد بیان کرتا ہے اس کی قدوسیت بیان کرتا ہے اور اس کی تمام صفات کو اپنے ذہن میں حاضر رکھتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اے خدا ہم کمزور ہیں ہم حتی الوسع طاقت خرچ کر رہے ہیں۔ ہم خلوص رکھتے ہیں اور نیک نیت بھی ہیں۔ مگر نہیں کہہ سکتے کہ ہماری نیتیں نیک ہیں اور ہمارا خلوص واقعہ میں خلوص ہے اور ہماری جو کوشش ہے واقعہ میں مقبول ہونے والی ہے تو ہماری کوششوں کو قبول کر۔ اس آیت میں صلوٰۃ کے لفظ کو جو علیحدہ کیا گیا ہے یہ میرے نزدیک یہ بتانے کے لئے ہے کہ یہ دعا بھی ہونی چاہئے کہ اے خدا تو ہماری دعا قبول کر۔ پس دعائیں دو قسم کی ہیں ایک دعا وہ ہے جو انسان تسبیح اور تحمید کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر مانگتا ہے اور ایک دعا وہ ہے جو انسان خدا سے مانگتا ہے کہ اے خدا تو ہماری دعاؤں کو قبول کر کیونکہ محض دعا سے ہمیں تسلی نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ قبول نہ ہو۔ اسی لئے اس آیت میں صلوٰۃ کے لفظ کو دوبارہ لایا گیا ہے کیونکہ عام نماز تو صبر کے لفظ کے اندر آجاتی ہے۔
یہاں وہی مضمون نسبتاً وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے جو سورہ فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی بڑی لطیف تشریح کی ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ تو نے ہمیں جو بھی قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں ہم ان سب کو خرچ کرتے ہوئے تیری عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص عمل نہ کرے اور صرف دعا کرے تو وہ شوخی دکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ میں نے جو تمہیں دیا تھا۔ اس سے تو تو نے فائدہ نہیں اُٹھایا پھر تو مجھ سے اور کیوں مانگ رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بعض اوقات اپنے بچوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتے ہیں کہ بعض بچوں کو انہوں نے اپنی طاقت کے مطابق چونی، اٹھنی، روپیہ یا دو روپیہ دیئے ہوتے ہیں وہ انہیں خرچ نہیں کرتے اور اَور رقم مانگ لیتے ہیں۔ انہیں ماں باپ کہتے ہیں جو پیسے ہم نے پہلے تمہیں دیئے تھے وہ خرچ کر لو پھر ہمارے پاس آ جانااور پیسے لے لینا لیکن جب تک تم وہ پیسے خرچ نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے نزدیک تمہیں اَور پیسوں کی ضرورت نہیں اس لئے ہم تمہیں اور پیسے نہیں دیتے۔ اس طرح ہمارا پیار کرنے والا ربّ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کریں اور پھر اس سے دعا کریں۔ دعائیں تبھی قبول ہوتی ہیں جب انسان پہلے عبودیت کا تقاضا پورا کرے یعنی جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور پھر اس سے دعا کرے کہ اے خدا جو کچھ تُو نے ہمیں دیا تھا ہم نے وہ تیری رضا کے حصول کے لئے اور تیرے حکم کے مطابق اور تیری شریعت کی پابندی میں تیرے حضور پیش کر دیا ہے لیکن اس وقت محض ان چیزوں کا تیرے حضور پیش کرنا ہمارے لئے کافی نہیں۔ ہمارا انجام بخیر ہونا چاہئے اس لئے تو ہمیں ثبات قدم دے۔
استعانت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اگر آج انسان اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں دے دے اور کل باغی ہو جائے اور شیطان کی طرف جھک جائے تو دو ایک روز پہلے یا ایک سال پہلے جو اس نے خدا کی راہ میں دیا تھا یا دیتا رہا تھا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے انسان سارا کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد اس سے دو چیزیں مانگے۔ ایک یہ کہ ہمیں اَور دے اور دوسرے یہ کہ ہمیں ثبات قدم دے تا ہم اسی طرح قربانیاں دیتے رہیں اور ہماری خوش قسمتی بدبختی میں نہ بدل جائے۔ ہماری سعادت شقاوت میں نہ بدل جائے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہے کیونکہ اللہ ہی وہ ہستی کامل ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے۔ تمام عیوب سے پاک اورمنزہ ہے۔ وہ ہر قسم کی قدرتوں والی ہے اس کا تصرف ذرّہ ذرّہ پر ہے کوئی خیر ایسی نہیں جس کا سرچشمہ وہ نہ ہو وہ کسی بدی سے اور بدنتائج اور بدانجام سے بچنا ممکن ہی نہیں۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے اس کا فیصلہ نہ کرے۔ یہ ساری باتیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے جب ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہمارے دل میں اس پاک وجود کی محبت پیدا ہوتی ہے اور پھر ہمارے دل اس چشمہ فیض کے مقابلہ میں جس نے ہر چیز کو خیر پہنچانے کے لئے اپنے احاطہ قدرت میں گھیرا ہوا ہے ایک چشمہ اَور پھوٹتا ہے اور وہ ہے اپنے ربّ کے لئے حمد کا چشمہ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی خوبیوں کا سرچشمہ ہے وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے۔ جب انسان اس کا عرفان حاصل کرتا ہے تو اس کے دل سے حمد کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر آستانہ الوہیت پر بہنے لگ جاتے ہیں اور محبت کا عظیم سمندر انسان کے سینہ میں جوش مارنے لگتا ہے اور پھر حقیقتاً عبودیت کے مقام کو حاصل کرتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی اتنی عظمت دیکھتا ہے تو اس کو یہ یقین اور معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے کہ میں لاشیٔ محض ہوں جب تک اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے فیض سے مجھے مستفیض نہ کرے۔ جسمانی لحاظ سے، ذہنی لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے میرا قائم رہنا ممکن ہی نہیں۔ اس لئے انسان استعانت طلب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے ربّ تو نے مجھے بہت کچھ دیا ہے اور میرا دل تیری حمد سے معمور ہے لیکن مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میرا تعلق تجھ سے ایک لمحہ کے لئے بھی قطع ہو جائے اور ہمارے درمیان ایک بُعد پیدا ہو جائے اگر تمہاری ربوبیت کا فیض میرے جسم کو نہ پہنچا اور میری جسمانی قوتوں کو تمہاری ربوبیت کا فیض نہ پہنچا تو مجھ پر ایک موت وارد ہو جائے گی۔ اگر تمہاری ربوبیت کا فیض میرے ذہن اور حافظہ کو نہ پہنچا تو میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔ میں نسیان کی بیماری میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ اگرتمہاری ربوبیت کا فیض میری اخلاقی قوتوں کا سہارا نہ بنا تو میں نہایت بد اخلاق انسان بن جاؤں گا۔ جس پر شیطان تو خوش ہو سکتا ہے لیکن اے میرے ربّ تیری رضا کی نگاہ پھر مجھ پر نہ پڑے گی اور اگر تیری ربوبیت کا فیض میری روحانیت کی بنیاد نہ بنے اور روحانی رفعتوں کے لئے تیرا مستعد اور حرکت میں آنے والا مضبوط ہاتھ سہارا نہ دے تو میں روحانی رفعتوں کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لئے جو کچھ میرا تھا وہ میں نے تجھے دے دیا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تو مجھے اَور دے اور میری یہ دعا بھی ہے کہ تو ہر وقت ربوبیت کے فیض سے مجھے فائدہ پہنچاتا رہے تا کہ کسی وقت بھی شیطان مجھ پر کامیاب حملہ نہ کرسکے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کو صبر کا مہینہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ رمضان کی عبادتوں کو توجہ، ہمت اور عزم سے ادا کرو اور اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ ادا کرو۔ عاجزی، فروتنی اور انکسار کے ساتھ ادا کرو۔ دوسروں پر صرف عدل اور انصاف ہی کا ہاتھ نہ رکھتے ہوئے بلکہ ان کے سروں پر جود اور سخا کا ہاتھ رکھتے ہوئے اور اپنے نفس کو بُرائیوں سے بچاتے ہوئے ان عبادات کو ادا کرو اور اپنے نفس کو شریعت کے احکام کا اس طرح پابند کرتے ہوئے ادا کرو کہ پھر احکام شریعت اور نفس انسانی میں دوری پیدا نہ ہو سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے یہ بھی کہو کہ اے خدا تو نے مجھے جو کچھ دیا تھا میں نے اس سے کام لیا ہے اور اتنا کام لیا ہے جتنی میری طاقت تھی۔ لیکن اے میرے ربّ تو نے ہمیں مزید رفعتوں کے حصول کی استعداد عطا کی ہے۔ ان مزید رفعتوں کے حصول کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ ہمیں عطا کر۔ ہم تیرے ناشکرے بندے ثابت نہیں ہوئے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اپنی طاقت سے آئندہ بھی ناشکر گزار بندے نہیں بنیں گے۔ اس لئے تیرے حضور ہماری یہ التجا بھی ہے کہ تو ہمیں ہمیشہ اپنے ہاتھ کا سہارا دے تو ہمیں ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھ تا کہ ہم ہمیشہ ہی تیرے شکر گزار بندے بنے رہیں۔
پس یہ مہینہ صبر کے ساتھ اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ باندھنے کا ہے تا حقوق اللہ اور حقوق العباد اس رنگ میں ادا ہو جائیں جس رنگ میں کہ ہمارا ربّ چاہتا ہے کہ ہم ادا کریں اور نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ اور نفس کے ہر قسم کے موٹاپے کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے ادا کریں تا کہ ہمارے لئے مغفرت کے سامان ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان کر دے کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے اس حد تک بھی ہم اللہ تعالیٰ کے قرب کو اس کے نتیجہ میں حاصل کرنے والے ہوں اور اپنی استعداد کے مطابق جس قسم کی رفعتیں ہم حاصل کر سکتے ہیں وہ رفعتیں ہم حاصل کر سکیں۔ ہمارا ربّ کریم، ہمارا ربّ رحیم اور ہمارا ربّ غفور پردہ پوشی سے کام لے۔ اپنے فضل سے کام لے، اپنی ربوبیت کے فیض سے ہمیں ہمیشہ مستفیض کرتا رہے تا ہم اپنی استعداد کے کمال تک پہنچ جائیں۔ یہ وہ سبق ہے جو رمضان کا مہینہ ہمیں دیتا ہے یہ وہ برکات ہیں جو رمضان کے مہینہ میں ہم حاصل کر سکتے ہیں خدا کرے کہ ہم اس سبق کو ہمیشہ ہی یاد رکھیں۔ ماہ صبر ہو یا دوسرے مہینے ہوں اور خدا کرے کہ جن برکات کے دروازے رمضان کے ماہ میں ہمارے لئے کھولے گئے ہیں وہ دروازے ہمیشہ ہی کھلے رہیں اور ہم ہمیشہ ہی خدا کی راہ میں صبر کرنے والے ہوں جن کے متعلق اس نے کہا ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کرتا ہوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ۳ تا۵)
٭…٭…٭

فانی فی اللہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے اور کامیابی اور فلاح سے ہمکنار ہوتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍نومبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ)
ء ء ء
٭ انسان کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور حقیقی عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیاہے۔
٭ انسانی زندگی کا دارومدار اللہ تعالیٰ کے فضل پرمنحصر ہے۔
٭ جو توحید خالص پر قائم ہو اُس کو شیر سے بھی ڈر نہیں لگتا۔
٭ زندہ اور قائم رہنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
٭ حقیقی عبد بننے کے لئے کامل فنا اورکامل اطاعت ضروری ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ آیۂ کریمہ تلاوت فرمائی:۔
یٰٓـاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(الحج: ۷۸)
اور اس کے بعد فرمایا:۔
انسانی پیدائش کی غرض صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عبودیت کا ایک حقیقی تعلق پیدا کیا جائے۔ اس بنیادی غرض کے حصول کے علاوہ باقی جو بھی مقاصد حاصل ہیں وہ انسانی پیدائش کی غرض اور مقصد نہیں لیکن ان کا ایک طبعی نتیجہ ضرور نکلتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ نہیں ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو اس کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ اس کا اپنے ربّ سے حقیقی اور زندہ تعلق قائم ہو جائے۔ جب اُس کا اپنے ربّ سے حقیقی اور زندہ تعلق قائم ہو جاتا ہے تو گناہوں سے وہ خودبخود پاک ہو جاتا ہے کیونکہ پھر اس کا دل اور اس کی روح کسی ایسے فعل کے کرنے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی جو اس کے پیدا کرنے والے محبوب خدا کو ناپسند ہو۔
اسی طرح انسان کی پیدائش کی غرض یہ بھی نہیں کہ انسان نجات حاصل کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسانی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان کوعبودیت تامّہ کا شرف حاصل ہو جائے کیونکہ جب ایک انسان اپنے ربّ کا حقیقی رنگ میں اور کامل طور پر بندہ بن جاتا ہے تو نجات تو اُسے خودبخود مل جاتی ہے۔ نجات تو اس عبودیت تامّہ کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہئے لیکن صرف نجات مقصدِ حیات انسانی نہیں اور نہ پاکیزگی اختیار کرنا اور گناہوں سے بچنا مقصدِ حیات ہے۔ مقصدِ حیاتِ انسانی یہ ہے کہ انسان اپنے ربّ کی عبودیت تامّہ کو اختیار کرے۔ اس کا حقیقی عبد بن جائے پھر وہ کسی ایسے گناہ میں مبتلا نہیں ہو گا جو اُس کے ربّ کو ناپسند ہو اور وہ ایسا کام نہیں کرے گا جو اُس کے ربّ سے اُسے دور لے جانے والا ہو۔ ہر وہ چیز جس کی وہ خواہش کرے گا وہ اُسے مل جائے گی اور وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کی عبودیت تامّہ کے نتیجہ میں ایک ابدی سرور اور ایک دائمی لذت کو حاصل کرے گا۔ نجات تو اس کو مل جائے گی لیکن وہ نجات کے لئے پیدا نہیں کیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنZ (الذّٰرِیٰت: ۵۷)
فرمایا انسانی زندگی کا مقصد عبودیت تامّہ کو اختیار کرنا یعنی عبد کامل بننا ہے باقی چیزیں تو بطور لوازم اور نتائج کے ہیں۔ یہ انسان کو مل جاتے ہیں لیکن انسانی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ اور حقیقی تعلق پیدا ہو جائے۔
یہ عبادت ہی ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور اس آیت میں بھی جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے خالص عبادت ہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ٹھہرایا گیا ہے لیکن بعض لوگ عبادت کے مفہوم کو یا اس فقرے کے مفہوم کو کہ انسان عبودیت تامّہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسی راہ کو اسے اختیار کرنا چاہئے سمجھتے نہیں۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بڑی لمبی لمبی اور دکھاوے کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پرستش اور اس کی عبادت کا حق ادا کر رہے ہیں یا بڑی کثرت سے روزے رکھنا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کی راہ میں بڑا مجاہدہ کر رہے ہیں یا اور دوسرے نیکی کے کام جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اُن کے ظاہر پر زور دینے لگ جاتے ہیں مگر حقیقت نماز سے ناآشنا اور حکمتِ روزہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اِس قسم کی عبادت عنداللہ عبادت متصور نہیں ہوتی۔
مجھے اس وقت ایک بزرگ کا واقعہ یاد آ گیا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ایک شخص بڑے بزرگ تھے لیکن ابھی گہرائیوں میں ان کی پہنچ نہیں ہوئی تھی۔ وہ نیکیوں کے ظاہر پر بڑا زور دیتے تھے۔ ایک دفعہ وہ ایک اَور بزرگ سے جن کی بڑی شہرت تھی ملنے گئے جب یہ وہاں پہنچے تو مغرب کی نماز ہو رہی تھی۔ یہ بھی نماز میں شامل ہو گئے مگر یہ بزرگ جو نماز پڑھا رہے تھے اور جن کی اُنہوں نے بڑی شہرت سنی ہوئی تھی اور جن کی ملاقات کے لئے یہ صاحب ایک لمبا سفر طے کر کے وہاں پہنچے تھے وہ سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی صحیح نہیں کر رہے تھے چنانچہ یہ بڑے مایوس ہوئے اور اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ میں نے اتنے لمبے سفر کی تکلیف بلاوجہ اور بے فائدہ اُٹھائی ہے۔ رات یہاں گزارتا ہوں صبح واپس چلا جاؤں گا۔ اُنہوں نے شاید استغفار بھی کی ہوگی کہ بڑا گناہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ صبح سویرے اُٹھے دریا قریب تھا دریا کی طرف جا رہے تھے تا کہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر وضو کر کے عبادت کریں مگر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر راستے میں سویا ہوا ہے وہ اُن کے پاؤں کی آواز سے دفعۃً اُٹھا اور ان کے پیچھے بھاگا یہ آگے آگے تھے اور وہ اُن کے قدم بقدم پیچھے پیچھے آ رہا تھا جس وقت اُس بزرگ کی عبادت گاہ کے قریب پہنچے جن کی قرأت اُن کو اچھی نہیں لگی تھی اور جن کے متعلق ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ جو شخص سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی صحیح نہیں کر سکتا وہ بزرگ کیا ہوگا وہ اُس وقت اپنی عبادت گاہ سے باہر نکل رہے تھے وہ آگے بڑھے اور شیر کے کان پکڑ لئے اور اس کو کہنے لگے کہ اللہ کے کتو! کیا میں نے تمہیں یہ کہا نہیں ہوا کہ تم نے میرے مہمانوں کو تنگ نہیں کرنا شیر دُم ہِلا رہا تھا اور اُن کو کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ چنانچہ جب اُنہوں نے شیر سے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ تو وہ فوراً وہاں سے چلا گیا پھر وہ ان سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگ ظاہر کا زیادہ خیال رکھتے ہو اور ریاء سے بچتے نہیں اس لئے مخلوق خدا سے خوف کھاتے ہو پھر انہوں نے بڑے نمایاں رنگ میں اور بڑے عجیب طریق پر ان کو سمجھایا کہ دیکھو صرف ظاہر کے خیال رکھنے کی وجہ سے مخلوق خدا سے ڈر لگتا ہے مگر ہم لوگ باطن کا خیال رکھتے ہیں اس واسطے خدا کی مخلوق کا خوف نہیں کھاتے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ڈوبے رہتے ہیں اس کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے مقابلے میں ہر چیز کو ایک مُردہ سمجھتے ہیں۔
