• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1996ء

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1996ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ یکم رمضان بمطابق22؍جنوری 1996ء
آج رمضان کا پہلاروزہ ہے انگلستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ (آج ہی ہورہا ہے) اور درس کا پہلا دن ہے۔ پچھلے سال سورہ آل عمران کی آخری دو آیات درس سے رہ گئی تھیں۔ آج انہی سے شروع کردیں گے انشاء اللہ۔ ایک تو تاخیر کے متعلق میں گزارش کردوں ساڑھے گیارہ بجے ہم نے linkupکرنا ہوتا ہے ،سیٹلائٹ کے ساتھ انتظام میں چند منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ پانچ منٹ تک ہم اطلاع دیں گے، پھر اطلاع آئی ہے تو میں آیا ہوں ۔ کل سے بھی اسی طرح ہوگا؟ چند منٹ روزانہ دیر سے ہوا کرے گا۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
و ان من اھل الکتب لمن یومن باللّہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم خشعین للّٰہ لا یشترون بایت اللّہ ثمنا قلیلًا اولئک لھم اجرھم عند ربھم ان اللہ سریع الحساب۔ یاایھاالذین امنوا اصبرو ا و صابرو ا و رابطو واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔
(آل عمران:۲۰۰۔۲۰۱)
وان من اھل الکتب یقینا اہل کتاب میں سے ایسے ہیں لمن یؤمن با للہ جو اللہ پر ایمان لائیں گے ۔ لیکن لفظاً یہ ہے لمن یؤمنجو اللہ پر ایمان لائے گا۔ یہ زبان کے محاورے کا فرق ہے۔ اردو میں ہم یہ کہتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں گے۔ تو عربی میں طریق ہے۔وان من اھل الکتب یقینا اہل کتاب میں سے کئی ایک ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک اللہ پر ایمان لائے گا۔ یہ طرز بیان ہے تو ترجمے میں اگرچہ واحد کا ترجمہ جمع کاہورہا ہے مگر بعینہٖ یہی عربی میں مراد ہے۔ و ان من اھل الکتب یقینا اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں کہ جو اللہ پر ایمان لائیں گے یا لفظی ترجمہ ہے جو اللہ پر ایمان لائے گا۔ وما انزل الیکماورجو تم پر اتار اگیا۔ وما انزل الیھم اور جو ان کی طرف اتار ا گیا۔ خشعین للہ اللہ کے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے۔ لا یشترون بایت اللہ ثمنًا قلیلًا وہ اللہ کی آیات کے بدلے حقیر مال قبول نہیں کرتے ، حقیر قیمت قبول نہیں کرتے۔ اولئک لھم اجرھم عند ربھم یہی وہ لوگ ہیں جن کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے۔ ان اللّٰہ سریع الحسابیقینا اللہ تعالیٰ حساب میں بہت تیز ہے۔ یہاں جو خاص قابل ذکر امور ہیں میں ان کا بعد میں ذکر کروں یا پہلے؟ جو پرانی تفاسیر ہیں اور جو لفظوں کی عربی کی جو بحث ہے اس کو اٹھائوں؟ کیوں جی کیا طریق رہا ہے؟ (’’حضور حل لغات وغیرہ‘‘(بتایا گیا) حل لغات وغیرہ ٹھیک ہے۔
خشعین: خشعین کی حل لغات یہ ہے کہ الخشوع۔ الضراعۃ۔ یعنی خشوع انکساری کو کہتے ہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ خشوع اورالضراع میں فرق کیا ہے۔حضرت امام راغب کے نزدیک ’’اکثر ما یستعمل الخشوع فیما یوجد علی الجوارح‘‘ خشوع کا اکثراستعمال جوارح کیلئے ہوتا ہے ۔ یعنی اعضاء کیلئے بدن کا جھکنا ،رکوع میں چلے جانا، سجدے میں گرجانا۔ یہ بدنی حرکات جو خداتعالیٰ کے حضور عاجزی کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کو بالعموم عربی میں خشوع سے بیان کیا جاتا ہے۔’’الضراعۃ اکثر ما تستعمل فیما یوجد فی القلب‘‘ اور حضرت امام راغب کے نزدیک ضراعۃ کا لفظ زیادہ تر دل کی کیفیات پر استعمال ہوتا ہے اور روح کا سجدہ طبیعت میں مزاج میں انکساری اور عاجزی۔ اذا ضرع القلب خشعت الجوارح یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب دل میں تضرع پیدا ہو تو اعضا ء پر خشوع طاری ہوجاتا ہے یعنی دل کا تضرع اعضاء کے خشوع میں بدل جاتا ہے۔ بعض نے اس کے برعکس بھی معنی لیا ہے۔ مثلاً النہایۃ الابن الاثیر میں برعکس بات لکھی ہوئی ہے، اقرب المواردسے یہ ہم نے لیا ہے۔ الخشوع فی الصوت و البصر کا لخضوع فی البدنجو آواز کا خشوع ہے اور نظر کا خشوع یہ ایسا ہی ہے جیسے بدن کا خضوع۔ یعنی بدن میں خضوع اور نظر وغیرہ کیلئے خشوع کا لفظ استعمال کیا ہے۔ توبعینہٖ برعکس تو نہیں مگر کچھ الٹ مضمون ہے اس میں، مگر حضرت امام راغب بہر حال قرآن فہمی کے لحاظ سے اور عربی الفاظ کے فہم کے اعتبار سے سب پر بالا ہیں(ماشاء اللہ) اور میں امام رازی والا ہی ترجمہ قبول کرتا ہوںاور حضرت مصلح موعود وغیرہ سب نے اسی ترجمہ کو ترجیح دی ہے کہ خشوع کا تعلق زیادہ تر بدن کے ساتھ اور خضوع کا تعلق زیادہ تر دل کی حالت سے ہے۔ دوسری بحثیں جو اس میں قابل ذکر ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے مفسرین نے بعض معین نام بھی بیان کیے ہیں۔ بعض نے تعداد بھی لکھی ہے کہ وہ کون لوگ تھے۔ لیکن بیچ میں ایک ایسا مسئلہ ہے جو سمجھائے بغیر آپ کو بات سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ لوگ کیوں اس قسم کے اختلاف کررہے یہں۔ معین کرنے میں کیا دقت پیش آرہی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں (یعنی سوچنے والے)کہ اہل کتاب تو وہ ہیں جو پہلے کتاب پر ایمان لاتے ہیں پھر وہ قرآن کریم فرمارہا ہے کہ تم پر بھی ایمان لائیں گے یعنی وہ جو اتار اگیا تم لوگوں کی طرف۔ یعنی اللہ کے رسول کی معرفت جو آیات تمہاری خاطر نازل کی گئیں ہیں ان پر بھی وہ ایمان لائیں گے۔
وما انزل الیکم پھر بعد میں یہ جو فرمایادیا کہ وما انزل الیھم اور جو ان پر اتارا گیا تو یہ کیا قصہ ہے تین امکانات پیدا ہوتے ہیں۔اول یہ کہ ایسے اہل کتاب مراد ہیںجو ایمان نہیں لائے، ان معنوں میں کہ شامل ہوکرباقاعدہ مسلمانوںکی جماعت میں داخل نہیں ہوئے، لیکن ان کی قلبی کیفیت ایسی ہے کہ وہ فی الحقیقت ایمان لاتے ہیں۔ او رجو کچھ بھی ان پر اتار اگیا اس پر توایمان لاتے ہی ہیں لیکن انزل الیکم پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ وما انزل الیھم دوبارہ ان کا ذکر وما انزل الیھم کرکے گویا ان کی مستقل وابستگی تو اہل کتاب سے کردی گئی مگر یہ بھی بیان کردیا گیا کہ اہل کتاب سے وابستہ رہتے ہوئے بھی وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان میں کامل ہیں۔ خشعین للہ وہ خدا کے حضور جھکتے ہیں۔ یہ ہے ایک پہلو جو قابل توجہ ہے۔ دوسرا وہ کہتے ہیں بعض کہ درحقیقت اس میں وہ لوگ مرا دہیں جو پہلے کتاب پر ایمان لائے تھے ، پھر آنحضرتﷺ پر ایمان لائے، پھر قرآن کی ہدایت کے تابع اس تعلیم پر بھی ایمان لائے جس پر پہلے ایمان رکھتے تھے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب میں سے مختلف وقتوں میں مسلمان ہوئے۔ ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مفسرین نے جو لکھا ہے وہ میں آپ کے سامنے پڑھ کر سنادیتا ہوں۔ تفسیر کبیر جلد ۹ صفحہ ۱۵۴ میں یہ درج ہے۔ روح المعانی اور تفسیر بحر المحیط میں بھی کہ یہ آیت دراصل نجاشی کے متعلق نازل ہوئی تھی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ نجاشی ان لوگوں میں سے تھا (جو میں نے ابھی بات بیان کی ہے) کہ جو ایمان تو لایا(اہل کتاب میں سے تھا) آنحضرتﷺ پر نازل ہونے والی وحی جب اس کے سامنے تلاوت کی گئی تو اس نے کہاکہ اس میں اور میرے ایمان میں ایک ذرّہ بھی فرق نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود وہ جہاں تک رسمی تعلق ہے ، عیسائی ہی رہا۔ عیسائی کہلاتا رہا مگر اس کے ایمان کا یہ حال تھا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس کے وصال کی اطلاع وحی کے ذریعہ دی گئی اور آپﷺ نے اسکا جنازہ پڑھا۔ اب یہ مؤقف اختیار کرنے والے مفسرین کہتے ہیں کہ اصل اس کی شان نزول یہ ہے کہ جب آنحضورﷺ نے جنازہ پڑھا تو مشرکین نے اعتراض کیا اوردوسروں نے بھی کہ یہ کیسا رسول ہے کہ نہ اس کا منہ دیکھا نجاشی کا اور نہ گویا فی الحقیقت وہ ایمان لایا تھا ، وہ تو عیسائی ہی رہا تھا اس کے باوجود اس کا جنازہ پڑھ لیا ہے۔ تو مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے جواب میں یہ بتانے کیلئے کہ نجاشی کا جنازہ کیوں پڑھا گیا یہ آیت نازل ہوئی ، یہ وہی جو شان نزول کا شوق رکھنے والے۔ بعض آیات کو محدود کرکے ایک ہی جگہ باندھ رکھتے ہیں، یہ ان کا مؤقف ہے۔ مگر یہ واقعہ اپنی جگہ اپنی ایک شان رکھتا ہے۔ اور اس آیت کے مفہوم میں وہ بھی داخل ہوسکتا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ محض نجاشی کی خاطر یہ آیت نازل ہوئی یہ درست نہیں۔ چنانچہ بہت سے دوسرے مفسرین اس مؤقف کو قبول نہیں کرتے اور وہ بعض اور لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ایک کی بجائے کچھ زیادہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ابن جریح اورا بن زید کے نزدیک یہ آیت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے بارہ میں نازل ہوئی اور یہ بھی کہا گیا کہ اس آیت کے مصداق نجران کے چالیس افراد، حبشہ کے اڑتیس اور روم کے آٹھ افراد ہیں جو پہلے عیسائی تھے اور پھر اسلام لائے۔ یہ دوسرے طبقے کے لوگوں نے ایک شخص سے اس آیت کے مضمون کو باندھنے کی بجائے ان افراد پر عام کیا مگر ابھی بھی مخصوص لوگ ہیں۔ اس بحث سے ہمیں یہ تو اندازہ ہوگیا کہ اس وقت تک اہل کتاب میں سے کتنے ایمان لائے تھے کیونکہ ان مفسرین نے بہت جستجو کرکے روایتیں اکٹھی کرکے گنتی کی ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے اس وقت تک نجاشی کے علاوہ (۴۰ اور بھی اہل حبشہ، نجران کا جو وفد آیا تھا، یاد ہے آپ کو جس میں آنحضرتﷺ سے مناظرہ ہوا اور پھر بعد میںمباہلہ کا چیلنج دیا گیا) نجران کے عیسائیوں میں سے اس وقت تک ۴۰ عیسائی مسلمان ہوچکے تھے۔ اور حبشہ کے ۳۸ افراد(اور روم کے یا جس کو ہم)رومن ایمپائر کا وہ حصہ (ہے) جو مسلمانوں کے اس علاقے کے ساتھ ملتا تھا اس کے آٹھ افراد عیسائیت سے اسلام قبول کرچکے تھے۔ مگر ’’مجاہد‘‘ کے نزدیک یہ آیات نہ پہلے کیلئے خاص ہیں نہ ان سب کیلئے خاص ہیں۔ یہ عمومی آیات ہیں جن کا ہر ایسے اہل کتاب سے تعلق ہے جو دل سے ایمان لے آیا ہو اور ظاہراً بھی اس نے قبول کرلیا ہو یہ آیت ان تمام ایمان لانے والوں کے متعلق اتری ہے جو اسلام سے قبل اہل کتاب میں سے تھے لیکن اسلام قبول کرلیا۔ امام رازی نے مجاہد کے قول کو اولیٰ قرار دیا ہے۔ باقی سب مفسروں کی تفسیرسے مجاہد کی تفسیر کو بہترجانا ہے۔ لیکن اس میں یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا کہ اگر یہ عمومی آیت ہے اور سب اہل کتاب پر اطلاق پاتی ہے جو مسلمان ہوئے تو مسلمان ہونے کے بعد پھر ان کے اس کلام پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے جہاں سے ان کے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ وہ تو پہلے ہی ایمان لارہے تھے(کتاب پر) ، تو یہ کہنے کے بعد کہ وہ تمہارے اوپر نازل ہونے والی وحی پر بھی ایمان لائے۔ پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی یہ توجیہہ پیش فرمائی ہے کہ دراصل ان کا بائبل پر ایمان ایک سرسری اور روایتی ایمان جو حقیقت میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے بعد پختہ ہوا اور اس قوی ایمان کے ساتھ ان کے پہلے ایمان کو بھی تقویت ملی اور اس کا حقیقی مفہوم ان کو اس وقت سمجھ آیا جب آنحضرتﷺ پر ایمان لائے۔ تو اس پہلو سے یہ معنی جتنے بھی دوسرے تفسیری معنی ہیں ان میں سب سے بلند شان کا ہے۔ دوسرے اس میںایک پیشگوئی کا رنگ بھی ہے۔ یعنی اس وقت تک جو لوگ ایمان لاچکے تھے ان کی بحث نہیں ہے۔ بلکہ مختلف بعد میں آنے والے گروہ جو ہمیشہ اسلام میں داخل ہوتے رہے گے ان کاذکر بھی ہے۔ اور وہ کون لوگ ہوں گے؟ اس کی چابی دراصل لفظ خشعین میں رکھی گئی ہے۔ اس تعلق میں اب ہم اس آیت کی طرف لوٹتے ہیں۔ وان من اہل الکتب لمن یؤمن باللہ اہل کتاب میں سے یقینا ایسے ہیں لمن یؤمن باللہ یہاں ترجمہ مستقبل میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو ہے جو ایمان لاتے ہیں اور ایک ہے جو اللہ پر ایمان لائیں گے۔ وما انزل الیکم اور جو تم پر اتار ا گیا۔وما انزل الیھم اور جو ان پر اتار جاچکا تھا یا جاچکا ہے۔ گویا کہ وہ اپنے ایمان میں محمد رسول اللہ ﷺ کے ایمان کے راستے سے داخل ہوں گے۔ بات تو وہی جو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حال کے رنگ میں اختیار فرمائی ہے ۔ مگر میں جو اشارہ کررہا ہوں وہ ایک یہ کہ محض اس زمانے پر اطلاق پانے والی آیت نہیں کہ اس سے پہلے یہ لوگ یا اتنے لوگ اس طرح ایمان لائے تھے۔ بلکہ ایک مستقل جاری رہنے والی پیشگوئی ہے کہ اہل کتاب میں سے وہی حقیقت میں اپنی کتاب پر ایمان لائے گا جو پہلے حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ اور آپ پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لے آئے گا۔
خشعین للہ ایسے لوگ کون ہوں گے؟ وہ جن کے دل اللہ کے حضور جھکے رہتے ہیں اور لفظ خشعین کے متعلق اگرچہ ابھی آپ نے مفردات کا حوالہ سنا ہے کہ جوارح سے تعلق رکھتا ہے ۔ مگر ہر جگہ جہاں جوارح سے تعلق کا ذکر ہے وہاں اکثر کا لفظ آتا ہے۔ ہرگز کسی اہل زبان نے یہ نہیں کہا کہ خشعین محض جوارح یعنی اعضاء سے تعلق رکھتا ہے، دل سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ بعض اوقات دل سے بھی اور جوارح سے بھی اس وقت تعلق رکھتا ہے جب اس کا دل سے آغاز ہو او ر جوارح پر اس کا اثر پھیل جائے۔ تو اس کو اس وسعت کے ساتھ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ خشعین جن کے دلوں میں عاجزی پیدا ہوتی ہے اور اس عاجزی کے نتیجے میں ان کے بدن اس عاجزی کے تابع خدا کو سجدے کرتے ہیں یعنی ظاہراً قبول بھی کرلیتے ہیں۔ پس خشعین کا لفظ یہاں پر ایک پردہ اٹھا رہا ہے کہ محض دل کے ایمان والوں کا ذکر نہیں ہورہا۔ کیونکہ لفظ خشوع کا تعلق دل سے بھی ہوسکتاہے اوربدن سے زیادہ تر ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ کرنا زیادہ درست ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں عجز پیدا ہوا ، جو ان کے بدنوں میں ظاہر ہوگیا۔ اور بدنوں میں جب اظہار ہوتا ہے تو پھر ایمان انسان کھلم کھلا لے آتا ہے اور ان کی ایک اور صفت بیان فرمائی۔ لا یشترون بایت اللہ ثمنًا قلیلًا ۔ وہ لوگ حقیقت میںجرأت کے ساتھ ایک مسلک کو چھوڑ کر دوسرے کو قبول کرنے کے اہل ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے نشانات کو ادنیٰ فائدوں پر قربان نہیں کیا کرتے اور ایمان لانے کی قیمت دینی پڑتی ہے۔ یہاں ثمنًا قلیلاً سے مراد یہ نہیں ہے تھوڑے پیسے یا تھوڑی قیمت کے بدلے وہ ایمان نہیںبیچتے کیونکہ ایمان کے بدلے توہر قیمت تھوڑی ہے اور یہی معنی ہے کہ ثمناً قلیلاً ایمان کے بدلے وہ کوئی قیمت بھی قبول نہیں کرتے کیونکہ ایمان کے بدلے تو ہر قیمت بے حقیقت ہے اور بے معنی ہے۔ پس ایسے وہ لوگ ہیں جو یہ جرأت رکھتے ہیں کیونکہ ان کو قربانیاں دینی پڑیں گی۔ یہ نہیں کہ وہ صرف آیات کاسودا نہیں کرتے مراد یہ ہے کہ جو ان کا ہے جب یہ خطرہ پیدا ہو کہ ان کا نہیں رہے گا جو ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں عین ممکن ہے کہ ان سے سب کچھ چھین لیا جائے، وہ محفوظ رکھنا بھی تو ایک قیمت ہے۔ اور یہ واقعات آئے دن ہمیں احمدیت کی اس نئی تاریخ میں (جو پرانی تاریخ کا اعادہ ہے) ملتے ہیں۔بکثرت احمدیو ں پر یہ دبائو ڈالا جاتا ہے کہ ہم تم سے یہ مال و دولت چھین لیں گے، جائیدادوں سے عاق کردیں گے اور کئی ایک ہیں جو ڈر کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ توانہوں نے قیمت قبول کی ہے۔ بظاہر باہر سے پیسے نہیں لیے مگر ان کو ایک قیمت ملی ہے اپنا ایمان بیچنے کے نتیجے میں کہ اپنی جائیدادوں سے محروم نہیں کیے گئے۔ تو یہ ابتلاء ہے جس کی طرف اشار ہ ہے کہ ایسے لوگ جن کا دل خدا کے حضور جھک چکا ہو، جن کے اعضاء اور جوارح خدا کے حضورجھک چکے ہوں ان کے نزدیک پھر کوئی بھی قیمت کافی قیمت نہیں رہتی ایمان کے سودے کیلئے۔
اولئک لھم اجرھم عند ربھم۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اجر ا ُن کے ربّ کے پاس ہے۔ یعنی یقینی طور پر محفوظ ہے۔ ان اللہ سریع الحساب۔ یقینا اللہ تعالیٰ حساب میںبہت جلدی کرنے والا ہے۔ اب یہ سریع الحساب کا لفظ پہلے بھی ہماری عام ترجمۃ القرآن کلاس میں آیا تھا، تو وہاں میں نے اس کی وضاحت کی تھی کہ بعض دفعہ موقعہ ہی ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہت دیر کی بات ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ لفظ سریع الحساب استعمال فرماتا ہے (اپنے لیے)۔ تو بظاہر مضمون میں تضاد دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ معنی لیے جائیں کہ ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس محفوظ ہے، مرنے کے بعد قیامت کے بعد جب وہ جی اُٹھیں گے دوبارہ یا اٹھائے جائیں گے تو ان کو ان کا اجر ملے گا۔ تو سریع الحساب سے اس کا کیا تعلق ہوگا۔ سریع الحساب تو ہے آناً فاناً حساب کرنیوالا ، فوری طور پر وہ فیصلہ کرلیتا ہے حساب کی روسے۔ اس کے دو معنی نکل سکتے ہیںاوّل تو سب سے پہلے جو دائمی چیز ہے وہ یہ ہے کہ سریع الحساب کا لفظ جزا دینے میں فوری نہیں ہے، حساب کرنے میں فوری ہے اور جب حساب ہوجائے تو پھر جزا محفوظ ہوجاتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہمار احساب کردو ، پیسے خواہ بعد میںہی دینے ہوں، یہ تو تسلی ہوگئی کہ ہمار احساب ہوگیا کہ ہاںہم بخشے گئے ہیں ہمیں کوئی فکر نہیں ہے اور ایسے موقعوں پر سریع الحساب کا لفظ آتا ہے جہاں کچھ اندرونی Complicationsہیں جس کو سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ وہ لوگ جن کا تعلق دل کی تبدیلیوں کے ساتھ ہو او ربعض ان میں سے ایسے بھی ہوں جن کے متعلق کہا نہیں جاسکتا کہ درحقیقت یہ کیا کررہے ہیں، کتنی قربانی دی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثمناً قلیلاً قبول نہیں کرتے۔ ہر انسان جو مومن ہوتا ہے وہ کچھ نہ کچھ قربانی دیتا ہے ، ہر ایک کی قربانی کا راز ہر انسان کو معلوم نہیں ہوتا۔ کئیوں کو واقعۃً پیسے دیئے جاتے ہیںجو ردّ کردیتے ہیں۔ پس یہ جو باریک قربانیوں کی راہیں ہیں ان کا حساب خداکے سوا جو عالم الغیب ہے کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ اور وہ تو ساتھ ساتھ ہورہا ہے۔ اس کیلئے کسی انتظار کی ضرورت نہیںہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ جو ان حالات سے گزرے ہیں اور سب قربانی کی راہوں سے گزر کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں ، ان کی کوئی باریک سے باریک قربانی ایسی نہیں جو اللہ کی نظر سے رہ گئی ہو اور اللہ کے حساب سے رہ گئی ہو۔ حساب جاری ہے ساتھ ساتھ اور ہورہا ہے جس کا قطعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اجرھم عند ربھم ان کا اجر لازماً اللہ کے پاس ہے۔ کیونکہ جب حساب ہوگیا تو ا س کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا، یقینی بات ہے۔دوسرا سریع الحساب کا مطلب اگر دنیا پر اس کا اطلاق کرنا ہو تو یہ بنے گا کہ ان کو دنیا میں بھی اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ حساب میں بہت لمبی تاخیر نہیں کرے گا اور ایسے لوگ جو خدا کی خاطر قربانیاں دیا کرتے ہیں ان کو ضرور دنیا میںبھی جزاء مل جاتی ہے۔ اور یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کو ہم نے قطعیت کے ساتھ ہمیشہ پورا ہوتے دیکھا ہے۔ اگر کہیں استثناء ملے ہیں اور شاذ کے طور پر ملتے ہیں تو بعید نہیں کہ ان لوگوں کے دل کی کیفیت میں کچھ کمزوری آچکی ہو اور ان کی قربانی میںطوعی قربانی کا حصہ نہ رہا ہو اور اگر حقیقت میں اختیار ہوتا تو شاید وہ پیچھے ہٹ جاتے ، ایک یہ احتمال موجود ہے۔ مگر اس احتمال کو بھی ہم قطعیت سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو سریع الحساب ہے اس نے پتا نہیں کیا کیا چیزیں ا ن کے اندر دیکھی ہیں۔ کوئی حکمتیں ہیں اس کے پیش نظر اس لیے یہ کہہ کر ایسے لوگوں کے ایمان کو ردّ کرنا ہمارا حق نہیں ہے، ناجائز ہے۔ میں نے احتمال بتادیا ہے کہ یہ بھی ہوسکتاہے۔ انسانی آنکھ سے دیکھ کر ہم فتویٰ نہیں دے سکتے ۔ پس اکثر صورتوں میں اور بھاری اکثریت میں ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جنہوں نے مالی قربانیاں دیں ان کو خداتعالیٰ نے اتنا دیا کہ جو کھویا تھا اس کے مقابل پر بیشمار زیادہ دیا۔ اور ہجرت کے بعد جو تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے انعامات سے نواز ہے اور ان خاندانوں کو انعامات سے نوازا ہے جو جب چلے تھے تو حقیقت میںکچھ بھی نہیں تھا جو کھویا ہے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں اس کے مقابل پر جو پایا ہے۔ تو سریع الحساب کا ایک یہ بھی معنی بن سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب میں بھی اور اس کی جزا ء دینے میں بھی جلدی کرتا ہے اور تمہیں مرنے کے بعد کا انتظار نہیں کرنا ہوگا وہ تو ہوگاہی۔ اوّل اور اصل جزاء تو وہی ہے لیکن دنیامیںبھی تم ان نیکیوں کا بدلہ پائو گے۔ اس سلسلے میں جو مستشرقین کے حوالے ہیں ان میں سے میں ایک دو پڑھتا ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ منہ کا مزا تبدیل کرنے کیلئے اچھی چیز بعد میں لائی جاتی ہے اور یہ مستشرقین کے حوالے انہوں نے آخر پر کیوںرکھے ہوئے ہیں ۔ ان سب نے غالباً ان روایات کو قبول کیا ہے جو اس آیات کریمہ کے متعلق بیان کرتیں ہیں کہ یہ نجاشی کے جنازے سے تعلق رکھتی ہیں۔(چنانچہ اس کا نام ۔ نہیں لکھا ہوا کہ یہ کون ہے لکھنے والا ۔ سیل ہی ہے غالباً)۔
The persons here meant, some will have to be Abdullah Ebn Salam and his companions; others suppose they were forty Arabs of Najran, or thirty two Ethiopians, or els eighty Greeks, who were converted from Christianity to Mohammadism; and others say this passage was revealed in the 9th year of the Hejra when Mohammad, on Gabriel's bringing him the news of the death of Ashama.
اصمعہ عین کے سا تھ ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں ، اس نے اسماء لکھا ہوا ہے لیکن جو تلفظ مجھے یاد ہے اصماع ہے یا عین کے بعد ھ نہیں آتی چھوٹی سی؟ اس لیے پھر اس کو اصمعہ پڑھاجائے گا۔ بہرحال جو بھی مراد ہے نجاشی کا نام تھا۔ نجاشی جو حبشہ کا بادشاہ تھا جس کا ذکر ملتا ہے اس کا نام اصمعہ تھا لیکن بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ نجاشی اس کا ذاتی نام تھا۔ اورمسلمانوں نے پھر اس کو ٹائٹل بنالیا کیونکہ ایک عظیم واقعہ ہوا تھا اس کی ذات سے۔ اس لیے اس کے بعد ہمیشہ حبشہ کے بادشاہ کو نجاشی کہا گیا ۔جو بھی ہوایک فریق بہرحال نجاشی کو لقب ٹائٹل کہتا ہے اور اصمعہ کو ذاتی نام۔ یہ تسلیم کرتا ہے۔
who had embraced the Mohammadan religion some years before prayed for the soul of the departed; at which some of his hypocritical followers were displeased, and wondered that he should pray for a Christian proselyte whom he had never seen.
(The Koran by Li Sale vol:I, Page 86)
اب یہ عجیب سی بے معنی بات ہے منافقوں کو اس سے تکلیف کیاپہنچی ہے۔اور گویا کہ منافق زیادہ پکے مومن ہیں۔ کہتے ہیں ان کو اس لیے تکلیف پہنچی کہ عیسایوں میں سے مسلمان ہونے والے کا جنازہ پڑھ لیا جس کا منہ نہیں دیکھا تھا۔اب منہ نہ دیکھنا اور جنازہ پڑھنا اس کا کیا تعلق ہوا ۔ کیا صرف اسی کا جنازہ پڑھا جاسکتا ہے جس کا منہ دیکھا جائے ۔ تو کیا کسی عورت کا جو پردہ دار ہو جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔ یہ نہایت ایک لغو بات اٹھائی ہے اس نے صرف منافقوں کی طرف منسوب کرنے کیلئے او رمنافقوں کو بہتر شکل میں بیان کیا گیا ہے جو زیادہ پکے اور فنڈا مینٹلسٹس (Fundamentalists)تھے۔ جنہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا یہاں منافقوں کی بحث نہیں صرف منافق، تو بعض غیروںکے متعلق منافقانہ روییّ کے لحاظ سے ان کو کہا جاسکتا ہے۔ یہاں محمد رسول اللہ کے صرف ماننے و الے ہرگز مراد نہیں ہیں۔ مراد وہ لوگ ہیں جن کو یہ تکلیف ہوئی ہے اسلام کی شان و شوکت دیکھ کر، کہ ایک عظیم بادشاہ جو اکثریت عیسائی ملک کا بادشاہ تھا وہ مسلمان ہوتا ہے اورآنحضرت ﷺ وحی الٰہی سے اطلاع پاکر اس کا جنازہ پڑھتے ہیں اور بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ واقعۃً اس وقت وہ فوت ہوچکا تھا۔ یہ اعجاز ہے جس کو چھپانے کیلئے یہ مستشرقین ادھر اُدھر کی ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، باتیں کرکے اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا معمولی سی ایک بات ہے اور اچانک مسلمان سوسائٹی پھٹ گئی اور اس واقعہ کے نتیجہ میں اختلاف پیدا ہوگئے۔ یاد رکھنے کی بات یہی ہے کہ یہ ایک بہت عظیم الشان ایک نشان ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ نے وحی کے ذریعہ بتایا کہ فوت ہوگیا ہے اور اس کا جناز پڑھا۔ جہاں تک منہ نہ دیکھنے والی بات ہے یہ بحث اٹھائی گئی ہے فقہاء کی طرف سے کہ غائبانہ جنازہ ہوسکتا ہے کہ نہیں، وہ اس سے پہلے فوت وہاں ہوچکا تھا جو بعد میں جنازہ پڑھا گیا۔ چنانچہ ملک سیف الرحمن صاحب نے جو مجھے ایک مشورہ دیا تھا کہ جنازہ غائب کا رواج کم کریں۔ اُس میں یہ حوالہ بھی دیا تھا کہ نجاشی کا جنازہ تو پڑھا گیا اور ایک اور جنازے کا ذکر کیا کہ وہ بھی پڑھا گیا۔ مگر یہ عمومی رواج نہیں تھا اس لیے اگر آپ نے شروع کردیے تو پھر ساری دنیا کی جماعت آپ کے پیچھے پڑ جائے گی اور ہر مرنے والے کے متعلق تقاضے شروع ہوجائیں گے۔ تو منہ نہ دیکھنا مراد نہیں ہے۔ غائبانہ کی بحث ممکن ہے کسی نے اٹھائی ہو کہ جنازہ تو اس کا پڑھا جاتا ہے جو سامنے ہو غائب فوت ہونے والے کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا ۔ اس ضمن میں مَیں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ ملک صاحب کی پیشگوئی سچی نکلی اور اب ہر فوت ہونے والے کے متعلق تقاضے آتے ہیں اور یہ اگرشروع کردیا جائے تو یہ ایسی نئی بدعت بن جائے گی جو سنت حسنہ نہیں رہے گی بلکہ بدعت میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس لیے میں ابھی متنبہ کررہا ہوں سب جماعت کو کہ صرف اطلاع دینا فرض ہے۔ اگر میں نے سمجھا از خود کہ فلاں شخص کا جنازہ غائب ہوجانا چاہیے تو میں خود پڑھادوں گا۔ ورنہ اس فتنے کی روک تھام کیلئے جس کے متعلق ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مجھے اپنی فراست سے متنبہ کردیا تھا اور میں ان کی بات تسلیم کرچکا تھا اور انجمن کے سپرد یہ کیا تھاکہ وہ جس کی سفارش کیا کریں معین طور پر، وہ ان کو حق ہے کہ مجھے بھیج دیں سفارش باقی میں خود فیصلے کروں گا۔ لیکن اب یہ ایسا رواج عام ہوچکا ہے بلکہ ایسی شرطوں کیا تو عام ہوگیا ہے کہ مجھے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب ٹیلی ویژن آن ہو تو اس وقت جنازہ پڑھیں۔ جب جمعہ پڑھ چکیں تو اس کے ساتھ ملاکر جنازہ پڑھیں اورگویا جنازہ ایک خود نمائی یا اپنے عزیزوں کی نمائش کا ذریعہ بن گیا نہ کہ حصول مغفرت کا ذریعہ۔ پس آج کے بعد دوبارہ پھر کم سے کم اتنی دیر کیلئے کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ یہ رسم مٹ گئی ہے، ہمیں اسی پہلی حالت پر واپس آنا پڑے گا۔ جو پہلے خلفاء کی سنت رہی ہے۔ روز مرہ جنازہ غائب نہیں پڑھے جاتے تھے شاذ کے طور پر پڑھے جاتے تھے(سمجھ گئے ہیں)۔ بعض دفعہ میں اس وجہ سے از خود استثناء کرلیتا ہوں کہ ایک شخص ہجر ت کے حالت میں ہے واپس نہیں جاسکتا ، اس کی والدہ ، اس کے باپ یا بہت ہی عزیز لوگ یا وفات پاجاتے ہیں ایسے دردناک حالات میں کہ بچے کو ان کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ہے اور غیر معمولی دکھ ہے۔ اور یا حادثات میں شہید ہوجاتے ہیں یا ویسے شہید ہوجائیں۔ تو یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو میں خود استثناء کے طور پر دیکھ سکتا ہوں۔ مجھے صرف دعائے مغفرت کیلئے لکھ دیا کریں اور وہ ضروری ہے اس میں مَیں بھی شامل ہوں گا۔ لیکن جنازے کے متعلق فیصلہ صرف مجھ پرچھوڑ دیں بس۔ اور دعا ئے مغفرت ہوجائے یہی بڑی چیز ہے، اصل میں ان کا مقصود ہے۔ تو اس حوالے سے جو اس میں ذکر ہے نا ’’منہ نہیں دیکھا‘‘ اس سے مجھے خیال آیا کہ ہوسکتا وہ لوگ یہ باتیں کرتے ہوں کہ جنازہ غائب درست نہیں ہے۔
یہ کہتا ہے اس لحاظ سے سیل ۔ اس کی ایک اور جو شان نزول ہے وہ یوں بیان کرتا ہے۔
And accordingly, in fifth year of the prophet's mission, sixteen of them, four of whom were women, fled into Ethiopionad among them Othman Ebn Affan and his wife Rakiah, Mohammad's daughter. This was the first flight, but oterward several others followed them, retining one after another, to the number of eighty-three men and eighteen wome, besides children. These refuges were kindly received by the Najashi.
دی نجاشی سے یہ اس کو ٹائٹل قبول کررہا ہے لیکن ساتھ میں لکھتا ہے جب دی نجاشی کہے گا تو مراد ہے کہ جانتا ہے کہ یہ اس کا ٹائٹل نام نہیں تھا۔ مگر بریکٹ میں لکھتاہے Dr. Prideavx seems to take this worst for a proper name, but only the title, the Arabs gives to every King of this countryایسے لائف آف محمد کے حوالے سے لکھ رہا ہے۔
"who refused to deliver them up to those whom the Koreish sent to demand them, and, as the Arab writers unanimously attest, even professed the Mohammadan religion".
(1. The Koran commonly called The Alcoran of Mohamaed, Translated from the orginal Arabic Explanatory Notes, taken from the most approved commentators to which is prefixed, A. Preleiminary Discovrse, by George Sale, Ge, in two volumes Vol:1 A New Addition, Preliminary Discourse Section II, Page 58,59)
یہ واقعہ کی تفصیل اس نے لکھی ہے اور کوئی خاص بات نہیں ہے اس میں جو قابل بحث ہو اس کے بعد کی اور سورہ آل عمران کی آخری آیت۔ یاایھاالذین امنوا اصبروا و صابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ اے ایماندارو! صبر سے کام لو (میں تفسیر صغیر سے ترجمہ پڑھ رہا ہوں) اور دشمن سے بڑھ کر صبر دکھائو اور سرحدوں کی نگرانی رکھو اور اللہ کا تقوی اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہوجائو(آل عمران : ۲۰۱)۔ یہ بسم اللہ کو شامل کرکے ۲۰۱ بنتی ہے کیونکہ ہم بسم اللہ کو پہلی آیت سمجھتے ہیں۔ ورنہ اکثر دوسرے اس کا نمبر ۲۰۰ بتائیں گے۔ کیونکہ وہ بسم اللہ کو شمار نہیں کرتے۔ الصبرصبر کیا چیز ہے۔ اس کی لغوی بحث یہ ہے الصبر الامساک فی ضیقٍتنگی کی حالت میں رک جانا صبر کہلاتا ہے۔ اور صبرت الدابۃ حبستھا بلا الفٍکسی جانور کو چارہ ڈالے بغیر بند کردینا ۔ یہ صبرکے لفظ سے بیان کیا جاتا ہے کہ میں نے اپنے جانور کو صبر کروادیا۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے اس کو بند رکھا اور چارہ نہیں ڈالا۔یہ وہ عات ہے جو بعض دفعہ عربو ں میں پائی جاتی تھی۔ مگر آنحضرتﷺ نے اس کو بڑی سختی سے منع فرمایا اور عذاب کی جزاء بتائی ، اگر کوئی ایسا کرے گا صرف مویشیوں کے تعلق میںنہیں یہاں تو یہ حرکت کرنا بہت ہی بڑا جرم بن جاتا ہے ۔ مویشی آپ کو پالتے ہیں اور آپ کو اتنی بھی حیا نہیں کہ ان کو چارہ ہی ڈال دیں۔ جبکہ ۔۔۔آپ کو دودھ دیتے ہیں، اپنا گوشت دیتے ہیں ، اپنی کھال دیتے ہیں ۔ تو بہت بڑی بے حیائی ہے بڑا جرم بن جاتاہے۔ آنحضرت ﷺ نے تو ایک بلی کے متعلق فرمایا کہ اس کی مالکہ کو میں نے دیکھا جہنم میں اس کو عذاب دیا جار ہا ہے وجہ یہ تھی کہ وہ اس کو باندھ کر یا گھر میں بند کرکے چلی گئی اور اس کی خوراک کا کوئی خیال نہیں کیا۔ تو ہر وہ جانور جو حبس میں ہو حبس کرنے والے کا فرض ہے کہ اس کی خوراک پانی وغیرہ کا ، اس کی سہولت کا مناسب انتظام کرے تو صبر کا لفظ ان معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کہ جانور بیچارہ جو بے زبان ہے کچھ کہہ نہیں سکتا اس کو بند کردیا جائے تو کہیں گے صبرت الدابۃ میں نے دابہ کو صبر میں مبتلاء کردیا۔ ان معنوں میں صبر کا لفظ لازم بھی ہوگا اور متعدی بھی۔ اصبروا وصابروا صبرو کرو اور صابرو ا اور ایک دوسرے کے مقابلہ پر صبر کرو۔ یہ جو الفاظ ہیں اس کے متعلق آتا ہے احبسوا انفسکم علی العبادۃ و جاھدوا اھوائکم۔ مفردات امام راغب میں ہے کہ اس کا اعلیٰ معنی اور اصل معنی یہی ہے کہ تم اپنے نفوس کو عبادت پر روکے رکھو یعنی عبادت سے وہ بدک کر دوسرے طرف جانے کی کوشش کریں گے ، تم عبادات پر انہیں باندھے رکھو اور قائم رکھو۔ یہ صبر کا اوّلین معنی ہے۔ وجاھدوا اھوائکم اور یہاں جو صابروا ہے کہ صبر سکھائو بھی اور دوسروں کو صبر کی تعلیم بھی دو یا دوسروں سے صبر کے مقابلے کرو۔ وہ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اپنی خواہشات کو صبر سکھائو ، ان کو اپنے حدود کے اندر قائم رہنے کی تلقین کرو اور ان کے اوپر یہ کاٹھی ڈالو، یہ صابروا کا مطلب بنتا ہے۔ اقرب الموارد میں لکھا ہے صبر رجلٌ علی الامر نقیض جز و شجع و تجلداس نے جرأت دکھائی۔ شجعاً اس نے بہادر دکھائی وتجلدا اور وہ بھی وہی معنی ہیں کہ میدان کارزار میں جو بہادری کے کارنامے کرے اس کو کہیں گے تجلدااس نے جرأت اوربہادری دکھائی صبر عن الشیء امسک صبر کا معنی ہے اصل میں رک جانا ، کسی چیز سے رک جانا یا کسی چیز پر رکے رہنا۔ صبر فلانٌ عن الامر حسبہ اس نے اسے کسی کام سے روکا تو صبر وہی متعدی معنوں میں استعمال ہوگا یہاں۔ کسی اور کو روکنا بھی لفظ صَبَرَ سے ظاہر کیاجاتا ہے۔صابرہ غالبہ فی الصّبر اس نے صبر میں اس سے بڑھنے کی کوشش کی۔ صابر کا ایک یہ مطلب بھی ہے ۔ صابروا ایک دوسرے سے صبر کے مقابلے کرو ، ایک یہ ہے کہ صبر سکھائو ، ایک یہ معنی ہے کہ صبر کا مقابلہ کرو۔ تاج العروس میں لکھا ہے یہ اقرب الموارد میں تھا۔ تاج العروس میں ہے الصبر نقیض الجزع ۔ صبر جزع کی ضد ہے۔ قال الجوہری الصبر حبس النفس عندا لجزع ۔ جوہری کہتے ہیں کہ صبر تو دراصل نفس کو اس وقت روک رکھنے کا نام ہے جب کہ جزع کی حالت ہو۔ یعنی سخت بیقراری اور تکلیف میں مبتلاء ہو انسان۔ اس وقت اگر اپنے نفس کو انسان روک لے تو اس کو صبر کہتے ہیں ۔ ذوالنون کہتے ہیں کہ الصبر والتباب عن المخالفاۃٖ وہ کہتے ہیں کہ تباب دوری اختیار کرنے کو یعنی مخالفات سے مراد ان کی اللہ اور رسول کے احکامات کے برعکس راہ اختیار کرنا ہے ۔ اللہ اور رسول کی مخالفت کرنا اس سے دور رہنا اس کو الصبر کہتے ہیں۔ الصبر الوقوف مع البلاء بحسن الادب ۔ تاج العروس میں ہے کہ الصبر الوقوف صبر وقوف یعنی ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں مع البلاء مصیبت کے ساتھ یعنی مصیبت بھی موجود ہے اوربھاگتے نہیں۔ مصیبت کی حالت میں قرار پکڑ جاتے ہیں وہیں۔ بحسن الادب حسن ادب کے ساتھ۔ اگر انسان ابتلاء کو قبول کرلے تو یہ صبر ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ایک بڑھیا کو جو اپنے بیٹے کی موت پر جزع فزع کررہی تھی۔ اس کو صبر کی تعلیم دی اور اس نے آگے سے ایک بدتمیزی کا فقرہ کہا جب اس کو پتا چلا کہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ تودوڑی گئی اور معافی مانگی کہ میں اب صبر کرتی ہوں۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ صبر اس وقت ہوتا ہے جب فزع کا وقت ہو ۔ یعنی لفظ یہ نہیںتھے مگر مرادیہی تھی ۔ پس یہ جو ترجمہ کیا گیا ہے بالکل درست ہے جس مفسر نے بھی کیا ہے کہ صبر غم کے غلبہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ تکلیف کے غلبہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس وقت اگر انسان ابتلاء میں سے بچ کر گزر جائے تو اس کو صابر کہیں گے بعد میں تو صبر آہی جاتا ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو خدا صبر نہ سکھادے یا اس سے پہلے وہ مر جائے تو اس کو ویسے ہی صبر آجائے گا۔ مگر وہ صبر جو جزاء کے لائق ہے جس کا قرآن کریم نے غیر معمولی طور پر اللہ کی رضامندی کے قبول کے ذریعہ کے طور پر بیان فرمایا ہے وہ یہی صبر ہے جو غم کے غلبہ کی حالت میں انسان کرتا ہے۔
آگے لفظ ہے رابطوا : ربط الفرساس میں بھی باندھنے کا مضمون ہے۔ صبر میں بھی باندھے کا مضمون ہے مگر اپنی ذات کو روکے رکھنا اور کسی حالت کے ساتھ اپنے آپ کو اس وقت باندھ لینا جبکہ وہ حالت دھکے دے رہی ہو اور آپ اس سے چمٹے رہیں یہ دشمنوں کی ایذاء رسانی پر جب وہ ایمان کے سودے کرنا چاہتے ہوں، مضبوطی سے قائم رہنا صبر کہلائے گااس معنی میں ۔ تم نے اپنا دامن نہیں چھوڑایاوہ توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن تم اس حالت پر قائم رہے اور ربط ہے وہ بھی باہم ملنے کے معنوں میں ایک دوسرے سے باندھنے کے معنوں میں بھی ہے اور دوسروں کو باندھنے کے معنوں میں بھی ہے۔ اسی لحاظ سے رابطوا کا یہ مطلب کیا جاتا ہے کہ سرحدوں پر گھوڑے باندھو اگرچہ رابطوا کا مطلب ہے باندھو۔ مگر سرحد پر باندھنا یہ موقع محل کے لحاظ سے معنی لیے گئے ہیں، یا عربوں کا کوئی رواج ہے جس کی طرف حوالہ دیا گیا ہے ۔ لیکن بعض مفسرین روایت بیان کرتے ہیں بعض صحابہ کی کہ رابطوا کو لفظاً لینا درست نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم کئی غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے ، ہم نے تو کسی غزوے میں بھی یا کسی موقع پر بھی غزوہ کے علاوہ جو حالتیں ہیں ان میں بھی مسلمان گھوڑوں کو سرحدوں پر بندھا ہوا نہیں دیکھا۔ اس لیے یہ ظاہری ترجمہ کرنا جو تاریخ کے خلاف ہے ، جو آنحضرت ﷺ کی سنت اور آپ کے صحابہ کی سنت کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں درست نہیںہے۔ کیونکہ یہ جو روایت ہے صحابی کی واقعۃً کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺتومدینے میں ہوں اور گھوڑے ایران کی سرحدکے ساتھ باندھے گئے ہوں۔ تو یہ محاورہ ہے، سرحد پر گھوڑے باندھنا ۔ واقعۃً گھوڑوں کو سرحدوں پر نہیں باندھا جاتا نگرانی کی جاتی ہے سرحدوں کی۔ سرحدوں پر ایسا انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر دشمن حملہ کرے تو سرحدوں پر گھوڑوں کو دیکھے یعنی اتنی مہلت نہ تم دشمن کو دو کہ وہ اچانک حملہ کر بیٹھے اور سرحدوں کو ننگا پائے۔ تو یہ کام مستعد نگرانی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ ورنہ آجکل کی دنیا میں بھی کہیں آپ کو جنگی کارروائیاں ایسی نہیں ملیں گی کہ واقعۃً سب کی سرحدوں پر فوجیں بیٹھی ہوں۔ فوجوں کو سرحد تک پہنچنے کیلئے بڑا وقت درکار ہوتا ہے کئی مہینے پہلے سے وہ تیاریاں کرتے ہیں، تب جاکے پہنچتی ہیں۔ لیکن دشمن کا بھی یہی حال ہے وہ بھی فوراً نہیں پہنچ سکتا۔ نگران بیٹھے رہتے ہیں، جہاں وہ ایسی حرکات دیکھیں کہ جس سے پتا چلے کہ دشمن کے ارادے بد ہیں پھر اس طرف کی فوجیںبھی آہستہ آہستہ وہاںسرحدوں پرپہنچنی شروع ہوجاتی ہیں۔ تویہ فطرت کے خلاف ہے کہ سرحد پرہر وقت گھوڑے بندھے رہیں اور گھوڑوں کی آجکل کے زمانے میںآلات جنگ کی حفاظت کے مقصد کے بھی خلاف ہے کہ ہروقت وہاں بیٹھے رہیں۔پس رابطوا کا مطلب ایسی نگرانی رکھنا ہے جس کے نتیجہ میں دشمن تمہیں کبھی بھی سرپرائزنہ دے سکے۔ جس سرحد سے وہ حملہ کرے وہاںتمہیں مدافعت کیلئے تیار دیکھے۔ جس طرح آجکل کے زمانے میںبیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے نا پروفلیکٹک (Prophylactic)دے دے کے یا وہ ویکسی نیٹ (Vaccinate)کرتے ہیں۔ تو وہی گھوڑے باندھے والا مضمون جو ہے وہ یہ ہے۔ جب پتا لگے کہ دشمن آنے والا ہے تب ویکسی نیٹ کرتے ہیں۔ یہاں وبائیں پھیل جائیں فوراً سب کو کہتے ہیں کہ لگائو اب ٹیکے اس کو،تاکہ جب جراثیم آئیں تو اچھی طرح ان کی خاطر مدارات ہوان کو داخل ہوتے ہی پتا چلے کہ جس علاقے پر حملہ کررہے ہیں وہ لوگ مستعد ہیں۔یہ نظام جو ہے انسانی بدن کا یہ ہر وقت تیار بیٹھا ہے۔ تو یہ رابطوا کا مفہوم ہے۔
رابطوا کاروحانی معنی لیتے ہوئے تاج العروس میں لکھا ہے کہ ارتباط الخیل المحافظۃ علی مواقیت الصلوۃ کہ نماز کے اوقات کی حفاظت کرنا یعنی بروقت ان کو ادا کرنا یہ ہے رباط الخیل کیونکہ یہاںظاہری سرحدیںتومراد ہیں نہیں ہر قسم کی سرحدیں جہاں سے کوئی شخص حملہ کرسکتا ہے۔ ان معنوں میں شیطان کا حملہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز کے اوقات کے کناروں پر حفاظت رکھو یہ نہ ہو کہ کنارہ آجائے اور تمہاری نماز ہی قضاء ہوجائے۔ اس لیے انہوں نے یہ معنی بھی لیا ہے۔ اورچونکہ نماز کے اوقات، وقت میں سرحدیں بناتے ہیں اس پہلو سے یہ ایک لطیف معنی ہے۔ اور دل سے بھی اس مضمون کا تعلق ہے ربط کا۔ چنانچہ ربط اللہ علی قلبہٖ کا مطلب ہے کہ اللہ نے اس کے دل کو مضبوط کیا ’’المنجد‘‘ میں یہ لکھا ہے۔ امام راغب نے بھی یہ معنی قبول کیے ہیں۔ کہتے ہیں ربطٌ علی القلبکہ کسی کے دل کو مضبوط کرنا اور اسے استقلال بخشنا یہ ربط کامعنی ہے۔ وربطنا علی قلوبھم ۔ قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں کہ ہم نے ان کے دلوں کو باندھ دیا مضبوطی سے۔ تو ربطنا کا مطلب ہے ان کو اکٹھا سمیٹ دیا کہ ان میں انتشار نہ پید اہو اب اس لحاظ سے ۔ اب ہم واپس لوٹتے ہیں اس آیت کی طرف جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ آل عمران کی آخری آیت ہے۔یاایھا الذین امنوا اصبروا و صابروا ورابطوا ۔ اس کا جو ظاہری معنی ہے جو ابھی بیان ہوا ہے کہ ایسی تکلیفیں جو دشمن کی طرف سے ہوں۔ایسے خطرات جو واقعتہً سرحدوں سے وابستہ ہوں یعنی دشمن کے حملوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس پہلو سے جب ہم اس کا ترجمہ کریں گے تو اس سورت کے آخر پر رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سے پہلے تین بڑے غزوات کاذکرگزرچکا ہے۔ جنگ بدر کا ، جنگ اُحد کا اور ’’حمراء الاسد‘‘ کا۔ اور بعض اشارے ایسے وضاحت کے ساتھ ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آئندہ بھی دشمن کی طرف سے خطرات درپیش ہوں گے۔ تو ان تمام مواقع پر جب دشمن سے مسلمان برسر پیکار ہوئے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ان کی حفاظت فرمائی۔ مگر اس میں یہ مضمون بھی داخل تھا کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ نگرانی فرماتے تھے اور ٹوہ لیا کرتے تھے کہ دشمن کے کیا ارادے ہیں اور یہ رباط کانظام آنحضرت ﷺ پہلے سے جاری فرماچکے تھے۔ یعنی عملاً گھوڑے اس طرح تو نہیں باندھے گئے مگر ہر وقت کی خبر رکھتے تھے۔ چنانچہ اس سورۃ میںمسلمانوں کو یہ بھی متنبہ کیاگیا کہ سرحدوں پر اس طرح نہ کھڑے ہو کہ دشمن تمہیں دیکھ لے اور وہ بھی متنبہ رہے۔ چنانچہ منع فرمایا کہ ایسے لوگوں کو دوست نہ بنائو جو تمہارے راز لینا چاہتے ہیں اور تمہارے راز لے کر تمہارے خلاف استعمال کریں گے کیونکہ وہ تمہارے بہی خواہ نہیں ہیں۔ وہ تمہارا براچاہتے ہیں، تمہیں تکلیف پہنچے تو انہیں خوشی ہوتی ہے۔
پس سرحدپر گھوڑے باندھنے کا یہ دوسرا معنی بھی بیان ہوگیا۔ اسی سورۃ میں کہ تم لوگ دشمن کی حرکتوں پر نگاہ رکھو ، باریک نظر رکھو اور لا تجسسوا کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دشمن کی نگرانی نہ کرو لا تجسسوا کا تمہاری اپنی سوسائٹی سے تعلق ہے جہاں حسن ظن ہے جو تمہاری سوسائٹی کو تقویت دے گا اور رباط پید اکرے گا وہاں اگر تم نے تجسس کیا تو رباط سے تویہ مضمون ٹکراجائے گا۔ اس لیے تم اپنی سوسائٹی میں حسن ظن سے کام لو اور جہاں تک غیروں کا تعلق ہے ان پر نظر رکھو باریکی سے۔ کیونکہ وہ دشمن ہیں ، وہ ہر وقت تمہاری برائی کی باتیں سوچ رہے ہیں۔ اس پہلو سے ہماری جماعت کو زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات د شمن ہی کی بعض غلطیوں سے ہمیں متنبہ فرمادیتا ہے کہ یہ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا سکیمیں بنارہے ہیں ۔ لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کی Consciousکانشنس کوشش یعنی بالارادہ کوشش کے ذریعہ دشمن کے حالات پر نظر رکھناہے ، میرے نزدیک ابھی تک اس میں بہت کوتاہی ہے۔ ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعہ ہمیں خود بخود اللہ کی طرف سے خبریں مل جاتیں ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہر احمدی جو کچھ ہورہا ہے اس کے متعلق لکھتا رہتا ہے اور ان خطوط میں ایک عام پڑھنے والے کیلئے تو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوگی، مگر جب ہر جگہ سے مختلف خط آتے ہیں اور ایک ہی قسم کی بعض حرکتیں بیان کرتے ہیں تو ان کے اجتماعی تاثر سے ہم فائدہ اٹھالیتے ہیں۔ یہ اطلاع ملتی ہے کہ دشمن ایک ایسی سازش کررہا ہے جس کا رخ اس طرف ہے۔مثلاً جنگ میں مودودیؔ اجتماع جوہوا تھا اس موقع پر یہ دہرائی گئی بات جس کا جھوٹ ہونا قطعی جھوٹ ہونا ثابت ہوچکا ہے کہ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر احمدی نوجوانوں نے منصوبہ بندی کرکے جو طلباء وہاں سے گزر رہے تھے ان کو ذلیل کرنے کی کوشش کی ، ان کو مارا کوٹا اور اس کے ردّ عمل میں پھرگویا ان کے جنگ کے بیان کے مطابق امت مسلمہ نے یہ ردّ عمل دکھایا کہ ہر جگہ احمدیوں کی قتل و غارت کا اذن عام ہوگیا اور بہت بڑے بڑے مظالم کیے گئے حالانکہ ان کی خود کورٹ۔۔۔ انکوائری قطعی طور پر ثابت کرچکی ہے۔ پہلے اگر یہ الزام تھا لاعلمی کا اب یہ بالارادہ جھوٹ اور بہتان ہے اور شرات کی نیت رکھتا ہے۔ ایک ایسی بات چھیڑی گئی ہے جس کیلئے قوم کو دوبارہ تیار کیا جار ہا ہے کہ دیکھو پہلی دفعہ جب انہوں نے کہا تھا تو یہ ہوا تھا اب ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ آئندہ بھی جب یہ جماعت احمدیہ شرارت کرے گی تو اسی طرح ردّعمل دکھانا اور ثابت شدہ حقیقت کیا ہے؟ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے نہیں بلکہ ان مودودی جماعت اسلامی کے طلباء نے اور کچھ ان کے ساتھ دوسرے طلباء نے جو اس وقت کی حکومت کے زیر اثر تھے ، مل کر سازش کی تھی اور اس سازش کے ثبوت قطعی طور پر میں پہلے اپنے بعض خطبات میں بیان بھی کرچکا ہوں، ان کو دہراتا نہیں۔ مگر میں یہ بتارہا ہوں کہ کس طرح ہمیں مختلف جگہوں سے آنے والی اطلاعیں ایک ساز ش پر مطلع کردیتی ہیں مگر بالارادہ کوشش سے کوئی نظام جاری نہیں ہے۔ پھر وہاں صوبہ سرحد میں ہزارے میں جہاں ہمیشہ ہی مظالم میں پیش قدمی کی گئی ہے اور باقی لوگوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک احمدی نوجوان لڑکوں پر حملہ کروایا گیا پوری واضح سکیم بنا کر ، شرارت کے ساتھ پولیس موجود تھی، پولیس کی موجودگی میں ان کو ماراکوٹا گیا اور جب انہوں نے جوابی کارروائی کی اپنے آپ کو بچانے کیلئے تو پھر بندوقیں آئیں اور ان پر فائرنگ ہوئی اور ساتھ ہی فوراً سارے ضلع میں اور صوبہ سرحد کے اخباروں میں یہ خبریں لگ گئیں کہ احمدیوں نے نہایت بھیانک منصوبہ بنا کر مظلوم نہتے غیر احمدی طلباء پر حملہ کیا اور ان کو زد و کوب کیا اور ساتھ ہی ان میں سے کئیوں کو جان کے لالے پڑ گئے۔ بڑے خطرناک واقعات پیدا ہوئے۔ اصل بات کے بالکل برعکس بعینہٖ وہی بات جو ریلوے اسٹیشن ربوہ کے اس تعلق میں ہوئی تھی۔ وہ یہاںرونما ہوگئی۔تو جس آدمی نے مجھے جنگ کی Cuttingبھیجی اورنشان لگایا کہ یہ عجیب بات ہے وہاں ۔ جس نے یہ واقعات لکھے یہ نظام جماعت کی معین کوشش کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہوا بلکہ سرسری طور پر یہاں سے وہاں سے کراچی میں کسی اور جگہ سے ہونے والے واقعات کی خبریںملتی رہتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن کیا منصوبے بنار ہا ہے۔مگر یہ آیت کریمہ ہمیں بتارہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں باقاعدہ دشمن پر نظر رکھنے کا نظام تھا اور ناممکن تھا کہ دشمن مسلمانوں کو سرپرائز دے سکے اور دوسری طرف یہ بھی نظام تھا کہ اپنی جو باتیں ہیں ان پر صبر کرو۔ ان کومضبوطی سے پکڑے رکھو اور چھپائے رکھو۔ یہ معنی بھی ہیں۔ غیروں تک نہ اس کو پہنچنے دو اور سرحدوں کی حفاظت کرو ۔ ایک تو یہ معنی ہے جو اس آیت سے نکلتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی سنت کے پیش نظر دوسرے اب دیکھیں۔
یاایھاالذین امنوا صبروا و صابرو ۔ صبر کی تعلیم یہاں دینا جس کے پس منظر میں تین بڑی لڑائیاں گزر چکی ہیں ، یہ ممکن ہی نہیں تھا اگر وہ جارحانہ جنگیں ہوتیں۔ جارحیت کرنے والے کو کون صبر کی تعلیم دیا کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے شدید اشتعال انگیزی کی جاتی تھی اوردشمن مسلسل شرارت کرتا تھا۔ اورمسلمانوں کے صبر کے باوجود پھر بھی ایسے واقعات ہوجاتے تھے جس کے نتیجہ میں جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ تو یہ تین بڑے جنگ کے واقعات اور بعض دوسروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم آخر پر یہ نتیجہ نکالتا ہے سورۃ کے یاایھا الذین امنو اصبروا ۔ اے لوگوجو ایمان لائے ہو صبر اختیار کرو ، تمہاری اسی میں بہتری ہے۔ دشمن کی اذیت کے مقابل پرصبر اور اپنی نیکیوں پر صبردونوںباتیںاکٹھی اس میں داخل ہیں اذیت کے مقابل پر ایسی حرکت نہ کرنا جس سے اس کو موقعہ مل جائے کہ وہ اپنی شرارت کیلئے اس کو بہانہ بنائے اور نیکیوں کو تبدیل نہ ہونے دینا ، دشمن کی اذیت کے نتیجہ میں نہ مرتد ہونا نہ اپنی وفا میں ڈگمگانہ بلکہ کامل وفا اور استقامت کے ساتھ سچائی کے ساتھ وابستہ رہنا۔ وصابروااور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرو اور ایک دوسرے سے صبر کے مقابلے کرو یعنی ایک ایسی عظیم الشان چیز ہے کہ جہاں دوسرے کو صبر کرتا ہوا دیکھو تو اس کے نتیجہ میں اپنے نفس پر رحم نہ کھانے لگ جانا۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے ایک شخص کو صبر کرتا ہو ادیکھ کر انسان اندرسے کمزور پڑ جاتا ہے ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں سے توقع یہ رکھی جارہی ہے کہ مظلوموں کو جب صبر پر دیکھو تو یہ فیصلے کرو کہ وقت آئے گا تو ان سے بڑھ کر ہم صبر دکھائیں گے۔یا جن چیزوں کی خاطر انہوں نے قربانیاں دیں ہیں ہم اپنے صبر کے ذریعہ ان کی حفاظت کریں گے ، ان قدروں کی حفاظت کریں گے او رکسی قیمت پر بھی ا س راہ سے نہیں ٹلیں گے جس راہ پر یہ ہمارے بھائی صبر کرتے ہوئے قربانیاں پیش کرچکے ہیں۔ یہ صابروا دوسرے جو کمزور ہیں تم میں سے وہ ڈگمگابھی جاتے ہیں ایسی حالت میں جہاں صبر کا مضمون چل رہا ہو ، تکلیفیں ہورہی ہیں۔اور کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں فیصلے کرکے کہ ہم ہر حالت میں یہیں رہیں گے ان کو سمجھایا کرو جو کمزور ہیں ان میں سے ان کو کہو کہ دیکھو صبر میں ہی بہتری ہے ۔اور رابطوا کا ایک مضمون یہ بھی ہے کہ اگر تم اس طرح صبر کرو گے تو آئندہ خطرات سے پیش بندی کرنے والے ہو گے جب صبر کی تعلیم دو گے تو تم لوگ تیار رہو گے کہ آئندہ جب بھی اسے ابتلاء دوبارہ آئیں گے تودشمن ہمیشہ تمہیں مستعد وفادار اور مستحکم پائے گا۔ اور تمہارے قدم اکھیڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ پس یہ مضمون بڑی لطافت کے ساتھ از خود رابطوا کے مضمون میں داخل ہوجاتا ہے۔ تم رابطوا ، ربط سے کام لو اور رابطوا کے یہاں دونوں معنی آتے ہیں ۔ صبر اور صبر کی تعلیم کے ذریعہ تم ایک دوسرے کے دلوں کو باندھ لو اور صبر کے ذریعہ ایک جمعیت میں تبدیل ہوجائو۔ کیونکہ صبر کرنے والے لوگ ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں جو غم اور تکلیف کے وقت ایک حالت پر لوگ ملتے ہیں ان کے ساتھ طبعی تعلق پیدا ہوجا یا کرتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کو جو تکلیف سے گزرے ہوں۔ جیسے کہتا ہے ایک شاعر کہ ؎
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
کہ دونوں ہی زخم خوردہ ہیں دونوں ہی مصیبت زدہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دکھ کیا ہوتا ۔ ہم اکٹھے ہوتے ہیںاور فیضؔ بھی کہتا ہے رقیب سے خطا ب کرتا ہے۔
آکہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
یہ ساری نظم یہی مضمون ہے صابر و والا جس کے نتیجہ میں رابطوا کا مضمون از خود پیدا ہوجاتا ہے۔ کہ ایک جیسے حالات سے گزرے ہو تو تم نے اکٹھے ہونا ہے۔ اور ایک دوسرے کے غم بانٹنے کی کوشش کرو گے صبر کی تعلیم دے کر اور قرآن کریم نے جو آخری زمانے کا حل بیان فرمایا ہے آخری زمانے کے مسائل کا وہ بھی یہی ہے۔وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ اور خوبصورتی یہ ہے کہ بالصبر ایک دفعہ استعمال کیا ہے۔ مگر دونوں معنی اکٹھے داخل کردیے۔وتواصوا بالصبر ۔ نصیحت کرو گے تو صبر سے کرنا کیونکہ نصیحت کرنے والے کو صبر کرنا ہی پڑتا ہے اگر وہ صبر نہیں دکھائے گا تو نصیحت بیکا ر جائے گی۔ اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نصیحت اعلیٰ نتائج پیدا کرے تو چمٹے رہنا چھوڑنا نہیں اس کو۔ وہی مضمون ہے یہاں فذکر ان نفعت الذکر ی نصیحت کرنی ہے تو اس طرح کرو کہ ضرور پھر وہ فائدہ پہنچائے ۔ اور وتواصوا بالصبر اور وہ صبر کی نصیحت بھی کرتے ہیں ۔ صبر کے ساتھ نصیحت کرتے وقت نصیحت کے مضمون سے چمٹے رہتے ہیں اور صبر کی نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں۔ وتواصوا بالصبر اور خود صبر کا نمونہ دکھاتے ہیں دونوں معنی بنے۔ پہلا معنی تو یہ ہوگا کہ وہ دوسروں کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں تو نصیحت کرنے پر صبر اختیار کرتے ہیں اور وتواصوا بالصبر کا دوسرا معنی یہ ہوگا کہ وہ نصیحت نہیں کرتے مگر ایسی حالت میں کہ خود وہ بہترین صبر کے نمونے دکھا رہے ہوتے ہیں ۔ صبر ان کی نصیحت کو طاقت دیتا ہے ان کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ پس یہ وہی مضمون ہے واصبروا و صابروا و رابطوا اور اس کے نتیجے میں پھر دو باتیں ہیں اول یہ کہ تمہارے آپس کے دلوں کے رابطے بڑھیں گے تم اکٹھے ہوجائو گے ۔اور دوسرا یہ کہ دشمن کی سرحد پر ہمیشہ نگران رہو گے کیونکہ رابطوا کا ایک معنی سرحدوں پر گھوڑے باندھنا بھی ہے اور جب مفادات اکٹھے ہوگئے ہیں۔ خطرات ایک ہوگئے ہیں توپھر لازم ہے کہ آئندہ یہ مصیبتیں نہ پڑیں ۔ اس کی کوشش تم نے ضرور کرنی ہے۔ گویا صبر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مصیبت کو قبول کرکے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ اس آیت سے صبر کا یہ مضمون نکلتا ہے کہ مصیبت کو ان معنوں میں قبول کرے کہ رضاء باری تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے اور اعلیٰ صفات جو اسے نصیب ہوئی ہیں جن سے اسے متزلزل کرنے اور ہٹا دینے کیلئے کوشش کی جارہی ہے اور تکلیف دی جارہی ہے وہ ان کو کسی قیمت پر نہ چھوڑے۔ یہ صبر کا مضمون بنے گا۔ اور یہ جو کیفیت ہے اکٹھے رہنا اور دکھ کو دیکھنا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت کو اس طرح قبول کرلو کہ اس کو دور کرنے کی پرواہ ہی نہ رہے۔ یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اس حالت کو اس طرح قبول کر لو کہ آئندہ بیشک ہوتا رہے ہم تو صبر کریں گے ، یہ ازالہ کرنے کی کوشش کرنا صبر کے منافی نہیں ہے۔ پہلے سے بڑھ کرمستعد ہوجانا کیونکہ غموں کی حالت میں سے گزر کر پتا چلتا ہے کہ غم کیا ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے ازالے پر مستعد ہونا نہ کہ ان پر بیٹھ رہنے کا یہ مطلب ہے کہ کہہ دو کہ بس جی اب جو ہوگیا وہ ہوگیا اب ہمیں پرواہ نہیں کوئی ، جو کوئی مرضی ہم سے کرے۔ ہرگز یہ معنی نہیں ہیں ۔ رابطوا کا لفظ اس معنی کو جھٹلارہا ہے ۔ واتقوااللہ لعلکم تفلحون ۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہوجائو ۔ یہ ہے جنگی نقطہ نگاہ سے اس آیت کوآخر پرکھنا ۔ پہلے ابتلائوں کا ذکر گزرچکا ہے اور بالآخر یاد کرایا جارہا ہے کہ آئندہ بھی آئیں گے اور آئندہ جو ابتلاء آئیں گے سابقہ جو تھے ان سے سبق لینا او رمستعد رہنا اور آپس میں اکٹھے رہنا ، اسی میں تمہاری نجات ہے۔ دوسرا یہ کہ جن نیکیوں پر تم صبر کیے ہوئے ہو ان کے پھر بھی امتحان آنے والے ہیں کئی ابتلاء ایسے آئیں گے بعد میںجہاں تمہیں نیکیوں سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی۔ پس نیکیوں کے مضمون پر بھی پوری وفا کے ساتھ قائم رہنا اور یہ نہ سمجھنا کہ وہ ابتلاء کا زمانہ گزر کر پیچھے رہ گیا ہے۔
اب امام راغب صبر کے متعلق فرماتے ہیں کہ صبر کے معنی عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضہ کے مطابق اپنے آپ کوروک رکھنا ہے۔ صبر ایک عام لفظ ہے جو مختلف مواقعوں کے لحاظ سے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی مصیبت کے وقت نفس کو روک رکھنے کو بھی صبر کہتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی مصیبت کے و قت یعنی صرف دینی مراد نہیں ہے کسی بھی مصیبت کے وقت نفس کو روک رکھنے کو بھی صبر کہتے ہیں۔ اور ر وزہ کو بھی صبر کہتے ہیں۔ یعنی روزے کا ایک نام صبر بھی ہے۔روزے کے دوران انسان اپنے آپ کو بہت سی ایسی چیزوں سے روکتا ہے جو عام حالات میں کرتا ہے اور وہ گناہ نہیں ہوتیں ، حلال جائز چیزیں ہیں ان سے بھی روکتا ہے ۔ تو خاص موقع پر خاص اعلیٰ مقصد کیلئے اپنے آپ کو کسی چیز سے روک لینا یہ بھی صبر ہے۔ آیت کریمہ فما اصبرھم علی النارکی تفسیر میں ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ لغت میں صبر کے معنی جرأت کے بھی ہیں۔امام راغب کے نزدیک اصبرو صابروا کے معنی ہیںعبادات الٰہیہ یعنی اوّل معنی مصیبت کے معنی تو یں ہی لیکن اعلیٰ معنی ان کے نزدیک یہی ہیں کہ عبادات الٰہی پر اپنے آپ کو روک رکھو اور خواہشات نفسانی کے خلاف جہاد کرو اور یہاں سرحدوں پر گھوڑے باندھنے کا مفہوم پھریہ بنے گا کہ جو حدیں ہیں خداتعالیٰ کی قائم کردہ ان سے دور رہو ان کے قریب رہو کامعنی نہیں بنے گا، بالکل الٹ بن جائے گا کیونکہ یہاں سرحدوں پر گھوڑے باندھنے کا مطلب ہے ان کے قریب نہ پھٹکو۔ ورنہ خطرہ ہے کہ تم دوسری طرف جاپڑو گے۔ خواہشات نفسانی کے خلاف جہاد کرو اور آیت کریمہ واصطبر لعبادتہٖ میں اصطبر کے معنی مشقت اور محنت کے ساتھ عبادت پر ثابت قدم رہنے کے ہیں۔ ربط کے متعلق امام راغب لکھتے ہیں ربط الفرس شدہ باالمکان للحفظ گھوڑے کا کسی جگہ حفاظت کی خاطر باندھنا اس کو ربط کہتے ہیں۔ رباط الجیش سمی للمکان الذی یخص باقامہ حفظۃ فیہ رباط وہ مقام جہاں سرحدی حفاظت کیلئے فوج رہتی ہے رباط الجیش یعنی چھائونی کہلاتا ہے۔ الرباط مصدر ربطت و رابطت رابطۃٌ کالمحافظۃ الرباط ربطت اور رابطت کا مصدر ہے اور مرابطۃٌ کا اصل معنی محافظ ہے حفاظت کرنا یعنی اس تعلق میں اس کا لفظی معنی توباندھنا ہی ہے مگر مراد اس سے حفاظت ہوتی ہے۔ رابطوا ربط الشیء ربطًا او فقہ و شدّہٗ یہ باتیںسب گزر چکی ہیں اس کی اب ضرورت نہیں۔ امام راغب نے جو بیان کردیا ہے یہی کافی ہے کسی اور لغت کے حوالے تو سب اکٹھے ہیں مگر کوئی ایسی چیز مجھے نظر نہیں آرہی جس میں کوئی نئی بات بیان کی ہوئی ہو سوائے اس کے کہ میں نے دل کے رباط کا پہلے بھی ذکر کیا تھا ۔ کرچکا ہوں نا؟ حوالہ دے چکا ہوں؟ آیت کا حوالہ بھی ہے ٹھیک ہے۔ ارتباط الخیل تاج العروس میں نمازوں کی ادائیگی اور ان کے اہتمام کا ذکر کیا ہے۔
حضرت امام رازی فرماتے ہیں کہ اس سورہ میں خداتعالیٰ نے اصول و فروع میںسے کثیر علوم بیان فرمائے ہیں مثلاً اصول میں سے توحید، نبوت ، عدل اور معاداور فروع میں سے فرائض اور احکام یعنی حج، جہاد وغیرہ اور اب آخرپر یہ آیت رکھی جو ان سب قسم کے آداب پر حاوی ہے۔ فرماتے ہیں اس سورہ میں خداتعالیٰ نے جو مختلف بنیادی اور اصولی تعلیمات دی ہیں اور بعض تفصیلی تعلیمات دیں ہیں اس آیت کا آخر پر رکھنا یا د دہانی کروارہا ہے کہ تم ان تعلیمات کی حفاظت کرنا اور ان پر صبر سے قائم رہنا۔ اور کسی وقت بھی شیطان تم پر حملہ نہ کرسکے۔ پس یہ لفظ شیطان تو انہوں نے بیان نہیں کیا مگر مراد یہی ہے، ظاہر بات ہے۔ ان معنوںمیں اگر شیطان کو دشمن سمجھا جائے تو پھر رباط الخیل کا سرحدوںپر گھوڑے باندھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ کناروں کی بھی حفاظت کرنا یعنی بدیاں جب داخل ہوتی ہیں تو ہلکے ہلکے وساوس کے ذریعہ داخل ہوتی ہیں۔ سمجھتے ہو تم کہ کنارے کی چیز تھوڑی سے گھر کر کم ہوئی ہے مگرجب ہم نے شیطان کو ایک دفعہ داخل ہونے دیا تو خواہ و ہ کنارے پر ہی داخل ہوگا وہ اندر تک پھر سرایت کرتا چلا جائے گا اور یہ مضمون وہ ہے جس کو ہم طب میں ہر روز اسی طر ح برسر عمل دیکھتے ہیں ۔ یہی کارروائی کرتے ہیں جراثیم۔ وہ لوگ جوسمجھتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے کہ چند جراثیم چلے گئے ان کو یہ نہیں پتا کہ اندر داخل ہوجائیں اگر ان کو برج ہیڈ مل جائے کسی ایک جگہ اڈہ بنانے کا موقع مل جائے پھر وہ مارامار۔ ارد گرد کاسارا علاقہ فتح کرتے کرتے آخر پھیپھڑوں ، دل ، جگر پر قبضہ کرلیتے ہیں اور دماغ کو مائوف کردیتے ہیں ۔ تو رباط الخیل بنیادی بیماری کے لحاظ سے حفظ ماتقدم کا مضمون پیش کرتاہے روحانی بیماریوں کے لحاظ سے یہ باریک نظر رکھنا کہ شیطان ہلکی ہلکی چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرواکر تمہیں بڑی غلطیوں کی طرف مائل کرے گا اگر تم متنبہ نہیں رہو گے ، تو تمہاری سرحد محفوظ نہیں رہے گی۔ تفسیر کبیر میں آگے پھر ٹیکنیکل تفاصیل بیان ہوئی ہیں ان دو باتوں کی ، باقی فتح البیان میں بھی یہی کچھ ہے۔ ابتلائوں پر صبر، فرائض کی ادائیگی پر نواہی سے رکنے پر وغیرہ وغیرہ۔ کوئی نیا مضمون نہیں یہ سب چیزیں پہلے بیان ہوچکی ہیں۔ اس کے بعد وہ حدیثیں شرو ع ہوجاتی ہیں جو مختلف تفاسیر کی کتب میں ملتی ہیں مگر ان کی کوئی سند قابل اعتبار ، معتبر احادیث میں نہیں ہے اور ان کا انداز بتارہا ہے کہ یہاں بعد کے زمانے والوں نے اپنے دماغ سے نقشے کھینچ کر کچھ حدیثیں وضع کرلی ہیں یا کچھ حدیثوں کا مضمون نہ سمجھ کر انہوںنے ایسی باتیں بنالی ہیں۔ مثلاً اگر کسی نے ایک رات گھوڑے باندھے تو ا س کا ایک ماہ مسلسل روزے رکھنے اور عبادت کرنے کے برابر ثواب ہوگا۔ اب اس قسم کی گنتیاں یہ بعد کے زمانے کا شوق ہیں۔ صاف پتا چلتا ہے کہ اوّلین کے زمانے کے بعد جو بیچ کا دورآیا ہے تاریک دور اس زمانے میں بہت سی حدیثیں جووضع ہوئی ہیں۔ ان میں یہ گنتیاں یہ حساب اس قسم کے آپ کو بہت ملیں گی اور واقعہ یہ ہے کہ سرحد پر گھوڑا باندھنے کے متعلق یہ قطعی حدیث موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی بھی سرحدوں پر گھوڑے نہیں بندھوائے۔ گھوڑے تو ان کے گھروں میں ہوا کرتے تھے۔ لیکن سرحدوں کی خاطر ہوتے تھے تو یہ کہنا کہ کسی نے ایک رات کیلئے گھوڑا باندھا سرحد پر جاکے تو ایک مہینے کے مسلسل روزوں اور عبادت کا ثواب مل جائے، یہ عجیب و غریب بات ہے۔
ابوسلمہ عبد ا لرحمن کی روایت تفسیر کبیر رازی میں لکھی ہے کہ ابو سلمہ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکے زمانہ میں کوئی ایسا غزوہ پیش نہیں آیا جس کے دوران گھوڑے باندھے گئے ہوں اورغزوے کی یہاں بحث تھی نہیں۔یہاں تو عام حالت ہے ہمیشہ باندھے رکھو تو زیادہ سے زیادہ قرین قیاس یہ ہوسکتا تھا کہ جب غزوہ ہو رہا ہو تو اس وقت باندھے جائیں اس وقت تو گھوڑوں کو سرحد پر بندھوانے کا مطلب ہے ان کو ہلاک کر وا دواس لئے یہ ہر گز لفظی معنی نہیںہیں۔ہاں ’’پر باندھنے‘‘ سے مراد یہ مفہوم ہو سکتا ہے کہ قریب چھائونیاں بنائو اور یہ وہ طریق ہے جو ساری دنیا نے قبول کیا ہے اور بڑا مؤثر طریق ہے عین سرحد کے اوپر گھوڑے باندھے نہیں جاتے، گھوڑ سواروں کی چھائونیاں اس سے مناسب فاصلے پر رکھی جاتی ہیںتاکہ وہ نظر میں رہیں اور ان کو خطرہ نہ ہو اور جو بن گئی ہیںحدیثیں وہ میں نے بتایا نا کہ کوئی جا کے گھوڑا باندھ آئے تو ملے نہ ملے دوسرے دن یہ الگ بحث ہے،مہینے کے روزوں کا ثواب اس کو ضرور ہو جائے گا۔بعض لوگ جو رمضان سے گھبراتے ہیں وہ تو گھوڑے ہی باندھ کر آئیں گے اب چونکہ نماز کی سرحد شروع ہو گئی ہے اور اس پر گھوڑے باندھنے کا خاص حکم ہے اس لئے۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ10؍رمضان بمطابق 31؍جنوری 1996ء
یہاں ایک فنی خرابی کی وجہ سے وہ لنک اپ میں تاخیر ہوگئی ہے۔ اس کا سیٹلائٹ والوں کا قصور نہیں اس میں بلکہ انہی کی خرابی تھی وہ ٹھیک ہوگئی ہے۔
اَعُوذُ بِاللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم ۔ بِسْم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
وَ اِنْ خِفْتُمْ أَن لَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلاثَٰ وَ رُبٰعَ فاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ ذٰلِکَ أَدْنیٰ أَلَّا تَعُوْلُواO(سورۃ النساء آیت ۴)
اس کے درس کے تعلق میں ہم آخری حصے پہ پہنچے ہیں جہاں ایڈز کا ذکر چلا تھا۔ HIVوائرس کی بات ہوئی تھی۔ یہ اس لئے بیان کیا جارہا ہے کہ یہ وہ بیماری ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک سزا کے طور پر نازل ہوئی ہے اور اس کے متعلق مَیںپہلے حوالے پڑھ چکا ہوںکہ قطعیت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے۔ اب تو عیسائی محققین بھی یہی بات کہنے لگے ہیں اور امریکہ سے ایک مشہور جو ٹیلیویژن پر آنے والی شخصیت ہے اُس نے بھی ایک موقع پر یہی بیان دیا کہ میرے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جو بیماری ہے یہ ہم پر خداتعالیٰ کی طرف سے ایک عذاب کے طور پر نازل ہوئی ہے ، یہ بتانے کیلئے کہ جب تم میرے قوانین کوتوڑو گے تو پھر میں سزا دینے کی طاقت رکھتا ہوں۔ پس یہ وہ مضمون ہے جس کی وجہ سے اس بیماری کا ذکر چھیڑنے کی یہاںضرورت پیش آئی ہے۔ دوسرے مَیںبتارہا تھا کہ چونکہ اسلام پر نہایت گندے ، بیہودہ الزام لگائے گئے محض تعصب کی بنا پر اس لئے یہ وہ بیماری ہے جو قطعیت کے ساتھ اُنہیںالزامات کو الزام لگانے والوں کے سر پر دے مارتی ہے۔ اُن کے منہ پر پھینکتی ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا قطعی تقابلی جائزے کا طریق ہے کہ جس میں کوئی اندازے کی بات نہیں ہے۔ بالکل یقینی اعداد و شمار کی رُو سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ بعض قسم کی بے حیائیاںکن ممالک میںزیادہ پائی جاتی ہیں اور چونکہ ویری Wherryصاحب نے یہ سب باتیں بڑے زور کے ساتھ اور انتہائی تعصب کے رنگ میں کہی تھیں اس لئے اُنہیں کا ملک ہے جو سب سے بالا رہا ہے اس معاملے میںیعنی عیسائی ممالک میں عام ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اب تو غیر عیسائی ممالک میں بھی عام ہوگئی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جیسا امریکہ اس معاملے میں آگے بڑھ گیا ہے اس کی کوئی مثال کسی اور ملک میں نہیںملتی۔ اب میںآپ کے سامنے وہ اعداد و شمار رکھتا ہوں جو Data of statistics Euro moniter 1995 سے لئے گئے ہیں اور یہ لکھتے ہیں:-
‏ By 1991 the country with the highest number of reported AIDS cases was (آگے ایک نہیں بلکہ لسٹ ہے یعنی ہر wasسے مراد ہے یہ بھی تھا۔ یہ بھی تھا، یہ بھی تھا۔ سب سے اوپر چوٹی پہ U.S.Aہے (جس کو ) اس میں Deathsکی بات ہورہی ہے یا، reported AIDS cases یونائٹیڈ سٹیٹس میں 35ہزار 6سو 96 رپورٹڈ کیسز ہیں ایڈز کے 1991ء میں۔ اور 1986ء تا 1991ء کل تعداد جو امریکہ سے رپورٹ ہوئی تھی وہ دولاکھ سات ہزار نو ہے۔ دوسرے نمبرپر یوگینڈ ا ہے۔ یوگینڈا میں 1991ء میں آٹھ ہزار چار سو اکہتر اور 1986ء سے 1991ء تک تیس ہزار ایک سو نوے۔ یوگینڈا کے تعلق میں یہ بات میں پہلے بھی کئی دفعہ ذکرکرچکا ہوں۔ یوگینڈا کا وہ حصہ ایڈز سے خصوصیت سے متاثر ہے جو عیسائی حصہ ہے جس کے متعلق تمام دنیا جانتی ہے کہ وہ خصوصیت سے عیسائیت کا گڑھ ہے وہاں ہی ان کے بشپس(Biships) ہیں بڑے بڑے اور تقریباً سارا کا سارا علاقہ ہی عیسائی ہے اور اس علاقے کا نام slimرکھا گیا ہے اسی لئے۔ اور وہاں ہے سب سے زیادہ۔ اتنی زیادہ ہے کہ اب ہمارے ڈاکٹرز کی اطلاع کے مطابق یہ خطرہ ہے کہ وہ ساری پاپولیشن ہی نہ ختم ہوجائے اُس علاقے کی۔ اس لئے اسے نمبر 2پر تو رکھا جارہا ہے ، مگر بعید نہیں کہ تناسب کے لحاظ سے یہ امریکہ سے بھی اوپر ہو۔ یعنی ویری کو ظالم دکھانے کے شوق میں اعداد و شمار سے کھیلنا جائز نہیں۔ دو باتیںہیں جو پیش نظر رکھنی چاہئیں ایک یہ کہ امریکہ کی آبادی بہت زیادہ ہے یوگینڈا کے مقابل پر ۔ 20کروڑ سے اوپر ہے غالباً 24کروڑ ہوگئی ہوگی اب تو یا زائد۔ نہیںعلم؟ بہرحال 24کے لگ بھگ ہوگی جہاں تک میرااندازہ ہے اس کے مقابل پر یوگینڈا کی آبادی بہت تھوڑی ہے نسبتاً، اس لئے دو لاکھ کے مقابل پر تیس ہزار بھی بہت بڑی تعداد ہے ۔ دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے کا نظام بہت زیادہ مضبوط اور بہت آگے بڑھا ہوا ہے۔ او رجہاں بھی کسی ایڈز کے کیس کی اطلاع ملے فوراً اسے اعداد و شمار میں منضبط کرلیا جاتا ہے ۔ لیکن یوگینڈا کی یہ حالت نہیں ۔ وہ علاقہ جہاں کثرت کے ساتھ لوگ بیمار بھی ہورہے ہیں اورمر بھی رہے ہیں وہاں کی تعداد اکٹھی کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔(کیوں جی ڈاکٹر صاحب آپ تو نہیں رہے وہاں اُس علاقے میں۔ آپ تنزانیہ میں رہے ہیں۔ ٹھیک ہے)۔ بہر حال میں تو گیا ہوا ہوںوہاں۔ وہاں مجلس بھی ہم نے بلائی تھی۔ ہمارے Hospitalمیں بھی ایسے مریض کثرت سے آتے تھے۔ وہاں احتیاط کے طور پر اُن کوسمجھایا گیا کہ چھوت چھات نہیںکرنی، مگر ہر احتیاط دوسری کرنی ہے، تو وہ علاقہ جو ہے اس میں چہرے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ موت کے قریب پہنچے ہوئے ہیں اور بکثرت وہاںموتا موتی لگی ہوئی ہے۔ اگرچہ کوئی نظام ایسا نہیں ہے جو ان کو باقاعدہ ریکارڈ کرسکے۔ دوسرا حصہ ہے یوگینڈا کا جو مسلمان علاقہ ہے اکثریت کا وہاں نمایاں فرق ہے یعنی اتنا نمایاں فرق ہے کہ اعداد وشمار کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ بہت زیادہ عیسائی حصے میں ہے۔ نسبتاً بہت کم مسلمان حصے میں ہے، لیکن اب بیان کیا جاتا ہے کہ چونکہ بے حیائی عام دنیامیں پھیل رہی ہے، اس لئے اُن حصوں میں بھی اب ایڈز کے مریض اور ایڈز کی وجہ سے اموات کے واقعات کثرت سے سامنے آنے لگے ہیں۔ برازیل نمبر3پہ ہے۔ تنزانیہ نمبر4پہ ہے اور زمبابوے نمبر5پہ۔
In general the countries with the lowest number of AIDS cases between 86 and 91 was the Middle East.
جہاں حملہ کیا تھا۔ اب یہ موازنہ دیکھیںکتنا بڑا فرق ہے۔ وہاںآج دنیا میںسب سے کم ایڈز ہے اور یمن میںایک بھی کیس ایسا نہیں ہے اوریونائٹیڈ عرب ریپبلک میں 1991ء میں تو ایک بھی نہیں تھا، مگر اب آٹھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بے حیائی کی وبا وہاں بھی داخل ہورہی ہے۔کویت میں 1991ء میں تین کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور 86ء میں پانچ، لیکن کویت اور بعض امیر ممالک کا جہاں تک تعلق ہے جو تیل کی دولت سے امیر ہوئے ہیں ان کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے اعداد و شمار بہت حد تک غلط خبر بھی دے سکتے ہیں۔ غلط خبر ان معنوں میں کہ یہاں کے جو امراء ہیں یہ توفیق رکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی ایسی بیماری ہو جس کے ننگے ہونے پر یہ پکڑے جاسکتے ہوں، تو امریکہ چلے جائیں یا کسی اور ملک میں جاکر وہاں ہسپتالوں میں مرجائیں اور کسی کو پتا بھی نہ لگے اور جہاں تک مقامی حالات کا تعلق ہے وہاں کے اعداد و شمار میں ان کا نام نہ آئے، لیکن اس کے باوجود فرق اتنا نمایاں ہے کہ یہ یقینی طور پر ان ممالک کی صفائی ہے اور پاکبازی ہے۔ اب اگلے جو ممالک میںبیان کررہا ہوںان میں سیریا بھی ہے۔ سیریا کے متعلق یہ کہنا کہ وہاں سارے اتنے امیر ہیں کہ کہ وہ فوراً ملک سے باہر بھاگ سکتے ہوں یہ درست نہیں ہے اور پابندیاں بھی بہت ہیں وہاں سیریا میں یعنی شام میںنہ 91ء میں کوئی کیس ایڈز کا علم میں آیا نہ 86ء سے 91ء تک ایک کیس بھی علم میں آیا اور یہ بھی واضح طور پر مسلمان ملک ہے۔ عیسائی بھی ہیں ،مگر نسبتاً بہت کم۔ بحرین میں بھی ایسا کوئی مریض جو حقائق اکٹھے کرنے والی کونسلز ہیں ان کے علم میں نہیں آیا۔World Health Orgnizationنے جو اس بارہ میں بیان جاری کیا ہے وہ بھی توجہ کے لائق ہے وہ کہتے ہیں 15؍دسمبر 1995ء تک ایڈز کے 193ممالک میں 1291810کیسز رپورٹ کئے گئے۔ مَیں آپ کو 91ء کی خبریںبتارہا تھا۔ اب یہ آخری ہے1995تک کی خبریں۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس تیزی کے ساتھ یہ مرض پھیل رہا ہے اور قابو سے نکل رہا ہے ۔ 15؍دسمبر 95ء تک 193ممالک میںیہ بیماری پھیل چکی تھی اور 1291810کیسز رپورٹ کیے گئے۔ جنوری 95ء کے مقابلے میں یعنی ایک سال کے اندر ہی جنوری سے لے کر دسمبر تک 26فیصد اضافہ ہوا ہے ،جو بہت ہی خطرناک ہے۔ کیونکہ 26فیصد اضافہ بتارہا ہے کہ ایسے مریض جو ایڈز سے بیمار ہیں ان کے جنسی تعلقات کثرت سے صحتمندوں کے ساتھ چل رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میںبیماری کو کنٹرول کرنے کی کوئی معقول امید نہیںلگائی جاسکتی، کیونکہ جہاں یہ حالت ہو بد اخلاقی کی وہاں جتنے بھی مریض زائد ہوں وہ مزید اور ایڈز کے پیغمبر بن جاتے ہیں اور ایڈز اُٹھا کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس بیماری کا اثر ظاہر ہونے سے پہلے ہی یہ Carriersبیمار ی کو پھیلاتے رہتے ہیں۔
اس بیماری کے متعلق جو تحقیق ہے اب تک کی مسلّمہ وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ HIVمریض جو ہے وہ آٹھ سال تک ایڈز کی علامتیں ظاہر نہیں کرتا اور عین ممکن ہے کہ آٹھویں سال وہ علامتیں پھوٹ پڑیں تو اگر 1998ئ، 1999ء یا 2000ء میں اس بیماری نے وبا بننا ہو، تو اس سے آٹھ سال پہلے یعنی 92ء سے اس کا سلسلہ چل پڑا ہوگا اور بہت سے مریض جو واقعتا Potentiallyیعنی استعدادی اعتبار سے مریض ہیں، مگر ان کے مرض کی علامتیںظاہر نہیںہوئیں وہ اپنی بیماریاں آگے پھیلارہے ہیں۔ اور ایک دھماکے کے طور پر اس صدی کے آخر پر یہ مرض دنیا میں تباہی مچاسکتی ہے۔ یہ وارننگ اس لئے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کا اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانے میں جب طاعون ایک سزا کے طور پر اُتری ہے دنیا نے جب خصوصاً پنجاب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا انکار کیا، تو پنجاب کو خصوصیت کے ساتھ طاعون نے نشانہ بنایا اور طاعون کے پھیلنے کا زمانہ 1898ء سے لے کر 1906ء تک چلتا ہے جس کا مطلب ہے صدی ختم ہونیوالی تھی جب اس بیماری نے زور ڈالا ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وصال سے دو سال پہلے تک یہ سزا دے کر رخصت ہورہی تھی۔جب یہ رخصت ہورہی تھی 1907ء میںیا تقریباً ختم ہوچکی تھی، 1907ء میں اگلی طاعون کی پیشگوئی ہوگئی اور اُس طاعون کو ایک قسم کا طاعون فرمایا گیا۔ الہام میں ایک قسم کا طاعون لکھا ہوا ہے اور یہ وہی ہے۔ سو سال کے متعلق مَیں پہلے بھی بارہا بیا ن کرچکا ہوں ۔ یہ میرا ایک اندازہ ہے اور یہ اندازہ تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بھی طاعون بطور سزا کے نازل ہوتی رہی اور پہلی دفعہ جب ہوئی اس کے بعد تقریباً ایک سو سال کے بعد پھر ہوئی ہے، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام جس طاعون کی پیشگوئی فرمارہے ہیں اگر مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیثیت سے آپ کی مماثلت کو اس حد تک سمجھا جائے کہ بعینہٖ اُسی طرح تائید میں ظاہر ہونے والے نشانات بھی اُسی وقفے سے ظاہر ہوں ۔ اگر یہ اندازہ لگانا یا مسیحیت کی مشابہت کو اس حد تک لے جانا جائز ہے ، تو پھر ہرگز یہ بعید از قیاس بات نہیں کہ تقریباً سو سال کے بعد وہ دوسری بیماری آئے گی جسے ایک قسم کا طاعون کہا جاتا ہے۔ اب ایک قسم کے طاعون کا لفظ کا محاورہ تو کسی کو اُس وقت سمجھ نہیں آرہی تھی۔ کتنے سال پہلے میں نے مضمون آپ کے ابا جان کے کہنے پر لکھا تھا فرقان میں ۷۲،۷۳ یا ۷۶میں تھا۔ کب وفات ہوئی آپ کے ابا جان کی۔ ہیں؟ تو اس سے پہلے کی بات ہے بہر حال۔ غالباً ۷۶ء کی بات ہے یا اس کے لگ بھگ۔ حضرت مولوی ابوء العطاء صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے کہا کہ حوادث زمانہ کے متعلق بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں، بہت سے سوالات آتے رہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن نشانات کو اپنی تائید میں پیش فرمایا ہے اُن میں سے بہت سے ایسے ہیں جو حوادثِ زمانہ کہلاتے ہیں، تو کوئی شخص بھی کہہ دے اُٹھ کے کہ یہ حوادثِ زمانہ میری تائید میںہیں تو اس کا کیا جواب ہے اور حوادثِ زمانہ کو الٰہی نشان کہا کیسے جاسکتا ہے جبکہ یہ روز مرہ دنیا میں ہونے والے واقعات ہیں۔ یہ مضمون میرے سپرد فرمایا حضرت مولوی ابو ء العطا صاحب نے کہ اس کا جواب آپ نے لکھنا ہے۔ چنانچہ دو تین قسطوں میں مَیں نے یہ مضمون لکھا۔ اُسی تعلق میں پہلی دفعہ یہ طاعون والی بات میرے سامنے آئی اور ’’ایک قسم کا‘‘ لفظ خاص طور پر میں نے نوٹ کیا اسی تعلق میں کہ حوادثِ زمانہ میں سے بیماریاں بھی تو ہیں۔ کیوںبیماری کو ایک نشان کے طور پر ماناجائے۔ کیا اس کی پہلے کوئی نظیر ملتی ہے۔ جب یہ جستجو کی تو حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ کی تاریخی تحقیق کی اور اُس وقت مجھے یہ بڑی خوشی والا تعجب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مماثلت کو مسیحِ اوّل سے کس حد تک تفصیل سے قائم فرمایا ہوا ہے۔ پہلی جو طاعون ہوئی ہے ، وبا پھوٹی ہے وہ ان علاقوں میں زیادہ پھوٹی ہے جہاں یہود تھے۔ جہاں انکار تھا اور جب رومن ایمپائر مظالم میں شامل ہوگئی اور کثرت سے رومن ایمپائر میں بھی عیسائیت کے خلاف نہایت بھیانک مظالم اختیار کیے گئے ۔ ان کے خلاف مظالم استعمال کیے گئے اُس وقت رومن ایمپائر میں بڑی خوفناک طاعون پھوٹی ہے اور پہلی طاعون اور دوسری طاعون کے درمیان جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تقریباً ایک سو سال کا فاصلہ ہے۔ اس بات کو نوٹ کرنے کے بعد جو مَیں نے مضمون اُس زمانے میں لکھا اُس میںیہ اندازہ لگایا کہ میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی قریباً ایک سو سال کے بعد پوری شان سے پوری ہوگی(اور یہ بتادے گا)۔ اس کا پورا ہونا بتادے گا کہ یہ محض حوادثِ زمانہ نہیں، کیونکہ وہ حوادث جن کی پیشگوئی پہلے سے کی جائے اور عین معین وقتوں میں، معین حال میںوہ ظاہر ہوں وہ اتفاقی حادثات قرار نہیں دیے جاسکتے، اللہ تعالیٰ نے سزا دینے کیلئے کوئی نئے قانون تو ایجاد نہیںکرنے اُس کے قوانین قدرت جو اُس نے بنائے ہیں وہ ہر چیز پر حاوی ہیں اور کافی ہیں۔ اس لئے جب بھی خد اسزا دے گا ان قوانین ہی کو استعمال فرمائے گا۔ اس لئے نئے قانون کی ایجاد کا تو کوئی موقع ہی نہیںہے۔ حوادثِ زمانہ بھی تو اُسی کے غلام ہیں۔ جب وہ چاہے گا ان کو خاص رُخ پر استعمال فرمائے گا اور وہ اس رنگ کا استعمال ہوگا کہ سچے اور جھوٹے میںتمیز کرنے والا ہوگا، فرق دکھانیوالا ہوگا۔ یہ اگر ہو ، تو پھر کوئی عقلی اعتراض اس پر نہیں وارد ہوتا اگر یہ نہ ہو تو ہر آدمی کہہ دے اُٹھ کر کہ یہ حوادثِ زمانہ میری وجہ سے آئے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیںہے۔ پہلے بتانا ضروری ہے۔ پھر بعض حوادث کا تفریق کرنا ضروری ہے۔ بعضوںکو بعض بیماریاںخاص طور پر نشانہ بنائیں اوربعض دوسروں کو جوساتھ ہی بس رہے ہیں چھوڑتی چلی جائیں۔ اس کو تو حوادثِ زمانہ نہیں کہا جاتا۔ یعنی محض حوادثِ زمانہ نہیںکہا جاسکتا۔
پس طاعون اس لئے نشان بنی اگرچہ حوادثِ زمانہ ہی میں سے ایک حادثہ ہے کہ یہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ماننے والوں سے بہت رعایتی سلوک کرتی تھی اتنا نمایاں کہ اُس زمانے میںچیلنج کے طور پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پیش فرمارہے ہیں۔ کوئی مولوی اُٹھ کر نہیںکہہ سکا کہ غلط ہے۔ فلاں جگہ احمدی زیادہ مرے ہیںاور غیر احمدی کم مرے ہیں۔ اتنا نمایاں امتیاز تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی اور سب سے بڑا ثبوت اس کی تائید میں کہ یہ واقعہ اسی طرح ہوا یہ ہے کہ احمدیت کی نشو ونما کا دور جو سب سے زیادہ نمایاں ہے جہاں غیر معمولی طور پر احمدیت کی ترویج ہوئی ہے وہ طاعون کا زمانہ ہے۔ اب طاعون کے زمانے میں اگر یہ مرض فرق نہ دکھاتا یا دکھاتی اورایک جیسا ہی سلوک کرتی تو ناممکن تھا کہ لوگ اندھا دھند احمدی ہونا شروع ہوجاتے۔ اگر اس کے برعکس صورت دکھائی دیتی کہ احمدی زیادہ مرتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں، کیونکہ نعوذ باللہ من ذلک ایک جھوٹے کی بات مان چکے ہیں اوردوسرے نسبتاً کم پکڑ میںآتے ہیں تو پھر تو احمدیت کا صفایا ہوجانا چاہیے تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ اتنی بیعتیں کبھی اتنی اس تیز رفتاری کے ساتھ کبھی بیعتیں نہیں ہوئیں جس رفتار سے طاعون کے زمانے میںہوئیں ہیں اور یہ مددگار بنا ہے۔ گائوںکے گائوں، علاقوں کے علاقے آج تک احمدی ایسے ہیں جہاں جب بھی پوچھیں کہ بتائو کب احمدیت آئی تھی تو یا کوئی الٰہی نشان بتاتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے یہ دُعا کی یہ واقعہ ہوا، یہ نشان دیکھایا بہت سے بھاری تعداد میں ایسے ہیںجن کو طاعون نے احمدی بنایا ہے۔ تو ایڈز کی بیماری بھی جو ایک قسم کا طاعون ہے اس کے متعلق میرا یہ اندازہ کہ تقریباً سو سال کے بعد جوش دکھائے گی یہ اس علم سے بہت پہلے کا ہے کہ دنیا میں ایک قسم کی طاعون ظاہر ہونے والی ہے۔ اُس وقت تمام دنیا کے ڈاکٹر گواہ ہیں کہ ایڈز کا تصور بھی ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ بعد کی بات ہے اور اُس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے یہ بات لکھوادی اور جب مَیں انگلستان آیا ہوں تو پہلی دفعہ مَیں نے اس بیماری کا نام سنا۔ ایک اور بلائے ناگہانی نازل ہوگئی ہے دنیا پر اور اس کو یہ کہتے ہیں۔ اتفاق ایسا تھا کہ ٹیلی ویژن کا جو پروگرام میں نے دیکھا اُس میںپہلی دفعہ ہی یہ کہا جارہا تھا کہ It's a type of pestilence پیسٹیلینس مجھے لفظ یاد ہے جو طاعون ہی کا ایک دوسرا نام ہے۔ ایک قسم کا یہ طاعون ہے۔ پھر بعد میں (پلیگ) Plagueکا لفظ عام استعمال ہونے لگا۔ تو یہ وہ بیماری ہے جس کے کوائف میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ یہ بڑھ رہی ہے ، پھیل رہی ہے، اندر اندر ایک بم شیل کی صورت اختیار کررہی ہے اور یہ پھٹے گا ضرور او رکب پھٹے گا غالباً(اب میں پھر بتارہا ہوں)اس صدی کے آخر تک اور جب یہ پھٹے گا تو پہلے سے بڑھ کر ،چونکہ زیادہ وسیع علاقے میں پھیلا ہوگا۔ احمدیت کی تائید میں ایک نشان بن جائیگا اور انشاء اللہ اس کی وجہ سے کثرت سے لوگ احمدی ہوں گے، لیکن فرض ہے جماعت پر کہ پہلے اس کو عام کرے ،اس بات کو پھیلائے ، دنیا کو متنبہ کرے کیونکہ خطرناک امراض سے اور وبائوں سے متنبہ کرنا ویسے ہی ہر مذہبی آدمی کا بنیادی، اخلاقی، انتظامی فرض ہے۔ اس کو بہر حال ادا کرنا چاہیے قطع نظر اس کے کہ اس کے نتیجے میں کوئی اس مذہب کو کوئی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ یہ بنیادی فرض ہے ہر انسان کا ورنہ وہ مذہب ہی نہیں ہے اس لئے یہ تنبیہ کہ یہ سزا ہے بچو بچو۔ اس کا جو علم ہے وہ احمدیوںکو اُٹھانا چاہیے اور گردو پیش کو بتانا چاہیے کہ کیا ہوگا۔ لوگ برا منائیںگے بعض ناپسندیدگی سے آپ سے تعلق توڑ لیں گے کہ یہ تم نے کیا بات شروع کی ہوئی ہے۔ لیکن ایک دفعہ بات سنیںگے کان میںبیٹھ جائے گی۔ کان میں داخل ہوگی دل میں بیٹھ جائے گی۔ پھر تو جب وقت آئے گا ہوسکتا ہے خدا اُن کے دل پھیر دے ۔ یہ وجہ ہے کہ درس کے اندر اس کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے، کیونکہ ہے ہی بہت اہم بات، اسے اہمیت دینی چاہیے۔ اہمیت سے اس کو سننا اور ذہن نشین کرنا چاہیے اور اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
15؍دسمبر1995ء تک 193ممالک میں پھیل چکی تھی یہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔12لاکھ کیسز ہوچکے تھے۔ جنوری سے دسمبر تک 26فیصد اضافہ ۔ 94ء کے اختتام تک 13سے 15ملین لوگ HIVکا شکار تھے۔ یہ HIVاور AIDSان میں کیا فرق ہے؟ HIVکی تعداد دیکھیں زیادہ بتائی گئی ہے۔ 12,91,000کے مقابل پر 13سے 15ملین لوگ HIVکا شکار ہوچکے تھے۔ HIVکہتے ہیں Human Immunodeficiency Virus۔ Immunodeficiencyسے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو طبعی نظامِ دفاع قائم فرما رکھا ہے وہ اگر ناقص رہ جائے حرکت میںنہ آئے ، اس میں یہ طاقت نہ رہے کہ وہ روزمرہ کی دفاعی ضرورتوں کو سرانجام دے سکے تو اس کو Immunodeficiencyکہتے ہیں اور جب یہ ایک وائرس کے نتیجہ میںہو تو اس کو Human Immunodeficiency Virus کہتے ہیں۔اور یہ وائرس موجود ہو جسم میں خواہ اس کے نتیجے میں بیماری کی شکل اختیار کرکے علامتیں ظاہر نہ کی ہوں تو ایسے مریض کو HIV+(positive)کہا جاتاہے۔ جب اس کا ٹیسٹ لیتے ہیں HIV+ (positive)پتا چلتا ہے کہ اس جسم میںوہ جراثیم کہیں موجود ہیں، بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنا کام کررہے ہیں یا نیم خفتہ ہیں ، مگر ایسا مریض کسی وقت بھی ایڈز کا مریض بن کر اُبھر سکتا ہے۔ اس کی تعداد 15ملین(ڈیڑھ کروڑ) ہوچکی ہے 1994ء کے اختتام تک اور جس رفتار سے ایڈز بڑھی ہے یعنی 26%عین ممکن ہے کہ اس سے بہت زیادہ تیز رفتاری سے HIV+(positive)بڑھے ہوں، کیونکہ یہ ایک دوسرے کو بیماری منتقل کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ تبھی یہ اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ یہ ہے مستقبل کیلئے بارودی نظام جو بچھایا جارہا ہے۔ ساری دنیا میں یہ دھماکے جو ہونے والے ہیں ان کیلئے تیاری کی جارہی ہے۔ 1995ء میں اندازہ ہے ان کا یہ کہ یہ تعداد بڑھ کر 16.9ملین تک پہنچ گئی ہے alreadyاس وقت تک ان کا یہ اندازہ ہے او رجو بھی انہوں نے اندازے کے ذریعے بنائے ہیںعملاً تو اندازے اُن انسانی اربوںکی پیروی نہیں کیا کرتے جو لگائے جاتے ہیں۔ ایک دم بعض دفعہ بہت تیزی سے چیز بڑھ جاتی ہے، مگر بہر حال اس کے حساب سے ایک کروڑ انہتر لاکھ آدمی دنیا کے کتنے ممالک میں؟193۔ ہاں 193ممالک میں اتنے لوگ ایڈز کے کیریئر ہوچکے ہیں اِس جراثیم کے۔ان جراثیم کو اپنے جسم میں لئے ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر اس رپورٹ کے مطابق امریکہ ہے جہاں 5لاکھ ایک ہزار تین سو دس امریکن اس بیماری کا شکار ہوچکے ہیں۔ یورپ میں سے U.K.میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد گیارہ ہزار چار سو چورانوے ہے۔ جبکہ سپین ، اٹلی، فرانس میں یہ تعداد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر ایک میں تیس تیس ہزا ر کے لگ بھگ ہے یعنی ان سے کم ہے۔ جنوب مشرقی ایشیاء میںتھائی لینڈ میں جہاں زیادہ زورہے عیسائیت کا ہے وہاں یہ تعداد بائیس ہزار ایک سو پینتیس (22,135)بیان کی جاتی ہے، مگر تھائی لینڈبھی اُن ممالک میں سے ہے جہاں رسل و رسائل کے ذرائع بھی بہت محدود ہیں اور اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔ اس لئے یہ 22ہزار بھی بہت زیادہ ہونے کے باوجود عملاً بہت تھوڑی ہوگی یعنی تعداد عملاً اس سے زیادہ ہوگی میری مراد ہے۔ آسٹریلیا میں پانچ ہزار آٹھ سو تراسی (5,883)تعداد رپورٹ کی گئی ہے۔ آسٹریلیا کے متعلق مجھے یہ خطرہ ہے کہ یہاں یہ بہت زیادہ تیزی سے پھیلے گی کیونکہ وہاں اب بے حیائی امریکن سٹائل پر شروع ہوچکی ہے اور آسٹریلیا کو شوق ہے جیسے کوئی احساس کمتری کا شکار ہو ، تو نقالی کرتا ہے۔ آسٹریلیا میں امریکنوں کی نقالی بہت آگئی ہے۔ ہر چیز میںامریکن سٹائل اور اسی قسم کی بے حیائی کی فلمیںوغیرہ وہی انداز اختیار کرچکے ہیں، تو ذرا دیر میں پہنچی ہے بیماری اس لئے تھوڑی تعداد ہے ورنہ خطرہ ہے کہ یہ وہاں بھی بہت تیزی سے پھیل جائے گی۔ اب تک مرنے والوں کی تعداد میںامریکہ میں اس رپورٹ کے مطابق دو لاکھ اکیانوے ہزار آٹھ سو تیرہ (2,91,813)افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جو بہت بڑی تعداد ہے۔ ایک ہی ملک میں ایڈز سے مرنے والے اگردو لاکھ اکیانوے ہزار ہیں تو اندازہ کریں کہ یہ وائرس اندر اندر کتنا پھیل چکا ہوگا اور اگر کوئی مناسب ہوا، کوئی سازگار موسم اس کو میسّر آیا، جس طرح بعض جراثیم سازگار موسموں کا انتظار کرتے ہیں اس طرح یہ وبا ضرور پھوٹے گی او رسب سے بڑی ہلاکت کا واحد ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ تعداد CDC یعنی سنٹرل ڈزیز کنٹرول آفس کی ایک رپورٹ سے لی گئی ہے۔ اس لئے اس کے متعلق کوئی شک نہیں یہ یونائٹیڈ سٹیٹس ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کا ایک ادارہ ہے ۔ پبلک ہیلتھ ڈیزاسٹر کے طور پر اب اس کے اوپر کتابیں بھی لکھی جارہی ہیں اور ایک کتاب جو بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے وہ ہین کاک اینڈ انور کریم، Carimہے۔
تو انور ہے یا یہ Egyptionکوئی ان کا ساتھی ہوگا یا کوئی اور۔ مسلمان ہے یا ٹرکش بھی ہوسکتا ہے۔ وہاں بھی اس قسم کے تلفظ ہوتے ہیں Enver(اَینو ِر) اور اگر یہ ٹرکش ہے تو پھر چیریم شاید پڑھا جاتا ہو۔ ’’C‘‘ کو اکثر وہ ’’چ‘‘ پڑھتے ہیں۔ آپ کے کہاں ہیں بھائی ٹرکش۔ اچھا اچھا۔
According to the World Health Organization AIDS is the worst public health disaster ever, beyond anything in our comprehension.
یہ اُس حدیث کی تائید کرنے والا بیان ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ ایسی خطرناک سزا پھر خدا دیتا ہے ایسے بے حیا لوگوں کو کہ(اس کا) جو طاعون آئے گی اس کی مثال کبھی انسانی تاریخ میں دکھائی نہیںدی گئی ہوگی۔ کہیں بھی ویسی بیماری اس سے پہلے کسی کے علم میںنہیںآئی ہوگی اور یہ وہی بات اس کتاب میں درج کی گئی ہے کہAccording to World Health Organization یونائٹیڈ نیشنز کے ادارہ WHO World Health Organization نے یہ بیان دیا ہے کہ:-
the worst public health disaster ever beyond anything in our comprehension.
‏ In 1986 Number of AIDS victims. اب ہم اس سال پہ آجاتے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں اب تک جو ان کے علم میں آیا ہے۔
There are over 1.5 million people in the United States. Three hundred thousand in the West Germany- One hundred thousand in Britian and perhaps as many as ten millions in Africa.
کس چیز کے؟ ابھی تو ہم نے جو اعداد و شمار پڑھے تھے۔ اس کے لحاظ سے توفرق نظر آرہا ہے یہ۔ 1.5 million in the United States aloneمیںنے کتنے پڑھے تھے۔ چند لاکھ۔ ایڈز کے۔ ہاں یہ ہے 2لاکھ 7ہزار۔ یہ ہیں 1986ء سے 1991ء تک کے یہ یورو مونیٹررپورٹ(Euro Moniter Reprot)سے لئے گئے تھے فیکٹس(Facts)۔یہ کہتے ہیں 91ء تک تھی یہ صورت۔ 86ء سے 91ء تک۔ اب یہ کتاب جو ہے یہ تازہ اعداد و شمار 1996ء کے شروع تک کے دے رہی ہے۔ کہتی ہے :-
There are over 1.5 million people in the United States.
ایڈز کے مریض HIVکے نہیں AIDSکے 15لاکھ ہوچکے ہیںیونائٹیڈ سٹیٹس میں اور تین لاکھ ویسٹ جرمنی میں ہیں صرف اور ایک لاکھ انگلستان میںاور تقریباً ایک کروڑ افریقہ میں ہیں۔ افریقہ میں صرف عیسائیت ذمہ دار نہیں ہے۔ جہاں سے ایڈز پھوٹی ہے وہ وہ علاقہ بیان کیا جاتا ہے جو یوگینڈا میں عیسائی اکثریت کا علاقہ ہے۔ اس لئے یہ بعض لوگ مجھے کہتے تھے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یورپ کا لکھا ہے، وہ تو یورپ نہیں ہے۔ یہ کہتے ہیں افریقہ سے آئی ہے۔ جب مَیں یوگینڈا گیا تو خصوصیت سے جب تحقیق کی کہ یہ کیا وجہ ہے یوگینڈا کو کیوں ایڈز پھیلانے میں اوّلیت دی جارہی ہے تو پتا چلا کہ وہی عیسائی علاقہ ہے جہاں بیان کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے ایڈز پھوٹی تھی وہاں ۔ تو تعلق تو پھر بھی وہی قائم رہا بعینہٖ۔ مگر یہ کہنا کہ صرف عیسائیت ذمہ دار ہے ، عیسائی علاقے یہ درست نہیں کیونکہ وہاں مشرکانہ پرانے رواج ایسے چل رہے ہیں افریقہ میں جہاں جنسی تعلقات کا بغیر کسی مذہبی سرمنی کے ، بغیر باقاعدہ نکاح کرانے کے جنسی تعلقات کا قائم کرنا اس طرح جرم نہیںسمجھاجاتا جس طرح دوسرے ملکوںمیںسمجھا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض قبائل میںیہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر عام لوگوں کے سامنے ایک تعلق قائم کرو اپنے گھر کسی کو ڈال لو تو یہ ایک شادی کا طریقہ ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ ہیںجو اسے شادی سمجھتے ہیں اور احمدی ہونے کے بعد بسا اوقات آتے ہیں کہ ہماری تو تیس سال سے شادی ہوئی ہوئی ہے ، ہمارا نکاح پڑھادو۔ تو کہتے ہیں کیوں؟ تمہاری شادی ہوگئی تو نکاح کیوں پڑھادیں ۔ کہ شادی تو ہمارے اپنے طریقے پر ہوئی ہوئی ہے مگر اسلامی طریقے پہ نہیںہوئی، تو چونکہ ان تعلقات کو وہ بغیر کسی رسمی اعلان کے جائز سمجھتے ہیں ۔ اس سے پھر آگے بے حیائی عام پھیل گئی ہے۔ جب یہ جائز ایک دفعہ ہوگیاکہ یہ شادی ہی ہے تو پھر ہر کس و ناکس کو اختیار ہے کہ وہ تعلق قائم کرے اور وہ کہیں گے کہ کیا بات ہے۔ کوئی پوچھے کیا بات ہے تو کہیں گے یہ تو ازدواجی تعلقات ہیں۔ اس وجہ سے پرانے افریقی رسم و رواج کی وجہ سے کئی مسلمان علاقوں میں بھی یہ بیماری راہ پاگئی ہے اور کافی بڑا خطرہ بن رہی ہے ۔ Senegal(سینیگال) میںبھی پھیل رہی ہے۔اور بڑی وجہ یہی افریقی پرانی رسومات ہیں اس لئے احمدیوں کو خصوصیت سے افریقہ میںیہ آواز اٹھانی چاہیے اس کے خلاف۔ اور جیسا کہ میں نے بعض دفعہ ہومیو پیتھک علاج کا بھی ذکر کیا ہے وہ بھی استعمال کرنا چاہیے، شفا دینے کیلئے۔ مگر جب یہ تقدیر ظاہر ہوجائے پھروہ علاج کام نہیں کیا کرتے کسی چیز کے خلاف۔ کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی۔ طاعون کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی، اپنی تائید میں فرمائی، خدا کے ایک نشان کے طور پر فرمائی اور ساتھ ہی اشتہار دے دیا کہ بچنا ہے تو یہ یہ دوائیاں بھی استعمال کرو۔ اب یہ بتاتی ہے ایک نبی کے دل کی صداقت ، کیسا سچا ہے، کیسی سچی انسانی ہمدردی ہے۔ ایک طرف نشان ہے اُس کی صداقت کا، دوسری طرف اسے کم کرنے کیلئے جو انسانی تدبیر ہے ہمدردی میں وہ اختیار کررہا ہے۔
پس یہی روح جماعت احمدیہ کو بھی اختیار کرنی لازم ہے۔ ہر کوشش کریںکہ نہ پھیلے، لیکن پھیلے گی تو احمدیت کی تائید میں نشان کے طور پر پھیلے گی۔ یہاں نشان کی مخالفت مراد نہیں ہے۔ یہاں انسانی شرافت، انسانی قدروں کی حفاظت ہے جو مذہب کا اوّلین حصہ ہے۔ اس پہلو سے کوشش کریںکہ بیماری ہو تو کالعدم ہوجائے۔اس کو مٹانے کی کوشش بھی کریں اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے وہاں نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک اور اقتباس اس کتاب کا بتاتا ہوں۔
In September 1985 Dr. Hassettime Chief of the laboratory of Bio- Medical Pharmacology at Howard Medical School declared that no less then 10 millioin people were then affected in Africa's AIDS belt.
کہتے ہیںافریقہ میں یہ 1985ء کی بات ہے جب وہاں ایک کروڑ کی بات ہورہی تھی۔ اب معاملہ بہت اوپر جاچکا ہے۔ بعض افریقن مفکرین نے یہاں تک اب سوال اُٹھادیا ہے۔ اب میں نے خودبعض کتابوں میںپڑھا ہے بلکہ امریکہ کے جو سیاہ فام ہیں انہوں نے جو کتابیںلکھی ہیں ان میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ ایک سازش ہے افریقہ کے خلاف۔ یعنی وہ ایڈز کے افریقہ میں پھیلنے کو اپنی کمزوری تسلیم کرنے کی بجائے وہ کہتے ہیں یہ باقاعدہ سازش ہے مغربی دنیا کی اور بعض ایسی کتابیںلکھی گئی ہیں جن میں انہوں نے بہت گہری جستجو کے بعد یہ حوالے دیئے ہیں ۔ فلاں سال میں یہ ٹیکے افریقہ پہنچائے گئے اور تقریباً حکومت کی سطح پر کثرت سے عام کیے گئے کہ یہ فلاں بیماری سے بچنے کیلئے مثلاً کوئی بھی وبائی مرض ہو اس کے ٹیکے ہیں۔ اور وہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ دراصل اس میں ایڈز کے جراثیم عمداً داخل کیے گئے تھے وہ سارے کے سارے ٹیکے جہاں جہاں جس جس جگہ پھیلے ہیں وہاں ایڈز پھوٹی ہے تو یہ توقصے کہانیاںبھی ہوسکتے ہیں۔ میںتو اس کو تسلیم نہیںکرتا، مگر اس کثرت سے پھیل رہی ہے کہ یہاں تک بھی سوچیں چلی گئیں ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے لکھنے والوں کا ، جنہوں نے یہ الزام نہیں بھی لگایا وہ کہتے ہیں آنکھیں بند کرکے مغرب یا ترقی یافتہ قومیں ہماری اس حالت کو enjoyکررہی ہیں اور اندر اندر لطف لے رہی ہیں کہ ان کو مٹ جانے دو صفحۂ ہستی سے سا را افریقہ خالی ہوجائے، پھر ہم جاکر اس کو آباد کریں گے۔ تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ افریقہ خالی ہوجائے مگر سارا افریقہ نہیں جومسلمان حصہ ہے وہ تو اللہ کے فضل کے ساتھ اکثر وبیشتر بچا ہوا ہے کب تک بچتا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ تویہاں تک بات پہنچ گئی ہے جو بیلٹ کے بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے:-
The Congo, Zair, Rwanda, Burundi, Uganda, Kenya, Tanzania, Zambia and Angola. But the cases of AIDS have also been reported in the central African Republic Senegal and Nigeria as well. Dr. Gerry Forwell president of the moral majority whose sunday morning services are televised and watched by millions of Americans said in July 1983, that AIDS was God's punishment for breakig His Laws and ........ of Nature.
اس کا ذکر میںپہلے بھی کرچکا ہوں۔
AIDS is changing not only sexual behaviours, but many other aspects of human relationshiop.
یہ تفصیل اس کی ضرورت کوئی نہیں پڑھنے کی-- یہ لفظ جو خَاسیُٔٗ ہے اس کا کیا ہے لغوی ترجمہ صحیح۔ کُونُوْ اقِرَدَۃً خَاسِئِیْنَ۔ ہیں؟ نہیںذلیل جو ہے لفظ خَسَأَ کو دیکھیں کیونکہ اس کا ایڈز سے بھی کوئی تعلق مل رہا ہے مجھے ۔ اس آیت کا کُونُوْ اقِرَدَۃً خَاسِئِیْن۔ کہ اگر تم نے حیوانوں والی سیرتیں اختیار کرنی ہیں اگر لذت یابی کے شوق میں تم نے بہیمانہ طرزیں اختیا ر کرلینی ہیں اور اعلیٰ روحانی قدروں سے تم بے بہرہ ہو چکے ہو تو پھر یہ جواب ہے۔ تمہاری سزا یہ ہے ۔ کُونُوْ اقِرَدَۃً خَاسِئِیْن۔تم خَاسِئِیْنَ ہوجائوقِرَدَۃً ایسے بندروں کی طرح ہوجائو جو انسانی سطح سے نچلے حصے کی ، جانوروں کی جو سب سے اوپر کی سطح ہے۔ اگرچہ بیچ میں ایک لنک غائب بتایاجاتا ہے۔ مگر بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ بندر سے آدمی پیدا ہوا اگرچہ ہم بعینہٖ اس طرح تو اس کو نہیں مانتے مگر یہ تو ضروری ہے کہ ارتقاء کو مانا جائے۔ ایک قانون قدرت ہے اور قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے انسان سے پہلے جو بھی لنک تھا وہ تو ایک ہومو اریکٹس Homo Arectisکہا جاتا ہے وہ غائب ہوچکا ہے۔ ایسا جانور جو سیدھا چلتا تھا مگر ابھی انسان کہلانے کا مستحق نہیں تھا اور اس سے پہلے کوئی جانور ہے جو بندر اور اس کے درمیان واقع ہوا تھا۔ یہ نہیں ملتے، لیکن جو ملتا ہے آخری وہ بندر ہے۔ پس اگر انسان کو یہ کہا جائے کہ واپس لوٹ جائو تو وہ بندر ہی بنے گا۔ درمیان کی جو غائب لنک ہے وہ تو نہیں بن سکتا، تو یہ عجیب بات ہے کہ ایڈز کی بیماری تحقیق کے مطابق بندروں سے آئی ہے اور بعض بندروں کو یہ کچھ نہیں کہتی، مگر انسان میںمنتقل ہوکر یا بندروں کی بعض دوسری قسموں میں منتقل ہوکر یہ بہت بڑی تباہی بن جاتی ہے۔ اس خیال سے میں نے اس کے اوپر نوٹ لکھا ہوا تھا کُونُوْ ا قِرَدَۃً خَاسِئِیْن۔کہ ہوسکتا ہے اس آیت کا ایک اورمظہر اِس زمانے میں اس طرح پورا ہوا کہ انسان کو ذلیل بندروں یعنی ہر بندر نہیں بلکہ ہر وہ بندر جو ایک ذلیل بندر ہے جس کو اِس بیماری نے پکڑا ہوا ہے ویسے ہوجائو تم بھی۔
A Virus very similar to the one which causes AIDS was endemic amongst African green monkeys.
ایک ایسا ہی وائرس جو بہت ہی ایڈز کے وائرس کے مشابہ ہے اپنی اندرونی بناوٹ وغیرہ کے لحاظ سے انہوں نے مائیکروسکوپ سے دیکھ کر اس کی ظاہری شکل بھی پیش نظر رکھی ہے، اس کی حرکات و سکنات بھی۔ کہتے ہیںایڈز سے بہت مشابہ ہے۔
It's found among African green mokeys. Curiously the infection seem's to have few ill effects in the green monkeys.
یہ عجیب بات کہ جس کو خداتعالیٰ نے بنایا ہے پرورش کیلئے زمین بنایا ہے( اس کو )breeding ground میرا مطلب ہے، اس کو کچھ نہیں کہتی۔ اگر یہ بیماری green monkeyکو ہی کھاجاتی تو آگے پھیلانے کا موجب نہیں بن سکتا تھا۔ اس لئے وہ اس کا پالنے والا، پرورش کرنے والا ، آغاز کرنے والا، لیکن خود اس کے بد اثر سے بچا ہوا ہے۔
Although in a different monkey species......... it has been found to cause an immundoeficiency ............... resembling AIDS.
اگرچہ بعض دوسری قسموں میںجب یہ منتقل ہوئی ہے تو اس کو میکاک ایک بندر ہے اس میں اُسی طرح کی علامتیں اس نے ظاہر کیں جیسا کہ انسانوںمیںایڈز کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
(ڈاکٹر رابرٹ گیلو ۔دی یو ایس ایڈز سپیشلسٹ)
Dr. Robert Gellows, the U.S AIDS specialist believes that the customs amongst some African of eating uncooked green monkey brains, regarded a delicacy in Zair, could well have had a role to paly.
کہتے ہیں کہ یہ جوایک زائیر کے علاقے میں خصوصیت سے بندروں کا دماغ۔(اُن کا)۔ کیاکہتے ہیں اس کو Brainبندر کے Brainکو دماغ ہی کہتے ہیں ناں؟ ہیں؟ یا اور لفظ استعمال ہوتا ہے zair کیلئے۔ کھانے کیلئے بھی دماغ ہی ہوتا ہے۔ ہیں؟ ٹھیک ہے؟ یہ جو پکتے تھے وہاں۔ دماغ تو نہیں کہا کرتے تھے اس کو۔ مغز ۔ یہ مغز لفظ ہے جب کھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے تو اس کو دماغ نہیں کہتے، مغز کہتے ہیں۔ تو بندروں کے مغز کچے کھاجانا بعض قبائل میں ایک بہت ہی اعلیٰ قسم کی Treatسمجھی جاتی ہے یعنی کھانوں میں ایک نہایت چوٹی کا کھانا، جس کے مزے کا مقابلہ بہت کم دوسرے کھانے کرتے ہیں، تو یہ اُن کا بندر کومار کے تازہ تازہ دماغ کچا کھاجانا۔ یہ زائیر کے علاقے میں بہت فیشن ایبل ہے اور کہتے ہیں کہ یہ بعید نہیں کہ اس ذریعہ سے دماغ سے منتقل ہوئی ہو انسان کے اندر، لیکن یہ جو مغز کھانے کاجو طریقہ ہے اس کا جنسی بے راہ روی سے بھی ایک تعلق ہے اور اس میں صرف افریقن کو الگ دکھانا جائز نہیں ہے۔ خاص طور پر یہ جو مشرق بعید کے علاقے ہیں، ان میںہانگ کانگ ۔اور اس کے علاوہ اور کون سی جگہیں ہیں جہاں یہ بیماری ملتی ہے۔ کیا؟ فلپیئنز، تھائی لینڈ وغیرہ میں بھی ہے یہ رواج جو میںکہنے لگا ہوں۔ہیں؟آپ کو پتا لگ گیا ہوگا میں کیا کہنے لگا ہوں۔ ہاں ٹھیک ہے۔ یہاں ٹورسٹ (tourist) جن بہت اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں وہاں سب سے مہنگا کھانا جو ان کی عیاشی کیلئے پیش کیا جاتا ہے، جس کو یہ athodisiacسمجھتے ہیں، یعنی جنسی انگیخت کا ایک بہترین ذریعہ اور اس کی طاقت لینے کیلئے وہ یہ ہے کہ ایک بندر کو Strait-Jacketکرکے ایک وہیل چیئر پر ریسٹورانٹ میںلوگوں کے سامنے لایا جاتا ہے جس طرح وہ رواج ہے ناں کہ زیادہ مہنگا ریسٹورنٹ وہ ہے جو آپ کے سامنے پکتا ہوا کھانا دکھائیں اور وہیں چیزیں ڈالیں، گھی ڈالیں وہاں، سر سرسر کی آوازیں بھی اُٹھیں، خوشبوئیں اُٹھیں اور وہیں پھر گھول مول کے آپ کو کھلادیں۔ یہ بہت مہنگے،اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ کی ادائیںہیں۔ تو وہاں یہ ادا یہ ہے ان کی بندروں والی کہ بندر بیچارے کو جکڑ کے، باندھ کے زنجیروں سے لایا جاتا ہے اور ایک نہایت تیز استرا ساتھ آتا ہے۔ ایک استرا بردار آتا ہے ، وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے یوںتیزی سے اُس کے اردگرد ایک کٹائو دے کے اُوپر کی کھوپڑی اُٹھا دیتا ہے اور بندر بیٹھا آنکھیں جھپک رہا ہوتا ہے بیچارہ اور کچھ نہیں کرسکتا۔ آوازبھی نہیںنکال سکتا کوئی اور پھر وہ پیش کیا جاتا ہے۔ توبراہِ راست چمچوں سے اُس ڈش میںجوکھوپڑی کا نچلا نصف ہے ا س سے وہ لوگ کھاتے ہیں اور بہت مزے اُڑاتے ہیں۔ کہتے ہیں واہ واہ۔ تو بیچارے زائیر کو کیوں بدنام کرتے ہو۔ زیادہ تر امریکن عیاش ہیں جن کے متعلق یہ باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یعنی قطعی طور پر بیان کی جاتی ہیں نہیں۔ مجھے ایک احمدی دوست نے، جس نے خود یہ نظارہ دیکھا ہوا تھا، اُس نے مجھ سے بیان کیا۔ امام صاحب نے بھی سنا ہوگا ضرور۔ ہیں؟کہاں سے؟ اچھا۔ ہمارے امام صاحب عطاء المجیب راشد صاحب جب جاپان ہوا کرتے تھے تو کہتے ہیں کہ ہانگ کانگ سے آنے والے وہاں بھی بتایا کرتے تھے کہ وہاں یہ ایک عام رواج ہے۔ وہ بھی بندر کا دماغ کھاتے رہے ہیں، تو کیا پتا کہاں سے یہ بیماری پھوٹی ہے۔ کس نے دماغ کھایا اور جس کا دماغ مائوف ہی ہوگا اُس نے ہی دماغ کھایا ہوگا ورنہ تو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ کیا کیا حرکتیں ہیں اور یہاں براہِ راست جنسی بے راہروی سے چونکہ تعلق ہے اس لئے میں نے بیان کیا ہے، یعنی حد ہوگئی ہے حیوانیت کی یا جہالت کی اور ایک طرف یہ نعرے کہ انسانی قدروں کی حفاظت، جانوروں کو بچائو، اُن کی تنظیمیں ۔ دوسری طرف یہ اس طرح زندہ جانور کو اس طرح کھوپڑیاںکاٹ کاٹ کر اس زندہ کا دماغ چمچا چمچا کھایا جارہا ہے، عجیب ہی حالت ہے۔ اس لئے سزا جو ہے وہ واجب ہے، عین برمحل ہے۔
آخری حوالہ یہ ہے:-
Much of human kind has now left it's historic home in the west top of Africa. In our migration we have seprated ourselves not only from our ancestors parasites that remain ......... the most part bound irrevocably to the tropics but also from our primate cousins. We have been seprated from these parasites for tens of thousands of years, are no longer resistant to the ravages of the disease they may cause. Dr. J. Levy of the University of California Fransisco Medical Centre makes the similar point. The AIDS virus probably, originally occured in Africa was present in Africa and assisted in balanced pathogenicity in that area.
یہ فضول سی بات ہے۔ بات یہ ہے یہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ ہم پیداافریقہ ہی میںسے ہوئے تھے۔ افریقہ ہی سے آئے تھے۔ زندگی کا آغاز افریقہ میں ہمیں ملا۔ اب اگلی بات جو کہہ نہیں رہا وہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ افریقہ میں ہی مریں گے یہ لوگ۔ یعنی اُسی بیماری سے مریں گے ، جس کا آغاز افریقہ سے ہورہا ہے۔ تو اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ سے بہتراس مضمون کو ختم کرنے کیلئے اور کوئی طریق نہیں ہے۔ ہر چیز نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ پیشتر اس کے کہ موت ان کو دھکیل کے خدا کی طرف لے جائے از خود ہوشمندی کے ساتھ واپس لوٹ آئیں تو اسی میںبھلائی ہے۔
‏ Enver Careem is a Turkish name۔ لیکن چیریم نہیںہے ناں؟ ہیں؟ پھر دوبارہ پوچھنا پڑے گا۔ ہر دفعہ-- کریم-- مجھے نظر تو آگیا تھا ٹرکش سٹائل ہے اس کا ، لیکن چریم سی(C) کو ’’چ‘‘ پڑھتے ہیں یا ’’کے‘‘ پڑھتے ہیں۔ سن رہے ہوں گے۔ ایک حوالہ پیچھے رہ گیا ہے۔ غانا۔ افریقہ کے اندر جو کچھ ہورہا ہے اس میں بھیwith in Africaجو قطعیت کے ساتھ کوائف ہمارے سامنے آئے ہیں چَھپے ہوئے کہ مسلمانوںمیںنسبتاً کم اور غیر مسلموں میں بہت زیادہ۔ یہ غانا کی رپورٹ میں سے میں آپ کے سامنے کچھ رکھتا ہوں۔
In Ghana it is factual that AIDS is spreading faster in Christian dominated populations. From the figures (giving out / given out ہوگا) given out by the National AIDS Control Programme at the end of 1994 the northen region which at least Muslims make about 70% of the communities, the prevalance of AIDS is lowest in the whole country.
کہتے ہیں کہ جو اعداد و شمار غانا کی حکومت کی نمائندہ ایجنسیوں نے باقاعدہ جو اس بات کا اختیار رکھتی ہیں ، اعدادو شمار کو اکٹھا کرنے کا انہوں نے جو شائع کئے ہیں، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ شمالی علاقہ، جہاں مسلمانوں کی تعداد 70فیصد سے زائد ہے وہاں ایڈز کی بیماری کم سے کم ہے سارے ملک میں۔ اُس سے کم ریشو(ratio) ملک میں اور کہیں دکھائی نہیں دیتی اور عیسائی ممالک میں، عیسائی علاقوں میں ایڈز سب سے زیادہ ہے، اس لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ الہام ’’یورپ اور عیسائی ممالک میں‘‘ بڑی صفائی سے پورا ہورہا ہے۔ بہت بڑا نشان ہے۔ ایڈز بعد میں جو مرضی کرے لیکن ابھی بھی جو واقعات رونما ہوچکے ہیں یہ قطعیت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے گواہ ہیں۔ یہ جو وارننگ مَیںدے رہا تھا یہ بھی ذکر ہے۔
However of late in some muslim communities, such as those around Wha AIDS is spreading very fast.
وہاں اب یہ حالت بدل رہی ہے۔ Whaوہ علاقہ ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، لیکن عیسائی اور پیگن(Pagon) قبائل بھی ہیں۔ وہاں معلوم ہوتا ہے intermixingکی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ یہ ایڈز کی بیماری وہاں پھیلنے لگی ہے۔
It's worth to note that in those non-Ahmadi communitites where by the grace of Allah. We are making large converts the prevalance of AIDS and other sexualy transmitted - diseases is4 very low.
یہ پَرَیْوِلَینس (Prevalance)ہے کہ پَرِیْوَیْلَنْس(Prevalance)ہے تلفظ اس کا ۔ کیوں جی؟ ماہرین تلفظ بتائیں ۔ ورنہ وہاں جاکے اپنی کتاب ہی دیکھنی پڑے گی ۔ پَرَیْوِلَینٹ (Prevalent)تو کہتے ہیںناں یا پَرِیْوِلَینٹ (prevalent)ہے۔ میں تو پَرِیْوِلَینٹ(Prevalent)ہی کہتا ہوں۔ وہی وہی۔ میں بھی اسی لئے پَرَیْوِلَینٹ (prevalent)ہی کہہ رہا ہوں، لیکن کوئی پتا نہیں انگریزی جو تلفظ ہے وہ بڑے بڑے کرشمے دکھاتا رہتا ہے۔ اچھا Prevalent among۔ یہ کیا لکھا تھا اس نے ابھی بتاتا ہوں میں۔
It is worth while to note that in those non-Ahmadi Communities where by the grace of Allah, we are making large converts the prevalance of AIDS and other sexualy transmitted disease is very low.
تو یہ بھی اُن کی سعادت پر دالّ ہے۔ وہ علاقے جہاں یہ بیماری کم سے کم ہے ظاہر بات ہے وہ زیادہ شریف النفس لوگ ہیں وہاں زیادہ احمدیت قبول ہورہی ہے بہ نسبت اُن علاقوں کے جہاں ایڈز کی بیماری عام ہے۔
Eastern and Ashanti regions have the highest rate of the incidence of the disease followed by western region. These are mostly Christan area. In the southern sector of the coountry.
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ Easternاور Ashanti regionمیں،جہاں ایڈز سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے یا جس کے واقعات زیادہ کثرت سے ملتے ہیں وہ عیسائیوں کی ڈومینیشن یعنی عیسائیوں کے غلبہ کا علاقہ ہے۔ جنوبی حصے میں.
the centre region which has the highest muslim population particularly Ahmadies as the least prevalent of AIDS.
فقرہ کچھ اُلجھا ہوا ہے ، مگر ہے
‏ As should be considerd is knownیہ ہونا چاہئے تھا as the least prevalance of AIDS.یہ فقرہ کچھ missingہے۔ دیکھتا ہوں۔ دوبارہ پڑھتا ہوں ۔ شاید میں پہلے کسی خاص لفظ کو نظر انداز کرچکا ہوں۔
In the southern sector of the country the central region which has the highest muslim population, particularly Ahmadies as the least prevalance of AIDS.
یہ فقرہ، لفظ کوئی چھوٹا ہوا ہے……
بہر حال مراد یہ ہے ۔ اس علاقے میں جہاں احمدیت کثرت سے پائی جاتی ہے وہاں ایڈز سارے ملک میں کم سے کم ہے۔
The National average of AIDS prevalance is estimated around 4.5 percent.
یہ بہت زیادہ ہے غانا کیلئے، جہاں جورواجی عادات کی وجہ سے میں نے بیان کیا تھا ناں خطرہ ہے مسلمانوں میں بھی، دوسرے افریقنوں میں بھی یہ بات پھیل جائے۔ تو کافی خطرناک حالات ہیں۔
The nothern region is lowest with about 1.5 percent. Some areas of Ashanti and Eastern region are as high as 14.7 percent.
یعنی ان عیسائی علاقوں میں 14فیصد تک ایڈز کی بیماری کے آثار ملے ہیں۔
On the African same the tourist countries like Senegal, Iverycost the Gambia, Kenya, Tanzania, Zimbabwe, Zaire, Uganda, etc. have AIDS prevalance between 8 and 25 percent, as oft-quoted figure in publication.
کہتا ہے وہ علاقہ جو ٹورسٹ کی آماجگاہ ہے اور جس کو ایڈز بیلٹ کہتے ہیں ۔ یہ ہمارے غانا کے محققین نے یہ کہا ہے کہ یہ خاص طور پر ٹورسٹس کی وجہ سے پھیلی ہے بیماری۔ مقامی افریقن اس کے اتنے ذمہ دار نہیں جتنے باہر سے آنے والے، جو عیاشی کی خاطر ان افریقی ممالک میں پھرتے ہیں۔ انہی کی لائی ہوئی بیماری ہے اور وہی پھیلاتے جاتے ہیں اس کو۔
HIV prevalance among pregnant women in selected capital cities in East and central African Countries are officially given as follows.
جو حاملہ عورتیں ہیں جن کے اندر یہ ایڈز کا وائرس پایا گیا ہے اُس کی جو نسبتیں ہیں وہ مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوںجو انہوں نے مجھے بھجوائی ہیں اس سے آپ کو اندازہ ہوجائیگا کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے۔ کہاں زیادہ بیماری ہے، کہاں کم بیماری ہے۔
کنِگالی میں 32فیصد عورتوں میں یہ بیماری پائی گئی ہے بہت ہی زیادہ خوفناک فگّر figureہے۔ 32فیصد حاملہ عورتیں اس بیماری کی کیریئر بنی ہوئی ہیں اور یہ وہ علاقہ ہے کنگالی کاجہاں کم سے کم مسلمان پاپولیشن ہے۔ کم سے کم مسلمان پاپولیشن، زیادہ سے زیادہ ایڈز۔ اب ساری فگرز پڑھنے کی بجائے آخری پہ آتا ہوں۔ سب جگہ یہی چیز ہے اصل میں۔ سب سے زیادہ پاپولیشن داراسلام میں ہے جس کو یہ ’’داراسلام‘‘ پڑھتے ہیں اصل میں تو ’’دارالسّلام‘‘ ہے۔ تنزایہ کا دارالخلافہ۔ اس میں 12فیصد ہے۔ وہاں بھی بہت زیادہ ہے، مگر یہ وہ علاقہ ہے جہاں ان سب جن کے بھی اعداد وشمار دیے گئے ہیں۔ 8-7-6-5-4-3-2-1۔ ان میں سب سے زیادہ مسلم پاپولیشن کی نسبت داراسلام میں ہے اور ایڈز کی occurrenceسب سے کم ہے۔جہاں سب سے کم مسلمان پاپولیشن ہے وہاں ایڈز کی occurrenceسب سے زیادہ، تو وہ وہیریWhery کی جو خرافات تھیں اُن کو بالکل واقعات نے، اعداد و شمار نے اُلٹا کے رکھ دیا ہے۔ کہتے ہیں۔ یہ فگرز figuresجو دی گئی ہیں۔
These are cities of the countries with the highest AIDS cases in the world. The data are taken from the publication, AIDS in Kenya.
‏ ’AIDS in Kenya‘ عنوان ہے کتاب کا، لیکن اس میں اِرد گرد کے ممالک اور ایڈز بیلٹ کا ذکر بھی آگیا ہے۔ یہ کتاب شائع کی ہے’Kenyan National AIDS Control‘ نے اور پرنٹ کی ہے Denin office suppliers ENT۔ اب جی ایڈز کو دفنائیں اور اس کو دفنانے کیلئے پوری کوشش کریں۔ اب ہم واپس۔ اچھا اب ایک اور مسئلہ بھی ضمناً حل ہوگیا۔ ترکی زبان میںجو ’’C‘‘ جہاں ’’چ‘‘ کی آواز دیتی ہے وہاں اس کیلئے ایک چھوٹا سا شوشہ ’’د‘‘ کی طرح کا نیچے ڈالا ہوتا ہے انہوں نے یوں کرکے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں اس کو’’ چ‘‘ پڑھو اور جہاں یہ نہ ہو جیسا کہ Enverکیا نام تھا اس کا۔ ہیں؟ Carima۔ ہاں وہاں ’’C‘‘ کے نیچے ’’چ‘‘ کا نشان نہیں ہے۔ ہاں نہیں ہے۔ بس پھر اس کو کریم ہی پڑھنا ہے اور K is equal to k ۔ یہ تو ہوگئی K is equal to Kجو کہنا چاہتے ہیں معلوم کرنے کیلئے۔ ایک تانتا لگا دیں آدمیوں کا۔ جو بات پوچھ رہیں بتاتے ہی نہیں ہیں۔ یہ جواب چاہیے تھا کہ ’’C‘‘ اگر اس طرح لکھا جائے تو ’’چ‘‘ پڑھی جائے گی اس طرح لکھا جائے تو Kپڑھی جائے گی اس کی جگہ kکا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اب، مگر آپ بھی رشتہ دار ہیں۔ آپ زیادہ جانتے ہوںگے۔ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ٹھیک ہے۔اب اگلی آیت شروع کرتے ہیں ورنہ یہاں سے نکلنا مشکل ہوگا۔اِن خفتم والی آیت۔ آیت 4ہے بسم اللہ سمیت۔ اب ہم آیت 5پر پہنچ رہے ہیں سورۃ النساء کی۔
اَعُوذُ بِاللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم ۔ بِسْم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
وَاٰتُو النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً۔ فَإنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِٓیْئًا مَّرِٓیْـًٔا۔(سورۃ النساء :۵ )
اٰتُو النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنعورتوں کو ان کے مہر نِحْلَۃًدیا کرو۔نِحْلَۃًمیں دو معنے بیک وقت پائے جاتے ہیں۔ ایک ہیں خوشی کے ساتھ اور ایک ہے فرض کے طور پر ، تو یہ عجیب قرآن کریم نے لفظ چنا ہے اس مضمون کے بیان کیلئے۔ جس میں دونوں بیک وقت معنے کہ بظاہر ایک دوسرے کے متضاد لیکن یہاں اکٹھے ثابت آتے ہیں۔ ایک فریضہ پورا اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ انسان دے کسی کے سر پر مارے کہ لوپکڑو دفعہ ہویہاں سے اور اور ایک یہ بھی کہ خوشی اور عزت کے ساتھ اور جس طرح فرمایا ہے کہ اگر تم نے ان کو چھوڑنا ہے تو احسان کے ساتھ چھوڑو، تو اس لفظ نِحْلَۃًنے ان دونوں باتوں کو اکٹھا کردیا ہے اور فرمایا کہ صدُقات جمع ہے صَدُقَۃ کی یا اور بہت سے الفاظ ایسے ہیںجو حق مہر کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور تلفظ مختلف ہیں لیکن ان کی جمع یہی آئے گی۔ منجدنے جو صَدُقٰتِھِنمیں واحدالفاظ جن کی جمع یہ بیان کی ہے وہ یہ ہیں۔ الصَّدْقَۃُ- الصُّدْقَۃُ- والصَّدُقَۃُ والصُّدُوْقَۃُ- والصَّدَاقُ والصِّدَاقُ- اَصْدِقَۃ و الصّدُوْق۔ان سب لفظوں کی جمع منجد میںاَصْدِقَۃ اور صدُوْق بتائی ہے حالانکہ قرآن کریم نے لفظ صَدُقٰتِھِناستعمال کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صَدُقات کے موقعہ پر بہت سے مستشرقین شبہوں میں مبتلاء ہوجاتے ہیں کہ کیا مطلب ہے اس کا۔ کیا مضمون ہے۔ حق مہر کاکیسے استعمال ہوا، لیکن لین(Lane)جو ایک مغربی محقق ہے جس نے ایک بہت ہی اعلیٰ عربی کی ڈکشنری لکھی ہے۔ اُس نے اِس کی تحقیق زیادہ بہتر کی ہے اور وہ یہ لکھتا ہے کہ صَدُقَہ۔ یہ حجاز کی dialectہے اور اس کی قرأت صدِقۃ تمیم کی ڈائلیکٹ ہے اور صَدُقَۃ کی جمع صَدُقَات آتی ہے۔ اس لئے منجد نے اگرچہ نہیں لکھی، مگر لِین نے لکھی ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ دراصل اہل حجاز کی ڈائلیکٹ میں مہر کیلئے جو مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ وہاں صدُقہ ہی کہتے تھے یا کہتے ہیں اور اس کی جمع صَدُقات ہی آتی ہے، اس لئے بالکل قطعی بات ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں صدقہ سے مراد مہر ہیں اور تمام مسلمان مفسرین بھی اور ترجمہ کرنے والوں نے بھی بلا تردّد ، بلا شبہ اس کا ترجمہ مہر ہی کیا ہے، مگر جو مستشرقین جو جگہ جگہ اسلام کے خلاف کوئی بہانہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں وہ یہاں بھی اَڑ کر بیٹھ گئے ہیں یہ پتا نہیں کیسے استعمال ہوگیا۔ صَدُقۃ کا تو مطلب مہر نہیں ہوتا۔ ایک نے بہت فراخ دلی کی ہے کہ بس اس جگہ ہی ہے صرف مہر ورنہ مہر نہیں۔ یہ غلط کہہ رہے ہیں۔ تمام عرب ڈکشنریاں گوا ہ ہیں اور خاص طور پر لین کی گواہی کے بعد تو کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی، کیونکہ وہ غیر مسلم ہے، محقّق ہے۔ انہیں کابھائی بند ہے یعنی اہل مغرب میں سے ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ تفصیل سے وہ اس مضمون کی تحقیق کا حق ادا کرتا ہے۔
فَإنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ۔پس اگر وہ دلی خوشی کے ساتھ۔ طِبْنَ کہتے ہیں ۔ طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ۔ جیسا کہ بیان پڑھا تھا پہلے ۔ جو کسی کو خوش آئے، جو راس آجائے بات۔ اپنی ایسی دلی خوشی کے ساتھ جس پہ کوئی جبر کا سایہ تک نہ ہو۔ ایسی حالت میں اگر عورتیں اس میںسے کچھ چھوڑدیں۔ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا از خودفَکُلُوْہُ ھَنِٓیْئًا مَّرِٓیْـًٔا۔ تو اسے خوب رچتا پچتا کھائو۔ یعنی کوئی تردّد کی ضرورت نہیںہے کھائو پیو مزے اڑائو اس کے۔ تمہیں کوئی اس پہ کسی قسم کا تردّد نہیںہونا چاہئے۔ جو اہل لغت اور مفسرین کے حوالوں سے پہلے میں عمومی طور پر آپ کویہ بتادیتاہوں کہ یہ مضمون کیوں بیان ہونا ضروری تھا ۔
اوّل تو اس لئے کہ جو لوگ صدقات یعنی خوشی کے ساتھ اپنی بیویوں کو صدقہ-- صدقہ نہیں بلکہ حق مہر دیتے ہیں۔ ان کا ایک طبعی ردّعمل عورتوں میںیہ پایا جاتا ہے کہ ان کو اس حق مہر میں حقیقتاً کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ جو خاوند ایسی محبت کرنے والا ہو۔ اس قدر شوق کے ساتھ اور پیار کے ساتھ عورت کے حقوق ادا کرتاہے۔ یہ امرواقعہ یہ ہے کہ عورتیں بہت فراخ دلی کا اظہار کرتی ہیں اور بسا اوقات کہتی ہیں کوئی ضرورت نہیں ہے ایک ہی چیز ہیں ہم میں کون سا فرق ہے ۔ تم بیشک اسے خود استعمال کرو۔ ایک یہ پہلو ہے جو یہاں بیان کرنا ضروری ہے، کیونکہ پہلے انصاف کا ذکر گزرا ہے۔ عورت کے حقوق انصاف کے ساتھ ادا کرو۔ انصاف کے بعد قرآن کریم احسان کا مضمون بیان کرتا ہے اور یہاں انصاف اور احسان کو ایسا سمویا گیا ہے کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کی شان پہلے سے بھی دوبالا ہوکر سامنے آتی ہے لفظ وہ استعمال کیے، نحلۃ جس میں فرض بھی شامل اور احسان بھی شامل اور فرض کی بنیاد ہی پر احسان قائم ہوا کرتا ہے۔ تو فرمایا ہم جو تم سے توقع رکھتے ہیں کہ تم عدل کا سلوک کرو تو عدل نہیں عدل سے بھی بڑھ کر سلوک کرو۔اور وہ یہ ہے کہ جو فریضہ تم پرعائد کیا گیا ہے اس کو احسان کے رنگ میں ادا کرو۔ اس خوشی کے ساتھ ، اس خوش خلقی کے ساتھ کہ اس کا عورت کے اوپر نیک اثر پڑے۔ اگر یہ کروگے تو تم جان لو گے کہ ھَلْ جَزَائُ الِاحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانکہ احسان کی جزاء احسان کے سوا کوئی نہیںہوا کرتی۔ تمہارے اپنے گھر کا ماحول اچھا ہوگا۔ تم خود اس احسان کابدلہ اپنی بیویوں سے پائو گے۔ معاً بعد فرماتا ہے۔ فَإنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِٓیْئًا مَّرِٓیْـًٔا۔۔ پس اگروہ تمہارے احسان کے نتیجے میں ----- یہ باتیں اس طرح کھول کر تو بیان نہیں کی گئیں، لیکن طبعی نتیجے کے طور پر از خود اِس سے اُچھل رہی ہیں یہ باتیں۔ پس وہ اس کے مقابل پر تم سے کیا سلوک کریں گی۔اگر وہ اپنے شوق سے، محبت کے ساتھ، دلی رضامندی سے ، بغیر جبر کے خود کچھ چھوڑ دیں تو اسے کھائو پیو ، پھر تردّد نہ کرنا۔
دوسرا پہلو اس طرزِ بیان میں یہ ہے کہ مسلمانوں میں ہدیہ دینے کے بعد اسے واپس لینے کے خلاف آنحضرت ﷺ کی یہ ہدایت ایسی طور پر اثر انداز ہوچکی تھی کہ جو تحفہ دے کے واپس لیتا ہے گویا اُس نے قے چاٹ لی۔ اس کے خلاف طبیعتوں میں بے حد کراہت پائی جاتی تھی اور یہ جو مضمون ہے ہم نے حق دیا احسان کے طریق پر دیا بلکہ جتنا دینا تھا اس سے بھی گویازیادہ بڑھ کر دیا اور عورتیں کہتی ہیں لے لو بیشک۔ اس کے خلاف طبیعتوں میں ایک طبعی تردّد پایا جاتا تھا۔ اس لئے مسلمان سوسائٹی کو جو عورت کے حق میںظلم کرنے والااور یتیموں کے مال کھینچنے والا۔ اس کے طور پر جو لوگ پیش کرتے ہیں کہ عورتوں کی قیمت کوئی نہیں تھی۔ اُسے بیچو، جو مرضی کرو، بالکل اس کے برعکس مضمون ہے۔ پہلے فرمایا عدل کرو اور ان کے اموال کی حفاظت کرو۔ پھر فرمایا تم سے ہمیں توقع اس سے بڑھ کر ہے اور تم ہو ہی ایسے کہ تم جو کچھ بھی ان کو دو گے اگر تم محمد رسول اللہ ﷺکے سچے غلام ہو، تو فریضہ بھی ادا کروگے تو احسان کے رنگ میں ادا کرو گے اور اگر وہ جواباً احسان کا سلوک کریں، تو ہم جانتے ہیں کہ (تمہاری طبیعتیں بہت وسیع حوصلہ ہیں) تم بہت وسیع دل کے لوگ ہو۔ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہوچکے ہو ، تم اسے لینا پسند نہیں کرو گے۔ ایسی سوسائٹی جو اُس غربت کے مقام پر ہو جس وقت آنحضرت ﷺ کی سوسائٹی تھی، جس وقت یہ آیتیں نازل ہورہی تھیںاُس سے اتنا بڑا وسیع القلبی کا مظاہرہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور ایسے اعلیٰ اخلاق پر قائم تھے کہ بس ہم نے دے دیا اب ہم نہیں لیں گے۔ چنانچہ جو شانِ نزول بیان کی جاتی ہے اگرچہ ایک آدھ واقعہ سے ان باتوں کو باندھا جاتا ہے، مگر یہ عموماً مسلمانوں کے دل کی حالت تھی جس کا اظہار ہوا ہے۔ تو یہ دوسری وجہ ہے جو اس آیت کو یہاں یوں پیش کیا گیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ان کے اندر سرایت کرچکی تھی۔ وہ دی ہوئی چیز کو واپس نہیں لے سکتے تھے۔ تیسری بات اس میں جو خاص طور پر قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ ھَنِٓیْئًا مَّرِٓیْـًٔا۔یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ 32روپے حق مہر یا 4درھم یا 40درھم۔ اُن کی عقلیں کہاں جاتی ہیں جب وہ اس آیت کو پڑھتے ہیں۔ وہ مہر جو تم دو اس میں سے کچھ سارا نہیں ۔ کچھ وہ واپس کردیں ۔ عیش کرو پھر تم۔ خوب کھائو پیو۔ 32میں سے 4روپے دے دے واپس کوئی۔تو ھَنِٓیْئًا مَّرِٓیْـًٔا۔ کہاںسے ہوجائے گا۔ ادنیٰ بھی عقل نہیں کرتے کہ اس سے صاف ثابت ہے کہ حق مہر ایک اتنی بڑی رقم ہے جس میں سے کچھ اگر عورتیں چھوڑیں تو وہ بھی اتنی بڑی چیز ہے کہ تمہیں ایک دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ باقی باتیں انشاء اللہ کل ۔ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ11؍رمضان بمطابق یکم فروری 1996ء
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وَاٰتُو النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً۔ فَإنْ طِبْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سورۃ النساء :۵ )
اس کے متعلق عمومی طور پرتو اس آیت کے مضمون پر میں گفتگو کرچکا ہوں پہلے۔ اب میں جو لغت کے اور تفاسیرکے حوالے میرے سامنے ہیں، ان کے حوالے سے بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ اکثر تفاسیر میں زیادہ تر مختلف الفاظ کی بحث ہے جن میں نِحْلَۃً، طِبْنَ، ھَنِٓیْئًا، مَرِٓیْـًٔا۔ یہ چار لفظ ہیں جن پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ نحلہ کا جو میں نے ترجمہ آپ کے سامنے رکھا تھا، سب لغت کی کتابیں اور تفاسیر، اس پر تقریباً متفق ہیں کہ نحلہ کا معنی خوشی سے دینا بھی ہے اور فریضہ کے بھی ہیں ۔ اس لئے اُن سب لغت کے حوالوں کو دہرانے کی یہاں ضرورت نہیں۔ النحلۃ، العطائ، الفرض عطاء اور فرض دونوں معنی نحلہ میں پائے جاتے ہیں ۔ النحل شہد کی مکھی کو بھی کہتے ہیں (یعنی وہ تو کہتے ہی ہیں) ’’بھی‘‘ غلط لفظ بولا گیا ہے۔ النحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جس میں یہی ن ح ل یہ تین بنیادی حروف اس میں مشترک ہیں ، باقی سب وہی ہیں جو پہلے باتیں ہوچکی ہیں۔ لسان العرب نے بھی یہی مضمون بیان کیا ہے۔ لسان العرب نے وہی دونوںباتیں لکھی ہیں۔
مَہر کو نحلہ کے طور پر دینا اُن کے نزدیک ایسی بات ہے جیسے کہا جائے کہ ایسی چیز دی جائے جس کے بدلے کسی چیز کی خواہش نہ ہو۔ یہ مختصر سا ایک نیا معنی اس میں داخل کیا گیا ہے۔ یعنی نحلہ فریضہ بھی ہے اور ایسی طوعی عطاء کو کہتے ہیںجو تحفے کا رنگ رکھتی ہو نہ کہ اس کے بدلے کچھ، کسی چیز کی خواہش ہو۔ باقی سب لغت کی کتابیں اور تفاسیر اسی بحث میں الجھی ہوئی ہیں۔ اور ماحصل وہی ہے ’دو لفظوں میں‘ کہ نحلہ عطا کو بھی کہتے ہیں اور فریضہ کو بھی۔ وہ مال جو بطور فرض دیا جائے اور وہ مال جو محض تحفۃً پیش کیا جائے۔
اب ھَنِٓیْئًا، مَرِٓیْـًٔاپر گفتگو ہوئی ہے بہت، اور یہ وہ عام معانی ہیں جو اردو میں رائج ہیں رچتا پچتا۔ شوق سے خوشگوار طریق پر ایسا کھانا جو تمہیں مفید ہو، جس کا نگلنا آسان ہو۔ جو تمہارے جسم کیلئے بھی فائدہ مند ہو، روح کیلئے بھی بشاشت پیدا کرے۔ خلاصہ یہی ہے ساری بحث کا۔ تمام اہل لغت نے مختلف پہلوئوں سے ھَنِٓیْئًااورمَرِٓیْـًٔا کی الگ الگ بحث بھی اٹھائی ہے اکٹھی بھی۔ مثلاً مفردات امام راغب میں لکھا ہے ’’ہر وہ چیز جس کے حاصل کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو اور جس کے نتیجہ میں کوئی برائی نہ ہو۔ یہ لفظ دراصل خوراک کیلئے بولاجاتا ہے۔ ھَنِٓیْیُٗ خوشگوارکھانے کوکہتے ہیں جو بغیر تکلیف کے کھایا بھی جائے یعنی کھانے میں کوئی دقت نہ ہو اور نگلنے میںکوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اور اس کے علاوہ لذیذ بھی ہو‘‘۔ اور لکھتے ہیں کہ ھَنِٓیْئًا، مَرِٓیْـًٔا کے کلمات کھانے اور پینے والوں کیلئے بطور دعا بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کہ تم کھانا کھائو جو تمہیں رچے پچے اور اس کا کوئی نقصان تمہیں نہ پہنچے۔ھَنَیَٔ کا مطلب ہے اچھا کھانا تیار کیا۔ھَنَیَٔ الطعامُ الرجلَ کا مطلب ہے کہ کھانا اسے راس آیا اور اچھا لگا۔ ھَنَئَہٗ کا مطلب ہے اسے کھلایا۔ھَنیٔ الطعام کھانا بگڑ گیا ہو تو اسے ٹھیک کیا جائے۔اس کوکہیں گے ٹھیک کرنے کوھَنیٔ الطعام کہیں گے۔اس نے کھانے کو ٹھیک ٹھاک کیا۔
مَرَئَکی بحث میں زیادہ تر گلے سے اترنے کے مضمون کو پیش کیا گیا ہے۔ کھانا اچھا پکا ہو اور گلے سے آسانی سے اتر جائے بغیر کسی دقت کے۔ تو مَرَئَکا معنی ہے ساغ من غیر غصص کہ کھانا اچھا لگا اور گلے میں پھنسا نہیں۔ اس کی شان نزول بھی ایک بیان کی گئی ہے۔ تفسیر صافی میں لکھا ہے فکلوا ھَنِٓیْئًا مَّرِٓیْـًٔا سائغًا من غیر غصّ وربما یغرق بینھما۔ بتخصیص ھنییٔ بما یلذہ الانسان والمریٔ بما یحمدعاقبتہ۔ اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ سائغًا وہ کھانا ہے جو گلے میں نہ پھنسے۔ دونوں لفظوں میں یوں فرق کیا جاتا ہے کہ ھنیٔ وہ چیز ہے جس سے انسان لذت پاتا ہے اور مریٔ وہ چیز ہے جو انجام کار اچھی ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ لوگ اس بات کو گناہ سمجھتے تھے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو جو کچھ دے چکا ہے وہ اس سے واپس لے۔ یہ وہی بات ہے جو کل میں بیان کرچکا ہوں کہ تردّد تھا ایک دفعہ تحفہ دے دیا جائے ،جب تحفہ کہا جائے تو پھر وہ واپس لینابہت برا سمجھا جاتا تھا اسلام میں۔
اب ایک اور بحث یہ اٹھی ہے کہ مخاطب کون ہے؟ قتادہ اور زجاج اور نخفی کے نزدیک خطاب خاوندوں سے ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی خاوندوں ہی سے خطاب ہے اوردوسرے کہتے ہیں کہ عورتوں کے ولیوں سے خطاب ہے۔ ولی جو بھی ہیں کیونکہ عرب زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو مہر نہیں دیا کرتے تھے۔ اگر کسی کے ہاںبیٹی پیدا ہوتی تو اسے مبارکباد دیتے ہوئے طعن کرتے تھے۔ یہ فضول بحث ہے۔ظاہر ہے مخاطب سوسائٹی بھی ہے اور خاوند بھی ہیں۔ حزرمی سے مروی ہے کہ عام رواج تھا کہ ایک شخص کسی کو اپنی بہن دے دیتا اور خود اس کی بہن سے شادی کرلیتا۔ یہ لوگ مہر کا بڑا حصہ انہیںنہ دیتے تھے۔ یہ بات ہمارے ملک میںآج تک رائج ہے۔ ہندوستان میں بھی ہے پاکستان میں بھی۔ اور اس کو وٹّے سٹّے کی شادی کہتے ہیں۔ اور اُس سے بہت بڑے نقصانات پہنچتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے سختی سے منع فرمایاہے اور یہ مہر کو بچانے کی خاطر ایک ترکیب بھی تھی۔ کہتے تھے دونوں فریق ایک دوسرے کو کچھ نہ دیں اور ایک نے اپنے گھر کی بیٹی دوسرے کو دے دی، دوسرے کے گھر کی بیٹی لے لی۔ اور یہ جو روح ہے کہ مہر اُن کا حق ہے جن کی شادی ہورہی ہے، یہ اس کی روح کے بالکل منافی بات ہے۔ مہر خاندانوں کا حق نہیں ہے یا ولی کا حق نہیں ہے، مہر اس عورت کا حق ہے۔ اسی لئے فرمایا جو وہ خوشی سے واپس کرے اس کو بیشک استعمال کرو مگر کسی اور کا حق نہیں ہے کہ اس کی طرف سے کسی کو واپس کردے۔ سوائے ایسی صورت کے بعض دفعہ ولی کو اپنے زیر کفالت یا اپنی بچیوں وغیرہ کی طرف سے ایک اَن کہی اجازت ہوتی ہے۔ اُن کا رویہ آپس میں ایسا محبت کا ہوتا ہے اور اعتماد کا کہ بسا اوقات بچیاں کہتی ہیں جو ولی ہمارا چاہے وہی فیصلہ ہمیںمنظور ہے۔ ایسی صورت میں ولی کو بھی اجازت ہوتی ہے مگر بنیادی حق ولی کا نہیں ہے، بنیادی حق عورت کا ہے اورولی کا اُس حد تک ہے جس حد تک عورت اُس حق کو ولی کی طرف منتقل کرے۔
اب فقہی بحثیں جو اٹھائی گئی ہیں اُن میں ایک یہ ہے کہ کیا عورت مہر وصول کرنے سے پہلے اس پر تصرف کرسکتی ہے؟ یہ بہت کسی کی باریک نظر گئی ہے اس بات پر مثلاً ممکن ہے ایک عورت نے مہر کو یقینی آمد سمجھتے ہوئے کوئی قرض اٹھالیا ہو کسی سے اور ذہن میںیہ ہو کہ میں مہر سے واپس کردوں گی۔ یہ بحث فقہاء نے اٹھائی ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ وہ اُسے وصول کرنے سے قبل بھی مصرف میںلاسکتی ہے۔ تاہم بعض نے کہا ہے کہ وصول کرنے کے بغیر مصرف میں نہیںلاسکتی۔ جیسے ہاتھوںہاتھ تجارت۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر عورت مہر کا مطالبہ دلی خوشی سے ترک کردے تو خاوند سے اس کی ادائیگی ساقط ہوجائے گی۔ یہ جو بحث ہے اس کے متعلق (کہ ساقط ہوجائے گی) یہ محل نظر ہے۔ اور مختلف مسلمان فقہاء نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ کیونکہ عورت جو خوشی سے ادا کردے وہ آپ کو کہہ دے۔ اس کی خوشی کا تعین کیسے ہوگا۔ کس طرح پتا چلے گا کہ اُس نے کسی خاوند کے دبائو کے نتیجہ میں ایسا کیا ہے یا یہ دیکھ کر کہ خاوند نے دینا تو ہے ہی نہیں۔ کیا جھگڑا روز مرہ کا شروع کریں۔ چلو معاف ہی کردیتے ہیں۔ اس لئے قاضی کا فیصلہ ہوگا۔ اورآخر وقت تک عورت مختار ہے اس بات پر کہ اگر وہ پہلے کہہ بھی چکی ہو تو پھر وہ واپس دوبارہ کہہ دے کہ نہیں مجھے دو۔ اس کی ایک مثال قاضی شُریح کی عدالت میںہونے والے ایک مقدمے کی صورت میں دی گئی ہے۔
امام شعبی کہتے ہیں ایک عورت اپنے مرد کے ساتھ قاضی شُریح کے سامنے پیش ہوئی۔ اور اپنے تحفے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ یہاں تحفہ سے مراد یہ ہے کہ وہ جو حق مہر تھا جو اس نے کہہ دیا تھا کوئی بات نہیں، بیشک تم رکھو۔ قاضی شریح نے مرد سے عطیہ واپس کردینے کو کہا۔مرد کو کہا واپس کردواس کو۔ مرد نے جواب دیا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا فان طبن لکم عن شیٔ کہ اگر یہ دلی خوشی کے ساتھ کچھ اُس میںسے جومہر کا فریضہ ہے تمہیں واپس کردیں تو تم استعمال کرو اس کو۔ قاضی نے کہا اگر اس نے دلی خوشی سے دیا ہوتا تو واپسی کا مطالبہ نہ کرتی۔ واپسی کا مطالبہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ دلی خوشی نہیں تھی۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے قاضیوں کو لکھوا بھیجا تھا کہ بعض دفعہ عورتیں دلی خوشی سے اور بعض دفعہ کسی خوف کی وجہ سے تحفہ وغیرہ دیتی ہیں۔ پس اگر کوئی عورت اسے لوٹانا چاہے تو اسے اس کا حق ہے۔ ان معنوں میں کہ اگر وہ لوٹانے کا کہتی ہے تو یہ بھی تو احتمال اٹھ کھڑا ہوگا کہ اس نے دلی خوشی سے نہ دیا ہو۔ اس لئے قاضی کا کام ہے یہ فیصلہ کرے ، اسے سرسری طور پر ردّ نہیں کرسکتا کہ چونکہ عورت نے کہہ دیا تھا کہ لے لو اس لئے وہ بات پختہ ہوگئی ، ثابت ہوگیا کہ دلی خوشی سے ایسا کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک دفعہ ایک احمدی مخلص بزرگ صحابی پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میری بیوی نے مجھے حق مہر معاف فرماد یا ہے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ آپ نے اُس کو دے دیا تھا اور پھر واپس اس نے واپس کیا ہے؟ توا نہوں نے کہا نہیں نہیں یہ نہیں بلکہ یونہی باتیں ہورہی تھیں تو انہوں نے کہا کہ میری طرف سے معاف ہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ درست طریق نہیں ہے۔ تم اس کوحق مہر دوپھر وہ واپس کردے تو ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ خوشی خوشی دوڑے گئے ، کہیں سے قرض اٹھایا جاکے بیوی کو دیا کہ یہ لو تمہارا حق مہر۔ واپس کرو۔ کہا کیسا واپس، بھاگو یہاں سے۔ بیچارے سر پھینکے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی خدمت میں حاضر ہوئے ، میں کیا کروں؟ تو دلی خوشی کے مواقع سب بتادیتے ہیں کہ دلی خوشی کاموقع ہے یا ایک مایوسی کے عالم میں نہ آنے والی رقم کے متعلق کہہ دیا کہ چلو معاف۔ تو قرآن کریم نے کیسی باریکی سے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ امام جلال الدین سیوطیؒ۔ وہی یہ پرانی باتیں دہرائی جارہی ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں۔
اب مہر کتنا ہونا چاہئے؟ یہ بحث بھی بہت فقہاء نے اٹھائی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مہر کی تعیین اور اُس زمانہ میں جو رواج تھا اس کے متعلق فرمایا ہے ’’ ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کیلئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے۔ صرف ڈراوے کیلئے لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اُس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں۔ نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی۔ میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقرر شدہ نہ دلایا جائے۔اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون۔‘‘
یہ بہت اہم فیصلہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برضا و رغبت مرد نے دیا تھا یا نہیں۔ یہ ایک بالکل نیانکتہ ہے جو اٹھایا گیا ہے اور اس آیت کی ایک بہت ہی لطیف تفسیر ہے جس پر پہلے کبھی کسی کی نظر نہیں پڑی۔ نحلۃً میں مرد جو دینے والا ہے اُس کی طرف بھی ضمیر جاتی ہے کہ اس نے اپنی دلی خوشی سے دیا تھا۔ یعنی مہر کا تقرر کسی رواج وغیرہ سے یا دکھاوے سے متاثر ہوکر نہیں بلکہ اپنی قلبی پوری رضامندی سے اُسنے ایک چیز مقرر کی تھی۔ یہ ہے اہم نکتہ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اٹھا یا کہ وہ رواجی یا دکھاوے کے مہر جو بعض قوموں میں رائج ہوجاتے ہیں اس لیے کہ کوئی طلاق نہ دے سکے۔ اس لئے کہ اُس پرایک دبائو رہے بیوی کے خاندان کا۔ تو جہاں بیوی کے حقوق کی حفاظت فرمائی گئی ہے کہ اُس کی دلی رضامندی شامل ہو، اُسی طرح خاوند کے حقوق کی بھی حفاظت فرمائی گئی ہے کہ اس کی دلی رضامندی شامل ہو۔ چنانچہ ایسے حق مہر فرضی بہت سے ملتے ہیں جن میں کئی کئی لاکھ لکھوادیا جاتا ہے اور عملاً وہ دینے کی نیت نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ ایسے فرضی حد سے بڑھے ہوئے مہر جب نکاح کے دوران میرے سامنے آتے ہیں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میں نے ان کو کہا ہے، نہیں اس کو تھوڑا کرو، مناسب نہیں ہے۔ تمہاری حیثیت اتنی نہیں ہے، اِس کے مطابق کرو تاکہ حقیقی مہر بن جائے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ میں نے مہر کی تعیین چھ ماہ سے ایک سال تک کی آمد کی کی ہے۔ (آگے ختم۔ الگ آئے گی شاید۔۔۔ کہاں یہ؟ ہاں ٹھیک ہے۔ آگے پیچھے ہوگئے ہیںصفحے۔ یہ دفعہ نمبر 13نیچے چلی جانی چاہئے تھی)فرماتے ہیں مجھ سے کوئی مہر کے متعلق مشورہ کرے تو میں یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ اپنی چھ ماہ کی آمد سے ایک سال تک کی آمد بطور مہر مقرر کرو اور یہ مشورہ اس امر پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے الوصیت کے قوانین میں دسویں حصہ کی شرط رکھوائی ہے۔ گویا اُسے بڑی قربانی قرار دیا ہے۔ اس بناء پر میرا خیال ہے کہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ باقی اخراجات کو پورے کرتے ہوئے مخصوص کردینا معمولی قربانی نہیں بلکہ ایسی بڑی قربانی ہے کہ جس کے بدلے میں ایسے شخص کو جنت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اس حساب سے ایک سال کی آمد جوگویا متواتر دس سال کی آمد کا دسواں حصہ ہوتا ہے، بیوی کے مہر میں مقرر کردینا مہر کی اغراض کو پورا کرنے کیلئے بہت کافی ہے‘‘۔
مراد یہ ہے کہ اگر خاوند ایک سال کی آمد دیتا ہے تو گویا وہ دس سال کی آمد کا دسواں حصہ دیتا ہے۔ اور ایک عورت اکیلی کیلئے اُس خاوند کی کل آمد کا، دس سال کی آمد کا دسواں حصہ ایک لمبے عرصہ تک اس کی کفیل ہوسکتی ہے۔ تو مہر کا جو مقصد ہے وہ اِس سے پورا ہوجائے گا۔ پس جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے۔ آگے فرماتے ہیں ’’ مہر نہ اتنا کم ہو کہ وہ عورت کے وقار کے منافی محسوس ہو اور شریعت کے ایک اہم حکم سے مذاق بن جائے اور نہ اتنا زیادہ کہ اُس کی ادائیگی تکلیف مالا یطاق ہو جائے۔اس اصول کی بناء پر خاوند کی جوبھی مالی حیثیت ہو اس کے مطابق چھ ماہ سے بارہ ماہ تک کی آمدنی کے برابر حق مہر کو معقول اور مناسب خیال کیا گیا ہیـ‘‘۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ’’ معقول اور مناسب خیال کیا گیا ہے‘‘ یہ ایک توجیہ ہے اور ایک مشورہ ہے۔ہر گز یہ مراد نہیں کہ ہر احمدی کے لئے فرض ہے کہ وہ چھ ماہ کی آمد کم از کم ضرور دے اور سال کی آمد سے زیادہ نہ دے۔مختلف لوگوں کے مختلف حالات ہیں اور آمدنی بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ایک آدمی جو لکھ پتی ہے یا کروڑ پتی ہے اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ چھ ماہ کی آمد ضرور دے یا ایک سال کی آمد ضرور دے یہ اس کیلئے تکلیف مالا یطاق اور بے محل بات بن جائے گی۔ کیونکہ شادی کے حقوق کے لحاظ سے عورت کو امیر خاوند کی ساری جائیداد کا یا آمد کا ، ایک سال کی آمد کا پورے کا پورا حصہ دار سمجھنا یہ مہر کے مقاصد میں مجھے نظر نہیں آتا۔ مہر کے مقاصد میںجو بات واضح ہے جس کی بناء پرحضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فتویٰ دیا ہے یا مشورہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ عورت عزت کے ساتھ اپنا آزاد گزارہ کرسکے۔ اور خاوند کے چھوڑنے پر اس طرح بے سہارا نہ رہ جائے۔ مثلاً اگر اُس کے ماں باپ نہیں ہیں یا ماں باپ کے حالات نہیں ہیں کہ وہ اس کو سنبھال سکیں۔ ایسی صورت میںیقین ہو اُس کو کہ میرے پاس اپنی کچھ جائیداد ہے، میں شریفانہ گزارہ اس پرکرسکتی ہوں۔ جہاںتک بچوںکا تعلق ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچوں کی ذمہ واری پھر بھی خاوندہی پر رہے گی۔ جو بڑے ہوں گے وہ تو از خود مرضی سے جہاں چاہیںرہیں اور وہ خود کفیل بھی ہیں اپنی ذات میں۔ لیکن ضروری نہیں کہ سب خودکفیل ہوں۔ اُن کے اخراجات کی ذمہ داری عورت پر نہیں ہے اور عورت اگر بچے اپنے پاس رکھتی بھی ہے اور قضاء حکم دیتی ہے کہ چھوٹی عمر کے بچے ہیں یا عورت کے پاس رہنے چاہئیں تو اسلام ان کی روزمرہ کی زندگی کے اخراجات کی ذمہ داری مرد پر ڈالتا ہے۔ اس لئے دسواں حصہ جو ہے یہ جو استنباط ہے کہ دس سال کیلئے کافی ۔ یہ واقعۃً صحیح اور درست منطق ہے۔اکیلی عورت کو پورے ایک سال کی آمد مل جائے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے دس سال کا سارے خاندان کا خرچ ہو۔ کیونکہ اس نے اکیلا اپنی ذات کو سنبھالنا ہے اس سے دوسری ذمہ داریاںاُس پر عائد نہیںہوتیں۔ لیکن بہرحال یہ ایک مشورہ ہے اور اس حد تک قاضی کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ یہ جو قاضی تو کرے گا ہی نہیں۔ حق مہر معین کرتے وقت یہ فیصلہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس حق مہر سے یہ مقصد پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس حق مہر سے ایک عورت کی باعزت گزارے کی صورت پیدا ہوتی ہے کہ نہیں۔اور خاوند کی توفیق کے مطابق جو بننے والا ہے وہ حق مہر مناسب ہے کہ نہیں ۔ ان دونوں باتوں کے امتزاج سے جو فیصلہ ہو وہ ضروری نہیں کہ چھ مہینے یا سال کی پابندی کرے۔ ایک امیرآدمی کی طرف سے مقرر کردہ مہر اور بن جائے گا ، ایک غریب آدمی کی طرف سے مقرر کردہ مہر اور بن جائے گا۔ کسی کا کم سے کم چھ مہینے اورسال کی حدود او ر زیادہ سے زیادہ چھ اور سال کے حدود کے اندر فکس ہو سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں دوسرے حالات ہیں جو فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ اس لئے یہ مشورہ ہے اور اسے سختی سے شریعت کے قانون کے طور پر وارد کرنا، عائد کرنالازم نہیں ہے مگر حکمت شریعت کو پیش نظر رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا یہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ہر خاوند یا بننے والا خاوند اپنی توفیق کے مطابق اپنی بیوی کا اُتنا مہر باندھے جتنا اُس کے، فرض کریں طلاق ہوجائے تو طلاق کی صورت میں اس کے باقاعدہ، باعزت، سفید پوش گزارے کیلئے کافی ہو۔ رچرڈبیل اپنی کمنٹری میں صَدَقات کے لفظ پر تعجب کا اظہار کرتا ہے، کہتا ہے:-
‏ Sadaqat only here is usually taken as aqualent to Mahr, bride price.
اب لفظbride priceبھی بڑا بیہودہ سا لفظ ہے ’’بیوی کی قیمت‘‘ حالانکہ جو نحلہ کی پہلے بحث گزر چکی ہے اُس میں یہ معنی بھی پیش نظر رکھنا چاہیے جیسا کہ اہل لغت نے اٹھایا ہے کہ مہر اس تحفہ کو کہیں گے ، صدقہ جو’’ نحلہ‘‘ دیا جائے۔ نحلۃً دینے کا مطلب ہے بغیر کسی بدلے کی امید۔ خالصۃً تحفہ کے طور پر ۔ تو اگر یہ تحفہ ہے تو priceنہیں ہوسکتی۔ اس لئے bride priceاس کو نہیں کہا جاسکتا۔ فریضہ کا معنی خدا کی طرف سے عائد ہونے والا فریضہ ہے اور نحلہ کا تحفہ کا معنی اس روح پر اطلاق پاتا ہے جس سے خاوند اپنی بیوی کو کچھ دیتا ہے تو گویا خدا نے فرض کردیا ہے خاوند پر کہ دلی خوشی کے ساتھ، بغیر کسی بدلے ، پر نظر رکھے ہوئے اپنے طور پر اس عورت کو دے دو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر یہ بدلہ ہو تو ساری زندگی کے ساتھ کا اور ساری زندگی کے ازدواجی تعلقات کا بدلہ سمجھا جانا چاہیے۔ مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ایک دن بھی شادی ہوجائے اور میاں بیوی کے تعلقات قائم ہوجائیں تو پورا حق مہر دینا پڑتا ہے۔ تو بدلہ کیسے ہو جائے گا۔ کیا ایک رات کا بدلہ ہے یا ایک ہزار راتوں کا بدلہ ہے۔ وہ ایک کیسے ہوگئے؟ پس بدلے کا مفہوم اس کے ساتھ لگتا ہی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک عورت نے اپنے آپ کو ایک مرد کو پیش کردیا اپنی رضامندی کے ساتھ، اپنے ولی کی رضامندی کے ساتھ تو جواباً تم بھی ایک تحفہ پیش کرو۔ اور وہ تحفہ جو ہے وہ بسا اوقات اگر رخصتانہ نہ بھی ہواہو تو آدھا دینا پڑتا ہے۔ تو بیک وقت تحفہ بھی ہے اور فریضہ بھی۔ تحفہ خاوند کی روح کے تعلق سے اس کے جذبات کے تعلق سے اور بیوی کے احترام کے تعلق سے فریضہ خداتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک فرض کے طور پر۔ تو یہاں دونوں معنے بیک وقت اطلاق پاسکتے ہیں۔
اب یہاں ان کو خوامخواہ ہی اس مضمون کو جو عام ہوچکا ہے Orphensسے صرف باندھی چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں:-
"The meaning will than he that the orphens are not to be defraded of the dawry, which would be ordinary aranged for at the marriage".
بَیل نے ایک اور حرکت بھی کی ہے اپنی پرانی عادت کے مطابق کہ ترتیب بدلی ہے آیات کی ۔ کہتا ہے نہیں یہاں ٹھیک نہیں، یہاں زیادہ مناسب رہے گی۔ اور منٹگمری واٹ صاحب کہتے ہیں :-
‎ الصّدقات not the usual Mahr the presize meaning here is thus uncertain, perhaps morning gift.