پس جو خالص توحید ہے اس کاتقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا ہر دوسری مخلوق کو اپنی ذات میں مُردہ اور نیست سمجھا جائے کیونکہ ایسا شخص اس حقیقت پر قائم ہوتا ہے کہ انسانی حیات اور بقا اور اُس کا قیام اللہ تعالیٰ کے فضل کے سہارے کا محتاج ہے اور زندگی کا دارومدار اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ اگر وہ زندہ نہ رکھنا چاہے تو کوئی مخلوق فنا کا لباس پہنے بغیر رہ نہیں سکتی اور باقی بھی وہی رکھتا ہے کیونکہ وہ قیوم بھی ہے اسی کی ذات سے دنیا اور اس کی اشیاء قائم ہیں۔ پس جو توحید خالص پر قائم ہو اُس کو شیر سے ڈر نہیں لگتا۔ شیر تو پھر بھی ناسمجھ جانور ہے اس کو سارے کفارِ مکہ سے بھی ڈر نہیں لگتا آخر سارے کفار بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اکٹھے ہوگئے تھے مگر اس پاک وجود صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مات کھا گئے۔ اِسی طرح آپ کے جو متبع اور آپ سے محبت کرنے والے اور فدائی اور جاں نثار خادم ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق سے خوف نہیں کھاتے اس لئے کہ ان کے آقا اور مطاع اور محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں توحید حقیقی پر قائم کر دیا ہے۔ پس بہت سے ظاہری سجدے کرنا اور روزے رکھنا یا اسراف کرتے ہوئے اموال کو خرچ کرنا اور ظاہر یہ کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہے حالانکہ دل میں درحقیقت اس سے دنیا کو خوش کرنا مقصود ہو تو اس طرح کی عبادت وغیرہ کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے کے مترادف ہے۔ پس صرف ظاہر پر زور دینا مناسب نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ظاہر کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے اور اس کا اپنا ایک فائدہ ہوتا ہے جس طرح اس مادی دنیا میں پھل بغیر چھلکے کے نہیں ہوتے اسی طرح روحانی دنیا میں بھی کوئی لذت اور سرور اور لذت اور سرور کا کوئی ذریعہ اور وسیلہ بھی بغیر چھلکے کے نہیں ہوتا۔ اس کا بھی ایک ظاہر ہوتا ہے۔ پس یہ درست ہے کہ باطن کے ساتھ ظاہری پاکیزگی کا جو تعلق ہے وہ بھی قائم رہنا چاہئے لیکن مغز اور حقیقت بہرحال باطن ہے۔ بہرحال روح ہے، بہرحال ابدی صداقت ہے جو اللہ تعالیٰ میں ہو کر انسان حاصل کرتا ہے اور جو یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور ہر خیر اور خوبی اُسی سے انسان حاصل کر سکتا ہے کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بہرحال عبادت جو ہے وہ روح کے بغیر ایک بے حقیقت اور بے نتیجہ چیز ہے اور اس کا کوئی ثمرہ ظاہر نہیں ہوتا اور انسان کو اس کا کوئی پھل حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ بڑے مختصر الفاظ میں لیکن بڑے زور کے ساتھ عبادت کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستار الٰہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اِس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اُس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے۔ اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو۔ اگر ایسی حالت ہو جائے تو اُس کا نام پرستش ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خرائن جلد۲۲ صفحہ۵۴)
پس جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں بنیادی نکتہ وَاعْبُدُوْارَبَّکُمْ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! تم نے ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک عظیم ذمہ داری اپنے کندھوں پر یہ اُٹھائی ہے کہ تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور جس بات کی طرف ہم تمہیں بُلاتے ہیں اور جس پر ایمان لانے کا ہم تمہیں کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے ربّ کی عبادت کرو۔ عبودیت تامّہ کے حصول کی کوشش کرو اور اسی میں ہمہ تن لگے رہو اور اس کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو تا کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک سچے بندے اور حقیقی عبد بن جاؤ۔ چنانچہ عبودیت تامّہ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس مذکورہ آیہ کریمہ میں دو بنیادی باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک ہے تہی ہونا جس کی طرف یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا کے الفاظ میں رکوع کی طرف اشارہ ہے۔
رکوع کے معنی تذلل اور عاجزی اختیار کرنے کے ہیں۔ یعنی انسان خود کو بھی اور اپنے جیسوں کو بھی انتہائی طور پر عاجز تصور کرے اور اپنے میں کوئی طاقت نہ پائے اور ہر قسم کی طاقت اور قوت اور ہر قسم کی خیر اور بھلائی کا منبع و سرچشمہ اللہ تعالیٰ کو سمجھے۔ خدا کے سوا ہر چیز میں اسے نقص ہی نظر آئے خوبی نظر نہ آئے۔ اس کی نگاہ میں ہر خوبی اپنے ربّ کی طزف رجوع کرنے والی ہو۔ یعنی وہ اس یقین پر قائم ہو کہ جس جگہ کوئی حسن یا جس جگہ کوئی احسان کا جلوہ یعنی آگے فائدہ پہنچانے کی طاقت اُسے نظر آتی ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے کیونکہ یہ اُسی کے حسن کا پر تَو اور اسی کے احسان کا ایک رنگ اور جلوہ ہے۔
پس حقیقی عبادت کے لئے پہلا مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ انسان عاجزانہ راہوں کو اور تذلّل کی راہوں کو اختیار کرے یعنی خود کو کچھ بھی نہ سمجھے اور دنیا کی ہر مخلوق کو ایک مُردہ چیز تصور کرے اور خیر اور بھلائی کا سرچشمہ اور منبع سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی اور کو نہ سمجھے۔ پس ماسوائے اللہ کے ہر چیز کی نفی وجود ہے۔ حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی باقی ہے دنیا میں یہ مختلف چیزیں تو دراصل اس کی صفات کے جلوے ہیں جو دراصل کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَانٍ (الرحمن: ۳۰) کے مصداق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک جلوہ دکھاتا ہے پھر اس کو مٹا دیتا ہے اور پھر ایک اور جلوہ دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اِن جلوؤں کو ایک چکر دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح اس کی مخلوق کے مختلف پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے وہ پیدائش والے دن بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے بہت سے جلوے دکھا رہا ہوتا ہے۔ وہ محبت جو انسان کی فطرت میں اپنے ربّ کے لئے ہے اس محبت کی ظاہری اور مادی شکل پیدائش کے وقت بچے میں ہمیں نظر آتی ہے کہ وہ بے اختیار اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے حالانکہ اُس وقت نہ وہ کسی سکول میں گیا ہوتا ہے اور نہ کوئی کلاس Attend (اٹنڈ) کی ہوتی ہے لیکن یہ اس کی طبیعت میں اور اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے سکھائی گئی ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی بزبانِ حال اپنی والدہ سے اپنی زندگی اور بھلائی اور خیر کی بھیک مانگنے لگ جاتا ہے اس کو بتایا گیا ہے کہ تو بھی فانی، تیری ماں بھی فانی ان کے ساتھ میں نے جب تیری بھلائی وابستہ کر دی ہے تو میں جو ہمیشہ حی اور ہمیشہ قیوم ہوں اور میں جو سرچشمہ ہوں ہر قسم کی خیر کا اور منبع ہوں ہر قسم کی بھلائی کا، میری طرف اپنی ماں سے بھی زیادہ رجوع کرو اور میرے ساتھ اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ گہرے اور شدید اور حقیقی اور سچے تعلق کو قائم کرو تا کہ تم ہر قسم کی خیر اور برکت مجھ سے حاصل کرو۔
پس اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز حادث ہے وہ اپنی ذات میں زندہ نہیں۔ نہ اپنے زور سے وہ زندہ رہ سکتی ہے، نہ اپنے زور سے اپنی قوتوں اور طاقتوں کو قائم رکھ سکتی ہے، نہ اپنے زور اور طاقت سے وہ اپنی استعدادوں کو صحیح طور پر نشوونما دے سکتی ہے ہر خیر اور ہر بھلائی کسی بھی رنگ کی کیوں نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ سے آتی ہے اس لئے ان چیزوں کو اس سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پس پہلا سبق ہمیں یہ دیا گیا ہے کہ ہم فنا کو اپنے اوپر وارد کریں۔ ایک ہی ذات کو زندہ اور قائم رہنے والی سمجھیں اور یہ ہمارے ربّ کی ذات ہے۔ توحید حقیقی کا احساس اپنے دل میں پیدا کریں اور وہ اس طرح پیدا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو ایک مُردہ اور نیست اور لاشئی محض سمجھیں۔ ہم اپنے نفس کو بھی، اپنی طاقتوں کو بھی، اپنے دماغ کو بھی، اپنی عبادتوں کو بھی، اپنے اموال کو بھی، اپنی قربانیوں کو بھی اور اپنے ایثار کو بھی اور دوسروں کو بھی، غرض ہر چیز کو لاشئی محض سمجھیں اور ہر چیز کو بالکل بے حقیقت قرار دیں یہ ہے رکوع اور اس کی حقیقت۔
حقیقی عبادت کا دوسرا مطالبہ سجدہ ہے۔ یعنی جب نفس پر فنا وارد کر لی تو اس سے ابھی حاصل کچھ نہیں ہوا کہ انسان وہیں ٹھہر جائے یعنی اگر ہم خداتعالیٰ کے سوا کسی اَور چیز کو زندہ اور قائم رہنے والی ذات نہ سمجھیں تو یہ ایک صداقت ہے لیکن ابھی ہم نے اس مقام پر اس سے کچھ حاصل نہیں کیا اس واسطے دوسرا حکم یہ دیا کہ سجدہ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرو اور کامل اطاعت کے نتیجہ میں تمہیں عبودیت تامّہ حاصل ہوگی۔ اِن دونوں چیزوں یعنی ایک یہ کہ اپنے اوپر فنا وارد کرنا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنا اس کا نام عبودیت تامّہ ہے۔ یعنی جب کامل فنا انسان کی ذات پر وارد ہو جائے اور کامل اطاعت کا نمونہ اس کی زندگی میں نظر آنے لگے تو اس صورت میں اگر حقیقتاً باطن میں اخلاص اور نیک نیتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ شخص عبد تام ہوگا اور عبودیت تامّہ کو حاصل کر چکا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ میری سچی اور حقیقی عبادت کرو تو ساتھ ہی اس کے لئے تمہیں دو راہیں بھی بتا دیتا ہوں کیونکہ اپنی طرف سے تم ان راہوں کو بھی حاصل نہیں کرسکتے، اپنی کوشش سے تم ان وسائل کو بھی نہیں پا سکتے جو کہ عبودیت تامّہ پر منتج ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کو ظاہر کرتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی اور اس کے نور کے جلوے دل اور دماغ پر بٹھاتے ہیں جس کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا ایک کامل قرب حاصل ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے زور اور اپنی طاقت اور اپنی عقل اور سمجھ اور اپنے مجاہدہ سے ان وسائل کو حاصل نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہیں دو باتیں بتاتے ہیں کہ اگر تم ان کو اختیار کرو گے تو عبدتام یعنی ایک کامل اور حقیقی عبد اور سچے بندے بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہیں عبودیت تامّہ حاصل ہو جائے گی۔ ایک یہ کہ اپنے نفسوں پر فنا وارد کرو اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اتباع اور اطاعت کرو۔ پہلے انسان نے اپنے اوپر فنا وارد کی ، ہر چیز خالی ہوگئی، انسان کی تختی خالی اور صاف ہوگئی تو پھر اطاعت ہوگی اور اطاعت میں جوں جوں وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو وہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جائے گا جس کے نتیجہ میں پھر وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن جائے گا۔
پس حقیقی عبد بننے کے لئے ان دو راہوں کو ایک ہی وقت میں اختیار کرنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ کامل طور پر اللہ تعالیٰ میں فنا ہو جانا اور دوسرے یہ کہ کامل اطاعت کا نمونہ اپنی زندگیوں میں دکھانا ورنہ محض زبانی وعدوں سے انسان اللہ تعالیٰ کی اس رضا کو حاصل نہیں کر سکتا جسے اُس نے اِس مذکورہ آیہ کریمہ میں فلاح کے نام سے پکارا ہے یعنی ایسی کامیابی جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی ممکن نہیں اور جو انسان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں اِس مذکورہ آیت میں فرمایا ہے کہ جب تم فانی فی اللہ بن جاؤ گے، میرے اندر غائب ہو جاؤ گے، تمہارا اپنا وجود نہیں رہے گا اور جب تمہارا اپنا وجود نہیں رہے گا تو پھر تمہاری نگاہ میں تمہارے ماحول میں جو دوسری مخلوق ہے وہ بھی تمہیں نیست اور لاشئی محض ہی نظر آئے گی اور جب تم میری کامل اتباع کو اختیار کر کے میرے کامل بندے بن جاؤ گے تو اس طرح میرا رنگ تم پر چڑھ جائے گا اور میرے اخلاق تمہارے اخلاق بن جائیں گے۔ اسی حقیقت کو ہم کبھی فَنَافِی اَخْـلَاقِ اللّٰہ کا نام بھی دیتے ہیں اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ کا ارشاد اسی کی طرف اشارہ کرتا اور یہی ہدایت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ اور اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ۔ پس عبد کامل کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حسن کے عظیم جلوے نظر آتے ہیں لیکن حسن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے تو احسان کے جلوے بھی اس دنیا میں جاری و ساری ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہم جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہیں تو اُن میں حسن ہی حسن نظر آتا ہے اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام جہانوں کا نور ہے اور یہ اس کا حسن ہے اور جب اس کا یہ حسن یعنی اس کی صفات حسنہ عملاً مخلوق میں جلوہ افگن ہوتی ہیں تو یہی صفات احسان کا رنگ رکھتی ہیں۔ مثلاً خدا تعالیٰ کا رحمن ہونا ہے یہ اس کی بطور صفت کے ایک نہایت ہی حسین صفت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اندر یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بغیر استحقاق کے احسان کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ اس کی بطور صفت کے ایک نہایت ہی حسین صفت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اندر یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بغیر استحقاق کے احسان کرتا چلا جاتا ہے وہ اپنی مخلوق پر رحمت کی بارش برساتا ہے جب کہ اس کے کسی عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ابھی کسی بدلے یا جزاء کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس یہ فی ذاتہٖ ایک انتہائی حسین خوبی ہے اور ایک بڑی ہی حسین صفت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا معاملہ اس کی مخلوق سے ہونے لگتا ہے تو اس کے احسان ہی احسان نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زید کو، بکر کو، مجھے اور آپ کو وہ نعمتیں عطا کی ہیں کہ جن کا استحقاق ہم نے اپنی کسی تدبیر یا عمل یا دعا سے پیدا نہیں کیا تھا۔ ابھی ہم پیدا ہی نہیں ہوئے تھے لیکن ابھی بچہ پیدا نہیں ہوتا کہ ماں کی چھاتیوں میں اس کے لئے دودھ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ ابھی انسان اس دنیا میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس زمین یا اس الارض میں ایسی متوازن غذائیں پیدا کر دی گئی تھیں جو انسانی جسم کی ساخت کے بالکل موافق اور اس کی ضرورتوں کے مطابق تھیں۔ یعنی جس قسم کی کسی کو ضرورت ہوسکتی تھی اس کے مطابق مختلف اور مناسب حال غذائیں پہلے سے پیدا کر دی گئیں۔ یہ نہیں کہ پہلے تو اس نے انسان کو پیدا کر دیا ہو اور بعد میں اس کی غذاؤں وغیرہ کا خیال رکھا ہو اور یہ عمل تو شاید ہزاروں لاکھوں سال سے پہلے شروع ہو گیا تھا۔ پس وہ مخلوق خدا جو اس لئے پیدا کی جانی تھی کہ وہ اپنے رب سے ایک حقیقی اور زندہ اور اپنے اختیار سے (یعنی اختیار کے رنگ میں باقی تو ہر مخلوق کا تعلق اپنے ربّ سے ہی ہے لیکن اختیار رکھتے ہوئے اثر رکھتے ہوئے علیٰ وجہ البصیرت قربانیاں دیتے ہوئے) وہ اپنے ربّ سے تعلق پیدا کرنے والی مخلوق ہوگی۔ پس جس وقت وہ اس دنیا میں پیدا ہوتو وہ بھوکی نہ مرے۔ چنانچہ غذاؤں کے علاوہ پانی کا انتظام پانی کی صفائی کا انتظام پانی کو جراثیم سے پاک رکھنے کا انتظام اور پھر اس کو مختلف جگہوں پر پہنچانے کا انتظام غرض پانی کی فراہمی کے سلسلہ میں ہزار قسم کے انتظام کئے اور نہ صرف کھانے پینے کی چیزوں میں بلکہ دوسری تمام چیزوں میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے جلوے ہی جلوے نظر آتے ہیں اور پھر یہ سارے جلوے انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت بغیر استحقاق حق کے نظر آ رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ جو صفت حسنہ بیان فرمائی ہے جس وقت اس حسین اور خوبصورت صفت کے جلوے انسان پر ظاہر ہونے لگتے ہیں تو وہ احسان بن جاتے ہیں۔ وہی حسن جو ہے وہ احسان کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم عاجزی، انتہائی عاجزی اور کامل اتباع کو اختیار کر کے حقیقی معنوں میں میرا حسن اپنی زندگیوں میں پیدا کر لو گے تو پھر میری طرف سے تمہارے اندر یہ طاقت بھی ودیعت کر دی جائے گی کہ جس طرح تم میرے حسن کو میرے فضل اور میرے رحم سے اپنی زندگی میں سمیٹے ہوئے ہوگے اسی طرح میرے احسان کے جلوے بھی تمہارے اندر سے پھوٹ پھوٹ کر نکلنے لگیں گے۔ پھر تم وَافْعَلُوا الْخَیْرَاس قابل ہو جاؤ گے کہ تم خیر اور بھلائی کی باتیں کرو یعنی پھر تم اس بات کے قابل ہو جاؤ گے کہ تم اپنے نفسوں پر اور اپنے بھائیوں پر یا خداتعالیٰ کی دوسری مخلوق پر احسان کرو۔ اپنے نفس کے حقوق بھی ادا کرنے والے اور اپنے بھائیوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہو جاؤ اور اسی طرح بنی نوع انسان کے حقوق کو بھی ادا کرنے لگ جاؤ اور پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری مخلوق کے جو حقوق قائم کئے ہیں ان کی ادائیگی میں بھی کوشاں رہو۔
پس مذکورہ آیت میں جو مرکزی نکتہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے انسان! میں نے تجھے عبادت تامّہ کے لئے پیدا کیا ہے پس کامل عبد بننے کی کوشش کر اور تو خود اپنی کوشش سے اس راہ کو پا نہیں سکتا جس کا کامل عبد بننے کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے اس لئے ہم دو متوازن راہیں تجھے بتا دیتے ہیں۔ ایک فنا کی راہ ہے اور دوسری اطاعت کی راہ ہے۔ ایک وہ راہ ہے جس کے نتیجہ میں توحید خالص پر تو قائم ہو جائے گا اور دوسری وہ راہ ہے جس کے نتیجہ میں توحید خالص پر قائم ہو کر توحید خالص کے تقاضوں کو تو پورا کرنے لگے گا یعنی اپنے ربّ کی اتباع اور اطاعت میں لگا رہے گا اور جس وقت تو میرا کامل بندہ بن جائے گا تو پھر تو اس قابل ہو جائے گا اور اپنے اندر یہ طاقت رکھے گا اور یہ استعداد تجھ میں پیدا ہو جائے گی کہ میں تجھے یہ حکم دے سکوںوَافْعَلُوا الْخَیْرَ یعنی دوسرے بندوں کے ساتھ یا دوسری مخلوق کے ساتھ یا خود اپنے نفس کے ساتھ خیر یعنی بھلائی کا معاملہ کرے کیونکہ میرا حسن جس طرح میرے وجود میں ایک تو نور کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اس طرح وہ میرے وجود میں احسان کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ جب تو میرا کامل بندہ بن جائے گا اور میری صفات کا رنگ تجھ پر چڑھ جائے گا تو پھر یہ دونوں چیزیں تیرے اندر پیدا ہو جائیں گی۔ میرے حسن کا نوربھی تیرے وجود میں پیدا ہو جائے گا اور میرے احسان کے جلوے بھی تیرے وجود میں میری مخلوق مشاہدہ کرے گی تو اس قابل ہو جائے گا کہ وَافْعَلُوا الْخَیْرَکے الفاظ میں میرا یہ حکم سن کر خیر اور بھلائی کے کام کرنے لگ جائے کیونکہ اس کے عمل پیرا رہنے کی تجھ میں طاقت ہوگی۔
پس جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بن جاتا ہے اور عبودیت تامّہ اُسے حاصل ہو جاتی ہے تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے مطابق اس کے اخلاق بن جائے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کاپر تو اس کی زندگی کے ہر زاویہ اور ہر شعبہ پر پڑتا ہے۔ پس انسان کے کامل عبد بن جانے کی صورت میں جہاں دنیا اُس کے وجود میں حسن باری تعالیٰ کے جلوے دیکھتی ہے وہاں دنیا اس کے وجود میں اللہ تعالیٰ کے احسان کے جلوے بھی دیکھتی ہے اور یہ کامل عبد جو اللہ تعالیٰ کا ہم رنگ بن گیا یہی وہ انسان ہے جس نے وہ حقیقی اور انتہائی کامیابی حاصل کی اور فلاح پائی جس سے بڑھ کر کسی انسان کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کامیابی اور اس فلاح کی صورت میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کاابدی سرور حاصل ہوا۔ ایک ایسی لذت نصیب ہوئی جس کے مقابلے میں دنیا جہاں کی لذتیں بالکل ہیچ ہیں۔
پس انسان کو اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ اور حقیقی عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ حقیقی عبد بننے کی راہیں بتا دی گئی ہیں اور ان پر چل کر جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کو بھی بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہی ہیں کہ جب انسان ان راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن جاتا ہے تو پھر وہ ان کامیابیوں اور فلاح سے ہمکنار ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کی ہیں مگر وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے نہیں بنتے وہ بڑے ہی بدقسمت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میرے قریب آنے کی بجائے مجھ سے دور چلے جاتے ہیں اور اس طرح فلاح اور کامیابی میں میرے پیار اور رضا کی لذت اور سرور کو پا ہی نہیںسکتے۔
پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عبودیت تامّہ کے حصول کے لئے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھنی چاہئے تا کہ ہماری زندگی کا مقصد ہمیں حاصل ہو جائے وہ کامیابی ہمیں مل جائے جو ہمارے مقدر میں ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کا سلوک ہم سے ہونے لگے اور اس کی رضا کی نگاہ ہم پر پڑنے لگے اور اس کا ایسا پیار ہمیں نصیب ہو کہ جس کے بعد انسان کسی اَور چیز کی ضرورت اور احتیاج محسوس نہیں کرتا۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ آمین
(روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ۲ تا۷)
٭…٭…٭

جب تک اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل ساتھ شامل نہیں ہوتا اس وقت تک انسانی کوشش کے نتائج نہیں نکلا کرتے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸ ؍نومبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ عبودیتِ تامّہ کے لئے کامل اطاعت اور فرمانبرداری ضروری ہے۔
٭ رمضان دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔
٭ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے اپنے گھروں میں فراخی اور کشادگی رکھو۔
٭ ہمارا ہر جلسہ سالانہ ایک عظیم الشان نشان ہوتا ہے۔
٭ جلسہ سالانہ برکتوں کے حصول کا ایک عظیم موقعہ ہے۔


تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا۔
گذشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ عبودیت تامّہ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات سے سچی اور حقیقی محبت اور اس کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری ضروری ہے(اسی کے ساتھ عبودیت تامّہ انسان کو حاصل ہوتی ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کے ذاتی حسن کے جلوے انسان کو اپنی محبت کی گرفت میں اس طرح پکڑ لیں کہ غیراللہ کا وجود باقی نہ رہے اور خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی گرفت انسان کے دل، دماغ اور روح پر اس طرح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سوا کسی اور کی اطاعت کا خیال بھی دل میں نہ گزرے اس محبت(جو سچی اور کامل اور حقیقی ہو) اور اس اطاعت(جو ہر لحاظ سے مکمل ہو) کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق عبودیت تامّہ پیدا ہوتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ سچے اور حقیقی معنی میں انسان کی زندگی پر چڑھ جاتا ہے اور جب انسان اپنے رب کا حقیقی بندہ بن جائے اسی وقت اس کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ اس کی زندگی اس بات پر شہادت ہو کہ قرآن کریم میں خیر ہی خیر اور بھلائی ہی بھلائی ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے بندوں اور اپنی مخلوق پر احسان پر احسان کئے جا رہی ہیں۔ کوئی لحظہ ایسا نہیں کہ مخلوق پر اس کے رب کا احسان جاری نہ ہو اسی طرح جب اس کا بندہ، اس کا بندہ بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق اس کی زندگی میں اس طرح صفات باری کے جلوے دیکھتی ہے جس طرح کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ میں دیکھتی ہے اور اس وقت ہی انسان اس حکم کو صحیح طور پر بجا لا سکتا ہے کہ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ (الحج : ۷۸) نیکیاں اور بھلائی اور احسان کرتے چلے جائو۔ انسان کی زندگی اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تَو کے نیچے اسی کے فضل سے اس کی مخلوق کے لئے بھلائی ہی بھلائی بن کر رہ جائے یہ نقشہ ہے جو اس چھوٹی سی آیت میں کھینچا گیا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ عبودیت تامّہ کے حصول کے دو طریقوں اور عبودیت تامّہ کے نتیجہ میں کس طرح ایک خیر اور بھلائی اور نیکی اور حسن سلوک اور احسان عظیم کا ایک عظیم دریا بہتا ہے اور اس کے ساتھ اگلی آیت وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ(الحج : ۷۹) میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس مقام کے حصول کے لئے محض محبت کافی نہیں بلکہ اس انتہائی محبت کی ضرورت ہے جو جہاد کے حق کو اور کوشش اور سعی کے حق کو پورا کرنے والی ہو اور محض اطاعت کافی نہیں بلکہ ایسی اطاعت کی ضرورت ہے جو اطاعت کا حق ادا کرنے والی ہو اور محض خیر پہنچانا ہی کافی نہیں بلکہ انتہائی طور پر خیر پہنچانے کی ضرورت ہے جس پر حَقَّ جِھَادِہِ صادق آئے۔
اور اس اگلی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم میری راہ میں عبودیت تامّہ کے حصول کے بعد بنی نوع انسان سے اور مخلوق خدا سے عام طور پر حسن سلوک میں جو جہاد کا حق ہے کوشش اور سعی کا جو حق ہے وہ ادا کرو گے تو پھر میرے ساتھ تمہارا پختہ تعلق قائم ہو جائے گا اور تمہاری یہ زندگی ایک طرف اللہ تعالیٰ کو بڑی محبوب ہو گی اور دوسری طرف خداتعالیٰ کی مخلوق تمہارے ساتھ محبت اور پیار کا تعلق رکھے گی اور اگر سارے بندے اس قسم کے ہو جائیں گے تو سارے معاشرہ کی اور تمام دنیوی تعلقات کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی محبت پر قائم ہو گی اور وہ معاشرہ بڑا ہی حسین معاشرہ ہو گا اور وہ تعلقات بڑے ہی حسین تعلقات ہوں گے اور بڑی ہی حسین زندگی ہو گی جو اس زمانہ میں اس زمانہ کے انسان گذاریں گے۔ اس کے لئے جماعت احمدیہ پر فرض ہے کہ وہ ہر طرح کوشش کرتی رہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے جو اس سے دور ہو گئے ہیں اپنے رب کے مقام کو پہنچانیں اپنی زندگی کے مقصد کو جاننے لگیں اور اپنے ربّ کی طرف لوٹیں اور اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کریں اور یہ کوشش جاری ہے۔
یہ دعائوں کا مہینہ ہے اس میں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ اے ہمارے ربّ! ایک اہم ذمہ داری تو نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے ساری دنیا کے دلوں کو جیت کر تیرے قدموں میں لا ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ دنیا جو تجھ سے غافل ہے اور تیری طرف بلانے والوں کی دشمن ہے اس دنیا کو ہم نے تیرے لئے جیتنا ہے یہ فرض ہے جو تو نے ہم پر عائد کیا ہے لیکن یہ وہ کام ہے جو ہم اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے مجاہدہ سے اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے ہم اسے صرف اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب تُو ہماری مدد کو آئے کیونکہ کامیابی اسی وقت ہوتی ہے جب تو انسان کی مدد کو آ جاتا ہے اگرچہ تصویر تو یہ بنتی ہے کہ کہنے والے یا کہنے والی نے کہا تھا کہ میں نے اس بیاہ پر اپنے رشتہ دار کو ایک سو ایک روپیہ دیا ہے ان میں سے ایک سو روپیہ تو اس کے ایک عزیز کا تھا اور ایک روپیہ اس کا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل کے مجموعہ کے مقابلہ میں ہماری کوشش سو کے مقابلے میں ایک نہیں بلکہ نہ معلوم تعداد اور بے شمار کے مقابلہ میں ایک یا شاید ایک سے بھی کم ہو۔ بہرحال جب تک اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل انسان کی کوشش کے ساتھ شامل نہیں ہوتا اس وقت تک اس کوشش کے نیک نتائج نہیں نکلا کرتے اس وقت تک دین کی اور دنیا کی کامیابیاں حاصل نہیں ہوا کرتیں۔
غرض ماہ رمضان میں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! جہاں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں اپنی راہ میں صبر کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اور عزم کے ساتھ کوشش کی توفیق دیتا چلا جا وہاں یہ بھی فضل کرکہ اپنے فضل کو ہماری کوشش میں شامل کر دے تا کامیابی اور فلاح کی راہ ہمارے لئے کشادہ ہو جائے اور ہمارے دل تیرے حمد سے اور بھی زیادہ بھر جائیں لبریز ہو جائیں تاکہ جو حمد ہمارے دلوں سے باہر نکلے وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کی موجب بنے تا تیرے بندے تجھے پہچاننے لگیں۔
غرض ایک دعا تو یہ کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوشش میں اپنے فضل کو شامل کر دے اور دوسرے اللہ تعالیٰ جو حسین معاشرہ یا جو بہترین تعلقات یا جو ایک خوبصورت اور ایک محسن اور پیار پیدا کرنے والی زندگی وحدت اقوام کے ساتھ پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ہماری کوشش جاری رہنی چاہئے اس کوشش میں بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں کا دخل ہوتا ہے ان میں سے ایک موقعہ ہمارا جلسہ سالانہ ہے۔ اصل اور بڑا موقعہ تو حج ہے جس میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا اکٹھا ہو کر اس وحدت اقوام کا ایک نقشہ پیش کرنے کے لئے بلایا گیا ہے تا انسان کی توجہ اس طرف پھرے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جس طرح انسان کی پیدائش کی ابتداء میں انسان(گو ایک چھوٹی سی قوم کی شکل میں لیکن) بھائی بھائی کی طرح رہنے والے تھے اسی طرح اب پھر ساری دنیا میں بسنے والے اربوں انسان ایک خاندان کی طرح رہنے لگیں اور یہ خاندان کے خونی رشتوں سے زیادہ محبت اور پیار کے رشتے سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب دنیا میں پیدا نہیں کر سکتا یہ ہمارے اس لئے ایک حکم ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لئے ہر درد مند دل اور اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا ہر دل دعائیں کر رہا ہے لیکن اس کے لئے بعض چھوٹے چھوٹے موقعے مستقل طور پر رکھ دئیے گئے ہیں۔ حج کا موقعہ گو ایک عظیم موقعہ ہے لیکن اس وحدت اقوام کے قائم ہونے کے لحاظ سے جو ساری دنیا کے انسانوں کو ایک کر دے گی حج کا موقعہ بھی ایک چھوٹا سا موقعہ ہے کیونکہ وہ نمائندوں کے جمع اور اکٹھا ہونے کا موقعہ ہے۔ اس موقعہ پر مسلمانوں کے جو نمائندے جمع ہوتے ہیں وہ ساری قوم کے اجتماع اور اس کے اکٹھا ہونے کے مقابلہ میں بہرحال ایک مختصر حقیقت ہوتی ہے۔ گو یہ حقیقت تو ہے۔ ایک صداقت عظیمہ تو ہے لیکن تمام انسانوں کے اکٹھے ہو کر ایک برادری بن جانے کے مقابلہ میں یہ حقیقت بہرحال ایک چھوٹی سی حقیقت ہے اور اس سے بھی ایک چھوٹی حقیقت لیکن ضروری چیز جو ہم احمدیوں کے سامنے اس اجتماعی وحدت اور اجتماعی پیار اور سارے انسانوں کی ایک برادری قائم کرنے کے لئے مثال کے طور پر رکھی گئی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے جلسہ سالانہ ہے اور یہ جلسہ سالانہ قریب آ رہا ہے اس کے لئے ابھی سے اس ماہ رمضان میں جو دعائوں کا مہینہ ہے اور دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو بھی ہر طرح خیر و برکت کا موجب بنائے۔ یہ جلسہ سالانہ نہ صرف جماعت احمدیہ کیلئے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے اور ہر مخلوق کے لئے اس معنی میں بابرکت ہو کہ اس میں شامل ہونے والے خیر اور بھلائی اور نیکیوں کی باتیں اس رنگ میں سنیں کہ وہ انہیں یاد رکھیں اور پھر انہیں اس طور پر یاد رکھیں کہ وہ ان پر عمل کریں اور خداتعالیٰ کی مخلوق سے خصوصاً بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرے۔
غرض ایک تو ابھی سے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے آنے والے جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت اور خیر کا باعث بنائے دوسرے اس جلسہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ کا بھی تعلق ہے اور اس الہام یعنی وَسِّعْ مَکَانَکَ میں لفظی معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو حکم دیئے ہیں ایک حکم تو یہ ہے کہ عام طور پر دنیا اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق گھروں کو بناتی ہے مثلاً اگر کسی کا ایک بچہ اور وہ اس عمر کا ہے کہ اسے دوسرے کمرہ میں علیحدہ لٹانا چاہئے تو وہ سوچتا ہے کہ گھر میں دو کمرے تو ہونے چاہئیں تا ماں باپ ایک کمرہ میں ہوں اور بچہ یا بچے دوسرے کمرہ میں ہوں لیکن ایک احمدی کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر مال کی وسعت ہو(یہ نہیں کہ قرض لے کر ایک کمرہ بنایا جائے) اگر اللہ تعالیٰ نے اتنے پیسے دئیے ہوں کہ ایک کمرہ اس نیت سے بنایا جائے کہ خدا اور اس کے مذہب کے لئے کچھ لوگ یہاں اکٹھے ہوں گے وہ یہاں بطور مہمان آئیں گے ان مہمانوں کیلئے بھی میں اپنے گھر میں فراخی اور کشادگی رکھوں ان کے لئے بھی میں ایک زائد کمرہ بنا دوں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے وَسِّعْ مَکَانَکَ میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے بھی اپنے مکان میں ایک کمرہ یا ایک سے زائد کمرے بنائیں اور اس لحاظ سے ہمارا ہر جلسہ سالانہ ایک عظیم نشان ہوتا ہے کیونکہ ہر سال یہاں کئی نئے مکانات بن جاتے ہیں اور مجموعی طور پر ربوہ کی مکانیت میں اللہ تعالیٰ کی اس منشاء کے مطابق کافی وسعت ہو چکی ہوتی ہے اور پہلے سالوں کی نسبت مکانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی مہمانوں کی کثرت پہلے سال کی نسبت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تنگی اپنی جگہ پر موجود رہتی ہے اس تنگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ غرض یہ بھی خداتعالیٰ کا ایک عظیم نشان ہے جو ہم جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ہر سال ملاحظہ کرتے ہیں۔
پس الہام وَسِّعْ مَکَانَکَمیں ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ سے محبت اور پیار کا تعلق رکھنے والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے مکانوں میں خداتعالیٰ کے مہمانوں کے لئے بھی گنجائش رکھنا۔ دوسرے اس میں یہ حکم ہے کہ اپنے موجودہ مکانوں میں مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے گنجائش پیدا کرو کیونکہ وَسِّعْ کے ایک معنی تَفَسَّحُ کے بھی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۂ مجادلہ میں فرماتا ہے کہ جب کہا جائے تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ( المجادلۃ :۱۲)مجالس میں کھل کر بیٹھو اَور آدمیوں کے لئے جگہ نکالو تو اس وقت تم کھل کے بیٹھا کرو تاکہ مزید آدمی بیچ میں بیٹھ سکیں۔ غرض وَسِّعْ مَکَانَکَ کے ایک معنی یہ ہیں کہ تم اپنے مکانوں(ان کی اس وقت جو مکانیت بھی ہے) میں خداتعالیٰ کے مہمانوں کے لئے جگہ نکالو گویا اس کے ایک معنی تو ہیں مہمانوں کے لئے جگہ بنائو اور ایک معنی ہیں مہمانوں کے لئے جگہ نکالو اور یہ معنی تَفَسَّحُ کے مفہوم کے لحاظ سے ہیں۔