یعنی وہ رواج جو یہاں انگریزوں میں 1400سال یا 1300سال یا اس سے بھی کچھ پہلے قائم ہوا یہ اسلام کے ایک حکم کے ترجمہ کے طور پر اس رواج کا اطلاق وہاں کرنا چاہتے ہیں۔ morning giftاس تحفہ کوکہتے ہیں جو خاوند اپنی بیوی کو دوسری صبح کو اظہارِ محبت اور اظہار تعلق کے طور پر دیتا ہے۔ تو یہ مہر والی ساری آیت پڑ ھ کے منٹگمری صاحب واٹ نے یہ مطلب سمجھا ہے کہ مراد یہ ہے کہ دوسری صبح شادی کے بعد اس کو کوئی تحفہ پیش کردو جیسے سکاٹ لینڈ میںکیا جاتا ہے۔ اس بحث میںکہ کتنا ہونا چاہیے اس میں بھی مختلف آراء قائم کی گئی ہیں۔ مستشرقین نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے۔ کتنا ہونا چاہیے؟ لیکن یہاں اس وقت میرے پاس حوالہ نہیںہے۔ مستشرقین نے بھی فقہاء کو نقل کیا ہے دراصل اپنی کوئی رائے پیش نہیں کی۔ اور وہ جو آراء ہیں وہ میں آپ کے سامنے اب رکھوں گاکہ ان کے نزدیک مہر کتنا ہونا چاہیے۔ ایک اور عجیب بات ہے جو محض آپ کے تفنّن طبع کے طور پر بھی اور اس غرض سے بھی کہ ہماری جو کلاسیکل فقہ کی کتابیں ہیں اُن میں بعض کیسی کیسی لغو باتیں داخل ہوگئی ہیں۔ آپ کے علم میںلانے کیلئے ایک میں حوالہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ فقہ میںپرانے زمانہ میں فقہاء نے حد سے تجاوز کرتے ہوئے ہر ایسے احتمال کو بھی پیش نظر رکھ لیا جو عملی زندگی میںناممکن ہے۔ یا کم سے کم معلوم حالات میں انسانی زندگی کے اُس کا وقوع پذیر ہونا معقول دکھائی نہیں دیتا۔ مگر چونکہ انہوں نے بطورفقیہ کے یہ کوشش کی کہ ہر کونے کھدرے پر روشنی پڑ جائے ، کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیںاس فقیہ سے یہ جواب نہیںملا۔ اس لئے انہوں نے ہر اس قسم کی بات داخل کردی جو بعد کے زمانہ کے انسانوں کیلئے اور خاص طور پر غیر مسلم سکالرز کیلئے اسلام کیلئے ایک جگ ہنسائی کاموجب بنی اور وہ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ کیسا مذہب ہے؟ کیسے کیسے فتوے دے رہا ہے۔ حالانکہ یہ فتوے ان علماء کے دماغوں کی پیداوار ہیں۔ قرآن کریم نے اشارۃً بھی اُن کا ذکر نہیں فرمایانہ ہی حدیث میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ اب میرے پیش نظر اردو ترجمہ محکمۂ اوقاف لاہور 1967۔یہ اردو ترجمہ ہے ’’کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘ جو مشہور کتاب الفقہ ہے جس میں چار بڑے بڑے مسلمان فقہ کے مسالک پیش کیے گئے ہیں۔ مالکی، شافعی، حنفی اور حنبلی یہ چار بڑے مذاہب ہیں۔ ان کے ایک اکٹھی ایک کتاب میں، ان کے سب کے مؤقف پیش کیے گئے ہیں۔ اور محکمہ اوقاف نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اب مہر کی بحث دیکھیں کیاکہتی ہے ’’ وہ مال جو عقد نکاح کے بعد (عقد نکاح اردو میں تو عَقْد کا تلفظ ہے۔ عربی میں عُقْدَۃ النکاح چونکہ آتا ہے اس لیے ’’پیش‘‘ سے نکاح کے تعلق میں ’’پیش‘‘ بھی زبان پہ آجاتی ہے۔ ورنہ اصل تلفظ عَقْد ہے یعنی نکاح کا نام عَقْد ہے اور عُقْدَۃ النکاح کا مطلب ہے نکاح کی گرہ باندھنا) اس کے بعد عورت سے متمع ہونے کے عوض (اب یہ لفظ دیکھیںذرا) وہ مال جو عقد نکاح کے بعد عورت سے متمتع ہونے کے عوض یا غیر عورت سے بیوی کے شبہ میںمیاں بیوی والی حرکت کرلینے کے عوض۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہاںکہاں ان کے دماغ گئے ہیں اور محکمہ اوقاف کو خیال نہیںآتا کہ اس زمانہ میں باتیںلکھ رہے ہیں۔تو پڑھنے والا کیا سوچے گا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ کوئی شخص بیوی کے شبہ میں کسی غیر عورت سے تعلق قائم کرلے اور وہ عورت بھی خاوند کے شبہ میںاُس سے وہ تعلق باندھ رہی ہو اور اگر آج یہ فقہ کا فیصلہ درست ہے ۔ اگر آج ایسا جوڑا پکڑا جائے تو اس کے متعلق کوئی حد قائم نہیںکی جاسکتی۔ فقہ کا یہ حوالہ دیں گے۔ خاوند کہے گا میں نے بیوی کے شبہ میں کیا تھا بیوی کہے گی میں نے خاوند کے شبہ میں کیا تھا۔
پس ایک ہی رائے حق مہر دے دو۔ چونکہ حق مہر مقرر نہیں تھا وہ حق مہر مثل ہوگا۔ حق مہر مثل کیا کیا ہوسکتا ہے وہ آگے جاکے آئے گا۔تو یہ صرف آپ کو بتا رہا ہوں کہ پرانی فقہوںمیں بعض علماء نے اپنی طرف سے ایسی ایسی باتیں داخل کردیںجو ہرگز قرآن کے پیش نظر نہیںتھیں۔ حدیث میں اُن کا دور کا بھی تصور نہیں تھا مگر یہ بس ذہنی چالاکیاں تھیں اور بدقسمتی سے آج تک ان کتب کو حرفِ آخر سمجھا جارہا ہے اور اسلامی مدرسوں اور کالجوں میں وہی کتب بطور تدریس کے داخل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جواُن میں آگیا وہی شریعت ہے اور اُس کے ہر پہلو پر عمل کرنا گویا قرآن اور سنت کے اتباع کے مطابق ہے۔
اب یہ دیکھیںدماغ کہاں کہاں سے کہاں پہنچا ہے ما شاء اللہ۔ ’’شافعیہ نے مہر میں اُس کی ماں کو بھی داخل کیا ہے جو اس شخص کا حق ہوتا ہے جو اپنی بیوی کے تعلقات سے محروم ہوگیا ہو۔‘‘ یعنی مہر عورت کی طرف سے مرد کو بھی ملے گا۔ وہ کس طرح؟ ’’ مثلاً ایک شخص نے ننھی بچی سے عقد کرلیا اور اُس شخص کی ماں نے اُس بچی کو بھی دودھ پلادیا تو اب وہ بچی اُس پرحرام ہوجائے گی اور وہ مہر مثل کی حقدار(اچھا آگے سنیں) مہر مثل کی حقدار ہوجائے گی‘‘۔ کیسا پیچ دار عقدہ ہے جو انہوں نے حل فرمایا ۔ ایک شخص نے ایک معصوم دودھ پیتی بچی سے نکاح کرلیا اور ابھی کوئی مہر مقرر نہیں ہوا۔ بعد میںپتہ چلتا ہے کہ وہ بچی اس کی دودھ کی بہن بھی ہے کیونکہ اس کی ماں نے اس کو پلایا ہے۔ اس نے اس کو پلایا جو بھی شکل ہے دودھ کی ماں بن گئی۔اب دودھ بہن سے نکاح ہو نہیں سکتا، وہ حرام ہوگئی۔ اب وہ کیا کرے۔ کہتا ہے وہ مہر مثل کی حقدار ہوگئی اب وہ۔ کیونکہ اُس کا تو قصور کوئی نہیں اور خاوند کو بھی اس مہر کا آدھا ملے ۔ وہ مہر بانٹا جائے گا۔ دے گا کون؟ یہ نہیں پتا چلتا۔(کتاب الفقہ اردو ترجمہ محکمہ اوقاف لاہور)
یہ لکھتے ہیں ایک الفقہ الاسلامی والادلّۃ تالیف الدکتور واھیہ الزھیلی ہوگا (ذہیلی یا ذہبلی لکھاہوا ہے شاید) ۔ بہر حال جو بھی نام ہے یہ دمشق کی چھپی ہوئی کتاب ہے اور دمشق ہی کے ایک عالم کی تحریر ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مالکیہ کے نزدیک کم سے کم مقدار مہر ۴/۱ دینار یا خالص چاندی کے تین سکے ہیں‘‘۔ دینار اُس زمانہ میں کیا قیمت رکھتا تھا اس کا کچھ اندازہ اس سے ہوجاتا ہے کہ خالص چاندی کے تین سکے۔ لیکن سکے کتنے بڑے تھے اس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ اس لیے وہی روز اوّل والی بات ہی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اگر موجودہ وقت میں دینار کو لیا جائے تو دینار دوممالک میں رائج ہے غالباً جو شمالی افریقہ میں ہیں،سوڈان میں اور تیونس میں بھی۔ مگر ان کی ویلیو الگ الگ نہیں ہے؟ ہاں کیا ہے آپ نے نکالی ہے نا میں نے کہا تھا۔ دکھائیں۔ سوڈان میں 1.28دینار ایک پائونڈ کے برابر ہے اور تیونس میں 1.46تقریباً ڈیڑھ دینارایک پائونڈ کے برابر ہے۔ تو اگر ایک دینار کا ۴/۱ حصہ مہر رکھا جاسکتا ہے تو 30pیہ اس کا مورننگ گفٹ بنے گا بقول ان کے۔ لیکن 30p جو Morning Giftہے ہوسکتا ہے وہ سارا نہ چھوڑے۔ ہوسکتا ہے 5pچھوڑدے اس میں سے۔ تو پھر ھَنِٓیْئًا، مَرِٓیْـًٔا کا معنی ہوگا کہ 5p سے عیش کرو۔کیا آئے گا 5p میں آجکل یہاں ہیں؟ بیچارا جیب میں بچاتا پھرے گااس 5p کو ۔ مقدار مہر ایک تو یہ ہوگئی۔ دوسری ہے شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک۔ کم سے کم حق مہر کوئی مقررنہیں۔ ہر وہ چیز جو قابل فروخت ہو یا اُس کی قیمت مقرر ہوتو وہ مہر ہوسکتی ہے۔ دراصل ان فقہاء کے جنہوں نے کہا ہے کم سے کم کوئی مہر مقدار مقرر نہیں ان کی نظر غالباً حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کے نکاحوں پر ہے۔ جس میںکوئی معین ایسا مہر مقرر نہیںہوتا تھا جو اُن کیلئے ایک ضامن بنے، ان کی حفاظت کرے۔ بعض فقہاء نے اس کو سمجھا اِس کے مفہوم کو۔ اور انہوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ کی ذات کیلئے آپﷺ کے مرتبے کے پیش نظر کوئی مہر مقرر کرنا ضروری ہی نہیںتھا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ اس طرح ضامن تھے ان کے اور آپﷺ کے بعد خداتعالیٰ نے اُن کیلئے ایسی ضمانتیں مہیا فرمادیں تھیں کہ اُن کو کبھی بھی بے یارومددگار چھوڑا نہیںجاسکتا تھا۔ اس لیے حق مہر کا آنحضور ﷺ کے معاملے میں کوئی اطلاق نہیں پاتا۔ گویا وہ ایک قسم کامہر مثل ہوگیا۔ اور اس کا ثبوت کہ یہ بات درست ہے وہ یہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو اختیار دیا کہ بیویوں کو بیشک چھوڑ دو تو اس اختیار کے ساتھ آپ نے جو شرطیں باندھیں کہ میںتمہیں خوب مال و دولت دے کر خودکفیل بنا کر اچھے حال میں چھوڑوں گا ، تو اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ فقہاء بالکل درست کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کے تعلق میں کسی حق مہر کے معین کرنے کی کوئی ضرورت نہیںتھی۔ اس لئے اُس سے استنباط کرنا ایک بے تعلق استنباط ہے۔ رسول اللہ ﷺنے کچھ تھوڑا دیا یا زیادہ دیا یہ قطعاً وہ مہر نہیں ہے جو قرآن کریم میںمذکور ہے وہ مہر آنحضرتﷺ کی ذات اور آپﷺ کی صفات سے تعلق میں مضمر مہر ہے۔ ظاہر نہیں کیا گیا مگر یہ ناممکن ہے کہ آنحضور ﷺ کسی منکوحہ بیوی کو بے یارو مددگار اس طرح چھوڑ دیں کہ وہ گویا پائی پائی کی محتاج رہ جائے۔ یہ مراد ہے اور یہی معقول صورت مجھے دکھائی دیتی ہے۔ باقی فقہاء کی بحثیں ، بیچارے مجبور تھے۔ انہوں نے اس خیال سے کہ نعوذ باللہ اگر ہم نے فتویٰ دے دیا کہ کم سے کم مہر اتنا ہونا چاہیے تو پھر رسول اللہ ﷺ کے نکاح پر نہ وہ فتویٰ چلا جائے۔ حالانکہ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے کسی طالبعلم نے فقہ کی کلاس میں یہ پڑھا کہ اگر کوئی بچہ کسی کے سر پر چڑھ جائے نماز میں تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ تو ایک طالبعلم نے بیچارے نے اٹھ کے سوال کیا تو پھر حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی نمازکی حالت میں اوپر چڑھ جایا کرتے تھے تو کیا رسو ل اللہ ﷺ کی نماز ٹوٹ گئی؟ اب یہ جہالت والی باتیں ہیں۔ باتوں کو خوامخواہ بے وجہ طوالت دے کر آگے تک پہنچانا ۔ رسول اللہ ﷺ کی نماز سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کی نماز میں انہماک خداتعالیٰ کی ذات میں ایسا تھا کہ یہ چیزیں اس میںمخل نہیںہوتی تھیں اور فتویٰ دینے والے جب فتویٰ دیتے ہیں وہ بھی ٹھیک دیتے ہیں ۔ اُن کی مراد یہ ہے کہ عام آدمی کے سر پر بچے چڑھ کے کھیل رہے ہوں تو اسے خد اکی کیا ہوش رہے گی وہ بچوں کی فکر میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس لیے وہ فتویٰ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ موقع اورمحل کو دیکھا جائے تو پھر فتوئوں کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
مہر کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک ہے مہر مسمّٰی۔ وہ مہر جو بوقتِ نکاح یا بعد نکاح باہم رضامندی سے مقرر کیا جائے اور اعلانیہ نکاح میں اس کا ذکر کیا جائے۔ ہمارے ہاں اب یہی رائج ہے اورکوئی نکاح نہیں پڑھا جاتا جب تک مسمّٰی مہر نہ ہو۔ معین پتا نہ لگے اور گواہ نہ بن جائیں سب۔ کیونکہ بعد میں جب جھگڑے ہوتے ہیں تو پھرکئی قسم کی مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہی بہتر اور مناسب طریق ہے آج کل کے زمانہ میں کہ مہر مسمّٰی کیا جائے۔مالکیہ کے نزدیک وہ مہر جو خاوند بیوی کو شادی سے پہلے یا شادی کے وقت پیش کرے اُس کا نام مہر مسمّٰی ہے۔ مہر مثل وہ مہر ہے جو اگر کسی عورت کو بوقت نکاح مقرر نہ ہوا ہو تو حاکم عورت اور مرد کے حالات دیکھ کر مہر مقرر کرے۔ پس مہر پہلے مقرر ہونا بھی ضروری نہیں ہے بعض فقہاء کے نزدیک ۔اور اگر ایساہوگیا ہوتو پھر اُس کا علاج یہ ہے کہ قاضی فیصلہ کرے کہ دونوں کے حالات میں کونسا مناسب مہر ہونا چاہیے تھا۔ اور اِس کی تفصیل میں وہ یہاں تک لکھتے ہیں۔
حنفیہ کے نزدیک اُس عورت کے مال، حسن و جمال، عمر ، عقل اور دین کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ اب یہ ساری جانچ پڑتال عدالت میں ہو تو اس بیچاری لڑکی کا کیابنے گا؟ اس لئے یہ محض جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے فقہاء نے اس خیال سے کہ کوئی پہلو باقی نہ رہ جائے۔ اُن کی سوچ کہاں کہاں پہنچی ہے امکانات کی دنیا میں۔ یہ بھی اُسی کی ایک مثال ہے۔
حنابلہ کے نزدیک مہر کی تعیین کیلئے عورت کے تمام قریبی رشتہ داروں کے مہر کو مدنظر رکھا جائے۔ ایک اور جھگڑا ، کہتے ہیںمرد کے نہیں عورت کے قریبی رشتہ داروں کے مہرکو پیش نظر رکھو۔ سب کو۔ کوئی عورت لکھ پتی کو بیاہی گئی ہے ، کوئی کسی غریب copperکو، کلرک کو بیاہی گئی ہے، کسی کے خاوند کی تجارت تباہ ہوچکی ہے۔ یعنی ایک ایسے شخص جس کی تجارت تباہ ہوگئی اور رشتہ پہلے سے طے تھا پھر بھی ہوجاتا ہے اس سے۔ مہر ہر ایک کے الگ الگ ہوگئے ہیں ۔ تو حنابلہ نے تو بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے دنیاکو۔ کہتے ہیں بیوی کے تمام رشتہ دار جو قریبی ہیں اُن کے مہر نکالو، ان کی اوسط نکالو ، ان کے حالات کا جائزہ لو۔ پھر مہر مثل ہوگا۔ اس سے تو مہر مسمّٰی ہی اچھا ہے بابا۔ جو ہمارے ہاں رائج ہے۔جھگڑا ہی ختم ہو، اعلان ہوگیا، چھٹی ہوئی۔
مالکیہ اورشافعیہ کے نزدیک صرف عورت کی بجائے عورت اور مرد دونوں کے حالات شامل ہونے چاہئیں۔ یعنی بیوی کے رشتہ داروں میںکتنے کتنے مہر ہوئے تھے ، خاوند کے رشتہ داروں میں کتنے کتنے مہر ہوئے تھے۔ اِن سب کا جائزہ لینے کے بعد پھر فیصلہ ہوگا۔ سیدھی سادھی بات ہے اُن کے حالات کیوں نہیں دیکھ لیتے دونوںکے۔ اُس کو چھوڑ کر کہاں کہاںبیچارے پھرتے ہیں اور مثل کے لفظ نے دراصل ا ن کو دھوکے میں ڈالا ہے۔ کہتے ہیں ’’مثل ‘‘ جو لفظ ہے یہ توایک کھلا لفظ ہے اور مثل بنانے کی خاطر ضروری ہے کہ گردو پیش کی مثل کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ پھر ایک مہر معجّل کہلاتا ہے۔ اور ایک مہر مؤجّل کہلاتا ہے اور ہمارے نکاح فارموں پر بھی مہرمعجل اور مہر مؤجل کا ذکر ملتا ہے۔ کیوں جی۔ پہلے تو ہوا کرتا تھا۔ ابھی بھی ہے نا۔ یہ ہے کیا چیز؟ دستخط کرنے سے پہلے سمجھ لیں اچھی طرح۔ ڈاکٹر صاحب بڑا ہنسے ہیں،آپ کیلئے تو لیٹ ہوچکا ہے، آپ پر اطلاق نہیں پائے گا فکر نہ کریں۔ یہ نوجوان جو ہمارے ٹیلی ویژن کی تصویریں کھینچ رہے ہیں نامثلاً جس طرح نومی اور ان کا کیا نام ہے؟ ہیں؟(خالد ہاں) خالد آپ غور سے سن لیں۔معجل کیا ہوتا ہے اور مؤجل کیا ہوتا ہے؟
وہ مہر جو بوقت نکاح فوری طور پر ادا کردیا جائے یا عند الطلب ہمیشہ تیار رہے۔ جس وقت مطالبہ ہو اسی وقت پیش کردیا جائے اس کو کہتے ہیں معجل۔اور وہ مہر جو طلاق یا زوجین میں سے کسی کی وفات پر قابل ادا ہو وہ مؤجل ہے۔ یہ اجل، مدّت کو کہتے ہیں ، اجل سے نکلا ہے اور وہ عجلت جلدی کو کہتے ہیں۔پہلاجو ہے لفظ وہ معجل ہے ع کے ساتھ اور یہ لکھوالینا چاہیے۔ معجل یا مؤجل کیونکہ ہمارے یہاں کی جو نسل ہے یہ تو معجل کو بھی مؤجل ہی پڑھتے ہیں اور مؤجل کو بھی معجل ہی پڑھتے ہیں۔ تو یہ نہ ہو وہ کہے میں نے مؤجل کہا تھا وہ کہے میں نے معجل سمجھا تھا۔ اس لئے یہ باتیں تحریر میںآجائیں تو بہتر ہوتا ہے۔اب یہ جو بعدمیں وفات کے بعد عائد ہونے والا قصہ ہے۔ کہتے ہیں اگر کوئی مرد کہے کہ میں مرجائوں تو جو کچھ میرا ہے وہ تمہارا ہوجائے گا۔ عورت کہے اگر میں مرجائوں تو جو کچھ میرا ہے وہ تمہارا ہوجائے گا۔ تو یہ بھی گویاایک قسم کا مہر مؤجل ہوجائے گا یعنی تاریخ میں بعد میں آنے والا واقعہ۔
ہمارے ہاں جو فقہ لکھی گئی ہے اس پربھی میں نے ہدایت کی تھی کہ اس پرنظر ثانی ہونی چاہیے، ہورہی ہے غالباً۔ کمیٹی بیٹھی ہے۔ کچھ الفاظ بھی کچھ زیادہ ہی احتیاط سے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً دفعہ نمبر9مہر: ’’ مہر اس مالی منفعت کا نام ہے جو نکاح کے نتیجہ میں خاوند کی طرف سے بیوی کو واجب الادا ہیــ۔ مالی منفعت کیسے واجب الادا ہے؟ عجیب بات ہے۔یہ تو اردو ہی نہیں ٹھیک۔ اس مال کا نام ہے جو نکاح کے نتیجہ میں خاوند کی طرف سے بیوی کو واجب الادا ہے ایک سادہ سی بات ہے۔ لیکن وہ عالمانہ چکر میں پڑ کے یہ سوچ کر کہ اس کی روح منفعت ہے ۔یعنی عورت سے فائدہ اٹھانا چونکہ روح ہے اس لیے اس کو بھی ساتھ داخل کردیا جائے۔ مہر اس مالی منفعت کانام ہے جو نکاح کے نتیجہ میں خاوند کی طرف سے بیوی کو واجب الادا ہے۔ منفعت تو واجب الادا ہے ہی نہیں۔ منفعت تو اس نے کی تھی ۔ پس اگر داخل ہی کرنا تھاتو سلیقے سے داخل کرتے۔ آگے تفصیلات ہیں، قرآن کریم کے حوالے ہیں، احادیث کے حوالے ہیں۔
مہر مسمّٰی جو فریقین کی رضامندی سے بوقت نکاح طے پا جائے۔ اور اعلان نکاح میں اس کا ذکر آجائے جیسا کہ آج کل جماعت احمدیہ میں یہی رائج ہے اور ہم تو نکاح پڑھانے سے پہلے یہ شرط کرتے ہیں کہ واضح کرو نکاح کا معاملہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آگے ورنہ جھگڑے بڑے چل پڑتے ہیں۔ دوسرے جتنے مہر ہیں نا غیر مشروط، غیر معین، اُن سے بعد میں پیچیدگیاںپیدا ہوتی ہیں۔ مہر معجل کی وہی تعریف کی ہے احمدیہ فقہ میں بھی، جو میں بیان کرچکاہوں۔ اور یہ بھی کہ یا فوراً یا ہر وقت حاضر باش ۔ اُدھر مطالبہ ہواُدھر پیش کردیا۔ اس کو مہر معجل کہتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب سی باتیں ہیں یہ تو ناممکن ہے۔ جو مہر دینا ہے یا تو فوراً دے دیا جائے یا اُس کو معجل کہنا ہی درست نہیں ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ خاوند کے حالات بدل سکتے ہیں اور اگرفوری مطالبہ نہ ہو اہو مثلاً ایک لاکھ کا مہر اُس وقت جب کہ شادی ہوئی ہے وہ مناسب اور جائز تھا اور بعد میںاس خاوند کا دیوالیہ پٹ گیا ہے۔ اس عرصہ تک عورت خاموش رہی ہے۔ پھر وہ مطالبہ کرتی ہے کہ اب فوراً دے دو تو اس نے وہ ایک لاکھ روپیہ بچا کے کسی تجوری میں تو نہیں رکھا ہوا۔ اس لیے یہ ساری باتیں وہمی یا فرضی باتیں ہیں۔ حقیقت کے ساتھ فیصلے ہونے چاہئیں۔ معجل وہی مہر ہے جو اد اکردیا جائے اوربات ختم ہو۔ اور جو نہیں ادا ہوا وہ غیر معین اور مؤجل ہے نہ کہ معجل اور دفعہ لگائی ہے اس پر۔ مہر معجل کی صورت میں بیوی جب چاہے مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ ہر مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے یہ کہاں سے آگیا۔ فلاں مہر کا کرسکتی ہے فلاں کا نہیں۔بیوی کا حق ہے، قرآن کریم فریضہ قرار دے رہا ہے ۔ جب چاہے بیوی مطالبہ کرسکتی ہے۔ خوامخواہ کے جھگڑے۔ فقہی چونکہ عبارتیں پڑھ پڑھ کے یہ فقہ بنائی گئی ہے ا س لیے اُس کی گہرائی میں اُترے نہیںہیں ۔ حالانکہ بہت سی الجھنیں فقہاء کی باریک سوچوں کے نتیجہ میں پید ا ہوگئی ہیں۔
باقی یہاں بھی بہت باریکیاں ڈالی گئی ہیں۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ ہو اہو اور قبل از رخصتانہ طلاق ہوجائے یا خاوند فوت ہوجائے توپھر مہر مثل کا نصف یا پورا مہر مثل اد اکرنا واجب نہیں۔ حسب استطاعت مناسب تحائف دے کر عورت کو رخصت کیا جاسکتا ہے۔ جو رخصت کہاںکریں گے اس بیچاری کو جو رخصت ہوئی ہی نہیں، رخصتانہ سے قبل طلاق ہوگئی ہے۔ تو کہتے ہیں ۔ ہماری فقہ میںیہ باتیں ہیں۔ سوچ لیں ذرا! اس لئے ہنسی والی بات چاہے دوسرے کی فقہ میں ہو یا اپنی میں ۔ انسان بیچارہ مجبور ہے اس کو ہنسی تو آنی ہے۔ اب یہ دیکھ لیں بحث یہ ہے کہ رخصتانہ سے قبل خاوند فوت ہوجاتا ہے تو رخصتانہ سے قبل فوت ہوا ہے تو کہتے ہیں اس کو تحفے دے کر رخصت کردو۔ اس کو کہاںرخصت کردو؟ اگلے جہان بھیج دو بیچاری کو۔ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی ہوئی ہے وہیںرہنے دو بیچاری کو، رخصت کیا کرنا ہے اس کو۔
’’ھدایۃ کا حوالہ دے کر یہ لکھتے ہیں ۔ دفعہ نمبر12: معاہد ہ نکاح میںمہر کی عدم تعیین کی صورت میں بوقت تنازعہ قاضی جو مہر فریقین کی حیثیت کے مطابق متعین کرے وہ مہرمثل ہے‘‘۔
کہتے ہیں صاحبِ ہدایۃ اس کی تفصیل میںلکھتے ہیں :’’ مہر مثل کی تعیین کیلئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حسن وجمال، سیرت و کردار، علم و عمل کے لحا ظ سے اس عورت کی جو رشتہ دار عورتیں ہیںاُس کی ہم پایہ ہیں۔ اُن کا مہر کتنا مقرر ہوا تھا‘‘۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اس فقہ کو تو فیکس بھیجیں کہ خدا کیلئے نظر ثانی جلدی کریں۔ میرے تو پسینے چھوٹ گئے اس سے۔ اس عورت کا حسن و جمال اب کون دیکھے گا۔ اُس کے علم کا فیصلہ ، اس کی عقل کافیصلہ۔ یہ ساری چیزیں دیکھ کر پھر اس کے بعد مثل پتہ ہے کیا بنے گی؟ ویسی ہی اس سے ملتی جلتی عورت اس کے خاندان میں اگر بیاہی گئی تھی تو اس کا مہر کتنا تھا؟ وہ پتہ کر لو مسئلہ حل ہوگیا۔ چلوجی چھٹی۔ عجیب و غریب باتیں ہیں ۔ ان کو خدا کیلئے عقل کے مطابق درست کریں۔ کیونکہ یہ تو خوامخواہ جگ ہنسائی والی بات ہے۔
اچھا جی مہر پر کافی نہیںہوگئی بات۔یہ جو حق مہر ہے یہ پرانا رواج ہے۔ پیدائش میںبھی اس کا ذکر ہے۔ Jenesisمیں Judges میں بھی اس کا ذکر ہے اور عہد نامہ قدیم میں کثرت سے حوالے ملتے ہیں انہیں پڑھ کر پورا تفصیل سے اب یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر غالباً یہ کوئی مبحث ہی نہیںہے۔ سب اہل کتاب مانتے ہیں کہ مہرکا ایک طریق بائبل کی طرف سے رائج شدہ تھا جو فریضہ کے طور پر جاری تھا اوراسلام کو بھی چونکہ اسی خدا نے تعلیم دی ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کو دی تھی ۔ اس لیے یہ ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر سمجھا گیا ہے کہ ہر شادی پر عورت کا حق ہے کہ اسے کچھ ایسے تحائف پیش کیے جائیں جو اس صورت میں کہ اسے چھوڑا جائے اُس کے کام آسکیں اور صرف یہ نہیں بلکہ اپنی زندگی میں اُس وقت بھی جبکہ خاوندزندہ ہے طلاق نہیں ہوئی اُس وقت کی ضرورتیں بھی پوری کرنی ہوتی ہیں۔ اب عورت بعض دفعہ اپنی ضروریات کیلئے بات بات میں خاوند کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہے یہ مناسب نہیں۔ اگر شروع میں اُس کا حق مہر ادا کردیا جائے جو اتناکافی ہو گا کہ اس کی بعد کی ضرورتوں کو بڑے لمبے عرصہ تک پورا کرسکے۔ وہ اس کو اپنی مرضی سے کہیں لگاسکتی ہے۔ تجارت کرسکتی ہے خاوند کی معرفت یا اس کے علاوہ اور رو ز مرہ کے اپنے تحفے دینے ہیں، آزادی سے پیش کرسکتی ہے۔ بعض بچے باپ سے زیادہ مائوں سے مانگتے ہیں ان کے پاس کچھ ہوگا تو دیں گی بیچاریاں۔ اس لئے جو رواج ہے کہ جلد دیا جائے یعنی رواج نہیں ہے جو اس کو قائم کرنا چاہے، موت کا انتظار یا طلاق کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ احمدیوں میں یہ بات رائج کرنی چاہیے کہ جلد از جلد جس حد تک ممکن ہے وہ مہر دے دیا جائے۔
………………………………………………………………
اس کو قائم کرنا چاہیے موت کا انتظار یا طلاق کا انتظار نہ کیا جائے۔ بلکہ احمدیوں میں یہ بات رائج کرنی چاہیے کہ جلد از جلد جس حد تک ممکن ہے وہ مہر دے دیا جائے ۔ لیکن ایک بات جو مناسب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ بعض ولی مہر وصول کرکے پھر شادی کرتے ہیں اوردراصل وہ جہیز تیار کرنے کیلئے مہر کا عذر رکھتے ہیں او رکہتے ہیں کہ اگر شادی کروانی ہے تو حق مہر پہلے ادا کرو۔ ہم اس سے جہیز بنائیں گے اور تمہیں بھیجیں گے ۔ تو پھر جہیز دینے کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ سیدھی سادھی رخصتی کریں۔ عورت بیچاری اپنی مرضی سے بعد میں چاہے تو اس کا کچھ خریدے، چاہے تو نہ خریدے۔ گھر بنانا ، بسانا خاوند کا فرض ہے۔ اس لیے یہ رواج بھی نہایت نامناسب اور ناجائز ہے جماعت میں اس کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ اگلی آیت ہے اب! یہ ہوچکا ہے ناں حوالہ؟
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ولا تؤتو السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیمًا وّارزقُوھم فیھا واکسوھم و قولوا لھم قولاً معروفًا (النسائ: ۶)
میں ضمناً بتادوں پہلے بھی بتاچکا ہوں کئی دفعہ، قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھنا فرض ہے۔ بِسْمِ اللّٰہ بالعموم اس وقت پڑھی جاتی ہے جب سورت کے آغاز سے تلاوت ہو۔ کیونکہ اس کی پہلی آیت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِہے۔ اس لیے بسا اوقات لوگ اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی طریق تھا۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِاس صورت میں نہیں پڑھتے تھے جب کسی سورۃ کے بیچ سے کوئی آیت پڑھی جائے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھی اور بِسْمِ اللّٰہ ! میں جو پڑھتا ہوں ، اس لیے کہ میں اسے ناجائز نہیں سمجھتا اور میرے نزدیک تبرک کیلئے ایک اچھی چیز ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر کام سے پہلے بسم اللّٰہپڑھو۔ تو وہ اور معنوں میں ہے یعنی ضروری نہیںکہ ہرسورہ سے پہلے پڑھو، وہ تو ا س کا حصہ ہے پڑھنی ہی ہے۔ لیکن ہر کام سے پہلے اگر بسم اللہ پڑھ لی جائے تو یہ کوئی ناجائز تصرف نہیں ہے۔ اس لیے میں تبرکاً بیچ میں جب بسم اللہ پڑھتا ہوں توہر گزیہ مراد نہیں کہ یہ بسم اللہ سورہ کے آغاز کی طرف اشارہ کررہی ہے بلکہ ہر بات سے پہلے بسم اللہ عادتاً پڑھ لی جائے تومیرے نزدیک کوئی مضائقہ نہیں۔ بہر حال یہاں اعوذ باللہ کے بعد اگر صرف یہ آیت پڑھتا ولا تؤتوالسفھاتو جائز تھا بلکہ اکثر علماء مسلمان مختلف فرقوں کے یہی طریق اختیار کرتے ہیں کہ بیچ میںسے اگر آیت پڑھیں تو بسم اللہ نہیں پڑھتے۔ ولا تؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیمًا۔ اور ناسمجھوں کو اپنے مال جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سہارا بنایا ہے نہ دو۔ اور ان میں سے انہیں کھلائو اور انہیں پہنائو اور انہیں مناسب اور اچھی باتیں کہو ۔ یہ چھٹی آیت ہے۔ اس آیت کریمہ کے بعد جو میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھی تھی جہاں مہر کا ذکر ہے۔ اب اس آیت سے جو مختلف مفاہیم سمجھے گئے ہیں۔ بعض ایسے تمسخر والے ہیں کہ ان کو قرآن کریم کی طرف یا رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرنا گستاخی ہے۔ مگر فقہاء نے بحثیں اُٹھائی ہوئیں ہیں اور بڑا دھوکا اس بات میں کھایا ہے کہ سفہاء سے مراد عورتیں ہیں۔کیونکہ نکاح کے اموال ان کو دینے کی بات ہورہی ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ان عورتوں کو نہ دو جو بے وقوف ہوں۔ یہ مطلب بھی نکالتے ہیں اور عمومی معنے بھی لے لیتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے فقہاء ہیں یامفسرین جنہوں نے سفہاء کامطلب عورتیں ہی کیا ہے۔ حالانکہ بالکل ناجائز بات ہے۔ اس کااس مضمون سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ وہاں تو حق فرمادیا ہے اس کا ۔اور حق کی تعیین فرمادی اور لازم کردیا کہ تم نے اس کو دینا ہے تمہارا مال نہیںہے اس کا ہے وہ اپنی خوشی سے دیں نہ دیں۔یہ اتنی تفصیل سے بحث اُٹھ گئی ہو ، اس کے بعد ان عورتوں کوبیوقوف کہہ کے دوسرے ہاتھ سے وہ ساری رقم واپس لے لی جائے۔ یہ توقرآن کی شان کے بالکل منافی اور اگر خدا کا کلام ہو تو ایسے خدا سے ایمان اُٹھ جاتا ہے کہ کیسی متضاد باتیں کررہا ہے۔ یہاں ہرگز یہ مراد نہیں ہے اور یہاں اموالکم کی ضمیر صاف بتارہی ہے کہ اور مضمون ہے۔ وہاں عورتوں کامال ہے جو تم نے ان کو دینا ہے۔ تم اُن سے وعدہ کرچکے ہو، اُن کا حق بن گیا ہے۔ یہاں سوسائٹی مخاطب ہے اور یتیموں کا مال جس کا پہلے بھی ذکر گذر چکا ہے وہ دوبارہ زیر بحث آچکا ہے اب! اور یہ فرمایا جارہا ہے کہ اگرچہ ملکیت کے لحاظ سے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک ہے ذاتی، انفرادی ملکیت، ایک ہے قومی ملکیت ۔ان معنوں میںکہ جو کچھ بھی اقتصادی نظام جاری ہے وہ قوم کے مجموعی فائدے کی غرض سے ہوتا ہے اور قوم کو تصرف کا حق ہوتا ہے ۔ ایک حد تک اور یہی قانون ہے جس کے پیش نظر پھر ٹیکس لگتے ہیں جس کے پیش نظر مختلف اقتصادی نظام دنیا میں کام کررہے ہیں۔ تو ایک پہلو سے ذاتی ملکیت ہے ایک پہلو سے قومی ملکیت ہے تو فرمایاہے کہ جب ہم تمہیں کہتے ہیں کہ یتامی کو ان کے اموال دو ، ان کے حقوق دو ، ان کو تم نہ کھائو یا عورتوں کو بھی ان کے حقوق دو، ایک عمومی ، جس کا حق بنتا ہے ذاتی، اس کو دو۔اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جو حقدار ہو مگر ذہنی لحاظ سے استعداد نہ رکھتا ہو کہ اپنے مال پر ، اپنے حق میں جائز تصرف کرسکے تو ایسے شخص کو مال دینا اس کے مفاد کے بھی خلاف ہے اور قومی مفاد کے بھی خلاف ہے۔ ایسی صورت میں اقتصادیات تباہ ہوسکتیں ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے بچوں کے سپرد مثلاً یتامی ہیں ایک موقع پر تو کثرت سے یتامی آسکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سپرد اُن کے مال دے دیئے جائیں اور اِدھر سے کوئی آئے دھوکا دے کر کہ کوئی مال لے کر چلا جائے ، کوئی اُدھر سے آئے دھوکا دے کر کچھ لے کر چلا جائے تو نظام اقتصادیات میں افراتفری پڑ سکتی ہے۔ پاگلوں کے سپرد کردیا اور اُن سے لے لیا اس سے بددیانتی بھی پھیلے گی اور قومی اموال کی حفاظت نہیں ہوسکتی ایسی صورت میں ۔یہ مضمون ہے۔ ولا تؤتواالسفھا اموالکم۔ اگر تمہارا مال ہے تو بیوقوفوں کو دینا کیوں ہے، یہ بہت ہی لطیف طرز کلام ہے۔ سفھآء کو جب دو گے تو ان کا ہی مال دو گے یہ مراد ہے۔ مگر اس نظر سے کہ تم اس کے امین بنائے گئے ہو۔ تمہارا بھی تصرف میں کچھ حق ہے۔ اور ذمہ داری ہے جو تم نے ادا کرنی ہے تو وہ گویا کہ قرآن کریم غالباً ایک ہی کتاب ہے ، مذہبی کتابوں میں جس نے "Court of Ward"کا نظام پیش کیا ہے۔ ہوسکتا ہے بعض دوسرے مذاہب میں بھی ہو، میرے علم میں نہیں۔ مگر "Court of Ward"کا تصور یہ آیت پیش کررہی ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے مال پر تصرف کے اہل نہیں۔ ایسے بچے جو ابھی چھوٹے ہیں اپنے حقوق کا تحفظ خود نہیںکرسکتے۔ قوم کا فرض ہے اور وہ اس میںجوابدہ ہوگی کہ وہ اس وقت تک وہ مال ان کے سپرد نہ کرے جو قوم کے پاس امانت اور ان کا حق ہیں۔ اموالکم کا یہ معنی بنے گا۔ قوم کے اموال یعنی (تم پر) تمہارے پاس ایک امانت ہیں ایک قسم کی ! اور ہیں ان کے! چنانچہ فرمایا ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیامًا ، حالانکہ ان اموال کو تو جن لوگوں کے وہ مال ہیں ان کیلئے بودوباش کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یا ان کی بقاء کا، ان کی ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یہاں فرمایا ہے قیامًا ، تمہارے لیے قیام بنایا گیا ہے۔ یعنی سوسائٹی اگر مالی تصرفات کے معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرے گی تو سوسائٹی کو نقصان پہنچے گا اور ان کی اقتصادیات تباہ ہوں گی۔ وارزقوا ھم فیھا واکسوھم و قولوا لھم قولاً معروفًا۔ ان اموال سے ان کو پہنائو ،ان کو کھلاؤ،ان کھلاؤ،ان کو پہناؤ، اور ان سے نرم گفتگو کرو، پیا راور محبت سے انہیں سمجھائو کہ تمہاری چیز تمہیں ابھی ہم خرچ کررہے ہیں لیکن تمہارے تصرف میں اس وقت نہیں دے سکتے۔ اس کے معاً بعد جو آیت آتی ہے وہ ہے وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح ۔ یتامی کے امتحان لیتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ فان اٰنستم منھم رشدًا فادفعوا الیھم اموالھم۔ اب اس آیت نے اموالکمکے اوپر سے پردہ اُٹھادیا کہ یہ اموالکم ان معنوں میں نہیں ہیں کہ تم ان کے اُن اموال کے مالک ہو وہ ہیں انہیں کے جو یتیم اس سے پہلے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچیں اس بات کی استعداد نہیں رکھتے کہ وہ ان کے اوپر تصرف کرسکیں ۔ تو جب یہ آیت آئے گی تو اس وقت مزید بات ہوگی۔ ایک اور معنی جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یتامی جن کے پاس اموال نہ بھی ہوں ، جو غریب بھی ہوں، تم بحیثیت قوم ان کے کفیل ہو۔ تم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی دیکھ بھال کرو۔ چنانچہ یہ فرمایا ہے۔ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیٰمًا ۔ ایسے لوگ جو کم عمر کی وجہ سے بیوقوف ہوں یا کسی اور وجہ سے ، ایسے بیوقوف ہوں کہ ان بیچاروں کے پاس کچھ بھی نہ رہا ہو۔ بعض دفعہ غربت سفاہت کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ ’’الول جلول‘‘ لوگ بیچارے۔ ایسے کئی ہم نے سوسائٹی میں دیکھے ہیں۔ ان کو کچھ کمانے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ تو فرمایا ان کوا موال دے کر ، پیسے دے کر ان کو نقصان نہ پہنچائو اور سوسائٹی کیلئے نقصان کا موجب نہ بنو۔ ان کی دیکھ بھال کرو، ان کو پہنائو، ان کو کھلائو ۔اور یہ اس وسیع معنے میں اگرچہ پہلے فقہاء نے ترجمہ نہیں کیا مگر یتامی کی عمومی کفالت جماعت مسلمین پر ہے۔اور اس میں ایک ذرّہ بھی شک نہیں کہ وہ ذمہ دار ہیں، خصوصیت سے یتامی کی کفالت کے۔چنانچہ آنحضرتﷺ نے انہی الفاظ کفالت کے ساتھ یتامی کی ذمہ داری قوم پر ڈالی ہے۔ پس کفالت کا مضمون اگر لیا جائے تو پھر وہ دوسرے جھگڑے خود بخود اُٹھ جاتے ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ بعض سفہاء جو مجبور ہیں، جن کے پاس کچھ بھی نہیں ، جب ان کو پیسے دیئے جائیں تو اکثر وہ غلط مصرف کرتے ہیں اور بعض تو ناجائز اخراجات کرتے ہیں اس سے اور پھر بھوکے کے بھوکے پہنچ جاتے ہیں۔تو کہاں تک تم ان کے پیسے دیتے چلے جائو گے اور ان کے مزاج بگاڑتے چلے جائو گے۔ جو فریضہ ہے سوسائٹی پر وہ تو ہے کہ پہنائو شریفانہ طریق پر اور کھلائوشریفانہ طریق پر ۔ اوسطاً جو بات مناسب ہے اور نرمی کی بات کیا کرو۔ نرمی کی بات کرنا اس موقع پر ان معنوں میں عین محل کے مطابق ہے۔ واماالسائل فلا تنھر۔ جو مانگنے والے لوگ ہیں ان کو ڈانٹا نہ کرو، پس مراد یہ ہے۔ ایسے بیوقوف باربارتم سے مانگیں گے بھی، آئیں گے، کہیں گے جی ہماری ضرورتیں پوری کرو، ہمیں پیسے دو، ہم نے کچھ کرنا ہے۔ تو ایسے موقعوں پر ان سے خفگی کا معاملہ نہ کرو، پیار سے سمجھایا کرو۔ ذمے دار تم صرف اسی حد تک ہو کہ ان کے رہنے سہنے، کھانے پینے کی ذمہ داریاں تم ادا کرو اور خدا کے نزدیک بریٔ الذمّہ ہوجائو گے۔ پس یہ دوسرا معنی بیک وقت ایک بطن کے طور پر اس آیت کے ساتھ چلتاہے۔ اب پہلے معنے کی طرف لوٹتے ہوئے پھر اگلی آیت اس مضمون کو اُٹھالے گی۔ مگر اس سے پہلے مَیں فقہاء اور علماء کی بحثیں کچھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
سفہاء کیا ہیں؟ سَفِہَ یَسْفَہُ، سَفَھًا وَ سَفَاھَۃً وَ سَفَاھًا کا مطلب ہے حَفَّ وَ طَاشَ و جَھِلَ یعنی ہلکا ہوا، بیوقوفی دکھائی، جہالت کا کام کیا، یا اپنے اپنے نفس کو یا اپنی رائے کو غلط راہ پر ڈال دیا۔ کسی چیز کے بارہ میں دوسرے کو دھوکا دیا۔ یعنی سفہ فلان کا مطلب ہے اس کو بیوقوف بنایا، اس کو دھوکا دیا۔ السافہ ، الاحمقُ۔ السفیہ: من یبذر مالہ فیھا فیما لاینبغی۔ یعنی وہ شخص جو اپنے مال کو ناجائز جگہوں پر خرچ کرلے۔ جیسا کہ میں نے مثال دی تھی۔ بعض ایسے سفیہ ہیں جو مانگتے ہیں، لوگ رحم کے طور پر دے دیتے ہیں، وہیں جاکے وہ کسی غلط کام پر خرچ کردیتے ہیں۔ بہت سے یہاںمانگنے والے ہیں جو نشے کی خاطر مانگتے ہیں۔ مجھ سے ایک دفعہ کسی نے بیان کیا کہ ایک ہیٹ لے کر ایک غریب سا آدمی بیٹھا ہوا تھا اور اس نے رحم کیا شاید بھوکا ہے۔ اس نے اس کو دس شلنگ (Shilling)دیے اور سامنے پب(Pub)تھی دوڑا وہ لے کر ، تو وہ سارے شراب پر خرچ کردیے۔ کہتے ہیں میں نے کہا میں نے تو کسی اور مصرف کیلئے دیا تھا ، یہ ناجائز کام پر خرچ کرگیا ہے تو سَفَہَ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ناجائز خر چ کرنا۔ تو ان معنوں میں یہ مضمون بالکل ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔ اور بھی بہت سے لغوی معنے ہیں۔ قیامًا سے مراد ہے سیدھا کھڑ اہوگیا، کہیں گیقَامَ سیدھا کھڑ اہوگیا۔ اِعْتَزَلَ: کامل عمل یعنی اس کا کام ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔قام الحق کسی نے حق کو ظاہر کیا۔ قام علی الامر: دام او ثبت کسی کام پر یہ ثابت رہا، قائم رہا۔ قاومہ فی حاجۃٍ۔ قام معہ فیھاکسی ضرورت کے وقت اس کے ساتھ کھڑا رہا، یعنی اس کا ساتھ دیا۔ یہ سارے معنے قَامَ کے اندر پائے جاتے ہیں۔ القوام: العدلانصاف سے کام لینا۔اُکْسُوھُم کے ترجموں میں یہ بیان کیا ہے، اصل تو لباس سے ہے۔ کسوۃ اور زمین جب سرسبز و شاداب ہوجائے تو اس کیلئے بھی یہ لفظ استعمال ہوجاتا ہے۔ اکتست الارض بالنبات یعنی کوئی زمین نباتات اوڑھے بیٹھی ہے، سبزے کا اوڑھنا اُس نے لیا ہے۔ یہ اردو میں بھی، ہر زبان میں غالباً محاورہ ہے۔ یہاں اس کا اس سے تعلق نہیں ہے ۔ اس آیت میں الثوب: یستترُبہٖ و یتحلی لباس کو کہتے ہیں جو ڈھانپتا ہے اور خوبصورتی کا بھی موجب ہے۔ پس ان معنوں کا صرف یہاں تک اطلاق ہوگا ۔اس آیت میں میں کہ ان کوپھٹے پرانے کپڑے نہ پہنائو۔ جب زمین سر سبزو شاداب ہوتی ہے تو ا س کیلئے لفظ کساء استعمال ہوتا ہے۔ تو ایسا پہنائو جو اچھے بھی لگیں۔ بیہودہ ، پرانے پھٹے کپڑے دے کر یہ نہ سمجھو کہ تمہارا فریضہ ادا ہوگیا ہے اور تفسیر فتح البیان جزو ثانی میں لکھا ہے کہ یہ آیت کا گویا کہ شان نزول ہے۔ بس اتنی سی ہے کہ حضرمی سے مروی ہے کہ ایک شخص دردمند ہوا، اس نے اپنا مال اپنی بیوی کو دیا، اس نے ناحق خرچ کردیا، تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔اب جہاں شان نزول کی تلاش کرتے ہیں وہاں اتنے وسیع معانی کی آیت کو کس حد تک محدود کردیتے ہیں۔ اور جہاں تک سفہاء کا مضمون ہے اس کے متعلق تو ایسا سفیہانہ رویہ اختیار کیا گیاہے کہ ظلم ہے، قرآن کریم سے سخت ناانصافی ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سخت ناانصافی ، اس آیت کے پیش نظر بعض مفسرین نے۔ اور اب میں تفسیر روح المعانی جزو چار صفحہ۲۰۲ سے یہ عبارت پڑھ کے آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، وہاں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سُفھاء سے مراد عورتیں ہیں ۔اور سفیھۃقرآن کریم کے نزدیک عورت بیوقوف ہے۔ اگر اس مسلک کومانا جائے (نعوذ باللہ من ذالک) تو پھر حق مہر ادا کرنا، حقوق دینا، خوشی سے رخصت کرنا اور جتنا باندھا ہو اہے اس سے بھی زیادہ دینا ، یہ سار امضمون کالعدم ہوگیا۔ کیونکہ بیوقوف کو نہیں دینا۔ صرف اس کو کپڑے پہنائو اور اس کو روٹی کھلائو اور بعض ظالم اپنی بیویوں سے یہی سلوک کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں دیتے، خود سودا لے کر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو عورتوں والے کپڑے بھی خود خرید کے دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ہم تمہاری ضرورت پوری کررہے ہیں ۔ تو وہ عورتیں سفہاء نہیں ہیں وہ مرد سفہاء ہیں کیونکہ عورت کو عزت کے ساتھ رکھنا، اس کی ضروریات کیلئے اس کو اجازت دینا اور جہاں تک تحقیق آپ کرکے دیکھ لیں انہوں نے حق مہر بھی ان کو نہیںدیا ہوگا۔ حق مہر بھی دے دیتے تو شاید اس بیچاری کا اپنا الگ گذارہ چل جاتا۔ تویہ جو لفظ ہے سفہاء یہ ان عورتوں پر ہرگز اطلاق نہیںپاتا جن پر ، یعنی سب عورتوں پر جن پر بعض لوگوں نے اطلاق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مردوں پر ضرور اطلاق پاتا ہے جو اس کے یہ معنے کرکے قرآن کریم کو ایک تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ سب سے پہلے اَلسُّفَھَآء کا لفظ سورۂ بقرہ کے شروع میں ہی موجود ہے۔ صاف پتا چلتا ہے ، اس مضمون کو پڑ ھ لیں کہ سفہاء کون لوگ ہیں؟ وہ جو دین کے معاملے میں بیوقوفوں والے مسلک اختیار کرتے ہیں اور منافقت کا رنگ اختیار کرتے ہیں، مسلمانوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ الا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون۔ اللہ فرماتا ہے یہ خود بیوقوف لوگ ہیں۔ یہ بیوقوف کاجوعام مفہوم ہے انہی معنوں میں یہاں استعمال ہوا ہے اور سفیہۃکے طور پر ہرگز نہیں ہوا۔ یہ آیت عمومی ہے۔ ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیامًا بالکل او روسیع مضمون ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔
ایک قومی اقتصادیات کا بہت ہی عظیم الشان وسیع الاثر مضمون ہے جس کو محدود بھی کیا گیا اور ناجائز حملہ کیا گیا عورتوں پر اورعورتوں پر اس حملے میں جو سب سے بڑا ظلم ہے ، حدیثیں ایجاد کرلی گئی ہیں۔ ایسی حدیثیں ایجاد ہوئی ہیں جو اپنی ذات میں گواہ ہیں کہ جھوٹی ہیں، ناممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسی باتیںفرمائی ہوں۔ پھر بھی ہماری تفسیروں کی کتابوں میں راہ پاگئی ہیں۔ تو چونکہ بعض لوگ صرف رسمی طور پر دیکھتے ہیں یہ روایت فلاں تفسیر میں ہے، فلاں راوی نے بیان کی ، فلاں صحابی تک پہنچی ، درست ہوگئی۔ بالکل غلط بات ہے۔ شانِ محمد مصطفیﷺ کے خلاف کوئی حدیث قبول نہیں کی جائے گی، ناممکن ہے! کیونکہ محمد مصطفیﷺ کی شخصیت ہر شک سے پاک ہے اور لاریب فیہ میں جیسے قرآن کریم ہر شک سے پاک ہے ، اس طرح قرآن کریم کے خلاف بھی، قرآنی مزاج کے خلاف بھی کوئی بات قبول نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ قرآن کا ایک زندہ مسلک تھے۔ قرآن گویا آپﷺ کی ذات میں ڈھل گیا تھا۔ اس لیے آپﷺ کی ذات بھی رَیب سے پاک ہے۔ ہر بات جو رَیب والی ہے اوررسول اللہﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہے لازماً جھوٹ ہے۔ اب میں حدیث آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں۔ ایک کہانی بنائی ہے کسی بعد کے آدمی نے اوربعض لوگوں کے دماغ میں یہ اس قسم کا فتور ہوا کرتاتھا کہ کہانیاں بنا بنا کر رسول اللہﷺ کی طرف جڑ دیتے تھے اور جو بہت بڑا گناہ ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جو میری طرف بات منسوب کرتا ہے جو میں نے نہیں کہی وہ جہنم میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ مگر مفسرین نے صرف یہ دیکھا ہے کہ سند کے لحاظ سے جڑتی ہے کہ نہیں اور درایت پر بہت کم غور کیا ہے۔ اب یہ اس کی مثال ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے (یعنی یہ وہ روایت ہے جو میں بیان کررہا ہوں، فرضی روایت) کہ ایک سیاہ رنگ کی باتونی عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ان کا نام بھی نہیں لکھا تاکہ پکڑا نہ جائے کہ کون تھا وہ عورتیں جو معروف تھیں ان کے متعلق تو صاف پتا چل جائے گا کہ انہوں نے یہ بات نہیں کہی ہوگی، اب جو نقشہ ہے وہ بھی بڑا بھیانک! گویا کوئی ڈائن اتری ہے کہیں سے۔ ایک سیاہ رنگ کی باتونی عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہنے لگی، میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا۔ یعنی اخلاص کا یہ عالم تھا آپ کبھی تو ہمارے بارے میں کوئی اچھی بات کرلیا کریں۔ یعنی جب بھی بولتے ہیں عورتوں کے خلاف بولتے ہیں۔ یعنی کوئی مسلمان صحابیہ یہ کہہ سکتی ہے رسول اللہﷺ کو یہ بات جس کا ذرّہ ذرّہ رسول اللہﷺ کے احسانات تلے دبا ہوا ہو۔ جنہوں نے ان کو نئی زندگی بخشی ہو۔ نئے حقوق عطا کیے ہوں یہ فقرہ پڑھتے ہی اس حدیث کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا۔ حدیث ہے ہی نہیں یہ! اب یہ بات اس کی بدتمیزی اور گستاخی کا عالم دیکھیں ۔ ایک طرف ماں باپ قربان دوسری طرف کہتی ہے کبھی تو ہمارے بارہ میں کوئی اچھی بات کرلیا کریں۔ مجھے یہی پتا چلا ہے کہیں سے اطلاع ملی ہے اس کو کہ آپ ہمارے بارہ میں ہمیشہ منفی بات کرتے ہیں۔ یہ قابل قبول حدیث ہے؟ یہ جو حوالہ ہے تفسیر روح المعانی میں داخل ہوئی ہوئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:- میں نے آپ عورتوں کے بارے میں کون سی بات کی ہے۔ یہ طرزِ بیان دیکھیں نا! مجھے بتائیں تو سہی کہ میں نے کون سے بات کی ہے آپ کے متعلق۔ کہنے لگی آپ نے ہمیں سفہاء قرار دیا ہے، حضورﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تمہارا یہی نام رکھا ہوا ہے۔ یہ استنباط کرنے کی خاطر، اپنے اس مسلک کو جو نہایت جاہلانہ اور قرآنی مضمون کے سراسر منافی ہے اس کو ثابت کرنے کیلئے یہ حدیث گھڑ لی ہے اپنی طرف سے۔ اور اس کے بعد بات ختم ہوگئی، فیصلہ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن کریم میں اللہ نے تم لوگوں کا نام سفہاء رکھ دیاہے، میں کیا کروں؟ مجبور ہوں میں۔ کہا اچھا پھر تو یہ خداتعالیٰ کی ذمہ داری ہوگئی اور کہنے لگی آپ نے ہمیں ناواقف بھی تو قرار دیا ہے یا ناقصہ اور ناقص لوگ ہیں ہم۔ اس کا جواب سنیں۔ فرمایا نقص کیلئے یہی کافی ہے۔ ایک حصہ اس کا کچھ معقول دکھائی دیتا ہے آگے جاکر پھر فرضی کہانی ساری شروع ہوجاتی ہے۔ جس کا مطلب ہے پہلا حصہ بھی بنایا گیا ہے فرضی، یونہی۔ نقص کیلئے یہی کافی ہے کہ ہر ماہ تم پانچ دن کیلئے نمازیں چھوڑ دیتی ہو، پانچ دن سے مراد ہے حیض جتنی دیر بھی رہے کیا کسی عورت کیلئے یہ کافی نہیں۔ لیکن ساتھ آگے تشریح فرمائی ۔ کہتے ہیں یہ تو نقص والی بات ہے۔ لیکن اگلی باتیں جو ہیں وہ تم کیوں بھول جاتی ہو۔ کیا کسی عورت کیلئے یہ کافی نہیں کہ جب وہ حاملہ ہوجائے تو اسے خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کا اجر ملے گا۔ ہر عورت جو حمل اُٹھاتی ہے وہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا اجر پاتی ہے۔ اگلا حصہ یہ ہے ، جب وہ بچہ جنتی ہے تو خدا کی راہ میں شہید ہونے والے، خون میں لتھڑے ہوئے وہ زخمی کا ثواب ملتا ہے اس کو۔جو بسمل خدا کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ہر بچہ جننے پر وہ اتنی شہادت کا مقام پاجاتی ہے۔ جب بچے کو دودھ پلاتی ہے پھر کیا ہوتا ہے؟ اس کا ہر گھونٹ بنو اسماعیل کی ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ہے۔ بنو اسماعیل وہ بھی آگئے۔ اب سوچیں کہ کیا رسول اللہﷺ کا کلام ہوسکتا ہے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔یہ ہے ہمارے علماء کا مبلغ علم! یہ جو علماء عجیب و غریب فتوے دینے والے آج دنیا میں پیدا ہوگئے ہیں۔ یہی کتابیں پڑھتے ہیں اصل میں، یہ پڑھتے ہیں، اپنی عقل سے عاری ہیں۔اندھوں کی طرح دوسروں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر چل پڑتے ہیں اور نہیں جانتے کہ گڑھوں میں پھینکا جارہا ہے ہم کو، اور اپنے ساتھ دوسری قوم کو بھی ، ساری قوم کو گڑھے میں ڈال دیتے ہیںپھر۔ اب یہ رسول اللہ ﷺ کا قول سن کر ، کوئی مان سکتا ہے آدمی۔ ہر گھونٹ جو پلاتی ہے وہ اتنے غلام آزاد ہورہے ہیں اور وہ بھی بنو اسماعیل ۔ یعنی عام بیرونی غلام کی تو کوئی قیمت نہیں ہے۔ حضرت اسماعیل کی اولاد کا جو غلام ہے اس کو آزاد کرنا تو بہت بڑا مرتبہ ہے۔’’ جب وہ بچہ کیلئے رات بھر بیدار رہتی ہے تو اس کی ہر شب بیداری بنو اسماعیل کی اولاد میں سے ایک گردن آزاد کرانے کے برابر ہے‘‘۔ اب آپس میں ذرا موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ بچے کو دودھ پلانا، جو اگر نہ پلائو تو مصیبت میں مبتلاء ہوجائے۔ وہ چھاتیاں تو بھر جائیں تو پھوڑے بن جاتے ہیں اگر وہاں بچے دودھ نہ پئیں تو۔ بچہ احسان کررہا ہوتا ہے عملاً ایک لحاظ سے ۔ تو کہتے ہیں اس کا تو ہر گھونٹ اور ایک بچے کیلئے ساری رات جاگنا یہ بھی بنو اسماعیل کا ایک غلام آزاد کرانے کے برابر ہوگیا۔ ہاں یہ شرط ہے کہ یہ اجر ایسی صابر اور خوف خدا رکھنے والی مومنات کیلئے ہے جو اپنے خاوندوں کی نافرمانی نہیں کرتیں۔ اس طرح انہوں نے عورتوں کو باندھا ہے زنجیروں میں۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرکے اپنی زنجیریں ان کوپہنادی ہیں۔
سفہاء ہیں کون؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اسی تفسیر روح المعانی میں ، یہی ہے ناروح المعانی جس کا حوالہ پیش کیا تھا۔ہاں یہی! اس میں یہ روایت بھی ہے اس کے برعکس! عورتیں اوربچے۔ وہ کہتے ہیں بچے بھی سب شامل ہیں۔ عورتیں صرف بیوقوف نہیں بچے بھی سب بیوقوف۔ امام رازی اس کو اس شرط کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بھی شامل ہوسکتے ہیں مگر ہر وہ شخص جو احمق ہو، جو تصرفات پر اختیار نہ رکھتا ہو، اپنے فائدے نقصان کی تمیز نہ رکھتا ہو۔ ہر وہ شخص سفیہ کہلائے گا اور یہ اس آیت میں وہ سب شامل ہیں۔اب ایک روایت میں لکھا ہے کہ یقینا عورتیں سفہاء میں داخل ہیں۔ یہ بھی روایت تفسیر ابن کثیر نے ابو عمامہ سے بیان کی ہے کہ عورتیں لازماًسفہاء ہیں کیونکہ پہلے عورتوں کا ذکر تھا اس لیے اب سفہاء سے صرف عورتیں مراد ہیں۔ ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی دعا اللہ قبول نہیں کرتا۔ ایسا آدمی جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اسے طلاق نہیں دیتا، اب رمضان کا دعائیںقبول کرنے کا مہینہ ہے ۔ اب دیکھ لیں، اپنے اپنے گھروں کا جائزہ لے لیں۔ ہر ایسا شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اسے طلاق نہیں دیتا کہتے ہیں خدا اس کی دعا کبھی قبول نہیں کرے گا۔ جتنے مرضی رمضان گزر جائیں، وہ آدمی جس نے اپنامال سفیہ کو دے دیا، اور سفیہ سے مرادکیا ہے؟ عورت! اسی حدیث کا حصہ ہے جس میں بتایا گیا ہے۔ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے صاف فرمادیا کہ ہر عورت بیوقوف ہے۔ یہ خدا نے فرمادیا ہے رسول اللہﷺ نے نہیں۔ اور جو شخص بیوقوف کو مال دے دے گا اس کی دعا کبھی قبول نہیںہوگی اور وہ شخص جو کسی سے قرض تو لیتا ہے لیکن قرض دیتے وقت گواہ مقرر نہیں کرتا اس کی دعا بھی کبھی قبول نہیں ہوگی۔ اب ایسے تو میرا خیال ہے اکثر آپ میں سے بیٹھے ہوں گے جنہوں نے قرض واپس کیا ہوگا اور گواہ نہیں بنایا ہوگا ان کی تو نہیں ہوگی دعا۔ لیکن جو قرض دیا ہی نہیں جنہوں نے وہ شاید مقبول ہوجائے کیونکہ ان کے خلاف کوئی ذکر نہیں یہاں ملتا۔ حضرت محی الدین ابن عربی جیسا کہ صوفیانہ مزاج تھا وہ یہاں مال سے مراد بعض دوسری قرآنی آیت کے پیش نظر معرفت کے حقائق لیتے ہیں یہ مراد ہے۔ لیکن یہ صوفیانہ معنے ہیں جو اوپر کی فضا میں اُڑنے والے ہیں۔ روز مرہ کے لین دین کے معاملات میں یہ مراد نہیں ہیں۔باقی تو سب وہی ۔ سفیہ کے لفظ کا غلط استعمال اور جو خدا نے حق دیا دوسرے ہاتھ سے اسے گویا واپس لے لیا سفیہ کہہ کے! عجیب و غریب تفسیریں کی ہوئی ہیں سمجھ ہی کچھ نہیں آتی۔ دماغ بھِنّا جاتا ہے آدمی کا پڑھ پڑھ کے۔ تفسیر کافی میں لکھا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انہوں نے بڑا نشانہ بنایا ہے۔ جہاں تفسیری معاملہ ہو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ دے دیا، بات ختم ہوگئی اور جہاں عام حدیثیں بیان کرنی ہوں وہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام کافی ہے اور اکثر انہی دو کے درمیان بات مکمل رہتی ہے۔ اس کے دائرے کے اندر ہی رہتی ہے۔ سب سے اہم حصہ ضروری یہ ہے کہ قرآن اور محمد رسول اللہﷺ کی سنت کی کسوٹی پر اگر کوئی حدیث پوری اُترتی ہے تو روایت ہو یا نہ ہو اُسے ضرور قبول کرو، کیونکہ اس کا جھوٹا ہونے کا بہر حال کوئی امکان نہیں ہے اور اگر اس کے منافی ہے تو ہزار روایتیں کہہ رہی ہوں اس کو قبول نہ کرو اور یہاں بالرائے مراد نہیں ہے۔ واضح، قطعی، قرآنی مسلک جو واضح ہیں اور کھلے ہیں اور بینات میں داخل ہیں۔ رسول اللہﷺ کی سنت جو بینات میں داخل ہے وہ مراد ہے میری! اب یہ جو روایتیں، نام سن کر لوگ مرعوب ہوکر عجیب و غریب قسم کے مسلک اختیا ر کرلیتے ہیں اس کی ایک مثال دیکھیں۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال تمہیں بخشا ہے اور جس مال میں تصرف کا تمہیں اختیار دیا ہے اور اسے تمہارے گزر اوقات کا ذریعہ بنایا ہے، اسے دوسروں کو دینے کا قصد نہ کرو ۔ اس طرح کہ اگر تم اسے اپنی بیوی اور بیٹی کو دے دو اور پھر ان سے واپسی کی امید لگائے بیٹھے رہو ، تو یہ نہیں ہوسکتا پھر! دے دو گے تو پھر گئی۔ گویا کہ اپنی بیوی کو بھی کچھ نہیں دینا، اپنی بیٹی کو بھی کچھ نہیں دینا۔ یہ کہاں سے حدیث آگئی ہے؟ رسول اللہ ﷺ تو عورتوں سے، بچوں سے حسن سلوک پر اتنا زور دیتے تھے کہ بسااوقات ایسی روایتیں بھی ملتی ہیں کہ کسی شخص نے اپنا سب مال پیش کردیا، آپﷺ نے قبول نہیںکیا۔ آپﷺ نے فرمایا بیوی بچوں کیلئے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟ تو رسول اللہ ﷺ تو اہل و عیال کا خیال رکھنے کی سب سے اعلیٰ مثال تھی۔ فرماتے ہیں کہ خیرکم خیرکم لاھلہ۔ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہو۔ وانا خیرکم لاھلہ میںہر اس شخص سے زیادہ اپنے اہل کا خیال رکھتا ہوں جن پر لفظ خیر کا اطلاق پاتا ہے۔ باقی انشاء اللہ کل!
ایک حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس ہے۔ میں اسے باقی کل پھر پیش کروں گا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ13؍رمضان بمطابق 3؍ فروری 1996ء
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ولا تُؤتوا السُفھاء اموالکم الّتی جعل اللّٰہ لکم قیامًا وارزقو ھم فیھا واکسُوھم و قولوا لھم قولاً معروفاً (سورۃ النساء :۶ )
اس پرپرسوں کچھ تھوڑی سی بات تو ہوچکی ہے ناں! یہاںلفظ سفیہکی بحث ہے اب، کہ سفیہ کس کو کہتے ہیں۔ سفیہ کا ایک لفظ جو ہے یہ بہت عام معنوں میںاستعمال ہوتا ہے، مختلف موقعوںپر اس کے مختلف معانی ہیں۔ قرآن کر یم کی ایک مثال میں نے پہلے بیان کی تھی۔ ایسا شخص جس کو خود اپنے مفاد کا کوئی علم نہ ہو۔ اُس موقع پر قرآن کریم نے لفظ ’’السفہائ‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ اپنے آپ کوہوشیار بھی سمجھتا ہو اور اپنی طرف سے چالاکیاں بھی کرتا ہو، مگر بالآخر اس کا ہر فیصلہ اس کے اوپر اُلٹ پڑے۔ اس کے مفاد کے خلاف جائے ، خداتعالیٰ کے نزدیک یہ شخص سفیہ ہے۔اور اہل لغت نے جو بحثیں اٹھائی ہیں‘ ان میں کچھ تو عموماً بیوقوف‘ موٹے دماغ والا آدمی اور روزمرہ کی سمجھ سے عاری‘ یہ سب باتیں اس میں‘ لغت میں سفیہ کے لفظ کے نیچے ملتی ہیں۔مگر ایک ایسی تعریف ہے جس کا مال سے خصوصیت سے تعلق ہے۔ اور وہ ہے ’’جو اپنے مال کے تصرف میں‘ اپنے حق میںصحیح فیصلہ نہ کرسکے اور مال کے تصرف کے لحاظ سے عاری ہو‘‘۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خاص طور پر اس ترجمے کو اس موقع پر بہت پسند فرمایا ہے۔ اور دلیل یہ دی ہے کہ یہی ترجمہ کیوںہوناچاہیے؟ دلیل یہ دی ہے کہ ایسے بھی لوگ نظر آتے ہیں جو بظاہر بیوقوف ہیں اور ہر دوسری بات میںبیوقوف ہیں مگر مال میں ایسے چالاک کہ ان کی مثال نظر نہیں آتی‘ تو دوسری بیوقوفی کے بہانے ان کو اموال کے حق سے کیسے محروم کرسکتے ہو؟ اور کچھ ایسے ہیںجو بہت ہوشیار‘ ذہین‘ لیکن مالی معاملات میں کمزور۔ اور عورتوں میں اس قسم کی جو ہے ناں سفاہت یعنی ان محدود معنوں میں ‘ یہ زیادہ ملتی ہے۔ تبھی مالی امور میں گواہی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں ایک مرد کی بجائے دو عورتیں یعنی یہ نسبت اس لئے قائم فرمائی جارہی ہے تاکہ اگر کوئی ایک بھول جائے‘ اُسے مالی بات کی سمجھ نہ ہو تو دوسری یاد کرادے۔ تو یہاں سفاہت سے مراد عام بیوقوفی نہیں ہے‘ ایسی عورتیں بھی جو ہر دوسرے معاملے میںبڑی روشن دماغ ہوتی ہیں‘ اپنی جائیدادیں سنبھالنے میں‘ اپنے اموال سنبھالنے میں دقت محسوس کرتی ہیں۔ ان کا مزاج اس طرف نہیںآتا۔ اس کے برعکس ایسی عورتیںبھی ہیںجو مردوں سے بھی زیادہ مالی امور میںسلیقہ رکھتی ہیں‘ ہوشیار ہیں۔ اور بڑی بڑی تجارتیں چلاتی ہیں اور یہ جو عورتیں ہیں یہ ضروری نہیں کہ بحیثیت عورت کے یہ ملکہ رکھتی ہوں‘ نہ مالی امور میں بہتر سلیقہ مردوں کا حصہ ہے نہ عورتوں کا۔ یہ ملکوں اور قوموں کے رواج پر منحصر بات ہے ۔ چنانچہ برما میںاکثر تجارتیں عورتیںکرتی ہیں۔ اور بہت ہی ہوشیار ہیںتجارتوں میں ۔اللہ کے فضل کے ساتھ جن کی میرے ساتھ خط و کتابت ہے‘ احمدی خواتین‘ وہ اپنے مردوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تجارت میں ہوشیار اور مالی امور میں انہوں نے بہت ہی گہرا ملکہ حاصل کرلیا ہے۔اسی طرح افریقہ کی عورتیں مالی امور میں بڑی سمجھدار ہوتی ہیں۔
پس اس پہلو سے بھی سفہاء کا ترجمہ ’’عورت‘‘ کرنا سراسرناجائز ہے۔ سفہاء ایک ایسی صفت ہے جس کا ایک خاص زیر بحث معاملے سے تعلق ہے‘ وہ ہے اموال۔اور اس سے زیادہ وسیع معنے کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔مال کے معاملے میںخواہ مرد بے سلیقہ ہو‘ اور بیوقوف ہو یا عورت ہو‘ دونوں کے ساتھ برابر سلوک ہونا چاہیے۔اور خطاب اس میں سفہاء کہا گیا ہے جس میں اوّل طور پر مرد مخاطب ہیں‘ سفیہ مرد کو کہتے ہیں سفہائاس کی جمع ہے۔ پس عورتوں کو مخاطب نہ کرنا اس غرض سے ہے کہ مردوںکے خطاب میںعورتیںشامل ہوجایا کرتی ہیں۔ عورتوں کے خطاب میںمرد شامل نہیںہوتے۔ اس لئے قرآن کریم نے اس طرزِ خطابت کو بھی وسیع رکھا ہے اور کھلا رکھا ہے۔ تو یہ باقی ساری باتیں یونہی بعض لوگوں کے بہانے ہیں‘ عورتوں بیچاریوںکو ان کے حقوق سے محروم کرنے کیلئے کئی قسم کی ایجادیں مردوں نے کررکھیں ہیں‘ یہ بھی انہی میںسے ایک ہے۔ مگر قرآن کریم میںسفہاء کا لفظ جس طرح استعمال ہوا ہے‘ جائز اجازت اس کی نہیںدیتا۔ اور یہ معاملہ صرف بیویوں کے تعلق میں ہے ہی نہیں‘ نہ یتیم عورتوں کے متعلق ہے۔ جب کہ بعض مستشرقین نے بھی اسے بے وجہ یتیم عورتوں تک محدود کردیا ہے۔عربی اور قرآن کے استعمال سے قطعی طورپریہ وسیع معاملہ ہے۔ہرمالی معاملے میں مرد ہو یا عورت یتیم ہو یا غیر یتیم ہو‘ اس کے اموال اُس حدتک قوم کی ذمہ داری ہیں‘ جس حد تک قوم امین ہے تمام اپنی قومی دولت پر ۔ اس پہلو سے اموالکم فرمایا گیا ہے۔ جہاں قوم کسی مال پر امین نہیں ہے‘ وہاں ہر جگہ دخل اندازی کا قوم کو حق نہیں ہے۔ اور یہ دو جو چیزیں ہیں‘ فقہاء نے الگ الگ اٹھائی ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھادیا کہ اگر کسی ایسے شخص کو جو ذہنی طور پر مالی امور میں ہوشیار نہ ہو یا تجربہ نہ رکھتا ہو‘ اس کو اس کی جائیداد سے محروم کیا جاسکتا ہے‘ اس کے تصرف سے۔ تو پھر اگر بعد میںکوئی شخص اس قسم کی حرکتیں کرے تو کیا اسے بھی محروم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہر شخص کے حق میںدخل اندازی ہوسکتی ہے۔ کسی کو دے کر پھر اس سے واپس لیا جاسکتا ہے۔ یہ جو بحث ہے یہ اسی آیت کے حوالے سے فقہاء نے اٹھائی اور بعض نے یہ فتویٰ دیا کہ دے دو مال‘ یہ سمجھ کر کہ وہ معقول ہے‘ لیکن نظر رکھنا ہر وقت‘ جہاں بیوقوفی ہوئی وہاں اُس سے مال واپس لے لیا۔ اگر قرآن کریم کا یہ منشاء ہوتایا ہو تو دنیا میں تجارتیں چل ہی نہ سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی اچھے تاجر بھی کبھی غلط سودے کرکے کھودیتے ہیں‘ سب کچھ یا ایک حصہ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ جبکہ بعض جائیدادیں ہیں جو ابھی قائم ہیں۔
پس کیا ایسی صورت میں ان قائم جائیدادوں پر قبضہ کرلے گی حکومت۔ یہ جو دخل اندازیاں ہیں بہت زیادہ آگے بڑھانے سے سارا نظام تباہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کسی آیت کے منطوق کو ‘اس کے محل کوسمجھنا ضروری ہے۔ یہاں بنیادی طور پر بحث جوہے وہ اس پس منظر میں ہے کہ بہت سے یتامیٰ ہیں‘ بہت سے بچے ہیں‘ بہت سے بڑے بھی ہیں۔ جن کو ان کے والدین کی شہادت وغیرہ سے اچانک جائیداد وں کے استعمال کی ضرورت پیش آگئی اور اس کے نتیجے میں کئی ایسے ہیں جن کوچونکہ تجربہ نہیں ہے یا عقلی طور پر مالی امور کا سلیقہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ قومی جائیداد کو ضائع کریں۔ اور قومی جائیداد کو ضائع کرنے میںصرف یہ مراد نہیں ہے کہ ان کا مال جاتا رہے۔ قوم کے اموال بھی اس طرح گھٹتے ہیں اور غلط رحجانات تجارتوں میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک یہی بے احتیاطی ان معاملات میں‘ بددیانتی کو بھی جنم دیتی ہے۔ پس جہاں دیکھا کہ کوئی سادہ سا آدمی ہے اس تک پہنچ کر کسی طرف سے‘ خاموشی سے اس سے سودے کرلیے جائیں ‘اُس سے ایسی باتیں طے کرلی جائیں‘ جو عملاً اس کے مال پر تصرف کا مرتبہ رکھتی ہوں اور پتہ اس وقت لگے جب معاملہ طے ہوچکا ہے‘ ختم ہوچکا ہے۔ اس طرح اور اس کے علاوہ بھی بہت سے بددیانتی کے موقعے کھلیں گے۔ اور خطرہ ہے کہ ساری اقتصادیات کا مزاج بگڑ جائے گا۔ اور قرآن کریم نے بھی اور احادیث میں آنحضرتﷺ نے بھی مالی معاملات میںاس احتیاط پر بہت زور دیا ہے کہ اس سے بد دیانتی پیدا نہ ہو۔ تو ایسے حالات میں ایسا احتمال اٹھتا ہے اور واقعۃً یہ ہوجاتا ہے۔ میرے علم میں ذاتی طورپر ایسی مثالیں ہیں جن میںکسی نے اپنی جائیداد چھوڑی اوربڑی محنت سے کمائی اور بڑی محنت سے اپنی اولاد کے حقوق کا خیال رکھا۔ اولاد بالغ ہے اور اپنااپنا حصہ لے لیتی ہے تصرف میں کچھ ہیںجو بڑھادیتے ہیں‘ کچھ ہیں جو سب کچھ ضائع کربیٹھتے ہیں۔ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ اگر خاندان بحیثیت مجموعی اس بات پر زور دیتا کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق بالغ توہو‘ ورثے کے اہل تو ہو مگر یہ مطلب میرا ہرگز نہیں ہے کہ تم اموال کو اپنی بیوقوفیوں سے ضائع کرو جو دراصل قومی ملکیت ان معنوںمیں ہیں‘ کما یاتو باپ نے تھا اور ورثہ جب انسان پاتا ہے تو خدا کی طرف سے دوبارہ ملکیت اس کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ براہِ راست انسان مالک نہیں بناکرتا۔تو اس پہلو سے ورثہ حاصل کرنے کی شرط کو پورا کرو۔ اگر تم میں صلاحیت نہیں ہے تو ہم انتظام کریں گے۔ اور تمہاری ضرورتیں پوری کریں گے۔ اس تعلق میںایک اور بحث بھی اٹھتی ہے کہ کھانا کھلانا وارزقوھم فیھا واکسوھم سے کیا مراد ہے؟ ایک تو عام مراد تھی جس کے متعلق میںپرسوں بات کرچکا ہوں۔ایک یہ ہے اس کو کھانا کھلانا‘ پہنانا‘ اوڑھانا ‘ کیا مطلب یہ ہے کہ ہر ایسی صورت میں اس کو کپڑے خرید کے دو‘ سودا لاکے دو‘ اس کو معین روٹی دو اور کہو کہ یہ تمہارا انتظام ہے۔ لنگر سے روٹی منگوادو اُسے پیسے دے دو۔ کیایہ مراد ہے؟ ہر گز یہ مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ مراد اس مبحث کے مقصد کے خلاف ہے جو اٹھایا گیا ہے۔ مبحث صرف یہ ہے کہ ایسا شخص اپنی جائیداد کے انصرام‘ اس کے انتظام کی اہلیت رکھتا ہے کہ نہیں۔ دو الگ الگ چیزیں ہیں جس کا فرق سامنے رکھنا ہوگا۔ ایک ہے مالی امور کی ایسی نگرانی جیسے ایک تاجر کو کرنی پڑتی ہے یا زراعتی امور کی ایسی نگرانی جیسے ایک زمیندار کو کرنی پڑتی ہے۔ اس میں کافی انتظامی ڈھانچہ بھی ہے۔ بروقت کاشت کرنا‘ مختلف موسموں کے تقاضے پورے کرنا‘ مختلف بیماریوں کے خلاف مستعد رہنا وغیرہ وغیرہ۔بیحد تقاضے ہیں جو زمیندارے کے ساتھ بھی خاموشی کے ساتھ چلتے ہیں۔
اب ایک شخص جس کو اس کا تجربہ نہیںہوگا‘ اس کو وقتی طور پر اس کا انتظام دینے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کو ہم پہلے کچھ تھوڑا تھوڑا اس بات کیلئے تیار کرلیں‘ یہ ایک الگ مضمون ہے۔ ایسا شخص روز مرہ جو خرچ کرتا ہے وہ ٹھیک کرتا ہے بسا اوقات۔ اور ضروری نہیں کہ اسراف کرے۔ ایسا شخص بسا اوقات اپنے رہن سہن گھر بار کو آرام سے چلا سکتا ہے۔ تو ایک علاقے کی‘ ایک جگہ کی کمزوری کو دوسری جگہ پر کیوں اطلاق کیا جائے اور اس کی زندگی کو کیوں مصیبت بنایا جائے اور قرآن کریم کا یہ منطوق تو نہیں ہے۔ قرآن کریم تو حقیقی مسائل کو اٹھاتا ہے‘ حقیقی مسائل کے حقیقی حل تجویز کرتا ہے اور کوئی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ایک مسئلے کے حل کو اس طرح بگاڑا جائے کہ ایک اور جگہ مسئلہ پیدا ہوجائے۔ پس مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی جائیداد کے تصرف کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اور ان کو نقصان کا خطرہ ہے۔ ان کے مفاد میں بات ہورہی ہے‘ قوم کے مفاد کا تو ضمناً ذکر آیا ہے۔ اصل میںان کا مفاد ہے اور اس کی حفاظت کا ایک طریق بتایا ہے۔ ان کے مفاد کے نام پر ان کو نقصان پہنچا دو اور ان کو عمر بھر کیلئے قیدی بنالو اپنا۔ یہ کیسے قرآن کریم کا مطلب نکال سکتے ہو۔ پس قرآن کا جو مفاد ہے‘ جو منشاء ہے اس کو سامنے واضح طور پر رکھے بغیر قرآن کریم کا کوئی مفہوم اختیار کرنا اور لوگوں میں اس کی تلقین کرنا درست نہیں ہے۔ پس یہ ایک معین موقع ہے جو بڑا واضح ہے۔ سفہاء کا ذکر اموال کے تعلق میں واضح ہے۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مؤقف لیا۔ جیسا کہ اہل لغت بھی بیان کرتے ہیں کہ یہاں محدود معنی ہوگا سفاہت کا جو مالی امور اور مالی لین دین میں اس بات کے اہل نہیں ہیں۔یہی محدود معنٰی بعض دفعہ خرچ کے تعلق میں بھی ہو جاتا ہے۔ اور جہاں یہ دو باتیں اکٹھی ہوجائیں پھر وہ ایسے مسائل بڑے گھمبیر ہوجاتے ہیں‘ ان کا حل کرنا بڑا مشکل ہوجاتاہے۔
بعض ایسے ہیںجو انتظام تو نہیں کرسکتے مگر روز مرہ کا اپنی دیکھ بھال کرنا اور عام دنیا کے معقول طریق پر خرچ کرنا‘ ہاتھ کھلاکرنا‘ ہاتھ روکنا یہ سب صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہیں جو نہ انتظام کا سلیقہ رکھتے ہیں نہ روز مرہ کے خرچ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ان کا معاملہ کوئی لکا چھپا معاملہ نہیںہوا کرتا۔ جائیداد کے تصرف سے پہلے بھی قرضے اٹھانے والے لوگ ہیں یہ۔ باپ کی‘ ماں کی یا کسی اور جس کا وارث وہ بنے ہیں یہ ‘ اس کا وارث بننے سے پہلے ہی یہ حال ہوتا ہے کہ آئے دِن کبھی اُس سے قرضہ کھایا کبھی اُس سے قرض پکڑا اور ماںباپ کو بسا اوقات ان کے قرضے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بعض دفعہ اگر وہ نہ دیں تو پھر ان کو مصیبت پڑتی ہے۔ ایسے لوگ سوسائٹی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن پر سفاہت دونوں پہلوؤں سے صادق آجائے۔ جب یہ جائیداد کے وارث بنتے ہیں تو آناً فاناً ان کی جائیداد غائب ہوجاتی ہے اور اس موقعے پر ناجائز فائدہ اٹھانے والے ان سے بہت ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کچھ ان کی شہزادگی کی تعریفیں کرتے ہیں کہ واہ! واہ! بھئی یہ ہے شاہی خرچ ماشاء اللہ۔ یہ ہیں شہزادگان ان کو پتہ ہے کہ کس طرح زندگی میں رہنا ہے۔ مہمان آئے ہیںتو سب کچھ ان پہ لٹادیا۔ کئی قسم کے کھانے کھلائے‘ ہوٹلوں میں پھرایا‘ ان کی کاروں کے بل ادا کئے۔ بڑی واہ‘ واہ ہوئی۔ لیکن وہ تجارت کے پیسے سے نہیں کمارہے ہوتے‘ وہ جائیدادیں بیچ بیچ کے کھارہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ سفیہ ہیں جن کا اوّل طور پرقرآن کریم میں ذکر ہے کہ اگر ایسے لوگ ہوںجو نہ جائیداد سنبھال سکتے ہوں نہ انہیں خرچ کا سلیقہ ہو‘ دکھائی دے رہے ہیں تمہیں۔ تم اگر خاموش بیٹھے رہو گے تو قوم کی جائیدادیں ضائع ہوںگی۔ اس لئے دخل دو اور کورٹ آف وارڈ جو میں نے لفظ استعمال کئے تھے وہی یہاں برمحل صادق آتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر کورٹ آف وارڈ مقرر ہونی چاہیے اور بلکہ ان کے اخراجات پر بھی نظرہونی چاہیے۔ ان کے متعلق ؟ سوسائٹی کو متنبہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں پر کورٹ آف وارڈ اس وجہ سے ہے ‘ اگر تم نے ان کو قرضے دیئے تو ہم ذمہ دار نہیںہوں گے۔ایک دفعہ انگلستان میں ایک جلسے سے پہلے میں نے یہ اعلان کیاتھا وہ کورٹ آف وارڈ کی شکل تو نہیںتھی مگر اس سے ملتی جلتی ضرورتوںکے پیش نظریہ اعلان کرنا پڑا کہ بہت سے آنے والے ایسے ہیں جن کے جانے کے بعد یہ شکایتیں ملتی ہیں کہ آپ میںسے جو لوکل ہیں ان میں سے کئیوں سے قرض لے گئے کہ ہم جاکے واپس کردیںگے اور آپ نے اپنی طرف سے مہمان نوازی کے تقاضے پوری کرتے ہوئے اور یہ شاید اپنی واہ واہ کیلئے بھی ایسا کردیا ہو‘ اگر کمزوری دکھاگئے ہیںیا سچی ہمدردی میں یہ کام کیا ہو۔ مگر یہ بھی ایک سفاہت ہے۔ اس سفاہت سے بھی بچنا ضروری ہے کہ کسی سفیہ کے مددگار بن جائیں۔ او رپھر اپنامال بھی ضائع کر بیٹھیں۔تو میں نے یہ وارننگ دی تھی کہ اگر کوئی آتا ہے اور آپ سے قرض مانگتا ہے ‘ آپ کا فرض ہے کہ یا تو جماعت سے پہلے مشورہ کریں اور معلوم کریں کہ پیچھے ان کے کیا حالات تھے۔ ان کی کیا روایات ہیں اور پھر دیں۔ تو پھر اپنی ذمہ داری پر دیں۔ ایسی صورت میں اگر جماعت نے غلط انفارمیشن پہنچائی تو پھر جماعت سے بھی پوچھا جائے گا کہ کیوں ایسا کیا؟لیکن بالعموم ایسا نہیںہوا کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ‘ نیک نیتی سے‘ صحیح حالات سے ہی پوچھنے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی ذمہ داری سے اس خیال سے کہ ذاتی تعلقات ہیں ہم نہیں پسند کرتے کہ تحقیق کریں‘ ان کو کچھ رقم دی تو پھر میرے پاس شکایت نہ کریںاب۔ میں نے آپ کو متنبہ کردیا ہے۔ آپ ذمہ دار ہیں اس شرط پر دیں کہ کھا گیا تو کھاگیا مگر جماعت کونہ پھر پکڑیں۔ مجھے چٹھیاں لکھ کے میری طبیعت مکدر نہ کریں کہ فلاں آیا اور لے کے بھاگ گیا‘ فلاں آیا اور لے کے بھاگ گیا‘ فلاں دور سے یا نزدیک سے آپ کا رشتہ دار بھی بنتا ہے۔فلاں ایسے خاندان سے ہے ہم تو سمجھتے تھے کہ بہت اعلیٰ خاندان کا ہوگا یہ کر بیٹھا ہے۔ یہ ساری باتیںاس آیت کے منطوق کے خلاف ہیں۔ یہاں سب خاندان پیش نظر ہیں اچھے ہوں ‘ برے ہوں‘ کمزور ہوں‘ امیر ہوں یا غریب ہوں۔سب برابر اس آیت میں مخاطب ہیں اور مراد یہ ہے کہ دو باتوں میںمومن کیلئے احتیاط ضروری ہے۔
اپنے مال کے تصرف میں جہاں تک ممکن ہے ایسا تصرف ہو کہ مال بڑھے کم نہ ہو اور انسان اصل زر کونہ ختم کرے۔ پس سفاہت کا پہلا امتحان یوںہوتا ہے کہ ایک شخص جو اپنے کھانے پینے میں اصل زر پر ہاتھ ڈال رہاہے وہ سفیہ ہے۔ میرے نزدیک اس سے زیادہ واضح‘ قطعی اور کوئی تعریف ممکن نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو وارث ہوتے ہی جائیدادیں بیچنے لگ جاتا ہے‘ جو تجارتیں بیچنے لگ جاتا ہے‘ جس کا خرچ فوراً اس کی آمد سے بڑھ جاتا ہے وہ سفیہ ہے۔ اور اگر خرچ نہ بھی بڑھے تب بھی پارشل(partial)سفیہ ہے وہ۔ اگر وہ انتظام سے توعاری ہے لیکن اخراجات مناسب ہیں‘ ایسی صورت میںاس حصہ میں دخل دینے کا قوم کو کوئی حق نہیں۔ کہ اس کا روٹی کپڑا لگوادو اور کہو کہ بس۔ ایسی صورت میں اس کی جائیداد کے انتظام سنبھالنا‘ اسکی مدد کرنا قومی فرض ہے۔ لیکن محض کپڑا اور سبزی اور گوشت خرید کردینا یہ قومی فریضہ نہیںہے۔ یہ اس کے حق اور اس کی عزت کے بھی خلاف ہے۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ و قولوا لھم قولاً معروفاً ایسے موقع پر بسا اوقات دل آزاری کی باتیں بھی کردی جاتی ہیں اور یہ طعنے جو ہیں یہ ان بیچاروں کی زندگیاں اجیرن کردیتے ہیں کہ تم تو بس کھانے پینے کیلئے آئے ہو‘ تم نے تو سب کچھ اُجاڑ دیا‘ تمہارے ماں باپ نے کس محنت سے کمایا‘ اپنا حال دیکھو۔ یہ طعنے کبھی بھی فائدہ نہیںدیتے۔کیونکہ آج تک میں نے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیںدیکھا جو ان طعنوں کے نتیجے میں سنبھل گیا ہو۔اس کے دل میں انتقامی جذبہ تو پیدا ہوتا ہے‘ اور زیادہ متنفر ہوتا ہے اور اپنے احسان کرنے والوں کا دوست بننے کی بجائے اُن کے خلاف انتقامی جذبے پالتا ہے۔ اور کہتا یہ دیکھو رشتے دار بنے بیٹھے ہیں۔ یہ میرے بڑے بنے بیٹھے ہیں‘ یہ تو ہر وقت طعنہ زنی کرتے ہیں اور ان کا کیاکام ہے میرے معاملے میں دخل دینے کا۔ یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کا اگلا نقصان یہ ہے کہ ان کی اولادیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اکثر میں نے یہ دیکھا ہے۔ یہ جو آیت ہے اس کا مضمون بہت گہرا اور وسیع ہے۔ ایسے خاندانوں میںجہاں ماں باپ سے سوسائٹی طعن آمیزی کاسلوک کرے وہ اپنے بچوں کو سوسائٹی کے خلاف کرتے رہتے ہیں ۔بچپن سے ان کے کان بھرتے رہتے ہیں اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی بیچارے کسی کام کے نہیں رہتے ۔ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یا اپنے ماںباپ کی وجہ سے سوسائٹی کے خلاف ایک انتقامی غصّہ لے کر اسے پالتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔
پس ان سب پہلوئوں سے احتراز لازم ہے اور یہ جو آخری حصہ ہے یہ بڑا ضروری ہے بیان کرنا۔ و قولوا لھم قولاً معروفاً دیکھو بیوقوفی ہے تبھی تو تمہیں حق دیا ہے کہ ان کے مال سنبھالنے میں ان کی مد د کرو۔ مگر یہ حق نہیںدیا کہ طعن آمیزی کرو‘ یہ حق نہیں دیا کہ ان کے دل دُکھائو‘ان کے ساتھ جب بات کرو تو معروف بات کرو‘ مناسب بات کرو اور معروف بات میںیہ بھی ہے کہ ان کی تربیت کرو ‘ ان کو تلقین کرو۔ صحیح باتیں کیسے کرنی چاہئیں؟ روز مرہ کے معاملات میں معروف طریق کیا ہے۔ اس کی بھی ان کو نصیحت کروا ور اس معاملے میں ان کی تربیت کی کوشش کرو۔ یہ ہے عمومی اس آیت کا مبحث اور جو میں سمجھا ہوں۔ وہ میں نے آپ کے سامنے کھول کر بیان کردیا ہے۔ باقی معجم الوسیط وغیرہ جتنی بھی لغت کی کتابیں ہیں یا تفاسیر ہیں انہوں نے جو معنے بیان کیے ہیں سفاہت کے وہ وہی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں ۔ بعض کہتے ہیں : غلط راہ پر ڈالا سَفَہَ و سَفِہَ اوربعض کہتے ہیں اس کا یہ بھی ترجمہ ہے کہ ہلاک کردیا۔ پس مال کے تعلق میں غلط رستے پر چلنے والے یا اپنے اموال کو ‘ جائیدادوں کو ہلاک کردینے والے‘ یعنی کچھ بھی ان کا باقی نہ رہے۔ یہ سارے وہ سفہاء ہیں۔ پھر دھوکہ دینا بھی سفاہت میں داخل ہے۔ السافِہ ایک احمق کو کہتے ہیں۔ السفیہُ من یبزرمالَہَ فی مالاینبغی یعنی وہ شخص جو اپنے مال کو ناجائز جگہوں پر خرچ کرے۔ پس یہ دو الگ الگ تفریقیں ضروری تھیں جو میںنے آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔مال کا تصرف ایک پہلو ہے اس کا اور روز مرہ کے خرچ چلانا دوسرا پہلو ہے۔ اور ضروری نہیںکہ دونوں اکٹھے ہوں۔ بعض جگہ ایک پہلو چسپاں ہوتا ہے بعض جگہ دوسرا اور بعض جگہ دونوں جب چسپاںہوتے ہیں تو پھر بہت ہی خطرناک صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ قیاماً کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قیام کے متعلق شاید پہلے بھی میں آپ کو بتاچکا ہوں‘ کسی چیز کیلئے کوئی سیدھا کھڑا ہوجائے۔ اس کے حق میں‘ اس کے دفاع کیلئے کھڑ اہوجائے‘ ثابت قدمی دکھائے۔ اصل میں تو اپنی ذات میں ثابت قدمی کیلئے تو استقامت کا لفظ آیا ہے ۔ لیکن دوسروں کیلئے اور اپنی ذات میں عموماً سیدھی روش اختیار کرنے والے کو‘ مضبوط روش اختیار کرنے والے کو قائماً کہیں گے۔ وہ قائم ہے اور دوسروں کے حق میں بھی جو مضبوط رویہ اختیار کرتا ہے اوردرست رویہ اختیار کرتا ہے۔ یہ دونوں شرطیں ہیں۔ اس کیلئے لفظ قام کا استعمال ہوسکتا ہے اور قوام کا ایک بنیادی مطلب عدل ہے۔ پس درست صحیح رویہ عدل سے پیدا ہوتا ہے۔ پس قائم وہ ہے جو عدل کرسکتا ہے تو تمہیں قیام بنایا ہے۔ مراد یہ ہے کہ تم نے عدل سے کام لینا ہے۔ اس لئے تمہارے سپرد مال ہورہے ہیں۔ کسی ایسے شخص کے سپرد یا کسی ایسی کمیٹی کے سپرد اموال نہیں کیے جاسکتے۔ جو عدل سے عاری ہو۔ کیونکہ وہ قیام بننے کی صلاحیت کھودیتے ہیں۔
پس جہاں بھی ایسے کورٹ آف وارڈ مقرر ہوں ‘ خاندانی ہوںیا بیرونی ہوں‘ دونوں صورتوں میںعدل کی شرط کو ملحوظ رکھنالازم ہے۔ أکسُوْاھُمْکا جو میں نے پہلے بھی ترجمہ کردیا تھا وہاںصرف کپڑے پہنانا مراد نہیں ہے۔اصل ألکِسْوَۃُ کہتے ہیںاچھے لباس کو‘ خوبصورت چیز کو۔جو تن کو ڈھانپے اور اچھی طرح ڈھانپے اور اس سے رونق پیدا ہو۔ زمین بھی جب سرسبزی اگاتی ہے اور بہا رکامنظر پیش کرتی ہے اس کیلئے کساۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ باقی باتیں میں بیان کرچکاہوں پہلے ہی۔ تفسیر ابنِ کثیر نے مثلاً لکھا ہے‘ ابو عمامہ سے کچھ روایت ہے اور ابو موسیٰ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایسا آدمی جس کی بیوی بدخلق ہو‘ اُسے طلاق نہیں دیتا‘ جس نے اپنامال بیوقوف کو دے دیا اور وہ جو قرض دیتے وقت گواہ مقر رنہیں کرتا‘ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ یعنی میںیہ نہیںکہہ رہا کہ قبول نہیںہوتیں میرا مطلب ہے کہ بعض مفسرین جہاں تک بھی گئے ہیں۔ مخاطب کون ہیں؟ یہ پہلے بھی بیان کرچکا ہوں ۔ بعض لوگوں کے نزدیک جیسے امام رازی کے نزدیک اولیاء مخاطب ہیں۔ ہر گھر کا اپنا ایک ولی بھی ہوتا ہے اور ایک اولیاء سارا خاندان‘ ایک ولایت کا حق رکھتا ہے۔ بعض دفعہ قوم ولایت کا حق رکھتی ہے۔ تو حضرت اما م رازی نے اسے عموماً اس سے اولیاء سمجھے ہیں جو اس آیت میں مخاطب ہیں۔ تفسیر قاسمی نے بھی یہی بات لکھی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد‘جو باتیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں ‘ اس میں خداتعالیٰ کا احسان ہے کہ بالکل یہی امور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس میںمیرے سامنے ہیں۔ جہاں ایک جگہ اجتماعی صورت میں اس آیت کے تعلق میں اس ساری باتوںکو گھیر لیا گیا ہے اور جو تفسیر ہے اس سے زیادہ روشن تفسیر ممکن نہیں۔ یعنی اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نابالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے اپنے مال کو ضائع کردے گا تو تم بطور کورٹ آف وارڈ ز کے‘(یہی لفظ استعمال فرمایا ہے) وہ تمام مال‘ اس کے متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو۔ اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اورمعیشت کا چلتا ہے‘ ان بیوقوفوں کے حوالے مت کرو۔اور اس مال میں سے بقدر ضرورت ان کے کھانے پینے اور پہننے کیلئے دے دیا کرو۔ اب یہ بھی دیکھ لیں وہی بات ہے یہ نہیں فرمایا کہ کھلائو پلائو ‘ خرید کے کپڑے۔ فرمایا ہے بقدر ضرورت ان کے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کیلئے د ے دیا کرو۔ اور ان کواچھی باتیں‘ قول معروف کی کہتے رہو یعنی ایسی باتیں جن سے ان کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے ان کے مناسب حال ان کی تربیت ہوجائے۔ اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں۔ اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تاجر کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے تجارت کے طریقے انہیں سکھلائو۔ اور اگر کوئی پیشہ وہ رکھتے ہوں تو اس پیشے کے مناسب حال ان کو پختہ کردو۔ غرض ساتھ ساتھ ان کو تعلیم دیتے جائو۔ اور اپنی تعلیم کا وقتاً فوقتاً امتحان بھی کرتے جائو۔ جب ایک انسان سکول میں بچے کو ڈالتا ہے تو سال بہ سال بھی امتحان ہوتے ہیں۔ ماہ کے امتحان بھی ہوتے ہیں‘ تعلیم کے ساتھ‘ تربیت کے ساتھ امتحان کا توایک چولی دامن کا ساتھ ہے۔
تو فرماتے ہیں:- ساتھ ساتھ امتحان بھی لیتے جائو کہ کس حد تک انہوں نے تربیت حاصل کرلی ہے کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ پھر جب نکاح کے لائق ہوجائیں‘ یعنی عمرقریبا ً۱۸ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ ان میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہوگئی ہے تو ان کا مال ان کے حوالے کرو۔ یہ جونکتہ ہے اہم یہ پہلے میرے بیان سے نہیں بیان ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ نہیں فرمارہے کہ جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں اس وقت امتحان لو اور اس وقت فیصلہ کرو کہ مال تمہیں نہیں دینا۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ بچپن ہی سے تمہارے پاس جو تمہارے سپرد ہیں‘ تمہارے سپرد جولوگ ہیں‘ مختلف عمروں کے جب تک وہ بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچتے تمہاری ذمہ داری ہے کہ قول معروف کے تابع ان کی تربیت ساتھ ساتھ کرو اور اس دوران ان کی تربیت بھی کرو اور امتحان بھی لیتے رہو۔ یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچیں تو تم پوری طر ح ان کی مدد کرکے ان کو اس کام کیلئے تیار کرچکے ہو کہ بے دھڑک ان کے مال ان کے سپرد کردو۔ تو جب تک یہ کیفیت نہیں ہوتی وہ تمہارے مال ہیں ان معنوںمیں کہ تم ان مالوں کے امین ہو اور نگران ہو۔ جب وہ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں کہ مالی تصرفات کے اہل بن جاتے ہیں‘ جس میںتم نے ان کی مدد بھی کی ہے‘ ایسی صورت میں ان کے مال ان کے حوالے کردو اور فضول خرچی کے طور پر ان کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کرکے کہ اگر یہ بڑے ہوجائیں گے تو اپنامال لے لیں گے‘ ان کے مال کا نقصان کرو۔ جو شخص دولتمند ہو اس کو نہیں چاہیے کہ اس کے مال میں سے کچھ حق خدمت لیوے۔ لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے۔ عرب میںمالی محافظوں کیلئے یہ طریق معروف تھا کہ اگریتیموں کے کارپرداز ان کے مال میں سے لینا چاہتے تو حتی الوسع یہ قاعدہ جاری رکھتے کہ جوکچھ یتیم کے مال کو تجارت سے فائدہ ہوتا‘ اس میں سے آپ بھی لیتے رأ س المال کو تباہ نہ کرتے۔ تو یہ اسی عادت کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی ایسا کرو اور پھر فرمایا کہ جب تم یتیموں کو مال واپس کرنے لگو تو گواہوں کے روبرو ان کو ان کا مال دے دو۔ تم بھی بری الذمہ اور وہ بھی اس وقت سے آگے خود ذمہ دار ہیں۔ اب اس آیت میں جعل اللّٰہ لکم قیاما وارزقو ھم فیھا واکسوھم و قولوا لھم قولا معروفا۔ یہ جتنی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں اور سفیہ کی تعریف بھی وہی اختیار فرمائی جو مال کے معاملے میں نااہلیت کی تعریف ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس میں اس آیت کے تمام پہلو خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ یکجائی صورت میں اکٹھے ہمارے سامنے کھل گئے ہیں۔ اس میں اب ویری صاحب دیکھیں کیا نکالتے ہیں۔ کچھ نکالتے بھی ہیں کہ نہیں۔ ویری صاحب تو یہ لکھتے ہیں کہ یہاں کہ Those are weak understandingیہ تو ٹھیک ہے السفہاء لیکن کس معاملے میں یہ تفصیل نہیں بیان کرتے ترجمہ یہ کیا ہے۔
That is to say idiots or persons are weak intellects whose property is to be admnistered so as to provide for thier necesseties.
یہ بات تو ٹھیک ہے۔ اس میں اعتراض کی تو ا س کیلئے گنجائش ہی کوئی نہیں تھی۔ ان کی پراپرٹی تم ایڈمنسٹر کرو‘ ان کی ضروریات کی خاطر۔
Their treatment must be kindly
یہ بھی کہہ رہا ہے کہ مانتا ہے کہ یہاں مراد ہے ہمدردی کے ساتھ‘ احسان کے ساتھ ان سے سلوک کرو ۔ لیکن آگے نتیجہ یہ نکالتا ہے۔
Here is the muslim lunatic asylum.
یہ ساری تعریف Lunatic asylum لُوناٹیک اسائلم کی ہے۔ پس جس قوم کو لوناٹیک اسائلم اتنا معقول ہو‘ اس سے محروم رہنا تو تمہاری بڑی بدبختی ہے۔ کیونکہ لوناٹیک اسائلم میں عدل بھی آگیا‘ انصاف بھی‘ رحم بھی‘ بہترین نگرانی بھی‘ تمام ضرورتیں پورا کرنا بھی۔ یہ اس نے تو اپنی طرف سے ایک بیہودہ لفظ بول کر اپنے دل کا بغض نکالا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر یہ لوناٹیک اسائلم ہے تو اس لونا ٹیک اسائلم میں ساری قوم کو داخل ہونا چاہیے‘ساری قوم کو اس لونا ٹیک اسائلم کا جزو بن جانا چاہیے‘ اس کے بغیر امن نہیں ہے۔کیونکہ تعریف ساری وہ درست کررہا ہے اور نام لونا ٹیک اسائلم دے کے تو اپنا بغض نکال رہا ہے خوامخواہ۔ اگر یہ نہ ہو ‘ اگر اسلامک لوناٹیک اسائلم کو آپ نہ قبول کریں تو وہ حال ہو جائے گا جو اس وقت امریکہ میں ہے۔ امریکہ میںاب بہت اہم کتابیں لکھی جارہی ہیں اس بات پر مثلاً mine controlاور اس قسم کی اور کتابیں ہیں جو بتارہی ہیں کہ امریکہ اس کنارے تک پہنچ چکا ہے کہ گویا سارا مریکہ ہی لونا ٹیک اسائلم ہوجائے گا۔ کہتے ہیں وہاں drugsنے وہ آفت ڈھائی ہے کہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ پاگل ہوکر اس لائق ہی نہیںرہتے کہ وہ آزاد زندگی بسر کرسکیں یا اپنے اموال پر تصر ف کرسکیں۔ یہ چونکہ مثال بعینہٖ صادق آرہی ہے اس لئے میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے دیکھیں طریقے‘چھوڑتا نہیں کوئی بات‘ جب تک اس کا جواب‘ ان کو پوری طرح عملی دنیا میں دکھا نہ دے۔ یہ نتیجہ نکلتا ہے ایسی بیہودہ باتوں کا۔ امریکہ کے اس نظام کے متعلق اس نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ‘ ایک مصنف نے اور بھی کتابیں ہیں اس مضمون پر۔ میں ایک مصنف کے حوالے بتا رہا ہوں۔ وہ کہتا ہے: یہ چل رہا ہے قصہ کہ ایک ڈرگ مافیا بن چکا ہے۔ مختلف فارماسیوٹیکل انڈسٹریز ڈرگ بناتی ہیں اور دردوں کو دبانے اور احساسات کو مردہ کرنے میں‘ وہ اپنی طرف سے قوم پر احسان کررہی ہیں‘ نئی سے نئی چیزیں ایجاد کرتی ہیں‘ زبردستی نیند لے آئیں‘ زبردستی تسکین بخشی۔ لیکن at what cost?کس قیمت پر؟ اس قیمت پر کہ دماغی صلاحتیں دن بدن مائوف ہوتی چلی جاتی ہیں اور ایسا انسان ان ڈرگز کا جو دوا کے نام پر اس کوملتی ہیں ‘ ایسا قیدی بن جاتا ہے جیسے دوسری ڈرگز ہیں۔ ان کا قیدی ہو‘ عملاً کوئی فرق نہیں رہتا۔ صرف یہ کہ یہی جائز ہے وہ ناجائز ہے۔ اور رفتہ رفتہ جب ان کی پریشانیاں اور بڑھتی ہیں اس لئے کہ یہ ڈرگ جو ہے کچھ عرصے کے بعد اپنا اثر دکھانا چھوڑ دیتی ہے۔ عادت ہوجاتی ہے‘ عادت ہوتی ہے تو پھر بڑھانی پڑتی ہے۔ پھر عادت ہوتی ہے، پھر بڑھانی پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ تمام وہ ڈرگز ہیں جو دماغی صلاحیتوں کو لازماً مائوف کردیتی ہیں اور پھر جیتے جی ان کی جائیدادیں ان سے لے لی جاتی ہیں اور اس چیز نے ایک اوربہت بڑا خوفناک‘ مجرمانہ نظام امریکہ میں جاری کردیا ہے۔اور وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے بعض عزیزوں کو جو مالدار ہوں ڈرگ کا عادی بنانے کی سازش کرتے ہیں اور ان کی خدمت کر کرکے ڈاکٹروں کو کہتے ہیں ان کو ڈرگز دو۔ اور جب وہ قابو آجاتے ہیں تو پھر کورٹس بٹھائی جاتی ہے ا ن کے اوپر کہتے ہیں کہ ہاں اب یہ اس قابل نہیں رہاکہ اپنی جائیداد کو سنبھال سکے اور کورٹ آف وارڈ مقرر کرنے میںاکثر وہی عزیز ہیں جو سازش میں شریک ہوتے ہیں اور یہاں تک حال پہنچ گیا ہے کہ تمام لیوناٹیک ہائوسز جو پاگل خانے ہیںlunatic assylums وہ بھی بھر گئے ہیں۔ علاوہ ازیں لیوناٹیک ہائوسز بھی سب بھر گئے ہیں اور بوڑھوں کے گھر جوہیں وہ بھی سارے بھر چکے ہیں۔ اور اب داخل ہونے کی گنجائش نظر نہیںآرہی ہے۔ اور اس کے بعد اس نے بہت سے عدالتی مقدموں کے حوالے دیئے ہیں۔ ایک بھی فرضی بات نہیںکرتا‘ بڑی گہری تحقیق کی ہے۔ کہتا ہے یہ کیس ہے یہ فلاں سن میں ہوا‘ یہ فلاںسن میںہوا ، یہ فلاںسن میں ہوااور اس طرح ایک آدمی بیچارے کو پاگل بنا کر ‘ سازش کے نتیجے میں‘ پھر اس کی جائیداد سے اس کو محروم کیا‘ اس کی زندگی لٹکی ہوئی ہے۔ مالدار ہے مگر وہ سارے اس کے بچے کھچے ‘ دوسرے لوگ کھارہے ہیں۔ اور خود وہ ایسے پاگل خانوں میں زندگی بسر کررہا ہے،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تو لیو ناٹک اسائلم جو اس نے کہا اسلام کا اس کانام جو مرضی رکھ دے مگر یہی ہے جو امن کی جگہ ہے۔جہاں انسان کو سکون مل سکتا ہے۔ امن کی آماجگاہ ہے۔ قوم کے اموال کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ افراد کے اموال کی اور ان کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ تو سب دنیا کو اس لیوناٹک اسائلم کا ماڈل اختیار کرنا چاہیے۔
منٹگمری واٹ صاحب کیاکہتے ہیں؟ وہ صرف girl orphansمراد لیتے ہیں۔ اور ان کو زبان کا خاص محاورہ ہے‘ منٹگمری واٹ صاحب کو ۔ ایسی بات کرجاتے ہیں کہ چٹکی بھری جاتی ہے اور کوئی الزام بھی نہیں آسکتاکہ چٹکی بھر گیا ہے۔ یہ اس کی مثال سنئے۔ بظاہر بڑی معصوم سی بات ہے لیکن جو حساس‘ جو واقف کار لوگ ہیں ان کو پتہ ہے کہ کیا بات کرگیا ہے۔ that is test wealthy orphans. اب Test wealthy orphansکا تو یہاں ذکر ہی کوئی نہیںہے۔لا تؤتو السفھاء اموالکم التی۔۔۔۔ (ہوسکتا ہے یہ جگہ غلط ہو میرے ذہن میں یہ شک پڑرہا ہے۔ کہ اگلی آیت میں جو وَابْتَلُوْا لْیَتَامٰی ہے اس پر یہ اس کی بحث ہو)۔ اور نمبرنگ کی غلطی ہو۔ ہم نے جو یہ نمبر لگایا ہے بسم اللہ سمیت لگایا ہے اس لئے اُس نے اگر 6نمبرلگایا ہے تو بسم اللہ کو چھوڑ کر اگلی آیت پہ لگایاہوگا۔ اس لیے یہ جو تبصرہ ہے یہ جائز نہیں۔ سمجھ گئے ہیں ناں۔اگلی بات بہرحال اب میں چھیڑ بیٹھا ہوں تو پوری بتادیتا ہوں ‘ جو اُس نے ہوشیاری کی ہے وہ یہ ہے ۔ یہ تو ٹھیک ہے ٹرانسلیشن درست ہے Test wealthy orphans ...................۔ مگر اس سے اگلی آیت یہ ہے کہ وابتلوا لیتامٰی کہتا ہے This is girl orphans.یہ جھوٹ ہے یہ تو درست ہے کہ یتیموں پر نظر رکھو اور ان کا امتحان لیتے رہو۔ مگر girl orphansترجمہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔یتامٰی کا لفظ عام ہے اور اس کے بعد جو اگلی بات ہے وہ بڑی معنی خیز اور خوفناک ہے۔
That is girl orphans both and as regards to acting responsibily and in respect of physical maturity
اب گرلز آرفن(girl orphans)کی بلوغت کا امتحان کیسے لیتے رہو گے تم ‘ یہ سوال اٹھتا ہے ۔جو سوسائٹی گندی ہو‘ جس کو اسلام کے اعلیٰ اخلاق کا پتا ہی نہ ہو وہ جب یہ ترجمہ پڑھے گی تو پتہ نہیں کیا کیا سوچے گی؟ اسلام کیا کہتا ہے۔ کس طرح ان کی بلوغت کے ٹیسٹ لیا کرو؟ پھر نہ تو وہاںڈاکٹری نظام تھانہ لیڈی ڈاکٹرز ہوا کرتی تھیں۔ تو ایک بے وجہ‘ خوامخواہ ایک آیت کا پہلے غلط ترجمہ کیا‘ پھر کنفیوژن پیدا کیا پھر جو ایسے لوگ ہیں ‘ جن کے ذہن گندے ہیں ان کو کسی اور طرف منتقل کرنے کیلئے ایک بہانہ دے دیا اور یہ ہو نہیں سکتا تھا اگر پہلا ترجمہ غلط نہ کیا جاتا۔ اس لئے میںکہہ رہا ہوں کہ یہ کوئی زبردستی‘ اس کی طرف میںکوئی انگیخت منسوب نہیں کررہا۔اگر وہ girl orphansترجمہ نہ کرتا تو physical maturityکا ٹیسٹ عمومی رہتا اس میںکوئی خاص گندہ خیال پیدا ہوہی نہیں سکتا تھا۔ girl orphansترجمہ کرنے کے بعد وہ اگلا فقرہ جو ہے و ہ ایک چٹکی بھرنے والی بات ہے۔اب اگلی آیت ہے :-
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وأ بتلوا الیتامی حتی إذا بلغوا النکاح فإن اٰنستم منھم رُشداً فادفعوا الیھم اموالھم ولا تأ کلوھا إسرافاً و بدارًا أن یکبروا۔ ومن کان غنیاً فلیستعفف و من کانا فقیرًا فلیأکل بالمعروف فإذادفعتم الیھم اموالھم فأشھدوا علیھم وکفٰی باللّٰہ حسیباً۔ (سورۃ النساء : ۷)
اور یتیموں کو آزماتے رہو۔ إذا بلغوا النکاح جب وہ پختگی کی عمر کو جس میں ان کا نکاح ہوسکتا ہے‘ پہنچ جائیں ۔فإن اٰنستم منھم رُشداً پس جب تک انہیں عقل اور سمجھ کے آثار دیکھو‘ فادفعوا الیھم اموالھم تو ان کے اموال ان کو واپس کردو۔
پہلی آیت میں تھاولا تُؤتوا السُفھاء اموالکم الّتی جعل اللّٰہ لکم قیامًا‘ اس کو چونکہ بہت ہی وسیع معنے دیئے گئے ہیں اس مضمون کو ‘ اس لئے یہاں سفہاء کا ذکر عموماً ہے اور یتامیٰ سے اس کو باندھا نہیںگیا۔ ہرگز یتامٰی سے نہیں باندھا گیا۔ عام سوسائٹی کا ایک مضمون ہے اور اس کا بیان ہے کہ قوم ذمہ دار ہے ۔ بہت سے مالی تصرفات میں نظر رکھے ۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ اس میں یہ معنٰی بھی چونکہ ہے کہ قوم کے اموال میں قوم کے غرباء بھی حقدار ہیں اس لئے وہ غرباء بیچارے جو سفیہ ہونے کی وجہ سے نہ کچھ کماسکتے ہیں نہ کچھ کما سکے ہیں ۔ ان کی نگرانی‘ ذمہ داری بھی تم پر فرض ہے۔ اوران کو اپنے قومی اموال میں سے کچھ دو تاکہ وہ ان کے رہن سہن کا گزارہ شریفانہ طور پر ہوسکے۔ یہ وجہ ہے جو عمومی طور پر اس آیت کا طرز بیان ہے۔ اس میںیتیم سے یا کسی خاص صورتحال سے معین طور پر اس کو نہیں باندھا گیا۔ اب واپس آتا ہے قرآن کریم اس معین بحث پر جو اس آیت سے پہلے زیر نظر تھی۔ یعنی یتامٰی پیدا ہورہے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی اُس پر ایک حد تک اطلاق پاتی ہے یہ آیت۔ مگر اب معین طور پر یتامیٰ کی بحث کو اٹھایا جارہا ہے۔ وأ بتلوا الیتامی حتی إذا بلغوا النکاح اس سے ایک بات تو کھل کر سامنے آگئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو فرماتے ہیںکہ بلوغت کے بعد کے امتحان کا دور نہیں ہے بلوغت سے پہلے ان کو سمجھائو ‘ ان کی تربیت کرو‘ یہاں تک کہ بلوغت تک پہنچنے تک‘ تم ہر وہ کوشش کرچکے ہو جس کے نتیجے میں وہ مال کے تصرف کی صلاحیت اختیار کرسکیں۔ایسی صورت میں بے تکلف ان کے اموال ان کے سپرد کردو۔ ولا تأ کلوھا إسرافاً و بدارًا أن یکبروااور انستم رشدًاکا مطلب یہ ہے کہ آثار دیکھو‘ عقل اور فہم کے، ہرگز کسی ٹیسٹ میں نہیں ڈالنا۔ کہ اکانومک ٹیسٹ ہورہا ہے اس کو پاس کریں گے تو پیسے دیں گے ورنہ نہیں دیں گے۔ روزمرہ میں ایک بچہ اپنی رشد کے ساتھ تو صاف پہچانا جاتا ہے۔ اس کا روز مرہ کا اٹھنابیٹھنا ‘اپنے گھر میں استعمال‘ جو اس کے پیسے دیتے ہیں وہ اس کو کس سلیقے سے استعمال کرتا ہے‘ یہ ساری چیزیں کھلی کھلی باتیں ہیں‘ اس کیلئے کسی گہری چھان بین کی ضرورت نہیں۔ جہاںتک technical امور کا تعلق ہے ‘ خواہ وہ فن سے تعلق رکھتے ہوں‘ خواہ وہ تجارت سے ہوں‘ اس کا ذکر پہلے گزر گیا کہ ان کو بلوغت سے پہلے ہی واقف بھی کرائو اورپھر ٹیسٹ بھی کرتے رہو۔ لیکن جہاںتک رشد کا تعلق ہے وہ آخری عقل ہے جو فیصلہ کرتی ہے کہ کیا مجھے کرنا چاہیے‘ کیا نہیں جو کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرتی ہے‘ وہ رشد ہے۔ جب یہ دیکھو کہ ان میںکھرے کھوٹے کی تمیز موجود ہے۔ پھر زیادہ تفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں ۔ پھر ان کے اموال ان کے سپرد کردو۔ ولا تأ کلوھا إسرافاً و بدارًا أن یکبروااور ان لوگوں کا بیچاروں کا مال‘ بلوغت سے پہلے پہلے تیزی کے ساتھ نہ کھاجائواس ڈر کے مارے کہ کہیں یہ بڑے نہ ہوجائیں اور جب وہ بڑے ہوجائیں تو صرف حساب ہی دیا جائے ان کو۔ کہ یہ آپ کا حساب ہے بس! السلام علیکم ۔ یہ جو لفظ بدارًا ہے ‘ اس کا ایک بہت اچھا نقشہ ایک عرب شعر میںہے کہ
إذا أرنب صَنَحَتْ بالفضائِ وَ بَادَرَہَ وَلَجَأتِ انحضاء
کہ ایسا عقاب ‘ اس سے پہلے شعر میںعقاب کا ذکر ہے۔
کما سوزنیق علی مربع خفیف الفواد دقیق النظر
ایک باز بیٹھا ہو ایک پہاڑی کی چوٹی پر اور میدان میں جہاںجھاڑیاں بھی ہیں بیچ میں ایک کھلا سامیدان نکلا ہوا ہے‘ جیسے اکثر جنگلوںمیں اچانک بیچ میںکھلی سی جگہ آجاتی ہے۔ تو کہتا ہے اچانک کیا دیکھتا ہے‘ جیسا کہ وہ باز إذا أرنب صَنَحَتْ بالفضائِ اچانک اس کھلی جگہ میںایک خرگوش نمودار ہوتا ہے۔صنح معنی ہویدہ ہوتا ہے‘ نمودار ہوتا ہے۔ بادرہ ولجات الفضاء اس تیزی سے جھپٹتا ہے کہ جھاڑیوں میں پہنچنے سے پہلے پہلے وہ اس کو پکڑ لیتا ہے۔ یہ بادر کا لفظ ہے جو استعمال کیا ہے قرآن کریم نے۔ کہ تمہیں یہ نہ افراتفری لگ جائے کہ وہ بلوغت کی جھاڑی تک پہنچ کے تمہاری پہنچ سے باہر نہ ہوجائیں اور تم کھاپی کے جلدی جلدی مال کو ختم کرو۔اس غرض سے تمہارے سپرد مال نہیں کیا جارہا۔ بلکہ ایک اور غرض ہے ان کی حفاظت اور ان پر احسان کرنا مراد ہے ومن کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ۔ جو تم میں سے غنی ہے اس کیلئے پوری طرح سے احتراز لازم ہے۔ فَلْیَسْتَعْفِفْ نصیحت تو ہے مگر اس میں امر کا پہلو غالب ہے۔ اس کو خداتعالیٰ یہی فرماتا ہے یہی اس کیلئے اذن ہے۔ فَلْیَسْتَعْفِفْکہ وہ پوری طرح اجتناب کرے‘ یتیم کے مال کو ہاتھ نہ لگائے۔ لیکن ومن کان فقیرًا فلیأکل بالمعروف جو فقیر ہو‘ جس کے ہاتھ پلّے کچھ نہ ہو‘ اس کو اتنی اجازت ہے کہ معروف کے مطابق اُسے کھائے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ‘وہ جو میں نے اقتباس پڑھ کے سنایا تھا‘ اس میں اس آیت کے ساتھ اس آیت کے مضمون کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔
سفہائکی بھی تعریف فرمائی ہے اور اس آیت کے مضمون کو بھی معروف کے یہ معنے فرمائے کہ جو عرب میں رائج ہیں۔ معروف کا ایک معنی ہے کہ ہر وہ چیز جو عرف عام میں اچھی دکھائی دے۔ اورمعروف سے ایک مراد اچھے رواجات بھی ہیں۔آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بالمعروف سے مراد یہ ہے کہ جس طرح عربوں میں یہ رواج ہے کہ یتیموں کے مال کے اصل زر کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ بلکہ جو بھی نگران مقرر ہیں ان کا فرض ہے کہ اصل زر کو ہاتھ لگائے بغیر ‘ اس کو بڑھانے کی کوشش کریں اور اُس مال میں سے خرچ کریں جو آمد ہے‘ اصل زر کو نہیں ہاتھ لگانا۔تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں بالمعروف سے یہ مرادہے۔ اس رواج کو جو اچھا رواج ہے اسلام میں بھی جاری رکھو۔ اور جب اصل زر محفوظ رہے گا اور تجارت کے ذریعے انہوں نے بھی پلنا ہے اور تمہارا بھی فائدہ ہونا ہے تو پھر ایسا مال زیادہ محفوظ ہے اور دونوں کے مفاد میں ہے۔ فإذادفعتم الیھم اموالھم اصل مقصدوہ فائدہ اٹھانا نہیں ہے‘ انتظار ہے کہ کسی طرح ان کا مال ان کے سپرد کیا جائے۔ پس وہی مال جسے اموالکم کہا گیا تھا اب ان کو دینے کے تعلق میں ان کا مال قرار دیا جارہا ہے۔ فإذادفعتم الیھم اموالھم ۔ مطلب یہ ہے‘ اس میں ایک بہت ہی لطیف بات یہ اٹھائی جارہی ہے‘ دونوں محاوروں کے فرق میں‘ کہ جب تم مال پر نگران ہو تو ایسی نگرانی کرو گویا وہ تمہارا مال ہیں۔ جیسے اپنا مال تم ناجائز خرچ نہیں کرسکتے۔ اپنا مال احتیاط کے بغیر ‘ تم تجارتوں میں نہیں دے دیا کرتے‘ قرضوں میںنہیں اُڑادیا کرتے‘ اپنا مال سمجھ کے یہ کام کرنا ہے تم نے۔ جہاں تم نے غیر مال کا تصور باندھااور تصرف کیا خدا کے نزدیک تم راہ حق سے ہٹ چکے ہوگے۔ پس جہاں تحفظ ہے وہاں تمہارا مال ہے‘ جہاں واپسی ہے وہاں ان کامال ہے۔ ایک ذرّہ بھی اپنے پاس نہیںرکھنا سب کا سب اُن کا انہیں پوری طرح لوٹادینا ہے۔ یہ ہے محاورے کے فرق میں سے ایک نہایت خوبصورت مضمون جو اس آیت میں شامل ہے اور اس سے اُبھرتا ہے وَ دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ اور چونکہ ان کا مال تھا حقیقت میں اور تم نے دیا ہے تو پھر گواہ رکھنے ضروری ہیں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ تم سب کچھ کرسکتے ہو‘ اب اپنامال سمجھ کر حفاظت کی‘ دیتے وقت ان کا مال بن گیا۔ تو گواہ کا موقع کیوں ہے؟ اس لیے کہ گواہ پھر یہ بھی دیکھیں گے کہ واقعتاً سب چیز گئی بھی ہے کہ نہیں۔ اور گواہ ایک قسم کے نگران ہوں گے تو گواہی کے لائق ہوں گے۔ وہ تب تک گواہی نہیں دیں گے جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ فلاں چیز بھی آگئی ہے کہ نہیں ‘ فلاں کا حساب آگیا ہے کہ نہیں اور یہ درست ہے یا نہیں‘ تب وہ گواہی دیں گے کہ ہاں ا س حق کو جن کا حق تھا اس کی طرف منتقل کردیا گیا ہے۔
وکفٰی باللّٰہ حسیباًاور یہ وہ مضمون ہے کہ جس کو خوب کھول دیا گیا کہ گواہ جو ہیں انہوں نے بھی توحساب کرنا ہے مگروکفٰی باللّٰہ حسیباً۔اللہ سے بہتر حساب دان کوئی نہیں۔ حساب کے طور پر ‘حساب لینے کے لحاظ سے‘ اللہ ہی کافی ہے۔ تو مراد یہ ہے کہ ان گواہوں کو بھی اگر تم نے دھوکہ دیا تو خدا کی پکڑ سے بچ نہیںسکو گے ۔ اصل حساب دان اللہ ہے وہ تم پر نظر رکھے گا کہ تم نے پائی پائی ان کو ‘ ان کا حق واپس کیا ہے یا نہیں۔ یہاں جو لغوی بحثیں اٹھائی گئی ہیں ان میں ایک لفظ نکاح ہے۔ نکح المرأۃ نکاحًا: تزوّجہا یہ تو عرف عام معنٰی اس سے شادی کی۔ نکاح کا جو لفظ ہے یہ ہمارے ہاں ایک ہی طرح سے معروف ہوچکا ہے یعنی شرعاً کسی کا عُقد باندھنے کیلئے یا عَقدِ نکاح ‘ کسی کا عَقد باندھنے کیلئے ایک امام کھڑا ہو اور وہ اعلان کردے‘ اس کو نکاح سمجھا جاتا ہے۔ اصل بیاہ رخصتی کے وقت شروع ہوتا ہے اور اگر رخصتی نہ ہو تو یہ نکاح کالعدم ہوجائے تو کئی ذمہ داریوں سے بچابھی لیتا ہے۔ عربوں میں نَکَحَ سے مراد تزوّج ہے اصل میں‘ اعلان نکاح نہیں۔ بلکہ کسی کو بطور بیوی کے اپنے گھر لے آنا یا دونوں کا اکٹھا رہنا۔ نَکَحَ کا ایک اور ترجمہ ہے اُس نے عورت سے خلوت کی۔ اور یہاں شادی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ عورت سے خلوت کرنا عرب محاورے میں نَکَحَکے تابع ہے اور اس پہلو سے جو اس کا مرکزی معنی ہے اس کی طرف دراصل اشارہ ہوتا ہے۔ نَکَحَ کا مرکزی معنٰی جو ہے وہ اختلاط ہے۔ ایسا اختلاط کہ ایک چیز دوسرے میں اس طرح گھل مل جائے کہ پھر ایک وجود بن جائیں اور ان کے اندر پھر تفریق مشکل ہوجائے۔ یہ ہے نکاح کا مرکزی معنٰی جب کہ عرب کہتے ہیں نَکَحَ المطرُالارضَکہ بارش زمین کی مٹی میں مل جل گئی۔ بارش کا پانی ،الگ پانی جو ہے وہ الگ بات ہے۔
یہاںجو نکح کا معنی ہے یہ بارش کا پانی ایک جگہ اکٹھا ہونا مراد نہیں ہے ۔بارش سے جب مٹی بھیگ جاتی ہے تو پھرنکح کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کہ پانی مٹی میںجذب ہوگیا اور پانی اورمٹی ایک جان ہوگئے۔ پس نکاح جو ہے وہ دو وجودوں کے یکجان ہونے کی غرض سے ہے۔ ایک ہوجائو‘ کوئی تفریق نہ رہے اور یہی یکجان ہونا ہی ہے جس کے نتیجے میں نشوونما ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو نشوو نما نہیں ہوسکتی۔ پانی زیادہ ہو کہیں اکٹھا‘ وہاں بھی زمین اس لائق نہیں رہتی کہ وہاں کچھ اُگائے۔ جہاںخشک رہ جائے وہاں بھی نہیں رہتی۔ جہاں جس کو ہم پنجابی میں وتّرکہتے ہیں کہ وتّر آگیا ۔ وتّر کا مضمون ہے نکح، کہ بارش ہوئی اورمٹی کے ساتھ ‘ زمین کے ساتھ پانی مل جل گیا۔ اور جب اُن میں یگانگت پیدا ہوجائے پھر نشوو نما ہوئی ہے ۔ خوشیاں بھی اسی سے پھوٹتی ہیں‘ سکون بھی اُسی سے پیدا ہوتا ہے۔ سچی ‘ صحیح اولاد بھی اسی کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ رُشدًا کا جو ترجمہ ہے میںعموماً تو کرچکا ہوں‘ لغوی لحاظ سے اس کا معنی ہے اھتدیٰ یعنی وہ شخص ہدایت پاگیا۔ أرشدہٗاس کو ہدایت دی‘ رشّد القاضی الصبییّ: قضیٰ یرشدہ قاضی نے فیصلہ دیا کہ فلا ںبچہ رشدکی عمرکو پہنچ گیا ہے۔ الرشدُ: صالحاً فی دینہٖ۔ مصلحاً لمالہ رشد کا ایک ترجمہ ہے دین کے لحاظ سے اچھا ہو اور مال کی اصلاح کے لحاظ سے صلاحیت رکھتاہو۔ فقہ کی اصطلاح میں رشدکے معنی ہیںبچہ ایسی عمر کو پہنچ جائے جب اس کو مکلف قرارد یا جائے۔ یعنی وہ اپنے معاملات کا ذمہ دار ہو۔ بھلے کا بھی‘ برے کا بھی۔ اگر برا کرے گا تو سزا پائے گا اور عمر اس کی سزا کے درمیان حائل نہیںہوسکے گی۔ قانون عمر کو دیکھتے ہوئے کوئی نرمی نہیںکرے گا۔ جب اس عمر کو پہنچے تو کہتے ہیں کہ یہ رشد کو پہنچ گیا ۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں جو لفظ رائج ہے مرشد۔ یہ دراصل عربی لفظ مرشِدہے۔ اورجو عربی دان اہل لغات ہیں اُردو کے وہ مرشِد ہی تلفظ دیتے ہیں مگر جامع اللغات بڑی وضاحت کے ساتھ ا س پر روشنی ڈالتی ہے کہ دراصل اصل لفظ مرشِدتو ہے لیکن اُردو میںاپنے پِیر کیلئے جس کے پیچھے چلتے ہیں۔ مرشَد کا لفظ راہ پاگیا ہے اور یہی صحیح تلفظ ہے۔ پس مرشِد اپنی اوّلیت کند کے لحاظ سے جہاں سے نکلا ہے‘ عربی زبان میںمرشِد اور اُردو میں مرشَد۔ پیرومُرشَد کہتے ہیں‘ پیرو مرشِد نہیںکہتے۔ اسی طرح پنجابی میں جو میاں محمد کے گیت ہیں یا اور دوسرے صوفیاء شعراء کے وہ سب جگہ مرشَد کہتے ہیں۔ کوئی اگر مرشَد کہے تو عربی دانوں کو کچھ حوصلہ دکھانا چاہیے۔ ہر بات میں عربی علم کی وجہ سے تنقید کرکے‘ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اعتراض کرنا‘ اس کو‘ ایسے آدمی کو Padanticکہتے ہیں۔ Padanticہوتا ہے جو اپنی گرائمری رگڑتا رہے ہر وقت۔ انسان کو روزمرہ کی آزادی ہی نہ دے۔ حالانکہ تلفظات جو ہیں‘ ایک جاری سلسلہ ہے۔ بہتے ہوئے دریا کی طرح جس ماحول سے گزرتا ہے وہاں کی مٹی اٹھاتا ہے۔ وہاں کا مزاج پکڑتا ہے۔ کوئی زبان بھی ایسی نہیں ہے جس میں کوئی تلفظ مستقل راہ پاجائے۔ سوائے بنیادی تلفظات کے۔ بعض ایسے ہیں جو جم چکے ہیں ان میں پھر کبھی کوئی تبدیلی نہیںہوتی۔ وہ لازمی جزو ہیں اس دریا کا۔ کچھ ایسے ہیں جو بدلتے رہتے ہیں اور اکثرنسبتاً کم استعمال والے یا علمی مواقع پر استعمال ہونے والے لفظ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ضمناً میں نے آپ کو کہا ہے کہ مرشد کے حوالے سے تھوڑ سا رُشد بھی بتانا ہے ناں۔ رُشد کا ہر چیز سے تعلق ہے۔ روزمرہ کی باتوں میں صرف دین کے معاملات میںنہیں۔ عقل فہم کا استعمال رُشد کہلاتا ہے۔ رَشَدُٗ ۔رشادُٗ۔ رشدا۔ ٹھیک راستہ پر چلنا۔ رَشَدٌ ہے رَشْدٌ نہیں اس کا مطلب ہے چلنا۔ رَشَدٌ ۔رشادٌ۔ رشدا۔پس اصل بات وہی ہے جو عرف عام میںایک شخص معقول ہے اور روز مرہ میںٹھیک ٹھاک ہے۔ اس کے اوپر بیوقوفی کے الزام لگا لگا کے‘ اس کے مال پہ تصرف کرنا یا اس کو اپنے حق سے محروم کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اسراف کیاچیز ہے۔ سَرِ ف الطعام کا معنٰی ہے اعتقل حتی کأنَّ السرفۃ اصابتہٗ۔کہتے ہیں سرفت السرفۃُ، الشجرۃ۔ سرفۃریشم کے کیڑے کو کہتے ہیں اصل میں۔ ریشم کا کیڑاجس طرح وہ شیشم کے درخت کے پتے کھاجاتا ہے اور کچھ بھی اس کا باقی نہیں چھوڑتا۔ وہ ہے سَرِف۔ تو اسراف اس لفظ سے نکلا ہے یعنی مال کو اس طرح خرچ کرنا‘ خواہ و ہ تجارتی ہو یا غیر تجارتی کہ اس کا کچھ بھی باقی نہ رہنے دیا جائے۔ پورا کھایا یا پیا جائے۔ اسی لئے کہتے ہیں طعام سرف ہوگیا ہے۔ سَرِف الطعامُ۔مطلب ہے گویا اُسے ریشم کے کیڑے چاٹ گئے ہیں۔ اس طرح کھانا کھایا جائے ۔ کچھ خالی نہ رہے اور کچھ نہ رہے اور برتن خالی رہ جائیں۔ اس کیلئے لفظ سرف استعمال ہوتاہے اور غفلت برتنے کیلئے بھی سرف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسرف فی کذا اَی اَخطأ۔اس نے کسی بارے میںتوجہ سے کام نہیں لیا اور اس کے نتیجے میںخطا ہوجائے‘ ٹھوکر کھاگیا۔ یہ بھی لفظ اَسْرَفَکے تابع آتا ہے۔ جہالت کیلئے بھی سرف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پس جہالت‘ غفلت‘ خطا اور تیزی سے کسی چیز کو چاٹ کھانا۔ یہ سارے معنے لفظ اسراف میںملتے ہیں اور عمومی طور پر اہل لغت کہتے ہیں اب اس کا معنیٰ یہ لیا جاتا ہے ‘ حد سے تجاوز کرگیا۔ یہ عام معنٰی ہے۔ بدارًاکی بات میںکرچکا ہوں اور آزمائش کرنے کاجہاںتک تعلق ہے وابتلوا لیتامٰی۔ اس میںکہتے ہیں اختلاف ہے فقہاء میں۔ تفسیر فتح القدیر کہتی ہے کہ ایک والی اپنے یتیم کے اخلاق پر بھی نظر رکھے‘جب اس کی شرافت اور حسن تصرف سے آگاہ ہو جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچے اور رُشد کے آثار اس میں نمایاں ہوں۔ اس کا مال واپس کردیں۔ اب یتیم کے اخلاق پر نظر رکھنا۔ اس تعلق میں بہت ہی خطرناک بات ہے۔ ایک یتیم بیچارہ تو اکثر ایسے نفسیاتی دبائو کی وجہ سے جو بعض دفعہ دوسرے بچے ماں کے جو زندہ موجود ہے کے ساتھ رہ رہے ہوں۔بعض دفعہ ماںکے رشہ داروں کا ماحول جو دوسری ماں ہے۔ وہ غالب ہے اور وہاں بھی یتیم اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجایا کرتے ہیں اور اس لیے یتیم کے معاملے میں آنحضرت ﷺ نے بہت احتیاط سے کام لینے کی ہدایت فرمائی ہے۔ بعض دفعہ بد اخلاقی کا شکار بھی اس وجہ سے ہوجاتے ہیں ۔ ایک پہلے ان بیچاروں کو ‘ نقصان پہنچائو کہ ان کی عزت نفس کا خیال نہیں کیا‘ ان کے اخلاق کوخراب ہونے دیا او ربعد میں یہ عذر لے کربیٹھ جائو کہ اخلاق اچھے نہیں تھے اس لئے ہم ان کامال نہیں دیں گے۔ہر گز جائز نہیں ہے نہ یہ اس کا معنی ہے۔ رُشد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہاں عام معانی ہیں‘ عام عقل فہم ہے۔ مالی امور میں ثابت نہ ہو کہ وہ ضائع کرنے کا رحجان رکھتا ہے۔تو پھر آپ کو کوئی حق نہیں کہ اس کا مال اس کے سپرد نہ کریں۔پھر بلوغت کی بحث اٹھائی گئی ہے۔ بلوغت کیا چیز ہے؟ ہاں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے بلوغ کا مفسرین بعض کہتے ہیں کہ بلوغ سے مراد تو بلوغت ہی ہے مگر رشد کی شرط جو ہے وہ اتنی واضح اور حاوی ہے کہ اگر کوئی یتیم‘ سعید بن جبیر لکھتے ہیں اور شعبی نے بھی یہی لکھا ہے کہ کوئی یتیم بوڑھا ہوجائے لیکن اس میں سمجھ بوجھ نہ ہو تو خواہ وہ سو برس کا ہوجائے اس یتیم کے سپرد مال نہیںکرنا۔
عجیب عجیب باتیں ہیں ۔ یہاںیتیم کی بحث ہی نہیں ہے ۔کوئی بھی سوسائٹی میں ایسا آدمی بیچارہ جو اُول جلُول ہو اس کے اوپر یہی فتویٰ آئے گا۔ لیکن یتیم کے رستے سے داخل ہوکر سو سال تک اس کو پہنچانا جب کہ تم سارے لوگ یتیم بن چکے ہو‘ تمہاری اولادیں یتیم بن چکی ہوں یہ کیسی عجیب بات ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے‘ بلوغ کو پہنچ جائے اگر تم دیکھو کہ انہیں رشد و سعادت ہے تو ان کامال ان کے سپرد کردو۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تفصیل سے بحث اٹھائی ہے کہ بلوغ کیا چیز ہے؟ آپ فرماتے ہیںکہ مستشرقین کئی دفعہ اسلام پہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بلوغ تو کہہ دیا لیکن تعریف کوئی نہیں کی بلوغ کیا چیز ہے؟ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک بلوغ کا تعلق ہے‘ پختہ عمر ہونا یعنی اس تعلق میں ‘ نکاح کے تعلق میں۔ مختلف ملکوں میں مختلف عمروں کے ساتھ متعلق ہے۔ اس لیے یہ مستشرقین کا اعتراض جاہلانہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم جو عالمگیر کتاب ہونے کی دعویدار کتاب ہے،وہ ایک ایسی تعریف کردے جو کسی ایک ملک سے وابستہ ہو دوسرے ملک پر اطلاق نہ پائے۔ فرمایا بعض ملکوں میں 10سال کی عمر میں بھی بچیاں نکاح کے قابل ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ وہ حاملہ بھی بن جاتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے جو جسمانی نظام کسی چیز کو عطا کیا ہے وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے اور وہ کسی ایک گھڑی کے تابع نہیںچلتا۔ اس کے بہت سے محرکات ہیں ‘ بہت سے اسباب ہیں۔ بعض جگہ climateیعنی موسم اثر انداز ہوتے ہیں بعض جگہ اندرونی طور پر بعض پیدائشی بیماریاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ چنانچہ بعض بچیاںچھوٹی سی عمر میںبلوغت کے آثار دکھادیتی ہیں‘ حیض جاری ہوجاتے ہیں‘ ان کی اورعلامتیں ظاہر ہونے لگ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر پھر ان کو دوائیں دے دے کر روکتے ہیں کہ عام عمر کو پہنچیں تو پھر یہ جوان ہو ۔ تو بلوغت تو بہت سے محرکات ‘ بہت سے موجبات‘ بہت سے ،ماحولی اثرات سے تعلق رکھنے والی مضمون ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے لفظ بلوغت فرمایا نہ کہ کوئی عمر مقرر کی۔ اور عمریں تو بدلتی بھی رہتی ہیں۔ یہاں انگلستان ہی میں آج کل لفظ بلوغت کے تابع جو ترجمے ہورہے ہیں کہ کے وہ کبھی کچھ کبھی کچھ اور مثلاً بعض جرائم ہیں ان کے متعلق کہاجاتا ہے کہ اس سے کم عمر میں اگر کوئی بات کرے گا تو یہ جرم ہے۔ تو جو جرائم کے مداح یا اس کے دفاع کرنے والے لوگ ہیں ایسے بھی لوگ ہیں۔ وہ اب یہ تحریکیں چلارہے ہیں کہ عمر کی حد کم کردو۔ یعنی بلوغت کوئی خدائی نظام کے تابع بات نہیں بلکہ انسان کی اپنی مرضی کے اوپر ہے۔ جہاں چاہو بالغ قرار دے دو‘جہاں چاہو نابالغ قرار دے دو۔ اب یہ عجیب بات ہے مگر ہے بہت خطرناک بات کہ یہاں سوسائٹی میں دن بدن اور امریکہ میں اور کینیڈا میں تو بہت زیادہ اس سے بھی‘ ہم جنس پرستوں کی حمایت ہورہی ہے۔ اور ان کی تائید میں قانونی طور پر بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سائنسی لحاظ سے بھی ان کی تائید میں یہ کہہ کرکہ یہ تو جینز کے قصورہیں ان کا بیچاروںکا کیا قصور ہے‘ ان کی حمایت میں آوا ز اٹھائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں فوجی قوانین بدلنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور امریکہ کی فوج میں مثلاً یہ چونکہ بیماری بہت بڑھ گئی ‘ ایک بڑی تعداد ایسی ہوگئی جو ہوموسیکسؤل (Homo Sex)تھی کہلاتی ہے جو‘ اور اس کے خطرات بہت سے ہیں‘ اس کے نتیجے میں قوم کی وفاداری بھی متاثر ہوسکتی ہے اور بہت سے ایسے جو جاسوسی کے بڑے بڑے دنیا میںکیسز ہیں جو معروف ہیں۔ ان میں اس کمزوری سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ رشین جاسوسی کا نظام KGBجب پوری قوت‘اور ایک بہت بڑی طاقت رکھتا تھا۔ہر جگہ اس کی جڑیں تھیں ‘ اس وقت اس حصے کو انہوں نے بہت اچھی طرح استعمال کیا۔ کہ بعض ایسے لوگ جو بڑے بڑے رازوں کے واقف تھے ان کو اس بیماری سے پکڑا اور بعد میں ان کو ‘ ان پر انگوٹھا رکھ دیا کہ تم اگر ہماری مرضی کی بات نہ کرو گے تو اس طرح ہم تمہیں بدنام کریں گے اور بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ ایسے بعض جرنیلوں نے یا امبیسیڈرز نے‘ جب کہ فرانس کا ایک امبیسیڈر تھا اس نے خود کشی کرنا بہتر سمجھا۔ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ملک کے رازکو بیچے۔
تو یہ وہ کمزوریاںہیں جن کی حمایت میںہر قسم کی کوششیںہورہی ہیں اور بلوغت کی تعریف پر بھی اب حملے ہورہے ہیں اور چونکہ انسان نے اپنا اختیار سمجھ لیا ہے اس کو میڈیکل کام نہیں سمجھا ۔ حالانکہ اصل بات یہ تھی کہ اس تعریف کو ڈاکٹروں کے سپرد کرتے‘ عمر طے کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کا معاملہ مبحث ہو اس کے متعلق میڈیکل رائے دینی چاہیے کہ یہ طبی نقطہ نگاہ سے بالغ ہے کہ نہیں۔ پس قرآن کریم نے یہ راہ بھی کھلی ہوئی رکھی ہے۔مگر یہ لوگ چونکہ اپنے طور پر مقر ر کرتے عمریں۔ ان کو مشکلات درپیش ہے مثلاً میں نے ابھی مثال دی تھی کہ یہاں اب یہ قانون جاری ہورہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بدبخت رحجان رکھتا ہو‘ ہم جنس پرست ہو اور وہ چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ یہ حرکت کرے تو اس کی یہ سزا ہے اور سخت سزا ہے اور اگر بالغ آپس میںکریں تو کہتے ہیں کوئی سزا نہیں وہ ٹھیک ہیں آزاد ہیں۔اب ان لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس سزا کی عمر والوں کی طرف زیادہ مائل ہیں یا آسانی سے دھوکہ دے سکتے ہیں تو باقاعدہ بل پیش ہورہے ہیں پارلیمنٹس میں کہ یہ عمر بہت زیادہ ہے اٹھارہ کی بجائے سولہ کردو اور سولہ کی بجائے بارہ کردو۔ کیونکہ بارہ سال کی عمر میں اچھا بھلا بچہ سمجھتا ہے۔ اگر وہ کسی بدبخت کے قابوآگیا تو وہ اس کا قصور ہے۔ اس لیے بدمعاش کو سزا نہ ملے۔ اس بدمعاش کو سز اسے بچانے کیلئے بلوغت کی عمریں چھوٹی کی جارہی ہیں۔ تو غیر معقول طریق تمہارا ہے کہ قرآن کا ہے۔ قرآن نے تو لفظ بلوغت کو ایک کھلے لفظ کے طور پر سامنے رکھ دیا کہ لفظ بلوغت کو سمجھنا تو دنیا میں کسی قوم کیلئے مشکل نہیں۔ جب جنسی لحاظ سے ایک شخص اس قابل ہوجائے خواہ وہ مرد ہو یا عورت کہ جب وہ اگر اپنے کسی دوسرے جوڑسے ملے تو بچہ پیدا ہوسکتا ہو۔ امکاناً عقلًا۔ ایسے شخص کیلئے بلوغت کا لفظ جو ہے وہ ایک طبی مضمون رکھتا ہے اور رواج سے بسا اوقات ظاہر ہوجاتی ہے بات۔ بچیوں میں علامتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ مردوں کے اندر بھی‘ لڑکوں کے اندر بھی بلوغت کی عام روز مرہ علامتیں ہوتی ہیں۔ بعضوں کے ناک یہاں سے پھٹنے لگتے ہیں۔ بعضوں کی آوازیں پھٹنے لگتی ہیں۔ کہ آج کل جو ہماری اردوکلاس ہے اس میں کئی بچے اچھی بھلی آواز والے ایسے ہیں جب میں اُن سے نظم پڑھوائوں غَو۔۔۔۔۔کرکے آوازیں نکالتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کوئی بات نہیں تم بالغ ہورہے ہو اور یہ درست بات ہے۔ اس عمر میں پہنچ کے آواز بھی پھٹنے لگتی ہے۔ گویا کہ یہ علامت ہے کہ تم کھرے کھوٹے کی تمیز کی حد کو پہنچ رہے ہو۔ اب تم ذمہ دار ہوجائو گے۔ یہ بلوغت کی صحیح تعریف ہے۔ باقی سب لوگوں کے نخرے ہیں۔ ۱۲ سال‘۱۱ سال‘ ۱۸ سال یہ سب عارضی اور فرضی قصے ہیں۔ اب یہ جو ہمارے کرم فرما ہیں ان کی طرف بھی جانا چاہیے تھوڑا سا۔ اب ان صاحب نے اس کا ترجمہ عجیب کیا ہے سیل صاحب نے کہتے ہیں:-
and women also ought to have a part of what their parents and kinderd leave.
یہ ترجمہ ہے وأ توا لیتامٰی۔ اوّل تو یہاںبھی اس نے عورت کا ترجمہ کردیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے مستشرقین بعض دفعہ ایک ترجمے کو لے کر پھر آگے اُسی کو پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہ سیل سے شاید بات شروع ہوئی کہ
women also ought to have a part of what their parents and kinderd leave.
یعنی ضمناً ان کو بھی دے دو یہ تو بالکل بحث ہی نہیںہے۔ بے تعلق بات اٹھائی ہے۔ اور منٹگمری واٹ صاحب کہتے ہیں:
‏ That is girl orphans... ( یہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں)
And let the rich guardian not even touch it.
یہ بڑا اچھا ترجمہ کیا ہے کسی نے۔ یہ راڈویل کا ہے؟
‏ The Quran translated from the Arabic. یہ انصاف کا ترجمہ ہے بالکل۔
And let the rich guardian not even touch it.
یہ عفف کا لفظ جو ہے نا۔یہ مراد ہے پوری طرح احتراز کرو اور احتیاط کرو۔ اُسے ہاتھ تک نہ لگائو۔ یعنی ان کے مال کے قریب تک نہ پھٹکو۔ یہ اس نے بہت اچھا ترجمہ کیا ہے۔
And let him who is poor use it for his support, eat of it with discussion. And who is rich let him abstain and who so is poor let hem eat their-of with equity.
بہت اچھا ترجمہ کیا ہے راڈ ویل صاحب نے ۔ ماشاء اللہ۔ رچرڈ بیل صاحب کیا کہتے ہیں۔(جب ہے ناں فاشھدوا علیھم کے لفظ جو ہیں وہ) فاشھدوا علیھمکے لفظ ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے: ان پر ان کے خلاف حجت نہ رہے تمہارے پاس ‘اس حد تک گواہ بنالو۔ یہ معنیٰ ہے اس کا ۔ محض عام گواہ نہیں ہے جسے کسی transationکے بعد دو گواہ بن جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس احتیاط کے ساتھ گواہ بنائو کہ آئندہ وہ تمہارے خلاف کبھی کوئی شکوہ نہ کرسکے۔ اورکوئی شکایت نہ کرسکیں کہ تم نے ان کی حق تلفی کی تھی ۔ یہ ہے علیھم ان کے مفاد کے خلاف نہیں ان کے مفاد کے حق میں بات ہورہی ہے۔ علیٰ کا مطلب ہے ان سے بچنے کیلئے تاکہ آئندہ ان کی زد میں نہ تم آسکو۔ اس مضمون‘ اس کی بجائے یہ ترجمہ کرتا ہے۔ Call witness agaisnt themاب against themکا کیا موقع ہوا۔ call witness against themکا مطلب تو یہ ہے کہ ان کو ملزم قرار دیا جارہا ہے۔ ان کے جرم ثابت کیے جارہے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان کے جائز اعتراض سے بچانے کی خاطر پوری احتیاط کرو اور اس لیے گواہ بنالو۔ اب بیل صاحب اپنی پرانی عادت کے مطابق اس کے حصے تقسیم کررہے ہیں verse7 کے کہتے ہیں یہ ٹکڑا فلاں verseمیں جانا چاہیے یہ فلاںمیں جانا چاہیے۔ Quran reorgnized by Bell.
اچھا ایک دوباتیں پرانی رہ گئی تھیں ’’ہاںخَسَأَ ‘‘ میں نے جو کہا تھا کونوا قردۃً خاسئین میں ۔مجھے لگتا ہے کہ شاید ایڈز کے تعلق میں بھی یہ لفظ خَاسِأًاستعمال کیا گیا ہو۔ اور میں نے کہا تھا اہل لغت جو ہمارے ہیں وہ پوری طرح دیکھیں کہ اس کا اصل معنٰی کیا ہے۔ چنانچہ خاسئًا کا ایک معنی تو وہی ہے جو ہمیں قرآن کریم کی آیت سورۃ الملک میںنظر آتا ہے۔ ینقلب إلیک البصر خاسئًا وّھو حسیرًا کہ تمہاری نظر لوٹ آئے گی‘ تھکی ہوئی خاسئًا کا مطلب ہے تھکی ہوئی۔ دوسرامعنی جو اس مضمون سے بہت گہر ا تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ خَسَأَ الکلبُ وغیرُہٗ کتا دور ہٹ گیا اور ذلیل ہوگیا۔۔ اور کسی کیلئے إِخسأً کا لفظ استعمال کیا جائے جیسا کہ قرآن کریم نے یہاں استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے میرے قریب بھی نہ آئو‘ میرے پاس بھی نہ پھٹکو۔ مجھ سے آپس کے تعلقات نہ رکھو کوئی اور ہٹ جائو۔ بعینہٖ یہی سلوک ہے جو ایڈز کے مریضوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پس کُوْنُوْا‘ اورچونکہ مرض بھی بندروں ہی سے آئی ہے ا س لیے ایک پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتا ہے یہ قرآنی کلام کہ کونوا قردۃً خاسئین۔ ہر بندر کو تو انسان دھتکارتا ہی نہیں بعض بندروں کو تو ساتھ گلے لگا کر لوگ پھرتے ہیں۔ پیار سے پالتے بھی ہیں ۔بندر بہت کچھ سیکھ بھی لیتا ہے ۔مگر وہ بندر ہوجائو جس کولوگ دھتکاریںگے اور دور ہٹائیں گے اور کہیں گے ہمارے قریب تک نہ آئو۔ تمہارے برتن الگ ‘ تمہارا اٹھنا بیٹھاالگ۔ تمہاری سانسیں ہماری سانسوںسے نہ ملیں۔ بعینہٖ یہی مضمون خَسَأَ کا اہل لغت نے دیا ہے۔
پس جیساکہ میرا خیال تھا وہ یقینا درست بات نکلی کہ جب فرمایا گیا کونواقردۃً خاسئینتو ہر بندر بننا مراد نہیں ہے۔ وہ بندر بنو جو بعض ایسی بیماریاںرکھتے ہو کہ ان کا ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘ لازمًا الگ کرنا پڑے اور تم پرے رہو‘ پرے رہو‘ پرے رہو۔ یہ ویسا ہی ہے جیساکہ سامری کے متعلق تھا وہ کہے گا میرے قریب نہ پھٹکو۔ دوسری بات ہے وہ جو اٹھائی گئی تھی وہ میں پہلے ہی بیان کرچکا ہون جو میرے پیش نظر تھی۔ کسی نے کہا تھا کہ خطاب چونکہ مردوں کو ہے سفہاء کو اس لیے محض عورت ترجمہ کرنا جائز نہیں ہے وہ میں بیان کرچکا ہوں۔ ( اور تو نہیںکوئی بات) اب وقت بھی ختم ہوگیا ہے۔ اچھا جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ14؍رمضان بمطابق4؍ فروری 1996ء
للرجال نصیب مما ترک الوالدن والاقربون و للنساء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضاO(النسائ:۸)
مردوں کیلئے بھی حصہ ہے ایک معین حصہ ہے نصیب مما ترک الوالدن والاقربون جو کچھ اس کے والدین یا اقرباء نے چھوڑا ہو۔ و للنساء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون ۔اور عورتوں کیلئے بھی ایک حصہ ہے جو ان کے والدین یا ان کے اقرباء نے چھوڑا ہو۔ قل منہ او کثر خواہ وہ تھوڑا ہو یا وہ زیادہ ہو۔ نصیباً مفروضا ایک ایسا حصہ ہے جو فرض ہے کہ ان کو ادا کیا جائے یہ ان کا حق بنتا ہے۔ تو تھوڑے اور زیادہ کی بحث نہیں ہے۔ وراثت ایک ایسا قانون ہے جس پر ہر ایک کا عمل کرنا لازم ہے۔ یہ سورہ النساء کی آٹھویں آیت ہے۔ اس سے پہلے جو آیت گزری ہے یہ ہے وابتلوا لیتمی حتی اذا بلغوا النکاح فان انستم منھم رُشدًا فادفعوا الیھم اموالھم ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبرواومن کان غنیا فلیستعفف و من کان فقیرا فلیاکل بالمعروف فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم و کفی باللہ حسیباO یہاں یتامی کے مضمون کی بحث سے اب انتقال ہوا ہے۔ دوسرے اور ایسے معاشرے کے افراد کی طرف جن کے والدین یا اقرباء مرتے ہیں تووہ چونکہ بڑی عمر کے ہیں اس لیے ان کو یتامیٰ کے ذیل میں بطور یتامیٰ کے تو شمار نہیں کیا گیا مگر مضمون ایک ہی ہے۔ اس لیے اس پہلی آیت سے اس بعد میں آنے والی آیت کا ایک گہرا تعلق ہے۔
(فرمایا) ہر وہ شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنے والدین کا ورثہ پائے گا اور یہ ورثہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمارکھا ہے اور اقرباء کا بھی ورثہ پائے گا۔ یہاں والدین کا اور اقرباء کا ورثہ الگ الگ کیوں بیان ہوا ہے۔ اس کے متعلق میں اب کچھ باتیں بیان کروں گا۔
سر دست میںآپ کو لُغت اور تفسیر کے حوالے سے نصیب کا پہلے معنی بتاتا ہوں، نصیب کیا چیز ہے۔ اوّ ل تو نصب کرنا جیسا کہ ہم کہتے ہیں جھنڈا نصب کردیا۔ عربی میں یہی استعمال ہے نَصَبَ کا۔ کسی چیز کو بلند کیا او رکھڑا کیا او رنمایاں طور پر واضح طور پر دکھایا دنیا کوکہ یہ وہ مقام اور مرتبہ ہے۔ نصب لفلان اعداہُ اُس نے کسی سے دشمنی دل میں گاڑھ لی۔ یہاں دل میں ایک انسان ایک بات گاڑھ کے بیٹھ جائے ۔ ہم اردو میں بھی بعینہٖ انہیں معنوں میں نَصب کے لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ نَصَّبَ الشیء ۔ کسی چیز کو نیچے رکھا۔ یہاں نَصَبَ نہیں بلکہ نَصَّبَ ہے نَصَّبَ کے باب میں اس کا مطلب ہے اُونچا نہیں کیا بلکہ نیچے رکھا۔ اَنْصَبَہٗ۔ جَعَلَ لَہٗ نَصِیْبًا ۔ اَنْصَبْ کا مطلب ہے اس کیلئے حصہ مقرر کیا۔ پس یہ جو نصیب ہے اس کا اس سے تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حصہ مقرر فرمایا ہے اور ہر حصہ نصیب کہلاتا ہے۔ تناصب الشیئ۔ تَقَاسَمُوْہُ انہوں نے کوئی چیز باہم بانٹی ۔ پس اس لحاظ سے بھی نصیب، کیونکہ ورثہ بانٹا جاتا ہے۔ اس لیے لفظ نصیب اس کیلئے برمحل استعمال ہے۔ النُصب۔ گاڑھی ہوئی چیز کو بھی کہتے ہیں ۔ ’’اَلنِّصْب‘‘ نصیبہ اور قسمت کو بھی کہتے ہیں۔ النصیب الحصِّۃُ من الشیء کسی چیز کا ایک حصہ۔ الحظّ یعنی کوئی ٹکڑا۔ کوئی تھوڑا سا جو بھی جو قسمت میں ہو۔ کہتے ہیں ھٰذا نصیبی ۔ ان معنوں میں کہتے ہیں یہ میرا نصیب تھا اور اردو میں بھی اور پنجابی میں بھی نصیب ، دونوں جگہ بالکل انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پس یہ ایک ایسا لفظ ہے جو ہماری زبانوں میں بالکل عربی کی طرح ہر پہلو سے راہ پاگیا ہے اور مستعمل ہوچکا ہے۔
تفسیر بحر محیط میں لکھا ہے مزوری کہتے ہیں کہ اہل یونان سارا مال لڑکیوں کو دے دیتے تھے کیونکہ مرد تو روزی کمانے سے عاجز نہیں آتا۔ جبکہ عورت عاجز آجاتی ہے۔ اہل عرب لڑکیوں کو کچھ بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ ایک علمی بحث ہے مگر اس آیت کے نزول سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اہل یونان کیا کرتے تھے کیا نہیںکرتے تھے یہ ایک بے تعلق بحث ہے۔ قرآن کریم نے جوورثہ کی تعلیم دی ہے وہ نہایت متناسب، متوازن ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود کے ایک نوٹ میں اس کی وضاحت ہے۔ کسی دنیا کے مذہب میں، کسی دنیا کے قانون اور رواج میں ورثہ سے متعلق اتنی تفصیلی ، ہر پہلو سے حاوی اور متناسب تعلیم نہیںملتی جیسا کہ قرآن کریم میں ملتی ہے۔ رواج تو مختلف قوموں کے الگ الگ رہے ہیں مگر ہر رواج میںایک ناانصافی کا پہلو ملتا ہے۔
یونان نے لڑکیوں کو سب کچھ دے دیا لڑکوںکو کچھ نہ دیا اور بعض دوسرے مذاہب میں لڑکوں کو سب کچھ مل گیا لڑکیوں کو کچھ نہ ملا۔ یہود کی تعلیم کاذکر آگے آئے گا ۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ لڑکیوں کو اس وقت ملتا ہے جب لڑکا کوئی نہ ہو، ورنہ محروم رہ جاتی ہیں۔ تو اس طرح ہر مختلف مذہب میںورثہ کی کوئی تعلیم تو بہر حال ملتی ہے لیکن ادھوری اور یک طرفہ۔ اور بض دفعہ ذکر ملتا ہی نہیں کچھ بھی نہیں۔ صرف رواج پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تفسیر قاسمی میں اس آیت کی وجہ نزول کی یہ بیان کی ہے کہ گویا عربوں کے رواج کے حوالے سے ہے ۔ لوگ عورتوں اور بچوں کو ورثہ نہیں دیتے تھے اور کہتے تھے ہمارا وارث صرف وہی ہوگا جس نے نیزوں کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اپنی ملکیت کی حفاظت کی اور مال غنیمت حاصل کیا۔ تو عربوں میں صرف عورتو ں کو ہی محروم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ بچوں کو بھی وراثت سے محروم کردیا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول بیان کیا گیا ہے باب نزول میں اور امام رازی نے اس میں اپنی تفسیر میں اس کو درج فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس کاجو قول بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق اوس بن ثابت الانصاری فوت ہوگئے اور ایک بیوہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں ۔ (یہ جنگ بدر میں ہوئے تو پھرتو شہید کا لفظ ہونا چاہیے تھا ۔ فوت کا لفظ بتاتا ہے کہ اس زمانہ میںجبکہ یہ سوrۃ نازل ہورہی تھی طبعی وفات پاگئے ہیں)۔
پس وہ مرد جو اس کے وصی بھی (وصی سے مراد جن کے حق میں رواج کے مطابق اس کا مال جانا چاہیے تھا) وہ سوید اورعرفجہ نامی دو شخص تھے وہ آئے اور مرحوم کے تمام مال پر قبضہ کرلیا اور نہ بیوہ کیلئے کچھ چھوڑا، نہ بچیوں کیلئے۔ اس پر وہ بیوہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ واقعہ گزرا ہے۔ کیا ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہے؟ اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ گھر جائو اور انتظار کرو اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کیا فیصلہ فرماتا ہے۔ اس بات کا انتظار کر گھر جاکر دیکھ ،تب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس آیت کے نزول کو اس روایت نے بہت محدود کیا ہے اور میرے نزدیک راڈویل نے جو اس پر تبصرہ کیا ہے وہ زیادہ معقول اور قرین قیاس ہے۔ راڈویل اسی بحث میں یہ سوال اٹھاتا ہے ، کہتا ہے یہ جو روایت درج ہوئی ہے اس عورت کے متعلق …… اس کی اس سے ملتی جلتی روایات میں چھ مختلف نام لیے گئے ہیں یعنی وہ جو خاوند کا نام جو فوت ہوا تھا ایک روایت میں کچھ اور ہے ، دوسری میں کچھ اور اور تیسری میں کچھ اور۔ پھر ایک عورت کے حوالے سے مختلف نام ہیں۔ کہتا ہے اس کے ہم دو ہی نتیجے نکال سکتے ہیں یا تو یہ کہ محمدن روایات ہی قابل اعتبار نہیں ہیں کیونکہ ان میں بنیادی فرق ہے لیکن ایک اس کی توجیہہ ہے اوروہ معقول توجیہہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اُس زمانے میں جب کہ جنگ ہورہی تھی اور بھی بہت سے ایسے تھے جو بے باپ کے رہ گئے تھے۔
It is however probable that these and similar laws and ralative to inharitences were given at a time when many heads of families had fallen at OHAD in battle.
تو بہت معقول بات ہے۔ اس کی یہ اکثر متوازن بات ہی پیش کرتا ہے ۔ کہتا ہے کہ اس ایک روایت سے محدود ماننا درست نہیں ہے ورنہ پھر روایتوں کا اعتبار ہی اُٹھ جائے گا۔ غالباً بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں کیونکہ اُحد کے زمانہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے جب کہ کئی شہید ہوئے ہیں۔ اُن شہداء میں سے کئی ایسے ہیں جن کی صرف بیٹیاں ہوں گی، بیٹا کوئی نہیں ہوگا ۔ پس موقع اور محل کے مطابق یہ آیت ایک سے زیادہ محرومین کے حق میں ان کے حقوق کے قیام کی خاطر نازل ہوئی ہے اورجو آئندہ مستقل طور پر ایک رہنما اُصول ساری امت کیلئے بن جانا تھی۔ لیکن موقع یہ ہے۔ یہ جو راڈویل کی رائے ہے یہ ان مفسرین کی رائے کے مقابل پر بہت زیادہ وزنی، معقول اور اندرونی دلائل اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ ابن کثیر نے بھی وہی روایت لی ہے جو میں نے بیان کی ہے اور اُسی کی بحث میں راڈویل نے لکھا ہے کہ یہ روایت ایک طرح نہیں آئی، چھ مختلف ناموں سے آئی ہوئی ہے۔ اس لیے لازماً ایک سے زیادہ واقعات ہیں جو ملتے جلتے تھے اور ان کے متعلق خداتعالیٰ نے نازل فرمائی یعنی یہ درست نہیں کہ ایک عورت گئی ہے کہ اچھا جائو تم ٹھہرو اور ا س کا انتظار کرو۔ بلکہ ایک صورتِ حال تھی جو تقاضا کررہی تھی اور اس صورت حال کے اوپر یہ آیت نازل ہوئی ۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے ضمن میں یہ اہمیت اس آیت کی یہ بیان فرمائی ہے۔ یہ آیت ورثاء کے متعلق ہے چاہے اس کا نام وصیت رکھیں اور چاہے ترکہ دونوں صورتوں میں آیت یہ کہتی ہے کہ کوئی شخص خواہ تھوڑی جائیداد چھوڑے یا زیادہ اس کے بیٹے بیٹیاں اس کے وارث ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت میں اس بات کا ذکر نہیں کہ وصیت جو دنیا کیلئے کی جائے وہ کتنے مال کی ہو بلکہ یہاں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص جو کچھ چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا ہوناچاہیے خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو۔ یہ جو تھوڑے اور زیادہ کی بحث ہے یہ بہت اہم بحث ہے، اس کی طرف میں ابھی واپس آتا ہوں۔للرجال نصیب مما ترک الوالدن والاقربون و للنساء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون مما قل منہ او کثرنصیبا مفروضاO مردوں کیلئے ایک معین حصہ ہے جو بھی والِدٰن چھوڑیں والاقربون اور اقرباء چھوڑیں۔ اب والدین چھوڑیں تو بیٹے وارث ہوجائیں گے اور والدین چھوڑیں تو بیٹیا ںوارث ہوجائیں گی تو ان کا حصہ اقربان کو کیسے ملے گا پھر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ماں باپ مرتے ہیں جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں اس واضح او رقطعی حکم کے مطابق ان کے وارث ان کے بیٹے یا ان کی بیٹیاں ہوں گی ۔ تو جو دوسرے ان کے اقربان ہیں ان کے مرنے پر وہ کیسے وارث بن جائیں گے ۔ اگر اقربان سے یہ مراد لی جائے کہ تمام اقربان حصہ پائیں گے کیونکہ جب ایک سے زیادہ بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو کل حصہ جتنا بھی ہے اس کی برابر تقسیم کا حکم ہے ایک او ردو کی نسبت سے۔ دو حصے بیٹے کے اور ایک حصہ بیٹی کا اور ان کے جو اقرباء ہیں مرنے والوں کے ، اُن کے کسی حصہ کی گنجائش باقی دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے والاقربون سے جو میں معنی یہاں سمجھتا ہوں او رجو اس میں منطوق ہے اس آیت کا وہ یہ ہے کہ اصولی طور پر یہ عنوان ہے وراثت کا دراصل۔ اسلامی قانون وراثت کے اوپر ایک رہنما اصول ہے جو یہ آیت پیش فرمارہی ہے۔ فرماتی ہے للرجال نصیب مما ترک الوالدن۔ اوّل حق والدین پر ان کی اولاد کا ہے کیوں ہے؟ اس لیے کہ والدین اپنی اولاد کو پالنے پوسنے، بڑا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے حقوق کی ذمہ داری خدا نے والدین کے سپرد کی ہوئی ہے۔ پس حقوق جو کسی کی پرورش کے دراصل وراثت پر بھی منعکس ہوتے ہیں ۔پس والدین کے اُوپر اولاد کے حقوق ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کو پالیں پوسیں۔ تواوّل ورثہ چونکہ اکثر والدین پہلے مرتے ہیں اور بیٹے بعد میں یا بیٹیاں بعد میں۔اس اصول کے پیش نظر پہلا ذکر ان بچوں کا کیا گیا ہے جن کے والدین فوت ہوجائیں۔ اگر والدین زندہ رہیں اور بیٹے بیٹیاں فوت ہوجائیں تو قرآن کریم نے اسی اصول کے تابع آگے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ پھر وہ بھی حصہ پائیں گے۔ پس اوّل حصہ دار یا بیٹے ہیں یا باپ ہیں، یا بیٹیاں ہیں یا ماںباپ ہیں ، یا بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ اور ماں باپ ہیں کیونکہ یہ تعلق سمجھ آجاتی ہے۔ روز مرہ جن کی ذمہ داریاں جس کے سپرد ہیں جب وہ مریں گے تو وہی ذمہ داریاں آگے بھی منتقل ہوں گی۔ جب ماں باپ زندہ تھے تو اقرباء پر کسی کے ماں باپ کا تو کوئی فرض نہیں تھا۔ اقرباء کے ہمدردی کے طو رپر قرآن کریم کی یہ تعلیم کہ دیکھو اقرباء کا خیال رکھنا، اقرباء کا خیال رکھنا۔ ایک اخلاقی طور پر تو وہ ماں باپ جو کسی مثلاً ماںباپ کی بات میں کررہا ہوں ۔ کوئی دو میاںبیوی جن کی اولاد بھی ہے وہ ہرگز فریضہ کے طور پر قانون کے طور پر اقرباء کو اپنے مال میں سے کچھ دینے کے پابند نہیں ہیں ۔ پابند ہیں تو اولاد کو دینے کے پابند ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں ان کے اوپر ہیں۔
پس ورثہ میں بھی یہی اصول جاری ہوگا اور باقی آیات جو ہیں اگر ان کو اس اصول کی روشنی میں پڑھیں تو پھر کوئی کنفیوژن نہیں پیدا ہوتا۔ جہاں اس کو بھلادیں وہاں فقہاء کے بنائے ہوئے اصول عجیب و غریب شاخیں نکال دیتے ہیں اور ایسے ایسے عجیب مضامین اس سے پیدا ہوتے ہیں کہ جن کے مخمصے سے آج تک ماہرین وراثت نکل ہی نہیں سکے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ماں باپ بیٹیاں چھوڑیں یا بیٹے چھوڑیں ، خصوصاً بیٹیوں کی صورت میں اُن سے بھی زیادہ حصہ اقرباء میں سے دوسروں کو مل جائے کیونکہ اس اُصول کو بھلاکر جب انسان کے بنائے ہوئے قوانین کو اصل وراثت کے قوانین سمجھ لیا گیا اگرچہ وہ استنباط سے ہی بنائے گئے ہیں از خود نہیں گھڑے گئے مگر استنباط در استنباط ہوتے ہوتے بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی اور اس بنیادی اصول کو پیش نظر نہیں رکھا گیا کہ ورثہ کا فلسفہ یہ ہے کہ زندگی میں تم جن کے پالنے کے ذمہ دار ہو جب تم مرجائو گے تو وہ بعد میں بھی تمہارے اُنہی اموال کا حق دار ہوںگے جو زندگی میں وہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک طبعی او رمنطقی نتیجہ ہے اور جنہوں نے تمہیں دیا ہے اگر تم مرجائو تو جن سے لیا ہے ،جن کا کھاتے رہے ہو ، جن کے اموال پر تمہاری پرورش ہوئی ہے اول حصہ دار وہ بنیں گے پھرماں اور باپ کی طرف انتقال شروع ہوجائے گا۔ یہ وہ روح ہے جس کو ہمیشہ ورثوں کی تقسیم کی الجھنوں میں جاتے ہوئے ایک رہنما روشنی کے طور پر ساتھ رکھنا چاہیے۔یہ لیمپ ہاتھ میں ہوگا اس آیت کا تو ٹھوکر سے بچے رہو گے۔ اگر اس کی روشنی کے بغیر سفر شروع کئے تو پھر کئی جگہ ٹھوکریں پید اہوںگی ، ایسے ایسے مضامین میں داخل ہوجائو گے گویا دَلدل میں پھنس گئے ہو پھر اس سے نکلا ہی نہیں جاسکتا۔
اس اصول کے پیش نظر جماعت احمدیہ کی فقہ جو ہے وراثت کی اُس پر از سر نو غور ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے ایسے پہلو ہیں جو کئی لوگ مجھے توجہ دلاتے ہیں۔ کئی پہلوئوں کے بارے میں مَیں سوچتا ہوں جو دیکھتا ہوں تو میں سمجھتا ہوںکہ فقہاء کی غیر معمولی طور پر آنکھیںبند کرکے پیروی کرلی گئی ہے۔ ذوالفرائض، ذوالارحام، ذوالفلاں یہ جو اصطلاحیں ہیں ان کو اپنے اوپر اس طرح نافذ کردیا گیا ہے کہ ان کے جال میں جکڑے گئے ہیں سب فقہائ۔ اور فقہی در فقہی ان اصطلاحوں کی پیروی کرتے کرتے ورثہ کو پھیلاتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اصل قرآن کریم کی روح کا فقدان ہوچکا ہوتا ہے، وہ غائب ہوچکی ہوتی ہے صرف ایک منطقی بحث جو ہے وہ آگے جاری رہتی ہے۔ اس لیے اس کو نظر انداز کرکے روح قرآنی اور وہ روح قرآنی جو عین فطرت کے مطابق ہے اس کو رہنما اصول بنائیں اور پھر جن آیتوں میں کچھ اشتباہ ہو وہ متشابہات ہیں۔ اُن متشابہات کے ترجمے کریں اِن آیات کی روشنی میں جو محکمات ہیں۔ اوّل محکم اس مضمون میں یہ آیت ہے جو عنوان بن رہی ہے ورثہ کا۔للرجال نصیب مما ترک الوالدن والاقربون۔ پس اقربون کا حصہ پھر کیسے ملے گا۔ اقربون کا ذکر کیوں آیا ہے جب کہ والدین جب مرتے ہیں تو ان کے بیٹے اور بیٹیاں ، ساری اولاد ان کی وارث بن جاتی ہے تو ان کے اقرباء کہاں گئے؟ یہاں اس کا تعلق یتامیٰ سے ہے اب۔ اس مضمون سے براہ راست ہے جو پہلے گذرچکا ہے۔ یہ آیت اس مضون پرچسپاں ہورہی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرنے والا مرگیا ہے وہ اگر جائیداد چھوڑتا بھی ہے بچوںکیلئے تو بہت معمولی ہوتی ہے۔ وہ اس قابل نہیں ہوتی کہ ان کی دیکھ بھال کیلئے کافی ہوسکے۔ ایک مزدور ہے جو مزدوری کما کر اپنے بچے پال رہا ہے۔ اب جب وہ مرتاہے تو مزدوری کمانے والا پہلو تو نکل گیا جو دراصل بچوں کی روزی کا اصل ذمہ دار تھا۔ کمانے والا اُٹھ گیا تو اس غریب کی جائیدادچند کپڑے ، چند گھر کے سامان چھوٹے موٹے یہ ان کی کفالت کیسے کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اقرباء میں سے جو قریب تر ہیں اور یہاں وہ اقرباء مراد ہیں کہ جب اولاد نہ ہو ماں باپ نہ ہوں تو جو حصہ پاتے ہیں پھر جو potentiallyکسی کے وارث ہوں۔ وہی ایسی صورت میں جب اوروارث نہ ہو اس کے، ذمہ دار اور نگران بھی بن جاتے ہیں۔ پس قرآن کریم کا جویہ اصول ہے کہ دو طرفہ معاملہ چلے، احسان کا بدلہ احسان سے ہونا چاہیے۔ اگر روز مرہ کی زندگی میں بعض غریب بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ان کے وہ اقرباء ذمہ داری سنبھالتے ہیں جو اکثر میّت کے بھائی ہوتے ہیں یا بھائی نہ ہوں تو ماموں وغیرہ ہوں گے ۔ وہ پھر ان کے مرنے پر ان کے حصہ دار بھی ہونے چاہئیں۔ یہ وہ مرکزی کھڑکی ہے جو اس مضمون کی طرف داخل کررہی ہے۔ والاقربون ۔ اقربون کا بھی ورثہ جب پائیں گے کیونکہ جب ان کی زیر کفالت آجائیں گے تو وہ ایک دوسرے کے وارث بن جائیں گے جب یہ مریں گے تو ورثہ وہ پائیں گے وہ ماں باپ ہیں نہیں ۔تو اقربون اس موقع کیلئے ہیں جہاں ماںباپ نہ ہوں۔ اُس صورت میں یہ بچے جو اقربون سے بھی ورثہ پائیں گے جن شرائط کا میں نے ذکرکیا ہے۔ آگے قرآن کریم ان مختلف categoriesکو۔ ان مختلف قسموں کو بیان کرکے تفصیلی روشنی بھی ڈالتا ہے یا اصولی روشنی ڈالتا ہے۔ وہ اقربون یہاں مراد ہیں۔ ان کے حصہ پانے والے جو اقربون سے پانے والے ہیں ان میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ مردوں کا یا لڑکوں کا دو حصے ہوں گے اور لڑکیوں کے ایک ایک حصے۔ یہ ہے اصول جس کے اوپر عموماً ساری وراثت کی تعلیم چل رہی ہے۔ جہاں استثناء ہیں وہاں اس کی وجوہات ہیں اور قرآن کریم اُن پر روشنی ڈالتا ہے کہ کیوں استثناء فرمائے گئے ہیں۔
قل منہ او کثر ۔ اس کی کیا ضرورت پیش آئی؟ یہ کافی تھا کہ ورثہ دے دیا گیا ہے تھوڑا ہو یا بہت ۔ ظاہر بات ہے۔ ہر ایک نے اپنے مرحوم والدین کے یا اقرباء کے حصے میں سے جو کچھ ان کی حالت ہے اس کے مطابق ہی پانا ہے۔ غریب ہیں تو غریبانہ ورثہ ہوگا، امیر ہیں تو امیرانہ ورثہ ہوگا۔ قل منہ او کثر بڑی واضح طور پر یہ جو آیت کا حصہ ہے۔ بڑا واضح طور پر کسی مضمون کی طرف اشارہ کررہا ہے ورنہ اس کی ضرورت نہ ہوتی اور یہ اتنی اہمیت والا حصہ ہے کہ اس کو نظر انداز کرکے ہمارا سارا اسلامی معاشرہ ورثہ کے معاملہ میں تباہ ہوچکا ہے۔ چھوٹا موٹا اگر ہو گھر کا روز مرہ کا سامان جس کی حیثیت کوئی نہ ہو تو لڑکیاں بھی لے لیتی ہیں ، لڑکے بھی لے لیتے ہیںپرواہ ہی کوئی نہیں۔ جہاں جائیدادیں آجائیں اور وسیع اموال ہو ں وہاں ساری برادری تنگی محسوس کرتی ہے کہ بیٹیوں کو کچھ دے دیں جو اس گھر کا مال ایک اورگھر کی طرف منتقل کردیں گی وہاں اور وارث بن جائیں گے جو اس خاندان کے افراد نہیں ہیں۔ یہ جو خطرہ ہے اس نے عملاًاسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں ایک مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ اگر ساری اسلامی دنیا میں نہیں تو کم سے کم ہندوستان اور پاکستان میں تو قطعی طور پر اس حصہ کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں سارا نظام وصیت درہم برہم ہوچکا ہے۔ زمیندار دو طرح سے بچیوں سے زیادتی کرتے ہیں۔ اوّل تو جب جائیداد تقسیم ہوتی ہے تو لڑکے ہی لے جاتے ہیں، لڑکیوں کوکوئی جرأت ہی کوئی نہیں ہوتی اور اگر وہ مطالبہ کریں توپھر طرح طرح کے دبائو ڈالے جاتے ہیں بڑے سخت! بعض دفعہ خون خرابے بھی ہوجاتے ہیں کہ تم ہوتے کون ہو، یہ ہماری جائیداد ہے ہمارے پاس ہی رہے گی ۔ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ کوئی غیر قوم کا آدمی جس کے ہاں ان کی بیٹی بیاہی گئی ہے وہ آکر وہاں ان کی جائیدادوں میں دخل دے اور وہاں آکر وہ اپنے ڈیرے لگالے اور اپنا جھنڈا نصب کرلے۔ یہ ان کی طبیعت برداشت ہی نہیں کرتی۔
پس قرآن کریم میں جو فرمایا مما قل منہ اوکثر کہ بہت ہی اہم انتباہ ہے کہ خبردار کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈر نہ جانا۔ یہ حکم ہے، فریضہ ہے نصیبا مفروضا ایسا حصہ ہے جو خداتعالیٰ نے مقرر اور فرض فرمادیا ہے۔ تمہیں مجال نہیں ہونی چاہیے اس سے انحراف کرو۔ افسوس ہے کہ احمدیوں میں بھی بہت سی جگہ یہ باتیں رائج ہوگئیں۔ ایک موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اعلان فرمایا کہ اب میں ایک گویا اعلان جنگ کررہا ہوںان لوگوں کے خلاف۔ پہلے تو نصیحتیں کی جاتی تھیں مگر اب اگر ایسا ہوا تو ایسے لوگو ں کو جماعت سے خارج کردیا جائے گا جو اپنی بہنوں کے حق مار کے بیٹھے ہوئے ہیں اور بہت سی ایسی بہنیں تھیں جو عملاً آواز نہیں اُٹھارہی تھیں ۔اس سے یہ سمجھا گیا کہ ان کی مرضی شامل ہوگئی ہے۔ وہ تو ڈر کے مارے بیچاری بولتی نہیں تھیں۔ جب یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ آیا ہے تو بیحد مطالبے شروع ہوگئے اور آج تک بھی میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ بہنیں کہتی ہیں ہمیں طاقت نہیں ہے، ہمارا کوئی بولنے والا نہیں ہے، ہم بولیں گیں تو بری بنیں گی گھر میں۔ ہمارے ساتھ ذلیل سلوک کیا جائے گا اگر اور کچھ نہیں تو ہمیں کوڑھیوں کی طرح ایک طرف پھینک دیں گے اور ہم میں یہ جرأ ت نہیں ہے۔ تو میں اُن سے کہتا ہوں خدا نے تمہیں جو حق دیا ہے تمہیں جرأت سے کام لینا چاہیے کیونکہ یہ اگر تمہاری خاموشی اور تمہاری کمزوری ان ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرے گی تو ان کے گناہوں کا ایک حصہ تم بھی کمائو گی کیونکہ وہ اس پر دلیر ہوتے چلے جائیں گے۔ ہر احمدی عورت کو میدان میں آنا چاہیے جس کا حصہ مارا گیا ہے۔ خدا نے فریضہ مقرر کیا ہے ، اس کو لازماً قضاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ اس کا ردّ عمل کیا ہے اور اگر ایسا کریں گے تو پھر آئندہ لوگوں کو نصیحت ہوگی ، خوف پیدا ہوگا اور وہی مضمون ہوگا وشردبھم من خلفھم۔ جو چند سامنے آتے ہیں ان سے ایسی سختی کرو کہ پچھلے ڈر جائیں پھر ان کو جرأت ہی نہ پیدا ہو۔ اب چونکہ پہلوںسے نہیں ہوا اور بہت سے زمیندار ہ خاندان ہیں جن میں جہاں تک میرا علم ہے ابھی تک بھی اس کی پرواہ نہیں کی جارہی اس لیے اس کو مثال بنا بنا کر اگلے لوگوں نے بھی پکڑ لیا ہے۔ اس کے خلاف جماعت کو بہر حال اب جہاد کرناہوگا یہ نصیبا مفروضا لازماً دلانا ہے اور اس معاملہ میں خواہ کئی پرانے خاندانوں کو بھی جماعت سے خارج کرنا پڑے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا نکلنا باعث برکت ہوگا کیونکہ اللہ کے حکم کی تائید میں اس کی حفاظت کی خاطر ان کونکالا جارہا ہے۔ اس کی کمی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پوری فرمادے گا۔ اس کی بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ جہاںکوئی بہن اپنے طور پر حصہ چھوڑنا چاہتی ہے اس کے اوپر وہی اصول صادق آئے گا جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا فتویٰ اُس مرد کے متعلق تھا جس نے کہا تھا کہ میری بیوی نے حق مہر معاف کردیا ہے ( وہ حکیم فضل دین صاحب تھے نہ بھیروی جن کا ذکر ہوا تھا ہاں) وہ پہلے دیں اس کو اس کے بعد پھر وہ واپس کردے تو شوق سے واپس کردے ۔ لیکن Riskبڑی ہے میں بتادیتا ہوں ابھی! شاذ ہی کوئی ہوگی بہن ،جو یہ کہے کہ چلو میں واپس کرتی ہوں ان کو دے دے۔
اب اس ضمن میں ایک اور مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو یہاں زیر نظر آنا چاہیے۔ ایک آدمی ورثہ میں جو کچھ پاتا ہے اس نے وصیت بھی کی ہوئی ہے اور اپنا ورثہ ہبہ کردیتا ہے دوسرے وارثوں کو کہ مجھے ضرورت نہیں۔ اب وہ مرتا ہے تو اس کی وصیت کا کیامعاملہ ہوگا؟ ایک ایساکیس میرے سامنے آیا ہے تو میں نے ہدایت دی اصولی کہ آئندہ ہر گز اس بات کو قبول نہ کیا جائے کہ میں نے ورثہ اس کو دے دیا تھا۔ تم نے اس کو جو دیا تو اپنا حق چھوڑا ہے لیکن تم اس سے پہلے خدا سے وعدہ کرچکے ہو کہ میںاپنی کل جائیداد کا 1/10حصہ خدا کو دوں گا یا دوںگی۔ اس وعدہ خلافی کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے کیونکہ تقسیم ورثہ وصیت کے بعد ہوتی ہے جو وصیت یاقرض واجب ہیں ان کے بعد باقی وصیت تقسیم ہوتی ہے اور یہ جو حصہ ہے یہ قرض کی صورت ہے جو تم دے بیٹھے ہو اللہ کو اسے واپس نہیں لے سکتے۔ تو ایسی وصیت اس وقت تک منظور نہیں ہوئی جب تک وارثان نے وہ حصہ بھی ادا نہیں کردیا جو مرنے والے پر واجب آتا تھا اگر وہ اپنا حصہ وصول کرلیتا۔ ایسا ہی معاملہ انگلستان میں بھی پیش آیا۔ باہر بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ ایک معین کیس میرے سامنے نہیں ہے۔ بہت سے ہیں جو بعد میں سامنے آئے ان پر یہی اصول چلا ہے۔ تو اپنا ورثہ چھوڑنا اور بات ہے اور اپنے حقوق کی ادائیگی سے انحراف اور چیز ہے ۔ حصہ چھوڑنے کی اجازت ہے جب کہ حقوق کی ادائیگی پر یہ بات اثر انداز نہ ہو وہ تمہیں بہرحال ادا کرنے ہوں گے۔
دوسرا ایک اور پہلو ہے شادیوں کا جس مسئلہ پر اس مسئلہ نے بہت برا منفی اثر ڈالا ہوا ہے۔ کئی زمیندار خواتین ہیں، بچیاں ہیںجن کی شادیاں محض اس لیے نہیںہورہیں کہ وہ صاحب جائیداد ہیں۔ وہ خاندان صاحب جائیداد ہیں۔ اگر ماں باپ مریں تو بیٹیاں بہت سی زرعی زمین ورثہ میں پائیںگی۔ اگر وہ دوسرے خاندانوں میں بیاہی جائیں، اگر حسب و نسب کو نہ دیکھا جائے اور رشتہ تقویٰ کے اوپر ہو تو ہوسکتا ہے وہ ایک غریب ایسے شخص کو بیاہی جائیں جس کو یہ لوگ زمیندار کمین کہتے ہیں۔ یعنی بے جائیداد کے لوگ جو ہاتھوں کی کمائی کھاتے ہیں۔ یہ لفظ بہت ہی ظالمانہ ہے ان کو کمین کہنے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے ہرگز۔ مراد ان کی یہ فخر ہے کہ ہم زمیندار ہیں ، زمینوں پر پلنے والے لوگ ہیں یہ ہاتھوں کی کمائی کھاتے ہیں۔ اب وہی زمیندار یہاںآکر ٹیکسی ڈرائیو کرتے ہیں اس وقت ان کو شرم نہیں آتی۔ زمیندار پھر بھی وہیں کے وہیں رہے۔ تو یہ ہاتھوں کی کمائی زیادہ معزز ہے۔ ورثہ کی کمائی بھی کھاتے ہو تو کھائو لیکن اصل بابرکت کمائی وہی ہے جو محنت سے کمائی جاتی ہے جو اپنے خون پسینے سے ہاتھ آتی ہے، ایسے لوگوں کو ذلیل کردینااور جو ورثہ پاتے ہیں ان کو عزت دینا یہ ناجائز ہی نہیں قرآن کریم میں اس کے اوپر بہت ہی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیاہے۔ جہاں طعن کا ذکر ہے وہاں یہ ظالم ایسے ہیں ان غریبوں کو بھی طعن کرتے ہیں اموال میں جن کا اپنے ہاتھ کی کمائی کے سواکچھ نہیں۔ اس طعن کے متعلق ایک دفعہ باہر سے مجھے کسی نے حدیث لکھ کے بھیجی تھی کہ یہ طعن تھی! میں نے اس لیے نہیںپڑھ کے سنائی (یہ طعن تھا وہ جس میں لکھا تھا)۔ وہ صرف ایک طعن نہیں ہے ہر قسم کے طعن موجود ہیںاس میں ۔ وہ سوسائٹی بھی بڑی اپنی خاص روایات کے اوپر فخر کرنے والی سوسائٹی تھی اور اس قسم کے مزدوروں وغیرہ کو حقارت سے دیکھتے تھے وہ غریب تھوڑا چندہ دیتے ہیں اورتب بھی طعن کرتے ہوں گے۔ یہ جو لکڑیوں کے ڈھیر ی میں سے چار لکڑیاں لے آیا ہے یہ کوئی چندہ ہے! یہ قربانیاں ہیں! اس قسم کے طعن بھی تو کرتے ہوں گے۔ اور کچھ ان میں سے جو چندہ اکٹھا کرنے والے ہوں گے ان کے اوپر یہ طعن بھی ہوتا ہوگا کہ یہ بیج میں سے کھاگیا ہوگاضرور۔ہے غریب آدمی اس کے کپڑے ہم نے سفید دیکھے ہیں ضرور کھا گیا ہوگا۔ تو اس قسم کی باتیں ہیں جو طعن کے بہت سے امکانات ، احتمالات ہمارے سامنے کھولتی ہیں۔ قرآن نے غریبوں پر اور خصوصیت سے مزدوروں پر طعن کرنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے اور جن کو پیشہ ور کہتے ہیں وہ ہیں وہی مزدور لوگ جو اپنے ہاتھ کی کمائیاں کھاتے ہیں ، اپنے فن کی کمائی کھاتے ہیں۔ ایک زمانے میں انگلستان میں بھی ان کے خلاف ایک بڑا تعصب پایا جاتا تھا۔ جینٹری وہ تھی جو لینڈڈ جینٹری ہو جس کے پاس زمین ورثہ میں آنے کے امکانات ہوں خواہ وہ زمین ان کوورثہ میں ملے نہ ملے وہ معزز لوگ۔ نہ ملے اس لیے کہ اکثر کو ملتی کوئی نہیں تھی کیونکہ لینڈڈ جینٹری وہ تھی جن میں سے جو چھوڑے ہوئے بچوں میں سے جو سب سے بڑا بیٹا ہے وہ ساری جائیداد لے کر بھاگ جاتا تھا۔ وہی ٹائٹل لے لیتا تھا، وہی ڈیوڈ اور وہی اس جائیداد کا مالک اور واحد وارث بن جاتا تھا اپنے چھوٹے بھائی بھی محروم اپنی بہنیں بھی محروم۔ مگر عزت کی جوہے نا انا وہ موجود تھی۔وہ رسّی جل گئی پر بل نہ گیا۔ ان کی جائیدادیں تو ختم ہوجاتی تھیں ماں باپ کے مرنے پر اکثر بچوں کی، لیکن وہ شان رہتی تھی کہ ہم بڑے ہیں۔ کچھ زندگی میں چونکہ ان کو advantagesتھیں۔ وہ کما بھی لیتے ہوں گے اورآئندہ اپنی جائیداد کچھ بنالیتے ہوں گے ۔ یہ رواج ابھی کل تک کی بات ہے۔ اسی طرح رائج تھے انگلستان میں ۔ اس لیے یہ ہردنیا میں ایک *** ہے کہ ہاتھ کی کمائی کو برا سمجھاجاتا ہے اور ورثہ کی کمائی کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قل منہ او کثر میں یہ بھی اشارہ فرمادیا ہے کہ تھوڑے بہت کی کوئی عزت نہیں ہے جو بھی ہے ورثہ میں حق ہے تمہارا، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس ورثہ کے دوران اگر اکثر دیکھ کر تم نے زیاہ مال دیکھ کر، ورثہ کی تقسیم میں تفریق کی اور خدا کے قانون میں دخل دیا تو تم مردودلوگ ہو۔ یہ فریضہ ہے جسے تمہیں بہرحال نافذ کرنا ہوگا۔ اس پہلو سے یہ اثر تو پڑتا ہے ۔جو دوسرا اثر پڑرہا ہے وہ بچیوں کے حقوق پر ہے۔ لیکن ہے اسی کا اثر جس کی اب میں بات کررہا ہوںکہ بے زمینے سے شادی کرلیں گی تو ہم کہاں جائیں گے؟ ہماری جائیدادیں موچیوں اور سناروں اور فلاںاور فلاں میں چلی جائیں گی ۔ حالانکہ موچی بھی کوئی ذات نہیں ہے، سنیاروں کی ،کوئی ذات نہیں ہے۔ کئی راجپوت ہیں جو سنیارے ہیں مگر کام سنیاروں کا کرتے تھے آہستہ آہستہ نام بھی سنیارا بن گیا۔ اور کئی بڑھئی ہیں جو پٹھان تھے پہلے اور بڑھئی کے کام کئے ۔ خان ہوا کرتے تھے اب وہ ترکھان ہوگئے یعنی بھیگے ہوئے خان بن گئے بیچارے! تو یہ چیزیں یوں ہی فرضی انسان کی بنائی ہوئی جھوٹی عزتیں ہیں،مگر ہویہ رہا ہے! ابھی تین دن کی بات ہے بعینہٖ یہی ایک تکلیف دہ خبر مجھے ملی کہ ایک بچی ہے جو بڑی شریف ، بہت اعلیٰ اخلاق کی مالک تیس سال کی عمر ہوگئی ہے اس کیلئے کوئی زمیندار رشتہ ڈھونڈ دیں۔ زمیندار کیوں ڈھونڈوں باقی مانیں گے نہیں۔ کہتے ہیں اگر آپ نے زمیندار کا رشتہ نہ ڈھونڈا جو برابر کا ہو ان کی چوٹ کا تا کہ وہ سمجھیں کہ ہمارے اپنے اندر ہی بات رہی ہے تو وہ مانیں گے نہیں اور ساتھ یہ بھی ہے ایک اشارہ کہ اگر اسی خاندان میںسے وسیع تر جو ہے نسبتاً اس میں سے لڑکا ملے تو پھرزیادہ مناسب ہے کیونکہ وہ کہیں گے کہ یہ جائیداد گھر میں ہی رہی ہے اور اس وجہ سے اس کی شادی نہیںکررہے۔ کہتے ہیں اچھے سے اچھے رشتے آتے ہیں لیکن وہ ردّکردیتے ہیں۔
تو ایسے یہی وہ مواقع ہیں جہاں جماعت کو اپنی ولایت کا حق استعمال کرنا چاہیے۔ خلیفہ وقت کو جو ولایت کا حق ہے وہ انہی معنوں میں ہے کہ جہاں بھی ولایت کا ناجائز استعمال ہورہا ہو قرآن کی رُوح کے منافی فیصلے ہو رہے ہوں ، ولایت اس غرض سے ملتی ہے کسی کو کہ کسی کے حقوق کا خیال رکھے ، اس کے مفاد کی حفاظت کرے ۔ جب ولایت بالکل برعکس موقع پر استعمال ہورہی ہو اور حقوق دبانے کیلئے اوراس کے مفاد کے خلاف فیصلے کرنے کیلئے ایک دھونس کے طور پر استعمال ہو وہ ولایت کالعدم ہو جاتی ہے پھرہر گز ولایت نہیں رہتی۔وہ ولایت لوٹتی ہے پھر خدا کے قائم کردہ نظام کی طرف۔ ان معنوں میں خلیفہ ولی ہوجاتا ہے ۔ اس کو خدا نے حق دیا ہے کہ ایسی صورتوں میں جب وہ سمجھے کہ ولایت کے غلط استعمال کے نتیجہ میں بچیوں کا یا بعض دوسروں کا نقصان ہورہا ہے تو خود فیصلہ کرے۔ پس ایسے سارے معاملات کومرکز کی طرف پہلے بھیجنا چاہیے قضاء سے پہلے ۔ بہتر یہ ہے کہ اصلاح وارشاد اور امور عامہ اور ان کے ساتھ کوئی اور انجمن مقر رکردے کسی نظارت کا نمائندہ، یا علماء میں سے جو بیشک باہر سے ہوں۔ ایک دو مقررکرکے ایک کمیٹی بنادی جائے۔ ان میں ایسے اگر وکیل ہوں تو وہ بھی بہتر ہے۔ اس کمیٹی کی طرف تمام ایسی بچیاں جو غلط انداز میں غلط سلوک کی شاکی ہیں وہ اپنے حالات لکھ کر بھیجیں۔ پھر اس کمیٹی کا فرض ہے کہ اخلاقی دبائو ڈالے، سمجھائے ، جہاں مشکلات میںمدد کرسکتی ہے، مدد کرے اور جن لوگوں کو ہلاکت سے بچاسکتی ہے بچالے۔ اگر ناکام رہے تو پھر بچیوں کو سہارا دے ، ان کو وکیل مہیا کرے کہ وہ قضاء میں جائیں اور پھر قضائی فیصلے کی اگر نافرمانی کی ان لوگوں نے تو قطعی طور پر قطع نظر اس سے کہ ان کا کیا مقام بنا ہوا ہے جماعت میں، ان کو جماعت سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا۔ نظام جماعت ،نظام خلافت کا وہ حصہ رہ ہی نہیں سکتے اگر اس بنیادی حکم کی وہ کھلم کھلا نافرمانی کررہے ہیں اور بلکہ بغاوت کررہے ہیں۔ ایک انفرادی نافرمانی ہوتی ہے وہ ایک انسان کے ساتھ ہے خدا اس کا حساب کتاب خود کرتا ہے اس کے ساتھ۔ ایک ہے قومی بغاوت اس میں نظام کو اختیار ہی نہیں ہے نظر بندکرنے کا، آنکھیں پھیرنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں، یہاں رحم کے نام پر کوئی بات نہیںچلے گی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہم مجبورہیں، ہمار ے اختیارات محدود ہیں۔ ہمارے علم میں آئے تو لازماً وہی کارروائی کرنی ہوگی جس کا قرآن تقاضا کرتا ہے کہ انضباطی کارروائی مضبوطی کے ساتھ اور پھر اس بات کی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ جماعت میںرہنا چاہتے ہیں یا نہیں رہنا چاہتے۔ یہ صفائی ضروری ہے جہاں جہاں بھی اس اصول پر ہم نے صفائی کا کام کیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کبھی بھی کوئی نقصا ن جماعت کو نہیں پہنچا بلکہ غیر معمولی فوائد ہوئے ہیں۔ مالیاتی نظام میں بھی جہاں صفائی کاکام کیا گیا وہاں پہلے سے بہت بڑھ کر چندے بڑھ گئے اور ان لوگوں کے اموال میں بھی برکت پڑی جنہوں نے اس راہ میں قربانیاں دیں۔ انفرادی طور پر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص پر ابتلاء آجاتا ہے خدا کی خاطر ایک حرام مال کے حرام کمائی سے رکتا ہے اور فوراً اس کا کچھ نہیں بنتا۔ اُن استثنات کی میں بات نہیں کررہا عمومی طور پر ایسے لوگوں کاحال بتارہا ہوں کہ بلا شبہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جو پہلے حرام کاموں میں ملوث تھے ان کی زندگیوں کی کیفیتیں بدل گئیں ، ان کے اموال میں برکت پڑی۔ جو چند استثناء ہیں ان کا حال اللہ جانتا ہے کہ کیوں وہ استثناء ہیں۔ ان کے رویے کے اندر، ان کی نیتوں کے اندر ، ان کے تعاون کے طرز عمل میں کہ پتہ نہیں کیا کیا باتیں تھیں جن کے نتیجہ میں ان کے ابتلاء کو لمبا کردیا گیا ہے یا محض ابتلاء آیا ہے کہ اس دَور سے گزر جائو تو پھر خداتعالیٰ تمہیں بہت برکت دے گا۔ اس دَور پر جو ابتلاء کا دور ہے وہ ایسے لوگ جو اس وقت اس دور پر ہیں یا اس میں سے گزر رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اطاعت کی روح کو زخمی نہ ہونے دیں۔ صبرشکرکے ساتھ اس امتحان سے گزریں اور بار بار یہ جماعت کوطعنے نہ دیں کہ آپ نے کہا تھا ہم نے چھوڑدیا یہ مصیبت پڑ گئی۔ جب مجھے بھی ایسا لکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میں ہی ذمہ دار بن گیا ہوں ساری مصیبت کا۔ وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ خدا نے کہا تھا ہم نے مانا یہ مصیبت پڑ گئی۔ اس کی جرأت ہی نہیں! تو مجھے کیاحق ہے کہ کسی کے اموال میں دخل دوں میں نے تومحمد رسول اللہ ﷺکی بات پہنچائی تھی اور زور دیا تھا کہ مجھے اختیار ہی نہیںہے کہ یہ بات سن کرعلم میں آنے کے باوجود میں اس کے برعکس کسی چیز کی اجازت دوں۔اس لئے میرا اختیار نہیںہے اگر تم مانو گے تو محمد رسول اللہ کی بات مانو گے نہیں مانو گے توپھر میرے ساتھ بھی تعلق کٹے گا۔ یہ ہے فیصلہ دو ٹوک! اس پر جب وہ لکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تھا ہم مان گئے اب بتائیں کیا کریں؟ کچھ بھی نہیں، نہ نوکری مل رہی ہے نہ دوسری بزنس کا انتظام ہورہا ہے۔ توان کو میرا جواب یہ ہے کہ پھر خدا سے لڑیں اگر لڑ سکتے ہیں، تو اس سے شکوہ کریں اگر شکوہ کا حق ہے۔ ہرگز کوئی شکوہ کا حق نہیں۔ اس کا تو مطلب ہے کہ اگریہ دلیل مان لی جائے تو ہر شخص حرام کی طرف دوڑ سکتا ہے یہ کہہ کر کہ اگر میں حرا م نہ کروں تو میں غریب ہوجائوں گا۔ یہ دلیل جائز ہے؟ پھر چوریاں بھی کرو، پھر ڈاکے بھی ڈالو، پھر قتل و غارت بھی کرو، پھر یتامیٰ کے مال بھی غصب کرو۔ اور روکا جائے تو رُک کر الٹ کے کہو کہ دیکھیں آپ نے کہا تھا کہ اسلام اجازت نہیں دیتا، اب ہم کیا کریں؟ یتیم کامال اس کو مل گیا ہمارے بچے بھوکے مرجائیں۔ فلاں کا مال غصب کیا ہوا تھا آپ نے زبردستی اس کو دلوادیا اب ہمارے حقوق کہاں گئے۔ تو تمہارے حقوق وہی ہیں جوہاتھ کی کمائی کے رہ گئے ہیں پھر ۔ اور اس میں بھی عزت ہے اس کو بھی قرآن کریم نے معزز پیشہ گردانا ہے۔ پھر از سر نو سفر شرو ع کرو۔ فرضی عیش و عشرت کے جو محل بنائے ہوئے تھے وہ حرام کے کام پر بنائے ہوئے تھے ان کا تمہیں حق نہیں تھا۔ خدا نے اُس غلاظت سے تمہیں نکالا ہے۔ اس لیے جماعت پر احسان نہ جتائو، جماعت کے احسان مند ہوجائو۔ پھر زیادہ قرین قیاس ہے کہ تمہیں برکت ملے گی۔
ایسے ہی ایک کیس کے متعلق مجھے پتہ ہے کہ اُس خاندان کو دو یا تین سال تک بڑی مصیبت پڑی کچھ بھی نہیں بنا ۔ لیکن ان کے اندر یہ گہری شرافت اور حیاء تھی وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ اس وجہ سے ہمیں ہوا۔ انہوں نے کہا الحمد للہ ہم نجات پاگئے ہیں ۔ آگے اللہ جب عطا کرے گا ہم انتظا رکررہے ہیں۔ان کو اتنی برکت ملی ہے کہ جو پہلے حرام والے کام تھے ان کے مقابل پر کہیں سے کہیں بات پہنچ چکی ہے۔ تو اس لیے یہ کھلی بات ہے، یقینی بات ہے میرے نزدیک۔ اپنے نفس کی، اپنے طرز اطاعت کی اصلاح کرلو اسے خالص کر لو اللہ کیلئے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فضلوں سے مشروط نہ کرو بلکہ اُس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ اگر مرضی پر چھوڑو گے تو پھر غربت کا ابتلاء بھی تمہارے ایمان کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ اس میں بھی لذت محسوس کرو گے ایک اور ہی کیفیت پائو گے کہ اب ہم غریب ہیں تو خدا کی خاطر ہیں بہت مزہ آرہا ہے۔ ٹھیک ہے مالک ہے جتنا چاہے دے ہم اس پر راضی ہیں۔ اس رُوح کی حفاظت کرو گے تو پھر خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ پس اُن زمینداروںکو جو کَثُرْ سے ڈرتے ہیں کہ بہت بڑی جائیداد ہے یہ بیٹیاں یا بہنیں لے کر کہیں اور چلی جائیں گی، اُن کو میں کہتا ہوں کہ جائیدادیں بنانا، بڑھانا ، برکت دینا خدا کے ہاتھ میںہے او رکم کردینا بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے۔ بنابنایا توڑدے کوئی اس کا بھید نہ پاوے۔ تمہاری جائیدادیں حرام کی کمائی کی یا غصب کی ہوئی تمہارے کسی کام نہیں آئیں گی۔ عین ممکن ہے کہ جائیدادیں تو بڑھ جائیں مگر برکتیں اٹھ جائیں، گھروں میں مصیبتیں پڑ جائیں، اولاد تمہاری دشمن ہوجائے۔تم ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگو او وہ مال *** بن جائیں جن اموال کی حرص میں تم نے قرآنی احکام کو نظر انداز کیا تھا۔
پس اس آیت کا یہ پہلو جو ہے یہ میں ضرور خصوصیت سے سمجھانا چاہتا تھا ، باقی جو بحثیں ہیں وہ ساری معمولی گرائمر وغیرہ کی بحثیں ہیں یا لغت کے لحاظ سے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ البتہ بعض مستشرقین کے تبصرے میں دیکھتا ہوں اگر اس قابل ہوئے جو آپنے سامنے پڑھ کر سنائے جانے ہوں تومیں سنا کے رکھتا ہوںآپ کے سامنے۔ ایک وعدہ میں نے کیا تھا کہ حضرت مصلح موعود کا ایک تفصیلی نوٹ ہے اس سلسلے میں جو بڑا جامع مانع ہے وہ میں آپ کو بتائوں گا۔ وہ اب میں پڑھ کر سناتا ہوں۔
’’حفاظت مال کا اسلام نے ایک قاعدہ بتایا ہے جس کے مقابلے میں اور کسی مذہب نے کچھ بھی بیان نہیں کیا کیونکہ جس رنگ میں اسلام نے ورثہ مقرر کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا(یہ غیر مطبوعہ نوٹس ہیں اس آیت پر، ابھی اس کے اوپر تفسیر حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چھپی نہیں تھی نہ آپ کو موقع ملا تھا لیکن نوٹس لکھ چکے تھے جو ہمارے پاس اس وقت سامنے ہے)۔ اسلام نے ورثہ مقر رکیا اور کسی نے نہیں کیا۔ نہ عیسائی مذہب نے، نہ یہودی مذہب نے، نہ آریہ مت نے اور نہ کسی اور مذہب نے، کسی مذہب نے بھی تمام پہلوئوں کو مدنظر نہیں رکھا۔ یورپ میں تو کہتے ہیں کہ ورثہ کا سارا مال جو جدی ہو بڑے لڑکے کو دے دیا جائے۔کسی ملک میں بیٹوں کو تو دیتے ہیں لیکن بیٹیوں کو نہیں دیتے۔ بعض جگہ بیٹیوں کو بھی دیتے ہیں ، ماں باپ کا خیال نہیں رکھتے۔ کہیں خاوند مرتا ہے تو بیوی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ کہیں بیوی مرتی ہے تو خاوند کو کچھ نہیں ملتا اور انگلستان میںاور یورپ میں یہ بھی ہورہا ہے کہ خاوند مرتا ہے تو سب کچھ بیوی لے جاتی ہے۔ اگر اولاد نہ ہو اور وہ حقوق جو اسلام نے قائم کیے ہیں دوسرے اقرباء اور عزیزوں وغیرہ کے ان کو نظر انداز کردیا جاتاہے‘‘۔
اس معاملہ میں بھی ایک نصیحت کی ضرورت ہے۔ اگر کسی ملکی قانون کا عذر رکھ کر واضح طور پر شریعت کے احکام کو نظر انداز کیا جائے تو جماعت اس وجہ سے ہاتھ نہ ڈالے کہ قانون نے اجازت دے دی ہے اگر جماعت نے دخل دیا تو قانون اعتراض کرے گا کہ تم نے ہمارے قانون پر چلنے والے کو سزا کیوں دی ہے ۔ اگر کسی ایسی حکمت کے پیش نظر جماعت کوئی معین سزا نہ دے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیںکہ یہ لوگ خدا کے حضور سزاوار نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں ہے کہ جماعت نے ایکشن لیا ہے یا نہیں لیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات کا بھی پابند نہیں ہے کہ جماعت نے چونکہ ایکشن لے لیا ہے اس لیے اب اور سزا نہ ملے۔ جماعتی ایکشن ایک نظام کا اظہار ناپسندیدگی ہے جو بعینہٖ جرم کے مطابق ضروری نہیںہے۔ایک اظہار ناپسندیدگی کے طور پر آپ کسی کو کاٹ کر جماعت سے الگ کردیں۔ اس کو احمدی کہلانے کا حق دیں بیشک کہے، مسیح موعود کو مانے، قرآن کومانے اقرار کرے۔ نظام سے کٹا ہے یہ ایسی سزا نہیں ہے کہ اس کے گناہ کے پوری طرح کفیل بن جائیںاور کہہ دیا جائے کہ چونکہ اس کو سزا مل گئی ہے اب آئندہ کیلئے یہ امن میں ہے، ہرگز نہیں یہ ایک عارضی ابتدائی انتظامی ضرورت ہے جو پوری کی گئی ہے بس ۔ ایسا شخص جو قرآن کے احکام کو توڑ تا ہے اور سوسائٹی میں نظام اس اسلام کے خلاف بغاوت کرتا ہے وہ بعض دفعہ انفرادی بڑے گناہوں سے بھی زیادہ بڑا مجرم ہوتا ہے، کیونکہ بغاوت کا قانون جو ہے وہ سب سے بڑا گناہ شمار ہوا ہے۔ شیطان نے اس کے سوا کوئی قانون نہیں توڑا۔ اس نے بغاوت کی ہے اور اس وقت سے آج تک گناہ کی تعریف ہی بغاوت ہے اصل میںتو جو بغاوت کرتا ہے وہ سزا پائے گا۔
پس ملکی قانون اگر کسی کو ایسے حقوق دلوائیں جس میں دوسروں کا بھی حصہ ہوگیا ہو تو ملکی قانون خدا کی پکڑ سے اُس کو بچا نہیں سکتے۔ اس کی قطعی مثال آنحضرتﷺ کے اس فیصلے میں ہے جو یہ ہے کہ اگر کوئی چرب زبان اموال اور جائیدادوں کی تقسیم میں اس رنگ میں بات میرے سامنے پیش کرے کہ میں مطمئن ہوں کہ یہ اس کا حق بنتا ہے جب کہ خدا کی نظر میں وہ اس کا حق نہ ہو۔ یہ احتمال اٹھا گیا ہے جو میرے نزدیک کبھی ایسا ہوا نہیں ہوگا مگر رسول اللہﷺ نے ہم لوگوں کی رہنمائی کیلئے اس قسم کے احتمالات کئی جگہ اٹھائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی اگر چوری کرتی یا کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دوں۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چوری کا احتمال تھا۔ پس یہ بھی اس قسم کے احتمالات میں سے ہے جو ناممکن دکھائی دیتا ہے مجھے۔ مگر امت کی اصلاح کیلئے ، امت کی تعلیم و تربیت کی خاطر آنحضرت ﷺ کا یہ طریق تھا کہ احتمالات اُٹھاتے تھے اور ان کا جواب دیتے تھے تاکہ دوسرے نصیحت پکڑیں۔ آپؐ نے فرمایا میں اگر دے دوں تو وہ شخص اس پہ راضی نہ ہوجائے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیا ہے ہوسکتا ہے میں ایک جہنم کا ٹکڑا کاٹ کر اُسے دے رہا ہوں وہ کھائے گا تو جہنم کی آگ کھائے گا۔ پس اگر یہ فیصلہ رسول اللہ ﷺکا فیصلہ احتمالی طور پر اس کو مجاز نہیں کرتا اس بات کا کہ اس غلط چیز کو استعمال کرے جو اس کا حق نہیں تھی۔ تو حکومت برطانیہ یا حکومت جرمنی یا حکومت پاکستان کا فیصلہ کس طرح اس کو مجاز بنادے گا۔ جماعت کی پکڑ سے بچ جائے بیشک بچے،مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا۔ اس لیے تقویٰ کا تقاضا ہے یہ اُن لوگوں کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسے تما م حقوق ادا کریں جو ادا کرنے پر قانون مجبور نہیں کرتا مگر ادا کرنے سے روکتا بھی نہیں ایسے قوانین کھلے ہیں۔ آپ تحفۃً چاہیں تو ساری جائیداد کسی کودے دیں، تو وہاں خدا کے قائم کردہ حقوق پانے والوں کو آپ کیوں محروم رکھتے ہیں؟ یہ بہانہ بنا کر کہ قانون نے ہمیں دیا ہے ، قانون نے تو دیا ہے مگر قانون نے کب روکا ہے کہ خدا کے قانون کی اطاعت نہ کرو۔ کر نا چاہتے ہو تو شوق سے کرو۔ تو کسی جماعتی اقدام کے خوف سے نہیں بلکہ اس خوف سے کہ خدا کی تلوار تمہارے سروں پر لٹکی پڑی ہے اور وہ تمہیں نہیں چھوڑے گی اگر تم نے نافرمانی میں باغیانہ رنگ اختیار کیا۔ اس بات کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس کے بعد اب چونکہ وقت ہوگیا ہے آدھا گھنٹہ چاہیے تھا آخری۔ میرا خیال ہے کہ اس عرصہ میں ایک دو حوالے ان مستشرقین کے پڑھ دیں۔
راڈویل نے تو صحیح تبصرہ کیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ wise provision and the circumstances of the time صرف یہ بات ہے circumstancesکی بحث نہیں ہمیشہ کیلئے ایک wise decisionہے۔ رچرڈ بیل کی commentryیہ ہے کہ General recognition of rightyغالباً اس سے پہلے کی آیت ہے جب تفصیل بیان ہوئی تھی۔ حالانکہ یہ عنوان ہے تمام وصیت کے نظام کا، بنیادی اصول تمام تر اس میں بیان ہوگئے ہیںکوئی حصہ بھی وصیت کی تقسیم کا اس آیت کے رہنما اصول کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ یہ میں بیان کرچکا ہوں اس کو سمجھ نہیں آئی بات کی (کیاکہتے ہیں وہ محاورہ کہ دشمن بولے تو پھر بات کا مزہ ہے) (والفضل ما شھدت بہ الاعداء میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں)۔ تو مزے کی بات یہ ہے کہ یہ نظام (قانون) وراثت جو ہے اس کے اوپر ویری نے بھی منفی تبصرہ کرنے کی بجائے تعریف کے پل باندھ دیئے ہیں اور حیران ہوجاتا ہے آدمی دیکھ کے کہ آخر قرآن کریم کے حسن نے وہ مارا ہے ایک دشمن کو۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔
The importance of this reform cannot be over rated previous to this women and helpless children might be disinherited by the adult male and theus the reduced to absolute.......... for no fault but widows and widows and orphans.