جلسہ سالانہ قریب آ رہا ہے اور ایک مخلوق خدا کے لئے اپنے گھروں اور اپنے گھروں کے آراموں کو چھوڑے گی اور اس بستی میں جو ایک وقت میں ایک بے آب و گیاہ خطہ تھی وہ جمع ہو گی اس لئے نہیں کہ وہ دنیا کے اموال جمع کرے بلکہ وہ یہاں اس لئے جمع ہو گی تا اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سنے اور اس طرح اپنی روح کو صیقل اور اپنے ماحول کو منور کرنے کے سامان اپنے لئے پیدا کرے اور خدا کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھر کر اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔ اگر اہل ربوہ ان لوگوں کو ٹھہرنے کے لئے جگہ نہ دیں تو وہ خدا کے آسمان کے نیچے بڑی خوشی سے یہ دن گذاریں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے کر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے لیکن ربوہ کے مکین خدا کی بہت سی برکتوں سے محروم ہو جائیں گے لیکن ہم ان سے کیوں محروم ہوں اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے وہ ہمیں اپنی برکتوں اور رحمتوں سے نوازنا چاہتا ہے پھر ہم اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں کیوں بند کر دیں کہ خدا کی برکت اور اس کی رحمت ہمارے گھروں میں داخل نہ ہو پس اپنے گھروں کے دروازوں کو خداتعالیٰ کے مہمانوں کے لئے کھولو کہ تمہارے گھروں میں داخل ہوتے وقت وہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتیں لے کر آ رہے ہوتے ہیں اور تمہارے ان گھروں کو بابرکت بنا دیتے ہیں جن گھروں میں وہ تمہارے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے، اس کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہ ان گھروں کو ایسا بنا دیتے ہیں کہ تمہارے وہ گھر بھی شاید ان گھروں میں شامل ہو جائیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ بعض ایسے گھر بھی ہیں جن کے متعلق خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کو ہر لحاظ سے رفعتیں دی جائیں انہیں بلند کر دیا جائے اور انہیں عزت کا مقام قرار دیا جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بشارت دی ہے کہ میرے گھر کی دیواروں پر بھی اس کی برکت ہے اور جو میرے ماننے والے ہیں، میرے فرمانبردار ہیں، میری اطاعت کرنے والے ہیں، میری خواہشوں اور ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ جس طرح مَیں محمدرسول اللہﷺ کا عاشق ہوں اسی طرح وہ بھی محمد رسول اللہﷺ کے عاشق اور آپؐ سے محبت کرنے والے ہیں جس طرح مَیں اللہ تعالیٰ کا فدائی ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فدائی ہیں اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والے ہیں، اپنی گردنیں اس کے حضور پیش کرنے والے، اپنی جانیں اسی کی راہ میں قربان کرنے والے اور اپنے اوقات اور اپنے اموال کو اس کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ ان کے گھر بھی ایسے ہوں گے کہ ان گھروں پر بھی اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا نزول ہو گا اور جو شخص ان میں مستقل طور پر یا عارضی طور پر رہے گا وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے حصہ لے گا پس تم اپنے گھروں کو ایسا بنائو کہ تمہارے یہ گھر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان گھروں کی فہرست میں شامل ہو جائیں جن کے متعلق خداتعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ انہیں بابرکت بنا دے گا اور ان کی رفعتوں کے، ان کی عزتوں کے اور ان کے احترام کے سامان پیدا کر دے گا اور ایک دنیا ان سے فیض حاصل کرے گی اور وہاں برکت لینے آئے گی۔ یہ موقعہ باہر والوں کے لئے بھی ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ربوہ میں رہنے والوں کے لئے ہے۔ اہل ربوہ کے لئے تو اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے حصول کا یہ عظیم موقعہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرو اور اپنے گھروں کے دروازے خداتعالیٰ کے مہمانوں کے لئے کھول دو تا کہ تمہارے لئے برکت اور رفعت اور فضل اور رحمت کے سامان پیدا ہو جائیں۔
اہل ربوہ کو چاہئے کہ وہ جلسہ سالانہ کے انتظام میں زیادہ سے زیادہ مکانیت مہیا کریں یعنی اگر کوئی شخص دو کمرے دے سکتا ہے تو وہ دو کمرے دے اور اگر وہ ایک کمرہ دے سکتا ہے تو وہ ایک کمرہ دے اگر کوئی خود دو کمروں میں سمٹ سکتا ہے تو وہ دو کمروں میں سمٹ جائے اور باقی مکان جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے دے دے اور اگر کوئی ایک کمرہ میں سمٹ سکتا ہے تو وہ ایک کمرہ میں سمٹ جائے اور باقی مکان جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے دے دے۔ خداتعالیٰ کے نام پر اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خداتعالیٰ کی باتیں سننے کے لئے جو مہمان یہاں آتے ہیں ان کو تھوڑا بہت آرام جو تم پہنچا سکتے ہو وہ تھوڑا بہت آرام پہنچانے کی کوشش کرو اور زیادہ سے زیادہ مکانیت جلسہ سالانہ کے لئے دو۔
اسی طرح ’’وقت‘‘ ہے۔ جلسہ سالانہ کے انتظامات کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت پیش کرو۔ یہ صحیح ہے کہ گھروں میں بھی مہمان ٹھہرتے ہیں اور ان کی خدمت کے لئے بھی گھر کے مکینوں اور رہنے والوں کا ایک حصہ ڈیوٹی پر رہنا چاہئے ورنہ ان کے گھر میں جو مہمان مقیم ہیں ان کو تکلیف ہو گی لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہر خاندان اپنے افراد کا ایک حصہ بطور رضا کار ان مہمانوں کے لئے جو اجتماعی قیام گاہوں میں ٹھہرتے ہیں اور جلسہ سالانہ کے دوسرے عام انتظامات کے لئے وقف کر سکتا ہے روٹیاں پکانا انہیں اکٹھا کرنا وغیرہ وغیرہ سینکڑوں قسم کے انتظامات ہیں جو جلسہ سالانہ پر کئے جاتے ہیں اور ان کے لئے ہزاروں رضا کاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کاموں کے لئے اپنے خاندان کے افراد کے اوقات اس رنگ میں وقف کرو کہ زیادہ سے زیادہ افرادِ خاندان اجتماعی طور پر جماعتی تنظیم کے ماتحت رضا کارانہ طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، محمد رسول اللہﷺ اور اللہ تعالیٰ کے ان مہمانوں کی خدمت میں لگے رہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ سہولت جو اس عظیم اجتماع میں انہیں پہنچانا ممکن ہو وہ انہیں پہنچائی جائے۔
یہ صحیح ہے کہ پورے طور پر گھر کا آرام تو ہم انہیں نہیں دے سکتے یہ ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ اپنے گھروں جیسا آرام حاصل کرنے کے لئے یہاں نہیں آتے ان کو تو اگر سر چھپانے کے لئے جگہ مل جائے تو وہ اس کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اور انسان کا بڑا ممنون ہوتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک دفعہ میں جب افسر جلسہ سالانہ تھا ایک کام کے لئے پھر رہا تھا کہ میری نظر ایک احمدی امیر دوست پر پڑی جو بہت لیٹ آئے تھے غالباً اس صبح جلسہ کا افتتاح ہو چکا تھا اور جب میں جلسہ گاہ سے کسی کام کی غرض سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے سوٹ کیس اُٹھایا ہواہے اور مجھے شبہ ہوا کہ یہ ابھی یہاں پہنچے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس ٹھہرنے کا انتظام ہے آپ نے جگہ کے لئے پہلے لکھا ہوا ہے یا نہیں آپ کی رہائش کا کیا انتظام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں ابھی یہاں پہنچا ہوں اور ابھی میں نے ٹھہرے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا۔ میں نے کہا پھر آپ نے بڑی غلطی کی ہے آپ نے پہلے لکھا نہیں اس لئے کوئی انتظام نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی دولت دی ہے کہ وہ بعض دفعہ ہنگامی چندوں میں بیس بیس ہزار روپیہ بھی دے دیتے ہیں خداتعالیٰ نے انہیں بڑی فراخی عطا کی ہے لیکن مزید فراخی کے لئے تو ایسے لوگ جو مخلص ہیں یہاں آتے ہیں بہرحال میں نے ان سے کہا میرے ساتھ چلیں تا میں آپ کے لئے کوئی انتظام کر دوں چنانچہ میں نے انہیں ساتھ لیا اس وقت تو ان کے گھر والی ان کے ساتھ نہیں تھی وہ بھی جلسہ سالانہ پر آئی ہوئی تھیں اور اس وقت کسی اور جگہ ان کا انتظام کر رہی تھیں۔ میں ان کے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ جو شاید اس گھر کا سٹور تھا یا غسل خانہ خالی کرا سکا اور میں نے وہاں پرالی بھجوا دی یا کہہ دیا کہ یہاں پرالی بھجوا دی جائے اور میں نے دیکھا کہ وہ دوست بہت خوش تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ پتہ نہیں انہیں کتنی بڑی نعمت مل گئی ہے پس یہاں جو مہمان آتے ہیں وہ یہاں اپنے گھروں والا آرام حاصل کرنے نہیں آتے لیکن بہرحال سردی کے موسم میں سر چھپانے کی جگہ تو انہیں ملنی چاہئے جس طرح باہر سے آنے والے اخلاص کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں اگر ہم ان سے بڑھ کر اخلاص کا مظاہرہ (دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے) نہ کریں تو بہرحال باہر سے آنے والے یہاں کے رہنے والوں سے بڑھ جائیں گے لیکن ہم انہیں کیوں بڑھنے دیں ہمارے دلوں میں بھی یہ عزم ہونا چاہئے ہمارے دلوں میں بھی ایک پختہ ارادہ ہونا چاہئے ہمارے اندر بھی یہ ہمت ہونی چاہئے کہ ہم کہیں کہ جہاں تک نیکیوں کے حصول کا سوال ہے ہم اہل ربوہ باہر والوں کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ ہمارے لئے مواقع بھی زیادہ ہیں ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی زیادہ باتیں سنتے ہیں اور بعض لوگ اس وجہ سے کہ زیادہ کثرت سے کسیر پر(یہاں پرالی ہے) پر سوئیں گے۔ ہم رات کے بارہ بجے تک کام کریں گے یعنی یہ خوشی کے سامان محسوس ہوتے تھے تنگی اور حرج کے نہیں۔ آئندہ نسل بھی ایسی ہونی چاہئے کیونکہ ان پر تو اور زیادہ ذمہ داری کے کام پڑنے ہیں کیونکہ جلسہ سالانہ بڑھ رہا ہے۔ قادیان میں پندرہ ہزار بیس ہزار یا پچیس ہزار مہمانوں کے لئے ہم انتظام کرتے تھے اور یہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ کے قریب مہمانوں کے لئے انتظام کرنا پڑتا ہے لیکن بہت سارے مہمانوں کا تو گھروں میں انتظام ہو جاتا ہے اس لئے مہمانوں کی مجموعی نسبت کے لحاظ سے ہمارے لنگروں پر اب اتنا دبائو نہیں پڑتا جتنا قادیان میں پڑتا تھا پھر بہت سے دوست چند میل کے دائرہ کے اندر ربوہ سے باہر ٹھہر جاتے ہیں یہ علاقہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ربوہ ہی بنا ہوا ہوتا ہے۔ کوئی چنیوٹ کے ریسٹ ہائوس میں ٹھہرا ہوا ہوتا ہے، کوئی وہاں کسی واقف کے ہاں ٹھہرا ہوا ہوتا ہے، کوئی احمد نگر(جو ربوہ سے شمال مغرب میں ایک گائوں ہے) میں ٹھہرا ہوتا ہے اور پھر بعض دفعہ احمدی افسر نہر کے ان بنگلوں کوبُک کروا لیتے ہیں جو ربوہ سے دس دس بارہ بارہ میل پر ہیں اور وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں اور وہاں اپنا انتظام کرتے ہیں۔ صبح کو ربوہ آ جاتے ہیں اور جلسہ میں شامل ہوتے ہیں اور شام کو نمازوں سے اور دوستوں سے مل کر فارغ ہوتے ہیں تو چند گھنٹے کے آرام کے لئے واپس چلے جاتے ہیں۔ غرض اگر جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک لاکھ سے زیادہ آدمی آتے ہیں تو ہم ایک وقت میں قریباً ساٹھ ہزار افراد کو کھانا کھلا رہے ہوتے ہیں یا پینسٹھ ہزار مہمانوں کو کھانا کھلا رہے ہوتے ہیں باقیوں کا انتظام اور ذرائع سے ہو رہا ہوتا ہے ممکن ہے وہ انتظام چکر میں ہو رہا ہو یعنی کسی نے دوپہر کا کھانا لنگر سے کھایا اور شام کا کھانا نہ کھایا کسی نے شام کا کھانا کھایا اور صبح کا نہ کھایا بہرحال یہاں لنگروں پر نسبت کے لحاظ سے مہمانوں کا اتنا بوجھ نہیں ہوتا جتنا قادیان میں ہوتا تھا وہاں اگر سو میں سے ننانوے مہمانوں کا انتظام نظام کو یا گھروں میں کرنا پڑتا تھا تو یہاں ۹۵ نہیں بلکہ شاید ۶۰، یا ۷۰ فیصدی مہمان بمشکل ایسے ہوں گے جن کا انتظام اجتماعی طور پر کرنا پڑتا ہے یا ربوہ کے مکینوں کو کرنا پڑتا ہے دونوں کی نسبت تو مختلف ہے لیکن بہرحال اجتماعی طور پر اگر اس وقت سَومیں سے نوے اجتماعی انتظام کے ماتحت تھے تو اب ۷۰ یا ۶۵ مہمان اجتماعی انتظام کے ماتحت ہیں۔ غرض فرق پڑ گیا ہے لیکن جب یہ فرق ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم اس کے متعلق سوچتے ہیں تو ہمیں خوشی نہیں ہوتی بلکہ ہمیں تکلیف ہوتی ہے کہ کیوں یہ لوگ اِدھر اُدھر ٹھہرتے ہیں کیوں ہمارے پاس نہیں آتے یعنی ہمارے دلوں میں نیکی کی باتیں ان کے کانوں میں پڑتی ہیں سست بھی ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ رحم کرے اور اس قسم کی کمزوریوں سے ربوہ کے مکینوں کو محفوظ رکھے لیکن بہرحال انسانی فطرت کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ جو چیز بار بار سامنے آتی ہے اس کی وقعت اور عظمت باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے ہمیں اسی کی پناہ تلاش کرنی چاہئے۔
خیرات میں نیکیوںمیں اللہ تعالیٰ کی جستجو کی تلاش میں اور اعمال صالحہ میں ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں باہر سے آنے والے ہم سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اہل ربوہ اگر اپنے لئے خیر چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے اور ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ باہر سے آنے والوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں ایک تو جیسا کہ میں نے کہا ہے اس طرح کہ باہر سے آنے والوں کو اپنے مکانوں میں رکھیں خود تنگی برداشت کریں اور ان کے آرام کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دار میں جب آنکھیں کھولیں یہ دیکھا کہ حضرت اُمُّ المومنین رضی اللہ عنہا مہمانوں کا بے انتہا خیال رکھنے والی تھیں اور ہمیں بھی یہ عادت تھی کہ ہم مہمانوں کا خیال رکھتے تھے بچپن کے اپنے خیالات ہوتے ہیں جلسہ کی خوشیوں میں سے ایک خوشی یہ تھی کہ ہم میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم دنیوی اور جسمانی لحاظ سے اور بھی زیادہ تکلیف اٹھائیں یعنی جس کو دنیا تکلیف سمجھتی ہے وہ اٹھائیں اور ہماری زبان اور اصطلاح میں یہ ہو گا کہ ہم اور بھی زیادہ آرام اور حظ اور خوشی محسوس کریں زیادہ مہمان ہوں گے تو ہمیں زیادہ خوشی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ہمیشہ ہی زیادہ سے زیادہ خوشیوں کے سامان پیدا کرتا جائے اور جلسہ کے موقعہ پر زیادہ سے زیادہ مہمان ہمارے ہاں ٹھہریں اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کی خدمت کریں اپنے گھروں میں ٹھہرا کر بھی ہم ان کی خدمت کر رہے ہوں اور اپنے بعض افراد خاندان کو رضاکارانہ طور پر جلسہ کے انتظام کے لئے پیش کرکے بھی ہم ان کی خدمت کر رہے ہوں۔ ہمیں ہر لحاظ سے اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے کوشش اور سعی کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں میں کسی قسم کا فتور نہ آنے دے۔ ہم محض اس کی رضا کے لئے، اس کی رضا کی جنت کے حصول کے لئے اور خوشنودی کے لئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہم کام کر رہے ہوں خدا کرے کہ جب ہم حشر کے دن نبی کریمﷺ کے مجمع میں ہوں اور آپؐ کی نظر ہم پر پڑے تو آپ ہم سے خوش ہوں کہ اتنا لمبا عرصہ بعد میں پیدا ہونے والوں نے بھی میرے ساتھ وہ محبت اور پیار کا سلوک کیا جو میرے زمانہ میں میرے صحابہؓ نے مجھ سے کیا تھا۔
غرض خداتعالیٰ کی برکات کو حاصل کرنے کی کوشش ہر وقت کرتے رہنا چاہئے۔ جلسہ سالانہ ان برکتوں کے حصول کا ایک عظیم موقعہ ہے ہمیں اس موقعہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے مکان بھی دیں رضا کار بھی دیں توجہ بھی دیں جتنا وقت کوئی دے سکتا ہے وہ بھی دے پھر ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اتنا بڑا مجمع ہوتا ہے اور حفظان صحت کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں ان مختلف وبائوں سے محفوظ کر لیتا ہے جن کے حملہ کرنے کا اس موقعہ پر خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے بڑے احسان ہیں، بڑے فضل ہیں۔ بڑے پیار کے نظارے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں لیکن خوف یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص لاپرواہی سے اور بے توجہی سے خداتعالیٰ کے اس پیار کو ٹھکرانے والا نہ بن جائے۔ ہم سارے کے سارے اس کی محبت کے اور اس کے پیار کے نظاروں کی قدر کرنے والے ہوں۔ ہم اس کی حمد کرنے والے اور اس کا شکر بجا لانے والے بن جائیں اور جتنی زیادہ سے زیادہ برکت اور رحمت اکٹھی کر سکیں وہ اس چھوٹی سی عمر میں جو دنیا کی عمر ہے اکٹھی کر لیں۔ دنیا کی کیا عمر ہے ۶۰، ۷۰، ۸۰ یا سَو سال بھی ہوتی تو وہ اس ابدی زندگی کے مقابلہ میں کیا ہے جس کا وعدہ ہمیں دیا گیا ہے اور جس کی ایک لمحہ کی مسرتیں ساری عمر کی مسرتوں سے زیادہ ہیں۔ اس کی تفصیل میں مَیں اس وقت نہیں جانا چاہتا لیکن بہرحال ہر موقعہ جو نیکیاں کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹنے کا ہمیں ملے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا کرے کہ ہم ہر خیر اسی سے پائیں اور ہر خیر اسی سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور خیر کے حصول کا جب بھی کوئی موقعہ ہمیں میسر آئے وہ موقع ہم ضائع نہ کرنے والے ہوں بلکہ اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ہی ہمارا توکّل ہے اور اس کی توفیق سے ہی ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔(آمین)
٭…٭…٭

انسان جب اپنے ربّ کے حضور جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمتوں اور برکتوں کا وارث ہو جاتا ہے
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵ ؍دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ غیر مطبوعہ )
ء ء ء
٭ قرآن کریم ایک نور کی حیثیت میں نازل ہوا۔
٭ ظلمت اور ضلالت میں مکہ نے دوسرے شہروں کو بھی مات کر رکھا تھا۔
٭ جب تک تقدیر نازل نہیں ہوتی لیلۃ القدر سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔
٭ پانچ بنیادی عبادات رمضان میں جمع کر دی گئی ہیں۔
٭ یہ لیلۃ القدر اصلی لیلۃ القدر کی ایک ذیلی چیز ہے۔


تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے سورئہ قدر کی تلاوت فرمائی۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِo لَیْلَۃُ القَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo
(القدر: ۲ تا ۶)
اس کے بعد فرمایا:۔
قرآن کریم کی اس سورۃ میں بھی جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کا ذکر ہے اور حضرت نبی اکرمﷺ کے ارشادات میں یہ بھی ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کی تلاش کرو(ترمذی کتاب الصوم باب ماجاء فی لیلۃ القدر) اور ہماری اسلامی کتب میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رمضان کے علاوہ بھی کسی زمانہ یا کسی وقت یا کسی رات (بعض دفعہ کوئی ایسا زمانہ ہوتا ہے کوئی) ایسا وقت ہوتا ہے یا کوئی ایسی رات ہوتی ہے جس میں کسی انسان کے لئے لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ظاہر ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان مختلف باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے اور ان پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ تین قسم کی ہے۔ ایک وہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ جس میں دنیا کی طرف(اصلاح کے لئے) آنحضرتﷺ پر قرآن کریم کا نزول ہوا۔ دوسری اور ایک وہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ہے جس کے متعلق حضرت نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور تیسری ایک وہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ہے کہ جو ہر انسان کو میسر آ سکتی ہے مگر اس وقت جب اس کو ایک صاف حالت روحانی میسر آ جائے یعنی انسانی روح غیراللہ سے کلی طورپر منقطع ہو کر آستانہ الٰہیہ پر بہہ نکلے۔ یہ صافی وقت جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حقیقی معنوں میں سجدہ ریز ہونے کی توفیق ملتی ہے یہی دراصل اس کے لئے قدر کی رات بن جاتی ہے۔
لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کے ایک معنے لَیْلَۃٌ کے ہیں اور دوسرے معنے قدر کے ہیں۔ لَیْلَۃٌ عربی میں بطور مؤنث’’ یَوْمٌ‘‘ کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جس طرح یَوْمٌ کے معنے محض دن کے نہیں بلکہ زمانہ کے بھی ہیں اسی طرح لَیْلَۃٌ کے معنے محض رات کے نہیں بلکہ ان میں زمانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے جس طرح یَوْمٌ کے معنے ایک خاص زمانے کے بھی ہوتے ہیں اسی طرح لَیْلَۃٌ یعنی رات کے معنوں میں بھی ایک خاص قسم کے زمانہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جب یَوْمٌ کے لفظ سے زمانے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں اور عظمتوں اور اس کے جلال اور اس کی صفات کے مختلف جلوؤں کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کو ’’سِتَّۃِ اَیَّامٍ‘‘ (ھود: ۸) یعنی چھ زمانوں میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے یہاں یَوْمٌ سے مراد وہ دن نہیں جو ہر روز ہم پر طلوع ہوتا ہے بلکہ ایک زمانہ مراد ہے اور ہر چیز کی پیدائش کے لئے ایک زمانہ مقدر ہوتا ہے مثلاً بچہ کی پیدائش کے لئے نو ماہ کا زمانہ ہوتا ہے۔
اس عالمین کی یا اس کے اندر جو Galaxies (کہکشاں) ہیں ان کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا لمبا زمانہ مقرر کر دیا ہے بعض سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ ستاروں کے مختلف خاندان جو بے شمار ستاروں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں Galaxy(کہکشاں) کہتے ہیں ان کا آپس میں ایسا تعلق ہے ایک مربوط تعلق پایا جاتا ہے کہ ان ستاروں کا سارے کا سارا جمگھٹا اکٹھا ایک جہت کی طرف بھی حرکت کر رہا ہے اور ساتھ والی دائیں بائیں یا اوپر نیچے جو دوسری Galaxies(کہکشاں) ہیں وہ بھی ایک خاص جہت کی طرف حرکت کر رہی ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
پس جس وقت دو Galaxies(کہکشاں) کے درمیان یعنی ستاروں کے ان دو خاندانوں کے درمیان جن کے افراد بے شمار ہیں اور انسان ان کو گن نہیں سکتا تو ان بے شمار ستاروں پر مشتمل دو خاندانوں کے درمیان جب اتنا فاصلہ ہو جاتا ہے کہ ستاروں کا ایک اَور خاندان وہاں سما سکے تو اللہ تعالیٰ کے امر اور حکم سے وہاں ایک اَور Galaxy(کہکشاں) پیدا ہو جاتی ہے۔ ستاروں کا ایک اور خاندان پیدا ہو جاتا ہے یہ صحیح ہے کہ اس وقت تک انسانی دماغ نے خواہ اس نے سائنس میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لی ہو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے کناروں پر ہی نگاہ ڈال سکا ہے اور جس طرح انسان اندھیرے میں ٹٹول کر کچھ معلوم کر لیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خلق اور اس کی ربوبیت اور اس کے حسن و احسان کے جو جلوے اس پیدائش کائنات میں ہمیں نظر آتے ہیں ان کے متعلق جس طرح آدمی اندھیرے میں ٹٹول کر کچھ علم حاصل کر لیتا ہے انسان نے اس طرح کا کچھ علم حاصل کر لیا ہے اور جو تھوڑا بہت حاصل کیا ہے اس میں ایک چیز یہ بھی آ جاتی ہے کہکشاں وغیرہ۔
پس تو یہ یَوْمٌ کا لفظ قرآن کریم کے مطالعہ کی رو سے اس زمانہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے خواہ وہ زمانہ چھوٹا ہویابڑا ۔جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص قدرتوں کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ایسا زمانہ قرآن کریم کی اصطلاح میں یَوْمٌ کہلاتا ہے۔ لیکن لَیْلَۃٌ کے لفظ کے معنے یوم سے کچھ مختلف ہیں کیونکہ لَیْلَۃٌ یعنی رات میں اندھیروں کا تصور بھی پایا جاتا ہے رات اندھیری ہوتی ہے۔ پس اندھیروں کے تصور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عظیم صفات کے جلوؤں کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور لَیْلَۃٌ اس زمانے کو کہتے ہیں جب انسان اپنے رب سے انتہائی طور پر دور ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی روشنی سے کلی طور پر محروم ہو کر اپنے لئے ظلمات پر ظلمات والے حالات پیدا کر لے۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہو اور اسے کچھ نظر نہ آتا ہو یہاں تک کہ اس کو اپنی محرومی بھی نظر نہیں آ رہی ہوتی، اس کے دل سے اس کی محرومی کا احساس ہی مٹ جائے کیونکہ اسے اپنی بدقسمتی بھی نظر نہیں آ رہی ہوتی یہاں تک کہ اسے اپنے بد اعمال بھی بداعمال نظر نہیں آ رہے ہوتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کی نگاہ جو اس وقت اس فضا تک پڑ رہی ہوتی ہے وہ بھی اس کو نظر نہیں آ رہی ہوتی(مگر یہ غضب اور یہ قہر اس کو نظر نہ آتا ہو)۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے ہر پہلو تاریک ہی تاریک ہوتا ہے یہلَیْلَۃٌ ہے جس کی طرف لیلۃ القدر میں اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں یہاں ایک تو لَیْلَۃٌ سے ایک زمانہ مراد ہے جب کہ دنیا ’’ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّوَالْبَحْرِ‘‘ (الروم:۴۲)کی مصداق بن جائے اور انسان خدا سے کلی طور پر دور ہو جائے اور کلی طور پر روبہ دنیا ہو جائے اور دنیا کے اس مردار پر اس طرح بیٹھا ہوا ہو جس طرح ایک گدھ ایک مرے ہوئے گدھے پر بیٹھی ہوتی ہے انسان اور اس کے رب کے درمیان قرب کی کوئی جھلک نظر نہ آئے۔ انسان کی یہ حالت لَیْلَۃٌ سے مشابہ ہے اور اسی لَیْلَۃٌ کا یہاں ذکر ہے یعنی جب ظلمات اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں تو اس وقت خدائے قادر اپنے قادرانہ تصرفات سے دنیا کو اپنی قدرتوں کے جلوے دکھاتا ہے اور وہ آسمان سے ایک نور کو نازل کرتا ہے۔
سب سے زیادہ اندھیری رات اور سب سے زیادہ تاریک اور فساد سے پُر زمانہ حضرت نبی اکرمﷺ کی بعثت سے معاً پہلے کا زمانہ تھا اور اس کے مقابلے میں انسانی آنکھ نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے جو نظارے دیکھے ان سے بڑھ کر پہلے کسی زمانے میں نہیں دیکھے گئے جس طرح طلوع اسلام سے قبل انسانیت پر انتہائی ظلمت اور ضلالت ایک اندھیری رات بن کر چھائی ہوئی تھی اُسی طرح انسان نے اپنی آنکھوں سے اس تیرہ و تاریک رات میں اللہ تعالیٰ کے نور کو بھی انتہائی طور پر چمکتے ہوئے نظاروں کے ساتھ دیکھا یہ وہ لیلۃ القدر ہے جس میں قرآن کریم ایک نور کی حیثیت میں نازل ہوا اور اس نے اس رات کے اندھیروں کو قیامت تک کے لئے دور کرنے کے سامان پیدا کر دئیے حضرت نبی اکرمﷺ بھی مجسم نور تھے۔ آپؐ کی اس نورانی کیفیت نے اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر جذب کیا اور یہی وہ نور ہے جو قرآن کریم کی شکل میں انسان کی ہدایت کے لئے نازل ہوا۔
پس ایک تو یہ لیلۃ القدر ہے یعنی آنحضرتﷺ کی بعثت کا وہ زمانہ جس میں اندھیرے اور ظلمات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور جن کو دور کرنے کے لئے وہ انتہائی شان اور چمک رکھنے والا نور نازل ہوا ہے جسے ہم قرآن کریم بھی کہتے ہیں۔ جسے ہم محمد رسول اللہﷺ بھی کہتے ہیں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیات سے بھی ہمیں پتہ لگتا ہے کہ آنحضرتﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام مبعوث ہوتے رہے ہیں اور آپؐ کے بعد جتنے بھی مرسل اور محدثین ہوئے ہیں انہوں نے آپؐہی سے نور لے کر اپنے وقت کی اندھیری رات کو نورانی بنانے کی اپنے رب کی رحمت سے توفیق پائی تھی۔
بہرحال اصل لیلۃ القدر تو یہ لیلۃ القدر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا تعلق اس قسم کا ہے کہ آسمان کی طرف سے محض ہدایت کا نازل ہو جانا انسان کے لئے کافی نہیں محض سورج کی شعاعوں کا زمین کے اوپر پہنچ جانا اور اس زمین کو روشن کر دینا انسان کے لئے کافی نہیں اُسے ایک ایسی آنکھ ملنی چاہئے کہ جس کے ذریعہ وہ اس سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکے اگر سورج کی روشنی دوپہر کے وقت جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے اور ہر چیز پوری طرح روشن ہوتی ہے اس وقت کسی خطہ ارض پر پڑ رہی ہو لیکن اس خطہ کے مکین اپنی آنکھوں کے نور سے محروم ہوں تو سورج بے شک چمکتا رہے ان کے اندھیرے روشنی میں نہیں بدلیں گے اس لئے اگرچہ رات بڑی اندھیری تھی ایسی اندھیری رات کہ اس سے قبل اس قسم کی اندھیری رات کبھی نہیں آئی تھی اور بعد کی اندھیری رات کا لفظ اس لئے ہم یہاں نہیں کہہ سکتے کہ آپؐ کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے۔
پس یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی رات دنیا میں اتنی اندھیری نہیں تھی جتنی آنحضرتﷺ کے دعویٰ نبوت کے وقت اندھیری تھی اور اس میں بھی شک نہیں کہ ان اندھیروں کو دور کرنے کے لئے شدت ظلمات کی مناسبت سے ایک ایسا نور آسمان سے نازل ہوا جس کی نورانیت کا پہلے زمانے مقابلہ ہی نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود اس نور سے منور وہی ہو گا جسے روحانی طور پر آنکھ ملے گی، جسے روحانی طور پر آنکھ نہیں ملے گی جو روحانی طور پر اندھا ہو گا وہ دراصل روحانی لحاظ سے مُردہ ہو گا وہ اس عظیم محمدی نور سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس لئے اس لیلۃ القدر کے ساتھ روحانی لیلۃ القدر کا پایا جانا لازمی تھا۔
پس اصل میں تو یہ لیلۃ القدر ہے یعنی آنحضرتﷺ کا زمانہ ،جو فساد میں، تاریکی میں اللہ تعالیٰ سے دوری میں اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا اور ان تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے وہ نور بھی ایسا تھا کہ جو کامل اور مکمل اور جس میں ہر قسم کے فسادات کو دور کرنے کی قابلیت اور طاقت اور جس کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے۔ آپؐ پر اس نور کے نزول کے ساتھ ہی فساد اور تاریکیاں اور اندھیرے جو اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے دور ہونے لگے مگر شروع میں صرف فائدہ انہوں نے ہی اُٹھایا جن کو اللہ کی توفیق سے دیکھنے کی آنکھیں ملیں اور جن کے ذریعہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نور کو دیکھنے کی توفیق پائی مکہ میں اس نور کا نزول شروع ہوا اور بعثت نبویؐ سے قبل مکہ معظمہ جو اپنی ظلمت اور ضلالت میں دوسرے شہروں کو بھی مات کر رہا تھا۔ جب اس میں محمدیؐ نور کا نزول شروع ہوا تو ظلمت دلوں سے چھٹنی شروع ہوگئی تھی مکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی پیدا ہوئے جنہیں ان کے پیدا کرنے والے ربّ نے روحانی آنکھ دے رکھی تھی اور جنہوں نے اس نور سے فائدہ اٹھا یااور اسی مکہ میں اسی شہر میں جس کے ذرّے ذرّے کو حضرت محمدﷺ کے نور نے منور کر دیا تھا ابو جہل بھی پیدا ہوا نور تو موجود تھا لیکن ابو جہل ایسی آنکھ سے محروم رہا جو روحانی طور پر دیکھ سکتی ہے اس لئے وہ محمدیؐ نور کی تابانی کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا۔
پس معلوم ہوا کہ باوجود اس کے جس انتہائی فساد اور گناہ اور اللہ تعالیٰ سے دوری کے زمانہ میں جو محمدیﷺ نور اپنے کمال کے ساتھ نازل ہوا، وہ تو نازل ہوا مگر اس کے باوجود وہی انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے جس کے حق میں بھی(علاوہ دوسری تقدیر کے جس کا یہاں ذکر ہے) کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوتا ہے جس کے بعد اور تقدیر اس فرد واحد کے حق میں آسمانوں سے جاری کی جائے اور اس شخص کو روحانی آنکھیں عطا کی جائیں تاکہ وہ اس آسمانی نور سے فائدہ اٹھا سکے جب تک یہ تقدیر نازل نہیں ہوتی کوئی فرد واحد لیلۃ القدر سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ان انوار سے اور ان برکات سے اور ان رحمتوں سے جو حضرت محمدمصطفیﷺ دنیا کی طرف لے کر آئے ان سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ان سے وہ محروم رہے گا یہ محرومی صرف اس وقت دور ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرتے ہوئے اپنے قادرانہ تصرف سے اپنے بندے کے حق میں ایک نور نازل فرمائے یعنی اسے روحانی طور پر آنکھیں عطا ہوں کیونکہ جس نور میں انسان نے اپنی آنکھوں سے کام لینا ہے وہ تو حضرت محمد رسول اللہﷺ کا نور ہے چنانچہ حضرت نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ان روحانی انوار اور برکات اور فیوض اور رحمتوں سے حصہ لینا چاہتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آسمان سے نازل کیا ہے توتمہارے لئے یہ بات بڑی ہی ضروری ہے کہ تم اپنی تدبیر سے ان عبادات کو جو تمہارے لئے مقرر کی گئی ہیں انہیں ان کے انتہائی کمال تک پہنچائو۔ میں نے بتایا تھا کہ رمضان کا مہینہ صرف روزہ رکھنے کا مہینہ نہیں ہے بلکہ پانچ بنیادی عبادات اس ماہ میں جمع کر دی گئی ہیں اور یہ پانچوں قسم کی عبادات تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی قائم مقام ہوتی ہیں حضرت نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور اگر تم آفات نفس کو سمجھتے ہوئے اور اپنے نفس کو مغلوب کرکے اور خداتعالیٰ کی راہ میں اس کو قربان کرکے ان عبادات کو بجا لاتے ہوئے رمضان کے آخر میں پہنچ جائو گے یعنی اپنی تدبیر کو کمال تک پہنچا دو گے تو پھر تمہاری اس تدبیر کے نتیجہ اور دعا کے کمال کے وقت تم یہ امید رکھو کہ خداتعالیٰ آسمان سے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلائے گا اور تمہیں روحانی بصیرت اور بصارت عطا کرے گا تاکہ تم حضرت محمدﷺ کے فیوض سے مستفیض ہو سکو۔
یہ وہ لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسے تلاش کرو اللہ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کرتا ہے۔ اسے دعا کی ایک خاص کیفیتِ دعا رات کے وقت عطا کرتا ہے بعض دفعہ دن کو بھی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل جذب ہوتاہے اور اس کے لئے تقدیر کی تاریں ہلا دی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جو قادر و توانا ہے جو ہر قسم کی طاقت اور قوت کا سر چشمہ ہے وہ ایسے انسان کے لئے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کا یہ بندہ اس کے اس طاقت اور قوت کے سر چشمے سے سیراب ہو اور اسے اس بات کی قوت عطا ہو کہ وہ آئندہ نیکیوں میں ترقی کرتا چلا جائے نہ صرف اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہی ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اس بات کی جزا بھی دیتا ہے کہ اس نے محض خدا کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیں اور عبادتیں بجا لائیں۔
قدرت کے معنوں میں یہ ہر دو معنی پائے جاتے ہیں یعنی القدر کے معنوں میں قوت اور طاقت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے لیلۃ القدر جو انفرادی حیثیت رکھتی ہے(گو یہ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے جس کا دوسروں کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے جسے میں ایک اور رنگ میں بیان کر رہا ہوں) بہرحال انفرادی لیلۃ القدر میں جو قدر کا مفہوم ہے یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور بھی معنی ہیں اس وقت میں ان دو کو لے رہا ہوں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو اپنی طرف سے نیکی کے کام کرنے کی قوت اور طاقت عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایسے شخص کو نور سے فیض حاصل کرنے اور اس نور سے اسے اپنے دل اور اپنے دماغ اور اپنی روح کو منور کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے قدر کے معنے میں قوت اور طاقت کا دینا بھی شامل ہے اور ایک قدر کے معنی بھی دئیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طاقت سے وہ چیز پیدا کر دیتا ہے جو مناسب حال ہو جس وقت بندہ اعمال صالحہ بجا لاتا یعنی اسے ایسے اعمال کی توفیق ملتی ہے جو عنداللہ مقبول ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی اور ایثار اور اخلاص کو پیش کرتا ہے اور اپنے اوپر خداتعالیٰ کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک موت وارد کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندے کی اس نیک نیتی اور اخلاص اور فدائیت اور ایثار کے مناسب حال ان کے لئے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ قدر یعنی قوت کے معنوں کا یہ دوسرا پہلو ہے۔
پس ایک تو ایسا شخص جسے رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر مل جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے یہ طاقت اور قوت حاصل کرتا ہے کہ وہ آئندہ سارا سال نیکیوں پر ثبات قدم دکھاتا رہے اور استقامت سے کام لیتا رہے تاکہ اس کی زندگی میں نیکیوں کے بجا لانے کا ایک ایسا تسلسل قائم ہو جائے جو بالآخر خاتمہ بالخیر پر منتج ہو۔
دوسرے یہ کہ ایسا شخص جسے رمضان میں لیلۃ القدر نصیب ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت بھی پاتا ہے کہ اس نے اس سے قبل جو نیک کام کئے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے قبول کر لیا اور یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے کیونکہ انسان اپنی تدبیر یا اپنی کوشش یا اپنے مجاہدہ پر بھروسہ نہیں کر سکتا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس نے اپنی طرف سے اپنے ربّ کی خاطر جو دن رات تکلیف اُٹھائی۔ دنیوی نقطۂ نگاہ سے اپنے آرام کو چھوڑا، خواہشات نفسانی کو دھتکار دیا، نفس امّارہ کو لگامیں دیں، شیطان سے دور رہنے کی کوشش کی اور اپنے رب کے قریب ہونے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہر قسم کے مجاہدیکئے لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی تدبیر کسی ایسے کیڑے سے پاک تھی یا نہیں جو کیڑا کہ روحانی میدانوں میں تدابیر کے اندر گھس کر تدبیروں کو ناکام بنا دیتا اور لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے پس کسی آدمی کے بس کی یہ بات نہیں وہ جانتا ہی نہیں کیونکہ اس کا علم ناقص ہے اس کا فہم ناقص ہے اس کی کوئی صفت یا اس کی کوئی طاقت اپنے اندر کمال نہیں رکھتی۔ انسانی خوبی یا صفت یا طاقت تو ایک نسبتی چیز ہے۔ اس واسطے اپنی تدابیر پر بھروسہ کرکے انسان کا نفس خوش نہیں ہو سکتا اس کو اطمینان نہیں مل سکتا۔ اس کو نفس مطمئنہ حاصل نہیں ہو سکتا اس نفس مطمئنہ کے حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کیلئے ہر سامان پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ کہتا ہے کہ میری راہ میں تیری پچھلی قربانیاں یا تیرے پچھلے اعمال جنہیں تو میری محبت اور پیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجا لایا ہے میں انہیں قبول کرتا ہوں اور میں ان کے مناسب حال تجھے جزا بھی دوں گا۔
پھر اس کے ساتھ ہی ایک دوسری بشارت یہ ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! میں تو تیرے لئے یہ بھی چاہتا ہوں کہ تو آئندہ بھی اپنی نیکیوں پر قائم رہے لیکن چونکہ میں نے تجھے اختیار دیا ہے اس لئے تم پر جبر روا نہیں رکھا جائے گا میں نے تجھے تیرے نیک اعمال کی بہترین جزا کی بشارت دے کر اور اپنے حسن و احسان کے جلوے دکھا کر تیرے لئے اس بات کو آسان اور سہل کر دیا ہے کہ تو میری راہ میں مزید قربانیاں دیتا چلا جائے مگر شیطان تیرے ساتھ لگا ہوا ہے اس واسطے اس سے بچتے رہنا اور میں نے تجھے اس سے بچنے کی قوت دی ہے لیکن تجھ سے اختیار کو چھینا نہیں یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو کسی نیکی کی قوت اور توفیق اور طاقت عطا کرتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس کو جو اختیار دیا گیا تھا خواہ وہ نیکی کرے یا بدی کرے یہ اختیار اس سے چھین لیا گیا اور وہ ایک فرشتے کی طرح بن گیا حالانکہ انسان تو کبھی فرشتہ نہیں بنتا۔ انسان یا تو فرشتے سے اوپر درجہ رکھتا ہے یا فرشتے سے کم تر ہوتا ہے بہرحال انسان فرشتہ نہیں بن سکتا۔
پس اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو ایک تو یہ بشارت دی کہ میں نے تیری نیکیاں قبول کیں اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے سے زیادہ یہ قوت دی(اگرچہ پہلے بھی اسی کی توفیق اور طاقت سے نیکیاں بجا لانے کی سعادت نصیب ہوتی رہی) مگر اس لیلۃ القدر کے میسر آ جانے پر پہلے سے زیادہ نیکیوں کے کام کرنے کی قوت دی گئی لیکن اختیار پھر بھی بندے کے ہاتھ میں رہا۔ پھر ایسا شخص اپنی طرف سے کوشش کرتا ہے دعائیں کرنے میں لگا رہتا ہے عبادات بجا لاتا ہے۔ مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری سے پیش آتا ہے۔ ان کے دکھوں کو خود جھیلتا ہے اور ان کے غم میں شریک ہوتا ہے غرض وہ ہر قسم کے حقوق اللہ کو بھی اور حقوق العباد کو بھی ادا کرتا ہے۔ پھر اگلا رمضان آ جاتا ہے اور وہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی عبادات بجا لانے کے لئے شَدَّمِئْزَرَہ، کا مصداق بن جاتا ہے۔ پوری طرح مستعد اور تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اس ماہ مبارک میں بہت ساری عبادتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں وہ اپنی طرف سے رمضان کی عبادتیں بجا ’’اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّمِئْزَرَہٗ وَاَحْیَا لَیْلَہُ وَاَیْقَظَ اَھْلَہٗ‘‘(بخاری کتاب الصوم باب الْعَمَلُ فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ) لاتے ہوئے رمضان کے آخری عشرہ میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا دل کہتا ہے کہ اس نے اپنی طرف سے سارے اعمال خدا کے لئے کئے لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے اعمال قبول بھی ہو گئے یا نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس کے اعمال کی کسی خرابی یا بیماری یا کسی اندرونی کیڑے کی وجہ سے اس کے وہ سارے اعمال جنہیں وہ سارا سال بجا لاتا رہا ہے اور جنہیں ماہ رمضان میں اور بھی زیادہ تندہی اور مستعدی کے ساتھ بجا لایا وہ عنداللہ مقبول نہ ہوں چنانچہ پھر وہ سال نوکی ایک نئی لیلۃ القدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں تعہد کے ساتھ خود بھی جاگتا اور اپنے اہل کو بھی جگاتا ہے اور فدائیت کے ساتھ ان راتوں کو زندہ رکھتا ہے پھر اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اسے اس قسم کی دونوں قدرتوں یا قدرت کے دونوں پہلوئوں کے حسین جلوے دکھائی دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے! میں تجھے یہاں طاقت دینے کے لحاظ سے کھڑا نہیں رہنے دوں گا بلکہ میں تجھے پہلے سے بڑھ کر نیکیاں بجا لانے کی توفیق عطا کروں گا لیکن میں نے وہ اختیار تجھ سے نہیں چھینا اس لئے شیطان سے ہوشیار رہ کر اپنا اگلا سال گذارنا پھر اسی طرح انسان کی زندگی کے سارے سال گذرتے رہتے ہیں۔
پس اصل بات یہی ہے کہ وہ گھڑی خواہ وہ ایک سیکنڈ کی ہو یا ایک گھنٹے کی یا ایک رات کی ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو یہ بشارت ملتی ہے کہ میں نے تیری نیکیوں کو قبول کیا اور میں نے پہلے سے بھی زیادہ نیکیاں کرنے کی تجھے توفیق عطا کی۔ ایسی گھڑی ساری عمر سے بڑی ہے خواہ وہ عمر تراسی سال چار ماہ کی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے زیادہ بزرگی والی زیادہ عزت والی، زیادہ فائدہ والی اور زیادہ خیر والی ہے۔ تراسی، اسّی سال کی ایسی تدبیر جو قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔ ایسا مجاہدہ جو رد کر دیا جاتا ہے ایسی دعائیں جو واپس منہ پر مار دی جاتی ہیں ان کے مقابلہ میں پیار کی ایک گھڑی جس میں انسان اپنے خدائے قادر کی محبت کو دیکھتا ہے ایسی گھڑی کہیں زیادہ خیر اور برکت والی ہوتی ہے۔ انسان رمضان کے آخری عشرہ میں اسی مبارک گھڑی کی تلاش میں لگا رہتا ہے اور اپنے ربّ پر پوری طرح حسن ظن رکھتا ہے بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی غفلتوں پر اللہ تعالیٰ کی مغفرت پردہ ڈال دیتی ہے اور جن کے کام اور اعمال مقبول ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیض کو وہ حاصل کرتے ہیں مگر یہ لیلۃ القدر یعنی مبارک گھڑی اصل لیلۃ القدر کی ایک ذیلی چیز یا بطور ضمیمہ کے ہے۔
میں نے بتایا تھا کہ اگرچہ ظلمات اور اندھیرے اور تاریکیاں اور گناہ اور فساد آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے اور وہ زمانہ ایک ایسی تاریک رات کے مشابہ تھا کہ جس سے زیادہ تاریک رات کسی انسان نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اس تاریک ترین زمانہ میں حضرت نبی اکرمﷺ کی بعثت ہوئی۔ اس تاریک ترین رات میں وہ انتہائی طور پر چمکتا ہوا اور فیوض سے بھرا ہوا اور رحمتوں سے پر نور آسمان سے نازل ہوا کہ جس کے فیوض اور روحانی تاثیرات نے قیامت تک اثر کرنا تھا۔ یہ تو درست ہے لیکن اس کے نتیجہ میں ہر انسان کے لئے خوشحالی کا زمانہ پیدا نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہر انسان کو یہی کہا گیا ہے کہ اسے اپنے لئے خوشحالی کا زمانہ خداتعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے بعد خود پیدا کرنا ہو گا البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لئے انفرادی طور پر ہمارے لئے لیلۃ القدر کی قسم کی چیزیں بنا دی ہیں اور فرمایا ہے کہ کبھی تم لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا اور کبھی تم ہماری یہ لیلۃ القدر جس میں ہماری قدرت کے ہر دو جلوے ظہور پذیر ہوتے ہیں ایسے وقت میں دیکھو گے جب رمضان نہیں ہو گا بلکہ اس کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں تمہارے لئے ایک بالکل مصفّٰی اور اصفٰی کیفیت روحانی اور کیفیت قلبی پیدا کر دی جائے گی اور اس اصفٰی کیفیت میں تم اپنے ربّ کے پیار کو دیکھو گے، وہ رمضان کا مہینہ ہو گا یا رمضان کے بعد کے چھ ماہ کا وقت ہو گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تمہارے لئے وہ لیلۃ القدر مقدر کر دی جائے گی۔
دراصل انسان کو یہ اصفٰی روحانی کیفیت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب وہ اپنی اندرونی لیلۃ القدر کا احساس پیدا کر لیتا ہے یعنی جب وہ اپنے نفس کی آفات کو پہچان لیتا ہے اور اس یقین پر کھڑا ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کو کیسے حاصل کروں گا کیونکہ میرے نفس کا تو ہر پہلو تاریک ہے میرے نفس کا تو ہر پہلو فساد سے پُر اور گند سے بھرا ہوا ہے۔ اس گند اور تاریکی اور فساد کے نتیجہ میں مجھے شیطان کا وصال تو مل سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں مل سکتا۔ جب انسان اپنے نفس کے اندرونہ میں انتہائی تاریکیوں کا احساس پاتا ہے اس وقت وہ تڑپ کر اپنے ربّ کے حضور جھکتا اور عرض کرتا ہے کہ اے خدا! میں اپنے طور پر تو تیرے پاس نہیں پہنچ سکتا اپنا ہاتھ آگے بڑھا اور میرے ہاتھ کو پکڑ اور مجھے اپنے سینہ سے لگا لے۔ یہ وہ اصفٰی وقت ہوتا ہے جو سارا سال کسی وقت بھی انسان کو مل سکتا ہے اور پھر اس کے بعد انسان اللہ تعالیٰ کی اتنی رحمتوں اور برکتوں کا وارث ہوتا ہے کہ دنیا اس کا اندازہ نہیں کر سکتی۔ اللہ کرے کہ جس طرح اس نے اپنی رحمت تامّہ کے نتیجہ میں انتہائی ظلمات کے اوقات میں اور انتہائی تاریک زمانے میں حضرت نبی اکرمﷺ اور قران کریم جیسا نور اس دنیا پر نازل کیا وہاں ہم میں سے ہر ایک کے نصیب میں ہماری انفرادی لیلۃ القدر جو ہے وہ بھی مقدر کر دے اور یہ ہر سال آتی رہے یہاں تک کہ ہمارا انجام بخیر ہو جائے اور شیطان کا کوئی خطرہ ہمارے لئے باقی نہ رہے۔ اللھم آمین۔
٭…٭…٭

سورۃ فاتحہ کا حسن اور گلاب کے پھول کا حسن اپنا حسن نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲ ؍دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک۔ ربوہ غیر مطبوعہ)
ء ء ء
٭ حسن حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہے۔
٭ حسن جہاں بھی نظر آتا ہے وہ اس چیز کا ذاتی حسن نہیں ہے۔
٭ خوبصورتی کی دلکشی اور حسن انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا جلوہ ہے۔
٭ ہر مخلوق محسن کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔
٭ تمام احسان اللہ تعالیٰ کی احسانی صفات کے ہی جلوے ہیں۔


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:۔
الحمدللہ۔ اللہ جس پر قرآن کریم کی رو سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے ہم ایمان لاتے ہیں وہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے کسی چیز یا کسی وجود کی تعریف بنیادی طور پر دو وجوہ سے کی جاتی یا کی جا سکتی ہے۔ ایک تو اس کے ذاتی حسن کی وجہ سے اور دوسری اس کے احسان کی قوتوں اور احسان کی صفات کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ حسن حقیقی صرف اس کی ذات میں پایا جاتاہے سورۃ فاتحہ کو ہی لیں سورہ فاتحہ میں یہ تعلیم بیان ہوئی ہے اور جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ ایک نہایت ہی حسین تعلیم ہے لیکن سورہ فاتحہ میں جو حسن انسان کو نظر آتا ہے وہ اس سورت کا ذاتی حسن نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کچھ جلوؤں نے سورہ فاتحہ کی شکل اختیار کی ہے۔ اسی طرح گلاب جو اچھا پرورش یافتہ ہو وہ نہایت خوبصورت شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے لیکن گلاب کی خوبصورتی اور اس کی دل کشی اور اس کا حسن اس کا اپنا حسن نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بعض اور صفات گلاب کی شکل میں مجسم ہوئی ہے اور اتنا عظیم حسن گلاب کے اندر پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سورۃ فاتحہ گلاب کی شکل میں دکھائی گئی۔
غرض نہ تو سورۃ فاتحہ کا حسن جو ہمارے دلوںکو موہ لیتا ہے اس کا اپنا حسن ہے اور نہ گلاب کے پھول (جو ایک نہایت ہی خوبصورت پھول ہے) کا حسن اس کا اپنا حسن ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں جو ایک جگہ ہمیں سورۃ فاتحہ کی خوبصورت شکل میں نظر آتے ہیں اور دوسری جگہ وہی اللہ تعالیٰ کے جلوے گلاب کی شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورۃ فاتحہ اور گلاب کی مماثلت کو خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۳۹۴ تا۴۱۴)
میں اس وقت اس تفصیل میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ میں مختصراً جو مضمون بیان کر رہا ہوں اس کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔بہرحال حسن جہاں بھی اس دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے وہ اس چیز کا ذاتی حسن نہیں جس میں وہ اس مادی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے۔ دنیا کی مخلوق میں (اور دنیا ساری مخلوق ہے اس میں کوئی استثناء نہیں) خواہ ہماری نظر کسی جگہ پر پہنچے یا ہماری نظر اب تک پہنچی ہو یا ابھی تک ہماری نظر نہ پہنچی ہو یا کبھی بھی ہماری نظر نہ پہنچ سکے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا جو بھی خوبصورتی اور دل کشی اور حسن انسان کو نظر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات یا اللہ تعالیٰ کی کسی ایک صفت کا کوئی جلوہ ہے جس نے وہ رنگ اختیار کر لیا ہے مثلاً سورج ہے اس نے ایک جہاں کو روشن کیا ہوا ہے۔ پھر وہ صرف زمین کو ہی روشن نہیں کرتا بلکہ اس نے بعض اور سیاروں کو بھی روشن کیا ہوا ہے چاند کو لے لو وہ سورج سے روشنی لیتا اور پھر اس کو آگے پہنچاتا ہے لیکن یہ روشنی جو سورج میں انسان کو دکھائی دیتی ہے یہ سورج کی اپنی روشنی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی نور ہے جو اس دنیا کو جو سورج کی دنیا ہے منور کر رہا ہے اور سورج کے پردہ میں منور کر رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی انسانی آنکھ کو ظاہراً نظر نہیں آ سکتی۔ اس مادی دنیا میں اسباب کے پردوں میں اس کی صفات انسان کے سامنے آتی ہیں اور اس طرح پر وہ نیک اور پاک اور عقل مند لوگوں کو اپنا چہرہ دکھاتا ہے۔
غرض جہاں بھی کوئی خوبی یا حسن پایا جائے وہ اس چیز کا نہیں ہے جس میں وہ پایا جاتا ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حسن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی ہے اور اس وجہ سے انسان جو غور کرتا اور صحیح لائنوں پر اور صحیح طریقوں پر فکر اور تدبر کرتا اور دعاؤں سے حقیقۃً الاشیاء سمجھتا ہے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ الحمدللہ یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں کوئی اور وجود یا ہستی یا شئی یا کرہ یا انسان یا درخت یا کوئی اور شکل جس میں کوئی حسن پایا جاتا ہے ان کے اندر حقیقتاً کوئی حسن نہیں پایا جاتا بلکہ یہ حسن اللہ تعالیٰ کا حسن ہے یہ ایک جلوہ ہے خدا کا جو اس شکل میں ہمارے سامنے آگیا۔