اور اس کا یہ tributesدینا it cannot be over waitedایک بہت بڑی چیز ہے ۔ اس کے دل سے یہ بات نکلوالی آخر قرآن کریم نے یہ ایک بہت ہی حسین کلام ہے۔ اب اگلی بات شرو ع کریں۔
میں نے کہا تھاکہ مَیں اتوار کے دن کبھی کبھی آدھا گھنٹہ بعد میں رکھ لیا کروں گا تاکہ جنہوں نے سوال کرنے ہوں وہ کریں (یہ کریں نہ آپ نے کرنا ہے میں نے تو نہیں کرنا) ۔۔ ۔۔ (حوالہ آپ پڑھ کر سنادیں بات ختم ہوجائے گی۔ بس ٹھیک ہے)
سوال نمبر1:- حضور کل درس میں آیت کریمہ ولا تؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیام وارزقوھم واکسوھم کا ذکر آیا تھا۔ اس سے پہلے جمعرات کو اس کی تفسیر کا جب آغاز ہوا تھا تو حضور نے جو ترجمہ فرمایا اور تفسیر فرمائی اس سے ساری بات کھل گئی تھی مگر کل کے درس میں لفظ ’’قیام‘‘ کو مخاطب کی طرف پھیر دیا گیا تو اس سلسلے میں حضور سے درخواست ہے کہ وضاحت فرمادیں کہ کیایہ سھواً ہوا یا کوئی حکمت پیش نظر تھی؟
جواب:- یہ بات اچھا کیا آپ نے اٹھائی ہے۔ یہ باہر سے تو نہیں آئی۔ آپ کے اور امام صاحب کے سر جوڑنے کے نتیجے میں سوال اُٹھا ہے (ماشاء اللہ)۔ بہت اہم بات ہے اس کو اگر نظر انداز کردیا جاتا تو کئی جگہ ابہام پیدا ہوجاتے اور بعض گریمیرژن (گرائمر جاننے والے۔ناقل) بعدمیں سوال اٹھاتے کہ شاید بھول کے میں نے ایک غلط ترجمہ کردیا ہے۔ ہرگز بھول کر غلط ترجمہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ ایک ایسا ترجمہ کیا ہے جو اس سے پہلے مجھے کہیں نہ ترجموں میں، نہ مفسرین کے بیان میں ملا ہے۔ لیکن آیت کے محل اور سیاق و سباق کے عین مطابق اور عربی گرائمر کے قوانین کے بھی تابع ہے ۔یہ بات جب تک میں کھولوں نہ ان کو سمجھ نہیں آئے گی۔ قیاماً کا میں نے ترجمہ وہی کیا تھا جو اس سے پہلے (پہلے ہی دفعہ) جو اس سے پہلے تمام مفسرین، تمام مترجمین بالاتفاق کرکے چلے آئے ہیں کہ وہ مال جو تمہارا ہے وہ قیام ہے۔ وہ مال تمہارے بقائ، تمہارے بود وباش کا ذریعہ ہے وہ ’’قیام‘‘ ہے۔ تو قیاماً کی ضمیر مال کی طرف پھِر گئی اور وہ مال کس کا ہے؟ یتیموں کا، غریبوں کا اور علماء جب اس بحث میں پڑتے ہیں تو قیاماً کی ضمیر ہمیشہ مال کی طرف پھیر کر وہ بہانے تو نہیں مگر وجہ جواز تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔ صاف پتا چلتا ہے کہ کوئی بات ہاتھ نہیں آرہی۔وہ کہتے ہیں تمہارا مال کہہ دیا اور مال یتیموں کا ہے اور قیاماً تمہارے لیے قیام ہے گویا کہ تو یہ کیا بحث ہے؟ کیا گفتگو؟ اس پر میں نے یہ روشنی ڈالی تھی کہ اگر یہ مفہوم لیا جائے جیسا کہ سب نے لیا ہے تو قومی اموال جو ہیں وہ دراصل قوم کے اقتصادی بقاء اور احیاء کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور ایسی صورت میں جب کہ کثرت سے احتمال پیدا ہوجائے کہ بعض لوگ جو اُن اموال کو سنبھالنے اور تجارتی جو تقاضے ہیں وہ پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو قوم کے اقتصادی نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ خصوصاً اگر نسبت بڑھ جائے تو مدینہ میں مسلمانوں کی بھلاکتنی تعداد تھی۔ وہاں جو ایسے واقعات پیش آئے ہیں وہ اتنے کثرت سے تھے تعداد کے مقابل پر کہ واقعتاً اقتصادی نظام پر اثر انداز ہوسکتے تھے۔ اگر واضح تعلیم نہ دی جاتی تو اس لیے وہ معنی درست ہیں ، وہ غلط نہیں ہیں کہ مال قیام کا ذریعہ ہیں قوم کے قیام کا ذریعہ مگر انفرادی ملکیت قوم کی نہیں ہے۔ انفرادی ملکیت یتامیٰ کی ہے۔
دوسرے جو میں نے معنی کیے ہیں اس میں یہ مسئلہ نہیںاُٹھتا بلکہ اس آیت کی تفسیر ہوجاتی ہے خود۔ اسی آیت کی رُو سے وہ ترجمہ یہ بنتا ہے۔ پہلے فرمایا ہے ولا تؤتو السفھاء اموالکم غریبوں کو ، یتامی کو، یتامی نہیں بیوقوفوں کو اپنے اموال نہ دو التی جعل اللہ لکم قیاماً جن کو خدا نے تمہارے لیے قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور پھر ان کو صرف پہنائو اور کھلائو۔ اس کا وہ معنی بھی میں نے لیا کہ یہاں مالک یتیم، مالک غریب نہ ہوں بلکہ ایسے غریب ہوسکتے ہیں جن کے واقعتاً مال نہ ہوں ۔ ایسی صورت میں باوجود اس کے کہ مال ان کے نہیںہیں تمہارے ہیں۔ ان کی نگہداشت کرنا اور ان کے بنیادی حقوق ادا کرنا یہ تمہارا فریضہ ہوگا۔
یہ بھی ایک ترجمہ میں نے کیا جو اُس سے پہلے ترجمہ کے عین مطابق ہے کہ ’’قیام‘‘ تو تمہارے لیے تھا مگر اس کا فائدہ دوسروں کو پہنچانا فرض ہے اب جو میں ترجمہ کررہا ہوں یہ وہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ میں نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ وہ اموال جن کے تم ’’قیام‘‘ بنائے گئے ہو جو تمہارے سپرد بطور قیام کے ہوئے ہیں یہ ترجمہ چونکہ بظاہر گرائمر سے ہٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس لیے اکثر مفسرین نے اس طرف نظر ہی نہیں اُٹھائی۔ حالانکہ فی الواقعہ گرائمر سے ہٹا ہوا نہیں ہے۔ کسی عذر کے تلاش کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ بعینہٖ عربی گرائمر کے قواعد کے مطابق یہ ترجمہ ممکن ہے اور بہت ہی اعلیٰ درجے کا ترجمہ ہے وہ یہ بنے گا ۔ اس طرح سفھاء کو اپنے وہ مال نہ دو التی جعل اللہ لکم جن کو خداتعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے قیام کی حیثیت سے سپرد کیا۔ قیاماً تمہاری قیام کی حیثیت سے یہ مال تمہارے سپرد ہوئے ہیں اس لیے ہم تمہارے مال کہہ رہے ہیں کیونکہ تم ’’قیام‘‘ ہو تو قیاماً جو ہے یہ منصوب ان معنوں میں ہے کہ تمہاری قیام کی حیثیت سے بوجہ اس کے کہ تم ان کے قیام ہو یہ تمہارے سپرد مال ہیں اور انہیں تمہارامال کہا جارہا ہے۔ مگر فی الحقیقت یہ تمہارا مال نہیں بنے گا۔ تو یہ ترجمہ عین عربی گرائمر کے مطابق اور اس آیت کے سیاق و سباق کے مطابق بالکل برحق بیٹھتا ہے۔ اس لیے اچھا کیا آپ نے وضاحت طلب کرلی۔ عجیب بات ہے کہ دوسرے علماء کو خیال نہیں آیا کہ یہ سوال اٹھائیں،یا آیا ہوگا تو کچھ گھبراگئے ہیں پچھلے سوالوں سے مگر اٹھانا ضروری تھا۔ اچھا کیا جزاک اللہ۔
بات واضح ہوگئی آپ پرامام صاحب۔ کھل گئی ہے نا بات کہ قیاماً سے مراد یہاں مال نہیںہوں گے بلکہ وہ لوگ ہوں گے۔ قیاماً کن معنوں میں ؟ ان معنوں میں کہ ان مال کی حفاظت کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں تمہارے لیے۔ یہ ذمہ داری سپرد ہوئی یا تمہارے سپرد یہ اموال کے گئے ہیں لکم ای قیاماً اس صورت میں کہ تم قیام ہو(آگے چلیں)۔
سوال نمبر2:- سورۃ النساء کے زمانہ نزول کی بحث کرتے ہوئے حضور نے کسی مستشرق کی طرف سے اس بات کا بھی ذکر فرمایاتھا کہ وہ اس کو مدنی سورہ قرار دیتے ہیں اور اس کی بعض آیا ت کو ان کے زمانوں کی تعیین بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ آیت یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:- پہلے میں وضاحت کردوں کہ موقع کیا ہے۔ جب اس سے پہلے آیت کی تفسیر ہورہی تھی تو اس وقت میں نے بتایا تھا کہ ویری نے یہ سوال اٹھایا ہے اور اس کے علاوہ نولڈک یا نولڈیکے یا جو بھی اس کا تلفظ ہے جرمن جو مستشرق ہے اس نے بھی اُٹھایا ہے کہ سورۃ النساء اگرچہ مدنی ہے لیکن اس کی بعض آیات مکی ہیں یا سورۃ النساء اگرچہ جنگ احد اور جنگ بدر اور جنگ بدر ثانی یا جنگ احد کے بعد کا جو غزوہ تھا اس عرصے میں اور پھر بنو قینقاع کے ساتھ جب جھڑپیں ہوئی ہیں اس دورمیں یہ نازل ہوئی ہے مگر یہ دو مستشرقین کہتے ہیںکہ اس کی بعض آیات اس دور سے تعلق نہیں رکھتیں کچھ ابتدائی مدینے کے دور کی ہیں کچھ بعد کے دور کی ہیں جن کو نولڈیکے مکی کہہ رہا ہے اس تعلق میں مَیں نے یہ حوالہ مانگا تھا نولڈیکے جو مکی کہتا ہے۔ اس سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ مدنی دَور سے پہلے کی ہیں۔ وہ صرف اتنا کہنا چاہتا ہے کہ مکے میں جب آنحضرتﷺ کی واپسی ہوئی تو مکے قیام کے دوران یہ آیات نازل ہوئیں اس لیے مکی ہیں۔ مگر دوسرے جو اہل علم ہیں وہ بات کھول چکے ہیں کہ مدنی اور مکی کی اصطلاح کا اب یہ معنی نہیں لیا جاتا ہے۔ مدینے میں نازل ہوئی یا مکے میںنازل یہ معنی لیا جاتا ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی یا ہجرت کے بعد نازل ہوئی۔ پس وہ مکی جو کہتا ہے تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ ہجرت سے پہلے ہوئی ۔ اس طرح اس نے ویری نے جو سوال اٹھایا ہے وہ بھی کسی آیت کو مکی نہیں کہہ رہا ، ہجرت سے پہلے کی نہیں کہہ رہا۔ کہتا ہے ابتدائے ہجرت میں ہوئی ہوگی اور وجہ یہ استنباط بنا رہا ہے عجیب و غریب کہ بات یہ ہے کہ یہ جو خطاب ہے یاایھا الناس والا اگرچہ جو حوالہ دینا ہے اس کتاب میں اس میں ذکر ہی کوئی نہیں اس کا۔ تو پتہ نہیں حوالے میں کوئی غلطی ہوئی ہے یا کیا ہے! مگر جو مراد ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ وہ یہ اٹھاتا ہے کہ مکے کے ابتدائی دور میں یہود کے ساتھ آنحضرتﷺ گویا نعوذ باللہ چاپلوسی کا تعلق رکھتے تھے اور انہیں راضی کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے جب مخالفت ہوئی تو پھر نرمی اُٹھ گئی تو ان آیات میں جو بہت ہی اعلیٰ درجے کی انصاف کی تعلیم دی گئی ہے یہود کے متعلق اور ان کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ ضرور پہلے کی ہوں گی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تعصب کی آنکھ سے دیکھا جائے اور تاریخ کے حقائق کو نظر انداز کردیا جائے یا اسلام کی عظیم روح کونہ سمجھا جائے تو پھر یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ یہ آیات پہلے کی ہیں لیکن وہ آیات وہاں سے اٹھا کر کسی اور جگہ پہلے دَور میں فٹ ہو ہی نہیں سکتیں کیونکہ قرآن کریم کی یہ صورت مربوط سورۃ ہے اور ہر آیت کا پچھلی سے بھی تعلق ہے او ربعد میں بھی آنے والی سے بھی تعلق ہے۔ اس لیے محض ایک یا وہ گوئی کے طور پر کوئی شخص کہہ دے کہ اس وجہ سے کہ یہود کی تعریف ضرور پہلے ہوگی۔ یہ بالکل جھوٹ ہے عین موقع پر معہ اطلاق پانے آیتیں ہیں۔ دوسرا ایک خفیف اشارہ اس بات کا اس میں ملتا ہے کہ یاایھاالناس قسم کا خطاب اہل کتاب سے تعلق سے پہلے موجود تھا۔ اہل کتاب سے تعلق کے بعد پھر یہ خطاب متروک ہوگیا اور یا اہل کتاب یا ، یاایھا المومنون وغیرہ قسم کے یا ، یاایھا الذین امنوا اتقواللہ وہ لوگ جو ایمان لائے تقویٰ اختیار کریں۔ یہ خطاب شروع ہوگئے ہیں یا مومنون کو یا اہل کتاب کو اور گویا کہ مکی زمانے کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ وہاں محدود دائرے میں خطا ب تھا کیونکہ نہ زیادہ متقی تھے ، نہ اہل کتاب تھے۔ الناس کہہ کہہ کے (بات) گزارہ چلایا گیا ۔ اس آیت، ا س دعوے کو توڑ اور ردّ کے طور پر میں نے سوال اٹھایاتھا کہ معلوم کریں یہ آیت کس دور کی ہے۔ یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۔ یہ ایھا الناس والی آیت وَیری کو بھی تسلیم ہے اور تمام دوسرے مستشرقین کو تسلیم ہے۔ یہ پہلے کی مکی دور کی آیت ہے اور وہاں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے۔ کسی مخاطب کو محدود نہیں کیا اہل مکہ یا مشرکوں کے ساتھ۔ قل یاایھا الناس کہہ دے اے بنی نوع انسان دنیا کے پردے میں جہاں بھی رہتے ہو مکہ ہو یامدینہ ہو، عرب ہو یا عجم ہو انی رسول اللہ الیکم جمیعا میں تم سب کی طرف جمیعاً تما م تر کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
اس آیت کے ہوتے ہوئے اس کا مکے میں نازل ہونا یا ایھاالناس کی وجہ سے اسے اور بھی زیادہ روشن کردیتا ہے اور بھی زیادہ اس کے مضمون کو خوبصورتی سے دکھاتا ہے کہ آنحضورﷺ کے پیش نظر خدا کے ارشاد کے مطابق کچھ بھی اہل مکہ نہیں تھے۔ بلکہ بنی نوع انسان تھے اور یہی عمومی تعلیم تھی جب خاص مخاطب ہوئے ہیں بعد میں تو ان کو پیش نظر رکھ کر بھی پھر تعلیمات دی گئی ہیں اور جب شریعت کی تفاصیل بیان ہوئی ہیں تو پھر اہل تقویٰ اورمومنین کو خصوصیت سے مخاطب کیا گیا ہے ۔ وہ جو دَور ہے وہ اعلیٰ اصولوں کی تعلیم کا دَور تھا اور ایسا دور تھا جس میں پیشگوئیاں تھیں۔ آئندہ زمانوں کی اور بنی نوع انسان کو مطمئن کرنے کیلئے ایسی قطعی پیشگوئیاں آئندہ زمانوں کی تھیں جس سے پتا چلتا تھا کہ یہ جو بولنے والا ہے یہ اپنے منہ سے کلام نہیں کررہا ، یہ عالم الغیب خدا کا نمائندہ بن کر کلام کررہا ہے۔ یہ تھی وجہ اب اس کی جو تاریخ نکلی ہے وہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت earlyبہت پہلے کی ہے۔ یہ آپ بخاری والا حوالہ پڑھ کر سنائیں؟یہ حوالہ صحیح بخاری کتاب التفسیر سے ہے کہ ایک موقع پر حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کسی بات پر تکرار ہوئی اور یہ معاملہ آنحضرتﷺ کے حضور پیش ہوا تو حضور ﷺنے فرمایا۔ (بخاری کتاب التفسیر ۔ باب یاایھاالناس انی ۔۔۔ سورۃ اعراف)
ھل انتم تارکونی صاحبی …… انی قلت ، یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا و قلتم کذبت و قال ابوبکر صدقت بہت عجیب ہے یہ حوالہ ۔ اس دور میں نازل ہوئی ہے جب کہ ابھی اسلام کا آغاز تھا نہ ابھی عمر مسلمان ہوئے نہ اور بہت سے صحابہ مسلمان ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺ کے سامنے ایک جھگڑا آیا جس میںحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے درمیان اختلاف ہوا۔ ہوتے رہتے تھے اختلاف اور رسول اللہﷺ نے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مظلوم جانا اور تکلیف اٹھائی اس بات سے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کے اوپر کوئی سختی ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں یہ فرمایا ہے کہ تم میرے ساتھی کو چھوڑو گے بھی کہ نہیں۔ ترکتم لی میری خاطر اس کا پیچھا چھوڑو گے کہ نہیں وہ ساتھی ہے جس نے جب میں نے یہ اعلان کیا کہ یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً کہ تم لوگ تھے جنہوں نے کہا جھوٹ بولتے ہو۔ اس نے کہا سچ بولتے ہو۔
کیسا پیارا حوالہ ہے اور قرب کی وجہ بیان کی ہے وہ للہ ہے۔ واضح طور پر جو تصدیق میں آگے تھا ، جوبہادر تھا جس نے قطعاً پرواہ نہیں کی کہ اہل مکہ کیا سوچ رہے ہیں۔ اپنی سرداری، اپنی عزتوں کو اس خطرے میںجھونک دیا کہ وہ سب کچھ چھین لی جائیں گی۔ اس نے ایسے موقع پر تصدیق کی ہے اور آیت یہ پڑھی ہے یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا اس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی آغاز میں ہی نزول قرآن کے آغاز ہی میں تمام دنیا کے رسول ہونے کا دعویٰ ثابت ہوچکا تھا۔ اس لئے جھوٹ ہے کہ رفتہ رفتہ ترقی ہوئی ہے اور رفتہ رفتہ اہل کتاب کو بھی شامل کیا گیا یا رفتہ رفتہ دیگر مذاہب کو بھی مخاطب کیا گیا؟ یہ وجہ تھی جو میں نے پیش کی تھی۔ (اب آگے کوئی مقامی سوال ہے ۔ مقامی یا غیر مقامی، مرادہے کوئی اور سوال فرمائیے ۔ڈاکٹر صاحب اٹھے ہیں)۔
سوال نمبر3:- (آپ کا نام کیا ہے ؟ تعارف کروائیں ۔ تھرپاکر کے رہنے والے ہیں پرانے؟ جی حضور!۔ کنری سے تعلق ہے۔ اور یہاں لند ن میں ۔۔۔۔۔ گئے ہیں ۔ ماشاء اللہ! جی حضور۔ اور عارضی طور پر وقف کرکے تنزانیہ میں بھی جاچکے ہیں ۔ ہاں آپ بتائیے سوال) حضور گزشتہ دنوں ایڈز کا ذکر چلا تھا درس میں تو اس کے متعلق میرا یہ سوال ہے کہ حضور نے فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ ایک قسم کی طاعون پھیلے گی اور طاعون سے ایڈز کو جب کیا جائے تو ایڈز کا براہ راست تعلق انسان کی اخلاقی بدکرداری کے ساتھ ہے۔ اس طور سے طاعون کا تعلق اس طور سے نہیںتھا۔ انسان کی اخلاقی حالت کے ساتھ ۔ تو کیاہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ جس طرح اگر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان کے طور پر ایڈز ظاہر ہوئی ہے تو کیا حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جو وعدہ تھا انی احافظ کل من فی الدار کا۔ تو کیا اس زمانے میں بھی ایڈز کے متعلق بھی وہ وعدہ پورا ہوسکتا ہے۔
جواب:- یہ جو سوال ہے یہ آپ کے علاوہ کسی لکھنے والے نے باہر سے خط میں بھی لکھا ہوا ہے اور اچھا کیا آپ نے یاد دلادیا۔ اس کا جواب ضروری تھا۔ آپ کا سوال پہلے ایک اور نہج میں چل رہا تھا ، ایک اور رخ میں چل رہا تھا پھر اس نے رستہ بدل دیا ہے۔ دو سوال اٹھنے چاہئیں تھے۔ ایک سوال یہ ہے یہ طاعون جس کو اگر ہم ایک قسم کی طاعون کہتے ہیں اس کا تو بے حیائی سے تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی صداقت میں، اس کی تائید میں جو طاعون ظاہر ہوا تھااس کا بے حیائی سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس کا انکار سے تعلق تھا۔ یہ بات آپ شاید فراموش کرگئے کہ میں نے اس کو رسول اللہ کی اس حدیث سے بھی باندھا ہوا ہے جس حدیث میں یہ پیشگوئی تھی کہ آئندہ ایک قسم کا طاعون نازل ہوگا سزا کے طور پر جو بے حیائی کی سزا ہوگی۔ سمجھ گئے (جی)۔ اس لیے بے حیائی والا پہلو بھی اس میں موجود ہے۔ دیکھنا یہ تھا کہ یہ انکار والا پہلو بھی ہوگا کہ نہیں۔ انکار والے پہلو کی تائیدمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئی بیان کردی کہ آپ بھی ایک قسم کے طاعون کو پیش کررہے ہیں جو آئندہ سزا کے طور پر آئے گا اور انکا ر والا پہلو اس میںنمایاں ہے اس میں بے حیائی والا پہلو بیان نہیں فرمایا۔ تو ایسا طاعون جو بے حیائی سے وابستہ ہو بے حیائی کے طبعی نتیجے کے طور پر پیدا ہو۔ اس کو اگر خداتعالیٰ مسیح موعودعلیہ السلام کی تائید میں استعمال فرمائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حوادثِ زمانوں کو بھی تو استعمال فرماتا ہے تو یہ بھی ایک حادثہ سمجھیں جسے تائید میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے (ایک پہلو)۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب میں نے یہ کہا تھا تو یہ مراد نہیں تھی کہ کوئی شخص جو احمدی ہوجائے وہ حرکتیں کرتا پھرے جس کے نتیجے میں ایڈ contractہوتی ہے ۔ ایڈز کے ساتھ ایک سودا بازی ہوتی ہے ، تو احمدی ہوگیا اس لیے بچ جائے گا۔ من فی الدار میں یہ مضمون ہے کہ جو چاردیواری میں ہے وہ بچایا جائے گا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کی تشریح میں یہ واضح فرمادیا ہے کہ الدّار سے مراد صرف یہ مٹی کی چار دیواری نہیں بلکہ میری تعلیم کی چار دیواری ہے اور کشتی نوح میں اس مضمون کو کشتی کے حوالے سے بیان فرمایا ہے اوربارہا اس کا ذکر فرمایا ہے کہ کشتی میں ہوگا تو بچے گا۔ کشتی سے باہر کیسے بچ جائے گا؟ تو اہل بیت بھی تو الدّاروالے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تو نہیں بچ سکا تھا حالانکہ وہ اہل بیت کہلاتا تھا مگر الدّار میں شامل نہیںتھا۔ البیت میں داخل نہیں تھا اس لیے وہ بچ نہیں سکا۔ تو اس ضمن میں افریقہ سے بھی ایک خط آیا تھا ان کو میں نے جو جواب دیا تھا میں یہاں مختصر وہ بھی بیان کردیتا ہوں۔
میں نے کہا تھا کہ میرا ایمان ہے اگرچہ قطعیت سے یہاں ذکرنہیں ان باتوں کا کہ اگر ایک شخص سابقہ غلطیاںکرتا بھی رہا ہو اور پھر ایمان لائے تو ہرگز بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی دوسرے ایسے لوگوں کے مقابل پرزیادہ حفاظت فرمائے اور ایک امتیاز ظاہر کردے لیکن جو بیت میں داخل ہوجائے اور پھر دروازے توڑ کے گھر سے باہر نکل جائے اس کی حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اس کے اوپر تو اس گدھے والی مثال آتی ہے جو میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ بھیڑیا آیا باہر گدھا بندھا ہوا تھا۔ اس نے بھی ڈھینچوں کیا اور دیوار پر بیٹھے ہوئے مرغے نے بھی اذان بلند کردی تو جو مالک تھا وہ باہر نکلا لاٹھی لے کر تو اس کو دیکھ کر بھیڑیا بھاگ گیا تو گدھے نے یہ سمجھا کہ میں محفوظ ہوں، رسّی تڑائی اس کے پیچھے آخر جاکر کھیت میں اس کا شکار ہوگیا ۔ تو وہ جو رسّی تڑانے والے ہیں جو گھر کی حفاظت سے باہر نکل جاتے ہیں ان کیلئے کوئی وعدہ نہیں ہے۔ لیکن دوسروں کیلئے جو وعدہ ہے وہ میں جیسا کہ بیان کیا ہے ۔ بعض دفعہ ایک رحم کا اور فضل کا نشان دکھایا جاتا ہے او ریہ نشان ممکن ہے میں ہرگز اسے بعید از قیاس نہیں سمجھتا کہ احمدیت کے حق میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تائیدمیں دکھایا جائے کہ بہت سے لوگ جو پہلے غلطیاں کر بیٹھے تھے اُن کے اندر موجود بھی تھے کیڑے پھر بھی وہ بچ گئے اور یہ بات جو میں دوائی دیتا ہوں اُس نے بھی عجیب بات دکھائی ہے مجھے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی تو تقریباً سارے ہی بچ گئے ،شاذ ہی کوئی ہو جو نہ بچا ہو کیونکہ اُن کے استغفار کی طرف بھی ان کو توجہ دلائی جاتی ہے۔ ان کو خود بھی خیال ہوتا ہے ۔ ان کے چونکہ نام ظاہر کرنے مناسب نہیں مگر افریقہ کے رواج کی وجہ سے ایسے لوگ ہیں مگر باقی سب پر دوائی نے اُ س طرح کام نہیں کیا کیونکہ ان کو دار کا اضافی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ تو ان معنوں میں بھی ہوسکتا ہے یہ اثر انداز ہو مگر احمدی دنیا کے متعلق چونکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ کے فضل سے ان میں سے اکثریت تقویٰ کی زندگی بسرکرتے ہیں اور الدّار میں داخل ہیں اس پہلو سے ایسے سارے ملکوں میں جہاں واقعتاً جماعت الدّار میں داخل ہوگی وہاں یہ امتیازی نشان تو خود بخود نظر آنا شروع ہوجائے گا(سمجھ گئے ہیں) جزاک اللہ۔
سوال نمبر4:- 1964ء میں اگر کسی بہن کا مہر پانچ ہزار ہے تو اگر آج اس کی ادائیگی کرنی ہے 31سال کے بعد تو پھر کتنے پیسے ہوں گے؟
جواب:- پانچ ہزار۔ اگر قرض ہو تو اس پر کیا ہوتا ہے؟ (وہ بھی اتنا ہی رہتا ہے ) یہ قرض ہے آپ کے اوپر لیکن اگر بیوی نے مطالبہ کردیا ہو اور آپ نے نہ دیا ہو تو پھر مارے گئے۔ (جزاکم اللہ)
إإإ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ15؍رمضان بمطابق5؍ فروری 1996ء
سورہ النساء کی آٹھویں آیت ایک پہلو سے تو ہم مکمل کرچکے ہیں۔مگر ایک پہلو ابھی باقی تھا وہ بائبل میں (یعنی اولڈ Old Testamentاور New Testament دونوں جگہوںمیں) ورثہ کا کیا تصور پایا جاتا ہے؟ اور اس ضمن میںاورکچھ بحثیں ہیں۔ یہودیت کا قانون کیا تھا؟ کیسے پھیلا؟بہتر ہے موازنہ کے طور پر اس کا بھی ذکر چل پڑے (حضور ایدہ اللہ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر۸ دوبارہ تلاوت فرمائی اور ساتھ ترجمہ بھی بیان فرمایا)۔ بائبل میں بھی جوورثہ کی تعلیم ملتی ہے کچھ اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔اور اُس ورثہ کی تعلیم میں خصوصیت سے روحانی ورثہ کا بھی ذکر آتا ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں ورثہ کی تقسیم میں مادی ورثہ کی تقسیم فرمائی ہے۔ روحانی ورثہ بعض اعلیٰ اقدار سے وابستہ فرمایا ہے۔ اور بائبل میں روحانی ورثہ بھی یوں بیان ہوا ہے جیسے وہ باپ سے بیٹے میں جائے گا۔ مگر وہاں بھی انصاف نہیں ہے بلکہ دھوکے سے بھی ورثہ پایاجاسکتا ہے اور روحانی ورثہ کیلئے ذاتی خوبیاں ہونی ضروری نہیں بلکہ کچھ اور شرائط ہیں مثلا پلوٹھا ہو ، پلوٹھا بھی ضروری نہیں کہ پائے، اگر باپ اس کی بجائے کسی اور کو دے دے تو وہ بھی جائز ہے ۔ وہاں ایک ایسا نظام ہے جس کا روحانی دنیا سے اصل میں تعلق کوئی نہیں۔ اس لیے اسے حقیقت میںبائبل کی تعلیم کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بعد کی انسانی تعلیمات کا روحانی اور دینی تعلیمات میں داخل ہونا ، یہ ہے مضمون جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔ حقیقت میں یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی ورثہ کی اولاد میں اس طرح خود بخود منتقلی کو تسلیم کیا جائے اور پھر جس طریق پر بائبل میں ذکر ملتاہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے تقدس کو جھٹلاتا ہے۔ وہ ناممکن ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف ان باتوں کو منسوب کیا جائے۔ پس جہاں بھی اس کا (Criticism)اس کی تنقیدہے وہ حقیقت میں بائبل کی نہیں بلکہ بائبل نگاروں کی تنقید ہے۔کیونکہ وہ ناممکن ہے کہ خدا کا کلام ہو۔ اس تمہید کے بعد اَب میںاُن کے ورثہ کی تعلیم آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
یہودکا قانونِ وراثت Law of Inheritanceکچھ تو بائبل پر مبنی ہے، کچھ یہود کے جو علماء ہیں بڑے بڑے انہوں نے مل کے مختلف وقتوں میں اس قانون میں ترمیم کی ہے اور بعض رواجات کو اس میں داخل کیا ہے۔ بعض مختلف ممالک میں رائج الوقت قوانین کو پیش نظر رکھ کر کچھ ترمیمات کرتے رہے ہیں اس وقت جو یہودی شریعت ہے وہ ان علماء کی تخلیق ہے ۔ اس میں بائبل بھی شامل ہے مگر اس کے علاوہ علماء کی کونسل نے جو فیصلے کیے یہودی علماء زور پکڑ گئے تو طالمود کتاب جو بنی ہے وہ اسی سے بنی ہے ۔وہ اکثر علماء کے فیصلہ تک محدود رہتی ہے اور اس سے کوئی غرض نہیں کہ آیا وہ فیصلہ بعینہٖ بائبل پرمبنی تھا یا نہیں تھا؟ تو اب جو رائج قانون ہے وہ طالمود بن گیا ہے۔ مگر اُس میں بائبل کے بھی حوالے ہیں اس لیے سب باتیں دوہرے طور پر ملی ہیں۔ اوّل بائبل میں دخل اندازی ہوئی اور خدا کی باتوں کے ساتھ انسانی باتیں داخل کردی گئیں ۔ پھر جو کچھ بائبل نے دیا اسے انسان نے ترمیم شدہ صورت میں یعنی ان کے علماء نے پھر یہود قوم کو دیا تو ایک نہیں بلکہ دوہری غلطی ہے۔ مگر بعض دفعہ بعض غلطیاں پہلی غلطیوں کی اصلاح بھی کردیتی ہیں۔ پس بعض یہود علماء کے فیصلے فطرت کے قریب تر ہیں اُن فیصلوں کے مقابلہ پہ جو بائبل میں ملتے ہیں۔ تو ان کا انحراف بتارہا ہے کہ خود ان کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ خدا ہی کی تعلیم ہے۔ اس لیے وہ غلطی دَر غلطی بعض دفعہ ایک دوسرے پر جس طرح منفی منفی کو cancleکرکے مثبت بنادیا کرتی ہے ایسے ہی نتائج پیدا کردیتی ہے۔اب میں پہلے یہود کا قانونِ وراثت آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور اس کے بعد پھر باقی بائبل کے حوالے سے اور باتیں پیش کروں گا۔ ابتدائی عبرانیوں اور اُن کے ہم عصر قدیم اقوام میں رواج کے طور پر مرنے والوں کا پلوٹھا اس کی جائیداد کا وارث اور خاندان کا سربراہ قرار پاتا تھا۔ اگر مرنے والے کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہوتی تھی تو مرنے والا اپنے کسی قابل اعتبار دوست کو اپنا وارث قرارد یتا تھا اور اس لحاظ سے وارث کا رشتہ دار ہونا بھی ضروری نہیں تھا۔ پس یہ جو حصہ ہے اس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ یہودی نظام اور کتاب کے جو احکامات ہیں ان کی سمجھ نہیں آئے گی۔ مالک کون ہے؟ وہ جس کی جائیداد ہے ۔ یہ اصول پہلے تسلیم ہوگیااور ساتھ ہی یہ تسلیم ہوگیا کہ وہ ضروری نہیں کہ کسی دوسرے قانون کے تابع اپنی جائیداد کو خود بخود تقسیم ہونے دے۔مرنے والا مرنے سے پہلے جو فیصلہ کرجائے گا وہ نافذ العمل ہوگا اور وہ اپنی اولاد کے حق میں ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ یہ ہے بنیادی بات جو آپ کومیں سمجھارہا ہوں۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ پیش کرتے ہیں ۔ یہودی شریعت کو منضبط کرنیوالے پیدائش باب 15آیت3کا حوالہ دیتے ہیں -ابراہام جب اولاد سے مایوس ہوئے تو قریب تھا کہ وہ اپنے غلام الیعزر کو اپنا وارث قراردے دیں۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اتنے بوڑھے ہو چکے تھے کہ وہ اپنی دانست میں اولاد سے محروم ہو چکے تھے اور کسی بیٹے کی کوئی امید نہ رہی تھی ایسے وقت میں ان کا ایک غلام الیعزر تھا۔انہوں نے احتیاطا ًاس کو وارث بنانے کی بات سوچی اور اس پر اللہ تعالیٰ نے جوبائبل کے بیان کے مطابق ان کو ہدایت فرمائی ہے وہ میں بتاتا ہوں۔ پیدائش باب 15آیات 2تا4۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بائبل میں ابراہام کہا جاتا ہے۔ ’’ابراہام نے کہا اے خدا وند خدا تومجھے کیا دے گا؟ کیونکہ میں تو بے اولاد جاتاہوں اورمیرے گھر کامختار دمشقی الیعزر ہے(یہ کے ساتھ زیر لگی ہوئی ، اس لئے الیعزر ہوگا غالباً)۔ پھر ابراہام نے کہا دیکھ تو نے مجھے کوئی اولاد نہیں دی اور دیکھ میرا خانہ زاد میرا وارث ہوگا تب خداوند کا کلام اس پر نازل ہوا اور اس نے فرمایا یہ تیرا وارث نہ ہوگا۔ بلکہ وہ جو تیرے صلب سے پیدا ہوگا وہی تیرا وارث ہوگا‘‘۔ تو پہلی خوشخبری اولاد کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس دعا کے نتیجہ میںملی جو حضرت ذکریاعلیہ السلام کی دعا سے کچھ مشابہہ دکھائی دیتی ہے۔ یایوں کہنا چاہیے کہ حضرت زکریاعلیہ السلام کی دعا اس دعا کے مشابہہ ہے کہ میں بوڑھا ہوگیا ، بال سفید ہوگئے، ہڈیاںگل گئیں اور میںبظاہر بے اولادجاتاہوں مگر تیرے فضل سے مایوس نہیںہوں۔ تجھے پکار کر مایوس ہونے کی بدبختی مجھے نہیں ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ بہت زیادہ طاقتور دعا ہے۔ مگرجس رنگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا پیش کی گئی ہے۔ اصل میں پورا مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو اور طرح پیش فرمایا ہے جب ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری ملی ہے تو انہوں نے پورے ایمان کا اظہار کیا ہے۔ ان کی بیگم حضرت سارہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کچھ پریشان ہوئیں اور اپنے بڑھاپے کا ذکر کرکے اپنے بانجھ ہونے کا ذکر کرکے تعجب کا اظہار کیا۔ وہ آیات اس وقت سامنے نہیں ہیں اس لیے موازنہ ان کا نہیں کرسکتا۔ اگرآپ نکالیں تو پھر میں موازنہ کردوں گا۔ سردست اس آیت کی طرف واپس آتا ہوں جو بائبل سے لی گئی ہیںیا دوآیات ، تین آیات۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ ہے جو تیرے صلب سے ہوگا وہی تیرا وارث ہوگا۔ اب یہاںحضرت سارہ یا حضرت ہاجرہ کی کوئی تفریق یہاں نہیںملتی ۔ اگر حضرت اسمٰعیل اس وقت تک پیدا ہوچکے ہوتے تو بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا مانگ ، یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ میں اپنے غلام کو بنارہاہوں۔ پس غلام کو بنانا بتارہا ہے کہ آپ کا کسی طرف سے بھی کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اُس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرا وارث وہی ہوگا جو تیرے صلب سے پیدا ہوگا۔ اور صلب سے کون پیدا ہوا ہے۔ سب سے پہلے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام ۔ لیکن بائبل پھر ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ ابراہام نے اپنا سب کچھ اسحق کو دیا اور اپنی حرموں کے بیٹوں کو ابراہام نے بہت کچھ انعام دے کر اپنے جیتے جی ان کو اپنے بیٹے اسحق کے پاس سے مشرق کی طرف یعنی مشرق کے ملک میں بھیج دیا۔ یہ جو آیت ہے یہ مزید الجھائو پیدا کردیتی ہے صورتِ حال کو سمجھنے میں ۔ کیونکہ مشکل اس میںیہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تو اس میں ذکر ہی کوئی نہیں(ربقہ تھیں تیسری بیوی؟ قطورہ تھیں ہاں۔ ربقہ تو ان کی تھیں حضرت اسحق علیہ السلام کی)۔ یہ قطورہ تھیں ایک اور بیوی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ۔ ان کے متعلق بائبل میں ہے کہ وہ بیوی کے طور پر آئیں ہیں ، لونڈی کے طورپر نہیں آئیں۔ اس لیے یہ سارے جھگڑے جو انہوں نے اٹھائے ہیں لونڈی کا بچہ وارث ہوسکتا ہے کہ نہیں اوربیوی کے مقابل پر لونڈی کی کیا حیثیت ہوگی؟ یہ سارے صرف اسلام کی دشمنی میں یا اس سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دشمنی میں حضرت اسحق علیہ السلام کو ترجیح دینے کی خاطر یہ قصے بنائے گئے ہیں ورنہ بائبل میں خود ایسی آیات موجود ہیں جو قطعیت سے اس فرق کی اجازت نہیں دیتیں۔ اور یہ مسئلہ کہ لونڈی کے پیٹ سے ہوگا تو وارث نہیںہوسکتا یہ سب ان کی بناوٹ ہے۔ کیونکہ بائبل میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں سوائے اس کے کہ حضرت سارہ نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے یہ بات رکھی کہ یہ وارث نہیں ہوگا۔ بلکہ میرا بیٹا وارث ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلداری فرمائی ہے۔ فرمایا کہ اس کی باتوں کو برا نہ منانا۔ یہ نہیں کہا کہ یہ میرا حکم ہے اس لیے تو اس بات کو تسلیم کر۔ یہ فرمایا ہے کہ اس کی باتوں کودل کو نہ لگا۔ یہ عورتیں کیا کرتی ہیں ایسی باتیں۔ تو اس کو شریعت قرار دے دینا اس کا قطعاً کوئی دُورکا بھی جواز نہیں۔ یہ جب ایک اور موقع آئے گاآگے تو میں اِس کو ایک دوسرے حوالے سے بھی ثابت کروں گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو ابراہیم علیہ السلام کے صلب سے پیداہوا ۔ اسماعیل بھی وہی بیٹا تھا اور اسماعیل پہلاتھا اور اسحق بعد میں آئے۔ ابراہیم نے سب کچھ اسحق کو دیا۔ یہ واقعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اور حضرت اسحق علیہ السلام کی پیدائش کے بہت بعدکا واقعہ ہے اور اس وقت وہ جو دوسر ی بیگم تھیں ان کے بہت سے بچے تھے جن کی پوری لسٹ بائبل میں موجود ہے۔ ان بچوں کو اور ان کی والدہ کو بہت کچھ دے کر رخصت کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اس میں قطعاً شامل نہیں ہوتے کیونکہ حضرت اسماعیل کوتو ایک بے آب و گیاہ وادی میں ایک مشکیزہ اور چند کھجور دے کر چھوڑ کے واپس آگئے تھے۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام تو اس وقت چھوٹے تھے بالکل۔ تویہ کہنا کہ اسماعیل علیہ السلام بھی گویا اس آیت کے تابع ہیں بالکل غلط ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کے سپرد کرکے آئے ہیں اور اپنی دنیا وی جائیداد کا ورثہ نہیں دیا۔ بیوی کی بات مانی ہے خدا کا حکم نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اس کو لے جا اور اس کو الگ کردے۔ یعنی خدا خود اس کا نگران بنا ، خدا خود اس کا کفیل ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اجازت دی کہ سارہ کی مرضی کرلے مگروہ شریعت نہیں بنتی۔ ایک عورت کی مرضی کو خدا کی اجازت سے وقتی طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ لونڈی کی بحث بھی قابل توجہ ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت سارہ نے جو حضرت ہاجرہ کو پایا ہے وہ دراصل ایک شہزادی تھیں جو ان کے ساتھ رخصت کی گئی ہیں اور وہ کوئی خریدی ہوئی لونڈی نہیں تھیں۔ اور حضرت سارہ نے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کویہ کھل کے دلی خوشی سے اجازت دی کہ ان سے بیاہ کرلو تاکہ اولاد ہو ۔ اس لیے جب وہ بیاہ ہوگیا تو لونڈی والا مسئلہ تو پہلے بھی غلط ہے۔ اس طرح کی لونڈی تھیں ہی نہیں مگر وہ ساتھ خدمت کرتی تھیں۔ اس لیے ان کیلئے لونڈی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر وہ زرخرید لونڈی نہیں تھیں تحفہ میں ملی تھیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب وہ بیٹاپیدا ہوگیا تو پھر jealousyشروع ہوئی ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پیداہوئے اوربڑے ہوئے آنکھوں کے سامنے۔ پھر عورت کی رقابت جو ہے وہ بھڑک اُٹھی ہے اور اس کے بعد پھر خداتعالیٰ نے وہ خوشخبری دی ہے۔ حضرت اسحق علیہ السلام والی اور حضرت اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں ۔ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کافی بڑے اور کھیلتے کودتے تھے۔ چنانچہ بائبل میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت سارہ نے جوان کو نکالنے کا کہا ہے وہ وارث غیر وارث کے جھگڑے کی وجہ سے نہیں کہا۔ عذر یہ رکھا کہ حضرت ابراہیم نے جب حضرت اسحق کی پیدائش کی خوشی میں ایک بڑی دعوت دی تو اس وقت حضرت سارہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ہنسنا کھیلنا بہت برا لگااور انہوں نے اس رنگ میں کہا کہ یہ ٹھٹھے کرتا ہے۔ یعنی گویا مجھ پر اور میرے بچے پر مذاق اڑارہا ہے۔ اتنے بڑے ہوچکے تھے کہ ان کے ٹھٹھے کرنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔ اس وقت انہوں نے بے قرار ہوکے کہا کہ اب میں برداشت نہیں کرسکتی اس کو۔ اپنا بیٹا مل گیا ہے تب جاکر اس رقابت نے پورا سر اٹھایا اور کہا کہ ان کو نکال دے ۔ جہاں تک وراثت سے محرومی کا تعلق ہے، جہاں تک شریعت کا تعلق ہے جس کے تابع حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ ایک اگلا حوالہ میں آپ کے سامنے رکھتاہوں۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب جھوٹ قصہ بنارکھا ہے۔ حقیقت میں بائبل کی رو سے ایسا نہ منظور تھا نہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ تعلیم دی ہے۔ حضرت ہاجرہ پر جو فرشتے اترے ہیں و ہ کہاں ہیں (وہ اس وقت مطلب ہے وہ فرشتے نہیں میں پوچھ رہاکیا ہیں؟ وہ حوالہ کیا ہے)استثناء باب16آیت 6تا 12۔ تب ساری (حضرت سارہ کو ساری کہا گیا ہے) اس پر سختی کرنے لگی اور وہ اس کے پاس سے بھاگ گئی۔ یہ واقعہ جو ہے یہ ایک دفعہ پہلے ہوچکا تھا اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخر پہ رخصت کیا ہے اس سے پہلے حضرت ہاجرہ کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے وارث ہونے کی خوشخبری دے دی تھی۔ پس حضرت سارہ کا کہنا کہ یہ نہیں ہے بلکہ میرا بیٹا ہوگا۔ یہ خداکے کلام کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ واقعات کو ان کی تاریخ کی ترتیب سے دیکھیں اب اس مضمون پر غور کریں ’’تب ساری اس پر سختی کرنے لگی اور وہ اس کے پاس سے بھاگ گئی اور وہ خداوند کے فرشتے کو بیاباں میں پانی کے ایک چشمے کے پاس ملی‘‘۔ یہ وہی چشمہ ہے جو شور کی راہ پر ہے۔اور اُس نے کہا اے ساری کی لونڈی ہاجرہ تو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے‘‘۔ (اب یہ لونڈی کے جہاں جہاںلفظ آئے ہیں یہ تحقیق طلب ہیں کہ اصل میں بائبل میں کیا تھا اور ایک ایسی بائبل کاہمیں علم ہوا ہے جو نسبتاً زیادہ قابل اعتماد ہے۔اس پر ہم تحقیق کررہے ہیںآج کل ۔ اس میں اکثر بیانات وہی ہیں جو قرآن کریم نے دیے ہیں اور بائبل کے مقابل پر اب تک جتنی ہم نے تحقیق کی ہے قرآن کی تائید کرتی ہے۔ اور وہ ایسی بائبل ہے جو مسّلم ہے۔ اس کے متعلق کوئی مستشرق یہ اعتراض نہیں کرسکتا یہ بعد کی بنائی ہوئی چیز ہے۔ اس کو عملاً نظر انداز کررہے ہیں۔ کیونکہ اس کواگر زیادہ اچھالیں اور لوگوں کے سامنے لائیں بار بار تو وہ قرآن کی بہت بڑی تائید کرتی ہے۔یہ ہمارے جو میر لطیف صاحب ہیںجرمنی میں، اُن کے سپرد میں نے ایک تحقیق کی تھی طورغم کے متعلق ۔ چنانچہ انہوں نے طورغم کی تحقیق کے دوران یہ چیزیں نکالیں۔ طور غم ایک لفظ مشہور ہے۔ یہ بائبل کا ایک نسخہ ہے طور غم کہلاتا ہے۔ جو آرمیک زبان میں ہے۔ اس کے متعلق کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔کوئی یہ نہیں سوچا گیا کہ کوئی غیر معمولی چیز ہے۔ انہوں نے کہا ہاں آرمیک نسخہ بھی ایک ہے۔ لطیف صاحب کو چونکہ شوق ہے تحقیق وغیرہ کا ، ان کے سپرد میں نے یہ کیا کہ طورغم کو نکالیں ،اچھی طرح دیکھیں، ان کے حقائق معلوم کریں۔ ان کا جوپہلا پیپر مجھے ملاہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی امید افزاء ہے۔ اور بہت سے شیریں پھل اس سے ملے ہیں۔ ایک تو لفظ طورغم ترجمہ ہے اصل میں اور یہ بادشاہ خورس جب آئے ہیں فلسطین کودوبارہ آباد کرنے کیلئے یروشلم کو تو اس وقت جوان کے رابطے ہوئے تھے یہودیوں سے ۔ اس زمانے میں فارسی زبان اور Hebrewزبان نے مل کر جو زبان پیدا کی اس کا نام آرمیک ہے۔ اس لیے بعض علماء کا یہ کہناکہ آرمیک زبان محض Hebrewکی بول چال کی قسم ہے، غلط ہے۔ اس میں جو بائبل اُس وقت منضبط کی گئی ہے وہ قدیم ترین سب سے قابل اعتبار نسخہ ہے اصل میں۔ چونکہ وہ Hebrewکے ساتھ ایک ملتی جلتی زبان جو فارسی اور Hebrewکے امتزاج سے وجود میں آئی ہے اس میں براہ راست اس وقت کی موجود بائبل کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور وہ نیوٹرل آدمیوں کا ترجمہ ہے۔ اور یہودعلماء ان مترجمین کے خلاف ایک ادنیٰ سابھی اعتراض نہیں کرسکتے ،نہ کرتے ہیں۔
یہ طورغم جس کو طورغم کہتے ہیں دراصل فارسی لفظ کاترجمہ ہے ۔ اس میں جوباتیں بیان ہوئی ہیںوہ جہاں تک ہم موازنہ کرسکے ہیں اب تک۔ جہاں بھی قرآن کریم سے اختلاف کیا ہے آج کل کی بائبل نے وہاں وہاں طورغم نے قرآن کی تائید کی ہے اور بائبل کو جھٹلایا ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ ایک معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ جس سے انشا ء اللہ آئندہ بھی بہت سے مسائل حل ہوں گے۔ وہاں جو لفظ ہے وہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ لونڈی کا لفظ ہے یا کچھ اور لفظ ہے۔ ہوسکتا ہے (فارسی) کنیز ہو جو ایک لڑکی کے متعلق بھی آجاتا ہے، لونڈی کے متعلق بھی آجاتا ہے۔ مگر یہ تحقیق طلب باتیں ہیںضمناًمیں نے بیان کی ہیں۔ اب میں اس کی طرف آتا ہوں ’’اے ساری کی لونڈی ہاجرہ تو کہاںسے آئی ہے اورکدھر جاتی ہے۔ اس نے کہا میں اپنی بی بی ساری کے پاس سے بھاگ آئی ہوں۔ خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا تو اپنی بی بی کے پاس لوٹ جا۔ اور اپنے کو اس کے قبضے میں کردے۔ اور خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھائوں گا۔ یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے ان کا شمار نہ ہوسکے گا اور خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اس کا نام اسماعیل رکھنا اس لیے کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا ۔ وہ گورخر کی طرح آزاد مرد ہوگا۔ اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے ۔ اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسا رہے گا‘‘۔ یہ ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی خوشخبری آپ کی پیدائش سے پہلے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہ ان دکھوں کی وجہ سے جو سارہ کی طرف سے پہنچتے رہے پہلے بھی دلبرداشتہ ہوکر بھاگی تھیں۔ اس وقت ان کو علم نہیں تھا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہیں۔ تب خدا کے فرشتے نے نازل ہوکر بتایا کہ تو حاملہ بھی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل تجھ سے جاری ہوگی۔ اور جو وعدے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیے گئے ہیں کہ تیری نسل پھیلے گی۔ انہیں الفاظ میں یہ وعدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق موجود ہے اس لیے وہ بعد کا حوالہ جس میں سارہ کہتیں ہیں کہ یہ لونڈی ہے اس کا بچہ ہے یہ وارث نہیں ہوسکتیں۔ یہ اس حوالے کے مقابل پرکوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ خدا کا کلام ہے۔ فرشتہ نے حضرت ہاجرہ کو خودخوشخبری دی ہے اور اس کے مقابل پرحضرت سارہ پر بائبل میں بھی کہیں فرشتہ اُترنے کا ذکر نہیں ہے کہ براہ راست فرشتہ حضرت سارہ پر اُترا ہو اور آ پ کی اولاد کو خوشخبری دی ہو۔ پس حضرت اسماعیل علیہ السلام کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشت سے ہونا اور خوشخبریوں کاوارث ہونا بائبل سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ اب جو اس کے مقابل پر وہ حوالہ دیتے ہیں وہ اتنا ہے صرف کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے دودھ چھڑایا ہے حضرت اسحق کا اس وقت دعوت دی ہے اور دو سال کا یا اس کے لگ بھگ بچہ ہوگا جب دودھ چھڑایاگیا ہے۔ ’’ اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اس کے ابراہام سے پیدا ہوا تھا‘‘۔ اب یہاں بھی ابراہام سے پید اہوا تھا اس کی نسل ہونے کی طرف اشارہ اس میں ملتا ہے۔ ’’ٹھٹھے مارتا ہے تب اُس نے ابراہام سے کہا کہ اس لونڈی کواور اس کے بیٹے کو نکال دے۔ کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحق کے ساتھ وارث نہ ہوگا‘‘۔ یہ جو وارث نہ ہوگا کا حکم ہے یہ خدا کا حکم نہیں ہے۔ بلکہ ایک سوکن کا حکم ایک سوکن کے بچے کے خلاف ہے۔ اور اس سے پہلے جس کو غیروارث کہہ رہی ہیں اِن کے وارث ہونے کی خداخوشخبری خود دے چکا ہے۔ پیدائش سے بھی پہلے دے چکا ہے۔ تو اسے حضرت سارہ کا قول کیسے منسوخ کرسکتا ہے۔ ’’ابراہام کو اس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بری معلوم ہوئی‘‘ ۔ اب بتائیں اللہ کا کلام ہوتا تو ابراہیم علیہ السلام کو ایسی بری معلوم ہوتی اور پھر خدا ان کی دلداری کرتا؟ ’’ خدا نے ابراہام سے کہا کہ تجھے اس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث برا نہ لگے جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تو اس کی بات مان کیونکہ اسحق سے تیری نسل کا نام چلے گا اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پید اکروں گا اس لیے کہ وہ تیری نسل سے ہے‘‘۔
اب بتائیں کہاں گیا ان کا تانا بانا جو انہوں نے فرضی بنا کے رکھا ہوا ہے۔ کچھ بھی باقی نہیں رہتا اس حوالے کے سامنے۔ یہ دو حوالے اکٹھے پڑھیں ، دو اقتباسات اکٹھے پڑھیںتو ان کی جو وراثت کا تصور باندھ رکھا ہے اس کی تار و پود بکھر جاتی ہے۔ لیکن جو نیو ٹسٹامنٹ ہے وہ اسی راگ کو الاپتی چلی جارہی ہے۔ گلیتیون جو Galationsکہلاتے ہیں انگریزی میںاس میں لکھا ہے باب 4آیت 28تا 31۔ ’’ پس اے بھائیو! ہم اسحق کی طرح وعدہ کے فرزند ہیں‘‘ کیونکہ ان کے نزدیک صرف اسحق سے وعدہ ہے۔ حالانکہ خود بائبل بتارہی ہے کہ اسحق سے بھی وعدہ ہے اسماعیل سے بھی وعدہ ہے۔ ابراہیم کی نسل سے دونوں کو قرار دیاجارہا ہے اور نام چلنا فرمایا ہے لیکن برکتوں سے محروم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نہیں کیاگیا۔ بلکہ برکات کی خوشخبریوں کا وارث قرار دیا جارہا ہے۔ نام چلنے سے مرادیہ ہے کہ اسحق کی نسل دیر تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ورثہ پائے گی لیکن دوسری جگہ بائبل میں ایسی آیات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کی سلامتی اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے وابستہ ہوگی جو آخرین میں یاد کیا جائے گااور درود شریف میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام دراصل اسی وعدہ کے مطابق ہے۔مگر یہ چونکہ مضمون اصل سے دورہٹ جائے گا اس لیے سردست اس کو میںچھوڑ کے واپس اس مضمون کی طرف آتاہوں۔ گلتیوں کہتی ہے ’’ہم اسحق کی طرح وعدہ کے فرزند ہیں۔ اور جیسے اس وقت جسمانی پیدائش والا روحانی پیدائش والے کو ستاتا تھا ویسے ہی اب بھی ہوتا ہے‘‘۔ اب یہ بھی بڑی Tell-Taleبات ہے۔ بات تو اب بظاہر اپنی مرضی کی کررہے ہیں لیکن منہ سے سچی بات نکل گئی ہے۔ جسمانی پیدائش والا روحانی پیدائش والے کو ستاتا ہے۔ وہ الٹ ہے بات۔ اسماعیل اسحق کو نہیں ستاتے تھے، اسحق کی وجہ سے اسماعیل ستائے گئے اور ان کی والدہ ستائی گئیں۔ مگر کتاب مقدس کیاکہتی ہے؟ یہ کہ لونڈی اور اس کے بیٹے کو نکال دے ۔ کیونکہ لونڈی کابیٹا آزاد کے بیٹے کے ساتھ ہرگز وارث نہ ہوگا۔ یہ کتا ب مقدس کوئی نہیں کہتی۔ حضرت سارہ کہہ رہی تھیں۔ کتاب مقدس نے اس کا ردّ فرمایا ہے بات خوب کھولی ہے کہ ابراہیم کی نسل سے ہے اسماعیل اور ضرور وارث ہوگا۔ اور قوموں کے بڑھنے کی جو برکت ہے وہ اس سے وابستہ فرمائی ہے۔ اور اسحق سے چونکہ فوری طور پر نام چلنا تھا اس لیے وہ خوشخبری اسحق کے حق میں بھی بیان کی۔ پس اے بھائیو! ہم لونڈی کے فرزند نہیں بلکہ آزاد کے ہیں۔ اور اس طرح حضرت اسماعیل کو بے حقیقت اور بے حیثیت کرکے الگ پھینکا گیا۔ اور مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کیلئے آزاد کیا ہے ۔آزاد رہنے کیلئے آزاد کیا ، کیا ہے؟ جو آزاد ہیں ہی ان کو کس طرح آزاد کیا ۔ یہ تو ویسی بات ہے کسی نے کہا تھا میرے گھوڑے پر کاٹھی ڈال دو ۔ تو کسی عرض کیانوکر نے کہ حضور کاٹھی ڈالی جاچکی ہے۔ وہ مصروف تھا اس نے کہا ایک اور کاٹھی ڈال دو۔ تو ایک آزادی کو دوبارہ کیسے آزاد کیا۔ یہ فرضی قصے صرف لفاظیاںہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اصل میں یہ اسماعیل کی نسل سے ایک تعصب چلا آرہا ہے۔ جو پرانا ہے سوکنا پے کا تعصب جسے اللہ نے قبول نہیں فرمایا۔اور ابراہیم علیہ السلام کی دلداری کی اور وعدہ کیا کہ اس بیٹے سے میں ضرور برکتوں والی نسل تجھے دوں گا۔ کیونکہ یہ تیری نسل سے ہے۔ یہ تو ایک پہلو ہے دوسرا یہ ہے کہ بائبل کی تعلیم میں جو اب ہمارے سامنے ہے وراثت کی یہ عجیب و غریب تعلیم ملتی ہے کہ ایسا بیٹا تو وارث ہوسکتا ہے جو ناجائز ہو جس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہ ہو ۔لیکن لونڈی کابیٹا وارث نہیں ہوسکتا۔ یہ جو تعلیم ہے یہ ظاہر ہے کہ اسی تعصب کا شاخسانہ ہے کیونکہ دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی کہ اسماعیل روحانی ورثہ جب پاجائیں گے تو ہماری نسل اپنے اختتام کو پہنچے گی اور وہ نسل ہمیشہ کیلئے جاری ہوجائے گی۔ جو ابراہیم کی دائمی آنے والی نسل ہے وہ اسماعیل سے جاری ہوگی۔ یہ اس کی پیش بندیاں کی جارہی ہیں ، اس کے رستے بند کرنے کی خاطر یہ ساری تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ ایک حوالہ یہ ہے ورثہ سے متعلق گنتی باب 36آیت 6تا9۔ گنتی اس کو numbersکہتے ہیںجو انگریزی بائبل میں numbers اس کو اردو میں گنتی کہتے ہیں۔ ’’صلاف حاد کی بیٹیوں کے حق میں خداوند کاحکم یہ ہے کہ وہ جن کو پسند کریں انہیں سے بیاہ کریں۔ لیکن اپنے باپ دادا کے قبیلہ ہی کے خاندانوں میں بیاہی جائیں‘‘۔ وہ جو کل میں نے بیان کیا تھا نا آج کل بد رسمیں پھیل گئی ہیں یہ اُس زمانے میں اُن میں بھی پھیلی ہوئی تھیں کیونکہ یہ جھگڑا تھا کہ ہماری جائیداد ورثہ کے نتیجے میں دوسروں میں نہ چلی جائے۔ حکم یہ ہے کہ جن کو پسند کریں ان سے بیاہی جائیں ۔ لیکن اپنے باپ دادا کے قبیلہ ہی کے خاندانوں میں ہی بیاہی جائیں۔ ’’یوںبنی اسرائیل کی میراث ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے میں نہیں جانے پائے گی۔ کیونکہ ہر اسرائیلی کواپنے باپ دادا کے قبیلے کی میراث کو اپنے قبضہ میں رکھناہوگا اور اگر بنی اسرائیل کے کسی قبیلے میں کوئی لڑکی ہو جو میراث کی مالک ہو تو اپنے باپ کے قبیلے کے کسی خاندان میں بیاہ کرے تاکہ ہر اسرائیلی اپنے باپ دادا کی میراث پر قائم رہے۔یوں کسی کی میراث ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں نہیں جانے پائے گی۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے قبیلوں کو لازم ہے کہ اپنی اپنی میراث اپنے قبضہ میں رکھیں‘‘۔ یہ گنتی کا حوالہ ہے لیکن جہاں تک پلوٹھے کا تعلق ہے یہ بات قطعیت سے ثابت ہے بائبل سے کہ خوا ہ کوئی کسی بیوی کو زیادہ پسند کرے کسی کو کم پسند کرے۔ اگر کسی بیوی سے نفرت بھی ہو اور وہ پہلے بچہ جن دے تو اصل وارث وہی ہوگا۔ اور کسی خاوند کی ذاتی محبت اس خدائی قانون کو تبدیل نہیں کرسکتی کہ جوپلوٹھا ہوگا وہ وارث ہوگا۔ بعد میں جو حوالے آئے ہیں پلوٹھے کو غیر وارث کرنے والے وہ عجیب و غریب حوالے ہیں میں اس وقت ان کو چھوڑتا ہوں۔ اس پر ذرا توجہ فرمائیے کہ اگر کسی مرد کی دو بیویاں ہو اور ایک محبوبہ اور دوسری غیر محبوبہ ہو اورمحبوبہ اور غیر محبوبہ دونوں سے لڑکے ہوں اور پلوٹھا بیٹا غیر محبوبہ سے ہو۔ اب یہ لفظ ہے جو اہل کتاب کو جکڑ لیتا ہے۔ پلوٹھا بیٹا کس کو کہتے ہیںیہ؟ حضر ت اسماعیل کو یا حضرت اسحق کو۔ کہتے ہیں اسحق پلوٹھا بیٹا ہے۔ کیا وہ غیر محبوبہ کابیٹا تھا؟ اور پہلے ہوا تھا؟ یا محبوبہ کا بیٹا تھا اور بعد میںہوا تھا۔ ان کے نزدیک حقیقت میں محبوبہ کا بیٹا بعد میں ہوا ہے اور غیر محبوبہ حضرت ہاجرہ کہلائیںگی حضرت سارہ نہیں کہلائیں گی۔ اس تعلق میںتو ’’جب وہ اپنے بیٹوں کو اپنے مال کا وارث کرے تو محبوبہ کے بیٹے کو غیر محبوبہ کے بیٹے پرجو فی الحقیقت پلوٹھا ہے فوقیت دے کر پلوٹھا نہ ٹھہرائے بلکہ وہ غیر محبوبہ کے بیٹے کو اپنے سب مال کادوناحصہ دے کر اسے پلوٹھا مانے کیونکہ وہ اس کی قوت کی ابتداء ہے اور پلوٹھے کا حق اسی کا ہے‘‘۔ یہ جو شریعت نازل ہوئی ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دراصل بعد میںنازل ہوئی ہے کیونکہ اس مضمون کو اگر سمجھیں تو شریعت کی رو سے جو بعد میں نازل ہوئی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے پلوٹھے کو اس کے وراثتی حق سے محروم کرے جو یہ ہے کہ تقسیم کے وقت اسے دوگنا دیا جائے گا اور غیر پلوٹھوں کو ایک حصہ یعنی جس طرح اسلام میںلڑکے اورلڑکی کا فرق ہے۔ اس طرح پلوٹھے اور غیر پلوٹھوں کا فرق بائبل میں ہے۔ یہ آیت حضرت ابراہیم پرویسے اطلاق نہیں پاتی۔ میں نے ضمناًبات کی تھی۔ یہ چونکہ مانتے ہیں کہ یہ شریعت پیچھے بھی کام کررہی ہے اس لیے میں نے الزامی جواب کے طور پربات کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بعد کے زمانہ کی تعلیم ہے۔ حضرت ابراہیم سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا نے جو وقتاً فوقتاً احکام دیے ہیں اگر بائبل نے ان کا صحیح اندراج کیا ہے تو اس کی روسے آپ نے اپنے پلوٹھے کو دنیاوی مال کچھ نہیں دیا۔ جو حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے وہ پلوٹھے تھے۔ خدا کہتا ہے تیری صلب سے ہے اس لیے تیرا بیٹا ہے۔ پہلے پیدا ہوئے اس کو بائبل تسلیم کرتی ہے مگر پلوٹھا نہیں مانتی۔یہ اس کی ضدہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ پس اگر یہ شریعت حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اطلاق پاتی تو لازم تھا کہ حضرت سارہ کی مرضی ہوتی یا نہ ہوتی۔ حضرت اسماعیل کو اپنی جائیداد میں سے دوگنا دیتے۔ پھر جہاں تک حضرت اسحق علیہ السلام کا دوسری بیوی کے بچوں سے موازنہ ہے قطورہ کی اولاد کو بھی آپ نے عملاً لاوارث کردیا۔ کیونکہ زندگی میں کچھ دے کر رخصت کردیااور وہ مشرق کی طرف کسی ملک میں جاکر آباد ہوگئے اور جہاں تک حضرت اسحق علیہ السلام ہیں وہ اکیلے رہ جاتے ہیں پھر وارث بننے کیلئے۔ پس اگر یہ الٰہی منشاء کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے خصوصی احکامات نہیں تھے تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام خود الٰہی شریعت کو توڑنے والے بنتے ہیں۔ پس اصل میں جو تورات کا آغاز ہے یہ ہے اصل بنیادی بات۔ اس ضمن میں مَیں نے پہلے بھی اپنے محققین سے کہا تھا ،تحقیق کرنے والی جو نئی نسلیں پیدا ہورہی ہیں کہ تورات کے آغاز کا پتا کریں۔ قرآنی حوالوں سے تو پتا چلتا ہے کہ تورات کا آغاز دراصل حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا ہے اور اس کے بعد سے پھر مختلف انبیاء پر جو وحی نازل ہوتی رہی شریعت کے مطابق یعنی شریعت کے بیان کیلئے وہ کچھ slabsمیں پتھر کی سلوںپر درج ہوتی رہی اور انہی سلوں کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلایا گیا اور غار میں لے جاکر دکھائی گئیں کہ یہ وہ سلیں ہیںجن میں تمہارے لیے تعلیم ہے۔ یہ وہی تعلیم ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب تک تورات نہیں نازل ہوئی اس وقت تک حضرت اسحق علیہ السلام نے اپنی مرضی سے اپنے لیے جو چیزیں پسند کیںتھیں اورناپسند کی تھیں اسی تعلیم پر عمل کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ تورات میں پھرجاکر ایک اور تعلیم داخل ہوگئی۔ مگرحضرت اسحق علیہ السلام کے تعلق میں تورات کا بھی ذکر ہے جو بعد میں آئی ہے اُن تعلیمات کے جو تعلیمات آپ کے نفس کی فطرت کے طبعی تقاضوں کے مطابق تھیں۔ ایک وقت میں وہی شریعت چل رہی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل میں یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانہ میں پھر تورات نازل ہوجاتی ہے اور اس میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ قرآن فرماتا ہے کہ جب تک تورات کی تعلیم نہیں آئی وہی ان کیلئے خدا کی نازل کردہ شریعت کا حکم رکھتی تھی۔تو یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اس واقعہ کے بعد موسیٰ کے وقت تک پھرمکمل خلاء ہوا ہو۔ ورنہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے حوالے سے خداتعالیٰ تورات کی بات نہ کرتا اور موسیٰ علیہ السلام کو جو Slabsدی گئی ہیں وہ کہاں سے آگئیں پھر۔ وہ کیا تھیں؟ ان کی حیثیت کیا تھی؟ اور پھر موسیٰ علیہ السلام کو تورات دینے کا کیوں ذکر نہیں کرتا۔ یہ جوچیزیں ہیں ان کواکٹھا پڑھیں تو واضح طور پر جو تاریخ آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ تورات ایک وسیع زمانے پر پھیلی ہوئی الٰہی احکامات کی کتاب ہے۔جوموسیٰ علیہ السلام سے پہلے اور یعقوب علیہ السلام کے بعد یا یعقوب علیہ السلام کے زمانہ کے آخری حصہ میںجاری ہوچکی تھی۔ اور مختلف انبیاء پر تورات نازل ہوتی رہی اور اس کو جمع کیا گیا ہے۔ اصل تورات کو خدا نے تختیوںپر یا پتھروں پر کندہ کروایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سپرد ایک وہ حصہ کیا ہے اور اس کے علاوہ کچھ تعلیمات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی ہیں۔ یہ ہے تورات جوانبیاء پر نازل ہوئی۔ اس کو قرآن کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی کتاب نہیں کہتا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی ہے یہ کہتا ہے۔ تورات دی ہے یہ کہیں نہیں فرماتا۔ کیونکہ تورات میں دوسرے نبی بھی حصہ دار تھے۔ پس اس پہلو سے یہ میں عرض کررہا ہوں کہ یہ بائبل کی آیت اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فعل سے متصادم ہے اوریوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑخود خدا کی تعلیم پرعمل نہیں کرتے مگر یہ غلط بات ہے۔ یہ تعلیم بعدکی بات ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجستہ جستہ وہ تعلیم دی گئی ہے جو آپ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اور یہ تعلیم بعض انبیاء کو امت کی تعلیم سے الگ دی جاسکتی ہے۔ جیسا حضرت ابراہیمعلیہ السلام سے ہوا ویساہی آنحضرتﷺ سے بھی ہوا۔ اور اس پہلو سے اہل کتاب کوآنحضورﷺ کے متعلق ان استثنائی آیات پر اعتراض کا کوئی حق نہیںہے۔ جو نبی جس پر شریعت نازل ہوتی ہے یا جو کسی امت کا باپ ہے اس کے خصوصی حالات میں ایسی تعلیم نازل ہوسکتی ہے جو عامۃ الناس کیلئے مستقل قانون سے مختلف ہو اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھ لیں۔ اس بائبل کی تعلیم سے مختلف تعلیم ملی ہے۔ تبھی انہوں نے اس پرعمل ہی مختلف طریقے سے کیا ہے۔ فقہاء نے جو خلاصہ نکالا ہے ان کی شریعت کا وہ یہ ہے، بیٹے اور ان کی اولاد ،بیٹیاں اور ان کی اولاد، والد، بھائی اور ا ن کی اولاد، بہنیں اور ان کی اولاد ، دادا ۔والد کے بھائی اور ان کی اولاد۔ والد کی بہنیں اور ان کی اولاد، پردادا، یہ سارے بائبل کی رو سے وارث کہلارہے ہیں جبکہ حقیقت میںبائبل میں ان سب کا ذکر نہیںملتا۔ پس جوموجودہ شریعت ہے یہود کی اس میں ورثہ انہوں نے یا اپنی عقل سے بنایا ہے یا رواج سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے قریبی رشتہ دار کے الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے خاوندکو بھی ورثاء میں شامل کرلیا ہے۔ اور تمام بیٹوں کو برابر کا حصہ ملے گاسوائے پلوٹھے کے۔یہ بات یہود نے رکھی ہے اپنے سامنے جو بیٹا والد کی وفات کے بعد پیدا ہوگا۔ اسی طرح غیر قانونی بیٹا (illegitimate)بھی والد کے جائز وارث ہوں گے۔ جو بھی بعدمیں پیدا ہو وہ بھی وارث ہوجائے گا۔ یعنی اگر حاملہ ہے کوئی ماں تو اس وقت تک تقسیم نہیںکی جائے گی جب تک کہ وہ بیٹا پید انہ ہو۔ اور اس کو دیکھا جائے کہ کتنے حصہ کا وارث بنتا ہے۔ورنہ اگر وہ مردہ پیدا ہو توپھر کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگر وہ لڑکا ہو تو خیرلڑکی ہو تو دونوں کوبرابرہی ملتا ہے نا اس میں؟ صرف پلوٹھے کو دوگنا ملتا ہے۔ کہتے ہیں جو بیٹاوالد کی وفات کے بعدپیدا ہوگا وہ بھی وارث ہوگا۔ جو غیر قانونی بیٹا یعنی مطلب ہے illegitimate childجس کیلئے اردو میں جو لفظ ہے بڑا خطرناک ساہے وہ بھی والد کے جائزوارثوں میں شامل ہوگا۔البتہ لونڈی یا غیر یہودی عورت سے پیداہونے والی اولاد وارث نہیں ہوگی۔ اب یہ انہوں نے تعلیم بنالی ہے ۔
ایک طرف اسلام پریہ الزام لگاتے ہیں کہ لونڈیوں کی باتیں کرتا ہے اور لونڈیوں کو بغیر کسی نکاح کے بیوی کے طور پر استعمال میںلانے کی اجازت دیتا ہے ۔ یہ تمام مستشرقین بڑھ بڑھ کر اسلام کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور یوں باتیں کرتے ہیں گویا اسلام ہی نے لونڈی کی تعلیم دی ہے اور اسلام ہی نے غلامی کو طاقت بخشی ہے۔ حالانکہ جو غلام اورلونڈی کی تعلیم ان کے ہاں ملتی ہے وہ اتنی بھیانک ہے کہ لونڈی کا بیٹا ہوجائے تو وہ غیر وارث رہے گا۔ حرام کی اولاد ہو تو وہ وارث ہوگی۔ اب موازنہ دیکھیں اسلام کے ساتھ ۔ اسلام فرماتا ہے کہ اگر لونڈی کے بیٹا ہو تو وہ بیوی کی طرح شمار ہوگی۔ اس کے بعد اسے لونڈی کہنے کا کوئی حق نہیں ہے، وہ مائوں میں سے ایک ماں بن جاتی ہے۔ کتنی اعلیٰ اورروشن الٰہی تعلیم ہے۔ پس اس پہلو سے یہ جو بھیانک تصور ہے غلام کا اورلونڈی کا اور ایک انسان کی آزادی کا، اس حدتک کچلے جانا کہ اس کی اولاد بھی آگے غلام در غلام پیدا ہوتی چلی جائے۔یہ تصور اسلام نے بالکل ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے اور اصل آزادی اسلام نے دلائی ہے انسان کو اور ان کے جولغو حملے ہیں ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں ۔ بائبل کی رُو سے تو غلام لونڈی انسان ہی نہیں ہیں۔ کچھ بھی ان کی حیثیت نہیں ہے۔ اور دوسرا بائبل کی رُو سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ عورتیں ورثہ میں بانٹی جاتی تھیں۔ اور عورتیں وارث اس لیے نہیں ہوسکتی تھیں۔ (یہ بعد میں انہوں نے عورتوں کو وارث کیا ہے لیکن) اس سے پہلے عورتوں کے ورثہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔پہلا تصور جوعورتوں میں ورثہ کا پیدا ہوا ہے، وہ ایک عورت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری بیٹیاں ہیں اوران کے ورثہ کے متعلق کیا حکم ہے۔ تو اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو آیات نازل ہوئیں ہیںان کی رو سے اگر بیٹا نہ ہو تو پھر بیٹیوں کو ورثہ ملے گا۔ یہ ہے اصل بنیادی تعلیم ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: گنتی باب 26آیت 6تا11 ’’صلاف حادکی بیٹیاں ٹھیک کہتی ہیں یعنی ان کی ماں ہی نے نہیں بلکہ بیٹیوں نے مل کر شکایت کی ہوگی۔ ان کے باپ کے بھائیوں کے ساتھ ضرور ہی میراث کا حصہ دینا یعنی ان کو اُن کے باپ کی میراث ملے اوربنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث اس کی بیٹی کو دینا۔
مشروط ہے اگر بیٹا نہ ہو تو پھر بیٹیاں وارث ہوں گی۔ اس لیے بعدمیں طالمود نے اگر اس تعلیم کوبدلا ہے تو ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے، کوئی سند نہیں ہے۔ یہ اسلام میں لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ پرتو اعتراض کرتے ہیں مگر اپنی تعلیم نہیں دیکھتے کہ بیٹا اگر ہوجائے تو بیٹیوں میں صف ماتم بچھ جائے گی کہ کیا مصیبت آگئی ہے۔ ایک ایک پائی سے محروم کردی جائیں گی۔ اس لیے اسلامی تعلیم کے ساتھ بائبل کی تعلیم کا موازنہ کرکے دیکھیں تو کوئی نسبت ہی نہیں رہتی۔ مگرمیں پھر متنبہ کررہا ہوں کہ بعید نہیں کہ اس تعلیم پر یہود کاتبوں کا اثر پڑ گیا ہو۔ رواج کا اثر پڑ گیا ہو۔ یا اس زمانہ کے حالات میں ایک معاشرہ سے رفتہ رفتہ نکال کر خداتعالیٰ اندھیرے سے روشنی کی طرف لارہا ہو۔ اس پہلو سے احکامات فوری اور اچانک تبدیلی پیدا کرنے والے نہیںہوتے۔ یہ بھی ایک مضمون ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن کریم نے بھی ایسے احکامات نازل فرمائے جن سے رفتہ رفتہ تربیت ہوئی ہے۔ اور رفتہ رفتہ اندھیروں سے روشنی میں نکالا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ غلام اورلونڈی کو اچانک ناجائز قرار نہیںدیا گیا بلکہ کچھ وقت لگا ہے اور ناجائز قرار دینے کے ایسے طریقے اختیار کیے ہیں کہ اگر اسلام ان پر عمل کرتا یعنی قرآن کریم کی تعلیم پر مسلمان عمل کرتے تو لونڈی اور غلام کا کوئی وجود ہی باقی نہ رہتا کلیۃً مٹ جاناتھا۔ تو بہت ہی حکمت کے ساتھ ایک جاری و ساری رواج کو اچانک کالعدم کرکے جس کا اقتصادیات پر بہت گہرا اثر پڑتا اور چوٹ پڑتی ، اس کی بجائے ایک تدریج اختیار فرمائی گئی ہے۔پس اس پہلو سے بعض احکامات بائبل کے جو بظاہر خلافِ فطرت دکھائی دیتے ہیں اورمحسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک نقص ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ مصنوعی طورپر بعد میں داخل کیے گئے ہوں ۔ اس زمانے کے رواج تھے انسان کا معاشرہ رفتہ رفتہ ترقی کررہا تھا اور ایک ہی دن میں civilizationنے دنیا کو روشن نہیں کیا ہے ۔ایک جاری سلسلہ ہے ۔ پس بعض اندھیروں سے نکالنے کیلئے فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے آہستہ روی اختیار کی جاتی ہے، رفتہ رفتہ نکالاجاتا ہے۔ پس میںسمجھتاہوں کہ ورثہ کی تعلیم میں بھی ہمیں اعتراضات میںجلدی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک ارتقائی صورت ہے۔ جس کے آخر پر اسلام نازل ہوا ہے اور اسلام میں بھی وہی تدریجی رُخ ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے ۔ اگر وہاں اعتراض کریں گے تو پھربعض جگہ موقعوں پرآکر اسلام بھی محل اعتراض میں ٹھہرے گا۔ اس پر بھی اعتراض وارد ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ الٰہی حکمتوں کا بیان ہے اصل میں۔ شریعتیں اس طرح نازل ہوئی ہیں۔ روایات کو ایک دم کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ رفتہ رفتہ انسان کو پرانی عادتوں سے نکال کر آزادی کی طرف منتقل کیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو بیٹے کی بشارت دی گئی ہے قرآن کریم میں وہ یوں ہے وامراتہ قائمۃ فضحکت فبشرنہا باسحق ۔ ومن وراء اسحق یعقوب۔ قالت یویلتی ع الدوانا عجوز و ھذا بعلی شیخا۔ ان ھذا لشیء عجیب۔ قالوا اتعجبین من امراللہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت ۔ انہ حمید مجید۔مگر دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں تعجب کا اظہار کیا ہے وہ بھی نکالیں ورنہ ایک چھپادیں گے ایک نکالیں گے۔ و اوجس منہم خیفۃ۔ قالوا لا تخف۔ فبشروہ بغلام علیم۔ فاقبلت امراتہ فی صرّۃٍ فصکت وجھھا و قالت عجوز عقیم۔ایک اور جگہ بھی ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تعجب کا اظہار کیا ہے۔ وہ نکالیں۔ جب نکالیں گے پھر میں پڑھوں گا اس طرح نہیں۔اچھایہ تو اس آیت کے حوالے سے بنی اسرائیل کو دی جانے والی تعلیم کا ذکر چھڑ گیا تھا۔
اب میں اگلی آیت کی طرف جاتا ہوںاور اس ضمن میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جس کا اس گزری ہوئی آیت سے بھی تعلق ہے وہ انشاء اللہ اس تفسیر کے دوران میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ واذا حضر القسمۃ اولوا القربی و الیتمی والمسکین فارزقوھم منہ و قولوا لھم قولا معروفا ۔ اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت دوسرے قرابت دار حضر القسمۃ اولواالقربی۔ دوسرے کا جو لفظ ہے وہ بریکٹ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رکھا ہے۔جو لفظی ظاہری ترجمہ ہے اس میں دوسرے کا ذکر نہیںملتا۔پس ظاہری طور پر جو بیان ہے وہ اتنا ہے کہ جب بھی وراثت کی تقسیم کے وقت القسمۃ سے مراد وراثت کی تقسیم۔ اولواالقربی قرابت دار یا اقرباء آئیں والیتمیٰ اوریتیم بھی آئیں ۔ والمسکین اور مسکین بھی حاضر ہوں۔ فارزقوھم منہ تو اس میں سے ان کو بھی کھلائو پلائو، ان کو بھی حصہ دو۔ و قولوا لھم قولا معروفا ۔ اور ان سے اچھی بات ، حسن بات کرو جو ان کی دلآزاری کا موجب نہ بنے ۔ یہ پہلی آیت ہے للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون و للنساء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون۔ تو اس آیت کو بہت سے علماء نے اس آیت سے متصادم سمجھا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ جو غلط خیال پیدا ہوا کہ قرآن کریم کی بعض آیتیں منسوخ ہیں ان میں ایک یہ آیت بھی بیان کی جارہی ہے۔ یہ میں نے آپ کو متوجہ کیا تھا کہ اس آیت اور اس کے تعلق میں ایک ایسا مضمون ہے جس میں فقہاء نے اورعلماء نے بہت کچھ بحثیں اٹھائی ہیں کیونکہ وہ ان کو جو تضاد دکھائی دیتا ہے وہ میں آپ کو بتائوں پہلے وہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں پہلی آیت سے تو لگتا ہے کہ نصیب ہے پختہ حصہ ہے۔ مما ترک الوالدان والا قربون- اقربون جو بھی چھوڑیں گے اس سے اور والدین جو بھی چھوڑیں گے اس میں کچھ لوگوں کو حصہ ملے گا۔ اولاد کو تو حصہ ملے گا لازماً اور اقرباء کو بھی معلوم ہوتا ہے ضرور ملے گا۔ اگرچہ اقرباء چھوڑیں گے کی بات ہورہی ہے مگر جب اقرباء چھوڑیں گے تو ورثہ پانے والے بھی تو اقرباء ہی کہلائیں گے۔ اس لیے یہاں یہ بحث نہیں ہے کہ کون چھوڑے گا۔ جس کو ملے گا اس کو اقرباء کی حیثیت سے بھی ملے گا۔ اور وہ کہتے ہیں نصیبًا مفروضا ۔ یہ ایک فرض والا حصہ ہے جو قطعی طور پر واجب ہے کہ ادا ہو۔ یہاں یہ مضمون ہے دوسری طرف اگلی آیت میں یوںبات چھیڑی گویا کہ ایک طوعی حکم تھا اور نصیحت کے طور پر فرمایا جارہا ہے کہ ان کو بھی دو۔ اذا حضر القسمۃ اولوا القربی و الیتمی والمسکین فارزقوھم منہ و قولوا لھم قولا معروفا ۔ ان کو اس میں سے کچھ دو اور قولِ معروف کرو ان سے اچھی ، حسن بات کرو۔ ایک یہ ہے جو الجھن ان کو پیدا ہوئی ہے دوسری یہ الجھن بنتی ہے کہ اذا حضر القسمۃ اولوا القربی و الیتمی والمسکین فارزقوھم منہ میں یہاں حکم ملتا ہے کہ ضروران کو دو اور جو پہلی آیت کے بعد مفہوم سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ جو نصیب مقرر ہوچکا ہے وہی تم نے دینا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس جگہ اقرباء کا ذکر تو ہے یتامیٰ کا نہیں ہے مساکین کا نہیں ہے اور اس آیت نے جن کو حصہ دینا ہے ان کی قسمیں زیادہ بڑھادی ہیں ۔ تو گویا یہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اس وجہ سے نسخ کا ایک خیال دلوں میں اٹھا ہے جو بالکل غلط اور بے حقیقت ہے۔ اس کے متعلق میں زیادہ وضاحت سے ان کے حوالے پیش کرنے کے بعد بات کروں گا۔
قسم یقسم قسما۔ قسم الشی جزّئہ۔ کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تقاسم القوم المال اخذ کل قِسْمَہٗ منہ ۔ یعنی ہر ایک نے مال میں سے اپنا اپنا حصہ لیا۔ غرض یہ کہ قِسْمَۃ کی بحث میں کوئی زیادہ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ تقسیم کو کہتے ہیں ۔ اس کی شان نزول کی بحث میں ابو حیان اندلسی نے یہ بیان فرمایا ہے ۔ یہ آیت ایسے مالدار لوگوں کے بارہ میں بغرض ترغیب اتری ہے جو جان کنی کے وقت اپنی وصیت میں جائیداد کو ترجیحات کی بناء پر تقسیم کرتے ہیں اور غیر وارث رشتے داروں کو نظر انداز کردیتے ہیں اس طرح وہ غیر وارث وصیت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مصیّب، عکرمہ اور ضحاک کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے ۔ اُنہوں نے کہا اس تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے تین حصوں میں منقسم فرمایا جسے آیت میراث نے منسوخ کرکے ہر مستحق کو اس کا حصہ دیا او روصیت کو غیر وارث محروموں سے مخصوص کردیا۔ یہ جو مضمون ہے یہ سب فرضی ہے اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی طرف منسوب ایک بخاری کی روایت قطعیت کے ساتھ اس الزام کو حضرت (ابن) عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دور کررہی ہے۔ کتاب التفسیر ترجمہ یہ ہے : عکرمہ کہتے ہیں (اورعکرمہ کی طرف بھی حوالہ دیا گیا تھا کہ انہوںنے کہا یہ منسوخ ہوگئی ہے) عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا ہے کہ یہ آیت واذا حضر القسمۃ اولواالقربی والیتمی والمسکین محکم ہے۔ نہ صرف یہ کہ منسوخ نہیں ہے بلکہ متشابہات میں بھی داخل نہیں ہے۔ محکم ہے منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعید بن جبیر نے بھی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اب عکرمہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اور شاگرد بھی تھے ۔ بکثرت ان سے روایات ملتی ہیں لیکن سعید بن جبیر کی روایت اگر الگ سند سے آجائے تو پھر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ روایت بہت قوی شمار ہوتی ہے۔ دواکٹھے ہوجائیں جس بات پر اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ پس یہ قطعی بخاری کی جو روایت ہے یہ اہل تفسیر کی ان روایتوں کو پارہ پارہ کردیتی ہے۔ پہلا تقسیم کا عمل یہ کرتی ہے۔ قَسَمَ کا مطلب ہوتا ہے ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔ جَزَّئَہٗ تو یہ محکم آیت ہے جو اس طرح اس روایت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیتی ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ناسخ منسوخ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون کو حرف آخر کے طور پر ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ہے۔ قرآن کریم میں ایک آیت کیا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہے۔ اب اس تعلق میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اس کی تفسیر فرمائی ہے، ان آیات کوجوڑا ہے وہ میں اب آپ کے سامنے پڑھ کر سنائوں گا۔ لیکن اس سے پہلے بعض اورعلماء کی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ یحیٰ بن یعمر سے مروی ہے کہ تین مدنی آیات محکم ہیں۔ لوگوں کی اکثریت نے اس پر عمل نہیں کیا یعنی اذا حضر القسمۃ ۔ ایک اور روایت کے سلسلے سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ دو اور آیتیں جو بیان کی گئی ہیں ان میں ۔۔۔۔۔۔ والذین لم یبلغوا لحلم منکم۔ اور انا خلقنکم من ذکر و انثی۔ یہ بیان کی گئی ہیں۔ مگر اس آیت کے محکم ہونے پر ایک اور دلیل بھی ہے۔ صاحب تفسیر القاسمی محمدجمال الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ حضرت عبدالرزاق سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ نے اپنے باپ عبدالرحمن بن ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ورثہ تقسیم کیا ۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حیات تھیں یعنی زندہ تھیں انہوں نے گھر کے ہر مسکین اور رشتہ دار کو ورثہ میں حصہ دیا اور یہ آیت تلاو ت کی واذا حضر القسمۃ اولواالقربی تو مراد یہ ہے کہ ایک طوعی نیکی کی طرف رغبت دلائی جارہی ہے اور پہلا جو ورثہ کا دائمی اور بالا قانون ہے اس کو ہرگز منسوخ کرنے والی آیت نہیں بلکہ یہ روشنی ڈال رہی ہے کہ اگر ورثہ قرآن کریم کی رو سے معین نہ ہوا ہو یا کسی موصی نے وصیت کے ذریعہ کوئی ورثہ کسی کے حق میں معین نہ کیا ہو جتنا اسے اختیا رہے یعنی 1/3تک تو اُس صورت میں ، اس لیے کہ بعض لوگ غیر وارث ہیں مگر ہیں اقربائ۔ یتامیٰ ہیں ورثہ میں ان کا ذکر نہیں اس لیے ان کو محروم نہ کیاکرو۔ جب وہ آتے ہیں تعزیت وغیرہ کیلئے اور ورثے تقسیم ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کی ضرورتوں کا خیال کیا کرو اور ان کو بھی کچھ دو۔پس یہ ایک طوعی حکم ہے جوپہلے واجبی حکم کو منسوخ نہیںکرتا بلکہ اس کے ایک پہلو کو اور روشن کررہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اقرباء والا حکم ثانوی ہے ۔ اوّل اولاد کا حکم ہے اور اقرباء اولاد کی محرومی کے بعد پھر درجہ بدرجہ ورثہ پاتے ہیں۔ اور اقرباء کا ورثہ بھی انسان اسی وقت پاتا ہے جبکہ والدین کا ورثہ اُسے نہ ملا ہو اور اقرباء نے اس کی پرورش کی ہو تو اقرباء کو حق ہے کہ پھر اس کے حق میں کچھ نہ کچھ چھوڑیں اور اس پہلو سے وہ اقرباء کے وارث بھی بنتے ہیں ۔مگر اقرباء کا وارث بننا کوئی دائمی قانون نہیں مشروط قانون ہے۔ دو طرح سے وارث بنتے ہیں اوّل یہ کہ اقرباء ہی رہ گئے ہوں کسی کے سرپرست۔ یعنی کسی کے سرپرست والدین نہ ہوں وہ مرچکے ہیں اور اقرباء نے پرورش کی ہے تو ایسی صورت میں اقرباء سے توقع خدا تعالیٰ رکھتا ہے کہ ان بیچاروں کا بھی حصہ رکھنا جو تمہارے گھروں میں پرورش پارہے ہیں۔ وہ 1/3تک کی جو اجازت ہے اس میں سے وہ دیں گے لیکن ان کوپھر ۔لیکن معین حصہ تب ملے گا اگر آئندہ آیت میراث اقرباء کا معین حصہ ان کے سپرد کرتی ہو۔ پس یہ جو پہلو ہے یہ ہے بہت توجہ طلب کیونکہ میراث کی بات ہورہی ہے، اس میں بڑے جھگڑے چلتے ہیں۔ اس آیت کے غلط استنباط کے نتیجے میں کہیں اور رائے قائم کرکے لوگ میراث کے مضمون میںناجائز حرکتیں نہ شروع کردیں اس لیے میں بات کو کھول رہا ہوں۔ ایک وہ اقرباء ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے واضح طور پر کوئی حصے وغیرہ کی بات نہیں کی ہے۔ وہ اقرباء جو ہیں وہ اگر حصہ دیں تو یہ ان کی نیکی ہے اور ان کو اس کی ترغیب و تحریض کی گئی ہے۔کچھ اقرباء وہ ہیں جن کے حصہ کے متعلق آیت میراث ذکر کرے گی اور وہ ذکر اسی طرح کرتی ہے جو میں پہلے خلاصہ بیان کرچکا ہوں کہ اگر وہ وارث جو براہِ راست وارث ہونا چاہیے جو اولیٰ ہے جس کو ذوالفرائض میںداخل کہتے ہیں یہ لوگ۔ وہ نہ ہو تو پھر اقرباء میں سے فلاں فلاں کا یہ حصہ ہوگا، وہاںاقرباء کا حصہ طوعی نہیں رہتا پھر وہاں فرضی ہوجاتا ہے۔ پس یہ جو فرمایا گیا ہے کہ نصیبا مفروضاً وہ کسی قسم کے تضاد کا حامل نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں اقرباء کا ورثہ نصیبًا مفروضًا ہی ہے۔ ان صورتوں میں جہاں قرآن کریم نے آیت میراث میں اقرباء کا ذکر کرکے فرمایا ہے کہ فلاں نہ ہو تو یہ ہوگا، فلاں نہ ہو تو یہ ہوگا۔ اب کلالہ کی آیات ہیں اسی سورۃ میں۔ دو قسم کے کلالوں کا ذکرملتا ہے۔جب ان کی بات آئے گی تو وہ آپ کے سامنے پوری کھل جائے گی۔ کلالہ کیلئے جو خدا نے اقرباء کو حصے دلوائے ہیں وہاں وہ نصیباً مفروضًاہے۔ وہاں وہ طوعی کی تعلیم نہیں ہے۔ پس طوعی تعلیم اُس صورت میں ہے جبکہ اقرباء کیلئے کوئی نصیبًا مفروضًانہ ہو اور نصیبًا مفروضًا کا فیصلہ خدا نے کرنا ہے اس نصیبًا مفروضًاکے سوا باقی تمام صورتوں میں اقرباء اور یتامیٰ اور مسکینوں کو جو دینا ہے وہ نصیحت کے طور پر ہے اوربہت بھاری نصیحت کے طور پر ہے ۔ایسی نصیحت کے طور پر ہے جس کے عمل نہ کرنے میں بے برکتیاں ہیں۔ جس پر عمل نہ کرنے میں بعض خدشات بھی ہیں جو خداتعالیٰ کی ناراضگی کی صورت میں اُن لوگوں کوبطور سزا درپیش آسکتے ہیں ۔ یہ ہے مضمون جو ان دو آیتوں کے تعلق کا مضمون ہے۔ امید ہے سمجھ آگئی ہوگی سب کو۔ کیونکہ وراثت کے جو مسائل ہیں یہ کافی پیچیدہ ہوتے ہیں اور علماء بھی آپس میں خوب الجھے ہوئے ہیں ابھی تک۔ (ابن محی الدین) ابن عربی نے تو اس کو صوفیانہ رنگ میں لیا ہے صرف، ظاہری بحث ہی نہیںکی۔ امام رازی یتامیٰ کومساکین پر مقدم کرنے کی وجہ ان کی بیچارگی اور ضرورتوں کا زیادہ ہونا بتاتے ہیں۔ ان کو صدقات اور خیرات دینا افضل اور اجر کے لحاظ سے زیادہ بڑا ہے۔ یہاں جو الفاظ کی ترتیب ہے اُس پر گفتگو کرتے ہوئے امام رازی فرماتے ہیں کہ یتامیٰ کو اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ ان کی بیچارگی ظاہر ہو اور ورنہ مساکین بھی تو بیچارے ہی ہیں بیچارے ۔ مسکین ہوتاہی وہ ہے جو بیچارہ ہو۔ پنچابی میں ا س کو کیاکہتے ہیں شُہدہ؟ ہاں شُہدہ نمانا، نمانا بھی کہتے ہیں(ہاں شُہدے کو)۔ نمانا میرا خیال ہے زیادہ نسبتاً زیادہ عزت والا ہے۔ کیونکہ شودے میں منفی پہلو بھی ہے۔ کوئی گھٹیامانگنے کا عادی یا حریص اُس کو بھی شودہ کہتے ہیں۔ (ہاں ہاں! لیکن یہاں اس تعلق میں نہیں کہتے)۔ ٹھیک ہے۔ بیچارہ تو میں پہلے ہی کہہ رہا ہوں بار بار۔ کتنی بیچارہ کہوں تو آپ مانیں گے۔ اچھا یہ ہے مساکین کی بحث۔ اب میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس کی طرف آتا ہوں جو اس مضمون پر جیسا کہ میں نے کہا تھا حرف آخر ہے۔’’ مردوں کیلئے اس جائیداد میں سے ایک حصہ ہے جو ماں باپ اورقرابتی چھوڑ گئے ہوں اور ایسا ہی عورتوں کیلئے اس جائیداد میں سے ایک حصہ ہے جو ماں باپ اور قرابتی چھوڑ گئے ہوں۔ اس میں سے کسی کا حصہ تھوڑ اہو یا بہت ۔ بہر حال ہر ایک کیلئے ایک حصہ مقررکیا گیا ہے‘‘۔ یہ جومقررکیا گیا ہے نا جب تک وہ مقرر ثابت نہ ہو وہ حصہ مفروضاً نہیں ہے اور یہی بات میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ ایک پہلو ہے ترغیب کا۔ قرابتداری کے تعلق میں وہ بھی اختیار کیا گیا ہے۔ ایک ہے مقرر کیا گیا وہ مفروضاً ہے اس کو ہم تبدیل نہیں کرسکتے ۔ جب ترکہ کی تقسیم کے وقت ایسے قرابتی لوگ حاضر آویں جن کو حصہ نہیں پہنچتا تو صاف فرمایا ہے کہ جو قرابتی چھوڑ گئے ہیں اس میں مقرر حصہ ہے۔ اس سے مراد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ نہیں کہ از خود ہر قرابتی زبردستی حصہ دار ہوجائے گا۔ فرمایا ہے جن کا مقررکیا گیاہے وہی ہیں جو وارث ہیں۔ہا ں تقسیم کے وقت ایسے بہت سے قرابتی آسکتے ہیں جن کیلئے خدا نے کوئی حصہ واضح طور پر مقر نہ فرمایا ہو، یعنی ان سے اولیٰ درجہ کے وارث موجود ہوں اس لیے وہ ثانوی حصہ جو ان کیلئے ہے اس سے وہ محروم ہوجاتے ہیں طبعاً۔ کیونکہ اولیٰ کو جب مل گیا تو جو ثانوی ہے وہ از خود اس دائرہ سے نکل جاتا ہے۔’’ایسا ہی اگر یتیم اور مسکین بھی تقسیم کے موقع پر آجاویں تو کچھ کچھ اس مال میں سے ان کو دے دو اور ان سے معقول طور پر پیش آئو یعنی نرمی اور خلق کے ساتھ پیش آئو اور سخت جواب نہ دو اور وارثان حقدار کو ڈرنا چاہیے۔
یہ جو آیت ہے یہ اگلی آیت ہے جس کے ساتھ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو جوڑا ہے اس لیے یہ جو حصہ ہے اس کو بعد میں پھر بیان کریں گے۔ اب ایک اور بڑی اہم بحث اس میں جو اٹھتی ہے وہ ہے دادا کا ورثہ یتیم بچہ پائے گا کہ نہیں۔ اب یتیم جس کے متعلق فرمایا گیا ہے اس کو دو۔ وہاں فرض کے طور پر نہیں فرمایا گیا۔ یہ فرمایا گیا ہے جن کا مفروض حصہ ہے مقرر حصہ ہے وہ پائیں گے اور یتامیٰ اور اقرباء اور دوسرے جو ہیں ان کو دینا بہتر ہے۔اس ضمن میں یہ بحث جو آجکل پاکستان میں بھی بڑے زوروں سے اٹھائی جارہی ہے اور جماعت احمدیہ میں بھی کئی مختلف خیال کے لوگ پائے جاتے ہیں یہ ایسے یتیم کے متعلق ہے جو مرنے والے کا پوتا ہو یعنی اس کا اپنا بیٹا اس کی زندگی میں فوت ہوجائے تو پھر آپ اس کو وہ جائیداد یں گے کہ نہیں۔ یعنی حصے میں شامل کریں گے کہ نہیں۔ عام طور پر جذباتی سوال اٹھا کر یہ مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ بیٹے کا بیٹا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ باقی بیٹے تو پائیں اور وہ بیٹے محروم رہ جائیں، اس لیے لازماً ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کے بیان میں اگر نہیں آیا تو وہ سمجھتے ہیں قرآن کریم سے گویا کچھ سہو ہوگئی ہے۔ اور ہمیں انڈر لائن (under line)یہ پڑھنا چاہیے۔ مگر انڈر لائن پڑھنے کی گنجائش کہیں نہیں ہے کیونکہ یتامی کا ذکر بھی چلتا ہے اقرباء کا بھی ذکر چلتا ہے۔ کہیں یہ ذکر نہیں آیا کہ پوتا بھی دادا کا وارث ہوگا۔ اس کی ایک حکمت ایسی ہے جس کو نظر انداز کیا جاہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم ہر شخص کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا مالک مانتا ہے اور یہی اصول ہے جو بائبل بھی تسلیم کرتی ہے۔ اور اس اصول میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہر شخص اپنی جائیداد کا مالک ہے۔ وارث تب مالک بننے کا اہل ہوتا ہے جب مالک اُٹھ جائے اور ملکیت خدا کو لوٹ جائے۔ اس کے بغیر وہ از خود مالک نہیں بن سکتا۔ اب وہ شخص جس کابچہ اس کی زندگی میں فوت ہوجائے وہ بے مالک بنے فوت ہوگیا کیونکہ اس نے مالک بننا تھا اپنے باپ کی وفات کے بعد۔ اگر آپ یہ تسلیم کرلیںکہ وہ ابھی بھی مالک ہے تو باپ کی زندگی میں اولاد کو دخل اندازی کا حق ماننا پڑے گا اور قرآن اور حدیث نے کہیں بھی اشارۃً بھی باپ کی زندگی میںاولاد کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے۔ کہیں نہیں دیا گیا۔ باپ خرچ کرتا ہے، باپ سودے کرتاہے، کہیں امیر غریب بن جاتے ہیں کہیں غریب امیر ہوجاتے ہیں ۔ کہیںبھی قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ اولاد کا حق ہے اٹھ کھڑے ہو۔ کہے کہ ہمارا باپ بیوقوف ہے اس سے چھین لو۔ سوسائٹی کو حق دیا گیا ہے کہ وہ سفہاء سے مال اپنے قبضے میں لیں لیکن بطور مالک نہیں بطورامین، بطو رقیام ۔ تو جہاں تک اولاد کا تعلق ہے اگر یہ حق ہوتا تو قرآن کریم یہ کہتا کہ سفہاء میں سے اگر ان کے بچے ہوں اور وہ سفیہہ نہ ہوں تو وہ چونکہ مالک ہیں ان کا حق ہے کہ وہ چارج لے لیں اور اپنے بڈھے باپ کو ایک طرف کردیں۔ یہ کہیں اجازت نہیں ہے۔ پس اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جائیداد کا جو خدا نے اسے دی ہے خود مالک ہے جب تک زندہ ہے اس پر تصرف کا اختیار رکھتا ہے سوائے ان چیزوں کے جہاں خدا نے اس کے تصرف کے اختیار کو واضح طور پر محدود فرمادیا ہے۔ اس کے سوا جو جائز اخراجات خداتعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں نفاقات کی تعلیم دی ہے کہ یہ کرسکتے ہوان میںکوئی شخص اس کو پابند نہیں کرسکتا۔ اس پہلو سے جب باپ مرتا ہے، ایک شخص مرتا ہے جس کی زندگی میں اس کا پہلے بیٹا مرچکا ہے اور وہ وارث نہیں بنا تو اس کی اولاد کو پھر کس اصول سے وارث بنایاجائے گایہ بحث ہے۔ ہاں جذباتی دلیل اس کے حق میں جاتی ہے اور اس دلیل کا توڑ یہ ہے کہ تمہیں اس بیٹے کی اولادسے زیادہ محبت ہے بہ نسبت اس باپ کے جس کا بیٹااس کی آنکھوں کے سامنے مرا اور اپنے یتیم بچوں کو اس نے دیکھا اور ان کیلئے کوئی درد محسوس نہیں کیا۔ وہ اپنی جائیداد پر تصرف رکھتا تھا کیوں اس نے اس کو وہ حصہ نہیں دے دیا۔ یہ بات بتارہی ہے کہ نہ اس نے دیا نہ وصیت کی اگر دے دیتا تو مالک تھا اگر وقتی طور پر اس لیے نہیں دے سکا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کے اپنے تصرفات پر اثر پڑے گاوہ وصیت کرسکتا تھا۔
پس اس کا وصیت نہ کرنا کسی دوسرے کو یہ حق نہیں دیتا کہ بچوں کی ہمدردی کے اور محبت بہانے لازماًان کو کچھ دلوائے۔ دوسرا وہ بھائی بھی ہیں جن کا بھائی فوت ہوا ہے کیا سارا خاندان ہی ایسا بہیمانہ مزاج ہے کہ باپ مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو مرتا دیکھتا ہے اور اس کی اولاد کی کوئی بھی پرواہ نہیں کرتا آگے سے چھوٹے میاں بھی ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں سارے۔ جیسا باپ ویسے ہی بیٹے۔وہ اپنے بھائی پر کوئی رحم نہیںکرتے اپنے بھائی کی اولاد پر رحم نہیں کرتے۔ اگر یہ نہیں کرتے تو ان پر یہ آیت ہے جو ان پر نگران ہے کہ اولوالقربی اور یتامیٰ اور مساکین اگر حاضر ہوں گے تو تمہارا فرض ہے کہ ان کو بھی ضرور کچھ دو۔ اس میںاولیٰ وہ ہیں جو یتامیٰ ہیں ۔ اسی لیے یتامیٰ کا پہلے ذکر ہے۔ اس لیے نہیں کہ بیچارے نمانے لوگ ہیں وہ تو یتامیٰ کے علاوہ اور بھی بڑے نمانے ہوسکتے ہیں ۔ کئی کھاتے پیتے یتامیٰ ہیں۔ کئی مسکین یتامیٰ بھی ہوتے ہوں گے مگر اصل مسکین جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ تو یہاں حقوق کے لحاظ سے ان کو اوّل کیا گیا ہے۔ ایسے یتامیٰ ہوسکتے ہیں جو تمہارے خاندان کا حصہ ہوں۔ اقرباء بھی کہلاتے ہوں۔ ذوالقربیٰ بھی ہوں اور یتامیٰ بھی ہوں۔ ان کے حق کو نہ بھولنا اور ان سے اچھی بات کہنا اور جس حد تک تمہیں توفیق ملتی ہے ان کی خدمت ان کے حقوق ادا کرکے کرنا۔ حقوق نہیں لفظ فرمایا کیونکہ حقوق قائم ہی نہیں ہوئے اس لیے بڑی حکمت سے نصیحت کے طور پر ایک معاشرتی خرابی کا ازالہ فرمایا گیا ہے اور اسی مضمون کو اگلی آیت یوں تقویت دے رہی ہے ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم ذریۃ ضعافًا خافوا علیھم فلیتقوا اللہ ولیقولوا قولا سدیدًا ۔ یہ لوگ جن کو نصیحت کی جارہی ہے یہ اس بات سے ڈریں کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایسے حال میں مرجائیں کہ ان کے یتیم بچے بے سہارا رہ جائیں اور چھوٹی عمر میں مرنے کی وجہ سے ان کا کوئی نگران اور والی وارث نہ رہے۔ وہ ہر قسم کے حقوق سے محروم رہ جائیں۔ کیا وہ اپنی اولاد پر خوف نہیں کھائیں گے۔ کیا یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ مرجائیں اور ان کے بچے اس طرح رہ جائیں۔ اگر یہ پسند نہیں کرتے تو پھر ان یتیموں کے حقوق ادا کریں جن کو ایک اصول کے تابع ظاہراً محروم رکھا گیا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ ان کی طرف توجہ تمہیں دلارہا ہے ۔ عملاً وہ محروم نہیں رہنے چاہئیں۔ یہ ہے اس آیت کا منطوق ۔ ورنہ پھر اگر تم نہیں کرو گے تو یتقواللہکا مطلب خدا سے ڈرو۔ ہوسکتا ہے تمہارے ساتھ بھی پھر یہی سلوک ہو۔ تو نسلاً بعد نسلٍ بعض قوانین اپنے طور پر جاری قانون خدا کے بعض لوگوں کو سزائیں دیتے جاتے ہیں، ان کی نسلوں کو سزا مل جاتی ہے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یہی وہ مضمون ہے دراصل جو دادا پوتے کے تعلق میں یہاں بیان ہونا ضروری تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس مضمون پر واضح روشنی ڈالی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتا محروم الارث کیوں ہے ۔یعنی صحابہ اس زمانے میں یہ تو سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی مسلک ہے۔ یہ نہیں پوچھا ہے کہ نہیںہے؟ یہ پوچھا کہ کیوں ہے عجیب سی بات لگتی ہے فرمایا کہ ’’دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دے دے بلکہ جو چاہے دے دے اور کیونکہ مالک ‘‘یہ جو چاہے دے دے سے پتا چلتا ہے کہ وہ مالک ہے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیے گئے کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کہا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی ۔ کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اورپھر آگے اس کی اولاد ہو تو وہ بھی وارث ہو۔ اب یہ سلسلہ کہاں تک چلے گاپھر۔ یہ جو مضمون ہے ا س پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اشارہ فرماکر اس کی قباحتوں کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ (اس کے) یہ کرنے کے نتیجے میں کیا قباحتیں لازم آئی ہیں۔ اس صورت میں دادا کا کیا گناہ ہے۔’’ یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں۔ تو ہم کو چاہیے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کردیں‘‘۔ وہ مضمون جو آگے چلایا تھا وہ چلا کر ذہن نشین کراکے پیچھے کی طرف رخ کردیا ہے ۔ بہت ہی عجیب کلام ہے۔ حیرت انگیز فصاحت و بلاغت کا مظہر ۔ فرمایا کہ اچھا اب اس کو روکو گے کہاں پھر۔ نہیں نارکے گا۔ جب آگے دیکھتے ہیں تو یہ کہنے والے کہ پوتوں کوملنا چاہیے، رکنے کی جگہ پاتے ہی نہیںوہ بیچارے ریڑھوں پر بیٹھ کر اوپر سے نیچے اتر جائیں اس طرح کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ رک سکتے ہی نہیں۔ جب کہہ دیا کہ اب نہیں رک سکتے اب اپنے دادا آدم ؑ سے بات کرو ۔ جب آگے نہیں رک سکتے پیچھے کہاں رکو گے تو پھر سلاطین کے سب تم وارث ہو۔ ورثے کا نظام ہی سارا درہم برہم ہوجاتا ہے۔ (چونکہ بیٹے کی نسبت ) ۔ آگے فرمایا (ہاں۔ کہاں سے میں نے شروع کیا تھا؟) ’’تو ہم کو چاہیے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جاکر کمزوری ہوجاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتاہے ۔ خداتعالیٰ کو علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطے میں ہوجاتی ہے‘‘۔ یعنی بعینہٖ برابرکی بات نہیں رہتی’’ اور اس لیے یہ قانون رکھا۔ ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خداتعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے ۔ جیسے قرآن شریف میں ہے اذا حضر القسمۃ اولواالقربی‘‘۔ بعینہٖ وہی بات ہے جو میں آپ کو سمجھارہاہوں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں یہ قانون ا س کے ساتھ تعلق رکھتا ہے’’ اذا حضر القسمۃ اولوا القربی و الیتمی والمسکین فارزقوھم منہ و قولوا لھم قولا معروفا ۔ یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خونیںاقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو ان کو کچھ دیا کرو تو وہ پوتا جس کا باپ مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کاہے۔ اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا۔ خداتعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتے میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے‘‘۔ ٹھیک ہے۔ باقی پھر ، وقت ہوگیا ہے۔ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک مضمون ہے بڑا دلچسپ، وہ کل پھر اس کی بات شروع ہوگی۔(یہ لیں جی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ)۔
إإإ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ16؍رمضان بمطابق6؍ فروری 1996ء
واذا حضر القسمۃ اولوا القربی والیتمی والمسکین فارزقوھم منہ و قولوا لھم قولاً معروفًاکی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:-
اورجب ترکہ کی تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین پہنچے ہوئے ہوں ان کو بھی کچھ کھلائو اور ان سے اچھی بات کرو۔ اس آیت کے اوپر ہم نے کل گفتگو کی تھی۔ اس سلسلہ میں یتیم پوتے والا مسئلہ ابھی باقی تھا۔ اس کے متعلق مزید وضاحتیں ضروری تھیں۔ چنانچہ میں نے ایک تو یہ کہا تھا کہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا ایک بڑا اچھا مضمون شائع ہوا تھا۔(اس نے بھی) وہ بھی آپ کے سامنے ان کے دلائل بھی رکھوں گاکچھ۔ ایک مضمون ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم کا بھی چھپا ہوا ہے الفضل میں ۔ اس پہ مختلف پہلوئوں سے یہ بحث اُٹھائی گئی ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ آخر پر بات وہی بنتی ہے ۔ ملک صاحب کے مسلک کی جو ہمارے فقہ میں درج ہوگئی ہے وہی ہے نا؟ اور وہ وہی بات ہے جو مجھے قبول نہیں۔ اس لیے یہ جو میں بات کہہ رہا ہوں اس کے دلائل دوں گا۔ لیکن فیصلہ نہیں ہے۔ فیصلہ حسب دستور اسی طرح ہوگا کہ ہماری مجلس افتاء ان باتوں پر غورکرکے پھر جب باقاعدہ مجھے سفارش کرے گی پھر فیصلہ تبدیل ہونے یا نہ ہونے یعنی فقہ کا وہ حصہ تبدیل ہونے یا نہ ہونے کا باقاعدہ رسمی فیصلہ ہوگا۔ اس وقت تو درس کے تعلق میں مَیں جو کچھ سمجھا ہوں وہ آپ کے سامنے بیان کروں گا۔ بہرحال مثلاً ایک بات تو ملک صاحب کھل کر اپنے اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ یتیم پوتے کی محرومی کا مسئلہ منصوص علیہ نہیں بلکہ اجتہاد پرمبنی ہے۔جس میں خطا اور ثواب دونوں کا احتمال ہے۔ یعنی یتیم پوتے کا وارث ہونے کا مسئلہ کہنے کی بجائے یتیم پوتے کی محرومی کامسئلہ! اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رحجان کس طرف ہے۔ لیکن جو فیصلہ کیا چونکہ دیانتداری سے ہے اس لیے اپنے کیے ہوئے اثر کو پھر کاٹ دیاہے کیونکہ کہتے ہیں یہ اجتہاد پر مبنی ہے۔ جس میں خطا اور ثواب دونوں کا احتمال ہے۔ تو خطا اور ثواب کا احتمال ہوگیا تو ہونا نہ ہونا برابر ہوگیا۔نہ اس کی سند نہ اس کی سند، پھر دلوانے کی بھی کوئی سند نہ رہی۔ اگر نہ دلوانے کی سند نہیں ہے تو حصہ دلوانے کی بھی پھرکوئی سند باقی نہیں رہتی۔ مگر یہ ضمنی بات ہے۔ میں اب آپ کو تفصیل سے اس مسئلہ پر وہ باتیں سمجھاتا ہوں جواز خود ان مسائل سے فقہ کی موجودہ اس زمانہ کی بحثوں سے جو چیزیں اُٹھنی چاہئیں اور جن پر واضح طو رپر فیصلے ہونے چاہئیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
مختلف اسلامی ممالک میں اس سلسلہ میں جو نیا رحجان ہے وہ پوتے کو کچھ دلوانے کا رحجان ہے اور یہ دلیل کہ کیسے دیا جائے، یہ مختلف ہے۔ چنانچہ اکثر اسلامی ممالک میں جہاں یہ فیصلہ ہوا ہے وہاں وہی طرز اختیار کی گئی ہے۔ جو ہماری فقہ احمدیہ میں اختیار کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ گویا پوتے کے حق میں وصیت کرنا دادا کا فرض ہے ۔ اور اس فرض کی ادائیگی سے قاصر ہوجائے تو خدا کی سزا کامسئلہ نہیں ہے صرف۔ ہم یہ سمجھیں گے کہ گویا اس نے وصیت کردی اور اگر وصیت نہ کرے تو پھر پوتے پوتیوں کا حق ہے کہ وہ قضاء میں جاکے بھی یہ فیصلہ کروائیں اور قضاء اس صورت میں لازماً یہ فیصلہ کرے گی کہ اس کا فرض تھا۔ اس لیے اس نے وصیت کردی۔ اب یہ بہت پیچدار بات اُٹھائی گئی ہے۔ فرض کیسے تھا؟ اگر فرض ایسا تھا کہ نہ بھی کرتا تو ہونی سمجھی جاتی ۔ تو قرآن کریم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اُن کاحصہ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس کووصیت فرمائی جارہی ہے۔ کہ تم ان کے نزدیک یہ بالکل غلط خیال ہے میں آگے ثابت کروں گا۔ ان کو نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ شخص جس کا بیٹامر جائے اور اس کے بھائی وغیرہ بھی ہوں تو اس کا فرض ہے کہ اس بیٹے کے حق میں وصیت کریں۔ اگر نہیں بھی کرے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ تو ہم نے دلوانا ہی دلوانا ہے۔ اس لیے پھر یہ سمجھ لیں کہ وصیت کردی۔ یہ عجیب و غریب منطق قرآن کریم کے مزاج کے بالکل منافی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قرآن کان کو اس طرف سے پکڑنے کی بجائے دوسری طرف سے پکڑے یہ فقہاء نے پکڑا ہے کان قرآن کریم نے نہیں۔اور اس طرز فیصلہ کے نقائص ایسے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کو کیوں زیر بحث نہیں لاتے۔ مثلاً نواسے نواسی کی بحث کیوں نہیں اُٹھائی گئی ، پوتا پوتی کی بحث اُٹھائی گئی ہے تو نواسے نواسی کی کیوں نہیں۔ بیٹی بھی تو حقدار تھی۔ یہ آپ نے اپنے رسم و رواج کے مطابق قرآن سے وہ فیصلے چاہے ہیں جو جہالت کے زمانہ کے فیصلے ہیں۔ بڑی شان کے ساتھ ہم قرآن کریم کوسب دنیا میں پیش کرتے ہیں کہ وہ لڑکی محروم جس کو ورثہ میں بانٹا جاتا تھا اس کو وارث قرار دے دیا۔ متعصب مستشرقین بھی بول اُٹھے ہیں کہ واہ واہ کیا فیصلہ ہے۔ اور اپنے علماء اس بیٹی کو عملاً مرحوم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ پھر صرف دادا پوتے کی کیا بحث ہوتی ۔ دادا پوتا، دادا پوتیاں، دادا نواسہ، دادا نواسیاں او ریہ بحثیں بھی اُٹھنی چاہئیں تھیں، ان سب کو دلوانا چاہیے تھا اور پھر اس بیوہ کا کیا قصور ہے۔ کسی بیٹے کی بیوہ جس کے بچے نہیں ہیں اگر وہ وارث ہوتا تو اُس کی بیوہ کو کچھ نہ ملتا۔ اس کو قرآن کی رو سے 1/4ملتا اگر اسکے بچے نہ ہوتے۔ تواس کا ذکر ہی کوئی نہیں۔ تو کیسی فقہ ہے جو قرآنی مضمون میں دخل دیتی ہے اور سارے نظام کو اُلٹا کے رکھ دیتی ہے۔ اصولی فیصلہ صرف یہ ہونا چاہیے تھا کہ کیا باپ کی زندگی میں بیٹے حقدار ہیں اس کے مال کے برابر کے کہ نہیں۔ اگر حقدار ہیں تو پھر بیٹیاں بھی اُسی طرح حقدار ہیں جس طرح بیٹے حقدار ہیں۔ پھر وہ بیٹے بھی حقدار ہیں جو لاولد مرجاتے ہیں اور شادیاں ہوئی ہوئیں ہیں۔ وہ بیٹے بھی حقدار ہیں جولاولد مرجاتے ہیں کیونکہ شادیاں ہی نہیں ہوئیں۔ تو پھر ان کا حصہ اس طرح تقسیم ہونا چاہیے جس طرح شریعت نے ایسے لوگوں کا حصہ واضح طور پر مقر ر فرمادیا ہے۔ ایک آدمی کا بیٹا وارث ہوتا ہے یعنی مرنے کے بعد تو تسلیم شدہ بات ہے۔ ان کے نزدیک وہ مرے یا نہ مرے وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق اپنے باپ کی جائیداد کا گویا ایسا ہی وارث ہے جیسے اس کی زندگی میں مرچکا ہو۔ تاخیرسے عمل ہورہا ہے، انتظار ہے کہ وہ مرے تو پھر اس پر عمل ہو ۔ یہ held in suspense ہے معاملہ سارا لٹکا ہوا ہے کہ والد مرے گا تو فیصلہ ہوگا۔ یہ اصول ہے جو انہوں نے تسلیم کیا ہے۔ اب جو بیٹا لاولد مرگیا ہے یا شادی سے پہلے مرگیا ہے اس کو اس شق سے کس طرح نکالیں گے۔کوئی حق نہیں ہے نکالنے کا۔ اس لیے یہ پھر سمجھنا چاہیے کہ ایک بیٹا مرگیا چھوٹے ہوتے دوسرا بیٹا مرگیا۔ ان دونوں کے حصے ان کو پہلے دیئے جائیں ۔ پھر اگرماں زندہ ہو تو چونکہ وہ لاولدمرتے ہیں تو ان کی ماں کا حصہ نکالا جائے اور پھر باقی حصہ ورثاء میں اسی طرح حصہ تقسیم کیاجائے جس طرح کلالہ کا حصہ تقسیم ہوتا ہے اور کلالہ کا حصہ تقسیم ہونے میں ایک حصہ اس کا ایسا بھی ہوگا جو ان میں سے کسی کو بھی نہیں ملے گا۔ بہن بھائیوں میں سے کسی کو نہیں ملے گا۔ وہ ٹکڑا الگ رہ جائے گا۔
پھربیوہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ بیچاری کیوں محروم رہے۔ میاں بیوی دو ہی ہیں ابھی تو حادثہ میںبیٹا فوت ہوجاتا ہے کسی کا تو اس کی بیوہ کو باہر نکال دیں گے یا جب وہ مرے گا تو پھرآئے گی واپس حصہ لینے کیلئے ۔ اگر آئے گی تو کیا جواب دو گے اس کو۔ کیا اصول ہیں؟ وہ لاوارث مرا تھا تو پھر جو بیٹے چھوڑکے مرا وہ کیسے لاوارث نہیں مرا؟ تو سارا نظام وصیت قرآن کریم کا ان فیصلوں نے اُکھاڑ کے تتر بتر کردیا ہے۔ جو قرآن کریم کی تعلیم میں دخل دینے کا لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔ اپنے جو جاہلانہ تصورات یا رواجات ہیں ان کی پیروی کی گئی ہے اور قرآن کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنیادی اصول یہی ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں مالک ہے۔ جو ورثہ پائے بغیر مرجائے وہ ورثہ پائے بغیر مرگیا۔ اور حادثات کے نتیجہ میں ایک ہی خاندان میں اونچ نیچ ہوجایا کرتی ہے اس کو روکنے کا کوئی بھی اختیار نہیں کسی کو۔ کوئی بچہ امیر ہوجاتا ہے، کوئی غریب ہوجاتا ہے۔یہ کہاں سے نکالا ہے کہ ساروں کو برابر ضرور ایک ہی حال میں رکھا جائے۔ سب کے بچوں کو ایک ہی حال میں رکھا جائے ۔ تومالی اونچ نیچ اور حالات کا اختلاف یہ زبردستی یکساں کیا جاہی نہیں سکتا۔ اسلامی مالی نظام اور اس کی تقسیم میںکوئی کارل مارکس کا اصول کارفرما نہیں ہے۔ خدا نے جو اقتصادی قوانین بنائے ہیں ان کی روشنی میں اگر وہ قانون نافذ ہوتے تو کسی کارل مارکس کی ضرورت ہی کوئی باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ جس طرح جائیدادوںکو تقسیم کردیا گیاہے۔ بعض ہاتھوں میں اکٹھی رہ ہی نہیںسکتیں اب۔ اورکوئی لاکھ ناپسند کرے اگر شریکوں میں بیٹی بیاہی گئی ہے تو وہ لے کے جائے گی مال ۔مجال ہے جو اس کو روک سکے اگر قرآن پرعمل کرنا ہے ۔تو کہاں وہ صاحب جائیداد زمیندارایسے پیدا ہوںگے جو رفتہ رفتہ جائیدایں بڑھاتے چلے جائیں اور اس پر قابض ہوتے چلے جائیں اور ایک حصہ لاوارث رہتا چلا جائے۔ یہ قرآنی تعلیم کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لیے سب سے کم اشتراکیت کے امکانات ان اسلامی ممالک میں جہاں اگرچہ شریعت پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا مگر اس حد تک ہورہا ہے کہ وہاں زیادہ اونچ نیچ نہیں ملتی۔ اگرتیل کی دولت اچانک ظاہرنہ ہوتی اور اس پر بعض لوگوں نے غاصبانہ قبضہ نہ کیا ہوتا تو اسلامی ممالک میں کم سے کم اونچ نیچ ہے۔ اس کے مقابل پر ہر دوسرے ملک میں اونچ نیچ جو ہے وہ غیر معمولی طور پر ہے۔کہیں دولتوں کے پہاڑ بن گئے ہیں اور کہیں سطحیں گرتے گرتے بنیادی سطح سے جس پر انسان زندہ رہ سکتا ہے اس سے بھی نیچے گر گئی ہیں۔
تویہ باتیں اسلامی نظام کی روح سے تعلق رکھنے والی یں۔ جس نے پیدا کیا ، جس نے نظام جاری فرمایا وہی حقدار ہے یہ فیصلے کرے۔ اور رحم کے نام پر تمہیں اس کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ۔ اور اگر دو گے تو پھر سارے نظام کو بگاڑ دو گے۔ (وہ) تمہیں کہا ں سے حق مل جائے گا۔ للذکر مثل حظ الانثیین ۔ اب یہ قانون ہے جو اگلی آیت کا عنوان بنا ہوا ہے۔ اور اس کو یہ لوگ کس طرح توڑتے ہیں۔ اب آپ دیکھیں کہ یہ کہتے ہیں کہ اگر بیٹا باپ کی زندگی میں مرجائے تو وارث تو وہ ہوگا ہی! کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی اولاد یعنی پوتا پوتیاں وغیرہ وارث ہوں گے۔ بیٹیاں کیوں نہیں ہوں گی۔ یہ بحث میں پہلے کرچکا ہوں اس لیے اس کو ایک طرف چھوڑ دیتا ہوں۔ اب میں ایک مثال آپ کے سامنے رکھتاہوں۔ بیٹا چونکہ وارث کے حکم میں تھااس لیے وہ ضرور پائے گاخواہ وہ مربھی چکا ہو۔اس کا حق ورثہ گویا اس کی اولاد میں منتقل ہوجائے گا۔ یہاں تک تو ابھی کوئی تضاد نہیں ہے مگر جب ان قوانین کو زیادہ وضاحت سے آگے پڑھیں تو یہ لکھتے ہیں کہ 1/3 سے زیادہ اُس کو نہیں ملے گا۔ یعنی وہ بیٹا جو جوانی میں باپ کی زندگی میںفوت ہوجائے اور پیچھے اولاد چھوڑجائے اور اس کے اور بھی بیٹے اور بیٹیاں ہوں،تو مرنے والے بیٹے کو 1/3سے زیادہ نہیں ملے گا۔ یہ 1/3کا اصول کہاں سے آیا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ وہ بعد میں اٹھائی جائے گی ۔ لیکن یہ تسلیم ہے ان لوگو ں کو۔ اس کامطلب تو پھر بنتاہے کہ اگر ایک بیٹی ہواورایک بیٹا ہو ، ایک بیٹا مرنے والے کی زندگی میں پہلے مرچکا ہو جس کاورثہ تقسیم ہونا ہے اس کی زندگی میں ہی، اس کی موت سے پہلے مرچکا ہوتو پیچھے کیا رہ گیا ایک بیٹی۔ٹھیک ہے۔ ایک بیٹی رہ جائے تو اس کا نصف حصہ مقرر فرمایا گیا وہ نصف کی مالک ہوگئی اور جو بیٹا مر چکا ہے اس کی اولاد کو 1/3سے زیادہ نہیں دیا جائے گا۔ تو بیٹی زیادہ لے گئی اور بیٹاکم لے گا۔ اس قانون کے مطابق کیونکہ وہ خداکا قانون نہیں ہے، ان لوگوں کا قانون ہے۔1/3کے چکر میں پڑ کر جب یہ نئے قانون کے ساتھ اس کی مطابقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو عجیب و غریب نتیجے پیدا ہوتے ہیں۔ اور عجیب و غریب بات ہے کہ اگر وہ وارث تھا تو پھر اپنی بہن سے اس کو دوگنا ملنا چاہیے تھا۔ اپنی بہن کے برابر بھی نہیں ملا، اس سے بھی کم ملا اور یہ ابھی قرآن کے مطابق ورثوں کی تقسیم کررہے ہیں۔ اور یہی نقص ہماری فقہ میں پیدا کردیاگیا ہے ۔ اور جو میں بیان کررہا ہوں اور آگے بیان کرو ں گا۔ اس کی روشنی میں دوبارہ افتاء میں یہ مسائل پیش ہونے چاہئیں۔ ہرگز قرآن کریم کی واضح قطعی روح کے منافی اپنے وہم کے نتیجہ میں فیصلے کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اس ساری فقہ میں کہیں بھی نواسہ اور نواسی کی بحث ہی نہیں اُٹھائی گئی۔پوتا پوتی پر لگے ہوئے ہیں سارے۔ پوتا پوتی کہاں سے آگئے بیچ میں۔ اگر قرآن کا اصول ہے تو پھر قرآن کے پیچھے چلو۔ لڑکی کا حق قائم کرو پھر سارے تمام دوسرے حقوق جواس تعلق میں قائم ہوتے ہیں، وہ سارے قائم کرو۔ تب چاہے غلط فیصلہ بھی ہو کم ازکم یہ توکہہ سکتے ہیں کہ تم نے دیانتداری سے غلطی کی ہے۔ لیکن اگراس کو چھوڑ کر غلط فیصلے کرو گے جو قرآن کے منافی ہوں گے تو یا بیوقوفی سے غلطی کی ہے یا بددیانتی سے غلطی کی ہے تیسرا کوئی حکم نہیں لگ سکتا۔ اس لیے یہ جو صورت حال ہے اس کو اسی طرح رہنے نہیں دیا جاسکتا۔ جب تک اصولوں کے مطابق جو قرآن کے اصول ہیں ازسر نو ان معاملات کو سلجھایا نہ جائے۔
دوسرا پاکستان کا قانون وہ سب مسلمان ممالک سے الگ ہے اور انہوں نے اپنی طرف سے اس بات کو پیش نظر رکھ لیا ہے۔ ایک پہلو ہے وہ بہتر ہے۔ جبکہ بعض فقہ کے ماہر بننے والے احمدی وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا قانون سب سے زیادہ اسلام سے دور ہے اور باقی اسلامی ممالک کا قانون اسلام کے تابع ہے۔ عجیب و غریب دلیل دیتے ہیں ۔ پہلے میں اسلامی قانون کا خلاصہ بتادیتا ہوں۔ جو پاکستانی قانون ہے ، پاکستان میں صرف پوتا پوتی کو نہیں بلکہ نواسے نواسیوں کو بھی ورثہ میں شامل کیا گیا ہے(حوالہ) ۔ اس کی تفصیل بعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال اتنا ضرور ہے ۔لیکن پاکستان کا قانون پھر بھی ناقص رہتا ہے۔ پاکستان کا قانونobligatory requestکے نام سے جاری ہوا ہے جو دادا، نانا ایسی وصیت نہ کرسکے تو عدالت اس کی اس طرح کارروائی کرسکتی ہے۔ گویا اس نے کی تھی یعنی یہاں بھی 1/3تو خود ہی آجائے گا۔ میرے ذہن پرجو اثر ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ اس کی بنیاد انہوں نے وہی بنائی ہے جو ہمارے دوسرے فقہاء نے بنیاد بنائی ہے کہ گویا اس نے وصیت کردی اور اسی قسم کی درخواست کو ہر دوسری رضاکارانہ درخواست پر ترجیح دی جائیگی جو کہ متوفی نے اصلاًاپنی وصیت میں کی تھی۔ جو قانون ہے اسے Inheritance by rightکا نام دیا گیا ہے۔ Obligatory requestکے تابع اس قانون کو جاری کیا گیا ہے۔ یعنی وہ وصیت جو لازم تھی اُس کی روشنی میں جو قانون بنایا گیا ہے اس کا نام ہے Inheritance by right ،قانون کے الفاظ یہ ہیں۔ یہاں جو پہلو ہے وہ اسلام کے قریب تر ہے بجائے اس کے کہا جائے کہ اسلام سے دورتر ہے۔ بیٹے یا بیٹی کی وفات کی صورت میں جبکہ وہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے فوت ہوتا ہے تو متوفی کے بچے اگر اس وقت زندہ ہیںتو وہ اسی حصے کے وارث ہوں گے جن کا وارث ان کی ماں یا باپ بنتے اگر وہ زندہ ہوتے۔ اس میں پھر 1/3کی وضاحت نہیں ہے ۔ مگر obligatory requestکے تابع ہے۔
تو یہ تمام ایسے فقہاء جو اس کو تسلیم کرتے ہیں ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ 1/3سے زیادہ ایسی صورت میں باپ وصیت نہیں کرسکتاکیونکہ وصیت کی جس آیت کی طرف وہ اس مضمون کو پھیرتے اور اس سے روشنی لے رہے ہیں بظاہراس کے تابع تمام فقہاء کو تسلیم ہے کہ یہاں غیر وارث کی وصیت کی بات ہورہی ہے۔ اس لیے اب یہ مضمون سمجھنا بڑاضروری ہے۔ وہ آیت جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ وصیت کرے یعنی جب تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ وصیت کرے۔ یہ ہے وہ obligatoryوصیت۔ اور وصیت کیا کرو اس کی تفاصیل نہیں ہیں۔ اس پر یہ بحث اُٹھ کھڑی ہوئی کہ کیا قرآن کریم کی اس آیت میں اس وصیت کی آیت کومنسوخ کردیا ہے۔ جس میں تفصیل تھی کہ بیٹے اس طرح حصہ پائیں گے بیٹیاںاس طرح حصہ پائیں گی۔ ماں اس طرح، باپ اس طرح وغیرہ وغیرہ۔ یا اُس آیت نے اس آیت کو منسوخ کردیا ہے کیونکہ اگر اس نے منسوخ نہیں کیا تو پھر یہ کیسے اُس آیت کے خلاف وصیت کرسکتا ہے۔ اگر اس نے اس کومنسوخ کردیا ہے تو پھر وصیت کر ہی نہیں سکتا۔ یہ آیت منسوخ شدہ فہرست میں نسیاً منسیاً ہوجائے گی۔ اس تضاد کو دور کرنے کیلئے جو تضاد ہے نہیں دراصل فقہاء نے یہ بات سمجھ لی کہ یہاں غیر وارث کے حق میں وصیت ہے اور وصیت جن لوگوں کے حق میں قرآن نے واضح کردی اور کھول دی کہ بیٹا دو حصے پائے گا بیٹی ایک حصہ پائے گی۔ اس میں دخل اندازی کا حق یہ آیت نہیں دیتی۔ بلکہ ہر شخص کو اپنی جائیداد کا 1/3حصہ تک غیر وارث کو دینے کا حق ہے، یہ وصیت ہے۔ یہ مضمون اپنی ذات میں ابھی مزید تحقیق طلب ہے۔ 1/3کا حق کہاں سے نکالا گیا۔ قرآن کریم نے تو کہیں نہیں لکھا کہ غیر موصی کو تم1/3حصہ تک دے سکتے ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے جب ان باتوں کو پہلے زمانہ میں پڑھا تھا تو زیادہ تربنا فقہاء کی اُن احادیث پر ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے بعض قربانیاں پیش کرنے والوں کو کہاں کہ 1/3 سے زائد میں نہیں لوں گا۔ باقی تمہارے اپنے بچے ہیں ان کے حقوق ہیں ان میں تقسیم کرو۔ اس بناء پر اس سے ایک فقہی اصول بنایا گیا اور اس بات کو بھلادیا گیا کہ خود ایسی ہی حدیثوں بلکہ اس سے مضبوط تر سند کی حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنا سارامال پیش کیاتو سارا قبول کرلیا گیا اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنا نصف مال پیش کیا تو نصف قبول کرلیا گیا۔ اور یہ جو سیرت کی تقاریر ہیں اور سیرت کے مضامین ہیں ان میں علماء بڑے جوش و خروش سے پیش کرتے ہیں اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے غیرمعمولی قربانی کو اس طرح پیش کرتے ہیں۔ اب یہ کیوں قبول کیا گیا۔ او ر وہ کیوں قبول نہیں کیا گیا۔ اگر ایک جگہ قبول کیا گیا تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آنحضرتﷺ نے ہر قربانی کرنے والے کے اخلاص کے معیار کو پیش نظر رکھا اور اس کے دلی جذبہ کو بھی پیش نظر رکھا۔ اور اس کے اپنے خاندان سے تعلقات کو بھی پیش نظر رکھا اور ایسے فیصلے فرمائے جو آنحضرت ﷺکی فراست سے تعلق رکھتے تھے۔ کوئی فقہی فیصلہ نہیں فرمارہے تھے۔ فراست کے تعلق میں بہت سی باتیں آنحضرت ﷺ کے پیش نظر رہی ہیں۔ جن کو فقہ میں ان فیصلوں میں گھسیٹ کر علماء بہت مشکلات میں پڑ گئے ہیں۔ یہ سوچتے نہیں کہ بنیاد وہی ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے مال کا حقدار ہے۔ اور باپ کی زندگی میں اس کا بیٹا اور بیٹی اس پر کوئی حق نہیں رکھتے ۔ سوائے اس حق کے جس کو خدا نے ان کی اچھی تربیت کرو ان کی پرورش کرو ، ان کی ربوبیت کرو، ظاہر فرمادیا ہے۔ اس کے سوا قانونی حق نہیں رکھتے۔ بعض لوگ اندرنی جھگڑوں کی وجہ سے ایسے لوگوں کو محروم کرنے کی خاطر بظاہر نیکی کا لبادہ اوڑھتے ہیں اور یہ ساری جائیداد جماعت کے نام جیسے اب کرتے ہیں ویسے پہلے بھی کیا کرتے تھا۔ اورآنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر نیکی کے نام گویا رسول اللہﷺ کو نعوذ باللہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے تھے کہ یارسول اللہ! میری ساری جائیداد ہے۔ آنحضورﷺ کی سارے حالات پر نظر تھی۔ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگوں میں اتنا اخلاص و خلاص کوئی نہیں ہے۔ یہ بڑائی ہے۔ بدخلق لوگ ہیں اپنے بیوی بچوں کو محروم کرنا چاہتے ہیں اور یہ جائز بات نہیں۔ بعضوں کے متعلق یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ اخلاص سے تو کررہے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں جو بچے رہ جائیں گے اُن کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا۔ وہ کسمپرسی کی حالت میں رہیں گے مسکین بن کر لوگوں سے مانگتے پھریں گے۔ تو یہ نیکی دوسری نیکی سے متصادم ہے نہ کہ شرعی مسئلہ ایک دوسرے مسئلہ سے متصادم ہے۔ یہ استنباط کیوں نہیں کرتے علماء ،اگر یہ استنباط کریں تو اس قبیل کی تمام حدیثیں ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت کھائیں گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پورا وصول کرلیا ان کے خلوص پر کامل یقین اور اس بات پر بھی یقین کہ اُن کی اولاد دربدر دھکے نہیں کھائے گی۔ وہ کچھ الٰہی بشارات کے نتیجہ میں ہوگا۔ یا اپنی فراست کے نتیجہ میں ۔ جب یہ یقین تھا تو لیااور اُن کی اولاد نے کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگی۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نصف وصول کیا جتنا انہوں نے دیا۔ اور ان کے اخلاص کو قبول فرمایا۔ باقیوں کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کی نیکی کے طور پر میں یہ وصول کرلوں تو یہ نیکی بعض بچوں کے حق میں بدی بن جائے گی اور اپنے بچوں پر تو بے رحمی جو قرابت دار ہیں جن کا خدا تعالیٰ نے بار بار ذکر فرمایا ہے اور دوسرے اعلیٰ مقاصد کو اس طرح ترجیح دے دینا کہ ایک نیکی دوسری نیکی کا گلہ کاٹ رہی ہو، اُس کو قبول نہیں فرمایا۔ اور یہ جو مضمون ہے یہ ہر فیصلہ کے ساتھ آنحضرتﷺ کے ساتھ منسلک ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اگر آپ بااصول فیصلے کریں تو آنحضرتﷺ کے فیصلوں میں کہیں تضاد دکھائی نہیں دے گا۔ بعض جنگوں کے موقع پر جب رزق کی کمی اس حد تک پہنچی کہ بعض کھاسکتے تھے اور بعض بھوکے مرجاتے وہاں آپ نے سب سے منگوالیا اور کلیۃً ہر ایک سے لے لیا گیا۔ وہاں انفرادی ملکیت کے حق کو اگرچھوڑ ا گیا ہے تو کیوں چھوڑا گیا ہے۔ یہ سوال پھر اٹھتا ہے ۔ اس کی وجہ صاف نظرآرہی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے بعض بنیادی حقوق انسان کے قائم کیے ہیں جن کے بعد اگر اُن حقوق سے کسی کی دولت ٹکراتی ہے اس حد تک وہ اپنی دولت کا مالک نہیں رہتا ۔و فی اموالھم حقٌ للسائل والمحروم۔ ان کے اموال میں ایسی صورت بھی ہوسکتی ہے کہ غریب اور سائل کا حق شامل ہوگیا ہو۔ اس کا جو چاہے اورترجمہ کرے۔ رسول اللہﷺ کی یہ حدیث اس آیت کا ہر مضمون ہمارے سامنے رکھ رہی ہے کہ اگر اموال لوگوں کی ملکیت ہوں لیکن وہ ان کے کھاتے پیتے میں دوسرے لوگ بھوکے مررہے ہوں تو جو بنیادی حق خداتعالیٰ نے قائم فرمایا ہے آدم کے زمانہ سے شریعت کے آغاز میں کہ تم کھائو گے، پیئو گے، پہنو گے اور ننگے نہیں رہو گے، بے چھت کے نہیں رہو گے ۔ اس قانون سے جب وہ ذاتی ملکیت کا حق ٹکرائے گاتو یہ سمجھا جائے گا کہ ان کا حق ان زائد دولت رکھنے والوں کے حق میں داخل ہوگیا ہے۔ پس ایسے موقع پر جب کہ اجتماعی صورت میں دولت چند ہاتھوں میں بٹ کر بڑھ گئی ہو اور بقیہ دولت باقیوں کی کم ازکم ضرورتیں پوری کرسکتی ہو ۔ کسی کو اسلام حق نہیں دیتا کہ ان سے زبردستی چھینے ۔ کیونکہ یہ اقتصادی نظام کمیونزم پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن جب بعضوں کے بنیادی حقوق سے محروم ہونے کا خطرہ ہو تو ا سوقت اس آیت کا یہ معنی ہوگا کہ ان کا حق شامل ہوگیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی کے پاس زیادہ ہے وہ لے آئے۔ تھوڑا ہے وہ لے آئے۔ اور سب کو اکٹھا کیا او رپھر برابر تقسیم کردیا جو روزہ مرہ کی زندگی میں نہیں ہوتا تھا۔ روزمرہ کی زندگی کے عام حالات میں ایک فتویٰ اورایک طرز عمل ایک اورمعنے پیدا کرتا ہے اور خصوصی حالات میں ایک اور معنے پیدا کرتا ہے۔ لیکن ان میں تصادم نہیں ہے کیونکہ بعض بالا اصول کے تابع موقع محل کے مطابق ان اصول کی روشنی میں فیصلے ہورہے ہیں جن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
یہ صورتحال ہے جو 1/3والے حصہ پر بھی اطلاق پاتی ہے۔ 1/3کو اگر تم اس طرح تسلیم کرو گے اور پھر یہ بھی تسلیم کرو گے کہ جو مررہا ہے اس کے پہلے مرے ہوئے بیٹے کا حق شامل ہے تو پھر تم نے حدیث سے جو استنباط کیا وہ قرآن کے واضح فیصلہ سے متصادم ہوگیا۔ کیونکہ 1/3کو مان بیٹھے ہو کہ اولاد کے حق میں 1/3کا مضمون نہیں آرہا بلکہ غیر وارث کو دیا جارہا ہے۔ دو باتیںتسلیم ہوگئیں ایک تو یہ کہ جو مرنے والا ہے اس سے پہلے جو اس کا مرا ہوا بیٹا تھا جس کی جائیداد تقسیم ہونی ہے( یہ میں بار بار اس لیے کھول رہا ہوں کہ یہ مضمون عموماً لوگ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے یاد دہانی کرانی پڑتی ہے کہ کیا بات کررہے ہیں) ۔ایک شخص زید مرتا ہے، اس کا ایک بیٹا بکر اس سے پہلے مرچکا ہے اگر وہ وارث ہے تو لازماً بیٹیوں کے مقابل پر د وحصے پائے گااور بھائیوں کے ساتھ دو حصوں میں شریک ہوگا، قطعی بات ہے۔ اگر وہ غیر وارث ہے تو پھر ان کے اصول کے مطابق 1/3سے زیادہ اس کو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ 1/3تک تقسیم کرنے کا حق غیر وارث کو ہے۔ اپنی اولادکے متعلق یہ کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے یعنی وہ اولاد جس نے وارث ہونا ہے۔ اس کے حق میں فقہاء کے نزدیک 1/3اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کاجو حق ہے وہ چسپاں نہیں ہوتا، ان پر صادق نہیں آتا یعنی یہ مسلّمہ ہے تمام علماء کو۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر ایک شخص مررہا ہو تو اس آیت کی رو سے جس میں وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔و ہ اپنی اس اولاد کے حق میں اس وصیت کے حق کو اس طرح استعمال نہیں کرسکتا کہ بعضوں کو زیادہ دلوادے اور بعضوں کو کم دلوادے۔ کیونکہ یہ پھر تصادم ہے وصیت کی اُس آیت سے جو حصوں کو باقاعدہ تقسیم کرکے معین طور پر بانٹ رہی ہے جس کو نصیباً مفروضاً فرمایا گیا ہے۔ یہ مشکل ہے ۔اس لئے 1/3تک کی وصیت سے زائد بھی نہیں کرسکتااور 1/3وارثوں کے حق میں نہیں کرسکتا تو پھر جو مرچکا تھا اس کو غیر وارث کے طو رپر دیا گیا ہے اصل میں۔ یہ ماننا پڑے گا اس لئے وراثت کے سب بہانے ختم ہوگئے اگر وہ وارث تھا۔ تو 1/3کا قانون اس پر کیسے لگ جائے گا۔ وارث کو تو 1/3کے تابع کچھ دیا جاہی نہیںسکتا اور وارث کو جو مستقل تعلیم ہے اس کے تابع بیٹیوں بہنوں کے مقابل پر دو حصے اور بھائیوں کے ساتھ شریک دو حصے ملیں گے۔ مگر اس طرح انہوں نے آپس میں خلط مبحث کرکے سارا نظام وراثت الٹا پلٹادیا ہے اور کسی ایک اصول کے پیچھے بھی چل کر دیکھیں دوسرے اصولوں سے ٹکراجاتے ہیں۔(اب سمجھ گئے ہیں بات ڈاکٹر صاحب! نیند تو نہیں نہ آرہی۔ 1/3میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ مجھے دہرا کے بتائیں۔ کیونکہ ایک روز پہلے تجربہ ہوچکا ہے ۔ لیکن یہ نیا مضمون ہے اس لیے۔ مگر ہوسکتا ہے کچھ ایسے بھی ہوں جو آپ کی طرح زیادہ تیز نہ ہوں ۔ آپ کے بیٹے کو بھی سمجھ آگئی ہوگی میرے خیال میں۔ وہ بڑا ذہین ہے کیوں جی۔ آگئی ہے نا! دیکھئے۔ ماشاء اللہ ایک خاندان کو تو سمجھ آگئی اب باقی خاندانوں کو بھی آنی چاہیے) یہ جو 1/3کی بحث ہے میں نے واضح کردی ہے۔
اوّل یہ کہ1/3کا اصول قرآن کریم سے کہیں مترتب نہیں ہوتا، نکالا نہیں جاسکتا، مستخرج نہیں ہے۔ قرآن کریم میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ کوئی موصی اپنے وارثوں کے علاوہ غیر وارثوں کو اپنی جائیداد کا 1/3دے سکتا ہے درست۔ 1/3کا اصول احادیث سے منضبط کیا گیا ہے اور ان احادیث کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کو زیر بحث نہیں لایا گیا جو خود 1/3کے اصول سے متصادم ہیں اور یا کلیۃً بعضوں سے وصول کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اور بعض یہ ہے کہ سب سے سب کچھ وصول کرلیا تھوڑا بہت سب بحث ختم ہوگئی۔ ان حدیثوں کے درمیان میں رکھ کر پھر فیصلہ کریں ثابت کریں کہ آپ کا 1/3کا اصول جائز ہے ۔ پھر 1/3کا اصول غیر وارث کے حق میں مانتے ہیں۔ خود ہی جس شاخ پر بیٹھے تھے اس کو کاٹ دیا۔ یہ بیٹا چونکہ وارث ہے اس لیے اس کی اولاد کوملے گا۔ اگر وارث ہے تو 1/3سے زیادہ کیوں نہیں دے سکتے اور اگر نہیں دے سکتے تو پھر قرآنی حکم اس سے پھر ٹکراگئے کہ وللذکر مثل حظ الانثیین ۔ حدیث سے استنباط کرتے کرتے وہاں پہنچے جہاں قرآن کے اوپر تبر رکھ دیا اور اس کی واضح تعلیم سے بالکل متصادم بات کی اور اسے چھوڑ دیا ۔ اور اپنے استنباط کو قبول کرلیا اس کا تمہیں کہاں سے حق مل گیا۔
یہ ہیں جو جھگڑے اُٹھ کھڑے ہوئے اور پھر وراثت کے اصول کے تابع بیوائوں کو محروم کردیا ان کے حق سے ۔ بیوائیں بھی تو ہیں اس بیٹے کی بیوہ بیچارے کی جو مرگیا ہے۔ پوتے کی بڑی بحث چلی ہوئی ہے ،پوتا بہت پیارا ہے۔ لیکن قرآن پیارا ہوتا ہے۔ تو پھر قرآن نے جہاں جہاں حقوق قائم کیے ہیں ان سب کی بحثیں پورے جوش و خروش سے ہونی چاہئیں تھیں۔ بیوائوں کے حق میں بھی آواز بلند ہونی چاہیے تھی کہ تم غلط قوانین ہیںجو اپنی طرف سے بعض چیزوں کو قبول کررہے ہیں اور بعض چیزوں کو چھوڑ رہے ہیں جس کا قرآن تمہیں حق نہیں دیتا۔ بیوائوں کا بتائوکہاں رکھا ہوا ہے تم نے۔تو ہر ایسے مرنے والے کی بیوہ کو بھی اس کا حصہ اس میں ملنا چاہیے تھا۔ پھر یہ فیصلہ طلب بات ہے کہ کس عمر میں بچہ مرے تو وہ وارث ہے۔کس عمر میں مرے تو غیر وارث ہے۔ بعض لوگوں نے الرّجال کے لفظ سے یہ نکالا ہے۔ رجال اور نساء سے کہ یہاں صرف بالغ مرد اور بالغ عورتیں مراد ہیں۔ اگر یہ ہو تو یہ جو دوسری آیت ہے (تو پھر بعد میں کسی وقت بتائوں گا)اس وقت میں آپ کوبتاتاہوں یہ فیصلہ بھی تو ہونا چاہیے تھا کہ کون سابچہ وارث مرا ہے کون ساغیر وارث مرا ہے۔ اگر بچپن میں کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اوپر کیا حکم ہے۔وہ غیر وارث مرا ہے یا وارث مرا ہے اس کے حق میں وصیت فرض ہے کہ نہیں ۔اس کے حق میں وصیت ا س طرح فرض ہوسکتی تھی کہ ا سکے بھی تو بعض حقوق ہیں۔ باپ پہلے مرجاتا ہے تو وہ جس کا وارث ہونا تھا اس کی ماں اس کا ورثہ پائے گی اور وہ قانون جس آیت میںبیان ہے وہ آگے کھڑی ہوجائے گی کہ یہ دیکھو! یہ حق ہم قائم کرتے ہیں تم کون ہوتے ہو اس حق کو ہٹانے والے۔ اور پھریہ فقہاء نے بڑی دلچسپ بحثیں اُٹھائی ہیں کہ اگر باقاعدہ نکاح ہوجائے، مہر مقرر ہوچکا ہو تو پھر خواہ رخصتانہ نہ بھی ہو تو نصف تک اس کو ملنا چاہیے (ٹھیک ہے)اور اس میں عمر کی بحث کو بعض لوگ اڑادیتے ہیں بالکل کہتے ہیں چاہے بچہ ہو اس کا بھی نکاح جائز ہے۔ میں نے اس کی مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں۔
اب یہ دلچسپ بات میں اپنی والدہ کے حوالے سے بتارہاہوں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ساتھ میری والدہ کا نکاح ہوا اور باقاعدہ ان کی بیوی بنیں اور اس نکاح میں حق مہر وغیرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لازماً رکھا ہوگا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مسیح موعود علیہ السلام اس کو نہ رکھتے اور پھر یہ اگروارث بیٹا تھا جو فوت ہوا تو اس کا جو ورثہ کا بیوہ کو حق ملنا چاہیے تھا وہ کیوں نہیں ملامیری والدہ کو۔ پھر تو بات اوپر تک جائے گی ۔ساری ہماری جائیداد دوبارہ تقسیم ہونی شروع ہوجائے گی۔ تو جہاں بھی اسلام کے قوانین میں اپنی سوچوں اور اپنی جھوٹی ہمدردیوں سے دخل اندازی کریں گے وہاں سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور حرف آخر وہی بات ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے تفصیلی بحث چھیڑے بغیر ایک نکتہ میں بیان فرمادی۔ کہ پھر سلاطین پر بھی مقدمے کرو کہ تم ابنائے آدم ہو اور سار ے حصہ رسدی پر دوبارہ تقسیم ہوں گے دنیا میں۔ اس لیے یہ سب جھگڑے جو ہیں یہ بالکل اپنی دلی تمنائوں یا جو فقہ پڑھی ہوئی ہے۔ اس کے اثرات کے نتیجہ میں ہورہے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ جیسے فقہاء نے جو بات کہہ دی وہ حرف آخر ،وہ شریعت بنانے والے فقہاء تھے وہ شریعت بنانے والے نہیں تھے۔ شریعت سمجھنے کی ذمہ داری ان پر تھی جہاں ان سے غفلت ہوئی ہے۔ انسان ٹھوکر کھاتا ہے غلطی کا پتلا ہے۔ کئی وجوہات سے ہوجاتی ہیں ۔ ہمارا ہرگز یہ حق نہیں ہے کہ ہم ان غلطیوں میں ان کے پیچھے چلیں، اسلام ہمیں یہ حق ہی نہیں دیتا ۔ قرآن سے متصادم جس چیز کو تم پائو گے اسے ردّ کرنا تمہارا فرض ہے ۔ پس قرآن کے بالا اصول کو پہلے بنائو رہنما۔جو عنوان خداتعالیٰ نے ان آیات میراث میں لگا رکھے ہیں ان آیات کو درجہ بدرجہ پڑھواور اُن بالا اصولوں کی روشنی میں فیصلے کرو تو تصادم پید اہو ہی نہیں سکتا۔ ناممکن ہے اگر کوئی حصہ بخرا تھوڑا سا بغیر وضاحت کے رہ جاتا ہے تو پھر اسے یا تو غربا ء اور اقرباء میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ جن کا ذکر قرآن کریم ہی میں ملتا ہے ان کیلئے بھی توکوئی جگہ چاہیے تھی۔ بعض تقسیمات کو جب آپ حساب سے پڑھتے ہیں تفصیل سے توسب کچھ دینے کے بعدپھرکچھ ٹکڑے بچ جاتے ہیں ، وہ ٹکڑے کس کیلئے چھوڑے گئے ہیں۔ وہ اس آیت کی روشنی میں جو غریب فقیر لوگ ہیں یا ان کیلئے چھوڑے گئے ہیں یا ایک موصی نے وصیت کی ہوئی ہے تو اس وصیت کیلئے چھوڑے گئے ہیں جو اس نے اپنے حقوق کے اندر کی تھی۔ یہ جو مضمون ہے اس نے 1/3کی طر ف ان کو مجبور کیا ہے جانے کیلئے اصل میں۔ یہ نہیں سوچا کہ اس وصیت میں یہ حق ہے کہ کسی حد تک وہ اپنے اموال کو غیر موصیوں میں بھی تقسیم کردے اور یہ بھی حق ہے کہ فقرائ، غربائ، مساکین جو تقسیم کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں ان کے حق میں کوئی بات کہہ دے۔ اس خیال سے اس وجہ سے وہ وصیت جو ہے وہ قائم رہ گئی اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ہر جگہ اسلامی حکومت ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہاں 1/3کی بحث ویسے ہی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام جو پھیل رہا تھا اس زمانہ میں بھی اسلام کی حکومت کی حدود سے بہت دور تک آگے نکل چکا تھا اور وہاں قوانین جو تھے وہ جاہلانہ ، مشرکانہ یا بعض دیگر مذاہب کے قوانین چل رہے تھے جن سے اسلام بہت آگے نکل آیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیسے کامل کتاب ہوتی ۔ اگر وصیت کی وہی تعلیم دی جاتی جس میں 1/2اور1/3اولاد وغیرہ کی باتیں تو ہوئیں مگر ایسے ممالک کیلئے جہاں دوسرے قانون رائج ہوںان مسائل کیلئے کوئی حل پیش نہ کرتی۔ پس میرے نزدیک 1/3کی بحث سے قطع نظر ، وہ آیت کریمہ اپنی ذات میں نہ صرف بغیر تصادم کے موجود رہنی چاہیے بلکہ لازم تھا کہ یہ تعلیم اتاری جاتی۔ پس ایسے ممالک جیسے انگلستان ہے، جرمنی ہے جیسے افریقہ کے ممالک ہیں۔ چین ہے، جاپان ہے جہاں کے قوانین وصیت، اولاد کے حق میں بالکل اور فیصلے کررہے ہیں۔ وہاں یہ فرض ہوجائے گاکہ مرنے والا مرنے سے پہلے وہ وصیت کرے جس وصیت کی قرآن نے اس کو تعلیم دی ہے۔ پس کُتِبَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے اُس بچے کے حق میں وصیت کرے جو پہلے مرگیا۔ یہ زبردستی کی تعیین کی گئی ہے اس کا کوئی جواز بھی نہیں یہاں سے نکلتا۔ کُتِبَ کا مطلب ہے کہ لازم ہے اس پر وصیت کرنا جس کو یہ خدشہ ہو کہ انصاف نہیں ہوگامیرے مرنے کے بعد اور قرآنی ہدایات پر عمل نہیں ہوگا ۔ اس کا فرض ہے کہ قرآنی ہدایات کے مطابق وصیت کرے ۔ اُس وصیت میں یہ حصہ شامل ہے کہ اقرباء کا بھی خیال رکھنا۔ حصوں کی تقسیم نہیں ہے۔ اس لیے یہ عُرف پہ چھوڑ اگیا ہے ۔ معروف کے مطابق باتیں ہیں اور وہاں چونکہ قرآن نے حصے مقرر نہیں کیے اس لیے آپ کو بھی حصہ مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مرنے والا خود سمجھتا ہے کہ میں اسلامی تعلیم کے مطابق وصیت کی تاکید کر بھی جائوں تو کچھ اور اقرباء ہوں گے کچھ اور لوگ ہوں گے جن کے حق میں مجھے کچھ کہنا چاہیے کیونکہ قرآن مجھ سے تقاضا کرتا ہے۔ اس کیلئے حصے کی اور نسبت کی کوئی پابندی ظاہر نہیں فرمائی گئی۔ پھر اگر جھگڑے ہوں کہ اس کی گواہی کا نظام کیسے ہوتا، کون کس کے خلاف گواہی دے گا، کتنے آدمی اکٹھے ہوں گے، اگر کوئی جنگل میں ہو تو کیا کرے گا وغیرہ وغیرہ۔وہ سارے احتمالات کو پیش نظر رکھ کر تمام دنیامیں ہونے والے امکانات کو وصیت کے نظام نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ یہ ہے وہ مضمون جو میں ان آیات کی تلاوت سے سمجھتا ہوں۔ مگر جو علماء ہیں وہ چونکہ بہت زیادہ فقہاء کے پیچھے چل پڑے ہیں اور اصطلاحیں بنا بنا کر اصطلاحوں کے چنگل میں جکڑے گئے ہیں بالکل۔ ان کو میری نصیحت ہے کہ از سرنو غور کریں، قرآنی رہنما اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔ جہاں اُن سے تصادم ہو وہاں کسی بات کو قبول نہ کریں اور پھر از سر نو غور کریں کہ ہمیں وصیت کے نظام کوکیسے جاری کرنا چاہیے۔حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت گہرے عالم تھے اور بہت ہی وسیع نظر تھی ۔ یعنی آپ کا تقویٰ اور علم دونوںکا مقام اتنا بلند تھا کہ صحابہ میں ان کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔غیر معمولی شان ہے۔ تین چیزیں آپ کی شخصیت کا نمایاںحصہ تھیں ۔ ایک تقویٰ جو بہت بلند پایہ کا اور اس کے نتیجے میں آپ نے صوفیانہ طرز اختیار فرمائی۔ دوسرا علم۔ ظاہری علم ایسا وسیع اور ایسا مضبوط کہ شاذو نادر اس پایہ کے علماء آپ کو ملیں گے جو ظاہری علم کے لحاظ سے بھی اتنا وسیع گہرا علم رکھتے ہوں او رتیسری بات جو ان سب پر غالب تھی وہ خلافت سے اطاعت کا ایسا تعلق کہ خلیفہ ٔ وقت کے منہ سے جو بات نکلتی تھی اپنے علم کو دہرا لیتے تھے اور جانتے تھے غلطی ہوگی کوئی اگر میں اس سے مخالف۔ اور کبھی ایک بھی بات آپ کی ایسی نہ ٹھہری جو خلیفہ وقت کے ساتھ پوری طرح موافق نہ ہوگی اور اگر نہیں ہوئی تو خاموش رہے اور اس پرپھر کبھی زبان نہیں کھولی ۔ دوسرے علماء کا ایسا اختلاف ملتا ہے جس کو اخلاص کی کمی نہیں کہہ سکتے۔ ہر ایک کے تقویٰ کی پہچان الگ الگ ہے ۔ بعض لوگ اختلاف رکھتے ہیں جائز ہے، فقہ میں اختلاف رکھنا ہرگز ناجائز نہیں۔ مگر جو بات میں بیان کررہاہو ں حضرت مولوی راجیکی صاحب کی وہ یہ تھی کہ جن مضامین پر خلیفۂ وقت نے زبان کھول دی اور فیصلہ دے دیا اپنا پھرمضمون یا تو اس کے مطابق غو ر کرکے غلطی پکڑی اور ٹھیک کرلیا یا پھر خاموش ہوگئے کبھی اشارۃً بھی اس کے متعلق بات نہیں کی کہ نہیں یہ بات تو انہوں نے یوں کی تھی اصل میںیوں ہونی چاہیے۔انہوں نے حضرت مولوی صاحب نے بھی ایک یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ پر غور فرمایا اور ایک مضمون شائع کیا(کس الفضل میں شائع ہوا یہ۔ الفضل میں ہوا تھایا۔ یہ لکھا نہیں ہوا۔ میں نے ایک دفعہ پہلے کسی زمانہ میں یہ مضمون پڑھا تھااور مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ ہمارے کسی اخبار یا رسالہ میں شائع ہواہواتھا۔ وہاں سے لیا گیا۔ اب جب دوبارہ نوٹوں میں آیا ہے تو اس کا سر پیر نہیں ہے، کہاں سے آیا؟ کب لکھا؟ ہیں؟ ہاں ان کو کہیں حوالہ دیا کریں۔ جب وہ ایسی چیزیں بھیجتے ہیں جو علمی مضامین سے تعلق رکھنے والی ہیں تولازم ہے کہ حوالہ دیں، تاریخ اشاعت بتائیں۔کیونکہ بعض دفعہ بعض دوسرے فیصلے جو اس کے بعد کے ہیں وہ اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ترمیم کرنی پڑے گی بعض باتوں میں۔ مثلاً اس کے بعد اگرکوئی فیصلہ شائع ہوا ہے دوسرا، اس کو دیکھنا پڑے گا اس کی حیثیت کیاہے) ۔
آپ نے ایک اصول یہ بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء اقربیت کی بنیاد پر وارث قرار پاتے ہیں۔ اس اصول کے تحت میت کے والد کی موجودگی میں دادا وارث نہیںہوتا۔ٹھیک ہے؟ میت کے والد کی موجودگی میں دادا وارث نہیں ہوتا اور بیٹوں کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں قرار پاتا۔ یہ ان کاخلاصہ ہے جو سب سے پہلے بیان کرتے ہیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول مندرجہ بخاری لایرث ولد الابن مع الابن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ حدیث ان معنوں میں تو نہیں ہے یہ اثر ہے دراصل۔ حدیث اور اثر کا فرق یہ ہے کہ حدیث میں آنحضرت ﷺ کی طرف کوئی معین ہدایت منسوب کی جاتی ہے جو آپ نے فرمایا وہ حدیث ہے۔ بعض صحابہ نے آنحضرتﷺ کے اقوال اور آپ کے عمل کی روشنی میں ایک استنباط خود کیا ہے گویا وہ سمجھتے ہیں کہ رسولﷺ کا یہ مسلک تھا۔ مگر تقویٰ کے تقاضا کے پیش نظر یہ نہیں کہتے کہ یہ رسولﷺ کامسلک تھا ۔ وہ کہتے ہیں یہ یوں ہونا چاہیے ایسی باتیںجو صحابہ اپنی طرف سے کہیں ان کو اثر کہا جاتاہے۔ پس حضرت مولوی مبارک صاحب نے یہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول پیش کیا ہے حدیث نہیں ہے ان معنوں میں کہ لا یرث ولدُ الابنِ مع الابنکسی کا بیٹا دوسرے بیٹے کے ساتھ ورثہ میں شریک نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیٹا اور ایک پوتا دونوں بیک وقت وراثت میں حصہ دارنہیں ہوسکتے۔ یعنی سب بیٹے مرچکے ہوں توپھر جو پہلا قریبی ہے اس کے نہ ہونے کے نتیجہ میں ایک دوسرے اثر کے تابع پوتوں کو جائیداد جاسکتی ہے یا نواسوں کو بھی جاسکتی ہے۔ لیکن زندگی میں یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک اوپر کی شاخ اورایک نیچے کی شاخ کے بچوں میںجائیداد کسی اصول کے تابع برابر تقسیم کی جائے یہ ممکن نہیں ہے۔ اوریہ بات حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گہرے غور اور اُس زمانہ کے حالات پر نظر ڈالنے کا نتیجہ ہے جو میں نے (جیسا کہ) بیان کیا ہے۔ میرااپنا یہی مسلک ہے۔ یعنی ایسا مسلک نہیں ہے کہ جو آخری فقہی فتویٰ کے طور پر ہے۔ درس کے تعلق میںمیرا تفسیری مسلک یہی ہے جو میں کھول چکا ہوں۔
دوسری بات یہ اٹھائی ہے کہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے علماء کا اتفاق کہ یتیم پوتا وارث نہیں قرار پاتا لن یجمع اللہ علی الضللۃ (الحدیث)۔ یہ ایک دوسری بات آپ نے یہ پیش فرمائی ہے کہ آجکل کے زمانہ میں جو رحجان ہوگیا ہے پوتے کو وارث قرار دینے یا یہ ایک نیا رحجان ہے۔ پرانے فقہاء میں سے ہر مسلک کے فقہاء پر نظر ڈال کے دیکھیں کسی مسلک کے فقہی نے بھی کبھی یہ فتویٰ نہیں دیا کہ اس بیٹے کے بچے جو کسی کی زندگی میںفوت ہوگیا ہو وارث ہوسکتے ہیں۔ اور چونکہ یہ بھی حدیث ہے کہ امت کبھی بھی گمراہی میں تمام تر جمع نہیں ہوسکتی ضرور استثنائی آوازیں اُٹھنی چاہئیں ۔یہ ناممکن ہے کہ ساری امت(جو اجماع کہا جاتا ہے جس کو۔ اس کو ایک اور رنگ میں حضرت مولوی صاحب پیش فرمارہے ہیں) گمراہی پر اجماع نہیں ہوسکتا یہ ناممکن ہے۔ پس پرانے فقہاء کا اس بات پر اتفاق یہ ہمارے فقہاء پیش نہیںکرتے۔ زیر بحث ہی نہیں لاتے(دیکھا ہے آپ نے وہ؟)۔ حضرت مولوی صاحب نے جو بڑی گہری نظر یہ بات لازماً پوری تحقیق کے بعد کہی ہے۔ تیسری بات آپ یہ فرماتے ہیں ۔ اگر شفقت کو بنیاد بنایا جائے جیسا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ شفقت بنائی ہوئی ہے صرف۔ تو پھر یتیم نواسے کو نانا سے ۔ یہ وہی دلیل مولوی صاحب نے اُٹھائی ہے اور یہ میں آپ کو بتارہا ہوں کہ چونکہ حضرت مولوی صاحب کی سوچ قرآن اور حدیث کے مطابق تھی اس لیے یہ نہیں ہے کہ میںنے پہلے وہ پڑھ کر اور یاد کرکے پھر آپ کو بتائی ہے یہ بات۔ مجھے جس بات کی خوشی ہے ، وہی سوچ میری از خود جو پید اہوئی ہے وہ حضرت مولوی صاحب کی سوچ کے ساتھ عین مطابقت رکھ رہی ہے۔ سوائے بعض ایسے علمی حصوں پر جن پر میری نظر نہیں تھی، حضرت مولوی صاحب کی تھی۔ مگر طبعی فیصلوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس درس اور پہلے درسوں کے دوران میں نے یہ باتیں محسوس کی ہیں کہ جو استنباط میں کرتا ہوں اللہ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان حصوں کا جب اس نظر سے مطالعہ کیا جائے تو عین مطابق نکلتے ہیں اور یہ اللہ کا بڑا فضل اور احسان ہے۔ اب نواسے کو بھی انہوں نے اُٹھایا ہے اور یتیم بھتیجے کو بھی مالدار چچا سے حصہ ملنا چاہیے۔ اگر شفقت کی باتیں کرتے ہو تو ان غریبوں کو کیوں چھوڑ دیا ہے ۔ دادا کو یتیم پوتے کیلئے وصیت کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ہر مسلمان پر جملہ مستحقین کیلئے وصیت کی تلقین ۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو میں پہلے آپ کے سامنے پیش کرچکا ہوں ایک ذرہ کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ کسی مسلمان کو قرآن کریم کی ان آیات کی رو سے مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ضرور وصیت کرے۔ اللہ کی طرف سے ایک تلقین ہے اور وہ تلقین محض پوتوں کے حق میں نہیں ہے۔ یہ غلط ہے کہ اس تلقین کو پوتوں کے حق میں محدود کردیا جائے۔ تمام بیٹیوں کے حق میں بھی ہوگی اور تمام یتامیٰ اور مستحقین اور اقرباء جو بالعموم خاندان سے تعلق رکھنے والے لیکن غرباء ہیں ان سب کے حق میں تلقین ہے تو پھر جیسا ان سے سلوک کرو گے ویسا پوتوں سے بھی کرو۔ لیکن پوتے کے حق میں جہاں تک غیر وارث کے حق میں کچھ کہنے کاتعلق ہے یا نواسے کے حق میںجہاں تک غیر وارث کے حق میں کچھ کہنے کا تعلق ہے ، یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ اولیٰ ہے بہرحال، اوّلیت اسی کو ہے۔ اور اگلی آیت اسی مضمون کو تقویت دے رہی ہے کہ دیکھویتامیٰ کے حقوق کا خیال رکھنا۔ ان بچوں کے یتامی جو تمہارا وارث ہوئے بغیر مر گئے ہیں وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ کس حد تک ان کو دیا جاسکتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ یہ 1/3 والی بحثوں کی مزید چھان بین کے بعد جب کوئی قطعی اصول طے ہوجائے گا پھر وہ treetہوں گے اور غیر وارث کے طور پر ہوں گے اور غیر وارث کے طو رپر treatہوں گے۔ تو ایسی ہی تعلیم نہیں دی جاسکتی کہ وہ جو ورثاء قرآن کی روشنی میں ہیںوہ زیادہ حصہ پائیں گے۔ کیونکہ حصوں کو الٹانے کی بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ توتصادم قرآن کریم میں کسی صورت میں نہیں ہوگا۔ ان باتوں کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہمارے علماء کو چاہیے کہ از سر نو اِن باتوں پر غور کریں۔
اب اس کے بعد ملک صاحب والی کا جو تفصیلی مضمون ہے وہ میرے نزدیک پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی جو دلائل دیے ہیں وہی بنارہی ہیں بات جو درحقیقت مولوی راجیکی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مضمون میں بھی آگئی میں بھی بیان کرچکا ہوں۔ دلائل دیتے وقت بڑے تقویٰ کے ساتھ کہتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث پیش کرکے فرماتے ہیں جس کی بناء پر جو متفق علیہ حدیث ہے قریبی عَصبہ یعنی بیٹے کی موجودگی میں دورکا عَصبہ یعنی پوتا محروم ہوگا۔ دیکھ لیا آپ نے یعنی نتیجہ بالکل صحیح نکالا۔ لیکن آخر پراپنے رحم کے نتیجہ میں رستہ وہ نکالا دوسرا کہ ہر دادا پر فرض ہے کہ وہ اس پوتے کے حق میں وصیت کرے جس پوتے کو قرآن کریم لازماً حصہ دار اور وارث قرار نہیں دیتا۔ ان دو باتوں میں تضاد نہیں ہے؟ یعنی نتیجہ نکالتے وقت بالکل صحیح نتیجہ نکالتے ہیں کیونکہ آخرایک بہت بلند پایہ اورمتقی بزرگ تھے مگر وہ تاثرجو ہے نا اس دورکا تاثر، لوگوں کی باتیں، یہ ڈر کہ قرآن کریم پر یہ اعتراض نہ ہو کہ پوتوں کو چھوڑ دیا گیا اور اسی قسم کے معاشرتی دبائو جو نیک نیتی اورنرمی پرمبنی تھے۔ ملک صاحب کا دل بڑا نرم تھا تو اس وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو ایک اور رستہ سے دخل دینے کی اجازت دے دی۔ وہ وہی جس کوبعض دوسروں نے بھی اٹھایا ہے کُتِبَ کہہ کے فرض قرار دے دیا ہے۔ اور فرض بھی ایسا کہ اگرنہیں کرتا تو قضاء لازماً کروائے گی۔ تو وصیت کا کیا مطلب اگر لازمی کروانا ہے تو پھر حصہ مقررہوگیا۔(یہ ہے جی وصیت کا مضمون)۔ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام (میں دیکھ رہا تھا) بعض باتیں دوسری بھی کہنے والی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنا تاثر کیا تھا۔ جب آپ کو خوشخبری ملی ہے اور ان کی بیوی کا تاثرکیا تھا۔جب ان کو یہ خوشخبری ملی ہے حضرت ابراہیم کا تاثر یوںبیان ہوا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔و نبئھم عن ضیف ابراہیم- ا ذدخلوا علیہ فقالوا سلٰمًا۔
ابراہیم کے مہمانوں کے متعلق بھی خبر دے ان کو ۔ دنیا کو بتادے کہ اصل واقعہ کیا ہوا تھا۔ اذدخلوا علیہ فقالوا سلٰمًا۔ وہ مہمان جب ابراہیم کے گھر داخل ہوئے علیہ سے مراد اس پر داخل ہوئے نہیں۔ مراد ہے آپ کے گھر میں داخل ہوئے یا آپ کے سامنے حاضر ہوئے۔ علی وجھہ کا مضمون بھی ہوتا ہے۔ اس لیے عَلیٰکا لفظ استعمال ہوا ہے۔کہ آپ کے سامنے حاضر ہوئے ۔ قالوا سلٰمًاانہوں نے کہا سلام۔ قال انا منکم وجلون۔ جواب میں سلاماً فرشتوں نے کہاجو داخل ہونے والے تھے۔ تو کہا انا منکم وجلونہم تم سے کچھ ڈر رہے ہیں۔ اے آنے والو تم سے ہم کچھ خوف رکھتے ہیں۔ قالوا لا توجل کوئی خوف نہ کرو۔ یہ جو خوف رکھتے ہیں کا مضمون ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کو پہلے سے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ قوم کی بدکرداری کہ وجہ سے اس کی سزا کا فیصلہ ہورہا ہے یا حضرت لوط کے حالات سے آپ واقف تھے اور یہ ڈر تھا کہ کچھ ہونے والا ہے تو سلام کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہمیں آناتو خوش آمدید۔لیکن کچھ ڈرتا ہوں کہ کچھ بات ہے، اس کے پیچھے کوئی تکلیف دہ بات ہے۔ انہوں نے فرمایا تمہیں کیا اس تکلیف دہ بات سے۔ لا توجل انا نبشرک بغلامٍ علیم۔ بالکل نہ ڈر ہم تجھے ایک بہت بڑے عالم بیٹے کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ اس کے جواب میں فرماتے ہیں۔ قال ابشرتمونی علی ان مسنی الکبر فبما تبشرون۔ کیا تم مجھے خوشخبری دیتے ہو ایسی صورت میں کہ مجھے بڑھاپے نے آلیا ہے۔ مسنی مجھے چھوگیا ہے بڑھاپا۔ مطلب یہ نہیں کہ ابھی شروع ہوا ہے۔ مسنی الکبر کا مطلب ہے کہ بڑھاپے نے آ لیا ہے۔ یہاں مسَّ العذاب وغیرہ کاجو محاورہ قرآن کریم میں انہی معنوںمیں ہے گویا میرے جسم میں داخل ہوگیا ہے،مجھے چھوگیا ہے۔ فبم تبشرون تم مجھے کس بنا پر ’’فَبِمَ‘‘ کا ایک ترجمہ ہے کس بنا پر تم یہ خوشخبری دے رہے ہو۔ قالوا بشرنٰک بالحق فلا تکن من القانطین۔ انہوں نے کہا ہم تجھے حق کے ساتھ بشارت دے رہے ہیں۔فلا تکن من القانطین۔ پس ناامید وں میں سے نہ ہو۔ جو مایوس ہوجایا کرتے ہیں یعنی بڑھاپے کی طر ف جو اشارہ کیا تو انہوں نے یہ سمجھاکہ فرشتے یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مایوس ہیں۔ حضرت ابراہیم اس کو غلط قرار دیتے ہیں۔ قال ومن یقنط من رحمۃ ربہ الاالضالون یہ کیسے ممکن ہے کہ گمراہوں کے سوا دوسرے لوگ بھی خدا کی رحمت سے مایوس ہوں۔ یہ تو ناممکن ہے یہ بات کیا کررہے ہو۔ یہ بات نہیں ہے کچھ اور باتیں پیش نظر ہوں گی۔ ان باتوں میں یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بڑھاپے کی اولاد کو پیچھے کون سنبھالے گا ان کی تربیت اس طرح ہوسکے گی کہ نہیں جس طرح میں چاہتا ہوں۔ اور جس کیلئے میں دعائیں کرتا ہوں کیونکہ جب بھی آپ نے دعا کی ہے اس میں اولاد کے حق میں غیر معمولی طو رپر نیک ہونے اور خدا رسیدہ ہونے کی دعائیں شامل تھیں ۔ اور جب دعا نہیں بھی کی اور خداتعالیٰ نے آپ کو اپنی ذات کے متعلق خوشخبریاں دیں تو من ذریتیساتھ لگادیا ہر جگہ ۔ اور میری اولاد کو بھی۔ اولاد تھی یا نہیں تھی اس سے قطع نظر وہ ساتھ ہی مانگ لیا ہے۔ یہ روح تھی جس کے پیش نظرآپ نے کہا بڑھاپے میں ۔ یعنی اتنی دیر بعد اولاد ہورہی ہے جس کے بعد زندگی لمبی ممکن ہے کہ اتنی نہ رہے کہ انسان اپنی آنکھوں کے سامنے تربیت کرسکے۔
اب دوسری آیت میں لیتاہوں۔ سورۃ ذٰرِیٰت سے ، سورۃ الحجر کی یہ آیت تھی۔ آیات ۲۵ تا ۳۱ میں ہے۔(الذٰریٰت میں) ھل أتک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین۔ کیا تجھے ابراہیم کے معزز مہمانوں کی اطلاع نہیں ملی۔ کیا یہ خبر تمہیں نہیں ہنچی ۔ یہ جو حدیث ہے یہاں اس سے مراد ذکر ہے قطعی بات، کوئی سنی سنائی بات نہیں۔ بلکہ واقعہ مراد ہوتی ہے، حدیث کا لفظ استعمال تھا۔ بسا اوقات واقعات کے ضمن میں حدیث کا لفظ بولا جاتا ہے۔ حدیث کا لفظ اس حق میںبولا جاتا ہے ۔ کیا تجھے ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ نہیں پہنچا۔ اذ دخلوا علیہ فقالوا سلماً قال سلمٌ قومٌ منکرون۔ یہاں منکرون میں دراصل اسی بات کی طرف اشارہ ہے انا منکم وجلون ۔ ترجمہ کرنے والے ترجمہ کرتے ہیں۔ اجنبی لوگوں تو منکرون کا ایک مطلب ہوتا ہے کہ جن کی آمد اتنی پسندیدہ نہیں ہوتو، مہمان سر آنکھوں پر لگتا ہے وہ ایسے کام پر آئے ہو کہ ہم ڈررہے ہیں۔ اس لیے منکرون کا لفظ کہہ دیناآتے ہی ان مخفی خوفوں کی طرف اشارہ کررہا ہے او رمضمون اس سے متضاد نہیں ہے۔ جو پہلے بیان ہوا ہے اسی کے بیان کا ایک اور ذریعہ ہے۔ قال سلٰمٌ یہاں ایک بات زائد بیان ہوئی ہے۔ قال سلمٌ جو پہلے میں نہیں ہے۔ اس لیے بعید نہیں کہ یہ ایک موقع پر ایک دفعہ یہ خوشخبری ملی ہو تو یہ واقعہ ہوا ہو۔ایک اور موقع پرجب وہ خوشخبری ملی ہو تو وہ واقعہ ہواہو۔اوربعض دفعہ ایک خوشخبری باربارملتی ہے مختلف صورتوں میں ملتی ہے ۔ حضرت مریم کے تعلق میں واضح طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ بارہا خوابوں میں بھی خوشخبری ملی اور فرشتوں نے متمثل ہوکر بھی خوشخبری دی۔ پس یہ کہنا کہ ایک ہی واقعہ کے دوبیان ہیں یہ بھی درست نہیں یہ واقعہ بار بار ہوا ہوگا۔ اور جب ہوتا ہے تو کسی قدر فرق کے ساتھ سوال و جواب ہوتے ہیں۔ بعینہٖ انہی باتوں کو سوفیصدی دہرایا جاتا ہے۔ فراغ الی اہلہ فجاء بعجل سمین ۔ تو ان کو چھوڑ کر قومٌ منکرون کا ترجمہ اجنبی کرنا بھی اس لحاظ سے درست ہے۔ کہ مراد یہ ہوسکتاہے کہ تم جانے پہنچانے لوگ نہیں ہو۔ اور اس پہلو سے یہ ترجمہ کرنا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے ۔ا گر وجلون کے ساتھ ایک ہی واقعہ بنا یا جائے تو پھر یہ مطلب بنتا ہے جومیں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اب دوسری تشریح کی رو سے میں بتارہا ہوںکہ یہ جو واقعہ ایک سے زائد بارہوسکتا ہے۔ اس دفعہ جو یہ واقعہ ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام علاقے کے لوگوں کو جانتے تھے اور جانتے تھے کہ خداتعالیٰ بعض دفعہ دوسرے لوگوں کے ذریعہ بھی باتیں پہنچاتا ہے۔ ان کا آنا، ان کی طرز ، ان کے چہروں کا نور ظاہر کررہا تھا کہ یہ کوئی عام آدمی نہیں ہے۔ تبھی فرمایاالمکرمین بہت معرزز دکھائی دینے والے لوگ تھے۔ اوران کو منکر کہا ان معنوں میں زیادہ قرین قیاس لگتا ہے کہ یہ واقعہ وہ پہلے وجلون والا نہ ہو دوسرا واقعہ ہو۔ اورمنکر ان معنوںمیںکہ یہ اجنبی لوگ ہیں کبھی دیکھے نہیں گئے اس علاقے میں ۔ ہیں معزز مگر باہر کے ہیں۔اگر یہ درست ہے کہ بعینہٖ اس کے مطابق اس سے اگلی آیت اس کی تشریح کررہی ہے اس کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ فراغ الی اہلہ فجاء بعجل سمینٍ۔ ان سے یہ پوچھا ہی نہیں کہ تم بھوکے بھی ہو کہ نہیں۔ کھانا کھانا ہے یا کھاچکے ہو۔جیساکہ آجکل ہمارے ہاں عموماً پوچھ لیتے ہیں مہمانوں سے ۔ پہلے حاضرو کرو یہ اعلیٰ اخلاق ہیں۔ ابراہیمی سنت یہ ہے۔ اور اس جھگڑے میں نہ پڑو۔ کہ کھانا کھایا ہوا ہے کہ نہیں کھایا ہوا۔ کیونکہ جب یہ پوچھا جاتا ہے کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے گھروںمیں بھی ہوجاتاہے یہ واقعہ میں ان کو روک دیا کرتا ہوں۔ کیونکہ اگلے کو ابتلاء میں ڈالنے والی بات ہے۔ بعض لوگ کھانے کے وقت آتے ہیں۔ شرم محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بات ختم کریں اور گھر جائیں۔ اب ان سے پوچھ لو کہ کھانا کھایا ہے کہ نہیں کھایا تو کئی بیچارے اخلاق اور سچائی کے درمیان فیصلہ نہیںکرسکتے ۔ وہ اخلاق پر سچائی کو قربان کردیتے ہیں کہتے ہیں کھایا ہوا ہے۔ اور کئی بیچارے پھنس جاتے ہیں اور کہتے ہیں نہیں کھایا۔ اور ساتھ یہ کہتے ہیں کہ کھایا تو نہیں لیکن کوئی بھوک بھی نہیں ۔اس قسم کی مصیبت میں ڈالنے کی ضرورت کی کیا ہے۔ کھانا ہوتو سامنے بلا لو کہ آئو کھانا کھائیں اور اگر نہیں ہے تو پہلے کچھ پیش کرو۔ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کھایا ہے کہ نہیںکھایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ سنت تھی فراغ الی اہلہ فجاء بعجل سمینٍ۔ اپنے اہل کی طرف متوجہ ہوگئے اور موٹا پلا ہوا بچھڑا ذبح کرکے لائے ہیں پکاکے اور اس عرصے کے دوران کچھ وقت بھی لگا ہوگا بہرحال۔ ایک سیکنڈ میں تو وہ ذبح نہیں ہوا ہوگا اور وہ اس وقت تک انتظار کررہے ہیں۔ فقربہ علیھم قال الا تأکلون ۔ ان کو پیش کیا کہ کچھ کھائو گے نہیں۔ حیران ہوگئے ہیں۔ کیونکہ اوّل تو اکثر مہمان آتے ہیں تو راستے میں ہوٹل تو نہیں ڈرائیور ہوٹل تو نہیںہوا کرتے تھے اس زمانے میں تو وہاں سے کھاکے آگئے ہوں گے۔ عموماً یہی خیال ہوتا ہے کہ بھوکے ہوں گے وہ سفر کرکے آئے ہیں اور اتنا عرصہ کہ ایک بچھڑے کو پکڑا ہے ذبح کیا ہے اور اس کو بھونا ہے اور اس قابل ہوا ہے کہ پیش کیاجاسکے۔ اس میں توکھانا کتنا بھی کھایا ہودوبارہ بھوک لگ جاتی ہے اور اس کی خوشبو جو اُٹھتی ہے اس سے تو کھائے ہوئے پھر بھی صبرنہیں ہوتا۔ پھر اسی لیے تعجب سے پوچھا ہے۔ الا تأکلون فاوجس منھم خیفۃ۔ اب یہاں بھی ’’خیفہ‘‘ کا ذکر آگیا ہے۔ خوف محسوس کیا۔ پہلے واقعہ میں وہ ساری وہ بات نہیں دہرائی گئی ۔ اس لیے یہ امکان تو رہتا ہے کہ دونوں ایک ہی واقعہ ہو۔ اس امکان کو اگر سمجھاجائے تو پھر یہ شکل بنے گی کہ وجلون جو پہلے فرمایا تھا وہ ایک واقعہ گزرنے کے بعد ان سے بعض آثار ظاہر ہوئے ہیں تب وجلون کہا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے خوشخبریاں بعض دفعہ ایک سے زیادہ مرتبہ آتی ہیں۔ تو اس وقت جو خوشخبریاں ہیں وہ الگ حالات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں الگ باتیں ہوتی ہیں ۔ وہاں اس قسم کی تفصیل کو نہیں دہرایا گیا۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ پہلے واقعہ میں صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے اور آپ کا جواب ہے اور بات وہاں ختم ہوگئی۔ اس واقعہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری نہیں دی گئی۔ عورت ان کی بیگم کو خوشخبری دی گئی ہے۔ قالوا لا تخف و بشروہ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو خوشخبری دی گئی ہے مگر اس رنگ میں کہ بیگم کے سننے میں خبر دی گئی ہے اور وہ سننے کے بعد اپنی طرف اس خوشخبری کو منسوب کرتے ہوئے بیچ میں پھر اس میں دخل دیتی ہے۔ قالوا لاتخف و بشروہ بغلامٍ علیم۔ غلام علیم وہی ہے کہ صاحب علم بیٹے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ فاقبلت امرأتہ فی صرّۃٍ فصکّت وجھھا وقالت عجوزٌ عقیم عورتیں بعض دفعہ اپنے چہرے پر تھپڑ مارلیتی ہیںتعجب کے اظہار کے طور پرہیں ہیںواہ واہ یہ کیا بات ہوگئی ہے۔ اور یہ جو عورتوں کا رحجان ہے یہ قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ اس لیے کچھ اس میں مشکل کوئی نہیں ترجمہ کرنے میںاس لیے ترجمہ کرنے والے خود شرم محسوس کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں اس طرح مارا ہے اس نے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی غالباً ترجمہ کرتے وقت یہی دقّت محسوس کی ہے۔ فرماتے ہیں اتنے میں اس کی بیوی آگئی جس کے چہرے پر شرم کے آثار تھے اور پس اس نے زور سے اپنے ہاتھ چہرے پر مارے اور بولی کہ میں تو ایک بانجھ بڑھیا ہوں۔ اٌقبلت امرأتہ فی صرّۃٍ ( صرّۃٍ کا معنی شرم ہے) شرم کے آثار چہرہ پرجو تھے یہ اس لیے کھولا گیا ہے میرے نزدیک کہ ہاتھ مارنا چہرے پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عجیب لگا۔خصوصاً اتنے بڑی نبی کی بیوی کے بارے میں یہ ترجمہ کریں گے کہ انہوں ے تھپڑ مارلیا ۔ کوئی وجہ بیان کردی جائے جو اس واقعہ کاجواب بیان کرے۔ آپ نے شرم کو اس واقعہ کا جواز بتایا ہے صرّۃً کا لفظ اب دیکھیں (کیا؟ سیاہی کے؟ ہاں توسیاہی ہوئی نہ پھر)۔ چہرے پر سیاہی آگئی تو شرم تو نہیں نا وہاں صرّۃٍ کا تعلق شرم سے تونہیں ۔ میں یہ بتارہا ہوں کہ جہاں ادب کے پہلو ہوں۔ ادب کے تعلقات ہوں۔ وہاں مترجمین احتیاط کرکے حتی المقدور اصل عربی کے الفاظ کو نرم کرکے دوسری زبان میں پیش کرتے ہیں۔ اس خوف سے کہ ہم جب ایسا ترجمہ کریں گے۔ تو گویا ہم سے ایک قسم کی بے ادبی ظاہر نہ ہوجائے اور پھر جو تشریح سمجھتے ہیں کہ کیاواقعہ ہوا ہوگا۔ منہ چہرہ سیاہ پڑ گیا ہے۔ اگر کہہ دیا جائے تو یہ سخت ترجمہ ہوگا۔ چہرے پر ہلکا سا سایہ آگیا کہہ دیا جائے تو نرم بھی ہے اور بات کے قریب بھی ہے۔ اور شرم کردیا جائے تو شرم سے بعض دفعہ چہرہ تمتما اُٹھا ۔ مگر اسے سیاہی سے ظاہر نہیں کیا جاتا، وہ سرخ ہوجایا کرتاہے۔ مگر بہرحال حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ اس کی بیوی آگئی جس کے چہرے پر شرم کے آثار تھے اس نے زور سے ہاتھ چہرے پر مارا کیونکہ یہ تو ترجمہ لازماً کرنا پڑے گا کہ فصکّت وجھھااس نے منہ پر تھپڑ مارا ہے اور کہا میں توایک بانجھ بڑھیا ہوں۔ میں کیسے ہوسکتی ہوں ۔یہاں جو تعجب ہے اس میںکچھ مایوسی کا پہلو ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاملے میں وہ پہلو نہیں ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب کے بعد فرشتے کچھ اور نہیں سمجھاتے۔ ان کو سمجھاتے ہیں قالوا کذلک قال ربک انہ ھوالحکیم العلیم۔ کہ دیکھ اے بی بی! ایسا ہی ہوگا۔ تو بڑھیا بھی ہے مسلّم۔ تو بانجھ بھی ہے تسلیم لیکن تیرے ربّ نے فرمایا ہے اس لیے ایسا ہی ہوگا۔یہ ہے دوسرا واقعہ ۔ تیسرا (ابھی وقت ہے میرا خیال ہے ساتھ ہی پڑھ لیںگے) ولقد جاء ت رسلنا إبراہیم بالبشری قالوا سلمًا قال سلامٌ فما لبث ان جاء بعجلٍ حنیذ ۔ یہ ہے اس دوسرے واقعہ سے بہت مشابہ ہے۔ پہلے میں فوری طور پر بچھڑا لانے کا ذکر نہیں تھا۔ یہ یا تو خلاصہ ہے یا تووہ اورواقعہ ہے۔ میںسمجھتا ہوں یہ امکان موجود ہے کہ پہلی خوشخبری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق ہو اور دوسری خوشخبری حضرت اسحق علیہ السلام کے متعلق ہو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے خوشخبری بائبل سے بھی ثابت ہے اور وہاں بیوی نے وہ بات نہیں کی کیونکہ گھر کی مالکہ دوسری تھی اور اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ مالکہ بن کے آنے والے مہمانوں میں گفت وشنید کرے اور مالکیت جتائے۔ تو یہ بعید نہیں ہے۔ سردست میرا یہ تاثر ہے۔ مزید تحقیق بھی اس پرکریں گے کہ پہلا واقعہ اگر کوئی اور ہے تووہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوشخبری کاہوگا جو پہلے بیٹے تھے۔ پھر دوسری دفعہ جب ہوا ہے تو یہ بوڑھی تو تھیں اور ان کاابھی تک کوئی بچہ نہیں تھا۔ اس لیے یہاں ان کا ذکر چلتا ہے۔ فلما رأی ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم و اوجس منھم خیفۃً قالوا لا تخف انا اُرسلنا الی قوم لُوطٍ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ عجلٍ حنیذٍ آنے کے باوجود ان کے ہاتھ اس طرف اُٹھ نہیں رہے تو پھر پریشان ہوئے ہیں اور خوف محسوس کیا ہے۔ قالوا لا تخف انہوں نے کہا خوف نہ کر ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ تیری طرف نہیں آئے ۔ یعنی خوف اپنی ذات کے متعلق نہیں کیا۔ اپنی قوم کے بارہ میں کہا کہ یہ کوئی اور مصیبت آنے والی ہے ہماری قوم پر۔ فرمایاکہ غم نہ کر فکر نہ کر یہ لوط کا واقعہ ہے لوط کے متعلق ہم پیغام لے کر آئے ہیں۔ اس پر فرمایا کہ قرآن کریم فرماتا ہے وامراتہ قائمۃٌ فضحکت فبشرنھا باسحق تب اس کی بیوی جو پاس کھڑی تھی وہ ہنسی ہے اس بات پر اور فضحکت کا ترجمہ گھبراگئی بھی کیا ہے ۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھبراگئی کیا ہے ۔ فضحکت کے تین ترجمے ممکن ہیں ۔ ایک ہے گھبراگئی ایک ہے ہنس پڑی اور ایک ہے حیض جاری ہوگیا۔ اور یہ ترجمہ بھی اس موقعہ پر چسپاں ہوسکتاہے۔ یعنی ایسی عجیب خبرتھی کہ بعض دفعہ بعض عورتوں کے بند حیض ایک اچانک حیرت انگیز خوف یا خوشی سے دھکا لگنے کے نتیجے میں جاری ہوجاتے ہیں۔ اور بعضوں کے دودھ جاری ہوجاتے ہیں۔ پس عورت کے رحمی جو اعضاء اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہوئے ہیں بچے کے تعلق میں وہ چھاتیاںہوں یا رحم ہو ان پر بہت بڑے واقعہ یا بہت بڑی اچانک خبر سے ضرور اثر پڑ جاتا ہے۔ تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہی خبر اثر اندازہوگئی ہو۔ اب اس سے ملتا جلتا مضمون حضرت مریم کے متعلق بھی بیان ہوا ہے۔ کہ جب وہ فرشتہ خوبرو آیا تو کوئی واقعہ گزرا ہے۔ حضرت مریم کے اندر جس نے کچھ تبدیلیاں پیدا کردی ہیں ۔ تویہاں پھر یہ مضمون یہ دونوں چونکہ ملتے ہیں اس لیے میرے نزدیک یہ دونوں حضرت اسحق علیہ السلام سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اور جہاںبیوی کا ذکر اور اس کے تعجب کا ذکر نہیں ہے وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ جو پہلے گزرچکا ہے کہ قالت یا ویلتی أألدو و أنا عجوزٌوّ ھذا بعلی شیخًا انّ ھذا لشیء عجیب ۔ اور اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نمائندگی میں بول پڑی ہیں کہ مجھے خوشخبری دے رہے ہو یویلتی وائے وائے کیا ہوگیا اٌنا عجوزٌاورمیں بڑھیا وھذا بعلی شیخًا یہ میرا بڈھا خاوند۔ ان ھذا لشیئٌ عجیب یہ تو عجیب سی بات ہے۔ قالوا اتعجبین من امراللہ انہوں نے کہا کہ کیا تو اللہ کے حکم پر تعجب کررہی ہے۔ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اہل البیت ۔ ا ے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ انہ حمیدٌ مجیدٌ۔ وہ بہت ہی قابل تعریف اور بہت ہی بزرگی والا ہے۔ وہ مجید کا جو لفظ ہے یہ حمید کے ساتھ اس لیے باندھا ہے کہ تیر ابچہ ہوگا لیکن جب رسائی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی پاک تبدیلیاں تیرے اند رپیدا کرے گا کہ گویا تو جوانی کی طرف واپس مڑ گئی ہے اور صحت کی حالت میں بچہ جنے گی۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی ضمناً ساتھ ہی حل ہوگیاوہ ہے اہل البیت کا۔ ترجمہ جو شعبہ کرتے ہیں وہ درست ہے یا جو ہم کرتے ہیں وہ درست ہے۔ وہ کہتے ہیں اہل البیت کا محاورہ بیویوں پر نہیں استعمال ہوتا اولاد پر ہوتا ہے۔ اور یہاں بیوی کو مخاطب فرما کر اہل البیت کہاجارہا ہے۔ اے اہل البیت! تم پر رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ تو قطعی طور پر ثابت ہوا کہ اہل بیت میں قرآن کریم خداتعالیٰ کے نزدیک اور قرآن میں جو بیان ہوا ہے اس کے مطابق بیویاں شامل ہوتی ہیں۔ اہل بیت سے الگ نہیں ہوتیں اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ انہ حمید مجید ۔ فلما ذھب عن ابراہیم الروع و جاء تہ البشری یجادلنا فی قوم لوطٍ۔ ان ابراہیم لحلیم اوّاہٌ مّنیب پھر جب یہ خوف گذر گیا ابراہیم کے دل سے تو جن خوفوں میں مبتلاء تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں کھانا بھی نہیں کھارہے ، یہ دشمنی کی علامت بھی ہوا کرتی تھی۔ یہ فرشتے تھے ۔ تو اس لئے تمثیل ہونے کے باوجود نہیں کھارہے کہ کوئی بڑی بری خبر لے کر آئے ہیں۔ تو لوط کا جب پتا چلا کہ یہ خوشخبریاںہیں مگرلوط کی قوم پر عذاب آنے والا ہے تو اس بارے میں بحث چھیڑ دی اللہ تعالیٰ سے۔ اوّاہٌ مّنیب بیحد ہمدرد اور بردبار تھے ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم خواور بیحد بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنے والے ۔ پس یہاں خدا سے جھگڑ ے سے یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ کوئی گستاخی ہے بلکہ حد سے زیادہ رحمت جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کی شان تھی وہ پھر یہ بحث کردیتی ہے کہ اے خدا چھوڑ پرے تو بخشنے والا ہے یہ تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ تین آیتیں ہیں الگ الگ۔جو میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اس کی روشنی میں جب پہلی آیت کی طرف دوبارہ جائیں گے تو وہاں بشرناک بالحق ہے کہ بشرناک باسحق نہیں ہے۔ اسحق کا ذکر اگرملتا ہے تو بیگم کے ذکر میں ملتا ہے۔ جہاں بھی ملتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوشخبری جو پہلی ہے اس میں کوئی ایسا ذکر نہیں ملتا ، نہ کھڑی ہوئی بیوی بولتی ہے۔ نہ وہ کوئی احتجاج کرتی ہے۔ اور رحمت سے مایوسی کا جو پہلااظہار ہے وہ یہاں ہوا ہے۔ جو پہلے واقعہ میں ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ دوسری دفعہ جب آئے ہیں توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال اُٹھایا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ واقعہ ہوبھی چکا تھا۔اس لیے جس بیوی کو بھی بچہ ملنے والا تھا اسی نے سوال اٹھانا تھا اور اسی نے اٹھایا ہوگا اور اسی نے اُٹھایا تھا۔ باقی پھر انشاء اللہ تعالیٰ کل۔ السلام علیکم
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ17؍رمضان بمطابق7؍ فروری 1996ء
درس میں جو بعض دوست کمی محسوس کررہے ہیں حاضرین کی اس کے متعلق ایک دلچسپ بات شاکر صاحب نے پیش کی تھی۔ میرے نزدیک توبڑی واضح وجہ یہ ہے کہ ایک تو سردی بھی زیادہ ہے ، ورکنگ ڈیز ہیں اور چونکہ لوگوں نے کام پہ جانا ہوتا ہے ، بچوں نے سکول ۔توان کیلئے ممکن نہیں ہے کہ اس وقت درس میں شامل ہوسکیں۔ اور جو گھر پہ رہتے ہیں بڑی عمر کے ان کیلئے سردی مانع اور گھر پہ ٹیلیویژن کی سہولت مہیا ہے۔ اس لیے یہاں بھی بہت سے ٹیلیویژن کے ذریعے دیکھ رہے ہیں۔ بعض جو آتے ہیں وہ کہتے ہیں ٹیلیویژن کے ذریعے بھی دیکھ سکتے ہیں مگر موجود ہونے کا مزہ بھی ہے اورآسکتے ہیں تو کیوں نہ آئیں۔ بہر حال شاکر صاحب نے ایک بالکل نیا تجزیہ پیش کیا ہے۔ شاکر صاحب کہتے ہیں کہ اگر کرسیاں لگادی جائیں تو بڑے لوگ آئیں گے۔ اس لیے میںنے ان سے وعدہ کرلیا ہے کہ اگلے ہفتہ اتوار کو دیکھیں گے ، یہ فیصلہ آج بھی ہوگا۔ ہفتہ اتوارکو اگر لوگ اتنے ہی ہوئے جتنے اب ہیں اور یہ ہال نہ بھرا تو شاکر صاحب کو کرسی پر بٹھادیا جائے گا۔ منظور ہے یہ فیصلہ۔ شاکر صاحب کو کرسی تب ملے گی اگر اس دن بھی نہ آئے تو (ہاں) اگر آگئے پھر نہیں ملے گی۔اچھا جی چلیں پھر شروع کرتے ہیں۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم ذریۃً ضعٰفًا خافوا علیھم فلیتقوا اللہ ولیقولوا قولاً سدیدًا- (النسائ:۱۰)
اس کا ترجمہ تفسیر صغیر سے ہے کہ جو لوگ ڈرتے ہوں کہ اگر وہ بعض کمزور اولاد چھوڑ گئے توان کا کیا بنے گا اور ایک ہے چاہے کہ لوگ ڈریں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ترجمہ اختیار کیا ہے اس کے پیچھے ایک حکمت ہے جو آپ کے نوٹس میںملتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ سب لوگ تو چونکہ اپنے پیچھے ذریت ضعفاکمزور ذریت چھوڑ کر نہیں مرا کرتے اور ان کو پھر کیسے یہ آیت تحریک کرے گی کہ اگر چھوٹی ذریت والے ہوں تو پھر کیا ہو ۔ تو اس کیلئے یہ طرز اختیار کی گئی ہے۔ ولیخش الذین لو ترکوا ممکن تو ہے نا کہ تم لوگ چھوٹی ذریت پیچھے چھوڑ جائو۔ پس وہ لوگ جن کیلئے ممکن ہے کہ وہ چھوٹی ذریت چھوڑ جائیں وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ چھوڑ جاتے تو کیا ہوتا۔ یہ ہے وہ طرز جو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترجمہ کی اختیار کی اور وجہ یہ لکھی ہوئی ہے کہ کیونکہ یہی تو نہیں لکھی ہوئی مگر جو میرے نوٹس آپ نے لکھے تھے اس میں ملتا ہے، اس میں ہے شامل نوٹ۔ میں پہلے وہیں سے شروع کرتا ہوں بات۔ لو ترکوا اس لیے فرمایا کہ بظاہر حالات یہ اندیشہ نہ بھی ہو تو بھی ایسے شخص کو ڈرنا چاہیے۔ یعنی بظاہر ایک شخص کے بچے بڑے بھی ہوں وہ بھی اس خوف میں جودلایا جارہا ہے اس میں مخاطب ہوجاتا ہے لَوْکے ذریعے۔ فرض کرو تمہارے بچے ہوتے تو تم کیا سوچتے ، کیا کرتے۔ اس لیے اس خیال سے ان چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کو جو تمہارے سامنے حاضر ہوئے ہیں ان کو رحم کی نظر سے دیکھو، ان سے حسن سلوک کرو، شفقت کی بات کرو۔ یہ ہے مراد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس لیے وہ ترجمہ ’’جو ہے‘‘ وہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک اور وجہ ترجمہ ’’جو‘‘ سے شروع کرنے کی یہ ہے کہ ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم الذین میں اور ڈرے جو لوگ لو ترکوا اگر وہ چھوڑتے یہ ۔ اگر اردو میں اس طرح ترجمہ کیا جائے تو یہ ٹھیک بنتا۔ ولیخش الذین لو ترکوا وہ لوگ جو اگر چھوڑتے ڈریں ۔تو ہم جو ترجمہ عام طور پر کرتے ہیں وہ یہ ہے ولیخش الذین عام لوگ ڈریں، سب لوگ ڈریں مگر الذین لو ترکوا کو جب اکٹھا پڑھا جائے تو یہ ترجمہ ہو نہیں سکتا کیونکہ الذین کی تعریف یہ ہے الذین لو ترکوا ۔ اس لیے یہ ترجمہ ہوگا ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم۔ مگر ولیخش میں الذین واضح ہے اور لو ترکوا ایک شرط مبہم ہے جو ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہوسکتی۔ یہ دقتیں ہیں جو ترجمہ کرنے کا فن کچھ جانتے ہیں ان کو سمجھ آئیں گی۔ عامتہ الناس کیلئے اس کو سمجھنا مشکل ہے مگر جو میں ترجمہ کرتا رہاہوںوہ یہی ہے کہ سیدھا سادا ۔ الذین میں کچھ مضمون حذف سمجھا جائے یعنی یہ سمجھا جائے کہ معروف بات ہے سب لوگ سمجھیں گے توترجمہ پھریہ بنے گا کہ چاہیے کہ لوگ ڈریں جو لوگ نہیں ہوگا پھر چاہیے کہ سب لوگ ڈریں۔ لو ترکوایہ سوچ کرکہ اگر انہوں نے اپنے پیچھے چھوٹی اولاد چھوڑی ہوتی ضعٰفًا جو کمزور ہوتے ۔ کئی پہلوئوں سے کمزورہوسکتے ہیں بچے۔ عمر کے کم ہونے کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے اور کئی باتیں اوربھی ضعٰفًا کی طرف اشارہ کرتی ہیں خافوا علیھم وہ اس بات پر ڈرتے تمام وہ لوگ یخشمیںسب شامل ہیں یعنی سب لوگ ڈریں اس بات سے کہ اگر وہ لوگ ایسے ہوتے جو چھوٹی اولاد پیچھے چھوڑتے اور دیکھتے کہ ہم جارہے ہیں اور پیچھے چھوٹی اولاد رہ رہی ہے تو ان کے دل کا کیا حال ہوتا۔ اس تصورکو سامنے رکھیں فلیتقواللہ پھر خدا کاخوف کھائیں ولیقولوا قولاً سدیدًا اور سیدھی صاف بات کہا کریں۔ کوئی ایچ پیچ رکھ کر قریبیوں کو ان کے حقوق سے یا یتیموں ، غریبوں ، فقراء اور مساکین کو اپنی بخشش سے محروم نہ کیا کریں۔قول سدید کایہاں تعلق یہی بنتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ بہانے بنالیتے ہے کہ ہاں تمہارے لیے بھی کچھ رکھا ہوا ہے۔ کچھ آنے والا ہے کچھ یہ ہوجائے گا فکر نہ کرو۔ تو کئی قسم کی چالاکیوں سے کام لیتے ہیں اور جو غرباء اس وقت اکٹھے ہوں یا فوراً اکٹھے نہ بھی ہوں عام طور پر آتے جاتے رہتے ہیں کیونکہ وفات کے وقت اکٹھے ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ضروری ایک ہی وقت ورثہ تقسیم ہونے لگا سارے اکٹھے ہوجائیں۔ کیونکہ ورثے اعلانات کے ذریعہ تو تقسیم نہیں ہوتے۔ اکثر جو شرکا ء ہیں یعنی ورثوںمیں شریک ہیں ایک دوسرے کے وہ آپس میں مل کر یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ جو معین واضح کھلے حصے ہیں وہ تو ہم شریعت کے مطابق بانٹ لیں گے۔ اب یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں گھریلو استعمال کی ، کچھ دوسری ایسی چیزیں ہیں خواہ وہ قیمتی ہوں یا بے قیمت ہوں ان کی تقسیم بالعموم ایک اور دو کی نسبت سے نہیں کی جاتی بلکہ یہ زیور اس کو فلاں ماں سے ملا تھا اس نے بات کی تھی کہ فلاں بیٹی کو چلا جاتا تو اچھا تھاتو اس لیے یہ اس کو دے دیا جائے۔ فلاں چیز اس نے دی استعمال نہیں ہوئی مگر یہ اس کی زندگی میں مثلاً فلاں بیٹی کو یا بیٹے کو پسند آگئی تھی تو اس نے کہا کہ ہاں میں تمہیں دے دوں گا یا دے دوں گی۔ اس قسم کی تقسیم ہے جو دراصل یہاں موقع محل کے مطابق چسپاں ہورہی ہے۔ ورنہ اعلان عام کے ذریعے جائیدادیں تقسیم نہیں کی جاتیں۔ جو کی جاتیں ہیں وہ شرعی حصوں کے مطابق کی جاتی ہیں۔ ان کے بعض دفعہ اعلان بھی کیے جاتے ہیں مگر یہ تناظر نہیں پیدا ہوتا جو یہاں پیش کیا جاریا ہے۔ اس سے مرادیہی ہے کہ روز مرہ کی گھر کی چیزیں ۔ یعنی ایک یہ مراد ہوسکتی ہے اور بھی ہوسکتی ہیں مگر میں اس وقت ایک آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ روزمرہ کی گھر کی چیزیں خواہ قیمتی ہوں خواہ غیر قیمتی ہوں بعض دفعہ بہت قیمتی چیزیں بھی ہوتی ہیں ان کو بھی آپس میں بانٹ لیا جاتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ عمومی سمجھوتے کے ذریعے اور عین معین قیمتیں نہیں ڈالی جاتیں۔ مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک کیمرہ تھا۔ وہ پرانا تاریخی کیمرہ اور اس کی خوبی یہ تھی کہ جتنا پرانا ہوتا جاتا تھا اتنا مہنگا ہوتا جاتاتھا اور کچھ چیزیں کوئی بندوق ہے کوئی ایسی دوسری چیزیں ہیں۔ اب ان کو ناپ تول کے مارکیٹ کی قیمتیں لگواکر بانٹنا ایک بہت عجیب بات ہے، بڑا مشکل کام ہے ۔ تو اس قسم کی چیزیں جو بعض دفعہ مہنگی بھی بہت ہوتی ہیں ان کو آپس میںخاندان کے لوگ مل کے بیٹھ کے بانٹتے ہیں جب وہ بانٹتے ہیں تو اس وقت ایسے بچوں کا بھی خیال کریں جو شرعی طور پر واضح تقسیم میںحصہ دار نہیں بنتے اور جو بچے ہوئے حقوق ہیں جن کی قرآن کریم نے نشاندہی نہیں کی لیکن بعض کونے کھدرے باقی چھوڑ دیے ہیں وہ اسی غرض سے چھوڑے گئے ہیں کہ ان سے استفادہ کرکے ان میں سے ان کو نکال دو پھر جو بچتا ہے وہ آپس میں بانٹ لو یعنی تقسیم اگر ایک دفعہ پوری ہوگئی تو پھر تو بچے گا ہی کچھ نہیں۔ تو ان غربائ، ان یتامی ،ان مساکین جو ذی القربی ہوں تو بھی ذی القربی نہ بھی ہوں تو بھی خاندان کے ملنے جلنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کے تعلقات ہیں آتے ہیں خدمتیں کرتے ہیں۔ بعضوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ حالانکہ خاندانی رشتے نہیں ہیں تویہ سارے لوگ میرے نزدیک اس مضمون میں داخل ہیں۔
اب ان کی ایک شق ایسی ہے جو چھوٹے ہیںنسبتاً بچے اور ان کی دیکھ بھال والا کوئی نہیں ہے ایسے موقعوں پر ان کو فضیلت دو ان کو فوقیت دودوسروں پر اور پہلے ان کا خیال کرو کیونکہ تمہیں یاد رہنا چاہیے ایسے موقع پرجب کہ تمہارا کوئی فوت ہو اہے اور تم رہ گئے ہو کہ تم تو بڑے ہو لیکن چھوٹے چھوٹے بھی رہ سکتے تھے۔ اگر تم چھوٹے رہ جاتے تو تم سے یہ کیا کچھ ہوتا اور یہ نہیں سو چ سکتے تو یہ تو سوچ سکتے ہو کہ تمہارے بچے سب ہوسکتا ہے بڑے ہوں یا چھوٹے ہوںمگر تمہارے بچے اگرچھوٹے ہوتے تو تمہارے دل میں کیا کیفیت پید اہوتی۔ اس لیے یتیموں کے احساس کیلئے۔ یتیم چھوڑنے والوں کے اس احساس کی طرف اشار ہ فرمادیا جو موت کے قرب کے وقت ان کو بے چین کردیتا ہے اور خاص طور پر مرنے والا ایسے بچوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور بہت زیادہ بے قرار ہوتا ہے جن کے کام وہ اپنے سامنے بنانہیں سکا جو چھوٹے چھوڑ گیا خواہ اس کے بڑے بچے بھی ہوں۔ یہ مضمون ہے نفسیاتی جس کا اس آیت میں ذکر ہے اس سیاق و سباق کے ساتھ۔ اس لحاظ سے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو کسی دوسری آیت کے مضمون کے منافی ہو اور قول سدید میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لارے دینے کے خلاف تعلیم ہے۔ جھوٹی لگی لپٹی باتیں کرکے ان کو کوئی سہارا نہ دو صاف صاف کہو کہ تمہارے ہم نے حقوق مقرر کرنے کا طریق اختیار کیا ہے دیں گے۔ نہیں دینا تو خاموش رہو یا قول معروف کہو۔ السدید لفظ کیا ہے؟
سَدَّ۔ یَسِدُّ۔ یَسَدُّ۔ صفت مشبہہ( ای السُّؤال من القول وہ بات یہ)صفت مشبہہ ہے السّدیدجس کے افعال ہیں سَدَّ۔ یَسِدُّاور یَسَدُّ۔دونوں طرح کے زیر زبر آتے ہیں ۔اس میںسَدَّ ہے ماضی اور یَسِدُّ مستقل یامضارع اور یَسَدُّ بھی پڑھا جاتا ہے۔السدید کو صفت مشبہہ کہتے ہیں جس میں سداد کا معنی پایا جاتا ہے اور مستقل پایا جاتا ہے اچانک نہیں بلکہ ایک صفت کے طور پر اس کو سدید کہیں گے۔ تو قول سدید جواس کی صفت ہے کسی خاص وقت سیدھا ہوگیا ، کسی خاص وقت ٹیڑھا ہوگیا یہ مراد نہیں ہے۔قول سدید وہ ہے جوسیدھا ہی رہے گا۔ قول سدید قول سدید ہی ہے اس میں کوئی خم آہی نہیں سکتا ،درست اور سچی بات کو کہتے ہیں۔ سد قولہ و فعلہجس شخص کا قول اور فعل دونوں سچے نکلیں اس کو کہتے ہیں سدّ قولہ و فعلہ ۔ سد الشیئُ اغلق خلدہ و رَدَم سلمہ۔ کسی چیز کے نقص کو دور کرکے اس کوسیدھا کرنا ، ہڈیاں جو ٹوٹی ہوئی ہڈیاں تو وہ جوڑی جاتی ہیں۔ یہی مضمون ہے سدید کرنے والا۔ سدیسُدُّوالا اور سدالشیئکسی چیز کو اس کے خم نکالنے اس کی خرابیاں دور کرے، ٹھیک ٹھاک کرکے جوڑ دینا، خلا پورا کردینا۔
توقول سدید کے ان معنوں کی رو سے دوبارہ دیکھیں کہ قُولوا قولاً سدیدًا سے کیا معنے اور بھی مل سکتے ہیں ۔ یہ معنی بنے کہ ان کے ساتھ صاف بات بھی کیا کرو اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرو جو ان کی کمزوریوں کو ٹھیک کرنے والا ہو، ان کی خامیوں کو دور کرنے والا ہو۔ جو خلا ملتے ہیں ان کے ہاںان کو پر کرنے والا ہو یعنی حسن سلوک کے ساتھ ان کی ضرورتیں پوری کرو۔ اب یہ وہ پہلو ہے جس کے متعلق آئندہ بھی آگے مختلف آیات کے حوالے سے ذکر آئیں گے۔ مفردات میںلکھا ہے کہ سداد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کوئی سوراخ یا دراڑ بند کی جائے۔ تو انہوں نے بھی یہ معنی لیا ہے غربت کو دور کرنے والے مال کو بھی سداد کہا گیا ہے۔ پس سداد دینے کی بحث نہیں ہے۔قولوا قولاً سدیدًا اس لیے مراد یہی ہے کہ ان کو یہ کہا جائے کہ ہم تمہارے متعلق یہ فیصلہ کررہے ہیں۔ مثلاً ایک تعلیم کا محتاج بچہ ہے۔ ایک خاندان کو کسی ایسے اوزار کی ضرورت ہے جو ان کے پیشے میں کام آسکتا ہے، ان کو خود کفیل کرسکتے ہیں۔ تو قول سدیدیہاں ان باتوں پر اطلاق پائے گا جو مختلف غرباء اور یتامیٰ وغیرہ میں ضرورت کی کمزوریاں ہیں اور ایسے موقعہ پر ان کو واضح طور پر کہہ دینا چاہیے کہ تمہارے متعلق بجائے اس کے کہ تمہیں کوئی چیزدے دی جائے ایک ٹکڑا کسی چیز کا۔ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ تمہاری مستقل کمزوریاںدور کرنے کیلئے تمہیں خود کفیل بنانے کیلئے یہ یہ اقدامات کریں۔ ایک عجیب و غریب چیز جو مفسرین نے یہاں اس آیت کے گرد بن لی ہے وہ بھی ذکر کرنی ضروری ہے۔ اس کی شان نزول نکالی گئی ہے ایک اور جو شان نزول ہے وہ ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ چونکہ کوئی معین روایت یہ نہیں ہے کہ اس وجہ سے یہ نازل ہوئی اس لیے عربوں کا دستور پیش نظر رکھ کر جو کہتے ہیں کہ دستور تھاانہوں نے اس آیت کی ایک عجیب و غریب شان نزول نکالی اور یہاں پیش کی ہے۔ میں لفظ شان نزول کے نیچے اس کو ڈھونڈ رہا ہوں اس لئے دیر لگ رہی ہے۔ ورنہ اس لفظ کے بغیر بھی یہ بار بار مفسرین نے جو باتیںاٹھائی ہیں ان میں شامل ہے یہ تقریباً سب مفسروں نے یہ بات یوں اُٹھائی ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو مریض کے پاس بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں تیری اولاد کی طرف سے تجھ سے کسی چیز کا محتاج نہیں۔ پس اپنے مال کی فلاںفلاں کیلئے وصیت کرجا اور اسے حکم دیتے رہتے ہیں وصیت کا اور وصیت بھی اجانب کیلئے یہاں تک کہ اس کے مال میں سے ورثاء کیلئے کوئی چیز بھی نہیں بچتی۔ آپ یہ جو scenarioبنایا گیا ہے یہ حیرت انگیز ہے ناقابل یقین ہے ، اصل حقیقی زندگی میں ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ مراد ہیں جو آکے مشورے دیتے ہیں مرنے والے کو کہ تمہارے بچوں کو تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ، احتیاج ہی نہیں ہے تم اپنے مال میں سے فلاں فلاں کو دے دو۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ بچے چھوٹے ہیں جن کا ذکر یہاں آرہا ہے تو مرنے والا پاگل ہے جو یہ بات سنتا ہے اور کہتا ہے ہاں ٹھیک ہے تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ بچوں کو کیا ضرورت ہے۔ چھوٹے چھوٹے بھوکے مرہی جائیں گے زیادہ سے زیادہ۔ اس لیے یہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔ عقل میں آہی نہیں سکتی۔ اور اگر وہ بڑے بچے ہیں تو وہ بیٹھے کیا کررہے ہیں ۔ مریض کوجو جان کنی کی حالت کو پہنچنے والا ہے کن لوگوں کے سپرد کرکے آپ کہا ں غائب ہوگئے ہیں سارے۔ ان کی روٹی ہانڈی پکارہے ہیں کہ وہ آکر مشورہ دے رہے ہیںاور وہ مررہا ہے سانس اُکھڑ گئے ہیں ، ڈاکٹروں کو بھی ہوش نہیں رہی اوریہ مشورہ دینے والے کہہ رہے ہیں کہ دیکھو دیکھودیکھو! مرنے سے پہلے فلاں کے نام لکھ جائو، فلاں کے نام لکھ جائو، فلاں کے نام لکھ جائو۔ اور اصل بچے جو ہیں چپ کرکے سن رہے ہیں بول نہیں سکتے بیچ میں۔ باپ کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کی باتیں نہ مانو۔ یہ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں دخل دینے والے۔ یہ تناظر ہے ہی بے تکا، غلط، بے حقیقت ۔ کبھی حقیقی زندگی میں آپ کویہ نقشہ نظر نہیں آئے گا عرب ہویا غیرعرب، کہ مرنے والے کے سانس اکھڑے ہوئے ہیں اور لوگ آکے بجائے اس کے کوئی دعا کریں کوئی عیادت کریں کہتے ہیں اوہو اوہو مرنے سے پہلے پہلے فلاں کے نام چیز لکھوادو اوراپنے نام نہیں گواہوں کے نام مشورے دے رہے ہیں کہ اس کو بھی لکھ جائو اس کو بھی لکھ جائو۔ بالکل قابل قبول بات نہیں۔ غیر حقیقی بات ہے اور اس آیت کو پڑھ کر دیکھیں وہاں یہ بات fitہوتی ہی نہیں۔
ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم ذریۃً ضعٰفًا خافوا علیھم فلیتقوا اللہ۔اب فلیتقوا اللہ سے انہوں نے مشورہ دینے والوں کو مخاطب بنالیا۔ وہ کہتے ہیں تم اس غریب بیچارے کوتو مشورہ دے رہے ہو اے لوگو! مشورہ دینے والو!یہ چیز اس کو دے جائو اور یہ چیز اس کو دے جائو۔ اگر تم مررہے ہو اور تمہارے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تمہیں کوئی ایسے مشورے دے گا تو کیسا لگے گاتمہیں۔ اس لیے خداکا خوف کرو اور سیدھی بات کرو۔ اب یہ قرآن کریم کا مضمون تو نہیں ہے۔ کسی ایسے شخص کاکلام ہو نہیں سکتا جو جانتا ہے کہ مرض الموت میں کیا کارروائیاں ہوتی ہیں۔ آنے والے کیا کہتے ہیں اور گھر والوں کا کس قدر اس وقت احترام ہوتا ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی ایسی بات کرسکیںجو ان کی یا مریض کی طبیعت خراب کرنے والی بات ہو۔ اس لیے یہ سب فرضی قصے ہیں ۔ اس کے پیچھے کوئی مصنوعی حدیث بھی نہیں صرف روایت ہے کہ عرب ایسا کیا کرتے تھے ۔ اب اللہ معاف کرے ان بیچارے عربوں کو وہ بھی نہیں ایساکیا کرتے ہوں گے۔ میںنہیں مان سکتا۔ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ عرب اس طرح کرتے ہوں۔ اپنے مردوں کو اس طرح لوگوں کے رحم پر چھوڑ دیں۔ یعنی مریضوں کو جو مرنے والے ہیں۔ تو یہ مفسرین کو جو شوق ہے شان نزول کا یہ اس کی پیداوار ہے سب۔ سیدھی بات وہی ہے کہ ایک عام انسانی فطرت ہے کہ اپنے حوالے سے وہ زیادہ ہمدردی کے مضمون کو سمجھتا ہے۔ اس لیے مرنے کے بعد جو لوگ ہیں وہ مخاطب ہیں اور ان سے یہ کہا گیا ہے کہ غرباء اور یتامیٰ سے ایسا سلوک کرو کہ جو تم اگر جوانی میں مر جاتے چھوٹے بچے چھو ڑ کر تو چاہتے کہ تمہارے غرباء اور یتامیٰ سے کیا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اس کا ترجمہ ، ہاں ایک اور بھی بحث اس میں وہ بھی ناسخ منسوخ کی بھی ہوئی ہے نا۔ اسی آیت میں ہے یاہیں۔۔۔ اس دن نوٹ دیکھے تھے تو آپ کو بتایا تھا اسی میں ہی ہے۔ اچھا وہ اگلی میں آئے گی۔ایک ناسخ منسوخ کا بڑا شوق ہے لوگوں کو۔جس بات کی سمجھ نہ آئے فوراً نسخ منسوخ۔ نسخ کرتے کرتے اور منسوخ کرتے کرتے پانچ سو آیات تک کو مختلف وقتوں میں مفسرین نے منسوخ قرار دے دیا یعنی پانچ سو ناسخ بنیں توپانچ سو منسوخ ہوئیں اور ایک ہزار آیات سے اعتبار اُٹھ گیا۔ کتنی خوفناک بات ہے لیکن خداتعالیٰ نے خود عقل دی۔ ایک کے بعد دوسری صدی میں مجددین ایسے پیدا ہوئے ، ایسے خدا ترس علماء پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اس کو پسندنہیں کیا اس بات کو اورغور کیا کہ کہاں تک ممکن ہے کہ نسخ کا جو داغ لگ رہا ہے اس کو اُڑایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے حل تجویز کرنے شروع کیے اورکہا اوہو! یہ تو خواہ مخواہ نسخ منسوخ لگائی ہوئی ہے۔ ان دو آیتوں کا تو تضاد ہی کوئی نہیں۔ یہ سمجھو تو اس طرح پھر تضاد دورہوجاتا ہے۔ ان کی اس کاوش کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ پانچ سو سے آیتیں گھٹنی شروع ہوئیںاور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک بیس تک سنا ہے پہنچ چکی تھیں۔ یعنی پانچ سو پہلے بڑھنی شروع ہوئیں پھر پانچ سو سے گھٹنی شروع ہوئیں۔ جب بیس کے قریب پہنچ گئیں تو انہوں نے پھرغور کرکے یہ فیصلہ کیا کہ دراصل صرف پانچ آیتیں ہیں جن کے متعلق یہ احتمال ہے کہ یہ ناسخ منسوخ کے چکر میں آتی ہوں۔ باقی سب انہوں نے حل کردیں انہوں نے وہ بھی۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام امام مہدی و معہود نے اللہ کے اذن سے یہ اعلان کیا کہ ’’قرآن کریم کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں‘‘۔
وہ لوگ جو آیت خاتم النبییٖن کے متعلق جماعت پر الزام لگاتے ہیںکہ ہم نے اس آیت کو تسلیم نہیں کیا، معلوم ہوتاہے کہ بالکل اندھے ہیں۔ اگر نسخ منسوخ کی بات حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام تسلیم کرلیتے تو اس کو بھی ایک منسوخ آیت میں شمار کرسکتے تھے اور اس آیت کو سورہ نساء کی اس آیت سے منسوخ قرار دے سکتے تھے جس میں ہے ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی اور بات سوچی جاسکتی تھی جو بنی نوع انسان کو عام خطاب ہے کہ جب بھی تم میں نبی آئیں تو اسے منسوخ قرار دے دیتے۔ مگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تو ایک شوشہ کے بھی نسخ کے قائل نہیں ۔ ایسے امام کی جماعت پر یہ الزام کہ قرآن کریم کی ایک آیت کو مانتے نہیں کیسا جھوٹا اور ظالمانہ الزام ہے۔ لیکن اپنا یہ حال ہے مفسرین کا کہ چھوٹے چھوٹے بہانوں پرجب بات سمجھ نہ آئے نسخ قرار دینے میں بڑی جرأت دکھاتے ہیں۔ اور کئی بزرگ ایسے ہیں جو پھر مقابلہ بھی کرتے ہیں کہتے ہیں نسخ نہیں مگر نسخ کا جو رحجان ہے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھتی ۔ان لوگوں کے خلاف کوئی فتوے نہیں لگائے جاتے کیونکہ اصولاً پرانے زمانہ میںلوگ تسلیم کرچکے تھے کہ واقعتاً نسخ اور منسوخ کا قرآن میں ہونا ممکن ہے۔ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں جنہوں نے اس کا امکان ہی باطل قرار دیا ہے۔ فرمایا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لاریب فیہ۔ایک نکتہ بھی اس قرآن کا منسوخ نہیں ہے ۔ اس کا غالباً یہاں نہیں ہے تو اگلی آیت میں اس کا ذکر آئے گا۔ میں پھر وہاں سے لوں گا۔ ہاں اب امام رازی کی باتیں میں آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں۔ایک تہائی والی بحث بھی اٹھائی گئی ہے یہاں امام رازی نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ شخص مخاطب ہو جو مرنے کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اسے نصیحت کی جارہی ہو کہ وہ وصیت کرتے وقت حد سے تجاوز نہ کرے۔ امام رازی کے الفاظ یہ ہیں۔ اگرچہ مجھے اس سے اتفاق نہیں مگر امام رازی کا جو مسلک ہے وہ پیش کرنا ضروری ہے ایک امکان کے طور پرہے۔ فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں خطاب اس سے ہو جس کا انجام قریب ہے اور مقصود زیادہ حصہ کی وصیت سے روکتا ہے۔ مراد یہ نہیں کہ اس وقت یہ آیت اس کو پڑھ کر سنائی جائے۔ مراد یہ ہے کہ قرآن کریم نے تعلیم دے دی تاکہ جب بھی کوئی شخص مرنے والا ہو تو اس کو اس آیت کا مضمون یاد آئے اور اس کی روشنی میں فیصلے کرے اس کو نظر انداز کرکے نہ کرے۔ جس کا انجام قریب ہے اور مقصود زیادہ حصہ کی وصیت سے روکنا ہے۔ اس کو یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ زیادہ وصیت نہ کرجانا دوسروں کے حق میں۔ یہ ایک تصور پید اکیا گیا ہے مراد یہ تھی کہ اس کے ورثاء لاچار اور بھوکے نہ رہیں اس لیے وصیت ثلث کی یا اولاد کے محروم ہونے کا ڈر ہو تو اس سے بھی کم کی جائے۔ اب ثلث کا لفظ پھر دوبارہ آگیا ہے۔ تویہ وہ کہتے ہیں کہ یہ ڈر ہو اگر کہ وہ اپنی اولاد کومحروم نہ رکھ جائے یہاں تک کہ وہ لاچار اور بھوکے رہ جائیں اس لیے اس کو نصیحت ہے کہ 1/3سے زیادہ وصیت نہ کرنا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس حد تک غربت کا عالم ہوکہ کسی شخص کے بچے لاچار اور بھوکے مررہے ہوں اس کو نصیحت کی ضرورت ہے کہ دوسروں کو نہ دے جانا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ فطرت کے خلاف بات ہے سوائے اس کے کوئی پاگل ہو۔ پاگل کی تووصیت ویسے ہی validنہیں ہے۔ قابل قبول ہی نہیں قانون میں۔ عام حالات میں اگرکوئی ایسی وصیت کرے گا تو عام حالات کہلائیں گے ہی نہیں۔ وہ حالات اس کے پاگل پن کی دلیل کے طور پر پیش ہوں گے اور عدالت میں یہ مقدمہ چلے گا کہ یہ تو پاگل ہوگیا ہے ۔ کوئی ہوسکتا ہے اتنا غریب کہ بچوں کے بھوکے مرجانے کا اور ہاتھ پھیلانے کا فقیر بننے کا سوال پید اہو اور وہ کہہ رہاہو کہ میں اس کو دے دیتا ہوں اس کو دے دیتا ہوں ۔ یہاں تک کہ چونکہ دماغ میں بخار کی وجہ سے کیونکہ سوچنے کی طاقت نہیں نا حساب سے نکل کر 1/3سے بھی آگے نکل جائے۔ ہوسکتاہے نصف تقسیم کرجائے۔ یہ ساری باتیں ان بزرگوں نے امکانات کی تلاش میں کی ہیں۔ ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت امام رازی خود اس بات کے قائل تھے کہ ایسا ہی ہے ۔
چونکہ آیت میں ایک کھلا مضمون تھا تو امکانات کی دنیا کی تلاش میں پھر فقہاء جہاں جہاں جاسکتے تھے وہاں وہاں چلے گئے اور سیدھے سادے مضمون کو بعض دفعہ ان امکانات کے نیچے اس طرح دبا دیا کہ سوچیں بکھر گئیں اور اصل مضمون کی طرف سے توجہ ہی ہٹ گئی۔ حالانکہ جو مرنے والا ہے وہ ایسی باتیں نہیں سوچا کرتا یعنی ایسی حرکتیں نہیں کیا کرتا جو حرکتیں اس کی طرف منسوب ہیں اگر وہ صاحب عقل ہولیکن اس کے علاوہ جو میں نے یہ بات پیش کی ہے ضمنی بعض سوال اس سے اُٹھائے جارہے ہیں ۔ مثلاً 1/3کے متعلق میں پہلے سے بات کرچکا ہوں کہ اس کی بنیاد کیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ تسلیم کیا گیا ۔ اس طرز استدلال میں کہ اگر ایک شخص ثلث سے زیادہ بھی دے دے اور وہ خود نہ رکے تو سوسائٹی اس میں کچھ نہیں کرسکے گی کیونکہ اگر یہ نصیحت اس کو ہے جو مرنے والا ہے اور جو اپنی جائیداد تقسیم کرنے والا ہے ۔ اگر اسکو اختیار ہی نہیں ہے کہ تیسرے سے زیادہ دے دے تو اس کو یہ نصیحت کیوں کی جارہی ہے اور اگر وہ کرتا ہے تو یہ چاہیے کہ تم نے اس کی بات نہیں ماننی کیونکہ اس میں وہ تبدیلی کا حق نہیں رکھتا ۔ تو اس طرز فکر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فقہاء کے ذہن پر یہ بات تو بہرحال حاضر تھی کہ مرنے والا مالک ہے جب تک مر نہیں جاتا وہ اپنی زندگی کے تصرفات میںبھی اختیار رکھتا ہے اور مرنے کے بعد کے تصرفات پر بھی وصیت کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پس اس کی وصیت اولیٰ ہوگی۔ یہ بحث کہ اگر وہ خداتعالیٰ کے قوانین کو توڑ رہا ہے تو کیا بنے گا۔ یہ بحث اُٹھاتے ہوئے امام رازی نے بھی سوال اُٹھایا ہے اوربہت درست بات یہی ہے کہ اللہ سے ڈرے کہ خدا اس کو پکڑے گا۔ یہ بڑی اہم اور بنیادی بحث ہے ۔ ایک شخص وصیت کے ان قوانین کے برعکس جائیداد کسی کو دے جاتا ہے کیا زبردستی اس کو الٹادیاجائے گااس کی وصیت کو یا نہیں۔ یہ جو صورت ہے اس کے متعلق یہ آیت اور بعض دوسری آیتیںیہ تصور پیش کررہی ہیں کہ مرنے والے کا گناہ ہوگا وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا ۔لیکن چونکہ اس کی جائیداد تھی اس لیے تم زبردستی اس کو ٹھیک نہیں کرو گے۔ اگر یہ زبردستی ٹھیک کرنا ہوتا تو اس کو نصیحت کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی ۔ وصیت کرنے اور ساتھ اللہ فرماتا کہ اگر یہ نہ مانے تو پھر بھی نہ مانو۔مگر ایسا کوئی مضمون دکھائی نہیں دیتا۔ تو امام رازی کے ذہن پر بھی یہی بات ہے کہ 1/3سے زیادہ کی وصیت وہ کرسکتا ہے اگرچہ ناجائز ہوگی۔ مگر نصیحت کے طور پر اور تنبیہ کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے یاد کرارہا ہے کہ ایسی حرکت نہ کرنا۔پھر امام رازی نے بھی وہی بات چھیڑی ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو مریض کے پاس بیٹھتے ہیں اور یہ حکم دیتے رہتے ہیں اس کو کہ یوں کرو وصیت یوں کرو۔ پتا نہیں کون سے وہ مریض تھے بیچارے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ولیخش الذین لو ترکوا اور جو شخص فوت ہونے لگے اور بچے اس کے ضعیف اور صغیرالسن ہوں تو اس کو نہیں چاہیے کہ کوئی ایسی وصیت کرے جس میں بچوں کی حق تلفی ہویہ اسلامی اصول کی فلاسفی میں آپ نے یہ فرمایا ہے۔ یہاں 1/3یا 2/3کی وصیت کا ذکر نہیں فرمایا صرف عمومی نصیحت کے طور پر اگر مخاطب ہیں تو یہ ہوگا لیکن ایک دوسری جگہ دوسرے امکان کو اولیٰ طور پر پیش فرمایا ہے۔ اس لیے اس سے اگر کسی کو شبہ پڑے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف انہی کو مخاطب سمجھتے ہیں تودرست نہیں۔ اب میں نے مگر میں نے پڑھ کرپہلے سنادیا ہے جو شخص فوت ہونے لگے اور بچے اس کے ضعیف اور صغیر السن ہوں تو اس کو نہیں چاہیے کہ کوئی ایسی وصیت کرے جس میں بچوں کی حلق تلفی ہو۔ یہ مضمون کھلا ہے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1/3یا 2/3کی بحث نہیں اُٹھائی۔ وصیت بعض دفعہ ایسی ہوسکتی ہے کہ براہ راست حقوق سے تو محروم نہ کیا جائے لیکن ان کے اوپر شرطیں ایسی عائد کردی جائیں اور ایسے ظالموں کے سپردان کو کردیا جائے کہ وہ ان کے حق ماردیں کہ ان بچوں کے اوپر تم نگران ہو مگر اگر تمہیں ضرورت پڑے تو تم یہ کھابھی سکتے ہو۔ اگر تم ضروری سمجھو تو جاکر دیکھ بھی سکتے ہو۔ کئی ایسی بے احتیاطی کی باتیں وصیت میں داخل ہوسکتی ہیں جس سے بچوں کے حقوق پر غلط اثر پڑے گا۔ پس اگر مخاطب وہ ہے (یہ اگر کے ساتھ ہے) تو اس کو یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ تمہارے بچے چھوٹے ہیں کوئی ایسی پابندیاں ان کے تعلق میں وصیت میں نہ لگادینا جس سے ان کے حقوق پر برا اثر پڑسکتا ہو ۔ یاد رکھنا اصل وہ ہے جو وارث ہیں باقی لوگ تو ضمناً ان کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس تعلق میں آئے ہیں۔ ایک یہ معنی جواس سے میں سمجھتا ہوںوہ یہ ہے۔
دوسرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چشمہ معرفت میں اسی آیت کو سامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس آیت کو اورا س سے پہلی آیات کے مضمون کو اکٹھا کیا گیاہے آخر پر اس آیت کا ذکر خصوصیت سے آئے گا۔
’’مردوں کیلئے اس جائیدا د میں سے ایک حصہ ہے جو ماں باپ اور قرابتی چھوڑ گئے ہوں۔ ایسا ہی عورتوں کیلئے اس جائیداد میں سے ایک حصہ ہے جو ماں باپ اور قرابتی چھوڑ گئے ہوں۔ اس میں کسی کا حصہ تھوڑا ہو یا بہت ہو بہر حال ہر ایک کیلئے ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت ایسے قرابتی لوگ حاضر آویں جن کو حصہ نہیں پہنچتا، ایسا ہی اگر یتیم اور مسکین بھی تقسیم کے موقع پر آجاویں تو کچھ کچھ اس مال میں سے ان کو دے دو اور ان سے معقول طور پر پیش آئو یعنی نرمی اور خلق کے ساتھ پیش آئواور سخت جواب نہ دو اور وارثان حقدار کو ڈرنا چاہیے ( یہاں اس آیت کا مخاطب وارثان کو اب کیا گیا ہے نہ کہ وصیت کرنے والے کو)کہ اگر وہ خود کچھ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ مرتے تو ان کے حال پر ان کو کیسا کچھ ترس آتا‘‘۔
پس جومیں نے پہلے بیان کیا تھا بعینہٖ اس کی واضح تائید فرمارہا ہے یہ حوالہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مؤقف تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ مرتے تو ان کے حال پران کو کیسا کچھ ترس نہ آتا اور کیسی وہ ان کی کمزوری کی حالت دیکھ کر خوف سے بھر جاتے ۔ پس چاہیے کہ وہ کمزور بچوں کے ساتھ سختی کرنے میںاللہ سے ڈریں اور ان کے ساتھ سیدھی طرح بات کریں یعنی کسی قسم کے ظلم اور حق تلفی کا ارادہ نہ کریں۔ یہ جو ہے ناکہ کسی قسم کے ظلم اور حق تلفی کا ارادہ نہ کریں اس نے اس مضمون کو وسعت دے دی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت کی رو سے اس سے زیادہ معانی ہیں جو آپ تک آپ کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں اس آیت میں وہ بچے بھی پیش نظر ہوں گے جو اس وقت تقسیم کے وقت حاضر ہوتے ہیں۔ آنا جانا ہے ان کا ان پر نظر رکھواور ان کے حقوق کا خیال کرو، ان سے پیا ر کی بات کرو۔ بعض لوگ ایسے بچوں سے بعض دفعہ بدخلقیاں کرتے بھی ہیں کیونکہ جب چیزیں بکھری پڑی ہیں گھرمیںمرنے والی کی جائیدادبھی سمیٹی نہیں، کچھ کہاں پڑی ہیں کچھ کہاں پڑی ہیں ۔ تو آنے والے جو ہیں بعض غریب ان کی نظریں بھی پڑتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں کچھ ان کی تمنا بھی لوگ دیکھ لیتے ہیں تو بعض دفعہ ان کو ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں یہ کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے جائو بھاگو۔ خبردار جو اس چیز کو ہاتھ لگایا۔ تو یہ جو طریق ہے یہ عام فطر ت کے مطابق ہوتا ہے اور روزہ مرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس پہلو سے اس کامطلب یہی ہوگا کہ ان سے سختی نہ کریں اور ڈریں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ظلم اور حق تلفی کا ارادہ نہ کریں۔ اس سے مراد وہ بچے بھی ہیں جن کے اموال کے یہ نگران ہونے والے ہیں۔
پس یہاں اموال کے نگران مخاطب ہوجائیں گے جن کوبعد میں اموال کی ذمہ داری سونپی جائے گی ان کو یہ آیت یوںکہے گی کہ دیکھو! تم نے ان بچوں کا خیال کرنا ہے اگر تم نے ان سے حق تلفی کا سلوک کیا ، ان کے اموال ناجائز کھائے تو یہ بھی سوچو اگر تم مرتے ایسے بچے چھوڑ کران سے بھی تو ایسا سلوک کرنے والا کوئی ہوسکتا تھا۔ یا کل کلاں کومرجائو تو ایسا سلوک ہوگا ۔ تویاد رکھنا خدا کی پکڑ کا ایک یہ بھی ذریعہ ہے یعنی ایک سزا توآخرت میں ملے گی ایک دنیا میں بھی بعض دفعہ ظلم کرنے والے کو ویسی ہی سزا مل جایا کرتی ہے جیسا وہ ظلم کرتا ہے۔ اس احتمال کو دکھا کر نصیحت گویا ان لوگوں کو ہوگئی جن کے سپرد چھوٹی عمر کے بچے کردیئے جاتے ہیں، جن کا والی وارث کوئی نہیں۔ ورثہ ان کا ہے نگران دوسرے ہیں۔ ویری یہ کہتا ہے۔
No doubt Muhammad had learned the substance of his revelotion by his own experience as an orphan. Ceartinly the ansiety he exhibitied to allebiate the sad condition of such is most praiseworthy. His terrible curses against the oppressors of such (see next verse) evins the earnestness of his purpose to inform this abuse.
(Sipara IV) Chap IV, Page 71, Verse 8, Vol II, by the Rev. E. Wherry M.A Publisher London
Kegan Pual, Trench, Trubner & Co. Ltd. Peteroster House, Charing Cross Road. 1896
وہ باتیں جہاں ویری بھی واہ واہ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے تعریف منہ پر لانے پر بے اختیارہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ کوئی اسے خدا کا کلام نہ سمجھ لے۔ کلام محمدﷺہی کا ہے مگر اس کی بچپن کی یادوں نے یہ کلام بنایا ہے کیونکہ خود یتیم تھا، دردناک حالات کا سامنا تھا اس لیے اس کو یہ باتیں یاد رہیںاور اس نے باقی یتامیٰ کی حفاظت اور ان کا خیال رکھنے کیلئے یہ باتیں کہیں۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے آپ کے یتم کے باوجود آپ کو ایسے بزرگ پرورش کرنے والے ملے جنہوں نے باپ سے بڑھ کر آپ سے محبت کی۔ اس لیے یہ ویری کا خیال غلط ہے کہ یتم کی تلخیوں نے نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کو اس آیت کا مضمون سکھایا ہے۔ پہلے عبدالمطلب پھر ابو طالب اور ان کا سلوک ۔ وہ تو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے اور اولین طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کو عزت دیتے تھے۔ اس لیے وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہوں اور اس کے نتیجے میں آپ نے اس آیت کا مضمون سوچا اور سوچا بھی تو کب جا کر کتنی دیر بعد۔ یہ آخری دور کی آیات میں سے ہے۔ جب جنگیں شروع ہوئیں ہیں ان کے تعلق میں یاد آیا ورنہ بھول ہی گئے تھے۔ تو یہ بیچارے جب تعریف بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی ایک نفس کی خامی رہ جاتی ہے ۔ اچھا نہیں لگتا کہ کلام الٰہی اپنی شان سے اپنی صداقت ثابت کررہا ہو اور یہ چیز ضرور کھٹکی ہے۔ ایسی اعلیٰ پایہ کی تعلیم نہ بائبل میں ملے نہ کسی اور کتاب میںملے آکہاں سے گئی۔ اگر یہ عذر بیچ میں نہ رکھتا تو یہ لوگ متاثر ہوکر کہہ سکتے تھے کہ سبحان اللہ یہ اللہ کا کلام ہے جو انسانی فطرت پر نظر رکھتا ہے۔ اس لیے تعریف رسول اللہ ﷺ کی کردی اس خدشہ کے ازالہ کی خاطر کہ کوئی خدا کا کلام ہی نہ سمجھ بیٹھے۔ اورجو عذر رکھا ہے وہ جھوٹا ہے ۔اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
اب اگلی آیت ہے سورہ نساء آیت گیارہ۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما ان یاکلون فی بطونھم نارا سیصلونَ سعیرا۔
جو لوگ ظلم سے یتیموں کے مال کھاجاتے ہیں وہ یقینا اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور یقینا شعلہ زن آگ میں داخل ہوں گے۔ یہ بھی ویری رسول اللہ ﷺ کی طرف اس آیت کے جوڑ میں یوں لگارہا ہے ۔ ایک طرف تعریف کی ہے آپ کے حسن تعلیم کی دوسری طرف کہتا ہے دیکھو کس جوش کے ساتھ غضب کا اظہار کررہے ہیں ان لوگوں کے خلاف جن کی بچپن کی یادیں آپ کو آکر بتارہی ہیں جنہوں نے یہ ظلم کیے تھے،اب ان کو سنادو جو سنانا ہے اور یہ آیت اس بات پر مظہر ہے کہ آپ نے پھر خوب دل کی بھڑاس نکالی ہے ان کے خلاف۔ حالانکہ ایسا کوئی نہ واقعہ ہوا ہے نہ کوئی ایسی صورت حال رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں پیش آئی۔ اس لیے صرف آپ کے خاندان ہی میں نہیں بلکہ سارے سوسائٹی میں آپ بچپن سے معزز تھے۔ سب کی آنکھوں کا تارا تھے۔ اس لیے اسے ذاتی غیظ و غضب کا نتیجہ قرار دینا یہ اگرچہ اس نے بڑے محتاط الفاظ میں تعریف کے رنگ میں باتیں کہی ہیں مگر واقعات کے خلاف ہیں۔ درست نہیں ہیں۔ اس کا سیدھا ترجمہ وہ ہی ہے کہ وہ لوگ یتیموں پر ظلم سے باز نہیں آئیں گے ان کے اموال کھائیں گے وہ گویا جہنم اپنے پیٹو ں میں کھارہے ہیں۔ یہ محاورہ تو عام ہے۔ ہر زبان میں پایا جاتا ہے آگ کھانے والی بات ہے۔ اس لیے یہ کوئی خصوصی طور پر کوئی ایسا محاورہ نہیں جو غیر معمولی طور پر رسول اللہﷺ نے ایجاد فرمایا ہو۔ روز مرہ کی زبانوںمیں یہ ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں بھی اس کا ملنا ایک طبعی بات ہے۔ لیکن جہنم کی آگ میںجو جھونکے جائیں گے یہ سزا ہے یتیموں کا غریبو ں کامال کھانے والوں کی۔اس کی جو لغوی بحث ہے وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
یصلون السعیر، صلل لحم یا صلل لحم شوّہ۔ صَلیٰ کہتے ہیں بھوننے کو اگر گوشت کے متعلق کہا جائے۔ صَلَل لَحْمَ تو مراد ہے گوشت بھونا۔ صل الشیء القہ فی النار للاحتراق کسی چیز کو جلانے کی غرض سے آگ میں ڈالنے کو صَلیٰ کہتے ہیں۔ ضروری نہیں گوشت ہی ہو جو بھوناجائے۔ بلکہ کوئی بھی چیز آگ میں جلادینے کی خاطر جیسے ردّی کا مال پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کیلئے لفظ صلیٰ استعمال ہوتا ہے۔ صَلیٰ فلانٌ: خاطَلَہٗ وَخَدَعَہٗ ۔ کسی کے متعلق کہا جائے اس نے فلاں کو صَلیٰ کیا ہے تو دھوکے میں ڈالا، فریب کیا اس کے ساتھ۔ صَلیٰ لِلصَّیْدِ شکار کیلئے جو جال نسب کیا جاتا ہے اس کیلئے لفظ صَلیٰاستعمال ہوتا ہے کیونکہ جال میں ایک قسم کا دھوکہ بھی ہے اور ہلاکت بھی ہے۔ بہت ہی عمدہ لفظ ہے شکار کو جال میں پھنسانے کیلئے۔صَلیٰ لِلصَّیْدِ اس نے شکار کو دھوکا بھی دے دیا اور عذاب میںمبتلاء بھی کردیا۔ صلہ العذاب اوالحیوان اوالذلۃ۔ یعنی عذاب یا ذلت نے اسے خاک کردیا۔ صلہ العذاب جلاکر خاکستر کردیا۔ راکھ بنادیا۔ جب اتنا بڑا عذاب دیا جائے کسی کو تو اس کے متعلق بھی عرب صَلیٰ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یقال فلانٌ لا یسطل بنارہ اذا کان شجاعًا لا یطاق ۔ یعنی ایسا شخص جو بہت بہادر ہو اس کے متعلق کہتے ہیں۔ اس کی آگ میں نہیں جلاسکتا۔ کیا مطلب ہے اس کیا آگ میںنہیں جلاسکتا۔
مراد یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی وہ برداشت کرسکتاہے اور حوصلہ کے ساتھ سربلندی کے ساتھ ان مصیبتوں اور ابتلائوں سے گزر سکتا ہے یہ اسی کا حصہ ہے۔ ہر شخص کو یہ توفیق نہیں ہے کہ ایسا کام کرے۔ تو لا یسطل بنارہٖ سے مراد اس کی آگ میں نہیں جلاجاسکتا۔ یعنی اس جیسا حوصلہ نہیں ہے کسی میں۔ پس کسی شخص کی بہادری اور غیر معمولی صبر عزم اورحوصلہ کی تعریف کرنی ہو تو عرب اس طرح کیا کرتے تھے لایسطل بنارہٖ ۔ سعیر ۔ سَعَرَ، یَسْعَرُ یہ سعیر بھی صفت مشبہ ہے ۔ یعنی ایسا شخص جس کے اندر ایک دائمی صفت پائی جائے عارضی نہ ہو۔ یا ایسی چیز جس میںایک دائمی صفت پائی جائے عارضی نہ ہو۔ مثلاً عالم جب ہم کہتے ہیں تو یہ اسم فاعل ہے اس سے یہ صفت بن جاتی ہے۔بسا اوقات ھوالعالم وہ عالم ہے۔ ھوالعالم وہ عالم ہے۔ یہ جو عالم لفظ ہے یہ علم والے کو کہتے ہیں۔ مگر عالم آج عالم ہے کل جاہل بھی ہوجاتا ہے۔ ایک چیز کا عالم ایک چیز کا نہیں ۔ عالم ہونا دائمی صفت اگر بن بھی سکتا ہوتو یہ ایک اور مثال دیتا ہوں کہ آپ کو سمجھ آجائے گی۔ وہ دائمی صفت نہیں ہے۔ ضرب زیدٌ بکرًا۔ زید نے بکر کومارا۔ اب جو مارنے کا فعل ہے اس کے نتیجے میں ضارب کون ہوگا؟ زید جس نے مارا اور جو مضروب ہے وہ بکر ہوگا۔ضرب زید بکرًازید نے بکر کو مارا۔زید ضارب زید ضارب ہے اور بکرا مضروبابکر مضروب ہے۔ اب ہمیشہ کیلئے زید ضارب تو نہیں بن گیا۔ کبھی مارا، کبھی پیار کیا، کبھی مرہم لگائی، کبھی زخم پہنچائے۔ تو یہ ایسی صفت جو ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ یہ اسم فاعل یا اسم مفعول کے نام سے اس کو یاد کرتے ہیں۔صفت فاعل یا صفت مفعولی۔ لیکن جب یہ کہیں گے ضریب اگر کہا جائے تو مراد ہے وہ شخص جو ہمیشہ مارتا ہی رہے ۔ وہ شخص جو ہمیشہ کیلئے علم رکھتا ہو اس کا علم دائمی ہے اس کو علیم کہیں گے اور وہ شخص جو مستقل طور پر محتاج ہوجائے اس کو فقیر کہیں گے۔ تو اسی طرح لفظ سعیر ہے۔جو صفت مشبہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی آگ جو مستقل جلانے والی چیز جس میں دائماً جلانے کی صفت موجود ہو۔ سَعَرَ النَّار اشْعَلَھا اگر کہتے ہیں آگ بھڑکائی اس نے تو اس کیلئے بھی لفظ سَعَرَ استعمال کرتے ہیںعرب۔ سِعِیرٌ۔ النَّار ولَھُبُھَا۔ آگ اور اس کا شعلہ اس کو سعیر کہتے ہیں۔ السُّعْرُ۔ الحرُّ۔ گرمی کو بھی سعرکہتے ہیں اور بھوک کی شدت کو بھی اور جنون کو بھی اور وبائی بیماری کو بھی ۔ ان سب کیلئے عرب سعر کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ سَعَرَ النَّارَ والحَرْبَ آگ یا جنگ کو بھڑکادیا۔اس کیلئے بھی یہ لفظ سعراستعمال ہوتا ہے۔
اب بعض لوگوں نے شان نزول بناتے ہوئے یہ لکھ دیا ہے کہ یہ آیت ان مشرکوں کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جو یتامی کے اموال کھاتے تھے او ران کو ورثہ میں سے حصہ نہ دیتے تھے۔ اسی طرح عورتوں کو بھی حصہ نہیں دیتے تھے۔ یہ بالکل بے تعلق بات ہے۔ یہ ایک دائمی مضمون ہے اس کا نہ مشرک سوسائٹی سے تعلق ہے نہ اہل کتاب سے، نہ مسلمان سے ہے ، نہ غیر مسلم سے۔ایک دائمی فطری مضمون ہے جس کو بیان فرمایا جارہا ہے۔یتیموں کاحق مارنے والے، یتیموں کو اپنے جائز حقوق سے محروم کرنے والے دنیا کی ہر سوسائٹی میں ملتے ہیں۔ انگلستان میں بھی ملتے ہیں، امریکہ میں بھی ملتے ہیں، غریب ترین ممالک میں بھی ملتے ہیں۔ اس لیے اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ مشرکوں کیلئے تھی یہ جائز نہیں۔ دراصل مشرکوں کی طرف خیال اس لیے گیا ہے و ہ کہتے ہیں مومن کیسے جہنم میں جاسکتا ہے۔ یہ روک ہے ذہنی مگر جو بھی یہ کام کرے گا اس کو سزا وہی ملے گی خواہ وہ بظاہر مومن ہویا مسلم کہلائے ۔ بعض کام ہیں جو اپنی ذات میںجہنم کمانے کا موجب بن جاتے ہیں ۔ یتیموں کے اموال کھانا یہ انہی خطرناک فعلوں میں سے ایک ہے۔ ایک صاحب ہیں علی بن احمد الواحدی ’’اسباب النزول‘‘ میںوہ صفحہ ۸۳ پر لکھتے ہیں اور کہتے ہیں مشرکوں کے متعلق نہیں۔ یہ آیت جس کے متعلق مقاتل بن حیان نے کہا ہے کہ قبیلہ غطفان کے ایک آدمی کے بارہ میں نازل ہوئی ہے۔ کتنا ظلم ہے ، اتنا عظیم الشان وسیع کلام جو کل عالم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں تا قیامت جاری رہنے والا کلام ہے۔یہ اپنے شوق میںکہ ہم بتادیں جو دوسروں نے نہیں بتایا کہ اصل بات کیا تھی کیوں نازل ہوئی تھی۔ قبیلہ غطفان کا کوئی آدمی ہے اس کے متعلق یہ آیت اتری تھی۔حضرت امام رازی نے یہ صرف سوال اٹھایا ہے کہ کھانا تو سارے پیٹ میں ڈالتے ہیں تو یاکلون فی بطونھم نارًا کیوں کہا ہے۔ وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کا ایک انداز ہے کسی بات کے مضمون میں شدت پیدا کرناہو اور نمایاں طور پر سامنے لانا ہو تو اس کے پورے فعل کو جس کا بعض لوگ جانتے بھی ہیںیہ ہوتا ہے پوری طرح بیان کردیتا ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھو گے ، اپنے کانوں سے سنو گے ۔ حالانکہ سنتے کانوں سے ہیں اور آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں، دلوں سے اگر سوچتے ہیں تو التی فی الصدور و ہ دل جو سینوں میں ہیں کون نہیں جانتا کہ دل سینوں میں ہوتے ہیں ۔ تو یہ طرزبیان ایک مضمون کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے اور کھولنے کیلئے ،اس میںشدت پیدا کرنے کیلئے اختیار کی جاتی ہے۔ اس لیے کوئی اس میں قابل اعتراض بات نہیں ہے کہ بطون فرمایا ہے۔ اور بطون کادراصل ایک او رمعنی بھی ہے کہ وہ بات جو چھپائی جائے ، اندر رکھی جائے ۔یہ لوگ جو یتیموں کے مال کھاتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں وہ حقیقت میں ظاہریہ تو نہیں کرتے کہ ہم یہ مال کھارہے ہیں۔ وہ بتارہے ہوتے ہیں کہ یہ فلاںغرض سے خرچ کیا جارہا ہے یا فلاں غرض کیلئے خرچ کیا جارہا ہے۔ کہاں ہر ایک کی حساب فہمی دنیا میں کی جاتی ہے۔جنہوں نے ظلم کرناہو وہ ساراعرصہ جتنا عرصہ بھی ملا ہے وہ کھاپی جاتے ہیں یہاں تک کہ یتیموں کیلئے کچھ باقی نہیں بچتا۔ تو ایسے لوگوں کے بطون ہیں جو ناقص ہیں ان کے اندر جو نیتیں کھول رہی ہیں وہ زہریلی اور غلط ہیں ۔ تو فرمایا کہ وہ جو کھاتے ہیں بظاہر ان کے پیٹوں میں جو جاتا ہے وہ ان معنوں میں بطون کیلئے جہنم کا موجب بنے گا کہ انہوں نے اپنے بطون میں جو بد ارادے رکھے ہوئے تھے۔ جو جرم پال رہے تھے اس کی سزا ان کو آگ کی صورت میں وہاں تک پہنچے گی اس وجہ سے لفظ بطون میں یہ معنی بھی آجاتا ہے کہ وہ مخفی باتیں کرتے ہیں او ر مخفی ارادے چونکہ گندے ہیں اس لیے ظاہر پر نہ جائو اللہ ان کے اندرونے پر نظر رکھ کر ان کو وہ سزا دے جو اندرونے تک کو جلا کر رکھ دے گی۔
اب اسی آیت کو منسوخ کہا گیا ہے پھر ۔( یہ وہی آیت ہے جس کا میں (۔۔۔۔ ذکر کررہا تھا)’’روی انہ نزلت ھذہ الایۃ ثقل ذلک علی الناس فاعترضوا عن مخالطۃ الیتمیٰ بالکلیۃ‘‘۔ یہ عجیب و غریب ایک بات مفسرین نے بیان کی ہے ، جو سوچی نہیں جاسکتی وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نتیجہ میں بعض لوگوں نے یہ کہا ہے یہ نہیں کہتے کہ یہ حقیقت ہے۔ حضرت امام رازی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگ جو یتیموں کامال کھاتے ہیں اپنے پیٹ میںجہنم کھاتے ہیں، آگ کھاتے ہیں۔ تو لوگ اس آیت سے اتنا ڈر گئے کہ لوگوں نے یتیموں سے ملنا جلنا او رسلام کلام ہی چھوڑ دیا۔ گویا کہ ان کو معلق کی طرح سوسائٹی میں چھوڑ دیا کہ اچھا پھر اگر تم ہمارے لیے جہنم کاموجب بنتے تو پھر ایسی کی تیسی تمہاری۔ ہمیں بولنا ہی نہیں تم سے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اور غلط تصور ہے۔ کسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مسلسل رسول اللہ ﷺ مسلسل لوگوں کو یتامی کے حقوق کی طرف متوجہ فرما رہے تھے۔ انا وکافل الیتیم کھاتین میں اور یتیموں کا خیال رکھنے والا اوران کی کفالت کرنے والا اس طرح ہوں گے۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے کہ ایسی سوسائٹی میں وہ منظر ہو کہ یہ آیت نازل ہوئی تو لوگ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے سب۔گویا ملتے تھے تو کھانے کی نیت سے ملتے تھے ورنہ ملنے جلنے کا ویسے کوئی شوق نہیں تھا، ارادہ نہیں تھا۔ فرضی باتیں بنا رکھی ہیں جس سے رسول اللہ ﷺ کی سوسائٹی پر داغ لگائے جاتے ہیں۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور جب یہ بات کہہ دی تو پھر آگے ناسخ منسوخ بھی اسی سے نکلا ہے ۔ وہ اس طرح نکالتے ہیںایک لمبی عبارت ہے میں اس کا ترجمہ ہے آپ کے سامنے پڑھ کر سنادیتا ہوں ترجمہ یہی ہے نابھاری محسوس کی، آئے اور پھر انہوں نے اختلاط ہی چھوڑ دیا اور کلی احتراز کرنا شروع کردیا۔ یتامی کیلئے مشکل ہوگئی کوئی ان سے نہ بات کرتا تھا نہ ملتاتھا ۔ کس مصیبت میں غریب وہ مبتلاء ہوگئے ۔ تو خداتعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا و ان تخالطوھم فاخوانکم اگر تم ان سے خلط ملط کرو تو وہ آخر تمہارے بھائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا اتنا یقین ہے جو سوچی تھی کہ گویا اُس آیت نے اِس آیت کو منسوخ کردیا۔ یعنی پہلے اس آیت کا مفہوم خود ہی یہ سمجھ لیا کہ ان سے ملنا جلنا ہی نہیں ہے اورجب یہ نتیجہ نکلا کہ لوگوں نے ملنا جلنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے سوچا کہ یہ تو پھر تو زیادتی ہوگی۔ میں تو فائدہ پہنچانا چاہتا تھا، الٹا مصیبت میں ڈال دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کرکے وہ آیت منسوخ کردی۔ یہ ہے ان کا ناسخ منسوخ کا چکر۔
حضرت امام رازی بالکل ردّ کرتے ہیں، کہتے ہیں بالکل لغو بات ہے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اور ایک بہت ہی پیاری بات اپنے اس استدلال کے حق میں یہ کہتے ہیں کہ یہ بات دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ آیت ظلم سے روکتی ہے اور یہ منسوخ ہو ہی نہیں سکتی۔ بہت ہی پیارا نکتہ ہے وہ کہتے ہیں باقی بحثیںچھوڑو۔ وہ کلام الٰہی جو ظلم سے روکتا ہے وہ منسوخ ہوسکتا ہے بھلا۔ یہ تو ناممکن ہے تو فرضی باتیں ہیں۔ ناسخ منسوخ کے چکر۔اوراپنی فرضی جو تفسیر تھی اس پر اتنا یقین کرلیا کہ قرآن کومنسوخ کردیا اس کی روح سے۔ کیونکہ دراصل منسوخی کا تصور اس غلط تفسیر سے پیدا ہوا ہے۔ تو تفسیر اپنی کی، بیہودہ، لغو ،غیر فطری اور ناممکن اور محکمات قرآنیہ یعنی وہ جوظلم سے روکنے والی وہ محکم ہیں آیات ان کو اس تفسیر سے منسوخ کرتے پھرتے ہیں۔ اس طرح اگر پانچ سورہ گئی ہیں تویہ بھی غنیمت ہیں ورنہ ان سوچوں سے تو ہزار ہا آیتیں منسوخ ہوجاتیں تو تعجب کی بات نہیں تھی۔ وہ جو آیت ہے میں نے رکھی ہوئی ہے نکال کر لیکن پھر زیادہ انحراف ہوجائے گا مضمون سے اصل بحث سے۔ وہ آیات کس موقع پر نازل ہوئی ہیں اختلاط کرو کن معنوں میں، بھائی کیسے ہو۔ یہ الگ دلچسپ مضمون ہے مگر اس وقت اس کی تفسیر میں جانے کاموقع نہیں ہے۔ (ابن) علامہ آلوسی کہتے ہیں کہ یہ آیت کسی ایک قوم ،کسی ایک مذہب کیلئے خاص نہیں ہے۔خواہ مومن ہو یامشرک ہو یہ بات بالکل درست ہے۔ ہر شخص جو یتامی کے مال چاٹتا ہے وہ اپنے پیٹ میںآگ چاٹتا ہے۔ ایک روایت بیان کرتے ہیں روح المعانی والے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ جو رات تھی اسراء والی رات کو ایک ایسی قوم کودیکھا جن کے ہونٹ -- اونٹ کے ہونٹوں کی طرح ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان روایات کے حوالے کہیں نہیں دیے گئے ۔ اور بعض روایتیں ایسی ہیں جو اجنبیت رکھتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے عام ارشادات سے کچھ ہٹی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور بعض ہیں جو اجنبیت کے باوجو اپنے اندر گہرے معانی رکھتی ہیں۔ اس لیے اس فیصلے سے پہلے کہ یہ کس مضمون سے تعلق رکھنے والی آیت ہے اس کی سند کا پیش اوراس کے قابل اعتماد کی بحث اُٹھانا ضروری ہے۔سمجھ گئے ہیں یہ آیت آپ کیا دیں گے وہ سن ہی رہے ہوں گے۔ وہاں ہمارے علماء جو محنت کررہے ہیں، ہماری مدد کررہے ہیں نوٹوں میں وہ اس قسم کی حدیثیں جو پانچ چھ سو سال کے بعد کسی تفسیر میں نمودار ہوتی ہیں جب تک ان کے متعلق یہ نہ بتادیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے کیا وقعت رکھتی ہے اور چھ سات سو سال تک کہاں پڑی رہی ہے۔ کیا صحاح ستہ میں یا دوسری اُن مستند کتب میں جو اس سے پہلے گزری ہیں ان میں اس حدیث کو کسی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ خواہ مختلف الفاظ میں پیش کیا گیا ہو۔ یہ بحث ساتھ آئے گی تو پھر ان حدیثوں پر استدلال شروع ہوسکتا ہے اس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک اور روایت علامہ سیوطی نے پیش کی ہے وہ بھی اسی نوع کی ہے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے یہ ۔ اس پر بھی میں سمجھتا ہوں کہ بحث اٹھانے سے پہلے اس کی حیثیت معلوم ہونی چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیںیہ اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۳۸پر:-
’’جو لوگ ایسے طورسے یتیم کامال کھاتے ہیں جس سے یتیم پر ظلم ہوجائے وہ مال نہیں بلکہ آگ کھاتے ہیں اور آخر جلانے والی آ گ میں ڈالے جائیں گے۔ اب دیکھو خداتعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتائے ۔ سو حقیقی دیانت اور امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوئوں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقلمندی کو دخل دے کر امانتداری میں تمام پہلوئوں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمراہ رکھے گی‘‘۔
یہ جو چھپی ہوئی خیانتوں کا لفظ ہے یہ وہی بطون سے استنباط ہوتا ہے ،بطون میں آگ کھاتے ہیں تو پھر بطون کو سزا ملنی چاہیے اور بطون میں چھپی ہوئی خیانتیں فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کہ یہ کئی طور سے چھپی ہوئی ہوتی ہیں جوان کیلئے جہنم کااور آگ کا موجب بن جاتی ہیں لیکن ان کو پتہ نہیں چلتا ۔ اب دیکھو قرآن کریم نے کس باریکی کے ساتھ ان تمام خطرات سے آگاہ فرمایا ہے کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس پر روشنی نہ ڈال دی ہو۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگ کھاتے ہیں کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ ان کو اس دنیا میں بھی ایسا عذاب ملے گا جو ان کو اپنے اموال کے فائدوں سے بھی محروم کردے گا۔ فرماتے ہیں اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں سے مراد یہ ہے کہ جب وہ ان کامال کھاتے ہیں تو ساتھ اپنا مال بھی کھاتے ہیں جائز بھی کھاتے ہیں مگر معدوں کے اندر تو خانے نہیں بنے ہوئے الگ الگ۔ یہ جائز مال کا خانہ ہے یہ ناجائز مال کا خانہ ہے۔ یاد رکھیں وہ کہ وہ ایسا مال کھارہے ہیں جو ان کے دوسرے مال کو بھی جلا کر خاکستر کردے گا اور اس کی منفعت سے بھی ان کو محروم کردے گا۔ پس حرام مال کھانا دوسرے جائز مال کی حیثیت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے تم اس سے نقصان اُٹھاسکتے ہو۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعتا اس دنیامیں ان لوگوں سے ایسا سلوک ہوگا ۔ یہ مراد ہے کہ ان کی برکتیں اُٹھ جائیں گی ان کے اموال ضائع ہوں گے اور ایک غلط استعمال جس کا حق نہیں تھا اس نے ان اموال کو بھی تباہ کردیا جن پر ان کا حق تھا۔ بہت لطیف نکتہ ہے جو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھایا ہے۔ سیصلون سعیرًا پھر بعد کی جو سزا ہے وہ تو ہوگی ہی تو بعد میں جو فرمایا ہے سیصلون سعیرًا اس سے حضرت مصلح موعو درضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استنباط فرمایا ہے کہ دو سزائیں ہیں اصل میں۔ ایک وہ سزا ہے جو اس دنیا میں ملے گی اور پھر جہنم کی سزا تو ا س کے علاوہ مقدر ہے ہی۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین فان کن نسائً فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک و ان کانت واحدۃً فلھا النصف- ولابویہ لکل واحدٍ منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولدٔ فان لم یکن لہ ولدٌ وورثہ ابوہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوۃٌ فلامہ السدس من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین۔ اباؤکم و ابناؤکم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعًا فریضۃ من اللہ ان اللہ کان علیمًا حکیمًا-
یوصیکم اللہ فی اولادکم اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی اولاد کے متعلق وصیت فرماتا ہے ۔ وصیت سے مراد تاکیدی حکم اور تاکیدی نصیحت دونوں ہوتے ہیں۔ وصیت تاکیدی حکم کو بھی کہتے ہیں تاکیدی نصیحت کو بھی۔ اور ایسی نصیحت جس کو اگر نہ مانا جائے تو اس کے نتیجہ میں خدا کی ناراضگی یا اور کئی قسم کی قباحتیں نہ ماننے والے کو درپیش ہونی لازم ہیں اس کو وصیت کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کی۔ وفات کے وقت حضرت اسحق علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان نصیحتوں کا ذکر کیاہے۔ تو یہ وہ وصیتیں ہیں جو حکم ان معنوںمیں تو نہیں ہیں کہ ان کو پابند کردیں وہ ان سے باہر نکل کر جانہ سکتے ہوں۔ وصیت ان معنوںمیں ہے کہ ایسی تاکیدی وصیت ہے کہ اگراس سے وہ ہٹیں گے لازماً اپنا نقصان کریں گے اور خدا کی پکڑ کے نیچے آئیں گے۔ تو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں وصیت کا لفظ استعمال فرمایا ہے وہاں دونوں باتیں موجود ہیں۔ حکم بھی ہوسکتا ہے ایسا جس کا ان کو پابند کیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس حکم کو توڑنے کے نتیجہ میں دنیا کی کوئی سزا نہ بتائی گئی ہو۔ پس کتاب اور وصیت میں ایک فرق ہے جس کو نہ سمجھ کر فقہاء نے بعض دفعہ غلطیاں کی ہیں۔ جو کُتِبَ کا لفظ ہے اس کے تابع جو حکم توڑا جاتا ہے اس کا قرآن کریم میں نقصان ایک سزا کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے۔ اور حدود قائم کردی جاتی ہیں۔ مگر جہاں وصیت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں ویسی حدود کاذکر نہیں ملتا ۔بعض حدود والے واقعات کے متعلق بھی نصیحت کی جاسکتی ہے جس کیلئے وصیت کہیں گے آپ بعض غیر حدود کی باتوں کے متعلق جرائم کے متعلق بھی وصیت کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔ یعنی ایسی سزا مقرر نہیں جس کو سوسائٹی نے دینا ہے۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ وصیت فرمائی جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا اس وصیت کو قائم رکھا ہے کہ میرے بعد تم لوگ اسی خدا کی عبادت کرنا جو خدائے واحد و یگانہ ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ نہ کرنے کی صورت میں کوئی حد نہ حضرت ابراہیم نے لگائی ،نہ آج تک قرآن نے لگائی۔ پس جہاں وصیت کا لفظ بہت تاکیدی طور پر موجود ہے اس سے یہ استنباط کرنا کہ ہمیں حق ہوگیا ہے کہ واضح طور پر اللہ کے دیئے ہوئے حق کے بغیر ہی لفظ وصیت سے وہ طاقت حاصل کریں ۔ چونکہ خدا نے فرض کیا ہے اس لیے اگر نہیں کرو گے تو ہم ماریں گے تمہیں ، ہم تمہیں زبردستی ٹھیک کریں گے اور اگر تم اس پر عمل نہیں کرو گے تو ہم عمل زبردستی کروادیں گے۔ یہ نتیجہ نکالنا جائز نہیں ہے اور وصیت میں اگر انسان کرے تو ناجائز بات بھی داخل ہوجاتی ہے ۔ وصیت میں یہ بھی شامل نہیں کہ وہ ضرور ٹھیک بات ہی ہو۔ ہاں اللہ وصیت کرتا ہے تو اچھی بات ہوتی ہے جس کا نتیجہ عمل کی صورت میں اچھا اور ترک عمل کے نتیجہ میں عذاب کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن انسان جب وصیت کرتا ہے تو اس میں آگے خامیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ وصیت اس کیلئے نقصان دہ ہے اور خداتعالیٰ باوجود اس کے کہ اپنی وصیت کوزبردستی منواسکتا ہے بعض دفعہ اسی طرح چھوڑ دیتا ہے یہ بتانے کیلئے کہ اس کے بعد تمہارا کام ہے تم چاہو تو کرو نہ کرو۔ مگر نہ کرو گے تو ضرور پکڑے جائو گے ۔ انسانی وصیت اس لحاظ سے بھی بے اختیار ہے۔ وصیت کرجائے کوئی نہ عمل کرے تو اس بیچارے کا کیا اختیار ہے کہ وہ اس کو پکڑے یااس کو سزا دے یا زبردستی اپنی بات کو منوالے بعدمیں۔
پس یوصیکم اللہ فی اولادکمیہاں یہی مضمون ہے کہ خداتعالیٰ تمہیں تاکیدی طو رپر یہ نصیحت فرمار ہا ہے یا حکم دے رہاہے یہ بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اپنی اولاد کے بارہ میں اور حکم کیا ہے اس کا عنوان یہ ہے۔ جو پہلا ایک عنوان تھا تقسیم ورثہ کا وہ میں بیان کرچکا ہوں۔ شروع میں آیا تھا تما م ورثے اس رہنما اصول کے تابع تقسیم ہوں گے۔ اب یہ دوسرارہنما اصول جوہے سب سے اوپر لگادیا گیا ہے ۔ اس کے بعد اس کی تفصیل بعد میں آئے گی وہ یہ ہے للذکر مثل حظ الانثیین کہ مرد کو عورت کے مقابل پردو حصے دیئے جائیں گے۔ یہاں میں وہ بحث ضمناً بتاتا ہوں کہ ذکرکو انث کے مقابل یا رجال کو نساء کے مقابل پر حصے دینا یہ مراد نہیں ہے کہ صرف بالغ کو حصہ ملے اور غیر بالغ کو نہیں ملے گا ۔قرآن کریم میں جب رجال اور نساء کو ایک جوڑے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہاں عمر کی قید نہیں موجود ہوتی جبکہ محض رجال کی بحث کریں گے۔ عرب تو مردِ میدان مرادہیں محض مرد ہی نہیں بلکہ مرد میدان۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے محمد رسول اللہ والذین معہ وہاں جس قسم کے لوگ آپ کے ساتھ ہیں اورجو سورہ نور میں جن کی تفصیل ملتی ہے آیت نور کے تابع وہاں الرجال فرمایا ہے ان کو۔یہ وہ لوگ ہیں جو رجال ہیں اوراس رجال میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ ا س لیے لغوی بحثوں میں پھنسنے والے ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ قرآن کریم کے وسیع استعمال پر نظر نہ رکھیں۔ وہاں الرجال سے مراد بہادر لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ہوں۔ اعلیٰ صفات کے حامل لوگ جو غیر معمولی صفات حسنہ ہیں ۔ جو محمد رسو ل اللہ سے حاصل ہوتی ہیں الرجال کو ۔ النساء کو بھی ہوتی ہیں۔ لیکن وہاں ان کو النساء نہیں کہا جائے گا وہاں ان کو الرجال ہی کہا جائے گا ان کے اندر وہ خوبیاں ہیں اور الرجال میں چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں بعض دفعہ۔ جیسا کہ قرآن کریم کی اسی سورہ کے شروع میں فرمایا گیا ہے۔ یایھا الناس ا تقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیرًاوّ نسائً اگر رجال سے مراد بالغ مرد ہی لینے ہیں اور نساء سے مراد بالغ عورتیں ہی لینی ہیں تو کیا یہ مائوں کے پیٹوں سے مرد پیدا ہوتے ہیں اور وہ عورتیں پیدا ہوتی ہیں جو بلوغت کے بعد پہنچتی ہیں۔ پس جو آخری صورت ہے جس کے نتیجہ میں آخر میں مرد بھی بنتے ہیں عورتیں بھی بنتی ہیں۔ اس سے پہلے کی منازل کو بھی لفظ رجل اور لفظ نساء سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم فرمارہا ہے کہ پہلے تو اس طرح پیدا کرتے تھے پھر ہم نے سیدھا مائوں کے پیٹوں سے داڑھیوں والے مرد پیدا کرنے شروع کردیے اور بالغ عورتیں اپنی جوانی کے ساتھ مائوں کے پیٹوں سے نکلنے لگ گئیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کے مضامین کے ساتھ مذا ق ہوگا اگر یہ ترجمہ کیا جائے۔پس وہاں الرجال اور النساء مذکر اور مونث ۔ ذکر اور انثیٰ کے معنوںمیں ہے خواہ وہ چھوٹا بچہ ہو خواہ وہ چھوٹی بچی ہو۔
پس یہاں جو وصیت ہے جو اس سے پہلے شروع میں عنوان باندھا گیا ہے وہاں بھی اور یہاں بھی جو خداتعالیٰ فرماتا ہے میں بتائوں گا للذکر مثل حظ الانثیین ۔ وہاں رجال اور نساء تھا یہاں ذکر اور انثی ہے دونوں ہم معنی ہیں عمر کی کوئی بحث نہیں ہے۔ بچہ ہو یا بچی ہو یہ معنی ہیں لڑکا ہو یا لڑکی ہو۔ چونکہ ورثہ کے وقت مرد بھی ہوسکتے ہیں وہ اور نساء بھی ہوسکتے ہیں بڑی عورتیں بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے وہ لفظ استعمال کیا جس کی ذیل میں چھوٹے تو آجاتے ہیں مگر وہ لفظ استعمال نہیں کیا جس کی ذیل میں پھر بڑے نہ آسکتے۔ اگر خدا یہ فرماتا کہ بچوں اور بچیوں کو تو مرد اور عورتیں بیچارے کہاں جاتے جو بڑے ہوچکے ہیں۔ پس الرجال ،النساء قرآنی استعمال سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ تو رجال عورتوں کیلئے بھی استعمال ہوجاتا ہے مگر جہاں جوڑے کے طور پر استعمال ہو وہاں Maleاور Femaleکے معنے رکھتا ہے ذکر اور انثیٰ کے۔ اس کے متعلق قانون جو یہ ہے مرد کو یعنی بچہ بھی ہو تو اس کواگر وہ اس کا باپ مرتا ہے تو اس کو بھی بچی جس کا باپ مرتا ہے اس کوبھی اس طرح حصہ ملے گا کہ لڑکے کو تو دواور لڑکی کو ایک حصہ۔ فان کن نسائً فوق الثنتین اگر محض لڑکیاں ہوںعورتیں مراد نہیں ہیں اگر محض لڑکیاں ہوں فوق الثنتین دو سے زیادہ فلھن ثلثا ماترکتو ان کے درمیان دو تہائی تقسیم کردیا جائے گا۔ ایک تہائی باقی رہ گیا ہے وہ کیوں چھوڑا گیا۔ کس کیلئے ہے، جس کانام لے کر بتادیا جائے۔ اس کیلئے تو فرض ہوجائے گاجس کابتایا نہ جائے۔ اس کے اوپر وہ آیتیں اطلاق پائیں گے کہ جن کا مال ہے ان کونصیحت ہے کہ غریبوں وغیرہ پر خرچ کرو اور ان کے حقوق بھی رکھو مگر فرض کے طور پر۔ نظام وصیت میں ان کیلئے یہ کہنا کہ فلاں کو زائد کچھ دیں دیں یہ درست نہیں ہے۔ قرآن کا فیصلہ ہے قرآن جس کانام لے گا اس کو لازماً دیا جائے گا، جس کانام نہیں لیتا اس کیلئے وصیت کا معنی ایک نصیحت ہے کہ اپنے اقرباء وغیرہ کا خیال رکھنے کی خاطر اس میں سے خرچ کرسکتے ہو۔لیکن یہاں معین طور پر بتادیاگیا ہے کہ ایک تہائی کیوں چھوڑا گیا ہے۔ دو تہائی کے بعد ایک تہائی کیوں چھوڑا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بلکہ ایک اور بات کی شرط لگاتا ہے پھر باقی بحث اکٹھی آئے گی۔ فان کن نسائً فوق الثنتین فلھن ثلثا ما ترک۔ اگر عورتیں یعنی لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو دو تہائی ان سب پہ برابر تقسیم ہوگا۔ و ان کانت واحدۃً فلھا النصف اگر صرف ایک ہو تو اسے نصف دیا جائے گا۔ولابویہ لکل واحدٍ منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولدٌ اور ماں باپ کیلئے اگر ان کی اولاد یعنی اولاد کی صورت بیان ہورہی ہو تو ماں باپ دونوںچھٹا حصہ برابر پائیں گے ، چھٹا چھٹا حصہ۔ ماں کیلئے بھی چھٹا اور باپ کیلئے چھٹا گویا 1/3۔ تو جہاں تک یہ بحث تھی کہ لڑکیوں کو 2/3ملے اور ماں باپ کو 1/3ملے تو 1/3کہاں جائے۔ اگر لڑکیاں ہوں دو سے زائد او رماں باپ ہوں تو حساب بعینہٖ برابر بیٹھ رہاہے۔ 2/3ماں باپ کو مل گیا مگر صرف یہی حسابی الجھن نہیں ہے اور بھی بنتی ہے۔ اگر ایک لڑکی ہواس کو نصف ملے گا باقی ماں باپ اگرہوں تو ان کو1/3مل جائے گا 1/6+1/6باقی ٹکڑا کہاں گیا۔ ایک ٹکڑا بچ جاتا ہے نا۔ جس طرح چوڑی توڑو بیچ میں سے ایک ٹکڑا نکلتا ہے اس طرح یہاں بھی ایک ٹکڑا بچا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اور اگر لڑکے ہوں اور لڑکیاں ہوں تو پھر تمام فقہاء کہتے ہیں سب کودو اور ایک کی نسبت سے تقسیم کردیا جائے گا۔ مگر اگر ماں باپ زندہ ہوں تو پھر 1/3اس صورت میں ان کو بھی ملے گا صرف لڑکیوں کی صورت میں نہیں۔ تو یہ حساب پھر کیسے پورا ہوگا ۔ اس کا مفہوم یہ بنے گا کہ اگر تو واضح طور پر ایک ٹکڑا ملتا ہے تو پھربرابر بیک وقت تقسیم ممکن ہے کہ 2/3بچیوں کیلئے الگ کرلو اور1/3ماں باپ کو دے دو اور حساب اکٹھا ہوسکتا ہے۔ اگریہ نہ ہواور تم نے دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم کرنا ہے تو پہلے وہ حقوق نکالے جائیں گے جو دو اور ایک کی تقسیم کی صورت میں نہیں بچیں گے اگرتم آپس میں پہلے تقسیم کربیٹھو توصرف ماں اور باپ کی بحث نہیں۔
ایک بنیادی اصول طریق تقسیم کاہمیں بتایا گیا ہے کہ جہاں ماں باپ کے حقوق آپس کی تقسیم کے حکم پر اثر انداز ہوئے بغیر دیئے جاسکتے ہیں وہاں سیدھا کیس ہے تم اس پر عمل کرو۔ جہاں نہیں دیے جاسکتے وہاں حقوق مارے نہیں جاسکتے ۔اس لیے ایسا طریق اختیار کرو کہ نہ تمہاری تقسیم کا نظام اثر انداز ہو اور نہ خدا کا وہ حکم جو دوسروں کے حق میں ہے وہ اثر انداز ہو اور تقسیم ہوسکے اس کی ایک ہی صورت بنتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ان کا حصہ نکالا جائے جن کا معین حصہ قرآن کریم نے پہلے کردیا ہے اور ایک اور دو کا جو معاملہ ہے یہ تناسب ہے حصہ معین نہیں ہے یہ سوچنے والی بات ہے۔ اگر پچاس روپے تقسیم کئے جائیں یا پچاس لاکھ تقسیم کئے جائیں ایک سے زائد ہوں لڑکے اور لڑکیاں تو یہ اصول سب جگہ برابر اطلاق پائے گا اور ایک اور دو کی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا وہ اثر انداز ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر اگر باپ کو 1/3ملنا ہو تو ماں کو 1/3ملنا ہو تو اگر یہ پہلے سب بانٹ گئے تو ان کو کہاں سے ملے گا۔ اس لیے ان کو پہلے دے دو۔ کل ٹوٹل جائیداد کا 1/3اس طرح تقسیم کردو کہ زندہ باپ کو 1/6اور زندہ ماں کو 1/6۔ یہ مل جائے پھر جو بچتا ہے وہ ایک اور دو کی نسبت سے تقسیم کرلو۔ اس کے علاوہ اس کی چھوڑ ی ہوئی بیوی بھی ہے ، باپ مررہا ہے تو اس کی بیوی ابھی زندہ ہے۔ اس صورت میں ایک تو ہے ناں کہ کوئی شخص فوت ہورہا ہو اس کے ماں باپ زندہ ہیں یہ ایک الگ مضمون ہے بالکل لیکن ایک اور بھی موقع پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص فوت ہورہا ہے جس کی جائیداد بچوںمیں تقسیم کرنی ہے اس کے ماں باپ تو زندہ نہیں مگر بیوہ جس کو وہ چھوڑ رہا ہے وہ زندہ ہے یا دو بیوائیں ہیں ان کا کیا کرو گے۔ اگر دو دو اور ایک ایک کرکے بانٹ بیٹھے تو ان کو کہاں سے ملے گا۔ تو پہلے ان کا حصہ نکالو۔ 1/8 یا1/4جو بھی قرآن کے حکم کے مطابق بنتا ہو وہ پہلے نکال دو پھر جو بچتا ہے وہ پھر آپس میں بانٹو۔ تو یہ اس آیت میں جو بعض بظاہر خلاء دکھائی دے رہے ہیں وہ خلاء نہیں ہیں بلکہ غور کریں تو اس سے تقسیمِ اصول کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اگر اس کو نہیںکریں گے تو آیت کا مضمون اطلاق پائے گا ہی نہیں۔ یہ لگے کی تب جب آپ ان اصولوں کی پیروی کریں گے جو اس میں مضمر ہیں جو موجود ہیں صرف غور کرنے سے نکلیں گے۔
اب ایک حصہ صرف باقی رہ گیا کہ آدھا اور ……باقی۔ اب آدھے میں سے جو باقی ہے اس میں یہ تو ممکن ہے کہ ماںاور باپ کو 1/3دے دیا جائے لیکن پھر بھی ایک ٹکڑا بچ جاتا ہے۔وہ کس مصرف میں آئے گا اس کے متعلق فقہاء کی رائے اس قسم کی ہے کہ وہ جو ذوالفروض اور عصبات ہیں اور ذوالارحام ہیں اور بھی اصطلاحیں ہیں وہ بھی ہیں نا جو کیا کہتے ہیں اس کو علاتی بھائی اخیافی بھائی اوربہت ساری انہوں نے اصطلاحیں بنائی ہوئی ہیں وہ پھر ان میں وہ بانٹنا شروع کرتے ہیں اور ایک کے بعد دوسرے تیسرے اور چوتھے وہ نہ ہوں توفلاں کو ملے گا۔لیکن یہ نہیں مانتے کہ یہ ممکن ہے کہ آدھا دینے کے بعد اگر وہ وارث نہ ہوں جن کا قرآن نے ذکرکردیا ہے جو اوّل طور پر ماں باپ ہیں تو یہ اس کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ یہ بات وہ نہیں مانتے اور نہ ماننے کے نتیجہ میں عجیب و غریب تضادات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے کل کی بحث میں بعض تضادات آپ کے سامنے رکھے تھے مگر اب ہمارا وقت کے ساتھ جھگڑا شروع ہوگیا ہے(کتنے منٹ) سات منٹ اوپر ہوگئے ہیں۔ آپ نے بتایا ہی نہیں۔ باقی انشاء اللہ کل۔ اس میں کافی بحثیں ہیں جو ورثہ سے تعلق والی موجود ہیں وہ انشاء اللہ باقی کل کریں گے۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ18؍رمضان بمطابق8؍ فروری 1996ء
(اس کے شروع کے سترہ منٹ مواصلاتی سیارے سے رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔)
جس حد تک نفاذ کا حکم دیا ہے اس سے بڑھ کر وہ شریعت نافذ نہیں کرسکتے۔ ۔ شریعت تو نافذ ہے سب پر جب فرمایا کتاب ہے یہ۔ ہر ایک پر فرض ہے کون روک رہا ہے تمہیں عمل کرنے سے۔ تم سارے مجبور ہو خدا کے نزدیک ضرور اس پر عمل کرو اس کی باریکیوں پر بھی عمل کرو۔ جہاں سزائوں کا مضمون ہوگا وہاں یہی شریعت ۔ یہ بھی کہے گی لٓا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِکہ دین کے معاملات میں ایک دوسرے کوزبردستی ٹھونسا نہیں جاسکتا ایک دوسرے پر۔ پھر کیا طریق رہ گیا ہے۔ عدل کے لفظ نے سب ضرورتیں پوری کردیں ۔ فرمایا:قانون سازی کرولیکن عدل کے تقاضوں کو چھوڑ کر نہیں کرنے دیں گے تمہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے تم کہ اسلام نے مسلمانوں کیلئے زیادہ حق رکھا ہے اور دوسروں کیلئے کم حق رکھا ہے اس لیے ہم قانون بناتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ حق دیا جائے گا غیر مسلموں کو یہ حق۔ یہ عدل سے ٹکرا رہا ہے اور عدل کا مضمون اتنا قطعی‘ اتنا محکم‘ اتنابالا ہے کہ ہر دوسرے اصول پر اس کا تبر چلے گا۔ جہاں بھی کوئی اصول تفصیلی طور پر عدل کے مضمون سے ٹکرائے گا وہاں عدل زندہ رہے گا ‘قائم رہے گا اور غیر عادلانہ چیز ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ اس اصول کے تابع مسلمان حکومتیں قانون سازی کریں تو لفظ کتاب میںجہاں تک ممکن ہے اس کی پیروی کرکے منصفانہ قانون جاری کرسکتے ہیں جو سب پر برابر ہواس سے کم درجے پر نہیں۔
جہاں تک شریعت کاتعلق ہے وہ تو فرض خدانے کردی ہے۔ تمہیںکون روک رہا ہے نمازیں پڑھنے سے، تمہیںکون روکتا ہے عدالتوں میں سچ بولنے سے ‘ تمہیں کون روکتا ہے بچوں کے مال غصب نہ کرنے سے‘ تمہیں کون روکتا ہے چوری، ڈاکے، لفنگ بازی، بے حیائیاں کرنے سے رک جانے سے۔ یہ تو سارے کتاب میں مضامین ہیں۔ ان کیلئے کسی حکومت کا قانون تو ضروری نہیں ہے۔ خدا نے فرمادیا شروع کردو ۔ کیا انتظار کررہے ہیں مولوی کہ جب حکومت پاکستان کہے گی تب قرآن مانیں گے اس کے بغیر نہیں مانیں گے۔ قرآن کا حکم تو جاری و ساری ہے۔ ماننے والے تیار کریں۔ (یہ ہے اور) اس سے وہ بہکتے اور ڈرتے ہیں اور گھبراتے ہیں کیونکہ یہ محنت کا کام ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺنے کتاب کے حکم کو کتاب کی صورت میں جاری کرنے میں محنت فرمائی ہے اور اُن لوگوں پر یہ جاری فرمایا ہے جنہوں نے کتاب کے دائرے میں آنے کیلئے از خود طوعی طور پر اپنے آپ کو پیش کردیا ۔ وہ جو کتاب کے دائرے میں آگئے پھر ان کیلئے کسی قانون سازی کی ضرورت نہ رہی، نہ علیحدہ قانون سازی کی گئی، نہ آپ ﷺکے زمانے میں نہ خلفاء کے زمانے میں۔ یہ کتاب ہی کتاب ہے اور از خود وہ اس باریکی سے اس پر عمل کرنے لگے کہ کسی قانون سازی کے محتاج بھی نہیں تھے ہاں حدود کے معاملہ میں ایک الگ مسئلہ ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ تو شریعت کا نفاذ ہوچکا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں جو قرآن میں ہیں اور جو ں جوں نازل ہوتی چلی گئیں شریعت کا قانون جاری ہوتا رہا اور نافذ بھی ہوتا رہا مگر ان لوگوں پر جنہوں نے اس کو تسلیم کیا ۔ اور پھر جب یہ مکمل ہوگئی تو پھر یہ حکم آگیا اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاآج کے دن میں نے مکمل کردیا ہے دین تمہارے لئے یعنی رستہ جس پر چلنا ہے اور نعمت کو تمام کردیا ہے اور ہمیشہ کیلئے اسلام مذہب کے طور پر تمہارے لیے میں راضی ہوگیاہوں۔ شریعت تو نافذبھی ہوگئی جاری بھی ہوگئی چودہ سو سال پہلے، ان کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ شریعت کا نفاذ ہوچکا ہے، کون روک رہا ہے تمہیں۔ یعنی نمازیں تب پڑھو گے جب ڈنڈے مارے جائیں گے، روزے تب رکھو گے اگر کمروں میں بند کیا جائے گا اور پانی کی بوند تک کیلئے ترسایا جائے گا۔ حقوق غصب کرنے سے تب باز آئو گے جب کہ جوتیاں پڑیں گی سر پر۔ یہ کون سی شریعت ہے۔ یہ شریعت اگر نافذ بھی ہوئی تو شریعت نہیں ہے کیونکہ لااِکراہ فی الدین ۔ جہاں جبر کے تابع شریعت پر عمل ہوا وہاں شریعت ہی اٹھ گئی۔ تو شریعت کے صفحۂ ہستی سے اٹھانے کے پروگرام کیوں بنارہے ہو۔ جب پاکستان میں قرآن کی شریعت نازل ہونے کے باوجود نافذ نہیںہورہی تو یہ کوشش کرو کہ نافذ ہو اور اس کیلئے محنت کرنی ہوگی، گلی گلی دستک دینی ہوگی، دروازے کھٹکھٹانے ہوں گے، لوگوں کو کہنا ہوگا کہ دیکھو یہ شریعت ہے تم کس قانون کا انتظار کررہے ہو۔ بجائے اس کے کہ قانون سازی کے ذریعے شریعت کو نافذ کرنے کی خاطر تم ایک ایسی جدوجہد کرو جس کے نتیجے میں طاقت تمہاری طرف منتقل ہو۔ اس صورت میں جو شریعت نافذ ہوگی شریعت کی رُو سے شریعت ہے ہی نہیں اور اس صورت میں دراصل تم خدائی کے اختیارات اپنے ہاتھ میںلو گے اور جمہوریت کے بھی لو گے اور جمہوریت سے بڑ ھ کر خدائی کے لو گے۔ کیونکہ جمہوریت میں تو انسان عام انسانی عدل سے جب بھی ہٹتا ہے وہ تنقید کے نیچے آتا ہے کیونکہ عدل کا مضمون ایسا نہیں ہے جو مشتبہ ہو کسی پر کھل گیا ہوکسی پر نہ کھلاہو۔ بالعموم موٹے معاملات میں کھلے معاملات میں عدل تو ایک مسلّمہ سمجھا ہوا معاملہ ہے۔ ایک ایسا مضمون ہے جس میں کسی ہیچ پیچ کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ باریکیوں میںجاکر پھر عدل میں فرق پڑتے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن عدل کا جہاں تک تعلق ہے جب بھی تم یعنی ویسے علماء وہ علماء جو شریعت کے نام پر مہمیں چلاتے ہیں، جب بھی وہ حکومت میں آتے ہیں پھر اپنے فتوے دیتے ہیں جن فتووں سے دوسرے مسلمانوں کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اب وہ بھی شریعت پر عمل کرنے والے ہیں جو شریعت کا ایک معنیٰ سمجھ رہے ہیں ، وہ بھی شریعت پر عمل کروانے والے ہیں جو شریعت کادوسرا معنیٰ سمجھ رہے ہیںاور قانون جب ہاتھ میں لے لیں گے تو ان کو بالا دستی ہوجائے گی شریعت کی ہر دوسری فہم پر۔ ان کی فہم کو بالا دستی ہوجائیگی اور قانون کے ذریعے سے وہ آج شریعت کو (ایک سمجھ کر) ایک چیز سمجھ کر جو رو ستم کریں گے ، ظلم کی راہ اختیار کرتے ہوئے بعض لوگوں کی مرضی کے خلاف ان کی فہم کے خلاف بعض فتوے جاری کردیں گے اور ہوسکتا ہے کہ کل کی علماء کی کھیپ ایک ایسی نکلے جو تم لوگوں پر لعنتیں ڈالے اور کہے کہ تم نے غلط شریعت سمجھی تھی غلط خون بہایا ۔تو دیکھو کتنا فساد ہوجاتا ہے اگر غیروں سے تودرکنار اپنی سوسائٹی سے ان لوگوں سے بھی عدل ممکن نہیں رہتا جو شریعت کو مانے ہوئے ہیں۔ یہ مثال خلق قرآن کی صورت میں ہمارے سامنے بڑی بھیانک طور پر پیش ہوئی ۔ بعض بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں نے (بنو امیہ کے یہ بنو امیہ کے آخری بادشاہ تھے غالباً) عباسی کے، عباسی ہاں وہ ٹھیک ہے تو ہارون اور مامون، ٹھیک ہے۔یہ عباسی بادشاہ تھے ہارون اور مامون جن کے زمانے میں یہ بحث اٹھی ہے او رایک وقت میں یہ فیصلہ ہوا کہ قرآن کو مخلوق ماننا کہ تخلیق کیا گیا ہے یہ ایسا بڑا جرم ہے کہ اس کے نتیجے میں زندگی سلب کرنے کا حکم ہے، قتل کردینے کا حکم ہے، قتل و غارت کرو ،ان کے گھر جلا دو، ان کو برباد کردو، یہ زندہ رہنے کا حق ہی نہیں رکھتے۔ جو قرآن کو مخلوق سمجھتے ہیں۔ اب یہاں کون سا لفظ کتاب کا تھا جس سے انہوں نے رہنمائی حاصل کی۔ کتاب کو عموماً سمجھا اور جو اپنا عقیدہ خداتعالیٰ کے متعلق اور اس کی تخلیق کے متعلق سمجھا اسے شریعت کا ایسا بنیادی حصہ قرار دے دیا کہ اس کے نتیجے میں اگر وہ نہ کریں تو زندگی سلب، زندہ رہنے کا حق ختم اور خوب مارا اور خوب جلایا لوگوں کو۔ (اور اگلی) اگلے دور میں اس کے بھائی خلیفہ نے یا خود اس نے ہی بعد میں خیالات بدل لئے اپنے کہ ’’اوہ ہو‘‘ یہ تو غلطی ہوگئی۔ مارنا دوسروں کو چاہیے تھا اس لیے ڈنڈے اٹھاکر اور تلواریں سونت کے ان کے پیچھے پڑ گئے جن کے حق میں دوسروں کو جلایا گیا تھا اور ان کی قتل و غارت کا حکم جاری ہوگیا۔ یہ شریعت ہے، یہ کیسا عدل ہے۔
پس لفظِ کتاب کا بہانہ رکھ کر یا لفظِ وصیّت کا بہانہ رکھ کر یا لفظِ فریضہ کا بہانہ رکھ کر انسان خدائی اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ جہاں لے گا وہ خدا کی دشمنی کرنے والا ہوگا۔ شریعت کے حقوق کو تلف کرنے والا ہوگا اور بنیادی اصول وہی ہے جو کار فرما اور بالا ہے کہ عدل سے کام لو اور عدل سب سے اوپر ہے (شریعت کے ، کتاب کے لفظ کی بعض مثالیں۔ یہ کون سی ہیں۔ وہاں وصیّت کی۔ نکال دی ہیں) ۔ وصیّت کی کل بات ہورہی تھی۔ پہلے اس کا میں آیات کے حوالے سے مضمون سمجھادوں۔ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبّکُم علیکم اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا۔ تو کہہ دے آئو ۔ میں تمہیں بتائوں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کردیا ہے اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًاکہ اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائو وَبِالوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا یہ مراد نہیں ہے کہ والدین پر احسان حرام کردیا ہے بلکہ یہ بھی بنیادی فرائض میں سے ہے کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اس کی ترکیب وغیرہ کیا ہے میں ترجمے کے دوران بیان کرچکا ہوں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں یعنی ترجمے کی جو الگ کلاس جاری ہے اُس میں مَیں اس آیت کو تفصیل سے زیر بحث لاچکا ہوں وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاق اور اپنی اولاد کو رزق کی کمی کے خطرے سے قتل نہ کرو۔ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ ہم تمہیں رزق دیتے ہیں اور اُن کو بھی وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ اور فواحش کے قریب تک نہ پھٹکو خواہ وہ ظاہری ہوں یا باطنی ہوں وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقّ اور کسی ایسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل خداتعالیٰ نے حق کے سوا حرام قرار دے دیا ہو۔یہ ما حرم کے بعد پھر حرم کے لفظ کی تفصیل ہے وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقّ یعنی جہاں خدا نے حق دیے ہیں وہاں اجازت ورنہ نہیں۔ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ اس کی تمہیں اللہ تعالیٰ وصیت کرتا ہے تاکہ تم عقل کرو۔ اب وَصّٰکُمْ کے تابع یہ ساری آیات سارے مضامین آگئے۔ جن میں کچھ ایسے ہیں جن میں انسان کو کوئی حق نہیں ہے۔ مثلاً والدین سے احسان زبردستی کس طرح کروائیں گے۔ حالانکہ جو اول دو حکم ہیں جو سب سے بالا رکھے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ خدا کے شریک نہیں ٹھہرانا اور والدین سے ضرور احسان کا سلوک کرنا ہے۔ اس کے بعد جو باقی مضامین ہیں وہ نیچے ذیل میںآتے ہیں۔ ان میں سے سوائے قتل والے حصے کے باقی کسی پر انسان کو اختیار نہیں۔ تو یہ بھی درست نہیں۔ کل میں نے غالباًیہ تاثر دیا تھا کہ وصّٰی کے تابع کوئی ایسے احکام نہیں آتے جن پر انسان کو جبراً نافذ کرنے کا حق ہو لیکن بات تو وہی ہے مگر ایک فرق کے ساتھ یہ کہنی چاہیے تھی کہ جہاں دخل اندازی کا حق خدا نے الگ دیا ہے ایسے بعض امور وَصّٰیکے تابع ہی بیان ہوئے ہیں اور کتاب کے تابع تو سارے امور آگئے جو قرآن کے اندر ہیں۔ مال الیتیم کے کھانے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی میں آگیا ہے اور اس میں بھی کسی انسان کو دخل کی واضح طور پر گنجائش نہیں ہے یا اس کو توفیق نہیں ہے کہ وہ اس میں دخل دے سکے کیونکہ اس باریک احسان کو یا انصاف کو سوسائٹی قائم نہیں کرسکتی جو روز مرہ گھروں میں چلتا ہے۔ لاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ج وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی یہ پھر آگے مضمون لمبا ہوجائے گا (آخر پہ پھر وصیّت کہاں آئی ہے)۔ اب یہ دو آیتیں ہیںجن میں پھر وصیّت کا لفظ آتا ہے۔ وَاِذَا ظَلَمُوا فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ۔ جب تم بات کرو عدل سے بات کرو وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰیخواہ اپنے عزیز قریبی کے خلاف ہی فیصلہ دینا پڑے۔ اب اس میں بھی ایسی بات ہے جس پہ انسان قدرت نہیں رکھتا کہ اسے زبردستی نافذ کرسکے وَبِعَھْدِاللّٰہِ اَوْفُوْا۔ اللہ کے عہد کو ضرور پورا کرو۔ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ یہ ہے وہ جس کی خدانے تمہیں نصیحت فرمائی ہے یا وصیّت فرمائی ہے تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ وَ أَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا اور یہ بات خدا نے گویا لکھ رکھی ہے وصیّت کی بنیادی بات یہ ہے کہ اس سیدھے رستے کو پکڑلو فَاتَّبِعُوْہٗ اور اس کی پیروی کرو۔ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ پس تمام کتاب پر عمل کی نصیحت وصیّت میں آگئی۔ بالکل کھل گئی ہے۔ أَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًایہ صراط مستقیم ہے۔ اس کے متعلق احکامات تو جاری ہوئے ہیں کتاب کے تابع لیکن ان پر عمل کرنے کی تاکیدی نصیحت خداتعالیٰ نے دی ہے جبکہ بہت سے اُن میں سے ایسے ہیں جن پرعمل نہ کرنے کے نتیجے میں خدا بعض دفعہ اِس دنیا میں اور بعض دفعہ اُس دنیامیں بعض دفعہ دونوں جگہ عذاب دینے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور انسان کو اجازت نہیں دیتا۔ آج آپ نے سارا معاملہ کَتَبَ پہ ہی لگادینا ہے۔ وہ آیات نکالی گئی ہیں جن میںلفظ کَتَبَ استعمال ہوا ہے تاکہ معاملہ اور کھل جائے ۔
اب چونکہ وصیّت کے معاملے میں بھی تفصیلی بحثیں ہورہی ہیں ، احکامات کے بارے میں ہورہی ہیں تو جماعت کی تعلیم و تربیت کیلئے اگر اس درس میںکچھ زائد باتیں بھی داخل کردی جائیں جو براہ راست اس آیت سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ اور آیات سے تعلق رکھتی ہیں مگر مضمون ایسا ہے جو سب آیا ت پر اصل میں حاوی ہے۔کتاب اور وصیّت کا مضمون جیسا کہ ثابت ہوا ہے تمام آیات سے تعلق رکھتا ہے۔ تو اگر سمجھ لیا جائے اور سمجھادیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کَتَبَ کی لغت کی (تفسیری) بحث یہ ہے ۔ کَتَبَ کا معنی ’’لکھ دیا‘‘۔ یَکْتُبُ کَتْبًا و کِتَابًا وَ کِتَابَۃً کِتَابَۃَ الکِتَاب: خَطَّہٗ کوئی عبارت تحریر کی۔ کَتَّبَہٗ: اسے لکھنا سکھایا۔ کَتَبَ الْقِرْبَۃَ: شَدَّھَا بِالْوِقَائ: مشکیزے کا منہ باندھا۔ کَتَبَ اللّٰہُ الشیَٔ: قضاہ وَ اَوْجَبَہٗ وَ فَرَضَہٗ ۔ اللہ نے کسی چیز کا فیصلہ کیا ۔ وہ واجب کردی ، وہ فرض کردی۔ کُتِبَ علیکم الصیّام کی مثال دی گئی ہے۔ کَتَّبَ الکتائِبَ وَ حَبَّھَا کَتِیْبَۃً کَتِیْبَۃًاس نے دستوں کو ایک ایک کرکے تیار کیا یعنی کاغذ ورق لے لے کے ان کو جوڑا اور ایک کتاب کی صورت میں یہ جو جلد ساز کرتے ہیں اس کیلئے لفظ کَتَّبَکا استعمال ہوتا ہے۔ کَتَّبُوْا: تَجَمَّعُوْا۔ تَکَتَّبُوْا: تَجَمَّعُوْا۔ اس کا مطلب ہے کہ لشکر اکٹھا ہوا۔ جیش اکٹھا ہوا یعنی’’ دستہ دستہ‘‘ فوج کیلئے بھی ’’دستوں ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فوجی ایک جگہ جمع ہوئے اس کیلئے تَکَتَّبُوْا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اَلْکِتَابُ: اَلصُّحُفُ جمع شدہ تحریریں۔الرِسالۃ یعنی خط کو بھی کتاب کہتے ہیں۔ القُرْاٰن أَلْإِنْجِیْل التَّوْرَاۃ الحُکم اَلأْجل اَلْقَدْر۔ یعنی کتابوں کے ، سب کتابیں کتاب الکتاب کہلاتی ہیں جو الٰہی کتابیں ہوں۔ اور موت اور مدت کیلئے بھی ’أجل‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے یہ بھی کتاب کے اندر آجاتا ہے کیونکہ یہ مدّت اور موت لکھی گئی چیزیں ہیں مراد ہے۔ اَلْقَدر قضاء و قدر کو بھی۔ کَتَبَ کتاب کہا جاتا ہے۔ اور اِکْتَتَبَ بَطْنُہٗ اس کا پیٹ رک گیا مطلب ہے نفخ ہوگیا چلتا نہیں۔ اس کیلئے بھی لفظ اِکْتَتَباستعمال ہوا ہے۔ یہ کیسے ہوا۔ کیوں جی؟ باب افتعال ہے تو تحریر جو ہے وہ اپنے اوپر ہی سمٹ جائے اس کو بھی اِکْتِتَاب کہیں گے۔ گچھّا گچھّا ہوجانے کے معنوں میں ہوگا پھر۔ صحیفے کھول کھول کے الگ کرتے ہیں اس کو کتابت کہتے ہیں کَتَبَ یا کَتَّبَ شاید یہ معنی ہو کہ پیٹ گچھّا گچھّا ہوگیا اپنے اوپر ہی لیٹ گیا۔ الکتاب کُلُّ کتاب یُعْتَقد أنَّہٗ(یہ تو ) یہ بات تھی لغت کی۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ علیکم القصاصُ فِی القَتْلٰییہ بہت اہم آیت ہے۔ یہاں قصاص کو فرض فرمایا گیا ہے لفظ کتاب کے نیچے۔ اور یہ آیت ایسی ہے جو غالباً میں اس سے پہلے بیان کرچکا ہوں درس کے دوران ۔ (کیوں جی) ہاں ہاں۔ یہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ پہلے درسوں میں آغاز میں اس پر تفصیلی بحث ہوگئی تھی کہ قصاص کس کو کہتے ہیں اور کیا مراد ہے یہاں۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ المَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْن یہ وہ آیت ہے جو موجودہ زیر نظر آیت کے تعلق میں اکثر فقہاء نے بیان کی۔ اکثر فقہاء نے بھی بیان کی یا مفسرین نے بھی بیان کی اور اس کو اٹھا کر اس کے مضمون کو زیر نظر وصیّت کے مقابل پر رکھ کر یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی کہ اس کی کیا حیثیت ہے۔ اور جہاں تک فرضیت کا تعلق ہے اس سے زیادہ لفظ استعمال ہو نہیں سکتا کہ کُتِبَ کے ذریعے فرمایا گیا۔ یہ فرض ہے ۔ کیا فرض ہے اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ المَوْتُکہ جب تم پر کسی کے پاس موت آئے اِنْ تَرَکَ خَیْرًا اگر وہ کچھ مال چھوڑنے والا ہو ۔ مال چھوڑا ہو سے مراد ہے اس نے اس کا کچھ مال ایسا ہو جوچھوڑا جانے وا لا ہو۔ َنِالْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْن وصیّت فرض ہے والدین کے حق میں والاقربین اور اقرباء کے حق میں بالمعروف معروف طریق پر حقًا علی المتقین یہ متقیوں پر حق ہے۔ اب لفظ متقی کہہ کر حق جو فرمایا گیا اس سے کئی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں اور وصیت جب خدا نے مقر ر کردی تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ وصیت فرض ہے ۔ یہ جو بحث ہے اس پر مفسرین نے بھی اور فقہاء نے بھی بڑی لمبی چوڑی بحثیں اٹھائی ہیں۔ بعضوں نے ناسخ منسوخ کا مسئلہ اٹھالیا کہ اس آیت کو وصیت کی تفصیلی آیت نے منسوخ کردیا۔ یعنی یہ آیت پہلے نازل ہوئی ہے وصیت والی آیت بعد میں نازل ہوئی ہے اُس نے اِس آیت کو منسوخ کردیا ۔ اِس ضمن میں مَیں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ کوئی ناسخ منسوخ قرآن کریم میں نہیں ہے۔ ہاں یہ آیت وصیّت کی اُس تفصیلی آیت سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ تو جیسا کہ قرآن کریم کا طریق ہے۔ بعض مضامین کو تدریجاً کھولتا ہے اور سوسائٹی کو تربیت دیتا ہے ایک تعلیم کو قبول کرنے کیلئے اور زور دے کر جب وہ ذہنی اور قلبی اور عملی طور پر تیار ہوجاتے ہیں تو پھر زیادہ تفصیلی قطعی تعلیم بعد میں آتی ہے۔
پس یہ وہ عمومی تیاری تھی جو اس وصیت کی تفصیلی آیت سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور اس میں لفظ معروف بتارہا ہے کہ جب تک وہ آیت نازل نہیں ہوئی معروف ہی پرانحصار تھا مگر معروف پر انحصار کو کیا اگلی تعلیم نے منسوخ کردیا ہے؟ اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی یہ بحث ہے۔ میرے نزدیک اس کی ضرورت لازماً رہتی ہے کیونکہ یہ آیت جو ہے معروف کے تابع مختلف معنے اختیار کرتی ہے۔ جب وہ آیت نازل نہیںہوئی تھی تو معروف کا معنی یہ ہوگا عرف عام میں جو معلوم ہے وصیت کیا ہونی چاہیے اس کے مطابق جو رواجات ہیں جو اچھی چیزیں انسان کو معلوم ہوتی ہیں اس کے مطابق کرو۔ جب وہ آیت نازل ہوگئی تو بالمعروف سے مراد اس آیت کے مضمون کو پیش نظر رکھووہی معروف ہے اور اس کے مطابق وصیت کرو۔ وصیت کیوں کرو اس لئے کہ از خود وہ وصیت ہر جگہ نافذ نہیں ہوسکتی اور بعض لوگ اس وصیت کے خلاف بھی وصیت کردیتے ہیں ۔ اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ اگر ایسا کریں تو پھر ان کا گناہ ہوگا اور یہ بحث اٹھے گی کہ سوسائٹی اس کے باوجود جبراً اس وصیت کونافذ کرسکتی ہے کہ نہیں۔ لیکن قرآن کریم نے جہاں تک وصیت کا مضمون بیان فرمایا ہے ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ سوسائٹی کو جبراً وصیتوں کو ٹھیک کرنے کا حکم نہیں ہے۔ مگر اگر کوئی وصیت کا قانون کسی ملک میں یا کسی معاشرے میں یا جماعت میں بحیثیت جماعت ، بحیثیت ملک قبول کرلیا گیا ہو تو پھر جس کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ عدالت میں قضاء میں یا نظامِ جماعت کے سامنے اپنے معاملات پیش کرکے اس حوالے سے اپنا حق چاہے کہ چونکہ آپ نے ایک معاشرے کیلئے تمام کیلئے اس اصول کو تسلیم کرلیا ہے اس لئے اس پر عمل نہیں ہورہا تو فلاںجگہ اس پر عمل کروائیں۔ یہ ایک دوسرا پہلو ہے تضاد کوئی نہیں ہے۔ مگر بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں وصیت کے بغیر بات چلے گی ہی نہیں۔ اس لئے متقین کی بات چھیڑ ی گئی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو یہ نہ سمجھو کہ بعض قوانین تمہارے تمہیں پورا اختیار دیتے ہیں اور اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا اشارہ بھی نہیں کرتے۔ تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں اگر تمہیں معروف کے مطابق یعنی اِن معنوں میں کہ جب خداتعالیٰ کی تعلیم واضح ہوچکی ہے، کھل چکی ہے ، معاشرے کا حصہ بن گئی ہے تو رواج معروف نہیں رہا بلکہ وہ تعلیم معروف ہوچکی ہے اس کے مطابق اگر تم وصیت نہیں کرو گے تو اللہ سے ڈرو کیونکہ اس کے ہاں جواب دہی ہوگی۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام کی بات ہوچکی ہے ۔ صیام میں بھی لفظ کُتُب استعمال ہوا ہے لیکن انسان کو اختیار نہیں ہے سزائیںدینے کا۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ قتال فرض ہے حالانکہ بہت ہی اہم فریضہ ہے۔ لفظ کتاب کے تابع ہے مگر ایک بھی ایسا واقعہ نہیں کہ بعض مسلمانوں نے فریضۂ قتال نہیںکیا۔ ادا نہیں کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے قتل کا فیصلہ کیا ہو اُن کو قومی غدار قرار دے کر کُتِبَ کا عذر رکھ کر اُن کی جائیدادیں غصب کی ہوں ، ضبط کی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ جو واقعات قرآن میں محفوظ ہیں اُن سے صاف ثابت ہے کہ آنحضور ﷺ نے اجتماعی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے ،سوشل دبائو ڈالا گیا ہے، مقاطعہ کیا ہے اور قطع تعلقی اختیار کی ہے لیکن ان کے بنیادی انسانی حقوق سے اُن کو نہیںروکا اور وہ اپنے اموال پر اُسی طرح قابض رہے اپنے گھروں میں اسی طرح رہتے رہے، بیویاں ان کے ساتھ رہتی رہیں اور ان کو یہ نہیںکہا گیا کہ تم گھر سے نکل جائو تمہارا اب کوئی حق نہیں رہا ۔ تو لفظ کُتِبَ کے تابع قتال ہوتے ہوئے بھی ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ چاہے تو غلط فیصلہ کرے یعنی یہ اختیار نہیں کہ فیصلہ ایسا فیصلہ کرے جو قرآن کے خلاف ہوا اور وہ فیصلہ اس فیصلے کا اس کو حق ہے۔ فیصلے کا حق ہے مگر اگر غلط فیصلہ کرے گا تو غلط فیصلے کا حق ان معنوں میں ہے کہ وہ فیصلہ خدا کے نزدیک درست نہیں ٹھہرے گا اور وہ سزاوار ہوگا ان معنوں میں کہ حق ہے یعنی اپنے خلاف فیصلہ کررہا ہوگا اور اللہ دخل نہیں دے گا۔وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُم سے پتہ چلتا ہے کہ قتال ایک ایسا مضمون ہے جس میں نفس نے بہانے ضرور پیش کرنے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ مگر ان بہانوں کے ہوتے ہوئے ان کو قبول کرنا سوسائٹی کا فرض ہے۔ دلوں میں اُتر کر فیصلے کرنا سوسائٹی کا فرض نہیں ہے ۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اُن تین کے حق میں جو اخلاص میں بہت اونچے تھے اور تقویٰ میں بہت اونچے تھے اُن کے متعلق تو فیصلہ فرمادیا کہ ان کا مقاطعہ ہوگا لیکن وہ جنہو ں نے جھوٹ بولے تھے ان کو کوئی سزا نہیں دی۔ تو یہ ہے وہ قرآن جو محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر اُترا اور آپ کی روح کی گہرائیوں تک سرایت کرگیا ہے۔ آپ کے فیصلوں کے خلاف کسی اور مولوی کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہے۔ آپ کو پتہ تھاکہاں میں نے رکنا ہے۔ علم کے باوجود کہ بظاہر یہ جھوٹے نظر آتے ہیں دل میں اترنے کا دعویٰ آپ ﷺنے نہیں کیا نہ اپنی اس استطاعت کا عذر رکھ کر کہ میں دل پڑھ لیتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ اکثر دل پڑھ لیتے تھے اس کو یہ عذر رکھ کر بھی شریعت نافذ نہیں کی کیونکہ یہ خدا کے معاملات ہیں۔ پرانے زمانے میں بھی ہوچکا ہے قال ھل عسیتم ان کتب علیکم القتال الا تقاتلوا اس وقت کے نبی نے اپنی قوم سے کہا یا کسی جرنیل نے اس قوم سے کہا کہ کیا یہ ممکن نہیںہے کہ قتال فرض ہو جائے ۔ دیکھیں کس کا ہے یہ قول ‘ نبی لھم ۔ نبی لھم ابعث لنا ملکا ۔ موسیٰ کے بعد ان کی قوم نے ایک نبی سے یہ درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کرسکیں ۔ تو انہو ں نے یہ کہا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ جہاد فرض ہوجائے اور تم لوگ نہ کرو ۔ تو انہوں نے یہ کہا ناں یہ نہیں ہوسکتا۔ قالو وما لنا الا نقاتل فی سبیل اللہ ہم پاگل ہوگئے ہیں ہمیں کیا ہوگیا ہے، ہم خدا کی راہ میں جہاد نہ کریں و قد اخرجنا من دیارنا و ابناء نا اس بات نے یہ اور بات مضمون کھول دیا کہ جنہوں نے جہاد کیلئے درخواست کی تھی کوئی جارحانہ جہاد ان کے ذہن میںنہیں تھا بلکہ وہ بنیادی شرط جو سورۃ حج کی آیت میں ملتی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم کے۔کوئی ظلم نہیں کیا اور ان پر ظلم کیا گیا۔ یہ واقعہ ان کے ساتھ ہوچکا تھا یہاں تک کہ من دیارنا و ابناء ناان کے بچے بھی ان سے چھین لیے گئے جہاں تک چھینے جاسکتے تھے اور اپنے گھروںسے نکال دیے گئے پھر بھی جہاد نہیں کرتے جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ان کیلئے ایک سردار مقرر نہیں کردیتا۔ اس حد تک یہ بالکل ٹھیک تھے لیکن ان میں کئی جوشیلے تھے جو منہ سے باتیں کرتے تھے مگر جانتے نہیںتھے کہ جہاد ہوتا کیا ہے۔ جب آپڑے تو پھر سمجھ آتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے جہاد کے فرض ہونے کے باوجود وہ نہیں اختیار کیا حالانکہ اس سے پہلے فرض ہونے کے باوجود وہ چھوڑے گئے تھے۔ مگر مطالبہ کیا ہے۔ یعنی جہاد کا فریضہ ایک اور معنوں میں ہمارے سامنے آرہا ہے تاریخی پس منظر میں کہ جہاد عملاً فرض ہوچکا ہے مگر اس کو اس حق کو استعمال نہیں کیا گیا۔
پس فرض سے بعض دفعہ یہاں اور بھی بعض ایسی آیات ہیں جہاں اجازت کے معنے اور جواز کے معنے بھی ملتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو جب گھروں سے نکالا گیا ، ظلم کیے گئے۔ تیرہ سال تک عملاً جہاد فرض تھا کیونکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق آپ لڑ سکتے تھے مگر آپ نے استعمال نہیں کیا اُس حق کو جب تک واضح طور پر اُذِنَ کے تابع خداتعالیٰ نے آپ کو یہ حکم نہیں دیا اور یہ اجازت نہیں دی۔ اس وقت تک آپ نے جہاد نہیںکیا۔ اب اُذِنَ کا معنی ’’فرض کردیا گیا ہے‘‘اگر لیا جائے ان معنوں میں کہ اب حکم ہوگیا ہے تم ضرور لڑو تو رسول اللہ ﷺ کو فوراً مکے پر چڑھائی کردینی چاہیے تھی کیونکہ خدا کے منشاء کے سب سے زیادہ فرمانبردار اور مطیع آنحضرت ﷺ تھے اور اُذِنَ کا معنی آپ نے یہ نہیں سمجھا کہ مکے پر چڑھ دوڑو اور اب شروع کردو مار کٹائی۔ آپ نے اس کا معنی اجازت سمجھا ہے۔ اب اگر دشمن زیادتی کرے تو تمہیں اجازت ہے خداتعالیٰ کی طرف سے۔ پس جب اہل مکہ نے زیادتی کی تو پھر لڑائی ہوئی ہے۔ جب پھر زیادتی کی پھرلڑائی ہوئی ہے۔ تو یہ جو لفظ کتاب ہے اس کے تابع یہ ساری چیزیں آرہی ہیں اور ہر جگہ اس کا معنی وہ فرض نہیں ہے جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں۔ پھر کتب علیکم القتل الی مضاجعھم ۔ قل لو کنتم فی بیوتکم لبرزالذین کتب علیھم القتل الی مضاجعھم کہ جن پر قتل خدا نے فرض کردیا ہے وہ تو نکلیں گے بستر چھوڑ چھوڑ کے بھی نکلیں گے اور ان مقاتل کی جگہ پہ جا پہنچیں گے جہاں ان کا مرنا ، ان کا قتل ہونا مقدر ہوچکا ہے۔ تو یہاں تقدیر معنے ہیں کُتِبَ کے۔ یہ نہیں کہ لوگوں پر فرض ہے کہ بستر چھوڑ چھوڑ کے دوڑیں اور وہاں پہنچیں جہاں انہوں نے قتل ہونا ہے کسی کوکیا پتہ۔ فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ یہاں بھی وہی مضمون ہے وہ ڈرے ، رک گئے مگر ان کا قتل نہیں کیا گیا۔ آگے و یستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتاب فی یتامی النساء الّٰتی لا تؤتونھن ما کتب لھن و ترغبون ان تنکحوھن ۔ اب یہاں بھی لفظ کُتِبَ بڑی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے مگر ایسے معاملات میں جہاں خداتعالیٰ فرمارہا ہے اس کتابت کے باوجود تم نہیں کررہے، جو خدا کا حکم تھا اس کو ٹال رہے ہو ، اس پر عمل درآمد نہیں کررہے ۔ لیکن اس کی کوئی سزا ایسی مقرر نہیں فرمائی جس کو نافذ کرنے کیلئے رسول اللہﷺ یا صحابہ کی جماعت کو حکم ہو ۔یہ موقع ہے جس کا اس سورہ النساء سے تعلق ہے اور سورہ نساء ہی سے لی گئی ہے۔ آیت ۱۲۸ ہے جب وہاں آئے گی تو پھر اس کی گفتگو وہاںہوگی انشا ء اللہ۔ اس پر گفتگووہاںہوگی۔
سورہ توبہ میں الا کتب لھم بہ عمل صالح میں بھی کُتِبَ سے مرادایسی تحریر ہے جو بندے پر نہیں بلکہ خدا نے اپنے اوپرلکھی ہے کہ میں نے فرض کرلیا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو ضرور اجر دوں گا جو ایسی جگہوں پر چلتے ہیں جہاں ان کے چلنے پر ان کے قدم اٹھانے پر بھی غیض کی نگاہیں ان پر پڑتی ہیں۔ جہاںکی سوسائٹی ان کو انتہائی نفرت کے ساتھ دیکھتی اور انتہائی ذلت کے ساتھ ان سے سلوک کرتی ہے۔ اُن کو میں ہر قدم پر جو وہ ایسی جگہوں پہ اٹھاتے ہیں ان پر اس کی جزا دوں گا۔ یہ مجھ پر فرض ہے یعنی اللہ نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ و یھدیہ الی عذاب السعیر۔ وہ تولہ سے (دیکھتا ہوں) تولی تو دوستی کو کہتے ہیں ناں۔ تولہسے مراد پہلی آیت میں کچھ لوگ ایسے گزرچکے ہیں جن کا ذکر ہے جو ناپسندیدہ اشخاص اسلام کے دشمن وغیرہ۔ تو مطلب یہ ہے کہ کتب علیہ ایک اور آیت سے ایک اور سورت سے لی گئی ہے اس لئے اس کا سیاق و سباق یہاںسامنے نہیں ہے اس لیے میں تھوڑا سا رکا تھا مگر یہ بہر حال قطعی بات ہے کہ تولہ سے مراد ایک ایسا شخص ہے جس کو خداتعالیٰ نے ناپسند فرمایا جو اسلام کا دشمن ہے۔ فرمایا خدا پر یہ بات فرض ہے کتب علیہ کہ جو بھی ایسے شخص سے دوستی کرے گا یضلہ و یھدیہ الی عذاب السعیرکہ اللہ تعالیٰ اسے گمراہ قرار دے گا اور جہنم کے عذاب کی طرف اس کو پکڑ کر لے جائے گا، رستہ دکھاتا ہوا لے جائے گا۔اب کُتِبَ کا معنی اجازت کا میں نے ایک بتایا تھا ۔ اب اس بات کو ختم۔ اس کے بعد میں اس مضمون کو ختم کرکے پھر واپس اپنی آیت کی طرف لوٹتا ہوں یعنی اس آیت کی طرف لوٹتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم حلال ہے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ خداتعالیٰ نے جن تعلقات کا حق تمہیں عام دنوں میں دیا ہے رمضان میں وہ منع نہیں ہوگئے وہ بھی جائز ہیں۔ اس لئے تم اپنے نفسوں سے زیادتی کرتے ہو جب کہ اس خطرے سے کہ رمضان میں کہیں اگر ہم نے اپنے روز مرہ کے ازدواجی تعلقات قائم رکھے تو خدا کی ناپسندیدگی کمالیں گے۔ نیکی یہ بنا رکھی ہے کہ رمضان میں کم سے کم راہب ہوجائو۔ اللہ فرماتا ہے غلط ہے یہ بات۔ اللہ تعالیٰ واضح طور پر حلال قرار دے رہا ہے روزے کے دوران کے علاوہ باقی وقت میں روز مرہ کی عام زندگی گزارنے کو یہ مراد ہے۔ روزے کی حدود ختم تو وہ زائد پابندیاں ختم۔ عام زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو یہاں تک کہ ہر قسم کے ازدواجی تعلقات بھی تم قائم کرسکتے ہو۔ فرمایا فالئٰن باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم اور اب تم بیشک جو چاہو کرو اُن کے ساتھ حسن معاشرت کرواور جو کچھ اللہ نے لکھ رکھا ہے کتاب میں فرض کردیا ہے تم پر ۔ اب کتب اللہ کا معنی یہاں یہ تو لیا ہی نہیں جاسکتا کہ ہر شادی شدہ جوڑے پر فرض ہوگیا کہ رمضان کے مہینے وہ ضروراپنے تعلقات کو قائم کرے۔ یہاں اجازت کے معنے ہیں (اور اجازت کے معنے بھی ہیں) اور یہ معنے بھی ہیں کہ وہ اجازت جو عام طور پر تمہیں حاصل ہوچکی ہے یعنی حلّت کی اجازت کتاب ہے۔ جو چیز کتاب کے تابع حلال کی گئی ہے اسے حرا م نہ کرو ۔ بس اتنی سی بات ہے۔ تو کتاب کے معنے بڑے وسیع ہیں اور کتاب اور وصیت کے مضامین کئی دفعہ اکٹھے بھی ہوجاتے ہیں۔
یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین میں نے کہا تھا یہ ایک عنوان ہے کہ دو لڑکیوں کا حصہ ایک اورایک لڑکے کا حصہ ایک۔ ’’ذَکَرَ ‘‘ اور ’’اُنثٰی‘‘ کی جہاں تک بحث آئی تھی اس کے متعلق میں نے بیان کیا تھا کہ میرے نزدیک قطعی طور پر اس سے مراد لازماً بالغ مرد اور بالغ عورتیں نہیںہیں ۔ بسااوقات بالغ مردو ں کیلئے بھی لفظ استعمال ہوا ہے اور شاید زیاد ہ تر انہیںکیلئے استعمال ہوا ہو ۔ بالغ عورتوں کیلئے بھی ہوا ہے مگراس کے باوجود غیر بالغ مردوں، بچوں پر بھی استعمال ہوتا ہے اور لغت عرب لغت اس کی تائید کرتی ہے۔ لسان العرب میں لکھا ہے اور کہتے ہیں کہ نر بچہ بریکٹ میں اس وقت سے ہی رُجُل کہلائے گا جب کہ اس کی والدہ نے اسے جنم دیا اور جب تک رہے رجل کا لفظ استعمال ہوگا اور اگرچہ بعض بالغ ہونے کے متعلق بھی کہتے ہیں کہ معروف یہ ہے کہ رجل وہ کہلائے جو نر فرد ہو ، عورت کی ضد ہو۔ رجل تب بنتا ہے جب وہ غلام کی عمر سے آگے چلا جائے یہ عام تعریف ہے۔ لیکن چونکہ قرآن کریم نے رجل کے لفظ کو بچوں کیلئے بھی استعمال فرمایا ہے اور محض نر اور مادہ کیلئے رجل اور نساء کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے اہل لغت مجبور ہیں یہ ماننے پر کہ نر بچہ اس وقت سے ہی رجل کہلائے گا جب کہ اس کی والدہ نے اسے جنم دیا اور المعجم الوسیط نے رجل کے وہ معنے دیے ہیںجو میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ بہادر مرد یابالغ مرد۔
پس یہ بحث مزید ضرورت نہیں اٹھانے کی۔ میں نے قرآنی آیات سے ثابت کیا تھا اب میں لغت کے حوالے سے بھی مزید اس کی تائید کررہا ہوں۔ پس ان کیلئے اگر ان کن نساء فوق اثنتین یہ بحث ہوچکی ہے ۔ و ان کانت واحدۃ فلھا النصف اگر وہ اکیلی ہو ایک لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف ہوگا اور باقی کیا ہوگا ولابویہ لکل واحد منھما السدس اور اُن کے اس کے والدین کیلئے اُن میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہوگا مما ترک ان کان لہ ولد ۔ اب جو کچھ بھی انہوں نے چھوڑا اگر ان کی اولاد ہو۔ اب وہ جو لڑکی ہے وہ بھی ولد کے اندر آتی ہے۔ کیونکہ وُلَدُ کی بحث فقہاء اٹھا چکے ہیں مراد یہ ہے صاحب اولاد ہیں اگر وہ صاحب اولاد نہیںتو لڑکیاں پھر ورثہ کیسے پائیں گی اور اگر ــوَلَدٌ سے مراد لڑکا لیا جائے تو پھر اس آیت کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس صورت میں دوسرا قانون جاری ہوتا ہے۔ ایک اور دو والا ۔ یہاں ہے ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد دونوں کیلئے چھٹا حصہ ہوگا۔ اب یہ جو چھٹے حصے والی بحث ہے یہ اب میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے عنوان تو یہ لگایا ہے یوصیکم اللّٰہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۔ للذکر مثل حظ الانثیین کے مضمون کو فقہاء نے ایک عمومی عنوان بنادیا ہے۔ ہر تقسیم کیلئے ۔ لیکن یہ لفظ بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے فی اولاد کم اس کو اگرنظر اندازکردیا جائے تو یہ عمومی عنوان ہر جگہ چسپاں نہیں ہوگا یعنی بظاہر یہ عمومی عنوان ہے مگر اولادِ کم کی شرط کی وجہ سے یہ ایک زائد بات ہے کہ اکثر اوقات اس کا اطلاق اولاد کے حق یا اولاد کے حق میں تو لازماً ہوگا اور باقی جگہ ضروری نہیں۔ یہ معنی اگرلیا جائے تو پھر اس آیت کا آخری حصہ سمجھ آجاتا ہے اور اس کا پہلے کے ساتھ تضاد نہیں ہے۔
پس اس عنوان کو اولاد کے حق میں تولازماً ماننا ہوگا اس کے علاوہ جو دوسرے ہیں جن کا ذکر ہے ورثے میں جہاں خدا نے ان کو Independentlyدگنا دیا ہے وہاں ماننا پڑے گا مگر اس کے تابع یہ سمجھنا کہ ہر ورثے کی تقسیم میں عورت کو ایک اورمرد کو دو حصے ملیں گے یہ درست نہیں کیونکہ اس آیت کا آخری حصہ کہہ رہا ہے ۔ ولا بویہ لکل واحد منھما السدس اُن کے ماں باپ کیلئے جنہوں نے اولاد ایسی چھوڑی ہے اُن میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے۔یہ میںبات اب پہلے کھول چکا ہوں کہ اگر تو لڑکیاں ہوں دو یا دوسے زائد تو 1/3 بچتا ہے جو برابر تقسیم ہوجاتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ ایک اور دو کی بحث بعدمیں (حصے کی بحث) بعد میں اٹھے گی پہلے والدین کا چھٹا حصہ اُن میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ یہ تسلیم کرو۔ اگر یہ تسلیم نہیں کرو گے تو ان کو کچھ نہیںملے گا۔ اس لئے جو بچے گا وہ ایک اور دو کی نسبت سے تقسیم ہوگا کیونکہ حصہ جہاں معین ہوجائے اس کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ایک اور دو جو ہے وہ تو مختلف صورتوں میں مختلف معنے رکھ سکتا ہے۔ یہ بات سمجھانے کی غرض سے تھوڑی سی اور کھولنی ہوگی کیونکہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں تھوڑا سا نیند کا سایہ ساآرہا ہے۔اس لئے لازماً اپنی رفتار باقی سب کے سمجھنے کی رفتار کے ساتھ ملانی پڑے گی۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ۔ اُن کے حصے کس طرح ہوں گے۔ ایک بیٹے کو دو حصے ۔ دو بیٹیوں کو ایک حصہ دونوں میں برابر تقسیم یعنی ایک ایک حصہ ٹھیک ہے۔ دو حصے اکٹھے چار سمجھے جائیں گے پھر تو۔ دو بیٹیاں ایک بیٹا۔ جب تقسیم کریں گے تو چار پہ تقسیم کریں گے ۔ چار کے اوپر تقسیم کریں گے اگر آٹھ ہزار ہے تو فی حصہ کتنا بنا دو ہزار۔ دو ہزار میں سے دو حصے بیٹے کو دے دیں گے چار حصے آٹھ ہزار ہے تو ۔ چار حصے دو دو حصے مراد ہے دُگنا۔ چار ہزار بیٹے کو دے دیں گے اور باقی چار ہزار دو دو ہزار کرکے دو بیٹیوں کو دے دیں گے۔ ٹھیک ہے۔ اگر یہ بیٹیاں چار ہوں اور بیٹا ایک ہو تو یہ وہ دو دو اور چار چار ہزار تو نہیں نہ رہے گامعاملہ۔ یہ بدل جائے گا۔ اس لئے یہ تقسیم مختلف وقتوں میںمختلف کل جائیداد کا حصہ مختلف ہوتا چلا جائے گا۔ آٹھ ہزار تو آٹھ ہزار ہی رہے گا مگرا ن کو آٹھ ہزار کا نہ چھٹا ملا نہ دسواںملا نہ ساتواں نہ دوسرا کیونکہ تعداد کے اعتبار سے اس کو نہ ہم ساتواں کہہ سکتے ہیں نہ آٹھواں کہہ سکتے ہیں نہ نواں کہہ سکتے ہیں۔ اگر وارثوں کی تعداد بڑھ جائے گی تو سَتواں آٹھواںکا مضمون بدلتا چلا جائے گالیکن چھٹا چھٹا ہی رہے گا۔ اس لئے ماں کو چھٹا ضرور ملے گا۔ اور باپ کو بھی چھٹا ضرور ملے گا۔ پس اس پہلو سے ان کے چھٹے کو ٹچ (touch)نہیں کیا جاسکتا۔ کل جائیداد میں سے پہلے چھٹا چھٹا نکالا جائے گا یعنی 1/3الگ کرلیا جائے گا۔ باقی میں پھر ساری اولاد حصہ بانٹے گی اور اس کا اصول ہے ایک اور دو کا ۔
پس اولادکیلئے تو ہے ماں باپ کیلئے ایک اور دو کا اصول نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ اس آیت کا یہ مطلب نکالنا کہ یہ قانون ہر صورت میں ہر وصیت کے اوپر اطلاق پائے گا درست نہیں ہے۔ اولاد کے حق میں لازماً ہوگا لیکن باقیوں کے حق میں نہیں ۔ اور اولاد میں بھی فقہاء میں اختلاف آگے جاکے بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جہاں پوتا پوتی شروع ہوگئے، نواسہ نواسی شرو ع ہوگئے وہاں ایک اور دو کا اصول نہیں رہے گا کیونکہ اولاد سے مراد وارث اولاد ہے اور قرآن کی رو سے پوتا پوتی اور نواسا نواسی وارثوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔ پس یہاں اولاد کے معنی ہوں گے بیٹا بیٹی یا بیٹیاں یا بیٹا۔ ان کے اوپر یہ اصول ہے ماں باپ کو چھٹا ملے گا۔اب سوال یہ ہے کہ ماں باپ کو اکیلے اکیلے کو چھٹاکیوں ملے گاجب انہوں نے اپنے ورثے پائے تھے تو ایک اور دو کی عادت پڑی ہوئی تھی اُن کو ۔ اب ان کو چھٹا چھٹا مل رہا ہے یہ کیا وجہ ہے۔ اس میںایک حکمت کی بات یہ ہے کہ والدین میں سے جو بھی مرے گا وہ اصل میں بچوںکو واپس لوٹے گا۔ اس لئے اولاد کے حق کے لحاظ سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔ ماں کو، ماں بھی مرے گی تو بچوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ باپ بھی مرے گا تو بچوں میں برابر تقسیم ہوگا اور ان کی عمر بالعموم ایسا لڑکا جو مررہا ہے جائیداد چھوڑ کر صاف پتہ چل رہا ہے کہ ان کے والدین عمر کا اچھا حصہ گزار چکے ہیں، اپنی ذمہ داریاں ادا کر بیٹھے ہیں۔ اور بعید نہیں کہ اولاد ہی پر پل رہے ہوں اس لئے ان کیلئے یہ اصول نہیں ہے جیسے باپ کی ذمہ داری تھی خاندان کو پالنا اس لئے لڑکے کو دو حصے دیے گئے۔ اب ان کے پالنے پوسنے کی عمریں تو تقریباً گزرچکی ہیں۔ اب خوامخواہ کیوں تفریق کی جائے۔ دونوں کو برابر دے دو تاکہ وہ اپنے مزے کریں۔ جو چاہے ماں خرچ کرے جو چاہے باپ خرچ کرے کیونکہ اصل جو روح تھی ایک اور دو کی اس کا زیادہ تر تعلق اولاد کی پرورش اور عائلی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں باپ مردکو جو فریضہ سونپا گیا ہے ا س کے پیش نظر اس کو کچھ زیادہ ملنا چاہیے تھا اور اب یہ بات گزر چکی ہے۔منڈے بڈھے ماں باپ تو نہیں پالتے اکثر۔ بعض صورتوں میں پالتے بھی ہوں گے۔ بعض بچے ہیں جو لٹکے رہتے ہیں آخر تک۔ جیسے بعض بچے دودھ نہیں چھوڑتے بڑی مصیبت پڑی ہوتی ہے،تو اللہ ان پر رحم کرے۔ مگر قرآن نے جو مضمون کھینچا ہے ، نقشہ کھینچا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ (یہ ضمنی استنباط ہوتا ہے) کہ تمہارا ماں باپ پر بوجھ ڈالنے کا وقت گزر چکا ہے جب تم بڑے ہوگئے ہو، بالغ ہوگئے ہو تو پھر ان کی خدمت کرو بجائے اس کے کہ ان پر لٹکے رہو۔ اب آگے ہے فان لم یکن لہ ولد و ورثہ اَبوٰہ فلامہ الثلث اگر کوئی بچہ نہ ہو و ورثہ اَبوٰہ فلامہ الثلث تو سُدس کی بجائے یہاں ثلث کا لفظ آیا ہے۔ لیکن باپ کا ذکر نہیں فرمایا ہے۔ اگر کوئی بیٹا نہ ہو و ورثہ اَبوٰہ فلامہ الثلث یہ بہت ہی باریک مضمون ہے اسے خوب اچھی طرح کھول کے سمجھنا ضروری ہے۔ وہاں 1/3,1/3کیوں نہ دیا۔ وہاں ایک اور دو والا مضمون پھر واپس آگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر اولاد کوئی نہیں ہے تو ان دونوں کو جو کچھ ملا ہے وہ اولاد کی طرف نہیںلوٹے گا بلکہ اپنے بھائی بہنوں کی طرف لوٹے گا۔ اور اگر اپنے بھائی بہنوں کی طرف لوٹے گا تو روز مرہ کی کمائی میں خاوند کا زیادہ حصہ تھا بہ نسبت بیوی کے اور اگر وہاں برابر کردیا جاتا تو اس میں ایک مخفی ناانصافی ہوتی۔ خواہ باپ کے رشتہ داروں سے کہ روز مرہ کی زندگی میںکمانے میں محنت تو زیادہ باپ نے کی ہے اور بیٹوں کی طرف سے ماں اور باپ میںبرابر تقسیم ہوگیا جبکہ وہ بیٹوں کونہیں لوٹ سکتا۔ ان کے اپنے رشتہ داروںکو لوٹے گا یعنی ماں مرتی ہے پھر اگر تو اس کے دیور کو تو حق نہیں ملے گا۔ اس کے بھائی کوملے گا جو صلب سے الگ ایک رشتہ چل چکا ہے۔ اس لیے خداتعالیٰ نے یہاں ایک کا ذکر فرما کر دراصل للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول کو یہاںدوبارہ زندہ کردیا ہے۔ زندہ تو ہے ہی دوبارہ اس کو یہاں اطلاق فرمادیااس کا ایسی صورت میں بقیہ 2/3باپ کا ہوگا۔
و ان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس اور اگر اس کے بھائی ہو ں تو فلامہ السدس من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین۔ مرنے والے کے اگر بھائی ہوں۔ میں نے کہا تھا ناں اگر صحیح حقیقی وارث نہ ہو تو پھر بھائیوںکے حق قائم ہوتے ہیں اور اگر وہ بات درست ہے کہ باپ کے بھائیوں کو حقوق یا اس کے قریبیوں کے حقوق پیش نظر رہیں اس لیے ایک اور دو کا اصول بحال فرمایا گیا تو پھر مرنے والے کے بھائی بھی ہوسکتے ہیں بیٹے نہیںہوں گے مگر بھائی تو ہوسکتے ہیں تو ان کا بھی پھر ذکر ضروری تھا اور انہی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ فان کان لہ اخوۃ اگر اس کے بھائی ہوں تو پھر ماں کو تیسرا نہیں ملے گا پھر ’’سدس‘‘ ہوگا ۔ اس صورت میں بھائیوں کا حق جو ہے وہ بیچ میں حائل ہوجاتا ہے۔ اس کو حجاب کہتے ہیں ۔ کس حد تک حجاب ہے آگے۔ علماء نے خوب پھر بحثیں چھیڑی ہیں۔تو آگے جب بحثوں میں جائیں گے تو میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ مگر ان سب بحثوں ، ان سب باتوں کو دیکھنے کے بعد، پڑھنے کے بعدایک بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہوجاتی ہے کہ ورثے میں مختلف دور کے علماء نے مختلف مذاہب یعنی فرقوں کے علماء نے بہت حد تک اصولوںکو چھوڑکر فروعات میں دخل دے دیا ہے یعنی بنیادی تعلیم قرآن نے جو دے دی تھی اس سے ہٹ کر بعض احادیث سے استنباط کرکے استنباط در استنباط در استنباط اور اس کے نتیجے میں اتنا فرق پڑگیا ہے کہ جو بنیادی قوانین ہیں جو اہم مرکزی قوانین ہیں ان میںلگتا ہے کہ شریعت ایک ہے ہی نہیں۔ بیشمار شریعتیں ہیں اور جو بھی کرلو جائز ہے اگر یہ جائز ہے تو وہ بھی جائز ہے۔ وہ جائز ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ یا اگر یہ حرام ہے تو وہ بھی حرام ہے تو سارا معاملہ ہی تتر بتر ہوگیا ہے اور بکھر گیا ہے کیونکہ یہ ایک خطرناک بات ہے کہ قرآن کے ساتھ چمٹے رہنے کی بجائے قرآن کو سمجھنے اور غور کرنے، سمجھ کو غور کرکے اس سے رہنمائی لینے کی بجائے اگر انسان جلد ہی یہ کوشش چھوڑ دے اور گہر ا غورکرنے کی بجائے سہارا لے لے روایات کا یا پرانے علماء کے فیصلوں کا تو بڑا قطعی یقینی خطرہ ہے کہ وہ بہک جائے گا اور یہی ہوا ہے۔ چنانچہ آگے جاکے میں جب حوالے پڑھوں گا تو پھر آپ کو سمجھ آجائے گی کہ انہی باتوں میںکتنے اختلاف پائے جاتے ہیں۔
اب ہم اس آیت کی طرف واپس آتے ہیں۔ واپس آتے ہیںفان کانا لہ اخوۃ فلامہ السدس من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین پس اگر اس کے بیٹے نہ ہوں اور بھائی ہوں تو پھر 1/3نہیں ملے گا ماں کو پھر اس کو ’’سدس‘‘ ملے گا۔ اب یہاں ایک اور بحث اٹھ چکی ہے کہ اس کو سدس ملے گا تو باپ کو کیا ملے گا۔ ثلث ملے گا یا ثلث کا دو حصے یعنی 2/3ملے گا ۔ یہ بھی اب علماء نے اپنے اندازے سے بحثیں اٹھائی ہیں ۔ باپ کا حق پہلے بھی ذکر نہیں کیا یہاںبھی ذکر نہیں کیا جس کا مطلب ہے وہ ایک مسلمہ حق ہوگیا ہے۔ وہ مسلّمہ حق اگر ایک اور دو کے اصول پر ہو تو ثلث کی صورت میں 2/3لازماً باپ کو ملے گا۔ بھائی اگرہوں اور باپ بھی ہو اور ماںبھی ہو تو ماںکو چھٹا ملے گا تو باپ کو اگر ثلث ملے گاتو پھر تو ایک اور دو کا حق قائم ہوجاتا ہے۔ اگر اس کو 2/3ہی ملنا ہے تو پھر وہ حق ہی ٹوٹ جاتا ہے اس لیے اس سے جو ظاہری استنباط نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ ماںکے حصے کو معین کرنے سے ہم نے باپ کا حصہ استنباط کیا ہے۔ جب پہلی دفعہ یہ کیا ہے تو دوسری دفعہ بھی یہی کرنا چاہیے۔مگر بعض فقہاء نے اس سے اختلاف کیا ہے۔جب ان کی باری آئے گی تو میں اس کی تفصیل بتائوں گا ۔ اباؤکم و ابناؤکم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا یہ جو بات یہ وہی ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک پہلی آیت سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ اصل وصیت میں جو روح کار فرما ہے وہ اُن تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے جو باپ کے بیٹوں پر بچوں پر اور بچوں کے باپ پر۔ یعنی وہ خاندان جس کے پالنے کی ذمہ داری ہے اور اگر ماں باپ بوڑھے ہوں اور ان کا ، ان کے گزارے کی صورت نہ ہو تو لازماً قرآن کی رو سے فرض ہے انسان پر کہ ان کی دیکھ بھال کرے جس طرح انہوں نے بچپن میں ان کو رحم سے پالا تھا۔ تو اصل وراثت کا مضمون زندگی میں ایک دوسرے پر انحصار ہے جو بعد کے لوگ ہیں وہ تب آتے ہیں میدان میںجب یہ موجود نہ رہیں یا موجود تو رہیں مگر ان کے دوسرے حالات رحم کے تقاضے کرتے ہوں اور خدا تعالیٰ نے ان کی تقسیم میں کچھ ایسی جگہیں رکھ دی ہوں باقی جن کو ان کے متعلق معین نہ فرمایا ہو تو طوعی طور پر اس میں سے ان لوگوں کو دیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے خلاصہ چنانچہ آخری بات جو خدا نے فرمائی وہ جو میں خلاصہ پیش کررہا ہوں اس کی تائید میں ہے۔ اباؤکم و ابناؤکم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا۔ تمہارے ماں باپ بھی ہیں اولاد بھی ہے۔ تمہیںکچھ پتہ نہیں کہ کون تمہارے لئے نفع کے لحاظ سے زیادہ قریب ہے۔ یعنی کچھ پتہ نہیں کہ پہلے کون مرتا ہے ، بعد میں کون مرتا ہے۔ تم زندہ رہو اور اولاد فوت ہوجائے یا تم زندہ رہو اور ماں باپ فوت ہوجائیں یا تمہی فوت ہوجائو۔ نہ اس کا حصہ پائو نہ اس کا حصہ پائو۔ یہ باتیں تو خدا کے ہاتھ میں ہیں مگر ایک دوسرے سے رشتوں کے لحاظ سے منافعے وابستہ فرمادیے گئے ہیں۔ فریضۃ من اللہ یہ ہے اللہ کی طرف سے فریضہ ان اللہ کان علیما حکیما ۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت حکمت والا اور بہت جاننے والا ہے۔ (میں نے کہا میں جب اٹھا اٹھا کر ادھر دیکھ رہا ہوں ۔ آپ اگر دو تین منٹ رہ جائیں تو بتادینا۔ ٹھیک ہے)۔
وصیت کے متعلق جو لغت کی کتب میںلکھا ہے وہ یہ ہے۔ إیصاَء کا اسم ہے وصیت۔ اس کی جمع ’’وصایا‘‘ ہیں بعض دفعہ وصیت اس چیز کوبھی کہا جاتا ہے جس کی وصیت کی جارہی ہو یہ وصیت ہے مراد ہے ترکے کو بھی وصیت کہا جاتا ہے۔ ھذہ وصیّتہٗ ای الموصی بہ یعنی وہ چیز جس کی وصیت کی گئی ہے یہ اس کی وصیت ہے۔ وصایا اللہ ایسے عمل جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لازم قرار دیے اور ان پر واجب ٹھہرائے جس طرح کہ والدین کی تعظیم و اکرام۔ مثال پہلے گزر چکی ہے۔
حل لغات:دَیْنٔ: دَانَ یَدِیْنُ سے مصدر دَینٌ آتا ہے۔ قرض اور اگر کہا جائے دَانَ تو اس کا مطلب ہے کسی انسان نے کسی کو قرض دیا۔ یعنی اس سے قرض لیا ۔ اور اگر ادنیٰ کاصیغہ افعال کا صیغہ استعمال کیا جائے تو اس سے قرض لیا مراد ہوتی ہے۔ نہ قرض دیا مراد ہوتی ہے۔ اب میںایک ایک لفظ پڑھتا ہوں۔ دِنْتُ الرِّجُلَ۔ میں نے ایک رجل کو دِنْتُ یعنی دَانَ کا فعل کیا اس کیلئے میں نے اس سے قرض لیا۔ تو دَانَ کا مطلب ہے قرض لینا۔ اور اگر کہا جائے کہ اَدَنْتُ میں نے اس کو ساتھ اَدْنیٰ اِدَان کا فعل باب افعال میں لفظ دَیْن کو اگر ڈھالا جائے تو اَدَنْتُ کہیں گے بجائے دنْتُ کے۔ دنْتُ کہیں گے تو ثلاثی مجرد ہے اس کا مطلب ہے میں نے اس سے قرض لیا ۔ اَدَنْتُ میں نے اس کو قرض دیا۔ ابو عبیدہ نے یہی معنے کیے ہیں اس کے۔ مَدِین یا مدیون مقروض کو کہتے ہیں وَدِنْتُہٗ میں نے اس سے قرض لیا ۔ اَدَنْتُ بعض کہتے ہیں دِنْتُ کی طرح ہی ہے۔ یعنی ایک اہل لغت مشہور ابو عبیدہ یہ فرق کررہے ہیں مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اَدنی بھی کہا جائے تو دراصل دِنْتُکے معنے ہی ہیں۔ کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ یہ باقی دَانَ یَدِیْنُ کی بحث ہے۔ یہ محض لغت کی باریکیاں ہیں جس میں زیادہ تفصیل سے جانے کی ضرورت نہیں۔ خلاصہ کلام وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکا ہے جو ضروری ہے آپ کا سمجھنا۔ مثلاً جب کہے گا دَانَ فُلانٌ: تو کہتے ہیں قرض طلب کرنے کیلئے بھی استعمال ہوجاتا ہے۔ یہی صیغہ۔ تو آپ نے کون سی عربیاں بولنی ہیں اس لیے اس کو چھوڑ دیں جہاں وصیت کے تعلق میں بات سمجھنی ضروری ہوگی وہ بتادوں گا۔ نَفَع کا معنی آپ سب جانتے ہیں (نقصان کا معنی کم سمجھتے ہوں گے مگر نفع کا سب کو پتہ ہے)(یہ حضور نے مزاحاً فرمایا ہے: ناقل)۔
فریضہ کا معنی سب جانتے ہیں ہر ایک اُردو میں بڑی کثرت سے لفظ فریضہ استعمال ہوتا ہے فرض کے معنوں میں۔ کرنا ضروری ہو، بہت ہی اہم چیز ہو۔ فرضِ منصبی ہو یعنی اپنے منصب کے لحاظ سے ایک بات ضرور کرنی چاہیے۔ تو فریضہ کا لفظ بھی بہت عام مستعمل ہے۔ ہر زبان میںیہ ایک ہی قسم کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن بعض خصوصی عربی استعمالات ہیں جو باقی زبانوں میںمشترک نہیںہیں۔ اَلْفَرِیضَۃُ بوڑھے جانور کو بھی کہتے ہیں۔ اب یہ کیوں فریضہ بنا بیچارہ۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس کو ذبح کردینا وہ سمجھتے ہیں ضروری ہے۔ اَلْفَرْضُ: السُنَّۃُ یعنی فرض سے مراد ایسی سنت محمد رسول اللہ ﷺ ہے جو قطعیت سے ثابت ہو۔ وصیت کے متعلق اوراس کے علم کے متعلق رسول اللہﷺ نے جوعلم کی تین قسمیں ایک روایت کے مطابق بیان فرمائیں ان کو المفردات امام راغب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہیں کہ:
علم کی تین قسمیں ہیں ایک ان میں سے عادلانہ تقسیم یعنی نظام وصیت کو سمجھ کر عدل کے ساتھ جب تقسیم کیا جائے یہ ہے ایک علم۔ لیکن اَلْعِلْمُ عِلْمَانکی حدیث بھی ہے اس لیے مختلف معنوں میں قسمیں مختلف لحاظ سے کی گئی ہیں۔ ایک ہے علم تو دو ہی ہیں یا دین کا علم یا قوانین قدرت کاعلم۔ اَبدان سے مراد صرف ڈاکٹری کا علم نہیں ہے بلکہ بدن بمقابل روح بمقابل دین ۔ تو دو ہی ہیںعلم دین کا علم یا سائنس کا۔ باقی تو نرے نخرے ہی ہیں۔ ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ آرٹس وغیرہ کی اہمیت تو اس کے مقابل پر گر جاتی ہے۔ شعر و شاعری اور اس قسم کی ساری چیزیں یہ نخرے اور نفلی چیزیں ہیں اصل ہے سائنس یا دین کا علم یا دین اورسائنس کا علم۔ اب ایک روایت ہے جس سے دو یا دو سے زائد بچیاں ہوں تو ان کا کیا کرنا چاہیے اور اُن کو کس طرح ورثہ تقسیم ہوگا۔ اور کوئی اور ان میںشریک ہوگا کہ نہیں۔ اس پر روشنی پڑتی ہے۔ لیکن اس آیت سے نہیں، اس حدیث سے جو استنباط کیے گئے ہیں اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے مگر میں آپ کے سامنے یہ حدیث پوری پڑھ کے سناتا ہوں۔
حضرت جابر ابن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک عورت جس کی دو بیٹیاں تھیں حضور ﷺ کے پاس آئیںاور عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ دو بیٹیاں ثابت بن قیس کی ہیں۔ یا کہا کہ سعد بن ربیع کی ہیں جو آپ کے ساتھ جنگ احد میں شامل ہوئے او رشہید ہوئے۔ یہ وہی روایت ہے جس کو راڈویل نے اٹھایا ہے اور کہاہے کہ جو شہیدہونے والے کا نام ہے وہ مختلف روایتوں میں مختلف پایا گیا ہے یہاں تک کہ چھ الگ الگ نام ہیں۔ اس سے یہ بھی استنباط ہوسکتا ہے کہ یہ حدیثیں قابل اعتماد نہیں۔ جہاں اتنا اختلاف ہو وہاں اُن سے سند پکڑنا درست نہیں ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے میرا استنباط یہ ہے رحجان اس طرح ہے کہ جنگ احد میں ایک سے زائد صحابہ شہید ہوئے تھے ، کئی شہید ہوئے تھے۔ ستر شہید ہوئے تھے۔ ان میں سے چھ ایسے ہوسکتے ہیں جن کی صرف بیٹیاں ہوں بیٹا کوئی نہ ہو۔ تو ان میں سے کبھی کوئی عورت آئی ہے اس نے اپنے مرنے والے، اپنے شہید کا خاوند کا ذکراور نام سے کیا ہے کسی اور نام سے کیا ہے۔ تو اس روایت میں بھی یہ بات دوبارہ دہرادی گئی ہے کہ یا اس نے ابن قیس کہا تھا یا سعد بن ربیع کہا تھا۔ ہوسکتا ہے دونوں کی بیوائیں آئیں ہوں۔ مگر دونوں کی اگلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اس روایت میں بہر حال دو عورتوں، الگ الگ عورتوں کا ذکر ممکن نہیں ہے کیونکہ آگے ہے دونوں کے چچا نے ان کے مال اور میراث پر قبضہ کرلیا ۔ ممکن تو ہے پھر بھی رہتا ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے ۔ ہاں ہوسکتا ہے کہ عرب رواج کے مطابق انہوں نے سمجھا ہو کہ شہید ہونے والے بھائی کا سب کچھ ہمارا ہے۔ انہوں نے کہا ان بچیوں کیلئے کیا رہ گیا ہے پھر۔ تب کہتے ہیں سورہ نساء جو نازل ہوئی تھی، ہورہی تھی یا ہوئی تھی اس کے بعد اس کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ یوصیکم اللہ فی اولادکم ۔۔۔۔۔۔۔ الی الاخر۔ اللہ تمہیں اپنی اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے یہ آیت جو انہوں نے پڑھ کر سنائی ہے۔ کہتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس عورت کو اور اس کے ساتھ مدعا علیہ کو بلائو۔ اسکو بھی بلائو اور اس کے مال پر جو دعویدار ہے یا جس پر اس نے دعویٰ کردیا ہے اس کو بھی بلائو۔ آپ نے ان دونوں کے چچا کو ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کو دو تہائی حصہ دو ۔ یعنی پیشی ہوئی اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ دو بچیاں دو تہائی حصہ پائیں گی اور اُن دونوں کی والدہ کو آٹھواںحصہ ملے گا اور جو باقی ہے وہ بھائی کو ملے گا۔ جو آٹھواں حصہ ہے اُس 1/3میں سے وہ جائے گا۔ اب اگر ماں نہ ہو اور بھائی بھی نہ ہوں تو پھر وہ کہاں جائے گا۔ یا ماں نہ ہو اور بھائی ہوں تو بھائیوں کو ملے گا یا اس کو واپس آئے گا ۔ اس پر پھر آگے فقہاء کے اختلافات ہورہے ہیں (تین منٹ میں سے دو منٹ رہ گئے ہیں کہ ایک منٹ رہ گیا ہے)۔
علامہ رازی نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ عربوںمیں رواج کیا کیا تھے۔ متبنّٰی کو بھی کہا جاتا تھا۔ فلاں کو بھی دیا جاتا تھا۔ اب یہ قصہ پارینہ ہوچکا ہے۔ ایسا جس میں زیادہ تفصیل سے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں اسلامی قانون کو سمجھنے کیلئے اس پس منظر کی ضرورت ہو وہاں علماء کا کام ہے کہ اس کو بھی سمجھیں۔ آنحضرت ﷺ کی وراثت، کی جائیداد کی تقسیم کی بحث ایک الگ مضمون ہے اس کو میں نے الگ تیار رکھا ہے یہاں ابھی اس کو چھوڑتا ہوں کہ اگر یہ احکامات تھے شریعت کے سب پر فریضہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرآن نے الگ استثنائی حکم نہیں دیا۔ اس کے باوجود آپ کی جائیداد جو بھی تھی وہ شریعت کے قوانین کے مطابق تقسیم کیوں نہ کی گئی۔ اور رسول اللہ ﷺ نے خود کیوں روک دیا اور اس ساری جائیداد کو صدقہ کیوں فرمایا۔ یہ بحثیں ہیں جو الگ انشاء اللہ بعد میں پیش کی جائیں گی۔ اگلی بحثیں جو ہیں اُن کیلئے اب وقت نہیں رہا۔ کیونکہ کتابت کے مضمون پر بہت زیادہ وقت خرچ ہوگیا ۔ اب انشاء اللہ کل سے اسی مضمون کی جو باتیں رہ گئی ہیں وہ انشاء اللہ کل پیش کریں گے۔ ٹھیک ہے (کل جمعہ ہے) ۔ کل سے مراد یہی ہے۔ آپ اچھے فقیہ بن سکتے ہیں۔ لفظی پابندیوں میں۔ کل سے مراد آنے والاجو بھی کل ہوگا انشاء اللہ ۔ ٹھیک ہے۔ السلام علیکم (لیں جی اپنی امانت سنبھالیں)۔
إإإ


بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 2رمضان بمطابق23؍جنوری 1996ء
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً کثیراً و نساء ا واتقواللہ الذی تساء لون بہ والارحام۔ ان اللہ کان علیکم رقیبًا۔(النسا:۱،۲)
سورۃ النساء آیت ایک اور دو۔ یعنی بسم اللہ پہلی آیت ہے اور یاایھاالناس اتقوا ربکم الذیوالی آیت دوسری ہے۔اس آیت کی تفسیر کے مختلف پہلو بیان کرنے سے پہلے میں اس سورۃ کا پچھلی سورتوں سے تعلق کا ذکر کرتا ہوں۔ عام طور پر مسلمان مفسرین نے بھی یہی مؤقف لیا ہے اور مستشرقین نے بھی کہ یہاں عورت کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ اس سے پہلے چونکہ جنگوں کا ذکر تھا اور بہت سے ایسے نقصانات ہوئے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ جنگوں کے نتیجے میںیتامیٰ پیدا ہوئے ، عورتیں بیوہ رہ گئیں، اور بہت سی ایسی تکالیف تھیں جس کا خانگی زندگی پر اثر پڑا ۔ اس لیے اس موقع پر عورتوں کے احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ نظریہ بہت ہی محدود نظریہ ہے اور قرآن کریم کے آغاز سے لے کر آخر تک کی ترتیب کو نظر انداز کررہا ہے۔ نساء کا مضمون جیسا کہ مستشرقین نے سمجھا محض اتفاقی جنگ کے حادثے کے نتیجے میں ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلسل ترتیب کے ساتھ آگے بڑھنے والا مضمون ہے۔ جس کا بائبل کی غلط فہمیوں کو دور کرنے سے بھی تعلق ہے، عورت کے صحیح مقام کو بیان کرنے سے بھی تعلق ہے اور شریعت جس طرح رفتہ رفتہ مختلف احکامات کو لے کر اور مختلف مناہی کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ اس کی ترتیب کا بھی اس سورۃ کے ساتھ تعلق ہے۔ سب سے پہلے میں یہ آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ عورت کا جہاں تک تعلق ہے، سورۃ البقرہ میں عورت کو ایک ایسے رنگ میں پیش فرمایا گیا ہے، یعنی حوا کی مثال کے طور پر ، جس کو ان تمام الزامات سے بری قرار دیا گیا جو الزامات بائبل کی بدلی ہوئی بگڑی ہوئی صورت نے حوا پر لگائے تھے۔ تو سب سے پہلا جو عورت کا مقام اور مرتبہ ہے وہ سورۂ بقرہ میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کے اوپر ہر قسم کے ناجائز ظالمانہ الزام سے عورت کی بریت فرمائی گئی ہے ۔ دوسرے بعد میں جو واقعات ہیں وہ میں بعد میںبیان کرو ں گا۔ لیکن سورۃ نساء کا بھی اسی طرح ایک ایسے عظیم الشان مضمون سے تعلق ہے جس میں بائبل کے غلط عقیدے کی یعنی اس بائبل کے غلط عقیدے کی جو زمانے کے ساتھ بگڑ گئی، یا جسے انسانو ں نے نہ سمجھ کر غلط رنگ پہنادیئے اس کی نفی فرمائی گئی ہے ۔ اور اصل حقیقت حال پیش فرمائی گئی ہے۔ اب میں سب سے پہلے اس ترتیب کو لے کر آپ کو بتاتا ہوں کہ سورۃ بقرۃ سے بھی پہلے سورۃ فاتحہ ہے اور سورہ فاتحہ میں نہ مرد کا الگ ذکر ہے نہ عورت کا ذکر ہے اور خطاب ،جو پہلا انسان خداتعالیٰ سے ہمکلام ہوتا ہے اور عاجزانہ خطاب کرتا ہے وہ نعبد میں ہے اور متکلم کا صیغہ نعبد کا وہ مرد اور عورت پر یکساں اطلاق پاتا ہے۔ اس لیے وہ بحث بھی بعد میں اُٹھے گی کہ سورہ فاتحہ میں احکامات کیا بیان ہوئے اور وہ احکامات کس طرح کھلتے رہے اور وسیع تر ہوتے چلے گئے۔
سب سے پہلے میں عورت والے حصے کی بات کرتا ہوں۔ بقرۃ میں ، البقرۃ میںعورت کو گناہ میں پہل کرنے کے الزام سے بریت عطا ہوئی اور آل عمران میں عورت کو ایک مثالی پاکیزگی کا نشان بنا کر پیش کیا گیا۔ یعنی کتنا زمین آسمان کا فرق ہے ، عورت کے تصور میں جو قرآن میں ملتا ہے اور اس تصور میں جو اس بائبل میں ملتا ہے جس کو آج تک یہ خدا کا کلام کہہ رہے ہیں جو خدا کا کلام تھا وہ ماضی میں کہیں دب گیا ہے ، جو بندے کا کلام ہے اس کلام میں داخل ہوکر اس کی پاکیزگی پر اثر انداز ہوا۔ اس وجہ سے جب میں بائبل کہتا ہوں تو مراد ہرگز خدا کا کلام نہیں بلکہ وہ بائبل ،اس موازنے کے متعلق جب میں بات کرتا ہوں، جس میں انسان نے دخل دے کر خدا کے کلام پر شک کے پردے ڈال دیئے اور کچھ اس کا لے لیا اور کچھ اپنے خیالات داخل کردیئے ۔ تو پہلی بات بقرۃ نے عورت کو الزام سے بری قرار دیا ۔ دوسری بات آل عمران نے عورت کا وہ مرتبہ اور مقام بیان کیا جو بعد میں مومنوں کیلئے مثال قراردے دیا گیا۔ یعنی عورت بجائے اس کے کہ پہل نہیں کرتی گناہ کی طرف کھینچنے میں، بلکہ پاکیزگی کی علامت بن گئی اور ایسی مثال بن گئی کہ اس کی کوئی او رنظیر دکھائی نہیں دیتی۔ اور سورۃ نساء میں آغازہی میںجو عورت کا مقام بیان کیا گیا ہے وہ تمام بنی نوع انسان کی ماں کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں بھی بائبل کے اس تصور کی نفی فرمائی گئی ہے کہ آدم سے ہر چیز پیدا ہوئی۔ بلکہ پہلی آیت ہی یہ بتا رہی ہے کہ عورت سے تخلیق کا آغاز ہوا ہے۔ جہاں تک احکامات کا تعلق ہے وہ میں نے الگ سورۃ بسورۃ نکال کے اکٹھے رکھے ہیں۔ یہ مضمون میں بعد میں شروع کروں گا۔ پس سردست اتنی تمہید کافی ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب اتنی عظیم الشان ہے اور اس طرح درجہ بدرجہ مضمون کو آگے بڑھاتی ہے کہ مستشرقین کی باتیں جو بعد میں آئیں گی وقتاً فوقتاًاس کے کسی جواب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ ایسی ان کی عارضی، سطحی ، تنگ نظر ہے کہ ناممکن ہے کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھل سکتے کیونکہ دل بھی تقویٰ سے خالی تھے۔ اس لیے ان کی باتوں سے صرفِ نظر کرنا چاہیے اصل میں تو۔ ان کو پتا ہی نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ آیت وہاں ہونے کی بجائے اُٹھا کے وہاں رکھ دو ، وہاں سے اُٹھا کے اُدھر رکھ دو، ایک سورۃ کے بعد دوسری سورۃ کا نزول کیوں تبدیل کردیاگیا؟ کچھ ان کو سمجھ نہیں آتی بالکل بہک چکے ہیں قرآن کے تعلق میں۔ لیکن اگر قرآن پر غور کریں تو پھر پتا چلتا ہے کہ اگرچہ سورتیں نزول کے لحاظ سے مختلف زمانوں میںنازل ہوئیں مگر ترتیب کے لحاظ سے ان کو دوسری ترتیب دے دی گئی۔ اور ترتیب میں چونکہ ہمیں غیر معمولی حکمت اور تسلسل اور نظام دکھائی دیتا ہے ، اس لئے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ترتیب الٰہی حکم سے تھی، بندے کے بس کی بات نہیں تھی۔ کیونکہ یہ کہنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورے سے ترتیب دی ہے، یہ بالکل جھوٹ ہے اور غلط الزام ہے۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورے سے صرف یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ آنحضرت ﷺ نے اس کو کہا ںرکھا تھا؟ اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں وہ آیات جن کے متعلق شک تھا کہ یہاں ہیں یا وہاںہیں، وہ قطعی گواہی کے بعد پھر وہاں رکھی گئیں ۔ اس کے علاوہ تحریری گواہی بھی تھی۔ لیکن تحریری گواہی قرآن کے بیان کے مطابق اکیلی کافی نہیں ہوتی، اس کے ساتھ گواہ لانے ضروری ہیں۔ اس میں بڑی حکمت ہے یہ بھی ایک الگ مضمون ہے مگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض آنحضرتﷺ کے ارشادات کی تعیین اور ان کے یقینی ہونے کے تعلق میں یہ گواہیاں طلب کی تھیں۔ اور ترتیب بعینہٖ وہی ہے جو آنحضرت ﷺکو اللہ تعالیٰ نے بتائی ، جبریل علیہ السلام نے معین طور پر بار بار سمجھایا کہ یہ آیت فلاں جگہ ہوگی، یہ سورۃ پہلے آئے گی ، یہ بعد میں اور یہ بعد میں۔ یہ ترتیب اپنی ذات میں الٰہی ہونے کی گواہی رکھتی ہے کیونکہ اس ترتیب میںجو مضمر معانی ہیں وہ اتنے حیرت انگیز ہیں اور ترتیب اتنی ارتقائی ہے کہ کوئی انسان جس میں ادنیٰ بھی عقل ہو یہ تصور ہی نہیں کرسکتا کہ حادثاتی طور پر یہ ترتیب وجود میں آگئی ہے ۔ اس تعلق میں جیسا کہ عورت کا مَیں نے بیان کیا دیکھیں کیسی خوبصورت ایک تدریج ہے اور عورت کے مقام کو پہلے پاک صاف کیا گیا، الزامات سے، پھر اس کی حمدکی گئی ایک معنوں میں، اس کی تعریف بیان کی گئی کہ عورت جب پاکیزہ ہو تو بہت بڑے مراتب کو پہنچتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مومنوں کیلئے مثال بن جاتی ہے جس میں سارے مرد شامل ہیں۔ اور مومنوں کی اعلیٰ مثال بنتی ہے اور عورت جب صابرہ شاکرہ ہو تو وہ بھی ایک مثال بنتی ہے۔ مگر دو ہی مثالیں ہیں جو قرآن کریم نے مومنوں کیلئے دیں۔ ایک اوّل صورت کی اورا یک آخری صورت کی۔ ابتدائی درجے کے مومن آسیہ، فرعون کی عورت کے مشابہ تو کم سے کم ہونے چاہئیں اور اعلیٰ درجہ کے مومن وہ جن کو اپنے نفس کے نتیجے میں، اپنے نفس کی تمنا اور خواہشات کے نتیجے میں روحانی مراتب حاصل کرنے کا ایک ذرہ بھی شوق نہیں ہوتا۔ ان کا شعلۂ نفس ان پر لپکتا ہی نہیں ہے۔ اور بغیر اُس کے ان سے روحانی اولاد پیدا ہوتی ہے۔ جو محض آسمان سے اترتی ہے جیسے مسیح کی روح کے متعلق یا مسیح کے وجود کے متعلق آیا کہ مرد کو چھوئے بغیر عورت سے وہ بچہ پیدا ہوا۔ جو خداتعالیٰ کی غیر معمولی عظیم تخلیق کا مظہر بنا کہ مرد کو چھوئے بغیر بچہ ہوسکتا ہے۔
یہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے بالآخر دوسری جگہ بیان فرمایا ہے اور یہی مضمون ہے جس سے آغاز ہوا سورۃ نساء کی پہلی یعنی دوسری آیت کا۔ آدم کے متعلق اور حوا کے متعلق جو بائبل نے بیان کیا تھا ۔ اب میں آپ کو وہ پڑھ کے سنادیتا ہوں تاکہ اس کے بعد یہ موازنہ آپ کے ذہن میں خوب اچھی طرح واضح ہوجائے۔ (وہ آپ نے کہاں رکھ دیئے ہیں حوالے۔ کہاں بلکہ چھپادیئے ہیں)۔
میں نے کہا نا سورۃ نساء کے تعلق میں تدریجی ذکر دیکھنا ہوگا کہ عورت کا ذکر پہلے کہاں ملتا ہے اور کس رنگ میں ملتا ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ میں نے بیان کردیا کہ عورت کو ہرقسم کے الزام سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ جہاں تک بائبل کا تعلق ہے وہ یہ کہتی ہے۔
’’اور سانپ کل دَشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا(جتنے بھی جانور بنائے گئے تھے ان سے چالاک تھا) اور اس نے عورت سے کہا، کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اورنہ چھونا، ورنہ مر جائو گے۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے۔ عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کیلئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کیلئے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کومعلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا ، سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے آپ کو خداوند کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا‘‘۔
یہ قصہ سارا ، کیسے گناہ پیدا ہوتا ہے، کس طرح عورت نے کردار ادا کیا، اور پہل کی گناہ میں ،اس کا کوئی اشارہ بھی قرآن کریم میں سورۃ البقرہ میںنہیںہے، جہاں یہ مضمون چھیڑا گیاہے ۔ا س کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بائبل کے بیان کو قطعی طور پر غیر محفوظ بتاتی ہیں۔ اور اس صورت میں خدا کی طرف اس کا منسوب کرنا، اللہ کی ذات کے اوپر سب سے بڑا ظلم ہے۔ یعنی خدا کی ذات سے جتنا بھی، یعنی ظلم کیا جاسکتا ہے،وہ اس آیت میں موجود ہے، جو بائبل کی آیت ہے جسے من و عن اگر لیا جائے تو یہ بات بنتی ہے ۔ اس کے بیان کے مطابق سانپ نے جب پوچھا عورت سے، کہ بتائو خدا نے کیا کہا تھا؟ کیوں نہ کھانا۔ تو عورت نے جواب دیا کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اس سے مرجائو گے، کھائو گے تو مرجائو گے۔ شیطان نے کہا بالکل جھوٹ ہرگز نہیں مرو گے بلکہ نیک و بد کی پہچان پیدا ہوجائے گی، تمہیں آنکھیں عطا ہوں گی تو بائبل کے بیان کے مطابق خدا سچا یا شیطان سچا؟ بائبل کا تو پہلا باب ہی بتا رہا ہے کہ خدا کی طرف خوامخواہ سچ منسوب ہوا ہے۔ آغازِ آفرینش سے یہ جھوٹ بولنے والی ذات ہے اور سب سے پہلا دھوکہ شیطان نے نہیں دیا تھا بلکہ خدا نے دیا تھا۔ اور خدا نے اپنی ذات کو بچانے کیلئے انسان سے یہ دھوکہ اور فریب کا طریق اختیا رکیا اور یہ شیطان تھا جس نے آکے آنکھیں کھولی ہیں۔ چنانچہ دوسرا بیان جو آفرینش کے متعلق ہے (آپ نے اس کے اندر داخل کردیا ہے کہیں؟ اچھا شروع میں ہی ہے) وہ سن لیجئے۔ بائبل اور پیدائش کیسے ہوئی انسان کی؟
’’ اور آدم نے کل چوپائیوں اور ہوا کے پرندوں اور کل دشتی جانوروں کے نام رکھے اب یہاں یاد رکھیں قرآن کریم کیا کہتا ہے۔ علّم ادم الاسماء کلھا اللہ نے آدم کو تمام اسماء بتائے اور ان اسماء کو جانوروں یامختلف چیزوں کی طرف منسوب نہیںفرمایابلکہ اسماء کا مضمون کھول دیا ہے۔ اسماء اوّلیت کے لحاظ سے ذاتِ باری تعالیٰ کی صفات ہیں اور جتنے اسماء بنتے ہیں انہی سے پھوٹتے ہیں پھر آگے۔اور مخلوق کے نام بھی اسمائِ باری تعالیٰ کے تعلق میں پھوٹتے ہیں خواہ وہ منفی رنگ بھی رکھتے ہوں تو ان صفات کے عدم سے بعض منفی نام پھوٹتے ہیں۔ مثلاً آدم کے تعلق میں فرشتوں نے سجدہ کیا، شیطان نے سجدہ نہ کیا تو شیطان کا نام جو باغی بنا ہے وہ ایک مثبت نام سے تعاون نہ کرنے کے نتیجے میں ایک اور نام بنا ،مگر نام سب اسی سے پھوٹتے ہیں جو اسمائِ باری تعالیٰ ہیں ۔ یہ دیکھیں یہ کیا کہہ رہی ہے بائبل)۔’’آدم نے کل چوپائیوں اور ہوا کے پرندوں کے اور کل دشتی جانوروں کے نام رکھے‘‘۔
یعنی اس کا ، آدم کو پتا کیسے لگا کہ دنیا میں کتنے جانور ، کتنے پرندے ، کتنے سمندر کے جانور ہیں وہ تو آج تک بھی پوری تحقیق مکمل نہیںہوسکی۔ ابنائے آدم ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئے ہیں لیکن اب بھی آئے دن نئی قسم کی مخلوقات دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ اور اتناعالم الغیب تھا آدم ، تو یہ نہیں پتا تھا کہ میں ننگا ہوں۔ اس قدر مضحکہ خیز ، ایسی حیرت انگیز کہانی ہے کہ اگر اس کو خدا کی طرف منسوب کیا جائے تو خدا غائب ہوجاتا ہے او رصرف بندہ رہ جاتا ہے۔ کیونکہ ایسی جہالت خدا کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتی۔’’کل چوپائیوں اور ہوا کے پرندوں اور کل دشتی جانوروں کے نام رکھے۔ پر آدم کیلئے کوئی مددگار اس کی مانند نہ ملا۔ آدم نے سارا جہان چھان مارا ہر نام رکھ لیے، ہر جانور کو پہچانا، سمندر کی تہہ میں غوطے لگائے، وہاں کی مچھلیاںدیکھیں، وہاں کے ہر قسم کے سمندری جانوروں، کیڑوں مکوڑوں کو دریافت کرنے کے بعد مناسب حال نام رکھ دیئے۔ اپنے جیسا کوئی نہ ملا بیچارے کو ، اکیلا رہا۔ ’’اور خداوند نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سوگیا۔ اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا(کیوںڈاکٹر صاحب کون سی پسلی missingہے آپ کی؟ ہیں بتائیں ،ہیں، کوئی ہے بیچ میں خلا ہوگیا ہو وہاں بیچ میں ، گوشت بھر گیا ہو۔ ہے کہیں؟ اچھا۔ پھر معلوم ہوتا ہے آپ ابنائے آدم میں سے نہیں ہیں۔ ان ابنائے آدم میں سے نہیں ہیں جو بائبل پیش کررہی ہے۔ ٹھیک ہے۔)
پسلیوں میں سے ایک کو نکالا اس کی جگہ گوشت بھر دیا اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بناکر اسے آدم کے پاس لایا اور پھر جگایا اس کو ۔ کہ دیکھ کون کھڑا ہے پاس۔ اور آدم نے کہا کہ یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس لیے وہ ناری کہلائے گی، کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ہے۔( اب یہ اُردو میں جو ترجمہ کرنے والوں کاکمال ہے کہ اگرچہ اصل الفاظ بدل کر کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں، مگر انہوں نے اُردو میں بھی نر اور ناری کا لفظ ڈھونڈ لیا کہ نر سے نکلی اس لیے ناری کہلائے گی۔ انگریزی بائبل میں ہے Manسے نکلی ہے سو womanکہلائے گی۔ اب womanکاکیا مطلب ہوا ۔ مگر انہوں نے ایک چالاکی سوچی ہے اصل جو عبرانی عبارت ہے وہ نکلوائیں۔ اس میں کیا ہے۔ مگر بہرحال ایک یہ لفظی چالاکی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں)۔ اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ ے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا۔ اور وہ ایک تن ہوں گے۔ (مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا کی بجائے ہوتا یہ ہے عورت اپنے ماں باپ کو چھوڑتی ہے اور مرد کے پاس جاکے رہتی ہے اور آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے)۔ یہ حال تھا ان کی لاعلمی کا کہ ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے اور علم کایہ عالم تھا کہ تمام جہان کے کیڑے مکوڑے، پرند، چرند ، فضا، خشکی ، ہوا کے جانور سب کا آدم کو علم تھا اور ہر ایک کو نام اس نے دیا تھا۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
سب جانوروں کو پتا تھا کہ ہم ننگے ہیں ، ایک آدم کو نہیں پتا تھابیچارے کو کہ میں ننگا ہوں۔تب اس کو کس نے بتایا، سانپ نے بتایا۔اور اس طرح بتایا) اس نے کہا: سانپ نے عورت سے کہا ’’تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہیں(تمہاری) آنکھیں کھل جائیں گی‘‘۔یہ اندھی آنکھوں نے سارے جانور دیکھے تھے ان کوکچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پھر کہتا ہے کہ ’’خدا جانتا ہے کہ تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بدکے جاننے والے بن جائو گے۔ عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کیلئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کیلئے خوب ہے ، تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں‘‘۔ اس سے پہلے سارے واقعات گذر چکے تھے اور ان کومعلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں۔ پہلی دفعہ ان کو پتا چلا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔پہنا، اوڑھنا، انجیر کے پتوں سے اُنہوں نے شروع کیا ہے اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز، جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا، سنی۔ اور آدم اور اس کی بیوی نے آپ کو خداوندخدا کے حضورسے، باغ کے درختوں میں چھپایا۔ اب وہ پتے اوڑھ لیے تھے اس وقت خدا سے شرم آنے کی کیا ضرورت تھی، جب ننگے پھرتے تھے اس وقت تو شرم آتی نہیں تھی۔ نہ اپنے سے نہ کسی اور سے۔ تب خداوند نے آدم کو پکارا اور اس سے کہا کہ تو کہاں ہے؟ اللہ کا علم الغیب یہ ہے۔ آوازیں دیتا پھرتا ہے باغ میں کہ آدم تو کہاں ہے بتا تو سہی؟ کہاں چھپ گیا ہے؟ اور اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا، کیونکہ میں ننگا تھا۔ میں نے تجھے چلتے پھرتے سن لیا تھا ، تیرے قدموں کی چاپ سن لی تھی اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا ۔ اس نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تو ننگا ہے۔ پکڑا گیا نا یہاں آدم آگے، اس نے یہ نہیں بتایا کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں، میں باغ کا پھل کھا بیٹھا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس جواب سے پکڑلیا اس کو۔ کہ ہیں!! تجھے کس طرح پتا چلا کہ تو ننگا ہے؟ میں نے تو تجھے آنکھیں ہی نہیں دیں تھی دیکھنے کیلئے! کیاتو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا؟ آدم نے کہا کہ جس عورت کو تونے میرے ساتھ کیا ہے ، اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیاا ور میں نے کھایا۔ یعنی یہ عورت کا مقام ہے، یہ آدم کا تصور ہے، اُس بائبل میں جس کو یہ لے لے کے گھر گھر پھرتے ہیں۔ اورکہتے ہیں کہ ادھر آئو، اس میں تمہارے لیے نجات ہے ، اس بائبل میں جس میں انسان نے اپنے دماغ کے سارے اندھیرے ڈال دیئے، خدا کی طرف جھوٹ منسوب کیا، خدا کی طرف دھوکہ منسوب کیا، اورا ٓدم کی تخلیق کا ایسا جاہلانہ تصور پیش کیا کہ خود ان انسانوں نے جنہوں نے یہ بائبل کے ساتھ اپنا تعلق باندھ رکھا ہے ایک ایک منزل پر جب بھی جستجو کی، بائبل کو جھوٹا پایا اور خداتعالیٰ کی قدرت کو کسی اور رنگ میں دنیا میںکائنات میں ڈھلتے اور کھلتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر بھی یہ چمٹے ہوئے ہیں۔ اس لئے اصل بات یہ ہے کہ آدم اگر دونوں آنکھوں سے اندھا تھا تو یہ ایک آنکھ سے اندھے ہیں۔ یعنی دائیںطرف کی آنکھ بند ہے، مذہب کی آنکھ سے بالکل اندھے ہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور بائیں طرف کی آنکھ جو دنیا طلبی کی آنکھ ہے وہ بہت روشن ہے، اس میں زمین کی پاتال سے بھی یہ راز نکال لاتے ہیں۔ اچھا، اب اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں ۔ اب میں واپس اس آیت کے مضمون کی طرف آتا ہوں ، جو میں نے تلاوت کی ہے۔
اس پہلی آیت میںجو سورۂ النساء کی آیت ہے ، عورت کو ہی پہلی سورتوں کی طرح، پہلے سے بڑھ کر پیش کیا جارہا ہے اور تمام بنی نوع انسان کی ماں کے طو ر پر پیش کیا ہے، آدم کو پہلے نہیں رکھا بلکہ حوا کو پہلے رکھا ہے۔ ان معنوں میں کہ زندگی کا آغاز اور زندگی کی نشوونما کا آغاز جس نفس سے ہوا تھا، اسے مادہ بیان کرکے پیش کیا گیا ہے اور ابھی اس کا تعلق کسی نر سے کوئی نہیں تھا، کیونکہ نر پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ نر بعد میں پیدا ہوا اور اس نفس میں سے پیدا ہو ا جس کو خداتعالیٰ ایک مادہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جب پیدا ہوا توپھر مرد اور عورت دونوں بن گئے۔ اور مرد اور عورت سے پھر تمام بنی نوع انسان کی نسلیں پھیلی ہیں۔ یہ تصور ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے اوربعینہٖ یہی ہے۔ جو سائنس نے دریافت کیا ہے۔ سائنس کی بہت سی باتیں تو بعد میں غلط ثابت ہوتی ہیں مگر بعض ایسی ہیں جو قانون بن جاتی ہیں، جن کے متعلق کوئی معمولی شعور رکھنے والا سائنسدان بھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ ان حقائق میں سے ایک ہے۔ اب اس کی طرف میں پہلے آتا ہوں ، بعد میں اس کے جو لغوی بحث وغیرہ ہے بعد میں لے لیں گے ، کیونکہ اب یہ مضمون چل پڑا ہے۔ بیچ میں اس کو تھوڑی دیر کیلئے چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم۔ اوّل یہ بات بھی رکھیں یاد کہ یاایھاالناس کا خطاب ہے۔ یاایھاالذین امنوا کا خطاب نہیں۔ اور اس خطاب کا تعلق ہرگز مشرک یا اہل کتاب سے یا مومنوں سے الگ الگ نہیں ہے بلکہ لازماًمحض انسان پیش نظر ہے۔ اس لیے مستشرقین جو یہ کہتے ہیں کہ مکے میں جو خطاب تھا اس میںعام طور پر ایھاالناس کہا گیا تھا۔ اس غرض سے کہ تاکہ مشرکین مخاطب ہیں سامنے وہ مومن نہیں تھے، نہ وہ اہل کتاب تھے۔ تو قرآن کایہ کلام محدود نوعیت کا تھا، یہ انہوں نے محض اس شکست سے بچنے کی خاطر رستہ اختیار کیا ہے کہ قرآن کریم بنی نوع انسان کو بحیثیت بنی نوع انسان مخاطب کرتا ہے اور یہ کہتا ہے قل یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا کہہ دے اے بنی نوع انسان میں تم سب کی طرف جمیع طور پر رسول بناکر بھیجا گیاہوں۔ ( یہ آیت کس وقت نازل ہوئی ہے؟ یہ تو نکالیں کل کے درس میں لے آئیں گے)۔ یہ ویریؔ اور سیلؔ وغیرہ اس قسم کی جاہلانہ باتیں کرتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ مگر بعض دفعہ غصے کی بجائے ان کی جہالت پر رحم آتا ہے۔ وہ بعض باتوں میں بالکل بے اختیار ہیں ان کو سمجھ آہی نہیں سکتی۔وہ یہ انداز ہ کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کلام بنایا ہے ، اس لئے اگر ہم بناتے تو اس طریق پر بناتے، اگر ہم بناتے تو مکے کے دور میں جو ہم آیات قرآنی بناتے اس میں خطاب ایھاالناس سے کرتے۔ اور جب مدینے میں داخل ہوتے تو یہود کا خیال رکھ کر اور عیسائیوں کا خیال رکھ کر اہل کتاب کے لفظ سے بھی ان کو مخاطب کرتے اور مومنوں کو پھر مومن کہہ کر مخاطب کرنا شروع کرتے۔ یہ انہوں نے اپنا انداز آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ اس اندا زکے خلاف مکی سورتیں گواہی کے ساتھ بھری پڑی ہیں۔ بالکل جھوٹا الزام ہے۔ الناس کا خطاب قرآن کریم کا شروع سے واضح اور ظاہر و باہر طور پر تمام بنی نوع انسان سے ہے۔ اس میں مشرک اور غیر مشرک کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اس سورت میں مثلاً جو سورۃ نساء ہے جس کے متعلق یہ سب مستشرقین مانتے ہیں کہ یہ آیت بہرحال مدنی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہے جن آیات کو انہوں نے غیر مدنی قرار دیا ان کی لسٹ میرے پاس موجود ہے، اس میں یہ آیت شامل نہیں ہے(کیوں جی ہے؟ نمبر ۲ آیت، ۱۴ اور شاید ۳۰ وغیرہ، ۴۳ سے شروع ہوتا ہے آگے) اور یہ خطاب دیکھیں۔
یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ اے لوگو! اے انسانو! نہ مشرک نہ غیر مشرک کوئی مذہبی تفریق پیش نظر نہیں ہے، تخلیق کا مضمون ہے۔ اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ۔ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو ، جس نے تمہیں پید ا کیا، من نفسٍ واحدۃٍ ۔نفس ایک ایسا لفظ ہے جو مؤنث بھی ہوتا ہے اور مذکر بھی ۔ یعنی اسمیں عورت کی ضمیر بھی اس کی طرف پھر سکتی ہے اور مرد کی بھی۔ اور نفس انسانی جان کے متعلق جب استعمال ہو تو اسے مؤنث حوالے سے بھی قرآن کریم یاد کرتا ہے، مگر یہاں صرف نفس کی بات نہیں فرمارہااللہ تعالیٰ، خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ ۔ یہ لفظ واحدۃ ہے جس پر غور ضروری ہے۔ یعنی بنی نوع انسان کی پیدائش کا یہ نقشہ پیش کررہا ہے اللہ تعالیٰ ، کہ تمہیں سب سے پہلے ہم نے ایک ایسی جان سے پیدا کیا تھا جو مؤنث بھی تھی اور اکیلی بھی تھی۔ وخلق منھا زوجھا ۔ اور اس کا زوج، اس کا مذکر، نر ہم نے اس میں سے پیداکیا ہے۔ اور ابھی انسان وجود میں ہی نہیں آیا۔ آغاز اس طرح ہوچکا ہے کہ زندگی ایک ایسے مادے سے پھوٹتی ہے جو مادہ بھی ہے یعنی اس میںعورت کا مضمون پایا جاتا ہے اور اس مادہ کو کسی مرد کی احتیاج نہیں ہے۔ وہ اکیلی کافی ہے اور اس سے زندگی پھوٹ کر ایک لمبا سفر اختیار کرلیتی ہے، تب جاکر خلق منھا زوجھا کا مضمون آتا ہے۔ پس بائبل کا یہ بیان کہ آدم کی پسلی سے پیدا کیا تھا کیسے صاف جھٹلادیا گیا ۔ آدم کی پسلی سے کوئی پسلی نہیں نکالی گئی اورڈاکٹر صاحب کی پسلی میں نے دکھائی ہے ابھی آپ کو، مطلب ہے اشارہ کیا ہے اس طرف ۔ وہ ڈاکٹر ہیں جانتے ہیں پسلیاں کتنی ہوتی ہیں، انہوں نے ہاتھ لگا کے بھی احتیاطاً دیکھ لیا تھا۔ دونوں طرف ہاتھ پھیرا تھا کہ میری پسلیاںپوری ہیں۔ تو یہ پتا نہیں کون سا آدم ہے جس کا ذکر کررہے ہیں؟ اور فرمایا اس میں سے پھر ہم نے اس کا زوج نکالا ہے۔ جب نر اور مادہ پیدا ہوچکے، جب نر اور مادہ کے ذریعے افزائش نسل کانظام جاری ہوگیا۔ بث منھما رجالاً کثیرًا و نسائً ۔ تو رجال اور نساء ان دونوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک بھی دونوں میں سے جو انسان کہلاتے ہیںخواہ و ہ رجال ہوں ، خواہ وہ نساء ، ایک بھی اکیلا خود پیدا نہیںہوا۔ اب یہ وہ جو مضمون ہے ، یہ اتنا قطعیت کے ساتھ سائنس سے ثابت ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کوئی دنیا کا سائنس دان مذہبی ہو یا غیر مذہبی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ زندگی ایک لمبے عرصے تک تنہاسفر کرتی رہی اور عورت یعنی مادہ کے پیٹ سے پیدا ہوتی رہی، اور ہرگز اسے مرد کی احتیاج نہیں تھی۔ اس سے پہلی سورتوں میںجو عورت کا ذکر ہے اس کا اس آیت سے بھی گہرا تعلق ہے وجہ یہ ہے کہ سورۃ آل عمران میں یہ دعویٰ فرمایا گیا کہ مریم بغیر مرد کے تعلق کے بچہ جننے کی اہل ثابت ہوئی اور اس پر بڑے اعتراض ہوئے کہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ اس سورۃ جو نساء جس کا نام رکھا ہے اس کو اس سورۃکے آغاز ہی میں فرماتا ہے ، تمہیں کیوں تعجب ہے۔ تم سب کی ماں تو وہ مادہ تھی جس کو کبھی مرد کی احتیاج نہیں ہوئی اور انسان کی پیدا ئش کا آغاز ہی اس زندگی کے آغاز سے ہوا ہے جو مختلف شکلوں میں پہلے پائی جاتی تھی، مگر وہاں نہ نر کی تمیز تھی نہ مادہ۔ نر کی الگ تمیز تو ہوگی لیکن مطلب یہ ہے کہ نر کاوجود کوئی نہیں تھا۔ اکیلی مادہ افزائش نسل کیلئے کافی تھی۔ غور کرکے دیکھ لو ۔ پس مادہ ہے جو بغیر نر کے احتیاج کے بچے پید اکرتی رہی ہے اور کروڑوں سال تک ایسا کیا ہے اس نے اور اب تمہیں شک پڑ گیا ہے کہ عورت سے، اکیلی سے بچہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ خدا نے اس میں سے پھر اس کا نر پیدا کیا تھا۔ اور عورت کو بطور ماں کے یہ عظیم مقام دیا گیا ہے یہاں۔ اور عیسائی کہتے ہیں کہ عورت بیچاری کو تو کوئی کسی شمار میں ہی نہیں رکھا گیا۔ جو عورت کا مضمون عیسائیت میں ملتا ہے(آگے حوالے رکھ دیئے ہیں ناآپ نے ساتھ شامل؟) عورت کو کس رنگ میں پیش کیا گیا ہے؟ وہ بھی حوالہ ہے کہ نہیں اس میں، نیو ٹیسٹامنٹ (New Testament)کا؟ اس میں بھی عورت کاذکر ملتا ہے(اچھا ٹھیک ہے)۔ وخلق منھا زوجھا و بثّ منھما رجالاً کثیرًا ونسائً۔ مرد اور عورت تو جوڑا بننے کے بعد جوڑوں ہی میں سے پیدا کئے گئے ہیں، یعنی انسان کے آبائو اجداد ابھی انسان کہلانے کے مستحق نہیں تھے۔ جوڑے پیدا ہوچکے تھے ، ان سے پھر آگے یہ پیدائش ہوئی ہے۔ ایک اس کا یہ مضمون ہے جو کھل کے سامنے آگیا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جب انسان جس کو ہوموسیپین(Homo Sapien) کہا جاتا ہے ،وہ پیدا ہوا ہے تو کیا واقعہ ہوا تھا؟ کیا پہلے ایک نر وجود میں آیا تھا، خواہ وہ دو جانوروں کے ملنے سے ہی آیا ہو، لیکن پہلے نر وجود میں آیا تھا جس کو ہم فرسٹ ہومو سیپین (First Homo Sapien)کہہ سکتے ہیں یا پہلے عورت وجودمیں آئی تھی جس کو فرسٹ ہو مو سیپین (Homo Sapien)کہہ سکتے ہیں۔ ہومو سیپین سائنس کی اصطلاح میں حیوان ناطق کو کہا جاتا ہے ، جس سے آگے انسان کی ساری نسل چلی ہے۔ جس کو آدم کہہ سکتے ہیں اور اس سے پہلے کہتے ہیں کہ ایک وجود تھا جس کو ہومو اریکٹس (Homo Eractus)کہتے تھے۔ وہ جانور ، انسان اور پہلے جانوروں کے درمیان انسان کے قریب ترین پیدا ہونے والا جانور تھا، جو دو ٹانگوں پر سیدھا چلنا سیکھ گیا تھا۔ مگر ابھی اس کا دماغ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ہومو سیپین(Homo Sapien)یعنی انسان ناطق کہلانے کے قابل نہیں تھا۔ اس کی جو کھوپڑی ملی ہے وہ سائز میںبہت چھوٹی ہے اور اس کے اندر اتنا مادہ دماغ کا آتا ہی نہیںکہ وہ سمجھتے ہیں سائنسدان کہ وہ ترقی کرتے ہوئے انسانی علوم کی آخری منازل طے کرسکتا، یعنی مسلسل انسانی علوم کا وہ سفر کرسکتا جس پر انسان کو ڈال دیا گیا۔
تو یہ جو فرمایاگیا ہے کہ عورت سے پیدا کیا گیا ہے اس کا ایک یہ معنی بنیں گے، یعنی مادہ سے ، اکیلی مادہ سے کہ جب انسان کا آغاز ہوا ہے، اس وقت بھی سب سے پہلا وجود جو ظہور میں آیا ہے وہ مادہ تھی۔ چنانچہ سائنسدانوں نے جو اب تک تحقیق کی ہے ، مختلف وقتوں میں مختلف پنجر زمین سے نکالتے رہے ہیں، جو ابتدائی انسانوں کے پنجر تھے ، ایک لاکھ سال سے بھی پرانے زمانے کے، ان پنجروں سے یہ اندازہ لگاتے رہے کہ آدم اور حوا کی پیدائش تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن، کل کی بات ہے۔ وہ جو انسان کی پیدائش ہے وہ تو لاکھ سال سے بھی اوپر بہت پرانے زمانے سے شروع ہوچکی تھی اور اس کے دبے ہوئے پنجر قطعی طور پرمل چکے ہیں۔ آخری چیز جو اس ضمن میں دریافت ہوئی وہ ایک عورت کا پنجر ہے جو کینیا سے یا مشرقی افریقہ کے کسی ملک سے نکلا ہے اور اس کے متعلق سائنسدان کہتے ہیں کہ جتنے بھی پنجر نکلے ہیں ان میں سے یہ قدیم ترین ہے۔ اور اس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ پہلا تھا یا اگر پہلانہیں تھا تو یہ ملک بہر حال وہ ملک ہے جہاں پہلی عورت پیدا ہوئی اور جس کو ہم ہوموسیپین(Homo Sapien)کہہ سکتے ہیں۔ اس عورت سے پھر مردکے تعلق سے جو چیزیں پیدا ہوئی ہیں وہ انسان کہلائے۔ یعنی وہ ایسے مقام پر کھڑی ہے عورت کہ پہلا ترقی کا قدم جو اٹھا ہے وہ ایک عورت کی شکل میں اُٹھا ہے۔ اس کے بعد خداتعالیٰ نے پہلے نسل کے آدمی سے اس کا تعلق جوڑا ہے یا اس کے ساتھ بعد میں اسی ماں کے پیٹ سے ، جس سے یہ پیدا ہوئی تھی ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس کو ہم مرد کہہ سکتے تھے مقابل پر،اور اس زمانے میں وہ قوانین تونافذنہیں تھے جو شریعت کے بعد نافذ ہوئے ہیں۔ وہاں تو زندگی آزاد تھی تعلقات میں۔ تو اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ نسل جو بننی شروع ہوئی ہے اس کا پہلا فرد عورت اور بعدمیں پھر اسی سے وہ مرد بنے ہیں اور پھر ان دونوں کے تعلق سے مرد اور عورتیں دنیامیں پھیلنے شروع ہوگئے۔ پس اس آیت کو جس پہلو سے بھی دیکھیں، آج کی سائنسی دریافت قطعی طور پر اس کی سچائی پرگواہ بنتی ہیں۔ اور بائبل جو تصور پیدائش کا پیش کرتی ہے ، وہ مذہبی لحاظ سے بھی انتہائی ناقص اور سائنسی لحاظ سے بھی نہایت بودا اور بلا تاخیر، بلا تردّد ردّ کرنے کے لائق ہے۔ پھر فرماتا ہے، عورت کی عظمت کا خیال دیکھیں،کہ نشان کتنا بڑا ہے اس میں یعنی ساتھ یہ بھی ثابت کردیا کہ مریم کا جو ذکرگزرا ہے ، اس پہ تعجب کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ جو فرمایا تھا کہ آدم کو بھی تو پیدا کیا تھا اس کی تشریح اس آیت نے کردی ہے۔ لوگ یہ ترجمہ کرتے ہیں۔ عیسیٰ کی مثال آدم سے ہے۔ لوگ یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ جس طرح آدم بن ماں باپ کے پیدا ہوا ، اسی طرح مریم کا بیٹا عیسیٰ اگر بن باپ کے پیدا ہوگیا تو کیا تعجب ہے اور یہ بات ہے غلط کہ وہ آدم جس کا ذکر ملتا ہے اس سے تو لاکھ سال سے بھی اوپر پہلے زمانے سے انسان موجود تھا۔ تو کیا قرآن کریم نے نعوذ باللہ کوئی غلط بات کہی ہے۔ قرآن کریم نے جو کہاخود اسے سمجھا بھی دیا۔ فرمایا تم بحث یہ اٹھارہے ہو کہ کس طرح عورت سے بغیر مرد کے تعلق کے کچھ پیدا ہوگیا۔ خلق آدم پر کیوں غور نہیں کرتے۔ اگر تم خلق آدم پر غور کرو تو یہ مضمون پوری وضاحت کے ساتھ تم پر کھل جائے گا اور دل کی گہرائی تک تمہیں مطمئن کردے گا کہ عیسیٰ کے بے باپ کے پیدا ہونے میں ہرگز کوئی خدائی نشان اس کی ذات میں نہیں ہے۔ بلکہ اگر نشان ہے تو خالق کی ذات میں ہے اور وہ اس سے پہلے بھی ایسی تخلیق کرچکا ہے جو تمہاری نظر کے سامنے ہے ۔ تو آدم کی تخلیق پر غور کرو گے تو عیسیٰ کی تخلیق تو بالکل معمولی ایک چھوٹا سا رونما ہونے والا رستے کا واقعہ دکھائی دے گا ۔اور یہ تفصیل ہے، جس کا یہاں ذکر کردیا گیا ہے۔
پس آدم کی مثال یہ ہے۔یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ اے بنی نوع انسان! یاد رکھو، اے انسانو! یاد رکھو! اور تقویٰ کرو اللہ کا اپنے ربّ کا ، جس نے تمہیں ایک ہی مادہ ذات سے پیدا کیا ۔ اور اس مادہ ذات سے اس کا جوڑا نکالا اور جب جوڑا نکال لیا تو ان دونوں میں سے پھر مرد اورعورتیں پیدا کیں اور اکیلا نہ آدم پیدا ہوا نہ اکیلی حوا پیدا ہوئی۔ واتقوااللہ الذی تساء لون بہٖ والارحام۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، جس سے تم سوال کرتے ہو تساء لون بہٖ… جس سے تم سوال… یہاں جس کے ذریعے سے تم آپس میں سوال کرتے ہو کا ترجمہ بھی بنتا ہے اور جس سے تم سوال کرتے ہو یہ بھی ہے ۔ اس لیے میں آپ کو… یہاں رک گیا تھا کہ کون سا ترجمہ اختیار کروں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ ’’جس کے حوالے دے دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو‘‘ واتقواللہ الذی تساء لون بہٖ والارحام۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جس کے تعلق میں تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ یعنی جس کے حوالے سے۔ والارحام اور ارحام کا خیال رکھنا یہ جو دوسرا ترجمہ ہے ا سکے متعلق ابھی میں پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس لفظ تساء لون سے نکل سکتا ہے کہ نہیں۔ میرے ذہن میں دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ جس کے بہ…واتقواللہ الذی تساء لون بہٖ… ساء ل بہٖ کا مطلب یہ ہے اس سے بھی مانگا، اس سے پوچھا۔ تو تساء لون کا مفہوم میرے ذہن میںیہ بھی ابھرتا ہے، اگر عربی گرائمر نے اجازت دی تو کل میں آپ کو بتادوں گا کہ بہت سوال کرتے ہو۔ صرف یہ نہیں کہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو بلکہ سوال اللہ سے ہی کرتے ہو مگر بہت سوال کرتے ہو(یہ چیک کریں جی کل)۔ والارحام،اور ارحام کا خیال رکھنا۔ اب دیکھیں عورت کا مرتبہ کس طرح خداتعالیٰ نے درجہ بدرجہ آگے بڑھایا ہے اور کس عظیم مقام تک اس کو پہنچادیا ہے کہ اگر تم نے اللہ سے سوال کرنے ہیں (اگر یہ میرا معنی درست ہے) تو یہ سوال جو ہیں یہ ارحام کے حق ادا کرنے سے قبول ہوں گے ورنہ نہیں ہوں گے۔ یہ جوبات ہے یہ تو قطعی طور پر آنحضرتﷺ سے ثابت ہے اس لیے گرائمر کی بحث جو بھی اُٹھے یہ مضمون بہر حال قطعی طور پر اس آیت سے نکلتا ہے کہ رِحم سے تعلق رکھو گے، رِحم کے حقوق ادا کرو گے تو رحمن خدا سے تعلق رہے گا۔ اگر رحم کے حقوق ادا نہیں کروگے تو رحمن خدا سے تعلق کاٹا جائے گا۔
ان اللہ کان علیکم رقیبًا اللہ تعالیٰ تم پر(یعنی اس پہلو سے رقیباً مراد ہے ۔ ویسے تو رقیب ہر پہلو سے ہے مگر اس مضمون کے بعد یہ بات بنے گی) خداتعالیٰ تم پر مسلسل نگران ہے۔ پس جو حقوق رحم سے پیدا ہوتے ہیں ان کو اس طرح درجہ بدرجہ بڑھا کر یہاں دکھایا گیا اور اس کے بعد پھر عورت کے حقوق کا مضمون چھیڑ دیا گیا ہے جو سورہ نساء میں آتا ہے ۔ اس کا کسی اتفاقی جنگی حادثے سے کوئی تعلق نہیںہے۔ لیکن چونکہ جنگیں ہورہی تھیں، اس سے پہلے حکم تھا کہ صبر کرو اورایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو اور رابطوا آپس میں ایک دوسرے سے تعلق باندھو، اللہ سے تعلق باندھ کے رکھو اور اپنی سرحدوں کی نگرانی کرو۔ یہ سارے مضمون رابطوا میں شامل ہیں۔ اس لیے اب فرمایا ہے کہ رابطوا کے کیا کیا طریق ہیں؟ رابطوا میں جو باہمی ربط ہے وہ رحمی تعلق کو توڑ کر قائم رہ ہی نہیں سکتا۔ پہلے گھر میں انسان ایک دوسرے سے مربوط ہوگا ، اگر خاندانی رِباط کو تم نے چھوڑدیا اور یہ خیال کیا کہ تم آپس میں بطور قوم کے ایک ہوکر رہ سکتے ہو تو اس بات کو جھوٹ سمجھو ۔ کیونکہ جس نے رِحمی رشتوں کا تعلق توڑا اس نے خدا کو بھی چھوڑد یا، کیونکہ رحمن اس سے تعلق کاٹ لے گا۔ اور آپس میں جس کا گھر ایک نہ ہوسکے وہ قوم ایک کیسے ہوسکتی ہے؟پس رابطوا کے مضمون کو ہی آگے بڑھایا گیا ہے اور (سورہ ٔنساء سے ایک یہ بھی اس کا تعلق ہے)،نہ پچھلی سورۂ آل عمران سے اس کایہ بھی ایک تعلق ہے۔پس اب دیکھ لیں تعلق کس طرح خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ صاف دکھائی دینے لگے ہیں کہ ایک سورت دوسری سے مربوط اور یہ رباط جو ہے یہ صرف انسانوں کا ہی نہیں سورتوں کا بھی آپس میں رباط ہے اور سورۃ نساء کا تو اتنا گہرا اور قطعی مضبوط تعلق پہلی سورتوں سے ہے کہ یہ باتیں وہ جو بیچارے محروم ہیں ان کو نظر نہ آئیں ، تو ہم اس میںان کو بے قصور سمجھتے ہیں۔ ہم بے قصور اس لیے سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کا بغض نظر نہیں آرہا پوری طرح جو اندر دبا ہوا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اندھے کیوں ہوئے ہیں اور کیوں ان کو یہ صاف دکھائی دینے والی باتیں دکھائی نہیں دیں؟ یہ ہے بہت ہی اہم مضمون۔ اب میںآپ کے سامنے پھر وہی بات دہراتاہوں جو بائبل میں لکھی گئی تھی عورت کے متعلق۔ اب New Testamentکے حوالے سے میں وہ بات پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے یہ مشہور کررکھا ہے کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک اسلام نے عورت کوتو جوتی کے نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس کی کوئی عزت نہیں ہے۔ حالانکہ بالکل اپنا الزام ہے، اپنے اوپر عائد ہونے والا الزام ہے جو اسلام کے اوپر یہ پھینک رہے ہیں اور میں نے قطعی طور پر ثابت کردیا ہے۔ عورت کا تصور تو ایسا ہولناک پیش کیا گیا ہے بائبل میں، کہ اس کے بعد اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی باقی۔ اورجتنا اس کو گناہ کی سزا دی جائے جو اس کو آدم نے، اس نے انسان کو تھکایا ہے وہ برحق ہوجاتی ہے پھر، اسی سے ساری شرارت پھوٹی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ عورت کو خدا سے تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بیان کرتا ہے۔رحمن خدا سے تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بیان کرتا ہے۔ پس آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔ یہ مضمون اسی آیت سے پھوٹ رہا ہے، بالکل واضح طو رپر۔ ورنہ ویسے تو قرآن کریم میں کہیں یہ ذکرنہیں کہ جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد قطعی طور پر اس آیت سے بھی منسلک ہے اور دوسری اور بھی آیات ہیں جن سے یہ مضمون نکلتا ہے۔ تریموٹیس (اس کا انگریزی میں لکھا نہیں ہوا۔ اب اردو تلفظ ، سمجھ نہیں آرہی مجھے ۔ Trimthes۔۔۔) اصل میں جو حوالہ انہوں نے لیا ہے، کیونکہ درس اُردو تھا اس لیے اردو ترجمے سے لے لیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے یہ دقتیں پیدا ہوتی ہیں۔ مگر اس کا اصل جو ہے انگریزی(وہ آپ نے دے دیا ہے ان کو جنہوں نے ترجمہ پیش کرنا ہے، کہ بھول گئے تھے۔ اچھا) وہ اگران کے پاس بائبل ہو تو ایک تریموتھیس باب ۲ آیات ۱۲ تا ۱۵ ہیں جو میں پڑھ کر سنانے لگا ہوں۔
’’اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے۔ بلکہ چپ چاپ رہے‘‘۔ اب یہاں یہ بحثیں اٹھائی گئیں ہیں کہ عورت کو ووٹ کا حق نہیں، فلاں حق نہیں اور حکومت کا حق نہیں اور بائبل کیا کہہ رہی ہے ، وہ سب باتیں تومولویوں نے بنائی ہوئی ہیں۔ میرا خیال ہے ان سے ہی سیکھ کر آگے پیش کررہے ہیں وہ۔ قرآن میں تو کوئی ذکر نہیں ’’میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ چاپ رہے، کیونکہ پہلے آدم بنایا گیا اس کے بعد حوا‘‘۔ اب قرآن کی آیت دیکھیں کس شان کی آیت ہے ، کتنی روشن، کتنے اندھیروں سے پردے دور کرنے والی۔ چودہ سو سال پہلے کی باتیں ہیں جواب یہ جستجو کرکے نکال رہے ہیں اور اس کی تائید میں گواہ بن گئے ہیں۔ ’’پہلے آدم بنایا گیا اس کے بعد حوا، اور آدم نے فریب نہیں کھایا‘‘۔آدم بیچارے کا تو، مرد بیچارے کا تو قصور ہی کوئی نہیں۔ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی(سمجھے ہیں)۔ ’’لیکن اولاد ہونے سے نجات پائے گی۔ بشرطیکہ وہ ایمان اور محبت اور پاکیزگی میں پرہیزگاری کے ساتھ قائم رہے‘‘ ۔ اب یہاں ’’اولاد ہونے سے نجات پائے گی‘‘ لکھا ہوا ہے ۔ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ نجات دہندہ کی تو کہتے ہیں اولاد ہی کوئی نہیں تھی۔ اور یہاں عورت کی نجات کیلئے نجات دہندہ پر ایمان لانے کاذکر ہی کوئی نہیں ملتا ، جس عورت کے بچہ پیدا ہوگا وہ اس سے نجات پاجائے گی۔ اور یہ بحث ساتھ ضرور اٹھادی ہے کہ محبت اور پاکیزگی اور پرہیزگاری کے ساتھ بچہ جنے گی تو نجات پائے گی۔ پس اس کے نتیجے میں بچہ جو ہے وہ نجات دہندہ نہیں بنے گا بلکہ ماں کو نجات ملے گی۔ اور اس میں غالباًان کا ایک اورمضمون بھی ہے جو اس آیت کے لکھنے والے کے ذہن میں ہوگا۔ بائبل میں یہ آتا ہے کہ عورت نے جب گناہ کیا، تو اس کے گناہ کی یہ سزا مقرر کردی گئی کہ وہ تکلیف سے بچہ جنے گی، کیونکہ یہ حوالہ اس کلام کے لکھنے والے کے پیش نظر تھا۔ غالباً اس لیے اس نے کہاجب یہ سزا مل گئی کہ تکلیف سے بچہ جنے گی، تو جب تکلیف سے بچہ جنا وہیں اس کی نجات ہوگئی۔ ٹھیک ہے نا! اور جب نجات ہوگئی تو گناہ بخشا گیا کہ نہیں بخشا گیا؟ اگر گناہ بخشا گیا تو پھر آگے کیسے منتقل ہوگیا وہ، عورت تو بچہ جن کے نجات پاگئی بچہ پھر بھی گناہگار۔ اور اگر یہ اصول مان لیا جائے تو حضرت مریم نے تکلیف سے بچہ جنا تھا کہ نہیں؟ اور اتنی تکلیف سے کہ بائبل بھی اور قرآن بھی بتارہا ہے کہ غیر معمولی ، کیونکہ کنواری اگربچہ جنے تو اس کو بہت تکلیف ہوگی۔ یہ طبعی بات ہے، کیونکہ اس کے مسل اسی طرح کشادہ نہیں ہوتے، ان میںوہ جو آہستہ آہستہ مرد اور عورت کے تعلقات کے نتیجے میں بچے کی تیاری ہورہی ہوتی ہے وہ پوری طرح کنواری میںہو نہیں سکتی۔ اس لیے قرآن کریم نے بالکل صحیح نقشہ کھینچا ہے کہ حضرت مریم نے یہ کہا مت قبل ھٰذا ۔ اے کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی، اتنی تکلیف ہے تو اس تکلیف سے وہ بچہ جنا، آپ تو وہ جنّتی ہوگئیں۔ ان کا نظریہ تو یہ ہے کہ بچہ پھر بھی گناہگار پید اہوگا۔ تو عیسیٰ بے گناہ کیسے ہوگئے؟ صرف یہ ایک عذر بناتے ہیں کہ کیونکہ مرد نے اس کو نہیں چھوا۔ اس لیے وہ پاک پیدائش ہے حالانکہ بائبل کے لحاظ سے مرد کو چھونے سے پیدائش کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے ، اس کی پاکی ناپاکی سے۔ عورت گناہگار ہوئی، وہاں مرد کے چھونے کا ذکر نہیں ہے۔ پھل کھانے سے اور شیطان کی بات ماننے سے ، اور شیطان کی وہ بات ماننے سے جو سچی تھی اور خدا کی نعوذ باللہ جھوٹی بات کے انکار کے نتیجے میں گناہ گار ہوگئی۔ اب یہ گناہ کا ایک اور تصور بھی پیداہوگیا کہ گناہ اس کو کہتے ہیں کہ سچ کو قبول نہ کرو۔ جھوٹ کے پیچھے چلو، یہ نیکی ہے، گناہ نہیں نیکی ہے۔ سچ کو ردّ کرو اور جھوٹ کے پیچھے چلو اور اندھے رہو۔ کچھ تمہیں سجھائی نہ دے۔ یہ نیکی کی بہترین تعریف ہے جو بائبل نے کردی ہے اور وہ عورت جس نے احتجاج کیا ہے اس کے خلاف، جو اُٹھ کھڑی ہوئی علم بغاوت لے کر اور کہتی ہے کہ میں تو سچ کے پیچھے چلو ں گی، میں تو روشنی کی اطاعت کرو ں گی، دیکھو ں گی اور سمجھوں گی۔ وہ عورت جس کے اوپر روشن ہوگیاکہ نعوذ باللہ من ذالک خد اجھوٹا تھا، جس نے یقین کرلیا اپنے تجربے سے کہ شیطان ہی پاکباز ہے اور سچا ہے، یہ اس کابیچاری کا گنا ہ ہے۔ اب اگر یہ گناہ ہے تو اس کے اور بڑے دلچسپ منطقی نتائج نکلتے ہیں۔ جب عیسیٰؑ نے گناہ سے نجات بخشی، توکس گناہ سے نجات بخشی؟ اسی پیدائشی گناہ سے کہ سچ کو سچا سمجھے اور جھوٹ کو برا سمجھے، جہالت کو پسند کرے اوربینائی کو قبول نہ کرے۔ تو جس گناہ سے بخشش ہوئی ہے، بخشش واپس اصل کی طرف لوٹادیا کرتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا گناہ بخشا جاتا ہے وہ گویا ایسا ہوجاتا ہے جس طرح ما ں نے اس کو ازسر نو پیدا کیا ہو اور کچھ بھی گناہ کا بد اثر اس میں باقی نہ رہے۔ تو As you wereجس کو انگریزی میںکہتے ہیں۔ اگر گناہ کا یہی تصور ہے جو بائبل پیش کرتی ہے جس کو عیسائی سب دنیامیں پھیلارہے ہیں اور یہ عورت سے وابستہ ہے، مرد سے نہیں ہے ۔ تو اوّل تو جس عورت نے درد سے بچہ جنا، حضرت مریم نے، وہ خود پاک ہوگئیں لیکن ان کے اصول کے مطابق یسوع پاک نہیں ہوسکتے تھے ۔ لیکن اگر پاک ہوئے فرض کریں ،ہم تو ویسے ہی پاک مانتے ہیں، اس بناء پر نہیںمانتے۔ مگران کے طریق کے مطابق اگر پاک ہوئے اور بالآخر گناہ سے نجات بخشی دنیا کو تو گناہ کیا تھا؟ شیطان کی بات مان کر خدا کے جھوٹ کو سمجھ لینا اور سچائی کوقبول کرلینا اورنیک و بد میں تمیز کرنے کی اہلیت پانا۔ تو جو پھر مسیح پر ایمان لائے گا وہ بیچارہ از سر نو اسی جگہ پہنچ جائے گا، جہا ں سے یہ کہانی شروع ہوئی تھی۔ اچھی ترقی ہے کہ ابتدائے آفرینش کے اس مقام تک اس کو پہنچادیا گیا۔ جہاں وہ پھر بیچارہ اندھے کا اندھا اور غلط تصورات پر ایمان لانے والا اورنیک و بد میںتمیز کا اہل نہیںرہا۔ تو یہ دیکھیں کہ قرآن کریم اور بائبل کے بیان میں اگر تجزیہ کرکے ایک ایک پہلو سے دیکھا جائے تو کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے۔
(کیوں جی آپ نے کیا پکڑا ہوا ہے ہاتھ میں؟ ٹموتھی، ٹموتھیئس غلط ہوا نا پھر، ہاںاُردو میں یہی لکھا ہے۔۔۔ ہاں میں بھی سوچ رہا تھا، میں نے اس وقت آپ سے پوچھا بھی تھا میں نے کہا یہ حوالہ جو ہے یہ بتائیں۔۔۔۔۔۔ اولڈ ٹیسٹامنٹ کا ہے کہ نیو(New)کا ، کیونکہ مجھے ٹموتھی نیو ٹیسٹامنٹ میںکوئی یاد نہیں ہے ۔ تو آپ نے کہا کہ انہوں نے نیو ٹیسٹا منٹ کے حوالے سے ہی دیا ہے۔ یہ درست کرلیں ۔ اچھا ہوا وقت کے اوپر بات پکڑی گئی۔ یہ انگریزی میں Timothyہے اور یہ جو حوالہ ہے، یہ اولڈ ٹیسٹامنٹ کا ہی حوالہ ہے۔ اوروہ حوالہ ہے جس کو نیو ٹیسٹامنٹ نے، جب بھی ذکر چلا ہے اس کو قبول کیا ہوا ہے۔ اس کیخلاف بات نہیں کہی، کیونکہ اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو ان کا سار انظریہ گناہ اور نجات کا وہ دھڑا م سے نیچے گر پڑتا ہے ۔ اس لیئے کسی حوالے کی بھی ہمیںضرورت نہیں اگر وہ قبول نہ کریں تو عیسائیت ختم، کیونکہ عیسائیت کی بناء اس بات پر ہے کہ انسان پیدائشی گناہ گار ہے اور گناہ کا آغاز حوا کے گناہ سے ہوا تھا۔ اور سینٹ پال نے بھی بڑے کھل کر اس حوالے کو دے کر بات کی ہے اور غالباً سینٹ جان میں بھی ملتا ہے یہ۔ ہماری ریسرچ ٹیم (Research Team)بیٹھی ہوگی یہاں اس وقت، کافی ہوشیار ی سے کام کرتی ہیں یہ لڑکیاں۔ اگر وہ ان کے علم میں آگیا تو بتادیںگے یعنی جان (John)میں بھی، یوحنّا ہی کہتے ہیں نا اس کو؟ اردو میں بھی؟ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ ذکر مل رہا ہے آپ کے پاس جو حوالوں کی کتاب ہے وہ کہاں چلی گئی ؟۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔بہرحال یہ آپ کو میں بتارہا ہوں قطعیت کے ساتھ اس میں کوئی شک نہیں ، یہ حوالہ اوّل تو درست کرلیں کہ یہ اولڈ ٹیسٹامنٹ کا ہے نیو ٹیسٹامنٹ کا نہیں ہے، ٹموتھی باب ۲، آیات ۱۲ تا۱۵۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ حوالہ عیسائیت کو تسلیم ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے اورمعین طور پر نیو ٹیسٹامنٹ میںجہاں اس کہانی کو ۔۔۔۔ کا ذکر ملتا ہے وہ ہم نکال کے کل پیش کردیں گے۔ مگر عیسائیت کی بنیاد اسی پر ہے بہرحال۔
پس اگر نجات کا یہ معنی ہے تو پھر نجات کا مطلب ہے دوبارہ اندھے ہوجانا، سچ کا انکار کردینا اور جھوٹ کو قبول کرلینا اورنجات کا یہ مطلب ہے کہ خداتعالیٰ کو فریب دہندہ تسلیم کرنا، اور شیطان کو سچائی اور راہِ راست پر لانے کا علمبردار بنانا، سمجھنا۔ کیونکہ اس بائبل کی رو سے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے ، سوفیصدی شیطا ن سچا ہے۔ ایک بات میں بھی بیچارے نے غلطی نہیں کی۔ اور مردود یونہی ہوگیا بیچارہ۔ اچھا اب چلتے ہیں دیگر پہلوئوں پر۔ نفس سے کیا مرا دہے؟ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں لفظ نفس ملتا ہے، جن کی تعداد اس وقت میرے سامنے (۳۰ کے بعد پھر اکیس آگئی ، نہیں آگے پھر تعدادلکھناہی بند کردیا ہے۔ نہیں ہیں آگے ٹھیک ہے۔ اب میں سمجھا ہوں)۔ انہوں نے جو اکٹھی کی ہیں آیات نفس کی، نفس کے جو مختلف معانی ہیں ان کے تابع ایک نمبر کے نیچے ، ان ملتی جلتی آیات کو اکٹھا کردیا ہے۔ اس لیے نمبر شماری میں اب مشکل پیش ہوگی۔ میں اس کے بغیر ہی آپ کے سامنے مثال رکھتا ہوں۔ نفس سے صرف جان مراد ہے۔ اوریہ مضمون ملتا ہے وتجاہدون فی سبیل اللّٰہ باموالکم و انفسکم ۔ کہ تم اللہ کی راہ میںجہاد کرو، اپنے اموال سے اور اپنے انفس سے۔ تونفس میںانسانی وجود تمام کا تمام آجاتا ہے۔ اس کی روح اس کی زندگی ، اس کا وجود، جسم ، اس کی ہر چیز اس میںشامل ہے۔ اور دوسرا معنی نفس کا محض جان ہے نہ کہ جسم کیونکہ پہلی آیت میں تو قطعی طور پر جسم اس میںشامل ہے کیونکہ جہاد کے وقت وہ جسم کو لے کر انسان چلتا ہے۔ اگرچہ تکلیف جان محسوس کرتی ہے مگر بدن کے ذریعے ہی محسوس کرتی ہے۔ دوسری آیت میںنفس کا تعلق محض اس زندگی سے ہے جو آخری نقطہ اَنا ہے اور وہ زندگی کا آخری انا کا نقطہ جو موت کے وقت بدن کو چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ فرمایا: والملائکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم ۔ کہ فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے ۔ ان لوگوں کے سامنے موت کے وقت جو خدا کے نزدیک مجرم ہیں۔ جنہوں نے بد انجام دیکھنا ہے اخرجوا انفسکم ۔۔۔۔۔۔اپنی جانیں نکالو اور خود اچھال کے حاضر کردو۔ تو یہاں جان سے بدن مراد نہیں بلکہ بدن سے اس آخری نقطہ ٔ انا کی علیحدگی ہے۔ پھر نفس سے مراد ہر قسم کی زندگی ہے فرمایا ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ۔ کسی زندگی کو لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں، جسے اللہ نے حرام کردیا ہو۔ الا بالحق مگر حق کے ساتھ یعنی اجازت کے ساتھ یہاں اجازت کی بجائے حق ، اس لیے لفظ رکھا گیا ہے کہ بعض اجازتیں ہیں جن میںواضح طور پر نام لے کر کسی جانور کو مارنے کا حکم نہیں ملتا، مگر حق ہوتا ہے۔ اور حق سے مراد یہ ہے کہ ایک آدمی، سانپ حملہ کررہا ہے ، اس سے بچنا ہے اس نے ۔ کہاں لکھا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ سانپ کو ماردیا کرو؟ لیکن وہ اس سے بچائو کرے گا ، اس کومارے گا۔ ایک بھڑ کو ماردیتا ہے ، ایک جنگل کا شیر یا کوئی اور جانور حملہ کرتا ہے اس کو مار دیتا ہے۔ تو یہ سارے حق کے ساتھ ہیں ، اگرچہ واضح الگ اجازت نہیں مگر اجازت دفاع کی ہے بس۔ تو اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ۔ کسی نفس کو قتل نہ کروجسے اللہ نے حرام کردیا ہو، مگر حق کے ساتھ۔ حرم اللہ کا مطلب حرام سے مراد وہ حلال حرام نہیں ہے بلکہ جس کو یہاں نفس کی حرمت مراد ہے اصل میں۔ یہ مراد نہیں کہ سؤر کو نہ مارو اور جو Beastsہیں ان کو نہ مارو بلکہ حرّم سے مراد ، خداتعالیٰ نے انسانی زندگی کی حرمت قائم فرمائی ہے۔ تو وہ زندگی، یہاں النفس سے مراد ، وہ زندگی ہے جس کی خداتعالیٰ نے حرمت مقرر فرمادی ہے۔ اس کو تم نے قتل نہیں کرنا سوائے حق کے اور یہ مضمون بچوں کے اوپر بھی اطلاق پاتا ہے۔ جنین کے اوپر بھی اطلاق پاتا ہے، دنیا بھر کے جانوروں کے متعلق اطلاق پاتا ہے اور Sanctity of lifeکے ساتھ اس مضمون کا تعلق ہے کہ زندگی ایک بہت قیمتی چیز ہے اور دیکھو پیداکس طرح ہوئی ہے، النفس جو پہلی آیت بیان کررہی ہے۔ اتنا لمبا سفر ہے زندگی کے آغاز کا، کس حکمت کے ساتھ اس کو پیدا کیا گیا، اس کو آگے بڑھایا گیا۔ تو کسی کو حق نہیں کہ کوئی زندگی بھی لے، کیونکہ زندگی میں ایک حرمت پائی جاتی ہے۔ ہاں حق ہے تو پھر لے لے۔ حق پیدا ہوتا ہے مؤیّد اذن الٰہی سے، بچنے کی خاطر بھی اور استعمال کی خاطر بھی۔اسی آیت کے تابع بعض ایسے جانوروں کو مارنا بھی منع فرمادیا گیا، جن کے متعلق حرمت الگ بیان نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک موقع پر بچوں میں سے کسی سے فرمایا۔ یہ سب جانور مارنے کیلئے نہیں ہوتے، بڑے خوبصورت جانور، خوبصورت پدیاں، عجیب و غریب رنگ کی ، خوبصورت آوازوں والے پرندے ہیں ، یہ کھانے کیلئے نہیں ہیں، ان کے اور مقاصد ہیں۔ پس جب وہ جن مقاصد کیلئے پیدا کیے گئے ہیں اگر تم کھانے کی خاطر ان کو مارو گے تو یہ حق نہیں ہوگا۔ تو یہ آیت جو ہے یہ ایک ہی آیت بڑی وسیع ہے مگر مثال کے طور پر میں آپ کو سمجھارہا ہوں اور یہ ہے سورۃ الانعام سے لی گئی ہے۔ اس کا تعلق خاص طور پرمویشیوں سے ہے۔ پس مویشیوں میں سے بھی ، ان کو مارنا ہے جن کے اوپر آپ کا حق قائم ہوتا ہے۔ ورنہ خوامخواہ نہ ان کو قتل کرتے پھریں۔ پھر نفس انسانی سے مراد وہ نفس جو پہلے بیان کئے جس کو فرشتے نکالیں گے۔