دوسری وجہ تعریف کی احسان بنتا ہے آپ نے اپنی زندگی میں بیسیوں یا شاید سینکڑوں دفعہ سنا ہوگا کہ بڑا اچھا ہے فلاں شخص وہ مخلوق کا بڑا ہمدرد ہے یا بڑا اچھا ہے فلاں شخص اور پھر انسان اس کی بڑی لمبی چوڑی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے فلاں موقعہ پر مجھ پر احسان کیا تھا یا بڑا اچھا ہے فلاں شخص۔ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ بڑا اچھا سلوک ہے یا بڑا اچھا ہے فلاں شخص کیونکہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتا ہے اور انہیں اسلام کا خادم بنانے کی کوشش کر رہا ہے یا بڑا اچھا ہے یہ درخت کیونکہ اس کے پھل بڑے میٹھے ہیں یا بڑا اچھا ہے زمینی ذرات کا یہ مجموعہ۔ دیکھو یہ کس طرح چمکتا ہے کتنا قیمتی ہیرا بن گیا ہے اور اس سے ہم ہزار قسم کے فائدے اُٹھاتے ہیں آگے یہ ہیرا خود ایک محسن ہے بلکہ ہر چیز دوسرے پر احسان کرنے والی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی چیز کو لغو پیدا نہیں کیا اس لئے ہر مخلوق محسن کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے لیکن اس میں احسان کی قوت اس کے کسی ذاتی ہنر کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا کوئی جلوہ وہ شکل اختیار کر گیا۔ میٹھے پھل دینے والا آم کا درخت یاوٹامن (Vitamin) سے بھرا ہوا کھٹے آم کا درخت (اس کے اپنے فائدے ہیں) اپنی جگہ پر احسان پر احسان کر رہا ہے ہر چیز انسان پر یا تو بلاواسطہ احسان کر رہی ہے یا بالواسطہ احسان کر رہی ہے مثلاً لوسن یا برسیم گھوڑے پر احسان کر رہا ہے کیونکہ یہ گھوڑے کی بڑی اچھی خوراک ہے اور جس وقت گھوڑا مضبوط ہو جاتا ہے تو پھر وہ انسان پر احسان کر رہا ہے کہ وہ اس کی سواری کے کام آتا ہے اور اس کی زینت بنتا ہے یہ ساری احسان کی ہی شکل ہے جو اس کے سامنے آئی لیکن حقیقتاً نہ گھوڑے میں احسان کی طاقت ہے نہ لوسن یا برسیم میں احسان کی طاقت ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی کسی صفت کا جلوہ ہے جو ان کے اندر ہمیں نظر آتا ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ نہ چاہتا کہ کوئی ایسا چارہ ہو جو گھوڑے کو صحت مند اور خوبصورت بنائے تو کوئی چارہ دنیا میں ایسا پیدا نہ ہوتا۔ اگر اللہ یہی چاہتا ہے کہ گھوڑے کو لاغر ہی رکھا جائے اور اسے بدصورت ہی بنایا جائے اور اس میں کوئی اور فائدہ اس کے مدنظر ہو تا یعنی فائدہ تو ہوتا لیکن وہ کسی اور رنگ میں ہوتا اس شکل میں نہ ہوتا تو اس رنگ کا احسان ہمیں نہ گھوڑے میں نظر آتا نہ گھوڑے کے چارہ میں کوئی ایسا احسان نظر آتا جو گھوڑے پر ہو رہا ہے غرض ہر چیز میں اور جہاں بھی اللہ تعالیٰ کا حسن نظر آتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے احسان کے جلوے بھی ہمیں نظر آتے ہیں اور وہ جلوے اللہ کے ہیں۔ ان چیزوں کے جلوے نہیں ہیں۔
پس چونکہ حسن کا منبع اور سرچشمہ اور حقیقی مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور چونکہ احسان کا حقیقی سرچشمہ اور احسان کی صفات کا حقیقی حقدار اور اپنے اندر ان صفات کو جمع کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی کا وجود ہے اس لئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ سب جگہ جہاں حسن نظر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حسن ہے جو ہمیں نظر آتا ہے اور ہر جگہ جہاں ہمیں احسان کے جلوے نظر آتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی احسانی صفات کے ہی جلوے ہیں اور کوئی چیز نہیں۔ جب ہم اس حقیقت کو سمجھتے ہیں تو بے اختیار نہ صرف ہماری زبان سے بلکہ ہمارے وجود کے ذرہ ذرہ سے یہ نکلتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ

جمعۃ المبارک
(۱۹؍دسمبر۱۹۶۹ء )
ء ء ء
حضور رحمہ اللہ علالتِ طبع کے باعث نمازِ جمعہ پڑھانے تشریف نہیں لاسکے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۱؍ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحہ۱)

حضرت مسیح موعود ؑ نے جلسہ سالانہ کو شعائراللہ میں شامل کیا ہے آپ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کی تلاش میں سفر کر رہے ہیں
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۶۹ء بمقام جلسہ گاہ۔ ربوہ غیر مطبوعہ )
ء ء ء
٭ حقوق تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں مخلوق کا اس پر کیا حق۔
٭ تمام حقوق العباد علامات ہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کی۔
٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قابل عظمت قرار دیا ہے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔
٭ جلسہ سالانہ پر آنے والوں سے محبت،ملائمت اور پیار کا سلوک کرو۔




تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَائِٓرَ اللّٰہِ وَلَاالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْھَدْيَ وَلَا الْقَـلَآئِدَ وَلَآآٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْـلًا مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرِضْوَانًا۔ وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَا دُوْا۔ وَلَایَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِّرِوَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ۔
(المائدہ: ۳)
ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ عِنْدَرَبِّہٖ… فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِo خُنَفَائَٓ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ…o ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِٓرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِo وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَالَکُمْ مِّنْ شَعَائِٓرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ…o لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآئُ ھَاوَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَالَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ وَبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ۔ (الحج:۳۱تا۳۳۔۳۷،۳۸)
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا :۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اصولی طور پر دو ہدایتیں دی ہیں اور دو باتوں پر ہی اسلام نے زور دیا ہے اور وہی اسلام کی بنیاد ہیں۔ ایک تو اسلام میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو جیسا کہ چاہئے ادا کرو دوسرے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کو جیسا کہ حکم ہے ادا کرو۔
حق تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں وہ خالق ہے مخلوق کا اس پر کیا حق؟ اور وہ مالک ہے۔ مملوک کا اس پر کیا حق؟ لیکن یہ بھی اس کی بے پایاں رحمت اور احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اپنے بندوں کے حقوق قائم کئے اور حکم دیا کہ میں جن حقوق کو قائم کرتا ہوں ان حقوق کو قائم کرنا اور ان کی حفاظت کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام حقوق العباد علامات ہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کی کیونکہ حقوق العباد کی ادائیگی یہ بتاتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار اور اس کی اطاعت کرنے والا ہے۔ جب ہم کسی شخص کا، کسی جاندار کا یا کسی بے جان مخلوق کا حق ادا کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اس مخلوق کے اپنی ذات میں کوئی حقوق تھے جنہیں ہم ادا کر رہے ہیں ہم ان حقوق کو اس لئے حقوق کہتے اور حقوق تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے ان حقوق کو قائم کیا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے زمانوں میں بھی خال خال ایسا کیا اور اُس وقت کے انسان کو یہ سمجھایا کہ حقوق العباد کی ادائیگی اس بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے اور اس طرح سمجھایا کہ عقل کوئی اور دلیل یا کوئی اور مصلحت تجویز نہیں کر سکتی تھی مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے متعلق آپ کی قوم کو فرمایا کہ اسے کچھ نہیں کہنا، اب وہ اونٹنی اونٹوں میں سے ایک فرد تھی اُس کی یہ عزت اس کے اونٹنی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے یہ سبق تھا کہ تم میری اطاعت کرو اگر میں کہوں کہ اس اونٹ کی عزت کرنی ہے تو اگر تم میرے فرماں بردار ہو تو تمہیں اس اونٹ کی عزت کرنی پڑے گی۔
اس سبق کو بار بار یاد کرانے کے لئے اور اس لئے کہ ہم اطاعت باری پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں ہر سال لاکھوں اونٹ گائیں بھیڑیں اور بکریاں ہیں کہ جن کے متعلق اسلام میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ میں ان کو عزت دیتا ہوں اور تمہیں بھی ان کی عزت کرنی پڑے گی۔ شروع میں جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی مختلف عزتوں کو قائم کرکے یہ سبق دہرایا ہے اور اس نے یہ سبق بار بار دہرایا ہے اور ہمیں اس پر پختہ طور پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی ہے چنانچہ فرمایا ہے لَا تُحِلُّوْا شَعَائِٓرَ اللّٰہِ یعنی اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی بے حرمتی نہیں کرنی۔ شعائر کے معنی ہیں نشان اور علامات۔ اور نشانات اور علامات کے یہاں یہ معنی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نشانات اور علامات ہیں یہ اس کی فرماں برداری کے نشانات اور علامات ہیں اس کے علاوہ تمہیں اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں یہ علامت اور نشان قائم کر دیتا ہوں تم میرے حکم کی اطاعت کرو۔ یہ علامت اور نشان ایک ظاہری چیز ہوتی ہے جس کے اندر نہ تو عقل ہوتی ہے اور نہ شریعت اور انسانی فطرت اس کی کوئی بزرگی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔
خود اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ میں نے انسان کے علاوہ ہر مخلوق کو انسان کی خدمت پر لگایا ہوا ہے اور جن چیزوں کو انسان کی خدمت پر لگائے جانے کا قرآن کریم بار بار اعلان کر رہا ہے انہی میں سے اللہ تعالیٰ بعض کو لے لیتا ہے اور کہتا ہے تم نے ان کی عزت کرنی ہے تم نے ان کا احترام کرنا ہے، تم نے ان کی بے حرمتی نہیں کرنی کیونکہ یہ نشان ہیں اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کس چیز کا نشان ہیں تو ہم کہیں گے یہ اطاعت باری کا نشان ہیں۔
اس آیت میں حرمت کی بہت سی اقسام کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں جب چاہوں، جس وقت چاہوں اور جس زمانہ میں چاہوں کسی چیز کی حرمت اور اس کی عزت کو قائم کر دیتا ہوں مثلاً اس نے فرمایا میں نے شہر حرام کو حرمت اور عزت والا مہینہ بنایا ہے میں نے اسے شعائراللہ سے بنایا ہے، اسے عظمت اور احترام والا مہینہ بنایا ہے۔ اب اس عزت اور حرمت کا تعلق زمانہ سے ہے اور اس میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ بعض زمانے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت معزز ہو جاتے ہیں اور جو ان زمانوں،مہینوں یا دنوں کی عزت اور احترام سے غافل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار نہیں حاصل کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اس جلسہ(جلسہ سالانہ) کو بھی عزت اور حرمت والا زمانہ قرار دیا ہے چنانچہ یہ فرمایا ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی، اس لئے جلسہ میں ضرور تشریف لائیں اور جو للہ سفر کیا جاتا ہے وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کی ہوتا ہے۔ (مکتوب بصورت اشتہار بابت تحریک شمولیت جلسہ سالانہ قادیان ۱۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۳۴۰تا۳۴۲) پس خالی شہر حرام کی حرمت اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں کی بلکہ اور زمانوں کی حرمت کو بھی اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے مثلاً اس سے بہت زیادہ حرمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی قائم کی ہے آپؐ کی تمام مکی اور مدنی زندگی جو تھی وہ سارا زمانہ عزت اور احترام والا زمانہ تھا۔ جب آسمانوں سے فرشتوں کا نزول ہوتا تھا اور وہ بڑی کثرت کے ساتھ انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی برکتیں بانٹ رہے ہوتے تھے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بعض مکانوں کو عزت دے دیا کرتا ہوں۔ اب ان مکانوں کی اینٹوں اور گارا یا سیمنٹ اور شہتیریا ری انفورس کنکریٹ کی جو چھت ہے اس کو تو کوئی عزت نہیں دیتا بلکہ انسان کے سامنے یہ بات ہونی چاہئے کہ خداتعالیٰ نے اس مکان کو عزت والا مقام عطا فرمایا ہے اور ہمیں اس کی عزت کرنی پڑے گی۔ اگر تم یہ کہو کہ جس طرح کے مکان لاہور یا راولپنڈی یا پشاور یا کراچی یا لنڈن یا واشنگٹن کے ہیں اسی طرح کے مکان مکہ کے مکان ہیں اسی طرح کے مکان مدینہ کے مکان ہیں یا نبی اکرمﷺ کے مکان ہیں تو یہ غلط ہو گا کیونکہ بے شک ان سب مکانوں پر اینٹ اور گارا یا دوسرا میٹریل (Material) جو لگا ہے وہ ایک جیسا ہے لیکن ایک وہ گھر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت عطا نہیں کی اور ایک وہ مکان ہے جس کو اللہ تعالیٰ عزت اور احترام دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ عزت اور احترام دے تمہیں اس کی عزت کرنی پڑے گی یہاں اس آیت میں چونکہ بیت الحرام کی عزت کا ذکر ہے اس لئے یہ حرمت مکان سے تعلق رکھنے والی ہے پھر انسان کی حرمت ہے اور پھر انسانوں میں سے مسلمان کی حرمت ہے اس حرمت کو بھی اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے انسانوں کی حرمت کو بھی قائم کیا گیا ہے جو اپنے ربّ کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں ہیں اب اللہ تعالیٰ نے یہ عام اصول وضع کرکے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اور ہمیں یہ کہا ہے کہ میرے بندوں میں سے ہر وہ بندہ جو میرے فضل کی تلاش میں ہے وہ میرے نزدیک معزز اور محترم ہے۔ تمہیں بھی اس کی عزت اور احترام کرنا پڑے گا اور اگر تم اس کی عزت نہیں کرو گے اس کا احترام نہیں کرو گے تو میری اطاعت کے دائرہ سے باہر ہو جائو گے۔
پھر بعض حرمتیں انسان کی قائم کی گئی ہیں مثلاً انسان کی یہ عزت اور حرمت قائم کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے کسی انسان پر ظلم نہیں کرنا(اسی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے یہ مفہوم بیان ہوا ہے) اور کسی پر تعدی نہیں کرنی۔ پھر انسان کی یہ حرمت بیان کی کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس سے تعاون کرنا اور نیکی اور بھلائی کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں ایک کام تو دنیا سے تعلق رکھنے والے ہیں یعنی وہ کام دنیا کی معاش اور دنیا کی اقتصادیات سے تعلق رکھتے ہیں اور اس میں ایک مسلمان اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں ہوتا مثلاً اسلام نے ایک انسان کے اقتصادی حقوق قائم کئے ہیں اب اگر کوئی غیر مسلم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق یا کچھ فرق کے ساتھ(بہرحال نیکی کی طرف اس کی طبیعت مائل ہے) انسان کے اقتصادی حقوق کو قائم کرتا ہے تو مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس سے تعاون کرے۔ کیونکہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّوَالتَّقْوٰی میں تعاون علی البرمیں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی شرط نہیں گو تعاون علی التقوٰی میں وہ شرط آ جاتی ہے پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں غریب کے، محتاج کے، ضرورت مند کے اور مظلوم کے سیاسی اور اقتصادی حقوق دینے کا سوال ہو گا وہاں جو کوئی تقویٰ کے اصول پر یعنی اللہ تعالیٰ سے خوف کرتے ہوئے اور اس کی پناہ میں آ کر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے یہ کام کرے گا ہر دوسرے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کرے اور پھر فرمایا کہ انسان کا یہ حق ہم نے قائم کیا ہے کہ جب وہ گناہ کرنے لگے تو تم نے اس سے تعاون نہیں کرنا۔ غرض انسان کی یہ حرمت بھی ہے کہ گناہ میں اس سے تعاون نہیں کرنا کیونکہ اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے اور بھی زیادہ آ جائے گا اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم سب برابر ہیں۔
پھر مسلمان کے متعلق یہ کہا کہ سات سَو حکم میں نے تمہیں دیا ہے ان میں سے ہر حکم کوئی نہ کوئی حق ادا کر رہا ہے۔ اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں جس کے نتیجہ میں کوئی حق بھی ادا نہ ہو رہا ہو۔ اسلام کے ہر حکم کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی خداتعالیٰ کا قائم کردہ حق ادا ہو رہا ہے۔ پس کہا کہ جب اللہ تعالیٰ کیلئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کے بندے اس کے احکام بجا لائیں تو دوسرے ان کے ساتھ تعاون کریں۔ تعاون کی آگے پھر کئی شکلیں ہیں میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے وہ تو سورہ مائدہ کی ہے۔ سورہ حج کی آیات میں اس اصول کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ اصل چیز اطاعت ہے۔ ہر بندے کے حق کی ادائیگی کی روح اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اگر وہ نہیں تو پھر کوئی ثواب نہیں ہے۔