ولتنظر نفسٌ مّا قدّمت لغد آخری انا جو ہے زندگی کی، وہ یہ دیکھے کہ وہ کل کیلئے کیا پیچھے چھوڑ کر جارہی ہے۔ واتقوا یوماً لا تجزی نفسٌ عن نفسٍ شیئًا یہاںذات مراد ہے صرف۔ اس دن سے ڈرو جب کہ کوئی ذات ، کسی دوسری ذات کے کام نہیں آسکے گی۔ کل نفسٍ بما کسبت رھینۃ۔ یہاں رُوح مرا دہے کہ ہر روح جو ہے وہ جو کچھ کماتی ہے، اُسی پنجرے میں بند رہتی ہے جو پنجرہ اس نے خود اپنے ارد گرد بنایا ہے۔ رھینۃ ہے، اس میںوہ قید ہوچکی ہے۔ تو تم نے اگر اچھا انجام اپنے لیے پیدا کرنا ہے تو اس دنیا میں روح کیلئے ایسی جگہ تیار کرو ، جو جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے وسیع جنتوں کی شکل میںہوگی۔ اور اگر نہیں کرو گے تو پھر جو کچھ کمائو گے وہی تمہارا اوڑھنا، بچھونا تمہارا رہنا بن جائے گا اور تم اس میں قید ہوگے تو اس لیے کہ تمہاری روح نے وہ چیز بنائی ہے تمہارے لیے یاتمہارے اعمال نے وہ بنائی ہے۔ کل نفسٍ بما کسبت رھینۃٌ پھر دوسری جگہ فرمایا کل امرئٍ بما کسب رھین یعنی انسان، مرد لفظ بولاگیا ہے ، مگر یہاں مرد اور عورت سب دونوں برابرمراد ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ پہلے مادہ کے حوالے سے اشارہ تھا یہاں مرد، ذکور یعنی نر کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ بات وہی ہے۔ کل نفسٍ بما کسبت رھینۃٌہر جان رہین ہوگی اس کی جو وہ کماتی ہے کل امرئٍ بما کسب رھین ہر شخص جو وہ کمائے گا کماتا ہے اس کا وہ رہین ہوگا۔ و اذ قتلتم نفسًا فادّٰرء تم فیھا باقی نفوس کا زیادہ تر یہی ،تقسیم یہی ہے، استعمال تو اس کابہت وسیع ہے۔ میں قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی، اس کے استعمال آئے ہیں وہ ساری تفصیل یہاں بیان نہیں کرسکتا، اگرچہ آیات اکٹھی ہیں۔ کیونکہ وہ مضمون ،ہر جگہ جہاںنفس کا مضمون بیان ہوا ہے کچھ اور معانے بھی رکھتا ہے۔ اگر ان کی تفاصیل میں چلے گئے تو ایک پورا مہینہ تو نفس کی بحث میں ہی گذر جائے گا۔
لفظ خَلَقَ،خَلَقَکامطلب ہوتا ہے۔ صحیح اندازہ لگاکر اس کے مطابق کوئی ارادہ باندھنا، کوئی منصوبہ بنانا۔ تو اسی لیے میں نے آپ کو متوجہ کیا تھا کہ بَدَعَ اور خَلَقْ میں یہ فرق ہے کہ بدع میں تخلیق کا آغاز ہوتا ہے اور جو جب آغاز ہوجاتا ہے تو پھر جتنی شکلیں مختلف ڈھلتی ہیں وہ خلق کہلاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بدیع السموات والارضبھی ہے اور خالق کل شیء بھی ہے۔ اس پہلو سے خَلَقَکا مضمون یہ ہے کہ کسی چیز کو جو موجود ہو اس کو ، اس کا صحیح اندازہ کرنا یعنی اس کے فطرت کے باریک تر رازوںپر نگاہ رکھنا ، اس کے مزاج کو سمجھنا، اور اس کے مزاج کے مطابق اس کو نئی شکلوں میں ڈھالنا۔ پس کیمسٹری اور فزکس یہ انسانی تخلیق کی مثالیں ہیں۔ لیکن چونکہ انسان کا علم محدود ہے اور نہ کیمیکلز کی آخری کنہ تک پہنچ سکتا ہے، اس کے تمام تر صفات پر نظر رکھ سکتا ہے ، نہ فزیکل صفات پر پوری نظر ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس کی تخلیق ہمیشہ محدود رہے گی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ ٹھیک اندازہ کرنے میں ادنیٰ بھی اور ذرا بھی چوکتا نہیں کیونکہ تمام چیزیں اس کے علم میں ہیں تمام صفات۔ اس پہلو سے خدا ہی کی تخلیق ہے جو اصل ہے۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تمہاری تخلیق کے مقابل پر اللہ کی تخلیق بہت عظیم ہے۔ حالانکہ جو تخلیق انسان کرتا ہے وہ بھی دراصل اللہ ہی کی تخلیق ہے۔ کیونکہ ایسا خالق نما وجود پیداکردینا، جو جہالت کے اندھیروں سے نکلا ہو، جس کو اپنی انا کا بھی شعور نہ ہو یعنی مادہ، جس میں جان نہ ہو ، جس میں شعور نہ ہو۔ اس سے ایک چیز اٹھا کر یہاں تک لے جانا کہ وہ پھر آگے تخلیق کرنے لگے بظاہر۔ یہ خالق ہی کی تخلیق ہے جو اصل خالق ہے۔ مگر جب انسان تکبر کرتاہے تواللہ بتاتا ہے کہ تمہاری تخلیق کی تو اس تخلیق کے مقابل پر جو میں نے کی ہے کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو فرمایا اللہ کے حکم سے انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرًا باذن اللّٰہ یہاں بھی خلق سے مراد ترتیب دینا ہے۔ نئی ترتیب دینا ، نئی ترتیب دینا، نئی چیز اس سے پیدا کرنا ۔ اب یہاں میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم متوجہ کرتا ہے انسان کو :-اھم اشدُّ خلقاً امّن خلقنا کیا ان کی جو تخلیق ہے وہ زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے جو وہ کچھ پیدا کرتے ہیں یا وہ جو ہم نے پیدا کیا ہے۔ تو خداتعالیٰ نے جو تخلیق کائنات کو بخشی ہے اس کا تو انسانی تخلیق کے مقابل ، انسانی تخلیق کا تو اس سے کوئی دور کا بھی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ کوئی حیثیت ہی نہیں ہے انسانی تخلیق کی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں۔
بناسکتا نہیں اک پائوں کیڑے کا بشر ہرگز
اورامر واقعہ یہ ہے کہ پائوں کیڑے میں جو اندرونی حیرت انگیز باریکیاںرکھی گئی ہیں ، کوئی روبوٹ بنانے والا وہ ایک پائوں بھی نہیں بناسکتا، کیونکہ اس پائوں کے اندر جو نروس سسٹم ہے اس پائوں کے ہر خلیے میں جو سارے کیڑے کی تصویر ہے ۔ اور اس سے اگراس کو کوئی استعمال کرنا جانتا ہو، تو پائوں کے ایک خلیے سے بھی سارے کیڑے کا وجود دوبارہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ہے اللہ کی تخلیق ، ان کے روبوٹس (Robots) تو اس کے مقابل پربہت ہی بے ہنگم اور بدسلیقہ چیزیںہیں۔ آپ مرعوب ہوجاتے ہیں دیکھ کر فلموں میں ٹیلی ویژن پر مگر جو کیڑے کے پائوں میں جو باریک لطائف ہیں وہ سائنسدان بھی خود تسلیم کرتے ہیں۔ ابھی تک ہم پورے پڑھ نہیں سکے۔ ایک دفتر ہے
کون پڑھ سکتاہے دفتر سارا ان اسرار کا
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اھم اشد خلقًا امن خلقنا اور جب اس کے اوپر زبر آجائے تو یہ خَلق ہوجاتا ہے اور اس کے متعلق میں پہلے چونکہ خطبات میں بیان کرچکا ہوں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس پر بہت عظیم روشنی ڈالی ہے اس مضمون پر۔ خَلقاور خُلق میں کیا فرق ہے خُلق باطنی تخلیق ہے جو خَلق کے بعد ہوتی ہے۔ پہلے ایک خَلق ہے جس میں تمام جانور جو انسان سے پہلے کے ہیں وہ داخل ہیں۔ اور ان جانوروں کے اندر جو سرشتیں ہیں وہ بھی ان کی خلق کا حصہ ہیں۔ خُلق کا مضمون انسان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وقت وجود میں آتا ہے جب انسان دونوں طرح کے امکانات یا احتمالات سامنے رکھتے ہوئے ایک کو اختیار کرتا ہے اور ایک کو چھوڑ دیتا ہے۔ جب وہ اعلیٰ چیز اختیار کرلیتا ہے تو پھر وہ سرشت نہیں رہتی۔ سرشت انسان اور حیوان میں مشترکہ بھی ہے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ مثلاً اسلامی اصول کی فلاسفی میں یہ بحث بڑی تفصیل سے اُٹھائی ہے کہ سرشت اس وقت تک رہتی ہے جب تک انسان اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ادنیٰ اور اعلیٰ میں فرق نہیں کرتا ، اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرتا۔ جب وہ یہ کرتا ہے تو اس پر پھر خُلق کا لفظ اطلاق پائے گا۔ اور سرشت کی حد سے وہ نکل جائے گا۔ پس اس پہلو سے لفظ خُلق کے اندر ہی ایک ہلکا سا پیچ ڈال کر ایک نیا لفظ پید اکردیا گیا ہے جس سے معانی کا ایک نیا جہاں پیدا ہوجاتا ہے اور الخَلَّاق جو ملتا ہے قرآن کریم میں یہ بھی خالق ہی کی ایک شکل ہے۔ جس میں مضمون کامبالغہ پایا جاتا ہے کہ وہ خَلَّاق ہے۔ بہت زیادہ پیدا کرنے والا، یا بہت شان کے ساتھ پیدا کرنے والا۔ یا خَلق کو تخلیق کو درجۂ کمال تک پہنچانے والا۔ یعنی ایسا خلَّاق جس نے اتنا کچھ پید اکیا ہے کہ تمہارے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔
اور امر واقعہ یہ ہے کہ تخلیق کی جو انواع ہیں اورپھر ان انواع میں جو اضافے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ مضمون انسان کے احاطے کی طاقت سے بہت زیادہ آگے ہے۔ناممکن ہے کہ انسان احاطہ کرسکے۔ پس تعداد کے لحاظ سے بھی اور نوعیت کے لحاظ سے بھی ، ایک چیز کو بھی اُٹھا کے دیکھیں اس میں خداکی خلَّاقی کے حیرت انگیز نشان دکھائی دیں گے۔ پس وسعت کے لحاظ سے بھی اور نوعیت کی نفاست اور باریکیوں کے لحاظ سے بھی ۔ ان ربّک ھوالخلاّق العظیم اے محمدﷺ! تیرا ربّ ہے جو خلَّاق العظیم ہے ۔ اور اس لفظ خلِّاق کو چونکہ محمد رسول اللہﷺ کے ربّ کے ساتھ باندھا گیا ہے تو اس خلّاق کے مضمون میں میرا رحجان یہ ہے کہ خُلق بھی داخل ہے اورخَلق بھی داخل ہے۔ کیونکہ رسو ل کریمﷺ کے ربّ کا جو کرشمہ ہے وہ محض خَلق کا کرشمہ نہیں بلکہ خُلق کی پیدائش کا بھی کرشمہ ہے اور اس کی عظمت کسی نے پہچاننی ہو تو آنحضرت ﷺ کی عظمت کو سمجھنے کی کوشش کرے، جتنا رسول اللہ ﷺ کے خُلق میں ڈوبے گا یا اس کو شناخت کرے گا اتنا ہی خداتعالیٰ کی خَلق کے بھی عظیم مظاہر سامنے آئیں گے۔یعنی انسان، خداتعالیٰ نے مٹی سے ایسا وجود پیدا کردیا جس کے اندر اتنا عظیم خُلق سمانے کا ، سمونے کی استطاعت رکھ دی۔ پس ہر خُلق کے حوالے سے ایک خَلق کا نظارہ بھی سامنے آتا ہے اور خلّاق کہنا خداتعالیٰ کو سب سے اچھا آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ہے۔ کیونکہ اس میں تمام کائنات کی تخلیق کا ماحصل بھی اور تمام انسانی ترقیات اوراس کوخُلق سکھلانے کا ماحصل بھی آجاتا ہے۔ مُخَلَّقَۃ اس چیز کو کہتے ہیں جس کی بناوٹ مکمل ہوچکی ہو اور غیرمُخَلَّقَۃاس کو کہتے ہیں جو ابھی تک پایۂ تکمیل کو نہ پہنچی ہو۔ کچی ہانڈی ہو تو غیرمُخَلَّقَۃ حالانکہ وہ تخلیق کے مراحل میں سے ہے۔ مراد یہ نہیں کہ وہ پیدا نہیں کی جارہی، یا اس سے کچھ نیا بنایا نہیں جارہا ۔ کہتے ہیں نا ابھی سوجی ہے مثلاً ۔اس نے ابھی گھی چوس لیا ہے چھوڑا نہیں ابھی تک۔ تو جو اصل مقصود ہے وہ ہے حلوا بنانا جس میں سوجی کے دانے الگ ہوجائیں اور گھی الگ ہوجائے۔ اس وقت وہ پوری طرح پکتا ہے۔ تو وہ حالت غیر مُخَلَّقَۃ کی ہے۔ اور مُخَلَّقَۃ وہ حالت ہے جب وہ اس درجہ تک پہنچ جائے جو بنانا مقصود تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نطفہ کے حوالے سے فرمایا۔ ثم من مضغۃٍمخَلَّقۃ و غیر مُخَلَّقَۃ ۔ پھرتمہیں ایسے مضغہ سے پیدا کیا گیا ہے جس میں سے جس کا کچھ حصہ پوری طرح اپنی آخری شکل کو پہنچ چکا ہے۔ کچھ حصہ ہے جو ابھی پوری طرح اپنی آخری شکل کو نہیں پہنچا۔ اور اس کے مراحل طے کررہا ہے۔ اختلاق کہتے ہیں جھوٹی بنائی ہوئی بات۔ باب افتعال میں جھوٹ اور مصنوعی ہونے کے معنے بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ مضمون تو ابھی(ہاںیہاں بس) خُلق کے متعلق آخری بات یا خَلق کے متعلق جو کہنی تھی اس پر ہی ہم آج کے درس کو ختم کرتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ کل پھر واپس تفسیر والے حصے کی طرف آئیں گے۔ زَوْج تک پہنچے ہیں، زوج سے کل شروع ہوگا۔
إإإ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 20؍رمضان بمطابق10؍ فروری 1996ء
حضور نے سورۃ النساء کی آیت کریمہ یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:-
یہ وصیت کی وہ مرکزی آیت ہے جس پہ گفتگو جاری ہے ۔ اس میں جو باتیں میں نے پہلے بیان کی تھیں ان میں ایک خاص بات یہ قابل توجہ ہے کہ جہاں یہ فرمایا ہے و ان کانت واحدۃً فلھا النصف -- ولابویہ لکل واحدٍ منھماالسدس مما ترک ان کان لہ ولدٌ۔ یہاں حصہ کو 1/6کردیا گیا ہے والدین کے برابر کیا گیا ہے ۔ یہ میں پہلے سمجھاچکا ہوں کہ اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیینمیں للذکر مثل حظ الانثیینکا اصول اولاد کے اوپرہے ہر ایک کے اوپر نہیں ہے ورنہ اسی آیت کے آخر پہ پھر اس کو ریشو کو تبدیل نہ کردیا جاتا لیکن اگر والدین اولاد کے حکم میں آتے ہوں کسی موقع پر تو ان کے اندر پھر یہی ایک او ردو کی نسبت بحال ہوجائے گی اس لیے نہیں کہ اولاد کے علاوہ بھی ایک اور دو کی نسبت کا حکم عام ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اولاد کے محل میں آئیں گے یعنی اولاد نہ ہو تو ورثہ پائیں گے۔تو پھر کیا ہوگا پھر ایک اور دو کی نسبت بحال۔ فان لم یکن لہ ولد و ورثہ ابواہ فلامہ الثلث پس اگر اولاد نہ ہو اور ورثہ ماں باپ پائیں ۔ یہ شرطیں ہیںدو اولاد نہ ہو ماں باپ وارث بن رہے ہوں فلامہ الثلث تو ماں کا تیسرا یعنی باقی دو حصے باپ کے چلے جائیں گے۔ یہاں اُمّہ کیوں فرمایا جبکہ اس کا تیسرا بنتا تھا باپ کے دو حصے کیوں نہ کہہ دیا ۔ اس لئے کے کہ چونکہ عربوں میں خاص طور پر ورثہ کے معاملے میں مردوں کی طرفداری زیادہ پائی جاتی تھی اس لیے کوئی بعید نہیں کہ اس وقت کے علماء اور فقہاء یہ کہتے کہ باپ کا ذکر ہے ماں کا ذکر نہیں اس لیے چھوڑ ہی دوماں کو۔ قرآن کریم نے مجبور کردیا ہے ماں کا ذکر کرکے کہ باپ کا استنباط کرو۔ ماں کا تو کھلا ہے اس لیے وہ تمہیں دینا ہی دینا ہوگا۔ تو یہ بھی ایک اس وقت کے احتمالات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کا طرز بیان ہے ۔ یہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر ایک بہت ہی اعلیٰ دلیل ہے ولکل واحدٍ منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد فان لم یکن لہ ولد- وورثہ ابواہ فلامہ الثلث۔ ماں کا ثلث تو دینا ہی دینا ہے باقی باپ کو۔ ورنہ کوئی یہ بھی بعید نہیں کہ باپ کو دوبھی دے دیتے تو ماں کو دوسروں کے ساتھ شریک کردیتے ۔ تو قطعی طور پر ماں کوبنادیا مگر سوال یہ ہے وورثہ ابواہ کیوں فرمایا؟ اگر اولاد نہیں ہے تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ ماں باپ وارث ہوں گے لیکن وورثہ ابواہُ سے یوں لگتا ہے کہ یہ دو شرطیں ہیں ایک نہیں ہے اگر اولاد نہ ہوں مزید برآں والدین وارث ہوں تب یہ نسبت ہے دو اور ایک کی توکیا کوئی ایسی صورت ہے کہ والدین وارث نہ ہوں یعنی براہ راست کل حصے کے وارث نہ ہوں کوئی اور بھی شریک ہوجائے۔ اگلا حصہ آیت کاہے فان کان لہ اخوۃٌ ۔ فلامہ السدس اگر مرنے والے کی اولاد نہ ہو مگر بھائی بہن ہو ںتو پھر اس کی ماں کیلئے چھٹا ہے۔ من بعد وصیۃٍ یوصی بہا اودینٍ اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو مرنے والے نے کردی ہو اور یا اس کے قرضوں کی ادائیگی کے بعد اس میں قرضوں کی ادائیگی میںوہ جو خرچ ہوتا ہے تدفین کا اس کو بھی ہم ساتھ شامل کرتے ہیںسب۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تدفین کا خرچ تو بہر حال پہلے نکالا جائے گا اوراس کے بعد پھر جو وصیت ہے، دَین ہے پھر جو کچھ بچتا ہے وہ تقسیم ہوگا اب اس ترتیب سے جس طرح ہم اتر رہے ہیں نیچے، بات جو کھل رہی ہے۔وہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کیونکہ پھر ہم اب فقہاء کی طرف جائیں گے۔ ترتیب یہ بنی ہے کہ اگر ایسی حالت میں ماں باپ کابچہ فوت ہوتا ہے کہ اس کی آگے اولاد ہے تو پھر اس اولاد کو دینے کے بعد چھٹا حصہ ۔ چھٹا حصہ ماں اور باپ کو جائے گا۔ یعنی 1/3اس سے زیادہ نہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ اگر اولاد ہو تو ماں اورباپ کا چھٹا حصہ ،چھٹا حصہ پہلے نکالا جائے گا اورپھرجو بچے گا وہ برابر اسی اصول پر اولاد میں تقسیم ہوگا۔ لیکن اگر اولاد نہ ہو اوریہ بھی شرط ہو کہ ماں باپ ہی وارث بن رہے ہوں ان کا ورثہ میں اور کوئی شریک نہ ہو تو اس صورت میں وہی اصول ہوگا جو اولاد کے حق میں بیان کیا جاچکا ہے۔ کیونکہ وہ اولاد کے قائمقام شمار کیے جائیں گے۔ اور اس میں مرد کو دو حصے اور عورت کو ایک حصہ، بات کھل گئی۔ اب آگے کیا صورت ہوگی کہ والدین اکیلے وارث نہ ہوں فان کان لہ اخوہ فلامہ السدساگر مرنے والے کی اولاد نہ ہو اور بھائی ہوں تو ماں باپ پھر کلیۃً اولاد کے محل میں نہیں آئیں گے ۔ پھر پہلی حالت کی طرف لوٹاجائے گا جو 1/6والا حصہ تھا۔ اور دونوں کو 1/6ملے گا یہ ایک Big ifکے ساتھ جیسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بتارہا ہوں آپ کو جو استنباط از خود ہوتا چلا جارہا ہے ۔ میرے نزدیک وہ یہ ہے مگر جب فقہاء کی بحثوں میں جائیں گے پھر تو بات بہت الجھ جائے گی۔مگر پہلے سیدھی بات آپ سمجھ لیں یعنی یہ نظر آرہا ہے بظاہراس سے کہ چونکہ بھائی اور بہن ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت میں ماں ،باپ کو واحد وارث بمنزلہ اولاد قرار نہیں دیا بلکہ ان کی وہی اصل حالت واپس اپنی جگہ پر قائم ہوگئی کہ گویا اولاد ہے اور ان کو 1/6ملتا ہے صرف۔فی 1/6 ماں کیلئے 1/6باپ کیلئے تو گویا باقی بھائی بہن کوملے گا۔
یہ جو حصہ ہے یہاں آکر پھربہت اختلافات شروع ہوجاتے ہیں اور وہ جو اختلافات ہیں وہ آگے جاکے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اٰبائُ کم و ابنائُکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعًا ۔ تمہارے آباء یعنی باپ وابنائُ کماور تمہاری اولاد۔ ابائکممیںماں اور باپ دونوں شامل ہیں۔ لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعًا۔ تم نہیں جانتے کہ تم نفع کے لحاظ سے تم کس سے زیادہ نفع پائو گے ان میں سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے یا اولاد سے نفع پاسکتا ہے انسان یا ماں باپ سے ۔ یہ ایک ایسا بھید ہے جس کا علم غیب سے تعلق ہے کوئی نہیں جانتا لیکن یہ جو وصیت ہے یہ فریضۃً من اللہ ہے اس فریضہ میں کوئی تبدیلی کسی غیر قرآنی استدلا ل سے، قرآن کے استدلال سے باہر استدلا ل کرکے تم نہیں کرسکتے۔ یہ ہے بنیادی بات۔ دوسری یا آخری بنیادی بات جس سے ہم کسی صورت انحراف نہیںکرسکتے اختیار ہی نہیں رکھتے۔ قرآن کریم نے جو بیان کردیا یہ بطور فریضہ ہے اس کو تبدیل کرو اگردوسرے دلائل سے تو یہ درست نہیںبات بنتی۔ اس کے اندر رہو ، اسی میں سے استنباط کرو۔ ان اللہ کان علیمًا حکیمًا ۔ اللہ کے علم میں ہر بات ہے وہ سب حکمتوں کا منبع ہے ، تمام حکمتوں کا مالک ہے۔ اس لیے یہ نہ خیال کرنا کہ خدا کے علم میں کوئی بات نہیں آئی تھی جو بعد میں ظہور پذیر ہوئی۔ اس لیے اس آیت میں کوئی سقم رہ گئے ہیں کوئی سقم نہیں ہے ۔ اپنی عقلیں استعمال کرو ۔ تمہیں اسی آیت میں سے سارے استنباط مل سکتے ہیں۔ یہ ہے میرا نظریہ اور موقف اس سے اب جب ہم فقہاء کی بحثوں میں چلتے ہیں تو پھربہت سی نئی باتیں سامنے آتی ہیں یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے ۔ یہ جو میں نے بات پہلے کہی تھی اس پر اتفاق ہے سب کو کہ میت کی تجہیز و تکفین وغیرہ کے جملہ اخراجات اوروصیت وغیرہ اورقرض کی ادائیگی کے بعدپھر ترکہ شروع ہوگا اس سے پہلے نہیں۔ ایک بحث اٹھائی ہے موانع ارث۔ ورثہ کی راہ میںحائل کون کون سے ایسے موجبات ہیں یاایسے امور ہیں جن کے نتیجہ میں شرعی ورثہ مقرر ہونے کے باوجود کوئی شخص محروم الارث ہوسکتا ہے۔ اس بحث میں تین چیزیں اٹھائی گئی ہیں ۔ ایک غلامی، ایک کفر اور ایک قتل۔ غلامی اور کفر کی جو بحث ہے یہ آگے پھر غور طلب ہے کیونکہ بہت سی باتوں کو استنباط کیا گیا ہے۔ بغیر سارے حالات کا علم حاصل کیے بغیر اور یہ فیصلہ کیے بغیر کہ یہ رسولﷺ کے فیصلے یا قرآن کے فیصلے ان خاص حالات پر اطلاق پاتے تھے یا عمومی ہیں۔ مثلاً جنگ ہورہی ہے، جنگ کے دوران کفار الگ ہوگئے مسلمان الگ ہوگئے اور کفار نے مسلمانوں کو ان کی تمام جائیدادوں سے محروم کردیا ان کے گھروں پر قابض ہوگئے۔
اب ایسی صورت میں اگریہ حکم ہو کہ ورثہ ان کو بھی نہیں ملے گا تو اس کا محرک یہ بات بنتی ہے نہ کہ ایک دائمی اصول۔ دو باتیں استنباط ہوسکتی تھیں جنگ ہورہی ہے اہل مکہ جو قریش تھے، جوانہوں نے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر بیٹھے ، ہر حق سے ان کو محروم کردیاگیا اور اب ورثہ کی آیت کیا ان کوورثہ دلوائے گی۔ چونکہ وہ ان میں سے ،مہاجرین میں سے کوئی فوت ہوگیا مدینہ جاکر اس بیچارے کو مواخات کے ذریعہ کچھ ملا،انصار نے قربانیاں کیں یا بعدمیں خداتعالیٰ نے فضل کے دوسرے دروازے کھولے تو چونکہ ورثہ کی آیت نازل ہوگئی ہے اس لیے مشرک بچے اگر رہ گئے ہیں پیچھے تو ان کا ورثہ ان کو بھجوادیا جائے یہ ایک غیر معقول بات ہے۔ یہاں عام حالات کے تقاضے پورے نہیں کیے جائیں گے بلکہ وہ مخصوص حالات جو پیدا ہوتے ہیں وہاں بعض چیزیں معطل ہوجاتی ہیں۔ تو ارث سے محرومی مراد نہیں ہے تعطل مراد ہے۔ پس اگر یہ حالات دورہوجائیں اور دونوں طرف سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں توپھر یہ کہنا کہ یہ دلائل مسلمانوں کی جائیداد کا غیر مسلموں کے وارث ہونے سے مانع ہے یعنی یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہوگا۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے جنگی حالات میں جیسے لونڈیوں کے استعمال کی اجازت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قطعیت کے ساتھ یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ یہ دراصل مشروط احکامات ہیں اگر دشمن تمہاری عورتوں سے یہ سلوک کرتا ہے تو تمہیں حق ہے کہ تم ایسا ہی کرو۔ اور اگر نہیں کرتا اور تم پھر کرو گے توتمام مسلم خواتین کی بے حرمتی کے تم ذمہ دار ہوگے۔ اس لیے قرآن کریم سے ایسا استنباط کرنا جو مسلمان عورتوں کی عزت پر حرف ڈالنے والا ہو یہ بالکل ناجائز ہے۔ اور کوئی معقول مسلمان اس کو قبول نہیں کرسکتا یا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جنگ کے حالات ہیں یہ جو استنباط کیے گئے بہت سارے ہیں کفر کے متعلق، یہ جنگ کے حالات ہیں اور ان احادیث سے جو استنباط کیے گئے ہیں ان میں اکثر فقہاء نے یہی نتیجہ نکالا کہ نہ کافر کا ورثہ مسلمان پائے نہ مسلمان کا ورثہ کافر پائے ۔ اس استنباط میں اگر وہ کمزوری بیشک ہو جومیں نے بیان کی ہے کہ جنگ کے خاص حالات کو عام بنادیا گیا ہے۔ وہ مشروط باتیں تھیں جن کو عام کردیا گیا مگر انصاف کی کمزوری نہیں ہے اس فیصلہ میں۔ کیونکہ اگر مسلمان کا بچہ کافر ہوکر وراثت سے محروم ہوتا ہے تو پھر کافر کا بچہ مسلمان ہوکر وراثت سے محروم ہوجائے برابر ہوگئے دونوں اور قرآن کریم کا جو انصاف کا اصول ہے وہ اطلاق پاگیا تو اس نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض نہیں رہتا۔ مگر ایک اور نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم جن کے ماں باپ کا مواحد ہونا ثابت نہیں بلکہ اکثرکا مشرک ہونا ثابت ہے ۔ انہوں نے اپنے مشرک ماں باپ سے ورثہ پایا اور جب پایا تو پھریہ اصول کہاں گیا کہ نہ مشرک کا مسلمان وارث ہو اور نہ مسلمان کا مشرک یا غیر مسلم وارث ہو۔ وہ تومشرک کی بحث نہیں کرتے وہ غیر مسلم کی بحث کرتے ہیں ۔ تو اس صورت میں پھر ایک اور بیچ میں ایک روک پیدا ہوعقلی ۔ یہ تو پھر درست نظر نہیں آتا۔
پس لازماً اس سے ہمیں یہی استنباط کرناہوگا کہ جنگ کے حالات میں برابری کا اصول ہے جو بالا ہے اور اس وقت عارضی طور پر عام حالات کے فیصلے معطل ہوجاتے ہیں منسوخ نہیں ہوا کرتے۔ تعطل کے زمانہ کی باتیں عام زمانوں پر کھینچ کر زبردستی عائد کرنا بہت سی خرابیاں پیدا کردے گا اور اکثر خرابیاں یہ اسی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں پھر جہاں تک غلامی کا تعلق ہے اسے محروم الارث کرنے کی وجہ بیان کرنا یعنی موانع ارث میں شامل کرنا یہ بھی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جس کو فقہاء کے کہنے پر یونہی آنکھیں بند کرکے قبول نہیںکیا جاسکتا کیونکہ غلام کے جو حقوق قرآن کریم نے قائم فرمائے ہیں ان کی رو سے وہ لازماً اپنے کچھ حصوں کا خود مالک ہوتا ہے۔ قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اس لیے کہ کتابت کا اصول جو قرآن نے بیان کیااور فقہاء نے تسلیم کرلیا اس کے بعد ان کو یہ کہنے کا جواز ہی نہیں رہتا کہ غلام کا ہر مال مالک کا ہے۔ اس لیے اس کو مالک کو لوٹے گا اس کی اولاد محروم رہے گی ۔ گویا اس کے بچے بھی غلام ہی پیدا ہورہے ہیں۔ یہ بھی اسلام کو قبول نہیں ہے ، ہرگز درست نہیں کہ غلام کے بچے بھی غلام پیدا ہوتے ہیں۔ ہر بچہ جو پید اہوتا ہے آزاد پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق قرآن کریم اور احادیث بالکل کھلے طور پر روشنی ڈال رہے ہیں۔کسی کو اس سے اختلاف کا حق نہیں سوائے اس کے کہ ضد کرکے کرلے۔ تو وہ بچے جو آزاد پیدا ہوئے ان بچوں کا کیا قصور ہے کہ وہ غلام کے گھر پیدا ہوئے اور غلام کا کسی چیز کا مالک نہ ہونا یہ کہاں سے ثابت ہوا۔ جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر غلام یہ کہے کہ مجھ سے پیسے لے لومیرے اور مجھے آزاد کرو تو فرض ہوگا کہ اسے آزاد کیا جائے ۔ ا س کے پیسے کہاں سے آئے اگر اس کا اپنا کچھ ہے ہی نہیں توکہاں سے آگئے پیسے او رپھر دوسری بات یہ کہ یہ بھی اگروہ کہے کہ میں بعد میں کما کر دوں گا تب بھی مسلمان اس وقت جو حاکم ہے یا قاضی ہے اس کا فرض ہے کہ اس کے حق میں فیصلہ کرکے ان کا آپس میں سمجھوتہ کرادے ۔ قضاء اس لیے نہیں بیٹھے گی کہ اس کا یہ دعویٰ مانا جائے یا نہ مانا جائے قضاء اس لیے بیٹھے گی کہ اس معاہدہ کی صورت میں غلام مناسب شرطیں پیش کررہا ہے یا غیر مناسب پیش کررہا ہے۔ یہ تو نہیں کہہ رہا کہ میں پچاس سال میں دس دس روپے سالانہ دے کر اپنی گردن آزاد کرائوں گا۔ بلکہ معقول جو اس زمانہ کے رائج الوقت اقتصادی تقاضے ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے معقول شرطیں دونوں کے درمیان طے ہونی چاہئیں۔ یا مالک ضرورت سے زیادہ سختی کررہا ہے وہ کہتا ہے نہیں بس دو قسطوں کے اندر ادا کرو چھ چھ مہینے کی دو قسطیں اور ختم۔ اورغلام کی قیمت زیادہ ہو اور وہ اتنی دیر میں کما ہی نہ سکتا ہو تو اس لیے اس کو اجازت نہیں ہوگی۔ مگر غلام اس طرح کلیۃً مملوک نہیں ہے جس طرح غیر قوموں میں غلام کے مملو ک ہونے کا تصور پایا جاتا ہے وہ مشروط ملکیت ہے۔ بعض شرائط کے ساتھ قرآن کریم نے اس کی آزادی کے حقوق قائم رکھے ہیں۔
پس یہ کہہ دینا کہ جی غلام ورثہ نہیں پائے گا یہ تو میری فطرت تو قبول نہیں کرتی اس طرح سوائے اس کے چھان بین ہو پتہ لگے کہ کن حالات میں فیصلہ ہوا تھا اور کیا واقعۃً اس کی قطعی سند ہے کہ نہیں۔ اگر کوئی سند ایسی قطعی ہوجو قرآن اور حدیث کی ہو تو پھرہماری فطرت قبول نہیں کرتی تو فطرت جھوٹی ہوگی پھر ہمیں ماننا پڑے گا۔ فطرت سے یہاں مراد کامن سینس، ورنہ فطرت تو جھوٹی نہیں ہوا کرتی ۔ پھر ہمیں سرتسلیم خم کرنا ہوگا۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری فہم بالا ہے اور اس قطعی سند کے مقابل پربھی ہماری فہم چلے گی اور یہ سند نامنظور ہوگئی ۔ مگر سند کی قطعیت بہت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ سند ان تمام حالات پر روشنی ڈال رہی ہو جن حالات میں فیصلہ کیا گیا ہے۔ اوریہ بھی ضروری ہے کہ ثابت ہو کہ اس کے اور استنباط ممکن نہیں ہیں اگر اور استنباط ممکن ہوں تو ایک ہی استنباط کرکے اسے شریعت کا حصہ قرار دینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ پھر دونوں طرف کھلی چھٹی ہے ، پھر ہرانسان اپنے تقویٰ کے مطابق پوچھا جائے گا اگر ایک سے زیادہ استنباط ہوسکتے ہیں تو ایک آدمی اگر تقویٰ سے استنباط میں اختلاف کررہا ہے تو اس کا حق ہے اور اگر تقویٰ سے استنباط نہیں کیا تو خدا پکڑے گا مگر سوسائٹی کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنے استنباط کو زبردستی دوسرے پر ٹھونس دے ۔ یہ علمی بحثوں کا تعلق ہے جہاں تک یہی طریق ہے لیکن اگر کسی کے استنباط کو یا بعض علماء کے استنباط کو قبول کرکے قوم بحیثیت قوم ایک فیصلہ دے دے تو اس پر عمل کرنا اس لیے ضروری نہیں ہے کہ شرعاً وہی درست ہے ، اس پر عمل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ قوم کو حق ہے قانون سازی کا اوراس نے اس حق کو استعمال کیا ہے۔ قرآن کریم کے ایک استنباط یا حدیث کے استنباط کے تعلق میں۔ پس قانون کا پابند ہے انسان چونکہ اس لیے اس کیلئے انحراف کی وہاں گنجائش نہیں رہتی۔ انفرادی طور پر اس کے باوجود وہ یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ میرے نزدیک یہ مضمون جو یہ سمجھے ہیں درست نہیں ۔ جو مضمون میں سمجھ رہا ہوں وہ درست ہے لیکن فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم ہوگا۔ اب ایک احمدی کو جہاں سزا مل جاتی ہے وہاں یہ مطلب تو نہیں کہ وہ احمدی یہ حق ہی نہیں رکھتا کہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے دعوٰی پر قائم رہے اور ڈیما کریسی (democracy)کی وجہ سے اس دعوے سے دستبردار ہوجائے یہ ڈیماکریسی کو کوئی حق نہیں، ڈیما کریسی نے کوئی ظالمانہ فیصلہ کیا ہے۔ تو جب تک اس میں طاقت ہے اس فیصلے پر عمل زبردستی سزائیں دے دے کے تو کراسکتی ہے مگر کسی احمدی کے دل سے یا منہ سے کلمہ توحید کے خلاف کچھ نکلوانے کا نہ سوسائٹی کا حق ہے نہ خدا اسے اجازت دیتا ہے ، نہ دنیا کے دستور اس کو اجازت دیتے ہیں۔
پس یہ ہیں وراثت پر چسپاں ہونیوالے اصول بھی جو یکساں عالمی اصول ہیں۔ اس پہلو سے جو میں نے بیان کیا میرے نزدیک نہ کفر۔ بغیر کسی شرط کے محض کفر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بچے کو کافر کہہ کراس کے والدین کے ورثہ سے اس کو محروم کیا جائے نہ کفار کو یہ حق ہے کہ وہ کسی بچے کے مسلمان ہونے پر (ابھی وہ زندہ ہیں بچہ بڑا ہوگیا ہے، مسلمان ہوگیا ہے)اس کو جائیداد کاورثہ پانے کے حق سے محروم کریں ، یہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو برابر دو طرفہ چسپاں ہوں گے اور اس میںفرق کرنے والا انصاف سے خلاف ورزی کررہاہو گا۔ سوائے ان حالات کے جن مخصوص حالات میںجنگ کی حالت میں آنحضرت ﷺنے بعض جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں فیصلے دیے (سمجھ گئے ہیں بات؟)۔ اس کے متعلق مزیدانشاء اللہ میں تحقیق کروںگا خواہ اس درس میں یا بعد میں کسی وقت آپ کے سامنے پھر دلائل رکھوں گاان علماء کے جنہوں نے غلامی کفر اور قتل کو موانع ارث قرار دیا ہے ۔ قتل میں تو ایک بات بالکل واضح ہے جو شخص کسی کی جان لیتا ہے وہ اپنی جان کے حق سے محروم ہوجاتا ہے وہاں ورثے کی بحث نہیں ہے وہ دراصل ہر حق سے محروم ہوجاتاہے تبھی اس کو قتل کردیا جاتا ہے۔جب تک زندہ ہے روٹی تودینی ہے اس کومگرجب قتل کافیصلہ ہوگا تو عملاً یہ فیصلہ ہے کہ اس نے ایک شخص کو اس کی زندگی کے حق سے محروم کیا یعنی ہر وہ چیز جو اس کی تھی اس کے حق سے محروم کردیا ۔ اس لیے یہ بھی از خود ان تمام حقوق سے محروم ہوگیا اگر قضاء یا عدالت فیصلہ دے دے کہ واقعۃً قاتل ہے ۔ ہاں اگر محروم ہوا ہے تو کچھ اورلوگ حقدار بنے ہیں وہ حقدار اگر از خود حق چھوڑیں تو اس کا قتل بھی معاف ہوسکتا ہے۔ پھرایک نئی زندگی ملتی ہے یہ الگ باتیں ہیں مگر قتل کا موانع ارث میں شامل ہونا یہ قرین عقل بات ہے۔ اس لیے میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے ایک طرف۔قاتل جس کو قتل کرے اس کا وارث نہیںہوسکتا یہ تو ایسی بات ہے جس کے خلاف کوئی قرآنی دلیل نہیں دی جاسکتی کیونکہ جس نے قتل کیا وہ قتل کا سزاوار ہوا جب قتل کا سزاوار ہوا تو ورثہ کیسے پائے گا۔ ورثہ تو اس نے تب پانا ہے جب وہ شخص مرتا اپنی طبعی موت جو فیصلے ہیں وہ طبعی موت کے اصول کے پیش نظر ہیں۔ لیکن کسی کوورثے کی خاطر قتل کردیا جائے اس سے ورثہ اس کو نہیں مل سکتا پھرکیونکہ غیر قانونی حرکت کے نتیجہ میں کچھ فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اصول ہے جو موانع ارث بن جائے گااس صورت میں۔
اب آگے ہے بابت ماں اور بھائی کا حصہ۔ یہ جو آیت ہے اگر اس کی اولاد نہ ہو اور بھائی بہن ہوں تو پھر ماں کو 1/6ملے گا۔ اب میں اس کی طرف واپس آرہا ہوں۔ سب سے زیادہ جو الجھن والی بحثیں ہیں وہ اس حصہ میںشروع ہوجاتی ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یعنی تفسیر کبیر رازی میں ہے اس کی چھان بین کہ کہاں کہا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ابھی تک ہم نے نہیں کی(آپ لکھنا ان کو یا وہ سن رہے ہیں تو وہ خود ہی بھیج دیں گے) کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو حوالہ دیا گیا ْہے اس کو بھی دیکھا جائے۔ ورنہ لوگوں کو بہت شوق ہے کہ فتویٰ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اور عام حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کردی جائے یہ عام شوق پایا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر جہاں اختلاف کا احتمال ہو وہاں زیادہ توجہ سے ان احادیث کی چھان بین ضروری ہے۔ جہاں مسلّمہ قرآن کی تائید کی عام باتیں ہیںوہاں ہرگز کوئی ضرورت کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کی تائید میں ہی کہنا تھا اس کو قبول کروگے تو نقصان کوئی نہیں فائدہ ہی ہوگا۔ لیکن جہاں اختلافات کے موضوع پر ایسی حدیثیں ہوں وہاں ضروری ہے کہ ذرا ٹھہر کے غور کرکے جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں with a pinch of salt ان کو قبول کیا جائے اور دیکھاجائے کہ حقیقت میں ان کے اندر اتنا وزن ہے کہ نہیں روایات میںکہ ان حدیثوںکو قبول کیا جائے ۔ اب سنیے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ بھائی وہ چھٹا حصہ پائیں گے جس چھٹے حصے سے وہ والدہ کو محروم کررہے ہیں اورجو باقی ہوگا وہ والد کو ملے گا۔ اب یہ بڑی دلچسپ بات ہے، قرآن کریم نے فرمایاکہ اگر اولاد نہ ہو تو ماں اور باپ میںدو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوگا ۔ اگر بہن بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا ملے گا تو باقی کہاں جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یعنی روایت کے مطابق کہ باقی جو جائے گا وہ اصل میں ماں کا حصہ صرف کم کیا ہے باپ کا کیا ہی نہیں ۔ قرآن کریم نے جب ماں کا ذکر کردیا اور باپ کا نہیں کیا تو صرف ماں کا کم ہوا باپ کانہ کم ہوا۔ تو جو چھٹا حصہ ماں کاکم کیا وہ ان کو تقسیم ہوگا یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ساری آیت میں ماں کے حوالے سے بیٹی کے حوالے سے باتیں ہورہی ہیں ۔ دوسرا استنباط ہوجاتا ہے از خود لیکن اکثر علماء اس سے اتفاق نہیں کرتے۔یہ حجت استقرائی کہلاتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ جتنے جمہور علماء ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ بھائیوں کی عدم موجودگی میں تمام کے مالک ماں باپ ہوتے ہیں ۔ بھائیوں کی موجودگی میں خداتعالیٰ نے ان کے حصے کا ذکر نہیں کیا سوااس ذکر کے کہ وہ ماں کے 1/3کو گھٹا کر 1/6 کردیتے ہیں اور کسی کا کسی کو وراثت سے محروم کرنا اس کے وارث ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اب یہ عجیب و غریب ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ کوئی شخص حاجب الارث تو ہوگا مگر وارث نہیں ہوگا۔ یعنی شکل یہ بنی کہ اگر اولادنہ ہو توماں باپ اسی طرح شمار ہوں گے جیسے وہ اولاد تھے۔ یعنی وہ تمام حقوق جو اولاد کوملنے تھے، کیونکہ دوسرا ان سے بہتر ان سے زیادہ اولیٰ حقدار اور کوئی موجود نہیںہے۔ اس لیے بمنزلہ اولاد سمجھتے ہوئے ان کوسب کچھ دے دیا جائے اگر بھائی ہوں اور اولاد نہ ہوتو پھر بھائی catalitic agent کے طور پر کام کریں گے ۔ یعنی کچھ حصہ خود نہیں پائیں گے بلکہ ایک ایسی کنڈیشن پیدا کردیں گے جس کے نتیجہ میںوارثوں کے حصے تبدیل ہوجائیں گے اور پھر ماں کو 1/3کی بجائے 1/6ملے گا۔ تو ماں کا 1/6 جو رہ گیا وہ بھائیوں کو دیا جائے گا یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلیل ہے۔ دوسرے فقہاء نے کہا ہے کہ نہیں ان کا ذکر ہی نہیں کہ وہ ورثہ پائیں گے وہ صرف ایک ایسے ایجنٹ کے طور پر کام کریں گے جنہوں نے حصہ کو تبدیل کردیا اور چھٹی کی۔ تومرنے والے کے بھائی بہن ہوں بیشک ان کو کچھ نہیں ملے گا ، ماں ماری جائے گی ۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ ماں بیچاری پہ سارا نزلہ ٹوٹے ان کے بہن بھائیوں کے ہونے کا اور قرآن کریم حصص کی تقسیم کررہا ہے اور یہ عجیب و غریب نئی بات اس میں پیدا کردی گئی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ نہیں ورثہ پائیں گے مگر کتنا اور کیسے؟ یہ اختلافی بحثیں اب آگے چلیں گی ۔ علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں یہ لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے (یہ اجماع والی بحث جوہے یہ تو مشکوک ہے ساری۔ اجماع کہہ دیتے ہیں ہوتاکوئی اجماع نہیں) کہ مورث کی اولاد ہو تو معین حصے والے وارثوں کا حصہ پہلے دیا جائے پھر بچ جانے والا مال للذکر مثل(حظ الانثیین) یہ تو ٹھیک ہے۔ اس کے خلاف کوئی بات ہمارے علم میں نہیں یہ ٹھیک کہتے ہیں اجماع یہ ہے۔ وہ جو پہلے باتیں ہوچکی ہیں ساری کہ پہلے اس کے وصیت کے معاملات طے ہوں ا سکے قرضے اداہوں جو بچے وہ ماں باپ میں برابرکردو ۔ اس میں تو واقعی کوئی اختلاف کہیں نہیں ہے۔ آگے ایک اٹھ کھڑا ہوا ہے بیٹی، بہن، پوتی کاحصہ۔ اب پوتی واپس آگئی ہے اور بغیر پوتے کے ذکر کے آئی ہے۔ اوریہ حدیث اگرچہ بخاری کی بیان کی گئی ہے مگر حدیث کا انداز بتا رہا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ ایک ایسی فرضی بات نظر آرہی ہے بیچ میں کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔معلوم ہوتا ہے کسی نے (جس کا مقصد حل ہوتا تھا اس سے)اس نے کوئی چیز الٹ پلٹ کی ہے۔ اس کے بیچ میں اس کی دلیل میں آپ کوپہلے حدیث سنادوں پھر بتاتا ہوں اب یہ حدیث جس طرح بنی ہے پچیدگی کے ساتھ یہ بھی بڑی قابل غور بات ہے۔ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور ورثاء میں ایک بیٹی،ایک پوتی،اور ایک بہن چھوڑ جائے۔یہ معین مثال دی جس کا مطلب ہے کہ جو پوچھا گیااور بیان کرنے والے ان کے سامنے ایک واضح مسئلہ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ کچھ خاص طریقے سے دلوایا جائے۔۔۔ایک پوتی اور ایک بہن چھوڑ جائے تو انہیں کتنا کتنا حصہ ملے گا؟فرمایاآدھا بیٹی کو اورآدھا بہن کو اور پوتی محروم ہو گئی کیونکہ وہی اصول کہ اگر پوتی کا مطلب ہے کہ بیٹا پہلے مر چکا ہے اگر ہوتا تو وارث ہوتا تو اس لئے چونکہ وہ وارث بننے سے پہلے مرگیا پوتی محروم رہے گی۔ ساتھ لکھا ہے کہ انہوں نے کہا آپ احتیاطاً عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر دریافت کریںمیرا فتویٰ درست ہے کہ نہیں۔تو پھریہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاتے ہیں پوچھنے والے وہ فرمانے لگے اگر میں بھی ایسا کہوں تو درست نہ ہوگا۔ ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہا میں تو اس معاملہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو آنحضرتﷺ نے فرمایا اور فیصلہ پتا ہے کیا ہے بیٹی کو آدھا اور پوتی کو چھٹا حصہ دو تا کہ دو تہائیاں پوری ہوجائیں اور جو باقی رہ جائے وہ بہن کیلئے ہے ۔ یہ کہاں ہے؟
واقعہ کوئی ایسا رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اگرہوا ہوتا تو یہ پوتے والے کی بحث جوتھی ساری حل ہوجاتی اور تمام علماء یہ باتیں پیش کرتے۔ معلوم یہ ہوتا ہے اس حدیث سے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حوالہ دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اس قسم کی کوئی بات ہوئی تھی تو آپ نے یہ فتویٰ دیا تھا ۔ اگر یہ استنباط ٹھیک نہیں تو دوسرا اس سے بھی زیادہ بعید از قیاس ہے کہ ایک واقعہ نہیں ہوا ہوا اور گویا رسول اللہ ﷺ اس باریک مسئلہ میں ایک پیشگوئی فرمارہے ہیں کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ ایک مرنے والے کی ایک بیٹی ہوگی ،ایک بہن ہوگی اور ایک پوتی ہوگی۔ اس وقت تم پوتی کو 1/6دینا تاکہ دو تہائیاں پوری ہوجائیں یہ دلیل بھی دی ساتھ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا طرز بیان ہی نہیں ہے اور جو معاملہ سامنے نہ آیا ہو اس طرح وضاحت کے ساتھ اتنی باریکی سے اتر کر فتاویٰ دینا جبکہ فتویٰ سامنے ہونہ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا طریق ہرگزنہیں ، نہ خداکا یہ طریق ہے کہ اس قسم کی پیشگوئیاں وہ کروائے۔کبھی بھی نہیں ہوا۔تو لفظ بخاری سے مرعوب ہوکر ایسی بات قبول کرلینا جو آنحضرتﷺ کی مسلمہ شخصیت سے ٹکراتی ہو، حالات جس سے متصادم ہو ں اور حالات کے متصادم ہونے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ اگر حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں بعینہٖ ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا تو پھر سب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے علم میں یہ بات تھی۔ پھر ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹیڑھا فتویٰ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ جو انہوں نے کہا کہ غلط فتویٰ دے دیا۔ اور پھر تمام فقہاء اس کا حوالہ دیتے کہ آنحضرت ﷺ اپنی زندگی میں یہ فیصلہ فرماگئے ہیں اس لیے اس کو قبول کرو۔وہ اس کا حوالہ اس لیے نہیں دے رہے کہ یہ زندگی کا فیصلہ نہیں ہے۔ بعدمیں آنے والا ایک واقعہ ہے جس کیلئے ایک دلیل ڈھونڈی گئی ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔دو ، دو سے زائد بیٹوں کا حصہ ۔ اب یہ ایک اوربحث اُٹھ گئی ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے فان کن نسائً ا فوق اثنتین فلھن ثلثا (ماترک) اگر بیٹیاں دو سے زائد ہوں فوق کے معنی اس سے اوپر ۔ فلھن ثلثا تو ان کو 2/3دے دیا جائے گا، ان میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ دو ہوں تو پھر ان کو 1/2میں برابر حصہ دار کیا جائے گا۔ یعنی 1/4,1/4یا وہ دو سے زائد کے حکم میں آئیں گی۔ کئی فقہاء ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ دو سے زائد کا مضمون بالکل واضح ہے کہ اگر بیٹیاں دو ہوں تو پھر وہ آدھے میں برابر کی شریک ہوں گی یعنی 1/4,1/4حصہ پائیں گی 1/3کے حصہ سے محروم رہیں گی گویا کہ جو ایک اندرونی تضاد نظر آتا ہے۔ اس بحث میں جو فقہاء نے کچھ کہا ہے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہاں یہ پھر مروی ہے، مفسرین میں سے یہ الکشاف نے جو بحث اُٹھائی ہے یہ میں وہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
وہ کہتے ہیں اگر کوئی کہے کہ یہ ذکر دو بیٹیوں کے معاملہ کا ہے اور ان کے بارہ میں کیا فیصلہ ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کا حکم مختلف ہی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کو جماعت کا مقام حسب آیت فان کن نسائً افوق اثنتین دینے سے انکار کیا۔ کیونکہ فوق اثنتین میں دو سے اوپر ہوناان کا ضروری ہوا،وہ ان پر ایک بیٹی کے سے احکام لاگو کرتے ہیں اس لیے دو بیٹیوں پر ایک بیٹی والے احکام لاگوہوں گے۔ یہ دلیل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کی گئی لیکن اس کا اندرونی سقم اس بات سے واضح ہے کہ اگر تین بیٹیاں ہو تو ان کوتو 1/3,1/3ملے گا۔ 2/3ان تین میں تقسیم ہوگا تو کتنابنے گا؟ 1/3یا ملے گانا !یااس سے زائد؟ 2/3میں اگر تین بیٹیاں شریک ہوں …میں بتاتا ہوں ابھی تو کتنا حصہ بنا؟…ایک بیٹی کو کتنا ملا؟ 2/3کا1/3…کتنا بنتا ہے ٹوٹل؟ (2/3کا 1/3ملے گا جو) 2/9بنتا ہے یعنی نصف سے کم اور 1/3سے زیادہ (1/3سے زیادہ نہ ہو ا کہ نہیں؟ ہاں ٹھیک ہے)او راگر چار ہوں تو پھر 1/6آجائے گا۔ یہ جو بحثیں ہیں اس میں مَیں صرف ایسے امکان کی تلاش میں ہوں جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اگر ان کے اصول کے مطابق دو بیٹیاں ہوں تو وہ 1/3سے کم پائیں گی اور اگر اس سے زیادہ ہوجائیں تو زیادہ پاجائیں گی ۔ اگر ایک ہو تو نصف پاجائے گی۔ یہ جو باتیں ہیں یہ اندرونی اختلافات اس قسم کے ہیں جو غیر متوازن ہیں۔ اگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق جو روایت منسوب کی گئی ہے اس کو ہم قبول کرلیں تو صورت حال یہ بنتی ہے کہ اگر ایک بیٹی ہو تو نصف لے لے گی ۔ دوسری ہوئی تو وہ ماری گئی اور اس کی شریکہ آگئی ایک اورو ہ اس کو آدھا بانٹ دے گی اور تیسری ہوئی توپھر خوش قسمتی ہے وہ 1/4سے حصہ پھر بڑھادیں گے کیونکہ ساڑھے چار آپ نے بتایانا جو1/4کی بجائے…کتنا بنا؟ پھر معین بتائیں ؟2/9کا کتنا بنا؟ 1/4سے کم ہے زیادہ نہیں ہے، ٹھیک ہے یہی تو میں کہنا چاہتا تھا ایک بٹا ساڑھے چارہے۔ زیادہ نہ ہو اکم ہوا۔ تو تین ہوئیں تو 1/4سے اور کم ہوگیا اور اگر دو ہوں تو وہ دونوں کسی صورت میں بھی 1/3نہیں پائیں گی ۔ اب یہ جو بحث ہے دو کا قصور کیا ہے۔ دو 2/3میں شریک کیوں نہیں ہوں گی۔ یہ بحث ہے جو قابل توجہ ہے کیونکہ اس طرح ان کے حصوں کے اندر ایسی تفریق ہوتی ہے جس کیلئے کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے علماء کو اس بات کو قبول کرنے میں تردّد رہا ہے اور انہوں نے بجائے اس کے کہ اس عقلی دلیل کو استعمال کریں اور یہ کہہ کر ردّ کردیں، احتیاط کی ہے اور کوشش کی ہے کہ قرآن کریم یا حدیث سے ہی وہ دلیل ڈھونڈیں جس سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب اس بات کو ردّ کیا جاسکے(سمجھ گئے ہیں بات اب؟)۔
اس کے خلاف ایک استدلال جو کیا گیا ہے فقہاء کی طرف سے او رحضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بعینہٖ وہی قبول کیا اور اُسی کی تائید کی۔ وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اصل میں فرق ہے ہی کوئی نہیں اور شیعہ مسلک اس کی تائید کرتاہے زیادہ تر۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اصول کے تابع کچھ کم ملے گا مگر ایک دوسرے اصول کے تابع اس کی کمی پوری ہوجائے گی۔ اس لیے یونہی ایک توہمات کی بحثیں ہیں ورنہ عملاً بچیاں نقصان میں نہیں رہیں گی۔ وہ کہتے ہیں یہ قواعد الاحکام الجز ء الثانی کتاب الفرائض ازآیت اللہ حسن بن یوسف ۶۴۸ ؁ھ تا ۷۲۶ ؁ھ کا زمانہ ہے ان کا۔ اس زمانہ میں جوفتاویٰ دیے گئے آج کے فتاویٰ نہیں یہ پرانے فتاویٰ ہیں۔ کہتے ہیں اکیلے بیٹے کو سارا ترکہ ملے گا اور اسی طرح دو اور زیادہ کو ترکہ مساوی تقسیم ہوگا۔ دو کو شامل کرتے ہیں کہتے ہیں دو میں دو سے زیادہ ہونے کا مفہوم داخل ہے اوروہ کیوں ہے؟ اس کی دلیل نہیںدی مگر کہتے ہیں وہ شامل ہوں گی اور دو یا دوسے زیادہ بیٹیوں کو 2/3ملے گا اور باقی 1/3ردّ کے طور پر انہیں ملے گا اور اگر اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو ترکہ للذکر مثل حظ الانثیین کے مطابق ہوگا۔ یہ ردّ والا مضمون یہ ہے کہ اگر دو یا دوسے زائد بیٹیاں ہوں تو2/3میں سب برابر کی شریک ہوں گی۔ لیکن جو 1/3ہے اگر دوسرا وارث نہ ہو جو لائن میں وارث ہے یعنی ماں باپ نہ ہوں یا اولاد نہ ہو تو انہی بیٹیوں کو واپس آجائے گا۔اور اولاد تو خیرہے ہی نہیں بیٹیاں ہی ہیں اگر ماں باپ نہ ہوں تو انہی بیٹیوں کو واپس مل جائے گا ۔ اس کو کہتے ہیں ردّ۔ یعنی چونکہ معین واضح وارث اس بقیہ حصہ کا پانے والا دعویدار موجود نہیں ہے اس لیے جس کو نسبتاً کم ملا تھا وہی اولیٰ ہے حق میں، اس کو واپس آجائے گا۔ یہ ہے فتویٰ آیت اللہ حسن بن یوسف کا۔
منہاج الصالحین کتاب میراث میں یہ لکھا ہے اور یہ بھی فتویٰ ان کا ہی ہے شیعہ فتویٰ ہی ہے۔ اکیلا بیٹا وارث ہو تو تمام مال اسے ملے گا اور اسی طرح اکیلی بیٹی ہو تو تمام مال اسے ملے گا۔ اب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے پیش ہیںنظر چونکہ اس لیے اس پہلو سے یہ فتویٰ کمزور ہوجاتاہے۔کیونکہ اکیلی بیٹی کا وارث ہونا یہ ایک بہت ہی اہم متنازعہ فیہ مسئلہ بنا ہوا ہے اور اگر یہ کہہ دیں نہیں ہوسکتی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ بحث ساری ختم ہوجائے گی کہ باغ فدک میں سے مجھے دو یا خیبر کی زمینوں سے مجھے دو۔ اس پہلو سے ان کا فتویٰ جب تک معین دلائل پیش نہ کریں مشکوک ہوجاتا ہے اور یہ کہہ کر بیٹی اکیلی ہو تو وارث ہو یہ کیسے نظر انداز کردیں گے کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن موجود تھیں اور ان کا حصہ قرآن کریم نے معین واضح فرمایا ہوا ہے۔ تو یہ اگر فتویٰ ہے ان کاتو صرف اس صورت میں اطلاق پاسکتا ہے کہ ایک بیٹی ہو اور لائن میں وہ وارث نہ ہوں جن کے متعلق قرآن کریم نے واضح طور پر ان کو وارث قرار دیا ہو۔ پھر ردّ کے طور پر اس کومل جائے پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس میںکوئی قرآن کی مخالفت نہیں ہے مگر یہ فتویٰ دے کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں وہ اس کو استعمال اس لیے نہیں کرسکتے کہ وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی موجود تھیں اور دوسری امہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی موجود تھیں اور ان کے ہوتے ہوئے اس واضح قرآنی حکم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ بھی شریک ہیں اور اگر اولاد نہ ہو تو 1/4کی اوراگر اولاد ہو تو 1/8کی اور 1/8تو ان کو جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی بچیاںتوتھیںنہ اولاد۔ یہ بحث چھوڑدیتے ہیں اور اس کیلئے جو انہوں نے اور بحثیں اُٹھائی ہیں وہ ایسی پیچیدہ ہیں کہ ضروری ہے کہ ان کا الگ جواب دیا جائے ۔ اس لیے اس حصہ پر اس وقت میں اس مضمون کو فی الحال چھوڑتا ہوں۔ شیعہ مسلک کے متعلق ایک الگ پورا وقت چاہیے کہ ورثہ کے متعلق ان کے مسلک کی چھان بین کی جائے اور دیکھا جائے کہ اہل سنت سے جہاں اختلاف ہے کس حد تک یہ درست ہیں اور کہاں تک اہل سنت کا مؤقف مضبوط ہے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت چشمۂ معرفت سے ہے جو اس مضمون پر روشنی ڈال رہی ہے اور بہت ہی حاوی ہے ہر پہلو پر ۔ یہ پڑھ کر سنادوں تاکہ اگر اس کے برعکس کوئی بات مثلاً اس سے پہلے میں نے کہہ دی ہوتو اس کو کالعدم سمجھا جائے۔ یہ اس امام کا فیصلہ ہے جس کو اس زمانہ کاخداتعالیٰ نے امام بنایا ہے اور اس کے فہم قرآن کے بعد کسی کافہم قرآن کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اس پہلو سے بڑے غور سے اس کو سن لینا چاہیے اب۔
’’تمہاری اولاد کے حصوں کے بارہ میں خدا کی یہ وصیت ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا کرو اور پھر اگر لڑکیاں دو یا دو سے بڑھ کر ہوں تو (دو یا دو سے بڑھ کر یہ قابل غور بات ہے آپ نے بھی فوق اثنتین میں دو کو شامل فرمایا ہے نکالا نہیں) جو کچھ مرنے ولاے نے چھوڑا ہے اس مال میں سے ان کا حصہ تہائی ہے۔(دو تہائی ہے، تہائی غلطی سے لکھا گیا ہے ۔ دو یا دو سے زائد ہوں تو جو کچھ مرنے والے نے چھوڑا ہے ان کا حصہ دو تہائی ہے۔ اس لیے لازماً ’’دو‘‘ چھٹ گیایہاں۔ ان کو کہیں کہ اصل کتاب میں لفظ ’’دو‘‘ چھٹا ہوا ہے تو درست کریں اس کو ۔ ہیں! کتاب سے چھٹا ہوا ہے اس کودرست کریں)اور اگر لڑکی اکیلی ہو تو مال متروکہ میں سے نصف کی مستحق ہے۔ (یہ توبالکل مسلّمہ بات ہے سب کی) او رمیت کے ماں باپ کو یعنی دونوں میں سے ہر ایک کو اس مال میں سے جو میت نے چھوڑا ہے چھٹا حصہ ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے اور یہ اس حالت میں کہ مرنے والا کچھ اولاد چھوڑ گیا ہو۔ تو اس بارہ میں بھی جو میں نے اب تک کہا تھا اس سے میں کوئی ایسی بات نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہی نہ فرمائی ہو۔ اور اگر مرنے والا لاولد مرا ہو اورمیت کے ایک سے زیادہ بھائی یا بہنیں ہوں تو اس صورت میں ماں کا چھٹا حصہ ہوگا لیکن یہ حصہ وصیت یا قرض کے ادا کرنے کے بعد دیناہوگا ۔ تمہارے باپ ہوں یا بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں سے باعتبار نفع رسانی کے کون سا تم سے زیادہ قریب ہے۔ پس جو حصے خدا نے قرار دے دیے ہیں ان پر کاربند رہو۔ کیونکہ وہ صرف خدا ہی ہے جس کا علم غلطی اور خطاء سے پاک ہے اور جو حکمت سے کام کرتا ہے اور ہر ایک مصلحت سے واقف ہے‘‘۔
ختم ہوا یہاں فقرہ’’ اورجو ترکہ تمہاری بیویاں چھوڑ مریں پس اگر وہ لاولدمرجاویں تو ان کے ترکہ میں سے تمہارا حصہ آدھا ہے اور اگر تمہاری بیبیوں کی اولاد ہے تو اس حالت میں ان کے ترکہ میں سے تمہارا چوتھا حصہ ہے‘‘۔ اب جو پہلی آیت تھی وہ ختم ہوئی اس کے بعد یہ دوسری آیت بھی زیر بحث آگئی۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ماں کے چھٹا حصہ تک بات ختم کردی ہے۔ اس لئے ہمارے لیے استنباط کی گنجائش پھر پڑی رہ گئی ۔ اس لیے اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو اس کا یہ مطلب سمجھا تھا۔ آپ اس کے خلاف کوئی دوسرا مطلب کیسے پیش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں 1/6کہہ کر باقی ایک غور کرنے والے، قرآنی علوم پر تفصح کرنے والوں کیلئے کھلی بات چھوڑ دی ہے اس لیے اس کی طرف ہم دوبارہ آئیں گے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔۔۔’’ دو لڑکیوں کا حصہ یوصیکم اللہ ۔ وصیت کا مسئلہ یہاں سے شروع کیا۔ پہلاحکم یہ دیاکہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے پھر فرمایا کہ اگر دو سے زیادہ عورتیں ہی ہوں تو ان کا یہ حکم ہے کہ دو ثلث وہ لے لیں باقی سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اگر وہ دو ہوں تو ان کا حکم کیا ہے۔ یہ پہلی آیت سے نکل چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ للذکر مثل حظ الانثیینکہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہوگا‘‘۔ مرد کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ اب اگر ایک لڑکی ہو اور ایک مرد ہو تو مرد کو کتنا ملے گا؟ دو تہائی اس لیے اگردولڑکیاں ہوں تو دو تہائی ہونا چاہیے کیونکہ دونوں کا حصہ برابر ہے۔ اس لیے فرمایا کہ فوق الثنتینکی بحث لفظ فوق کی وجہ سے مضمون کو نہیںبدل سکتی کیونکہ فوق اثنتین میں تو بات کھل گئی۔رہی دو تو ان کا استنباط اس وجہ سے ہورہا ہے کہ للذکر مثل حظ الانثیین نے دائمی اصول بیان کردیا کہ اولاد اگر ہو تو لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ فرمایا اگر ایک لڑکا ہوتا اور ایک لڑکی ہوتی تو ایک لڑکی کو 1/3اور ایک لڑکے کو 2/3ملتا۔ تو دو لڑکیاں ہوں تو برابر کیسے ہوں گی اگر 2/3 ان کاہوگا۔ اگر 2/3ان کا نہ ہوتو برابر کیسے رہیں گی؟ پس آپ نے ایک اور لطیف انداز میں یہ جو بحث تھی فوق کی اس کو بائی پاس کرد یا اور قرآن کے اندر موجود اصول کو نمایاں کرتے ہوئے اس سے استنباط کردیا جو بہت ہی وزنی استنباط ہے اوربڑا لطیف استنباط ہے۔ پس دو لڑکیوں کا حصہ کیا ہوا؟ دو ثلث۔ وہی جو تین لڑکیوں کا مقرر ہے۔ ’’پس اس آیت کی بناوٹ سے ہی ثابت ہوگیا کہ دو لڑکیوں کا حصہ دو ثلث ہے۔ یوصیکم اللہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بندہ کے احکام نہیں ہیں خداتعالیٰ کے ہیں۔ پس ان میں تبدیلی اور تصرف جائز نہیں‘‘۔ آگے فرماتے ہیں’’جمہور کا مذہب ہے کہ خواہ ماں باپ سے بھائی ہوں خواہ خالی باپ سے خواہ خالی ماں سے وہ حاجب ہوں گے۔ شیعہ زیدیہ شیعہ امامیہ کا مذہب ہے کہ ماں سے بھائی حاجب نہیں ہوں گے اور میرے نزدیک (یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک) یہی درست ہے۔ ماں باپ سے ہوں ۔ ماں سے بھی اور باپ سے بھی تو حاجب ہوں گے لیکن اگر محض ماں سے ہوں تو حاجب نہیں ہوں گے کیونکہ جمہور کامذہب ہے کہ بھائی اس موقع پر صرف حاجب ہوں گے اور وارث نہیں ہونگے اور ان کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ہاں ماں کا حصہ ان کے سبب سے چھٹا رہ جائے گا۔
اس جگہ یہ سوال (اب اس کایہ جو pointہے یہاں میں مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمہو کا یہ مؤقف قبول کرلیا کہ 1/6اس لیے ہوا کہ بھائی حاجب بن گئے ورنہ ورثہ میں وہ کچھ نہیں پائیں گے۔ یہ وہی بحث ہے جس کے متعلق میں نے آپ کو متنبہ کیا تھا کہ میں اس کی طرف واپس آئوں گا) اس جگہ یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر وہ وارث نہیں تو وہ ماں کا حصہ کیوں کم کریں گے۔ جمہور اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ چونکہ زیادہ اولاد ہونے کے سبب باپ پر خرچ زیادہ ہوگا نفقہ اس پر ہے نہ کہ ماں پر اس لیے باپ کا حصہ اس صورت میں بڑھادیا ہے اور بھائی کو کچھ نہیں دیا۔یہ مؤقف حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ قبول کررہے ہیں کیونکہ یہ ایک معقول بات دکھائی دیتی ہے۔ لیکن میں اپنی پوری لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے بھی یہاںاختلاف رکھتا ہوں اوروجہ بیان کرتا ہوں۔ آگے یہ سب کا حق ہے کہ اِس دلیل کو قبول کریں یا اُس دلیل کو قبول کریں۔ اس وقت تک حق ہے جب تک جماعت کی طرف سے کوئی افتاء کا فتویٰ جاری نہ ہوجائے۔ اگر فتویٰ جاری ہوجائے گا پھر انفرادی اختلاف رکھتے رہیں لیکن اس کو جماعتوں میں مبحث بنانے کا پھر جماعت کو کوئی حق نہیں ہے۔ اس سے پہلے پہلے میرے مسلک سے بیشک فقہی اختلاف کریں، علماء بھی کریں اور دلائل بتائیں کہ کیوں یہ دلیلیں کمزوراور ان کے نزدیک دوسری دلیل زیادہ مضبوط ہے۔ میرے نزدیک بھائیوں کو محض ایک catalitic agent سمجھنا درست نہیں ہے۔ ورثے کی بحثیںہورہی ہیں اور کوئی شخص جس کا ذکر آتا ہے وہ ورثہ کے تعلق میں ہی آرہا ہے اور 1/6کی یہ دلیل کہ بھائیوں نے اس لیے کم کردیا کہ ماں باپ پر بوجھ بڑھ گئے مگر باپ زیادہ ذمہ دار ہے ماں کم ہے اس لئے درست نہیں ہے میرے نزدیک کہ یہ بات اس بیٹے کے مرنے سے پہلے بھی تو اسی طرح تھی۔ جو ذمہ داریاں باپ ادا کررہا تھا وہ ذمہ داریاں اسی طرح چلی آرہی ہیں ان میں تو کوئی فرق نہیں پڑا اور کیا اس بیٹے کے مرنے کا ہی انتظار تھا کہ وہ مرے تو باپ کے ہاتھ مضبوط ہوں تاکہ باقی اولاد پر خرچ کرسکے اور اگر باقی اولاد پر خرچ کرنا مقصو دتھا تو باقی اولاد کو دے کر بھی تووہ ذمہ داریاں کم ہوجاتی ہیں۔point سمجھ رہے ہیں بات؟ باقی اولاد ہی کو اگر پیش نظر رکھا گیا ہے اور اس لیے ماں کا حصہ کم کیاگیا ہے تو اس صورت میں کہ باپ کو 2/3مل جائے یہ بحث بنے گی نہ پھر؟ 1/6ماں کا رہے گا 2/3باپ کومل جائے گا۔وجہ یہ ہے کہ وہ وارث بنے اور وارث بننے میں بدرجہ اولاد ہوئے اگر وہ بمنزلہ اولاد ہوئے تو ایک اور دو کی نسبت قائم ہوگئی یہ اصول بنایا گیا ہے۔ اگر یہ بات رکھتے ہیں تو 1/6کا 2/3تو 1/3ہے پھر۔ بیک وقت دو کشتیوں میں پائوں کیسے رکھا جاسکتا ہے۔ اگر ماں باپ کے معاملے میں عورت کا ایک اور مرد کا دو حصہ یہ اصول تسلیم کرلیا جائے او ریہاں اس کو چسپاں کیا جائے توماںکا جب 1/6 ہے تو اس کا دگنا کتناہے 1/3 ۔ تو پھر وہ اصول کہاں گیا اس کی طرف اگر اس کو چھوڑ رہے ہیں تو پھر اس کی طرف واپس کس طرح آرہے ہیں دوسری طرف سے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اولاد کا جو ذکر ہے وہ محض حاجب کے طو رپر نہیں وہ اس طور پر ہے کہ ماں باپ کے متعلق پہلے ہی یہ اصول قائم ہوچکا ہے ۔ (یہ آیت) اس آیت نے پہلے 1/6کی بات کی ہے اس کوکیوں ہم نظرانداز کریں۔ کھلم کھلا آیت کا بیان موجود ہے اس کے عنوان میں ہی موجو دہے کہ جب 1/6ہوگا ماں کا تو باپ کا بھی 1/6ہوگا۔ وہاں 1/3 ، 2/3والا اصول نہیں چلایا ہوا۔ ایک اور دو حصے والا اصول نہیں چلایابلکہ قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہاں ہے جی وہ آیت؟…یہ دیکھیںیوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے۔ یہ اصول للذکر مثل حظ الانثیین کہ لڑکی کو ایک اور لڑکے کو دو حصے ملیں گے۔ اس بارہ میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی تحریر میں یہ تسلیم کرتے ہیں پوری طرح۔ یہی مؤقف جو میں نے بیان کیا تھا کہ یہاں اولاد کے متعلق ایک اور دو کا اصول ہے باقی ورثوں میں یہ جاری ہونا ضروری نہیںہے۔ محض اولاد کیلئے ایک اور دو کا اصول ہے۔ میں نے اس سے پہلے بیان کیا کہ اگروالدین بمنزلہ اولاد ہوں یعنی سارا ورثہ پانے والے ہوں تو اس صورت میںایک استنباط کے طور پر ایک اور دو کا اصول قائم ہوجائے گا۔ اگر نہ بھی کریں گے تو ویسے ہی ہونا ہی ہونا ہے کیونکہ 1/6بھی کریں گے تو ردّ پھر ہوجائے گا ان کی طرف۔ تو سیدھی طرح ان کو وہی کیوں نہ دلوایا جائے اور یہی قرآن کریم نے فرمایا ہے۔ اس صورت میںایک اور دو کا اصول قائم ہوگا اگرچہ وہ اولاد نہیں ہے۔ فان کنّ نسائً افوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک وان کانت واحدۃً فلھا النصف ولابویہ لکل واحدٍ منھما السدس۔ کہ ان کے والدین کیلئے اولاد کی صورت میں ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے ۔ تو جب والدین چھٹا حصہ لیں تو ایک اور دو کا اصول پھرقائم نہیں رہے گا یہ میرا استنباط ہے۔ قرآن نے واضح طو رپر فرمادیا کہ چھٹے حصے کے معاملے میں دونوں برابر شریک ہوں گے۔ پس آخر پرجب ماں کا چھٹا حصہ بیان فرمایا ہے تو وہی بات ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ جب چھٹے حصے کی بحث آئے گی تو ماں کا کہہ دیا جائے تو باپ کا اسی طرح ہوگا جس طرح پہلے بیان ہوچکا ہے اور اس طرح آیت کا جوربط ہے وہ ٹوٹتا ہی نہیں اور ایک اندرونی مضبوط ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت پیدا ہوتی ہے اور باہر جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس اس بناء پر میرا مؤقف یہی ہے کہ 1/6کا ذکر اس پہلے 1/6کی طرف اشارہ کررہا ہے جس میں ماں کا 1/6تھاباپ کا بھی 1/6تھا۔ پس جب 1/6ماں کا بیان کیا جائے تو باپ کا از خود وہی ہوگا جو پہلے بیان ہوچکا ہے اور جہاں ماں کا 1/3بیان کیا ہے وہاں باپ کا 2/3ذکر کردیا تبھی تاکہ اس میں غلط فہمی نہ ہو۔ تو قرآن کے اندر وضاحت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جو ربط ہے وہ اس مضمون سے پردے اٹھا رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسی صورت میں 1/6ہی ہوگا کیونکہ والدین اگر پہلے ضرورت تھی والدین کو ذاتی اس وقت پھر ان کو زیادہ کیوں نہ دیا گیا 1/6سے۔ اگر والدین کو ذاتی ضرورت تھی تو 1/6سے زائد پہلے بھی تو دینا چاہیے تھا۔ اس لیے یہ جو استنباط ہے یہ نسبتاً اصل مؤقف سے ذرا ہٹ کر استنباط ہے۔ قرآن نے جب 1/6کہہ دیا تو 1/6ہی ہے۔ قرآن نے ہر جگہ ماں کے ساتھ، لڑکی کے ساتھ لڑکے کا ذکر نہیں کیا۔ ماں کے ساتھ باپ کا ذکر نہیں کیا۔ ایک کاذکر کرتا ہے یعنی ماں کا اور دوسرا ہم استنباط کرتے ہیں اور استنباط کیلئے قرآن کا استنباط لاز م ہے اور اَولیٰ ہے دیگر استنباط کے۔ اور قرآن کا استنباط یہی ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ جہاں 1/6 کی بات کی تھی وہاں دونوں کو برابر ٹھہرایا تھا اور ان میں کوئی تفریق نہیںکی تھی۔ پس وہ جو بقیہ بچتا ہے وہ کس کیلئے پھر بچتا ہے۔ اس میں سے وصیت بھی ہوسکتی ہے ، اس میں سے قرضے تو خیر ادا ہوتے ہیں وصیت تو وہ کہیں گے کہ ہر جگہ نکلتی ہے مگر 1/3کی جو وصیت ہے وہ حصوں میںسے کاٹی جاتی ہے ا س لیے وہ نکالیں گے تو حصہ کم رہ جائے گا خودبخودہی۔مگر میں جو بات اب وضاحت سے کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کوئی بھی ہو اگر ماں باپ کو 1/6اس لیے مل رہاہے کہ بھائی اور بہنیں موجود ہیں تو سوائے اس کے کوئی استدلال نہیں بنتا کہ بھائی او ربہن لینے کی وجہ سے محروم کررہے ہیں حق لینے کی وجہ سے ان کو محروم کررہے ہیں نہ کہ محض اپنی موجودگی کی وجہ سے۔ کیونکہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے، کوئی موجود ہے تو دوسرے کو محروم کردے۔ موجود ہے تولینے والا بنتا ہے تو محروم کرتا ہے۔ لینے والا نہیں بنتا تومحروم نہیں کرتا۔ پس یہ اب صورتحال اگر اس استنباط کو قبول کیا جائے تو یہ بنے گی کہ اگر کوئی شخص مرتا ہے اس کی اولاد نہیں ہے تو ماں باپ بمنزلہ اولاد شمار ہوں گے اور اصل وراثت جو ہے وہ ماں باپ اور بیٹے، اور بیٹے اورماں باپ کے درمیان ہے ۔ اولاد اورماں باپ، ماں باپ اور اولاد کیونکہ دونوں کے وہ کفیل اور ذمہ دار ہیںاو ربیویاں بھی چونکہ ذمہ داری میں شامل ہوجاتی ہیں اس لیے ان کا معین حصہ مقررفرمادیا۔اب قریب ترین رشتے ہیں جن کی بحثیں اُٹھائی گئی ہیں۔ اس لیے ماں باپ کو دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم کردیا جائے گا اگر اولاد نہ ہو۔ اگر بھائی بہن ہوں تو پھرماں باپ کا 1/6بحال ہوجائے گا جو پہلے گذرا تھا۔ اوربقیہ حصہ بھائی اور بہنوں میں تقسیم ہوگا اور اس کی وجہ سے ماں باپ کے اوپر کوئی بوجھ عائد نہیں ہوتا۔ کیونکہ ماں باپ نے بھی تو اولاد پر ہی خرچ کرنا تھا بجائے ا سکے کہ ان کی وساطت سے دوبارہ دلایاجائے اگر بھائی کی وساطت سے دلایا جائے تو بھائی کیلئے زیادہ محبت پیدا ہوتی ہے اور یا مرنے والی بہن کیلئے اور اس کیلئے دل سے پھردعا نکلتی ہے۔ اس سے ایک تعلق بحال ہوجاتا ہے اور اس کی یادگارپاس رہتی ہے۔ عملاً آنا تو واپس انہی کی طرف تھا اس لیے اس میں کچھ بھی رخنہ نہیں پیدا ہوا۔ ذرا بھی رخنہ پیدانہیں ہوا۔ رہنا تو انہی کے درمیان تھا نا۔ بھائیوں نے اور بہن نے ماں باپ کے مرنے پر پانا تھا اور ایک صاحب جائیداد جب مررہا تو معلوم ہوتا ہے عمریں ان کی کافی ہوچکی ہیں اس لیے اگر ان کے مرنے کے بعد ان سے پائیں اس کی بجائے اس مرنے والے سے کیوں نہ پالیں جبکہ جائیداد بعینہٖ اسی نسبت سے ان تینوں کے درمیان ہی رہی ہے اس سے باہر نہیں نکلی۔
اس لیے میرے نزدیک ہرگز مضائقہ نہیں کہ 1/6کے اصول کو بحال رکھا جائے کیونکہ میرے نزدیک قرآن بحال کررہا ہے۔ اور بہن بھائیوں کو دے دیا جائے بالآخر انہوں نے ہی پانا ہے اور کوئی نہیں ہے۔ تومرنے والے کے حوالے سے دینامجھے زیادہ بہتر معلوم ہورہا ہے بہ نسبت اس کے کہ واپس باپ کے پاس جائے اور پھر لوٹے اور پھر جب باپ کے پاس جائے تو نہ 1/6قائم رہا نہ ایک اور دو کی نسبت قائم رہی۔ بہت بڑا رخنہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس اصول کواگر مانا جائے تو اس کی طرف بھی متوجہ ہوں دوست کہ ماں کو تو 1/6کردیا باقی باپ کو 2/3کے اصول پر اگرکیا جائے تو 1/3ہی مل سکتا ہے ۔ پھر بھی کافی حصہ بچ جائے گا ۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ بقیہ باپ کو دلوادیا جائے اگر بقیہ باپ کو دلوادیا جائے کیونکہ بیٹوں نے اور بہن بھائیوں نے تو کچھ نہیں پانا وہ تو صرف catalitic agentsتھے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر سارامضمون بگڑ گیا وراثت کا۔ نہ ایک اور دو کا اصول قائم رہا نہ 1/6 کا اصول قائم رہا اور ایک عجیب سی بات پیدا ہوئی جس کی خداتعالیٰ نے کوئی وضاحت بھی نہیں فرمائی۔ اس لیے نہ چھیڑنا ہی بہتر ہے ۔ بعینہٖ جو قرآن نے فرمایا ہے اور اتنے قریبی ربط میں فرمایا ہے اوپر 1/6نیچے پھر 1/6 تو بریکٹ کردیں ان دونوں باتوں کوتو مسئلہ ختم ہوجاتا ہے ۔ اور محجوب الارث والی بات ! میرا دل تو قبول نہیں کرتا ۔محجوب الارث ان معنوں میں کہ وارث ہے ہی کچھ نہیں۔صرف حجاب ہی پیدا کرتا ہے ورنہ باقی سب جگہ حجاب پیدا کرنے والے وارث ہیں۔ اگر وارث موجود ہے تو حجاب پید اکرے گا کیونکہ زیادہ اہلیت والا وارث موجود ہے ۔وارث نہ ہو اور صرف پردہ کھڑا ہوجائے سکرین بن کے یہ بات میرا دل قبول نہیں کرسکتا۔ باقی ایک جواب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیا ہے کہ عورت کیلئے نصف حصہ مرد کیلئے دوکیوں ہیں یا ایک کیوں ہے یا ایک اور دو کی نسبت کیوں ہے۔ یہ وہی جواب ہے جو بار ہا یہاں پہلے بھی ہوتا رہا ہے پیش کہ مرد کو کفیل بنایا گیا ہے ، ذمہ دار بنایا گیا ہے اس لیے اس لحاظ سے اس کوو رثہ میںبھی زیادہ ملنا چاہیے۔ اب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں پہنچ کر مشکل محسوس کی ہے خود کہ اگر 1/6ماں کو دیا جائے اور باقی سارا باپ کو دے دیا جائے تو نسبت بدل جائے گی ایک اور دو کی ۔ کیا حل ہے اس کا پھر اور اگر نسبت قائم رکھو توکچھ حصہ بچ جائے گا تو اس مشکل میں پڑکے سوال اٹھا کر بغیر جواب دیئے آپ چھوڑ رہے ہیں اس بات کو ۔ فرماتے ہیں:-
’’یہاں پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر کوئی ایسی عورت مرجائے جس کی اولاد نہ ہو تو اس کی جائیداد سے 1/3حصہ تو اس کے خاوند کا ہوگا اور 1/3حصہ اس کی ماں کا تو اس کے باپ کا حصہ کیا ہوگا۔ باقی 1/6حصہ بچتا ہے۔ یہ تو باپ کا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ عورت کے حصہ سے کم ہے۔ اس کے متعلق یہی کہنا کافی ہے کہ جب خداتعالیٰ نے باپ کا حصہ بیان نہیں فرمایا تو ہمیں اس کے مقرر کرنے کی حاجت نہیں ہے‘‘۔
اب یہ جو مسئلہ ہے اگرچہ ایک اور حوالے سے پیش ہوا ہوا ہے مگرمیرے نزدیک اگر آیت کی اسی طرح پیروی کی جائے جو میں نے جس طرح کرکے دکھائی ہے تو یہ مسائل اٹھتے نہیں ہیں۔ اس کو دوبارہ میںلیتاہوں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے ویسے ۔میں پہلے سمجھا تھا وہ پہلی بات ہی کے تسلسل میںہورہی ہے بات ۔ یہ وہ نہیں ہے یہ نئی بات نکلی ہے ۔ ایک اور بات اٹھارہے ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ اگر اولاد نہ ہو اور بہن بھائی ہوں وہ والی جو بات تھی وہ الگ چھوڑ چکے ہیں ایک نئی بات اٹھائی ہے۔ اس لیے دوبارہ پڑھنا پڑے گا اب اس کو ۔ فرماتے ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر کوئی ایسی عورت مرجائے جس کی اولاد نہ ہو تو اس کی جائیداد سے 1/3حصہ تو اس کے خاوند کا ہوگا اور 1/3حصہ اس کی ماں کا۔یہ کس طرح بنا؟ (کیوں جی امام صاحب! کہاں غائب ہوگئے ، ایسے مشکل موقعوں پر چھپ جاتے ہیں وہ اکثر) اگر کوئی ایسی عورت مرجائے جس کی اولادنہ ہو تو اس کے خاوند کو بھی کچھ ملے گا ، اس کے باپ کو بھی کچھ ملے گا۔ درست۔ اگر اس کا خاوند موجود ہو تو اس کو کتناملے گا؟ 1/2ملنا چاہیے یا 1/4-1/4اور 1/8تو اولاد کی صورت میں ہوتا ہے۔ عورت کو 1/8،اگر اولاد ہو خاوند کو 1/4۔
تو 1/3غلط لکھا گیا ہے یہاںیہ میںکہہ رہا ہوں ۔ جو واضح قطعی بات معروف ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند مرجائے یا بیوی مرجائے اس صورت میں کیا ہوگا؟ اگر خاوندمرجائے اور بے اولاد مرے تو بیوی کو 1/4ملے گا اور اگر بیوی مرجائے تو خاوند کو 1/2ملے گا۔ اگر صاحب اولاد ہوں اور بیوی مرجائے تو خاوند کو بیوی کی جائیداد میں سے 1/4ملے گا اور اگرخاوند مرجائے اور صاحب اولاد ہو تو بیوی کو 1/8ملے گا۔ یہ ہے اصول۔ اس لیے جو لکھا گیا ہے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے جو صورتحال حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش فرمارہے ہیں اسی کی بحث کرتے ہیں ۔ صورتحال یہ پیش فرمارہے ہیں کہ اگر کوئی عورت مرجائے جس کی اولاد نہ ہو ۔ یہ سوال ہے۔ تواس کے خاوند کو کیا ملے گا؟ (1/2)اور 1/3اس کی ماں کو ملے گا۔ خاوند کو 1/2اور 1/3ماں کو کیوں ملے گا؟ یہ بتائیں اب۔1/3کیوں ملے گا؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں، اب اسی مضمون کی طرف واپس جائیں تو نجات وہیں ملے گی جو میں پہلے مسلک پیش کرچکا ہوں۔ 1/3اور2/3اگر اولاد نہ ہو تو ایک حصہ ماں کااور دو حصے باپ کے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے نا۔ بھائیوں کو غیر وارث سمجھ لیاگیا اس لیے یہ چکر پڑ گیا سارا۔ بھائیوں کو تو غیر وارث قرار دے دیا مگر اگر خاوند ہو تو وہ تو وارث بن گیا نا۔ اور خاوند لے لے گا تو ماں کا ذکر ہے 1/3اس کو دو۔ وہ سمجھا جائے گا کہ اس صورت میں اولاد نہیں ہے تو وہی اصول ہوگا۔ اور 1/3ماں کو مل گیا،باپ خالی اور یہ ہو نہیں سکتا ۔ کیونکہ ہر صورت میں خاوند کے حق کو عورت کے حق سے زیادہ سمجھایا۔ یہاں پہنچ کر حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ ایک دفعہ وہ مؤقف اختیار کرچکے ہیں اس لیے یہاں آکر ٹھہر گئے ہیں اب اور فرماتے ہیں جب خدا نے ذکر نہیں کیا تو پھر ہم بھی نہیں کچھ بات کرتے۔ میں درست نہیں سمجھتا اس کو۔ میرے نزدیک اصل وجہ وہی ہے جو وہاں ایک دفعہ قدم دوسری طرف اُٹھ گیا ہے۔ بھائیوں کو اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ وہ وارث ہیں۔ پس یہ ترجمہ کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کی اولاد بھی نہ ہو اور دوسرا کوئی وارث بھی نہ ہوتو پھر ماں کو 1/3 اور باپ کو 2/3، مسئلہ ختم۔ اگرکوئی اور وارث ہو جیسا کہ بھائی وارث ہیں تو پھر 1/6میںدونوں بحال ہوجائیں گے۔ اور جو بیچ میں بچتا ہے وہ یا بھائی پائیں گے یا دوسرا وارث اگر وہ بھی ہو۔ بھائی نہ ہوں تو بیوی کا خاوند اس کا وارث ہے۔ بیوی کی ماں بھی اس کی وارث ہے۔ بیوی کا باپ بھی اس کا وارث ہے ۔ تو اس طریق پر اگر آپ تقسیم کرکے دیکھیں تو کوئی حسابی دقت پیش نہیں آتی۔ ایک عورت مرتی ہے اس کا وارث خاوند موجود ہے۔ اس لیے جو معین حصہ ہے خاوند کاوہ 1/2ہے۔ جو باقی آدھا ہے اس میں 1/6۔1/6 ماں اور باپ میں برابر تقسیم ہوجاتا ہے۔ اورکچھ جو بچ جاتا ہے وہ صدقہ خیرات کے کام آسکتا ہے۔ اس لیے کوئی حسابی دقت نہیںپیدا ہوتی۔ اس لیے اگرچہ یہ بات اور ہورہی ہے مگر نتیجہ وہیں پہنچتا ہے اصل میںکہ اگر بھائیوں کو حاجب سمجھاجائے اوروارث نہ سمجھا جائے تو اس کا بد اثر آگے بھی مترتب ہوگا۔ اور قرآن کریم کی دوسری آیات پر بھی یہ بات اثر انداز ہوگی۔ اس لیے میںجو مؤقف سمجھ رہاہوں اس کو مزید مجھے تقویت ملی ہے۔ ورنہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں آگے ٹھہر نہ جاتے۔ اب یہ تقویٰ کا تقاضا تھاٹھہر گئے ورنہ کوئی اور عالم ہوتا اس نے کوئی نہ کوئی چیز نکال لینی تھی۔ مگر ضروری تو نہیں کہ ہر بات ہر ایک کوبعینہٖ اسی طرح سمجھ آجائے۔ اللہ کی مرضی ہے۔ بعض دفعہ بہت بڑے بڑے علماء بعض باتیں نہیں سوچ رہے ہوتے، چھوٹے کو سوجھ جاتی ہے۔ بعض دفعہ باپ کو سمجھ نہیں آتی بیٹے کو سمجھ آجاتی ہے۔
حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جو مقدمہ پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ففھمناھا سلیمٰن۔ دائود علیہ السلام کو کیوںنہ سکھادیا اللہ میاں نے ۔ مقدمہ ایسے وقت میں پیش ہوا جبکہ دونوںزندہ تھے ان کے سامنے پیش ہوا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام کو نہیں سکھایا سلیمان علیہ السلام کو سکھادیا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو صلاحتیں ان باتوں کوبخشیںتھیں ان میں سلیمان علیہ السلام کو ایک چیز سمجھ آئی حالانکہ حضرت دائودعلیہ السلام کو نہیں آسکی تھی۔ سوجھی نہیں تھی ۔ تو یہ کوئی گستاخی نہیں ہے۔ اس لیے کوئی اگر یہ کہے کہ تم کون ہوتے ہو، تمہاری کیا حیثیت ہے مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کھڑے ہوکر ان کے استدلال پر ایک تبصرہ بھی کررہے ہو۔ میری کوئی حیثیت نہیں مگر ایک بات لازم ہے کہ جو قرآن کو عزت دے گا وہی عزت پائے گا۔ ہماری اوّل وفا ماں باپ یا اپنے بزرگوں کے فیصلوں سے نہیں بلکہ قرآن سے وفا ہے ۔ اور اس راہ میں سوائے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتویٰ کے میں اس دو رکے اوپر کسی اور کا فتویٰ جاری نہیںسمجھتا کیونکہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا نے امام مہدی کا لقب دیا اور سارے دور کے بادشاہ بنائے گئے ہیں۔ خلفاء اپنے وقت میں اپنے فتوئوں کے اوپرعمل درآمد کرانے کے مجاز ہیں دوسرے خلیفہ کے سامنے پہلے خلیفہ کی رائے ایک سند کے طور پر اس طرح پیش نہیں کی جاسکتی کہ چونکہ اس نے یہ فیصلہ دے دیا تھا اس لیے تم اس کے خلاف بات نہیں کرسکتے۔ اگر استنباط قرآن سے ہو اور حدیث سے ہو او رعقل سے ہو تو پھر ہر خلیفہ وقت کو اختیار ہے ہاں وہ خلیفہ مرجاتا ہے تو کل کا خلیفہ اگر پہلے خلیفہ کی طرف واپس آجائے تو اس کا بھی حق ہے۔ اس طرح اندرونی تضاد کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ نہ ہوا تو Papacyوالا حال ہوجائے گا۔ جہاں یہ تصور کیا گیا کہ کوئی پوپ بھی خطا نہیں کرسکتا۔ ہر پوپ معصوم عن الخطا ہے۔ اس لیے جب ہر پوپ کو معصوم عن الخطاء سمجھا تو اس کے فیصلہ کو اس کی زندگی میںہی نافذ نہیں بلکہ آئندہ بھی نافذ سمجھا گیا۔ جبکہ آئندہ آنے والے پوپوں نے اس سے اختلاف کرلیا اور وہ بھی معصوم عن الخطا۔ یہی جھگڑا ائمہ کا چل چکا ہے۔ کہ فلاں بیٹے کو محروم الارث قرار دے کر یعنی (اپنا لقب پانے سے محروم کرکے اسماعیل کو اس کی بجائے ان کو… کن کو کیا تھا؟ موسیٰ کاظم کو۔ چھٹے امام کی بات میں کررہا ہوں۔ اسماعیلی ا سی سے تو نکلے ہیں اسی گروہ سے) اسماعیل بڑے بیٹے تھے ان کو بظاہر امامت ملنی چاہیے تھی ان کومحروم قرار دے کر ان کے چھوٹے بھائی کو امام بنادیا اور جنہوںنے اس فیصلے کو قبول کیا انہوں نے کہا کہ اب امامت جاری ہے وہ چھٹے سے آگے چل پڑی ہے امامت۔ جنہوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا انہوں نے کہا چونکہ امام معصوم عن الخطا ہے اس لیے ان کے نزدیک حضرت اسمٰعیل جو ان کے بیٹے تھے ان کو پہلے وہ امام بناچکے تھے تسلیم کرچکے تھے اپنے بعد۔ اس کے حق میں وصیت کرچکے تھے اس لیے ان کو تبدیلی کا کوئی حق نہیں تھا ورنہ خطا ہوگئی۔ اس لیے وہ فیصلہ کالعدم ہے ان کا اپنا اور اس طرح ان کا معصوم عن الخطا ہونا ثابت کرگیا کہ ان کا اپنا فیصلہ دوسرے بیٹے کے حق میں خطا ہے۔ تو یہ اندرونی تضاد تو بڑا واضح ہے ۔ لیکن اس کونظر انداز کرکے جب معصوم عن الخطا کی بحثوں میں پڑتے ہیں تو یہ سارے معاملات یہ سارے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ کوئی خلیفہ بھی معصوم عن الخطا ان معنوں میں نہیں ہے۔ ان معنوں میں تو ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خلیفہ کا ایسا فیصلہ جوجماعت کے مفادات سے تعلق رکھتا ہو اگر غلط ہوگا تو اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے گا۔ کیونکہ اس وقت اس کی بات ماننی ضروری ہوگی اوریا اس کو خود سمجھا دے گا اور وہ فیصلہ تبدیل کردے گا۔ یا جماعت کو اس کے شر سے بچائے گا ۔ اور آج تک جو تاریخ ہے کلیۃً اس کی تائید کررہی ہے ۔ خلیفہ ٔوقت کا کوئی فیصلہ کبھی بھی جماعت کے خلاف مضر ثابت نہیں ہوا۔ مگر یہ کہ قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر میں یامسائل کی تحقیق میں ہر خلیفہ معصوم عن الخطا ہے بالکل غلط ہے۔ اگر یہ ہو تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلافات یابرعکس کہنا چاہیے یہ کیسے ہوگئے مسائل میں۔
کئی مسائل میں اختلاف تفصیلی تفسیری ، مسائل میں مَیں پہلے بھی کرچکا ہوں اختلاف۔ بعض لوگوں نے مجھ سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا میں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ میں نے کہا میں نے تمہیں جان نہیں دینی میں نے اللہ کوجان دینی ہے۔ تقویٰ سے جو چیز مجھے جب تک دکھائی دے گی میں وہی کہوں گا جو مجھے دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس بات پر پہنچوں میں دُعا کے بعد ، استغفار کے بعد اللہ تعالیٰ سے مدد ہمیشہ مانگتا ہوں کہ اگر یہ غلطی ہے تو مجھے اس دوسری ٹھوکر سے بھی بچالے پھر۔ ایک تو غلط بات کہوں اور دوسرے اپنے سے بالا صاحب علم اور صاحب مقام آدمی کی بات کے مخالف ایک اور بات پیش کروں۔ دو ٹھوکریں ہوگئیں نا۔ لیکن اگر یہ نہ ہو تو میں لازماً مجبور ہوں وہی کہوں گا جو قرآن مجھے سمجھ آئے گا وہی کہوں گا جو استنباط میرا دل تقویٰ کے ساتھ کرے گا۔ اور اس وقت تک یہ فیصلہ چلے گا جب تک میں زندہ ہوں۔ جب میں مر جائوں گا تو اگلے خلیفہ کا حق ہے خواہ میرے ساتھ موافقت کرے یا پہلے کسی اور سے موافقت کرے۔لیکن تضاد نہیں ہو گاکیونکہ ہر خلیفہ کا دور اس کا اپنا دور ہے۔مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہ میری مجال ہے کہ کوئی اختلاف کرے نہ کسی آئندہ آنے والے خلیفہ کی مجال ہے کہ وہ اختلاف کرے۔اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کے مقرر کردہ امام ہیں۔ان معنوں میں معصوم عن الخطاء کے جو بھی معنی ہیں آپ پر پورے آتے ہیں۔لیکن ایک اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے اس کی وضاحت بھی کر دوں۔کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ مطلب سمجھتا ہوں اورآپ یہ سمجھ رہے ہیں اس لیے آپ غلط کہہ رہے ہیں ۔اس میں پھر خلیفہ وقت کی بات مانی جائے گی ۔ خلیفہ وقت کیلئے ناممکن ہے کہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک مؤقف سمجھ کر پھر اس کے مخالف کوئی تصور بھی باندھ سکے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کوئی ماں سے زیادہ چاہے گا تو پھپھا کٹنی ہوگا۔ یا غلط فہمی ہوئی ہوگی بیچارے کو۔ یہ تو حق ہے اس کا کہ وہ یہ لکھے خلیفہ وقت کو کہ آپ کی بات سن لی مگر مجھے ابھی بھی یہی لگ رہا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ مسلک نہیں وہ مسلک ہے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ کوئی مجھے لکھتا ہے میں نے کہا ٹھیک ہے آپ یہی سمجھتے رہیں۔ مگر جماعت کے سامنے ایک مؤقف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلیفہ وقت پیش کرتا ہے اس کے مقابل پر کسی شخص کو اپنے دوسرے مؤقف پیش کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ اوربات ہے ۔ سمجھ گئے ہیں بات؟ اب آج کا درس ختم کل انشاء اللہ پھر اکٹھے ہوں گے۔ وہ نکالیں اب شیعوں والے حصے جو ہیں ناں ۔ یہ دیکھیں یہ ہے پلندہ سارہ۔ اس کے متعلق منگوائیں تفصیلی روایات۔ السلام علیکم ۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 21؍رمضان بمطابق11؍ فروری 1996ء
یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین الخ۔۔۔۔۔۔ علیمًا حکیمًا
یہ جو آیت ہے اس کے متعلق اب تک بہت سی بحثیں گذرچکی ہیں۔ کچھ باقی بھی ہیں جن پر اس وقت میں کچھ کہنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ کچھ تحقیق طلب باتیں ہیں جب ان کے جواب آجائیں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت بھی وہ جواب موصول ہوں گے کسی موقع محل کے مطابق کسی وقت ان پہلوئوں کو دوبارہ چھیڑا جائے گا۔ جو باتیں واضح پر سامنے آچکی ہیں ان میں سے ایک اس حدیث کی بحث تھی جو میں نے کل اٹھائی تھی۔ ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ پوتی کا یہ حصہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔ اس پر میں نے درایت کے اعتبار سے بعض سوال اٹھائے تھے جس سے مجھ پر یہ تاثر تھا کہ اس حدیث میں بعض باتیں اتنی مبہم ہیں کہ ان کو دائمی اصول کے طور پر قطعیت کے ساتھ اور یقین کے ساتھ کہ یہی رسول کریم ﷺ کامنشاء تھا، ہم انسانی معاملات میں جاری نہیں کرسکتے۔ کیونکہ جہاں حقوق انسانی کا تعلق ہے وہاں قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے اور بڑی وضاحت




فرمائی ہے۔ اگرکسی جگہ ابہام ہو اور حدیث خواہ بخاری کی ہو یا کسی اور کتاب کی ہو ، روایتاً مضبوط ہو مگر اندر مضمون میں ابہام پایا جائے تو ابہام مانع ہوجاتا ہے کہ اس سے سند لے کر اسے مستقلاً معاملات کے فیصلے میں جاری کیا جاسکے۔ یہ تھا جو میں نے مسلک پیش کیا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بعض علماء میرا مطلب سمجھے نہیں۔ انہوں نے غالباً یہ سمجھا کہ میں بخاری کی اس حدیث کو محل نظر قرار دے رہا ہوں۔ کیونکہ اس کی روایت ٹھیک نہیںہے حالانکہ روایت کا میں نے اشارۃً بھی ذکر نہیں کیا۔میں نے تومضمون کی بحث اٹھائی تھی۔ چنانچہ انہوں نے بخاری کی اس روایت کی تائید میں دیگر کتب کا حوالہ دیا ہے۔ بخاری میں بھی یہ حدیث ہے ، ابودائود میں بھی ہے، ابن ماجہ میں بھی ہے، ترمذی میں بھی ہے، دارمی میں بھی ہے، طحاوی میں بھی ہے اور دار قطنی میں بھی ہے اور سب جگہ تقریباً یکساں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ اس حدیث کی صحت کی مضبوطی کے طور پر انہوں نے مجھے مزید معلومات مہیا کی ہیں کہ جب اتنی طاقتور حدیث ہو جو اتنی اہم کتابوں میں درج ہو تو اس پر کیا ہم کوئی رائے زنی کرسکتے ہیںکہ اس کا مضمون کسی لحاظ سے مبہم ہے۔ روایت کی بحث الگ ہے۔ روایت کے لحاظ سے ایک حدیث قطعی طو رپر صحیح ثابت ہوجائے تو اس کے باوجود درایت کا اپنا ایک مضمون ہے جو اس کے باوجود قائم رہتا ہے ۔ وہ نہ صرف انسانی حق ہے بلکہ فرض ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی طرف بات منسوب کرکے اگر شریعت کے فیصلے جاری ہونے ہیں تو قیامت تک کیلئے انسانی حقوق اس سے متاثر ہوں گے۔
جہاں شریعت معاملات میں اتنی احتیاط برتتی ہے ایک واقعہ کی سزا کیلئے چار گواہوں کا خاص حالت میں پایا جانا اور اتنی قطعیت کے ساتھ واقعہ کو دیکھنا بیان کیا گیا ہو کہ وہ شاذ کے طور پرممکن ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو قرآن فرماتا ہے کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں۔ ان کو مفتری قرار دیا جائے گا ان کو اسّی کوڑے پڑیں گے فی آدمی۔ اگر یہ جو احتیاطیں ہیں ان احتیاطوں کے ساتھ گواہی کی شرط کو پورا نہیں کرتے۔ تو جہاں قرآن میں انسانی حقوق اور معاملات میں اس قدر احتیاط برتی گئی ہے اور گواہوں کے مضمون پر اتنا زور دیا گیا ہے اور ان کی گواہی کا واضح ہونا اس مضمون سے ثابت ہوتا ہے۔ وضاحت پر ایسا زور دنیا کے کسی عدلیہ کے نظام میں نہیں ملے گا اور چونکہ یہ شاذ کا معاملہ ہے اس لیے اگر دیانتداری کے ساتھ اس مضمون کو پیش نظر رکھیں تو بہت کم ایسا واقعہ ہوگا کہ یہ حد جاری ہوسکے اور زیادہ سے زیادہ کھلے بے حیائوں کے اوپر تو جاری ہوسکے گی عام حالات میں اس کا جو دائرہ ہے وہ قائم ہوتے ہوئے بھی اطلاق نہیں ہوسکتا۔ پس ایک طرف قرآن کریم نے معاملات پر اور حقوق انسانی پر اتنا زیادہ زور دیا ہو اور دوسری طرف کوئی حدیث ہو جس کے اندر (صرف حدیث ہے قرآن کی آیت نہیں ہے حدیث صحیح ہے مگر اس کے اندر) ابہامات ہوںاگر ابہام ہوں توپھران کو نظر انداز کرکے اس کو ایک جاری فیصلہ کے طور پر امت کے معاملات میں رائج کرنا میرے نزدیک قرآنی مصالح اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ یہ بحث تھی جو میں نے کل چھیڑی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے اس کی پوری وضاحت نہیں ہوسکی۔ اب میں دوبارہ وضاحت کرتا ہوں۔ جو ابہام ہیں جو قطعی طور پر قانونی گواہیوں میں نہیں ہونے چاہئیں مثلاً ترجمہ ہے۔ ابو موسیٰ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے بارے میں پوچھاگیا، کس نے پوچھا، کون تھا، کون سا ایسا واقعہ درپیش آیا تھا کہ اس کو پوچھنے کی ضرورت پیش آئی۔ تو جہاں مجہول میںباتیں ہوں وہاںمعاملہ سارا ہی الجھایا جاتا ہے اور ایک مجہول کا سایہ باقی ساری روایت پر پڑ جاتا ہے ۔ جو سند کے طو رپر ،قوانین کے طور پرجاری کرنے والی باتیں ہیں ان میں مجہول حوالے کام نہیں دینے چاہئیں۔ کیونکہ پوچھا گیا ابو موسیٰ سے یہ حرج کیا تھا راوی کو بتانے میںکہ کس نے پوچھا تھا؟ یہ وضاحت کرنے میں کیا حرج تھا کہ یہ واقعہ فلاں جگہ ہوا تھا۔ راوی کے رشتہ دار تھے جن کے ساتھ یہ واقعہ گذرا یا کچھ اور تھے اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور جن روایتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان ان حدیثوں میں ملتی ہیں ان میں سے ایک میں بھی وضاحت نہیں سب خالی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جس sourceنے ایک جگہ بات پہنچائی اور حضرت امام بخاریؒ نے روایت کے اصول کے مطابق راویوں کے اندر فرداً فرداً کسی راوی میں بھی کوئی نقص نہ دیکھا تو صحیح میں قبول کرلیا۔ جب بخاری میں آگئی تو ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ پچاس اورحدیثوں میںبھی آجائے تو بات وہی رہے گی ۔ اصل حدیث بخاری والی ہی ہے اور اسی حدیث کو اسی طریق پر باقیوں نے بھی بیان کیا ہے۔ میرے نزدیک تو نہ بھی کیا ہوتا تو بخاری کی سند اپنی ذات میں بہت بھاری اور کافی تھی کیونکہ اس پر جرح نہیں ہوئی ہوئی۔ تو سند کی بحث نہیں ہے۔ مگر مضمون پر یہ بحث ہے کہ یہ کہا گیا ایک سوال کیا گیا کہاں سے کیا کچھ پتا نہیں۔ حالانکہ مسائل میں اس کامعین ہونا ضروری تھا۔ اگلی بات ہے۔ آپ نے جواب دیا بیٹی کو نصف ملے گااور بہن کو بھی نصف ملے گا۔ پھر فرمایا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جائیں۔ اب یہ جو روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جائیں اس حصہ میں دوسری روایتوں میں اختلاف آگیا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود وہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہیں گئے بلکہ ایک اور کے پاس گئے۔ اس نے بھی یہی جواب دیا اور اس نے بھی یہی مشورہ دیا کہ اب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جائیں۔ تو یہ تردّد کیوں تھا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جانے میں؟ کوئی ایسا شخص تو نہیں تھا جس کے کچھ ذاتی مسائل تھے جن کو وہ حل کروانا چاہتا تھا ۔ یہ سارے ابہامات ہیں اور اختلاف پیدا ہوجانا مضمون میں یہ بھی اس کی سند کو تو کمزور نہیں کرتا مگر درایت کی طاقت کو کمزور کردیتا ہے۔ یعنی اس کی اپنے مضمون کی طاقت کو کمزور کردیتا ہے۔ اب آگے فیصلہ سنیں! آنحضرت ﷺ انہوں نے کہا فیصلہ دے چکے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس فیصلے کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی ہے۔ فیصلہ اس سے ایسے الفاظ میں پیش فرمارہے ہیں جو فقہاء کا طریق ہے اور وہ بہت بعدمیں رائج ہوا ہے۔ آنحضرت ﷺ اس طریق پر فتوے دیا نہیں کرتے تھے۔ اور صرف ایک مضمون پر دے کر خاموش ہوجائیں اور باقی تمام احادیث میں حوالوں سے بات کریں اور یہاں بغیر کسی حوالہ کے ایک فتویٰ جاری کریں۔ یہ میں نے تعجب کا اظہار کیا تھا کہ میرے نزدیک آنحضرت ﷺ کی سنت کے مزاج کے مطابق بات نہیں ہے۔ فتویٰ کہتے ہیں یہ دیا کہتے ہیںکہ بیٹی کو نصف ملے گا ، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو تہائیاں پوری ہوجائیں۔ یہ جو طریق ہے کہ دو تہائیاں پوری ہوجائیں یہ تو رسول کریم ﷺ کا طریق نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب واضح نہیں کیا کہ کس کیس کے اوپر یہ واقعہ ہوا تھا تو یہ بات مشکوک ہوگئی۔ معلوم ہوتا ہے وہی دماغ کارفرما ہے جس نے پہلے بات شروع کی تھی۔ نہ پہلے پوچھنے والے کا ذکر ہے کہ وہ کون تھا، نہ ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں کوئی صورتحال پیش کی گئی ہے کہ ایسا واقعہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں فلاں فلاں شخص کو پیش آیاتھااور اس کے نتیجے میں اس وقت یہ فیصلہ ہوا تھا۔ اگر یہ بات ہوتی تو یہ ایسی بات تھی جسے علمائے حدیث چیک کرلیتے اور بڑی جستجو کی ہے علماء نے ان کو رستہ مل جاتا وہاں تک پہنچنے کا اور یہ کہنے کا کہ ایسا واقعہ تو ہوا ہی نہیں اس لیے ہم کیسے مانیں۔ اگر ایسا ہوتا تو انہوں نے روایت کو ردّ ہی کردینا تھا ۔معلوم ہوتا ہے ایک جگہ پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔ آغاز ہی سے پردہ ڈالا جارہا ہے۔ اس کے اگلے جواب میں بھی پردہ ڈالا گیا ہے۔ کوئی معین روایت ہی نہیں کی گئی۔ یہ دوسرا حصہ ہے درایت کا جس پر میں نے یہ سوال اٹھایا تھا روایت پر میں نے کوئی بحث نہیں کی۔
تیسرا حصہ اور بھی اہم ہے اور و ہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ پوتی کا ذکر فرمارہے ہیں۔ کیا بغیر کسی واقعہ کے یوں ہی؟ اگر بغیر کسی واقعہ کے فرمارہے ہوتے تو پوتے کی بات کیوں نہ کی۔ پوتے کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ اور اگر واقعۃً مسئلہ کی بات ہورہی تھی کہ پوتا وارث ہوتا ہے تو پھر جو جواب دے رہے ہیں وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ اگر پوتا وارث ہوتا یا پوتی وارث ہوتی تو تمام فقہاء جو اس کے قائل ہیں تو ان کا فتویٰ یہ بنتا ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے اس کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔ نمبر ایک کہ وصیت کرنی چاہیے تھی دادا کو اور اگر وصیت نہیں کی تو گویا وصیت کردی اور اس صورت میں 1/3پورے کا پورا پوتا اور پوتی کو ملے گا ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ1/3نہیں دلوارہے۔ اس 1/3کی بحث میں یہ بحث اٹھ جاتی ہے جب فرق پرجاتا ہے کہ بیٹی کو کتنا اور بیٹے کو کتنا ۔یہ رسول کریم ﷺ نے ذکر نہیں فرمایا کہ یہ میں کہہ رہا ہوں کہ ایسا شخص اگر وصیت نہ کرے تو اس کو پوتے کے یا پوتی کے حق میں وصیت سمجھا جائے اور اس وصیت کے نتیجہ میں 1/3تک کی وصیت اس کے حق میں ہو اگر ایک سے زائد پوتیاں ہوں گی تب بھی 1/3تقسیم ہوگا۔ ایک ہوگی تب بھی 1/3تقسیم ہوگا۔ یہ بات اس مضمون میں موجود نہیں ہے۔ یعنی پوتی کا حق بطور شریعت کے مستقلاً قائم کرنے کی کوئی دلیل یہاں موجود نہیں ہے اور جو دلیلیں اہل علم کو سوجھی ہیں جو اس کے حق میں ہیں وہ دلیلیں یہاں اثر انداز نہیں ہیں کیونکہ دو ہی طریق ہیں جن کے ذریعے پوتے یا پوتی کے حقوق آج کے زمانہ میں قائم کئے جارہے ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن کریم کے قانون کے مطابق گویا بیٹا زندہ ہوتا تو ورثہ پاتا اور اگر وہ زندہ ہوتا اور ورثہ پاتا تو پھر اس کا ورثہ لازماً اس کی اولاد کو ملنا چاہیے تھا۔ پس اگر یہ بات ہوتو یہاں تورسول اللہ ﷺ تو یہ فتویٰ دے ہی نہیں رہے۔ کیونکہ اگر یہ سمجھا جائے کہ بیٹا زندہ ہوتا تبھی بیٹی بننی تھی یا اس کے بغیر ہی بیٹی بن جانی تھی۔ اگر بیٹا زندہ ہوتا توپھر رسول ﷺ کا یہ فتویٰ ہونا چاہیے تھا کہ جھگڑا ہی کوئی نہیں۔ بیٹے نے دو حصے پالیے بیٹی نے ایک حصہ پالیا۔ بیٹی کو 1/3دے دو اور 2/3جو بیٹے کا ہے وہ آگے اولاد میں جائے گا۔ یہ توبحث اٹھی نہیںیہاں۔بالکل واضح بات ہے اگر بیٹا ہوتا اور وارث سمجھا جاتا تب اس کی اولاد کو حصہ ملتا۔ اگر وہ ہوتا تو یہ سارا معاملہ ہی ختم ہوگیا اپنی جگہ سے۔ یہ بحث غائب ہوجاتی ہے ۔ پھر یہ شکل بنی ہے ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کی ایک بیٹی ہے اور اس سے پہلے ایک بیٹا مرچکا تھا تقسیم کے وقت وہ موجود نہیں۔ اگر پوتا وارث ہوتا ہے تو بیٹے کی معرفت ہوتا ہے براہِ راست نہیں۔ پس بیٹا اگر وارث نہیں بنا تھا تو پوتی کو کچھ بھی نہیں جائے گا اگر وارث بنا تھا تو 2/3کا وارث بنا نہ کہ 1/6کا اور 2/3کا وارث بن گیا تو پھر 2/3تقسیم ہونا چاہیے۔ جو علماء کہتے ہیں یہ بات نہیں ہم اور طرح سے پکڑیں گے وہ کہتے ہیں وصیت سمجھیں گے کہ گویا اس نے کردی اگر وصیت تھی اور اس کا 1/3کاحق تھا اور نہ کی گئی ہو تو گویا اس نے کردی۔ اس مضمون کواب یہاں اطلاق کرکے دیکھیں وہ بھی صادق نہیں آتا۔ یعنی اس کا مطلب پھر یہ بنے گا کہ آنحضرتﷺ کی اس حدیث کی رو سے جو ہونا چاہیے تھا وہ یہ ہونا چاہیے تھا۔ یہ جو یہاں ہے یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر آنحضرتﷺ کے نزدیک پوتا یا پوتی اس لیے وارث قرار پاتے ہیں جیسا کہ آج کل مختلف ملکوں میں قانون جاری ہوئے ہیں کہ ہم سمجھیں گے کہ وصیت اس پر فرض تھی کہ اپنے یتیم پوتے یا پوتی کے حق میں کرے۔ چونکہ اس نے نہیں کی اس لیے ہم یہ سمجھیں گے کہ گویااس نے کردی اور اگر خلاف بھی کرتا تو تب بھی قانونِ اسلامی اس کے خلاف فیصلہ کو ردّ کرکے یہ وصیت شمار کرتا اور اس پر عمل کرواتا اور یہ عمل 1/3کی حد تک ممکن ہے۔ تو پھر 1/4 آدھا تو بیٹی کو مل گیا۔ یہ مثال ہے اس میں یہ ہے کہ ایک آدمی مرا ہے اس کی بیٹی ہے ،اس کی بہن ہے، اس کی ایک پوتی ہے۔ کون مرا تھا ، کس کی یہ بیٹیاں تھیں ، کس کی یہ پوتیاں تھیں کوئی ذکر نہیں ہے نہ پہلی صورت میں نہ دوسری صورت میں ۔ لیکن فرض کریں کہ واقعہ ہوا ہے کوئی ایسااس صورت میں شریعت کے مطابق بنے گا آدھا بیٹی کو مل جائے گا۔ اگرموصی جو مرنے والا ہے اس نے وصیت نہیں بھی کی تو گویا رسول اللہﷺ نے وصیت سمجھی تبھی پوتی کو پہنچے گاناں۔ اگروصیت سمجھی تو پھر 1/3تک اس مال کا نصف کے بعد جو بچتا ہے ٹوٹل کا 1/3اس بچے ہوئے میں سے لے لیا جائے گا ،وہ پوتی کو ملے گااور چونکہ وہ اگر اکیلی ہے(یہ بھی کوئی پتہ نہیں) تو اس کا پھرٹوٹل کے 1/3کا آدھا اس کوملنا چاہیے تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ بیٹی اگر رہ جائے تو اس کو نصف سے زیادہ نہیں مل سکتا یہ معاملہ جو ہے دو تین قدموںمیںطے ہوا ہے اس لیے میں دوبارہ سمجھادوں۔مرنے والا مرگیا بیٹی نے آدھا پالیا باقی کچھ آدھا رہ گیاکہ نہیں؟ اگر وصیت سمجھی جائے کہ مرنے والے نے وصیت کی تھی کہ میری پوتی یا پوتوں کو میری کل جائیداد کا 1/3تک دے دینا تو کل جائیداد کا 1/3پوتی کے نام منتقل ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے ایک اورمسئلہ بیچ میں آگیا ہے ۔ بیٹی اگر ایک ہی ہو اور وارث ہو تو اس کو آدھے سے زیادہ نہیں مل سکتا۔سمجھ گئے۔ تو اس کے کل جائیداد کا1/3بیٹی کو دینے کی بجائے کل جائیداد کا 1/3کا 1/2بیٹی کو ملے گا۔ٹھیک ہے اور باقی اس کی بہن کو جائے گا، جس کو پہلے آدھا مل چکا ہے۔ اس لیے کہ اس دفعہ وہ ورثہ اپنی بھتیجی سے پارہی ہو گی۔ سمجھے ہیں کہ نہیں ڈاکٹر صاحب بتا دیں ابھی آپ کی آنکھوں میں پوری ہوش نہیں آئی… آگئی ہے سمجھ؟ کچھ چہروں پر ابھی ابہام کے ہے آپ سامنے بیٹھے ہوئے نہیں سمجھ رہے تو دوسرے جو غائب ہیں ہیں ان کو اور مشکل پڑ جائے گی۔
دوبارہ میںسمجھاؤں ٹھیک ہے؟ واضح ہو گئی یہ بات؟ پہلی بات یہ تھی دو صورتیںہیں صرف پوتے کو ورثہ پہنچانے کی جو شرعاً منظور شدہ صورتیں اورتسلیم شدہ ہیں ۔ ایک یہ کہ گویا کہ وہ زندہ ہوتا تو وارث بنتا۔ اگر وہ زندہ ہوتا اور وارث بنتا تو جب بھی وراثت تقسیم ہوئی اس کا نہ ہونا اس پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ گویا جب وہ زندہ تھا اس نے ورثہ پالیا۔ اگر یہ صورت ہوتی تو پھر یہ اجنبی جھگڑا ہی پیدانہ ہوتا کیونکہ رسول کریم ﷺیہ فرماتے کہ بیٹا اگرزندہ ہوتا تو 2/3پاتا اور اس کی بہن 1/3لے جاتی، یہ جھگڑا تم نے کیا شروع کردیا ہے۔ پوتی کہاں سے آگئی۔ اس کی پھوپھی بیچ میں کہاں سے آگئی ۔جب حصہ رسدی پوری تقسیم ہوجائے تو بچتا ہی کچھ نہیں کہ زوائد کو دیا جائے۔ پس اس صورت میں مسئلہ حل ہوگیا ۔ مردہ بھائی چونکہ زندہ ہوتا تو ورثہ پاتا تو اس کو 2/3ملتا 1/3بہن کو۔ سب ختم ہوگیا، بچا کیا تھا جو کسی اور کو دینا ہے۔ نارمل حالات میں تو پھوپھیاںپھر نہیں پاتیں۔ یہ فیصلہ نہیں اس لیے یہ مضمون ختم ۔ دوسرا طریق ہے جو فقہاء نے ایجاد کیا ہے پوتے کو شرعاًوارث بنانے کا ،وہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں گے کہ وصیت کردی۔ کیوں سمجھیں گے خوامخواہ۔ وصیت نہیں کی تو ہم سمجھیں گے وصیت کردی اور زبردستی کروائیں گے۔ وصیت کرو نہیں مانتے ، تو پھر بھی مانیں گے۔ یہ تو عجیب بات ہے جس طرح پٹھان نے کہا تھا کہ میرا تنخواہ بڑھائو مونچھوں کو تائو دے کر ۔ اس نے کہا اگر میں نہ بڑھائوں تو کیا کرو گے، کہ میں مونچھیں نیچی کرلوں گا اور میں کیا کرسکتا ہوں۔تووہ مونچھیں نیچی کروانے والا طریق لطیفہ ہے یہ سنجیدہ معاملات میںنہیں استعمال ہوسکتا۔ قرآن کریم اس طریق پر ورثہ دلوارہا ہے پوتے کو یا پوتی یاپوتے پوتیوں کو کہ اے مرنے والے! ضرور وصیت کرو کہ تمہارا 1/3ان کو پہنچے اور اگر تم نے وصیت نہ کی تو فرق ہی کوئی نہیںپڑتا کیونکہ یہ تو ہم نے دلوانا ہی دلوانا ہے۔ تو پھر وصیت کروانے کا کیا مطلب ہے جب فرق ہی کوئی نہیں پڑتا تو مطلب ہے قانون بنا یا جارہا ہے۔ یہ اب رہ گیا ہمارے لیے شوشہ باقی کہ اس صورت میں پھر یہ مانا جائے گا کہ گویا رسول اللہ ﷺ نے آجکل کے علماء والا فتویٰ ذہن میںرکھ کر وصیت والے حق کو استعمال کیا اور اس حق کو مرنے والے کو نہیں دیا بلکہ قانون کو دے دیا ۔ مرنے والا کرے نہ کرے یہی سمجھا جائے گا کہ گویا وصیت کردی مگر اگر وصیت کی طرف رسول اللہ ﷺ کا ذہن جاتا تو اس کا ضرور ذکر فرماتے۔ پوچھتے تو سہی کہ کیا مرنے والے نے کوئی وصیت کی تھی۔ اور اگر نہیں پوچھا تو یہ بھی ایک ابہام ہے اس کا۔ اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علم میں واقعہ ہوگاکوئی ورنہ استفسار فرماتے اور پھر یہ کہتے ہاں مجھے علم ہے وصیت نہیں کی مگر یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اس نے وصیت کردی۔ اس لیے 1/3کی حد تک وہ کرسکتا تھا وہ پوتی کو ملے گا۔ اب پوتی کو پورا 1/3مل نہیں سکتا کیونکہ وصیت کا دوسراقانون یہی ہے کہ اگر ایک بیٹی کو چھوڑ کر جائے تو مرنے والے کی جائیداد کا نصف اُس بیٹی کو ملے گا او رباقی صرف اس صورت میں مل سکتا ہے، اگر فقہاء ردّ کے قائل ہوں۔ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ جتنا معین حصہ قرآن نے کسی اور کو دلوایا ہے وہ دلواکر باقی اس کی طرف لوٹ آئے گا مگر نصف پکا ہے اس میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ نصف لازماً ملے گا اور اگر قرآن نے دوسرے معین وارث ذکر فرمائے ہوں جو بقیہ آدھے کو بانٹ لیں تو پھر نصف سے زیادہ نہیں ملے گا(واضح ہوگئی بات۔ اب 1/3 کی وصیت اس نے گویاکی آدھا تو بہن کو مل چکا ہے 1/3باقی رہ گیا ہے اس کا آدھا مل سکتا ہے اس کو صرف ۔ اس حد تک تو بات ٹھیک ہے اس کو 1/6ملے گا مگر باقی پھراس لڑکی کے دادا کی بہن کو نہیں مل سکتا۔ یہ جو فرمایا گیا ہے یہ قرآن کریم کے مسلمہ اصول کے خلاف ہے، جس کے خلاف ایک بھی گواہی رسول اللہ ﷺ کی نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیا جارہا ہے۔ اس لیے اس ابہام کو کیسے دور کرو گے اب (واضح ہوگئی بات۔ یہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے تو یہ فتویٰ دیا تھا کہ 1/6پوتی کو دے دیا جائے او رباقی اس کی بہن کو دے دیا جائے جو مرا ہے۔ مگر پوتی کو ورثہ منتقل ہو نہیں سکتا جب تک اس کے باپ کے حق میں وصیت سمجھی جائے اس کے بغیر ہو نہیں سکتااگر وصیت سمجھی جائے۔ تو 1/3 سے زیادہ وصیت نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس کا آدھا 1/6ہے یہاں 1/6لکھا ہواہے بالکل ٹھیک ہے ۔ یہاں تک کوئی اعتراض والی بات نہیں ہے مگر 1/6کے بعد جو بچتا ہے وہ اس کے دادا کی بہن کو نہیں مل سکتا۔ وہ اس کے ابا کی بہن کو مل سکتا ہے۔ پس جس کو نصف دیا گیا تھا اسی کی طرف لوٹے گا۔ دادا تک بات پہنچانے تک کوئی سیڑھی نہیں لگی ہوئی۔شریعت نے کہیں وہ سیڑھی مہیا ہی نہیں کی کہ دادا کی بہن تک ایک پوتی کا ورثہ پہنچا دیا جائے۔
یہ ہے وہ ایک اورابہام ۔ اس کو اس ساری بحث کے اندر شمار کریں تویہ حدیث جو ہے یہ قطعیت کے ساتھ کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں رہتی۔ حدیث تب مجاز رہتی ہے اگر رسول اللہ ﷺ کا کوئی قطعی،واضح بغیر ابہام کے فیصلہ ہمارے سامنے آئے تو لازماً جاری ہوگا اور رسول اللہ ﷺ ابہام والی کوئی بات فرمایا ہی نہیں کرتے تھے۔ تو معلوم ہوتا ہے جو بھی روای ہیں انہوں نے جگہ جگہ پردے ڈالے ہوئے ہیں، اصل بات کھولی ہی نہیں ہوئی۔ اگر اصل بات کھل جاتی تو پھر ہم اس قابل ہوتے کہ اس مضمون پر غور کرکے اس سے استنباط کرتے۔جہاں بات ہی پردوں کے پیچھے کی جارہی ہے۔ ہمیں کیا پتا کہ کیا واقعہ ہوا ہے۔ یہ کہنا کہ روایت چونکہ پکی ہے اس لیے چاہے نظام وصیت درہم برہم ہورہا ہو ہم ضرور مانیں گے۔ جنہوں نے ماننا ہے وہ بیشک مانیں لیکن اس میں ایک اور مشکل ہے پھر ایسی تمام حدیثوں کو من و عن ماننا پڑے گا۔جو بخاری میں بھی ہیں اور ان کتب میں بھی ہیں جن کا یہ ذکر کرتے ہیں، جن کا مضمون ایسا ہے کہ اگر ان کو مانا جائے تو اسلام کے اندر تضادات پیدا ہوجاتے ہیں اور علماء نہیں مانتے اس کو ۔ کم سے کم احمدی علماء جو ہیں وہ قطعیت کے ساتھ کہیں گے کہ نہیں یہاں کوئی گڑ بڑ ہے ،ہے سہی۔ اور میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یہی وہ چکر تھا جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مخالف علماء نے وفات مسیح کی بحث کے دوران الجھانے کی کوشش کی۔ بار بار یہ سوال کرتے چلے جاتے بتائو یہ صحیح ہے یا کہ نہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے تھے کہ صحیح بخاری ہے ، صحیح ہے مگر صحیح سے مراد یہ ہے کہ روایت کے اعتبار سے اس میں حدیثیں جمع کرنے والے نے کوئی نقص نہیں دیکھا۔ مگر ہر صحیح حدیث کا مضمون بھی صحیح ہے کہ نہیں یہ فیصلہ تب ہوگا اگر اس کے اندر باقی حدیثوں سے تضاد نہ ہو اور اگر اس کے اندر قرآن کریم سے تضاد نہ ہو اور چونکہ وفاتِ مسیح والی حدیثیں جو مولوی پیش کررہے تھے ، کھینچا تانی کرکے ان کوماننے سے یہ تضادات اُٹھتے تھے۔ اس لیے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام یہ مؤقف لیتے تھے اور مولوی سننے والے لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے جن کو اس بات کی کچھ سمجھ نہ تھی کہ صحیح، صحیح کے لفظ میں فرق ہے۔ ایک صحیح یہ ہے کہ ہر حدیث جو بخاری میں موجود ہے علم روایت کے اعتبار سے اسے صحیح ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ ایک مضمون یہ ہے کہ ہر حدیث جو بخاری میں موجود ہے وہ اپنی ذات میں صحیح مضمون پر مشتمل ہے کہ اس کو من و عن تسلیم کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ مانیںگے توپھرحضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا بھی مانیں گے جن کے متعلق قرآن کریم صدّیقًا نبیًا کا لفظ استعمال فرماتا ہے۔ جن کی صداقت کو مثال کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ تو جب سب سے عظیم الشان سچا اتنا جھوٹا ہو کہ کم از کم بخاری کی حدیث کے مطابق تین جھوٹ اس نے ضرور بولے ہوں تو پھر نظام صداقت تو ایک سیلاب میں بہہ جائے گا۔ اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ یہ علم درایت ہے۔ تو علم روایت کی ایک گواہی ہے جو نبی کی شان اور اس شان کے خلاف جارہی ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے۔ دوسری طرف رسمی پیروی کرنے والے روایت کے رستوں کو بغیر آنکھیں کھولے چمٹ کر آخر تک پہنچنے والے لوگ ہیں ۔ وہ اگراس طرح کریں گے تو سارے نظام اسلام میں جگہ جگہ ایسے رخنے پڑ جائیں گے کہ جن کو پھر کوئی بند کوئی نہیںکرسکتا۔ اس لیے بنیادی اصول یہی ہے روایت اگر صحیح ہے اور جو روایت بیان کی گئی ہے اس کا قرآن سے، رسول اللہ ﷺ کی سنت سے اور دیگر احادیث سے تصادم نہیں ہے تو پھر کسی کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے طو رپر اُس سے نکل کر گریز کرنے کیلئے رستے تلاش کرے۔ ہاں اگر تصادم ہو تو پھر آنحضرت ﷺ کی عصمت کی خاطر جو آپ کو میسر تھی خدا کی طرف سے اس کی عصمت کے دفاع کے طور پر قرآن کریم کے ا س واضح ارشاد کے دفاع کے طور پر کہ نظام کائنات میں جو اللہ نے پیدا فرمایا ہے تضاد نہیں قرآن میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن اورمحمد رسول اللہ میں کوئی تضاد نہیں۔ اس لازمی دائمی قطعی اصول کے دفاع کی خاطر پھر ہمیں درایتاً اس روایت پر ضرور بحث اٹھانی ہوگی کہ چونکہ اس کو ماننے سے یہ رخنہ آتا ہے جو ہم کسی صورت میں بھی قبول نہیں کرسکتے کہ چونکہ راوی درجہ بدرجہ آگے ایسے ملے کہ ان میں کوئی بات، کوئی رخنہ ڈھونڈا نہیں جاسکا، اس لیے مضمون اسلام میں بیشک رخنے ڈال دو۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ پھر علماء یہ کیوں نہیںسوچتے کہ یہاں آج ہم جو باتیں dictateکراتے ہیں ۔ مَیں جو درس دے رہا ہوں کئی دفعہ اچھے بھلے سمجھدا ر ، پڑھے لکھے لوگ میری بات سمجھ نہیں رہے ہوتے پوری طرح حالانکہ میں پورا زور لگاتا ہوں کہ سمجھ آجائے اور خط آتا ہے کہ آپ نے تو یہ کہا تھا ۔میں کہتا ہوںکہ میں نے کب کہا تھایہ۔ دوبارہ سنو میں نے یہ کہا تھا اوریہ لکھنے والا سچا آدمی ہے۔ اب اگر وہ مجھ سے نہ پوچھے آجکل تو زمانہ ہے اس زمانے میں اس کی کہاں طاقت تھی کہ ہر شخص فوراً پوچھ لے ،تووہ روایت بن گئی نا پھر میری کہ میں نے یہ کہا تھا۔ توآگے جاکر پھر دیکھیں کیا قباحتیں پیداہوںگی اس سے۔ اس لیے موجودہ دور کو دیکھو تو بات سمجھ آجائے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعض ارشادات جو اس وقت کے صحابہ نے سنے۔ بعض نے ان کو جب اپنی روایتوں میں بیان کیا تو اس میںدوسرے صحابہ سے فرق نظر آیا اور اس کی وجہ سے بہت خطرہ پیدا ہوگیا کہ مضمون ہی غلط سمجھا جائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کی ایک روایت سیرت المہدی میں حضرت مرزا بشیر احمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درج کی ہے۔ اب قاضی محمد یوسف صاحب کامقام اورمرتبہ اور ماشاء اللہ ان کا علم یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر کوئی بحث کی گنجائش نہیں ہے ، کوئی حرف نہیں رکھا جاسکتا۔ مگر روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام عادتاً ہمیشہ رفع یدین فرمایا کرتے تھے۔ رفع یدین کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت جب اللہ اکبر کہیں گے تو ساتھ اگلی حرکت سے پہلے ہاتھ اٹھالیں گے دوبارہ۔ کھڑے ہوں گے پھر ہاتھ اُٹھالیں گے۔ سجدہ سے اُٹھیں گے تو پھر ہاتھ اٹھالیں گے یا سجدہ نہیں شامل اس میں …وہ بھی شامل ہیں۔ اب حضرت مرزا بشیر احمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے من و عن یہ روایت درج کردی اور یہاںایک سوال کرنے والے نے مجھ سے سوال کیا کہ احمدی تو اپنے مؤقف سے گویا ہٹ گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تویہ کیا کرتے تھے اور اب ہم کوئی بھی نہیں کرتے۔ میں نے ان سے کہا کہ روایت آپ کی درست ہوگی میں ابھی دیکھوں گا لیکن میں یہ آپ کو یقینا بتاتا ہوں کہ اگر قاضی یوسف صاحب کو علم تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے والد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو کیوں علم نہیں اور حضرت اما ںجان رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو کیوں علم نہیں ہوا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیوں علم نہیںہوا۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیوں علم نہیں ہوا۔ ہماری دو پھوبھی جانیں تھیں ان کو کیوں نہیں علم ہوا۔ میں نے کہا میں نے تو آج تک ان میں سے کسی کو رفع یدین کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو نعوذ باللہ وہ پہلی نسل ہی باغی ہوگئی۔ عقل کروکچھ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ لیکن پھر میں نے تحقیق کروائی تو اس روایت کے نیچے لکھا ہوا ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہ میں نے روایت جوسنی تھی وہ بیان کردی ہے مگر میں گواہ ہوں بطوربیٹے کے کہ یہ نہیں وہ کیا کرتے تھے ۔ اب بتائیں یہ تازہ تاریخ کے واقعات ہیں۔ اب روایت کے اعتبار سے دونوں باتیں درست ہیں ۔ روایت کے اعتبار سے وہ قبول ہی نہ کرتے اگر رخنہ ہوتاقاضی صاحب کے بیان پر شک ہوتا تو وہ قبول ہی نہ کرتے۔ کہیں کوئی ابہام کا امکانی پردہ ہے وہ یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ قائل تھے رفع یدین کے تووہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا ہو یا یہ ذکر آیا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسا کہ آپ کی عادت مبارکہ تھی۔ اگر ایک حدیث میں یہ ملے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ بھی ایک بات کی تھی تو تبرکاً اورمحبتاً اسے ایک دفعہ ضرور کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے ایک دفعہ یا کبھی کبھار اس وجہ سے کہ حدیثوں میں تو پختگی کے ساتھ یہ بات ملتی ہے اس لیے مجھے یہ بھی کرلینا چاہیے تاکہ سنت کا کوئی پہلو بھی ایسا نہ ہو خواہ وہ عارضی ہی ہو جس پرمیں نے عمل نہ کیا ہو، آپ نے کرلیا ہو ۔ یہ روایت وہاں کسی نے بیان کی ہو اور آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ بھول گئی ساری بات ۔ کیونکہ یہ ابہام عمر کے لحاظ سے ہوجاتے ہیں اور یہ اپنی طرف سے گویا کہ بیان کردیا کہ ہمیشہ کرتے تھے۔ حالانکہ گھر میں جاکر آپ نے کب دیکھا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز پڑھتے ہوئے اور باہر کی نمازوں میں کرتے تھے توصحابہ گواہ ہوتے ۔ تونہ یہاں گواہی ملتی ہے نہ وہاں گواہی کا ان کو حق پہنچتا ہے اور گواہی دے رہے ہیں ۔ تو ظاہر ہے کہ کسی سے سنی ہے بات جو نہیں سمجھ سکے یا وہ بیان ٹھیک نہیں کرسکا۔ اور وہ پرذہن میں بات بیٹھ گئی ہے ۔ تو آج کی تاریخ جوہماری آنکھوںکے سامنے بن رہی ہے وہاں ہم یہ واقعات دیکھ رہے ہیں، تووہ حدیثیں جو سو سال کے بعد جمع ہوئیں اس کے درمیان چار پانچ راوی ہوئے ہیں ان کے متعلق اگر یہ تویقین ہو کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے تویہ یقین کیسے ہوگیا کہ جو بات سنتے تھے وہ بعینہٖ صحیح سمجھتے تھے اور یادداشت ان کی اتنی پختہ تھی کہ اس میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ اور بیان کرنیوالے نے کس وقت بیان کی۔ آیا اس کے بیان کی طرز غیر واضح تو نہیں تھی۔عمر کے تقاضے سے تلفظ بدل جاتے ہیں، منہ سے بات بعض دفعہ ٹھیک نہیں نکلتی۔ dictationمیںدیتا ہوں جب دوبارہ دیکھتا ہوں تو کئی جگہ ناں کی جگہ ہاں لکھا ہوتا ہے ۔ ہاں کی جگہ ناں لکھا ہوتا ہے۔ جو آمنے سامنے بیٹھ کر لے رہا ہے ڈکٹیشن وہ غلطی کررہا ہے تو غلطی کے امکانات کو تسلیم کرنا ایک دائمی انسانی حقیقت کے طو رپر ہے۔ یہ ہر متقی اورمنصف کیلئے ضروری ہے۔ مگر اس بناء پر حدیثوں کو ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ غلطی کا احتمال ہے۔ اگر ردّ کیا جائے گا تو اس وجہ سے کہ یا غلطی ثابت ہوجائے یا مضمون گواہی دے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا نہیں ہوسکتا۔ تیسری کوئی صورت نہیں۔
پس مضمون کی بحث لازم ہے ہر انسان کیلئے اور اس کو یہ حق ہے قرآن اور حدیث کی رو سے کہ جب معاملات میںسند کی باتیں ہورہی ہوں تو پھر پوری احتیاط کے تقاضے پورے کرے ورنہ ہوسکتا ہے کہ ایسے فتوے دے دے جس کے نتیجہ میں جو شریعت کے اصل منشاء ہیں پورے نہ ہوسکتے ہوں، یہ ہے بحث جو میں نے اٹھائی تھی۔ چونکہ بغیر کسی تبصرہ کے صرف مجھے حوالے پہنچے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء نے ادب کی خاطر احتیاطاً تنقید تومناسب نہیں سمجھی ۔ مگر مجھے حوالے دے دیے کہ کہیں آپ کے ذہن میں یہ نہ ہو کہ حدیث ہی غلط ہے۔ توہم آپ کو بتارہے ہیں کہ یہ تقویت ہے اس حدیث کی بس اور جو مجھے کہنا چاہیے تھا وہ سمجھ گیا ہوں۔ وہ میں نے آگے کہہ دیا ہے آپ کے سامنے۔ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مؤقف تھا کہ اولاد کیلئے ایک اور دو کی نسبت ہے نہ کہ سب کیلئے ۔ چنانچہ اصل حوالہ میرے سامنے ہے۔ یہ اصل میںدرس حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۰؍اپریل ۱۹۱۵ ؁ء سے لیا گیا ہے اور ملک غلام فرید صاحب نے اپنی شارٹ کمنٹری میں، اپنے نوٹ میں یہ حوالہ دیا ہے کہ ۱۹۱۵ ء کے درس میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رائے کا اظہا فرمایا تھا۔ الفاظ یہ ہیں:-
’’اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے حصص بیان فرمائے ہیں اور ہر ایک کے الگ الگ حصے مقرر کردیے ہیں ۔ابتداء میں ایک عام قاعدہ بیان فرمایا کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو لیکن یہ جو حکم ہے یہ فی اولادکم یعنی اولاد کے متعلق ہے۔ بعض لوگوں نے اسی کی بناء پر اس کو عام قاعدہ کے طور پر جاری کیا ہے اسی کی بناء پر تو نہیں کرسکتے۔اولاد کے متعلق کا کہہ کے تو اسی کی بناء پر تو مراد شاید یہ ہوگی پھر درس میں نوٹ جس نے لکھے ہیں اس سے غلطی ہوگئی ہے شاید(دیکھیں صفحہ ۳۳۸)۔ مراد یہ ہے کہ اس آیت کے اس حصے سے متعلق فللذّکر مثل حظ الانثیینکہ ہر لڑکے کیلئے یا مرد کیلئے دو حصے ہوں گے اورعورت کا ایک حصہ ہوگا۔ اس وجہ سے اس کو عام قاعدہ سمجھ لیا گیا ہے یہ فرمارہے ہیں ۔ لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ اس جگہ خدا تعالیٰ نے عورت کا حصہ 1/4مقرر فرمایا ہے اور مرد کا بھی 1/4۔ وہی غلطی 1/6ہے۔ اصل میں مجھے سمجھ آگئی ہے میں 1/4کیوں پڑھ رہا تھا۔آجکل رائج ہوچکا ہے ہم انگریزی ہندسے لکھتے ہیں اور انگریزی ہندسے میں چار اور چھ(6) میں بڑا نمایاں فرق ہے ۔ اردو لکھنے میں اگر شکستہ خط لکھ رہاہو یا تیزی سے لکھ رہا ہو تو بعض دفعہ چھ چار پڑھا جاتا ہے۔ اور چا ر چھ پڑھا جاتا ہے۔ توانہوں نے لکھا تھا 1/4ہی مگر اب میں نے دوبارہ غور کیا ہے تو لگتا ہے 1/6 ،لمبا کرکے 1/6لگ رہا ہے۔ حالانکہ اردو میں ۴/۱ہے)۔فرماتے ہیں کہ اس قاعدہ کو اولاد تک ہی محدود سمجھیں گے۔ دلیل دے کر (ایک کہ) ورنہ حصوں پر اثر یہ پڑے گا اس لیے اس قاعدہ کو اولاد تک ہی محدود سمجھیں گے ۔ میںنے جو زائد صرف بات یہ عرض کی تھی۔ کہ اگر والدین اولاد کے محل میں ہوں اور سارا ورثہ پانے والے ہو ں تو قرآن کریم اس اولاد والے حصہ کو والدین پر بھی اطلاق کرتاہے اور وہ بھی گویا محل اولاد میںہو کر ایک اور دو کی نسبت سے حصہ پائیں گے۔
ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لّم یکن لّھن ولدٌ۔۔۔۔۔
’’ اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ جائیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکہ کا آدھا حصہ تمہارا ہے۔ اور اگر ان کی اولاد موجود ہو تو جو کچھ انہوں نے چھوڑا اس کا چوتھا حصہ تمہارا ہے۔ یہ حصے ان کی وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد بچے ہوئے مال میں سے ہوں گے اور اگر تمہارے ہاں اولاد نہ ہو تو جو کچھ تم چھوڑ جائو اس میںسے چوتھا حصہ ان کا یعنی بیویوں کا ہے اور اگر تمہارے ہاں اولاد ہو تو جو کچھ تم چھوڑ جائو اس میں سے آٹھواں حصہ ان کا ہے (یعنی بیویوں کا)۔ وصیت او رقرض کی ادائیگی کے بعد یہ حصے واقع ہوں گے۔ اور جس مرد یا عورت کا ورثہ تقسیم کیا جاتاہے اور اس کا نہ باپ ہو نہ اولاد اور اس کا کوئی بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہوگا اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب تیسرے حصے میں شریک ہوں گے۔ وصیت اور مرنیوالے کے قرض کی ادائیگی کے بعد بچے ہوئے مال کے لحاظ سے ہوں گے اور ا س تقسیم میں کسی کو ضرر پہنچانا مقصود نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ اللہ کی طرف سے تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور بردبار ہے۔چونکہ وصیت کے مضامین میں الجھائو پایا جاتا ہے اس لیے نہیں کہ قرآن کے اندر وصیت مبہم طو رپر بیان ہوئی ہے ہرگز نہیں ۔ میں تو ا س بات کا قائل ہوںکہ قرآن کریم اپنی ذات میںبھی کافی ہے، اگر اس پر گہرا غور کیا جائے کہ وصیت کے تمام مسائل پر روشنی ڈال دے۔ احادیث کی مدد سے اس کے سمجھنے میںآسانی ملتی ہے ۔ مگر وہ باتیں معلوم نہیں ہوتیں جو قرآن میں ہیںہی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ وحی کے سوا بات ہی نہیں کرتے تھے ۔ اس لیے جب ہم وہ گوشے تلاش کرتے ہیں جن سے مزید وضاحتیں ملتی ہیں تو یہ وہی گوشے ہیں جو حدیث میں ملتے ہیں اور اپنی محنت کی بجائے پکی پکائی روٹی ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں سے مل جاتی ہے۔ اس لیے وہ حدیث کی بات کوئی نئی قرآن سے الگ بات نہیں ہے، یہ میں کہہ رہاہوں لازماً قرآن میں موجود ہے۔ پس اگر موجود ہے اور حدیثوں کے اختلاف کی وجہ سے یہ یقین نہیںرہا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہی کہاتھا ۔تو آج اگرکوئی شخص دعااور تقویٰ کے ساتھ قرآن پر غور کرے تو لازماً وصیت کے سارے پہلو اس پرروشن ہو سکتے ہیں۔ اصول اس میں منضبط ہیں اور واضح ہیں۔ یہ بحث ہے جس کے پیش نظر یہ ساری گفتگو جاری ہے۔لیکن مجھے یاد آیا کہ بیٹی اور پوتی والی بات ابھی میں نے پوری نہیں کی تھی۔ ایک پہلو بھول گیا تھا اس حدیث سے پوتا یا پوتی کے حق میں وصیت کا اصول اس لیے ڈھونڈا نہیں جاسکتا کہ یہ حدیث خاص حالا ت پر اطلاق پارہی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مرجائے جس کی ایک بیٹی ہو تو پھر کیا ہوگا اور ایک پوتی ہو۔ اکثر مرنے والے اس طرح تو مرا نہیں کرتے۔ اکثر مرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دو یاتین بیٹے بیٹیاں موجود ہیں اور پھر ایک مرا ہوا بیٹا بھی ہے جس کی آگے اولاد بھی ہے۔ یہ حدیث اس کو پھر بھی کچھ نہیں پہنچاتی (سمجھے ہیں بات) ۔ یہ حدیث ضرور اس صورت میں پوتے کا حق تسلیم کرے گی اگر یہ پوتی کا حق تسلیم کیا جارہا ہے۔ صرف اس صورت میں کرے گی کہ مرنیوالا صرف بیٹی چھوڑ جائے۔ اگر بیٹا اور بیٹیاں ہوں یا بیٹے اور بیٹی ہو تو پھر کسی صورت میں بھی اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے کسی مرے ہوئے بیٹے کے بچوں کو آگے ورثہ نہیں پہنچایا جاسکتا۔ اس لیے جو حدیث صرف ایک مخصوص صورت میں گفتگو کررہی ہے ا س سے استنباط کہ تمام پوتے اور پوتی لازماً حصہ دار ہوتے ہیں ، کرنا ممکن ہی نہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بددیانتی سے ایسا کرے۔ پس اس حدیث کا دائرہ عمل مخصوص او رمحدود ہے اور اس سے عمومی استنباط پوتے کے حق میں کرنا عقلاً ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ آخری بات میں نے کہنی تھی جو بھول گیا تھا۔ اب میں واپس اس آتا ہوں۔
ولکم نصف ما ترک ازواجکم ۔ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کو تو مخاطب نہیں کیا گیا ۔ جو فوت ہوگیا ہے اس کو تو پتہ ہی نہیں بیچارے کو کہ کیا کرنا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سوسائٹی میں یہ اعلان کیا جارہا ہے تاکہ ہر مرنے والا جانتا ہو کہ اس کے بعد کیا ہونا چاہیے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو اس الٰہی تقسیم کے مخالفانہ بات ہو۔کیونکہ اگر وہ کرے گا تو خدا کے حضور پکڑا جائے گا۔ اور پھر ہوسکتا ہے غلط بات رائج ہوجائے۔ یعنی خدا نے حصہ نہ دیا ہو اور وہ دے دے۔ یہ احتمال موجود رہتا ہے کیونکہ مرنے والا اپنی جائیدا کا خود مالک ہے اس لیے مخاطب کیا جارہا ہے ان کو براہ ِ راست۔ ورنہ مرنے کے بعد تو وہ فیصلہ کر ہی نہیںسکتا۔ ولکم نصف ما ترک ازواجکم۔یہاں تک تو ٹھیک ہے اگر بیوی مرجائے پھر تو مخاطب ہوسکتا ہے کہ اس کا نصف لے لینا۔ لیکن اگر تم مرجائو تو پھر مخاطب کیسے ہوسکتے ہو؟ اس لیے میں کہہ رہاہوں کہ مراد یہاں معاشرہ ہے اور سارے معاشرے کو مخاطب کیا جارہا ہے کہ یہ قوانین ہیں جو لازماً خدا کے احکامات ہیں ان کو تم نے جاری کرنا ہوگا۔ ان کی تم کو حفاظت کرنی ہوگی۔ وہ یہ ہیں کہ اگر بیویاں مرتی ہیں اور ان کی اولاد ہے توپھر اس کے خاوند کو چوتھا حصہ ملے گا اگر بیویاں مریں اور ان دونوں کی کوئی اولاد نہ ہو یا اس بیوی سے کوئی اولاد نہ ہو دوسری بیویاں زیر بحث ہی نہیں ہیں۔ تو اس صورت میں اس بیوی کی جائیداد کا خاوند کو، اولاد ہو تو چوتھا حصہ اور اگر اولاد نہ ہو تو آدھا حصہ …سمجھ گئے ہیں؟ باقی جو آدھابچتاہے اس کے متعلق ڈھونڈنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے اس بیوی کے کن کن رشتہ داروں کیلئے وہ امکانات کھلے چھوڑے ہیں پھر ان کو تقسیم کیا جائے گا۔ یا اس کی وصیت ہے وہ اپنی کل جائیداد کی 1/3کی وصیت کرجاتی ہے تو وہ بھی نکالی جائے گی۔ بہرحال یہاں پہنچ کر یہ بحث پھر اُٹھے گی کہ جس وصیت کا نکالنا ہے اس کا ٹوٹل جائیداد کی تقسیم سے پہلے نکالنا ہے یا آدھا دینے کے بعد نکالنا ہے سمجھے ہیں۔ عموماً فقہاء اس بات پر جہاں تک میری نظر ہے اتفاق کرتے ہیں کہ وصیت والے حصہ پر پہلے عملدرآمد ہوگا اس صورت میں ٹوٹل جو بھی جائیداد بچتی ہے اس میں سے 1/3اگر اس نے وصیت کی ہو تو وہ نکال لیا جائے گا۔ اگر فقہاء کی یہ بات درست ہے تو پھر یہ بات بنتی ہے نا۔ 1/3نکال لیا جائے گا پیچھے جو بچے گا اس کا آدھا خاوند کو جائے گا اور جو پیچھے بچے گا وہ ٹوٹل کا آدھا نہیں رہے گا۔ یہ نقص پیدا ہوجائے گا۔ اس لیے ہمیں لازماً یہ کہنا پڑے گا کہ ٹوٹل میں سے جو آدھا معین کردیا گیا ہے وہ تو خاوند کو ٹوٹل میں سے آدھا ملے گا اور ٹوٹل میں سے ، 1/3بقیہ نصف سے نکالا جائے گا۔ نصف 1/2ہے اور اس کا 1/3اس نصف میں سے نکال کے بیوی کی مرضی سے جس کو دینا ہے دے دیا جائے گا۔ مرنے والی وہ ہے ۔ باقی جو ٹکڑا بچتا ہے وہ اقرباء کے حقوق ، غریبوں کے حقوق، صدقات یا دور نزدیک کے رشتہ دار، قریبی وہ ان کو مل جائیں گے۔ اور اسلام کی جو عمومی تعلیم ہے کہ مرتے وقت باقیوں کا بھی خیال رکھا کرو، وہ اس حصہ سے پوری ہوسکتی ہے اگر بیوی کی بجائے خاوند مرجائے ۔ پھر کیا ہوگا ۔ تو فرمایا ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولدٌ کہ اگر تم مرجائو بیوی کی بجائے، تو جو کچھ تم چھوڑو گے اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو اس کا چوتھا حصہ بیوی کو ملے گا اور اگر تمہاری اولاد ہو تو آٹھواں حصہ بیوی کوملے گا ۔ یہ جو تقسیم ہے خواہ ایک بیوی ہو خواہ زائد ہوں ان سب پر برابر اطلاق پائے گی اور پہلی صورت میں اگر ایک بیوی فوت ہوتی ہے اور ایک سے زائد بیویاں ہیں تو مرنے والی بیوی کا کو ملے گا خاوند اور باقی بیویاں بھی مرجائیں پہلے تو پھر ملے گا ورنہ نہیں ملے گا۔ ورنہ وہ سب حصہ دار ہوں گی اور اگر بیوی پہلے مرجائے خاوند کے مرنے سے پہلے تو پھر اس کوکچھ نہیں مل سکتا۔ وہی دادا پوتے والامسئلہ یہاں بھی اُٹھ کھڑ اہوگا۔ اور فقہاء اس کومانتے ہیں۔ جو بیویاں پہلے فوت ہوجائیں تقسیم کے وقت ان کو back dated حصہ نہیں دیا جاتا۔ اب ہمارے ہاں اسلامی فقہ میںبھی ایک طرف پوتے کی بات تو اٹھادی گئی ہے مگر پھر اس حصہ کو چھیڑا نہیں گیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وقتاً فوقتاً سات بیویاں ہوئیں ٹؤٹل جن میں سے ہر ایک میںسے کوئی نہ کوئی اولاد جاری ہے۔ جب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو صرف دو بیویاں زندہ تھیں اور کسی نے بھی نہ اولاد نے ، نہ کسی عالم نے یہ سوال اُٹھایا کہ اگر بیویاں زندہ ہوتیں تو ان کو ملنا چاہیے تھا۔ اس لیے آٹھواں حصہ جو ہے اس میں سات بیویوں کو برابر شامل کرو اور ان کی وساطت سے ان کی اولاد کو دو اور باقی جو ہے وہ ان دو میں تقسیم کرو۔ اس فیصلے کے خلاف کسی نے چوں تک نہیں کی کہ آٹھواں حصہ دونوں بیویوں میں حضرت سیّدہ مہر آپا (اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے) اور حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ، ام متین صاحبہ۔ ۔ ان کو برابر ، آدھا آدھا مل گیا ۔ تو یہ بھی چونکہ پوتے والی بات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے میں آپ کو سمجھارہا ہوں کہ جہاں ایک جگہ ایک اصول تسلیم کرلیاجائے وہا ںدوسری جگہ نہ کرنے سے رخنے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اسلامی شریعت پر حرف آتا ہے۔ اصول یہی ہے کہ اپنی زندگی میں جو پاگیا،پاگیا مرنے کے بعد پھر back dated میں اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ تو یہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ اور اسی طرح فقہاء اس کو تسلیم کر بیٹھے ہیں اس سے جو تضاد پیدا کریں گے یہ ان کا قصور ہوگا۔
ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولدٌ فان کان لکم ولدٌ فلھن الثمن۔ ہاںتم اگر مرجائو اور ان کان لکم ولدٌ فلھن الثمن، اگرتمہارے بچے ہوں یہاں بیوی کے بچے نہیں فرمایا چونکہ باپ کی جائیداد ضروری نہیں کہ اسی بیوی کے بچوں میں تقسیم ہو۔ دوسری بیویاں بھی تو ہوسکتی ہیں اس لیے بڑا ہی محتاط کلام ہے۔ فرمایااگر تمہارے بچے ہوں تو بیو ی کو پھر آٹھواں حصہ ملے گا۔ اس کو چوتھاپھر حصہ نہیں ملے گا۔ اور یہی مسلمہ اصول ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ اسی کے مطابق جماعت احمدیہ میں تقسیم جائیدا د ہوتی ہے ۔مگر من بعد وصیۃ توصون بہا اودین یہ حصہ وصیت کے بعدنکالا جائے گا۔ جو تم وصیت کرتے ہو اور جو دین تواس کامطلب ہے کہ دونوں بیک وقت چلیں گے۔ کل ٹوٹل سے وصیت نکالی جائے گی۔ کل ٹوٹل سے یہ حصے نکالے جائیں گے تب جاکر بات پوری ہوگی۔ (سمجھ گئے ہیںوان کان رجل یورث کلالۃ ۔ آپ گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہے ہیں۔ سوالات ہیں کچھ۔ ۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔ ۔۔آپ کا یہ جو چھوٹا ہے وہ کافی خطرناک ہوا کرتا ہے…لمبا بھی بن جاتا ہے۔ ابھی ٹھہر جائیں یہ بات میں ختم کر لوں ایک دفعہ اس کی تفسیر میں جانے سے پہلے پہلے میں اس مضمون کو یہاں ختم کردوں گا۔ اس آیت کے چند حصے رہ گئے ہیں باقی ٹھیک ہے۔ پھر چھوٹے سوال لیں گے۔قل منہ و کثر خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں)۔
وان کان رجلٌ یورث کلالۃ اگر کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی جائیداد تقسیم ہورہی ہو اور وہ کلالہ ہو۔ ایک یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اورامام رازیؒ نے ایک اور ترجمہ کبھی عربی کے لحاظ سے امکاناً پیش کیا ہے اس کی تائید میںایک حدیث بھی پیش کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی حالت میں مرے کہ اس کا وارث کلالہ ہو ۔ وارث کلالہ ہو گا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کلالہ نہیں ہے بلکہ وارث موجود ہے اور وارث آگے کلالہ ہے۔ یہ اگر ترجمہ کیا جائے تو اس سے پھر بہت زیادہ الجھنیں پیدا ہوجائیں گی ۔اس لیے میر ے نزدیک جو مسلمہ ترجمہ ہے صاف، جو اس آیت کے منطوق میں بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے اسی پر حصر کرنا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا مرے(یورثُ) جس کی جائیداد تقسیم ہوتی ہو(وھوکلالۃ) اور مرنیوالا کلالہ ہو ۔ تو پھر اولادنہیں ہے اورماں باپ نہیں ہیں۔ یہ بحث کہ کلالہ کون ہے؟ اس میں فقہاء نے مختلف تفصیلی بحثیں اُٹھائی ہیں جوکل شایدبیان ہوں۔ مگر اس وقت میں آپ کو بتاتا ہوںکہ یہ بات حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مسلم ہے۔ بعض اورآئمہ پہلے بھی قطعاً تسلیم کرچکے ہیں ،میں بھی یہی ترجمہ تسلیم کرتا ہوں۔کہ کلالہ سے مراد یہ ہے کہ جس کے نہ اوپر کا اصل وارث نہ نیچے کا اصل وارث۔ اوپر کا اصل وارث ماں باپ اور نیچے کا اصل وارث اولاد۔ جس کے یہ دونوں نہ ہوں، پھر جائیدا د کیسے تقسیم ہوگی۔ یہ بحث ہے جو اب قرآن کریم نے اٹھائی ہے اور اس بحث کو دو جگہ اٹھایا ہے، ایک یہاں اور ایک ، سورۃکے آخر پر۔ اوروہاں جب پہنچیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ ان دونوں میں تقسیم میں فرق ہے۔اس لیے یہ بحث بھی اُٹھے گی کہ یہ تقسیم میں فرق کیوں ہے۔ کلالہ صرف یہ مراد نہیں کہ جس کے ماں باپ یا بیٹے نہ ہو ں بلکہ اس کے جو ہیں وہ کون کون ہیں؟وہ اگر صلبی رشتے سے بنتے ہیں کچھ تو ان کے حقوق زیادہ ہوں گے اگر وہ نہ ہوں توپھر ان سے پیچھے جو رشتہ دار بنتے ہیں ان کے حقوق اس سے آدھے ہوجائیں گے ، جو قریب تر ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم نے کلالہ کی تقسیم کے دو اصول پیش کیے ہیں۔ ایک یہاں اور ایک اس کلالہ کے جس کے قریب کے رشتے بھی موجود نہیں ہیں۔نہ ماں باپ ، نہ اولاد اور نہ کوئی قریبی تو پھر دور والوں میںکس طرح تقسیم ہوگی وہاںاس کا ذکر ہے۔ یہ انشاء اللہ باقی پھر کل بعد میں کریں گے۔
(پھر ٹھیک ہے اب سوال… آپ کے پاس تو نہیں کوئی سوال۔ انور صاحب تشریف لائیں سوال کے لئے) ۔ انور صاحب بھی ہمارے ماشاء اللہ پروفیشنل ہیں۔ بڑی نسل میں جیسے بعض بزرگ ہیں یہ چھوٹی نسل میں آہستہ آہستہ مقام پیدا کررہے ہیں۔ فرمائیے…
انور صاحب:- ایک شخص اپنی زندگی میں اپنی کل جائیدا کا حصہ اپنی وصیت ادا کرچکا ہو ایک بات کیا وہ شخص اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں اسلامی شریعت کی شرح جو مقرر ہے ،اگر کسی بچے کو بیٹے کو یا بیٹی کو اس شرح سے زیادہ دینا چاہے تو کیا حضور اس میں شریعت کاسے کوئی اختلاف ہوتا ہے اس چیز کا۔
حضور انور ایدہ اللہ:- وصیت ادا کرچکا پوری ہو تو جو باقی بچتا ہے اس سے وہ اپنی اولاد میں تفریق کرنا چاہے یہ بحث جو ہے، یہ میںبار بارپہلے ذکر کرچکا ہوں کہ یہ محل نظر بات ہے بعض علماء کے نزدیک وہ وارث میں تفریق نہیں کرسکتا۔ جبکہ غیر وارث کو دے سکتا ہے۔ اور غیر وارث کو بھی 1/3 کی حد تک، اس سے زیادہ نہیں۔ اگر اس کے چار بچے ہیں۔ بیٹا بیٹی جو بھی ہوں۔ ان میں سے کسی ایک کو نہ زائددے سکتا ہے نہ کسی ایک کو اس کے حق سے کلیۃً محروم کرسکتاہے یہ خیال ہے۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ جو حق ہے یہ بحث ،یہ وصیت کے معاملہ میں ہے زندگی میںتقسیم کے معاملہ میں نہیں، زندگی میں اگر کوئی شخص دے دے تو اس پر یہ حرف نہیںاٹھایا جاسکتا کہ تم نے فلاں کو زیادہ دے دیا ہے ۔ یہ جو بحث ہے یہ چونکہ بہت الجھی ہوئی ہے اس لیے معین طور پر حتمی طور پر ہر کیس کے معاملہ میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیا جاسکتا جو حاوی ہو۔مثلاً ایک شخص ہے جس کا ایک بچہ پید اہو اہے جو بڑا ہوچکا ہے، 30-25سال کا ہو چکا ہے، اس پر اس نے زندگی بھر خرچ کیا ہے، اس کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے، مہنگی سے مہنگی تعلیم دلوائی ، اچھی سے اچھی دیں۔ اس کی شادی پر بھی خرچ کیے اور بعد میں چھوٹا بچہ پیدا ہوا ہے اور اس کے اوپر نہ وقت تھا، نہ توفیق تھی اور ہوسکتا ہے کہ حالات بھی کچھ بدل چکے ہوں تو کیا یہ سوال اٹھے گا کہ مرنے کے بعد جو اس نے پہلے بچے کو دے دیا تھا وہ اسکی جائیدا د میں سے منہا کیا جائے ۔ کیونکہ ایک انسان اپنی اولاد میں برابر تقسیم کاذمہ دار ہے۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے تو پھر باپ کا یہ حق بھی نہیں ہے کہ کسی نافرمان اولاد کو وقتی طور پر خرچ دینا بند کردے۔ اگر وہ خرچ دینا بند کرتا ہے اور وہی اس کی جائیداد ہو جو آمدن ہے اس کی ہو تو عملاً گویا اس نے تفریق کردی۔ تو یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جس کو آپ ایک چھوٹا سا سوال کہہ رہے ہیں۔ اس میں بہت سے شاخسانے ہیں۔ بہت سی شاخیں ہیں ، بہت سے گوشے ہیں جہاں فتوے جگہ جگہ کے لحاظ سے بدل سکتے ہیں۔ بالعموم یہ بات تومسلّم ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں اپنے مال کو تقسیم کرسکتا ہے لیکن اگر وہ تقسیم بدنیتی سے کرے اور شریعت اسلامی کے قوانین کو بدل دے یا ان کو توڑنے کی نیت سے بعضوں کو کچھ دے اور بعضوں کو نہ دے تو اس کی بھی دو قسمیں ہوں گی۔ ایک یہ قسم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خرچ کرتا ہے مگر جائیداد کوتقسیم نہیں کرتا ناجائز۔ یہ صورت جو ہے اس میں امکانات ہیں کہ اس پر کوئی حرف نہ آئے اور اس کو پکڑا نہ جائے۔ کیونکہ ہمیں پتا نہیں کہ عام روز مرہ کے اپنے حقوق کو استعمال کررہا ہے یا اس کی نیت میں فرق ہے۔ لیکن جہاں جائیداد وہ تقسیم کردیتا ہے وہاں یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوگا اور کئی لوگوں نے اٹھایا ہے اور اس ضمن میں ابھی بہت سے ابہام ہیں، میرے نزدیک مزید جستجو کی ضرورت ہے۔ تیسری صورت ہے وصیت میں وہ فرق کردے۔ اگر وصیت میں ایسے بچوں کے متعلق وہ فرق کرتا ہے جو قرآنی لحاظ سے حقدار ہیں تو کیا اس کی یہ وصیت لاگو ہوجائے گی یا نہیںہوگی۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے یہ میں نے ابھی چھیڑا نہیں۔ یہ پھر اٹھے گا کیونکہ اس صورت میں اگر لاگو ہوجائے گی تو پھر فرق ہی کوئی نہیں پڑتا۔ کوئی شخص جو مرضی وصیت کردے اس کے مرنے کے بعد پھر وہ از خود بحال ہوجائے گی اصلی۔ بعض علماء کایہ مسلک ہے ۔ بعض کہتے ہیں گناہگار توہوگا، یعنی یہ کہا جاسکتا ہے۔ میں معین طو رپر تو نہیں جانتا کہ کسی نے کہا ہے مگر دوسری طرف سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے نزدیک تو گناہگار ہوگا۔ لیکن چونکہ وہ اپنی زندگی میں وصیت کرچکا ہے اور جب وصیت کی تھی تو اپنے مال پر تصرف کا حق رکھتا تھا۔ اس لیے ایک گناہگار کی غلط وصیت ہے عمل ہوگا لیکن وہ سزا کمائے گا۔ ایک یہ بھی ہوسکتا ہے۔ تو یہ دونوں میںسے کون ساطریق رائج ہونا چاہیے یہ بحث ابھی کھلی ہے۔ بعض لوگ اپنی اولادمیں سے کسی ایک سے راضی ہوتے ہیں باقیوں سے ناراض ہوجاتے ہیں، وہ باقیوں کو محروم کردیتے ہیں اب ۔ تو دیکھنا یہ بھی تو پڑے گا کہ کیاشرعی طور پر اس کے پاس کوئی جواز تھا کہ ناراضگی کی بنااس قسم کی تھی کہ وہ ان کو واقعۃً محروم کرسکتا تھا۔ اگر اطاعت ماں باپ کی فرض ہے ۔ اگرماں باپ کے ساتھ احسان کا سلوک فرض ہے اور کوئی اولاد نہیں کرتی تو یہ بحث اٹھے گی کہ کیا زندگی میں اگر وہ محروم کرسکتا ہے تو مرنے کے بعد بھی کرسکتا ہے کہ نہیں۔ تو یہ پیچیدہ معاملات ہیں۔ ان میں دو ٹوک جواب یہاں اس وقت نہیں دیا جاسکتا۔ میرے نزدیک تو ابھی ہمارے اہل علم کو ان سوالات پر مزید تحقیق کرنی چاہیے اور تمام بنیادی حوالوں کو پیش نظر رکھ کر پھر مجلس افتاء کی معرفت اگرمیرے پاس سوال آئے گا تو پھر میں جواب دوں گا۔ انشاء اللہ۔ جزاک اللہ ۔جزاک اللہ
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم رشیدصاحب کو دیکھ کر فرمایا:-
’’اچھا رشید صاحب بھی دوبارہ ماشاء اللہ valid currencyبن گئے ہیں۔ آپ کہاں غائب رہے ہیں اتنی دیرچوہدری رشید صاحب، کبھی بولے نہیں۔ دیگرمجالس میں سوال و جواب میں ادھر اُدھر پہلے تو کوئی مجلس گزرتی نہیں تھی جس میں آپ نے حصہ نہ لیا ہو۔ اب طبیعت خاموش ہوگئی ہے۔
رشید صاحب:۔ حضور انٹر نیشنل مجلس ہوگئی ہے اس لیے دوسروں کو موقع دیا ہے۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ:- یہ درس انٹر نیشنل نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔ (بالکل ہے) چلے گا۔‘‘
دوسرے سائل نے یہ سوال کیا:-
سائل:- پچھلے ہفتہ کے درسوں کے دوران تین چھوٹے چھوٹے سوال میرے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر حضور ان کا جواب ارشاد فرمائیں (حضور ،ہاں فرمائیے) پہلاسوال ورثہ کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ اگر اسلامی شریعت ملکی قوانین کے متصادم ہوجائے تو اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
اسلامی شریعت تو متصادم نہیں ہوگی ۔ ملکی قانون متصادم ہوجائے گا۔ اس لیے یہ کہیں کہ اگر ملکی قانون متصادم ہوجائے۔ اس کا جواب تو میں پہلے بھی دے چکا ہوں۔ غالباً آپ اس درس میں نہیں تھے۔ میں نے کہا تھا کہ اگر کہیںملکی قانون متصادم ہوجائے تو ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ زبردستی اسلامی شریعت کو نافذ کرسکیں۔ مگر ہر وہ شخص جو ملکی قانون کا بہانہ رکھ کر اس حصے کو قبول کرلے گا جو ملک کا قانون اسے دلوارہا ہے مگر اسلام نہیں دلواتا وہ گنہگارہوگا، وہ غاصب ہوگا اور اس پر یہی حکم یوم قیامت کو لگے گا کہ اس نے ملکی قانون کا عذر رکھ کر وہ مال لے لیا جو خدا نے اس کو نہیں دلوایا تھا۔
سائل:- یہاں کے ملکی قانون کے مطابق wife کوhusbandجو بھی ہوتا ہے اس کا آدھا میں سے آدھا دے دیتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ:- میں یہی توعرض کر رہا ہوں او رکیا کہہ رہا ہوں؟ یہی میرے پیش نظر ہے۔ ملکی قانون آدھا دے دیتا ہے اور شریعت کا قانون کہتا ہے کہ اولاد کیلئے اتنا رکھو اور فلاں کیلئے اتنا رکھو اور اگر اولاد ہو تو بیوی کو آدھا نہیں بلکہ آٹھواں حصہ ملے گا۔ تو بیوی جو آدھا قبول کرلیتی ہے وہ ناجائز حرکت کرتی ہے اسے قانوناً ہم روک نہیں سکتے۔ مگر اس کا فرض ہے کہ جب قانون اس کو اختیار دیتا ہے اپنی مرضی سے اپنی جائیداد جس کو چاہے دے دے اس کا فرض ہے کہ وارث ہوتے ہی اس جائیداد کو جو اس کو اپنے حصہ سے زیادہ قانون نے دلوائی ہے اسلامی قانون کے تابع سب میں تقسیم کردے۔
سائل:- دوسرا سوال ۔ حضور نے ذکر کیا تھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش اور حضرت اسحق علیہ السلام کی پیدائش کے وقت جب خداتعالیٰ کے Messengers پیغمبر جو ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے تو حضور نے کہا تھا کہ یہ دو مختلف واقعات تھے۔ ہوسکتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ:- تین آیتیں پیش کی تھی جن میں مَیں نے کہا تھا میرا رحجان یہ ہے میں مزید تحقیق کروں گا۔ پہلی آیت جو ہے وہ حضرت اسحق علیہ السلام کی ولادت کے متعلق نہیں تھی بلکہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کے متعلق تھی۔
سائل:- پیغمبر جو تھے وہ دونوں دفعہ ہی حضرت لوط کے پاس جارہے تھے
حضرت صاحب :ـ-اس میںحضرت لوط کا ذکر نہیں ہے
سائل:- یہی میں نے پتہ کرنا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ:- میں نے وہاں بتایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ (نکالیں وہ آیت؟) وہاں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر نہیں اگر ہوتا تو میں یہ کہتا ہی نہ کہ یہ امکان ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ دیکھنے کے بعد کی بات تھی مگر (میں) احتیاطاً سکتا ہے سہو ہوگئی ہو میں چیک کرلیتا ہوں ہے ذکر پہلی آیت میں بھی؟ دو آیتوں میں تو حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر واضح ہے وہ تیسرا (وہی تو کہہ رہا ہوں)ہاںنکالیں۔’’اذدخلوا علیہ فقالوا سلامًا۔ قال انا منکم وجلون‘‘ یہ وہی آیت ہے جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ یہ میرے نزدیک یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام والی خوشخبری پر اطلاق پاتی ہے۔ ’’قالوا لا توجل انا نبشّرک بغلامٍ علیم‘‘بالکل ڈرو نہیںہم تمہیں ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ’’قال ابشرتمونی علی ان مسنی الکبر فبما تبشّرون‘‘ انہوں نے کہا کیا تم مجھے خوشخبری دیتے ہو۔ باوجوداس کے کہ بڑھاپے سے مجھے بڑھاپے نے ڈھانپ لیا ہے۔ میں بڑھاپے سے مغلوب ہوگیا ہوں۔ ’’قالوا بشرنک بالحق فلا تکن من القانطین‘‘ انہوں نے کہا ہم تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دے رہے ہیں تو مایوسوںمیں سے نہ ہو۔’’قال ومن یقنط من رحمۃ ربہ‘‘ وہ کون ہوسکتا ہے جو اپنے ربّ کی رحمت سے مایوس ہو۔ سوائے اس کے کہ وہ گمراہ ہو۔ قال فما خطبکم ایھا المرسلون۔ انہوں نے کہا اے مرسلون! اے بھیجے ہوئو۔ تمہارا آخری مقصد کیا ہے۔ یہاں آگیا ذکر، لوط کا۔۔۔۔۔۔ آپ توکہتے تھے نہیں ہے۔۔۔۔؟ وہاں دیکھیں۔۔۔۔۔۔؟ یہاں تو آگیا ہے۔۔۔ چونکہ وہاں میںنے پڑھ کر میں نے ختم کردیا تھا اس لیے ذہن میں تھا کہ لوط (کا ذکر۔ناقل) نہیں۔ قومٍ مجرمین تھا۔ ۔۔ قوم مجرمین کے بعد لوط کا ذکر آگیا ہے۔ اچھا کیا! آپ نے جو سوال کردیا۔ ورنہ یہ غلطی رہ جاتی۔ قالوا انا ارسلنا الیٰ قومٍ مجرمین۔ الا ال لوطٍ انا لمنجُّوھم اجمعین۔ الا امراتہ قدرنا انھا لمن الغابرین۔ فلما جاء ال لوط المرسلون۔ اب بات یہ اُٹھتی ہے کہ یہ آل لوط کی طرف اگر وہی فرشتے پہلی دفعہ بھی آل لوط کی طرف آئے تو دوسری دفعہ بھی آل لوط کی طرف آئے تھے۔ تو پھر آل لوط کا سوال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اگلی دفعہ بھی اٹھایا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔ سمجھے ہیں؟۔۔۔۔ دیکھیں۔۔۔۔؟حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اٹھایا ہے؟۔۔۔(قال فما خطبکم ایھاالمرسلون ۔ قالو انا ارسلنا الی ال لوط۔۔۔۔۔غالباً پرائیویٹ سیکریٹری صاحب) یہ تو یہاں ہیں ناں۔۔۔ بہرحال یہی الفاظ ہیں۔۔۔ اچھا آگے۔۔۔
یہ اس کی تفصیل ہے اب یہ آپ نے جوسوال اٹھایا ہے بڑا معقول اور جائز سوال ہے۔ میں نے کیوں حضرت اسماعیل علیہ السلام پر اس کو اطلاق کرنے کا امکان بیان کیا تھا۔ قطعیت سے تو نہیں کیا تھا۔ امکان پیش کیا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کسی بیوی کا ذکر نہیں۔ خوشخبری براہِ راست حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی جارہی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں ۔ دوسری دو آیات میںحضرت سائرہ آتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ میں تو بوڑھی ہوگئی ہوں اور خوشخبری ان کو دی جارہی ہے۔ تو میں نے یہ کہا تھا کہ Scenario۔ یہ سارا جو منظر ہے یہ ظاہر کررہا ہے کہ پہلی خوشخبری اور ہے اور باقی دو اور ہیں باقی دو خوشخبریوں میں جس بیوی سے بچہ پیدا ہونا تھا وہاں بیوی احتجاج کرتی ہے کہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں ۔ اس خوشخبری میں بیوی احتجاج کوئی نہیں کررہی اور وہاں ابراہیم علیہ السلام نہیں کررہے۔ یہاں ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں فرشتوں سے کہ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں اور وہ کہتے ہیں نہیں۔ اسی طرح ہے۔ کیا دوسری دفعہ وہ دو واقعات اسی طرح دوبارہ دہرائے گئے تھے اور اس دفعہ بیچ میں بیوی آگئی تھی اور بیوی کو کہا گیا کہ تم ہو اور اس نے عذر پیش کیا کہ میں تو بوڑھی ہوچکی ہوں۔ یہ جو ساری تفصیل ہے یہ بتارہی ہے کہ دراصل (یعنی) میرے نزدیک یہاں ابراہیم علیہ السلام کا بیٹا ہے جو سارہ کا بیٹا نہیں ہے۔ اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا عذر پیش کیا ہے اور بیوی جوان تھی وہ اس لیے وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتی تھی کہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں ۔ جس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پید اہوئے وہ نسبتاً چھوٹی عمر کی تھیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اصل وہ مالکہ گھر کی توحضرت سارہ تھی ان کے ہوتے ہوئے ان کی (ہاجرہ۔ ناقل) ویسے بھی جرأت نہیں ہونی تھی کہ وہ آکر کہیں کہ اچھا میرے بطن سے ہونا ہے تو وہاں مبہم رکھا گیا ہے۔ کھلامضمون ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری ہے ایک بیٹے کی، وہاں دوسری بیوی کا ذکر ہی کوئی نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام اپنا عذر پیش کرتے ہیں اس دائرے میں تومجھے اس میں کوئی الجھن دکھائی نہیں دیتی کہ اس واقعہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام پر چسپاں کیا جائے اور بعد کے دو واقعات کو حضرت اسحق علیہ السلام پر چسپاں کیا جائے ۔ اس بات کاجواب میں پہلے دے چکا ہوں کہ ایک ہی قسم کی خوشخبری دو تین طریق پر انبیاء کو یا دوسروں کو دی جاتی ہے کہ میں نے کہا حضرت مریم کا معاملہ دیکھ لو وہاں خداتعالیٰ خود فرمارہا ہے ۔ کبھی رویا میں یہ خوشخبری ہوئی کبھی (فرشتہ نے ۔ ناقل) متمثل ہوکر اس نے یہ خوشخبری دی۔ اور ایک ہی خوشخبری باربار آتی ہے اور مختلف رنگ میں آتی ہے۔
سائل:- حضور مجھے تو اس کی بالکل سمجھ آگئی ہے۔
حضور:- نہیں ایک منٹ اب صرف یہ بحث اٹھتی ہے کہ لوط علیہ السلام کے بارے میں کیا وہ یہاںسے سیدھا جاکر لوط کی قوم کو ہلاک کرچکے تھے یا نہیں کرچکے تھے۔اب یہ سوال جو ہے وہ تینوں آیات کی دفعہ اٹھتا ہے۔ سمجھے ہیں نا؟ اس لیے ایک اور scenarioبن رہا ہے۔ میں اس کی طرف بتانا چاہتا ہوں۔ آپ کوسوال کی ضرورت نہیں وہ یہ ہے کہ اگر ان دو واقعات کو بھی ایک ہی واقعہ سمجھا جائے اور اس واقعہ کو بھی وہی ایک واقعہ سمجھا جائے تو پھر تین واقعات نہیں بلکہ ایک واقعہ ہے جس کا بیان مختلف ہے۔ یہ شکل بنے گی۔ سمجھے ہیں؟ مگر اس آیت کا ان دو آیات سے بیان کا اختلاف اتنا واضح اور نمایاں ہے کہ یہ بظاہر دل یہ نہیں مانتا کہ یہ دونوں ایک ہی واقعہ کے دو بیانات ہیں۔ سمجھے ہیںنا!۔ یہ ایک آیت پھر بھی ان دو آیات کے مزاج …… سے الگ ہے اس لیے یہ سوال تو ہوسکتا ہے کہ وہ دو واقعات نہ ہوں ایک ہی واقعہ ہواورجس میں حضرت سائرہ کو خوشخبری دی گئی ہو او ران کی طرز عمل، جواب دینا اور دوسری باتیں، وہ اس فرق کو الگ الگ کردیتی ہیں۔ یعنی وہ ایک ہی واقعہ کی دو توجیہات ، دو طرز بیان کی صورت میں قبول کرنی پڑیں گی۔ اگر یہ واقعہ الگ ہے جیسا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ احتمال یا امکان ہے تو پھر لوط علیہ السلام والی بات اس میں بھی کیوں آگئی کیا اس کے بعد انہوں نے لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک نہیں کردیا تھا۔ یا ہلاکت کی خوشخبری نہیں پہنچائی تھی کہ دوسری دفعہ پھر جب آتے ہیں پھر وہی لوط علیہ السلام والی بات چھڑ جاتی ہے۔ تواس کا یہ صرف ایک امکان ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ قرین قیاس ہے خواہ نسبتاً دور کا ہو۔ وہ یہ ہے ۔۔ کہ بلکہ میں سمجھتا ہوں دُور کابھی نہیں ، جو ہلاکت کی پیشگوئیاں ہوتی ہیں وہ آناً فاناً فورًا پوری نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ وقت لیتی ہیں۔ حالات تیار ہورہے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایک پیشگوئی ہلاکت کی ہوئی ہے وہ دس سال کے بعد ، ۲۰ سا ل کے بعد پوری ہوجاتی ہے۔ آناًفاناً اسی وقت تو نہیں ہوجایا کرتی ۔ اس لیے یہ بعید نہیں ہے یعنی بعیدازعقل نہیں کہناچاہیے اس کو کہ پہلی دفعہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوشخبری لے کر آئے ہیں توابراہیم علیہ السلام ہی مخاطب ہیں کوئی بیوی دوسری بیچ میں آتی نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام اپنے متعلق بڑھاپے کی بات کرتے ہیں ، دوسری دو دفعہ نہیں کرتے۔ تو پتا چلا یہ بات پہلے گزرچکی اور ختم ہوچکی اس وقت لوط علیہ السلام کی طرف جانا ان کا ۔ وہ ہوگیا ہوگا۔ پیغام دیا ہوگا مگر ابھی واقعہ نہیں ہوا۔ یا فوراً نہیں گئے۔ یہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ انہوں نے کہا ہم جو فرشتے نازل ہورہے ہیں اس علاقے میں ایک قوم کی تباہی کے دن قریب آگئے ہیں ان کے متعلق متنبہ کرنا ہمارا فرض ہے۔
ارسلنا الی قومٍ لوط میں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تنبیہ کی گئی ہے اس سے پہلے مجرمین کا لفظ بھی آتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ مضمون ابراہیم علیہ السلام کی مجرم قوم پر بھی اطلاق پائے گا۔ لوط علیہ السلام کی مجرم قوم پر بھی اطلاق پائے گا اس وسیع معنوں میں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دفعہ لوط علیہ السلام کی قوم کا ذکر تو کیا ہو مگر وہ زائد ذکر کیا ہوقوم مجرمین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی ہی قوم کی ہلاکت کی بھی خبر ہے اور لوط علیہ السلام کی بھی ہے ایک حصہ پورا ہوگیا ہے۔ دوبارہ پھر آتے ہیں تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پوچھتے ہیں اب پھر کیا ارادہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دو بشارتیں تو پکی ہیں۔ وہ نکالیں الفاظ۔۔۔۔۔ اس وقت یہ بحث نہیں ہورہی کہ دو بشارتیں نہیںہیں بحث یہ ہورہی ہے کہ یہ جو فرشتوں کانزول ہے یہ الگ الگ بشارتوں کے متعلق ہے یا ایک ہی بشارت کی طرز بیان میں فرق ہے۔ یہ بحث ہے۔ ذاریات میں ہے صافات میں؟۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔؟ اچھا۔۔۔۔۔۔فبشرناہ بغلام حلیم۔۔۔۔۔۔۔۔ فلما بلغ معہ السعی یہ تو ہوگیا۔۔۔۔فبشرناہ باسحق جو ہے یہ تو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف براہ راست منسوب فرمایا ہے۔ بشارتیں تو مسلّم ہیں کہ دی گئی ہیں یہ بحث ہورہی ہے کہ وہ جو پہلا واقعہ ہے ۔۔۔۔ جس کو میں پہلا واقعہ امکاناً قرار دے رہا ہوں اس واقعہ میں اور دوسرے دو واقعات میں کیا فرق ہے؟ یہ توہوسکتا ہے کہ بشارتیں دوالگ الگ ہوں، جو یہاں ذکر ہے، اسی طرح ہوئی ہوں۔ اس کو تو root outنہیں کیا جاسکتا۔ صرف الجھن یہ پیدا ہورہی ہے کہ پہلے واقعہ میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف ان کے جانے کا ذکر ہے۔ دوسرے دو واقعات میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف جانے کا ذکر ہے اگر یہ دو الگ الگ واقعات تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر دوسری دفعہ یہ کیوں سوال کیا، جواب تو مل ہی چکا تھا۔ پہلی دفعہ آپ کو خوشخبری دی گئی۔ دوسری دفعہ آئے تو پھر بیگم کو خوشخبری ملی پہلے بھی پوچھا تھا۔۔۔ ماخطبکماگر وہ بتاچکے تھے تو دوبارہ کیوں پوچھا۔ ماخطبکم؟ یہ ایک الجھن سی پیدا ہوتی ہے۔ اور ان دو واقعات کے درمیان لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیاکیوں نہیں۔ یہ میں جواب دینے کی کھڑکیاں کھول رہا ہوں۔ یہ باتیںامکانات ہیں جونکلتے ہیں وہ یہ ہیں۔ بعض اوقات فوری نہیں بلکہ اکثر ہوتا ہے۔۔ پیشگوئی ہوئی۔۔۔ یہ تونہیں کہ ادھر پیشگوئی ہوئی اور ادھر قوم مٹ گئی۔ وقت لگتے ہیں بعض دفعہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ۲۰،۲۰۔ ۳۰،۳۰ سال تو پہلی دفعہ جب فرشتے آئے ہیں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا بھی ہوگئے اوراس کے بعد بڑے بھی ہوگئے۔ دوسری دفعہ خوشخبری تو لازماً حضرت اسحق علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ہے۔ پھر ٹھیک ہے! اس وقت وہ بوڑھی ہوچکی تھی اورکہتی تھی اب مجھے کیا خوشخبری دے رہے ہو۔ اگر اس کو اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کی خوشخبری مانا جائے تو پھر یہ تضاد پیدا ہوجائے گا ۔ اس لیے میرا رحجان ابھی بھی یہی ہے کہ پہلی جو خوشخبری تھی جو وَجَلُونَ والی آیت کی وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق تھی ورنہ یہ عجیب بنے گا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور خدا نے اسحق علیہ السلام کی خوشخبری دے دی۔ اور اسماعیل علیہ السلام جن کے بطن سے سیّد وُلدِ آدم نے پیدا ہونا ہے جس کے بطن سے ساری کائنات کا نور ملنا تھا اس کے جد امجد کی کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ اور جبکہ دوسری جگہ قرآن جیساکہ آپ نے دکھائی ہے جگہ سورۃ صافات میں، دو الگ الگ خوشخبریوں کا ذکر کرتاہے۔ تو یہ عقل میں آنے والی بات نہیں کہ اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پیشگوئی اسحق علیہ السلام کے متعلق ہوجائے ۔ سمجھے ہیں۔ اس لیے اسحق علیہ السلام والا واقعہ وہی ہے جس میں حضرت سارہ آرہی ہیں بار بار۔ اور اس سے پہلے کوئی پیشگوئی ضرور ہوئی ہوگی جو پوری ہوچکی ہے۔ یعنی اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوچکا ہے۔ بعد میں حضرت سارہ کی باری آتی ہے۔ اور تب وہ کہتی ہیں اتنی دیر میں، تو اب میں بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اب میںکیا کرسکتی ہوں۔ تو خدا فرماتا ہے نہیں اسی طرح ہوگا۔ یہ بحث ہے۔۔۔ جو سوال تھا وہ جائز تھا۔۔۔ جگہ حضرت لوط علیہ السلام کا کہ پھر تینوں جگہ ذکر کیوں ملتا ہے۔آپ کے دو سوال ہوگئے۔ تیسرا اگلی اتوار اور چوہدری عبدالرشید صاحب کی باری اس کے بعد۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ جزاکم اللہ۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ)
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ22؍رمضان بمطابق12؍ فروری 1996ء
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی : ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (النسائ:۱۳)
ترجمہ اس کاشاید پہلے بھی پڑھ چکا ہوں پھر دوبارہ آج دہراتا ہوں۔ تمہارے لیے جو کچھ تمہارے ازواج چھوڑیں ان کا نصف ہے یہاں ازواج سے مراد بیویاں ہیں۔ ان لم یکن لھن ولد کیونکہ آگے فرمایا اگر ان بیویوں کا آگے بچہ کوئی نہ ہو ولد سے مراد لڑکا ویسے نہیں جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں، ان کے بچہ نہ ہو کوئی۔ اولاد کے معنوں میںیہ لفظ استعمال ہوتا ہے فان کان لھن ولد ۔اگر وہ بچے والیاں ہوں فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین تو پھر تمہارے لیے چوتھائی حصہ ہے جو وہ چھوڑیں بعد اس کے کہ ان کی وصیت ادا ہوجائے یا قرضہ اتارا جائے ولھن الربع مما ترکتم اور ان کیلئے چوتھائی حصہ ہے مما ترکتمجو تم چھوڑو گے اس میں سے ۔ ان لم یکن لکم ولد اور اگر تمہارا کوئی بچہ نہ ہو فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم اگر تم بچوں والے ہو تو ان کیلئے آٹھوا ں حصہ ہے اس میں سے جو تم چھوڑو گے۔ مگر وصیت کی ادائیگی کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد وان کان رجل یورث کللۃ او امراۃ اور اگر کوئی مرد کلالہ وارث ہو اس کے دونوں معنی لیے گئے ہیں ۔ ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ کوئی مرد کلالہ ہونے کی حالت میں وارث بن رہا ہوتو اس کا کیا حکم ہوگا۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی اس خیال کو اپنے ذاتی رحجان کی وجہ سے نہیں صرف بلکہ اوردلائل بہت سے اس کے حق میں ہیںردّ کر چکا ہوں یہاں کلالہ سے مراد وہ شخص ہے جس کا اُوپر کا وارث بھی کو ئی نہ ہو اور نیچے کا وارث بھی کوئی نہ ہو ، نہ ماں باپ کی طرف سے نہ اولاد کی طرف سے ۔ تو اگر ایسا شخص ہو جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہاہو وہ کلالہ ہو یا او امراۃ یا وہ عورت ہو ولہ اخ او اخت فلکل واحد اب دیکھیں او امراۃ کہہ کے بعد میں ضمیر مرد ہی کی طرف پھیری ہے۔
ولہ اخ اس لیے کہ جملہ معترضہ کے طور پر بعض دفعہ یاد دہانی کیلئے ایک بات بیچ میں داخل کی جاتی ہے مراد یہ ہے کہ قرآن کا دستور یہ ہے کہ جب بھی احکامات بیان ہوں سوائے اس کے کہ وضاحت سے کسی کو مستثنیٰ قرار دیا جائے مردوں کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ خواہ واحد مخاطب میں یا غائب میں ،عورتیں اس میںلازماً شامل ہیں سوائے اس کے کہ ایسی چیز ہو جو عورتوں کیلئے مخصوص ہو اور اس مردوں والے کلام میں وہ شامل ہو ہی نہ سکتی ہوں،ایسی صورت میں خطاب ہی عورتوں سے کیا گیا ہے او رکوئی ابہام ویسے بھی نہیں پیدا ہوتا۔ پس جہاں احکامات ہیں ان احکامات میں عورتیں برابر کی شریک ہیں۔ضمناً بیچ میں کبھی کبھی یاد دہانی بھی کروادی جاتی ہے ۔ پس فرمایا اوامراۃ عورت بھی اگر ہو تب بھی ولہ اخ او اخت۔ اس مرد کے جس کا ذکر کیا تھا اس کے اگر کوئی بھائی ہو یا بہن ہوتو اس لیے لفظ مرد جو میں نے بتایا ہے بظاہر مرد ہے چونکہ ضمیر مرد کی طرف جارہی ہے وضاحت کہہ رہی ہے کہ امراۃ اس میں داخل ہے عورت بھی ہو تب بھی اس پر یہی حکم لگے گا۔ پس ہٗ کی ضمیر ایک خیالی وجود کے طور پر ہے One جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں oneلفظ سے حوالہ جب دیا جاتا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں ہی شامل سمجھتے جاتے ہیں۔ اسی طرزِ بیان میں عربی میں مردانہ حوالہ عورتوں کیلئے بھی برابراستعمال ہوتا ہے۔اور وہ ساری اس میں داخل سمجھی جاتی ہیں۔ آجکل تو یہ بحث چلی ہوئی ہے کہ چیئر مین کی بجائے چیئر پرسن کہا جائے حالانکہ یہ صرف عربی زبان کا خاصہ نہیں دنیا کی ہر زبان میں لمبے دستور کی وجہ سے جب یہ کہا جاتا ہے mankindتو عورتیں نکل تو نہیں جاتیں اس میں سے وہ شامل ہوتی ہیں۔ پس اسی طرزِ تکلم کو اختیار کرتے ہوئے قرآن کریم نے بھی مردوں کا ذکر کیا ہے ورنہ ہرد فعہ ساتھ عورتوں کا لفظ دہراناپڑتا مردوں کا نہیں۔ بنی نو ع انسان کا دراصل ذکر کیا ہے اگر بھائی ہو یا بہن ہو فلکل واحد منھما السدستو ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا ہے اب یہ سیدھی لائن جو اوپر اورنیچے کی ہے اس سے نکل چکے ہیںاس لئے یہاں فرق مرد اور عورت کا وہ نہیں کیا گیا۔ ہر ایک کا چھٹا لکھا ہوا ہے خواہ لڑکا ہو خواہ لڑکی ہو۔ اگر پہلو کے ہیں رشتے تو ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے فان کانوا اکثر من ذٰلِک فھم شرکاء فی الثلث اگروہ اس سے زیادہ ہوں تو پھر تیسرے حصے میں وہ سب شریک ہوں گے یعنی دو چھٹے تیسرا حصہ بنادیتے ہیں۔ تو ان کو تیسرے حصے سے زیادہ بہرحال نہیں ملے گا۔ اگر کوئی مرد ہو یا عورت ہو اس حالت میں مرجائیں کہ نہ اُوپر ان کے وارث ہوں ماں باپ وغیرہ ،نہ نیچے وارث ہوں ، اولاد وغیرہ، تو اس صورت میں اگر ان کے بھائی اور بہن ہوں تو ان کو کل جائیداد کا 1/3تقسیم ہوگا اگر دو ہوں گے تو 1/6,1/6لیکن اگر زیادہ ہوں گے تو پھر ایک تہائی میں جتنے بھی حصے بنتے ہوں وہ ان کو دیے جائیں گے ایک تہائی سے زیادہ بہر حال ان کو نہیں دیا جاتا۔ فان کانوا اکثر من ذالک۔ فھم شرکاء فی الثلث من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین وصیت کے بعد جو کردی گئی ہو یا قرض اتارنے کے بعد غیر مضار یہاں تکلیف دینا پیش نظر نہیں ہے۔وصیۃ من اللہ واللہ علیم حکیم ۔یہ اللہ کی طرف سے وصیت ہے اور وہ علیم اور حلیم ہے یعنی علم والا بھی ہے اور بردبار بھی ہے۔ یہاں ایک بات پیش نظر رکھنی چاہیے غیر مضار کا جو لفظ یہاں آیاہے یہ جو بچے سپرد کیے جاتے ہیں طلاق وغیرہ کے بعد عورت کے اور وہاں خاوند کے اوپر بھی کچھ ذمہ داری ڈالی جاتی ہے ، عورت کے اوپر بھی کچھ ذمہ داری ڈالی جاتی ہے وہاں بھی لفظ غیر مضارآیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ایسے حالات میں جہاں تمہارے لیے امکانات ہوں زیادہ سختی کے ساتھ کسی چیز کو نافذ کرنے کے اور نرمی کے ساتھ کسی بات کونافذ کرنے کے ، تو نرمی کا پہلو رکھنا کیونکہ خداتعالیٰ کا منشاء تکلیف پہنچانا نہیں اور کوئی خاوند ایسی شرط نہیںلگا سکتا جس میں قضاء کے نزدیک تکلیف پہنچانا اس کی نیت میں داخل سمجھا جائے۔ اس کی طرزسے، قرائن سے ثابت ہوجائے کہ اگر وہ تکلیف پہنچانے کیلئے شرطیں باندھ رہا ہے تو بظاہر وہ شرطیں باندھنے کی اجازت بھی ہو تو غیر مضار کا حکم اسے ان حقوق سے عاری کرے گا جو تکلیف دینے والا پہلورکھتے ہی نہیں تھے۔ یعنی جو حقوق دیے گئے تھے اس میں یہ پہلو نہیں ہے کہ اس کو تکلیف دینے کا بھی حق دیا گیا ہے ،یہ مراد بن جائے گی۔ اورعورت بھی کوئی ایسا ذریعہ اختیار نہیں کرسکتی جس کے نتیجے میں بظاہر وہ قانون کے حوالے اپنے حق میںاستعمال کرے مگر قضاء کے نزدیک ثابت ہو کے۔ یہ تو محض اس کیلئے مصیبت ڈال رہی ہے اور خاوند کو تکلیف پہنچانا چاہتی ہے اس صورت میں قضاء کو اختیار ہوگا کہ مضار کے پیش نظر اس حد تک ان دونوں میں سے جس کو چاہے پاپند کرے کہ یہاں تک تمہاری بات مانیں گے اس سے آگے نہیں مانیں گے کیونکہ یہاں پھر قرآن کریم کے منشاء کی واضح مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔یہاںبھی لفظ غیرمضارآیا ہے یہ کیوں ہے؟ ایک اس کا تعلق اس تمام وصیت سے بھی ہوسکتا ہے اور ایک جہاں یہ آیا ہے وہاں براہِ راست اس حصہ سے بھی تعلق ہوسکتا ہے ۔ اس موقع پر آیا ہے کہ اگر صرف بہن بھائی ہو ں تو تیسرا حصہ ان کو ملے گا اور وہ تقسیم ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی اگر دَین نہ ہو مثلاً اوروصیت بھی کوئی نہ ہواور کھلی جائیداد چھوڑی گئی ہو تو کیا اُن کے ساتھ احسان کا سلوک ہوسکتا ہے کہ نہیں حق کے طور پر 1/3۔ مگر کیا احسان کے طور پر سلوک ان سے ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ اگر ایسی حالت ہو غربت کی کہ ان کو ضرورت ہو اور 1/3سے وہ عام روز مرہ کے جو حقوق پہنچنے سے جو فائدے پہنچتے ہیں عملاً حاصل نہ کرسکیں یا جتنی ضرورت ہے پورا نہ کرسکیں تو جو بقیہ بچتاہے اگر وہ رقم 1/3یا کچھ اس سے زائد بچتی ہے تو وہ یاد رکھنا کہ تکلیف کی خاطر پابند نہیں کیا جارہا دوسرے مصالح پیش نظر ہیں۔ دوسرے مصالح کیاہوسکتے ہیں؟ ایک یہ کہ ایسا مرنے والا ہوسکتا ہے وصیت دین کے حق میںکردے اور دین کے حق میںجو وصیت ہے وہ اس صورت میں 2/3تک کرسکے گا کیونکہ 1/3وارث کیلئے پابند ہوگیا ہے اس سے وہ کم نہیںکرسکتاہے۔ تو یہ جو اصول ہے 1/3کی حد تک وصیت کرنا اس معاملہ میں وہ اطلاق نہیں پائے گا کیونکہ 2/3جو بچا ہے اگر اس کا قرض نہ ہو تو پھر وصیت ہے ۔وصیت کے ذریعہ وہ جائیداد اگر کسی فرد کو دیتا ہے تو 1/3سے زائد نہیں دیتا اور اگر کسی دینی ادارہ کو فلاح کے کام میں خداتعالیٰ کے نظام میں خرچ کرنے کی وصیت کرتا ہے تو وہ میرے نزدیک جائز ہے کہ وہ وصیت کردے۔ اس میں مَیں پہلے بھی بحث اٹھاچکا ہوں دین کو دینے میں کوئی روک نہیں ہے۔ جن جگہوں پہ رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا ہے پورا لینے سے ان جگہوں پر خاص حالات جو سامنے تھے ان کے پیش نظر آپ نے انکار کرلیا۔جن جگہوں پر قبول کیا ہے اگر وہ انکار خصوصی حالات کی وجہ سے نہ ہوتا تو پھر قبول کیوں فرماتے۔ پس جہاں قبول بھی کرلیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دینی اغراض کیلئے جو وصیت ہے وہ 1/3کی حد کی پابند نہیں ہے مگر اگر یہ وصیت دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہو اورمضار والی بات پیدا ہوجائے تو پھر 1/3کی پابندی مناسب اور بہتر ہے اس لیے۔
لفظ مضار کے تابع میں لا رہا ہوں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے وصیت کے متعلق جو پابندی لگائی کہ 1/3 کی حد تک اجازت ہے دین کیلئے دینے میں اس سے زیادہ نہیں اس میںدونوں مصلحتیں پیش نظر ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک جاری دستور بن چکا ہے اور 1/3تک وصیت کا حق دیا جاچکا ہے وہ انفرادی طور پر بھی انسانوں کے حق میں استعمال ہوسکتا ہے۔ یہ مرنیوالے کا حق ہے کہ وہ 1/3تک وصیت کردے توجماعتی طور پر بھی ہوسکتا ہے۔ پس آپ نے 1/3جماعتی طور پر مان لیا اس لیے کہ اگر اس سے زیادہ کی گنجائش رکھتے تو ناممکن تھا کہ ہر معاملہ پر جو آئندہ آنے والا ہو کوئی نظام یہ نظر رکھتا کہ غیر مضار کا پہلو تو نہیں آرہا ہے اس میں ، ایسا تو نہیںہورہا کہ مرنے والے نے 1/3سے زیادہ وصیت کردی ہے اور اولاد واقعۃً بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یا اس کے نتیجے میں اولادکا دین ایمان ہی خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ تو وہ چیزیں جو طبعی فطری تقاضوں کے خلاف ہوں وہ بھی ضررپہنچاتی ہیں ۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1/3سے زیادہ کی اجازت نہیں دی۔ ہم قبول نہیںکریں گے یہ محفوظ ہے یہ کم سے کم وہ جگہ ہے وہ دائرہ ہے جس کے اندر اگروصول کیا جائے توسمجھا جاتا ہے کہ باقی 2/3 سے ورثاء کے حق اتنے پورے ہوجاتے ہیںکہ وہ تکلیف نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن آنحضرت ﷺنے اپنی وصیت یہ فرمائی کہ یہ سارے کا سارا صدقہ ہوگا جو بھی میں چھوڑوں گا وہاں یہ نہیں ہے کہ کوئی خصوصی حق اپنے لیے استعمال فرمایا ہے یا اس حق سے دستبردار کررہے ہیں اپنے ورثاء کو جو لازماً ان کو دیا جانا تھا۔ یہ بحث آگے آئے گی تو اس کو تفصیل سے بیان کروں گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے تو اپنی زندگی میں پہلے بھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے دولت پائی جو بہت تھی تو اس کی ایک پائی بھی اپنے پاس نہیں رکھی حالانکہ وہ ذاتی تھی ۔ اس لیے علماء کا یہ بحث اٹھانا کہ رسول اللہ ﷺ اس جائیداد کو ذاتی ملکیت نہیںسمجھتے تھے جو باغ فدک کے طور پر یا عراق کی زمینوں کے طور پر آپ کے ہاتھ آئی تھی اور اپنے اوپر اگر وہ ذاتی نہیں سمجھتے تھے تو خرچ کیوں کرتے تھے کس طرح کرتے تھے اگر وہ ذاتی نہیں سمجھتے تھے۔ تو پھر اپنی ازواج مطہرات اور اپنے ورثاء کے متعلق یہ وصیت کیوں کی کہ ان کو مالکانہ حقوق تو نہ دیے جائیں مگر ان کے اوپر خرچ کیا جائے یعنی ان کے گزر اوقات اسی سے چلیں گے ۔ پس دو ٹوک فیصلہ یہ کرناپڑے گا کہ کیا وہ صدقہ تھا جیسا کہ احادیث میںآتا ہے صدقہ۔ یعنی کیا وہ مال اپنی نوعیت میں صدقہ تھا اس لیے آپ نے نہیں اس کو touchکیا اس میں سے اگر اپنی نوعیت میںصدقہ تھا تو خود کیسے کھایا اس میں سے اور اپنی اولاد کو کیوں کھانے دیا۔ جب فتویٰ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے اہل و عیال اور آپ کے اولاد پر کوئی صدقہ خرچ نہیں ہوگا۔ پس صدقہ اگرکے یہ معنی لیے جائیں جیسا کہ عام طور پر فقہاء لیتے ہیں کہ وہ مال ہی صدقہ ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺکو اس پر تصرف کا اختیار نہیں تھا تو یہ ناجائز بھی ہے اور گستاخانہ ترجمہ بھی ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے للّٰہ و للرسول کہہ کر اللہ سے مراد دینی ضروریات ہیں اور رسول سے مراد یہاں اس سیاق و سباق میں آپ کی ذاتی ضروریات ہیں اور اس پہلو سے آپ کا حق ہے صدقہ کے طور پر نہیں بلکہ حق کے طور پر ، خدا کی طرف سے عطا کردہ حق ہے ،اس لئے اپنے اوپر بھی استعمال کرو اپنے لواحقین پر بھی استعمال کرو ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو ورثہ پایا وہ حق تھا اور تقسیم کردیا، یہی حق دوبارہ تقسیم کررہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ کی اپنی ایک شان ہے اور اس بات کو اپنی زندگی میں بھی آپ نے پیش نظر رکھا کہ جس کو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہبہ کیا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو۔ اس کا تصرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیا۔ باغ فدک والی بحث جب آئے گی اس میں یہ بحث بھی اٹھے گی۔ (میں ابھی سے آپ کو یہ بات سمجھارہا ہوں) کہ ہبہ اگر کہیںکیا تھا زندگی میں ۔ تو اول تو لازماً اپنا سمجھا تو ہبہ کیا تھا مگر ہبہ کے متعلق تمام فقہاء متفق ہیں کہ ہبہ کا عمل اس وقت آخری سمجھا جاتا ہے جب تصرف میں دے دو اور دوسرا اس کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا شروع کردے۔ اگر نہ واقعہ ہوا ہو یہ تو پھر وہ ہبہ بطورہبہ آخری شکل میں قانونی طور پر قبول نہیںہوگا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق یہ تحقیق شدہ بات ہے شیعہ بھی اس کے خلاف کوئی بات پیش نہیںکرسکتے کہ باغِ فدک آپ کی تحویل میں رسول اللہ ﷺ نے نہیںدیا۔ اس لیے اگر ہبہ والی بات ہے تو اس سے مراد یہ لی جاسکتی ہے کہ اس کے جو پھل ہیں اس کے جوفوائد ہیں وہ خصوصیت سے تمہارے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ کیونکہ آخری وصیت میں ہبہ دے کر آپ واپس نہیں لے سکتے۔ آپ یہ بہت اہم معاملہ ہے ۔ رسول اللہﷺ کی ذات اور شان کے خلاف ہے کہ ہبہ دیں خواہ بیٹی کو دیں اور اس کے بعد اس سے واپس لے لیں ۔ پس یہ جو فیصلہ ہے آخری کہ ساری جائیداد میں سے کوئی وارث حصہ نہیںپائے گا، کوئی بیگم حصہ نہیں پائیں گی بلکہ زندگی بھر ان کو اس کے فوائد پہنچتے رہیں گے جس طرح میری زندگی میں فوائدااسی طرح پہنچتے تھے یہ شکل بنتی ہے۔ اب اگلی بحث یہ ہے کہ کلیۃً آپ اس جائیداد کو جب وصیت میںدیتے ہیں تو کیا غیر مضار والا پہلو داخل نہیں ہوگیا کہ بیوی اور بچے جن کا خدا نے حق مقرر کیا تھا ان سے محروم کیا گیا ہے۔ جہاں تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ورثہ کا تعلق ہے وہ رسول اللہ ﷺ اپنی ذات کو محروم کررہے تھے اور اپنی زندگی میں اپنی ذات کو محروم کرنا یہ بالکل جائز اورعین قانونی منشاء کے مطابق ہے۔ اس میں کسی کوکوئی اختلا ف نہیں ہے لیکن وصیت کے طور پر اپنی اولاد کو یا بیویوں کو اس شرعی حصہ سے محروم کرنا جو خدا نے باندھ دیا فریضۃ من اللّٰہ کہہ دیا ہو کیا یہ رسول اللہ ﷺ کیلئے مناسب تھا ۔ کوئی یہ سوال بھی اٹھاسکتا ہے غیرکہ کیوں ایسا کیا گیا۔ اور کیا آپ اس قانون سے کسی اور آیت کی رو سے بالا تھے جب کہ دوسری جگہ جہاں بھی استثناء ہے وہاں قرآن کی کوئی آیت اس استثناء کی تائید کررہی ہے اور کھلم کھلا اس استثناء کی حمایت کررہی ہے اور بتارہی ہے۔ یہ رسول اللہ کیلئے خاص ہے تم لوگ اس میں شامل نہیں ہو۔ وراثت والی آیات میں ایساکوئی استثناء نہیں ملتا۔ پھر اس کا کیا حل ہے۔ کیونکہ ہمارے علماء اکثر شیعوں سے بحثوںمیں الجھ گئے اس لیے حکمتوں میں اترنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور محض بحثی نکات اٹھااٹھا کر آپس میں خوب تقریریں چلتی ہیںاور بحثیں اٹھائی جاتی ہیں۔ میرے نزدیک ہبہ کو خدا کی طرف سے تھا جو رسول اللہ کیلئے آپ نے زندگی میں بھی اسی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا، اس فیصلہ کے ساتھ قبول کیا تھا کہ میں اس سے فائدہ تو اٹھائوں گا اور اپنی اولاد کو بھی جو میری ذمہ داری ہے اورمیرے داماد ان کو بھی فائدہ اٹھانے میںشریک کروں گا مگر اپنائوں گا نہیں ۔ پس ہبہ کو قبول کرنے والا کن شرطوں کے ساتھ قبول کرتا ہے ۔ وہی اس ہبہ کی حیثیت کو متعین کرتے ہیں۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں آپ کو دے رہا ہوں ۔آپ کہتے ہیں ٹھیک ہے مگر میں صرف استعمال کروں گا کچھ دیر پھر میں آپ کو واپس کردوں گا۔ ایسے کئی دفعہ ہوا ہے ۔ مجھ سے بھی ہوچکا ہے اور بھی دنیا میںہر ایک آدمی کو تجربہ ہوتا ہے آپ کہتے ہیں ٹھیک ہے! میں نے لینا نہیں ہے پورا۔ میںفائدہ اٹھائوں گا پھرمیں واپس کردوں گا
اب یہ جو واپسی ہے یہ محمد رسول اللہ ﷺ اور اللہ کے درمیان ہے اس کیلئے کوئی دنیا کا گواہ ضروری ہی نہیںہے۔ سب سے بڑے گواہ خود رسول اللہ ﷺ ہیں اور آپ کی وصیت یہ بتارہی ہے کہ آپ نے زندگی میں بھی بطور صدقہ نہیں کھایا بلکہ اس حق کو استعمال کیا جو اللہ نے تحفہ دیا تھا ، اتنا حق جتنا زندگی میں بطور تحفہ قبول کیا تھا وہ حق اولاد کے نام منتقل ہوگا جو آپ نے بطور تحفہ قبول نہیںکیا وہ صدقہ میں جائے گا۔ اور دراصل وہ ایسا صدقہ ہے جو تحفہ پر قبول کرکے پھر صدقہ میں دے دیا جاتا ہے اور چونکہ زندگی میں ہی دے دیا گیا تھا یعنی اس نیت کے ساتھ ان شرائط کے ساتھ۔ اس لیے قوانین وراثت اس پر اطلاق نہیں پاتے ۔ زندگی میں ہی جو شخص ایک چیز قبول پوری نہ کرے اور صدقہ کے طور پر اسے دے دے اس شرط کے ساتھ کہ میں فائدہ تو اٹھائوں گا لیکن اپنا نہیں بنائوں گا اور میں اسے بحیثیت جائیدادکے صدقہ دینا چاہتا ہوں یہ فیصلہ قانون وراثت کے خلاف نہیں ہے۔ اور خصوصیت سے اس پس منظر میں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے آنحضرت ﷺ کا ایک طریق کار ہے زندگی بھر کا اسلوب ہے۔ اس میں آپ کا ان آیات کا یہ معنی سمجھنا کہ اللہ نے میرے اختیار میں دے دیا ہے اور اب میں چاہوںتو جتنا چاہوں فائدہ اٹھائوں، چاہوں تو جتنا نہ چاہوں نہ فائدہ اٹھائوں۔ یہ معنے آنحضرتﷺ نے لازماً سمجھے ہیں اور یہ کوئی اجنبی معنے نہیں ہیں۔ روز مرہ کے انسانی تجربوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ کئی دفعہ لوگ مجھے بعض ایسے تحفے بھیجتے ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنے لیے قبول نہیں کرنے چاہئیں تو میں ان کو درخواست کرتا ہوں کہ آپ اجازت دیں ہم دونوں اسے صدقہ کے طور پر دے دیتے ہیں۔ ہم دونوں آپ بھی شامل ہوجائیں میرے ساتھ۔ اس لیے آپ کا تحفہ ردّ نہ ہو اور میں اور آپ مل کر اسے فلاں نیک کام پر خرچ کردیتے ہیں، تو خوشی سے قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن یہاں چونکہ انسان ہے اس لئے اس کے ساتھ لکھوانا بھی پڑتا ہے خط ۔اس کے جواب بھی آتے ہیں مگر خدا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان کون حائل ہے ، اس لیے آپ نے جو فیصلے فرمائے ہیں میرے نزدیک بعینہٖ اس تناظر میں سمجھے جانے چاہئیں ورنہ تو قوانین شریعت کا اعتبار پھراٹھ جائے گا۔
پس بحثیں جوکرنی ہیں شیعوں سے جو بیشک کریں مگر مضمون کو تو سمجھنا چاہیے کہ واقعہ کیا ہوا ہے۔ پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنحضرتﷺ نے اس مال کو بحیثیت مال صدقہ نہیںسمجھا۔ اگر صدقہ سمجھا ہوتا تو ہر گز اپنی ذات پر خرچ نہ کرتے۔ پھر ہمارے علماء نے یہ بحثیں بھی اٹھادی ہیں بیچ میں شیعوں کو مسکت کرنے کی خاطر کہ دیکھو رسول اللہ ﷺ امین تھے اور بحیثیت نبی آ پ کے سپرد یہ مال تھے اس لیے اس کے مالک بن ہی نہیں سکتے تھے۔بالکل جھوٹ ہے یہ بات یعنی میںنے یہ نہیں کہاکہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ان کا تصور جھوٹا ہے کیونکہ اگر امین تھے تو پھر اپنے اوپر تصرف کی اجازت کیوں ہے۔ پھر ہر مال جو اس میں استعمال ہوا ہے وہ نعوذ باللہ من ذالک خیانت بن جائے گی اور جس آیت سے استنباط کرتے ہیںامین تھے اس میں جن جن کو وہ حقوق رسول اللہ ﷺدے سکتے تھے جن کو دیے گئے کیا ان سے واپس لے لیے گئے کہ فائدہ اٹھائو؟ (بعد میں جس طرح میںکررہا ہوں بحیثیت امین فائدہ اٹھا رہے ہیں ہم تم بھی اتنا فائدہ اٹھائو) غرباء ،مہاجرین اور وہ ساری فہرست جو آیت میں ہے جب تک تم زندگی میں فائدہ اٹھاتے ہو اٹھاتے جائو جب تم مرجائو گے ہم تم سے واپس لے لیں گے ایک بھی ایسا واقعہ نہیں۔ پس جو ہبہ ان کے نام تھا وہ بھی اللہ نے دلوایا بوساطت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اور وہ کلیۃً مجاز تھے کہ اسے پوری طرح قبول کریں یاکچھ حصہ قبول کریں۔آنحضرتﷺ بھی مجاز تھے ان کی شخصیت اور رسول کریم ﷺ کی شخصیت میں فرق تھا ان کی بیویاں اُن کو جو تحفے دیتی تھیں وہ کبھی بھی سارے کے سارے صدقے نہیں دیا کرتے تھے ان کی فطرت مزاج میں یہ بات نہ تھی ھنیاً مریًا کھاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ثابت کرتی ہے اور آپ کی سنت ثابت کرتی ہے کہ اپنی ذات کیلئے تحفوں کو وہ بنی نوع انسان کیلئے خرچ کرنا چاہتے تھے اور یہ معنے ہیں اس وصیت کے۔ اس کے سوا کوئی بھی معنی کریں اس میں رخنے پیدا ہوں گے ۔ آپ نے خدا کے تحفہ کو قبول فرمایا اپنی ذات کیلئے بھی اور اپنی اولاد کیلئے بھی مگر اس نیت کے ساتھ کہ اس کے بعد یہ واپس ان اموال میں خرچ ہوگا جن اموال میںپہلے بھی میں اپنی ذاتی ملکیت خرچ کرتا رہا ہوں۔ پس نہ بعینہٖ ورثہ کے قانون نافذ ہوسکتے ہیں نہ صدقہ کے وہ قوانین جو یہ کہتے ہیں وہ بھی اطلاق پاتے ہی نہیں۔ جو دوسری شیعہ بحثیں ہیں جب اس میں آئیں گے تو اعتراضات کے جوابات انشاء اللہ بعد میںدیں گے۔ اب کلالہ کے متعلق میں پہلے بتاچکا ہوں مختلف علماء کیا کیا کہتے ہیں۔ ایک تعریف یہ ہے کہ کل یرثہ ولد او اب او اخ جس کابیٹا یا باپ یا بھائی وارث نہ ہو اسے کلالہ کہتے ہیں۔ یہ تعریف اس آیت کے منافی ہے جو ابھی پیش کی گئی ہے ۔کلالہ ہو تو بھائی وارث ہوں گے کلالہ کہہ کر بھائی بہن کو 1/6کا وارث بنایا جارہا ہے تو یہ درست نہیں۔ ایک تعریف یہ ہے کہ من سکت عنہ طرفاہ و ھما ابوہ وولدہ فصار کلاً و کللۃ جس کے اطراف یعنی باپ اور بیٹا نہ ہوں باپ اور بیٹا ترجمہ نہیں ۔ماں باپ اور بچے نہ ہوں یہ اصل میں اس کا صحیح ترجمہ یا اولاد نہ ہو اس شخص کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ یہ تعریف جو ہے یہی قرآنی آیات کی روشنی میں درست ثابت ہوتی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے۔ تفسیر کبیر رازی میںلکھا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے یہ ہے کہ کلالہ سے مراد یہ ہے کہ جس کے والدین اور اولاد نہ ہو اور یہی قابل قبول اور صحیح قول ہے ساتھ ہی لکھتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کلالہ وہ ہے جس کا کوئی بیٹا نہ ہو لیکن میں حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلاف کرنے سے ہچکچاتا ہوں یعنی امام رازی کہتے ہیں بڑاہی لطیف انداز ہے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اختلاف کا۔ یہ دو رائیں ہیں ایک ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے ہے کہ باپ نہ ہو بیٹا نہ ہو ماں باپ نہ ہو اولاد نہ ہو کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے ہے تو میں حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے اختلاف سے ہچکچاتا ہوں۔ کیونکہ وہ رائے اولیٰ رائے ہے اور ہ یہی بنتی ہے جو میں ابھی آپ کے سامنے پیش کرچکا ہوں۔
ایک تومیرے خیال میں درس سننے والے دعائیں کررہے ہوں گے کہ یہ وراثت کا جھگڑا جلدی ختم ہو مگر ان کو فائدہ بھی تو ہے کہ وہ نیند پوری کرلیتے ہوں گے درس میں۔ ایک زمانہ تھا جب قادیان میں مسجد اقصیٰ میں درس ہوا کرتے تھے تو سکول کے بچے بیچارے چاہیںیا نہ چاہیں وہ پریڈ بنا کر ان کی وہاں پہنچادیے جاتے ہیںاور جامعہ احمدیہ کے بھی ۔ باقاعدہ مارچ پاسٹ لڑکوں کی ہوتی تھی اور وہاں بیٹھ جاتے تھے۔اور کچھ دیر تک تو بیٹھے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، تو پھر جس طرح ٹوپی پنجی ہوجائے تو نظر نہیںآئے گی ان سب کے سر غائب ہوجایا کرتے تھے اور نیچے کرکے دیکھنا پڑتا تھا تو سارے لیٹے ہوتے تھے۔ساری مسجد میں جگہ جگہ لگتا تھا کوئی میدان کارزار ہے بچے ڈھیر ہوئے پڑے ہوتے تھے ۔ لیکن لوگ غیر مضار ہواکرتے تھے ۔ ناجائز سختیاں نہیں کرتے تھے کہتے تھے بچے ہیں بیچارے کیا کریں، درس ختم ہوتا تھا تو پھر جگایا جاتا تھا کہ دوڑو دوڑو وضو کرآئو۔ تو ایسے درس جہاں مسائل سنجید ہ ہوں وہاں بسا اوقات نیند غلبہ کرجاتی ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ بعض لوگ جو سوجاتے تھے انہوں نے احتیاطاً یہ جگہ ہی چھوڑ دی ہے اب وہ درس کسی ایسی جگہ سنتے ہیں جہاں میری ان پر نظر نہیںپڑتی۔ مگر بہر حال ان کو فائدہ تو ہے ہی ناوراثت کے دوران کم از کم رات کا جو جگراتا ہے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی اور دن کو آرام سے سوئیں گے۔
میراث کا قاطع میراث جنت سے محروم ہوگا ۔ ایک حدیث یہ ہے تفسیر روح المعانی سے لی گئی ہے ۔ یہاں بھی اصل حدیث کا حوالہ نہیںدیا گیا۔ یہ جو احادیث کے حوالوں کا طریق ہے یہ بھی بڑی احتیاط سے جو جائزہ لینے والا ہے وجہ یہ ہے کہ تفاسیر میں جو حوالہ دے دیا جاتا ہے کہ یہ انس سے روایت ہے، فلاں سے روایت ہے اور اگر کتاب کا حوالہ نہ ہوتو بعض دفعہ اصل جو حدیث مستند کتب میں ہے وہ اختلاف رکھتی ہے کچھ اور اگر وہ معین حوالہ دیے دیں مستند کتب کا ۔تو جو استنباط کرنا چاہتے ہیں اس کی راہ میںدقت ہوتی ہے تو بالعموم یہ کہہ دیتے ہیں کیونکہ حدیثوں میںایک اعلیٰ درجہ کی محتاط حدیث بھی ہوتی ہے۔پھر نسبتاً کم درجہ کی غیر محتاط لوگوں کی بیان کردہ حدیث بھی ہوتی ہے۔ تو اس سے فائدہ اٹھانے کی خاطر پھر عموماً ذکر نہیںکرتے ۔ لیکن مسائل کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے ، بہت گہرا ہے تمام انسانی حقوق متاثر ہوں گے اس لیے ایسی گواہی قبول کرلینا جو احاد گواہی ہو یا اس گواہی میںدوسرے معنوں کے احتمالات ہوں۔ ایک بات کہی جاتی ہے جس کا ایک ہی معنی لیا جاسکتا ہے ۔ ایک ایسی بھی بات کہی جاسکتی ہے جس کے ایک سے زیادہ معنے لیے جاسکتے ہیں ۔ جہاںایک سے زائد معنوںکااحتمال پید اہواوہاں قانون سازی کے لحاظ سے یہ بات کمزور ہوجائے گی ۔ اس پہلو سے ایسی حدیثوںکا بغور جائزہ لینا ضروری ہے اور صرف روایت کے لحاظ سے نہیں ( اب تو میں روایت کی بات کررہاہوں) درایت کے لحاظ سے بھی یہ ضروری ہے ابھی آگے جاکر ایک میںمثال آپ کے سامنے رکھو گا جس کے نتیجے میں اگر ہم اس اصول کو تسلیم نہ کریں تو کافی معاملات درہم برہم ہوجائیں گے ۔ اب یہ میراث والی حدیث جو ہے اس کو میں اس کے باوجود اس لیے قبول کررہا ہوں کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن وسنت کے خلاف ہو ، اس کی تائید میںایک بات ہے بس۔ تو میرا اصول یہ ہے کہ جو باتیںبھی حقوق کے علاوہ دینی معاملات میں تحریض کرتی ہیں ، تحریک کرتی ہیں اس میں اس چھان بین کی بھی لمبی ضرورت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ نہیں فرمایا تھا۔ لازماً قرآن یہی فرماتا ہے رسول اللہ ﷺ ایسی باتیںہی فرماتے ہیں ۔ تو اس میں اس بحث میںالجھنے کی ضرورت کیا ہے کہ راوی کیسا سخت ہے تو قبول کرو نیک نصیحت ہے ۔ یہاں نصیحت یہ ہے کہ جو اللہ کے فرض پورے نہیں کرے گا اور میراث کو قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت سے محروم کردے گا۔ کیونکہ جنت بھی تو ہمارے یہاں کے اعمال کی میراث ہے۔ جنت ہم کماتے ہیں اور ورثہ میں ہمیںجنت ملتی ہے اورلفظ میراث ان معنوں میں قرآن کریم میں استعمال ہوتا ہے ۔ تو ہم جب خدا کے عائد کردہ ورثہ کے حقوق سے دوسروں کو محروم کریں گے تو خداتعالیٰ پھر وہ ورثہ جو ہم نے کمایا ہے اس سے ہمیں محروم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یعنی ایک قسم کا اندرونی انصاف ہے جسے بیان کیا جارہا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس حدیث کو کسی پہلو سے بھی وضعی سمجھا جائے ۔ بات بھی بڑی پر حکمت او رگہری ہے اور کوئی وضعی بنانے والے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اس سے۔اب ہے ایک اور بڑا اہم مسئلہ اور وہ یہ کہ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا ہے۔ یہ جو بحث اٹھائی گئی ہے اس میں بخاری کتاب الفرائض کی حدیث ہے ۔ مسلم کتاب الفرائض کی حدیث ہے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مسلم میں لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم۔ بخاری کی ہے کتاب الفرائض میں لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ایک الفاظ ہیں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہاں دونوں کے متعلق ہے کہ نہ مسلم کافر کا وارث ہوگا اور نہ کافر مسلم کا وارث ہوگا اور اس کو علماء نے عمومی دائمی قانون کے طور پر قبول کیا کیونکہ وہ کہتے ہیں یہاں دارالحرب کا ذکر نہیں ۔ یہاں کسی اور بات کا ذکر نہیں جو اس کو محدود کرتے ہو۔ اب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور آپ کے اپنے اقوال میں دارالحرب وغیرہ کی اصطلاحیں استعمال ہی نہیں ہوتی تھیں اور احکامات میں بعض تناظر ہیں جن میں ایک بات کہی جاتی تھی اور صحابہ سب اس کا مطلب سمجھتے تھے اور اس وقت یہ فقہی بحثیں نہیں اٹھائی گئیں کہ یہ میں دائمی حکم ہے اپنی ذات میں یا مشروط حکم ہے۔ بعض حالات سے تعلق والا حکم ہے لیکن میں آپ کو بتارہا ہوں کہ فقہاء نے اسے ایک دائمی عام حکم تسلیم کرلیا۔ اس کے نتیجہ میں جو مشکلات درپیش ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
اختلافِ دین - اوّل تو بعض فقہاء نے یہ دونوں پہلو ؤںکو نظر انداز کرکے صرف ایک کو اپنایا ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ جب رسول اللہ ﷺنے یہ فرمایا کہ نہ مسلم غیر مسلم کا وارث ہوگا اور نہ غیر مسلم مسلمان کا وارث ہوگا ۔ تو اس میں ایک توازن اور ایک انصاف ہے یہ محدودحکم ہے یا غیر محدود ہے یہ بحث بعد کی ہے لیکن فی ذاتہ اس میں ایک بہت خوبصورت توازن ہے ۔ بنی نوع انسان میں سے کوئی بھی اعتراض نہیں کرسکتا کہ اسلام نے اگر مسلمان ہو تو کافر کی جائیداد تو لے لے لیکن اس کے بچے کو قرآن حق دے کہ لااکراہ فی الدین تو یہ اکراہ اس پر چل پڑے کہ اس کو محروم کیا جائے ۔ یہ کون سا انصاف ہے۔ پس یہ جو حدیثیں ہیں بخاری اور مسلم کی یہ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں کہ اس کا یہ ترجمہ کیا جائے کہ مسلمان تو کافر کا وارث بنتا ہو اور کافر مسلمان کا وارث نہ بنے۔ اس لیے جن فقہاء نے یہ مسلک اختیار کیا ہے چونکہ قرآن پر مبنی مسلک نہیں ہے کلیۃً حدیث پر تو ان دوقطعی احادیث کی روشنی میں ان کا یہ حق بنتا ہی نہیں نہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے والا مضمون ہے یہ کہ صرف کافر بچے کو تو محروم کردیا جائے مسلمان اپنے کافر ماں باپ کا ورثہ پاجائے یہ جائز نہیں ہے مگر فقہاء نے جہاں تک بحثوں کا تعلق ہے اس کو عام کہا ہے۔ یہ عام حکم ہے اس میں یہ کہتے ہیں من غیر فرق بین ان یکون حربیا اور زمیا اور مرتدا فلا یقبل التخْصِیْصُ الا بدلیلنیل الاوطار نے یہ کہا ہے کہ ہم اسے عام مانیں گے اور اس کاتعلق میں یہ بحث نہیں اٹھے گی کہ علاقہ حربی ہے یا ذمی ہے۔ حالانکہ وہ احادیث جس زمانہ کی ہیں کہ مدنی دور کی۔ اس میںحربی یا ذمی کی بحث ہی نہیں ہے ۔ ایک حالت جنگ ہے اور حالت جنگ کے قوانین اور ہوتے ہیں اور حالت امن کے قوانین اور ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں دارالحرب یا غیر دارالحرب کی بحث اٹھانا ہی غلط ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایسے احکامات تو نہیں جو حالت جنگ کے احکامات ہیں۔ حالت جنگ کے احکامات میںقرآن کریم واضح طور پر عام روز مرہ کے احکامات سے ہٹ کر اجازتیں دیتا ہے اور اس اجازت کی بنیاد ہمیشہ یہ رکھی گئی کہ اگر دشمن یہ کام کرتا ہے تو تمہیں بھی اس حد تک اجازت ہے۔ دشمن عہدشکنی کرتا ہے تو تمہیں بھی اس حد تک اجازت ہے دشمن بیت الحرام کی بے حرمتی کرتاہے اور وہاں لڑتا ہے تو تمہیںبھی اسی حد تک اجازت ہے چنانچہ فرمایا واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء ط ان اللہ لا یحب الخائنین (آیت ۹)۔ خیانت اب حرام ہے یہ تونہیں کہ مستقل طور پر خیانت کرنے کی اجاز ت دی جارہی ہے مگر بعض معاملات میں جب دشمن تم سے خیانت کرتا ہے عہد شکنی میں اور خیانت کے نتیجے میںتمہیں نقصان پہنچے ہیں ، اس لیے کہ تم unawareتھے ۔ تم عہد کے سایہ میں چلتے ہوئے سمجھتے تھے کہ ہم امن میں ہیں اس نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور تم پر ایسی حالت میں حملہ کیا کہ جب تم توقع نہیںرکھتے تھے اس حد تک تمہیں بھی عہد شکنی کی اجازت ہے کہ وہ عہد سمجھ رہا ہو اور تم اس پر اس طرح حملہ کرو جس عہد کا ناجائز فائدہ اس نے اٹھایا۔ تم اب فائدہ اٹھائو تو یہ جائز فائدہ ہوگا۔ فانبذ الیھم علی سواء کا مضمون ہے کہ بعض جگہ دشمن کا فیصلہ ہوتا ہے جو آپ کے عمل کیلئے ایک دلیل بنتا ہے لڑائی کی حالت ہے دومختلف ممالک دو مختلف قوموں میں اختلافات ہیں اور حالت جنگ ہے اس میں دشمن اگرایک زیادتی کرتا ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ دشمن نے زیادتی کرکے خدا کا قانون توڑا ہے۔ اس لیے ہم اب زیادتی نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں اتنی زیادتی جتنی دشمن نے کی ہے ۔ اس علی سواء کے قانون کے تابع اجازت دی جاتی ہے برابر کا ہے۔ اس کی روز مرہ کی زندگی میںمثال ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے لایحب اللہ الجھر بالسوئاللہ تعالیٰ بری بات کو کھلم کھلا بلند بانگ اظہار کو پسند نہیں فرماتا ہے۔ الا من ظلم اونچی آواز سے قول یعنی بات کرنا بری بات ہو۔سخت گوئی ، سخت کلامی ہو، جھگڑے کی بات ہو جس طرح گلیوں میں اونچی آواز سے باتیںکرتے پھرنا۔ خد اہر گز پسند نہیں کرتا الا من ظلم مگر اس کیلئے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو اگر گلیوں میں اس کو کوئی اس طرح بدتمیزی سے بلا رہا ہے، اوراس کے خلاف بدگوئی کررہا ہے تو اس کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں اس وجہ سے کہ اللہ اس کو پسند نہیں کرتا خود رک جائے تو اس کو ثواب ہوگا ۔ یہ ایک مستحب بات ہوگی مگر کم سے کم حق ہر مظلوم کا ہے کہ جتنا اس پر ظلم ہوا ہے اسکا بدلہ اتارے۔
پس یہ وہ شکل ہے جو مجھے ان احکام میں دکھائی دیتی ہے جہاں مسلمان کو غیر مسلم کے ورثہ سے منع فرمایا گیا اور غیر مسلم کو مسلمان کے ورثہ سے محروم قرار دیا گیا ۔ اس وقت یہی حالت تھی ، اہل مکہ یہی سلوک کررہے تھے۔ یہ حدیث اوراس کے ساتھ جو دوسری حدیث ہے نحن معشر الانبیاء لانرث ولا نورث اس کا بھی جو وصیت کے معاملہ میں اس بحث کو چھیڑا گیا ہے۔ تفصیلی بحث تو وہاں آئے گی جب شیعوں کے ساتھ گفتگو ہوگی۔ اس کو بھی غور سے سمجھنا چاہیے کہ جب آنحضرت ﷺ مکہ تشریف لے گئے ہیںحج کیلئے تو کسی نے پوچھا یا رسول اللہﷺ آپ اپنے کس گھر میں قیام فرمائیں گے۔ آپ نے فرمایا عقیل نے ہمارے لیے کون سا گھر چھوڑا ہے ۔ یہ نہیں فرمایا کہ ہم تو نبی ہیں اور ہم ورثہ نہیں پاتے توہمارا تو تھا ہی کچھ نہیں یہاں یہ کیوں نہیںجواب دیا ۔ یہ جواب دیا ہے کہ عقیل نے نہیں چھوڑا جس کا مطلب ہے کہ وہ رشتہ دار بھی جو مسلمان نہیں ہوئے تھے اس حالت میں ایسے مظالم کررہے تھے کہ وہ ورثے جو پائے گئے تھے ان سے محروم کررہے تھے۔ یہ قطعی بات ہے اس لیے یہ احکامات جو ہیں وہ اس تناظر میں، ا س پس منظر میں سمجھنے چاہئیں کہ ایک ایسی حالت سے تعلق رکھتے تھے جہاں دشمن نے اس زیادتی کی، پہل کردی تھی اور رسولؐ فرماتے ہیں ٹھیک ہے۔ پھر یہ بات ہے تو پھر یہ یوں ہوگا اب نہ ہم ان سے کچھ لیں گے اور نہ وہ ہم سے کچھ لیں گے اور بات ختم ہوئی۔ بیویوں کے معاملہ میں بھی قرآن کریم نے بالکل اسی طرح اصول پیش فرمایا ہے کہ اگر ان کی بیوی مسلمان ہوکر تمہارے پاس آجاتی ہے تو تم جو خرچ انہوں نے کیا ہے وہ ان کو دو اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی مرتد ہوکر ادھر چلی جاتی ہے توپھر ان کا فرض ہے کہ وہ دیں یہ سواء والی بات چل رہی ہے۔ جہاں تک لا نرث ولا نورث والی بات ہے اس میں ایک اور بات قابل ذکر یہ ہے کہ بچہ جو پیدا ہوتا ہے نبوت تک پہنچنے سے پہلے پہلے لوگوں کو کس طرح پتہ لگا کے وہ نبی بن جائے گا اور اس بچہ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ نبی بن جائے گا، جائیداد ورثہ میں پارہا ہے کہتا ہے کہ نہ میں نے نہیںلینی میں نے تو نبی بننا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے بھلا اس لیے یہ روایت ہی کمزور ہے اس پہلو سے اس کا ایک پہلو ہوگا دوسرا بنادیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوالی روایت جوہے وہ صرف ایک پہلو بیان کرتی ہے جب امہات المومنین نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد یہ ارادہ کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھجوایا جائے رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہ ہم اپنے حق کا مطالبہ کریں جو رسول اللہ ﷺ کے ورثہ کا حق ہم نے چاہا ہے۔ تو اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو نصیحت کی اس میں یہ نہیں فرمایا کہ ہم نبی ورثہ پاتے بھی نہیں اوردیتے بھی نہیں۔ انہوں نے فرمایا ہم ورثہ نہیں دیتے یعنی ہمارا ورثہ تقسیم نہیںہوا کرتا اوروہ پہلو چھوڑ دیا دوسرا جس کامطلب ہے کہ محتاط بیان وہی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیا تھا ۔جو بات لوگوں نے سنی ہے بعدمیں کچھ بنالی ہوگی غلط فہمی کی وجہ سے خود جان کر نہ سہی وزن بڑا اچھا قائم ہوتا ہے۔ نہ ہم ورثہ دیتے نہ پاتے ہیںاورنہ پانے والا مضمون عقل کے خلاف ہے، استعمال ہو ہی نہیںسکتا۔ دوسری بحث جو علماء نے اس ضمن میںاٹھائی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺنے اگرچہ ہم کا لفظ استعمال فرمایا ہے مگر مراد آپ خود اپنی ذات ہیں۔ خود ہیں نہ کہ ’’ہم‘‘ اوریہ ایک میجسٹک کلام ہے ۔ ہم وہ ہیں جس طرح کہا جاتا ہے کہ اور یہ مراد ہرگز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء کو اس میںشامل سمجھتے ہیں۔ یہ جواب دینے پر مسلمان سنی علماء اس لیے مجبور ہوئے کیونکہ شیعہ مقابل پر ایسی آیات رکھتے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ گزشتہ انبیاء نے ورثہ چھوڑا بھی اور پایا بھی اور قرآن کریم خود اس کا ذکر کرتا ہے۔ تو اس لیے وہ مجبور ہوگئے ۔ اس کا اصل منطوق سمجھنے کیلئے اگر یہ مجبور نہ ہوتے تو شاید اس کو بھی قاعدہ کلیہ بنا بیٹھتے تو احادیث کو ان کے حقیقی مطالب سے جدا کرکے قبول نہیںکیا جاسکتا ورنہ رخنے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسے رخنے پیدا ہوتے ہیں کہ ساری تاریخ کاحساب بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ محض روایت کے طور پر نہیں بلکہ حدیث کے مضمون میں ڈوب کر اس کے عقلی، فطری پہلوئوں کو دیکھ کر تاریخ کے حوالے سے (اگر تاریخ کی بات کررہی ہے) مضمون کو سمجھنے کے بعد ایسا ترجمہ کیا جائے یا اس سے ایسا نتیجہ نکالا جائے جو رسول اللہ ﷺ کی شان کے منافی نہ ہو اور آپ کی جوشان قرآن سے ظاہر ہوتی ہے اس سے متصادم نہ ہو۔ اس کی ایک مثال میں آپ کو حساب کی صورت میںدیتا ہوں۔ ایک حدیث ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آنحضرت ﷺنے اُس بیماری میںجس میں آپ نے وفات پائی اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا جبرائیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بارقرآن کریم کا دور کرتا تھا لیکن اس سال اُس نے دو دفعہ دور کیا اور مجھے خبر دی کہ ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پائی ہے۔ عیسیٰ ابن مریم 120سال زندہ رہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں 60سال کی عمر میں اس دنیا سے جائوں گا۔ اب یہ جو حدیث ہے اس کا ایک پہلو تو بڑا واضح اور قطعی ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی شمسی سالوں کے لحاظ سے 60سال عمر بنتی ہے اور حضرت عیسیٰؑ کی شمسی سالوں کے لحاظ سے 120سال عمر بنتی تھی۔ قمری سالوں کے لحاظ سے رسولؐ کی عمر ساڑھے باسٹھ سال بنتی ہے اور قمری سالوں کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ کی عمر اس پہلو سے 125سال بنتی ہے ۔ تو شمسی سالوں کا ہم حساب رکھتے ہیں اگر یہ سمجھا جائے کہ اس حدیث کے الفاظ میںکہیں کچھ رخنہ نہیں پڑا بعینہٖ چونکہ ایک روایت کے طور پر قابل قبول حدیث ما نی جاچکی ہے۔ ہمیںبعینہٖ یہ ماننا پڑے گا ۔تو اس حساب سے رخنہ کیا پڑے گا ساری تاریخ انبیاء کی درہم برہم ہوجائے گی کیونکہ رسول اللہ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچنے تک بھی تو بہت سے انبیاء حائل تھے۔لیکن اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک بھی پہنچا جائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر 240سال بن جائے گی۔
پس چاہے کہ شرعی شرط لگائو چاہے غیر شرعی کی شرط لگائو کوئی بات بنتی نہیں اورکسی صورت بھی اس حدیث کے الفاظ کی من و عن پیروی کی جاہی نہیںسکتی ۔ لیکن یہ درست ہے کہ رسول کریم ﷺکی عمر اتنی ہی تھی جتنی اس میں بیان ہوئی ہے اور یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اتنی تھی یہ بھی درست ہے۔ کیونکہ جہاں تک جماعت احمدیہ کی تحقیق کا تعلق ہے وہ صلیب سے خداکے فضل کے ساتھ الٰہی تصرف سے زندہ اُتارے گئے۔ کشمیر کی طرف ہجرت کی اور ایک لمبی عمر پاکر وہاںوفات پائی ۔ تو آپ کا 120سال کاہونا ہرگز بعید از قیاس نہیں۔مگر اگر ہر نبی کی بات اسی طرح مانی جائے جیسا کہ لفظوں میںبیان ہے تو پھر اب سن لیجئے کہ عمروں میں کیا کیا فرق پڑنا شروع ہوجائے گا۔ انبیاء تو بہت سے ہیں۔ ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء آئے ہیں۔ اس پر اگر آپ نے عمریں بنائیں تو ساری کائنات کی عمر سے بار بار ضربیں دیں تب بھی اس سے زیادہ بن جائے گی پرانی نبیوں کی عمر۔ وہ تو پھر ویدک جو تصور ہے نا کہ ویدک دائمی اور قدیمی ہے اس قسم کی بات کوئی بنتی ہے۔ لیکن وہ بات تو چھوڑیں ابھی میں اُس لائن کی بات کرتا ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی بات نہیں صرف نو دس نبی لے لیتے ہیں اور بس۔ اور ڈبل کرکے دیکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر 120سال ، اس سے پہلے جو نبی تھے ان کی عمر 240سال ان سے پہلے جو نبی تھے ان کی عمر 480سال ۔ ان سے پہلے جونبی تھے چوتھے قدم پر960سال تک ان سے پہلے جو پانچویں نمبر پر ان کی عمر 1920بنتی ہے۔ ان سے پہلے جو چھٹے قدم پر تھے کی عمر 3840سال عمر تھی ۔ ساتویں قدم پر جو تھے وہ 7680سال کے بنتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدم کو ہی سمجھ لیاجائے تو حضرت آدم علیہ السلام کی تلاش ہونی چاہیے اس دنیا میں۔ کیونکہ آپ کو گزرے ہوئے 6000سال کے لگ بھگ ہوئے ہیں اور عمر آپ کی بنتی ہے 7680سال یعنی ابھی ان کی 1680سال باقی ہے، تو ان کی تلاش ہونی چاہیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کیوں اُتارا جائے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے کیوں نہ استفادہ کیا جائے۔ وہ زندہ موجود ہیں۔ ایک بیچارے کو تکلیف دی جائے آسمان سے اُتارا جائے۔ زمین پرحضرت آدم علیہ السلام موجود ہیں انہی سے شریعت کا آغاز ہوا انہی کو تلاش کرو۔تو سنیں جائیں گے لطائف حقائق کی بجائے اور انبیاء حقائق کی باتیں کرتے ہیں۔ اورسب سے بڑے حقیقت بیان نبی حضرت محمدﷺ تھے اس لیے احادیث کو جب محض لفظوں کے چکر میں پھنس کر سمجھنے کی کوشش کریں گے تو رسول ﷺ کی ذات سے وفاداری نہیںہوگی بیوفائی ہوگی۔ پس کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا یہ مطلب سمجھو کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک ۔ عدم احترام کے نتیجہ میں ہے۔ یہ خالصتاً احترام کے نتیجہ میں ہے کہ شان مصطفوی سے وفاداری لازم ہے۔ بہ نسبت اس کے ایک راوی کے الفاظ سے وفاداری کی جائے ۔ اس پہلو سے یہ جو حدیث ہے لانرث ولا نورث اس میںیہ ماننا پڑے گا کہ نورث میں خود ہی آپ اپنی ذات میں اکیلے شامل ۔ اور نرث والی بات بعدمیں راویوں نے غلط فہمی سے بیچ میں داخل کردی۔ جس حد تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات بیان فرمائی وہی درست ہے۔ اور اس موقعہ پر کہی جب ورثے تقسیم ہونے کا وقت تھا۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھو رسول ﷺ نے اسے صدقہ کہہ دیا اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس سے اپنی زندگیوں میں استفادہ کرسکتی ہیں۔ تو تما م بیویوں نے تمام ورثاء نے بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ پیغام بھیجا کہ ہم اپنے حق سے اس وجہ سے دستبردار ہوتیں ہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرما دیا تھا۔ اب حدیث یہ ہے باب قول نبیﷺ لا نورث ما ترکنا صدقۃ یہاں دیکھیںلانرث نہیںفرمایا بخاری کی حدیث ہے یہ بھی۔ اس لیے ہر پہلو سے موقع ومحل کی مناسبت سے بھی اور بخاری کی روایت کے اعتبار کے لحاظ سے بھی دونوں جگہ اکٹھی ہیںباتیں کہ روایت بھی مضبوط ہو اور روایت کے لحاظ سے بھی وہی مضمون سمجھ آئے تو پھر ہرگز کسی شک کی گنجائش نہیںرہتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺکی وفات ہوگئی تو آ پ کی ازواج مطہرات نے میراث رسول میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرنے کیلئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجنے کا ارادہ کیا، اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کیا آنحضرت ﷺ نے نہیںفرمایا ہم نبیوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑدیںوہ صدقہ ہے۔
پس یہ جو لفظ ہے ہم نبیوں کا وارث نہیںہوتا یہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام اب مفسرین اور فقہاء مانتے ہیں کہ یہاں رسول اللہ ﷺ اپنی ذات کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں اور یہ چونکہ ایک عظیم بات ہے اس لیے عظمت کے اظہار کے طور پر بھی ہم کہہ دیا جاتا ہے۔ آپ کی اپنی شان یہ ہے ،خدا کے فضل سے آپ کہتے ہیںکہ میں اپنا وارث نہیں بنانا چاہتا کسی کو اورجو صدقہ ہے ۔ یہ میں بحث پہلے اٹھاچکا ہوں اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ صدقہ ہے پھر بھی آل رسول کھارہی ہے۔ مراد یہ ہے میں اس کو جائیداد کو صدقہ کے طور پر دینا چاہتا ہوں جو خدا نے مجھے استفادہ کی اجازت فرمائی ہے، جیسے میں زندگی میں کرتا ۔ ویسے میری وفات کے بعد بھی تم اس سے فائدہ اٹھائو مگر ورثہ کے طور پر نہیںبلکہ مجھے جو حقوق ہیں ان حقوق کا میں یہ استعمال کررہا ۔ اختلاف دین پر اب واپس آتے ہیں۔ اختلاف دین کے معاملہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جو حدیثیں ہیں وہ یہ ہیں۔ لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم بخاری کتاب الفرائض باب لایرث المسلم۔ مسلم کافر کا وارث نہیںہوگا یا ورثہ نہیں پاتا، دو ترجمے ہوسکتے ہیں۔ ایک ہے کہ وارث نہیںہوگا۔ یہ بھی حکم کا ایک طریق ہے ۔ تو جن حالات میں مَیںاس حدیث کو چسپاں دیکھ رہا ہوں یہ ترجمہ مجھے زیادہ مناسب لگ رہا ہے کہ میں بتارہاہوں یہ فیصلہ کہ اب مسلمان کافر کا وارث نہیںہوگا یا اس کا معنی لیں گے لا یرث المسلم الکافر۔ حالات یہ ہیں کہ مسلمان تو کافر کا ورثہ پاتا نہیں ولا الکافر المسلم۔ مگر جو میں بات کہہ رہا ہوں یہ اگلے محاورہ سے یہ ٹھیک نہیں بنے گی واپس جانا پڑے گا ۔ پھر اگر یہ ہوتا نا کہ فلا یرث المسلم الکافر تو پھر وہ بات بنتی جو میں کہنے لگا تھا۔وہ ایک امکان تھا کہ یہ فرمایا ہو ۔میں نے جو اگلا فقرہ پڑھا ہے اس سے وہ بات… پھر وہ … جو ہم چھوتے ہوتے کہتے ہیں نا کہ تھو ماری تو مطلب یہ ہے کہ I will take my words back امکان عقلاً غیر درست نہیں مگر الفاظ اس امکان کے درست ہونے کی اجازت نہیںدیتے اس لیے یہ ترجمہ بنے گا کہ آج کے بعد گویا مستقبل میں۔ یہ نصیحت ہے کہ آج کے بعد مسلمان کافر کا ورثہ نہیں پائے گا اور نہ کافر مسلم کا۔ یعنی ورثہ کے معاملہ میں ہم اس طرح برابری کریں گے۔اب دوسری حدیث کے الفاظ ہیںبات یہی ہے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جو سواء والی بات ہے برابری والی بات ہے۔ وہ اس حدیث میںزیادہ متوازن الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ فرمایا عن عبداللہ ابن عمران النبی ﷺ قال یتوارث اہل الملتین شتی۔ احمد دائود ، ابن ماجہ ، ترمذی وغیرہ ۔ اس میں یہ ہے کہ دو ملتوں والے ایک دوسرے کا ورثہ پاتے ہی نہیں۔ اس حدیث کے الفاظ میں یتوارث میں ایک دوسرے سے جو مناسبت ہے ایک اس کا نہیں پاتا۔ وہ اس کا نہیں پاتا یہ تو ٹھیک لگ رہی ہے مگر اھل الملتین میں اگر یہ مانا جائے کہ عام مضمون ہے تو یہ درست نہیں ہے کون سی ملتیں ہیں جن میں یہ مضمون جاری ہوگا۔ ساری دنیا میں ورثہ کا نظام خون کی طرف سے جاری ہے نہ کہ مذہب کی طرف سے۔ اور صحابہ جب ورثہ پاتے تھے مشرک کا ورثہ بھی پاتے تھے۔ جو مسلمان ہورہے تھے وہ اپنے ماں باپ کا ورثہ لیتے تھے۔ ایک بھی ایسی روایت میرے علم میں نہیں کہ اسلام پھیل رہا تھا اور ہر جگہ مسلمان ہونے والا اپنے والد کے ورثہ کا انکار کررہا تھا۔ تمام ایران اس بات کا گواہ ہے کہ آتش پرست لوگ تھے۔ مگر جو مسلمان ہوئے انہوں نے اپنے ماں باپ کے ورثے پائے ہیں۔ پس یہ بات جو خلاف واقع ہے اس کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ رسول اللہﷺ نے کہا ہوکیونکہ رسول اللہ ﷺ تمام عالم کی مسلمہ تاریخ کو تو بدلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو ہر بات میں اتنا محتاط ہو کہ سچائی کے تمام تر تقاضے پورے ہوں ۔تو وہ ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے کہ ساری دنیا میں یہ رواج ہے کہ کہیں بھی کوئی ملّت دوسری ملّت والے کا نہ ورثہ پاتی ہے اور نہ اس کو ورثہ دیتی ہے۔ اس لیے توازن والا حصہ تو ہے اس کی وجہ سے یہ معنی تو ہوسکتا ہے۔ یتوارث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں کوئی ایک ملت دوسرے کو محروم کرتی ہے وہاں ہمیشہ دوسری ملت کا بھی حق ہوتا ہے کہ وہ پہلی ملت کو محروم کردے، یہ ترجمہ کریں تو یہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ترجمہ ہے۔
پس جب حدیث میں دونوں امکانات موجود ہیں ، چاہو تو تاریخ اور عقل کے خلاف ترجمہ کرلو اور چاہو تو نہایت ہی اعلیٰ درجہ اور پرحکمت ترجمہ کروجس سے مضمون روشن ہوتا ہے اور دنیا کا ہر آدمی اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ یہ اصول ہے لا یتوارث یعنی جہاں بھی کوئی ملت دوسرے کو ورثہ سے محروم کرے گی یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ ملت بھی دوسر ے کو اس کے حق سے محروم کردیا کرتی ہے۔ ایک نیل الاوطار کی حدیث ہے کہ معاویہ نے فرمایا نرث اھل الکتاب ولا یرثون ہم تو اہل کتاب کا ورثہ پائیں گے وہ ورثہ نہیں پائیں گے ہمارا۔ یہ پہلی حدیثوں سے بالکل مخالف ہے اور ناممکن ہے کہ ایسی متضاد باتیں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہوں۔ ایک طرف فرمایا ہو ہم نہ ورثہ پائیں گے اور نہ ورثہ دیں گے۔ دوسری طرف فرمایا ہو ملتیں اسی طرح کیا کرتی ہیں کہ جب آپس میں محروم کرتی ہیں ایک دوسرے کو تو دوسری بھی پھر پہلے کو محروم کردیا کرتی ہیں۔ اور یہاں یہ فرمایا کہ نہیں! ہم نے تو اہل کتاب کا پانا ہے ،جو مرضی کرلیں اور ان کو ورثہ نہیںدینا۔ اور آج کل پاکستان میںیہی قانون جاری ہوا ہوا ہے۔ عجیب و غریب حرکت ہے ۔ اعلیٰ مضمون، قوی تر روایتوں کو چھوڑ کر اعلیٰ کتب کی روایتوں کو چھوڑ کر وہ جو اپنا مطلب پورا کرنے والی بات ہے ۔ اس کو لیتے ہیں ۔ اس لیے یہ خدائی کانفاذ نہیں ہے۔ انسانی انا کا نفاذ ہے، یہ مولویوںکا اپنا تکبر ہے۔ کہ شریعت کے نام پر لوگوں کی گردنیں جھکانے کے اوپر تلا بیٹھا ہے، اپنے سامنے خدا کے سامنے نہیں۔ اگر خدا کے سامنے جھکانی ہوں تو ان احادیث کے بعد اس کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ اب رہا یہ سوال کہ دائمی ہے یا وقت کے ساتھ محدود ہے۔ میرے نزدیک قطعی طور پر یہ جنگی حالت کے ساتھ محدود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول قرآن کریم میں اختلاف دین کی بناء پر حق وراثت سے محرومی کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ۔پڑھ لیں جتنی دفعہ مرضی۔ جو آیتیں آپ کے سامنے پڑھی ہیں، وہاں خونی تعلق کی بحثیں تو اُٹھی ہیں لیکن دین کی وجہ سے نہ کوئی وارث بنتا ہے نہ ورثہ سے محروم ہوتا ہے۔ اشارۃً بھی نہیں۔پھر تمام احکامات بنی نوع انسان کو ہیں اور عمومی طور پر انسانیت کی باتیںہورہی ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو ورثہ کا معاملہ ہے یہ ایک بنیادی حق ہے جہاں کوئی اس بنیادی حق سے محرو م کردے گا وہ خود بھی محروم ہوگا۔ یہ توازن کا قانون ہے دوطرفہ انصاف کا قانون ہے۔ اس کے سوا اس کی اجازت نہیںہوسکتی۔کیونکہ قرآن سے متصادم احادیث کا ترجمہ کرو گے تو پھر یہ فیصلہ کرو گے کہ ہم حدیثوں کو تو چنتے ہیں کیونکہ بخاری میں موجود ہے قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ حدیثوں سے ٹکرائو ہوتا ہے۔ اس کی بجائے حضرت امام رازی والا وہ مسلک کیوں اختیار نہیں کرتے کہ ہم ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلاف سے شرماتے ہیں ۔ اگر حدیثوںکو من و عن وہی سمجھ رہے ہو تو کم سے کم یہی کہہ دو کہ ہم قرآن سے اختلاف سے شرماتے ہیں۔ پھر کوئی عذر نہیںہے۔ تو مَیں تو ان میںسے ہوںجو قرآن سے اختلاف سے شرماتا ہے اور قرآن کریم اس موضوع پہ یہ باتیں کرتا ہے۔ (۱)قرآن کریم میںکہیں بھی کوئی لفظ ایسا نہیں جو اختلاف دین کی وجہ سے کسی کو محروم کرتا ہو۔ بلکہ آیت میراث میں اس طرح کے محاورے ہیں للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مردوں کیلئے ، لوگوں کیلئے حصے مقرر ہیں۔ اس میں جو والدان اور اقربون نے چھوڑا وللنساء اسی طرح عورتوں کیلئے بھی۔ یوصیکم اللہ فی اولاد کم تمہاری اولاد کے متعلق تمہیں اللہ تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے اس میںدین کے اختلاف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ولکم نصف ما ترک ازواجکم اس میں دین کے اختلاف کا کوئی ذکر نہیں ۔ اب یہاں پہنچ کر جو علماء اس مسلک کے یہاں لندن میں بھی موجود ہیں وہ بتائیں کہ کسی کی اگر مشرکہ بیوی سے شادی ہوئی ہوئی ہو یا انگریز عورت سے شادی ہوئی ہوئی ہو جو اہل کتاب میں سے ہو تو اس کے مرنے پروہ آدھا لیتے ہیںکہ نہیںاس کا حصہ۔ مولوی کیوں نہیں فتوے دیتے کہ تم جب بھی لو گے دائرہ اسلام سے باہر نکل جائو گے۔پھر مسجدوںمیں ان کو گھساتے کیوںہو ۔ پھران سے چندے بھی مانگنے جاتے ہیں۔ اور چپ کرکے زبانیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تمام عالم میںجہاںاسلام پھیل رہا ہے، غیروں کا حصہ پایا جارہا ہے۔ اس حدیث کے ظاہری الفاظ کے مخالف اورجہاں تک اپنے حصے کا تعلق ہے جہاں زور لگتا ہے وہاںدوسرے کو محروم کردیتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے۔یہ تعلیم ہے قرآن کریم کی؟ اس لیے جو معنی تم لو گے حدیث کے کوئی بھی معنی لو گے جو قرآن سے ٹکرائیں گے وہ تمہیںمجرم قرار دیں گے۔ آگے دیکھیں ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان والاقربون۔ ہر ایک کو ہم نے حقدار بنادیا ہے۔ کوئی بحث نہیں مسلمان یا کافر کسی چیز کی پھر کیوںایسا ہوا ہے۔ اس پر روشنی ڈالنے والی آیت میں پڑھ کر سناتا ہوں ۔ حدیث قرآن سے تو ٹکراسکتی ہی نہیں مگر جب واضح طور پر احکام ملتے ہیں تو ہم ان کو بھی قبول کریں گے اور کوئی ایسی صورت نکالیں گے جس سے تصادم دور ہو۔ اور یہ ہمارا فرض ہے اور بجائے اس کے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ ہم قرآن کو تو قبول کریں گے مگر رسول اللہ ﷺ کی حدیثوںکو چھوڑ دیں گے۔ یہ بھی اصل میںگستاخانہ کلام ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوگا کہ حدیث تھی تو سچی مگر ہم نے اس کوغلط قرار دیا گویارسول اللہ ﷺ کو قرآن کا علم نہیں تھا۔ یہ مسلک اختیارکرنے والا تو عملاً رسول اللہﷺ سے تعلق کاٹ ہی لے گا۔ نہ قرآن اس کا رہے گا نہ رسول اس کا رہے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ ایک صورت ہے کہ یا حدیث کو ردّ کیا جائے اس بنا پر کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا کلام ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ تضاد نہیں ہے۔ یا وہ معنے تلاش کیے جائیں جن معنوں کی رُو سے تضاد دور ہوجاتا ہے۔ اور حدیث کا مضمون عین قرآنی مفاہیم کے مطابق اُترتا ہے ۔ یہ دوسرا طریق ہے جو میں نے پسند کیا اور اس کے مطابق اب میں آپ کو دلیل دے رہا ہوں کہ اس حدیث کا معنیٰ ان مخصوص حالات میں سمجھا جانا چاہیے جو اُس وقت رائج تھے۔ مسلمانوں کی کفار سے لڑائی جاری تھی کفار بعض معاملات میں زیادتی کرتے تھے۔ قرآن کہتا تھا اُتنی زیادتی کی تمہیں بھی اجازت ہے ۔ ورثہ میں بھی ان کی زیادتی ثابت ہے۔ اس لیے رسول کریم ﷺکا یہ فرمانا عین قرآن کے مفہوم کے مطابق تھا۔ لیکن اُن حالات میںجو اس وقت رائج تھے اگر ایسے حالات آئندہ ہوں گے پھر یہی حکم اسی طرح صادر ہوجائے گا۔ کیونکہ بعض احکامات مشروط ہوتے ہیں خواہ شرط کو لفظوں میں ظاہر کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اب سنیے لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم عن تبروھم و تقسطوا الیھم (الممتحنہ:۹)۔ کہ دیکھو تمہیں جو اللہ نے کہا ہے کہ اُن سے دوستیاں نہ کرو ان سے تعلقات نہ بڑھائو ، اُن کے ساتھ یہ نہ کرو وہ نہ کرو ۔ یاد رکھو لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم ان لوگوں کے متعلق اللہ ہرگز تمہیں منع نہیں فرمارہا جنہوں نے تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کی۔ کیا منع نہیں فرمایا فی الدین اورلڑائی بھی فی الدین نہیں کی۔ دین کے معاملات میں ولم یخرجوکم من دیارکم اور تمہیں انہوں نے اپنے گھروں سے نہیں نکالا۔ اور اہل مکہ جو تھے انہوں نے گھروں سے بھی نکالا تھا۔ دین میں لڑائی بھی کی تھی عن تبروا ھم و تقسطوا الیھم ایسے لوگوں سے ہرگز منع نہیں کرتا کہ ان سے حسن سلوک کرو۔ نیکی کرو ان کے ساتھ اور انصاف کا معاملہ کرو۔ جب خدا یہ فرمارہا ہے تو پھر وہ جو مضمون ہے دین کے ساتھ وراثت کو باندھنا یہ تو انصاف کے عالمی تصور ہی سے متصادم ہے کجا یہ کہ نعوذ باللہ من ذالک رسو ل اللہ ﷺ نے یہ نظریہ پیش کیا ہو جب کہ قرآن نہیںکررہا ۔
پس صاف دونوں مضامین کی صلح اس بات پر ہوگی کہ رسول کریم ﷺنے ایسی آیات کی روشنی میںجہاں جہاں زیادتیاں کی گئی تھیں دشمن کی طرف سے ۔ ان کی بعض موقعوں پر مسلمانوںکو اجازت دی ہے گویا کہ وہ بھی فوراً نہیںدی ایک وقت تک صبر سے کام لیا ہے ۔ جب دیکھا کہ دشمن اس حسن سلوک سے فائدہ نہیں اٹھارہا اور زیادتیوں پر تلا بیٹھا ہے تو فرمایا ٹھیک ہے اب تم بھی اسی طرح کرو ۔ پھر قرآن کریم فرماتا ہے وان جاھدک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما و صاحبھما فی الدنیا معروفا واتبع سبیل من اناب الی (لقمٰن:۱۶)۔ اگر وہ تجھ سے لڑیں یعنی مشرک ماں باپ اگر وراثت کے معاملہ میں محرومی ہے تو دوسرے زندگی کے معاملات میں لین دین اور حسن سلوک میں اور ذمہ داریاں ادا کرنے میں محرومی کیوں نہیں رکھی گئی، ثابت کرتی ہے یہ بات کہ دین کے اختلاف کی وجہ سے اگر مشرک ماں باپ بھی ہوں تو اُن کو اُن حقوق سے محروم نہیںکرتا۔ اختلاف دین جو ماں باپ کے اولاد پر ہوتے ہیں فرمایا ہے وان جاھدک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم اگر وہ تم سے اس بات پر جھگڑا کریں کہ تم باوجود اس کے کہ تمہیں کوئی علم نہیں کہ خدا کا کوئی شریک ہے ، پھر بھی تم خدا کے شریک ٹھہرائو تم جانتے ہو کہ اس کا کوئی شریک نہیں وہ کہتے ہیں کہ نہیںشریک ٹھہرائو۔ فلا تطعھما تو ان کی پیروی نہیںکرنی۔ و صاحبھما فی الدنیا معروفا لیکن دنیا میں ان کے ساتھ معاملہ کرو۔ یعنی صاحبھما کا مطلب ہے اُن کے رفاقت کے حقوق ادا کرو۔ معروفاً عمدہ طریق پر، معروف طریق پر ۔ واتبع سبیل من اناب الی اور پیروی کر اس کے طریق کی۔ اس معاملہ میں جو میری طرف جھکتا ہے۔ جس طرح وہ ماںباپ سے حسن سلوک کرتے ہیں جو میری طرف جھکتے ہیں ۔ ویسا ہی اس مشرک سے بھی حسن سلوک جاری رکھو۔ اب بتائیں ایسی عظیم الشان تعلیم ، ایسی عالمگیر اور انسانی فطرت کے عین مطابق، اس میںگنجائش کہا ں رہ جاتی ہے۔ دائمی طور پر اختلاف دین کی وجہ سے ایک دوسرے کو محروم کرنے کی۔ ایسے ماں باپ جو ایک بیٹے پر بناء رکھتے ہیں اپنی بقاء کی جب تک وہ زندہ ہے شرک کے باوجود بیٹے کو قرآن کریم پابند کرتا ہے کہ ان کے سامنے اُف تک نہیںکرنی ، اُن کے تمام حقوق ادا کرنے ہیں، ان پر اپنی رحمت کے پر جھکانے ہیں اور آنکھیں بند کرتے ہی کہتے ہیںجائو مرو اکیلے ہی جس طرح مرضی! اب اُس زمانے میںتو بڈھوں کیلئے گھر بھی نہیں ہوتے ۔ آجکل تو انگلستان اور امریکہ وغیرہ میںold housesبنے ہوئے ہیں وہ بیچارے پرانے بڈھے کہاں جاتے اگر یہی تعلیم تھی۔تو اس لیے یہ تعلیم یہ نہیں ہے۔ وہ مجبوری ہے اس زمانے کے اختلافات کے حالات کی جو اتنے سنگین ہوتے جاتے تھے کہ بنیادی حقوق سے کفار مسلمانوں کو محروم کررہے تھے۔ لیکن جہاں یہ نہیںتھا وہاںرسول کریمﷺ نے کبھی محروم نہیںفرمایا صرف شرک کے متعلق ہے ۔ پھر فرمایاوالمحصنت من المومنات والمحصنت من الذین اوتوالکتاب من قبلکم۔ اذا اتیتموھن اجورھن ۔ والمحصنت من المومنات والمحصنت من الذین اوتوالکتاب من قبلکم۔۔ وہ محصنات بھی جو اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہیں ان کے بھی حقوق ہیں کہ جب تم انکو اجور دے دو تو تم ان سے واپس نہیںلے سکتے ہو۔ تو وہ عیسائی عورتیں یا یہودی عورتیںجن سے مسلمان شادی کرتے ہیں اُن کی زندگی میں تو حقوق اتنے سختی سے قائم کیے گئے ہیں صرف اولاد کی باتیں یہ کرتے ہیں۔ جب ایسے لوگ مریں گے جن کی بیویاں اہل کتاب میں سے ہوں تو کیا یہ مسلک لیں گے کہ وہ ان کا ورثہ نہیں پائیں گی ، ورثہ نہیں پائیں گی تو اجور کیسے دیے جارہے ہیں۔ اُن کے حقوق کا اِس تفصیل سے خیال کیوں رکھا جارہا ہے۔ تو قرآن کے بنیادی مسلمہ اصول۔ قرآن کی روح سے متصادم حدیث تو نہیں ہوسکتی مگر ترجمے ہوسکتے ہیں ۔اس کا پیغام جو تم سمجھتے ہو وہ متصادم ہوسکتا ہے۔
پس ان معنوں میںوہ تمام احادیث قبول مگر اس شرط کے ساتھ کہ قرآن کریم نے جو انسانی معاملات کی واضح کھلی بین تعلیم دی ہے اس کے دائرہ میں اس کا ترجمہ کرو ۔ تو صرف یہ بنے گا کہ جہاںغیر تم سے یہ سلوک کریں وہاںتمہیں حق ہے کہ یہی سلوک کرو۔ اور یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمہیں پابند کررہا ہے کہ تم ایسی صورت میں بھی اُن کو ورثہ دو۔ جب کہ تمہیں وہ ورثہ سے محروم کرتے ہیں۔ اگر وہ کرتے ہیں تو تمہیں بھی اجازت ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی معنی نہیں سمجھا جاسکتا اور بنیادی دائمی اصول یہ ہے۔ ان اللہ یامرکم بالعدل والاحسان و ایتایٔ ذی القربیٰ ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انما ینھکم اللہ عن الذین قٰتَلُوکُم فی الدین و اخرجوا کم من دیارکم و ظاھرواعلی اخراجکم ان تولوا ھم ۔ ومن یتولھم فاولئک ھم الظلمون ۔ ان لوگوں سے بہر حال قطع تعلق کرنا ہے جو تمہارے قتل کے درپے ہیں اور دین کی وجہ سے تمہیںقتل کرتے ہیں۔ گھروں سے نکال دیتے ہیں اور تمہارے نکالنے کیلئے جو ظالم کوششیں کرتے ہیں ان سب کی مدد کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔ ظاھروا لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ علی اخراجکم ۔ ان تولوھم اُن سے معاملہ حسن و احسان کا اُس حد تک چھوڑ دو اس سے زیادہ کی تمہیں اجازت نہیںہے (اچھا جی دو تین منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ تو اگلی آیت تو نہیںابھی ہوسکتی۔ واقعی اوہو معاف کرنا پھر تو پانچ چھ منٹ پہلے بتانا چاہیے تھا۔ و ان کانوا اکثر من ذالک۔ یہ ہوچکا ہے؟ پھر آخری کون سا باقی ہے۔ اچھا اچھا۔ یعنی جو پرانے بزرگوںنے تفسیریں کی ہوئی ہیں۔ ان کی بحثیں کچھ باقی ہیں کہتے ہیں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توبات ہوچکی ہے یہ پہلے۔ اور کوئی ہے اس میں بات)۔ صرف وصیت اور دَین کی بحث ہے جو نئی اٹھی ہوئی ہے یہاں ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں خداتعالیٰ نے ان تمام موقعوں پر وصیت اور دَیْنکی ادائیگی کو پہلے رکھا ہے یعنی جو وصیت کی جائے اس کو اہمیت دی ہے۔ اُس وصیت پر جو قانون بن چکی ہے اور پہلے وہ ادا ہوگی اور اسی طرح قرض کے اتارنے کو اوّلیت دی ہے یہ قاعدہ نہیں پہلے رکھا ہے اس کے بعد حصول کی تقسیم کا حکم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مرنے والے کے سر پر جس قدر قرضہ ہے اسی قدر اس کی جائیداداپنی نہیں۔یہ ظاہر بات ہے کہ جو قرضہ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس نے جوکھایا ہے وہ اپنی زندگی میں وہ جائیداد کھا چکا ہے۔اب وہ اس کی ہے ہی نہیں۔اس لئے جس کی ہے اس کو واپس کرو چونکہ یہ مال اس کا حصہ ہی نہیں اس لئے تقسیم نہیں کر سکتے۔پھر وصیت بہت سے حقوق اور تعلقات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔اس لئے اس کے ادا کرنے کا ہی پہلے حکم فرمایا ہے۔
یہ جو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ایک درس کے دوران۔ تو دَین والی بات تو بالکل صاف سمجھ آگئی اب دوسرا جو پہلوہے کہ وصیت بہت سے حقوق اور تعلقات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے یہ پہلو جو ہے یہ کچھ ابھی مزید تشریح کا طالب ہے۔جو خدا تعالی نے قانون وصیت جاری فرمایا ہے اس پر بھی تو یہی بات صادق آتی ہے کہ بہت سے حقوق کو پیش نظر رکھ کر جاری فرمایا ہے تو اس کو پہلے کیوں نہ اولیت دی جائے۔ اصل میں میرے نزدیک وہی اصول ہے جو بار بار ان باتوں سے سامنے ابھرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی زندگی میں ملکیت کے حق دیے ہیں اور غیر کو اس کی ملکیت کا حق نہیں دیا۔ پس اگر 1/3سے زیادہ کی اجازت اب معروف ہے کہ نہیں دیتے تو صرف اس لیے کہ خداتعالیٰ نے جو معین حصے کردیے ہیں اُن پر اثرنہ پڑے۔ مگر باوجوداس کے اُس کے ذاتی ملکیت کے حق کو پھر بھی قائم رکھا ہے۔ پس وہ جو بطور مالک اپنی زندگی میں حق دے چکا ہے اس کا بھی دراصل قرضے کا حکم ہے۔ گویا قرضہ کی طرح ہے جو اس نے دَین کردی۔ کسی کو زبان دے دی کہ یہ میری چیز ہے میں تمہیں دیتا ہوں مگر میرے مرنے کے بعد ملے گی۔ تو گویا یہ وہ دے بیٹھا ہے۔ عدۃ المومن کاخذ الکف والی بات ہے کہ مومن کا وعدہ ایسا ہے کہ گویا ہتھیلی میں آگیا، مٹھی میںپکڑا گیا۔ میرے نزدیک یہ وجہ ہے کہ وصیت کو دوسری وصیت پر جو مرنے کے بعد اُن کا حق بنے گی۔ اُس مالک کے حق پر فوقیت نہیں دی گئی جو اپنی زندگی میں اپنے حق کو کسی کے حق میں استعمال کر بیٹھا ہو۔تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :ٹھیک ہے تم اپنی ملکیت کا حق بیشک استعمال کرو ، یہ پہلے ادا ہوجائے گا پھر جو اُن کے حقوق ورثہ کے طور پر ہیں وہ جاری ہوں گے۔ مگر یہاں سوال ہوا حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کہ دَین پر وصیت کو کیوں مقدم رکھا گیا یعنی قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں من بعد وصیۃ اودین۔ وصیت کے بعد یا دَیْن کے بعد تو دَین اور وصیت کیوں نہیں فرمایا۔ اگر دَین کو ایسی اہمیت ہے کہ اس کی مِلک ہی نہیں ہے تو مِلک والی بات تو بعد میں کرنی چاہیے تھی جو اپنی مِلک کو دے رہا ہے۔ جو مِلک اس کی ہے ہی نہیں اس کو پہلے خارج از امکان شروع کردینا چاہیے تھا۔سمجھے ہیں دلیل کہ نہیں(مبارک صاحب کچھ تھوڑی سی آنکھوں میںنیند سی آئی ہوئی ہے۔ کیا بات ہے۔ ٹھیک ہے اچھا)۔ جواب میں فرمایا چونکہ دَین والا تو موجود ہوتا ہے مگر وصیت جن کے متعلق کی جاتی ہے اُن کے پاس روپیہ حاصل کرنے کا کوئی ثبوت اور ذریعہ نہیں ہوتا۔
اب یہ بات جو ہے یہ کچھ سمجھ نہیں آئی بات کی ، کم از کم میں نہیں سمجھ سکا۔یاممکن ہے جس نے روایت لکھی ہے وہ نہ سمجھ سکا ہو۔ غالباً یہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ دَین پر وصیت کو مقدم یا وصیت کو دَین پر مقدم کیا ہی نہیں گیا۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔ من بعد وصیۃ اودین۔ چونکہ وصیت اور دَین میں یہ نہیں ہے کہ پہلے وصیت ادا کرو پھر دَین اداکرو پھر وہ۔ یہ مراد ہی نہیں ہے۔ ایک بریکٹ ہے صرف۔ وصیت کو پہلے اس لیے رکھا گیا ہے میرے نزدیک کہ عام طور پر مسلمان قرض چھوڑ کر نہیں مرا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ قرض اُٹھا کر مرنے کو اتنا ناپسند فرماتے تھے کہ مسلمان سوسائٹی سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اکثر قرض چھوڑ چھوڑ کر مرتی رہے اور واقعۃً ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بعض دفعہ اگر کسی کی جائیداد سے قرض ادا نہ ہوسکتا ہو تو رسول اللہ ﷺ ادا کردیا کرتے تھے اور ہدایت بھی تھی کہ قرض کو ادا کرنا ہے۔ اس لیے قرض کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور متاثر نہیںہوتی یہ ایک بریکٹ ہے۔ترتیب ادائیگی کی نسبت کی نہیں ہے۔دَین تو تقسیم ہو ہی نہیں سکتا۔ نہ وصیت میں نہ کسی اور چیز میں۔ مگر مرنے سے پہلے جو بالعموم واقعہ ہونے والاہے وہ یہ ہے کہ وصیت ہوگی۔ وصیت اکثر نے کرنی ہے اور قرآنی حکم بھی ہے کہ وصیت کیا کرو۔ بعض لوگوں کے حق میں۔ تو اس لیے وصیت ایک عام قاعدہ ہے جس کا اطلاق طبعی طور پر اکثر بلکہ غالباً ہر صورت میں ہوگا۔لیکن دَین ایک استثنائی معاملہ ہے۔ پہلے عام قاعدہ کی بات فرمائی پھر دَین کی۔ لیکن جہاں تک اُن کی اولیت کا تعلق ہے دونوں ایک ہی بریکٹ میں ہیں۔ ایک دوسرے کی باہمی فضیلت کی بحث نہیں۔
ٹھیک ہے باقی پھر سہی۔ اچھا یہ ریسرچ گروپ کے سپرد پھر تلاش کی جائے حضرت آدم کی۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ وہ کریں جن کی عادت ہے۔ رسول کریمﷺ کے معنے کو بگاڑ کر پیش کرتے ہیں ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ مولویوں کو چاہیے تلاش کریں۔ کیونکہ وہ ظاہری معنوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سوچتے ہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایسی (نعوذ باللہ) باتیں کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے ہماری جماعت کا جہاں تک تعلق ہے ہمارے لیے سب معاملہ ٹھیک ہے۔ حل ہے۔ ہم رسول اللہﷺ پر راضی۔ رسول اللہ ﷺہم پر راضی (ٹھیک ہے) ۔ السلام علیکم
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ23؍رمضان بمطابق13؍ فروری 1996ء
ولکم نصف ماترک ازواجکم …………واللہ علیم حلیم۔
اس آیت کے اوپر سوائے بعض حصوں کے جن کا شیعہ موقف سے تعلق ہے پہلے کسی حد تک بحث ہوچکی ہے۔ جوشیعہ موقف ہیں ان کا زیادہ تر بیان میر احمد علی کی تفسیر میں ملتا ہے اور آغا پویا کے اعتراضات اس کے ساتھ ہیں۔ ان کے متعلق جو بھی میں نے بعض نشان لگائے تھے بعض ان کی مبینہ روایات ہیں جن کے متعلق خصوصیت سے تحقیق کیلئے کہا تھا۔ بعض اور باتیں طلب کی تھیں مرکز سے علماء سے تو انہوں نے بڑی محنت سے اچھے نوٹس بھجوائے ہیں مگر ابھی میری تشنگی دور نہیں ہوئی۔ کچھ ایسے ضمنی سوال اٹھتے ہیں جن کے متعلق میں ابھی مطمئن نہیں ہوں۔ اس لیے میں نے پرائیویٹ سیکرٹر ی صاحب کو لکھادیئے ہیں۔ جب ان کی طرف سے وہ سب جواب آجائیں گے اور اصل روایات تو انشاء اللہ پھراس بحث کو بعد میں چھیڑدیں گے یعنی ہم آگے چلیں گے اب جب وہ آجائیں گے کسی وقت درس کے دوران انشاء اللہ اس کوپھر دوبارہ لیں گے۔اب پرائیوٹ سیکریٹری صاحب نے مجھے ابھی متوجہ کیا ہے کہ بعض نوٹس جو گذشتہ مفسرین کے ہمارے نوٹس کے اندر شامل تھے ان کا ذکر نہیں آیا۔ اگرچہ عموماً وہ باتیں ہو چکی ہیں اس لئے احتیاطاً وہ نوٹس ساتھ نتھی کردئے ہیں تاکہ ان کو دیکھ لوں اگر کوئی بات ایسی قابل ذکر ہو جو کل یا اس سے پہلے مذکور نہ ہوئی ہو تو وہ آپ کے سامنے رکھ دوں۔ علامہ آلوسی نے جوورثہ کے سلسلے میں تعلقات کی بحث اُٹھائی ہے وہ یہ کہتے ہیں یہ وارث کامیت کے ساتھ ذاتی بلا واسطہ تعلق ہوتا ہے یا بالواسطہ، دونوں ہوتے ہیں۔ بالواسطہ تعلق نسب یا زوجیت کی بنا پر ہوگا اس طرح تین اقسام ہوئیں۔ اصل ورثاء کی۔ ان میں سے ارفع تعلق نسب یعنی ولادت کے نتیجہ میںقرابت کا تعلق ہے جس میں اولاد اور والدین داخل ہیں۔ یہ اوپر کے رشتے اور نیچے کے رشتے ۔ دوسرا تعلق ہے جوزوجیت کے اعتبار سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اولاد کے ماں باپ توہوتے ہیںوہ مگر آپس میں میاں بیوی ہوتے ہیں۔ تو اس تعلق کو بھی وصیت کی بناء قرآن کریم نے رکھا ہے۔ گویا یہ دو قسمیں ہوگئیں۔ تیسرا تعلق وہ ہے جو کسی غیر کے واسطہ سے حاصل ہوتا ہے، اسے کلالہ کہتے ہیں۔ یعنی براہِ راست نہ اوپر کا رشتہ ہے نہ نیچے کا رشتہ نہ زوجیت کا رشتہ۔ یہ تو تین بنیادی وصیت کے رشتے ہیں جن میں حقیقت میں حق ملنا چاہیے۔ حق ملتا ہے اور قرآن کریم نے انہی کو بنیادی اور اہم قرار دیا ہے۔ باقی ہیںپہلو کے رشتے ہیں ان کی بحث کلالہ کے دوران ان کے نزدیک اُٹھائی گئی ہے۔ کہتے ہیں
’’ اولاد، والدین، خاوند اور بیویاں کلی طور پرورثہ سے محروم نہیںہوتے۔ جبکہ کلالہ بعض اوقات کلی طور پر محروم ہوجاتا ہے۔ پہلی دونوں قسموںمیں سے ہر ایک کا میت کے ساتھ براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔جبکہ کلالہ کامیت سے تعلق کسی واسطہ کے ذریعے ہوتاہے۔ پس آغاز کی وجہ سے جو موجود ہے وہ کسی واسطہ سے آنے والے سے اعلیٰ ہے۔ انسان کا والدین، اولاد، بیویوں اور خاوند سے زیادہ ملناکلالہ کی نسبت ظاہر و باہر ہے۔ کثرت میل ملاپ، باہمی قرابت شفقت پیداکرتا ہے اور ……… ‘‘
یونہی یہ کوئی خاص بات ایسی نہیں ہے جو پہلے بیان نہ ہوگئی ہو۔ بنیادی بات یہی ہے کہ تین قسم کے ورثے ہیں ایک جو ماں باپ سے اولاد پائے۔ جو اولاد سے ماں باپ پائیں ان کا زندگی میں ایسا جوڑ ہے کہ جو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتا اور لازماً ایک دوسرے کے سہارے پر ہیں۔ کون کس کے زیادہ قریب ہے؟ کون کس سے زیادہ فائدہ اُٹھائے گا؟ خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مگر دائمی اقتصادی یونٹ جو بنا ہوا ہے وہ ماں باپ، اولاد ۔ اولاد ، ماں باپ ۔ اور بیچ میں جو وجہ بنی ہے اولاد کی وہ رشتہء ازدواج ہے اس کو بھی خداتعالیٰ نے بیچ میں داخل کرلیا۔ تو یہ ہیںبنیادی شریعت کے خطوط جو ورثہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بعد میں جب ان میں سے رخنہ پیدا ہوتا ہے ، بعض خصوصی حالات پیدا ہوں تو ورثہ اوپراورنیچے سے حرکت کی بجائے دائیں بائیں حرکت کرتا ہے۔ اس حرکت میںکلالہ کی بحث اٹھائی گئی ہے کہ کلالہ اس وقت ورثہ کے مضمون میں زیر نظر آئے گا۔ جب مجبوراًنہ اوپر کوئی لینے والا رہ گیا ہے نہ نیچے کوئی ہے، تواُس جائیداد کو آگ تو نہیں لگائی جاسکتی۔ کیا کیا جائے؟ پھر اس کو پہلوئوں کی طرف تقسیم کردیا جائے گا۔ یہ مضمون ہے جو خلاصۃً پیش کیا جاسکتا ہے اور اسی کی لمبی بحث انہوں نے اُٹھائی ہے۔
ایک صاحب ہیں اُنہوں نے یہی بحث شروع کردی ہے کہ مردوں کی عورت پر فضیلت کی دلیلیں ہیں یہ ساری۔ کہ خدا نے مردوں کو زیادہ مخاطب کیا عورت کو کم مخاطب کیا۔ عورتوں کو بالواسطہ مخاطب کیا مرد کو براہِ راست مخاطب کیا۔ اس لیے ورثہ سے جو اصل بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مرد افضل ہے اور عورت کم درجہ ہے۔ یہ اُوٹ پٹانگ بحثیں ہیں ان کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔حدیث نبویؐ ہے اسی تعلق میںجو مَیں نے ابھی بیان کیا تھا کہ ورثہ کی روح کیا ہے؟
عن ابن عباس قال کان المال لولاد وکانت الوصیۃ للوالدین فنسخ اللہ من ذالک ما احب فجعل للذَکر مثل حظ الانثیین فجعل للذکرین لکل واحد منھما السدس والثلث و جعل للمرء ۃ الثمن والربع وللزوج الشطر والربع
( بخاری کتاب التفسیر )
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ میت کا سارا مال اولاد کو ملاکرتا تھا پہلے زمانوں میں۔ یعنی اس سے پہلے کہ یہ وصیت کی آیت نازل ہوتی میت کا سارا مال اولاد کو مل جاتا تھا۔ اور ماں باپ کو وہ ملتا جو میت ان کیلئے وصیت کرجائے۔ اگر بیٹا یا بیٹی باپ کے حق میں وصیت نہ کریں تو باپ کو کچھ نہیں ملتا تھا یا ماں باپ کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رواج میں سے جو چاہا منسوخ فرمادیااور مرد کو عورت کا دہرا حصہ دلایا۔ اور ماں اور با پ ہر ایک کو چھٹا حصہ اور تہائی حصہ۔ اور جوروکو یعنی بیوی کو آٹھواں یا چوتھائی حصہ او رخاوند کو آدھا یا پائو حصہ ۔ تو یہ مرکزی حصے ہیں جو بخاری نے بیان کئے ہیں۔ امام رازی نے دو اور ایک کی بحث چھیڑتے ہوئے اس کی حکمتیں جوبیان کی ہیں… یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں جو پہلے نہ ہو چکی ہو، مذکور نہ ہوئی ہو۔ ہاں ایک شیعہ فقہ کی ایک عجیب سی بات ہے جو آپ کے سامنے رکھنی چاہیے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ان کے پاس کیا دلائل ہیں اور ان دلائل میں کیا نقص ہے۔ صرف آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔ سید علی نقوی شیعہ تفسیر فصل الخطاب جلد 2صفحہ 159ایک بات فقہ جعفریہ کے مفردات میں سے ہے وہ یہ کہ زوجہ کو زمین میں سے بالکل حصہ نہ ملے گا اور زمین کے علاوہ جائیداد غیر منقولہ جیسے جملہ مکانات اور اشجار وغیرہ اس میں بھی اصل جائیداد سے حصہ نہیں ملے گا۔ مگر قیمت کا حساب لگاکر اس کا چوتھا یا آٹھواں حصہ دیا جائے گا۔ بیشک نقد یا جنس اشیائے منقولہ جتنی ہوں اُس میں حصہ پائے گی۔ یعنی یہ جو ان کا موقف ہے یہ واضح ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ملحوظ رکھ کراُنہوں نے ایک فقہ ایجاد کی ہے کہ آنحضرتﷺ کی ازواج کو کچھ بھی نہیں ملنا چاہیے۔ کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ صرف اولاد کو ملے گا۔ اگر بیویاںرہ گئی ہیں تو ان کو اگر زمینیں ہیں تو۔ زمینوں میںتو حصہ پاہی نہیںسکتیں۔ اگر رہنے کے مکان وغیرہ ہیں تو اس کی قیمت کا اندازہ لگا کر ان کا آٹھواں حصہ دے کر ان کو مکانوں سے بھی باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اس مسلک کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ نہیں چلا۔ کیونکہ امہات المومنین تو اپنے اپنے مکانات میں اسی طرح رہیں بھی اور مالک بھی رہیں۔ یہ ایک اور بات ہے جو ضمناً بیان کرنی ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ کی زندگی میں جتنے بھی مکانات تھے جن کا قرآن کریم میں حجرات اوربیوت کے الفاظ سے ذکر ملتا ہے ، ان میں جو بھی امہات المومنین جہاں رہیں وہ ان کی ملکیت سمجھی گئی۔اور اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس مکان میں رہتی تھیں وہ ان کی ملکیت سمجھی گئی۔ اوریہ کبھی بحث اُٹھی ہی نہیں کہ ان کو اُن کی وفات کے بعد حق سے محروم کرتے ہوئے یہ چیزیں واپس لے لی جائیں۔ کہیں بھی تقسیم کی اسلامی تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ہاں مفسرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں۔ مفسرین نہیں جو بھی فقیہہ ذکر کرتے ہیں اس کاکہ یہ مستثنیٰ تھا۔ یہ زندگی ہی میں آنحضرت ﷺ نے ان کو گویا ہبہ کے طور پر دے دیا تھا۔ پس ہبہ کے تعلق میں یہ واضح بات ہے جب ایک دفعہ دے دیا جائے تو اس سے واپس نہیں لیا جاسکتا اور ہبہ اور ورثہ اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے۔ ایک طرف کسی چیز کو ہبہ کہا جائے اور دوسری طرف اس چیز کا ورثہ میں مطالبہ کیا جائے یہ ناممکن ہے۔ یہ بھی ایک شیعہ طرز استدلال میں ایک سقم ہے جس کو ابھی سے مَیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں ۔ جو روایتوں کی بحث ہے وہ بعد میں ہم چھیڑیں گے پھر انشاء اللہ۔
شیعہ روایات یہ کہتی ہیںکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حق حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلب کرلیا اور ایک طرف یہ کہتی ہیں روایات کہ وہ وارث تھیں۔ اور ورثہ سے محروم کیا گیا۔ دوسری طرف کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں وہ ہبہ کردیا تھا اور ہبہ کے حق سے ان کو محروم کردیا گیا۔ تو اگر ہبہ تھا تو پھر ورثہ کیسے بن گیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملکیت بن گیا تھا اگر ہبہ تھا اور اُ سے رسول اللہﷺ کے وصال یا عدم وصال سے کوئی بھی تعلق نہ رہا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال پر یہ بحث اٹھتی کہ یہ جو ہبہ ہے یہ آگے کس طرح تقسیم ہوگا۔ مگر ہبہ کا مطلب ہے رسول اللہﷺنے اپنی زندگی میں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایک تحفہ دے دیاوہ تحفہ دینے کے بعد آپ کی زندگی اور وصال سے اس کا تعلق کٹ گیا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالک بن گئیں۔ پس جس کی وہ مالک تھیں اس کے متعلق حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر یہ کہنا کہ یہ میرا ورثہ ہے، مجھے ورثہ میں دلوائو۔ یہ قابل قبول ہی نہیں ہے۔ کیونکہ مالک کسی اور کی وفات پر اس کی جائیداد تو مانگ سکتا ہے، اپنی جائیداد کو تو نہیں مانگ سکتا (کلالہ کی بڑی لمبی چوڑی بحث ہے اس میں کوئی ضرورت ہی نہیں بیکار جوباتیں اہم تھیں وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیں ہیں)۔
وصیت کی اہمیت پر مختلف روایات پیش کی گئیں ہیں کہ وصیت کرنی ضروری ہے جبکہ قرآن کریم میں کھلے طور پر وصیت کی اہمیت ہے۔ تو پھر سب کو وصیت کرنی چاہیے۔ وصیت کی دو قسمیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ زبانی اپنے ملنے جلنے والے، اولاد وغیرہ سے واضح طور پر بیان کیا جاتا رہے، یہاں تک کہ وہ بات عام ہوجائے اور اس میں کوئی شک نہ رہے۔ مگر بہتر طریق یہی ہے کہ ملکیت کے انتقال کی صورت میں جہاں ہاتھ بدلتے ہیں قرآن کریم کے اس حکم کی لفظاً پیروی کی جائے کہ وصیت لکھوائی جائے یا خود اپنے ہاتھ سے لکھی جائے یا لکھوائی جائے اور قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ خود لکھنا اولیٰ ہے ۔ اور جن کو لکھنا نہیں آتا ان کے لکھوانے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ایک اہم قانونی نقطہ ہے جو اس زمانے میں کھل کر سامنے آیا کہ وہ شخص جس نے اپنے ہاتھ سے وصیت لکھی ہو۔ اس پر کسی گواہ کی ضرورت کسی عدالت کے نزدیک نہیں رہتی۔ تحریر ثابت ہو، اپنے دستخط ہوں تو وہ وصیت ہر کورٹ میں قابل قبول ہوگی کہ اس کے ہاتھ کی لکھی وصیت یہی کافی ہے۔ اگرلکھوائی ہوئی ہو تو اس میں گواہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تو قرآن کریم نے اوّل وصیت لکھنے کا حکم دیا ہے پھر بعد میں اگر مجبوری ہو ان پڑھ ہوکوئی توپھر لکھوانے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ گواہیوں پر زور دیا ہے۔ پس اسلامی طریق کے مطابق لکھنا بہت ہی اہم ہے۔ قرض کے معاملہ میں بھی دیکھیں قرآن کریم نے کتنی اہمیت دی ہے۔ اس زمانہ میں جبکہ لکھنا پڑھنا ایک شاذ کی بات تھی ، خود آنحضرتﷺ اُمی تھے اور جن میں مبعوث ہوئے وہ امیّین تھے۔ یعنی کثرت ان میں سے ان لوگوں کی تھی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ اس زمانہ میں ایک اُمّی کا لکھنے پڑھنے پر اتنا زور دینا یہ طبعاً ناممکن ہے۔ یہ الٰہی کلام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ ایک زمانہ تحریروں کا آنے والا ہے اور قرآن کریم میں اس کی پیشگوئیاں بھی تھیں اور یہ عام ہوجانی تھی بات۔ اور لکھنے پڑھنے سے لاعلمی شاذ ہوجانی تھی۔ مگر اُس زمانہ میں بھی جبکہ لکھنے پڑھنے سے لاعلمی عام تھی ، قرآ ن کریم کا زور دینا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور عام حالات میں ایک ان پڑھ آدمی سوچ بھی نہیں سکتا اور پھر ڈھونڈنا پڑے لکھوانے والا۔ اب جبکہ سہولت ہوگئی ہے اب نہ لکھنا تو گناہ بن جاتا ہے۔معصیت تو اس وقت بھی بنتی تھی مگر اب تو غیر معمولی معصیت بن جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہرایک کو تقریباً اکثر سوسائٹیوں میں لکھنے پڑھنے کا سلیقہ بخشا ہے۔ جن میں نہیں ہے وہاں کثرت سے لکھنے والے ملتے ہیں۔ اس لیے قرضوں کو ضرور لکھنا چاہیے اور وصیت کو ضرور لکھنا چاہیے۔ اور چونکہ زندگی کا اعتبار نہیں ہوتا اس لئے اگر کوئی وصیت ایسی ہو جو شریعت کے قوانین کے علاوہ کرنی ہو توپھر لازم ہے کہ انسان جلد از جلد کرلے ورنہ پھر شریعت جس طریق پر تقسیم کرے گی بعد میں وہ تقسیم ہوگی۔
اب حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس معاملہ میں کوئی وصیت نہیں کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس معاملہ میں کوئی وصیت نہیں کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآنی حکم کی نعوذ باللہ خلاف ورزی ہوئی ہے؟ خلاف ورزی اس لیے نہیں کہ قرآن نے جو وصیت بیان فرمادی جس کو کامل یقین ہو کہ وہی وصیت ہی جاری رہے گی اور اس میں مَیںکوئی نہیںتبدیلی پیدا کرنا چاہتا، اپنا تیسرے حصہ کا حق محفوظ نہیںکرنا چاہتا وغیرہ وغیرہ۔ تو اس کیلئے کوئی ضرور ی نہیں کہ وصیت کرائے۔ وہ وصیت از خود پرانی وصیت چل پڑے گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میںیہی ہوا ہے ہمیشہ۔ زائد وصیت چونکہ کسی نے نہیں لکھوائی صرف وہ وصیت لکھوائی جو جماعت کے حق میں 1/10یا 1/3تک کی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں لکھوایا ۔ اور وہ لکھا ہوا تھا، دستخط تھے گواہ موجود تھے۔ اس لیے یہ بھی شک دور ہوجانا چاہیے کہ کوئی شخص یہ سمجھے کہ میں نے ابھی تک وصیت نہیں لکھی اور میں کہیں مرگیا تو پکڑ نہ ہوجائے میری۔ ان کو میں سمجھارہا ہوں اگر وہ یہ دِل میں پورا یقین رکھتے ہیں کہ ان کی اولاد شریعت کے مطابق تقسیم کرے گی جھگڑے نہیں کرے گی اور اس کے سوا ان کے پیش نظر کوئی وصیت نہیں تو پھر نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر یہ خطرہ ہو کہ اولاد تعاون نہیں کرے گی۔ اور خدا کی قائم کردہ وصیت میں دخل اندازی کرے گی تو پھر اولیٰ یہی ہے کہ پھر لکھوایا جائے اور وہی لکھوائی جائے بات جو قرآن کریم میں مندرج ہے۔ اگر یہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر نقائص پیدا ہوتے ہیں۔ اور انگلستان ، امریکہ ، یورپ وغیرہ میں یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں اگر ایسی وصیت نہ لکھوائی جائے تو ملک اپنے قانون کے مطابق تقسیم کردے گا۔ لیکن اگر وصیت ثابت ہوجائے تو پھر اپنے قانون کے مطابق تقسیم نہیںکرے گا بلکہ موصی کو حق ہے وہ جو چاہے کرجائے۔ تو ان معاملات میں جہاں یہاںاسلامی شریعت کی پیروی نہیں کی جاتی وہاں بہت مناسب بلکہ ضروری ہے کہ ہر انسان اپنی اولاد اور اپنے ورثاء کے حق میں وہ وصیت کرے جو قرآن کی رو سے لاگو ہونی چاہیے۔اگر اس وصیت کا ٹکرائو کسی دوسرے کے حق سے ایسا ہو کہ قانون اس وصیت پر عملدرآمد نہ کرائے تو پھر اُس اپنے وارث کو الگ وصیت لکھ کے دینی چاہیے جو تمام ورثاء کے علم میں آنی چاہیے۔ مثلاً یہ ہوسکتا ہے میںقانونی طور پر ابھی تک اس قابل نہیں ہوںکہ بتائوں کہ یہاں عملاً کیا ہورہاہے تفصیل سے ۔ اتنا موٹا مجھے پتہ ہے کہ بیوی کو آدھی جائیدادچلی جاتی ہے۔ اور خاوند کو اگر بیوی مرے تو بیوی کی آدھی جائیداد۔ سوال یہ ہے باقیوں کے متعلق اس کی وصیت بہرحال چلے گی۔ اگر خاوند مرتا ہے تو بیوی کی آدھی کے علاوہ باقی آدھی میں اس کی وصیت اولیٰ ہے اور لازماً جاری ہوگی۔ مغربی قوانین میںجہاں تک میرا علم ہے یہی چلتا ہے۔ اور اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ بیوی کو محروم کرے تو وہ جاری ہوگا کہ نہیں۔ دو امکانات ہیں ایک یہ کہ بیوی والے حصے کی بھی وصیت کردے کہ بیوی کو اتنا ملے گا اور فلاں کو اتنا، تو وہ جاری ہوجائے بشرطیکہ بیوی اس کو contestکرے۔ ایک یہ امکان ہے۔ اگر یہ امکان ہے توپھر بہتر ہے ساری جائیدادکی وصیت کرے اور بیوی کو یہ وصیت کرے کہ contestنہ کرے۔ اگر قانون اس حصہ کو کالعدم قرار دے گا تو پھر ساری وصیت پر اثر انداز ہوجائے گی یہ بات۔ رخنے والی وصیت ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایسی صورت میں اپنے آدھے کی وصیت کرجائے۔ جوشریعت کے مطابق ہو اس میں سے بیوی کا حصہ نکال دے اور ذکر کرے کہ وہ پہلے ہی اپنے حصہ سے اتنا زیادہ لے بیٹھی ہے۔ اور بیوی کو یہ وصیت کرے کہ تم میرے بعد آدھی کی قابض نہ بننا کیونکہ قرآن تمہیں اس کی اجازت نہیں دیتا ۔یہ اگر کہہ دے تو وہ بری الذمہ ہے پھر۔ پھر آگے وہ بیوی جانے یا وہ اولاد جانے جن کے آپس میں جھگڑے چلیں گے۔ ایسا نہ کرنے کی وجہ سے جھگڑے زیادہ ہیں۔ اور بعید نہیں کہ بعض حصے ناجائز طور پر ایسے ورثاء کے قبضے میں چلے گئے ہوں جن کو دنیا کے قانون نے جائیداد دلوائی ہو خدا کے قانون نے نہ دلوائی ہو۔ اس لیے لکھنے کی جو باتیں آتی ہیں یہ بہت اہم ہیں اور وصیت کو معمولی نہیںسمجھنا چاہیے۔ کہتے ہیں وصیت میں کسی کو نقصان پہنچانا پیش نظر ہو تو یہ گناہِ کبیرہ شمار ہوتا ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مردی ہے کہ جس نے اپنی وصیت میں کسی کو نقصان پہنچایا توخدا تعالیٰ اس کو جہنم میں ڈالے گا۔ قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کے وقت بھی کسی کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔ یہ روایت ہے تفسیر بحر المحیط کی لیکن کوئی معین سند سامنے نہیں ہے۔ مگر ایسی روایات میں سند کی بحث کی ضرورت نہیں۔ ضرور ڈالے گا یا نہیں ڈالے گا یہ بحث اللہ پر چھوڑنی چاہیے۔ اتنی بات کافی ہے کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی گناہ ہے اس سے بچنا چاہیے۔ لیکن وہ لوگ جوعمداً اپنے بعض ورثاء کو محروم کرنے کی خاطر تکلیف پیدا کرنے کیلئے وصیت کرجاتے ہیں ان کو بچنا چاہیے۔ کیونکہ وہ پھر خد اکی پکڑ کے نیچے آئیں گے۔
1/3کی جو بحث ہے اس کے متعلق مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف تبصرے منسوب ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیںکہ میری خواہش ہے کہ لوگ 1/3 سے کم کرکے 1/4تک کردیں یعنی کہتے ہیں میرا دلی تاثر ہے وہ تویہ ہے کہ 1/3بھی وارثوں سے لے کر دوسروں کو دینا یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ تو اگر انہوں نے دینا ہی ہے تو 1/4تک دیا کریں۔ اگر رسول کریمﷺسے سند ہے اس کی تو پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا عجیب لگتا ہے۔ ایک زائد مشورہ ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک رواج ہی تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ 1/3حصہ درمیانی حالت ہے جو نہ کم ہے نہ زیادہ ہے۔ ان کے نزدیک مناسب ہے۔ اس سارے مضمون پر حافظ مظفر احمد صاحب انشاء اللہ مزید تحقیق کریںگے آئندہ کسی وقت پیش کی جائے گی۔ ان کا آج ہی مجھے خط مل گیا ہے ۔ فیکس کا پیغام کہ ثلث کی بنیادکیا ہے؟ کیسے ہوا؟ اس کی حیثیت کیا ہے شرعی؟ فرض ہے یا نصیحت ہے؟ کیا حالات ہیں؟ اس پر وہ انشاء اللہ وہ تمام متعلقہ احادیث کو دیکھ کر وہ مواد بھجوادیں گے۔تو انشاء اللہ بعد میںکسی وقت مزید وضاحت ہوجائے گی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میرے نزدیک 1/4کی نسبت 1/5کی وصیت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ اب یہ روایتیں بھی حافظ صاحب کو پیش نظر رکھنی چاہئیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونو ں کے نزدیک آنحضرت ﷺنے یہ خود فرمایا تھا ، امت کو یہ ہدایت کی تھی کہ یہ کیا کرو تو پھر یہ تبصرے ٹھیک نہیںلگتے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہیں کہ میرے نزدیک یہ زیادہ مناسب ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہو کہ نہیں 1/3زیادہ مناسب ہے۔ تو کئی الجھنیں ہیں جن کو دور کرنے کی خاطر مزید چھان بین کی ضرورت ہے۔ میری ہمشیرہ بی بی امۃ الباسط نے ربوہ سے یہ دلیل بھجوائی ہے کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو استنباط فرمایا ہے وہ تو یہ ہے کہ لڑکے کے برابر دو لڑکیوں کا حصہ ہوتاہے۔ اس لیے دو کو بھی 2/3میں شامل سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ ایک لڑکے کے دو حصے ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کہ ایک لڑکا ہواور ایک لڑکی ہو تو 2/3لڑکے کو ملے گا اور 1/3 لڑکی کو ملے گا۔ اور اگر لڑکا نہ ہو تو چونکہ قرآن کے اصول کے مطابق لڑکا لڑکی برابر ہیں آدھے اور دو کی نسبت پائی جاتی ہے۔ تو دو لڑکیاں ایک لڑکے کے برابر ہوں گی۔ جب لڑکے کو دو اور لڑکی کو آدھا ملا تو دو لڑکیاں ایک لڑکے کے برابر ہوئیں نا۔ تو دو لڑکیاں ایک لڑکے کے برابر ہوئیں تو 2/3ان کا ہوا۔ تو اس دلیل پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر لڑکیاں دو یا زائد ہوں۔ فوق اثنتین دو سے زائد کا جو قرآنی محاورہ ہے اس میں دو بھی شامل ہیں اورمعنی ہیں دو یا دو سے زائد۔ یہ بحث اُٹھ چکی ہے اور آپ سن چکے ہیں پہلے۔ صرف یہ گفتگو ہورہی ہے کہ دلیل کیا ہے کہ دوکو بھی داخل کیا جائے۔بحث یہ ہے کہ قرآن کریم کی ر و سے اگرلڑکیاں ہو ں توکتنی لڑکیاں ہوں تو وہ دو تہائی میں سب برابر کی شریک ہوںگی۔ یہ بحث ہے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر لڑکیاں ہوں ایک سے زائد ہوں مثلاً تو وہ کتنی ہوں تو 2/3میں برابر کی شریک ہوں گی۔ اور کتنی ہوں تو صرف نصف ملے گا۔ ایک کے متعلق تو واضح ہے اگر ایک ہو تو نصف ۔ (آگے جو آیت ہے) اگر دو سے زیادہ ہوں تو پھر 2/3۔ اب یہ جو بیچ کا ٹکڑا ہے اس سے امکانات کھل گئے۔ یہ 1/2میں برابر کی شریک ہوں گی یا 2/3میں برابر کی شریک ہوں گی؟ اس بحث میں بہت سے فقہاء کہتے ہیں کہ دو 2/3ہی پائیں گی کیونکہ ایک ہے تو نصف پائے گی۔ تو فوق اثنتین میں دو سے زائد میں صاف ظاہر ہے کہ دو بھی شامل ہیں ورنہ ایک میں فرمایا جاتا کہ ایک اگر ہو تو آدھا اور دو بھی ہو ں تو آدھا دونوں میں بٹے گا، یہ بحث چلی تھی۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دلیل نکالی کہ دو شامل ہیں 2/3میں۔ یعنی اگرایک لڑکی ہو تو آدھا ملے گا ۔ اگر دو لڑکیاں ہوں تو 2/3میں شریک ہوں گی۔ اگر دو سے زائد ہوں گی تو بھی 2/3میں شریک ہوں گی۔ دلیل یہ دی کہ دولڑکیوں کا حصہ ایک لڑکے کے برابر ہوتا ہے اور اگر ایک لڑکا ہواور ایک لڑکی ہو تو لڑکے کو دو ملتے ہیں اورلڑکی کو ایک۔ 2/3لڑکے کوملا اور 1/3لڑکی کو۔ تو دو لڑکیاں ہوں تو 2/3ہوگئیں۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ۔ یہ دلیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم فرمائی جس کا میں ذکر کرچکا ہوں۔ بی بی امۃ الباسط نے جو نئی بات بھیجی ہے وہ یہ کہتی ہیں کہ اس سورۃ کے آخر ی حصہ میں جہاں کلالہ کی بحث اٹھائی ہے وہاں قرآن کریم نے خود واضح فرمادیا ہے کہ دو 2/3ہی کی حصے دار ہیں۔ اس لیے کسی اور بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ آیت میںآپ لے سامنے رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ ان امرء ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماترک۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہورہی ہے ۔ اگر کوئی شخص ہلاک ہو جائے یعنی مرجائے لیس لہ ولد جس کا بیٹا کوئی نہ ہو یا اولاد کوئی نہ ہو۔ ولہ اخت اور اس کی بہن ہو۔ فلھا نصف ماترک تو اس کیلئے نصف ہوگااس مال میں سے جو اس نے چھوڑا ہے۔ وھویرثھا ان لم یکن لھا ولد اور وہ اس کا وارث ہوگا اگر اس کا بیٹا نہ ہو۔ فان کانتا اثنتین اگردو بیٹیاں ہوں فلھما… دو بہنیں ہوںبہنیں حصہ پا رہی ہیں نا کلالے کا کلالے کی تو اولاد ہی نہیں نا کوئی فان کانتا اثنتین اگر ایک بیٹاہو تو وہ وارث ہو گا۔ اگر ایک بیٹی ہو تو آدھا پائے گی ایک بہن ہو تو آدھا پائے گی، ایک بھائی ہو تو سارا پائے گا۔ اور اگر دو بہنیں ہوں فان کانتا اثنتین فلھما الثلث تو ان کے دو ہوں گے۔ تو بی بی کہتی ہیں کہ اس آیت نے تو راز سے پردہ اُٹھاہی دیا ہے۔ قرآن کریم کے نزدیک واضح طور پر د وبیٹیاں 2/3 حصے میں شامل ہیں نہ کے آدھے کے حصہ میں ٹھیک ہے نا ( اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے لوگ بڑے غور سے ساری دنیا میں درس سن رہے ہیں۔ ماشاء اللہ ۔ اور ربوہ سے اور بھی اطلاعیں آرہی ہیں یہاں سے کسی کی بچی نے اپنی ماں کو فون کیا ۔ کیا حال ہے؟ آپ مجھے زیادہ missتو نہیں کررہیں؟ انہوں نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا درس آج کل چل رہا ہے ۔ missکرنے کی ہوش ہی کوئی نہیں۔ بڑے مزے سے سن رہے ہیں اور لطف اٹھارہے ہیں)۔
میرے نزدیک اور بھی بہت سی باتیں دَین کے متعلق پھر بھی آئی ہیں لیکن وہ ساری ثانوی ہیں۔ میرے نزدیک بنیادی بات یہی ہے کہ دَین قرض ہے جو جائیداد سے اتنا حصہ کاٹ دیتا ہے جو کسی نے پیچھے چھوڑی ہے۔ جو اس کا ہے ہی نہیں وہ تقسیم ہو ہی نہیں سکتا۔ اور وصیت کو پہلے رکھنے کہ جیسا کہ میںپہلے بیان کرچکا ہوںمیرے نزدیک صرف یہ حکمت پیش نظر معلوم ہوتی ہے کہ وصیت ایک عمومی چیز ہے جس کے متعلق کثرت سے واقعات ملتے ہیں۔ تو وصیت کو دَین سے اکثر صورتیں ہونے کی وجہ سے پہلے بیان کیا ہے۔ دَین پر افضل قرار نہیں دیا اور یہ بات واضح ہے کہ کسی معقول آدمی کو یہ غلط فہمی ہو نہیں سکتی تھی۔ اس لئے ضروری بھی نہیںتھا کہ دَین کو پہلے کہا جائے کیونکہ دَین تووہ چیز ہے جو کسی کی ہے ہی نہیں۔ میں نے کسی سے ایک لاکھ لیا ہو اور میں مرجائوںلاکھ دیئے بغیر اورلاکھ پیچھے چھوڑ جائوں تو وہ میرا ہے ہی نہیں۔ اتنی سادہ سی بات ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے مسلمانوں کی عقل سے یہ توقع تو رکھی ہے کہ وصیت پہلے ہونے کے باوجود یہ نہیں نکالیں گے کہ قرضہ بھی ہودینا تو قرضہ نہ دیا جائے، 1/3پہلے دے دیا جائے پھر باقی قرضہ اتار جائے۔ پھر اولاد کیلئے کچھ نہ چھوڑا جائے۔ یہ درہم برہم نظام تو مسلمان کی عقل سوچ میں آہی نہیں سکتا۔ اس لیے خطرہ کوئی نہیں تھا۔ اس کی تائید میںاحادیث ملی ہیں جو ابھی بھجوائی تھی کس نے حافظ صاحب نے بھجوائیں تھیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی طریق تھا کہ پہلے دَین نکالا کرتے تھے پھر وصیت اور بعضوں نے سوال بھی اُٹھایا ہے کہ ایسا کیوں تھا۔ جبکہ وصیت پہلے لکھی ہوئی ہے۔ میں نے وجہ بتادی ہے کہ سادہ موٹی بات ہے کہ جو تمہارا ہے ہی نہیں وہ تقسیم کیسے ہوگا۔ اس لیے دَین اور وصیت دونوں پہلے رکھے ہیںبریکٹ میں۔ آپس میں اول اور آخر کی بحث نہیں ہے۔ وصیت روز مرہ میں چونکہ ہونے والی چیز ہے اس لیے اس کا ذکر کردیا۔ قرض کھاکر مرنے والے چونکہ نسبتاً کم ہوتے ہیں یا سمجھے جاتے ہیں اسلامی سوسائٹی میں ۔ آجکل تو شاید بڑھ گئے ہوںوصیت کرنے والوں سے میرا خیال ہے الٹ ہوگیا ہوگاآجکل۔ کیونکہ رسول کریمﷺ نے آخری زمانہ کے متعلق تنبیہ بھی فرمائی ہوئی ہے۔ کہ آخری زمانے میں جومیراث کے جو قوانین ہیں، وصیت کے قوانین ہیں ان پر عمل اٹھ جائے گا اور یہ اس زمانہ کے مسلمانوں کے انحطاط کی اوران کی گمراہی کی علامت ہوگا۔ تو آجکل واقعتاً یہ بات ہوچکی ہے۔ قرض کھاکر مرنے والے تو زیادہ ہیں اور وصیت کرنے والے اس قانون کے مطابق بہت کم دکھائی دیتے ہیں شاذ کے طور پر کرتے ہیں۔ (اچھا اب چھوڑ دیں ہو گئی پوری؟ اگر آپ نے کہا بھی تو اب میں نے دوبارہ نہیں یہ …)
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تلک حدوداللہ ومن یطع اللہ………ولہ عذاب مھین
وصیت کے متعلق تمام حدود قائم کردی گئی ہیں۔ تلک حدود اللہ اس آیت کے عنوان سے تلک حدود اللہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت میں قرآن کریم نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ پوری طرح حاوی ہے مسئلے پر اور اگرنہ سمجھ آئے تو مدد لینے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مگر اگر غور کیا جائے تو کوئی چیز بھی ان کی حدود سے باہر نہیں ہوگی۔ گہرے غور اور فکر سے پہلے توجہ منعکس کرو قرآن کریم کی طرف اس پر مبذول کرو ساری توجہ، جہاں نہ نکلے کی کوئی بات وہاں تلاش کرو کہ اور کوئی ایسا حوالہ ہے جہاں سے اس کی تائید ملتی ہو۔پھر تم جو قرآن کریم سے سمجھو حدیث پر اس کو پرکھو۔ جہاں حدیث کی تائید شامل ہو جائے وہاں مطمئن ہوجائو اور بے تکلف ہوکر ان چیزوں پرعمل کرو۔ جہاں حدیث کی تائید شامل نہ ہو اور تمہیں معلوم ہو ، یہ لگتا ہو کہ قرآن کریم واضح طور پر اس موقف کے خلاف بات کررہا ہے جس پر اب تمہاری نظر پڑی ہے کہ حدیث میں اور طرح بیان ہوا ہے ، اس صورت میں کیا ہوگا؟ اگر وہ حدیث ہے تو پھر تمہاری عقل کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کا فہم قرآن ہر دوسرے پر غالب ہے۔ اور ناممکن ہے کہ رسول اللہﷺ قرآن کے معنی کے متضاد معنی پیش کرتے ہوں ۔ اس لیے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی بات مانیں تو ہرگز مرادیہ نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے واقعتاکوئی بات کہی ہو اور نعوذ باللہ من ذالک اسے ردّ کیاجائے، کسی کا اختیارہی کوئی نہیں ہے۔ جو بھی ایسی سوچ سوچتا ہے وہ دائرہ اسلام سے از خود باہر نکل جاتا ہے کیونکہمن یطع اللہ والرسول کے اوپر ایسی تاکید ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کو باندھ دیا گیا ہے۔ پس اس واسطے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں اصول بتارہاہوں تلک حدود اللہکے۔ حدوداللہ قائم ہوگئی ہیں ان میں سب کچھ آگیا ہے۔ غور کرو ، فکر کو دوڑائو تمہیںہر مضمون یہاں مل جائے گا۔ تمام قوانین تما م اصول منضبط ہوں گے قرآن کریم سے۔ پھر نظر ڈالو احادیث کی دنیا پہ وہاں جہاں مخالفت نہ ملے وہاں تسلی پکڑ لو کہ جو تم نے استنباط کیا تھا وہ درست تھا۔ جہاں مخالفت ملے وہاں دوبارہ اپنے استنباط پر غور کرو،اگر پورے غور اور فکر کے باوجود تم سمجھتے ہو کہ قرآن کریم اور حدیث کا تم آپس میں کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں کرسکے بلکہ ایک کو چھوڑناپڑرہا ہے اور ،ایک کولینا پڑرہا ہے تو پھر پہلے اچھی طرح غور کرلو۔ علماء سے پوچھ لو دوسروں سے مشورہ کرلو ہوسکتا ہے تمہارے ذہن میں بات نہ آئی ہو اور جو تضاد دکھائی دے رہاہے وہ فرضی تضاد ہو۔ ایسی راہ نکل آئے کہ آپس میں تضاد نہ رہے۔ یہ بہترین طریقہ ہے ، محفوظ ترین ہے۔ اگر ایسانہ ہو تو پھر اگرکوئی حدیث اس لیے ردّ کرنی پڑرہی ہے کہ وہ حدیث قرآن کے مخالف واضح اور قطعی طور پر دکھائی دے رہی ہے تو اس وجہ سے ردّ کرو کہ وہ حدیث نہیں ہے۔ اس وجہ سے ردّ کرنے کا حق نہیںکہ کوئی حدیث ہے جو مخالف ہے ، حدیث مخالف ہو ہی نہیں سکتی۔ اس دلیل پر ردّ کرو جو قرآن نے قائم کی ہے ۔ وما ینطق عن الھوا ان ہو الا وحی یوحیکہ محمد رسول اللہ اپنے نفس سے بات کرنے والے انسان ہی نہیں ہیں۔ کوئی بات بھی نہیں کہتے جس کی بنا وحی پر نہ ہو۔
پس جس کے متعلق قرآن یہ گواہی دے رہا ہے اس کے متعلق یہ نتیجہ نکالا ہی نہیں جاسکتا کہ آپ کا کوئی مؤقف بھی قرآن سے متصادم ہے اس لیے ہم آپ کے مؤقف کو چھوڑدیں۔ یہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بحث تو نہیں ہے ۔ رسول اللہ اور قرآن کریم کے درمیان فاصلہ ڈالا ہی نہیں جاسکتا۔ اس لیے جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن کولیں گے اور الفاظ ہیں حدیث کو چھوڑیں گے تو ۔ دراصل یہ غیر محتاط الفاظ ہیں یہ کہنا چاہیے کہ قرآن کو لیں گے اور وضعی حدیث کو چھوڑدیں گے۔ قرآن کولیں گے اور اس حدیث کو چھوڑدیں گے جو رسول اللہﷺ کی طرف منسوب ہوئی ہے مگر ہرگز آپ کا کلام نہیں ۔کیونکہ یہ قرآن سے واضح طور پر متصادم ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کلام قرآن سے متصام ہوہی نہیں سکتا۔ ان احتیاطوں کے دائرے میں رہتے ہوئے تلک حدود اللہ۔ یہ حدوداللہ ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمادی ہیں اور ساتھ دیکھیں جو کہتے ہیں نا صرف قرآن ہے تو پھر حدیث کی ضرورت کیا ہے؟ حدیث کی ضرورت یہ ہے کہ قرآن کی براہِ راست فہم تو ہر انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ شاذ کے طور پر خداتعالیٰ جن کو براہِ راست علم عطا فرماتا ہے ان کو جو علم ملتا ہے وہ رسول اللہ ﷺکی احادیث کے مخالف ہوہی نہیں سکتا۔ مگر ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ تبھی فقہائ، القاء یا الہام کے نتیجے میں نہیں محض علمی بحثوں کے نتیجے میں قرآن کریم کے معنی نکالتے ہیں اور وہاں غلطیوں کے امکانات ہیں۔ پس قرآن کو سمجھنا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ کا کلام اور محمد کا کلام الگ ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ بنیادی اصول ہے ۔ چنانچہ اس آیت کے آگے دیکھیں کیا لکھا ہے۔ تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ و رسولہ پس جو اللہ کی اطاعت کرے اور رسول کی۔ حدود رتو سول اللہﷺ نے قائم نہیں فرمائی حدود اللہ نے قائم فرمائی ہیں۔ تو اطاعت کے ساتھ رسول کو کیوں باندھ دیا ۔ صاف ظاہر ہے کہ ان حدود کو محمد رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ کی طرف رجوع ضروری ہے۔ اس کے باوجود میں نے یہ کیوں کہاکہ قرآن پر غور کرو اور پھر حدیث کی تلاش کرو۔ اس کی وجہ یہ تھی صرف یہ احتیاط کہ فی زمانہ احادیث میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جن کے اندر جن کو احادیث کہا جاتا ہے مگر اندرونی تضادات بھی ہیں اور اندرونی تضادات کے علاوہ ایسی احادیث بھی بیان جاتی ہیں جن کا قرآن سے تضاد ہے۔ و ہ لوگ جو حدیث کے رستے سے قرآن تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا اُلجھا ہوا رستہ بنادیا گیا ہے کہ ان چکروں سے نکل کر محفوظ حالت میں قرآن تک پہنچنا ایک بڑا مشکل کام بن گیا ہے۔ اوربعض دفعہ اچھے بھلے معقول آدمیوں کی سوچوں پر یہ حدیث کی بحثوں میں جو مختلف فقہاء نے الجھائو پیدا کردیے ہیں ان سے بچ کر گزرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جیسے خار دار جھاڑیوں سے نکل کر اگر رستہ تلاش کریں توکانٹے بھی لگ جاتے ہیں کہیں کچھ پھٹ گئے کپڑے کوئی اثر ضرور پڑ جاتا ہے۔ اس لیے میں نے یہ بات کہی تھی کہ قرآن کریم کے متعلق تو قطعیت ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں اشارۃً بھی کوئی انسان یہ بات قرآن کی طرف منسوب نہیں کرسکتا کہ اس آیت میں شک ہے۔ اس آیت میں شاید کوئی ابہام کا پردہ ہو۔ تو جو قطعیت ہے وہ پہلے ہے۔ یہ تو یقین ہے کہ سارے کا سارا کلام اللہ کا ہے۔ تو اس کو پہلے سمجھو۔ پھر جب حدیث کا سفر کرو گے تمھیں کو زیادہ آسانی ہوجائے گی ۔ حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے کلام کو پہنچاننے میں اس کلام کے مقابل پر جو غیروں نے بنا بنا کر رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ا ور زیادہ آسانی ہوجائے گی ان مفاہیم کو سمجھنے میں جو دوسرے نہیں سمجھ سکے کیونکہ انہوں نے حدیثوں کو دوسری حدیثوں کے دائرہ کے مقابل پر رکھ رکھ کر عجیب و غریب قسم کی منطقیں ایجاد کرلیں اور ان کے اندر رہتے ہوئے ان کے یہ جھائو کبھی بھی دور نہیں ہوسکے۔
پس واضح روشنی قرآن کی روشنی لے کر سفر کرو وہاں جو تمہیں دکھائی نہ دے ، حدیث سے روشنی پکڑو۔ جگہ جگہ حدیث کے sign postہوں گے کہ تم غلط نہ چلے جانایہ روشنی یہ ظاہر کررہی ہے ، یہ ظاہر کررہی ہے، یہ ظاہر کررہی ہے ۔ یہ سفر جو ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی مدد اور آپﷺ کے نور کے حوالے سے سفر یہ محفوظ ترین مشورہ ہے جواب آپ کو دے سکتا ہوں اسی کے مطابق ہمیں اپنے فقہوں کو دہرانا چاہیے۔ پس فرمایا ’’تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ‘‘ حدود تو اللہ نے قائم کی ہیں مگر محمد رسول اللہﷺ سے بڑھ کر ان حدود کو کوئی نہیں سمجھتا۔ پس جو بھی اللہ کی اطاعت کرے گا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر اللہ اسے ضرور جنتوں میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ خالدین فیھا وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے و ذالک الفوز العظیم ۔ یہ ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ و من یعص اللہ و رسولہ اور جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا اب دیکھیں دونوں یہاں صرف اللہ کا ذکر ہی نہیں فرمایا اللہ اور رسول کو باندھ دیا اکٹھے یہ الگ الگ ہو ہی نہیں سکتے۔کیونکہ خود رسول اللہﷺ کی ذات کلیۃً خدا کی ذات کے اندر مدغم ان معنوں میںہوگئی کہ آپﷺ نے اپنے وجود، اپنی انا، اپنی خواہشات اپنی عقل کو سو فیصدی سجدے میں ڈال دیا او راس سجدے میں خدا کا راج قائم ہوجاتا ہے اور محمد رسول اللہﷺ کی ذات نکل جاتی ہے۔تو جہاں تک خدا تعالیٰ کی اطاعت کا تعلق ہے جس رسول نے اپنی ذات کی کوئی ادنیٰ تمنا بھی اس کی اطاعت سے باہر نہیںرکھی اس کا قول خدا کا قول بن گیا۔ جس کا ہر فعل خدا کے حکم کے تابع ہے اس کا فعل خدا کا فعل بن گیا انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’یداللہ فوق ایدیھم‘‘ کہ محمد کا نہیں اللہ کا ہاتھ ہے جو بیعت ان کرنے والوں کے ہاتھ پر ہے انما یبایعون اللہکہ ہاتھ کی بیعت بھی اڑادی کہ اللہ کی بیعت کررہے ہیں جو محمد رسول اللہؐ کی بیعت کررہے ہیں۔ پس یہ شرک کی تعلیم نہیں بلکہ اطاعت تام کی تعلیم ہے اطاعت جب درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو وہیں بیوقوفوں کو شرک کا ابہام پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ ذاتوں کے فرق مٹ جاتے ہیں۔ بعینہٖ یہی معاملہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے مولویوں نے کیا ہے جو اسلام کے دشمن رسول اللہﷺ سے کرتے ہیں جب رسول اللہﷺ کے متعلق کہا جاتا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ آپ کاہاتھ خدا کا ہاتھ ہے آپﷺ نے مٹھی پھینکی خدا نے پھینکی بلکہ آپ نے نہیں بلکہ خدا نے پھینکی ’’انما یبایعون اللہ ‘‘ وہ تو محض انما کا لفظ حصر کا ہے۔ یہ سوچنے والی بات ہے انما یبایعون اللہ وہ کسی اور کی بیعت نہیں کررہے اللہ ہی کی بیعت کررہے ہیں۔ اتنے حصر اتنی تاکیدیں ہوجائیں تو گویا محمد رسول اللہ ﷺ خدا ہوگئے۔ ہرگز نہیں محمد رسول اللہ مٹ گئے اور صرف خدا کی ذات آپﷺ کی ذات میںجلوہ گر ہوئی ۔ یہ ہے نورکامل اگر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے آنے والا امام امام مہدی بعینہٖ یہی طریق اختیار کرے اپنی ذات کو کلیۃً مٹادے اور محمد رسول اللہﷺ کی ذات کی حکومت اپنے اوپرقائم کرلے ایک ادنیٰ بات بھی اپنی طرف سے نہ کہے جومحمد رسول اللہﷺ کے ارشاد سے کسی معنی میں بھی متصادم ہو تو اس پر یہی قول صادق آئے گاکہ وہ محمد رسول اللہ گویا ان معنوں میںا یک ہی وجود ہوگئے۔ اسی لیے قرآن کریم نے محمد رسول اللہﷺ کے آنے کی پیشگوئی فرمائی ہے۔ امام مہدی کا لفظ لکھا ہی نہیں ہوا۔ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتب والحکمۃ ۔ کس کی باتیں ہورہی ہیں صرف رسول اللہﷺ کی۔ وہی خدا ہے جس نے محمد رسول اللہ ﷺکو مبعوث فرمایا امیین میں سے یتلوا علیھم وہ ان آیات پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور یزکیھم اور ان کا تزکیہ کرتا ہے ساتھ ساتھ و یعلمھم الکتب والحکمۃ تعلیم میں کتاب بھی دیتا ہے حکمت بھی سمجھاتا ہے۔ یہ کس کی باتیں ہورہی ہیں۔ رسول للہ کی واخرین منھم یہ کون آگیا بیچ میں کوئی دوسرا آ ہی نہیں سکتا۔ محمدﷺ ہی ہیں جو آخرین میںپھر مبعوث ہوں گے تو ویسا ہی کلام ہے جیسے یداللہ فوق ایدیھم - انما یبایعون اللہ ۔ یہ پیش گوئی ہے کہ آنے والا کامل طور پر اپنے وجود کو حضرت محمد رسول اللہﷺ کے تابع کرے گا تب اس مقام پر فائز ہو گا ورنہ کوئی آنے والا اس کے سوا آ سکتا ہی نہیں۔ کہ جس کے وجود میں محمد رسول اللہﷺ کے وجود سے ایک ادنیٰ بھی فرق ہو۔ ورنہ پھر ایک نیا نبی بن جائے گا۔ وہی بنے گاجو محمدﷺ ہیں اور اپنی ذات کومحمدرسول اللہﷺ کی ذات کے حضور مٹا کر ایسا بن سکتا ہے اور ایسا ہی ہوگا جیسا کہ قرآن فرمارہا ہے۔ واخرین منھم لما یلحقوا بھم ۔ یہ مضمون ہے جو قرآن کریم کی ان آیات سے مسلسل اوردوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے۔ تو من یعص اللہ و رسولہ یہ مراد نہیںکہ اللہ کی ہدایت کے علاوہ رسول اللہﷺ کی کچھ اور بھی ہدایتیں ہیں مراد یہ ہے رسول اللہﷺ کی جو بھی ہدایت ہے اس پر خدا کا صعدہے۔ خواہ تمہیں ظاہری طور پر قرآن میںدکھائی دے یا نہ دے کیوں کہ اللہ اور رسول کامل طور پر رضائے باری تعالیٰ کے اکٹھے مظہر بن گئے ہیں۔ ہے رضائے باری تعالیٰ حدود اللہ نے قائم کی ہیں مگر رضائے باری تعالیٰ کا مظہر اکیلا خدا نہیں بلکہ قرآن نہیں بلکہ رسول بھی ہے۔
یاد رکھوجو اگر تم نے زیادتی کی، اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز کیا ویتعد حدودہ ان معنوں میں اس کی حدود سے تجاوز کیا کہ محمد رسول اللہﷺ کے قول سے بھی تم نے ایک الگ راہ بنالی ’’یدخلہ ناراً خالدًا فیھا ‘‘ ایسے شخص کو خداتعالیٰ آگ ایک ایسی آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ لمبے عرصے تک رہے گا ولہ عذاب مھین ۔ اوراس کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ یہاں مھین کیوں ہے اور بھی کئی قسم کے عذاب ہیں الیم بھی ہیں عظیم بھی ہیں۔ یہاں دراصل جو محمد رسول اللہﷺ کے مقابل پر الگ معنی کرتا ہے اور واقعۃًرسول اللہ ﷺکے ارشاد کو اور اس کو چھوڑے تو وہ گویا آپ معزز بنتا ہے اور محمد رسول اللہﷺ کو اس قدر عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا جو ضروری ہے۔ ایسے شخص کیلئے یہ تنبیہ ہے ولہ عذاب مھین اس کیلئے رسواکن عذاب ہے۔الفوز فاز یفوز سے مصدر ہے کامیاب ہونا ظفربہ نیکی حاصل کی، خیر حاصل کی ۔ فاز من الشرشر سے بچ گیا الفوز النجات یا النجات عربی میں والظفر بالامنیۃ والخیرنجات اپنی خواہش اور خیر کی۔ نجات ایک معنی فوز کا ہے دوسرا ہے اپنی خواہش اور خیر کے حصول میں کامیابی۔ فوزکے متعلق میں پہلے بحث کرچکا ہو اس میں ہلاکت بھی معنی ہوتے ہیں فوز میں ۔ موت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ وہ اس لیے استعمال ہوتا ہے موت کے معنوں میں کہ مرا اور چھٹی ہوئی یعنی دنیا کے جھگڑوں ، مصیبتوں سے نجات پائی ۔ تو دراصل بذات خود موت مراد نہیں ہے وہاں بھی مراد نجات ہی ہے تو فوز عظیم میں یہ ترجمہ نہیں بنے گا کہ وہ مرگیا مراد یہ ہے کہ یہ ہے اصل نجات کہ محمدﷺ کی غلامی میں آجائو۔ اب غلامی کا نام نجات رکھنا ایک بڑا ہی عجیب فصیح و بلیغ کلام ہے۔ ہر دوسرے کی غلامی سے بچ جائو گے ۔ اورہردوسرے کی غلامی جو محمد رسول اللہﷺ کے سوا غلامی ہے وہی تو مصیبت ہے اور مصیبت سے نجات کا نام فوز ہے۔ پس ایک ہی رستہ ہے کہ اس کی غلامی میں آجائو جس کی غلامی کے بعد ہر جھنجھٹ ختم ، ہر دوسرا جھگڑا ، ہر مصیبت سے آزادی نصیب ہوجائے گی ان معنوں میں فوز عظیم کا معنی ہے بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد پھر کوئی فکر کی بات نہیں۔ زندگی امن اور سکون کے ساتھ گزرے گی اورآخرت بھی محفوظ ہوجائے گی ۔ اس سے زیادہ اور کیا کامیابی ہوسکتی ہے۔ المفاز والمفازۃ ویران صحرا کو بھی کہتے ہیں الوریۃ القضر وہ بھی اسی لیے کہ وہاں ویران صحرا میں کہتے ہیں جائے تو پھر نکلتا نہیں وہاں سے مرے بغیر۔ تو دراصل فوزبمعنی نجات دنیا کے جھگڑوں سے نجات زندگی کی مصیبت سے نجات۔ آگے تفسیر کشاف میں فرماتے ہیں۔ تلک میں یتامیٰ، وصایا اور میراث کی نسبت احکام کی طرف اشارہ ہے خدا نے ان کا نام حدودکھا یہ تو واضح بات ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امام فخر الدین رازیؒ کیالکھتے ہیں؟ فرماتے ہیں حدُودُ اللّٰہسے مراد وہ طے شدہ مذکور امور ہیں جن کی وضاحت اللہ تعالیٰ کرچکا ہے یہ بھی وہی بات ہے۔ یہ جو ہیں نہ حدودا للہ انہی معنوں میں دراصل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے الدّارکے معنے سمجھے ہیں۔ الدّار میںجو آئے وہ محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو پیش گوئی فرمائی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق آپؑ کو الہاماً خبر دی اس سے مرا د یہ حدود کی دار ہی ہے۔ اسی لیے کشتی نوح بنتی ہے کہ جو اس دائرہ اطاعت میں آجائے گا وہ بچ جائے گا ، جو اس دائرہ اطاعت سے باہر ہے وہ خطرے میں ہے۔ بعض لوگوں نے عجیب یہ نکتہ اٹھایا ہوا ہے خوامخواہ کا یہ کہتے ہیں من یطع اللہ و رسولہ- ومن یعص اللہ ورسولہ ان دونوں باتوں کا اطلاق صرف ان لوگوں پرہوگا جن کی گفتگو اس سے پہلے گزرچکی ہے۔ لیکن اکثر محققین اس کو ردّ کرتے ہیں کہتے ہیں عام لفظ ہے یہ تو ۔مثالاً باتیںآئی ہیں ورنہ ان احکامات کا دائرہ زندگی کے ہر دائرہ پہ وسیع ہے من یطع اللہ و رسولہ -ومن یعص اللہ ورسولہ ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص خدا اور رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے باہر ہوجائے خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر ذلیل کرنے والا عذاب نازل ہوگا۔ دیکھو کہ رسول سے قطع تعلق کرنے میں اس سے بڑھ کر اور کیا بعید ہوگا کہ خدا عزوجل فرماتا ہے کہ جو شخص رسول کی نافرمانی کرے اس کیلئے دائمی جہنم کا وعدہ ہے۔ مگر میاں عبدالحکیم کہتے ہیں کہ جو شخص نبی کریم کا مکذب اور نافرمان ہو اور اگر وہ توحید پر قائم ہو تو وہ بلا شبہ بہشت میں جائے گا۔مجھے معلوم نہیں کہ ان کے پیٹ میں کس قسم کی توحید ہے۔ کہ باوجود نبی کریم کی مخالفت اور نافرمانی کے جو توحید کا سرچشمہ ہے بہشت تک پہنچاسکتی ہے۔ جو توحید کا پھر سرچشمہ کون ہے؟ رسول اللہﷺیعنی رسول اللہﷺ توحید کا سرچشمہ ہیں ان سے منہ موڑ کر اس توحید کے چشمہ سے نافرمانی کرکے اس کے پیٹ میں کون سی توحید ہے جو جنت تک پہنچاسکتی ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ والتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم فان شھدوا فامسکوھن فی البیوت حتی یتوفھن الموت او یجعل اللہ لھن سبیلا- والتی یاتین الفاحشۃ اور وہ عورتیں جو فاحشہ کی مرتکب ہوں من نسائکم تمہاری عورتوں میں سے ۔ یہ ترجمہ ہے۔ فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم ان پر چار گواہ اپنے میں سے ٹھہرالیا کرو۔ فان شھدوا اگر وہ گواہی دیں کہ ہاں واقعۃً یہ فاحشہ کی مرتکب ہے فامسکو ھن فی البیوت تو ان کو گھروںمیں رہنے کا پابند کردو حتی یتوفھن الموت یہاںتک کہ یا وہ مرجائیں یعنی عمر قید ایک قسم کی ہے مگر جیلوںمیںنہیں اپنے گھروں ہی میں اویجعل اللہ لھن سیبلا۔ یا اللہ ان کیلئے کوئی راہ نکالے۔
اس ضمن میں مَیں ترجمے کے دوران ہی جب آیت کے ترجمے سے گزرا تھا میںبات کھول چکا ہوں کہ ایک تو مراد یہ ہے کہ گھروں میں پابند رکھو مگر نگرانی کی خاطر ہے یہ۔ پس اگر کوئی شخص ایسی عورتوں کو ساتھ لے کر احتیاط کے تقاضے پورے کرتے ہوئے باہر لے کر جاتا ہے تو وہ اس آیت کے مضمون کے منافی نہیں ہے۔ جب قید کا بھی حکم دے دیا جائے توپولیس کی حفاظت میں یا بعض دفعہ ڈاکٹروں کی موجودگی میں یا وارڈ کی موجودگی میں وہاںسے نکل کر دوسری جگہ کاسفر بھی ہوجایا کرتا ہے۔ اس لیے یہ مراد نہیں ہے کہ وہاں ان کو تالے لگا کر رکھو۔ مراد یہ ہے کہ گھر کا پابند رکھو قرن فی بیوتکن کا حکم بھی تو ہے ازواج نبی کیلئے ۔ تو کیا یہ ترجمہ کریں گے وہاں کہ رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات کو گھر سے باہر قدم رکھنا حرام ہے۔ پس یہ محاورے ہوتے ہیں اس کا مفہوم سمجھنا چاہیے۔ فحشاء کی مرتکب ہوئی ہیں اس لیے ان کو وہ آزادی کا حق نہیں جو دوسری مسلمان عورتوں کو ہے۔ دوسری مسلمان عورتیں جب پھرتی ہیں باہر تو کسی کو حق نہیں ہے کہ ان پر انگلی اٹھائے، ان پر حرف رکھے کہ یہ گئیں تھیںبازار واپس اکیلی آگئی ہیں۔ وہ جو علیحدگی والی بات ہے وہ اورمضمون سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی کسی محرم کے ساتھ نکلنا وہ سفر کی باتیں ہیں۔ یہاں جو روز مرہ کی زندگی میں ایک عورت کو پورا حق ہے وہ باہر جاتی ہے نکلتی ہے۔ لیکن جس کے فحشاء کے متعلق ایسی پختہ گواہیاں آچکی ہوں اس کو پابندکرنا ہوگا۔ وہ اب نگرانی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ ہے سزا جو ایسی عورت کی مقرر ہوئی ہے۔ حتی یتوفھن الموت ۔ دو ہی صورتیں ہیں اب یا تو وہ مرجائے یا یجعل اللہ لھن سبیلاً۔ یا اللہ اس کیلئے کوئی سبیل نکالے۔ سبیلیں کیا کیا ہوسکتی ہیں۔ یہ کھلا مضمون ہے ایک مضمون یہ ہے کہ اگر وہ شادی شدہ نہیں ہے تو اس کی شادی ہوجائے اور کئی لوگوں کو پتا اوربتادیا جاتا ہے کہ دیکھو اس کا پس منظر یہ ہے تم شادی کیلئے تیارہوتو کرلو۔ چنانچہ ایسے ہی ایک معاملے میں کسی کو میں نے مشورہ دیا۔ یہ اس کے حالات ہیں اور اس معاملے میں وہ بیچاری بے قصور ہے یا مجبور تھی تم آنکھیں کھول کر اس بچی کو لینا چاہتے ہو تو لے لو پھر اس کے حق ادا کرنے ہوں گے، مگر اس کو پھر طعن آمیزی نہیںکرنی۔ اس نے خوشی سے قبول کیا او ربڑی عمدگی سے اس حق کو ادا کیا۔ تو یہ ایک اللہ کی طرف سے نکالی گئی سبیل ہوتی ہے۔ایسی عورتیں بعض بدنامیوں کے باوجود قبول کرلی جاتی ہیںشادی کیلئے۔ تو ان کے رشتے میں روک نہیں بننا۔ دوسرا اگر وہ خاوند وںوالیاں ہیں تو اگر وہ خاوند مرجائے تو اس گھرمیں کہاں اکیلی بیٹھی رہیں گی، کون ان کو اس گھرمیں رہنے دے گا۔ خاوند کے سسرال والے اس کو روٹی پہنچانے کا انتظام کریں گے ہر وقت۔ تو جو ایک غیرفطری غیر حقیقی بات ہے اس کو قرآن کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وہ سبیلاً والی بحث میں یہ بات بھی آجاتی ہے ۔ اگر وہ شادی شدہ تھیں تو ان کے خاوند مرتے ہیں وہ الگ ہوئیں پھر وہ اپنی ذمہ دار خود ہوگئیں۔ پہلی صورت میں شادی نہ ہونے کی صورت میں ولی ان کا ذمہ دار تھا اس کو حکم ہے۔ شادی شدہ ہونے کی صورت میں خاوند ان کا ذمہ دار ہے اس کو حکم ہے۔ وہ مرجاتا ہے تو پھر اپنے ولی اور ہیں دنیامیں اور بھی تو عورتیں ایسی فحشاء کرنے والی پھرتی ہیں قرآن کریم (میں) سے صاف پتا چلتا ہے کہ سوسائٹی میںرہتی ہیں ایسی عورتیں تو ان کو کون پابند کرے گا؟ کہاں کرے گا؟ اس لیے ان کی ذمہ داریاں پھر ان پر آپڑتی ہیں۔ پھروہ اپنی ولی خود بن جاتی ہیں۔ یہ ہے عمومی بحث۔
فقہاء کی جہاں تک بحثوں کا تعلق ہے انہوں نے اس آیت کو ملادیا ہے ۔ اس فحشاء سے جسے زنا کہا جاتا ہے۔ جسے ناجائز ایک دوسرے سے جنسی اختلاط کا نام دیتے ہیں ۔ چار کی گواہی ان کے ذہن میں ابھری ہے کہ دیکھو یہاں بھی چار گواہیوں کا ذکر ہے اور وہ جو آیت ہے سورہ نور میں جس میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد ہو یا کوئی عورت ہو وہ اس جرم کا ارتکاب کرے ان پر چار گواہ بنالو۔ اگر چار گواہی دیں تو پھر ان کو یہ سزا ہے اس چار اور فحشاء کے لفظ کو ملا کر یہ بحثیں اٹھائی گئی ہیں کہ فحشاء کا ایک ترجمہ بدکاری بھی ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھیں گے کہ اگر کوئی عورت ایسی ہو جس کی بدکاری کے متعلق چار گواہ اکٹھے ہوجائیں تو اس کو یہ سزا دینی ہے۔ مگر اس پر بڑی بحثیںاٹھائی گئیں ہیں مگر ایک ہی دلیل اس کے خلاف کافی ہے کہ وہ بدکاری اکیلی تو نہیں کررہی تھی۔ جس نے کی تھی اگر زنا مراد ہے تو اس کو کیوں چھٹی دے دی اس کا ذکر ہی کوئی نہیں۔ فریق ثانی کو کلیتہً معاف فرمادیا گیا ہے۔گویا کہ اس لئے ناممکن ہے کہ یہ ترجمہ کیا جائے اور یہ ترجمہ کرنے کے بعد دوسری مصیبت ترجمہ کرنے والوں کو یہ آ ن پڑتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک آیت نے دوسری کو منسوخ کیا ہے۔بیک وقت دو سزائیں کیسی ہو گئیں۔اگر عورتیں بے حیائی کی مرتکب یعنی جنسی اختلاط کا مرتکب ہوئی ہوں تو ایک جگہ قرآن فرماتا ہے 100 کوڑوں کی سزا دو۔دوسری جگہ فرماتا ہے گھروں میں بند کر دو۔تو یہ کیا بات ہوئی۔یہ تضاد قرآن کا نہیں یہ سوچ کا فتور ہے واقعہ یہ ہے کہ اس جگہ فحشاء سے مراد عورت اور مرد کا اختلاط لیاجا ہی نہیں سکتا ورنہ مرد کیلئے بھی سزا کا ذکر ہوتا۔ اس کے علاوہ جو دوسری آیت اس کے بعد آتی ہے وہ قطعی طور پر اس مضمون کو کھول دیتی ہے کہ مرادکیا ہے۔ پس میرے نزدیک فحشاء سے مراد ہم جنس پرستی ہے جس کا آجکل دنیا میں بہت رواج بڑھ رہا ہے اور لوط کی قوم کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ اس زمانے میںمردوں یہ فتور پایا جاتا تھا لیکن اس وقت تک جب تک آنحضرتﷺ کا زمانہ آیا ہے عورتوں میں بھی یہ بات دیکھی جانے لگی کہ وہ ایک دوسرے سے اپنی جنسی تعلقات جس حد تک بھی عورت عورت سے قائم کرسکتی ہے وہ کردیتی ہے ایسی صورت میں کیوں کہ الزام بڑا سنگین ہے یہ بھی، ایسی صورت میں ان کیلئے ضروری ہے کہ گواہ ٹھہرائے جائیں ۔ اسی احتیاط کے ساتھ جس احتیاط کے ساتھ مرد کے ساتھ جنسی تعلقات کے گواہ مقرر ہیں اور وہ احتیاط کے تقاضے پورے ہوں تو پھر مانو ورنہ نہ مانو۔ اور وہ ایسے تقاضے ہیں جن کے پورا ہونے میں بہت سی دقتیں حائل ہیں اور ان دقتوں کی وجہ سے ایک تحفظ مل جاتا ہے معصوم عورتوں کوکہ ہر آیا گیا ……… اپنی (نظر) گندی نظر سے اس کی حالت کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہ کرتا پھرے کہ وہ فحشاء ہے کہ جی ہم نے دیکھاتھا، لگتا ہے اس کی نیت خراب تھی ۔ اس لیے خداتعالیٰ نے یہ احتیاطیں معصوموں کی حفاظت کی خاطر فرمائی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ عورتیں تو گھروں میںرہ سکتی ہیں اور گھروں میں عورتیں اکٹھی ہوکر ایک جگہ کمرے میں بند ہوں تو چار گواہ کہاں سے آئیں گے۔ مردوں کیلئے اپنے گھروں میںاس زمانے کی سوسائٹی میں تو خصوصیت سے علیحدگی ڈھونڈنامشکل ہوا کرتا تھا۔ اور اب بھی بہت سی جگہوں میں یہی ہوتا ہے۔ اکثر غریب گھروں میں یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ پوری احتیاطیں کی جاسکیں اس لیے ایسے لوگ پھر باہر کی جگہیں ڈھونڈتے ہیں۔ جہاںاگر عادت بن چکی ہومجرم عادی ہوگیاہو تو آتے جاتے لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ ہورہا ہے پھر وہ اس جگہ پہنچتے ہیں اور وہاں جاکے چار گواہ بھی بن جاتے ہیں مگر شاذ ہے اور دونوں صورتوں میں تحفظ کیاگیا ہے۔ مردکی عصمت کا بھی عورت کی عصمت کا بھی ۔ اس صورت میں کہ اگر عورتیں ہوں ایسی حرکت کررہی ہوں ان کو کیا سزا دی جاسکتی تھی ۔ ان کو اگر جیل میں پھینکا جائے تو پوری بدکار ہوکر وہاں سے نکلیں ۔ کیونکہ جیلوں میں توہر قسم کے مجرم ہیں، ان کو مجرموں کی صحبت سے بچانامقصود ہے۔
تو یہاں میرے نزدیک یہ معنی بنتا ہے فامسکوھن فی البیوت کہ ان کو اپنے گھروں میں رکھو وہ کسی اور بے حیا عورت کے گھر جاکر آزادی سے کوئی حرکت نہ کریں۔ اور اپنے گھر میں ہوں گے تو بے حیا عورتوں کو تم روک دو گے ۔ تمہارا اپنا حق ہے اگر وہ کھلی پھریں باہر تو تمہیں اختیار ہی نہیں ہے کہ ہر جگہ پیچھے پہنچ پہنچ کے دیکھتے پھرو وہ اندر کیا کررہے ہیں ۔اس لیے اس حکم کے سوا کوئی اور صورت روک تھام کی بنتی ہی نہیں کہ internmentکی سزا ملے مگر یہ مراد ہرگز نہیں کہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتیں۔ نگرانی میںرہنی چاہیں اور بعض صورتوں میں مجبوری بھی ہوگی کیونکہ ایسے حالات ہوہی نہیں سکتے کہ ایک آدمی ہمیشہ کسی کو بند رکھے اور نگرانی بھی کرتارہے۔ ایک انسان سفرکرتا ہے تو بلیاں تک بھی تومصیبت بن جاتی ہیں۔ کتے مصیبت بن جاتے ہیں ان کو کس طرح گھر میںرکھیں۔ کون ان کو روٹی کھلائے کون ان کا خیال کرے ۔ تو (اگر اس کو) جو لوگ یہ سمجھتے ہیںاندر سے باہر نہیںنکلنا ان کے خاندان سفرکیسے کریں گے یا تو اس کو ساتھ لے کے جائیں گے تو پھر ان کے نزدیک جو حکم ہے وہ ٹوٹ گیا اوراگر گھر پہ چھوڑ کے جائیں گے تو کتنے گھر والوں کو کتنے خاندانوںکو یہ توفیق ہے کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی گھر میںموجود رہے۔ یہ ہو ہی نہیںسکتا کہ قرآن ایسا حکم دے دے جو انسانی فطرت میں قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو۔ (یہ) قرآن نہیںایسا حکم دے سکتا۔ پس قرآن کو فطرت کے مطابق سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ حالات ہیں جن کی روشنی میں اس کاترجمہ ہوگا کہ ایسی عورتیں جن کی فحشاء اس حد تک بڑھ چکی ہو کہ موقع کے چار گواہ بھی مہیا ہوجائیں۔ جب بے حیائی بڑھتی ہے تو پھر احتیاطیں کم ہوتی ہیں ۔یہ طبعی بات ہے اس لیے اس حد تک بڑھ چکی ہو کا ترجمہ درست ہے کیوں کہ بے حیاء پہلے بہت احتیاط کرتا ہے ، چاروں طرف دیکھے گا ، اِدھر اُدھر بھاگے گا کہیںکوئی صورت نہ ہو اس کے پکڑے جانے کی۔ جب آہستہ آہستہ کھل کھیلتا ہے تو پھر وہ احتیاطیں سب ٹوٹ جاتیں ہیں۔
یہی سوسائٹیوں کا حال ہے جس سے ہم یہ سبق لیتے ہیں۔ یورپ کی سوسائٹی ہو یا مغرب کی۔ کسی زمانے میں بے حیائی کیلئے بڑی بڑی مصیبتیں اٹھانی پڑتی تھیں ، بڑی احتیاطیں برتنی پڑتی تھیں۔ اب پارکوں میں بیٹھے ہوں یا اِدھر اُدھر دیکھیں جہاں بھی آپ دیکھیں گے کئی دفعہ آپ کو اپنی نظر سنبھالنی پڑے گی ۔ اوہ یہ کیا ہوگیا ۔ تواب ان کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں۔ شرفاء کو سنبھالنی پڑتی ہیں نظریں۔ تو یہ بے حیائی کا طریق ہے جب بڑھتی ہے تو پھر بڑھتی چلی جاتی ہے اور فحشاء کا معنیٰ ہی یہی ہے۔ چیز پھیل جائے تو وہ بے حیائی جو پھیلتی چلی جاتی ہے جب اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ احتیاطیں از خود گرنی شروع ہوجاتی ہیں تو خدا کی تقدیر ایسے مواقع پھر پید اکردیتی ہے کہ وہاںجاکر یہ لوگ پکڑے جائیں اور چار گواہ بھی آجائیں ۔ ایسی بڑھی ہوئی صورت میں یہ بڑھی ہوئی سزا بالکل مناسب اور جائز اور ضروری ہے اور روز مرہ کے الزامات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سمجھ گئے ہیں۔ ہیں وقت ہوگیا اتنی جلدی اوہو ابھی اس کی علماء کی بحثیں کل سے انشاء اللہ پھر میرا خیال تھا کہ ورہ ورثے کی آیتیں نکلیں گی تو رستہ تیزی سے گزرے گا آگے۔ مگر یہ بھی ایسی بحثیں ہیں، اس کے بعد جو آنے والی ہیں وہ بھی جن میں کافی اختلافات علماء کے پائے جاتے ہیں اس لیے ہمیں مجبوراً ٹھہر ٹھہر کے آرام سے گزرنا ہوگا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ24؍رمضان بمطابق14؍ فروری 1996ء
والتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم فان شھدوا فامسکوھن فی البیوت حتی یتوفھن الموت او یجعل اللہ لھن سبیلاً(النسائ:۱۶)
اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر میں کل پیش کرچکا ہوں۔ جو پرانی تفسیروں میں اس آیت سے مفہوم ملتا ہے اس میں اختلاف پائے جاتے ہیں اور اختلاف بھی بہت ہی بنیادی اور دلائل ان دونوں کی طرف عملاًکچھ بھی نہیں ہیں۔ بعضوں نے فاحشہ کا ترجمہ زنا کیا اور اس کے نتیجہ میں یہ بحثیں اٹھیں کہ پھر ان کو دوسری حد کیوں نہ ان کیلئے مقرر کی گئی جو سورہ نور میں بیان ہوئی ہے کوڑوں والی۔ بعضوں نے اسی بحث کے ساتھ یہ بحث بھی اٹھادی کہ شادی شدہ کیلئے ’’رجم‘‘ ہے اور غیر شادی شدہ کیلئے کوڑے ہیں اور اس کیلئے ایک ایسی حدیث پیش کی جاتی رہی پہلے بھی اور اب بھی بعض علماء اسی کو پیش کرتے ہیں جس کا اگر مانا جائے تو اس کے اندرونی طور پر بھی تضاد ہے مگر قرآن سے واضح تصادم ہے۔ اور اس آیت کے حوالے کا جہاں تک تعلق ہے وہ اس کواس طرح جوڑتے ہیں کہ اس سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یَجْعَل اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً سے اس کا تعلق ہے وہ اس طرح کہ یہاں تو یہ آیا ہے کہ ان کو پابند رکھو گھروں میں یہاں تک کہ یا ان کوموت آجائے یا ان کیلئے اللہ کوئی راہ نکال دے۔
لَھُنَّکا لفظ صاف بتارہا تھا کہ ان کے حق میں ا ن کی خیر کی کوئی بات ہونے والی ہے۔ ایسا امکان موجود ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ وہ اس مصیبت سے نجات پاجائیں اور اس کی وہی صورتیں سامنے آسکتی ہیں جو میں کل پیش کرچکا ہوں کہ ان کے حق میں خدا یوں راہ نکال سکتا ہے کہ انکو اگر وہ کنواریاں ہیں تو شادی کا انتظام ہوجائے۔ خاوند کی وفات کے بعد پھر ان کو ایک آزادی مل جاتی ہے، ان کو کوئی سنبھالنے والا نہیں رہتا۔ اور بھی کئی امکانی رستے ہیں وہ عورت کے حق میں جاتے ہیںسب۔ یہاں جو تصویر انہوں نے نکالی ہے اس سے اور ایک حدیث کا جو میرے نزدیک قطعی طور پرفرضی بنائی ہوئی حدیث ہے کیونکہ اس کا قرآن سے بھی تضاد ہے اس آیت سے بھی تضاد ہے اور قرآن کی فرضیت اور اس کی اہمیت اور اس کی قطعیت کے اوپر ایسی ضرب پڑ جاتی ہے ۔ پھر اس کے بعد پھر فقہاء وغیرہ جو چاہیں حدیثوں کے سہارے لے لے کر یعنی فرضی حدیثوں کے سہارے لے لے کر قرآن کے مضامین کو تبدیل کرتے پھریں، کسی قیمت پہ اس کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اور وہ یہ بنی ہوئی ہے حدیث کہ رسول اللہ ﷺ پر جب وحی آیا کرتی تھی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کی طبیعت پر بہت اثر پڑاکرتا تھا اور ان پہ غم کی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی اور ایک دفعہ جب ایسا ہوا تو آپ نے یہ فرمایا کہ وہ سبیل جس کا ذکر تھا وہ مل گئی ہے اب۔ اور وہ سبیل یہ ہے کہ مجھے اب بتایا گیا ہے یہ قرآن شریف میں نہیںہے یہ وحی حدیث میں گویا ایک وحی ہوئی ہے اور مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ سبیل یہ ہے کہ ایسی عورتوں کو سو کوڑے مار کے تو پھر سنگسار کردیا کرو ۔ اب کہاں یہ آیت قرآنی جس میں ان کو گھروں میں پابند کرنے کا ارشاد فرمایا گیا اور پھر ان مردوں کا ذکر ہی کوئی نہیں جو ان کے ساتھ ملوث ہوئے ہوں اور کہاں یہ حدیث کہ مجھے اب پتا چل گیا ہے سبیل یہ نکل آئی ہے کہ ان کو سیدھی طرح سو کوڑے لگائو اور اس کے بعد سنگسار کردو تو چلو ٹھیک ہوگیا، چھٹی ہوئی۔ یہ ہیں وہ مضمون احادیث کے جو قرآن سے متصادم ہوتے ہیں۔ تو علماء اس اصول کو ترک کرکے کہ قرآن ایک واضح قطعی لازمی ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے اور حدیثوں میں کم از کم ایک شک کا پردہ تو لازماً ہے کہ سو سالہ دور میں روایات کم از کم سو سالہ دور میں روایت ایک سے دوسرے تک منتقل ہوئی ہیں ۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کی یادداشتیں کیا تھیں۔ کیا سنا کیا آگے پہنچایا اور کیا کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہوا جو متاثر ہوا ہے کسی دلچسپی لینے والے شخص سے اور اس کی کہانی کو اس نے قبول کرلیا ۔ اگر روایات کی بحث محض صحیح اور دوسری کون کون سی اصطلاحیں ہیں اس کی ضعیف اور غریب اور واحد وغیرہ وغیرہ ان کے اوپر دیکھا جائے تو سارا نظام اسلام اور قانون قرآن درہم برہم ہوجائے گا۔
اس لیے ایک ہی طریق ہے کہ قرآن کریم جن معاملات میں واضح اور روشن حکم رکھتا ہے وہاں اس کو کسی صورت میں بھی کسی مبینہ حدیث کے ذریعے تبدیل نہ کیا جائے کیونکہ اس صورت میں قرآن میں بھی تضاد ہوگا۔ پھر یہ ایک اور مشکل ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ نے اپنی مرضی سے قرآن کا ایک ترجمہ سمجھا اور کہتے ہیں کہ حدیث کے مخالف ہے اس لیے حدیث کو ردّ کررہے ہیں یہ درست بات نہیں ہے۔ یہی مضمون دیکھ لیں۔ سورۂ نور میں جہاں زنا کا ذکر موجود ہے وہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق وہاں نہیں کی گئی اور سزا سو کوڑے ہے اور جھوٹ اور افتراء کرنے والی کی سزا اسّی (۸۰)کوڑے ہے اور اس کے علاوہ قرآن کریم نے کہیں بھی رجم کی سزا اس موقع پر نہیں دی۔ ایک اور موقع ہے جہاں رجم کا ذکر ہے اور وہ ہے فتنہ اور فساد اور صرف زنا نہیں بلکہ اور ایسی باتیں ظلم اور جَور ہیں جن کا اُس آیت میں ذکر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنگ مقدس کے دوران اپنے مقابل کے پادری سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم میں بھی زنا کی سزا سنگسار ملتی ہے۔ اب اگر آپ تلاش کرکے دیکھیں تو اس سورہ میں تو سورہ نور میں توکہیں ذکر نہیں ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام باقاعدہ ایک مناظرہ کررہے ہیں غیر سے اور کہتے ہیں کہ صاف ذکر موجود ہے ۔ تو وہ ذکر وہیں موجود ہے اُس آیت میں جو میں نے پیش کی ہے اور جو میںابھی پڑھ کے سناتا ہوں نکالیں گے تو۔ اس آیت میں ذکر ہے فسادیوں کا ، فتنہ پردازوں کا ، باغیوںکا۔ ہو اور جنہوں نے زمین میں ہر طرف گند پھیلایا ہوا ہے۔ ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ ان کو بہت سخت سزائیں دی جائیں۔ جوآگے دنیا کیلئے عبرت کا نشان بن جائیں۔ ان سزائوں میں وہ بھی ہیں جو پرانے زمانے میں دی جاتی تھیں۔ بعض سخت قسم کے مجرموں کو کہ دایاں ہاتھ کاٹ دو اور بائیں ٹانگ کاٹ دو یا بایاں ہاتھ کاٹ دو اور دائیں ٹانگ کاٹ دو، جس کا فرعون کے حوالے سے قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے کہ اس نے بھی کہا تھا میں مومنوں کو یہ سزائیں دوں گا۔ یا قتل کیا جائے یا ملک بدر کیاجائے یا سنگسار کیا جائے۔ اب یہاں لفظ زناکا تو نہیں استعمال ہوا مگر فساد جس قسم کا وہاں بیان ہوا ہے اس میں مَیں نے ایک دفعہ پہلے بھی ایک موقعہ پر عرض کیا تھا کہ میرے نزدیک چونکہ سنگسار کا لفظ قطعیت کے ساتھ یہاں ملتا ہے اور چونکہ اس فساد میں صرف زنا نہیں بلکہ زنابالجبر شامل ہوسکتا ہے تو وہ زنا کی سزا نہیں ہوگی ۔ محض بلکہ ایسا زنا جس سے ایک عورت پر ظالمانہ حملہ ہوا ہے اور اس کو ہمیشہ کیلئے مجروح کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یہ عام زنا نہیں ہے ۔ ایک معصوم بچی کے ساتھ ایسی حرکت کی جاتی ہے تو قرآن کریم کی تعلیم اگر صرف عام زنا کی حد ان سب معاملات پر بھی لگاتی تو اس سے قرآن کریم کی تعلیم ایک قسم سے نامکمل ثابت ہوتی کہ موقع اور محل کے بغیر معمولی جرم کی بھی وہی سزا دی جارہی ہے اور نہایت بھیانک جرم کی بھی وہی سزا دی جارہی ہے۔ اس لیے وہ آیت ہے جس میں یہ سارے امکانات کھلے رکھ دیئے گئے ہیں او رسوسائٹی کو حق دیا گیا ہے کہ اگر تم جرم کی نوعیت عام جرموں سے بڑھ کر پائو اور نہایت خبیث قسم کے لوگوں سے واسطہ ہو تو وہاں تم یہ یہ سزائیں جاری کرسکتے ہو۔ اُس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ ایک زنا بالجبر بھی شامل ہے ۔ اس لیے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں یہ حوالہ دیا ہے وہاںچونکہ اس کے سوا حوالہ نہیں لازماً ہمیں اس کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا ورنہ قرآن کریم میں جو سورہ نور میں جو ذکر ہے اس میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
اس کے علاوہ بہت سے کیسز (cases) ایسے ہیں جن میں جہاں ذکر ملتا ہے وہاں اور بھی ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں جن سے دعویدار کا دعویٰ مشکوک ہوجاتا ہے ۔ مثلاً یہودیوں کو سنگسار کرنے کا حکم وہ اس لیے کہ یہود کی کتاب میں یہی درج ہے۔ آنحضرتﷺ کے سامنے ایک دفعہ ایک یہودی کا کیس لایا گیا ۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا لانے والوں سے انہوں نے کہا اس کو سزا دلوائیں ،جو مارنے ہیںکوڑے ووڑے لگوانے ہیں وہ لگوائیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کیا تمہاری تورات میں یہی حکم ہے۔ انہوں نے کہاں ہاں یہی حکم ہے تو آپﷺ نے کتاب منگوائی اس نے بعض حصوں پرہاتھ رکھے اور چھپایا اور بعض دکھائے ۔ جب وہ صحابہ جو جانتے تھے پڑھنا اور تورات کا کچھ علم رکھتے تھے انہوں نے دیکھا تو انہوںنے پکڑا اور پوری آیت پڑھ کر سنائی گئی پھر، اور پوری آیت میںزنا کی سزا سنگسار ہی لکھی ہوئی ہے۔ الاحبارؔ کے حوالے میرے پاس بھی پڑے ہوئے ہیں۔ بہرحال وہ کون ساحوالہ تھا یہ تفصیل تو نہیں آئی۔ مگر بائبل لائی گئی اور اس میں سنگسار کا حوالہ نکالا گیا تو رسول اللہﷺنے فرمایا تم پر تمہاری شریعت کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کو سنگسار کروادیا۔ ایک اور روایت ہے جو یہاں اب آئے گی تو پھر میں اس پر بحث اُٹھائوں گا۔ جس کا مسلمان ہونا ثابت ہے اور مسلمان ہونے والی روایت میں بھی آخر پر ایک ایسا حوالہ ہے جس سے قطعیت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺنے اس کو حد نہیں سمجھا۔ اگر حد سمجھا ہوتا تو از خود اس کو بدل نہیں سکتے تھے ۔ یعنی ایک سنگسار ہونے والے کے متعلق آتا ہے کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی جب پتھر پڑے تو۔ اس کو پھر chaseکیا گیا اور اس کو پکڑا گیا پھر اس کو سنگسار کیا گیا یہاں تک کہ مرگیا۔ جب یہ ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے آیا تو آپﷺنے فرمایا تم نے اس کو کیوں بھاگنے نہیں دیا۔ اب حد کے معاملے میں تو رسول اللہ ﷺاتنا سخت مؤقف رکھتے تھے۔ یعنی دل کی سختی کا معاملہ نہیں بلکہ نظام کی اطاعت کے لحاظ سے سختی جو خداتعالیٰ نے جاری فرمایا۔ فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کٹوادیتا۔ کہاں یہ حدوداللہ کی حفاظت کرنے والا اور کہاں وہ بیان کہ ’’تم نے اس کو بھاگنے کیوں نہیں دیا؟‘‘ حالانکہ وہ خود رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش ہوچکا تھا وہ شخص۔ اور آنحضرتﷺ نے مسلسل اس سے اعراض کیا۔ اور صا ف ثابت ہوتا ہے کہ سزا میں جلدی نہیں تھی نہ سزا دینا چاہتے تھے اُس حد تک پہنچنے سے احتراز کررہے تھے جس کے بعد سزا دینے کے سوا چارہ نہ رہتا اور وہ واقعہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کا نام میں آگے جاکے آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔
وہ شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میںخودحاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہﷺ ! مجھ سے یہ غلطی ہوئی ہے مجھے سزادیں‘‘۔ آنحضورﷺنے اس کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیرلیا۔ وہ دوسری طرف سے پھر آیا اور اس نے کہا مجھ سے یہ حرکت ہوئی ہے مجھے سزا دیں۔اس پر رسول اللہﷺ نے پھر منہ دوسری طرف پھیرلیا۔ پھر تیسری دفعہ اس نے یہ کیا ، پھر چوتھی بار جب کیا تو فرمایا اس کو لے جائو اور راوی بیان کرتے ہیں کہ فرمایا اس کو سنگسار کردو۔ اب یہ جو بحث ہے سنگسار کردو والی اس میں جو دو امکانی باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں۔ کہ ہوسکتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہو جائو اس کو سزا دو اور انہوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا ہو۔ تب ہی رسول للہﷺ نے فرمایا کہ کیوں اسے جانے نہیں دیا اور میرے سامنے کیوں نہ لائے۔ ایک اور روایت میں اسی کے متعلق آتا ہے کہ اس نے کہا مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے لے جائو۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ وہیں سے ہوکے آیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے سنگسار ہی فرمایا تھا تو یہ کہنے والا سنگسار کے دوران یہ کیسے کہہ سکتا تھا کہ تم مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر جائو۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ سزا نہیں سمجھی تھی۔ اس نے رسول اللہﷺ کے سامنے جانے کیلئے اس لیے عرض کیا ہوگا کہ یہ سنگسار کررہے ہیں اور آنحضورﷺ نے سزا کا ذکر کیا ہے اور یہ ذکر نہیں کیا کہ سنگسار کرو۔ اس لیے کہتا ہے مجھے دوبارہ لے کر جائو اور جب یہ روایت پہنچی تواگر واقعتارسول اللہﷺ اس کی سزا سنگسار یعنی پتھر مار مار کر جان سے ماردینا ہی سمجھتے تھے تو پھر خداتعالیٰ کی قائم کردہ حد کو رسول اللہﷺ کیسے تبدیل فرماسکتے تھے کہ یہ کیوں فرمایا کہ بھاگنے کیوں نہ دیا۔ پھر یہ کیوں فرمایا کہ میرے پاس کیوں واپس نہ لے کر آئے۔ اس سے حدیث کے اندر ہی جو ایک تضاد ہے وہ ظاہر ہوجاتا ہے پورا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ یہ واقعات اس سے پہلے ہوں کہ قرآن کریم میں سورہ نور کی آیت نازل ہوئی ہو اور اس کی بھی پوری وضاحت ہمارے پاس نہیں ہے ۔ مگر ایک بات تو قطعی ہے ان سنگسار کے واقعات کو اس آیت کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں۔ جو ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ تمام فقہاء ، تمام بحث کرنے والے سنگسار کے ان واقعات کو اس آیت سے منسلک کررہے ہیں جو آپ کے سامنے پڑھی گئی اور اس آیت کو سورہ نور کے ساتھ منسوخ بھی مانتے ہیں۔ اگر سورہ نور کی آیت پہلے ہوئی ہوتی تو اس نے بعدمیں آنے والی آیت کو کیسے منسوخ کردیا۔ یعنی جہاں جہاں یہ موقف اختیار کرنیو الے ان واقعات کو باندھتے ہیں تو اس آیت کے ساتھ باندھتے ہیں کیونکہ سورہ نور کے ساتھ باندھا جاہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہاں تو ذکر ہی نہیں سنگسار کا۔ تو کہتے ہیں سنگسار کا ذکرالگ ہے اور اس آیت کوجو ابھی آپ کے سامنے پڑھی گئی ہے وَالَّتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ۔ اس کے ذکر میں یَجْعَل اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاًکے تعلق میں ان واقعات کو باندھ رہے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ سبیل نکالی ان بیچاریوں کیلئے کہ گھرمیں بندرکھنا۔کہاں تک بیچاریاں مصیبت میں مبتلاء رہیںگی، سیدھی طرح پہلے سو(۱۰۰) کوڑے مارو اور پھر پتھر مار مار کر ہلاک کردو۔ انسانی فطرت کے خلاف ،رسول اللہﷺ کے مزاج کے خلاف، کھلم کھلا قرآنی آیت کے خلاف لیکن علاوہ ازیں وہ سقم ہے جو میں بتارہا ہوں کہ جب اس آیت سے باندھ دیا تو ثابت ہوگیا کہ یہ سورہ نور سے پہلے کی آیت ہے۔ سورہ نور کی آیت بعد میںہوئی ہے اور جب سورہ نور کی آیت ابھی نازل ہی نہیں ہوئی تو پھر اس عہد کی بحث نہیں ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کا عمومی دستور تھا کہ وہ مضامین جن پر قرآن کریم نے واضح الگ تعلیم نہ دی ہو ان پر گزشتہ کتب کی تعلیم پر عمل فرمایا کرتے تھے اور اس طرح ایک الٰہی تعلیم کا ایک تسلسل ہوجاتا تھا۔ پس قبلہ کی طرف منہ کرنا اور پھر بعد میں اس کو بدل لینا اور بہت سی باتیں ایسی ہیں احادیث میں یہ مضمون بہت سے ملتے ہیںکہ آنحضورﷺ جب تک واضح اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت نہ آجائے۔ اس لیے پہلے سے جاری شدہ الٰہی کتب یا پہلے سے جاری شدہ مذہبی رسوم کو جاری رکھتے تھے ، روکتے نہیں تھے۔ پس ان حالات میں تو قطعی طور پر یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ سورہ نور کی آیات بعدمیں نازل ہوئی ہیں اور اس سے پہلے ان آیات کی رو سے نہیں اس آیت کی روسے نہیں محض۔ کیونکہ یہاں مضمون ہی اور ہے اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب تک تعلیم نہیں آتی ایک سزا دینی ہے۔ یہود کے مذہب کے متعلق واضح ہوچکاتھا کہ یہودکا یہ طریق ہے۔ اس مذہب کے مطابق ان کے افراد کو سنگسارکیا جارہا تھا۔ جب ایسا واقعہ ہوا ایک مسلمان کا معاملہ سامنے آیا تو سورہ نور کی آیت نازل ہونے سے پہلے اس کو بھی سنگسار کاحکم دیاہو۔ یہ امکان ہے لیکن یہ بھی بعید ہے امکان کیونکہ حدیث کامضمون بتارہا ہے کہ اس میں کچھ شبہ والی بات ہے۔ اس لیے اس حدیث پر فحشاء کے تابع اوّل تو زنا کی بحثیں ساری بے تعلق ہیں۔ فحشاء کا معنی زنا ہوسکتاہے انکار نہیں۔ مگر فحشاء کے اور بھی معنے ہیں اور فحشاء کا معنی زنا عورتوں کے عورتوں کے ساتھ تعلق پر اطلاق نہیں پاتا۔ مردوں کے مردوں کے ساتھ تعلق پر یہ لفظ زنا کا اطلاق نہیں پاتا اور نہ قرآن کریم نے ذکر کیا ہے ، نہ لوط کے حوالے سے بھی قرآن نے کہیں فرمایاکہ وہ مرد ایک دوسرے کے ساتھ یہ کیا کرتے تھے وہاں فاحشہ کا لفظ تو آیا ہے زنا کا نہیں آیا۔
پس فاحشہ کا لفظ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی عادت پر اطلاق پا کرہمارے ان معانی کو تقویت دیتا ہے کہ یہاں بھی آیت کے طرز بیان اور موقع اور محل بتارہے ہیں کہ فاحشہ کا معنی وہی کیا جائے گا جو قرآن کریم فرماتا ہے کہ لوط علیہ السلام کی قوم کو عاد ت تھی جس فاحشہ میں وہ قوم مبتلاء تھی۔ یہی فاحشہ ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے، پھر چار گواہوں کے اوپر پھنس گئے ہیں چار گواہوں کا اوّل تو یہ مانتے ہیں کہ سورہ نور کی آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو اس وقت ان چار گواہوں سے اشتباہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے فحشاء میں جیسا کہ سورہ نور کے سارے واقعے سے ثابت ہے ، یہ احتیاط برتی جارہی ہے قرآن کریم کی طرف سے کہ یہ سزائیں سخت ہیں اس لیے ہم سوسائٹی کو پابند کرتے ہیں کہ جب تک قطعیت کے ساتھ ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک ہرگز کوئی سزا نہیں دینی۔ بعض خلفاء نے اس سے یہ استنباط کیاکہ اس کے نتیجے میں مثلاً حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ کہتے تھے کہ کسی عورت کی گواہی کو قبول نہیںکروں گا ان چار میں ، چار مردوں کی چاہیے۔ کیونکہ مضمون کا سیاق و سباق بتا رہا ہے اور یہ اس بات کو اوربھی مشکل بنادیتا ہے کہ حد قائم ہو۔ تو قرآن کریم نے حد ایسی سخت قائم فرمائی کہ جس کی وجہ سے الارم کی گھنٹیاں دور دور تک بج جائیں اور کوئی شخص یہ خطرہ مول نہ لے کہ میرے ساتھ بھی یہ واقعہ ہوجائے ۔ لیکن عملاً اس واقعے کے احتمالات گواہی کے نظام کو سخت کرکے اتنے کم کردیئے کہ آئے دن روز مرہ ایسی باتیں دکھائی نہ دیں جس سے انسانی طبیعت پر واقعتا بہت اثر پڑتا ہے او رمنفی اثر پڑتا ہے۔ پس روکا بھی اور روکنے کے طرز میں جو سختی اختیار کی وہ فطرت کے عین مطابق تھی ۔ مگر اس کے روز مرہ کے بد اثرات کو زائل کرنے کیلئے یہ حکمت ِعملی اختیار فرمائی کہ اس کے واقع ہونے کے احتمالات کو بہت کم کردیا۔ میں یہ مطلب سمجھتا ہوں ۔ مگر وہ چار گواہ والی آیت ابھی اتری نہیں تھی تو یہاں چار گواہ کے حوالے سے زنا کے معنے ثابت کرنے کا کیا مطلب ہے وہ تو اتری بعد میں ہے۔ پس ثابت ہواکہ چار گواہوں کا ذکر اُسی رو کے پیش نظر کیا گیا ہے جسے قائم رکھتے ہوئے بعد میںحد قائم کرتے ہوئے بھی چار کا لفظ استعمال ہوا ہے اور عورتوں کی حفاظت میں چار کا ذکر ہے ، مردوں کے تعلق میں چار کا ذکر نہیں ہے۔ والذن یاتینھا منکم فاذواھما فان تابا و اصلحا فاعرضوا عنھا ان اللہ کانا توابًا رحیمًا ۔ کہ اے لوگو! دو مرد جو تم میں سے اس جرم کے مرتکب ہوئے ہوں۔ دو مرد کے متعلق بعض فقہاء نے اپنے دوسرے مؤقف کو ثابت کرنے کی خاطر یہ بحث اُٹھائی ہے کہ والَّذٰن سے ایک مرد اور ایک عورت بھی مراد ہوسکتے ہیں مگر بعض اہل علم نے صاف انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا قطعیت کے ساتھ پہلی آیت کے ساتھ سامنے رکھ کر اگر اس کو پڑھا جائے تو وہاںعورتوں کا عورتوں کے ساتھ تعلق کا ذکر ہے اور یہاں مردوں کا مردوں کے ساتھ۔ اورایک مرد اور ایک عورت کا ترجمہ کرنے کی کوئی گنجائش ہم نہیں پاتے یہاں۔ والذن یاتینھا منکم فاذواھما۔ ان کو بدنی سزا دو۔ اٰذُواھماکا یہ مطلب بنتا ہے ۔ پس یہاں یتوفھن الموت او یجعل اللّٰہ لھن سبیلاًنے جیساکہ میں نے کل اپنا مؤقف پیش کیا تھا اور میں اسی پر قائم ہوں۔ تمام تفسیری نوٹوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ایک بھی دلیل مجھے اس کے خلاف نہیں ملی۔ یہ موقف جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں consistantہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ نہ اندرونی تضاد ہے نہ کسی اور آیت سے متضاد ہے اور اگلی آیت سے بھی کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ بعینہٖ اسی مضمون کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ پس اس کے بعد میں پہلے وہ نکال لوں روایت جو میں نے کہا تھا ناں کہ پڑھ کر سنائوں گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مختلف باتیں لکھی ہیں ان کی تفصیلی بحث کی یہاں ضرورت نہیں مگر آپ یہ لکھتے ہیں ابو مسلمؔ او رمجاہدؔ نے یہی معنے کیے ہیں کہ اس سے مراد لواطت ہے۔ میرے نزدیک بے حیائی کی ابتدائی حالت کیلئے بھی یہی حکم ہے۔ یعنی جو بے حیائی کے قریب پہنچنا۔ ارتکاب سے پہلے کی حالتیں ہیں، آپ کہتے ہیں میرے نزدیک وہ بھی فحشاء ہیں مگر بعض علماء کا حوالہ دیا ہے وہ کہتے ہیں قطعی طور پراس سے مرادہم جنس پرستی ہے اور دوسرے معنی زائد ضمناً ہوں گے مگر اصل یہی معنے ہیں۔ جبکہ برے تعلقات کا آغازہو اور انتہائی حالت میں وہی سزا ہے جو زنا کی صورت میں بیان فرمائی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابتدائی حالت میں سزا کا حکم ہے اور انہوں نے … میں بتاتا ہوں ابھی… انہوں نے اس آیت کو پیش نہیں کیا۔پس اگر وہ آپس میں ایسے طریق اور ایسے رنگ میں ملتے ہوں۔ ویسے یہ بات سمجھ نہیں آئی مجھے استدلال کیا ہے کہ جب اس کا فتویٰ آیا تو اس میں انہوں نے اِس آیت کو پیش نہیں کیا۔ کیا مطلب ہوا؟ نوٹس میں یا کوئی لفظ ٹھیک پڑھا نہیں گیا اس لیے وہ اتنا ہی سمجھیں کافی ہے پہلی بحث۔ کہ بعض اہل علم نے اس کو قطعیت کے ساتھ ہم جنس تعلقات کے معنی دیے ہیں اور کہتے ہیں یہی مضمون ہے جو درست ہے ۔ میرے نزدیک بھی یہی ہے اور اس آیت کا سیاق و سباق بتاتا ہے۔
ہاں یہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف بھی ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے اور کوئی تضاد نہیں کہ فحشاء کے دائرے کو زیادہ وسیع سمجھا جائے اور ایسی حرکتیں جن سے پتا چلتا ہوں کہ آثار شروع ہوگئے ہیں بے حیائی کے اور بے حیائی کھلم کھلا نظر نہ آتی ہو مگر بے حیائی کے ارتکاب کے قریب جارہے ہیں لوگ۔ اس مضمون پر دوسری آیت قرآنی یوںروشنی ڈالتی ہے۔ ولا تقربوا الزنا زنا کے قریب بھی نہ جائو۔ تو حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ مؤقف کہ فحشاء میں وہ بات شامل ہے بالکل قابل قبول ہے مگر اُس کے بدلے نہیں، اُس کے علاوہ۔ اُس مؤقف کے بدلہ نہیں کہ یہاں عورت اور عورت، مرد اور مرد کا ذکر ہورہا ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ مؤقف لیا جاسکتا ہے کہ وہ باتیں جو لا تقربوا الزناکے اندر مضمر ہیں۔ اُن باتوں کا ارتکاب شروع ہوچکا ہو تو پھر سوسائٹی کو حق ہے کہ سزا دے مگر اس میں بھی احتیاط کا پہلولازم ہے۔ کہ ایسے گواہ اکٹھے کر لو چار معتبر جو قطعیت کے ساتھ ایسی حالت میں پائے جائیں جس کو کہتے ہیں compromisingحالت ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قریب پہنچ رہے ہیں اگرچہ واقعہ رونما نہیں ہوا۔ پس یہ عجیب قصہ ہے کہ اس آیت کو تو وہ منسوخ کرتے ہیں سورہ نور کی آیت سے اور سورہ نور کی آیت کو منسوخ کرتے ہیں اُس آیت سے جو نازل نہیں ہوئی۔ اور جس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ ہوئی تو تھی مگر مذکور نہیں ہوئی۔ تو آیت کون سی ہوئی جو باہر رہتے رہتے اندر کی آیت کو منسوخ کردے اور ایک آیت جوگھڑی ہوئی ہے ان لوگوں نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے کہ الشّیخ والشیخوخۃ ۔۔۔۔۔۔وہ صاف بتارہی ہے کہ کلام الٰہی ہے ہی نہیں۔ وہ طرز ہی نہیں ہے اور اگر ایسی آیت تھی تو رسول اللہ ﷺنے اس کو دباکے الگ کہاں رکھا۔
دیکھیں قرأتوں کا فرق اور چیز ہے اور آیات کا فرق اور چیزہے۔ قرأت کا مضمون تو یہ ہے کہ ایک آیت ایک لفظ کو مختلف طرزوں میں پڑھا جاتا ہے ۔ کہیں زیر آجاتی ہے کہیں زبر آجاتی ہے اور معنوں میں اُسی حد تک کچھ اختلاف ہے ۔ مگر تصادم نہیں۔ پس جہاں اختلاف معانی قرأت کے فرق سے پیدا ہوں زبر اور زیر کے پڑھنے سے فرق پڑ جائے اس کو اختلاف قرأت کہا جاتا ہے۔ یہاں اختلاف قرأت کی بحث ہی بے تعلق ہے بالکل۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی کہ شیخ اور شیخوخۃ جب کریں تو شیخ اور شیخوخۃ سے مراد تو بڈھا ہے۔ بڈھی اور بڈھا۔ اور وہاںبھی شادی شدہ کی بات وہاںبھی نہیں آئی۔ تو اوّل تو یہ عجیب و غریب آیت گھڑی گئی ، پھر وہ باہر پڑی رہی ہے اور قرآن میں آئی نہیں تو قرآن میں اندر والی آیت کوباہر بیٹھی آیت دروازے کھٹکھٹا کر کس طر ح منسوخ کرسکتی ہے ۔ اس لیے ان آیتوں کے چکر میں پڑنے والے لازم ہے کہ عقل استعمال کریں اور قرآن سے وفاداری کریں نہ کہ ان لوگوں سے وفاداری کریں جنہوں نے روایتیں پیش کرکے کئی مضامین کو اس طرح الجھادیا ہے کہ یہ کتاب جس کے متعلق دعویٰ ہے لاریب فیہ سارے ریب اس میں داخل کردیے ہیں۔ پس قرآن سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ ریبوں کے ہر کھلے ہوئے دروازے کو بند کیاجائے اور ہمیشہ کیلئے بند کیا جائے۔ ایک ہی اصول ہے کہ قرآن کے اندر تضاد نہیں اس کو سامنے رکھو اور اس کے واضح معنی کو پکڑو۔ کوئی آیت منسوخ نہیں ہے یہ دوسرا اصول پکڑ لو تو وہ تمام روایتیں ان دو اصولوں کے سامنے بہہ جاتی ہیں اور ثابت ہوجاتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کی جانے والی باتوں میں وہ بھی ایسی ہی باتیں ہیں جو روایتیں بخاری میں درج کی گئی ہی ۔ وہ کسی دن میں آپ کو سنائوں گا ان میں سے کہ کیسی کیسی عجیب و غریب بخاری میں روایتیں راہ پاگئی ہیں۔ جن میں کوئی انسان ادنیٰ سا بھی غورکرے تو ناممکن ہے کہ ان کو صحیح سند کے طور پر استعمال کرسکتا ہو۔ اور پھر ایسی روایات بھی بخاری میں راہ پاگئیں ہیں جن کا رسول اللہﷺ سے تعلق ثابت نہیں ہے۔ مگر بعض صحابہ نے گویا کہ یہ بیان کیاہے۔مثلاً ایک یہ کہ اب یہ بات ہورہی ہے کہ یہ حرکت ہو تو یہ بھی ایک روایت ہے بخاری کے اندر کہ ایک شخص کہتا ہے میں نے ایک بندر اور بندریا کو ناجائز تعلقات کرتے ہوئے دیکھا جبکہ بندریا شادی شدہ تھی اوربندر غیر شادی شدہ تھا اور بندریا نے دھوکادیا اپنے خاوند بندر کو اور اپنا ہاتھ اُس کے سرہانے سے نکال لیا جبکہ وہ سوئے ہوئے تھے دونوں۔ اس کی جگہ پتھر رکھ دیا۔ اور پھر میرے دیکھتے دیکھتے وہ بندر کے ساتھ جو نوجوان بندر غیر شادی شدہ تھا اُس کو لے کر ایک طرف چلی گئی اور وہاں جو حرکت سرزد ہوئی میں نے اپنی آنکھوں سے ساری دیکھی تھی۔ اس پر میں پھر دیکھتا رہا کہ اب کیا ہوتا ہے۔ وہ پھر واپس آئی اور آرام سے پتھر سرہانے سے نکالا اور اپنا بازو رکھ کر لیٹ گئی کہ خاوند کو پتا نہ لگے کہ کیا حرکت ہوئی ہے۔ اور خاوند ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سونگھ کے اندازہ لگالیا کہ یہ تو گڑ بڑ کرکے آئی ہے۔ اس نے شور مچادیا ۔ اے بندرو آجائو ظلم ہوگیا ! ظلم ہوگیا ! سارے بندر اکٹھے ہوگئے۔ گھیرا ، اُس کو اور اس کو بھی پکڑ لائے جنگل سے اور میری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے سنگسار کردیا۔
بخاری میں یہ روایت آگئی ہے کہ دیکھو بندروںمیں بھی اگر یہ ہے تو انسانوںمیںکیوں نہ ہو۔ محض اس وجہ سے ایک صحابی کا قول ہے اور روایت کہتے ہیں پکی ہے۔ اب روایت پکی ہے تو پھر کیا مضمون بنے گا۔ اس پر تبصرے بہت ہی دلچسپ ہیں۔ یہ بھی تبصرہ ہے کہ غالباً یہ وہی بندر تھے جو پہلے یہودی ہوا کرتے تھے جن کو بندر بنادیا گیا تھا۔ اور اگرچہ کہا گیا ہے کہ ان کی نسل جاری نہیں ہوئی مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان معاملات میں یہ وہی نسل تھی اور ان بندروں پر بائبل کا حکم اُسی طرح جاری و ساری رہا۔ یعنی بائبل کی شریعت کے نیچے اُسی طرح رہے ۔ اب آپ سوچیں اگر روایت پختہ ہے تو پھر اس پر اعتبار کریں گے آپ۔ روایت پختہ ہے صحیح بخاری کی ہے۔ تو یہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے میںکہتا ہوں کوئی ہرگز یہ نہ سمجھے کہ نعوذ باللہ من ذالک میں یہ جسارت دلارہا ہوں کہ حدیث ہے پھر بھی ۔قرآن کے مقابل پر حدیث آہی نہیں سکتی۔ ناممکن ہے کہ خداکی کائنات میں کوئی تضاد ہو اور جیسا کہ کائنات جسمانی میں کوئی تضاد نہیں اس طرح روحانی کائنات میں بھی کوئی تضاد نہیں۔ محمد رسول اللہﷺ اور قرآن ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں۔ پس جہاں تضاد ہے آپ کی وفاداری رسول اللہﷺ سے وفاداری کا تقاضا ہے۔ قرآن سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ ٹائٹل کو دیکھ کرہرگز مرعوب نہیں ہونا جہاں قرآن اور رسول اللہﷺ کی ذات پر حملہ ہے جہاںتضادکے سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کو ردّ کردیں ۔ بالکل دلیر ہوکر کیونکہ خداتعالیٰ فرمارہا ہے کہ کوئی تضاد نہیں ہے۔ خداتعالیٰ فرمارہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺقرآن کے سوا کوئی بات نہیں کرتے۔ پس جہاں رسول اللہﷺ کی طرف وہ باتیں منسوب ہیںجو نہ قرآن کو منظور ، نہ تاریخ کو منظور، نہ عقل انسانی کو منظور ، آنکھیں بند کرکے رہو،صحیح روایت بخاری میں ہے اُس سے استنباط کرتے چلے جاتے ہیں۔ پس یہ ہرگز جائز نہیں ہے اور یہ میں نے مثال اس ضمن میں دے دی ہے کہ اِسی آیت کی بحث جو ہم کررہے ہیں یہ بحثیں بھی اٹھائی گئی ہیں۔
لونڈی کی بحث بھی اُٹھ گئی اور اُس میں یہ عجیب وغریب باتیںاب، دیکھیں نہ حد کی باتیںہورہی ہوں اور رسول اللہ ﷺکی اپنی طرف سے کچھ اور باتیں داخل کردیں یہ کیسے ممکن ہے۔ کہتے ہیں لونڈی کے متعلق پوچھا گیا کہ اگر کوئی لونڈی ہو، کنواری ہو اور وہ ایسی حرکت کرے تو کیا کیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پہلی دفعہ کرے تو اُس کو 50کوڑے لگائو، دوسری دفعہ کرے تو اس پر حد جاری کرو۔ تیسری دفعہ کرے تو بیچ دو۔ اب وہ بیچ دو کا مضمون کہاں سے آیا قرآن کریم میں تو کہیں نہیں ہے۔ پس یہ جوحدیثیں ہیں ان کو پڑھ کر آپ کی جو فطرت ہے وہ خود آپ کو متنبہ کرنا شروع کردیتی ہے کہ یہ محمد رسول اللہﷺ کاکلام نہیں ہے احتیاط کرو۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو …… جو بیان کیا جاتا ہے نا کہ جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پہلے کوڑے لگائو ۔ پھر اُس کو سنگسار کردو ۔ یہی خداتعالیٰ نے راہ نکالی ہے اس میں آپ لکھتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا عمل اس حدیث کو ردّ کرتا ہے ۔ کیونکہ آپﷺ کے زمانہ میں 5کو رجم کیا گیا۔ مگر آپﷺ نے کسی کو پہلے کوڑے مرواکر رجم نہیںکیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ روای آنحضرتﷺ کے مطلب کو نہیں پہنچا۔ اصل بات وہی ہے جو ابو مسلم اور مجاہد نے ہے لکھی اور جسے ابوحیان نے بحرمحیط میں نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایسی عورتوں کے متعلق ذکر ہے جو کہ آپس میںبے حیائی کرتی ہوں۔ وہ ذکر ہے ، وہی بات ہے اصل میں۔ اور میرے خیال میں بے حیائی کرنے والی عورتوں کو روکنا بھی چاہیے اور بے حیائی کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ چار گواہ اس لیے رکھے ہیں کہ قاضی کے سامنے باقاعدہ ثابت کیا جائے۔
جو آیت میں عرض کررہا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں زنا کی سزا سنگسار بھی ہے وہاں یہ سوال اٹھنا چاہیے ہر احمدی کے دل میں کہ کیا اُن کوڑوں والی سزا کے سوا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام گویا ایک ایسی آیت کے بھی قائل ہیں جو قرآن کریم میں موجود نہیں ہے۔ اور جس نے اس کو علماء کے نزدیک موجود آیت کو منسوخ کردیا۔ یہ معنی نکالنا سراسر ظلم ہے کیونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا قطعی مؤقف یہ تھا، ہمیشہ رہا کہ قرآن کریم کا ایک شوشہ بھی کسی اور قرآن کے شوشے یا کسی طریق سے بھی منسوخ نہیں ہوا۔ جو آیات ان کی زیر ، زبران کی حرکات نقطے تک قرآن کی جلدمیں ملتی ہیںوہ سب ابدی طور پر اس طرح ہیں اسی طرح رہیں گی۔ کوئی بھی نہیں جو ان کومنسوخ کرسکے۔ یہ مؤقف ہے۔ اس لیے اور پھر ایک کھلے عام بحث میں حوالہ دے رہے ہیں۔صاف پتا چلتا ہے کہ اُس آیت کا حوالہ دے ہی نہیں رہے جو مذکور ہے اس میں تو ذکر نہیں ہے ۔ پس یہ ہے وہ جگہ استنباط کی جو میں نے آپ سے کہا تھا اس سے پہلے بھی ایک دفعہ میں نے غور کیا تھا تو مجھے یہی آیت دکھائی دی ۔ انما جزاء الذین یحاربون اللہ و رسولہ و یسعون فی الارض فسادًا۔ ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم و ارجلھم من خلاف او ینفوا من الارض ذلک لھم خزی فی الدینا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم(المائدہ:۳۴)۔ یقیناجزا اُن لوگوں کی جو اللہ اور رسول سے جنگ کرتے ہیں (یعنی کھلم کھلا بغاوت کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ اللہ اور رسول سے مراد قانون اسلام ہی نہیں بلکہ ہر وہ اچھی بات جو خداتعالیٰ کی طرف سے رائج کی جارہی ہے اسے کھلم کھلا توڑتے ہوئے اس کی بے حرمتیاں کرتے ہیں)۔ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اور زمین کو فساد سے بھرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ چاہتے ہیں کہ زمین میں کثرت سے فساد پھیل جائے۔ ان کی سزا یہ ہے کہ اَنْ یُّقَتَّلُوْا اَو یُصَلَّبُوْا یاان کو قتل کیا جائے اور سختی سے قتل کیا جائے یا یصلبوا ان کو صلیب دیا جائے۔ یا ان کے ہاتھ مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں اور ان کے پائوں بھی ۔ اَوْ یُنْفَؤُا مِنَ الْاَرْضِ یا زمین سے ان کو دیس نکالاکردیا جائے۔
پس جہاں اس آیت میںسا ری باتیں آگئی ہیں وہ حدیث جو ہے جو بیان کی جاتی ہے کہ ایک شخص کو سزادے کر ملک بدر کیاگیا۔ وہ کہتے ہیں اُسی وقت نازل ہوئی تھی یہ آیت ۔ یہ بھی کرسکتے ہو۔ حالانکہ وہ اس آیت میں ذکر ہے۔ پس زنا کے ساتھ اس آیت کا ایک تعلق ایسا ہے جو آنحضرتﷺ کے ایک فعل سے ثابت ہے۔ آپﷺ نے ایک ایسے نوکر کو جس نے کسی اور آزاد سے یہ حرکت کی تھی اُس کو نہ صرف سوکوڑے لگوائے بلکہ ایک سال کیلئے ملک بدر بھی کردیا۔ تو اس آیت میں فساد کے تابع جہاں معاملے زیادہ سنگین ہوجائیں ، جہاں ظلم عام حدوں سے بڑھ کر تجاوز کرتے ہوئے سنگین صورت اختیار کرچکے ہوں وہاں یہاں تک سزائیں دینے کا اختیار ہے۔ مگر رسول اللہﷺ کے زمانے میں نہ کسی کو صلیب دیا گیا، نہ کسی کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹے گئے اور ملک بدر کرنے کا واقعہ البتہ ملتا ہے۔ اس لیے سنگسار والی بات بھی اگر ہے تو وہ میں نے بیان کیا ہے یا زنا کے ایسے تعلق میں ہے جہاںیہودی تھے اور یا ایسے تعلق میں ہے جہاں آیت نور کے نزول سے پہلے کی بات ہے۔ پس یہ آیت سنگسار کی اُن کیسوں پر اطلا ق کرے گی جیسے مثلاً کسی زنا بالجبر کے کیس میں انتہائی ظالمانہ حرکت ہوتی ہے۔ اگر وہاں سو کوڑے عام مارے جائیں اور باقیوں کو بھی تو یہ کوئی انسانی فطرت کے مطابق نہیں ہے بات۔ ایک معصوم بچی کو جس کی عمر ہی بڑی نہیں ہوئی نہایت ہی ظالمانہ طریق پر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ روز مرہ یہاں ہورہا ہے یہ اور ساری عمر کیلئے اس بیچاری کو بیکار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتالوں میں بھی اُس کو بچانے کی جدو جہد بڑی محنت سے ہوتی ہے او رکہتے ہیں کہ شاید بچے یا شاید نہ بچے۔ اندر سے سارا نظام اُدھڑ کے تباہ ہوجاتا ہے۔ اس کو صرف سو کوڑے کی سزا دی جائے گی۔ جہاں فطرت انسانی بولتی ہے۔ ان بدبختوں کو شدید قسم کی سزائیں دینی لازم ہیں۔ وہاں یہ آیت کام آتی ہے اور یہاں سنگساری کا حکم آجاتا ہے۔
پس بالجبر کے اندر لے آئیں یا معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی سمجھی جائے۔ ہر ایسا موقع جہاں فطرت تقاضا کرتی ہے کہ سزا زیادہ سخت ہو قرآن کریم کی یہ آیت اس فطرت کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہاںموجود ہے اور یہ وہ ہے آیت جس کی رو سے تم یہ یہ سزائیں بھی دینے کے مختار ہو مگر یہ شاذ کے طور پر ہوگا۔ اور شاذ ہونا اس بات سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ کی ساری زندگی میں ان میں سے بعض پر تو عمل ہوا ہی نہیںناں! معلوم ہوتا ہے اُس سنگینی کے ساتھ وہاں جرم نہیں ہوا کوئی جس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺیہ فیصلہ صادر فرماتے ۔ اور جہاں کسی حد تک ہوا وہاں ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ والذٰن یاتینھا منکم فاذوھما۔ ھَا کی ضمیر فحشاء کی طرف جارہی ہے۔ والذٰن دو مرد جو تم میں سے اس کے مرتکب ہوں اذوھما انہیں بدنی سزا دو۔ فان تابا پس اگر وہ توبہ کرلیں و اصلحا اور اصلاح کرلیں فاعرضوا عنھما تو ان سے اعرا ض کرلو۔ ان اللّٰہ کان توابًارَّحیمًا ۔ یقینا اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ پیشتر اس سے کہ فقہاء کی باتیں آپ کے سامنے رکھوں ۔ چند باتیں آپ کے سامنے نمایاں کرکے رکھنا چاہتا ہوں ۔ اس آیت میں مبحث کیا بنتا ہے۔ یاتینھامنکم فاذو ھماکی بات میں کہہ چکا ہوں۔ لازماًیہ میرے نزدیک جس میں کوئی بھی شک نہیں کہ دو مردوں کی آپس کی بے حیائی کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ جیسا کہ پہلی آیت عورتوں کی بے حیائی کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ اگر یہ دو باتیں درست نہیں ہیں تو پھر قرآن کریم میں کہیں بھی ہم جنسی کی کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔ سوائے اس سزا کے جو خدا نے آسمان سے پتھر برسائے تھے۔ پس صاف پتہ چل رہا ہے کہ یہ وہ موقع ہے جہاں ہم جنس پرست عورتوں کیلئے بھی، ہم جنس پرست مردوں کیلئے بھی سزائیں مقرر ہیں۔ اذوھما میں کوئی معین سزا نہیں دی گئی کہ کتنی مار مارو۔ لیکن اس کے بعدیہ فرمایا کہ فان تابا و اصلح فاعرضوا عنھما ۔ اگر وہ توبہ کریں اور اصلاح کریں تو پھر ان سے اعراض کرو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تو بہ کب کریں ۔ اگر پکڑے گئے ہیں تو قرآن تو کہہ رہا ہے کہ جب پکڑے جائیں تو توبہ کا وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ اور اصلاح کریں۔ کیسے اصلاح کریں۔ پکڑے گئے ہیں مجرم کے طور پر حاضر ہوئے ہیں وہاں توبہ کرکے اصلاح کریں تو پھر سزا نہ دو۔ یہ تو عجیب سی بات لگتی ہے گویا کہ سزاکو کچھ مدت کیلئے ٹال کے رکھ لو۔ عورتوں کو تو فوری سزا دو او رمردوں کے ساتھ یہ سلوک کرو۔ یہی وجہ ہے کہ ویری کو موقع مل گیاہے یہاں۔ اور وہ کہتا ہے کہ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام عورتوں کے ساتھ تو بہیمانہ سلوک کرتا ہے اور مردوں کے ساتھ غیر معمولی اپنائیت کا سلوک کرتا ہے اور تعلیم میں کوئی برابری نہیں۔
لیکن اٰذوھما کا معنی اگر صرف ایک وقت کی مار نہ ہو بلکہ ایسی پابندیاں ہوں جو ان کو تکلیف پہنچائیںتو پھر اس آیت کے معنی بالکل کھل جاتاہے۔ اور بہت سے فقہاء نے اٰذوھما میں صرف بدنی تکلیف کو لیا ہی نہیں اور بعض نے تو یہاں تک بات کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بدنی تکلیف کی ضرورت ہی کوئی نہیں ۔ اگر دومرد ایسی بے حیائی کریں تو ان کو بلا کر بڑا سخت ڈانٹو کہ خبردار جو تم نے کبھی ایسی حرکت کی۔ تمہیں پتا نہیں کہ تم خدا کی پکڑکے نیچے آگئے ہو ۔ تمہیں پتا نہیںتم نے کتنی معیوب حرکت کی ہے ۔ تو وہ سر پھینک کر کہیں ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ تو پھر کچھ نہ کرو۔ بس کافی ہوگیا ہے۔ عجیب و غریب مضامین قرآن کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ میں آپ کو نکال کر بتائوں یہ مضمون مثلاً کہاں بیان ہوا ہے۔ سعید بن جبیر وغیرہ بہت سے حوالے ہیں جو صاف بتارہے ہیں کہ ایک عورت اور ایک مرد اس میں مذکور ہیں۔ میں بعدمیں ان کی طرف آئوں گا۔ ایک جگہ لکھا ہوا ہے تفسیر امام زمخشری کی الکشاف ہے کہ اوّل تومعنی وہاں زانی کے لے لیے۔ والذٰن یاتینھا ۔ یعنی ایسی صورت میں اگر وہ زنا کریں دو مرد تو ڈانٹ ڈپٹ کرو اوردونوں کی بڑی مذمت کرو۔ ان سے کہو کہ کیا تمہیں شرم نہیں آتی ، خداکا کوئی خوف نہیں ۔ کیا حرکت کی ہے تم نے ۔فان تابا و اصلحا اگر وہ توبہ کریں، نہیںنہیں ٹھیک ہے ۔ خد اکا حکم آگیا ۔ چھٹی کرو۔ زنا بھی سزا ہے ۔ بتایا جارہا ہے کہ معنی زنا کے ہیں اور زنا کی مردوں کیلئے بس اتنی سزا ہوا کرتی تھی۔ اور پھر دو مرد آپس میں زنا کس طرح کرسکتے ہیں۔ وہ بھی مضمون کھینچ تان کے بیچ میں داخل کردیا ہے۔ تو یہ ساری باتیں غیر فطری ہیں۔ ناممکن ہے کہ قرآن کریم ایک زمانہ کے ایک صدی کے علماء کی سوچ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ ان کی سوچیں اپنے زمانہ کے بعض سایوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ کئی قسم کے سائے پڑے ہوئے تھے عقلوں کے اوپر اس زمانے میں۔ ان کی مجبوریاں تھیں۔ وہ قرآن اس سایہ دار زمانہ میں نازل نہیںہوا کہ سایہ کے نیچے اتر کر اپنی پناہ لے لے۔ قرآن تو روشنی لے کر آیا ہے۔ جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الباطل جہاں آیا ہے وہاں ظلمت کا کوئی نشان نہیں چھوڑا قرآن کریم نے۔ اس لیے جہاں بھی ظلماتی تصور قرآن کریم کی طرف منسوب کیے جائیں بے دھڑک ہوکر ردّ کردیں۔ کوئی اس میں خطرہ نہیں ہے۔ کوئی تردّد کی ضرورت نہیں۔ قرآن ہر سائے سے پاک ہے اس کا نور ہر اندھیرے کو زائل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اور ایسے ترجمے جیسا کہ میں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں ایسی تفاسیر ہرگز قبول کے لائق نہیں ہیں۔
پھر ایک اور جگہ تفسیر کبیر الرازی میں لکھا ہوا ہے۔ سب مفسرین متفق ہیں کہ اٰذُوھما میں زبان سے تکلفی دینا تو بہر حال شامل ہے ۔ یعنی توبیخ اورڈانٹ ڈپٹ وغیرہ۔ جیسے کہ کہاجائے تم دونوں نے بہت برا فعل کیا ہے۔ بہت بری بات کی ہے۔ سزا اور خدا کی ناراضگی کا سزاوار بنالیا ہے اپنے آپ کو۔ اپنے آپ کو عدل کی صفت سے محروم کردیا ہے۔ ایسی باتیں کیا کرو۔ اور اٰذُوا کا جو واضح معنی ہے بدنی سزا اور تکلیف اس کو نظر انداز کردیا گیاہے ۔ بعضوں نے اس کو لیا ہے اور پہلی کو چھوڑا ہے بعضوں نے دونوں کو اکٹھالیا ہے۔ پس اٰذُوھمامیںکوئی ایسا طریق کار ہے جس سے ان کی اذیت اچانک آکر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اُن پر قدغنیں لگ گئیں ہیں سوسائٹی میں۔ گھر کی پابندی تو نہیں کیونکہ ایسی صورت میںمرد جو عورت کے خاندان کی کفالت کا ذمہ وار ہے وہ محروم ہوجائے گا اور اقتصادی نظام بگڑ جائے گا۔ مرد کیسے کمائے گا؟ کیسے نوکری پر جائے گا ؟ اگر وہ پابندہوجائے۔ عورت چونکہ اس بات کی پابند نہیں ہے کہ گھر کے اخراجات چلائے اس لیے اس کی سزامختلف ہے۔ اور مرد کی یہ ہے کہ اٰذُوھما مگر یہ کہ صرف چند جوتے مارکر چھوڑ دیا جائے ۔ یہ معلوم نہیں ہوتا ۔ اگر یہ ہوتا تو پھریہ کیا معنی ہیں کہ فان تابا و اصلحا فاعرضوا عنھما ۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ سزاکا عرصہ ان کاکچھ لمبا چل رہا ہے اور چونکہ بدنی سزا کے علاوہ دوسری سزائیں بھی قطعیت کے ساتھ سب علماء کے بیان کے مطابق لفظ اٰذُواکے اندر داخل ہوتی ہیں اس لیے اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ سوسائٹی کو پھر یہ حق ہے کہ ایسے لوگوں کو بدنی سزا بھی دیں اور کچھ ایسی پابندیاںان پر عائد کردیں کہ ان کو اُن کی تکلیف محسوس ہو سوسائٹی میں۔ پھر وہ اگر توبہ کریں اور ان کے رویے میں پاک تبدیلی نمایاںہوجائے پھر اس توبہ کو قبول کرلو اور پھر ان سے وہ پابندیاں جو تکلیف دہ پابندیاں ہیںوہ اٹھا دو۔ ان اللہ کان توابا رحیما۔ یقینا اللہ تعالیٰ توبہ کو بہت قبول کرنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے ۔یہ جو توبہ والی بحث ہے اس کے متعلق اب فقہاء نے یہ بھی بحث اُٹھالی ہے کہ کب توبہ قبول ہوتی ہے اور کب نہیں ہوتی۔
اب روایات کا اختلاف اور قرآن کے ساتھ اختلاف کی صورت دیکھیں تو کہتے ہیں کہ عکرمہ، عطا، حسن، عبداللہ بن کثیر کے نزدیک یہ آیت مرد اور عورت کے بارے میں ہے جب وہ زنا کریں۔ اگر وہ یہی آیت ہے تو پھر آیت لوط منسوخ ہوگئی۔ اب ہمارے احمدی علماء بھی جو حدیث کے فن کے ماہر ہیں جب اس قسم کی بات مجھ سے سنتے ہیں تو کچھ دیر کیلئے ہل جاتے ہے یہ کیا باتیں کررہے ہیں۔ اب بتائیں وہ یہ مؤقف اپنابدل لیں گے کہ قرآن میںکچھ منسوخ نہیں۔ پس ایسی احادیث جو قرآن سے متصادم ہوں، لازماً احادیث نہیں ہیں ۔ میں یہ عرض کرتا ہوں ہو ہی نہیں سکتیں۔ جو تضاد پید اکردیں، جو شکوک کے پردے ڈال دیں، قرآن پر وہ حدیثیں کہاںہوسکتی ہیں۔ جبکہ سو سو، دو دو سو، تین تین سو، چھ چھ سو سال کے بعد جمع ہونے والی حدیثیں ہیں۔ سو سال پہلی کی آج ہمارے زمانہ میں تو روایت سمجھ نہیں آتی اور چھان بین کرنی پڑتی ہے۔ بڑے بڑے بزرگ صحابہ کی روایت میں ایسی باتیںراہ پاجاتی ہیں کہ بعض دفعہ خلیفۂ وقت نے فیصلہ کیا کہ یہ کتاب اب شائع نہیںہوگی جب تک یہ روایتیںنہ نکلیںاور وہ بڑے صحابی تھے۔ تو صاف پتا چلتا ہے ، میں نے پہلے بھی مثال دی ہے۔ اس بات کے متعلق اس با ت کو یاد رکھیں کہ سوائے قرآن کے کسی انسان کے کلام کے متعلق یہ نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور قرآن میں محمد رسول اللہ ﷺ شامل ہیں۔ اللہ اور رسول کو اس طرح باندھا گیا ہے کہ قرآن کے متعلق جب میں کہتا ہوں اور رسول اور اللہ کو قرآن کے اندر دیکھتاہوں تو کوئی بھی تفریق نہیں پاتا۔ ناممکن ہے کہ آنحضرت ﷺکے کلام میں تو شک ہو اور قرآن میں نہ ہو۔ ایک ہی چیز ہے نہ قرآن میںشک ہے نہ محمد رسول اللہ ﷺ میںشک۔ پس جہاں شک دکھائی دیتا ہے نہ وہ قرآن کی بات ہے نہ رسو ل اللہﷺ کی ۔ تمہیںاختیار ہی کوئی نہیں کہ اس کو ان دونوں کی طرف منسوب کرو۔ اور پھر اختلاف مذاہب ہے اتنا اتنا کہ کس کے پیچھے چل کر کیا کریں گے۔ قرآن جو واضح کتاب ہے، مبین کتاب ہے وہ توشکوک سے بھر جاتی ہے۔
ایک فقیہ کہتا ہے کہ اس کے مطابق یہ فتویٰ جاری کرو کہ حد لگادو، کوڑے مارو۔ عورتوں کومارو۔ کوئی کہتا ہے کہ جوتے سے مارنا ضروری ہے۔ چھتر نکالو اور خوب چھترائو کرو اس کا۔ اس کے بغیر ۔ تو اب ان میں سے کس کس کی بات مانیں گے۔ جس کی نہیں مانے گے اگر وہ سچی ہے تو پھر قرآن پے تو عمل نہ ہوا۔ اس لیے سیدھی سادھی بات جو میں مثال آ پ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں تضاد ہے ہی کوئی نہیں۔ آیات قرآنی سے ہٹ کر جو الگ سفراختیار کیا جاتا ہے وہاں تضاد پیدا ہوتے ہیں۔ آپ قرآن کے ساتھ چمٹ کر ، ہاتھ میں ہاتھ دے کر چلیں تو ناممکن ہے کہ کوئی تضاد دکھائی دے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرفوع روایت ہے کہ جس کو قومِ لوط کی طرح دیکھو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔ اب یہ کہیں جاری ہوا ہے فعل آج تک۔ اور مرفوع لکھا ہوا ہے، مرفوع روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح پہ اللہ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ ایسی اچھی حدیثیںروایت کرتے تھے کہ سب نے انہی کو جھوٹی حدیثوں کیلئے چن لیا ہے بیچاروں کو ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کا اپنا مقام اتنا بڑا تھا کہ چلو اس بہانے اس رستے سے داخل ہوتے ہیں۔ اور کوئی شک نہیںکرے گا۔ بہت عجیب و غریب چیزیں ہیں ۔ میں یہ ساری پڑھ کر سنادوں تو لوگ پَر جھاڑتے ہوئے اٹھیں گے یہاں سے۔ وہ ماعز تھے جن کے رجم کے متعلق وہ میں نے حدیث بتائی تھی ناں۔ کہ حدیث آتی ہے کہ ماعز کو رجم کا حکم ملا۔ وہ اس کے متعلق ہے کہ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت نیل الاوطار میںبیان ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بھی اُس رجم کرنے والوں میں شامل تھا۔ جب اُسے رجم کرنے لگے تو وہ پتھر کی چوٹ سے چلایا کہ اے لوگو مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لے چلو۔ اب بتائیں کہ انہی کے متعلق روایت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس خود گیا تھا اور آپ ہی نے فتویٰ دیا تھا۔ تو میری قوم نے تو مجھے مروادیا وہ کہتا تھا۔ مجھے دھوکہ میں مبتلاء کیا اور یقین دلایا کہ رسول اللہﷺ ہرگز میرے قتل کا حکم صادر نہیں فرمائیں گے۔ اب وہ بھی ہے بات اور اُدھر رسول اللہﷺ کے پاس لے چلو اس میں کیا وجہ ہے۔اگر وہ رسول اللہ ﷺنے واضح رجم کا حکم دیا تھا تو وہ یہ کیوں کہا کہ میری قوم نے مجھے مروادیا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ قتل کا فتویٰ نہ دیں گے ۔ اب میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ ہم باز نہ آئے اور اُسے ماردیا ۔ جب رسول اللہﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور سارا واقعہ سنایا تو رسول اللہﷺ فرمانے لگے تم نے اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔ تم اُسے میرے پاس کیوں نہ لے آئے۔ دو باتیں ہیں اگر آپ ہی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے یا کچھ اس سے کم عرصہ میں ایک حکم دیا تھا ان کو کہ جاکر رجم کردو۔ اسی سے رجم کی یہ نکالتے ہیں سند ۔ تو رسول اللہ نعوذ باللہ من ذالک بھول گئے تھے۔ اور اگر خدا کی حد تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ ﷺ کہتے کہ چھوڑ کیوںنہ دیا۔ جب وہ بیچارہ رو رہا تھا، چیخ رہا تھا اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا اور پھر میرے پاس کیوں نہ لے آئے۔ ماعز اسلمی کا رجم اور اس کا بھاگنا یہ وہی ماعز ہے جو ایک مسلمان ہے کہ جس کے متعلق آتا ہے کہ رُخ پھیردیا رسول اللہﷺ نے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے یہ بھی نیل الاوطار ہی میں ہے کہ ماعزاسلمی نے رسول اللہﷺکے پاس آکر اپنے اس جرم کا اقرار کیا۔ آنحضورﷺ نے رخ انور دوسری طرف پھیرلیا ۔ اس نے اُدھر سے آکر پھر اپنے گناہ کا اظہار ۔ پھر حضو رﷺ نے اس سے اعراض فرمایا اس نے پھر پہلے کی طرح کیا۔پھر بھی رسول اللہﷺ نے اعراض فرمایا۔ایسا چوتھی بار ہوا تو رسول اللہﷺکے حکم پر اسے کھلے میدان میں لے جا کر پتھروں سے رجم کیا جانے لگا۔اب ان دو روایتوں میں کتنا تضاد اور بظاہر ٹکرائو ہے۔ایک روای ہے جو خود شامل ہے وہ کہتا ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے سنا تو یہ جواب دیا اور یہ روایت کہہ رہی ہے کہ رسول اللہﷺ کے حکم سے اُسے لے جاکر رجم کیا جانے لگا، جب اسے پتھر کی ضرب لگی تو بھاگ پڑا اور کسی شخص کے پاس اونٹ کا جیڑا(جیڑا کیا ہوتا ہے) جیڑا جیڑا (وہ اونٹ کو شاید تھپکانے کیلئے جو چیز ہوتی ہے نا ڈنڈا سا، پتے جس سے اتارتے ہیں۔ غالباً وہی یا اونٹ کو ہنکانے کیلئے ہوتا ہوگا۔ بہر حال پڑھا ٹھیک نہیں گیا یا لکھا ٹھیک نہیں گیا۔ کچھ تھا جو اونٹ کیلئے استعمال ہوتا تھا) اُس نے اچھااُس کے جبڑے کو پکڑ کے اونٹ کو شاید چیرکے جیسے لے جاتے ہوں گے۔ اُسے اُس جبڑے سے مارا۔ پھر سب لوگ ٹوٹ پڑے حتی کہ وہ مرگیا۔ حضورﷺ کی خدمت میں ذکر ہوا کہ کس طرح وہ پتھرلگنے سے بھاگا مگر آخر موت سے ہمکنار ہوا آنحضورﷺ نے فرمایا تم نے اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔ اب بتائیں پہلی بات اور یہ بات میں کتنا تضاد ہے ۔ احمد ابن ماجہ اور ترمذی نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ صرف کوئی کمزور کتب کا حوالہ نہیں ہے۔
اچھا اب آج در س ذرا پہلے چھوڑنا ہوگا کیونکہ احبابِ جماعت کو پتالگ ہی چکا ہوگا کہ ہمارے ایک بہت ہی پیارے بھائی، بہت مخلص اور فدائی انسان حضرت السیّد الحلمی الشافعی کا وصال ہوگیا ہے۔ ان کی نماز جنازہ ابھی جب میں نماز ظہر کیلئے واپس آئوں گا اُس وقت پڑھی جائے گی۔ ان کا ذکر خیر ، ان کے تعارف کے طور پر ۔ جن لوگوں کو ان کا پورا تعارف نہیں میں وہ بتادیتا ہوں۔
لقاء مع العرب میں جیسا کہ آپ نے دیکھا ہو گا اکثر لوگوں نے اور دنیا بھر سے لوگ مجھے لکھتے تھے کہ بہت ہی پیارا وجود ہے۔ لقاء مع العرب میں تو ان کی وجہ سے ایسی ایک جان آجاتی ہے۔ ان کا چہرہ، ان کا اخلاص، ان کی باتیں، ا ن کا ترجمہ اور فصاحت و بلاغت کہتے ہیں طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے۔ اور یہ جو تعریف ہے یہ صر ف احمدی نہیں کرتے تھے ، غیر احمدی بھی ۔ اور عربوں کی طرف سے بھی جو مجھے خط ملا کرتے تھے لقاء مع العرب کے متعلق اس میں حلمی شافعی صاحب کے متعلق بڑے تعریفی کلمات ہوا کرتے تھے۔ ان کا جو اندازِ بیان تھا وہ بہت ہی پیارا۔ اور میں ان سے کہا کرتا تھا لقاء مع العرب میں بھی یہ بات ریکارڈڈ ہوگی کہ مجھے آپ کے ترجمے کا ایسا مزا آتا ہے کہ کسی اور کا نہیں آتا کیونکہ آپ لگتا ہے کہ میری جان میں اُتر کر ترجمہ کررہے ہیں۔ میرے رونے پر رو پڑتے تھے، میرے ہنسنے پر ہنس پڑتے تھے۔ یوںلگتا تھا جیسے ایک ہی طبلے کی تھاپ پر ہم دونوں کے دل دھڑک رہے ہیں۔ جس مزاج کے ساتھ میں ترجمہ کرتا تھا بعینہٖ وہی مزا ج ڈال کر ترجمہ کرتے تھے۔ آواز کا زیروبم اُنہی کے جذبات کے ساتھ اُبھرتا ، اُترتا۔ یہ جو خاص خدا نے ان کو ملکہ دیا تھا اور پھر چہرے پر اُسی طرح غم کے آثار ، مسکراہٹ چہرہ کھل اُٹھنا کبھی۔ یہ وہ چیزیں تھیں جس نے ترجمے کے مضمون میںایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ میرے علم میں آج تک کوئی ایسا ترجمہ کرنے والا نہیں آیاجو اپنے چہرے کے انداز الفاظ کے چنائو اور طرزِ کلام میںمکمل بات کرنے والے سے ہم آہنگی کرلے۔ بڑے اچھے اچھے ترجمہ کرنے والے جرمنی میں بھی ہیں۔ مگر یہ جو باتیں ہیں بالکل ایک عجیب شان تھی اور یہی وجہ تھی کہ ساری دنیامیں اس لحاظ ے بہت ہی ہر دلعزیز تھے اور محبت خلافت سے ایسی کہ اس کی مثال ملتی ہے بہت اللہ کے فضل سے مگر ان کی ایک اپنی شان تھی۔
ان کو پچھلے دنوں کسی کام سے غالباً بچے کی شادی کے سلسلہ میں مصر جاناہوا۔ مصر میں ان کو پہلی بار دل کا حملہ ہوا جو بہت ہی شدید تھا۔ لیکن اصرار کیا کہ مجھے لندن واپس جانا ہے۔ ڈاکٹروں نے پہلے تو صاف انکار کردیا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، آپ کی صحت اجازت ہی نہیں دیتی۔ مگر معلوم ہوتا ہے اصرار اتنا زیادہ تھا کہ آخروہ مان گئے اور یہاں آنے کی اجازت دے دی۔ وہا ں بیٹھے ہوئے حال یہ تھا کہ جب لقاء مع العرب کا پروگرام دیکھا کرتے تھے تو روتے جاتے تھے کہ کاش میں پھر جائوں۔ میرے ساتھ بیٹھ کر میںیہ ترجمہ سنبھالوں۔ ایک عشق تھا اس کام سے اور خدمت دین کے ساتھ تو ویسے ہی ایسا عشق کہ تراجم میںتفسیر کبیر کے ترجمہ میںہر دوسرے کام میں صف اوّل کے مخلص فدائی انصار من اللہ میں سے تھے۔ یا انصار اللہ میں سے تھے۔ آپ نے تقریباً 30سال پہلے مصطفی ثابت کے ذریعے دو سال کی بحث اور مطالعہ کے بعد احمدیت قبول کی۔ مجھے یہ توپتا تھا کہ تیس سال پہلے کے لگ بھگ تو ایک بار خود انہوںنے ذکر کیا تھا۔ مگر اب سمجھ آئی کہ محمد مصطفی ثابت سے ان کو ایسی محبت کیوں تھی۔ بہت محبت تھی۔ کسی اور عرب سے ایسی محبت نہیں تھی جس طرح مصطفی ثابت سے تھی۔ بلکہ مجھے کہا کہ ان کو بھی بلا لو یہیں۔ ہم دونوں مل کر کام کریں گے۔ مصطفی ثابت صاحب کی صحت چونکہ خراب تھی اور اُن کو ایسی بیماری ہے کہ میرے نزدیک وہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھاسکتے ہیں اب یہ جو کام ہے بہت بوجھ والا کام ہے اس لیے میں نے ان سے کہا کہ یہ مشکل ہے اور میں ان کو ایسی تکلیف نہیں دینا چاہتا تو پھر مان گئے مگر دل اُن کا یہی چاہتا تھا کہ وہ ساتھ رہیں۔ ان کی بیگم بتاتی ہیں کہ وہاں مسلسل بس یہی ذکر رہتا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں واپس جائوں۔ مشکل یہ تھی کہ میں جہاں چاہتا تھا ان کے آنے کی جب خبر ملی کہ پہنچ گئے ہیں تو اوّل تو بہت جلدی کی گئی مگر ہوگیا۔ میری خواہش تھی کہ ابھی وہاں آرام کرلیں، پوری طرح تسلی ہوجائے مگر مجھے جب یہ کہا گیا کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے تو میں نے کہا کہ جب ڈاکٹر کہتے ہیں توٹھیک ہے آجائیں پھر بیشک۔ لیکن یہاں میں نے اسلام آباد میں پابند کیا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ پوری طرح میرا پیغام ملا نہیں ورنہ وہ پوری طرح بات سمجھ کر پھر یہاں نہ آتے یا شاید جو عذر پیش کیا گیا اُس سے وہ سمجھے کہ اُس میں حکم نہیں بلکہ میری خاطر ہی ایک بات کہی گئی ہے اور اجازت بھی شامل ہے۔میں نے یہ نہیں کہا، غلطی یہ مجھ سے ہوئی کہ آپ کا آنا خطرناک ہے آپ کیلئے میرے نزدیک۔ میں نے کہا کہ میری خواہش تھی میں خود وہاں آکر آپ سے ملتا ۔ لیکن ابھی رمضان کی ضرورتیں ہیں میں ابھی نہیں آسکتا بعد میں آئوں گا۔ تو اس سے صاف مطلب تھا کہ رمضان کے دوران تو میں آپ کا یہاں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر چونکہ بات کھلی نہیں پوری اس وجہ سے انہوں نے زور دیا اور ان کی بیگم کل ان کو یہاں لے آئیں۔ مشکل ایک اوریہ درپیش ہوئی جس کا مجھے بہت صدمہ ہے کہ میری ملاقات نہیںہوسکی۔ عصر سے پہلے کے آئے ہوئے اور مجھے بتایا ہی نہیں۔ کسی نے نہیں بتایا۔ میجر صاحب سے بھی بات کرچکے تھے۔ کہتے تھے میری ملاقات ہے ان سے۔ میں نے کہا آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں فورًا۔ میں اُسی وقت جاکر پہنچتا اور سنبھالتا۔ کیونکہ یہ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں نئے فلیٹ میں اور یہ بہت خطرناک سیڑھی ہے۔ ان کا خیال کرتا۔ کسی نے اشارۃً بھی نہیں بتایا کہ پہنچے ہوئے ہیں اور از خود ان کو یہ جواب دے دیا کہ سیر پر جانا ہے اس لیے ملاقات پہلے نہیں ہوسکتی۔ یہ بڑی ظالمانہ حرکت ہے وہ بیٹھے رہے۔ میں نماز کیلئے آیا تو کھڑکی سے جھانکتے رہے ۔ اُن کی بیگم کہتی ہیں کہ کیسی پیاری جگہ ملی ہے۔ اس کھڑکی سے مسجد بھی دیکھا کروں گا اور مجھے آتے جاتے دیکھا کروں گا۔ کہتے میری خواہش ہے کہ میں ایسی جگہ دفن ہوں جہاں میرا قرب نصیب رہے ۔
پس معلوم یہ ہوتاہے کہ تقدیر تو تھی۔ اب تو یہ کہنا جائز نہیں کہ یوں ہوتا تو کیاہوتا۔ یہ لازماً تقدیر الٰہی تھی مرنا تو تھا وقت آچکا تھا مگر اللہ نے ڈاکٹر کو بھی وہاں پاگل کردیا اس پہلو سے کہ سفر کی اجازت دے دی۔ مگر وہ تقدیر الٰہی نے پورا ہونا تھا۔ یہاں آکر وفات پانی تھی، یہیں تدفین ہونی تھی جیسا کہ خواہش تھی۔ مکان نیا دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ یہ بھی شکر ہے الحمدللہ۔ بہت خوش ہوئے۔ ان کی خواہش تھی جانے سے پہلے مجھے قریب بلالیں تاکہ دور سے سفر کرکے نہ آنا پڑے۔ اور جتنا میں چاہتا ہوں قریب رہ کر خدمت کروں، اب نہیں کرسکتا۔ چنانچہ یہ ساری باتیں ان کی اللہ کے فضل سے پوری ہوئیں۔ آخری وقت میں دیکھا، چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھا۔ پھر اور بھی اِدھر اُدھر گئے مگر مشکل یہ تھی کہ مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ ورنہ بہت وقت تھا۔ قضاء نے تو نہیں ٹلنا تھا مگر میری دل کی خواہش تو پوری ہوجاتی اور ان کی بھی پوری ہوجاتی۔ جب پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں داخل ہوئے ہیں ملاقات کے وقت تو ابھی کھڑے ہوکر بات کی ہے پرائیویٹ سیکرٹری بھی کھڑے ہوکر بات کررہے تھے۔ تو اسی وقت جو دورہ پڑا ہے وہی جان لیوا تھا۔ اور چہرہ ڈھانک کر دیوار سے سر لگایا انہوں نے ،فوراً ان کو بٹھایا اور پھر جو کوششیں ہوئی ہیں اس وقت بھی نہیں مجھے پتا لگا۔ ایک ایسا جوڑا آیا ملاقات کیلئے ایک فیملی جن میںایک نرس تھیں۔ ان کے بیٹے نے جو بڑاسخت گھبرایا ہوا تھا میںنے کہا کیا ہوا کہ کیا ہوا تو کہنے لگا کہ باہر بڑا سخت حادثہ ہوا ہے ایک اور میری ماں نے بھی کوشش کی تھی سانس دلانے کی۔ اس وقت سلیم جب اندر داخل ہوا تو اس سے میںنے پوچھا کہ کیا واقعہ ہوا ہے۔ تو کہنے لگا کہ جی ہمارے حلمی شافعی صاحب ؟ تو پہلی دفعہ اس وقت پتا چلا۔ مگر اس وقت وقت گزر چکا تھا اور میرا جانا نہ جانا برابر تھا۔ ڈاکٹر بلایا گیا ، ایمبولینس بلائی گئی مگر سب بیکار تھا۔ صرف میں چہرہ دیکھ سکا۔ اس سے زیادہ ملاقات نہیں ہوسکی۔ اب فیصلہ یہ ہوا ہے کہ ان کی نماز جنازہ ابھی یہاں جب نماز ظہر سے پہلے میں آئوں گا تو اس وقت ہوگی۔ لیکن میری خواہش ہے کہ ان کی لاش کو کندھا دے کر لائوں۔ اس لیے فورٹی ون میں ان کاجنازہ پہنچ گیا ہے تیار ہے۔ وہاں سے ہم کندھا دے کر یہاں لائیں گے ۔ پھر میں اوپر جاکر سنتیں پڑھنے کیلئے جاتا ہوں۔ جب تک میں واپس آئوںگا اس وقت تک آپ لوگ یہاں صفیں بنالینا اور نماز جنازہ کے بعد پھر ظہر کی نماز ہوجائے گی۔ اور جن کو توفیق ہے وہ ساتھ دفنانے کیلئے جائیں گے۔ ٹھیک ہے؟ اور سب ان کیلئے اس فدائی اسلام، فدائی احمدیت کیلئے غریق رحمت ہونے کیلئے دُعا کریں اور ان کے بچوں کیلئے تسکین قلب کیلئے اور صبرو رضا کی توفیق عطا ہونے کیلئے دعا کریں۔ اللہ رحم فرمائے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ25؍رمضان بمطابق15؍ فروری 1996ء
ڈاکٹرادریس صاحب آپ آجکل یہیں دکھائی دے رہے ہیں ۔ چھٹی پہ ہیں؟ اعتکاف بیٹھے ہوئے ہیں! ٹھیک ہے۔ کب سے آئے ہوئے ہیں۔ ایک دن پہلے پہنچے تھے؟ ٹھیک ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
انما التوبۃ علی اللہ للذین یعملون السوء بجھالۃ ثم یتوبون من قریب فاولئک یتوب اللہ علیھم و کان اللہ علیما حکیماO و لیست التوبۃ للذین یعملون السیات حتی اذا حضر احدھم الموت قالی انی تبت الئن ولا الذین یموتون و ھم کفار اولئک اعتدنا لھم عذابا الیماO (النسائ:۱۸،۱۹)
ان دونوں آیات میں چونکہ تو بہ ہی کے مضمون کو ایک دوسرے سے باندھ کر بیان کیا گیا ہے اس لیے ایک کی تلاوت کی بجائے دونوں کی اکٹھی کی ہیں اور اس سے متعلق انشا ء اللہ آپ کے سامنے بعض قابل توجہ امور رکھوں گا۔ اس میں جو الفاط ہیں ’’للذین یعملون السوء بجھالۃ‘‘ ایک تو جہالت کے لفظ کے اوپر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مختلف مفسرین کی طرف سے کہ کیاکیا معنی ہوسکتے ہیں۔ دوسرے ’’یتوبون من قریب ‘‘ ’’قریب‘‘ سے جلدی توبہ کریں اس کے کیا معنی ہیں؟مگر شاید میں نے ترجمہ نہیں کیا ابھی تک اس کا؟ ہاں انما التوبۃ علی اللہ للذین یعملون السوء تو بہ تو اللہ کے اوپر انہیں کی قبول کرنا لازم ہے یعنی معنی یہی بنتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ پر ہے ان کی توبہ یعنی خد اپر حق بن گیا ہے انکا، یہ مراد ہے تو توبہ کا خدا پر حق تو انہیں کا ٹھہرتا ہے اِنَّمَا میں چونکہ حصر ہے اس لیے ترجمہ مناسب ہوگا کہ خداتعالیٰ پر توبہ کا حق تو انہیں کا ٹھہرتا ہے جو یعملون السوء بجھالۃ جو بدی کرتے ہیں جہالت کے ساتھ ثم یتوبون من قریب پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں فاولئک یتوب اللہ علیھم پس یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکے گا و کان اللہ علیمًا حکیمًااور اللہ تعالیٰ بہت علم والا اور بہت حکمت والا ہے۔ ولیست التوبۃ للذین یعملون السّیّاٰت اور توبہ ان کی نہیں ہے جو بدیاں کرتے چلے جاتے ہیں حتی اذا حضر احدھم الموت یہاںتک کہ اُن میں سے کسی تک موت آجائے۔ قال انّی تبت الئٰن تو وہ کہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں ولا الذین یموتون و ھم کفارٌنہ ہی ان کی توبہ کوئی معنے رکھتی ہے جو مریں اس حالت میںکہ وہ کافر ہوں اولئک اعتدنا لھم عذابًا الیمًا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے ہم نے دردناک عذاب (مقد رکررکھا ہے) تیار کررکھا ہے۔ سورہ النساء آیات ۱۸ تا ۱۹۔ تو جو بحثیں اٹھائی گئی ہیں ان میں ایک توجہالت کے معنی دوسرے قریب سے ۔مراد کیا ہے ؟ کب تک؟کتنا قریب توبہ کریں؟ اور تیسرا یہ کہ دروازہ کب بند ہوتا ہے اور اس بحث میں پھر بہت مختلف امکانات، مختلف دوسری آیات پیش نظر رکھ کر بالعموم خلاصہ یہ نکالا گیا ہے کہ جب تک موت کا غرغرہ نہ ہوجائے یا نزع کی حالت طاری نہ ہوجائے اس وقت تک توبہ قبول ہوسکتی ہے اور اس وقت پھر توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اب میں مختلف علماء کے حوالے سے اس مضمون کے ان پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہوں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھے ہیں۔
’’جہالۃ‘‘ کس کو کہتے ہیں؟ اہل لغت تو کہتے ہیں جہالت علم کے برعکس صورت حال کو کہتے ہیں۔ یعنی ایسی حالت میں ایک انسان مرتکب ہو گناہ کاکہ اسے علم نہ ہو کہ یہ گناہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ معنی بنیں گے اور اہل لغت ایک اور معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ کسی سے جہالت سے پیش آنا اس میں علم یا علم کے فقدان کی کوئی بحث نہیں ہے۔ نامناسب رنگ میں جانتے بوجھتے ہوئے کہ کسی کا یہ حق ہے وہ حق نہ دینا ، اس کا حق غصب کرنا، اس سے زیادتی کرنا یہ بھی جہل ہے۔ فنجھل فوق الجاھلین ۔۔۔۔وہ کیا شعر ہے ؟…الالایجھلن احدٌ علینا۔۔۔۔۔۔ فنجھل فوق جھل الجاھلین۔۔۔ (دیکھیں ان کی پرانی یاد داشت نئی یاد داشتوں سے بڑھ گئی ہے)……یہ جو جہل ہے جان بوجھ کر اس پر تو عرب فخر بھی کیا کرتے تھے ۔ یہ شعر جو عربی کا پڑھا گیا ہے الا لا یجھلن ۔۔۔۔۔۔ آگے؟ ۔۔۔۔۔۔ احدٌ ؟ ہاں اَحَدٌکا لفظ بھول گیا تھا الالا یجھلن احدٌ علینا۔ فنجھل فوق جھل الجاھلین۔ کہ خبردار ہمارے اوپر کوئی جہالت نہ کرے کیونکہ ہم پھر جہالت کرنے والوں سے بڑھ کر جہالت کیا کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے اگر جان بوجھ کر ہمارے حقوق مارو گے، ہم پر چڑھائی کرو گے تو ہم پھر ایسے لوگ ہیں کہ ایسا مزہ چکھائیں گے کہ تم سے بڑھ کر پھر تمہارے اوپروہی زیادتی کریں گے جو تم ہم پر کرتے ہو۔ تو یہ بھی ایک جہالت ہے ’’تجاھل ‘‘ اظھر الجھل تجاہل کہتے ہیں ایسی جہالت کو جو ظاہر کی جائے ، جو جان بوجھ کر انسان جہالت اختیار کرے مگر عملاً سب کچھ جانتا ہواس کو پنجابی میں کھچرا کہتے ہیں۔ جو کھچرا بنے نا کہ بھائی مجھے تو پتا کوئی نہیں اور عملاً حقیقت میں سب کچھ جانتا ہو ۔۔۔۔ واستجھلہ عبدہ جاھلاواستخفہ ایضًا کسی او رکو جاہل سمجھا جائے تو اس کیلئے واستجھلہ کہتے ہیں ۔ الجھالۃ ان تفعل فعلا بغیر علمٍپھر وہی بات لسان العرب نے دہرائی ہے کہ لاعلمی میں کوئی فعل سرزد ہو تو اس کو جہالت کہا جاتا ہے۔ جاھلیۃ ھی الحال التی کانت علیھا العرب قبل الاسلام ۔ یعنی جاہلیت عربوں کی اس حالت کو بھی کہتے ہیں جو اسلام سے پہلے ان کی حالت تھی۔ یعنی وہ زمانہ جب کہ ابھی اسلام طلوع نہیں ہوا تھا اس وقت جن اندھیروں میں وہ بھٹکتے تھے ان کو بھی جاہلیت کہا جاتا تھا۔ مفردات راغب نے جہالت کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ انسان کا علم سے خالی ہونا، کسی بات کا علم نہ ہونایہ جہالت ہے۔ پس وہ جو کلیۃً بے خبر لوگ ہوں ، ان پڑھ لوگ ہوں جن کو کوئی تعلیم نہ دی گئی ہو اور ہر قسم کے علم سے عاری ہوں دراصل وہی لوگ ہیں جو جاہلیت کا مظہر ہیں۔
بعض متکلمین نے غیر منظم طور پر صادر ہونے والے افعال پر بھی اس کا اطلاق کیا ہے۔ بعض لوگ جو ایسی بحثوں میں مہارت رکھتے ہیں متکلمین کہلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ فعل جو بے ترتیب ظاہر ہو جس میں سلیقہ نہ رہے اس کو بھی جہالت کہا جاتا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں اس کی حقیقت کے برخلاف اعتقاد رکھنا کوئی ایسا اعتقاد رکھنا جو کسی چیز کی حقیقت کے خلاف ہے۔ مثلاً زہر کو پانی سمجھ لینا، پانی کو زہر بنادینا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اصل حقیقت کے برعکس ایک تصور ہے اس قسم کی باتوں کو جہالت کہا جاتا ہے۔ کسی عمل کو اس کے درست تقاضوں کے برخلاف بجالانا کسی عمل کو اس کے تقاضوں کے برخلاف بجالاناجبکہ عمل کرنے والے کا اعتقاد اس کے بارے میں درست ہو یا غیر درست ہو۔ یعنی تقاضے پورے نہ کرنا خواہ علم کے ساتھ یا لا علمی میں دونوں صورتوںمیں وہ جہالت ہی کہلائے گی۔ مثلاً یہ مثال دیتے ہیںنماز ترک کرنا۔ اگر ایک انسان کو پتا ہے کہ نماز کے کیا فوائدہیں اور جانتا ہے کہ نماز فرض ہے۔ یہاں جہالت سے مراد ہے جان بوجھ کر اس کے تقاضے پورے نہ کرنا۔ ایک غافل ہے اس کو پتا ہی نہیں کہ نماز کی حقیقت کیا ہے۔ وہ جس حد تک نماز کے تقاضے پورے کرنے سے عاری رہتا ہے وہ بھی جہالت ہے مگر جہالت، جہالت کے درمیان درجوں کا فرق پڑ جاتاہے۔ جاہلہ سافھہکسی نے کسی کو بیوقوف بنایااس کیلئے کہتے ہیں۔ جاہلہ اس نے اس کو جاہل بنادیا۔ اب امام رازی لکھتے ہیں کہ نافرمانی کرنیوالے کا فعل جہالت یعنی لاعلمی کہلاتاہے۔ اب یہاں حضرت امام رازی نے قرآ ن کریم میں جو لفظ جہالت کا مختلف جگہ استعمال ہوا ہے ان آیات کو اکٹھا کردیاہے اور میرابھی یہی خیال تھا کہ یہ قرآن کے حوالے سے وہ سب آیتیں اکٹھی کی جائیں پھر پوری روشنی پڑے گی کہ قرآن کریم کے نزدیک جہالت سے کیا کیامراد ہوسکتی ہے۔ مگر سب تو نہیں مگر امام رازی نے کئی متعلقہ آیتیں جن کا اس مضمون سے براہ راست تعلق ہے اکٹھی کی ہیں۔ ان کی روشنی میں ہمیں اور زیادہ وضاحت سے جہالت کے معنی سمجھ آجائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ قول بیان فرمایا اصب إلیھن و اکن من الجاہلین کہ اے خدا اگر تیرا فضل شامل حال نہ ہوتا اورتومجھے اپنے فضل سے روک نہ رکھتا تو اصب إلیھن میں ان کی طرف جھک جاتا، مائل ہوجاتا۔ واکن من الجاہلین اور میں جاہلوں میں سے ہوجاتا۔ تو جاہل سے مراد یہاں واضح طور پر خداتعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہوجاتا، جو ایسے فعل میں مبتلاء ہوا جس سے خد ا ناراض ہو۔ اس کیلئے لفظ جہالت استعمال ہوا ہے ۔پھر یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا ھل علمتم مافعلتم بیوسف و اخیہ اذ انتم جاہلون ۔ کیا تمہیں خبر ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی سے کیاکیا تھا؟ کچھ یاد ہے؟ کچھ علم ہے؟ اپنے بھائیوں سے مخاطب کرکے ان کو فرمایا کہ تمہیں یاد بھی ہے ناں کہ تم نے کیا کیا تھا ہل علمتم سے مراد ہے کہ تمہیں علم ہے ۔ علم تو پتا تھا کہ ہے یہاں علم کے معنی یادداشت کے، یاد کے ہیں زیادہ تر جس طرح ہم اردو میں بھی کہتے ہیں کہ تمہیں یاد ہے کہ نہیں یا کچھ خبر بھی ہے کہ نہیں؟ تم نے یوسف اور اس کے بھائی سے کیا کیا تھا اذ انتم جاہلون جب تم جاہل تھے۔ تو یہاں جہالت ان کی معصومیت اور بے خبری پر دلالت تو نہیں کررہی بلکہ تم ناانصافی کرنے والے تھے (برحق)…… جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں سچائی کے یا حق کے ان تقاضوں کو توڑنے والے تھے اور جہالت ان معنوں میں کہ جان بوجھ کر ، سمجھ کر زیادتی کرنے والے ۔
پھر حضرت نوحؑ کے تعلق میں خداتعالیٰ فرماتا ہے انی اعظک ان تکون من الجاہلین میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلین میں سے ہوجائے۔ یہ مضمون اس واقعہ سے تعلق رکھتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے جب اپنے بیٹے کو ایک بلند ہوتی ہوئی لہرمیں غرق ہوتے دیکھا اس کے پیچھے وہ غائب ہوگیا اس وقت اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ انہ ۔۔۔۔۔۔ آیت کا وہ حصہ یہاں درج نہیں ہے … جو اب درج ہے… اھلی۔۔۔ اھلی والا جو ہے اے خدا وہ تو میرا ہل تھا۔ من اھلی ہے غالباً؟ … کیا ہے؟ ہاں ! نہیں یہ تو ہے اس سے پہلا۔ حضرت نوحؑ نے کیا کہا تھا جس کے جواب میں ہے …من اھلی … ہاں وہی… ان ابنی من اھلی و ان وعدک الحق حضرت نوحؑ نے یہ کہا کہ میرا بیٹا ان ابنی من اھلی میرے اہل میں سے ہے و ان وعدک الحق اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے ، تیرا وعدہ توجھوٹا ہو نہیں سکتا۔ پھر میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں! مراد ہے کہ تو نے تو وعدہ کیا تھا کہ تیرے اہل کو نجات بخشوں گا اور یہ میرے اہل ہوتے ہوئے بھی میرا بیٹا ہے اس لیے میرا ہل ہے۔ یہ غرق ہورہا ہے میری آنکھوں کے سامنے ۔ا س کے جواب میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہاں جہالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فرمایا فلا تسئلن مالیس لک بہ علمٌ جن باتوں کا تجھے علم نہیں ان کے متعلق مجھ سے سوال نہ کر۔ انی اعظک ان تکون من الجاھلین میں تجھے یہ نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہوجائے۔ اب جس چیز کا علم نہ ہو اسی کے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ جس کا تجھے علم نہیں ہے اس کے متعلق سوال نہ کر۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ بعض ایسی باتیں ہیں جن کو پردہ اخفاء میں رکھنا مناسب ہے اور یہ بات قطعی ہے کہ وہ تیرا اہل نہیں تھا۔ کس پہلو سے اہل نہیں تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ فاسق و فاجر ہو اور باپ کو علم نہ ہو۔ اور بعض اور پہلو بھی پیش نظر ہوسکتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کی دلداری کی خاطر کہ ان کو تفصیلات معلوم ہو کہ تکلیف نہ پہنچے یہ فرمایا کہ تو اپنے مفاد کے خلاف سوال نہ کر کیونکہ جب تو ایسے سوال کرے گا جن کے متعلق تجھے پتا نہیں کہ کیا جواب آنے والا ہے وہ جواب تیرے لیے تکلیف کاموجب بن سکتا ہے ۔ تو ایسی بات نہ کر مبادا توجاہلین میں سے ہوجائے۔ جاہل یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے خلاف کوئی حرکت کرتے ہیں جو بالآخر ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔پھر فرمایا ان اللہ یامر کم ان تذبحوا البقرۃ۔ قالو اتتخذنا ھزوا قال اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب گائے کو ذبح کرنے کیلئے بنی اسرائیل کو حکم دیا یعنی خداتعالیٰ سے اذن پاکر ، تو انہوں نے کہا یہ کیا مذاق کررہے ہیں آپ ہم سے؟ یہ کیا بات ہے کہ گائے کو ذبح کرو؟ قال اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوں۔ یہاںمذاق کو جہالت قراردیا ہے مگر اس مذاق کو جو دین میں ہو اس لیے یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو لوگ مذاق میں حدیں پھلانگ جاتے ہیں اور موقع اور محل نہیں دیکھتے وہ بھی جہالت ہے۔چنانچہ وہ فارسی کا محاورہ ہے ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی‘‘ کھیل کھیل اے بچے! لیکن باپ کی داڑھی سے بھی کھیلے گا ۔ تو وہاں جہاں دین کا مضمون شروع ہوجاتا ہے وہاں مذاق رک جاتے ہیں اوروہاں مذاق سے کام لینا دین کا استہزاء ہے اور دین کو ہلکی نظر سے دیکھنا ہے اور اس معاملے میں اہل دین کبھی بھی برداشت نہیں کرتے کہ بچے بھی کوئی ایسی بات کریں جو دین کے معاملے میں مذاق بنتا ہو۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہی حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کو بہت ہی سختی کے ساتھ بچوں میں نافذ کیا! اور ہماری مائیں بھی اسی مضمون پہ پوری طرح ذمہ دار تھیں اور نگران تھیں کہ بچے ہنسی کھیل میں بھی دین کے معاملات میںکبھی مذاق نہ کریں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت میں مزاح تھا، لطیفہ گوئی تھی ، مجلس میں بیٹھتے، کھانا کھاتے وقت بھی بعض دفعہ بہت پررونق صحبت ہوا کرتی تھی۔ سوائے اس کے کہ جب دوسرے دین کے انہماک زیادہ ہوں تو پھر توایک ہاتھ میں ڈاک بھی رکھی ہوئی ہے ۔ ایک کبھی لقمہ کھارہے ہیں کبھی ڈاک اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ وہ الگ بات تھی مگر جہاں ممکن ہو وقت ملے تو بڑی بے تکلف مجالس کھانے پر لگا کرتی تھیں۔ مگر اگر کوئی بچہ جہالت سے اس نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی ایسی بات کردے جس کا دین پر بھی حرف آتا ہو یعنی دین کے خلاف نہ بھی ہو مگر مذاق ایسا ہو جس میں دین بھی آجائے تو اچانک مزاج بدل جاتا تھا۔ ایسا اچانک بدلتا تھا کہ جیسے ایک انقلاب برپا ہوگیا ہے اور سختی کے ساتھ ناراضگی کا اظہار فرماتے اور اس کے بعد پھر باتیں سب بند ہوجاتیں تھیں۔ تو یہ ہے ان اکون من الجاہلین کہ حضرت موسیٰ ؑنے جو جواب دیا یہ مرا د نہیں کہ ہر قسم کے مذاق جو ہیں وہ جہالت ہیں۔ آپؑ نے یہ جواب دیا کہ میں تو تمہیں دین کے متعلق کہہ رہا ہوں اور میرے متعلق تمہیں خیال کیوں آیا؟ وہم کیوں پیدا ہوا ہے؟ کہ گویا میں نعوذ باللہ دین کے معاملات میں بھی مذاق کرسکتا ہوں۔ پھر اور تو انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا مگر یہی حوالے قرآن کے حوالے سے کافی ہیں۔ جہالت کے مضمون پر مختلف پہلوئوں سے روشنی پڑتی ہے۔
آگے جہالت کے مضمون پر بات کرنے والوں میں سے ایک نواب صدیق حسن خان بھی ہیں انہوں نے خلاصہ یہ نکالا ہے کہ ہر معصیت جہالت ہے۔ خواہ ارادتاً ہو یا لا علمی سے ہو ۔ ضحاک اور مجاہد کہتے ہیںکہ یہاں جہالت سے مراد عمداً کی جانے والی نافرمانی ہے ۔ اس مضمون کو ان حوالوں کو سمجھنے کے بعد دوبارہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت میں اس کا کیا موقعہ اور کیا معنی ہیں۔ انما التوبۃ علی اللہ للذین یعملون السوء بجھالۃٍ ثم یتوبون من قریبٍ۔ یہاںجہالت کے وہ معنے، جو شدّت رکھتے ہیں کرنے آیت کے سیاق و سباق کے خلاف ہوں گے۔ یہاں یہ معنے کرلینا کہ جہالت، ان لوگوں کی توبہ اللہ پر ہے جو جان بوجھ کر نافرمانی کرتے ہیں، جان بوجھ کر خداتعالیٰ کے منشاء کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔یہ معنے اس آیت کے سیاق و سباق میں بالکل جچتے نہیں ہیں۔یہاں جہالت کا ادنیٰ اور خفیف معنی پیش نظر رہے گا کہ وہ لوگ جو ایسے گناہوں میں اس طرح ملوث ہوتے ہیں ان کو حقیقت میں ان گناہوں کی اہمیت کا بھی پورا احساس نہیں ہوتا یا لاعلمی کی وجہ سے یا اپنی غفلت کی حالتوںکی وجہ سے ایک انسان گناہ کرتا ہے لیکن اس کو پوری طرح احساس نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔ عادات کی وجہ سے، معاشرے کی وجہ سے، صحبتوں کی وجہ سے یہ ساری باتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ پس جہالت سے مراد لاعلمی کے پردے ، غفلت کے پردے ہیں۔ وہ لوگ جو گناہ کرتے ہیں مگر غفلت کے پردوں میں لپٹے ہوئے ، اندھیروں میں مبتلاء ان لوگوں کو جب بھی پتا لگتا ہے کہ یہ زیادہ سنجیدہ بات ہے کہ ہمارا فعل قابل مؤاخذہ ہے تو ثم یتوبون من قریبٍ تو یتوبون من قریبٍ سے یہاں مراد یہ ہے کہ جو نہی ان کو احساس پیدا ہوتا ہے فوراً توبہ کی طرف پلٹتے ہیں اور پھر علم ہونے کے بعد پھر گناہ میں لٹکے نہیںرہتے۔ واولئک یتوب اللہ علیھم یہی وہ لوگ ہیں جن پر خداتعالیٰ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکتا ہے۔ وکان اللہ علیمًا حکیمًا اور اللہ تعالیٰ بہت ہی جاننے والا اور حکمت وا لا ہے۔ یہ وہ توبہ کا مضمون ہے جس کے متعلق خدا نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے ان بندوں کی توبہ تو میں نے ضرور قبول کرنی ہے جو احساسِ گناہ ہوتے ہی اس کی شدت کو ، اس کی اہمیت کو، نوعیت کو سمجھتے ہوئے جلد از جلد خدا کی طرف لوٹتے ہیں۔ خدا فرماتا ہے میں ضرور ان کی توبہ قبول کروں گا، ان کا معاملہ خطرے سے باہر ہے۔
آگے دوسرا مضمون ہے وہ جن کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ان کے درمیان پھر اور بہت سے ایسے گناہگار اور غلطیوں میں مبتلاء لوگ ہیں جن سے کچھ بھی سلوک ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا علیمًا حکیمًا تو ان لوگوں کے حالات کا علم خدا کو ہے، ان کے متعلق فیصلے حکمت سے فرمائے گا۔ مگر دو انتہائی گروہوں کا ذکر فرمادیا تاکہ بیچ کے لوگوں کو خود اندازہ ہوسکے کہ ہم کس کی طرف زیادہ مائل ہیں ، ان لوگوں کی طرف ہمارا رجحان ہے یا دوسروں کی طرف۔ اگر دوسروں کی طرف رجحان زیادہ ہو جن کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ توبہ قبول نہیںہوگی تو پھروہ خطرے میں ہیں۔ اورایسی حالت میں اگر جان دیں گے تو یہ ہوسکتا ہے کہ معصیت کی زندگی گزار کر ایسے وقت جان دیں جب توبہ کے دروازے بند ہوچکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ میں پہلے بھی بات کھول چکا ہوں ۔ انسان ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف ہمیشہ متحرک رہتا ہے کوئی بھی زندگی کا ایسا لمحہ نہیں ہے جو قرار کا، سکون کا لمحہ ہو ۔ وقت جس طرح حرکت کرتا رہتا ہے وقت کی حرکت کا ایک پہلو انسانی اعمال ہیں ۔ا گر اعمال نہ ہوں اور انسان کے اندر تبدیلیاں واقع نہ ہوں تو وقت ہے ہی نہیں پھر وقت ٹھہرگیا۔ جہاں تبدیلیاں ختم وہاں موت ہے۔ پس موت کے وقت انسانی گھڑی رک جاتی ہے۔ بیرونی واقعات جو گزررہے ہیں ان کا ایک تو گھڑی کی ٹِک ٹِک سے تعلق ہے ، ایک انسان کے اپنے اعمال سے ہے۔ وہ انسان جو ٹھہر جائے اس پر وقت ٹھہر گیا اور یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس لیے ہر زندہ آدمی کسی نہ کسی سمت میں متحرک ہے یا وہ بلندیوں کی طرف چل رہا ے یا ڈھلوان کی طرف اتررہا ہے۔ یہاں دو باتیں کھول دی گئی ہیںکہ یہ بلندی کا سفر تو یہ ہے اور انتہائی ہلاکت کا کہ Precipice سے نیچے گر پڑو گے وہ یہ ہے۔ بیچ میں اب تم اپنے لیے دیکھ لو کہ تمہار ارخ کس طرف ہے۔ ان لوگوں کے اخلاق رکھتے ہو ، ان لوگوں کی عادات رکھتے ہو جن کامیلان پہلے گروہ کی طرف ہے انما التوبۃ علی الذین یعملون یا ان کی طرف تمہارا میلان ہے جن کے متعلق فرمایا ولیست التوبۃ ۔ پس یہ دو آیتیں بہت ہی اہم مضمون ہمارے سامنے رکھتی ہیں اور رمضان مبارک کے ان آخری لمحات میں خصوصیت سے اس بات کو سمجھ کر اگر پہلے توجہ نہیں تھی تو اب توجہ دینی چاہیے کہ ایک گروہ وہ بھی ہے جن کی توبہ اللہ فرماتا ہے کہ ان کی توبہ کوئی توبہ نہیں ہے۔ یہاں ایک بات مفسرین کے حوالے دینے سے پہلے میں کھول دینا چاہتا ہوں کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ایسے لوگوں پر خدا رحم نہیں فرمائے گا، لازماً ان کی بخشش کے دروازے بند ہیں۔ یہ الگ مضمون ہے اور توبہ کامضمون الگ ہے ۔ توبہ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک گارنٹی عطا ہوتی ہے۔ جہاں توبہ قبول ہوجائے وہاں خدا کی طرف سے ایک ضمانت ہے کہ تم حفاظت میں آگئے ہو تم خطرے سے باہر نکل آئے ہو کچھ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق جو بے حفاظت پھر رہے ہیں۔ اب یہ ان کا ذکر ہے یہ مراد نہیں ہے کہ ایسی حالت میں ہر مرنے والے کو خدا ضرور عذاب دے گا کیونکہ وہ مضمون بالکل اور ہے جو خداتعالیٰ کی اس مغفرت سے بھی تعلق رکھتا ہے جو بے حساب بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں کچھ بے حساب بھی بخشے جائیں گے۔ یعنی مریں گے ایسی حالت میں کہ سچی توبہ کی توفیق نہ ملی ہوگی۔ لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کے اندر کیا وہ ایسی باتیں تھیں جو خدا کو پسند آگئیں یا ایسی حکمتوں کے پیش نظر جن کا راز صرف اس کو معلوم ہے۔خدا چاہے تو اس کا حق مغفرت قائم اور بالا رہتا ہے اور اس حق مغفرت کے متعلق صرف ایک آیت ہے جو یہ کہتی ہے کہ مشرک کو میں معاف نہیں کروگا۔ پس یہاں مشرکوں کے علاوہ لوگ پیش نظر ہیں۔ بعض مفسرین نے غالباً یہ دھوکا کھاکر کہ اس آیت کا مطلب ہے کہ ایسے مرنے والے لازماً جہنم میں جائیں گے انہوں نے اس آیت کو مشرکین سے متعلق کرلیا کیونکہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرکوں کے سوا یا شرک کے سوا میں ہر گناہ بخش سکتا ہوں اگر چاہوں تو۔ تو یہاں تو لگتا ہے کہ وہ گناہ بخشے نہیں جائیں گے، یہ اس آیت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہے لیست التوبۃ کا تعلق انما التوبۃ علی اللہ سے ہے۔ اس کا برعکس ہے ان لوگوں پر ان لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ پر فرض نہیں یہ معنے ہیں ان کی توبہ ایسی توبہ نہیں ہے کہ جس کے متعلق خدا ضمانت دے رہا ہو کہ ہاں میں قبول کروں گا یہ اُس دائرے سے نکل گئے ہیں ان کے متعلق جو چاہے اللہ سلوک فرمائے ۔ لیکن یہ انتہائی خطرے کی حالت میں ہیں اور بسا اوقات ایسے لوگ جب توبہ کرتے ہیں تو وہاں اس توبہ کے دوران ان کو جواب مل جاتا ہے ۔ اب تمہاری کوئی توبہ نہیں ہے مگر وہ توبہ کا جواب بہت ہی آخری لمحات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے ان آخری لمحات سے پہلے پہلے جو بھی صورتِ حال ہے اس میں ضمانت تو کوئی نہیں مگر اللہ چاہے تو قبول فرمالے نہ چاہے تو نہ قبول فرمائے۔ یہ ہیں عمومی معانی جو اس آیت کے ہیں۔
اس کے بعد اب میں مفسرین کے حوالے سے کچھ اور باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ابوعالیہ سے مروی ہے کہتے ہیں انما التوبۃ علی اللہ مومنوں کے بارے میں ہے اور آیت لیست التوبۃ علی الذین یعملون السیئات منافقوں کیلئے ہے۔ لا والذین یموتون وھم کفار مشرکین کے بارے میں ہے۔ یہ باتیں جو ہیں یہ درست نہیں ہیں ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کفار سے مراد محض مشرکین ہوں۔ اکثر مفسرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ کفار توایک ایسی اصطلاح ہے جو سب منکرین پر اطلاق پاتی ہے، جو بھی مرتے وقت مومن نہ ہوں۔ تو اللہ اور رسولؐ پر ایمان نہ لائے ہوں، وہ کفار ہیں۔ تو ان کو مشرکین کہہ دینا کہ یہ ان کے متعلق ہے یہ اس آیت کے مضمون سیاق و سباق سے متصادم بات ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا اصل وجہ یہی پیدا ہوئی ہے ان لوگوں کے سوچنے کی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے متعلق یہ حکم آگیا ہے یہ لازماً جہنم میں جائیں گے، یہ بات بے تعلق ہے۔ جہنم میں لازماً جانے کا کوئی مضمون نہیں ہے ۔ یہ بحث ہورہی ہے کہ ان لوگوں کی ایسے موقع پر توبہ قبول نہیں ہوگی، مجرم مریں گے، مجرم ہوکر جب خدا کے حضور پیش ہوں گے تو اس کا حق مغفرت کہاں سے چھینا گیا ۔ وہ اپنی جگہ پھر بھی قائم ہے اور یہ مغفرت توبہ کی تو دنیا میں ہوجاتی ہے آخرت میں پھر زائد مغفرت کیا رہ جائے گی۔ وہ انہی لوگوں کے متعلق ہے جو گناہگار مرجاتے ہیں اور ان کا معاملہ کلیۃً خدا کے رحم پر ہے، توبہ نامقبول پھر بھی وہ چاہے تو مغفرت فرمائے۔ یہ الگ بات ہے مگر یہ سوچ کر گناہوں میں ملوث ہونا کہ چونکہ خدا بخش سکتا ہے اور توبہ نہ قبول ہونے کی صورت میں بھی معاف فرماسکتا ہے اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی وہی جہالت ہے جس کی پہلے باتیں ہورہی ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر جہالت ہے۔ کیونکہ یہ بہت ہی خوفناک رسک (risk)ہے۔ ایسا خوفناک رسک (risk)جس کو اس طرح مثال کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ بعض دفعہ آپ پڑھتے ہیں کہ کوئی شخص اتنی بلندی سے گرا اور پھر بھی بچ گیا۔ چنانچہ ایک واقعہ ایک دفعہ ایک رسالے میں شائع ہوا تھا غالباً ڈائجسٹ میں کہ ایک شخص پانچ ہزار فٹ کی بلندی سے گرا اور پھربھی بچ گیا وہ اس طرح بچا کہ وہ رین فارسٹ میں ایسے بلند درختوں کے اوپروہ گرا ہے جس کی اوپر کی شاخیں بہت نرم تھیں اور اس کے گرنے سے ٹوٹتی چلی جارہی تھیں۔ نسبتاًزیادہ سخت شاخیں جب نیچی آئی ہیں تو اوپرکی شاخوں نے اس کے طاقت کو کافی حد تک گرنے کی طاقت کو توڑ دیاتھا۔ پھر اور نیچے آیا تو اس کے بعد denseوہ bushتھی جو درختوں کے نیچے بعض دفعہ ہوتی ہیں اب وہ اتنی denceتھی اور اس کی قسمت اچھی تھی کہ بہت زیادہ خاردار نہیں تھی بلکہ بے ضرر bushتھی اس کی جو اوپر تیزی سے ٹوٹنی شروع ہوئی ہے رفتہ رفتہ اس تدریج سے ٹوٹی ہے کہ اس کے جسم کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی کوئی گہرا نقصان نہیں پہنچا۔ اورجب وہ زمین پر لگا ہے جاکر تو بچا ہوا ٹھیک ٹھاک آدمی نکلا۔ آرنیکا کا محتاج تو ہوگا ضرور۔ لیکن اس کی جان نہیں گئی۔ اب یہ واقعہ پڑھ لیں لکھا ہوا موجود ہے اب سوال یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے اچھا یہ بات ہے تو چلو پھر سو دو سو فٹ چھلانگ لگا نا تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ چلو یہاں سے مسجد کی چھت سے چھلانگیں لگاتے ہیں ۔ تو یہ جہالت ہے اور یہ رسک(risk)لینا جبکہ خدا جہاں مغفرت کی بات کررہا ہے وہاں ساتھ یہ بھی بتارہا ہے بخش تو میں سب کچھ سکتا ہوں مگر یاد رکھو جب میں پکڑتا ہوں تو ایسی پکڑ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ تو جہالت کے سوا مغفرت کے یہ معنے لینا اورکچھ بھی نہیں ہے۔ انسان ڈرتے ڈرتے زندگی گزارے پوری کوشش کرے پھر کوئی کمی رہ جائے تو مایوس نہ ہو یہ اور مضمون ہے لیکن گناہ پر جرأت کرے اس وجہ سے کہ خدا مغفرت کرنے والا ہے، یہ بالکل اورمضمون ہے اوریہ قابل قبول نہیں ہے۔ علامہ الفیض الکاشانی اس آیت کی بحث میں لکھتے ہیں: ’’قال رسول اللہ ﷺ والہ فی اخر خطبۃ خطبھا اب یہ شیعہ روایت ہے کہ کتاب الصافی سے۔ میں نے تو جہاں تک نظر دوڑائی ہے کوئی ایسا خطبہ میرے علم میں نہیں آیا کہ جس میں آنحضرت ﷺنے آخری خطبہ ہو اوریہ الفاظ کہے ہوں تو ہمارے علماء جو سن رہے ہیں وہ ذرا نظر ڈال کے بتائیں کہ کہاں یہ رپورٹ ہوئی ہے۔ یہ الفاظ بڑے عجیب و غریب ہیں توبہ کی قبولیت آخری لمحات میں ممکن ہے۔ پر یہ حدیث پیش کی گئی ہے صافی میں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی موت سے ایک سال پہلے تو بہ کرے ، ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ اب یہ رسول اللہ ﷺ کا اندازِ بیان ہی نہیں ہے اور ایک سال کا کیسے خیال آیا ۔ لیکن اگلی بات اور بھی زیادہ عجیب ہے پھر۔ اللہ تعالیٰ ایک سال پہلے جو شخص اپنی موت سے، موت کا تو وقت ہی مقرر نہیں مگر کتنی واضح بات ہے اس کو پتا ہے میں نے ایک سال بعد مرجانا ہے۔ پہلے پہلے توبہ کرلے اگر اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے گا۔ پھر فرمایا ایک سال زیادہ ہے اگر کوئی شخص موت سے ایک مہینہ پہلے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ پھر فرمایا ایک مہینہ بھی زیادہ ہے اگر کوئی شخص مرنے سے ایک دن پہلے توبہ کرے تو خداتعالیٰ اسے قبول کرلے گا۔ پھر فرمایا ایک دن بھی زیادہ ہے اگر کوئی شخص مرنے سے ایک گھنٹہ پہلے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول کرلے گا۔ پھر فرمایا ایک گھنٹہ بھی زیادہے اگر کوئی شخص اس وقت توبہ کرے جب اس کی جان آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ فرمایا، حلق تک پہنچ جائے یعنی نرخرہ شروع ہوچکا ہو تب بھی اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اب آپ یہ بتائیں یہ فرضی حدیث ہے ، گھڑی ہوئی جس کا قرآن کریم سے تصادم بھی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ذات سے بڑاکھلا کھلاتصادم ہے اور حدیثوں کے نام پر راہ پاگئی ہے۔ جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ جس کو جانکنی کی حالت ہوچکی ہے اس کی کوئی توبہ نہیں، جو موت کے منہ پر کھڑا ہے اس کی کوئی توبہ نہیں مگر حلق تک جان آجائے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نزع کی حالت طاری ہوچکی ہے اس کی بھی توبہ قبول ہوجائے گی۔ یہ گناہوں پرجرأت دلانے والی حدیثیں جو بعض بنائی گئی ہیں ان میں سے یہ ہے۔ اور یہ دو طریق کی احادیث ہیں۔شیعہ کتابوں میںتو یہ زیادہ کھلی ملتی ہیں کہ تم سب بخشے جائو گے کوئی فکر کی بات نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مان لو، آئمہ کو معصوم مان لو بس یہی کافی ہے ۔ اور سنّیوںمیں شفاعت کا مضمون غلط سمجھ کر یا غلط رنگ میں جہالت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ تم رسول اللہﷺ کی امت میں سے ہو، شافعی ہیں اس لیے کیا فرق پڑتا ہے ۔ بچے چرائو، عورتوں پر ظلم کرو، ان کی عزتیں لوٹو، بازارو ں میں رمضان کے مہینے میں لوگوں کے سامنے ان کے ساتھ بے حیائی کے جشن منائو، سب چیزیں جائز ہیں۔ ظلم کرنا یا یہ یاد رکھنا کہ تم شافع محشرؐ کے ہو، شافع محشرؐ کے غلام ہو اور اس وجہ سے وہ شفاعت تمہارے حق میں چلی جائے گی ۔ بعض علماء نے احمدیت کے حوالے سے یہ لیکچر دیے کہ اگر تم نے مرزا غلام احمدکا انکار کردیا ، تکذیب کردی تو پھر ہر وہ دوسرا گناہ جو تم سے روز مرہ سرزد ہوجاتا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ چھوٹے گناہ ہیں۔ اس لیے بالکل فکر نہ کرو۔ تمہاری شفاعت ہوگی، بخشے جائو گے لیکن ساری عمر زندگی جتنی چاہو نیکیاں کرلو اگر مرزا غلام احمد پر ایمان لے آئے ،ان کو سچاسمجھ لیا تو پھر سب نیکیوں سے محروم ، ہر قسم کی توبہ کے دروازے تم پر بند۔ تو یہ علماء نے ایک جہالت کا کھیل کھیلا ہوا ہے جو قرآن کے مضامین سے متصاد م ہے۔ قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کے کردار سے متصادم ہے اس لیے توبہ کے مضمون کو سمجھنا چاہیے اچھی طرح۔
توبہ کا جہاں تک تعلق ہے وہ ٹھیک حالت کی توبہ ہے۔ توبہ اصل وہی ہے کہ انسان جب باشعور ہوجائے کہ میں جو حرکتیں کررہا ہوں یہ ٹھیک نہیں ہیں۔ اس وقت جو توبہ کرتا ہے وہ اصل توبہ ہے اورباشعور ہونا ہر شخص کے تعلق میں الگ الگ معنے رکھتا ہے۔ بعض لوگ ایک رٹ میں پڑ کے ایک حرکت کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہم زیادتی کررہے ہیں، اپنے بچوں سے زیادتی کررہے ہیں، اپنی بیویوں سے زیادتی کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ روز مرہ کی بات ہے ان کو پتا ہی نہیں لگتا۔ بعض دفعہ جب ان کو جھنجھوڑا جائے جگایاجائے تو اچانک آنکھیں کھلتی ہیں اور اس وقت وہ توبہ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ مجھے اپنے خطبات کے دوران یہ تجربہ ہوا ہے بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ یہ جو خطبہ سنا تھا تو یوں لگتا تھا کہ ہمیں پہلی دفعہ پتا چلا ہے کہ ہم ہیں کیا چیز۔ ہم یہ ظلم کرتے تھے اپنی بیویوں اور بچوں پر اور احساس تک نہیں تھا۔ اور اب ہم سچے دل سے توبہ کرتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ تو من قریبٍ سے اس موقع پر یہ معنے ہوں گے کہ احساس اور شعور کی بیداری کے ساتھ ہی جب ان کو پتا چلے کہ ہم کیسی حالت میں مبتلاء تھے پھر جونہی ان پر روشنی کا سورج طلوع ہوتا ہے اسی وقت پھر وہ توبہ کرتے اور ان بدیوں سے پرے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کے اوپر تو، ان کی توبہ تو خدا نے اپنے اوپر فرض کرلی ہے کہ ضرور قبول کرے گا۔ باقی نزع والی بحثیںجو ہیں یہ عجیب و غریب بحثیں ہیں جبکہ قرآن کریم میں دوسرے اس مضمون کی آیات ہیں کہ جب موت آچکی ہو اور جب تمہیں بلایا جارہا ہو اس وقت جب تم یہ کہو گے کہ اے خدا ہمیںتوفیق دے ایک دفعہ واپس بھیج دے ہم پھر نیک اعمال کریں گے تو یہ جھوٹ ہے ، اگر ہم بھیج بھی دیں گے تو تم بداعمال کرو گے، وہی باتیں دہرائو گے جو باتیں تم پہلے کرتے رہے ہو۔ مرنے کے بعد بھی جب قیامت کے دن بعض گناہگارلوگ یہ کہیں گے اے خدا کاش ایسا ہوتا کہ ہمیں واپس بھیج دیا جاتا پھر ہم اچھے اعمال کرتے تو جواب یہی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا، ایک تو واپس نہیں بھیجا جاسکتا دوسرے اگر تم جائو گے تو وہی کام پھر کرو گے ۔ یہ ایک بنیادی فلسفہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے موت کا حکم اس وقت آتا ہے جب ایک انسان اپنی ایک حالت پر ایسا دوام پکڑ چکا ہوتا ہے کہ اگر موت نہ آئے تو گویا ہمیشہ وہی کرتا رہے گا اورموت نے عمل کا دور کاٹا ہے مگر موت اگر نہ آتی تو وہ گویا یہی کام ہمیشہ کرتا رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ عذاب لمبا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر لمبا عذاب دینے میں کوئی انصاف نہیں ہے ۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو تیس سالہ زندگی میں گناہ کیے ہیں اور خداتعالیٰ نے ہمیں موت دیدی۔ ہوسکتا ہے ہم زندہ رہتے تو ٹھیک ہوجاتے۔ اس کا جواب خدا دیتا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوسکتا تو تمہیں خدا ضرور زندہ رکھتا۔ تمہاری حالت گناہ دائمی ہوچکی ہے تب تمہیں بلایا جارہا ہے اور اگر دائمی حالت کا انتظار کیا جائے کہ یہ ختم ہو پھر سزا شروع ہو تو دائمی حالت تو پھر دائمی رہے گی جب بھی کاٹی جائے گی وہاں سے آگے سزا پھر شروع ہوگی اور وہ ازل کے ساتھ ازل کا ٹکرائو ہوجاتا ہے۔ کیونکہ دائمی حالت دیکھنے کیلئے لازوال وقت ملنا چاہیے اس کی بجائے وقت تھوڑا دیا جاتا ہے اور سزا اس اصل کے تابع دی جاتی ہے کہ چونکہ یہ گناہوں پر فکس ہوچکے تھے اس لیے کرتے تو کرتے چلے جاتے۔ یہ جو مضمون ہے اس کا ایک اور پہلو ہے وہ رحم کا پہلو ہے۔ ان لوگوں پر جو گناہگاروں کے ساتھ رہتے ہیں ، جو گناہگاروں کی دنیامیں زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے ظلموں کا نشانہ بنتے ہیں ۔ اگر گناہگاروں کو دائمی سزا دینے کیلئے دنیا میں بہت لمبا عرصہ رکھا جاتا جو مثلاً ایک کروڑ سال تک وہ رہتے چلے جاتے تو اس دنیا سے پھر نیک لوگ سب اٹھ چکے ہوتے۔ کیونکہ ان ظالموں کے ظلم کانشانہ بناکر خداتعالیٰ معصوموں کو بربادکردیتا۔ انبیاؑء کی حالت دیکھیں، خدا کی طرف سے پکڑ آتی ہے بعض دفعہ بہت جلد آجاتی ہے بعض دفعہ ٹھہر کر۔مگر اتنے عرصے میں آتی ہے کہ ظالم نیک لوگوں اور خدا کے پاک بندوں کا استیصال نہیں کرسکتا۔ ان کو جڑوں سے اکھیڑ نہیں سکتا۔ اگر لمبا عرصہ ملتا تو یہ کردیتا۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ توبہ کے مضمون کا اس حالت سے تعلق ہے جو انسان اس زندگی میں ایسی بنالیتا ہے کہ جو دوام پکڑ جائے۔
پس توبہ میں اگر تم لوٹتے ہو اصل کی طرف اور نیکی کی طرف واپس آتے ہو تو تم نے اس دوام کی حالت کو کاٹ دیا یعنی گناہ سے ہجرت کی ہے نیکی کی طرف۔ پھر اگر اس نیکی کی حالت کو دوام دو گے پھر تمہارے لیے ابدی جنتیںہیں اور ایسی حالت میں موت آئے کہ جب خدا کے نزدیک تم نے نیکی پر دوام اختیار کرلیا ہو۔ یہ اس آیت کے مضمون کے برعکس دوسرا مضمون ہے۔ الذین یموتون و ھم کفارٌ پس کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا کفر دوام پکڑ جاتا ہے، ہمیشہ کیلئے فکس ہوجاتا ہے۔ اور خدا کے علم میں ہے کہ ان کو اب جتنی مہلت دیں گے یہ یہی کام کریں گے اس وقت ان کو بلایا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ ہیں جن کی نیکی میں دوام آجاتا ہے اور ان کا ذکر فرماکر اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے وتوفنا مع الابرار ہمیں ان لوگوں میں مارنا (…)جو تیرے نزدیک نیکیوں پر دوام پکڑ گئے ہوں اور جب مریں تو ابرار کے طور پر مریں۔ اشرار کے طور پر نہ مریں۔ ان کیلئے دائمی جنت جو ہے وہ واضح بات ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو اربوں سال بھی زندہ رہتے تو نیکیوں ہی پر زندہ رہتے۔ اس لیے ان کا دارالعمل کا دور کاٹ دینا کہ ایک خدا کی رحمت ہے ورنہ دارالجزاء شروع ہی نہ ہوتا یہ دیکھنے کیلئے کہ ابھی یہ پکے ہوئے ہیں کہ نہیں۔ اس لیے دارالجزاء کا شروع ہونا، جلد شروع ہونا یہ اللہ کی رحمت ہے اور دارالعمل کا کٹ جانا یہ بھی اللہ کی رحمت ہے نیک لوگوں کیلئے۔ اس لیے کہ بہت سے مشقتوں میں پڑتے ہیں اور نیکیاں خود محنت چاہتی ہیں تو ان کے عمل کا دور جب اتنا اطمینان ہوجائے کہ اب یہ پکے ہوچکے ہیں وہاں ختم ہے۔ پھر ان کو نیکیوں کی مزید توفیق دینے کیلئے فضل کے طور پر جو زندگی ملتی ہے وہ علاوہ ہے، وہ ایک الگ مضمون ہے۔ اگر کسی نے بعدمیں ٹھیک ہونا ہو تو گناہوں کی حالت میں اس کی زندگی کولمبا کردینا اس کے گناہوں کو تقویت دینے کیلئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسی بات ہے جو کسی وقت clickکرجائے گی۔ کسی وقت ایک شرم کا مادہ ہے ، ایک استغفار کا امکان ہے اس کے اندر موجود، جو اندر اندر پنپ رہا ہے۔ مگر ابھی اپنے پھل کو نہیں پہنچا ۔ ایسے شخص کو بعض دفعہ گناہوں کے باوجود بڑی لمبی مہلت مل جاتی ہے اور آخر پر ایک دم پھر وہ ظاہر ہوتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اچانک یہ نیک ہوا ہے اور اچانک بخشا گیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔وہ کنچنی جس کے متعلق آتا ہے کہ راستہ چلتے اس نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس سے تڑپ رہا ہے او رپانی نیچے ہے جس تک اس کا منہ پہنچ نہیں سکتا۔کنویں میں اس نے اپنی جوتی اتاری اور اس میں اس کا ڈول بنا یا اور پانی بھرتی رہی یہاں تک کہ کتے کی پیاس بجھ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس پر معاف فرمادیا۔ اب کوئی یہ سمجھے گا کہ ساری عمر تو گند کیا اور ظلم کیے اور ایک کتے کو پانی پلا کر بخشی گئی۔ یہ غلط ہے،انسانی فطرت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہے ۔ ایسی نیکی ان گناہوں کے باوجود جو دل میں پنپتی رہی ہے یہ ہری شاخ تھی اس کی، بنی نوع انسان کی اور مخلوق کی ہمدردی ۔ یہ وہ نیکی تھی جس پر خدا کی نظر رہی اور اس کے گناہوں پر یہ نیکی بالآخر غالب آگئی اور پھر اس کو یہ تو نہیں فرمایا کہ وہیں موت دے دی۔ پھر توبہ کی حالت میں اس کی زندگی کا ایک دور چلا ہوگا اور وہ نیکی جو ایک ہری شاخ کی طرح مخالفانہ حالات میں بھی زندہ رہی وہ بالآخر غالب آئی اور اس نے اس کی زندگی کو ہرا کردیا۔ یہ مضمون ہے جو باریک مضمون ہے لیکن یہ مطلب نکال لینا کہ اچانک خدا بے وجہ کچھ کردیتا ہے یہ درست نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے مضمون کے ساتھ علیمٌ حکیمٔ فرمایا ہے ۔ وہ جاننے والا ہے کہ آئندہ ایسے لوگ کیا کریں گے ، وہ جانتا ہے کہ حکمت کے تقاضے کیا ہیں۔ سب سے زیادہ (حکمتوں کو) ، باتوں کو سمجھنے والا ہے۔ پس اس پہلو سے اب مزید کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جو حدیثیں گھڑلی جاتی ہیں وہ دراصل تو اپنے منہ سے بولتی ہیں ۔ قرآن کریم میں ایک بات کھلی طو رپر واضح بیان ہوئی ہے اس کے متعلق بعض ایسی باتیں بیان ہوجائیں جو انسانی فطرت کو عجیب لگیں اور ان کیلئے کوئی سند نہ ہو پکی۔ یعنی سینکڑوں سال بعد اکٹھی ہوں ، اگر وہ مخالف نہیں ہے توقبول بیشک کرلو کیونکہ بہر حال جو نام لگا ہوا ہے رسول اللہ ﷺ کا اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر واضح طو رپرقرآن سے متصادم نہ ہو تو بیشک قبول کرلو کوئی گناہ نہیں۔ پھر جو تم وہ کام کرو گے تو اس میں تمہاری رسول اللہ ﷺ سے محبت اور اطاعت کا پہلو بھی داخل ہوجائے گا۔ لیکن جہاں متصادم ہو وہاں قبول کرنا محبت کا تقاضا نہیں بلکہ گستاخی ہے۔ کیونکہ تم نے رسول اللہﷺ کی شان کو نہیں سمجھااور ایسی بات قبول کرلی جو آنحضرتﷺ کی شان پر حرف لانے والی ہے۔ اس لیے وہ حدیث جیسا کہ میں نے پڑھ کر سنائی تھی ، حدیث بیان کی گئی ہے وہ شانِ مصطفویؐ کے خلاف ہے۔ اس لیے محبت کے نام پر، عشق کے نام پر ایسی باتوں کو قبول کرنا جہالت ہے۔ یہ بھی وہ جہالت ہے جس سے جلدی توبہ کرنی چاہیے۔ اب ایک اور حدیث ہے جو بین بین کی سی حالت ہے ابوقرابہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس پر *** کی تو اس نے مہلت مانگی اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک مہلت دے دی۔ وہ کہنے لگا تیری عزت کی قسم جب تک ابن آدم میں روح باقی ہے میں اس کے دل سے نہیں نکلوں گا۔ خدا نے فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم جب تک اس میں روح ہے میں اس کو توبہ کی قبولیت سے محروم نہیں کروں گا۔
اب یہ مکالمہ قرآن کریم میں تو درج نہیںہے۔ قرآن کریم میں تو یہ ہے کہ جب اس نے مہلت مانگی اور کہا میں ان کو گناہ میںمبتلا کروں گا تو خدا نے فرمایا جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے کوئی سلطان نہیں۔ بہت ہی بلند شان کا مضمون ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کسی صوفی نے یہ مضمون بھی بیچ میں گھڑ لیا ہے نیکی کی خاطر۔ اس کو قبول کرنے میں حرج کوئی نہیں کیونکہ یہ تو درست ہے کہ جب تک انسان کی روح دنیا میں موجود ہے اللہ تعالیٰ اسے توبہ کی توفیق بھی دے سکتا ہے اور بخش بھی سکتا ہے۔ انتہائی آخری لمحات میں توبہ قبول نہیں ہوگی کے مضمون پر ابن کثیر لکھتے ہیں ’’جب زندگی سے مایوسی ہو، عزرائیل کو دیکھ لے ، روح حلق تک پہنچ جائے‘‘ یہ وہی حلق والی بات جو پہلے گزرچکی ہے ’’سینہ تنگی محسوس کرے اور انتہائی تکلیف کا وقت ہو تو ایسی حالت میں توبہ قبول نہیں ہوگی اور نہ کوئی راہِ فرار ہوگی‘‘۔ اب ایسی حالت میںباہر بیٹھے ہوئے فتوے دینے کی کیا ضرورت ہے جو شخص اس حالت کو پہنچا ہی نہیں اسے پتا ہی نہیں کیا حال ہے۔ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟ کیا نظر آرہا ہے؟خوامخواہ باہر بیٹھے آپس میں جھگڑرہے ہو کہ اس کی تو بہ قبول ہوگی کہ نہیں ہوگی۔ وہ اللہ کے سپرد، اس کی مرضی ہے اور جو اس نے دیکھا تمہیں تو دکھائی نہیں دیا اس لیے بالکل بے کار بحثیں ہیں کوئی کہتا ہوجائے گی کوئی کہتا ہے نہیں ہوگی۔ اور فیصلہ نہ اس کا چلنا ہے نہ اُس کا چلنا ہے۔ آگے کہتے ہیں ’’آخری لمحات میں بھی قبولیت توبہ ایک روح پرور مکالمہ‘‘۔ روح پرور مکالمہ تو نہیں یہ تو روح کو نقصان پہنچانے والا مکالمہ نظر آرہا ہے۔ کیونکہ اس طرز کی باتیں ہیں جو انسانی فطرت قبول نہیں کرتی کہ ایسا واقعہ ہونے والااس قسم کا ہوا ہوگا اور بنانے والوں نے خوب باتیں بنا رکھی ہیں اور لکھنے والے نے بھی خوب لکھا ہے’’ایک روح پرور مکالمہ‘‘۔ پڑھ کے واہ واہ، سبحان اللہ دل سے نکلا۔ عبدالرحمن بن سلمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چار صحابی رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے (عبدالرحمن بن سلمان سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کے چار صحابی رضی اللہ عنہم …اکٹھے ہوئے) ایک نے کہا میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے سنا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی وفات سے ایک دن پہلے کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے ۔ دوسرے صحابیؓ نے پوچھا کیا یہ بات آپ نے حضورؐ سے خود سنی۔ انہوں نے کہا ہاں سنی۔ جواب دیا ہاں تب دوسرے صحابیؐ نے کہا میں نے تو حضورﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی وفات سے نصف دن پہلے کی توبہ قبول فرماتا ہے (دیکھیں ناں حساب کیسے چل رہے ہیں)۔ تب تیسرے صحابیؓ نے اب اس کو کہا ۔(اب دیکھیں کس طرح پہلا یہ کہتا ہے پھر وہ الٹ کے کہتا ہے ) تو نے سنا تھا؟ دوسرے نے کہا میں نے سنا تھا پھر … (دوسرا ٹیک اوور کرتا ہے تو تیسرا اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے) کہنے لگے تیسرے صحابی نے دریافت کیا کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں تصدیق کرتا ہوں۔ تب تیسرے صحابی نے کہا میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی وفات سے گھڑی دو گھڑی پہلے کی توبہ بھی قبول فرمالیتا ہے یہ سن کر چوتھے صحابی نے تیسرے سے پوچھا۔ کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی؟ انہوں نے تصدیق کی۔ تب چوتھے صحابی نے کہا میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ بندے کی نزع سے پہلے تک کی توبہ بھی قبول فرمالیتا ہے‘‘ اب اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نزع سے پہلے تک کی توبہ قبول فرمالیتا ہے،کے متعلق قرآن کی آیات کھلی کھلی گواہی دے رہی ہیں۔ یعنی موت کا فیصلہ صادرنہ ہوچکا ہے نزع سے مراد یہ ہے کہ موت کا فیصلہ صادر ہوچکا ہواور مرنے والے کو دکھائی دے دیا ہو کہ یہ فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ یہ مضمون ہے لیکن یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور بعض اور ایسی روایات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس معاملے میں کوئی عام حکم صادر نہیں کیا جاسکتا۔ فرعون کی بات سوچیں آپ۔ فرعون کو جب غرق پہنچا تو کیا وہ نزع کی حالت میں ہی گفتگو کررہا تھا؟ نزع کی حالت میں تو خداتعالیٰ سے یہ بات کر ہی نہیں سکتا ۔اس نے کہااے خدا ! تو مجھے اگر بچادے، چھوڑ دے اس وقت میں ایمان لاتا ہوں موسیٰ علیہ السلام پر اور موسیٰ علیہ السلام کے خدا پر، ہارون علیہ السلام پر اور ہارون علیہ السلام کے خدا پر ۔ اور میں مومنوں میں شامل ہوتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو کہا اب وقت ہے۔ اب کونسا وقت ہے۔ تو ظاہر ہے کہ وہ نزع کی حالت نہیں تھی۔ تو نزع سے پہلے بھی دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔
پھر ایک دوسرا مضمون قرآنی آیات سے قطعاً ثابت ہے کہ ایک شخص جس پر عذاب وارد ہوچکا ہو وہاں نزع کی کوئی بحث نہیں۔ جب عذاب کا حکم آجائے پھر کوئی توبہ نہیں۔اس لیے وہ قومیں جو عذاب میں پکڑی جاتی ہیں ان کے اوپر عذاب نازل ہوچکا ہوتا ہے۔ نزع کی حالت ان پر آئے نہ آئے۔ بعض دفعہ تو آناً فاناً دنیا سے رخصت ہوتے ہیں مگر جب پکڑ آجائے تو پھر توبہ نہیں ۔قانون جب پکڑ لے کسی کو تواس کے بعد اس کی توبہ نہیں ہوا کرتی۔ اسی لیے میں نے پچھلی آیت کے حوالے سے یہ مضمون چھیڑا تھا کہ اگر کوئی ایسا شخص جو اللَّذَانِ والی آیت کے تابع ، دو شخص ایسے ہوں کسی گناہ میں ملوث ہوئے ہوں تو ان کے متعلق یہ جو فرمایا کہ اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان کو، ان سے درگذر کرو ۔ اس کا یہ مطلب بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے کہ وہ گناہ کی حالت میں پکڑے جائیں اور پھر کہیں ہماری توبہ، ان کو چھوڑ دو۔ اگر یہ ہو تو پھر دنیا سے جو احتساب اورمؤاخذے کا مضمون ہے وہ اٹھ جائے گا۔ قرآن کریم نے کھلے کھلے لفظوں میں یہ بات پیش فرمادی ہے کہ گناہگار جب تک پکڑا نہیں جاتا اس وقت تک اس کے اوپر تمہیں حد لگانے یا سزا دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔مگر جب ایک دفعہ پکڑا جائے تو پھر اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اس پہ رحم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ رحم کے دروازے اسی حد تک کھلتے ہیں جس حد تک قرآن کریم اُن حالات میں رحم کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ تو وہ لوگ،وہ جو، دو جوپکڑے جائیں ان کے بعد یہ کہنا کہ اُن کی وہ توبہ کریں اور اصلاح کرلیں تو ان کو چھوڑ دو اس کا یہ مطلب بن جائے گا کہ پھر ان کو سزانہ دو۔ اذُوھما کا فعل ختم ہوگیا۔ میں یہ سمجھارہا تھا آپ کو کہ اس کا ایک ہی معنی بنتا ہے جو ممکن ہے کہ اٰذُوھماکا عرصہ صرف چارجوتیاں مارنے سے تعلق نہ رکھتا ہو بلکہ اس سے زیادہ لمبا ہو ، ان پر پابندیاں ہو جو ان کی زندگی میں تنگی پیدا کریں۔ کئی آزادیاں ان کی چھینی جائیں تاکہ وہ سوسائٹی میں معصوم بچوں وغیرہ کے خلاف کوئی ایک خطرہ نہ بنے رہیں۔ ایسی پابندیاں جیسا کہ عورت کے اوپر بھی پابندیوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ عدل کا بھی تقاضا تھا کہ جس طرح عورت پر کچھ عرصے تک ، ایک عرصے تک پابندیاں عائد کی گئی ہیں……… ایسے دو شخصوں کے اوپر بھی مناسب پابندیاں ہونی چاہئیں جو ان کیلئے زندگی اجیرن کریں۔ سوفیصد نہ سہی مگر ایک حد تک تکلیف کے احساس میں رہیں وہ سزا جاری ہوچکی ہے۔ پھر وہ معافی مانگیں اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں تو پھر معافی ہوسکتی ہے مگر سزا جاری کے ہونے سے پہلے۔ ان کے معافی مانگنے سے سزا ٹلے گی نہیں یہ مطلب ہے اس کا۔ پس یہاں جو نزع سے پہلے کی حالت تک ہر توبہ قبول کرلی جاتی ہے یہ درست ہے ہی نہیں۔ جو لوگ گناہوں میں پکڑے جائیں ان کے اوپر دنیا کی سزا تو بہر حال چلتی ہے ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو لوگ عذاب کی پکڑ میں آجائیں اور خدا کے وعید کا وقت آچکا ہو۔ ان کیلئے پھر کوئی توبہ نہیں اس سے پہلے تک توبہ ہے اور وہ نزع کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ حضرت یونس ؑ کی قوم کو خداتعالیٰ نے معاف فردیا جبکہ ابھی عذاب نازل نہیں ہوا تھا۔ قطعی طور پر ثابت ہے یہ کہ انہوں نے اس وقت معافی مانگی جبکہ ان کویہ یقین ہوگیا تھا کہ نبی سچا ہے اور چونکہ یہ سچا ہے اس لیے بعید نہیں کہ جو یہ وعید کررہا ہے یہ پورا ہوجائے۔ پھر انہوں نے عذاب آنے سے پہلے توبہ مانگی ہے اور ایسے دردناک طریق پر ساری قوم نے مانگی کہ اس کے بعد انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک نہ فرمائے۔ پس ایسی حالت میں توبہ قبول ہوگئی (جس کا نزع ……… کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں میری مراد یہ ہے۔ پس ایسی روایات جو ویسے اچھی لگتی ہوں مگرجو قرآن کریم کے واضح کردہ عمومی مضامین میں پوری طرح فٹ نہ ہوتی ہوں ان کے متعلق بھی تردّد کرنا چاہیے۔ ان کے صرف اتنے معنے اخذکیے جائیں جتنے معنے اخذ کرنے میں حرج کوئی نہیں۔ باقی میں ٹھہر جائیں اور ایسی صورت میں روایت ہو یا نہ ہو ہر صورت بہرحال قرآن کریم کے وسیع مضامین سے کسی روایت کو متصادم سوچنا بھی رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہے۔ اچھا اب ان دونوں آیات کا دیکھیں پہلی آیات سے بھی تعلق ہے(کہاں ہے وہ؟ یہ ہیں۔ دوسری تھی یہ والی… اچھا… یہ تین تین چٹیں کیوں لگائی ہوئی ہیں آپ نے احتیاطاً ، پھر ٹھیک ہے۔۔۔ مجھے بھول گیاتھا میری توبہ! حالانکہ مجھے کوئی حق نہیں تھا میں نے خود ہی ان سے کہا تھاکہ جس صورت پر گفتگو ہورہی ہو اس کے آغاز پر بھی ایک چٹ لگادیں جہاں وہ ختم ہوتی ہے سورت اس کے آخر پر بھی لگادیں۔کیونکہ بعض دفعہ پہلے اور آخر کو دیکھنا پڑتا ہے ۔ تو جزاک اللہ آپ نے ٹھیک کیا ہے) ہاں ہاں میں سمجھتا ہوں)۔
وصیت کے مضمون سے بات شرو ع ہوئی تھی میں آپ کو اس آیت …… تک جو مضمون چل رہا ہے وہ دکھانا چاہتا ہوں کہ کن رستوں سے گزر کر ہم اس آیت تک پہنچے ہیں۔ وصیت کے مضمون پر گفتگو ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’وصیۃ من اللہ ‘‘ کہ اللہ کی طرف وصیت ہے اوراس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھے گا اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمادے گا وذلک الفوز العظیم یہ بات ہوچکی ہے ۔ و من یعص اللہ و رسولہ و یتعدد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا ولہ عذاب مہین اور جو شخص اللہ اور رسول کی معصیت کرے گا اور(………………) و یتعد حدودہ اور اس کی حدود سے تجاوز کرے گا اس کو جہنم میںداخل کرے گا۔ اب وصیت کا تعلق موت سے ہے اور موت سے قرب میں عموماً وصیت کی جاتی ہے۔ تووہ شخص جس نے وصیت کرنی ہے اس کو ایک اورتنبیہ بھی لازم تھی کہ یاد رکھو۔ موت کے آنے سے پہلے کی گھڑیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں ان گھڑیوں میں اگر تم توبہ کرتے ہو تو وہ توبہ جو موت سے پہلے ہے وہ بھی قبول ہوسکتی ہے مگر ایسی نافرمانی تم کرجائو جو موت سے ذرا پہلی کی گھڑیوں سے تعلق رکھتی ہو تو پھر تم اپنی بخشش کے دروازے اپنے ہاتھوں سے بندکرنے کی کوشش کرو گے۔ اللہ کی مرضی ہے کہ چاہے تو بخشے چاہے تو نہ ۔ مگر تم دروازے بند کررہے ہوگے۔ اس کا وصیۃ من اللہسے بہت گہر ا تعلق ہے اس اگلے مضمون کا کہ وصیت کے تعلق میں خصوصیت سے یاد رکھنا کہ وصیت کے دوران تقویٰ سے کام لینا کوئی ایسی وصیت نہ کردینا جو خدا کی ناراضگی کا موجب ہو۔ کیونکہ اب تم پر توبہ کے دروازے بند ہونے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اس کے بعد … والتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم اس سے پہلے فاحشات کا ذکر آگیا ہے۔ یعنی جو میں نے بات بیان کی ہے ان دونوں کے درمیان فاحشات کا ذکر ہے اس کا کیا تعلق ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو بعض ایسی چیزوں سے محروم کرنے کے تعلق میں بیان کرنا ضروری تھا جو ان کے دے دی گئی ہیں۔ اور تم پھر ان سے واپس نہیں لے سکتے۔ مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر فاحشہ کی مرتکب ہوئی ہوں جو واضح اور مبیّن ہوں جس کے متعلق قطعی گواہیاںہوں پھر ان کو بعض حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ پس ایسی صورت میں اگر ان کو ورثے کے حق سے بھی محروم کیا جائے تو یہ جائز ہے۔ یہ مضمون اس آیت سے اس لیے نکلتاہے کہ جو تم دے بیٹھے ہو فرمایا واپس نہیں لینا۔ کسی قیمت پہ واپس نہیں لینا۔ مگر اگر فاحشہ مبینہ کے مرتکب ہوں تو پھر واپس لینے کا حق ہے۔ تو زندگی میں دیا ہوا واپس لینے کا حق ہے تو موت کے بعد کیسے ان کوفائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پھرتو فحشاء میں ا س سے سمجھتاہوں کہ فاحشہ عورت کیلئے محروم الارث ہونے کی دلیل اس میں نکلتی ہے۔ اور اس کو گناہ نہیں قرار دیا جارہا ۔ یہ ان شرطوں میںاگرواقع ہوتو حدوداللہ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی اور اسی فحشاء کے تعلق میں دو مردوں کا ذکر بھی آگیا ہے پھر۔ کیونکہ ایک مضمون کو مکمل کیا گیا ہے۔ پھر آتا ہے انما التوبۃ اس لیے میں آپ کو ترتیب بتارہاہوں کہ ساری باتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا انما التوبۃ علی اللہ للذین یعملون السوء بجھالۃ ان کی توبہ خدا پر قبول کرنا گویا خدا نے خود لازم فرمالیا جو لاعلمی میںپوری طرح اپنے گناہ کی حقیقت سے آشنا نہ ہونے کے نتیجے میں ہے۔ احساس گناہ کے بیدار ہونے سے پہلے پہلے گناہ کرتے ہیں۔ احساس گناہ کے بیدار ہونے پر فوراً توبہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ خداتعالیٰ کے ہاں قبول کرنا گویا خداتعالیٰ نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو یہ باتیں نہیں کرتے وہ میں بیان کرچکا ہوں سارا مضمون۔ ان کی کوئی توبہ نہیں ہے۔ اب اس مضمون کے بعد اگلی آیت جو شروع ہورہی ہے وہ میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ یاد دہانی کے طور پر میں نے ترتیب آیات اورمضمون اور ان کے اندرونی تعلق کے متعلق یہ بات کی تھی۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھاالذین امنوا لایحل لکم ان ترثوا النساء کرھا ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ و عاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسیٰ ان تکرھوا شیئا و یجعل اللہ فیہ خیرا کثیراً۔ اس آیت کے مضمون کو میں نے یہ جو توبہ والے مضمون ہے اس سے پہلے بیان کردیا تھا غلطی سے۔ یہ جو آیت ہے یہ اس کے بعد آرہی ہے اور توبہ والے مضمون کی وضاحت کررہی ہے کہ جہاں جہاں معصیت کی باتیں ہورہی ہیں اس سے پہلے حکم ہوچکا ہے کہ وصیت کے حقوق ادا کرنا خدا کی طرف سے لازم ہے۔ تو یہ بھی بتادیا ہے کہ توبہ کے دروازے بند ہونے والے ہیں موت کے ساتھ۔ یہاں پھر مزید وضاحت ہے اسی مضمون کی۔ ورثے کی طرف واپس آیا جارہا ہے دو باتیں مزید بیان ہوئیں جو پہلے اس ورثے کی دوسری آیات میں بیان نہیںہوئیں تھیں۔ ایک یہ کہ الذین امنوا لایحل لکم ان ترثو االنساء کرھًا کہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے،جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بنو۔ ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن اب یہاں ورثے کا وہ مضمون ہے جو زندگی کے لمحات سے تعلق رکھتاہے۔ مرنے کے بعد ورثے کا ایک مضمون ہے جو مکمل ہوچکا ۔اصل میں یہ مضمون جو ہے یہ زندگی میں ورثہ پانا ایک دوسرے سے اس کے ساتھ منسلک ہے ۔ ایک طریق یہ تھا کہ عورتوں کے زبردستی وارث بن جائو۔ وہ کیا طریق ہے یہ میں بعد میں بتائوں گاابھی۔ ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن ان کو تنگ نہ کرو اور اس طرح ان کو ذلیل حالت میں نہ چھوڑے رکھو کہ وہ مجبورہوجائیں کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے تمہیں وہ واپس کریں، کہیں خدا کے واسطے ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔ یہ لو اور بھاگو یہاں سے۔ یعنی حق مہر ادا کرچکے ہو اور پھر چھوڑنے کو دل چاہتا ہے تو چھوڑتے بھی نہیں اور زندگی بھی اجیرن بنائے رکھتے ہو۔ ایسی صورت میں یہ جائز نہیں ہے تمہارے لیے اس خیال سے کہ پھر یہ کہیں گے اچھا پھر جو حق مہر دے چکے ہو وہ لے لو یا جو حق مہر نہیں دیا جس سے ڈرتے ہو ہم چھوڑدیتی ہیںچلو کچھ بھی نہیں لیتیں تم سے۔ تو اتیتموھن فرمایا ہے۔لیکن وہ مضمون بھی اس کے اندر داخل ہے جو دے بیٹھے ہو یاجس کا عہد ایسا کرچکے ہو کہ جس کا دینا تم پر لازم ہوچکا ہے ایک ہی صورت ہے الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ۔ فاحشۃ مبینۃ کا جو مضمون ہے یہ پچھلی آیت فاحشہ میں کھول دیا گیا ہے۔ مبینۃ سے یہ مراد نہیں ہے کہ جس کو تم سمجھتے ہو کہ فاحشہ ہے۔ مبینۃ سے وہ مراد ہے ایک معنی مبینۃ کا ہے ’’کھلا کھلا‘‘ اور ایک معنی ہے ’’جو خوب بیان کردی گئی ہے تم پر‘‘۔ وہ فاحشہ جس کی حالت تم پر پوری طرح کھول دی جاچکی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کے چار گواہ بنائے گئے ہیں اور عدلیہ نے فیصلہ دیا ہے۔ کیونکہ چار گواہ انسان اپنے سامنے تو پیش نہیں کیا کرتا ۔ بعض دوسرے مفسرین نے بھی اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ یہاں قیام عدلیہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ بعض ایسے معاملات ہیں جن میںتم خوداز خود الزام لگانے والے بھی اور کرسی عدل پر بیٹھنے والے نہیں بن سکتے۔ پس جہاں گواہی کا مضمون شروع ہوا وہاں تم الزام لگانے والے بن گئے اور جس پر الزام لگایا ہے اس کے خلاف تمہارے لیے چار گواہ پیش کرنا ضروری ہوجائے گا۔ پھر جو سوسائٹی فیصلہ دے گی جو ضروری نہیں کہ عدلیہ ان معنوں میں ہو جن معنوں میں ہم آج سمجھتے ہیں۔ بلکہ مختلف ممالک میں رواج الگ الگ ہیں۔ قوموں میں رواج ہیں ، مل کربعض پنچایتیں بنادی جاتی ہیں جو فیصلے کرتی ہیں مگر فیصلہ پھر قومی ہوگا تمہارا اپنا نہیں ہوگا۔ مبینہ کا یہ معنی میں سمجھتا ہوں یہاں اطلاق پارہا ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شخص کسی کو فاحشہ کہہ کر اس سے مال چھین لے۔ وعاشروھن بالمعروف اور ان کو معروف کے ساتھ رکھنا ہے۔ فاحشہ مبینہ اور معروف کے ساتھ رکھنے میں کیا جوڑ ہے آپس میں؟ بعض لوگوں کے نزدیک وہ گناہگار ثابت بھی ہوجائیں تو پھر بھی حسن معاشرت میں ان سے کمی نہیں کرسکتے۔ ایک تو یہ معنی ہے دوسرے یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ عموماً عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کرو بجائے اس کے کہ ان کے حق غصب کرنے کی طرف تمہاری توجہ پھرے۔ اس کاتصور ہی مومن کی شخصیت کے خلاف ہے۔ اللہ تو تم سے یہ تقاضا کرتاہے کہ ان سے حسن معاشرت کرو اور حسن معاشرت میںا حسان کامضمون پایا جاتا ہے۔ تو بجائے اس کے کہ ……… عدل کے تقاضے نظر انداز کرکے ان پر ظلم کرو ان کو ان کے حق سے زیادہ دو یہ حسن معاشرت ہے اور ان کی خاطر قربانیاں کرو۔ فان کرھتموھن اگر یہ وجہ ہو کہ تم ناپسند کرنے لگ گئے ہو اور مال کی لالچ نہ بھی ہو فعسی ان تکرھوا شیئا و یجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا تو یاد رکھنا کہ تم بعض دفعہ ایک چیز کو ناپسند کرتے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے تمہاری بھلائی اس میں رکھی ہوتی ہے یہاں مراد واضح ہے کہ ایسی بیویاں جنہوں نے شروع میں خاوند کا ساتھ دیا اچھی بھلی جیسی بھی تھیں خاوند ان پہ راضی رہا، سوچا بھی نہیں کہ ان کو طلاق دے دوں۔ اب بچے پیدا ہوگئے ہیں ، بڑے ہوگئے ہیں ، اس کی صحت گر گئی ہے، وہ حالت نہیں رہی ۔تو آدمی کہتا ہے اب مجھے نہیںپسند رہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاد رکھنا یہ مناسب نہیں ہوا کرتا بعض دفعہ۔ جن چیزوں کو تم ناپسند بھی کرتے ہو ان کے ساتھ خیر کے پہلو بھی تو ہیں اس گھر کو قائم رکھنا، اس کے ماحول کو سلامت رکھنا، بچوں کی تربیت کے نقطہ نگاہ سے اس کے ساتھ حسن معاشرت کرنا۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں نصیحت ہے اور محض اپنی پسند ناپسند کی بناء پر جلد بازی میں فیصلے نہ کیا کرو ۔ دوسرا وعاشروھن بالمعروف میں ایک یہ بھی مضمون ہے کہ وہ جن کا فاحشہ ہونا ثابت ہوجائے مبینہ ہو یعنی کھلم کھلا ان معنوںمیں نہیں ہے کہ تم سمجھو کہ کھلم کھلا ہے مبینہ، جن کے متعلق وضاحت آچکی ہے قطعی ہوچکا ہو ان کو تم نے گھر میں رکھنا ہے پھر۔ کیونکہ ان کے متعلق تو دوسری حد کوئی نہیں ہے۔جب گھر میں رکھو تو پھر ان کے ساتھ کمینوں والا سلوک نہ کرو کہ یہ تو اب قیدی ہیں اب ان کے ساتھ جو چاہے زیادتی کرتے پھرو، ان کو کتوں کی طرح کھانے ڈال پھینکو۔
انگلستان کے کتوں کی طرح نہیں۔ یہاں توبڑی عزت سے کھانے دیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے کتوں کی طرح یا ہندوستان کے کتوں کی طرح۔ وہ بہرحال عورت ہیں اور تمہاری ذمہ داری ہیں جب تک تمہاری ذمہ داری ہیں ان سے حسن معاشرت فرض ہے۔ وہ جو قید کے تصور نے ایک مکروہ سا منظر آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کیا تھا اس تصور کو یہ آیت باطل کررہی ہے۔ فرمایا عورت کے ساتھ حسن سلوک اس صورت میں بھی ہوگا جب اس کا فاحشہ ہونا ثابت ہوچکا ہواور تم اس کو پابندیوںمیں رکھ رہے ہو اس کے نگران ہو۔ یہ مضمون اسلام میں عام ہے۔ چنانچہ غلام بھی تو ایک انسان کا پابند ہوتا ہے ہر طرح سے ۔ اس کے متعلق آنحضرتﷺ کی یہ تعلیم کہ جو خود کھائو وہ اس کو کھلائو، جیسا خود پہنو اس کو پہنائو۔ کوئی ایسا کام اس سے نہ لو جو کرتے ہوئے تمہیں خود عار محسوس ہوتی ہو شرم محسوس کرو یا زیادہ تکلیف محسوس کرو۔ ایسی تعلیم غلامی کے متعلق دی گئی کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کیلئے غلام اورآزاد میں مالک اور غلام میں فرق کرنا ہی بڑا مشکل ہوگیا۔ ایسا لگتاتھاجیسے غلام اور مالک ایک ہی جیسے حقوق رکھتے ہیں۔ ایک گھر کے برابرکے فرد ہیں تو جہاں اسلام میں غلاموں کے متعلق یہ تعلیم ہو وہ بھی تو ایک قید ہوتے ہیں وہاں بیویاں اگر تمہاری قید میںایک طرح سے آجائیں ان کے متعلق یہ تعلیم انہی معنوں میں سمجھنی چاہیے کہ حسن معاشرت کی تعلیم یہاں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ لازم ہے کہ ایسی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک جاری رکھو اور ان کی زندگی اجیرن نہ ہوجائے۔ جو روز مرہ کے خیالات ہیں ، روز مرہ کے ان کے حقوق ہیں وہ ان کے ادا کرتے رہو ۔ ترثوا النساء کی طرف اب ہم واپس آتے ہیں ایک ترثوا النساء کا تعلق زندگی سے ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ۔ ایک ترثوا النساء کا تعلق مرنے کے بعد بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ورثہ کا تعلق مرنے کے بعد بھی ہے ۔ان معنوں میں کیاہوا کرتا تھا۔ کس طرح بعض عورتوں سے نکاح کرکے ان کا ورثہ لے لیا جاتا تھا۔ کوئی ایسی رسم عرب میں موجودگی ہوگی جس کے قلع قمع کرنے کیلئے قرآن کریم نے یہ ہدایت فرمائی ہے۔ اس رسم کے متعلق اسباب النزول از علی بن احمد الواحدی صفحہ 83پر لکھا ہے کہ مفسرین کہتے ہیںاسباب النزول لکھنے والوں انہوں نے تمام مفسرین کی روایتوں سے عمومی تاثر جو اخذ کیا ہے اس کو یہ اسباب النزول میں بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت اور اسلام کے آغاز میں جب کوئی مرد فوت ہوتا تو رواج تھا کہ مرنے والے کا کسی دوسری بیوی سے کوئی بیٹا یا مرحوم کا کوئی عصبی رشتہ دار آکر اپنا کپڑا اس عورت پر ڈال دیتا مرنے والا تومرد ہے ۔ کسی دوسری بیوی سے بیٹا سے کیا مراد ہے؟ کہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایک بیٹا بیوائوں میںسے اس بیوہ کے اوپر چادر ڈال دیتا جو اس کی ماں نہیں تھی۔ آپ کسی اور بیوی سے ہے بیوائوں میں سے ایک اس کی ماں بھی ہوسکتی ہے ایک غیرماں بھی ہوسکتی ہے۔ تو کسی غیر ماں کے اوپر وہ بیٹا اپنی چادر ڈال دیتا یا دوسرے رشتہ دار مثلاً چچا زاد بھائی وغیرہ یہی حرکت کرتے۔ اس طرح ڈھانکنے والا اس عورت کی ذات سے بھی زیادہ اس کا حقدار بن جاتا۔ بغیرکسی نئے حق مہر کے خود اس سے شادی کرلیتا ……… یا کسی دوسرے سے بیاہ کردیتا یہ بھی جائز تھااور بیاہ کرتا تو مہر خود لے لیتا۔ تو یہ زندگی والی وراثت کے ساتھ تعلق رکھنے والا مضمون ہے کہ جو اس کا تھا وہ اس نے زبردستی لے لیا۔ اسے روکے رکھتا اور اذیت دیتاحتی کہ وہ خاوند سے ملنے والا ورثہ دے کر اپنی جان چھڑاتی۔ یعنی وہ ……… ورثہ جو اس کو ملنا چاہیے تھا وہ دے کر جان چھڑاتی۔ اب یہ بڑی بھیانک سی تصویر ہے مگر اس کے اندر یاد رکھیں کہ اندرونی تضاد ہے ۔ کیونکہ عرب رواج کے متعلق جیسا کہ دوسرے مفسرین دوسری جگہ وضاحت کرچکے ہیں عورت تو خود ورثے میں بانٹی جاتی تھی، ورثہ پاتی ہی نہیں تھی اور بعض صورتوں میں صرف بڑا بیٹا ورثہ پاتا تھا دوسرے محروم ہوجاتے تھے۔ تو جب یہ رواج ہوں تو یہ کہنا کہ جوورثہ وہ پاتی تھی یا وہ جو اس نے پانا تھا اس سے اس کو محروم کردیا جاتا یہ عجیب سی بات ہے اور کچھ کہانیاں بنانے والوں نے عجیب و غریب عرب کی حالت کا نقشہ کھینچا ہوا ہے۔ جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جبکہ جہالت سے نور کی طرف انتقال ہورہا تھا روایات میں دکھائی نہیں دیتا۔ ورنہ کثرت سے ایسی چیزیں دکھائی دینی چاہئیں تھیں کہ لوگوں نے یہ حرکتیں کی ہوں ۔یہ امکان توموجود ہے ، احتما ل تو ہے کہ شاذ کے طور پر ایسا ہوتا ہوگا مگر یہ روایت خود جیسا کہ بیان کیا جارہا ہے اپنے اندر اندرونی تضاد رکھتی ہے۔پھر ایک اور بھی سوال یہ ہے کہ اگر اتنا بڑا فائدہ اٹھاسکتا تھا انسان کہ چادر پھینکے اور اپنالے توموت کے بعد تومرنے والے کی بجائے بیویوں کی طرف دوڑتے ہوں گے وہ۔ اپنے بچے بھی دوڑ رہے ہیں۔ رشتے داروں کے بچے بھی دوڑ رہے ہوںجو پہلے پہنچ گیا ، جس کی چادر پہلے پڑ گئی وہ مالک ہوگیا۔ عجیب و غریب نقشہ ہے جو انسانی عقل قبول نہیں کرسکتی اور کئی لوگ تو تاک میں پاس کھڑے ہوں گے ۔ جس طرح ہوتے ہیں نا وہ میوزیکل چیئر وہ نقشہ ہے۔ وہ کوشش کررہے ہوں گے ادھر ادھر کھڑے ہوں اور دیکھ رہے ہوں کہ جان نکلی کہ نہیں ادھر جان نکلی ادھر ایک دم چادر اس کے اوپر آ پڑی۔تصور میں آنے والی باتیں نہیں ہیں۔کچھ بدرسمیں تھیں جن کی طرف اشارہ ملتا ہے ان بد رسموں میں ایک یہ بدرسم تھی کہ مائیں یعنی بیوائیں ورثے میں بانٹی جاتی تھیں۔مگر بانٹی جاتی تھیں ا س کے کچھ اصول مقرر تھے ، کچھ قواعد تھے ان کے مطابق وہ تقسیم ہوتی تھیں۔ جیسا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنی وہ بہت ہی باکمال نظم بہت ہی اعلیٰ شان کی نظم ہے جو ’’رسول اللہ ﷺ کے عورتوں پر احسانات‘‘ اس میں فرماتی ہیں ؎
رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی
پھر آگے تھا ورثے میں بانٹی جاتی تھیں۔ وہ کیا ہے؟ یعنی ذلت کا یہ حال تھا کہ ورثے میں بانٹی جاتی تھیں۔ ورثے میں بانٹی جانا اور چیز ہے اور چادریں لے کر کھڑے رہنا میت کی بجائے بیویوں کے ارد گرد کہ جس کی چادر پہلے پڑ گئی وہ مالک بن گیا ۔ یہ تصور قابل قبول نہیں ہے اور ضرورت بھی کوئی نہیں ۔ کبھی رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان نہیں فرمایایہ ایسا ذکر ، کسی نہ حدیث میں نہ قرآن میں۔ تو یہ اسباب النزول والے قصے گھڑتے رہتے ہیں۔اس لیے ان آیات کو ان اسباب کے تابع رکھناجائز نہیں ہے۔ یہاں تو سیدھی طرح صرف اتنا فرمایاگیا ہے ولا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھاعورتوں کے وارث زبردستی نہ بنو ان کی مرضی کے خلاف نکاح کرنا بھی اس میں شامل ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ بعض حقوق عورت کے تھے اس کی بجائے عورت کو خود ورثہ بنادیا۔ یہ بھی زبردستی وارث بننے والا مضمون ہے۔جس رسم کا قلع قمع فرمایا گیا تھا۔ اچھا ۔بہت سی روایتیںایسی ہیں جن میں کچھ اور اشارے ہیں کہ کیاہوتا ہوگا ۔ لیکن لفظ تعضلوھن کے اوپر بھی ایک بحث آنے والی ہے میرا خیال ہے آج وقت چونکہ ختم ہوگیا ہے ۔ میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ یہاںعنوان لگاہوا ہے لاتعضلوھن حالانکہ آیت قرآنی میں تَعْضُلُوْھُنَّ ہے تَعْضِلُو نہیں ہے! تو تَعْضِلُوکس طرح بن گیا یہ لکھنے میں غلطی ہوئی ہوگی یہاں ۔ بہرحال یہ باتیں باقی معمولی سی چند باتیں رہ گئی ہیں جو کل انشاء اللہ پیش کردوں گا یا پرسوں۔ اور اب چونکہ مجھے ہمارے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی بڑی نیند میں بھری ہوئی آواز آئی ہے کہ وقت ختم ہوگیا ہے اس لیے وقت سے زیادہ مجھے ان کی حالت پر رحم آرہا ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ27؍رمضان بمطابق17؍ فروری 1996ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھاالذین امنوا لا یحل لکم ان ترثواالنساء کرھا ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃوعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO(النسائ:۲۰)
اس آیت پر بات چل رہی تھی کہ جب وقت ختم ہوگیا اور میں نے کہا تھا باقی انشا ء اللہ آئندہ درس میں بات شروع کریں گے۔ درس کے اس مضمون پر بات ختم ہوئی تھی کہ یہ جو عرب میں کون سا رواج تھا جس کے ختم کرنے کیلئے، جس کے قلع قمع کی خاطریہ آیت نازل ہوئی کیونکہ اکثر اسبا ب نزول پر بحث کرنے والے کہتے ہیں شان نزول اس کی یہ ہے وہ مختلف روایات بیان کرتے ہیں۔ میں نے ایک روایت بیان کی تھی جو ایک ایسی کتاب سے دی گئی تھی جس کا موضوع ہی شان نزول ہے اور ہر قسم کی باتیں جو امکاناً ہوسکتی تھیں، جس جس روایت سے ملیں اُن کو اُن صاحب نے محنت سے اکٹھا کیا۔ مگر میں یہ آپ کے سامنے بات کھولنا چاہتا تھا کہ اسباب نزول کی بحث میں پڑ کے بعض دفعہ بڑی لغو اور مضحکہ خیز باتیں سامنے آجاتی ہیں جن کا قرآن کریم کی آیات کے نزول سے کوئی تعلق نہیں۔اور دوسرے وہ آیات کے مضمون کوایک ایسے واقعہ سے باندھ دیتی ہیں جو محدود ہے جبکہ آیات کے مضامین لامحدود ہوتے ہیں اور اس قسم کے ہر واقعہ سے تعلق رکھتے ہیں جو قیامت تک رونما ہوسکتا ہے۔ پس آیت اپنی ذات میں عام ہی رہتی ہے ہمیشہ اور شان نزول جو بیان کی جاتی ہے وہ ایک محدود وقتی واقعہ ہوا کرتاہے۔ شان نزول کا علم اچھا علم ہے اس سے قرآن کریم کی بعض آیات کے بعض پہلوئوں پر اس رنگ میں روشنی پڑتی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اس قسم کے واقعات ہوا کرتے تھے۔ مگر جب بہت زیادہ اس کو اہمیت دی جائے اور بہت زیادہ پڑھا جائے تو اکثر وہ لوگ جو آیات کے شان نزول پڑھنے کے بعد آیا ت پڑھتے ہیں اور غور کرتے ہیں ان کی تفسیر بھی اسی حد تک محدودہی رہتی ہے اور دماغ کھلتا ہی نہیں۔ دماغ کو اجازت ہی نہیں دیتے کہ اس کے باقی پہلوئوں پر بھی نظر کرے ۔ مگر کئی پہلے بڑے بزر گ ایسے مفسرین گذرے ہیں جو ان خیالات کی تردید پہلے بھی کرتے آئے ہیں اور ایسی آیات کو عام مانتے ہیں نہ کہ کسی شان نزول کے واقعہ سے محدود۔ وہ جو کتاب کا حوالہ تھا اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ بخاری کی ایک اور اہم روایت آپ کے سامنے رکھوں جس میں شان نزول کا اس رنگ میں بیان فرمایاگیا ہے کہ جو بالکل معقول اور ایک عرب کے ایسے رواج سے تعلق رکھتی ہے جو سمجھ میں آتا ہے ۔ اس میں کوئی مضحکہ خیز بات نہیں۔ غلط تو بات ہے مگر وہ بات اپنی ذات میں مضحکہ خیز نظر نہیں آتی بلکہ معقول صورت ہے ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ لیکن وہ پہلے درس سے متاثر ہوکر کسی بزرگ عالم نے یہ سمجھا کہ شاید میرے سامنے اسی قسم کے غلط حوالے پیش کردیے جاتے ہیں اور اہم مستند روایات نہیں رکھی جاتیں۔ تو میں نے خوامخواہ ایک مضمون کو چھیڑ کر اس پر اتنی لمبی بحث چھیڑدی۔ حالانکہ بخاری شریف میں ایک اعلیٰ اور مستند روایت موجود ہے، حالانکہ وہ پہلی روایت آج کے درس میں جو میرے سامنے تھی وہ یہی تھی جو انہوں نے مجھے لکھ کر بھیجی ہے۔ میں بتارہا ہوں کہ میری طرز جو تھی وہ یہ تھی کہ پہلے شان نزول کے متعلق وہ خطرات آپ کے سامنے رکھ دوں جو ہر قسم کی روایتوں کو قبول کرنے کی صورت میں مفسرین کو درپیش رہے اور آئندہ بھی ہمیشہ درپیش رہیں گے ۔ پھر ایک مستند حدیث بخاری شریف کی آپ کے سامنے رکھو ں کہ ایسی احادیث میں جو شان نزول کے واقعات ملتے ہیں وہ قابل قبول ہیں۔ ویسے روایت کے لحاظ سے بھی، درایت کے لحاظ سے بھی۔ پس یہ وہ روایت ہے جو میں اب آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں۔
عن ابن عباس یایھاالذین امنوا لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھا و لا تعضلوھن لتذھبوا ببعض مااتیتموھن قال کانوا اذا مات الرجلُ کان اولیاء ہ احق بامرء تہ ان شاء بعضھم تزوجھا و ان شاء وا زوجوھاوان شاء وا لم یزوجھا فھم أحق بھا من اھلھا فنزلت ھذہ الایۃ فی ذالک(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ لا یحل لکم ان ترثوا النساء کرھًا)
اس روایت کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ یہ آیت یایھاالذین امنوا جب نازل ہوئی تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک کہ عرب لوگوں میں کوئی مرجاتا تو اس کی بی بی پر میت کے وارثوں کااختیارہو رہتا ۔ چاہتے تو خود اس سے نکاح پڑھالیتے یا چاہتے تو وہ اور کسی سے نکاح کردیتے۔ یا چاہتے تو اس کو یونہی رکھتے۔ غرض خاوند کے وارثوں کا اس عورت پر خود اس کے اصل رشتہ داروں سے زیادہ حق ہوتا تھا۔ یہ ہے وہ مضمون جو بالکل برحق ہے اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ میں نے حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی للہ تعالیٰ عنہا کا شعر پڑھا تھا کہ
ورثے میں بانٹی جاتی تھی
اصل بات یہ ہے کہ عورت ورثے میں خاوند کے رشتہ داروں کو ملتی تھی اور جو قریب ترین وارث تھے اس کا زیادہ حق ہوتا تھا۔ یعنی اپنے ماں باپ کی طرف لوٹ نہیں سکتی تھی اور آزاد ہو نہیں سکتی تھی۔ یعنی بیوگی کے عالم میں بھی اس کے تمام حقوق گویا اس مرنے والے خاوند کے تھے جو اپنے پیچھے ورثے میں چھوڑ گیا ہے۔ اور اس پہلو سے اگر اس سے نکاح کرنا ہے تو اس کے اولیاء کا پہلا حق تھا اور اگر اس کو کسی کے نکاح میں دینا ہے تو اولیاء کا پہلا حق تھا۔ جب نکاح میں دیتے تھے تو بسا اوقات اس کا مہر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور پھر خالی چھوڑ دینا یہ بھی ورثاء کا حق تھا۔ کچھ بھی نہ، نہ شادی کریں نہ کرنے دیں اور کَالْمُعَلَّقَۃ چھوڑدیں ان کو بغیر کسی حق کے۔ یہ جو بد رسمیں تھیں ان کو اس آیت نے یک قلم موقوف فرمادیا۔ اور اس ضمن میں کئی احادیث ملتی ہیں جن میں بعض معین واقعات بھی بتائے گئے ہیں کہ کون کون سے ایسے واقعات پیش ہوئے جن کی روشنی میں یہ آیت نازل ہوئی، اُن واقعات کی تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ یاد رکھ لیجئے کہ مشرکوں میں اہل مکہ ہوں یا باہر کے مشرک، اُن میں رواج تھاکہ عورت کو ورثہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے نتیجے میں قرآن کریم نے یہ ارشاد فرمایا۔ اس کے نتیجے میں کہنے سے مراد یہ ہے کہ یہ مراد نہیں ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو قرآن کریم میں یہ آیت نازل نہ ہوتی۔ جیسا کہ ابھی میں بات کھولوں گا۔ اگر یہ نہ بھی ہوتا تو اس آیت نے ضرور نازل ہونا تھا اور یہ ایک ازلی تعلیم ہے جس کا ایک اتفاقاً رونما ہونے والے واقعہ یا رواج سے کوئی تعلق نہیںہے ۔ گو تعلق ہوسکتا ہے۔ پس اب ہم اس آیت کی تفصیلی بحث میںجاتے ہیں کہ کیا کیا مراد ہوسکتی ہے۔ ترجمہ آپ کو یاد کرادوں۔’’ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہاے لیے جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جائو ترثواالنساء کرھا۔ ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض مااتیتموھن اور نہ ہی تمہارے لیے جائز ہے کہ انہیں تنگ کرو تاکہ جو کچھ تم ان کو دے بیٹھے ہو یا جس کا تم اُن سے وعدہ کرچکے ہو، دے بیٹھے سے مراد وہ سارے تحائف یا از خود شادی کے بعد جائیداد کا منتقل کرنا اس قسم کے تمام طوعی ھبے شامل ہیں اس میں ۔ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ جو تم دے چکے ہو اور حق مہر بھی مراد ہے کیونکہ جب تم عہدکرچکے ہو کہ میں دوں گا تو خواہ تم نے عملاً دیا ہو یا نہ دیا ہو وہ بھی ایسا ہی جیسے تم دے چکے ہو ، وہ سارے اموال جو تم ان کو دے چکے ہووہ واپس لینے کی خاطر ان کو تنگ نہ کرو۔ اِلَّا اَنْ یَاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیّنَۃٍ سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کا مرتکب ہوئی ہوں۔ مُبَیِّنۃہے لفظ مُبَیَّنَۃ نہیں ہے۔ اگر میں نے کہیں پہلے مُبَیِّنَۃکو پیش نظر رکھ کر تفسیر کی ہو، پچھلی دفعہ شاید مجھے شک پڑرہا ہے تو یاد رکھیں مُبَیِّنَۃ ہے مُبَیَّنَۃ نہیں ہے۔ مُبَیَّنَۃ کا مطلب ہے جو خود کھلی کھلی ایسی ہو جو شک سے بالا ہو ۔ مگر بات وہی بنتی ہے کہ کھلی کھلی سے مراد وہ فحشاء ہے جس کے متعلق قرآن کریم خود روشنی ڈال چکا ہے۔ جس کو قرآن پہلے بیان کرچکا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پر چار گواہ ہوں اور فیصلہ اسلامی عدالت نے یا کسی جرگے نے دیا ہو جو تم لوگوں نے بنایا ہو۔ یعنی تمہارے اندر جو بھی رواج ہیں فیصلوں کے اُن کے مطابق خاوند کے سامنے چار گواہ پیش نہیں ہوں گے بلکہ یہ سوسائٹی کے مقرر کردہ عدلیہ بورڈ کے سامنے پیش ہوں گے اور وہ جب کہہ دیں تو پھر حق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خاوند کی بحث نہیں ایک غیر شادی شدہ عورت بھی ہوسکتی ہے۔اس کے ولی بھی ہوسکتے ہیں، کئی قسم کے امکانات ہیں۔ تو جب گواہی کا معاملہ ہو تو ہمیشہ اس کے ساتھ ہی عدلیہ کا مضمون ابھرتا ہے تو جو بھی عدلیہ نظام تمہاری سوسائٹی میںجاری ہو اس کے سامنے جب چار گواہ پیش ہوکر یہ فیصلہ ہوجائے کہ ہاں یہ عورت فاحشہ ہے تو اس صورت میں مال واپس لینے کا حق ہے اور واپس لینے میں چونکہ حق مہر بھی شامل ہے تو یہ بھی اس سے نتیجہ پھرنکلے گا کہ مہر جو ادا نہیں کیا گیا ایسی صورت میں تم اس سے روک سکتے ہو۔ اگر یہ درست ہے تو پھر ورثے سے بھی محروم کیا جانا اس میں شامل ہے اور عاق کا مضمون کم سے کم یہاں اس حصے پر تو ضرور اطلاق پائے گا کہ اگر فاحشہ ہو تو اس کو خاوند اپنے ورثے کے حق سے محروم کرسکتا ہے اور یہ جو عاق والی بحث ہے یہ ضمناً اٹھتی ہے۔ مگر اس کا بھی بنیادی تعلق ملکیت کے حق سے ہے ۔ اورقرآن کریم نے ورثے کے مضمون کو مالکیت یا ملکیت کے حق کے ساتھ ایسا باندھا ہوا ہے کہ اس کو حقیقت میں الگ نہیں کیا جاسکتا اور اس پہلو سے غور میں کمی ہے ابھی تک۔ اس لیے بہت سے ہمار ے ورثے کے مسائل الجھے ہوئے ہیں ۔ آئندہ جب ان باتوں پر غور ہو جماعت کے کسی بورڈ کی طرف سے تو سب سے بنیادی فیصلہ اس بات پر ہے کہ قرآن کریم کی رو سے ایک شخص اپنی زندگی میں اپنے مال پر کس حد تک تصرف کا حق رکھتا ہے وہ اسے ضائع کرے ، اسے بڑھائے اس کی تو کھلی اجازت ہے۔ دے تو کس کو دے اور کس کو نہ دے اور اس کیلئے قطعی دلائل کیا ہیں اور ملک کس کی ہے۔ اس ضمن میں اگر بعض احادیث کو لیا جائے تو بعض دو سریوں کو نظر انداز کرنا جائز نہیں۔ مثلاً آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ایک بیٹے کی شکایت پر جس نے اپنے باپ کے خلاف شکایت کی تھی کہ میرے معاملات میں، اموال میں غالباً دخل دیتا ہے، کچھ تنگ کرتا ہے ۔ جب اس کو بلایا اور اس کی طرف کی بات سنی تو حضوراکرمﷺ پررقت طاری ہوگئی، اتنا اس نے ایک دردناک منظر پیش کیا، کھینچا جو ایک نظم کی صورت میں بیان کیا۔ اس نے کہا یا رسول اللہﷺ! میری کہانی تو یہ ہے کہ جب یہ چھوٹا بچہ تھا اس کو میں نے اس طرح پالا اس کو بات نہیں آتی تھی میں نے بات سکھائی تو جب باتیں کرنی شروع کیں تو مجھ پر ہی اپنی زبان کے تیر چلائے ۔اس کو چلنا نہیں آتا تھا میں گودی لیے پھرا، پھرمیں نے انگلی انگلی اس کو پکڑ کر چلنا سکھایا ، قدم قدم چلنا سکھایا اور جب چلنا سیکھ لیا تو میرے خلاف چڑھائی کردی۔ یہ باتیں سنتے ہوئے آنحضرت ﷺ آبدیدہ ہوگئے اور بچے کو یہاں سے پکڑاگریبان سے اور باپ کے سپرد کیا کہ جو تو اور جو کچھ تیر اہے وہ اس باپ کا ہے۔ تو ملکیت کے حقوق کس حد تک ہیں اور وہ اولاد کے معاملے میں تویہاں تک بھی پھر ثابت ہوگا کہ جائیداد بھی باپ ہی کا حق ہے۔ مگر دیکھنا اب یہ پڑے گا کہ آنحضورﷺ کے ایسے تمام فیصلوں کو ہر جگہ چسپاں کرو گے یا آنحضرت ﷺ کی اپنی ایک مالکیت کی حالت تھی اس کے پیش نظر بعض فیصلے ہورہے ہیں۔ جب یہاں داخل ہوگئے اس حصے میں تو یہ امر واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک باپ سے بھی زیادہ حقوق تھے اپنی سوسائٹی میں۔ اور وہ حقوق ایسے تھے جیسے کسی حد تک ہم روزمرہ ایسے ماں باپ کی موجودگی میںدیکھتے رہتے ہیں جن ماں باپ سے اولاد کو ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ کوئی تقسیم کا سوال اٹھانا بھی گستاخی سمجھتے ہیں او رجو کچھ ان کا ہے وہ سمجھتے ہیں ماں باپ کا ہے۔ ان کے ہر فیصلے کو قبول کرتے ہیں اور عملاً سب کچھ انہیں کے سپرد رکھتے ہیں۔ پس ایسی جوائنٹ فیملیز ابھی بھی ملتی ہیں جہاں ماں باپ کو کامل طور پر اُس ساری کمائی کامالک سمجھا جاتا ہے جو بچوں نے اپنے اپنے طور پر کمائی اور ان کی زندگی میں کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔ بعض دفعہ ایک سے لیتے ہیں دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ایک بیٹے کومجبور کرتے ہیں کہ فلاں مجبور ہے اس کے اوپر خرچ کرو۔ اب یہ جو معاملات ہیں اس سے قانونی استنباط نہیں کیے جاسکتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس قسم کے کچھ فیصلے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمائے کے نہیں فرمائے۔ اگر فرمائے ہیں تو پھر کئی ایسی احادیث ہیں جن سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ اصل مقصد کیاتھا اور ان کو کسی خاص قانون کے جاری کرنے کیلئے استعمال کرنے کے متعلق انسان پھر تردّد کرے گا، پہلے یہ تسلی کرے گا کہ کیا آنحضورﷺ نے اسے حکم عام کے طور پر فرمایا ہے یا مخصوص خاندانی حالات میں بعض لوگوں کو یہ کہا اور آپ ﷺ کا یہ فرمانا ان کیلئے حکم بن گیا۔ پس ایسے بہت سے پہلو ہیں جن کی خوب چھان بین ہونی ضروری ہے تاکہ جو بھی قوانین مستنبط ہوں، جن کا بنیادی حقوق سے تعلق ہے اس میں آئندہ کسی قسم کا کوئی تضاد یارخنہ دکھائی نہ دے۔ مالکیت اللہ کی ہے اور جس کو وہ خدا رزق دیتا ہے وہ اس کو دیتا ہے اور وہ اس کا مالک ہوتاہے۔ اپنی زندگی میں کہاں تک تصرف کرسکتا ہے کہاں تک نہیں کرسکتا۔ کیاکسی زندگی میں کسی باپ کے تصرف پر اولاد کوحق ہے کہ مقدمہ کرے کہ اس نے فلاں جگہ اپنی دولت کو دائو پر لگادیا ہے اور اس نے نقصان پہنچادیا ہے، اس لیے اس کو حکماً روک دیا جائے۔ ہرگز ایسا کوئی تصور نہیں باندھا جاسکتا تو ان معاملات کی تحقیق ضروری ہے کہ مالکیت کیا ہے پھر اگلا سوال پیدا ہوگاکہ مالکیت کے حقوق کس کس رشتہ دار کے ساتھ کیا کیا تعلق رکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں انسان کیا ایک سے زیادہ کسی کو دے سکتا ہے کہ نہیں۔ دے سکتاہے تو کس حد تک دے سکتا ہے۔ یہ تو مسلم ہے سب کو کہ تعلیم کے لحاظ سے ایک شخص پر ایک بچے پر بہت زیادہ باپ خرچ کردیتا ہے اور اس کے جو باقی ورثاء ہیں ان کے زمانے میں وہ غریب ہوجاتا ہے مثلاً یا نہ بھی ہو تو ان کو وہ تعلیمی اخراجات نہیں دیتا جو کسی بچے کو دے دیے۔ لیکن ورثے کی تقسیم میں کسی بچے کو یہ حق نہیں کہ وہ کہے کہ میرے باپ نے اس پر زندگی میں اتنا ززیادہ خرچ کیا تھا مجھ پر اتنا کم کیا اس لیے جائیداد میں سے اسی حد تک اس کو محروم کرو اور مجھے زیادہ حصہ دو ۔ پھر وہ چھوٹے بچے جنہوں نے کچھ بھی استفادہ نہیں کیا۔ چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے ہیں اوربڑے بچے جنہوں نے باپ کی زندگی کی اکثر کمائی سے بھرپور استفادہ کیا اُن کو اگر برابر کرو گے تو یہ سوال بھی پھر اٹھے گا کہ اگر وہ مالک نہیں تھا عملاً اور اولاد کے حقوق کیلئے مجبور تھا کہ سب میں برابرتقسیم کرے تو کیا اس کے مرنے کے بعد اب ورثے کی تقسیم پر یہ باتیں اثر انداز ہوںگی۔ تو یہ سارے الجھے ہوئے پہلوہیں۔ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے اس پر بہت تحمل کے ساتھ اور سابقہ جو دلوں میں بعض مسائل گڑے ہوئے ہیں ان کو الگ کرکے خالی الذہن ہوکر پھر دوبارہ قرآنی علم سے اپنے دماغ کو بھریں اور مزین کریں پھر ان سب باتوں کو دیکھیں تاکہ ایک ایسا اصول جماعت طے کرے جس میں کہیں کوئی رخنہ دکھائی نہ دے، کہیں کوئی تضاد نظر نہ آئے۔ اور یہ فقہ جو ہے کہ ساری دنیا کیلئے ایک مثالی رہنما فقہ بن جائے ۔ اس پہلو سے میں بار بار ان باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں ۔اب یہ جو واقعہ ہے اس کی طرف واپس آتے ہیں۔ بیوہ پر مرحوم کے وارثوں کا اختیار یہ ایک واقعہ ہے جو اُس زمانے میں رواج تھا جس کو قرآن کریم نے ختم فرمادیا۔ مگر کیا صرف یہی اس آیت کامقصد ہے ؟ کیا اور ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر اس آیت کا مضمون مشتمل ہو۔ یہ دیکھنے سے پہلے یہ بحث بھی اٹھائی جائے گی کہ مخاطب کون ہے۔ کس کو کہا جارہا ہے؟ کیا صرف خاوند مخاطب ہیں؟ کیا صرف اولیاء مخاطب ہیں؟ کیا سوسائٹی مخاطب ہے یا ایک عام آیت ہے جس میں ہر وہ شخص جس کا کسی پہلو سے بھی یہاں تعلق قائم ہو وہ مخاطب ہوتا چلاجائے گا۔ اس ضمن میں مَیں حضرت امام رازیؒ کی تفسیر سے وہ پانچ آراء آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو خطاب کے تعلق میں ہیں۔ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اکٹھا کیا ہے ایک جگہ بہت اچھے خلاصے کی صورت میں۔ کہتے ہیں مختلف علماء نے مختلف بحثیں اٹھائی ہیں۔ بنیادی طور پر پانچ بحثیں ہیں ۔ ایک وہ آدمی مخاطب ہے جسے اپنی بیوی ناپسند ہو اور اسے چھوڑنا چاہتا ہے۔وہ اس سے بدسلوکی کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے جو اپنا مہر دے کرجان چھڑاتی ہے۔ اگر یہ ایک مفسر ین کی اور ثقہ مفسرین کی رائے ہے تو اس آیت کوعرب رواج کے پس منظر سے باندھنا ویسے ہی جائز نہیں رہتا کیونکہ وہاں تو خاوند کی بات ہی نہیں ہورہی، وہاں تو ایک ایسے رواج کی بات ہورہی ہے جس کو ختم کیا جارہا ہے اور وہ عرب سوسائٹی کا رواج تھا۔ تو وہاں سوسائٹی پھر پیش نظر ہوگی، خطاب سوسائٹی سے ہوگا۔ لیکن مفسرین نے جن میں بڑے ثقہ مفسرین ہیں اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے، اتفاق تو نہیں کیا مگر ایک گروہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مراد یہاں وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کو بہانے بنا بنا کر طلاق دینا چاہتا ہے مگر اس رنگ میں کہ اپنے حقوق نہ ادا کرے جو اس پر واجب ہیں۔ بیوی کے جو حقوق پر واجب ہیں وہ ادا کیے بغیر اس سے خلاصی کرے، ایک یہ معنی لیا گیا ہے۔دوسرامعنی ہے متوفی کے ورثا ء مراد ہیں یعنی وہ مخاطب ہیں اور ان معنوں کی رو سے جاہلیت کے رواج کا ذکر کیا ہے حضرت امام رازیؒ نے ۔یہ جو دوسرامعنی ہے۔ یہاں پھر سوسائٹی اور وہ جو وارث بنے ہوئے ہیں ان کو خطاب ہے کہ تم وارث نہیں ہو خدا کے نزدیک۔ تیسرا یہاں عورت کے ولیوں سے خطاب ہے یعنی عورتوں کو اذیت دینے سے منع کیاگیا ہے۔ اب سوال یہ ہے جو تیسرا ہے یہ پہلے بیان نہیں ہوگیا؟ولیوں سے خطاب ، ایک فرق ہے۔ یہاں عورت کے ولیوں سے خطا ب ہے۔ انہیں عورتوں کو اذیت دینے سے منع کیا گیا ہے۔ دراصل ولیوں سے ولی مراد نہیں ہیں یہاں ۔ مراد اس کی غالباً یہ معلوم ہوتی ہے ورنہ تو یہ بات پہلے گذرچکی ہے ۔ ایک نئی شق قائم نہیںہوتی۔ میں سمجھتا ہوں ایک شق جو قائم ہونی چاہیے غالباً یہ وہی شق ہوگی ۔ بعض لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیدیتے ہیں مگر معاملے کو لٹکاتے ہیں تاکہ وہ کہیں اور شادی نہ کرسکیں یا طلاق کا فیصلہ کرلیتے ہیں، ان معنوں میں وہ ولی ہیں ۔ میں یہ سمجھا ہوں اس سے کہ اپنی ولایت کا حق قائم رکھتے ہیں اور بہانے بنابناکر آخری فیصلے پر دستخط کرنے سے احتراز کرتے ہیں تاکہ یہ عورت کسی اور جگہ شادی کے قابل ہی نہ رہے۔ آٹھ دس سال گزر جائیں جو اس میں دلچسپی لیتا ہے وہ آخر دلچسپی چھوڑ دے۔ اس طرح وہ انتقامی کارروائی کرتے ہیں اور یہ جو بات ہے یہ تو آجکل بھی اکثر سامنے آتی رہتی ہے۔ اکثر نہیں تو کبھی کبھی ضرور سامنے آتی رہتی ہے۔ بعض ایسے آدمیوں اخراج ازجماعت کی سزا دینی بھی لازم ہوئی کیونکہ کوئی وجہ ہی نہیں کہ وہ طلاق کے آخری فیصلے پر دستخط کرکے بیوی کو آزاد نہ کریں اور وہ کوئی بہانہ بنا کر کبھی ایک اپیل کردی کبھی دوسری اپیل کردی۔ سالہاسال تک معاملہ لٹکاتے ہیں اور اس بیچاری کی زندگی اجیرن۔ وہ قانوناًجب تک وہ نکاح پوری طرح ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اس خاوند کی ولایت کے وہ اندر رہتی ہیںقانون کے لحاظ سے۔ تویہ معنی ہے ولیوں کے خطاب کا۔ کہ ہیں ولی مگر وہ کسی نہ کسی انتقامی کارروائی کی خاطر اذیت دینا چاہتے ہیں اور جو خدا نے صاف گوئی کا حکم فرمایا ہے اس سے احتراز کرتے ہیں۔ ایک چوتھی بات ہے مخاطب خاوند ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں وہ عورتوں کو طلاق دیتے اور دوسری شادی کرنے سے روک دیتے۔ یہاں بھی دراصل وہی رسم پیش نظر ہے۔ مگر جو فرق ہے وہ یہ بیان کیا جارہا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایسا کیا کرتے تھے مگر یہ زمانہ جاہلیت تولوٹ آیا ہے پھر اور مسلمانوں کے جو عائلی اختلافات ہیں ان میں بکثرت یہ بات پائی جاتی ہے۔ ایک کمینہ انسان، تنگ نظر انسان شادی کو انتقام کا ذریعہ بناتا ہے۔ شادی کے حقوق کو، اور اس کے نتیجے میں عورت کو باندھے رکھتاہے۔ تو حضرت امام رازیؒ کے نزدیک گویا یہ ایک سابقہ رواج تھا جس کو ختم کیا گیا ہے اورآخری بات جو سب سے افضل اور عمومی ہے وہ یہی ہے کہ یہ آیت عمومی ہے یعنی اس کا تعلق ہر ایسے واقعہ سے ہوسکتا ہے جو آئندہ کبھی پیش آئے اور آیت کسی ایک حوالے سے نازل نہیں ہوئی بلکہ ایک عمومی احتمال کو پیش نظر رکھا ہوا ہے کہ جب خاوند بیوی کے ساتھ اختلاف کرتا ہو اس سے تعلق میں کمی آجائے، چھوڑنا چاہے، کسی اورعورت سے اس کا تعلق قائم ہوگیا ہے اوراب وہ اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہے، زیادہ مہر مقرر کر بیٹھا ہے یا جتنا بھی ہے اس سے بھی انحراف چاہتا ہے ۔ کچھ تحفے دے بیٹھا ہے، کچھ جائیدادیں اس کے نام منتقل کرچکا ہے تو ایسی صورت میں وہ کیا کیا حربے استعمال کرے گا ۔ ان سارے امکانات پر یہ آیت حاوی ہے اور اسی طرح دوسرے رواج جیسا کہ میں نے بیان کیا تھاعملاً ایک ایسے خاندان کے متعلق مجھے ایک احمدی خاندان نے جس کا تعلق ہے ان سے لکھا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو وہ بوڑھا کررہے ہیں گھر بٹھا کے تاکہ جائیداد دوسروں کے پاس نہ چلی جائے ۔ تو ورثے والامضمون ہے، دیکھیں آج بھی اسی طرح صادق آرہا ہے کسی سابقہ حوالے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یعنی اس کے مال کے وہ بھائی وارث بن جائیں اس وجہ سے اس کی شادی نہیں ہونے دے رہے ۔ اور دوسری برادری میں گئی تو زمین کی جائیداد ساتھ لے جائے گی۔ تو یہ ایک عمومی آیت ہے اور جہاں تک لتذھبوا ببعض مااتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ اس کا تعلق ہے فاحشہ مبینہ کا یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ عام طور لوگ ، عام طور پر تو نہیں تو نہیں مگر بعض کمینہ فطرت لوگ جب اور کوئی عذر نہ دیکھیںتو یہ الزام لگادیتے ہیں کہ بیوی فاحشہ تھی اور بعد کے بعض مقدموں میں یہاں تک کہتے ہیں کہ پہلی رات ہی ہمیں پتا چل گیا تھا۔اگر پتہ چل گیا تھا تو کیوں تم نے سوال نہیں اٹھایا، وہ وقت تھا کہ تم عدالت کے سامنے حاضر ہوتے ۔ لیکن بچے ہوگئے ، بڑی عمر ہوگئی اس بیچاری بوڑھی ماں پر یہ الزام لگانا کہ پہلی رات سے ہی یہ ایسی تھی، یہ سخت بے حیائی ہے۔
پس فاحشہ کے ارتکاب کا الزام اس ضمن میں آج بھی دیا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اس سے متنبہ فرمایا ہے۔ بعض دفعہ عورتیں یہ کام کرتی ہیں علیحدگی کی درخواست دیتی ہیں اور کہتی ہیں ہمارا خاوند ایسا ہے۔ اُن کومیں روکتا ہوں بعض دفعہ ان کو جماعت سے بھی خارج کرنا پڑا کہ تمہیں قرآن کریم نے فحشاء کی اجازت ہی نہیں دی اور اگر تم نے یہ سمجھا تھاایسا تھا تو لعان تمہارے لیے تھا بس۔ تم اپنے خاوند کے خلاف گواہی دیتی، خاوند تمہارے خلاف گواہ دیتاہے۔ دونوں صورتوں میں تم لعان کرسکتی تھیں یا علیحدگی کی درخواست دے دیتیں۔ لیکن آج جبکہ بڑ ے بچے ہوگئے اور تم بیس پچیس سال گذار چکی ہو یہ الزام تراشیاں کہ خاوند بدمعاش ہے، یہ کرتا ہے وہ کرتا ہے۔ ہرگزا سلام اس کی اجازت نہیں دیتاکوئی ایسی گواہی قبول نہیں ہوگی بلکہ جھوٹی شمار ہوگی۔ اگر قرآن کریم کا حکم کسی قانون میں چلے تو پھر ایسے الزا م لگانے والوں کو 80کوڑوں کی سزا ملنی چاہیے اور اس حصے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے آگے اس بات کو کھولا ہے کہ عاشروھن بالمعروفکیوں بے حیائی کی باتیں کرتے ہو۔ چند پیسوں کی خاطر کیوں اچھے تعلقات جو عمر بھر گذارچکے ہو ان کو داغدار کرتے ہو۔ تم سے یہ توقع نہیں ہے کہ تم عورتوں کو دیے ہوئے مال کو واپس لینے کی کوشش کرو یا جو وعدہ کر بیٹھے ہو اس سے انحراف کیلئے رستہ تلاش کرو ۔ تم سے محمد رسول اللہﷺ کی امت سے یہ توقعات ہیں اور تمہیں یہ حکم دیا جاتا ہیعاشروھن بالمعروف ، ان سے معروف کے ساتھ معاشرت کرو۔ فان کرھتموھن پس اگر تمہیں وہ پسند نہیں رہیں تو پھر عسی ان تکرھوا شیئا ہوسکتا ہے بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرتے ہو ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا اللہ اسی میں بہت سی برکتیں رکھ دیتا ہے۔ اور چونکہ مال کا معاملہ ہے ، مال کی بحث چل رہی ہے ۔ یہاں لفظ خیر کا استعمال ذومعنی ہے ۔ خیرًا کثیرًا سے مراد برکتیں بھی ہیں اور خیرًا کثیرًا سے مراد مالی فوائد بھی ہیں۔ پس اگر تمہیں مال ہی کی حرص ہے تو یادرکھو بسا اوقات جو تمہیں پسند نہیں ہوتیں اگر اللہ کی رضا کی خاطر اُن سے حسن معاشرت کرو گے تو انہیں کے ذریعے تمہیں خداتعالیٰ کثرت سے مال عطا کرسکتا ہے یا انہیںکی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہارے دن پھیر سکتا ہے اور تمہیں کشادگی عطا کرسکتا ہے۔ یہ ہیںمعانی عموماً جو عمومی معانی نہیں اور اسے خاص واقعات سے باندھنا علم کی خاطر تو ہو لیکن اُن واقعات تک محدود نہیں کرتا۔ اس حصے پہ ویری نے جو زبان کھولی ہے وہ یہ ہے۔
Unless they hae been guilty that is of disobedience or shameless conductیہ کہہ کر آگے لکھتا ہے This passage carefully guards the right of ahusband to punish his wife for whatever he may fancy a fault in her.