فرمایا وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ عِنْدَرَبِّہٖ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ عزتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ بڑی محبوب چیز ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے محبت کرنے لگے گا اور ساتھ ہی یہ تنبیہ کر دی کہ بکری کی یا بھیڑ کی یا دنبے کی یا گائے کی یا اونٹنی کی اس لئے عزت نہیں کرنی کہ کوئی شرک کا سوال ہے۔ گائے کی عزت اس لئے نہیں کرنی کہ ہندوئوں کی طرح یہ سمجھا جائے کہ یہ گائو ماتا ہے یا یہ بھی ایک خدا ہے یا جو دوسرے جانور ہیں ان کے ساتھ بھی شرک نہیں آنا چاہئے اسی واسطے یہاں شرک کی نفی کی ہے اور شرک کے خلاف تعلیم دی ہے یعنی جہاں یہ فرمایا کہ وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ عِنْدَرَبِّہٖ اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ یعنی ان کو خدائی نہیں دینی ہاں ان کو خداتعالیٰ کا مقررہ کردہ عزت اور احترام دینا ہے۔ یہاں اس فرق کو نمایاں کر دیا کہ شرک کسی خفیہ راستہ سے بھی انسان کے دل اور دماغ میں گھس کر اسے اندھیرا کرنے کی کوشش نہ کرے اور پھر فرمایا ذٰلِکَ وَمَنْ یَّعَظِّمْ شَعَائِٓرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی عزت قائم کرتا ہے وہ اس لئے کرتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے۔ وہ شرک کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا یا کسی اور سبب سے بھی نہیں کرتا۔ اس کو یہ پتہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کی اطاعت میری روح ہے اور میری زندگی ہے۔ اس کی اطاعت سے باہر ہو کر نہ میری روح میں وہ حیات جس کے لئے وہ پیدا کی ہے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اسے کوئی بقاء مل سکتی ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ روح نے تو باقی رہنا ہے لیکن وہ کیا بقاء ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ جہنم کے اندر نہ زندہ ہوں گے نہ مردہ ہوں گے اور اسی پر زور دینے کے لئے پھر فرمایا کہ ان کے گوشت اور ان کے خون خدا کے حضور عزت کے ساتھ پیش نہیں کئے جاتے تا ان پر کوئی ثواب ملے بلکہ تمہارے دل کا تقویٰ خدا کے حضور پیش ہوتا ہے اور اس پر ثواب ملتا ہے اور جزا نکلتی ہے ان تمام چیزوں کو ہم نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور پھر ان میں سے بعض کو تمہارے لئے ایک خاص وقت تک کے لئے عزت اور عظمت والا قرار دے دیا چنانچہ ان اونٹنیوں کو یا ان گائیوں کو یا ان بھیڑوں اور بکریوں اور دنبیوں کو جو قربانی کے لئے جا رہی ہوتی ہیں اس وقت سے پہلے کہ ان کو قربان کیا جائے یعنی ان کی قربانی کا وقت آ جائے ان کی عزت قائم کی۔ پھر بعد میں ان کو ذبح کروا دیا یعنی ایک وقت میں کہا کہ اگر تم ان کی عزت نہیں کرو گے تو میں ناراض ہو جائوں گا اور دوسرے وقت میں یہ کہا کہ اگر تم ان کو ذبح نہیں کرو گے اور ان کی جان نہیں لو گے تو میں تم سے ناراض ہو جائوں گا۔ اور ہمیں بتایا سَخَّرَھَالَکُمہم نے ان کی اس قسم کی تسخیر کی ہے کہ تمہارے ہاتھ سے ہی ان کی زندگی قائم بھی رکھتے ہیں اور تمہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ بری نگاہ سے ان کی طرف نہ دیکھنا۔ گویا ایک زمانہ جانور پر یہ آتا ہے کہ خداتعالیٰ کہتا ہے ان کی طرف بُری نگاہ سے نہ دیکھنا اور پھر اس پر وہ زمانہ بھی آتا ہے جب خداتعالیٰ کہتا ہے تم چھری سے ان کو ذبح کر دو پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت تک تمہارے ہی ہاتھ سے میں ان کو زندہ رکھتا ہوں اور پھر تمہارے ہاتھ سے ہی ان کی موت کے سامان پیدا کر دیتا ہوں۔ سَخَّرَھَالَکُم اور یہ اس لئے کیا کہ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اور اس کا جلال موجزن ہو اور تم خداتعالیٰ کی حمد کرو کہ کس طرح اس نے ہمیں تمام جھمیلوں سے بچا کر اپنے قدموں پر لا کر بٹھا دیا ہے اور کامل اور حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی ہدایت تمہارے ہاتھ میں دی ہے وَبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَاور جو محسن تمام اعمال کو حسن کے ساتھ اور توجہ کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور قربانی کے جذبات کے ساتھ اور اپنے آپ کو لَاشَيْ محض سمجھنے کے ساتھ کرتے ہیں ان کو بشارتیں دے دو اور چونکہ بَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ میں بشارت کی تعیین نہیں کی اس لئے ہم اس کے یہ معنی کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کی بشارتیں ان کو ملیں گی۔
اسی مضمون کو نبی اکرمﷺ نے اپنی آخری وصیت میں بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرمتوں اور اس کے شعائر کی طرف توجہ دلائی ہے (کتاب الحج باب الخطبۃ ایام المِنٰی) کیونکہ لغت عربی میں شعائر(جو شعیرہ کی جمع ہے) کے معنی ہیں کُلُّ مَاجُعِلَ عَلَمًا لِطَاعَۃِ اللّٰہِ یعنی وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے بطور نشان قائم کیا جائے اور قرآن کریم کی زبان میں شعیرہ(اس کی جمع شعائر ہے) کے معنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نشان کے علاوہ اس نشان کے بھی ہیں جو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خداتعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے۔ (کتاب الحج باب الخطبۃ ایام المِنٰی) دوسرے مذاہب گو اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے لیکن اب ان کی شکل بدل چکی ہے اور وہ محرف شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں بہت محدود صداقت پائی جاتی تھی اور وہ مختص القوم اور مختص الزمان تھے بعد میں ان میں انسانی ہاتھ نے بڑا ردّو بدل کیا اور ان کی شکل کو مسخ کر دیا۔ بہرحال جس شکل میں بھی دوسرے مذاہب ہمارے سامنے ہیں۔ میں تحدی کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان میں سے کسی مذہب نے اپنے مذہب سے باہر والوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کی اور نہ ان کے جذبات کا خیال رکھا ہے نہ ان کی عزتوں کی حرمت کو پہچانا ہے ان کے مقابلہ میں اسلام میں یہ بڑا حسن پایا جاتا ہے کہ اس نے انسان کی عزت اور اس کی جان اور اس کے مال کی حفاظت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ ایک مسلمان کی ناحق جان نہ لینا ہاں اگر ایک غیر مسلم کی جان ناحق لے لو تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے قرآن کریم اس قسم کی تعلیم نہیں دیتا، اسلام یہ نہیں سکھاتا، اسلام تو یہ کہتا ہے کہ کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم، توحید پرست ہو یا دہریہ خداتعالیٰ کو گالیاں نکالنے والا، انسان ہونے کے لحاظ سے وہ سب برابر ہیں اگر کوئی خداتعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے تو خداتعالیٰ اس سے انتقام لے گا اور اسے سزا دے گا لیکن تمہارا یہ فرض ہے کہ اس شخص کی بھی جان نہیں لینی، اس کا مال بھی غصب نہیں کرنا اس کے ساتھ بھی دھوکا کا معاملہ نہیں کرنا، اس کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں لگانی، اس کی وہ عزت اور احترام کرنا ہے جو انسانیت کی عزت اور احترام ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی اور نبی اکرمﷺ کے منہ سے یہ کہلوایا کہ تم سن رکھو اور اسے یاد رکھو کہ اپنی بیویوں سے ہمیشہ اچھا سلوک کرنا کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے عورت کمزور وجود ہوتی ہے اور اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی۔ تم نے جب ان کے ساتھ شادی کی تھی تو تم نے خداتعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کا ضامن ٹھہراتا ہے کہ اس کی اس ضمانت کی وجہ سے جس کا واسطہ دے کر تم نے یہ ذمہ داری لی تھی عورتوں کے حقوق کی پوری طرح نگہداشت کرنا، ان سے حسن سلوک کرنا، ان کی کمزوریوں کو وجہ طعن نہ بنانا بلکہ اس وجہ سے انہیں رحم اور حسن سلوک کا مقام ٹھہرانا۔
پھر دنیا میں ہمیشہ ہی انسان جنگیں بھی لڑتے آئے ہیں کبھی جائز اور کبھی ناجائز۔ جائز جنگ کے نتیجہ میں بھی جو جنگی قیدی مسلمان کے ہاتھ میں تھے ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے ایک مسلمان سے کہا کہ تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی کھلانا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی پہنائو جو تم خود پہنتے ہو کیونکہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ اے لوگو! جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں تم اچھی طرح اس کو یاد رکھو۔
پھر انسانی شرف کو اصولی طور پر قائم کرنے کے لئے یہ اعلان کیا کہ تم انسان خواہ کسی قوم اور حیثیت کے ہو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو اور پھر یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو اس طرح ملا دیا اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں برابر ہیں اسی طرح تم بنی نوع انسان(مسلمان نہیں) آپس میں برابر ہو۔ تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
میں نے بتایا تھا کہ زمانہ اور مکان اور مخلوق کی حرمتوں کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرکے ہر اس چیز کو، ہر اس مخلوق کو اور ہر اس انسان کو جس کے متعلق خداتعالیٰ نے حکم دیا اور اس کے حق کو قائم کیا ہے شعائراللہ بنا دیا یعنی اس بات کی علامت بنا دیا کہ تم مسلمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہو یا حکم عدولی کرتے ہوئے اس کی اطاعت سے باہر نکلتے ہو اور اس کے غضب کے دائرہ کے اندر داخل ہوتے ہو۔ آپؐ نے فرمایا جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اس کے مال اور عزت و ناموس کو مقدس قرار دیا ہے۔ شعائر اللہ بنا دیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال اور کسی کی عزت پر حملہ کرنا ایسا ہی ناجائز ہے جیسا کہ اس مہینے اور اس علاقے اور اس دن کی ہتک کرنا پھر آپ نے فرمایا یہ حکم آپ کے لئے نہیں، کل کے لئے نہیں بلکہ اس دن تک کے لئے ہے کہ تم خدا سے جا کر ملو پھر فرمایا یہ باتیں جو میں آج تم سے کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچائو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے آج نہیں سن رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اور آپ سے پہلے جو چھوٹے چھوٹے اولیاء امت گذرے ہیں انہوں نے بھی اپنے اپنے وقت میں بہت ساری چیزوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام کی روشنی میں یہ اعلان کیا کہ یہ شعائراللہ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت اور عزت قائم کی ہے اس اصول کے مطابق مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو میرے فضل کی تلاش میں ہے وہ میری عزت اور میری حرمت کے دائرہ کے اندر ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ سالانہ کو شعائر اللہ میں شامل کیا ہے کیونکہ ایک تو یہ وہ زمانہ ہے جس میں ہم صرف اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں اس اجتماع میں ہماری اپنی کوئی ذاتی غرض اور مقصد نہیں ہے پھر لوگ ہر قسم کی تکالیف اٹھا کر محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے حصول کے لئے مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے یہاں آ رہے ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی تلاش میں سفر کر رہے ہوتے ہیں اور اسی کی طرف پہلی آیت جو میں نے پڑھی تھی اشارہ کر رہی ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قابل عظمت قرار دیا ہے پھر انسانوں میں سے بعض انسان ایسے ہیں کہ جن کی عزت اور عظمت کو حق طور پر خداتعالیٰ قائم کرتا ہے۔ سب سے زیادہ معزز اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزتوں کی تقسیم کا سرچشمہ اور منبع تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے آپؐ کی اُمت میں آپ ہی کے منشاء کے مطابق اور بھی ایسے وجود پیدا ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت اور عظمت عطا کی تھی۔ کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس شخص کو خداتعالیٰ کی نگاہ میں کوئی عزت اور عظمت نہیں جس کو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۰۰ سال پہلے اپنا سلام بھجوایا تھا ۱۳۰۰ سال پہلے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ایک پیار اپنے اس روحانی فرزند کے لئے جوش مار رہا تھا اور اس جوش کے نتیجہ میں آپ نے کہا کہ جب وہ آئے تو اپنی طرف سے تم نے اسے سلام پہنچانا ہی ہو گا۔ میری طرف سے بھی اسے سلام پہنچا دینا۔ (طبرانی الاوسط والصغیر)
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں اپنی اولاد(روحانی) میں سے جو وجود اس قدر عزت اور احترام رکھتا ہے کہ آپ اسے سلام بھیجتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صاحب عزت و احترام نہیں وہ یقینا صاحب عظمت و احترام ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جو مختلف نشان دیئے اور علامات دیں اور آپ نے جو پیشگوئیاں فرمائیں اور جو وقت کی ضرورت کے مطابق اسلام کے تقاضے آپ نے بتائے وہ سب شعائراللہ میں شامل ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے شعائراللہ کے معنی ہیں وہ علامات جو یہ بتاتی ہیں کہ ان کی عزت کرکے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے اور ان کی بے حرمتی کرکے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی مبشر اولاد کے متعلق بھی ایک فقرہ میں یہ بتایا ہے کہ یہ شعائر اللہ ہیں اور ان کی عزت کرنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے جیسے نبی اکرمﷺ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سلام بھجوایا تھا اسی سے ملتا جلتا یہ فقرہ ہے آپ فرماتے ہیں کہ:۔
’’یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں…… اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی ضروری سمجھتا ہوں‘‘ ۔ (الحکم ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۳ء)
اب جس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرض سمجھتے ہیں آپ کے جو متبع، پیرو اور آپ کی بیعت میں شامل ہیں وہ بات ان پر بھی فرض ہے جو اس سے انکار کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع سے انکار کر رہا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت میں داخل ہونے والوں میں سے کمزوروں کی عزت اور احترام کو قائم کیا ہے بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ چونکہ دس سال یا پندرہ سال یا بیس سال کی تربیت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں ایک مقام پر پہنچ گیا ہوں اس لئے جو شخص آج اسلام میں یا سلسلہ عالیہ میں داخل ہوا ہے اور اس کی وہ تربیت نہیں جو میری ہے اس پر میں کوئی فضیلت رکھتا ہوں اور میرا یہ حق ہے کہ میں اس کی تحقیر کروں۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے میرے منہ سے جو حقیقت تھی وہ نکلی تھی لیکن وسوسہ اندازی کے نتیجہ میں دل میں جو خیال پیدا ہوتا ہے اسسے ’’اللہ کے فضل سے‘‘ کے الفاظ کاٹ دو بہرحال وہ سمجھتا ہے کہ میں شاید اپنے زور اور اپنی طاقت سے اس مقام تک پہنچا ہوں اور دس پندرہ سالہ تربیت کے نتیجہ میں پہنچا ہوں اور چونکہ میں اپنے زور اور اپنی طاقت اور اپنے مجاہدہ اور اپنی دعائوں اور اپنی قربانیوں کے نتیجہ میں جن میں خدا کے فضل کا دخل نہیں اس مقام تک پہنچا ہوں اس لئے مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ جو لوگ کل یا پرسوں یا ترسوں یا دس دن پہلے یا دو ماہ پہلے یا سال پہلے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں یا اسلام میں داخل ہوتے ہیں ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھوں اور ان پر سختی کروں اور طعن و تشنیع کروں حالانکہ جس وقت وہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اس وقت سب سے بڑا فضل جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کیا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اس بات کے لئے تیار کر دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تربیت گاہ سے تربیت حاصل کریں کیونکہ باہر سے تو وہ تربیت حاصل کرکے آئے نہیں اور تربیت انہوں نے آہستہ آہستہ حاصل کرنی ہے۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں ان لوگوں کا بڑا خیال تھا جو اس وقت کچھ عرصہ پہلے سلسلہ میں داخل ہوئے یا آپ کو پتہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقیات کا زمانہ اس وقت تک ممتد ہے کہ ساری دنیا کے انسان باستثناء چند کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو جائیں گے اور ان بشارتوں کی وجہ سے آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کچھ لوگوں نے پانچ سال یا دس سال تک میری تربیت حاصل کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ مجھے ان کی تربیت کرنے کی توفیق ملی اور ان کو میری تربیت قبول کرنے کی توفیق دی اور اپنے قرب کی راہیں ان پر کھولیں اور انہیں اپنے قریب کر لیا اور اپنی درگاہ میں انہیں معزز کر دیا اور اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کر لیا۔ جو اسلام میں یا سلسلہ عالیہ احمدیہ میں کل داخل ہوئے یا جو کل داخل ہوں گے ان کی تو ابھی یہ حالت ہو گی ممکن ہے کہ شیطان اس راہ سے میری جماعت میں داخل ہو اور ان کے اندر کبر اور غرور پیدا کرے اور نئے آنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے اور اسی طرح بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو مشکل بنا دیا جائے اس خیال کے ماتحت آپ نے فرمایا کہ یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۰ تا۲۲)
اسی طرح قرآن شریف میں آیا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّوَالتَّقْوٰی۔کمزور بھائیوں کا بار اٹھائو، عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جائو، بدنی کمزوریوں کابھی علاج کرو، کوئی جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اس کی یہی صورت ہے کہ ابتداء میں ان کی پردہ پوشی کی جائے۔ صحابہؓ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلمانوں کی کمزوریاں دیکھ کر چڑو نہیں کیونکہ جب تم اسلام میں داخل ہوئے تھے تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت اور ملائمت کے ساتھ برتائو کرے۔ کس قدر شفقت ہے نئے آنے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں اور یہ اس لئے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی عزت اور احترام کی مہر لگ جاتی ہے اور خدا دنیا کو یہ کہتا ہے کہ یہ میرا مکرم اور محبوب بندہ ہے دنیا اس میں کمزوریاں دیکھتی ہے اور وہ عَلَّامُ الْغُیُوْباس مقام کو دیکھ رہا ہے کہ جہاں وہ ایک وقت میں اپنے خون اور جان کو فدا کرکے پہنچنے والا ہے اور جو شخص اس طرح پر اپنی قربانیوں اور مقبول مجاہدات کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی نگاہ میں عزت پانے والا ہے آج میرا اور تمہارا یہ حق نہیں ہے کہ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں۔ پس نئے آنے والوں سے محبت اور ملائمت اور پیار کا سلوک کرو جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اس حکم کو اچھی طرح نہیں سمجھتا جو شعائراللہ کی عظمت اور احترام کے لئے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم اور معرفت اور عملِ مقبول کی توفیق عطا کرے۔(آمین)
٭…٭…٭
 
Top