بالکل برعکس معنی خدا کہتا ہے بہانے نہیں بنانے، ہر گز کوئی عذر نہیں رکھنا تاکہ تم بیوی کو تنگ کرو، عورتوں کے حقوق کی حفاظت، معصوموں کے دفاع کیلئے کتنی عظیم آیت ہے جوان کے پس پشت کھڑی ہے۔ کہ خبردار ایسی حرکت نہیں کرنی اور وہیری صاحب کو اس میں یہ دکھائی دے رہاہے کہ خداتعالیٰ نے اب اس آیت کی رو سے کھلی چھٹی دے دی ہے ہر خاوند کو کہ جو چاہے عذر رکھے، بے حیائی کے الزام لگائے جو چاہے کرے، جس طرح چاہے اپنے ظلم کو جاری رکھے۔ تو اگرآنکھ دشمنی کی ہو تو یہ معنی پڑھ لیتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کے نتیجے میںجو اسلامی معاشرے کا نقشہ کھینچا ہے اب وہ دیکھیں وہ کتنا عظیم نقشہ ہے اور یہی دراصل اس آیت کی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان ازدواجی تعلقات اور عائلی زندگی کاجو نقشہ، جو تصور مسلمانوں میں جاری کرنا چاہتا ہے یہ آیت اس کوپیش فرمارہی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں ’’عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اورمعاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادۂ مستقیم سے بہک گئے ہیں ۔ قرآن شریف میں لکھا ہے عاشروھن بالمعروفکہ ان سے معروف کے مطابق معاشرہ کرو، اب اس کے خلاف عمل ہورہا ہے۔ دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیع الرسن کردیا ہے کہ دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا‘‘۔ فحشاء کا چونکہ مضمون ہے اس لیے یہ بہت ہی لطیف بات ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے اٹھائی ہے اسی آیت کی روشنی میں۔ بعض عورتیں اگر کچھ آوارگی کا رنگ اختیار کرلیتی ہیں ایسے چال چلن چلتی ہیں جو بعضوںکی نظر میں ان کو فحشاء قرار دیتے ہیں تو فرمایا تم مردوں کا قصور ہے تم بعض عورتوں کی رسیاں ڈھیلی کردیتے ہو یا اس انتہا پہ جاتے ہو یا اس انتہا پہ جاتے ہو۔بیویاں جو مرضی کرتی پھریں، جہاں مرضی جائیں ، رات کوجب مرضی واپس آئیں تمہیں پرواہ ہی کوئی نہیں، دیکھتے ہی نہیں۔ سنتے نہیں کہ لوگوں کی آوازیں کیاکہہ رہی ہیں اورجب تم ایسی ڈھیل دیتے ہو تو اس کے نتائج کے بھی تم ذمہ دار ہوگے ۔ تو فرماتے ہیں کہ بعض کا تو یہ حال ہے کہ جو مرضی کرتی پھریں، دین کا ان پر کچھ بھی اثر نہیں ہو اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا۔ یہ ایک گروہ ہے اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیع الرسن تو نہیں کیا مگر اُس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیںکیاجاسکتا۔ پس اسلام تو جادۂ اوسط ہے، وسطی راہ ہے۔ اور وسطی راہ سے دائیں طرف ہٹو یا بائیں طرف ہٹو دونوں صورتوںمیں تم حق سے تجاوزکرنے والے بنو گے۔ فرمایا ایک طر ف بیویوںکو کھلی چھٹی دے دینااور اسلام کی راہوں سے بھٹک کر وہ غیر معاشروں کی طرف دوڑ پڑتی ہیں اور تم دیکھتے ہو اور روکتے نہیں، تم اس کے ذمہ دار ہوگے۔ دوسری طرف ان کو باندھ کر رکھ دینا ۔ مثال خلیع الرسن کی بہت عمدہ ہے اس سے مراد ہے ایک جانور کے گردن میں یا پائوں میں جو رسی باندھی جاتی ہے اگر وہ ڈھیلی کردی جائے تاکہ وہ دور دور تک جاسکے تو یہ خلیع الرسن ہے۔ بعض لوگوں نے کتوں کو توباندھا ہوتا ہے ہم سیر پہ جاتے ہیں تو لیکن ڈھیلی رسی ہوتی ہے اس سے دوسرے محفوظ نہیں رہتے۔ مگر اب ایسی چیزیں ایجاد ہوگئی ہیں کہ وہ بٹن دبا کر رسی کو تنگ بھی کرلیتے ہیں مگر ایسی رسی کوئی مسلمان معاشرے میں نہیں ملتی کہ جب چاہا ڈھیلی چھوڑ دی جب چاہا بٹن دبا کر واپس کرلی۔ جو عورتیں ایک دفعہ آزادی میں چلی جائیں پھر ان کے خاوند غلام ہوجاتے ہیں ۔ اُن کی مجال نہیں کہ اُف تک کریں گھرمیں پھر اپنی اولاد پر بھی ان کا اختیار نہیں رہتا۔ اُن کی اولاد بھی ماں سے رنگ پکڑتی ہے اور باپ آنکھیں کھول کر دیکھ رہا ہوتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ کبھی اس کے برعکس یہ ہوتا ہے کہ باپ آزاد خیال ہے اور اس ضمن میں اس معاملے میں پھر ماں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ باپ تو آزاد خیال ہے اس نے تو اپنی طرف سے کھلی چھٹی دی ہے مگرماں نیک ہوتی ہے وہ نہیں کرتی۔ مگر چونکہ آزادی ڈھلوان کا رستہ ہے ۔اس لیے اس سے پہلے بھی میں نے ایک دفعہ متنبہ کیا تھا کہ جب بھی ماں یا باپ میں سے کوئی ایک ڈھیلی رسّی دیتا ہے تو اولاد اکثر اس کے ساتھ چلتی ہے ۔ کیونکہ ڈھیلی رسّی والا معاملہ زیادہ آسان ہے زندگی پر ، یہ اترائی کا سفر ہے اورجو ماں یاباپ میں سے نسبتاً سنجیدہ مزاج رکھتا ہے اور پختگی رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی اولاد محنت کرے اور اعلیٰ اخلاق حاصل کرے وہ ایک فک رقبۃکا رستہ ہے ۔ اقتحام العقبۃکہتے ہیں اس کویعنی گھاٹی پر اوپرچڑھنا ۔ تو اکثر لوگ توگھاٹی پر چڑھنے کا کھلا ہو اور اترائی ہو تو اترائی کی طرف ہی جائیں گے۔ پس ایسی صورت میں وہ بھی ہیں جو خلیع الرسن ہیں مگر ان کی بیویاں پھر بااخلاق ہوتی ہیں، نہیں پسندکرتیں مگر ان کی کچھ بھی پیش نہیں جاتی۔ دوسرا جو مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسی سختی اور پابندی کی ہے ان پر بعض لوگوں نے کہ اُن میں اور حیوانوںمیں کوئی فرق نہیں کیاجاسکتا۔ کنیزکوں اور بہائم سے بھی بدتر اُن سے سلوک ہوتا ہے ۔ کنیزک سے مراد ہے لونڈیاں اور ادنیٰ کام کرنے والیاں۔ مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہوکر کہ کچھ پتہ نہیںکہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یانہیں۔ غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کوپائوں کی جوتی کے ساتھ تشبیہہ دیتے ہیں۔ ایک جوتی نہیں دوسری بدل لو مگر یہ جو خواب میں جوتی کو عورت سمجھا جاتاہے شاید یہ پنجاب ہی سے تعبیر شروع ہوئی ہے مگر پھر بعض دفعہ بدلتے رہتے ہیں۔ تو ایسی جوتی بھی آتی ہے جو ایسی لگتی ہے کہ دو قدم اٹھانے بھی مشکل ہوجاتے ہیں۔ ایڑی پکڑ لیتی ہے ان کی۔
’’ایک اتاری دوسری پہن لی۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریریں ہیں جن کا پس منظر یہ ہے کہ بعض عورتوں کے متعلق یہ شکایتیں ملیں کہ وہ بہت ہی منہ پھٹ اور خاوند کی گستاخی کرنے والی ہیں۔ ان پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض ارشادات فرمائے اگر اُن کو اس منظر سے ہٹا کر الگ الفضل میںشائع کرنا شروع کردیا جائے تو بعض ایسے ایسے سخت الفاظ ملتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک دائمی بات ہے۔ حالانکہ اُن ارشادات کا ایک پس منظر ہے ۔ دائمی بات وہی ہے جو کسی آیت قرآنی کے حوالے سے ایک جاری مضمون کے طور پربیان ہوئی ہے اوریہ وہ ہے۔ سختی کی اجازت ہے۔ اور عورت کیلئے جائز نہیں کہ وہ خاوند کے سامنے منہ پھٹ بنے اور بدتمیزی کا سلوک کرے ۔ اس کاکھائے اور اس کی اجازت کی کوئی پرواہ نہ کرے۔ اس کی مرضی کے خلاف اس کا مال ضائع کرے۔ یہ خلیع الرسن ہونے والے معاملات ہیں ۔ پس وہاں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خلیع الرسن کی تعریف ہورہی ہے ۔ وہاں ایسے سخت الفاظ ہیں بعض کہ اس کو پڑھ کر لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مسلک ہے کہ عورت کو ہر وقت پابند رکھو، غلام بنائے رکھو۔ ایسے اقتباسات شائع کرنے جائز نہیں جب تک مقابل کے اقتباسات بھی ساتھ ہی نہ شائع کردیے جائیں۔ چنانچہ ایک دو دفعہ میں نے پڑھا تو مجھے بہت اس سے تکلیف ہوئی ۔ میں نے کہا کہ یہ زمانہ کون سا ہے کیسی کیسی باتیں اسلام کے خلاف ہورہی ہیں وہاں تم آنکھیں بند کرکے یہ اقتباسات شائع کردیتے ہو۔ جانتے ہو کہ مسیح موعود علیہ السلام کا مسلک ان اقتباسات میں محدود نہیں ہے ۔اس کے برعکس جب تک مقابل کے اقتباسات نہیں رکھو گے مسلک کی سمجھ نہیں آئے گی۔ پس یہ وہ مضامین ہیں جو اسی تعلق میں مَیں نے بعض چنے ہیں تاکہ آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل مؤقف پیش ہوسکے۔ فرماتے ہیں
’’میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورتوں کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے‘‘
اب نامرد تو کھڑا نہیں ہوا کرتا مقابلے میں۔ تو یہ کیوں فرمایا کہ بزدل اور نامرد ہے۔ مراد ہے عورتیں عورتوں سے جھگڑتی ہیں جھگڑتی رہیں تم مردوں کی شان نہیں ہے یہ۔ ان معنوں میں نامرد ہو کہ۔ مرد ہو تو مردوں سے مقابلے کرو ، عورتوں مجبوروں سے مقابلے کرنا اور اُن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجانا یہ کوئی بہادری نہیں یہ نامردی کی دلیل ہے۔ تم بزدل ہو مردوں سے تو مقابلہ کرتے نہیں اور اپنی مظلوم، کمزور بیویوں پر چڑھائی کردیتے ہو یہ جائز نہیں۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ مردوں میں کبڈی کھیلے عورتوں میں شرمائے ۔I'm sorryالٹا۔ عورتوں میں کبڈی کھیلے مردوں میں شرمائے۔ کہ ایسے مرد بھی ہوتے ہیں کہ گھر میں آکر بڑی بڑی زبردست باتیں کرتے ہیں، مونچھوں کو تائو دیتے اور حکومت کرتے اور مردوں کے سامنے آواز نہیں نکلتی۔ تو ان معنوں میں نامرد ہیں کہ عورتوں کے سامنے تو شیر ہوجاتے ہیں اور باہر مردوں کی سوسائٹی میں جاکر تمہارے رنگ بدل جاتے ہیں، یہ کون سی مردانگی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپﷺ ایسے خلیق تھے باوجودیکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگرکوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے دیتی۔ یعنی صرف یہ بیوی کا معاملہ نہیں ہے عورت سے حسن سلوک کی جو شان آنحضرت ﷺ کی سیرت میں ملتی ہے اس کی کوئی مثال دنیامیں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے فرمایا بڑے بارعب تھے۔ بعض وقت آنحضرتﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ دوڑے بھی ہیں۔ ایک مرتبہ آپﷺ آگے نکل گئے روایات میںملتا ہے کہ دوسری مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آگے نکل گئیں ۔ مگر جس رنگ میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے یہ آپ ہی کا حق تھا کسی اور نے یہ بات یوں نہیں کہی فرماتے ہیںکہ۔ ’’ایک مرتبہ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہوگئے تاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آگے نکل جائیں‘‘ اور یہ واقعہ ہے۔ یہ وہی شخص پاسکتا ہے اس مضمون کو جس کی فطرت اس لطافت کو دیکھ رہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی فطرت میں موجود تھی۔ بعض دفعہ انسان بچوں کے ساتھ جب مقابلہ کرتا ہے تو اس قسم کا معاملہ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بچوں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے پھر اگلی دفعہ وہ جان کر ٹھوکر کھاجائے گا ، کچھ کرے گا تاکہ ان کے دل کی آزاری نہ ہو۔ ان کو بھی حوصلہ ہو ۔ وہ آگے نکلتے ہوئے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس واقعہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں جنہوں نے اس نظر سے دیکھا۔ فرمایا ’’اس طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی آئے جو تماشہ کرتے تھے ۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اُن کا تماشہ دکھایا۔ اب رسول اللہﷺ کی سیرت کے جونرم پہلو ہیں ، حسن معاشرت اس کاذکر کررہے ہیں اور ساتھ ہی موازنہ کے طور پر فرماتے ہیں اور پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جب آئے تو حبشی اُن کو دیکھ کر بھا گ گئے ‘‘۔ اب وہ طبیعت کے معاملات ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت میں ایک سختی اور درشتگی پائی جاتی تھی اور اس قسم کی جو نرمیاں اور عورتوں کے ساتھ یہ حسن سلوک یہ اُن کے ہاں کچھ ضرورت سے زیادہ تھا۔ پس رسول اللہﷺ نے تو کچھ نہیں کہا ان کو اور بڑے بہادر ہوئے ہوئے تھے رسول اللہﷺ کے سامنے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو وہ بھا گے وہاں سے … (عاشروھن بالمعروف) اور آگے فرماتے ہیںدرحقیقت نکاح مرد اور عورت کاباہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے و عاشروھن بالمعروف یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ یہاں عاشروہیںکا جو دو طرفہ مضمون ہے اس کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش نظر رکھ کر یہاں یہ بات پیدا فرمائی کہ یہ ایک معاہدہ ، دو طرفہ معاہدہ ہے اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور حدیث میں ہے کہ خیرکم خیرکم لاھلہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو ،اُن کیلئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو‘‘۔ پس چونکہ وہاں یہی مضمون پیش نظر تھا کہ خدا تعالیٰ تو تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم یہ کیا باتیں کررہے ہو، تمہیں زیب نہیں دیتیں کہ چھوٹی چھوٹی کمینی باتوں کیلئے بڑے بڑے گناہ کرلیتے ہو۔ عورتوں پرناجائز الزام لگاتے ہو اور بہانے ڈھونڈتے ہو کہ کسی طرح وہ چیز جس کے دین دار تم بن چکے ہو وہ اُن کو نہ دو یا جو دے بیٹھے ہو وہ واپس لے لو۔ خداتعالیٰ تم سے یہ توقع نہیں رکھتا۔ یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی آیت کے حوالے سے پیش فرماتے ہیں پھر فرماتے ہیں یہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 15حاشیہ، اربعین صفحہ 3، صفحہ 38 حاشیہ یہ مضامین جو ہیں ان سب میں بیان ہوئے ہیں۔ قرآن شریف میں یہحکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے۔ یہ جو آیت ہے، یہ جو پہلو ہے یہ اگلی آیت سے تعلق رکھتا ہے۔ واتیتم احداھن قنطارًا فلا تأخذواھا تو یہاں غلطی سے وہ اقتباسات اکٹھے کرنے والے نے پہلی آیت کے حق میں یہ دے دیئے۔اس کا آئندہ آنے والی آیت سے تعلق ہے ۔لیکن ایک حوالہ اس کا بھی ہے چونکہ مسیح موعود علیہ السلام نے بسا اوقات دو تین آیتوں کے مضمون کو اکٹھا پیش نظر رکھ کر تفسیر فرمائی ہے۔ تو کبھی ایک آیت کا مضمون آجاتا ہے سامنے کبھی دوسری آیت کا۔ تو اس لیے حوالہ جمع کرنے والے یہ بات درست کی ہے اس لحاظ سے کہ فرماتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بہرحال مردوں کیلئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عاشروھن بالمعروف یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسا حسن معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو‘‘۔
اب معروف کا ایک اورمعنی اس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان فرما جاتے ہیں۔ معروف کہتے ہیں ایسی چیز کو جو سوسائٹی میں رائج اور مسلم ہو تو فرمایا عاشروھنّ بالمعروف ، یہ تفسیر کا ایک نیاپہلو ہے بہت ہی لطیف ، جو پہلے کسی مفسر نے چھوا تک نہیں۔ فرماتے ہیں تمہارا حسن معاشرت ایسا مشہور ہوچکا ہو کہ لوگ اس طرف نظریں اٹھا کر دیکھیں اور سوسائٹی گواہ ہو کہ تم بہترین معاشرت کرنے والے ہو۔ معروف میں یہ معنے پائے جاتے ہیں کہ تمہارا حسن معاشرت عرف عام کے علم میں آچکا ہو۔ عرف عام میں اتنا مسلّم ہوچکا ہو کہ اس کے اوپر لفظ معروف بولا جاسکے ۔ لیکن معاشرے میں ہر قسم کے لوگ ہیں اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے معروف کے ساتھ ایک بہت ہی لطیف اورشرط لگائی ہے، ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے۔ اب یہ بہت ہی لطیف مضمون ہے اور بہت ہی محتاط۔ مرا د یہ ہے کہ ہر کس و ناکس کویہ تو اختیار ہی نہیں ہوتا کہ وہ گھروں کے اندر جھانکتا پھرے نہ اس کی اجازت دی جارہی ہے تو پھریہ معروف کیسے ہوجائے گا۔ فرمایا عقل والے لوگ، جانچ لیتے ہیں ادائوں سے، اُن کو اُن کے رہن سہن ، طرز سے پتا چل جاتا ہے کہ پس پردہ کیا کیا باتیں ہوتی ہوں گی۔ کیسے معاملات ہوتے ہوں گے۔ تو عقلمند کے لفظ نے اس مضمون کو ایک غیرمعمولی حسن عطا کردیا اور احتمالات کا دروازہ بند کردیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اچھا پھر ہم جھانک کے دیکھا کریں کہ کوئی کس طرح کرتا ہے سلوک، فرمایا نہیں اس کیلئے اصحاب عقل چاہئیں۔ اصحاب عقل تو وہ ہیں جو خدا کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے مگر دن رات، اُٹھتے بیٹھتے ہر جگہ اُن کو خدا دکھائی دیتا ہے ۔ تو کیا انہوں نے آنکھوں سے جھانک جھانک کے خد اکو دیکھا ہے ، ہرگز نہیں بلکہ اولی الالباب کی تعریف میں یہ بات داخل ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ کا چنائو قرآن پر مبنی ہے اور بہت گہری نظر سے قرآن پڑھنے والے کو یہ الفاظ ملتے ہیں اس طرح۔ ورنہ عام آدمی کی تحریر میں ناممکن ہے کہ اس قسم کی لطافتیں پائی جائیں اور ایسے باریک الفاظ دکھائی دیں جو قرآن میں پیوستہ ہوں۔ پھر فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ اب یہ دیکھیں کیسا اور ایک لطیف مضمون بن گیا ہے۔ اسی آیت کی تفسیر ہے مگر ساری تفسیریں کھنگال لیں مجال ہے جو کوئی یہاں تک پہنچا ہو۔ آپ فرماتے ہیں صرف فحشاء کا عذر رکھا ہے ، باقی باتیں ہوتی رہیں گی مگر تمہیں کوئی حق نہیں ہے کہ دوسری کج خلقیوںکمزوریوں وغیرہ کو سامنے رکھ کر اُن کا عذر پکڑ بیٹھو اور کہو کہ یہ عورت اس طرح ہے ، اس طرح ہے۔ اس لیے میں اس کو فلاں فلاں حق سے محروم کرتا ہوں۔ صرف ایک چیز ہے فحشاء وہ بھی مبینتہ اُس کے سوا خداتعالیٰ تمہیں حق نہیں دیتا ۔ فرمایا
’’ فحشاء کے سوا باقی تمام کج خُلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایا ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکریہ ہے(’’I'm sorryشکریہ لفظ۔ میں حیران تھا یہ شکریہ خدا کے تعلق میں کیا ہے۔خدا کے تعلق میںشکریہ نہیں کہا جاتا شکر کہا جاتا ہے کیونکہ آگے ’’یہ‘‘ آرہا تھا اس لیے غلط پڑھ گیا تھا میں‘‘) ۔یہ درحقیت ہم پر اتمام نعمت ہے اس اتمام نعمت کا شُکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتائو کریں۔ میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا، ایسی بات کہی تھی کہ اچھا تم تو یہ کرگئی ہو، یہ کردیا تم نے، آوازہ کسا او رمیں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل رنج سے ملی ہوئی ہے۔ آوازہ تو کسا تھا مگر جانتا تھا کہ اس میں کوئی زیادتی نہیں بلکہ دل کے ایک رنج سے ملی ہوئی آواز تھی جو اٹھی اور زبان تک آئی اور باایں ہمہ کوئی دِل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا‘‘
کہتے ہیں یہ سب باتیں میرے علم میں ہیں یہ کہا۔ کوئی سختی ایسی نہیں کی جس کا جوڑ دل کے رنج سے نہ ہو اور مصنوعی او ر سطحی بات کی ہو او راحتیاط کی لفظوں میں کہ کوئی واقعتا سخت دل آزار کلمہ منہ سے نہ نکلے
’’اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے ‘‘
یہ ہے عاشروھن بالمعروفکیسی پاک تعلیم ہے اور یہ تعلیم اور قرآن کریم کے ان مطالب پر نگاہ محمد رسول اللہﷺ کی سیرت کے حوالے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ۔ ایک آنحضرت ﷺ کا عاشق صادق ہے جو آج کے زمانے میں تمام اولوالالبابوں کا سردار ہے۔ وہ تیرہ سو سال پہلے کے آثار دیکھ کر حضرت محمدﷺ کی شخصیت کی حقیقت کو پڑھتا اور پہچانتا اور وہ حقیقت ان آثار سے اٹھتی ہے اور زندہ ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ پھر اپنے لیے ایک راہ تراشتا ہے اور وہ یہ راہ ہے۔ اب اس کے برعکس یہ عذ ر رکھ کرکہ عورتوں نے یہ کیا، وہ کیا اب اُن کو مارو، کوٹو، اُن کے حقوق چھینو یہ ایک احمدی کوزیب کیسے دے سکتا ہے وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا غلام اور عاشق کیسے کہلاسکتا ہے اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قدموں کے پیچھے چلتے ہوئے حضرت محمدﷺ کی راہ اختیار نہ کرے۔ اس لیے اس مضمون کی بہت اہمیت ہے، صدقہ بھی دیا اور اپنے متعلق یہ خیال کہ شاید کوئی مخفی معصیت نہ ہو۔ بہت ہی تقویٰ کی باریک راہیں ہیں جن تک عام انسان کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔
پھر حضرت سیّد خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تحریر فرمایا:-
’’باعث ِ تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلقِ اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہیے کسی قدر آپ شدت رکھتے ہیں‘‘
یہ اپنے ایک مرید کو جو بہت نیک اور اعلیٰ خصال سے مرصّع تھے، ایک کمزوری یہ تھی جس کے متعلق آپ علیہ السلام نے اُن کو متنبہ فرماناتھا ، نصیحت کرنی تھی ساتھ یہ احتیاط کرلی کہ یہ ڈھونڈتے نہ پھریں کہ کس نے شکایت کی ہے اور یہ نہ سمجھیں کہ بعض بد گو لوگوں سے یا بعض کینہ پرور لوگوں سے بعض باتیںحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچی ہیں۔ اس لیے پہلے تو اُن کا دفاع فرمایا ہے اور یہ بھی ایک حسن خلق کا ایک عظیم مظہر طرز بیان ہے یعنی طرز بیان سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا یہ عظیم خلق ظاہر ہوتا ہے
’’بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی‘‘
یعنی سچا دوست ہو اور وہ کوئی بات پہنچائے تو وہ غیبت نہیں ہوا کرتی۔ اگر اخلاص کی وجہ سے کسی ایسے شخص کو بات پہنچائی جارہی ہے جس کی نصیحت اُن کے دوست کی ایک کمزوری کو دور کرسکتی ہے۔ یہ پہلو بھی آپ اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ کون کون سے احتمالات تھے جن کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک خوبصورت محفوظ راہ تراش رہے ہیں۔ آپ سے تعلق ،اخلاص، محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں اس لیے حسن ظن رکھنے والے کے متعلق یہ بھی شبہ نہیں ہوسکتا کہ شاید اس نے جلدی میں نتیجہ نکالا ہو اور غلط نتیجہ نکال گیا ہو۔ حسن ظن رکھنے والا تو حتی المقدور کوشش کرتا ہے کہ کوئی غلط نتیجہ نہ نکلے پھر بھی جب وہ راہ نہ پائے، ایک نتیجہ نکالنے پرمجبور ہو تو پھر اُس سے شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔
’’ سُنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیوی او راہل خانہ سے کرنی چاہیے کسی قدر آپ شدت رکھتے ہیں۔ یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا‘‘
بہت ہی محتاط انداز سے فرمایا جارہا ہے تاکہ کسی پہلو سے بھی ان کی دل شکنی نہ ہو۔
’’غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اوّل تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اورد لی محبت آپ سے رکھتے ہیں اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسَّامِ ازلی نے دے رکھی ہے اور ذراذرا سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیر ت کے تقاضے سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں‘‘
یعنی لوگوں کا عام حال یہ ہے یہ انسانی فطرت میں ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ چونکہ خدا قسَّام ازلی نے ایک گونہ حکومت دے رکھی ہے ، قوَّام کی طرف اشارہ ہے یہاں‘ اس لیے ذر ا ذرا سی باتوں میں تادیب کی نیت سے تاکہ ان کو ذرا سلیقہ سکھائیں، ادب سکھائیں یا غیرت کے تقاضے سے، چھوٹی چھوٹی باتوں میں غیرت بھڑک جاتی ہے۔ کئی لوگ اس لیے بھی سختی کرتی ہے کہ ان کو ہر وقت یہ دماغ میں ہوتا ہے کہ فلاں کے سامنے ہنس پڑی تھی، فلاں جگہ اس نے پردہ میں بے احتیاطی کی، فلاں جگہ اس نے یہ حرکت کی ۔ گویا کہ اس کی مردانی غیر ت ہر جگہ وہ خطرے میں مبتلاء ہوجاتی ہے ۔ تو یہ بہانے رکھ کر لوگ ایسی باتیں کیا کرتے ہیں وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔ اللہ جلَّشانہٗ فرماتا ہے عاشروھنّ بالمعروف (پھر وہی آیت ہے) یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلافِ اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور لفظ معروف کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔ جب لفظ معروف اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمائیں گے تو یاد رکھیں کہ اسی تفسیر کی روشنی میں ہے اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو بلکہ خیرکم خیرکم باھلہٖ ۔ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جواپنے اہل سے، جوبیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کیلئے اچھا یہاں ایک لفظ لِاَھْلِہٖ ہی پہلے لکھا ہوا ہے اور ہم لِاھلہٖ پڑھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اکثر جگہ لاھلہ بھی لکھا ہے۔یہاں بِاَھلہٖ معنی کے بیان کی خاطر عمداً استعمال فرمایاگیا ہے یا کاتب نے غلطی ہے یہ چیک کروائیں۔ ہوسکتا ہے مشہور حدیث ہے لاھلہٖپڑھتے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری عبارتوں میں بھی یہی ملتا ہے ۔ تو کاتب کی غلطی ہوسکتی ہے اس کو بھی درست کروالینا چاہیے۔ تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آئے اھلہٖسے مراد یہاں بیوی لی گئی ہے اور فرماتے ہیں۔ حسن معاشرت کیلئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا کہ کتنی تاکید ہے۔ عزیز من انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کردیا ہے۔ بعض لوگ سن کے کہیں گے پتا نہیں وہ کس زمانے کی بیویاں تھیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ہر بیوی بیچاری مسکین ہی گھر میں آتی ہے تم اس کو بگاڑ دیتے ہو اپنی بداخلاقیوں کی وجہ سے یا زیادتی سے یا ضرورت سے زیادہ نرمی سے ۔ آہستہ آہستہ اس کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں ورنہ ایک دلہن بیچاری تو مسکین بن کے ہی آتی ہے ۔ اس کے ماں باپ تمہارے حوالے کردیتے ہیں تو ان معنوں میں یہ ایک دائمی سچائی ہے۔ ایک مسکین چیز ہے جو تمہیں ملتی ہے جس کو خدا نے ا س کے حوالے کردیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہریک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے، یعنی خدا دیکھ رہا ہے کہ اس عورت کو جو حوالے تمہارے کیا گیا ہے تو دیکھو تم کیا معاملہ کرتے ہو۔
’’ نرمی برتنی چاہیے اورہریک وقت دِل میں یہ خیال کرنا چاہیے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں او ریہ بھی ایک خدا کی بندی ہے، مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے خونخوار انسان نہیں بننا چاہیے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہیے اور اُن کو دین سکھلانا چاہیے‘‘
اور یہ دین سکھلانا چاہیے یہ اس لیے بیچ میں داخل فرمایا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے چونکہ وہ نیک آدمی تھے وہ یہ عذر رکھتے ہوں کہ یہ پوری طرح دیندار نہیں ہے، نہ ٹھیک طرح وضو کرتی ہے نہ اس کو دیگر مسائل کا کوئی علم ہے۔ پرانے زمانے میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف بعض دفعہ پوری توجہ نہیں ہوتی تھی ۔ تو عام دیہات میں تو خاص طور پر ایسی عورتیں آجاتی تھیں جن کو پوری طرح دین کا علم نہیں ہوتا تھا ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس احتمال کے پیش نظر کہ ان کو یہ عذر نہ ہاتھ آئے اور دوبارہ ایک چٹھی نہ لکھ دیں کہ آپ کو یہ شکایتیں پہنچیں ہیں، یہ نہیں کسی نے بتایا کہ دین کے معاملے میں کمزور ہے۔ فرماتے ہیں:-
’’ آپ کافرض ہے اُن کو دین سکھلانا چاہیے۔ درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقع اس کی بیوی ہے ۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے۔ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالے کیا ہے شاید معصیت ہوگئی کہ مجھ سے ایسا ہوا تب میں اُن کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لیے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلافِ مرضی ٔ حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرمادے‘‘
یہ ہے حسن معاشرت۔ اس کا نمونہ ہے جس کو اس زمانے میں خدا نے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں امام بنایا ہے
’’اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلاء نہ ہوجائیں۔ سو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسے ہی کریں گے۔ ہمارے سیّد و مولیٰ رسول اللہﷺ کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام‘‘
یہ الحکم جلد 13، 17؍اپریل 1905ء میں شائع ہوئی ہے یہ تحریر۔ باقی سب باتیں اس کی ذیل میں آجاتی ہیں۔ اس کے بعد اس مضمون پر سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔ اب اور کیا کہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بات ختم کی وہیں بات ختم ہوگئی اب اگلی آیت میںجانے سے پہلے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کا ذکر ہے ۔ اُس میں جیسا کہ ایک جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پہلے بھی فرماچکے ہیں صرف بیویوں کی بحث نہیں ہے اور عورتوں سے بھی بالعموم۔ تو اب ضمناً لطیفے کے طو رپر ایک بات آپ کے سامنے رکھ دوں ۔ جب میں نے گذشتہ درس میں اپنی ہمشیرہ عزیزہ امۃ الباسط کا نام لے کر بتایا کہ انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ یہ جو ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر والی جو بات ہے اس کا اطلاق کلالہ پر خصوصیت سے ہوتا ہے۔ یہ اسی صورت کی آخری آیت سے کھل کر بات سامنے آجاتی ہے کیونکہ وہاں اسی تعلق میں اللہ تعالیٰ نے دو سے زائد کا محاورہ استعمال کرنے کی بجائے دو کو 2/3 کا حصہ دار قرار دے دیا۔ تو جب بات خود قرآن نے کھول دی تو کسی اور استنباط کی ضرورت نہیں ۔ اُسی دن میں نے ایک اور ذکر بھی کیا کہ کسی کی بچی نے یہاں سے فون پر پوچھااُس سے کہ کیوں تم اداس تو نہیں ہوگئیں میرے بغیر ۔ اُس نے کہا اداسی کی کیا بات ہے آج کل تو درس ہی ہیں اور بڑا مزہ آتا ہے اور مجھے توتمہاری یاد کی ہوش ہی نہیں رہی۔ اُن کا نام نہیں لیا تھا جبکہ اپنی بہن کا نام لے لیا تھا۔ تو یہاںجاکر مجھے خیال آیا میں نے کہا اوہو اب تو شکوہ آیا ہی آیا اور وہ چونکہ میرے ماموں کی بیٹی ہیں اس لیے میں نے کہا وہ سوچتی ہوں گی کہ ماں جائی کا تو ذکر کردیا ماموں جائی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اور وہ بھی تو ماں کا بھائی تھا اس کی بیٹی کا ذکر نام لے کر کردیتے تو کیاحرج تھا اور میں یہ سوچ کر محظوظ بھی ہورہا تھا اور افسوس بھی کررہا تھا اگر کردیتا تو بہتر تھا۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ یہ آنا ہی آنا ہے شکوہ اور وہ آگیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کے خاوند بھی ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ عزیزم مرزا حنیف احمد صاحب کی بیوی طاہرہ کا واقعہ تھا جو میرے ماموں کی بیٹی اور سب سے بڑے ماموں سعیداللہ شاہ صاحب کی بیٹی اور میاں حنیف احمد میرے چھوٹے بھائی ہیں، اُن کی بیگم ہیں۔ اب ان کا شکوہ کا انداز بھی دیکھیں کیسا عجیب ہے انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا اس بات کا کہتے ہیں اللہ اپنی حفاظت میں رکھے، بیش از بیش خدمات کی توفیق بخشے ہم سب کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں ؎
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
طاہرہ بیگم حنیف احمد ۔ تو میں نے یہ مثال آپ کو بتادیا ہے کہ شکوہ کا جواب یہ ہے کہ پڑھ کر سنادیا ہے ۔ دوسرامیں نے بتایا کہ محاورے اردو کے کیسے ہوتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے پھولوں کی چھڑی ماردینا ۔ تو انہوں نے اپنا انتقام پھولوں کی چھڑی کی مار دے کر اتار اہے۔ یعنی
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اور ایک جو میں نے ذکر کردیا تھا اس کی اب ضرورت نہیں کہ ایک مجھے (پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے نام ہی دراصل) ایک بزرگ عالم کا شکوہ آیا تھا کہ آپ نے ایک کچی روایت سامنے رکھ دی اور اس پر تنقید بھی ہوگئی جو اصل بنیادی بات تھی وہ رکھنی چاہیے تھی ۔ تو اُن کو میں بتاچکا ہوں کہ کچی بات عمداً میں نے پہلے چنی تھی تاکہ اس کے بعد ثقہ بات آپ کو بتا کر تفریق بتائوں کہ ہر روایت بے اعتبار نہیں ہوا کرتی۔ بعض روایتیں خود بولتی ہیں کہ ہم بے اعتبار ہیں اوربعض ثقہ روایتیں ہیں جن کے اوپر کوئی حرف نہیں رکھا جاسکتا عقلاً اور ان کا مضمون بڑا اندر سے منضبط ہوتا ہے اور قابل قبول ہوا کرتا ہے۔ اب اگلی آیات النسا ء ۲۱۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔وان اردتم استبدال زوجٍ مکان زوجٍ و اتیتم احدٰھن قنطارًا فلا تاخذوا منہ شیئًاط اتاخذونہ بھتانًا وَّ اثمًا مبینًاO(النسائ:۲۱)
اور اگر تم ایک عورت کے بدلے دوسری عورت لانے کا فیصلہ کر ہی چکے ہو یعنی ایک بیوی کے بدلے ایک اوربیوی لانے کا فیصلہ کر ہی چکے ہو واتیتم احدٰھن قنطارًا اور تم اسے ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو۔ فلاتاخذوا منہ شیئًا اس میں سے ایک ذرہ بھی تم نے واپس نہیں لینا۔ أتاخذو نہ بھتانا و اثما مبینا کیا تم اسے لو گے بہتان کے ذریعے اور بہت بڑا گناہ کماتے ہوئے۔ یعنی بظاہر مال لے رہے ہو لیکن اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ کمارہے ہو گے۔ کیا اس طریق پر بھی تم وہ مال لینا پسند کرو گے۔ یہاں ایک پہلو تو یہ ہے کہ استبدال زوجٍ مکان زوجٍ سے پتا چلتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کا جو مضمون ہے اس کے باوجود عام طور پر انسانی فطرت ایک ہی پسند کرتی ہے اور روزمرہ کا قانون ایک سے زیادہ شادی نہیں ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم پھر دوسری کیوں نہیں کرلیتے اس کو بھی رکھو۔ فرمایا کہ عام طور پر لوگ گھروں میں یہ پسند نہیں کرتے کہ دو بیویاں ہوں یا بیویاں بعض دفعہ پسند نہیں کرتیں کہ دوسری آئے، دوسری شادی سے پہلے شرطیں کرلیتی ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی یہ فرمایاکہ بعض دفعہ عورتیں شرطیں کرسکتی ہیں تو کسی نے مجھ سے یہ پوچھا کہ قرآن کریم سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ شرط کرسکتی ہے۔ نکاح تو ایک معاہدہ ہے اور معاہدہ کیلئے شرطوں کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آنکھیں کھول کر ایک معاہدہ کیا جاتا ہے اور معاہدہ بتاتا ہے کہ تمہیں حق ہے مانو یا نہ مانو۔ اگر معاہدے کی رو سے تم کچھ شرطیں عائد کرلیتے ہو تو اس کی یہ شکل بنے گی کہ اگر تم معاہدہ توڑتے ہو تو معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے تو ہوسکتے ہو۔ مگر شریعت کے دوسرے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے نہیں بنو گے۔ یعنی شریعت نے جب چار تک کی اجازت دی ہے اور تم بیوی سے معاہدے کے ذریعے پابند ہو کہ تم دو بھی نہیں کرو گے ایک ہی رکھو گے تو پھر جب معاہدہ توڑو گے تو معاہدہ توڑنے کے سزاوارہوگے ۔ اس جر م میں پکڑے جائو گے نا کہ چار شادیوں کے اجازت والے حکم کی نفی کرنے والے یا اس سے تجاوز کرنے والے اگر پانچویں کرو گے تو پھر وہ نہ معاہدہ نہ شریعت، وہ سراسر ایک ناحق فعل ہے ۔تو اس لیے معاہدہ کیلئے جائز حقوق چھوڑنا جائز ہے۔ اور جائز حقوق چھوڑنے کے طو رپر معاہدات ہوتے ہیں اسی لیے معاہدے کیے جاتے ہیں ورنہ قانون کو کیوں نہ نافذ کیا جائے۔ تو فرمایا استبدالِ زوجکا فیصلہ کرلو۔ اب سوال ہے قنطار کیا چیز ہے اورلغت کی بحث میں قنطار کے کیا معنی دیے گئے ہیں۔ اس میں بہت ہی اختلافات ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ پیسوں سے بھری ہوئی تھیلی جس میں دس ہزار کی رقم ہو وہ بِدْرَۃٌ مُّبْدَّرَۃ کہلاتی ہے اور یہ اتنی بڑی رقم ہوتو پھر اسے ہم کہیں گے قنطار اور بعض نے اوقیہ گنے ہیں کہ اتنے اوقیہ ہوں تو پھر قنطار کہلائیں گے اور ایک پائونڈ کے بارہویں حصہ کے برابر وزن کو اوقیہ کہتے ہیں۔ یعنی کتنے اوقیہ سونا ہو یا چاندی ہو تو پھر یہ قنطار ہوگا ، اب یہ بالکل بے تعلق بحثیں ہیں۔ قنطار ایک محاورہ ہے ڈھیروں ڈھیر، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا پہاڑ برابر بھی دے دیا ہو تو ڈھیریاں لگ جائیں مال کی ۔ اس کو محاورۃً یہ بھی کہتے ہیں کہ تم نے پہاڑ برابر دولت بھی دے دی ہو تو تمہیں یہ حق نہیں کہ اس دولت کوواپس لے لو ۔
اب جو قنطارکے مختلف تراجم کیے گئے ہیں وہ میں اکٹھے آپ کو سنادیتا ہوں۔ چالیس اوقیہ کے ہم وزن سونا، بارہ سو دینار، بارہ سو اوقیہ، ستر ہزار دینار، اسّی ہزار دینار، سونے چاندی کے سو پائونڈ، ہزار دینار، بیل کی کھال میںجتنا سونا یا چاندی بھرا جاسکے اتنا مال، جس کی تہیں بن گئیں ہوں اب بیل کی کھال میں اب یہ بحث بھی اٹھے گی کہ کتنا بڑ ابیل ہو۔ وہ سپین والا بیل ہو جس سے لڑائی کی جاتی ہے یا وہ افریقہ کے جنگلوں کا بیل ہو یا وہ بیل جسے قصاب ذبح کرتے ہیں ہمارے ملک میں، جب کہ اس کے اندر کچھ بھی نہیں رہا ہوتا ۔ تو یہ عجیب و غریب بحثیں ہیں، بے تعلق باتیں ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ عرب محاورے میں قنطار اس کو کہتے تھے جب بہت مال ہو ، کثرت سے دیا گیا ہو۔ اب اس تعلق میں جب یہ بحث ہوئی کہ قنطار کیا چیز ہے توبعض اور لطائف بھی اس سے نکلتے ہیں۔ مثلاً یہ کہاجاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ اس سے استنباط فرمایا… وہ پھر بعد میں آئے گا۔ پھر اس کی بات کریں گے پہلے میں باقی دوسری باتیں بیان کروں۔ وہ اس وقت وہ حوالہ مل نہیں رہا اس آیت یا اس سے اگلی آیت سے وہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک استنباط کیا تھا جس کو ایک خاتون نے چیلنج کیا ، چیلنج ان معنوں میں کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک روایت میں تو آتا ہے کہ آپ نے خطبے میں بیان فرمایا اس میں یہ جواب دیا۔ لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے، راوی نے صحیح بات نہیں کی۔ دوسری روایت محتاط ہے اس میں یہ ہے کہ اس نے سنا کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ استنباط فرما یا ہے تو رستہ چلتے جب آمنا سامنا ہوا تو اس نے کہا اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ نے یہ کیا، حالانکہ قرآن تو یہ کہتا ہے اور اس پر پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک تبصرہ ہے۔ پھر فقہاء اس بحث کو لے اڑے ہیں آگے، یہ بعدکی باتیں ہیں پھر کریں گے۔ اب میں اس آیت کے حوالے سے مزید جو بحثیں ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ایک تو قنطار کی بحث ہے جس بحث نے بھی نکات کے ڈھیر بنا دیے ہیں ۔ اب بہتان کی بات ہے۔ بہتانًا عظیمًا فرمایا یعنی اہل لغت کہتے ہیں کہ بہتان ایسا الزام ہے جس کے جھوٹ سے انسان حیران و ششدر رہ جائے۔ بہتان کا لفظ دراصل آپ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی پڑھا ہوگا فَبُھِتَ الَّذِی کَفَرْ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسی دلیل دی فَبُھِتَ الَّذِی کَفَرْکہ وہ حیران و ششد رہ گیا، ہکا بکا رہ گیا۔ تو بہتان بھی ایسا اگلا معصوم آدمی حیران پریشان رہ جائے کہ یہ کیا بات ہے کہ کب کی بات کررہے ہو۔ اس طرح تو کبھی ہوا ہی نہیں اور فطری ردّعمل اس کا ظاہر کررہا ہو کہ سراسر جھوٹ ہے اور اس میں کچھ بھی نہیں ۔ ایسی چیز کو بہتان کہا جاتا ہے۔ علامہ زمخشریؒ لکھتے ہیں تفسیر کشاف میں کہ کہاجاتا ہے کہ یہ رواج تھا، یہ طریقہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی نئی عورت کو بیاہ کرلانے کا ارادہ کرتا تو اپنی بیوی پر فاحشہ ہونے کاالزام لگادیا کرتا تھا، حتی کہ مجبور کردیتا کہ اسے اس مال میں سے دے جو اسے دے چکا ہو تاتاکہ نئی عورت سے شادی کیلئے اسے استعمال کرے۔ یہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں یہ تو ایک عام جاری صورت ہے ۔ آجکل بھی یہ ظلم کیا جاتا ہے یہ باقی وہی باتیں ہیں جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ کوئی نئی بات کہیں نظر آئے گی تو آپ کو بتائوں گا۔ کوئی اور ایسا مسئلہ نہیں صرف وہ غالباً وہ رہ گیا ہے حصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی بات۔ہاں مہر کی بحث جو ہے اس میں آتا ہے کہ چونکہ اس مال میں اٰتیتمسے مراد صرف وہ مال نہیں جو تم نے تحفۃًزائد دیا ہے بلکہ حق مہر جو مقرر کیا گیا تھا وہ گویا کہ تم اس کے دین داربن گئے ہو وہ پیش نظر ہے۔ جب یہ بحث اٹھی تو اس کے ساتھ ہی دوسری بحث یہ اٹھ کھڑی ہوئی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق مہر کی کوئی حد مقر ر نہیں ہے اور جتنا مرضی مقرر کردو اور اس بحث کے تعلق میں پھر وہ روایت آتی ہے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی تھی۔ وہ روایت یہ ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ پس اس کی تائید میں یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ممبر پر چڑھ کر خطاب فرمایا کہ خبردار عورتوں کے مہر کے بارے میں غلو سے کام نہ لو۔ اس پر ایک خاتون نے کھڑے ہوکر کہا کہ اے ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدا ہمیں دیتا ہے اور آپ روک بنتے ہیں؟ اس نے اپنی تائیدمیں یہ آیت پڑھی قنطار والی اس پر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ ہر شخص عمر سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔گویا کہ یہ مطلب لیتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے اس دعوے کو نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ یہ بھی اعلان کردیا کہ یہ تو ایسی امت ہے جس میںہر شخص مجھ سے زیادہ عقل والا ہے۔ صرف خلیفہ وقت ہی ہے جس کو کوئی عقل نہیں ہے۔ یہ غلط مفہوم نکالا جارہا ہے یہ طرز بیان ناراضگی کا اظہار ہے۔ آپ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ غلو کا معنی سمجھتے تھے اور اس آیت سے یہ مراد نہیں لیتے تھے کہ غلو کیا گیا ہو بغیر غلو کے اگر زیادہ دیا گیا ہو اس کیلئے آیت اجازت دیتی ہے نا کہ مبالغہ آمیزی جس کی توفیق ہی نہ ہو بلکہ اپنی توفیق سے حد سے بڑھ کر دے دینا تو اس لیے اس عورت کے اعتراض کو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول نہیں فرمایا بلکہ ناپسندیدگی کے اظہار کا یہ طریق تھا کہ اچھا پھر یہاں تو ہر شخص مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اب میں اورکیا بات کروں اور مفسرین نے اس بات کو قبولیت کے معنوں میں لے کر یہ بحث اٹھادی ہے کہ کس حد تک حق مہر پھر ضروری ہوا۔ گویا حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیصلہ کیا۔ یہ لکھا ہوا ہے اور اس فیصلے کو واپس لے لیا ۔ حالانکہ ہرگز ایسی بات نہیں ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلوکی بات فرمائی تھی اور اس آیت میں غلو کی بات نہیں ہورہی ۔ اس آیت میں ہے اپنی توفیق کے مطابق ڈھیروں ڈھیر دے دیا ہو اگر دے دیا ہو تو اس میں غلو کہا ں سے آگیا۔ اس کو یہاں سے ہٹا کر جب صرف حق مہر سے باندھتے ہیں اپنی طرف سے اندازہ لگالیتے ہیں کہ وہاں غلو مراد ہوگی۔ حالانکہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نہیں سمجھا اس سے۔ جتنا بھی انسان کو توفیق ہے وہ حق مہر مقر ر کرسکتا ہے مگر دکھاوا، ایک دوسرے سے بڑھ کر مقابلہ کرتے ہوئے بیویوں کے حق مہر باندھنا اور ایسے حق مہر باندھنا جو حد اعتدال سے تجاوز کرجائیں اُن کی یہ آیت تائید نہیں کرتی۔ کہاں کرتی ہے یہ تائید؟ پس حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برمحل بات فرمائی ہے اس عورت نے غلط سمجھا اور ایک ایسا استنباط کیا جس کو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ دراصل قبول نہیں فرمارہے کہتے ہیں تم تو زیادہ سمجھدار بنتے پھر تے ہو۔ اصل بات کودیکھو قرآن کریم نے غلو کی اجازت نہیں دی، ہاں حسب توفیق زیادہ مہر دینے کی اجازت فرمائی ہے۔ باقی وقت بھی ختم ہوگیا ہے اور اس آیت پر گفتگو پھر ہوگی ٹھیک ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ28؍رمضان بمطابق18؍فروری 1996ء
پچھلے ایک درس کے دوران میں نے یہ اس بات کا اظہار کیا تھا کہ شیعہ مفسر احمد علی نے آنحضرت ﷺ کی ازواج کے متعلق خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق بعض ایسی باتیں کی ہیں جو ناقابل برداشت ہیں بے عزتی کے لحاظ سے مگر اور جو بھی تفسیریں اس نے کی ہیں اس آیت کے حوالے سے اس کا جواب پوری تحقیق کے بعد حوالوں کو چیک کرکے پھر دیا جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیچھے مجھے یاد ہے کہ ایک درس کے دوران جب اِن صاحب کے حوالے تلاش کیے گئے تو پتہ چلا کہ بعض بالکل جھوٹی باتیں کہی ہیں۔ حوالوں کا نام و نشان تک نہیں تھا اور اپنی طرف سے باتیں داخل کرکے کتابوں کے حوالے دے دئیے، جب تلاش کیا تو انہی کتابوں سے اس کے برعکس حوالے نکلے ۔ اس لیے احتیاط لازم تھی۔ اب وہ کسی حد تک جہاں تک ممکن ہوسکا اس عرصے میں ہمارے ربوہ میں علماء نے ماشاء اللہ بڑی محنت کرکے اس کوپوری تحقیق کے بعد نکالے ہیں حوالے۔ اور اصل اور اس کے بیان کے موازنے کرکے وہ سارا مضمون بھیج دیا ہے اب چونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے آج بھی تقریباً گھنٹہ مشکل سے ہوگا اور کل کا ایک درس ہے، تو اس آیت کو آج پھر شروع کرتے ہیں جس کی تفسیر اس پہلو سے نامکمل رہ گئی تھی۔ کون سی یہی ہے؟ ۱۲، اور ۳۱ دونوں پر۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثین فان کن نساء فوق النثتین فلھن ثلثا مما ترک و ان کانت واحدۃ فلھا النصف ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد فان لم یکن لہ ولد و ورثہ ابوہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین اباء کم و ابناء کم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضۃ من اللہ ان اللہ کان علیما حکیماO(النسائ:۱۲)
ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا اودین و ان کان رجل یورث کللۃ اوامراۃ ولہ اخ او اخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین غیر مضار وصیۃ من اللہ واللہ علیم حلیمO(سورۃ النسائ:۱۳)
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے حق میں وصیت فرماتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو حصے ہوں گے اور لڑکی کیلئے ایک حصہ۔ پس اگر وہ لڑکیاں دو سے تعداد میں بڑھ جائیں یعنی دو سمیت دو ہوں یا دو سے تعداد میں بڑھ جائیں فلھن ثلثا ما ترک توا ن کیلئے دو تہائی ہوگا جو چھوڑا ہے ۔وان کانت واحدۃ فلھا النصفاور اگر ایک ہی ہو تو اس کیلئے نصف ہوگا ۔ ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد اور ماں باپ دونوں کیلئے ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہوگا جو کچھ اس نے چھوڑا اگر اس کے اولاد ہو یعنی اگر کلالہ نہ ہو تو اس صورت میں یہ ورثہ ماں باپ کی طرف جائے گا اور اس کے سوا کسی اور کا معین نام نہیں لیا گیا۔ جہاں تک دو یا دو سے زائد لڑکیوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں تو حساب بالکل برابر بیٹھتا ہے کہ ایک 1/3,1/3مل جائے تو 2/3کا حق پورا ہوگیا تو اس کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے اس میں۔ اگر ماں باپ زندہ ہوںتو پھر ماں باپ کو 1/3جائے گا اور اس طرح جائے گا۔ اگر ماں باپ زندہ نہ ہوں تو اس کا متبادل یہاں کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا۔ کلالہ کی صورت میں توبتایا گیا ہے اس سورت میں ظاہر نہیں کیا گیا اگر اولاد ہو تو پھر ماں باپ ہی کو جاتا ہے۔ پہلو ںکی طرف کوئی راستہ یہاں نہیںنکالا گیا۔ کلالہ کی صورت میں پہلوں کی طرف رستہ نکالا گیا ہے ۔ یہ بات ہے جومیں جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابوہ فلامہ الثلثاگر اس کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث بنیں تو پھر ماں کیلئے تیسرا حصہ ہے یعنی سارے کا سارا پھر ماں باپ کو چلا جائے گا اگر وہ زندہ ہوں گے۔ تو یہاں بھی پہلوں کی طرف کوئی راستہ وراثت کا نہیں کھولا گیا۔ فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس من بعد وصیۃ یوصی بہا اودیناگر اس کے بھائی بہن ہو ں تو ماں کیلئے چھٹا ہوگا۔ من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین اس وصیت کے بعد جو کی گئی یا کی ہے اور یا قرضے کی ادائیگی کے بعد اب یہاں کلالہ کی بحث شروع ہوچکی ہے، کلالہ کی بحث جیسے کہ میں نے کہا تھا بغلی رستہ کھولا گیا ہے۔ اگر بہن بھائی ہوں تو پھر باپ کا اور ماں کا 1اور 2کی نسبت سے حصہ نہیں رہے گا بلکہ ماں کو امہ السدس چھٹا مل جائے گا اور باپ کو کتنا رہے گا؟ اس کا بھی یہ سوال خالی رہ گیا ہے۔ اب یہ میں دوبارہ اس کی تفصیل میںنہیں جانا چاہتا۔ مجھے احمد علی کو پکڑنے کی جلدی ہے۔ فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس اگر اس کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین ابا ء کم و ابناء کم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا۔ یہاں آباء اور اولاد کو ایک دوسرے کیلئے نفع مندبتایا گیا ہے۔ بھائی بہنوں کو نہیں بتایا گیا وہی بنیادی اصول مسلسل اس میں چل رہا ہے کہ وراثت کا قانون اوپر اور نیچے کے رشتوں کے درمیان بنیادی ہے۔ جب اس میں رخنہ پیدا ہو اور کچھ کمزوری پیدا ہوجائے کسی کے نہ ہونے سے پھر کن صورتوں میں وہ دائیں اور بائیں گھومے گا۔ اس کی وضاحت بھی یہاں موجود ہے اور وہ وضاحت کلالہ کی شرط کے ساتھ ہے اس کے علاوہ نہیں ۔ کسی قرآن کریم کی آیت میں وہ کلالہ کی شرط کے علاوہ نہیں ہے۔ اب اگلی آیت ہے ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد اور اگر وہ مائیں مر جائیں یعنی وارث کی بیوی مرجائے، ماں نہیں کہنا چاہیے وارث کی بیوی مرجائے تو اس صورت میں مرد کیلئے خاوند کیلئے نصف ہے جو وہ چھوڑے گی۔ فان کان لھن ولد و ان لم یکن لھن ولد یہاں بھی وہ کلالہ ہونے کی حالت میں مررہی ہے ۔ ایسی عورت جس کے اولاد نہیںہے وہ مرتی ہے تو اس کا نصف خاوند کو جائے گا۔ فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین اگر اس کی اولاد ہو مرنے والی کی تو پھر خاوند کو چوتھا حصہ ملے گا۔ ولھن الربع مما ترکتم او ر جو تم چھوڑو گے اس کا چوتھا ان کو ملے گا ۔ ان لم یکن لکم ولد اگر تمہارے اولاد نہ ہو یعنی اگر تم کلالہ ہو تو پھر ان کو چوتھا ملے گا۔ فان کان لکم ولد پس اگر تمہارے لیے تمہاری اولاد ہو فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ۔ ہاں اگر تمہارے اولاد ہو تو پھر آٹھواں ملے گا۔ یہ وہی بحثیں ہیں جو کلالہ سے تعلق رکھتی ہیں۔جب کلالہ آجائے بیچ میں تو اوپر اور نیچے کے حصے متاثر ہوتے ہیں۔ نچلا آپ ہی آپ کیونکہ کلالہ کا مطلب اولاد کوئی نہیں اوپر والا متاثر ہوتا ہے تو اس کا حصہ کچھ کم کیا گیا ہے بعض صورتوں میں۔ او روہ صورتیں یہ ہیں کہ ماں باپ ہوں، بھائی بہن بھی ہوںتو پھر ماں باپ کی وساطت سے بھائی بہنوںکو پہنچنے کی بجائے ، ماں باپ کو اس وقت کم دیاجائے گا اور براہ راست مرنے والے بھائی کی طرف سے اس کے بہنوںاور بھائیوں کو تحفہ ملے گا۔ یہ مضمون ہے جو میں کھول چکا ہوں ، ترجمہ واضح سادہ وہی ہے جو میرے بیان کی تائید کررہا ہے۔ آگے پھر کلالہ کی بحث ہے۔ ان کان رجل یورث کلالۃ اگر کوئی شخص کلالہ ہونے کی حالت میں وارث بنایا جارہا ہواو امراۃ یعنی اس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہو یا عورت ہو اور اس کے ان دونوں میں سے دونوں کے بہن بھائی ہوں تو اس صورت میںہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہوگا یعنی مرنے والی کی ماں کیلئے یا باپ کیلئے۔ فان کانوا اکثر من ذالک فلکل واحد منھما السدس تو ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا ہے۔ اگر ایک ہوتو پھر کیا ہوگا؟ پھر بھی چھٹا ہوگا۔ پھر ایک حصہ باقی رہ جائے گا۔ وہ اس کا ردّ ان کی طرف ہوگا یا اصل وارث کی طرف ہوگا؟ یہ بحث پھر کھل جاتی ہے فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث اگر وہ اس سے زیادہ ہوں توپھر تیسرے حصے میں وہ برابر کے شریک ہوں گے۔ من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین وصیت کے بعد جو اداکی جائے گی۔ اب وہ ثلث جو کلالہ کی صورت میں بچتا ہے وہ تو بہن بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگیا۔ کلالہ نہ ہو تو پھر ثلث تقسیم ہوگا۔ اس کا کوئی ذکر نہیں یہ قابل غور بات ہے۔ فقہ تدوین کرنے والوں کیلئے کہ قرآن کریم کی جو نص صریح ہے وہ ان شرائط کے ساتھ سارا مضمون پیش کررہی ہے۔ وصیۃ من اللہ ہے۔ یہ جو آیات تھیں دو اب ان پر احمدعلی صاحب کی کمنٹری سنیے۔
سورۃنساء Comment by Agha Puya , Verse: 12,13احمد علی کی کتاب سے لیا گیا ہے مگر احمد علی اس پر comment by Agha Puyaکے عنوان کے ساتھ بات شروع کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے۔
To be taken 33:7 & verse 8:75 as a principal standard for prefering the blood relationship inheritants to all other relations recognised by Islam and the blood relationship the closer prevents the remotre.
اس نے دوسری آیات کا بعض حوالہ دے کر یہ کہا ہے کہ یعنی یہ جو ورثے کی تقسیم ہے یہ جو بھی ہے دراصل جو بنیادی روح ہے ورثے کی وہ ان آیات میں درج کی گئی ہے اور وہ آیات آگے تفصیل سے آئیں گی تو پھر میں بتائوں گا وہ کہتا ہے اس میں یہ ہے کہ blood relationshipکو preferenceدینی ہے بہر حال۔ blood relationshiopکون ہے۔ کہتا ہے ان آیات سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ کون مراد ہے ۔
Recognized by Islam - And in the blood relationship the closer prevents the remoter.
جو قریب تر ہے وہ دور تر کی راہ میں حاجب ہوجائے گا، پردہ ڈال دے گا۔ اگر قریب تر زندہ ہے تو دور تر جو رشتہ دار ہے اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا ، قریب تر لے جائے گا۔ وہ رستے سے ہٹے گا تو پھر دور تک بات پہنچے گی۔
‏The persons in the lineage prevent the side relations.۔ جو اوپر نیچے کی لائن میں ہیں وہ پہلو کے رشتوں کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔ Among the side relations those closer to the lineage prevent the remote ones.۔ ابھی تک اس میں کوئی قابل اعتراض ایسی بات نظر نہیںآرہی سوائے ان حوالوں کے۔ وہ بعد میں کھلے گی بات۔ کہتا ہے کہ جو پہلو کے ہیں ان میں جو قریبی ہے وہ اگر موجود ہو تو پھردور تر کی راہ میں حائل ہوگا ۔ یہ وہی بات ہے جو میں پہلے بتاچکا ہوں۔
The paternal and maternal combined prevent those whome are only paternal or only maternal.
وہ جو ماں باپ دونوں طرف سے سگے ہوں وہ ان کی راہ میں حائل ہوں گے۔ جو ماں یاباپ میں سے کسی ایک طرف سے سگے نہ ہوں۔is the need.ایمانIn inheriting the temperal or worldly wealth close relationship +۔ کہتا ہے دنیا کی جائیدادوں اور معاملات کی تقسیم میں قرب بھی ضروری ہے رشتے کا خون کا اور ایمان بھی ضروری ہے ایمان کے تعلق میں آکر آگے پھر وہ فسادکی کھڑکیاں کھولیں گے ایمان کے رستے سے۔ تمام بے ایمانی کی باتیں ایمان کے رستے سے ہوں گی۔ تمام خونی حقوق کو پامال کیا جائے گا خونی رشتوں کے حوالے سے ۔ لیکن آگے جاکر یہ باتیں کھلتی ہیں۔ ابھی یہاں ان کو critical pointsہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے۔
To inherits spiritual positions and the atainment beside relationship and faith the purity of mind and heart are essential.
کہتا ہے اس کے علاوہ یاد رکھنا کہ روحانی ورثے کی بھی تقسیم ہوتی ہے اور اس روحانی ورثے کی تقسیم سے پہلے ضروری ہے کہ beside relationship and faith۔ رشتہ اور قرب کے علاوہ purity of mindبھی ضروری ہے۔ اور دل کی purityبھی ضروری ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت عباس وغیرہ کی طرف کیوں منتقل نہ ہو وراثت، حضرت علی کی طرف کیوں جائے۔ کیونکہ وہ یہ ثابت کریں گے اپنی طرف سے کہ ایک ہی ہے حبس کی purityثابت ہے۔ اس لیے روحانی ورثہ پانے والے بھی یہی ہوں گے۔ میر احمد علی صاحب ۱۳،۱۲ کا ذکر کرتے ہوئے اب اپنا تبصرہ یوں شروع کرتے ہیں۔
the temperal power totally deprived Ali and Fatima of their heritage from the Holy Prophet. Although Fatima was the daughter of the Holy Prophet and the bequest to her was made by the Holy Prophet himself during his very life time and Fatima the lady of light claimed her right to her legitimate herritage.
کہ جب ان سب باتوں کے باوجود جو میں کہہ چکا ہوں temperal power دنیاوی طاقت جس کا مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیںتھا اس نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کی وراثت کے حق سے محروم کردیا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کو پہنچتی تھی۔ اگرچہ فاطمہ آنحضرتﷺ کی بیٹی تھیں اور آپ کے نام bequestورثے کی (گویا کہ) زبان آنحضرت ﷺ نے دے دی تھی خوددی تھی اپنی زندگی میں ہی اور فاطمہ جو نور کی شہزادی ہے اس نے اپنا حق خود مانگا بھی اور legitimate heritageکا حوالہ دے کر یہ کہا کہ میں جائز وارث ہوں، اس کے باوجود دنیاوی طاقتوں نے اس کو اس حق سے محروم کردیا۔ اس کے بعد سورۃ انفال کی ایک آیت دیتا ہے والذین اٰمنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل اللہ والذین اووا ونصروا اولئک ھم المؤمنون حقَّا۔ اب مومن کی تعریف جو کہتا تھا نا کہ ایمان کی بھی شرط ہے۔ وہ تعریف اب کریں گے اور اس سے تمام صحابہؓ تمام ان بزرگ صحابہؓ اور خلفاء کو جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ آپ سے پہلے ہیں اس آیت کے حوالے سے نکال کر باہرپھینکا جائے گا۔ کہتا ہے ایمان والے کون ہیں؟ کہتا ہے میں بتاتا ہوں ۔ وہ جو جنہوں نے ہجرت کی وجاھدوا فی سبیل اللہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ والذین اووا و نصروا جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو جگہ دی اور ان کی مدد فرمائی یعنی انصار جنہوں نے اپنے گھر اور ، اپنی چیزیں پیش کی تھیں۔ اولئک ھم المؤمنون حقا یہی حقیقی مومن ہیں۔ لھم مغفرۃ و رزق کریم ان کیلئے بخشش بھی ہے اور معزز رزق ہے۔ کمنٹری
‏This verse lays down the qualities which entitle one to be infact a believer.۔ کہتا ہے اس حدیث میں نہ اس آیت میںوہ تمام صفات بیان فرمادی گئی ہیں جو کسی ایک کے مومن کہلانے کیلئے لازم ہیں prerequisiteہیں۔ اس کیلئے One should satisfy all the conditions laid down in this verse۔ کہ ہر دعوے دار کیلئے لازم ہے کہ اس جو یہ جو آیت ہے اس میں بیان فرمودہ تمام شرائط اس کی ذات پر پوری اترتی ہوں۔
one has to consider the position of those who deserted the Holy Prophet during his battles.
یاد رکھو ان لوگوں کو بھلایا نہیںجاسکتا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو میدان جنگ میںاکیلا چھوڑ کر پیٹھ دکھادی ۔اس لئے وہ لازماً اس حصے سے نکل کرباہر چلے گئے۔اور اس کی تفصیلی بحث میں کرچکا ہوں ایک درس کے دوران۔ اور آپ کو حوالوں سے خوب دکھاچکا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جو یہ خبیثانہ حملہ کیا گیا ہے اس کاکوئی جواز تاریخ سے نہیں ہے اور وہ حوالے دیئے ہیں اور آیات قرآنی سے بھی ثابت کیا کہ باقی لوگ جن کے پائوں اکھڑے تھے ان کی بخشش کا خدا اعلان کرچکا ہے۔ انہی آیات میں جن میں ذکر ہے اور اس بخشش کے اعلان کو شیعہ مفکرین یا علماء کہلانے والے منسوخ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا کام ہے فیصلہ کرنا۔ اللہ کون ہوتا ہے بخشنے والا۔ جب ہم نہیں بخشیں گے تو خدا کیسے بخش دے گا۔ یہ ہے مضمون جو بار بار وہ حوالے دیے جارہے ہیں اور جھوٹے حوالے روایات سے ثابت کرچکا ہوں میں کہ بالکل فرضی روایات گھڑی گئی ہیں جنگ حنین کے متعلق ۔ حضرت عمر والا واقعہ اور بھاگ جانا جبکہ اس غار میں ساتھ تھے جس غار میں رسول اللہﷺاکٹھے ہوئے جس کے اوپر خدا نے فرمایا اس نے سکینت اتاری ان لوگوں پر اور اس کے باوجود یہ لوگ جو اپنے تعصبات میں پلتے ہیںاور تعصبات کو پالتے ہیں ان کے یہ تبصرے ہیں ۔ پھر کہتا ہے اگلی بات سنیے۔
Those who deserted the Holy Prophet during his battles and after his departure from this world deserted his Ahal-ul-Bait also and became responsible for the assasination of the holy Imams from the Holy Prophet's family.
کہتا ہے وہ سارے جنہوں نے آپ کے اہل بیعت کو رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد desertکیا وہ بھی اس آیت کی رو سے ایمان کی تاریخ سے نکل کر باہر ہوگئے۔Comment by Agha Puya
"The application of this verse remains valid forever".
یاد رکھو یہ ہمیشہ کیلئے فتویٰ ہے۔کوئی اس کو تبدیل نہیں کرسکتا اور اہل بیت سے جب بھی کہیں بھی کوئی شخص آئندہ ان معنوں میں بے وفائی کرے گا جن کو یہ بے وفائی سمجھتے ہیں۔ تو ان پر بھی انہی باتوں کا اطلاق ہوگا۔ دوسری آیت سورۃ احزاب کی النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم و ازواجہ امھٰتھم و اولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ من المؤمنین والمھاجرین الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا۔ کان ذلک فی الکتب مسطورًا۔(سورۃ احزاب:۷)۔
Translation by Meer Ahmad Ali: -
"The prophet Muhamamd has a greater claim to the believers than they have on their ownselves.
محمد رسول اللہ ﷺ کا حق تمام مومنوں پر اس سے زیادہ ہے جتنا مومنوں کا حق خود ان کی ذات پر ہے۔
‏And his wives are their mothers.
اور محمد رسول اللہ ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔
‏And blood relations have a better claim.لیکن یاد رکھو کہ جو blood relatioinsہیں وہ گویا مائوں سے بہتر claimرکھتیہیں۔
In respect of one to the other according to the book of God than the other believers.
آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کی بحث جہاں چلتی ہے وہاں خونی رشتہ دار ہر دوسرے رشتہ دار سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ یہ خدا کی کتاب میں درج ہے۔
‏Save that you do some good unto your friends, believers and the immigrants.
‏believers and the immigrants۔ مہاجر اور ایمان لانے والے دونوں پر blood relationsکا حق زیادہ فائق ہے۔ Save that you do some good unto your friends۔ سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں سے کچھ احسان کا سلوک کرو۔ This in the book of God is prescribed۔ یہ خداتعالیٰ کی کتاب میں کھلم کھلا بیان فرمادیا گیا ہے، کھول دیا گیا ہے۔ This is the written ordinance.یہ ایک تحریری جاری بالا قانون ہے۔ The "N" of Aula is Maula۔ Nسے مراد ایک اور متبادل مراد لگ رہی ہے (لکھا نہیں ہوا Nسے کیا مراد لی گئی ہے)۔ بہر حال وہ کہنا یہ چاہتا ہے synonym( جس طرح ہوتے ہیںنا Synonymاولیٰ کامولیٰ کاSynonymیا اس کا متبادل) ایک لفظ اولیٰ ہے ۔ یعنی دونوں ایک دوسرے سے ہم معنی ہیں۔ The word used for Ali at Ghadir-e-Khum۔ اور یہاں جو اولیٰ لفظ ہے یہ اس مولیٰ لفظ کا متبادل ہے جو غدیر خُم میں رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے استعمال فرمایا۔ تو اولیٰ کو مولیٰ بنانے میں یہ ان کو درجہ کمال حاصل ہے۔ اس آیت میں جو اولیٰ کا لفظ خدا نے فرمایا کہتے ہیں کہ دراصل یہ وہ مولیٰ ہے جس کا غدیر خُم کی روایت میں ذکر ملے گا ۔ اور اولیٰ بمعنی مولیٰ ہے ۔ ابھی آگے آنے والی باتیں ہیں ۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں شروع ہوا۔ Commentry: -
"This is a very important verse. It gives a definite guiding note to the Muslims about the basic factor with which one must be guided about the unique position of the Holy Prophet. As well as solves the question of right succession to him.
یہ آیت جو ایک عام آیت ہے جس میں تمام ورثے کے اصول بیان فرمادیے گئے۔ تمام مومنوں کی سوسائٹی کے حقوق بیان فرمادیے گئے جہاں بتایا یہ گیاکہ رشتوں کے لحاظ سے تم ایک دوسرے سے خونی تعلق سے بھی باندھے گئے ہو اور دینی تعلق سے بھی باندھے گئے ہو۔لیکن جہاں تک وراثت کا تعلق ہے محض دینی تعلق سب مومن بھائیوں کو تمہارا وارث نہیں بناسکتا۔ وہ اولیٰ ہیں جن کا خونی رشتہ بھی ہے اور جو خونی رشتہ ہے ان کو جائیداد جاتی ہے، باوجود اس کے کہ خدا یک طرف فرمارہا ہے کہ امہات المومنین تم سب کی مائیں ہیں۔ انہی آیات میں ذکر ملتا ہے جو اس سے پہلے آیات گزری تھی جو میں نے پڑھ کر سنائی تھی۔ امہات المومنین ہیںوہ سب کو برابر بھائی بہن بنادیتی ہیں۔ جب بھائی بہن بنادیتی ہیں تو پھر کوئی کہہ سکتا تھا کہ پھر وراثت میں ہم سب شریک ہوگئے ۔ جہاں لہ اخ او اخت کا ذکر آئے گا وہاں مائوں کے بچوں کے لحاظ سے سب برابر ہوجائیں گے۔ اس قسم کے شبہات اور توہمات کے ازالے کیلئے یہ آیت بات کو خوب کھول رہی ہے۔ فرماتا ہے: سب سے اوّل حقدار تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور یہاں اس پہلو سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ ورثے کی بات ایک ضمنی ہے۔اصل میں حق قرابت سے مراد یہ ہے عزت ، احترام سب کچھ اس کا سمجھو اور سب کچھ اس کیلئے حاضر کردو ، اگر وہ طلب کرے۔ ان معنوں میں ہے نہ کہ عام دنیاوی وراثت کے قانون کی بحث ہورہی ہے۔ محمدرسول اللہﷺ سب سے زیادہ قریب ہیں تمہارے۔ اس کے باوجود تمہارے وارث نہیں ہوتے۔ یہ حدیث جو ہے یہ آگے شیعہ بھی بیان کریں گے۔ یہ اس کے ساتھ براہِ راست تعلق رکھتی ہے یہاں ہرگز یہ نہیں فرمایا جارہا کہ اولیٰ کو سب کچھ دے دینا وہی مولیٰ ہے یہ جو نکالا جارہا ہے اس کا کہیں دور کا بھی اشارہ نہیں۔ اس طرح یہ باتیں ، عجیب و غریب کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں ایک بات سے۔ ایک طرف ایک کھڑکی کھول دی وہاں سے چھلانگ ماری فرضی دنیا میں اور ایک اور طرف سے دوسری کھڑکی کھول دی اور ہوا میں قلابے ملاتے رہتے ہیں۔ بالکل فرضی حکائتیں، فرضی استنباط ، سراسر جھوٹے۔ کوئی بنیاد نہیں اور آیات قرآنی کے سیاق و سباق کے سراسر مخالف ۔ ان آیات کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ دیکھ لیں صاف یہ ذکر ہورہا ہے کہ دیکھو مہاجرین بھی ہیں اور انصار بھی ہیں۔ سب سے اوّل جو تمہارے قریب تر وجود ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود ہے۔آپ کی تمام ازواج تمہارے لیے مائوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ اور یہ بات (وہ آیت کہاں گئی؟) النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم و ازواجہ امھاتھم ازواج کو امہات فرمایا جارہا ہے اور یہی وہ سورۃ احزاب ہے جس میں فرمایا ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکمکہ محمدﷺ تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہے ، یاد رکھیں اس بات کو۔ ہاں محمدﷺ کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں۔ یہ بات سمجھنے کے لائق ہے اور ابھی اسے اچھی طرح پلّے باندھ لیں کیونکہ اگلی خرافات جو آئیں گی وہ اس سے متصادم ہوں گی۔ آنحضرت ﷺ کی ابوت کا ان معنوں میں انکار جو دنیاوی رشتوں کی راہ میں حائل ہو یہ اسی صورت میں ہے جہاں آنحضرت ﷺ کو اولیٰ قرار دیا تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آنحضورﷺ کو اگر اس طرح باپ کہا جاتا جیسے بیویوں کو ازواج کہا گیا تو رسول اللہ ﷺ کا کسی سے رشتہ ہو نہیں سکتاتھا۔ گویا ایک تو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے رشتے پر تو قیامت آگئی تھی اور فتنہ پردازوں نے شور مچایا ۔ کیا یہ ممکن تھاکہ محمد رسول اللہﷺ کو باپ کہہ دیا جاتا اور ان معنوں میں باپ کہا جاتا جن معنوں میں امہات المومنین کو ازواج نبی کو امہات المومنین کہا جارہا ہے تو فتنہ پیدا نہ ہوتا۔ اس لیے باپ کی نفی فرمائی۔ لیکن اولیٰ ہونے کی نفی نہیں فرمائی۔ فرمایا اس رسول کی ازواج تو تمہارے لیے مائوں کا ویسا ہی درجہ رکھتی ہیں جیسے تم اپنی مائوں کو دیکھتے ہو۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں آنا چاہیے کہ ان مائوں سے کسی قسم کا کوئی رشتہ قائم کرو۔ اس کا تصور بھی اپنے دلوں میں جگہ دو۔ جہاں تک محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے وہ کسی کے باپ نہیں ہیں ان معنوں میں، لیکن تمام باپوں، تمام مائوں،تمام عزیزوں سے اولیٰ ہیں۔ اور ان کا حق باپوں سے زیادہ فائق ہے۔ یہ ہے بہت خوبصورت دلکش مضمون جس سے احتمالی تضادات کو دور کرکے بات کو کھولا گیا ہے۔ پھر یہ کہنے کے بعد وازواجہ امھاتھم و اولوا الارحام بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللہ۔
و اولوا الارحام بعضھم اولیٰ ببعضٍ ایک عام بیان ہے کہ جو رحمی رشتے رکھنے والے ہوتے ہیں ان میں سے بعض قریب ہیں، بعض دور ہیں اور یہ جو آیات ورثے کی تلاوت کی گئی ہیں ان سے صاف کھل جاتا ہے کہ کیا مراد ہے اس آیت سے۔ بعضوں کے حقوق خدا نے زیادہ مقرر کردیے ہیں اور بعضوں کے کم مقرر کردیے۔یہ بات دوبارہ یاد کرائی جاتی ہے فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین یہاں درجہ ایمان کے لحاظ سے کوئی اشارۃً بھی ذکر موجود نہیں۔یہ فرمایا جارہا ہے کہ اولوالارحام میں سے بعض کے بعض دوسروں پر زیادہ حق ہوتے ہیں۔ من المؤمنین والمھاجرین مومنوں اور مہاجرین میں سے جو ہیں ۔یہ بھی ایک ترجمہ بنتا ہے اس کا ۔ بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللہ ای اولوا الارحام من المؤمنین والمھاجرین ایک یہ ترجمہ ممکن ہے۔ ایک یہ ہے ان کے من بمعنی مقابل کہ اولوا الارحام بعض ان میں سے بعض دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں من المؤمنین والمھاجرین محض مومن اور محض مہاجر ہونے سے وہ دنیاوی حقوق قائم نہیںہوتے جو خونی رشتوں سے قائم ہوجاتے ہیں۔ تو خدا نے بھائی بھی کہا ہے ۔ اب دیکھیں جہاں جہاں خداتعالیٰ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جن سے کسی غلط ترجمے کا احتمال پیدا ہوا ہے وہیں یا دوسری جگہ اس احتمال کا قلع قمع خود فرمادیا ہے۔ تین لفظ ہیں بنیادی جن کو پیش نظر رکھ کر ان آیات کا مضمون سمجھ آتا ہے۔ اوّل باپ۔ خداتعالیٰ نے فرمایا محمدﷺ کسی کے باپ نہیں ہیں۔ دوسرا ماں۔ فرمایا ازواج محمد رسول اللہﷺ سب کی مائیں ہیں اور ساتھ اس بات کی وضاحت فرمادی دوسری آیت میں کہ ان سے تمہارے لیے کبھی شادی جائز نہیں ہوگی۔ اب تو یہاں ماں کا کہنا جن معنوں میں ہے وہ تو کھول دیا ۔ تیسری بات یہ فرمائی المؤمنون اخوۃ مومن بھائی بھائی ہیں۔ تو جہاں تک وراثت کا تعلق ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا اولیٰ ہونا وراثت پر اثر اندازنہیں ہے۔ وہ تو نہ تمہارے وارث بنے نہ کسی اور کے۔ بلکہ اپنا ورثہ بھی صدقہ بنا کر چھوڑ دیا۔ اس لیے اولیٰ کے تعلق میں ورثے کی یہ بحث کہ جو رسول اللہﷺ کے خون میں زیادہ قریب ہے وہ ورثے میں بھی قریب تر ہوگا۔ یہ باتیں بالکل ختم ہوجاتی ہیں۔ اخوۃ کے تعلق میں ہوسکتا تھا۔ سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک کمیونسٹ سوسائٹی کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔ سارے ایک دوسرے سے ورثہ پائیں اور اکٹھے ہوں۔ مائیں کہنے کے باوجود فرمایا تمہارا بھائی بھائی ہونا تمہیں خونی رشتوں پر فضیلت نہیں دے سکتا۔ خونی رشتوں کے حقوق پر تمہاری سوسائٹی کے لحاظ سے بھائی بھائی ہونے کو اجازت نہیں ہوگی کہ اس پر فوقیت رکھیں یا دخل دیں یا بھائی بھائی بننے کے بہانے سے خونی رشتوں سے کوئی چیز چھیننے کی کوشش کریں۔ وہ جو ان کا حق ہے، وہ ان کا حق ہے۔ الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفًا ۔
ہاں اپنے دوستوں کے لحاظ سے ۔یہاں اولیاء کا لفظ بھی ہے یہ بھی آگے زیر بحث آئے گا اور اولیٰ کے ساتھ اولیاء کا بھی ایک تعلق ہے فرمایا اپنے تعلق دار دوست ان میں سے کچھ تمہیں زیادہ قریب ہیں، کچھ دور ہیں ان کو معروف کے مطابق جو کچھ تم دینا چاہتے ہو وہ طوعی چیز ہے۔ وہ تمہارا حق ہے تم بیشک دو۔ یہ آیت مانع نہیں ہے کہ تم طوعی طور پر اپنے دوستوں اور عزیزوں پر کچھ خرچ کرو۔ کان ذلک فی الکتاب مسطورًا۔ یہ ہے جو کتاب میں مسطور ہے۔ اب واپس جاتے ہیں۔ وہ جو ترجمہ کررہے تھے (آپ کو اندازہ ہوگا) کیسی بہکی بہکی باتیں کررہیں ، جس کا اس آیت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ۔ آگے جاکر فرماتے ہیں۔
The wives of the Holy Prophet have been declared to be the mothers of the believers which automatically means the Holy Prophet is the father of the believers.
اب یہاں fatherکا لفظ ، اس سے استنباط کیا ہے کہ فتنہ پردازی اور واضح جھوٹ ہے اور قرآنی مضمون کو درہم برہم کرنے والی بات ہے۔ جس آیت میں یہ مذکور ہے وہ سورۃ احزاب ہے۔ (سورہ احزاب ہی ہے نا؟ میں دیکھ لوں نمبر) سورۃ احزاب آیت ۷۔ اور سورۃ احزاب کہہ رہی ہے ماکان محمد ابا احمد من رجالکم یہ اس ماکان کے ایک عمومی اعلان کو بالکل نظر انداز کرکے ازواج کے بہانے سے محمد ﷺ کو باپ قرار دے رہے ہیں۔ کیوں باپ قرار دے رہا ہے۔ آگے جاکے بات کھل جائے گی۔ لیکن بدنیتی شامل ہے اس میں ، جس کی وجہ سے قرآن کے مضمون کو بالکل نظر انداز کرکے رسول اللہ ﷺ کی ابویت کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ جبکہ خدا نے نفی فرمادی اور اولیٰ کہہ کر باپوں سے بھی بڑھ کر حق قائم کردیا اور باپ کہہ کر ازدواجی رشتوں سے جو مانع ہوسکتا تھا اس مانع کو دور فرمادیا(باپ نہ کہہ کر)۔ یہ ہے قرآنی آیات کی ترتیب اور اندرونی تعلقات۔ اب یہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ The Holy Prophet is the father of the believers۔ کیونکہ automatically جب وہ مائیں ہیں تو باپ بن گئے۔ اس طرح یہ منطقیں نکال نکال کر فتنے پیدا کرتے ہیں۔
The Holy Prophet said "I and Ali are the two fathers of the nation".
خدا ایک کی بھی نفی فرمارہا ہے اور انہوں نے پہلے محمد رسول اللہ ﷺ کو باپ بنایا قرآن کریم کے واضح حکم کے برخلاف جو اسی سورت میں ہے جومیں بیان کرچکا ہوں اور پھر باپ اس لیے بنایا جارہا ہے کہ علی کو باپ بنایا جائے ورنہ کوئی مقصد نہیں۔ ورنہ ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیںتھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوباپ بنانے کی خاطر تاکہ امت کا ایک باپ ثابت نہ ہو دو باپ ثابت ہوں۔ اگر دو باپ ثابت ہوں تو نعوذ باللہ من ذالک ازواج کے متعلق وہی منطق لگاسکتے ہو تم ۔ کتنی خبیثانہ بات ہے اگر اس منطق کو قبول کیا جائے کہ ازواج ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ باپ ہیں تو پھر دو باپ ہونے کا لازمی نتیجہ کیا نکالو گے؟ او ر وہ بدبخت نتیجہ نکالتے بھی ہیں ،آگے جاکر دیکھنا۔ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ پاکستان کے ملاں اندھے ہیں؟ ان کو دکھائی نہیں دے رہا کہ ہتک رسول کس کو کہتے ہیں۔ لاالہ الا اللہ پڑھ لو تو گستاخی ہوگئی رسول اللہﷺ کی۔ اور دو باپ بنادو تو کوئی گستاخی نہیں۔ امہات المومنین کے متعلق جو زبان آگے آنے والی ہے وہ سنو اور یہ کوئی گستاخی نہیں ہے۔ سب شیعہ سنی بھائی بھائی ۔ دو باپوں کی اولاد سمجھیں مگر بھائی بھائی ہیں۔ فرمایا اب یہ سب جھوٹ ہے کہ اس کی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ سب فرضی کہانیاں ہیں۔ آگے جاکر روائتیں پیش کروں گا۔
It is said that the hypocrates murmerd saying that the Holy Prophet marries our women but we are forbiden forever to marry his wives.
کہتا ہے منافقین یہ murmerکیا کرتے تھے چہ مگوئیاں کہ اللہ کا رسول تو ہماری عورتوں سے شادی کرتا ہے اور ہماری بیوائوں وغیرہ سے بھی ، ہمیں اجازت نہیں۔
The position of the wives of the Holy Prophet was announced to this verse, someone asked the holy Imam of this age Muhammad Inbe-Hasan Almahdi "what did the Holy Prophet mean by giving the authority to Ali to pronounce divorce to any of his wives, the Holy Prophet's wives.
ایک اورمطلب نکالا ۔ وہ جوباپ بنایا ہے اس میںایک یہ بھی خباثت پیش نظر ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ ابوت میں اس لیے شامل کیا کہ آپ کو یہ حق دینا تھا کہ تم میری بیویوں کو جب چاہو طلاق دے دو۔ یہ آنحضرتﷺ کی محبت اور عقیدت کے کرشمے ہیں جو ظاہر ہورہے ہیں اور حکومت پاکستان اور قانون پاکستان کی رو سے ان میں سے کوئی بات بھی رسول اللہ ﷺ کی گستاخی پرمنتج نہیں ہوتی۔ قانونِ گستاخی ان باتوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے دونوں ہی جھوٹے ہیں ۔ نہ ادھر خیر رہی نہ اُدھر خیر رہی۔اگر سچی حقیقی محبت رسول اللہ ﷺ سے ہوتی تو ان باتوں پر خون کھولتے۔ مگر مجبوراً اپنے ہاتھ میں قانون نہ لیتے ۔ کیونکہ خدا نے کہیںگستاخوں کیلئے انسان کو حق نہیں دیا کہ قتل کرے۔ مگر غم سے گھلتے تو سہی کہتے تو سہی کہ یہ گستاخیاں ہیں۔ مگر جہاں قانون ہاتھ میں لے کر خود خدائی کے دعویدار بن بیٹھے۔ کہا ہمیںاجازت ہے جس کو گستاخ سمجھیں اس کو ماریں ۔ وہاں یہ گستاخیاں دکھائی نہیںدیتیں۔ ا س لیے کہ مقابل کی ایک قوم ہے جو طاقتور ہے اور صرف دنیاوی مقاصد پیش نظر ہیں۔ حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ان قوانین سازی میں ایک ادنیٰ سا بھی حصہ نہیں ہے۔کیونکہ قانون سازی اگر محبت کی بناء پر ہوتی تو یہ باتیں نظر انداز نہ کی جاتیں۔ وہ کیا بات ہے آگے یہ بات اور بھی کھلتی جائے گی۔ محمد ابن الحسن مہدی نے جواب دیا کہ Giving the authority to Ali to pronounce divorce to any of his wives.۔یہ جو سوال کیا گیا نا محمد بن مہدی سے تو کہتے ہیں۔
In reply the holy Imam said "The Holy Prophet told Ali O Abul Hassan! "God has bestowed special honour upon wives until they are obedient to God abiding by His laws and when they disobey the laws of God they this grieve in this grace.
یہ جو خداتعالیٰ نے امہات المومنین کا عظیم خطاب دے دیا ہے یہ مشروط ہے کہ جب تک وہ خداتعالیٰ کی فرمانبردار رہیں گی اس وقت تک وہ امہات المومنین کہلائیں گی۔ جب فرمانبردار نہیں رہیں گی یعنی تم لوگوں کے نزدیک تو پھر یہ شرط اُٹھ گئی گویاکہ نعوذ باللہ من ذالک کہ ہر ایک کو اجازت بھی ہوگئی کہ چاہے تو وہ شادی کرے، جو چاہے کرے۔ یہ برکت اوریہ قید دونوں اُٹھادی جائیں گے۔ آگے لکھتے ہیں۔
Therefore 'O Ali! if after me they rebell against thee, thou pronounce then divorce to them.
نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے علی! میری وفات کے بعد بھی اگر یہ تیرے خلاف خروج کریں اور بغاوت کریں تو ان کو طلاق دے دو۔ ایسا خبیثانہ تصور دنیا کے کسی مذہب کی کسی فقہ میں موجود نہیں کہ بطور امہات المومنین آنحضرت ﷺ چھوڑ جاتے ہیں اور زندگی میں خدا کے دیئے ہوئے حق کے باوجود اس سے استفادہ نہیں کرتے، خدا نے حق دیا تھا چاہوتو طلاق دے دو۔ اس کا مطلب ہے آپ نے جب حق کو استعمال نہیں فرمایا امہات المومنین کے اخلاص کے پیش نظر، تو ثابت ہوگیا کہ آنحضور ﷺ کے علم میں یہ ساری وفادار تھیں۔ تمام امہات المومنین کہلانے کی حقدار تھیں اور وفات کے بعد کوئی اورشخص کسی کی مرنے والے کی بیوائوں کو طلاق دیتا پھرے، یہ بدبختی اور جہالت کی انتہاء ہے۔ اس سے زیادہ اور آدمی کیا کہہ سکتا ہے ۔ ایسی خبیث دماغوں کی پیداوار ہے جن کی سمجھ نہیں آتی کہ ان کے ایچ پیچ کیسے لگا ئے گئے ہیں۔ الٹا دماغ کبھی دنیا میں کوئی آدمی یہ نہیں سوچ سکتا، کسی قانون میں یہ حوالہ نہیں ملے گا کہ کوئی آدمی فوت ہوجائے اور کچھ عرصے کے بعدکوئی دوسرا کہے کہ میں طلاق دیتا ہوں۔ تم کیوں طلاق دیتے ہو؟ میں بھی توباپ ہوں اور میرے سپرد رسول اللہ ﷺ نے طلاق کے حقوق کردیے ہیں۔ یہ ہے شیعہ مذہب۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے امام نے یہ ہمیں فرمایا تھا کہ یہ ہے، اصل مطلب یہ ہے۔
This could also be a prophecy of one of his wives marching against Ali at the head of an army which was fulfilled in the battle of Jamal.
کہ دراصل یہ کہنے میں رسول اللہ ﷺ نے (یہ فرضی بات ہے خود بنائی ہے) کہ علی! اگر یہ میرے مرنے کے بعد یہ تیرے خلاف بھی خروج کریں تو تجھے حق ہے کہ ان کو طلاق دے دے۔ تو دراصل امہات المومنین کی فہرست سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خارج کرنے کا یہ انہوں نے عذر بنایا ہے اور طلاق دلوائی ہے نعوذ باللہ من ذالک حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ ہی نہیں اس بات کا۔ کیونکہ جنگ جمل کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جب وہ رخصت ہوکر مکے جانے لگیں تو مشایعت کی ، ساتھ ساتھ چھوڑنے گئے اور جو باتیں ریکارڈ ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ سب وہ جو کدورت تھی وہ بھلادی گئی اور کہا یہ تو ایسے رشتوں میں ہوہی جاتا ہے۔ اس کو ایمان یا عدم ایمان کی طرف منسوب ہی نہیں کیا گیا۔ جیسا ہمارا رشتہ ہے اس میں ایسی باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ مگر سب ختم ۔ پھر اپنی اولاد کو کہا کہ دروازے تک ، گیٹ کہہ لیں یا شہر کے کنارے تک چھوڑنے خود گئے۔ خود مشایعت فرمائی اور سواریاں تمام زاد راہ، تمام سہولتیں مہیا فرمائیں اور پھر اپنے بچوں سے کہا کہ تم آگے تک جائو۔ دن بھر جہاں تک جاسکتے ہو مشایعت کرو۔ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مطلب سمجھا تھا۔ گویا کہ یہ طلاق کل اپنے ہاتھ میں (اصل میں) لے رہے ہیں۔ اگر نعوذ باللہ من ذالک طلاق کا حق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا گیا تھا تو ثابت تو کریں کہ آپ نے استعمال کیا ہو، جو انہوں نے نہیں کیا۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ قیامت تک چل رہا ہے مضمون مراد یہ ہے ہر شیعہ عالم کہلانے والے کو یہ حق ہے کہ آئندہ قیامت تک جب چاہے جس کو چاہے طلاق دے دے۔ وہ طلاق کا حق یاد رکھو جو ان کے کہنے کے مطابق علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا گیا ۔ ایک روایت سے بھی ثابت نہیں ایک روایت سے بھی ثابت نہیں۔کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سمجھا یا سوچا یا سنا اور اس کے مطابق عمل کیا۔ اگر سمجھا، سوچایا سنا بھی تھا تو اس کے مطابق عمل نہیں کیا جو عمل نہیں کیا تو بات ہاتھ سے نکل گئی۔ جہاں مرنے کے بعد طلاقیں دی جاسکتی ہیں وہاں ایک سٹیج تو نہیں ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد بھی دی جاسکتی ہیں پھر۔
پس یہ کہتے ہیں ہم دے رہے ہیں۔ اب یہ ہے اصل میں جو حق علی کو ملا تھا وہ ہم ورثائِ علی کے نام منتقل ہوچکا ہے۔ اس لیے اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھول گئے تھے ، ا ن کو پتہ نہیں تھا تو ہم تو موجود ہیں فتنہ پرداز۔ ہم اس فرضی حق کو استعمال کریں گے۔ پھر لکھتے ہیں۔
On the day of Ghadir-e-Khum at the revelation of 5:68 the Holy Prophet first caught the acknowlegement of his unique position and authority over the souls of the Muslims. (saying) Am I not authority over your souls more than your own selves.
اَولیٰ کا لفظ یہاںہے۔ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیںstate authorityمراد ہے۔ اس کی بحث ہی کوئی نہیں ہے۔ اَوْلیٰ سے مراد جیسا کہ آیت سے خوب بات کھل چکی ہے قرب اور پیار کے رشتے، فدائیت کے تعلقات، یہ ساری چیزیں اولیٰ میں ہیں جو وہاں بیان ہورہی ہیں۔ نہ ورثے کی بات ہے رسول اللہ ﷺ کے تعلق میں نہ کوئی حکومت کی بات ہے۔ فرمایا میرے ساتھ تمہارا وہ فدائیت کا رشتہ ہونا چاہیے جہاں قانون نہیں پوچھے جاتے کہ کیوں اطاعت کریں۔ یہاں ماں باپ کی اطاعت اور قریب ترین اپنے رشتے داروں کے سامنے تم سرتسلیم خم کرتے ہو محبت سے، مجھے اس سے بھی بڑھ کر تمہیں عزیز سمجھنا چاہیے۔ اور اس آیت پر ایک اور آیت اسی طرح گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کو آنحضرت ﷺ کے قرب سے ماں باپ یا کسی اور رشتے کا قرب عزیز ہے تو اس کو پتہ ہی نہیں ایمان کیا ہے۔ وہاں اسی آیت کے مضمون کو خوب کھول دیا گیا ہے اور وہ بحث ہی نہیں ہے جو انہوں نے اس سے نکالی ہے۔کہتے ہیں
On the day of Ghadir at the revelation of 5:68. The Holy Prophet first got the acknowledgement of his unique position and authority over the souls of the muslims: (saying)
(اب وہ سوال (شوال) چھوڑیں۔ یہ زیادہ ضروری۔ اس کو جاری رکھنا ہے آخر پر وقت بچ گیا تو کرلیں گے)۔
غدیر خم کے دن جب at the revelation of 5:68، 5:68کی revelationپر 5:68نکالیں جی! کہاں ہے وہ ۔ نکالیں اچھا۔ یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک۔ و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ۔ ان اللہ لا یھدی القوم الکفرین۔(مائدہ:۶۸)۔ (مائدہ کب نازل ہوئی ہے؟ ابھی نکالیں؟) اب ساری نبوت کا مضمون کس طرح یہ ایک ایک نکتے پر اکٹھا کرکے باقی سب عالم کو رسول اللہ ﷺ کے فیض سے نکالتے چلے جاتے ہیں ۔ رحمۃ العالمین کا یہ تصورتو کسی دنیا کے مذہب میں جاہل سے جاہل کے دماغ میں بھی نہیں آیا ۔ کیونکہ یہ تصور اپنی ذات میں تصادم رکھتا ہے۔ ایک پہلو کے دوسرے پہلو سے۔ وہ نبی جو محدود قوموں کیلئے آئے تھے انہوں نے تو اپنی نعمتوں کو اور اپنے فیضان کو اور اپنی برکتوں کو۔ اپنے خونی رشتوں میں اس طرح محدود نہیںکیا کہ ہر خونی رشتہ دار جو قریب تر تھا دوسرے کی راہ میں حائل ہوتا چلا گیا۔ یہاں روحانی ورثے کی باتیں ہورہی ہیں۔ فیض کی باتیں ہورہی ہیں اور یہ اس ورثے کے قانون کواس طرح اطلاق کرکے حضرت علی کو اکیلا رہنے دیتے ہیں اور باقی سب کونکال کے باہر پھینکتے ہیں اور بعد میں ترجمہ بھی یہی کریں گے کہ ایک ہی صالح تھا مومنوں میں۔ اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اور وہ صالح المومنین یعنی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ اور فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کی رسالت کا مقصد یہ تھا کہ علی کے مقام اور مرتبے کودنیا پر کھول دو۔ اگر تم نے نہ کھولا تو یاد رکھو تم نے رسالت ہی نہیں کی، تم نے اپنا پیغام رسانی کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ شیعہ تصورِ قرآن ہے۔ اور یہ ترجمے ان کو عزیز ہیں، یہ چَھپتے ہیں۔ جہاں احمدی ترجمے رسول اللہﷺ کی شان اور عزت میں ایسے ایسے عارفانہ نکات پیش کرتے ہیں کہ ان کے اگلوں پچھلوں کو بھی ان نکات کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ ترجمے ان کے دلوں پر گراں گزرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ تو بڑی خطرناک چیز ہے۔ کیا گرانی ہے ان میں ۔گرانی یہ ہے کہ وہ ترجمے اگر عامۃ الناس کے علم میں آئیں تو ان کا دل احمدیت کی محبت میں سرشار ہوجائے۔وہ ان ترجموں کی وجہ سے کھینچے جائیں احمدیت کی طرف۔ کیونکہ احمدیت رسول اللہ ﷺ کی طرف کھینچتی ہے۔ یہ ہے تکلیف ورنہ اعتراض نہیں ہے اصل میں۔ وہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔ اگر گستاخی کے اعتراض ہوتے تویہ ہیں وہ چیزیں جن پر اعتراض اُٹھنے چاہیے تھے۔ جن پر خون کھولنے چاہیے تھے۔ تو مائدہ آخری سالوں میں ہے۔ مگر یہ کہتے ہیں ، آگے جاکر بات خود کھول رہے ہیں کہ یہ آیت خاص طور پر حضرت محمد رسول اللہﷺ کی نبوت کا خلاصہ بیان کررہی ہے اور کہتے ہیں آگے جاکر بات کھل جائے گی کہ یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ خداتعالیٰ نے پہلے سے ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو محمدرسول اللہ ﷺ کا واحد وارث مقرر فرمادیا تھا اور حکم دیا تھا کہ اس کی وراثت کا یعنی روحانی ورثے کا اعلان کردو۔ مگر رسول اللہ ﷺ احتیاطاً نہیں کررہے تھے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اپنے عزیز کو سب کچھ دے بیٹھے ہیں۔جب ایک مدت گزر گئی اس حالت میں تو اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی کہ اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک۔ جو کچھ تیری طرف اتار ا گیا ہے اپنے ربّ سے اس کو پہنچادے دنیا میں۔ جو کچھ سے مراد صرف ایک ہے ۔ نہ قرآن نہ اس کی تفہیمات نہ اور باتیں نہ دیگر فیوض۔ جو کچھ سے مراد یہ ہے وہ راز کی بات کیوں نہیں بتاتا جو میں تمہیں بتاچکا ہوں۔ وہ چھپائے بیٹھا ہے۔ وان لم تفعل یاد رکھنا ساری زندگی کی قربانیاں تیری رائیگاںجائیں گی اگر اب بھی تو نے اس آخری نصیحت اور تنبیہہ کے بعد علی والی بات لوگوں کو نہ بتائی تو سب کچھ گیا۔ واللہ یعصمک من الناس۔ تو لوگوں سے ڈررہا ہے لوگ حملہ نہ کردیں، اگر علی کے حق میں بات کردے گا۔ تو یعصمک میں جو عصمت رسالت ہے وہ سب غائب ہوگئی۔ کہتے ہیں اللہ تجھے لوگوں سے بچالے گا فکر نہ کر۔ علی کے دشمن اگر تجھ پرحملہ آور ہوں گے تو خدا حفاظت کرے گا۔ تو کیوں ڈررہا ہے۔ ان اللہ لا یھدی القوم الکفرین یقینا اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ یعنی وہ لوگ اس سے سب ترجمہ جو ذہن میں ہے وہ پیش نظر رکھیں تو آخری نتیجہ یہ نکالا کہ ان سب نے تو کافر مرنا ہے جو بظاہر تجھ پر ایمان لانے والے ہیں جو علی کے دشمن ہیں۔ وہ جو وصیت سننے پر بھی تیار نہیں، جن کے خون کھول جائیں گے وصیت سنتے ہی، ان کے ڈر سے تو بات چھپا رہا ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ ان لوگوں سے زیادہ ڈرتے تھے ۔ اللہ کے واضح احکامات کو ٹالتے چلے جاتے تھے ۔ اب تونے کرنا ہے۔ کرنا ہے ورنہ تو ہم سے بھی گیا۔ اگر علی سے گیا تو ہم سے بھی گیا۔ اور ان کافروں کی کیا فکر کر رہے ، کافر ہیں ان کو ہدایت ملنی ہی نہیں۔
The huge crowed in one voice shouted certainly, "O Prophet of God again he asked Alas to
اولی من کل المومنین من انفسھم to Alas to Oola یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ؟ کوئی لفظ ہے جو غلط لکھا گیا ہے۔
یہ کہتے ہیں جب غدیر خُم کے موقع پر آنحضورﷺ نے یہ اعلان فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ جو مجھے مولیٰ سمجھتا ہے تو علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ اس کا ترجمہ کیا بنتا ہے یہ بحث کچھ میں بیان کرچکا ہوں کچھ آگے آئے گی۔ یہاں یہ کہہ رہے ہیں اس وقت رسول اللہ ﷺ نے مخاطب کرکے سب کو فرمایا کہ اب بتائو میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچادیا ہے کہ نہیں۔ اولی من کل المؤمنین من انفسھمیہ اپنی طرف سے بات بنائی ہے یہاں غدیر خم والی بات نہیں ہے اب۔ وہ آیت میں تو یہ ذکر ہے کہ بلّغ کیا بلّغ کچھ پتہ ہی نہیں۔ کہتے ہیں یہ بلّغ ہوا اور یہ اعلان ہوا کہ جو علی کو تمام مومنوں سے بڑھ کر مولیٰ سمجھتا ہے جیسے مجھے سمجھتا ہے وہی سچا ہے خدا کے نزدیک ۔ باقی سب کافر ہیں اور یہ وہاں بات ہی نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ پھر دعا کی کہ اے اللہ جو علی کا دوست ہو تواس کا دوست ہو اور جو علی کا دشمن ہے اس سے دشمنی فرما۔ یہ کیا پس منظر ہے یہ میں آگے جاکر کھولوں گا۔ یہ بات ہی کچھ اور ہے ایک اور قصہ چلا تھا۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کو اس وضاحت کی ضرورت پیش آئی۔
‏Everyone of the huge gathering shouted certainly O apostle of God!ہر ایک اس میں سے پکار اٹھا۔ بڑے زور سے کہا ہاں ہاں اے خدا کے رسول ۔ سچ فرمایا ہے تو نے اور پیغام مل گیا ہے۔
Then the Holy Prophet called Ali son of Abu Talib to mount the pulpit and raised him with miracalous strength of his apolistic hand, so much that the whole gathering could see the whie under his armpit and declared.
کہتے ہیں اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنی نبوت کی غیر معمولی طاقت سے ایک ہاتھ سے علی کو اپنے pulpitپر یوں اٹھا کر اونچا کردیا اور یہاں تک اس طاقت سے بازو کھل گئے کہ بغلوں کی سفیدی جھلکنے لگی ، دکھائی دینے لگی۔ پھر فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا یہ علیٰ مولیٰ ہے۔
To whom soever I am the maula, the lord, the master (یہ ترجمہ انہوں نے مولیٰ کا کیا ہے)This Ali is his maula, the lord, the master. Having said this he prayed.اللھم وال من ولاہ۔
اے اللہ اس کا مولیٰ ہوجا من والاہ جو اس کو مولیٰ بنائے۔ تواس کا مولیٰ ہوجا؟مگر اس کاترجمہ، یہاں ترجمہ مولیٰ کا وہ نہیں لیا جارہا جو خود کررہے ہیں حضرت علی کے تعلق میں ۔ یہاں یہ ترجمہ کرتے ہیں اس کا دوست ہوجا۔ اور یہ ترجمہ درست ہے۔ مولیٰ کا جو ایک اور ترجمہ وہ کرتے ہیں اس کی بحث آگے آئے گی۔ اس وقت آپ سمجھیں گے کہ کتنا یہ تفریق کرتے ہیں ترجموں میں۔ ایک ہی موقعے کے ترجموں میںاللہ کے حوالے سے ترجمہ کرتے ہیں۔
"O God be thou a friend to him who is a friend to him"
یہ خود ان کے ہاتھ کا ترجمہ ہے۔ who is a friend to himاس کا ترجمہ مولیٰ کا وہ نہیںکیا جو اس کا جو۔ مولیٰ کا معنی مالک۔ اگر مولیٰ کا معنی مالک ہے تو اس آیت کا پھر ان کو یہ ترجمہ کرنا چاہیے تھا کہ تو اس کا مالک ہوجا جو علی کا مالک ہے، دوست نہیں۔ جو علی کامالک ہے تو اس کا مالک ہوجا۔ کیونکہ مولیٰ علی کا بھی بن گیا پھر وہ ۔ اور یہ مولیٰ اور مولیٰ کا تعلق دوستی اور تعلق کا تعلق ہی ہوسکتا ہے۔ دونوںایک دوسرے کے مولیٰ بن سکتے ہیں۔ اگر مولیٰ کا ترجمہ مالک کردیا جائے تو جو مملوک ہے وہ کیسے مالک بن سکتا ہے۔ یعنی وہ پھر مولیٰ کہلاہی نہیں سکتا۔ پس اپنا ترجمہ کرتے ہوئے خود اس بات میںپکڑے جاتے ہیں کہ یہاں ترجمہ be friend کرتے ہیں اور ولایت کا وہ ترجمہ نہیں کرتے جو پہلے کرچکے ہیں۔
O God be thou a friend to him who is a friend to him. Be thou an enemy to him which enemy to himعاد من عاداہ And help him who helps himوانصر من نصرہٗ And forsake the one who forsakes him. و اخذ ل من خذلہٗ
As the Holy Prophet complete the stackulation the verse 5:3 was reveald. This day have I perfected you religion for you and have completed my bounties on you and I pleased your religion to be Islam.
کہتا ہے جونہی آنحضرت ﷺ نے علی کو اپنے ساتھ ولایت میں ابوت میں شامل کرلیا اور ہر ایک دوسرے کو کہہ دیا کہ جو میری غلامی کرتا ہے اس کی غلامی کرے۔ جس کا ماملک میں ہوں اس کا مالک یہ ہے ، تو اسی وقت یہ آیت نازل ہوگئی تاکہ آگے سے بات ہی نہ بڑھ سکے۔ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینًا۔ آج میں نے دین کا اتمام کردیا ہے بلّغ والی بات پوری ہوگئی۔ جب تک محمدرسول اللہ ﷺ نے یہ بات نہیں کھولی تھی ، راز سے پردہ نہیں اٹھا یا تھا ،دین کی نعمت تمام نہیں ہوئی تھی۔اب ہوئی ہے اور اب میں اس دفتر کو بند کرتا ہوں۔ اکملت لکم دینکم دین تمہارا کامل ہوگیا۔ رضیت لکم الاسلام دینًا ۔ اس دین کے سوا اب کوئی دین کسی کا قبول نہیں ہوگا۔ یہ ہے شیعہ تفسیر اور شیعہ مؤقف اور اس دین کے بعد دوسرا ہردین بے معنی اور لغو ہے ۔ جو رسول اللہ ﷺ کی اس بلاغت کے مضمون کو نہیں سمجھتا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
decending from the pulpit the Holy Prophet commanded everyone of the large gathering to pay his Bait or homage or elligience to Ali.
کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے pulpitسے اترتے ہی یہ اعلان عام کیا کہ اب میرے سامنے علی کی بیعت کرو۔ سارے کے سارے ، سب فرضی کہانیاں ہیں۔ کوئی وجود ہی نہیں ، شیعہ کتب میں بھی ان کا وجود نہیں مستند کتب میں۔ یہ آگے جاکر میں تحقیق کا جو ماحاصل آپ کے سامنے رکھوں گا تو حیران رہ جائیں گے، کتنے بڑے مفتری ہیں یہ مفسر بننے والے۔ اس قدر بے خوفی کے ساتھ افتراء کرتے ہیں اللہ اور رسول پر اور مؤرخین پر بھی کرتے چلے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے حق لے لیا سب کچھ۔ جن کو طلاق کے حق مل گئے ان کیلئے اور کیا ہے جو نہیںرہا۔ سب کچھ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں۔
To pay his Bait and homage elligience to Ali, the first one to pay the Bait was Umar ibne Khattab.پہلا جو اٹھا بیعت کرنے کیلئے عمر خطاب تھا۔who later became the second Khalifa.اس بات سے سارا تانا بانا اجڑ گیا تھا۔who later became the II Khalifa, what did Umar say.
یہ کہہ رہا ہے sayingسے مراد ہے عمر نے یہ کہہ کر بیعت کی
Bakhe Bakhe Laka Yabna Abi Talib asbahta maula wa maula kulle Momeneen wa Mumenatin.
یہ انگریزی میں چونکہ لکھا ہوا ہے اس لیے ذرا دقت پڑتی ہے۔کہتے ہیں بخِ بخِ کا ہے نہ بخِ بخِ ابوھریرہ۔ تو وہی بخ ہے واہ واہ سبحان اللہ کیا بات ہے اے ابو طالب کے بیٹے اصبعت مولای تو میرا مولیٰ ہوگیا و مولی کل مومنین و مؤمنات اورہر مومن اور مومنہ کا مولیٰ بن گیا۔
Hurrah, Hurrah O son of Abi Talib thou has now become my maula and the maula "master" of every faithful man and faithful woman.
آگے جو حوالہ دیا ہوا ہے وہ عجیب و غریب سا غزّالی سرُّ العالمین۔ ہم نے تلاش کیا تو ابھی تک ہمیںکتاب ہی نہیں ملی کہیں۔ مستند، معروف کتابیں یہ اتنے زبردست حوالے جو اتنے بڑے بڑے واقعات کے دیے جارہے ہیں ۔ یہ حوالہ ہے غزَّالی امام غزالی نہیں ہے غُزَّالی لکھا ہوا ہے یا غُزَّلِیْ ۔ سرُّ العالمین ۔ تمام جہانوں کے جو راز ہیں وہ اس کتاب میں کھولے گئے ہیں۔ (میں نے کہا جس طرح بھی ہو پتہ کرو یہ کتاب کہاں ہے۔ اس میں بڑے بڑے اور راز بھی ہوں گے)۔
hearing the words with which Umar felicitated Ali, the Holy Prophet commanded Umar not to address Ali as son of Abu Talib.
وہ سمجھ گئے حضرت رسول اللہﷺ (نعوذ باللہ من ذالک) کہ عمر بیچ میں کوئی شرارت بھی کریں گے۔ ابو طالب کیوں کہہ دیا تھا تم نے ۔ But as Ameer-ul-Momeneen صرف آئندہ تم نے امیر المومنین کرکے خطاب کرنا ہے۔ خبردار جو ابوطالب کبھی کہا۔
‏The lord commander of the faithful.یہ کہو everyone paid his Bait۔ سب نے بیعت کی اور سارے بھول گئے۔ کس خوابستان کی بیعت تھی وہ۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ کہتا ہے ہر ایک نے وہاں بیعت کی حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ سارے صحابہ نے بیعت کرلی اور پھر کہتے ہیں۔
And the Holy Prophet commanded everyone in the audience to receive Bait for Ali as the Ameer-ul-Momeneen.
کہتے ہیں جو موجود تھے ان کو پھر فرمایا ، اب علی کے نام پر باقی سب سے بیعتیں لے لو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں غدیر خُم پر حاضر موجود ہی گواہ نہیں بنے بلکہ تمام امت مسلمہ اس وقت کی اس طرح اس پر گواہ بن گئی کہ ہر ایک جو حاضر تھا اس نے غائب کی بیعت علی نے نام پر لینی شروع کی اور اگر نہیں تھی تو اس آیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی زندگی تو ختم نہیں ہوئی تھی ، زندگی ابھی باقی تھی۔ اور اس وقت یہ ساری باتیں کیوں رسول اللہ ﷺ کے علم میں نہیں آئیں کہ یہ تو بیعت کرتے ہی سارے پھر گئے ہیں اور کسی ایک نے بھی آئندہ کسی سے بیعت نہیں لی۔ اس لیے نہیں لی کہ فرضی کہانیاں ہیں کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔
In their own places on their return from the Haj.
کہتے ہیں حج پر آئے ہوئے جو ساری دنیا عرب سے اور باہر سے وہ سارے کے سارے جائیں اور علی کے نام پر بیعتیں لے لیں۔
Mir quotes the following sources Kitabul-Wlait (author not named).
یہ بھی ہم نے ڈھونڈی ہے ہمیں ملی نہیں کہیں۔ غیر معروف authorکوئی کتاب الولایت کا لکھنے والا ہے اس کا نام میر علی نہیں لکھتا ہے احتیاطاً۔ اور کہتا ہے اس میں لکھی ہوئی ہے۔
Hadith-ul-Wilait by Ibne Uqba: -
citing the authorities of atleast 101 Sahabas including Hazrat Abu Bakar.
کہتا ہے یہ میں نے اس کتاب سے لیا ہے جو ۱۰۱صحابہ کی طرف روایت منسوب کررہے ہیں جن میںحضرت ابوبکر شامل ہیں۔
‏Umar, Usman, Talha, Zubair and other well known names. (Tabqat-ul-Aanwar)
کہتے ہیں کہ ایک اور کتاب ہے (یہ حدیث الولایۃ کہیں پتہ لگی کہ نہیں؟ ملی کہ نہیں؟) یہ حدیث الولایۃ کہیں ہے ہی نہیں دنیا میں اور یہ روایت جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے ہوئی تھی اس کا حوالہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا جو نزاع پیدا ہوا تھا اس وقت کیوں نہیں دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ توغدیر خُم کا ذکر ہی کہیں نہیں کررہے ، شیعہ تاریخیں خالی ہیں اس سے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو بعد میں کچھ رنجش پیدا ہوئی یا اختلافات وقتی طور پر ہوئے بیعت کرنے سے پہلی کی بات کررہا ہوں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت جب نہیں کی تو غدیر خُم کا حوالہ دینا، یہ کہنا کہ بھول گئے ہو کل میرے ہاتھ پر تم نے بیعت کی ہوئی تھی۔میرے نام پر تم لوگ بیعتیں لیتے پھرتے تھے، یہ ساری باتیں کہاں چلی گئیں۔ لیکن کہتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں پھر روایت بھی کی ہے۔ خود یہ عجیب بات ہے اور روایتیں کیا ہیں وہ میں بعد میں پھر سنائوں گا آپ کو۔ یہ ۱۰۱ کہہ کر جو غیر مسلم پڑھنے والے ہیں انگریزی تفسیریں ، اکثر یہ غیر مسلم ہی پڑھتے ہیں ۔ یہ سپاہ صحابہ والوں کو تو انگریزی میرا خیال ہے آتی ہی نہیں ورنہ اگر وہ پڑھ لیتے تو کچھ اور ہی برپا ہوجاتی قیامت وہاں پر۔ میں یہ اس لیے نہیں بتارہا ان کو کہ وہ قیامت برپا کریں ۔ میں بتا رہا ہوں کہ قیامت برپا ہوچکی ہے اور اللہ ہی ہے جو اس قیامت کے دن قیامت کا فیصلہ کرے گا۔ تم لوگوں کو اختیار نہیں ہے۔ مگر تمہیں پتہ ہی نہیں کہ ہوکیا رہا ہے عالم اسلام میں۔ یہ باتیں ہیں جو ہورہی ہیں۔
An attempt has been made to misinterpret the word moula which actually means Lord into a friend.
کہتا ہے ایک کوشش کی گئی ہے کہ غلط ترجمہ کیا جائے مولیٰ کا۔ جس کا مطلب ہے Lord، آقا کیا غلط ترجمہ کیا جائے۔ friendمیں تبدیل کردیا جائے۔ میں ابھی آپ کو دکھاچکا ہوں کہ وہی لفظ جب آگے بڑھتا ہے تو وہاں خود یہ friendترجمہ کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ اس لیے attemptکی گئی یہ بات ہی جھوٹی ہے۔ آگے جب میں لغت کے حوالے دکھائوں گا تو یہ Lordکا ترجمہ ملتا ہی نہیں وہاں۔ عجیب بات ہے۔
Even then the logical answer to such a misinterpretation would be that Ali would had to be taken in the same sense the Holy Prophet would be to his followers.
یعنی اگر یہ معنی ہے کہ ہر معنوں میں رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ علی کو حاصل ہوگیا تو پھر خاتم النبین بھی علی بن گئے ۔ ہر مقام ، ہر مرتبہ اور پھر باپ تو بن ہی گئے ان کے کہنے کے مطابق۔
Thus according to the proclamatin of the Holy Prophet made at Ghadir-e-Khum the holy Imam Ali has been rested with the authority over the believers and the Holy Prophet himself said it, it should be noted that the word Maula.
(اب یہ لفظ۔ ایک اور خباثت کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ کہتا ہے وہ معنی تو درست نہیں ہے کہ دوست ترجمہ کیا جائے)
it should be noted that the word moula has been used for God himself.
قرآن کریم میں مولیٰ کا لفظ خدا کے متعلق استعمال ہوا ہے۔اب اس سے کیا استنباط ہے ۔ وہ دراصل جو غالی شیعہ ہیں یہ ان کیلئے ایک سند مہیا کی جارہی ہے دراصل اور خود بھی معلوم ہوتا ہے اس کا یہی عقیدہ ہوگا کہ حضرت علی دراصل خدا ہیں۔ تو کہتا ہے کہ دوست کا ترجمہ تو درست نہیں ۔ہاں خدا کا ترجمہ درست ہے۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔
As regards inheritence by right only those with the natural blood relationship are entitled to inherit.
کہتا ہے جہاں تک وراثت حق کے طور پر حاصل کرنے کا تعلق ہے صرف وہی وارث بن سکتے ہیں جو blood relationکے اعتبار سے جس کی وضاحت یہ کرچکے ہیں ، حقدار بن سکتے ہیں۔
This verse also establishes the right of the inheritence of the "aulawiat" that is the guardianship wilayat or Imamat of Ali, ibne Abi Talib for the Holy Prophet when he united the immigrants with the bond of brotherhood declaired brotherhood between himself and Ali and he was also the nearest Ali in the acutual blood relationship where as none else among the immigrants had any blood relationship.
کیوںجی! حضر ت عباس کیblood relationship تھی کہ نہیں۔ اور کون کون آپ کے چچا زاد بھائیوں میں سے مسلمان ہونے کی حالت میں ہجرت کر کے آیا ہے؟ یہ بعد میں دیکھ لیں گے۔یہ کہنا ہی بالکل غلط ہے کہ blood relationshipنہیں تھے۔ حضرت ابن عباس سے اسی طرح blood relation تھے جس طرح حضرت علی کی اولاد علی کے واسطے سے۔ کیونکہ دونوں کا تعلق رشتے میںایک ہی بنتا ہے۔ ایک چچا ہیں ایک چچازاد ہیں۔ تو جو چچا ہے ، چچا کی طرف سے اگرblood relationآگے پہنچ سکتا ہے تو چچا کی طرف سے کیوں نہیں پہنچ سکتی۔ کیونکہ اصل باپ کے تعلق میںرشتہ bloodقائم ہوا ہے۔ حضرت عباس آنحضرت ﷺ کے چچا بنتے ہیں نا اور ابن عباس اسی طرح جس طرح حضرت علی ہیں۔ تو یہ جو قصے انہوں نے بنائے ہوئے ہیں سب فرضی اور لغو باتیں ہیں۔ ان کا نہ لغت عرب سے کوئی تعلق ہے نہ ان حقائق سے جو تاریخ میں محفوظ ہیں۔ فرضی باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔(اس کا ایک نقشہ بنائیں blood relatioinship والا۔ وہ پھر دکھادیں۔ کل دکھادیں گے؟)کہتا ہے:
یایھاالذین امنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم اللہ واعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ و انہ الیہ تحشرون (الانفال:۲۵)
اب اس آیت میں جارہا ہے یہاںکہیں حضرت علی کا ذکر ہے کہیں؟ کیوںجی! بڑے کند ذہن ہیں آپ لوگ ۔ پتہ ہی نہیں۔ اللہ فرمارہا ہے اے مومنو! جب یہ رسول محمد رسول اللہﷺ تمہیں بلائیں تا کہ تمہیں زندہ کریں تو ہاں میں جواب دیاکرو۔ واعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ ۔ اور یاد رکھو کہ اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے۔ وانہ الیہ تحشرون اور اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ درمیان میں حائل اللہ ہے کہ تمہاری کوئی نیت اس سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔ جو عمل میں ڈھلتی ہے چیز یا نہ بھی ڈھلے۔ خدا وہاں گواہ بیٹھا ہے جہا ں سے نیتیں اُٹھتی ہیں اور تمہارے نفس کا ،تمہاری زندگی کا، تمہاری نیتوں سے جوڑ ہے۔ وہاں اللہ بیٹھا ہواہے۔
By this verse the response to the call of the Holy Prophet is the same as the response to the call from God. Thus the immediate response to the call of the Holy Prophet becomes compulsory. It is said that the call of the Holy Prophet is meant the Imamat. It is said, the devine guaidence through the twelve with devinely commission holy Imams.
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نہیںرہے بلکہ وہ سارے اس آیت میں منطوق بن گئے ہیں۔ اس آیت کا مقصد جس طرح رسالت کی بلاغت کا مقصد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد سب کچھ کردینا ہے اور اپنے ساتھ ان کو امت کا باپ بنانا انہوں نے سمجھا ہے ۔ کہتے ہیں اس میں جب یہ فرمایا ہے کہ جب بھی تمہیں یہ بلائیں محمد رسول اللہ ﷺ کہ آئو میںتمہیں زندہ کرو ںتو دوڑتے ہوئے جایا کرو۔ کہو لبیک ہم حاضر ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے محمد رسول اللہ ﷺ یعنی ائمہ اہل بیعت اور یہ بارہ امام تک جو آگے چلتے ہیں یہ سارے اسی آیت کے۔۔۔۔۔
‏Tewlve devinely commissioned holy Imamsاب 12 کا نمبرکیونکر معلوم کرلیا انہوں نے ۔ اسی آیت سے نکلا ہے (کیوں ڈاکٹر صاحب کہیں پڑھا ہے آپ نے۔ آپ کو پتہ ہی نہیں۔ حساب ہی نہیں آتا)۔ پھر میر صاحب آگے چل کر فرمارہے ہیں۔
This is the basic principal of inheritenc in Islam of the reletives who so ever is closer and nearer to the deceased will inherit him(اور دوسرا جو ہے اس کا ورثے کا کو ئی سوال ہی نہیں) The one who is closer and nearer to him in character will be his spirtual heir and the one who is closer and nearer to him in blood will inherit his property.
اس آیت کا مطلب ہے جو characterکے لحاظ سے قریب ترین ہوگا وہ روحانی ورثہ پائے گا۔ closer in bloodسے کیا مراد ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کی ایک بیٹی بھی تھی زندہ تھی، امہات المومنین جوتھیں زندہ تھیں تو closerورثے میں بیٹی ہے یا چچا کا بیٹا۔ یہ بتائیں۔ (کیوں ڈاکٹر صاحب! پھر آپ کو کچھ سمجھ آرہی ہے کہ نہیں۔ صاف آیت پڑھ کر سنادی آپ کو۔ بالکل سمجھ نہیں آتی کیا بات ہورہی ہے؟) کہتے ہیں۔
The one who is closer and nearer to him in character will be his spirtual heir. of course ۔حضرت علی مراد ہیںand nearer to him in charecter and the one who is closer and nearer to him in blood will inherit his property and the persons who combine in him than nearness in both aspects that is in spirit and blood will inherit the position and property, all that is left by the decease.
باقی سب ورثے کے قوانین ختم ہوگئے جو کچھ بھی چھوڑا جائے گا آیت ورثہ کے مطابق سارا چچا کے بیٹے کوملے گا۔ کیونکہ وہی قریبی ہے ، اقرب ہے او رباقی سب قوانین ختم ۔ اور وہ جو شیعہ مسلک چلا آرہا ہے کہ sideپر جاہی نہیں سکتی جائیداد اوپر اور نیچے حرکت کرے گی ، اس مسلک کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا ۔ دلیل وہی بنائی تھی کہ اوپر اور نیچے اور حضرت علی پہلو سے آکر داخل ہوگئے ہیں۔ اقرب کے معنوں میں ڈال کے روحانی وارث بھی وہی ہوگئے اور جسمانی وارث بھی ۔ آخر پر مزید تقویت دینے کیلئے لکھتا ہے پھر یایھاالذین امنوا استجیبوا للہ و للرسولاے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی بات مان لو، رسول کی بات مان لو۔ یہ پیغام ہے جو بلاغت کے ذریعے تمہیں پہنچادیا گیا ہے۔ ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ اس کا اس نے آگے ترجمہ نہیں کیا ۔ مرا د یہ ہے کہ تم پھر بھی نہیں سمجھو گے (جس طرح ڈاکٹر صاحب نہیں ناسمجھ رہے میری بات)۔ یہ ہیں میر احمد علی صاحب اور آغا پویا صاحب۔ ان کی اب جو باتیں اُٹھائی گئیں ہیں وہ تو ظاہر و باہر ، بالکل لغو، بیہودہ اور بے معنی، بے دلیل، بے سند۔ لیکن مزید باتیں انشاء اللہ کل پیش کریں گے۔ ٹھیک ہے۔کل آخری درس ہے نا۔ جو اس طرز کے سلسلے کا ہے۔ مگر آخری آیات کا درس جو تبرکاً ہر سال ہوتا ہے دعا سے پہلے وہ تو ہوگا نا۔ (پرسوں انشاء اللہ) اسی وقت ٹھیک ہے اور اہل ربوہ کو کل مجھے یاد کرادیں ان کو بھی سلام دعا دے دیں ۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اپنے بہنوں بھائیوں وغیرہ کا تو ذکر کررہے ہمیں پوچھا نہیں۔ حالانکہ سارے تم لوگ بھی او رباقی اور ارد گرد کے بھی خطبوں کے دوران بھی اور جگہ جگہ کئی دفعہ اچانک میرے سامنے ان کے نقشے ابھرتے ہیں ۔ اس طر ح لوگ وہاں بیٹھے ہوں گے، اس طرح وہاں بیٹھے ہوں گے اور جو جمعۃ الوداع کا خطبہ تھا اس میں تو بار بار ربوہ کی طرف ، وہاں کی مجالس کی طرف دھیان جاتا رہا دعا کی خاطر۔ تو انشا ء اللہ کل اہل ربوہ کو خصوصیت سے مخاطب کرکے چند ایک باتیں کردیں گے تاکہ آئندہ پھر دعا میں بھی دنیا ان کو یاد رکھے اور وہ دنیا کو یاد رکھیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ29؍رمضان بمطابق19؍فروری 1996ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا اودین و ان کان رجل یورث کللۃ اوامراۃ ولہ اخ او اخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین غیر مضار وصیۃ من اللہ واللہ علیم حلیمO
یہ آیت اور اس سے پچھلی پہلی آیت پہلے بھی بار بار پڑھی جاچکی ہیں اور ترجمہ اور تفسیر بھی کسی حد تک پیش ہوچکے ہیں۔آج صرف محض چونکہ درس جاری ہے ا سلئے تبرکاًاس حصہ کی تلاوت کی گئی ہے۔ اس آیت سے متعلق کوئی اور تفصیلی بحث پیش نظر نہیں سوائے اس شیعہ بحث کے جو اس آیت اور اس سے پہلی آیت کے حوالے سے چھیڑی گئی ہے۔ میر احمد علی اور آغا پویا کے جو اعتراضات ان کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر قرآن سے میں نے اپنے سامنے رکھے تھے ان کے متعلق اکثر معاملات میں تردید وہیں بر موقع کردی گئی تھی۔ اور وہی کافی و شافی ہے کیونکہ عقلی لحاظ سے ان میں سے کوئی بات بھی کسی قدر ہرگز قابل قبول نہیں اور روایت کے لحاظ سے میں نے بیان کیا تھا۔ کسی مستند روایت کا حوالہ دیے بغیر انہوں نے یہ فرضی قصے گھڑے ہوئے ہیں اور ایسے اہم بنیادی امور میں فرضی قصوں پر دین کی بناء نہیں ڈالی جاسکتی۔ لیکن اب وہ ان کے اعتراضات کو ایک ایک کرکے دوسرے سنّی حوالوںکے پیش نظر میں آپ کے سامنے ان کی حقیقت کھولتا ہوں ۔میراحمد علی کے ترجمہ قرآن کریم میں اور مرتضیٰ پویا کے حواشی میںتین باتیں ہیں بنیادی طور پر جو زیر بحث آئی ہیں اور ان پر مزید اب میں کچھ آپ کے سامنے حوالے رکھوں گا۔
غدیر خُم کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرائی جو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی۔ ایک یہ دعویٰ ہے غدیر خم کے موقع پر حضورﷺ نے اعلان فرمایا کہ میں اور جماعت اور علی جماعت کے دونوں باپ ہیں۔نمبر ۳: غدیر خم کے موقع پر حضور ﷺ نے اپنی ازواجِ مطہرات کو طلاق دینے کا حق علی کو دیا جو ایک پیشگوئی کے رنگ میں تھا اور جنگ جمل کی صورت میںپورا ہوا۔ یہ تین ہیں بنیادی ان کے دعاوی جو ظاہراً ایک کوئی بھی معمولی فہم رکھنے والا مسلمان بھی ان کو قبول نہیں کرسکتا، سنّی ہو یا غیر سنّی ہو۔شیعوں میں بھی اہل فہم جو ہیں میرے نزدیک ان کے پاس کوئی وجہ نہیں کہ اسے ردّ نہ کریں۔ کیونکہ بنیادی ردّ کی وجہ ہے آنحضرتﷺ کے دو باپ مقرر کرنا ایسا لغو عقیدہ ہے کہ کوئی شخص جو دین کا مفہوم سمجھتا ہو اور باپ کے ساتھ باپ کا مفہوم سمجھتا ہو ایک لمحہ کیلئے بھی اس تصورکو اپنے ذہن میں، دل میں کسی گوشہ میں جگہ نہیں دے سکتا۔ دوسری بات بھی واضح طور پر ردّ کے لائق اس لئے ہے کہ جو بیعت کہتے ہیں، بیعت کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا طرز عمل آنحضورﷺ کے وصال کے بعد کیا تھا اور تمام صحابہ کا طرز عمل کیا تھا۔ آپ کے ماننے والوں کا اور آپ سے مخالفت کرنے والوں کا طرز عمل کیا تھا ؟ کسی ایک نے بھی غدیر خم کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی حق قائم کیا؟ یا کہا کہ ہم نے دیکھا تو تھا مگر ہم اب انکار کرتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو اختلاف کی بعض وجوہات بیان کیںاور اختلاف نہیں تردّد کی کہ کسی وجہ سے میرے دل میں تردّد تھا وہ بھی شیعہ روایات میں محفوظ ہیں۔ ان تردّد کی وجوہات میں بھی یہاںکوئی ذکر نہیں کہ غدیر خم پر تو میری بیعت کر بیٹھے تھے اور اب مجھے خلافت کے حق سے محروم کررہے ہیں ۔تو اچانک سارے غدیر خم کے واقعے کا تمام صحابہ کی یادداشت سے اس طرح محو ہوجانا کہ گویا یہ واقعہ ہی کوئی نہیںہوا تھا اور اتنے تھوڑے عرصے کے اندر یہ واقعہ ہوجانا ، اگر وہ روایتیں سچی ہیں تو پھر یہ اعجاز ہے اللہ کا کہ اس طرح اس کی یادداشت کو محو کردیا کہ وہ نشان تک باقی نہیںچھوڑا۔ اور گویا خدا نے فیصلے بدل دیئے یہ مانو یا وہ مانو ہر پہلو سے غدیر خم کی گواہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی گواہی اور صحابہ کے اجماعی مسلک سے جو رسول ﷺ کے وصال کے بعد تاریخ میںمشہود ہے یہ قطعاً ثابت ہوتا ہے کہ غدیر خم کے متعلق ان کی تمام روایات ناقابل قبول اور فرضی روایات ہیں۔ اس پہلو سے میں یہ کہہ رہاتھا کہ اہل فکر جو سوچنے والے شیعہ حضرات ہیں ان کیلئے بھی لازم ہے کہ اس کو ردّ کردیں اوربارہا مجھ سے جب شیعہ علماء نے بات کی ہے کئی دفعہ پاکستان میں جب میں دوروں پر جاتا تھا تو بڑے بڑے شیعہ علماء بھی آیا کرتے تھے ۔ایسے مواقع پر گجرات میں خاص طور پر مجھے یاد ہے دو تین جگہوںپر ایسا واقعہ ہوا (ان سے جب میں نے یہ بات ) بڑے جھوم جھوم کر غدیرخم کی روایات میرے سامنے پڑھی گئیں اور بہت ہی سماں باندھ دیا کہ یہ یہ روایات ہیں۔ اب اگر میںیہ کہتاکہ تمہاری روایات میں ذکر ہوگا، سنّی روایات میں نہیں تو وہ کہہ دیتے کہ سنّیوں نے دشمنی سے ان روایات کو نکال دیا ۔ میں نے کہا آپ نے پوری روایات بیان نہیں کیں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوئی روایت بتائیں کہ خلافت کے اختلاف کے موقع پر غدیر خم کا حوالہ دیاہو۔ جیسے کہتے ہیں ’’بُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ‘‘ بالکل خاموش ہکا بکا رہ گئے وہ۔ میں نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بحث کے دوران کبھی اشارۃً یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حمایتیوں نے اپنے غیر شیعوں کی بحثوںکے دوران یہ بات اٹھائی کہ دیکھو سارا جھگڑا ہی خلافت کا یہ تھا اور کثرت سے صحابہ گواہ تھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میںپیش ہورہے تھے لیکن سب کو ردّ کردیا گیا جب اس کثرت سے گواہ تھے تو انہوں نے بیعت کیوں نہ کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی؟ گویا کہ تاریخ کا یہ ایک ایسا باب ہے جسے انہوں نے فرضی حقائق کے طور پر نیا لکھا ہے اور اس مشکل میں پھنس گئے ہیں کہ تاریخ نئی لکھی جا ہی نہیںسکتی۔ تاریخ ایک جاری عمل کا نام بھی ہے وہ جاری عمل جو ہے وہ ثابت کردیتا ہے کہ فرضی کہانیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تسلسل کے ساتھ ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت کرتے چلے جانا اور پھر نہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت یہ مطالبہ کرنا ، نہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت یہ مطالبہ کرنا کہ بیت غدیر کو کیوں بھول گئے ہو؟ اس عہد کو کیوں توڑ پھینکا ہے جو تم نے میرے ہاتھ پر باندھا تھا، یاد کیوں نہیں رہا کہ مجھے تم نے امیر المومنین کہا تھا۔ اب مجھ سے کہتے ہو کہ میں تمہیں امیر المومنین کہوں، کوئی انصاف، کوئی جواز ہے اس کا۔ یہ نہیں کہا مگر اپنا ہاتھ دے دیا۔ اگر ہاتھ دے دیا تو سب سے بڑی مخالفت آنحضرتﷺ کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی روایتیں تو مان ہی نہیں رہے سارے۔ مرکزی نقطہ اس سارے مبحث کا حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنا ہاتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا ہے تو غدیر کا واقعہ کچھ تھا بھی تو اسے ملیامیٹ کردیا ہے، اٹھا کے ایک طرف پھینک دیا اور جس کوبیعت رسولﷺ نے کروائی تھی اس نے اپناہاتھ بیعت میں اگلے کو دے کر اپنی ساری بیعتیں منسوخ کروادیں۔ یہ ہے نتیجہ اور اس بات کے گواہ تمام شیعہ لکھنے والے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی کی، حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی کی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی کی۔ اس لئے کسی پہلوسے بھی دیکھیں اس میں توکوئی جان ہے ہی نہیں۔ مگر چونکہ کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں (اس لئے جورسمیں رائج ہوگئیں) ان کے مطابق میں بعض حوالے اس کے آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، ورنہ یہ ایسی بات ہی کوئی نہیں اس کیلئے حوالوں کی تلاش کی جائے۔ جو یہ دعاوی کئے گئے ہیں ان کی تلاش میں ہمارے علماء نے اہم شیعہ کتب کا مطالعہ کیا ہے اور جو بنیادی اہم شیعہ کتب ہیں ان میںان حوالوں کا کوئی وجودنہیںجو کتابیں انہوں نے لکھی ہیں، میر احمد علی صاحب نے اپنی تائید میں ان میں سے کچھ پر مصنف کانام نہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کے متعلق جو ہمیں پتہ تو لگ گئی ہیں مگر ان کی حیثیت کوئی نہیں۔ ان کی مزید چھان بین ہوگی پھر وہ حوالے ضرورت پڑی تو پھر آئندہ کسی وقت آپ کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ ایک غلطی کی اصلاح ضروری ہے ان کی حضرت امام غزالی کی کتاب کا حوالہ تھا۔ الغزالی لکھا ہوا تھا میں نے کہا یہ توپھر کوئی اور تو نہیں کہیں غزالی ،اور وہ جب تحقیق کروائی گئی توپتہ چلا کہ لفظ غزالی کولغت (ز) کی شدّ کے ساتھ بھی دیتی ہے اور اسماء الرجال میںجو نام ملتے ہیں ان میں حضرت امام غزالی کو الغزالی بھی لکھا گیا ہے اور چونکہ سن وفات وہی ہے اس لئے حضرت امام غزالی ہی ہیں۔ اتنا تو پتہ چل گیا کہ جس کا وہ حوالہ دے رہے ہیں وہ امام غزالی ہی ہیں لیکن انہوں نے کیا لکھا ؟ کب لکھا؟ کیا حوالہ دیا؟ اس کی تحقیق کیلئے ہمارے پاس ابھی وقت ابھی نہیں تھا ۔مگر جب وہ ہوجائے گی تو انشاء اللہ پھر کبھی آپ کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ آئندہ جب یہ درسوں کا سلسلہ شروع ہوگا تو اس میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔
تفسیر قمی جو شیعوں کی بہت اہم کتاب ہے ، تفسیر مجمع البیان اور منھج الصادقین ان کتب میںان تینوں باتوں میں سے کوئی ایک بھی درج نہیں ہے۔ لازماً یہ قیاسی باتیں ہیں اور قیاسی سے مراد یہ ہے کہ ادنیٰ درجے کی کتب میں اگر کہیں درج ہیں بھی تو اتنی اہم شیعہ تفاسیر کا ان کو نظر انداز کردینا ثابت کرتا ہے کہ ان کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں جو بیان دیا ہے وہ اس حد تک ہے ۔ یہ آیت بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ۔ کہ حضورﷺ نے کافی دیر تک ولایت علی کا اعلان چھپائے رکھا مبادہ لوگ کہیں گے کہ اپنے بھائی کے حق میں بات بنالی ہے۔ آخر حکم خداوندی پر مَنْ کُنْتُ مَولاَہٗفرمایا یہ روایت اتنی ہے مجمع البیان میں علامہ طبرسی نے بیان کیا ہے۔ وہ تین باتیں جو اس میں کہی گئی ہیں وہ اس میں بھی نہیں ہیں۔ اب غدیر خم کیا چیز ہے اس کے متعلق میں آپ کو بتاتا ہوں ۔کیونکہ بہت ہی معروف لفظ ہے جس کے گرد صدیوں سے شیعہ، سنّی بحثیں گھوم رہی ہیں۔ اس لیے آپ کو مختصر بتادیتا ہوں کہ یہ کیا واقعہ تھا؟ کیسے ہوا؟ (سارے کاغذات ۔ ہاں! یہاں اکٹھے ایک باب میں مَیں نے کئے تھے)۔
مکے اور مدینے کی شاہراہ پر مدینے کے قریب حضرت رسول اللہ ﷺ کی وہ مسجد واقع ہے جسے مسجد نبوی کہا جاتا ہے۔ اور اس سے کچھ فاصلے پر ایک چشمہ ہے اور قریب ایک تالات ہے جو مسجد سے زیادہ فاصلے پر نہیں قریب ہی ہے، اس تالاب کو غدیر خم کہا جاتا ہے۔ اور یہ حجفہ مشہور شہر سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔ واقعہ یہ ہوا ہے کہ ۱۸ ذوالحجہ۱۰ ہجری کو جب حضور اکرم ﷺ حج سے واپسی پرجب یہاںرکے ہیں تو وہاں آپ نے خطاب فرمایا۔ اس کا پس منظر کیا ہے؟پس منظر یہ ہے کہ حضرت رسول اللہﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے حج پر جانے سے پہلے نجران ایک مہم پر بھیجا جس کا مقصد یہ تھا کہ نجران سے جاکے زکوٰۃ اور دوسرے ایسے مالی حقوق جو اسلام کے ہیں وہ وصول کئے جائیںاور وہ آکر مدینے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کئے جائیں۔ حضرت رسول کریم ﷺ آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واپس پہنچنے سے پہلے حجۃ الوداع جسے کہتے ہیںاس کیلئے روانہ ہوچکے تھے۔ اس لیے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قافلے کویہ خبر پاکے اس قافلے کو جو ساتھ آپ کے لوٹ رہا تھا اس کو چھوڑ کر مکے کا قصد کیا اور آنحضور ﷺ سے مکے جاکر ملے اور اپنے پیچھے ایک شخص کو امیر قافلہ مقرر فرمادیا۔ جب یہ قافلہ واپس پہنچا ہے اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم ہوا کہ یہ آرہا ہے تو آپ ملنے کیلئے اس سے آگے استقبال کرنے کیلئے، حال پوچھنے کیلئے آگے جاکر ان سے ملے ۔تو آپ کو یہ معلوم ہوا کہ اس مال میں جو بطور صدقہ یا دیگر بیت الاموال کی چیزوں کیلئے دیا گیا تھا اس میں کچھ چادریںتھیں۔ اس میں سے ایک چادر بیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے استعمال کیلئے لی تھی مگر یہ حکم نہیںدیا تھا کہ سب چادریں سب میں تقسیم کردی جائیں۔پیچھے جو امیر تھااس نے اپنے فیصلے کے مطابق غالباً یہ سند پکڑتے ہوئے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی چادر لی ہوئی ہے اس نے سب عمال میںجو گئے ہوئے تھے کام کیلئے وہ چادریں تقسیم کردیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وہاں پہنچے اور دیکھا کہ سارے چادریں پہنے ہوئے ہیں (ایک ہی)۔ تو آپؓ ناراض ہوئے اصل میں یہ فیصلہ کہ آپ نے کب تقسیم کرنی تھی یا نہیںکرنی تھیں۔ یہ تو آپ نے صادر نہیں کیا تھا، یہ بحث نہیںاٹھائی کہ چادریں تم نے کیوں لیں ہیں؟ کیونکہ عمال کا بھی کچھ حق ہوا کرتا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ حق استعمال کیا۔۔۔ ان کے حقوق کیلئے۔۔ دے سکتے بھی تھے بحث یہ نہیں تھی۔ بحث یہ تھی کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نہیں کیں۔تو آپ کا منشاء یہ تھا کہ سب کچھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کریں گے پھر اجازت لیں اور اپنی چادر کے متعلق، میں نہیں جانتا کہ یہ واقعہ درست بھی ہے کہ نہیں آپ نے لی تھی، اگر تھی تو خود پوچھا ہوگاپھر اپنے لیے۔ کیونکہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک ہے اطاعت کا، اس سے یہی سمجھ آتی ہے سوائے اس چادرکے باقی معاملہ تو بالکل صاف اور واضح ہے۔ آپ نے وہ چادریں اُتروادیں، ان کی، فرمایا سب اکٹھی کرواس پر ان میں سے کسی نے یا امیر نے یاان کے وفد نے آنحضرت ﷺ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف یہ شکایت کی کہ آپ نے ہم سے یہ سلوک کیا ہے اور جس رنگ میںوہ شکایت تھی اس کی تلخی رسول کریم ﷺ نے محسوس فرمائی اور غدیر کے اس تالاب کے کنارے پر آپﷺ نے جو خطاب فرمایا اس میںحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا کہ تم ان کو کاٹ رہے ہو مجھ سے ، تم یہ سلو ک کررہے ہو۔۔۔
مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہٗ فَعَلِیّ مَوْلَاہٗ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ اگر تم مجھ سے تعلق رکھتے ہو تو پھر اس سے بھی تعلق رکھو، اور آپ کے فیصلوں کی کلیتہً تصدیق فرمادی اور پشت پناہی فرمائی کہ میری امارت، میری مقرر کردہ امارت کے دوران جو فیصلے اس نے کئے ہیں میرے ہی فیصلے ہیں گویا اور تمہیں ان پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ۔ یہ ہے مقصد غدیر خم کے اعلان کا۔ اب جو سنّی روایات میںاس کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہے ’’الکامل لابن الاثیر‘‘رسول کریم ﷺ یہ وہی واقعہ ہے جو میں بیان کرچکا ہوں(اس میں کوئی مزید بات! ہاں! یہ فقرہ)۔ یہ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے ’’البدائیہ والنھائیہ‘‘ میں کہ آنحضور ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ لوگوں نے مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یعنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ تو ہم نے استعمال کیے ہیں)کے خلاف بہت سی شکایات کا تذکرہ کیا ہے اور اس تذکرہ کے جواب میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔
’’ اے لوگو! مجھ سے علی کی شکایت نہ کرو، خدا کی قسم وہ خدا کی ذات اور اس کی راہ میں اموال میں بہت سخت ہے۔ یعنی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت علی اموال کے معاملے میں بالکل بے نفس ہیں اور ان کے اوپر ہرگز کسی حرص کا حملہ ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بالکل درست ہے۔ سو فیصدی اتفاق ہے اس بات سے۔ یہاں شیعہ، سنّی کی کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا ایک کردار تھا اور اموال میں اور دنیا کے امور میں آپ بالکل بے نفس تھے ، تورسول اللہ ﷺ نے یہ گواہی دی ہے وہاں کہ ان کی مجھ سے شکایت نہ کرو، اموال کے معاملے میں وہ بالکل بے نفس ہے۔ اب شیعوں کا جو مسلک ہے اس میں پہلامسلک یہ ہے مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہٗ فَعَلِیّ مَوْلَاہٗ ۔ میں مراد یہ ہے جس کا میں حاکم ہوں علی بھی اس کا حاکم ہے ۔ یہ ہے ان کا مولیٰ کا ترجمہ حاکم کیا گیا ہے (المنجد ) میں یہ لفظ ۱۹ معانی میں بیان ہوا ہے جو ایک بہت ہی مستند عربی لغت ہے اور ایک معنی بھی حاکم کا نہیںدیا گیا۔ مولیٰ کے جتنے بھی معنے ہیں ان میں حاکم کا کوئی معنی نہیں۔ دوسرا ان کا جو استنباط ہے وہ (یہ ہے) قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس سے ہم یہ استنباط کرتے ہیں ۔ وَاِنْ تَظَاھَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلاَہٗ وَ جِبْرِئْیلُ وَ صَالِحُ الْمَؤمِنِیْنَ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَعْدَ ذَالِکَ ظَھِیْرُٗ۔
و ان تظاھرا علیہ اگر یہ دو رسول اللہﷺ کے خلاف اپنا منفی رویہ جاری رکھیں اور آپ کی مخالفت پر ہی کمر باندھ لیں۔ تظاھرا کا مطلب ہے اکٹھے ہوکر آپ کے خلاف چلیں۔ فان اللہ ھو مولاہ تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کا مولیٰ ہے و جبرئیل و صالح المومنین اور جبرئیل بھی اس کا مولیٰ ہے اور صالح المومنین بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ اگر مولیٰ کا ترجمہ حاکم ہے تو پھر صالح المومنین بھی رسولﷺ کا حاکم بن گیا اور جبرائیل بھی حاکم بن گیا۔ تو حاکم کا لفظ ہر جگہ لگ ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے اس آیت سے جو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مولیٰ کا ترجمہ حاکم کرناجائز نہیں۔ اور صالح المومنین، نیک مومن بندے جتنے ہیں وہ بھی (نعوذ باللہ) رسول اللہ ﷺ کے حاکم ہوگئے، مرادہے دوست ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو یہ دوست رکھتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اگر کوئی مخالفت کا ارادہ کرے، اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔ کیونکہ تمام فرشتے اور اللہ تعالیٰ اور نیک بندے خدا کے مؤمن اور فرشتے سب اس کی مددپر کھڑے ہیں یعنی مدد کرنے والے اور نصرت کرنے والے اور دوست ہیں۔
دوسرا ایک اعتراض انہوں نے اسی آیت کے حوالے سے اٹھایا ہے اور وہ یہ ہے کہتے ہیں: جبرائیل و صالح المومنین میں جو لفظ صالح استعمال ہوا ہے یہ واحد میں ہے اور مومنین کی طرف مضاف ہوکر مراد ہے۔ مومنوں میں سے وہ صالح وہ ایک شخص جو سارے مومنوں میں سے صالح ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو فرمایا یہاں بنیاد قائم کی ہے بیویوں کے اوپر کیوں آپ نے مقرر فرمادیا۔ تو گویا خدا نے آپ کو یہ خبر دی تھی کہ اپنی بیویوں کو بتادو کہ خدا ہے، فرشتے بھی ہیں، جبرائیل بھی ہے مگر ایک ایسا بھی شخص ہے میراجس کو میں تم پر مقرر کردو ں گا اور وہ صالح المومنین ہے، مومنوں میں سے صالح ہے۔ اب صالح المومنین کایہ ترجمہ کسی پہلو سے بھی یہاں جائز نہیں نہ بن سکتا ہے کسی طرح ۔ یہ ایک عربی کی طرز بیان ہے جس سے صرف یہ مراد ہے کہ ہر صالح جو مومن ہے مومنین میں سے ہر وہ مومن جو صالح بھی ہے۔ تو واحد میں مراد یہ نہیں کہ ایک مومن مراد یہ ہے ہر مومن جو صالح ہے۔ اگر ایک خاص مومن اس میں مراد ہوتا تو یہ کہنا چاہیے تھا۔ والصالح من المومنین ۔ مومنوں میں سے ایک الصّالح شخص وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کا مددگار ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ صالح المومنین اگر حضرت علی بھی ہوں تو وہ رسولﷺ کے افسر بن گئے؟ مولیٰ بن گئے؟
مولیٰ کا مطلب یہ کہتے ہیں حاکم، اور صالح المومنین کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو مومنین مددگار تھے کیا صرف ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ رہ گئے تھے ؟اور وہ سارے کے سارے جو مددگار تھے جو دس عشرہ مبشرہ گنتے ہیںیہ وہ بھی صالح المومنین کی صفت سے باہر نکل گئے ۔اس لیے یہ نہایت لغو۔۔۔۔ اب بتایا جب درس کا چوتھا حصہ گذر گیا ہے ہاں! پتہ نہیں آواز گئی بھی ہے کہ نہیں۔ جا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ یہ رہ گیا تھا پیچھے یہ پکڑایا کرتے ہیں تو بھول گئے ہیں۔ اب یہ ایک واحد لفظ سے یہ عذر تراشنا کہ ایک ہی مراد ہے اور ایک خاص شخص مرا دہے، یہ عربی کے قواعد سے بالکل لاعلمی کا اظہار ہے یالا علمی تو نہیں ہوسکتی جان بوجھ کر نظر پھیری جارہی ہے۔ ان ذالک من عزم الامور۔ قرآن کریم میں فرماتا ہے اللہ تعالیٰ۔ من عزم الامور یہ امور میں سے بڑے اہم امورمیں سے ایک امر ہے، یعنی ہر وہ امر جو عظمت رکھتا ہو اس کو من عزم الامورکہتے ہیں۔ اس طرح کا مضاف مضاف الیہ ہونا محض ایک صفت کا اپنی موصوف کی طرف پھیرناہے یہ ایک طرز بیان ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اور عشرہ مبشرہ جن کویہ مانتے ہیں وہ سارے صالح المومنین تھے وہ سارے نکل جائیں گے، اس سے ایک ہی مومن خدا نے پیچھے چھوڑا یعنی رسول اللہﷺ کے بعد ۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو اپنے بچے اور جعفر طیاررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سارے کے سارے پھرمومنین کی فہرست سے نکل جائیں گے۔ اب جو دعا ہے رسولﷺکی ،وہ سن لیں اس کا ترجمہ پھر کریں ۔
من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ ۔ اگر حاکم کامعنی تسلیم کیا جائے تو یہ ترجمہ ہوگا کہ جس کا میں حاکم ہوں۔ پس علی بھی اس کا حاکم ہے۔ اللھم وال من والاہ۔ اے اللہ تو جو اس کا محکوم ہے اس کا تو محکوم ہوجا۔ یہ ترجمہ بنے گا۔ وال من والاہ و عاد من عاداہ، اے اللہ جو شخص علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حاکم مان لے والاہ ۔ والِ کا مطلب ہے پھر تو اس کو اپنا حاکم مان لے لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے۔ وال من والاہ۔ والاہ کا مطلب یہ نہیں کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو حاکم ہے ۔ ان کے ترجمے کے مطابق والاہ سے مراد یہ ہے جو علی کو اپنا حاکم مان لے ۔ واضح ہوگئی بات!تو اللہ کیا کرے۔ وَالِ ہُ۔ جو علی کو اپنا حاکم مان لے اے اللہ! تو اس کو اپنا حاکم مان لے۔ یہ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا، صاف ظاہر ہوا کہ ان کے اپنے،خود ہی اپنے جال میں پھنس جاتے ہیں۔حدیث نبوی میں اپنے ترجمہ کے ساتھ آگے بڑھ ہی نہیں سکتے اور ایک ہی معنی ہے جو درست ہے وہ ہے دوست رکھ، وہ سب جگہ برابر بیٹھتا ہے۔ من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ : جس کومیںپیا را ہوں، جو مجھے دوست رکھتا ہے پس علی کو بھی وہ دوست رکھتا ہے۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھتا ہے تو بھی اسے دوست رکھ۔ اور تو بھی اس کا دشمن ہوجا جو اس کا دشمن ہے۔ تودیکھیں کیسے مضمون برابر بیٹھ رہا ہے ۔ آگے ہے مولیٰ بمعنی اَولیٰ وہ جو بحث پہلے گزرچکی ہے وہ nسے مراد شاید nounہو کہ اولیٰ کا nounمولیٰ ہے ۔مگر بہرحال اور سب سے زیادہ قریب ہو۔ اگر مولیٰ کے معنی اولیٰ کے ہیں۔مراد وہی ہے کہ دونوں ہم معنی لفظ ہیں یہاں۔ اولیٰ کے معنی ہیں’’اَلْاَحقّ والاجدر‘‘ اصل میں یہ معنی ہیں جو سب سے زیادہ حقدارہو، اور سب سے زیادہ قریب ہو ۔اگر اولیٰ کے معنی مولیٰ کے ہیں تو اولی باالمحبۃِ کے کیوں نہ مانا جائے ۔یہ انہوں نے ہمارے علماء نے مجھے مشورہ بھیجا ہے کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ بحث وہیں ختم ہوجاتی ہے جب ہم مولیٰ کا ترجمہ حاکم کرکے تو حدیث کے الفاظ میں آگے بڑھتے ہیں تو یہ ترجمہ اسی حدیث کے الفاظ بالکل جھٹلادیتے ہیں اور وہ ٹھیک بیٹھ ہی نہیںسکتا اور یہیں بات ختم سمجھنی چاہیے۔
اب فَدک کی بحث اٹھی ہے اس سے پہلے کبھی کبھی میں فِدک کہتا رہا ہوں ،تو لفظ فِدک نہیںہے۔ اس تحقیق کے دوران جب میں نے معلوم کیا کہ اصل تلفظ کیا ہے تو فَدَکَہے فِدَک نہیں ہے۔ شیعہ کتب مجمع البیان، بحر الانوار، منھج الصادین ، احقائق الحق، کافی، الطرائف وغیرہ وغیرہ نیز کئی دیگر کتب میں بھی جیسے اور ’’الدر المنثور‘‘ اور علامہ سیوطی کے حوالے سے بھی آیت کریمہ وات ذی القربی حقہ : کا شان نزول بیان کیا گیا ہے۔ سمجھے ہیں؟ آیت و ات ذی القربیٰ حقہ کہ کہا جاتا ہے کہ فتح خیبر کے بعد آنحضور ﷺ نے کچھ گائوں اپنے لیے مخصوص کرلیے جس پر جبرائیل یہ آیت لائے کہ اپنے قرابت دارکو اس کا حق ادا فرمائیں۔آپ نے مخصوص تو کرلیے ہیں قرابت دار کو کچھ نہیں دیا۔ حضورﷺنے دریافت فرمایا وہ قرابت دار کون ہے اور اس کا حق کیا ہے؟ جبرائیل نے جواب دیا کہ یہ قرابت دار فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہیں اور اس پر حضورﷺ نے باغ فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا اور پھر چند اور باغات بھی دے دیئے۔اس طرح فدک ایک ہبہ کی صورت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حق بن گیا جسے ناجائز روکا گیا ہے۔یہ ہے شیعہ مسلک۔
فدک ہے کہاں؟خیبر اور تیمہ کے درمیان ایک زرخیز علاقہ ہے جو مدینے کے شمال میں او رکچھ مشرق میں واقع ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں بڑی مدت سے لمبے عرصے سے یہودقابض تھے، وہاں زیادہ ترآباد تھے جب مدینہ سے بنو قینقاع کونکالا گیا تھا(وہاں گئے تھے۔ یا نہیں! کون سا قبیلہ تھا جو خیبر جاکر آباد ہواہے، جو بھی ہو)۔ تین قبیلوں میں سے وہ قبیلہ جو خیبر میں جاکر آباد ہوا ہے وہ اسی علاقہ میں گیا ہے وہاں یہودیوں کے تسلط کا علاقہ تھا، انہوں نے بڑی محنت سے زمینیں آباد کیں اور بہترین جدید اس زمانے کے ذرائع اختیار کرکے نہریں نکالیں، باغات ہوئے، بہترین پھل حاصل ہوتے تھے، بہترین گندم کی فصلیں ہوتی تھیں، بہت زرخیز علاقہ تھا ۔ فتح خیبر کے بعد آنحضرتﷺ کو جب ایک دفعہ اس علاقے کے یہودی موقعہ مہیا فرماگئے آپ ﷺ کے خلاف سارے عرب کو بھڑکانے کی کوشش کے نتیجہ میں (چڑھائی کا) موقعہ مہیا کرگئے ، تب وہ چڑھائی ہوئی ہے خیبر کی اور پھر وہ ساری قوم اس حکومت میں تھی، جو فدک کے علاقے کے یہودی ہیں جب اُنہوں نے دیکھا کہ خیبروالے مقابلہ نہیں کرسکے تو انہوں نے صلح کیلئے ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ ہمیں معاف کردیں ہم یہیں رہتے ہیں اور ہم لڑیں گے نہیں ، آپ ہماری زمینوں میں سے آدھی لے لیں اور باقی ہمارے پاس رہنے دیں۔ چنانچہ اس فیصلے کی رو سے رسول اللہﷺ نے اس علاقے کی وہ زمینیں اپنے قبضے میں لیں، بعد ازاں یہودیوں کا دل وہاں سے اٹھ گیا ہے negotiationsہوئیں پھر جس کے نتیجے میں رسول اللہﷺ نے قیمت دے کر ان کی باقی زمینیں خرید لیں ان سے وہ ساری زمینیں بھی اپنے قبضے میںکرلیں۔ یہ چونکہ جنگ کے نتیجے میں یا جہاد کے نتیجے میں ہاتھ آئی ہوئی زمینیں نہیں تھیں اس لئے ان کے اوپر جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے وہ اورہے اس کو فَے کہتے ہیں۔(فے کا لفظی ترجمہ کیا ہے؟ کس وجہ سے فے کہا جاتا ہے؟ ’’فے کا لفظی ترجمہ پوچھا ہے بعد میں دیکھ لینا یا ابھی دیکھ لیں مل جائے تو ابھی بتادینا‘‘)۔
صرف اتنی بات کافی ہے کہ علاقہ خیبر کے شمال مشرق میں یہ زمینیں تھیں فدک وغیرہ، باغ فدک بھی ان میں سے ایک ہے یہ اموال فے کہلاتے ہیں اور اموال فے کے متعلق حضور ﷺپر جو آیات نازل ہوئی ہیں بڑی واضح ہیں اور اس میں جو مصارف بیان ہوئے ہیں و ہ معین مصارف ہیں۔ تین زمینیں ان میں سے رسول اللہ ﷺ نے اپنے قبضے میں رکھیں۔ ایک مدینے میں اراضی بنی نضیر اس کی آمدنی ناگہانی ضروریات کیلئے موقوف رہی آیت فے کے حوالے سے میں بتارہا ہوں۔ خداتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو جو اختیار دیا تھا کہ پانچواں حصہ اس کا تم ان مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہو۔ تو آنحضور ﷺ نے مدینے میں جو بنی نضیر کی چھوڑی ہوئی زمین تھی اس کو خالصتاً اس بات کیلئے وقف رکھا کہ ناگہانی ضرورتیں پوری ہوں یعنی ریزور بیت المال کا ایک قسم کا قائم کیاگیا ہے۔ کسی وقت بھی ہنگامی ضرورت ہو تو جو کچھ رقم مہیا ہو ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اراضی خیبر میں سے ایک حصہ جس کی آمدنی ازواج مطہرات کے اخراجات کیلئے مخصوص تھی، اس میں سے جو بچ جاتا تھا وہ غریب اور نادار مہاجرین کیلئے صرف ہوتا تھا۔ فدک کی زمین جو زیر بحث ہے وہ ابناء سبیل کیلئے وقف تھی کیونکہ اس آیت میں ابن سبیل کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ذوی القربیٰ یعنی اقربا دوسرے مساکین، تیسرے مسافر، تین ہیں جو بنیادی طور پر اس آیت میں پیش نظر ہیں (آیت کریمہ کہاں ہے وہ پہلے آیت آنی چاہیے اس کے بعد بحث آئے گی۔ چلیں پڑھیں وات ذ القربیٰ حقہ۔۔۔۔۔۔)
یہ آیت دو جگہ واقع ہوئی ہے یعنی نازل ہوئی ہے۔ یعنی دو سورتوں میں الگ الگ مذکور ہے۔ ایک سورہ روم ہے آیت ۳۹ ،اور ایک سورۃ بنی اسرائیل ہے آیت ۲۷۔ بنی اسرائیل کا زمانہ نزول کیا ہے؟ سورۃ روم تو ہجرت سے پہلے کی ہے واضح طور پر اس میں پیشگوئی تھی کہ جو اہل روم ہیں ان کو تھوڑی دیر کیلئے تھوڑی زمین پر غلبہ مل گیا ہے، مشرکین کے خلاف پھر ان کو دوبارہ مغلوب کیے جائیں گے یہ ۔یہ جو مغلوبیت کا دارومدار ہے یہ ایک ہجری میںپورا ہوا ہے، بعض دو میں کہتے ہیں ، ایک سے دو تک۔ گویا کہ یہ آیت تقریباً نو سال پہلے ہجرت سے یا کم و بیش ۸ سال یا ۷ سال پہلے نازل ہوچکی تھی۔ سورہ روم نازل ہوچکی تھی اور اس میں یہ آیت ہے ایک کہ بنی اسرائیل بھی ہجرت سے پہلے کی ہے ۴ سے ۱۱ تک کی اور یہ کہتے ہیں کہ یہاں جو مراد ہیں وات ذی القربی حقہ والمسکین وابن السبیل ۔ ان تین سے حق ذو القربیٰ کا حق ہے، مسکین اور ابن سبیل کا ۔ دوسری آیت میں ہے وات ذالقربی حقہ والمسکین وابن السبیل ولا تبذر تبذیرا۔ دونوں جگہ سے استنباط ہوسکتا ہے۔ اب ان کا استنباط سنیے!(کہاں ہے وہ ان کی روایت جو اس کی تفصیل میں ہم نے پیش کی ہے، ہے میرے پاس)۔
یہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت جس میں وات ذ القربیٰ حقہہے یہ بنی اسرائیل کا حوالہ دیتے ہیں سورہ بنی اسرائیل جو ہجرت سے پہلے نازل ہوچکی تھی اس کی بعض آیات کے متعلق بعض آئمہ کا خیال جس میں شیعہ بھی ہیں یہ ہجرت کے بعد لیکن مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہیں۔جو بھی علماء یہ مانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی بعض آیتیں مدنی دور میں نازل ہوئی ہیں وہ اس آیت کو شامل نہیںکرتے جو زیر بحث ہے۔ اس کے متعلق ایک بھی شیعہ یا سنّی عالم یہ دعویٰ ہی نہیں کرتا کہ یہ آیت مدنی دور میں نازل ہوئی ہے، مکی دور میں نہیں ہوئی۔ پس مکی دور میں جو آیت نازل ہوئی ہے ات ذ القربیٰ حقہ،اس کی شان نزول شیعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد آنحضرت ﷺ نے کچھ گائوں اپنے لیے مخصوص کرلیے جس پر جبرائیل یہ آیت لائے کہ اپنے قرابت دار کو تو اس کا حق ادا فرمائیں۔ سب کچھ اپنے لیے لے بیٹھے ہیں قرابت دار کو بھول گئے۔ یہ ذا القربیٰ کی آیت جو مکی دور میں نازل ہوچکی تھی۔ یہ ۷ نبوی میں یاد دلائی گئی ہے حضورﷺ کو جب انہوں نے وہ گائوں شیعوں کے مطابق اپنے لیے لے لیے۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا یہ قرابت دار کون ہوتے ہیں کچھ بتائو تو سہی۔ دو دفعہ مکے سے پہلے آیت نازل ہوگئی ہے سب جہان کو پتہ ہے کہ قرابت دار کون ہے رسول اللہ ﷺ کو پتہ نہیں۔ اس لیے کتنا دیکھیں سادہ ساسوال ہے جبرائیل نے کہا قرابت دار۔اچھا یہ قرابت دار کون ہیں۔ کن کی بات کررہے ہیں۔ مجھے تو نہیں پتہ۔ وہ کہتے ہیں تب جبرائیل نے کہا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تیری بیٹی ہے۔
؎ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو ساراجانے ہے
ایک باپ کو نہیں پتہ کہ میری بیٹی میری قرابت دار ہے، محمد ﷺ کو نہیں پتہ کہ آیت کا کیا منطوق ہے جو آپ پر ہجرت سے پہلے دو دفعہ نازل ہوچکی ہے اور شیعہ مفسرین کو پتہ چل گیا ہے کہ جبرائیل آئے اور کہتے ہیں کہ کیا عرض کررہے ہیں کیاہوگیا نا بَلِّغ والی بات کی ہے اب تک دن تھوڑے رہ گئے اور یہ ۷ ہجری ہوگئی ہے اور سارے اموال لیے بیٹھے ہو اس آیت کا حق بھی کیوںادا نہیں کررہے ۔جب رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا تو پھر آپ نے کہا اچھا پھر باغ فدک میں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیتا ہوں۔ کہتے ہیں یہ حق ہبہ ہے جو ناجائز بعد میں روک لیا گیا۔اب اس تفسیر میں اس آیت میں کچھ اور بھی مذکور ہیں ان کے متعلق شیعہ کیا کہتے ہیں وہ سننے والی بات ہے(وہ روایت کہاں گئی جہاں ابن سبیل اور مسکین کی تشریح فرمائی گئی ہے۔ شیعہ روایات میں ہے کہ نہیں، اس میں تو نہیں ہے؟ ہاں یہ ہے!)۔ آیت کریمہ کہتی ہے وات ذ القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل ۔ تین کے حق ادا کرنے ہیں۔ اس روایت میںیہ ہے کہ آنحضورﷺ نے ذالقربیٰ کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ ہے ۔ دوسری جگہ یہ لکھتے ہیں کہ وات ذ القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل تفسیر القمی میں یہ بیان ہے یعنی قرابت رسول اللہ ﷺ ’’و انزلت فی فاطمۃعلیہا السلام فجاعل فدک والمسکین من ولد فاطمۃ و ابن السبیل من ال محمدٍ و ولد فاطمۃ‘‘۔
کہتے ہیں یہ تینوں محاورے بالکل واضح ہیں۔ ذالقربیٰ میں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جبرائیل نے بتادیاتو پھر کیا بحث رہ گئی۔ اب رہے مسکین تو وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاکی اولاد ہے اناللہ۔ اور مسافر کون ہوئے کہتے ہیں سارے آل محمدﷺجو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی نسل سے ہیں وہ سب مسافر ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے تین راستوں سے یہ سب خزانے اکٹھے ایک ہی طرف بہادیئے ، الگ الگ دروازے بناکر آخر میں جوڑدیا ۔ یہ تفسیر قمی جو ۱۸ زیر آیت ہذا میں درج ہے وہی ہے۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ مسکین کا تو پتہ چل گیا ہے یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہے مگر ذوالقربیٰ کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی؟ جبرائیل نے جواب دیاکہ آپﷺ کے قریبی رشتہ دارمراد ہیں، تب آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا کہ خداتعالیٰ نے فے میں سے تمہیں کچھ دینے کا مجھے حکم دیا ہے۔ پس میں تم کو باغ فدک ہبہ کرتا ہوں۔ یہ جو روایت ہے اس کو ان آیات کے زمانہ نزول کے ساتھ ملا کر پڑھ لیں، اوّل تو پہلی بات کے الٹ ہے۔ جبرائیل نے تو صرف ذوالقربیٰ کے متعلق میں بتایا تھا کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ذوالقربیٰ کون ہیں اور ابن سبیل اور ان کی بات ہی نہیں کی تھی اس روایت کے مطابق وہ شیعہ مفسرین نے خود بتایاہے کہ مراد کیا ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ بیان کیا تھا کہ آپ کو پتہ چلاکہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد حقدار ہے مسکین کے طور پر لیکن بیچ میں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نہیں پتہ تھا کہ وہ ذوالقربیٰ ہے لیکن اس عجیب و غریب حرکت کے علاوہ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی ہیں جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور شیعہ مفسرصاحب کی جرأت دیکھیں کہتے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو ان آیات پر تعمیل کرنے کی خاطر رسول ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا ، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور اکٹھا کرکے کہا کہ لو باغ فدک، اور باغ فدک ہے ہی کوئی نہیں۔ ۷ ہجری میں باغ فدک ہاتھ آتاہے اور یہ اسے ۴ یا ۵ یا ۶ نبوی میں ، کتنے سال قریباً۱۰ یا ۱۲ سال سے لے کر ۱۷تک یا اس سے بھی زیادہ بنے گا۔ یہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بلالیا سب کو اکٹھے کیا اور فرمایا یہ۔ یہ ان کی حدیثیں ہیں، یہ ان کا معیار ہے اور یہ ان کی تفسیریں ہیں۔ اب سنئے آگے۔ اس باغ کے متعلق جو بحثیں اُٹھائی گئی ہیں شیعوں کی طرف سے ان کا جواب اوّل تو یہ ہے کہ :
رسول کریم ﷺ نے زندگی بھر ان کا چارج کبھی بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیا اور اس کے باغ فدک اور دوسرے اس قسم کے باغات کی آمد سے یا زمینوں کی آمد سے تمام اہل بیت کے اخراجات نکالے گئے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی جو کچھ ودیت ہوا انہی میں سے ہوا اخراجات، جو آمدہوتی تھی۔ ایک روایت قطعی سنّی روایت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئیں اور مطالبہ کیا کہ باغ فدک مجھے دے دیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں اور اس درخواست کو قبول نہیں فرمایا۔ اس لیے سنّی روایات میں اگر کوئی روایت ہے تو منفی روایت ہے تائید ی روایت کوئی نہیں ۔ اس منفی روایت کے تائید میںتاریخ ہے کہ آنحضور ﷺ نے اپنی زندگی میں چارج دیا ہی نہیں تو ہبہ کیسے ہوگیا؟ اور دوسرایہ کہ بعد ازاں جب وصال ہواہے رسول اللہ ﷺ کا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ورثہ مانگا ہے ہبہ نہیں مانگا اوراگر چارج تھا تو مانگنے کی کیا ضرورت تھی،موقعہ ہی کوئی نہیں تھا۔ ورثے کی بحث اٹھی ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھی بات منسوب ہوئی ہے وہ ورثے کی بحث اٹھی ہے اور اسی بحث میں تمام شیعہ وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جن کا ورثے سے تعلق ہے۔پس اگر ہبہ تھا تو ورثہ نہیںہوسکتا۔ہبہ تو ہوگیا اور رسولﷺ کی ملکیت سے باہر نکل گیا ۔ اس لیے اس کو ورثہ کہہ کر مانگنا بالکل بے معنی بات ہے اور اگر یہ ورثہ تھا تو ہبہ نہیں ہے۔ ان دونوں میںسے ایک بات ایک وقت میں لی جاسکتی ہے، دو باتیں اکٹھی لی ہی نہیںجاسکتیں۔ اتنی سی سوچ بھی نہیں یہ لوگ سوچتے، کتابیں بھری پڑی ہیں ورثے کی بحث سے بھی اور ہبہ کی بحث سے بھی۔ یہ تو وہی بلی اور گوشت والا قصہ بن جاتا ہے۔ جوہا نے ایک دفعہ ایک دو کلو گوشت خریدا اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ میں نے ہی کھا نا ہے آج ،خبردار اگر کسی اور کو کھلایا ، میراآج بڑاہی دل چاہ رہا ہے گوشت کھانے کوتو میں چن کرلایا ہوں، تمہارے سپرد ہے۔ وہ بیچارہ گیا کہیں کام پہ اور پیچھے بیوی کے بھائی آگئے ۔ انہوں نے جب خوشبو دیکھی گوشت کی تو کہا لائو نکالو اور سارا گوشت ان کوکھلا کے دال پکادی۔ اور وہ جوہا صاحب جب واپس تشریف لائے تو انہوں نے کہا لائو جی اب میرا گوشت۔ انہوں نے کہا وہ تمہاری لاڈلی بلی کھاگئی ہے سارا۔ بلی اتنا گوشت کھاگئی ہے! انہوںنے بلی کو پکڑا اور تولا، تواگر وہ دو کلو گوشت ہے تو بلی بھی دو کلونکلی تھی۔ اس پر جوہا نے وہ تاریخی سوال کیا ہے جوعربوں کو آج تک کوٹ کیا جاتا ہے ۔ جوہا نے کہا کہ بی بی اگر یہ بلی ہے تو میرا گوشت کہاں گیا، اور اگر یہ گوشت ہے تو میری بلی کہاں گئی؟ تو بعض ایسے معاملات ہیں کہ دو کشتیوں میں پائوں رکھا ہی نہیں جاسکتا، ہبہ اور ورثہ ایسی ہی صورت ہے۔ اگر ہبہ مانگتے ہو توورثہ ہاتھ سے نکلا جاتا ہے ورثہ مانگتے ہو تو ہبہ ہاتھ سے نکل جاتاہے۔ اس لئے دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر شیعوں نے اپنے مؤقف کو خودبالکل تبادہ کردیا ہے اور کسی روایت کی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیںچھوڑی۔ تمہیں آج تک یہ نہیںپتہ چلاکہ ہبہ تھا یا ورثہ تھا، اور اگر ہبہ تھا تب بھی اور اگر ورثہ تھا تو تب بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا مؤقف کیا ہوا؟ تین خلفاء تک تو آپ کہہ سکتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھا کہ ہبہ تھا یامعلوم تھا کہ ورثہ ہے اور مجبور تھے، جب خود خلیفہ بنے تو پھرکیوں اس کو تقسیم نہ کیا ۔جب خود خلیفہ بنے تو باغ فدک کے علاقے میں ایک کنواں کھدوایا اور اس کنویں سے کہتے ہیں ک پانی اس طرح نکلا جیسے اونٹ کی گردن ہو، بھر پور چشمہ پھوٹ پڑاہے۔ ایک مبارکباد دینے والامبارکباد دینے آیا، آپ نے فرمایا مجھے کس کی مبارکبادکی مبارک دیتے ہو یہ تو صدقہ ہے جو اُمت کامال ہے، اس کی مبارک امت کو دو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔
تو ورثے والے مضمون کو بھی اور ہبہ والے مضمون کو بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فیصلہ جومسلّم ہے یہ کالعدم قرار دیتا ہے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتا۔اور اپنے زمانے میں بھی جب ان فیصلوں کو نہیںبدلا یا شیعوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ بتائو یہ کیا قصہ ہواہے۔ وہ کہتے ہیں یہ ہماری شان کے خلاف ہے۔کہتے ہیں کہ کسی امام سے پوچھا تھا کسی نے ، تو اس نے فرمایا ہم چھینی ہوئی چیزیں واپس نہیں لیا کرتے۔ یہ عجیب سا جواب ہے، چھینی ہوئی چیزیں واپس نہیںلیا کرتے۔خداتمہیںدیتا ہے اور خدا فرماتا ہے جو اپنے حق کی حفاظت میں جو مارا بھی جاتا ہے وہ شہید ہے اور حقوق کی حفاظت چھینی ہوئی چیزوں میں ہوتی ہے اور کس چیز میں ہواکرتی ہے اور چھینی ہوئی چیزیں رسول ﷺ نے واپس لیں، جہاں دشمن نے کسی چیز پر قبضہ کیا ان کو ہٹا کر نکالا۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ چھینے ہوئے سارے اسلام کے حقوق، عظیم جہاد کرکے باغیوں سے واپس لیے، چھینی ہوئی چیز کیلئے تو لڑائی ہوا کرتی ہے۔ دوسرے کی چیز چھیننے کیلئے تو لڑائی نہیں ہواکرتی۔ پس کہتے ہیں کہ ہم آئمہ کی یہ شان ہے کہ چھینی ہوئی چیز واپس نہیں لیتے۔ یہ بالکل ایک جھوٹ فرضی بات ہے، کسی امام نے یہ جواب نہیں دیا۔ یہ بھی ان کی بنائی ہوئی روایات میں سے ایک روایت ہے ۔ جن کو عادت ہے باتیںگھڑنے کی وہ ہر بات گھڑ لیتے ہیں، کیونکہ تاریخ گواہ ہے ان کے مقابل پر اس تاریخ کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین خلافتوں کا زمانہ دیکھ کر ان کی بیعت کرکے ان کی ہاں میں ہاں ملا کر جب خود اس منصب پر آتے ہیں تو ان سابقہ فیصلوں میں سے ایک کو بھی تبدیل نہیں کرتے۔ یہ مرکزی حقیقت ہے جس کو کوئی شیعہ بحث تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس وقت وہ حوالے پڑھنے کا وقت نہیںہے کیونکہ آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے قریباًاور میں نے وعدہ کیا تھا بعض لوگوں سے کہ سوالات کے جواب دوں گا تو سردست اسی پر بات پرختم کرتے ہیں ۔وہ قبیلہ جن کو بھیجا گیاتھا، دیس نکالاملا تھا اور خیبر کی میں جاکر آبا دہوئے تھے وہ بنو نضیر تھے۔ اب سب سے پہلے تو سوالات میں ان دو کو حق ملے گا جن سے وعدہ کیا تھا کہ اگلے سوالات میں انشاء اللہ تمہیں حق دیا جائے گا۔ ایک صاحب سوال کررہے تھے ، ۳ سوالات تھے دو کرچکے تھے ایک باتی تھا وہ کہاںہیں۔ ایک والے جن کا ایک سوال باتی ہے، وہ نہیںآئے اور وہ بھی نہیں آئے، رشید صاحب بھی؟ کل آئے تھے؟ تو پھر یہ میری غلطی ہے کل میں بھول گیا تھا حالانکہ اس درس کے بعد مجھے وعدہ یاد آیا کہ ان سے تو میرا وعدہ تھا کہ اگلے سوال و جواب کے وقت آپ دونوں کو پہلے موقع دوں گا۔ تو کل نہ انہوں نے یاد کرایا نہ آپ میں سے کسی نے یاد کرایا کہ یہ وعدہ پورا کرنا ضروری ہے ۔ تو آج میں نے کہا ہے آج وہ نہیں آئے اور اب وہ شکوہ جو ہے ان کی عزیزہ کا وہ اب مجھ پر نہیں ہے۔ کراچی سے ان کی ایک عزیزہ نے لکھا تھا خط کہ ہمارے رشید صاحب کہاں غائب ہوگئے ہیں ، وہ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ تو اب موقع تھا میرا خیال ان کو دکھادوں کہ آپ دیکھ لیں ان کوکوئی مجبوری ہے۔ اگلے سوال ہیں آپ کے پاس کچھ ؟اور کچھ لوگوں نے بھی کرنے ہوں گے۔ تو پہلے آپ اٹھائیں گے سوال یا پہلے موقع دیں ان کو۔ اچھا جی فرمایئے۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ لمبا عرصہ بیٹھے رہنے کے بعد کافی لوگوں کو مشکل پڑتی ہے اُٹھ کرچلنے پھرنے میں طبعی بات ہے یہ۔’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ‘‘۔
سوال:- اگر کوئی شخص مثلاً پاکستان میں ہے اور اس کے بچے پاکستان سے باہر ہیںاوررجسٹری بھی کرواتا ہے۔ وہ اپنی جائیداد جماعت کے نام کردیتا ہے اور سب انتقال کرادیتا ہے، اس کے بعد اس کی وفات کے بعد بچے کلیم(Claim)کرتے ہیں (وہ) اپنی جائیداد کیلئے۔ تو کیا وہ ان کو مل سکتی ہے ؟(پاکستان والوں کوپھر مل سکتی ہے) کہ نہیں(اگر بچے بھی پاکستان ہی میں ہوں( نہیں بچے باہر ہیں) مجھے سمجھ آگئی ہے ۔آپ نے باہر نکال کے کیوں سوال کیا ہے ان کو؟ (اس کے بعد وہ آجائیں پاکستان) ضرورہی باہر نکالنا ہے بیچاروں کو۔
جواب:- کچھ ایسے بھی توہوں گے جو بچے پاکستان میںہوں اور وہ جائیداد اپنی ہبہ کردیں ان کے والدین۔ پھر ؟دیکھیں ایسی صورت میںبعض دفعہ ۔ اوّل تو یہ کہ تیسرے کی بحث کے کیامعنی ہیں۔ کیا وہ ایک نصیحت ہے، حقوق کی حفاظت کی خاطر یا حکم ہے ۔ یہ ابھی بحث طے ہونے والی ہے کیونکہ اگر وہ حکم ہے تو پھر حضورﷺ خود بھی اس کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ میں بحث پہلے چھیڑ چکاہوں۔ وہ اولاد کوخالی نہ چھوڑنا،بے وارث نہ چھوڑنا، بغیر کسی سرمائے کے کلیتہً ، فقیروں کی طرح نہ چھوڑ دینا۔یہ مضمون رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ چھیڑا ہے،یہ نہیںچھیڑا کہیں بھی کہ خدا کی منشاء کے خلاف ہے)۔ اس لیے جو ایسی احادیث ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ کہیںبھی آنحضور ﷺ خداکی مرضی اور منشاء اور قرآن کے حوالے سے یہ نہیںفرماتے کہ تمہیں اجازت ہی نہیں خدا نے دی۔ بلکہ فرماتے ہیں اولاد کا بھی تو خیال کرو ان کو بے سہارا نہ چھوڑو۔ اس سے ایک فیصلے کی نوعیت پر روشنی پڑتی ہے۔ دوسرا یہ بھی فرمایا ’’وَالثُّلُثْ کَفِی‘‘ کہ تیسرا حصہ بھی بہت ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ مطلب نکالا ہے کہ کفی سے مراد ہے کہ زیادہ ہے، تیسر ا حصہ بھی نہیںہونا چاہیے۔ مگر اگر یہ ہوتا تو حضور ﷺ کم فرمادیتے ۔ اس لیے یہ استنباط درست نہیں ہے۔ والثُلثُ کفی کا مطلب کافی ہے ۔ اگر تیسرا حصہ کسی کو دے دیا جائے اور اتنا بھی نکال لیا جائے تو بہت کافی ہے یہ، اس کی نوعیت کیا ہے؟ فقہی لحاظ سے یہ ابھی بحث ہے سمجھ گئے ہیں اور یہ جب فیصلہ ہوگا اس کے بعد یہ بات ہوگی۔ جہاں تک ایسے وصیت کرنے والوں کا تعلق ہے جو میرے سامنے بعض دفعہ پیش کرتے ہیں اس پر جو میں مؤقف اختیار کرتا ہوں وہ میں آپ کو بتادیتا ہوں ۔ ایک ہمارے خاندان کی عزیزہ ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ میں اپنی ساری جائیداد ہبہ کرنی چاہتی ہوں جماعت کے نام۔ پہلے جو اس میںنام لیے گئے کہ میں فلاں فلاں کو اتنا دینا چاہتی ہوں اور جماعت کو اتنا دینا چاہتی ہوں۔ اس میںایک میرا نام بھی رکھا اور برابر کا حصہ دار مجھے کیا باقی لوگ جو ساتھ تھے میں نے وہ منظور نہیں کیا۔ میںنے کہا میرا نام تو آپ بیچ میں سے کاٹیں اور باقی جو ہیں ان کو آپ اپنی مرضی سے پھرحصے تقسیم نہ کریں وہ تو خدا نے آپ کے وارث جن کو بنایا ہے قانون چلے گا، (خدا کا قانون اس پر) انہوں نے پھر کہا کہ بتائو پھر کیا کرنا چاہیے۔ ملک سیف الرحمن صاحب سے میں نے مشورہ کیا اور بعض بزرگوں سے۔ ان سے میں نے کہا کہ ایک ہی صورت ہے آپ کے ہبہ کو قبول کرنے کی کہ جتنے آپ کے جائز وارث بنتے ہیں ان وارثوں سے مجھے یہ تحریر لے دیں کہ ہمیں اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ شرح صدر ہے اور بعض سے میں نے خود بھی پوچھا ۔ چنانچہ سب متفق تھے اس بات پر کہ ہماری بہن نے جو خواہش ظاہر کی ہے ہمیں ۱۰۰ فیصدی اتفاق ہے ، آپ یہ جماعت کیلئے لے لیں اور اس میں بھی وہی رنگ انہوں نے اختیار کیا جو حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میںزندہ ہوں اس میںسے آپ اپنی مرضی سے میرے عزیزوں پر جتنا چاہیں خرچ کریں ۔ کیونکہ جماعت کے بھی آپ ہیں امین ہیں اور میرے معاملات کے بھی آپ ہی امین ہیں۔ اس لئے آپ جتنا چاہیں ان پر خرچ کریں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ مگر میری وفات کے پر جب ورثہ بنے گا تو پھر یہ کلیتہً جماعت کا ہوگا۔ یہ جوان شرائط کے ساتھ میں نے قبول کیا ہے سمجھ گئے ہیں ؟اور اس میں کہیں کوئی قباحت کی بات نہیں ہے۔ مگر اگر فیصلہ یہ ہو کہ زندگی میںایک انسان اپنی جائیداد ہبہ کرسکتا ہے تو پھر اور شکل بن جاتی ہے۔ مگر کرسکے یا نہ کرسکے میں آپ کو بتارہا ہوں کہ بعض مؤقف ایسے میں نے اختیار کیئے۔ اس کے علاوہ اور بھی بعض واقعات ہیں۔کسی نے لکھا ہے کہ میں اپنا سب کچھ دینا چاہتا ہوں میں نے کہا اپنی اولاد سے بھی یہ لکھواکر دو کہ ان کوا عتراض نہیں ہے اور مجھے یہ بھی اطمینا ن ہو کہ تمہاری اولاد کھاتی پیتی ہے۔ یہ الگ بات تھی جو میرے پیش نظر تھی میںجانتا تھا کہ ان کو کوئی نقصان نہیں۔ ٹھیک ٹھاک ہیں اللہ کے فضل سے اور شوق سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری بہن کی خواہش پوری ہو۔ تو کیوں نہ ہو پھر یہ جو دوسرا حصہ ہے اس کے متعلق میں نے جب پوچھا تو پھر اولاد کی سارے ورثاء کی انہوں نے تحریریں بھیجیں۔ ہر ایک نے کہا کہ ہاںہمیں منظور ہے تب میں نے وہ قبول کیا اور جہاں مشکوک دیکھا وہاں نہیں کیا ۔ تو یہ جاری مسلک ہے۔ آپ کا جو معاملہ ہے جو انفراد ی معاملہ آپ کے ذہن میں ہے اس کی تفصیل میں مَیں نہیں جائوں گا کیونکہ وہ قضائی معاملہ ہے۔ میں نے اگر کوئی بات آپ کے معاملے میں کردی تو وہ میرے حوالے سے فیصلے ہی ہوجائیں گے۔سمجھ گئے ہیں۔ میںنے اب تک کا اپنا مسلک اس لیے واضح کیا ہے کہ اہل قضاء اور اہل فتویٰ جتنے بھی بزرگ ہیں ان کومیرے اس مؤقف کا علم ہو اوراگر وہ سمجھتے ہوں کہ یہ مؤقف بھی قابل اعتراض ہے۔ کسی پہلو سے قابل اعتراض سے مراد یہ ہے کہ ان کے علم میں اس کے برخلاف دلائل ہوں تو ان کو چاہیے کہ مجھے بھیجیں ، ٹھیک ہے؟باقی فیصلہ قضاء کرے گی میں نہیں کروں گا۔
(ایک بڑا نازک سوال ہے حضور!(وہ پہلا کم نازک تو نہیں تھا) وہ یہ ہے آپ نے جو فرمایا تھا (نازک کی بات یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک مجلس لگی ہوئی تھی بہت زبردست قتل کا معاملہ تھا اور پنچائیت بیٹھی ہوئی تھی قتل کے معاملے پر غور کررہی تھی ۔ دروازہ کھٹکا اور ایک صاحب تشریف لائے اور چوہدری صاحب سے انہوں نے کہاکہ میں نے بات کرنی ہے۔ چوہدری صاحب جوپنچائیت کے سردار تھے انہوں نے کہاہوش کرو، عقل کرو دیکھتے نہیں کہ کیا کتنی اہم بات ہورہی ہے ۔ اس نے کہا چوہدری جی ’’جہیڑی گل میں لے آیاواں او ہ وی قتلوں گھٹ نہئیں اے‘‘، قتل سے کم نہیں ہے۔ وہ کیا بات ہے کہ پچھلے سال جو آپ کی بھینس مرگئی تھی وہ پھر نہیں نظر آئی تو آپ بھینس کا ذکر چھوڑیں اور واپس آکے بیٹھ جائیں دوسروں کو بھی بات کرنی ہیں۔غصہ آپ پر نہیں لوگوں کو۔تھکے ہوئے ہیں درس کے آخر پر ان کی خاطرکیا ہے۔ آجائیں تشریف لائیں۔دوسرے اور بھی لوگ ہیں کچھ جو سوال لائے ہوئے ہیں ان کا وقت نہیں ضائع جائے۔ جزاکم اللہ ۔ اگلا کوئی ہے سوال ؟
سوال:- حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے قبضے میں بھی بغیر نکاح کے لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں تو کیا یہ بات درست ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا کلام جو ہے؛
جواب:- بات سنیں یہ لونڈیوں کی بحث میں اس وقت نہیںمیں اُٹھائوں گا جہاں جن شرائط کی رو سے قرآن کریم نے جائز قرار دیا وہ میں نے کھول دی ہیں اس میں کوئی کمزور دفاع کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ اس زمانے کے جو رواج تھے اور جنگی قیدیوں کو لونڈیاں بنایا جاتا تھا اُن لونڈیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ معاملات کے متعلق میں تفصیلی بحث کرچکا ہوں ۔ اس لیے ایک حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے میں کوئی جواب نہیں دوں گا۔ سمجھ گئے ہیں۔
سوال:- حضورسورۃ انفال میں یہ جو اموال غنیمت کے بارے میں آیا ہے کہ وہ بھی ترکہ شمار ہوگا، (صدقہ کیوں شمار ہوگا، نہیں ترکہ)۔ اموال غنیمت کی جو تقسیم ہے وہ جنگ میں جیتے ہوئے اموال کی تقسیم ہے وہ زیر بحث نہیں ہیں اس میں ۔ جن کو دے دیئے جاتے ہیں ان کی ملکیت ہوجاتی ہے اور پھر ان کا ترکہ چلتا ہے۔اس کا اطلاق فی زمانہ بھی ہوگا؟
جواب:- ہاں اگر آپ جائیں بوسنیا پر حملہ کردیں غیر مسلموں پر ، پھر جو مال ہاتھ آئے گا مجھے بھی بتانا پھر میں آپ کو بتائوں گا مال کی بات کررہے ہیں کہ لونڈیوں کی بات کررہے ہیں؟اگلا سوال۔
سوال:- میرا سوال یہ ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی زندگی میں کسی وجہ سے مثال کے طور پر ٹیکس بچانے کی صورت میںاپنی جائیداد اپنے ایک آدھے بیٹے کے نام لگادیتا ہے ۔ تو آیا اس صورت میں اس جائیداد میں سے وصیت یا اس سے دوسرے لوگوں کا حق جو اس کے مستحق ہیں ان کو ملے گایا نہیں؟
جواب:- یہ ٹیکس بچانا یا دوسری ضرورتیں یہ بحث یہاں بے تعلق ہے۔ سوال صرف اتنا ہونا چاہیے کہ کوئی شخص کسی بچے یاکسی بچی کے نام بے نامی جائیداد منتقل کرتا ہے۔ محاورہ بے نامی ہے۔ بے نامی اس جائیداد کو کہتے ہیں جس کو قانوناً تو تبدیل کردیا گیا ہومگراند ریہ بات خاندان میں مشہور ہو اور عام ہو کہ یہ واقعتا دی نہیں گئی بلکہ کسی مصلحت کے پیش نظر نام کے طور پر دی گئی ہے۔ ایسی جائیدادیں مرنے والے کی وفات کے بعد برابر تقسیم ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ شریعت نے فرمایا ہے ۔ یا وصیت کے مطابق اس کا حق نکالا جاتا ہے یا بیان دیا جاتا ہے اور اس بے نامی کو بے معنیٰ سمجھا جاتا ہے اس لحاظ سے۔ بعض دفعہ بے نامی جائز ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ناجائز ہوتی ہے۔ بے نامی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ جب یہ قوانین بنے کہ ہر شخص کو اس سے زیادہ جائیداد کا اختیار نہیں ہے رکھنے کا تو اس کی شہرت ہوچکی تھی اور بہت سے زمینداروں نے اس قانون کے بننے سے پہلے اپنے اکیلے کے نام کی بجائے اپنے تمام ورثاء کے نام اس کو تقسیم کردیا اور تقسیم کرتے وقت اس کو حصہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقسیم نہیں کیا بلکہ ویسے کردیا تاکہ دو سو اگر بٹ سکتی ہے تو دو دو سو کرکے سب کو تقسیم کردیا اور اس گورنمنٹ کے علم میں ہے۔ یا علم میں تھا۔ اور کسی قانونی ادارے نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ کیونکہ قانون کی رو سے قانون کے ماخذوں سے پہلے اگر تم یہ تمام کرتے ہو تو جائز ہے۔ پھر مالک وہ شمار ہوگا قانون کی نظر میں۔ یہ ایک بے نامی کی شکل ہے۔ اس بے نامی کے بعد جو مرنے والے وفات پاگئے ان کی جائیداد شریعت کے مطابق تقسیم ہوئی ہے۔اوراس بے نامی کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی گئی۔ ہاں اگر کوئی ضد کرکے بیٹھ جائے تو قانون سے تو ہم نہیںلڑ سکتے پھر۔ پھر ہم یہ کہتے ہیں یہ مال جس کو تم نے شریعت کے منشاء کے خلاف قبضہ کیا ہے ، تم اس کے دیندار ہو خدا کے حضور، اسے چھین نہیں سکتے اس لیے بے نامی ان لوگوں کے نام کی جاتی ہے عموماًجن پر اعتما د ہو مگر کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اعتماد کے باوجود اُس اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ ہے عمومی نصیحت مزیدکوئی معین باتیں آپ کے ذہن میں ہیں تو یہاں اس کا سوال نہ کریں۔
سوال:-ڈنمارک سے سوال ہے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۶ کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضور نے الفحشاء سے مرا د ہم جنس پرستی کا گناہ بیان فرمایا تھا تو یہ بات خوب واضح ہوگئی تھی لیکن سورۃ طلاق کی آیت نمبر ۲ میں فاحشۃ مبینۃکے الفاظ آتے ہیں اور آیت کا وہ ٹکڑا یہ ہے کہ ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ۔ ان کا سوال یہ ہے کہ۔
جواب:- میں سمجھ گیا ہوں۔ بالکل برعکس حکم ہے وہاںایک جگہ یہ ہے کہ اگر وہ فاحشہ مبینہ کی مرتکب ہوںتو ان کو گھروں میں پابند رکھو، قید نہیں۔ گھر وں میں پابند رکھو اور ان سے حسن معاشرت بھی کرو، ذلیل سلوک نہیں کرنا۔ ان کے حقوق ادا کرو ، صرف بد ی سے روکنے کی خاطر یہ انسدادی کارروائی ہے۔ دوسری جگہ سورہ النساء میں فرمایا ہے کہ ہر بیوہ کا یہ حق ہے کہ ایک سال تک تم اس کو اس گھر میں رہنے دو اور اس کے ساتھ حسن معاشرت کرو اور اس کو اپنے گھروں سے نکالونہیں۔ سوائے اس کے کہفاحشۃ مبینۃ کی مرتکب ہوں ۔ تو بہت ہی اچھا سوال کیاکسی سوال کرنے والے نے ۔ ماشاء اللہ بڑی ذہانت کا سوال ہے۔یہی سوال ہے نا بعینہٖ کہ ان کو نکالو نہیں وہاں فرمایا ان کو نہ نکلنے دو، یہاں فرمایا ان کو نکال دو۔ اس سے نہ نکلنے اور نکلنے کے جو متضاد مضامین ہیں ان پر روشنی پڑتی ہے ۔ا صل صورتحال خود کھل جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اگر وہ تمہاری بیویاں ہیں ،تمہاری تحویل میں ہیں، ان کی بری حرکتیں تمہارے نام پر دھبے لگاتی ہیں ، تمہاری شہرت کو داغدار کرتی ہیں تو تم نے تمہارے حفاظت کے حق کو مجروح کرتی ہیں تمہارے سپرد خدا نے کی تھیں۔ تم نے اس حق کو ادا نہیں کیا، اس طرح سے خدا کے حضور تم دیندار بنتے ہو ۔ تو پھر ان کو نہ نکلنے دو تاکہ ان کی حفاظت پوری ہو۔ وہاں بیوہ آزاد ہوجاتی ہے۔ اور یہ آیت بلکہ اس ترجمے کی تائید میں ہے جو میں پہلے آپ کے سامنے رکھ چکاہوں(یَجْعَل اللّٰہ لَھُنَّ سَبِیْلًا) سوائے اس کے اللہ اس کیلئے کوئی سبیل نکال دے۔ اگروہ شادی شدہ ہیں تو ان کی ایک سبیل یہ ہوسکتی ہے میں نے کہا تھا کہ ان کا خاوند مرجائے پھر بطور بیوہ وہ آزاد ہیں پھر ان کو پابند کرنے کا دوسروں کو کوئی حق نہیں ہے اور اپنے عمل میں آزاد ہیں۔ اگر وہ پکڑی جائیں گی تو سزا جو بھی اس وقت کی ہے وہ ان کو دی جائے گی مگر ان کے بدعمل کا ذمہ دار کسی کو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ خاوند فوت ہوگیا ہے، بیوہ خود اپنی ولی بن جاتی ہے۔ توفرمایا ایسی صورت میںان کو رکھنا تمہارے لئے مصیبت ہے ۔ اگر ان کو رکھو گے، تواوّل تو وہ آزاد ہیں اپنے حق میں، ان کو زبردستی رکھنے کا حکم نہیں دیا جارہا حکم یہ دیا جارہا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ان کو استفادہ کرنے دواس رخصت سے۔اگر وہ اس مبینہ فاحشہ کی مرتکب ہوچکی ہوں تو پھر تم پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ ان کو اپنے گھروں میںرکھو۔ پھر ان کو کہو اپنے گھروں میں جائو،تم آزاد ہو ہم تمہاری بدنامیاں اپنے سرنہیںمنڈھ سکتے۔اس لئے تضاد نہیں ہے۔ اس سے بلکہ مفہوم کو گہرے طور پر سمجھنے میں ہمیں مدد ملی ہے۔
سوال:- ایک دوست کا سوال ہے کہ موجودہ دور میں مجرموں کو پکڑنے کیلئے وڈیوںکیمرے وغیرہ نصب کیے جاتے ہیں ۔ فاحشہ یا زنا کے مرتکب افراد جو بے حیائی کے مرتکب ہوں ان کی ویڈیو فلم قاضی کے سامنے بطورگواہی کے طور پرپیش کی جاسکتی ہے؟کیا چار گواہ۔۔۔۔۔۔
جواب:- یہ جو ہے مضمون اس کے متعلق کئی آراء ہوسکتی ہیں میں اس کے بارے میں بالکل قطعیت سے ایک رائے رکھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جو چار گواہوں کا مضمون ہے وہ محض گواہی کے پختہ ہونے کے لحاظ سے نہیں ہے۔ بلکہ ایسے معاملات میں معاشرے کو ایک امن دینے کا مقصد ہے تاکہ بے وجہ شکوک کے نتیجے میں تم لوگ زیادتیاں نہ کرتے پھرو ۔ چنانچہ اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی الزام تراشیاں ہوں تو شک کا فائدہ جس پر الزام لگایا جارہا ہے اس کو دو اور حدود کے جاری کرنے میں جلدی نہ کرو۔کیوں جی ہے نا ایسی حدیث؟ الفاظ آ پ کو یاد ہے یا نہیں؟ اچھا چھوڑدیں یہ مجھے پتہ ہے قطعی طور پر ہے۔۔۔۔ بالشبھات اور ایک اور بھی ہے حد قائم کرنے میں جلدی نہ کرو۔ شبہات کے نتیجے میں تم حد جاری نہ کرو اور حد مسلمانوں کے متعلق جاری کرنے میںویسے ہی احتیاط سے کام لو اور اس کو ایک پسندیدہ مشغلہ نہ بنا رکھو ۔ دوسری جگہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چار گواہوں کا لاناچونکہ ایک بہت مشکل کام ہے مگر اس کی سزا بڑی زبردست ہے۔ ایک ایسے Threatکے طور پر استعمال فرمایا گیا ہے جس سے معاشرہ خوفزدہ ہوکروہ رک جائے گا او رصرف وہی قابو آئیں گے جو بے حیائی میںبڑھ کر اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں احتیاطوں کے سب تقاضے باطل ہوجاتے ہیں،کالعدم ہوجاتے ہیں یہ میں سمجھتا ہوں ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں جاسوسی کے خلاف تعلیم ہے۔ ولا تجسسوا اگر ویڈیو کیمروں کا مضمون ایجاد ہوجائے اور اسے اسلام میںایک شرعی حیثیت دی جائے تو سارا معاشرہ بگڑ جائے گا۔ کیونکہ اس سے آپ جرأت دلائیں گے لوگوں کو ۔ قرآن کریم کی واضح ہدایت کے خلاف کہ تجسس کرو اور کیمرے نصب کرتے پھرو۔ کسی بیوی کے گھر کا امن نہیں رہے گا۔ بعض دفعہ وہ اپنے بچوں سے، دوسروں سے خاوند کے خلاف شکوے بھی کرلیتی ہے۔ آئی گئی سے کچھ باتیں کرلیتی ہے۔ وہ بیچاری تو ہروقت نظر میں رہے گی۔ اس لیے ویڈیو کیمرہ نصب کرنے کا سوال ہی غلط ہے، اجازت ہی نہیں ہے۔ اسلام میں کسی کی مرضی کے خلاف اس کی باتوں کو ریکارڈ کرنا ، اس کی حرکتوں کو پکڑنا، بالکل اسلام میںجائز نہیںہے۔ اس لیے یہاں مجھ سے ملاقات کرنے والے بعض دشمن بھی آتے ہیں تو میںان سے کہا کرتا ہوں یہ کیمرہ ، یہ ویڈیو ریکارڈر ہے آپ کی اجازت ہے تو میںاس کو Onکرتا ہوں ورنہ نہیں۔ اور اگر اجازت دیں ، اکثر وہ اس وقت وہ بیچارے الجھن میں مبتلاء ہوکر دے ہی دیتے ہیں توپھر وہ بھی محتاط ہوجاتے ہیں اور بات بھی ریکارڈ ہوجاتی ہے۔ تو مخفی سراغ رسانیاں کرنا یہ تو K.G.Bبن جائے گا۔K.G.Bمیںیہ رواج تھاکہ ہر آئے گئے کو جو ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا تھا خاص طور پر جوبڑے بڑے Ambassadorباہر کے ملکوں سے آتے تھے، ان کو فاحشات کی ترغیب خود دیتے تھے اور ان کے حالات معلوم کرکے کہ ان کے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں۔ پھر ان کی کمزوریوں کے پیش نظر ان کوبے حیائی کے مواقع مہیا کیے جاتے تھے اور کیمرہ ان کی سب تصویریں کھینچتا تھا۔ بعض لوگ جب واپس اپنے وطن کو آئے ہیں تو ان کو کہہ دیا گیا یہ کہ تصویریں ہیں اب بتائو کیا کرنا ہے۔ ایک ایسے Abmassadorنے خود کشی کرلی کیونکہ وہ ملک سے بے وفائی نہیں کرسکتا تھااور جانتا تھا کہ اگر اس کی تشہیر ہوئی تو وہ بھی بدنام ، ملک بھی بدنام ، مصیبت میں مبتلاء ہوجائیں گے سارے۔ تو یہ مضمون ہے۔ اگر تجسس کی اجازت دے دی گئی تو سارا نظام اسلام جو معاشرے کی حفاظت کررہا ہے اور ناجائز حرکتوں سے ان افراد کی حفاظت کرتا ہے وہ درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لیے اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے مخفی ویڈیوکی۔ تو گواہی کیسی ہوگی پھر آج کل چالاکیاں بھی بڑی نکل آئی ہیں۔ کئی قسم کی بیچ میں دخل اندازیاں ہوتی ہیں فوٹو گرافی میں بھی اور اس میں بھی ایسے ایسے طریقے نکل آئے ہیں کہ بہت ہی بڑے ماہر کا کام ہے کہ وہ پہچانے کہ اس میںجعل سازی کہاں ہے، ورنہ پکڑی ہی نہیں جاتی۔ٹھیک ہے۔
سوال:- ربوہ سے خاتون کا سوال ہے کہ کیا خاوند کی پنشن جو اس کی بیوہ کو ٹرانسفر ہوتی ہے کیا وہ بھی خاوند کی جائیداد تصور کی جائے۔ اگر ایسا ہے تو اس کو بھی شرعی قوانین کے تحت تمام ورثاء میںتقسیم کیا جائے۔
جواب:- نہیں۔ خاوندکی پنشن اس آمد کو کہتے ہیں جو مرنے کے بعد ملتی ہے وہ اس کا مالک نہیں ہوتا سمجھے ہیں۔
سوال:- یہاں لند ن ہی سے ایک خاتون کا سوال ہے کہ اگر بچے سمجھ دار ہوں اور ان کے مشورے سے لڑکے، لڑکیوں کو والدین وراثت برابر تقسیم کردیں تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب:- کیا حرج ہے مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ حرج کیا ہے۔ مگرمیں نے پہلے بھی ویسے بھی کہا ہوا ہے کہ فقہی مسائل ان مجالس میں نہ پوچھا کریں جو انفرادی معین فقہی مسائل ہیں ۔ بلکہ دارالافتاء قائم ہے اورمفتی سلسلہ مقرر ہیں ان سے سوال کیا کریں سمجھے ہیں۔ بعض لوگ پہلے یہ کرتے تھے خطوں میں بھولے سے بن کے کہ کیا خیال ہے اس میںاور وہ پھر قضاء میں پیش کردیاکرتے تھے اپنے حق میں۔پھر قضاء میں پیش کردیتے ہیں اپنے حق میں۔ میں نے پھر قضاء کو حکم دیاکہ آئندہ کبھی میراکوئی خط قضاء میں دلیل کے طور پر پیش نہیں ہوگا۔ وہی فتویٰ پیش ہوگا جس کو میں جماعت کے سامنے کھول دیتا ہوں کہ یہ فتویٰ ہے۔ اس کے سوا ہرگز کوئی خط کسی نجی معاملے میں کسی ایک فریق کے حق میں دلیل کے طور پرپیش نہیں ہوگا۔ تب جاکر یہ قصہ ختم ہوا۔اورجب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا،بہت سی باتیں مجھے بتاتے ہی نہیں تھے اور فیصلہ دے دیتے تھے۔ اور یہ بھی شکر ہے کہ میں احتیاطاً لکھا کرتا تھا اور وہ ہر خط میں موجود ہے کہ اگر آ پکا بیان درست ہے تو پھر یہ فتویٰ بنتا ہے اور قضاء سے جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلتاتھا کہ وہ بیان ہی درست نہیں ہوتے تھے۔
سوال:- یہاں سے ایک سوال ہے کہ حضور نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مؤقف بیان فرمایا تھا کہ 1/4حصہ کی وصیت کو وہ بہتر خیال کرتے تھے اور جو مؤقف حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لیا ہے وہ اس حدیث کے اس ٹکڑے سے لیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصف مال کی وصیت کرنے سے منع کردیا تو انہوں نے عرض کیا کہ کیا میں پھر ایک تہائی اپنے مال کی وصیت کردوں اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا الثُلثُ وَالثُلثُ کثیر یہ کہتے ہیں کہ آخری الفاظ اس حدیث کے جو ہیںاس سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وہ مؤقف لیا تھا کہ۔
جواب:- نہیںمیں اس کو تسلیم نہیں کرتابالکل۔ اس کی وجہ یہ ہے بحث اصل یہ ہے کہ اگر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ بات کہی ہے مجھے یقین نہیں کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے ۔ اگر کہی ہے فرض کریں ، تو بات یہ بنتی ہے کہ ثُلث نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ چوتھا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ اب اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ اوّل یہ کہ زیادہ سے زیادہ کی بحث ہورہی ہے ، رسول اللہ ﷺ جو فرمارہے ہیں وہ الثلث ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہیں کہ نہیں چوتھا حصہ بہتر تھا۔ یہ میں نہیں مان سکتا۔ یہ مان سکتا ہوں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مطلب ظاہر کرنا چاہتے ہوں کہ یہ زیادہ سے زیادہ کی بحث ہے، کم سے کم کی بحث ہے ہی نہیں۔ اس لیے جس کے اوپر بوجھل ہے وہ چوتھا دے دے، پانچواں دے دے، دسواں دے دے۔ جتنا چاہے کم کرتا چلا جائے یہ حدیث اس کو پابند نہیں کرتی۔ ان معنوں میں فرمایا ہوگا یہ حدیث محل اعتراض نہیںمثلاً اگر میں ہوں تو میں چوتھی کو بہت سمجھوں لیکن یہ معنی غلط ہے کہ رسول اللہ ﷺ 1/3کو زیادہ سے زیادہ دیناقرار دیں۔ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہیں کہ 1/4کو زیادہ سے زیادہ سمجھنا بہتر ہے۔ یہ بات ہے جو میں نے بیان کی تھی، میرے نزدیک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی شان کے خلاف ہے یہ ترجمہ کرنا۔ پس آنحضور ﷺ جب یہ فرماتے ہیں ’’الثُلث کَثِیر‘‘ تو اس کا جو انہوں نے ترجمہ سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی کہ دیا تھا کہ الثلث بھی بہت زیادہ ہے ۔ تو پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ حق تھا کہ وہ بہت زیادہ پر بنا کرتے کہ ہاں پھر کم ہونا چاہیے۔ جس نے کہاکہ بہت زیادہ اگر بہت زیادہ مراد ہے۔ تو پھر الثلث کیوں مقرر کیا ، اس لیے وہ کسی پہلو سے وہ بات نہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہ لکھنے والے فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے جب فرمایا والثُلثُ کثیرتو گویا یہ فرمادیا کہ میرے نزدیک الثلث بھی بہت زیادہ ہے تو الثلث مقرر ہی نہ کرتے۔ یہ ترجمہ ہی غلط ہے اور اس پر سب کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مقرر کرلیں یہ غلط ہے، یہ بات نہیں ہے۔و الثلث کثیر کا مطلب ہے کہ بہت ہے۔ میں جو مقرر کررہا ہوں، جو حد میں نے سمجھی ہے maximum وہاں تک پہنچ گیا ہوں۔ اس سے زیادہ نہیں میں پسند کرتا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ترجمہ کریں گے اور یہ بہت ہے۔ اس پہلو سے یہ جو میرا تبصرہ تھا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں نے یہ بات سمجھ کر تبصرہ کیا تھا۔
سوال:- اوریہ آخری سوال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بیٹے کی بشارت کے متعلق جو بحث ہوئی تھی اس پرمہدی آباد جرمنی سے ایک دوست نے یہ تجویز کیا ہے کہ اسمٰعیل کی خوشخبری توالگ موجود ہے سورۃ الصّفٰت کی آیت ۱۰۱ اور ۱۰۲ کا حوالہ دیاہے ۔ توکیا اس کی روشنی میں ان دونوں کو ایک واقعہ طور پر، اور ان دونوں کو الگ واقع کے طور پر اکٹھا کیا جاسکتا ؟
جواب:- وہاں یہ بحث اُٹھی تھی کہ دو واقعات ایک ہی رنگ رکھتے ہیں ایک ہی طرز بیان ہے اور اس میں ان واقعات میں حضرت سائرہ سامنے آتی ہیں اورفرشتوں سے یہ اظہار کرتی ہیں کہ میں بوڑھی ہو اور ایک واقعہ جو ہے اس میںحضرت سائرہ سامنے نہیں آتیں، ان کا ذکر ہی کوئی نہیں چلا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام واقعہ سننے کے بعد کہتے ہیں میں تو بوڑھا ہوں اور آپ کووہ کہتے ہیں کہ خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔آپ فرماتے ہیں خدا کی رحمت سے کون مایوس ہوتا ہے؟میں تو ایک واقعہ بیان کررہا ہوں جو اللہ کا حکم ہے تو پھر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے کسی تعجب کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ۔ اور اگلی دو آیات میں جب فرشتے خوشخبری دیتے ہیں تو یہ لازماً اس بیٹے کی نہیں ہوگی جس کی پہلے دی گئی تھی، دوسرے کی ہوگی تبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہتے ہیں کہ واقعہ گزر گیا اور جانتے ہیں کہ میں نے بتادیا کہ میرا تعجب اور وجہ سے تھا۔ یہاں جس ماں کے بیٹے کو خوشخبری دی گئی ہے وہ سامنے آتی ہے اور کہتی ہے میں بوڑھی ہوں اور اس طرح ان دونوں آیات کے متعلق یہ منظر ابھرتا ہے کہ پہلی خوشخبری حضرت اسمٰعیل کے متعلق تھی اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا تھا میری عمر زیادہ ہوچکی ہے۔ دوسری خوشخبری جب دی گئی ہے تو حضرت سائرہ کی ہاں میںہاں ملا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو پھر بھی کم ہے میں تو اور بھی زیادہ بوڑھا ہوں ۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بوڑھوں والا مسئلہ طے ہوچکا تھا۔ آپ کیلئے اب وہ دوسرے بچے کی خوشخبری ہے۔ یہ میں نے مسلک بیان کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی پیشگوئی نہ ہو۔ تو انہوں نے جو حوالہ دیاہے یہ بہت اچھا ہے، یہ مددگار حوالہ ہے۔اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ حضرت ابراھیم کو حضرت اسماعیل کی الگ پیشگوئی واضح طور پر خدا تعالیٰ نے دی تھی۔ وہاںتفصیل بیان نہیں کہ پھر کیا ہوا تھا ، ان دونوں آیتوں کو باندھا جاسکتا ہے۔ جو مشکل درپیش ہے وہ صرف یہ ہے اور پہلے بھی جوپیش نظر تھی کہ حضرت لوط علیہ السلام والا واقعہ ہے یہ ہر دفعہ فرشتوں کا پھر یہ کہنا کہ ہم لوط کی طرف جارہے ہیں یہ کیا معنی رکھتا ہے۔ ایک ممکن ہے اس کی توجیہہ کہ تنبیہہ چونکہ بعض دفعہ تکرار سے کی جاتی ہے اور بار بار تنبیہہ کرکے موقع مہیا کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اتمام حجت کی خاطر خداتعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ایک سے زائد بار متنبہ فرمایا ہو اور وہی فرشتے جو آتے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام راستے سے گزرتے ہیں اورپہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے باتیں کرتے ہیں خوشخبریاں دیتے ہیں اورکچھ(انذار) کی باتیں بھی بتاتیں ہیں پھر حضرت لوط علیہ السلام کی طرف جاتے ہیں اور وہاںجاکر وہی پیشگوئی جو پہلے بھی ہوچکی ہے بعید نہیں کہ بار بار کی گئی ہو۔اگر یہ توجیہہ قابل قبول ہے تو پھر وہ تین واقعات اس طرح بنیں گے کہ ایک واقعہ حضرت ھاجرہ کے متعلق حضرت ہاجرہ کے متعلق پہلا یا حضرت ابراھیم کو مخاطب کیا گیا ہاجرہ کو نہیں حضرت اسماعیل کی خوشخبری حضرت ابراھیم کو دی جارہی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسمٰعیل کی خوشخبری دی جارہی ہے ، باقی دو واقعات میں حضرت اسحق کی خوشخبری ہے ٹھیک ہے اگر نہیں؟ تو پھر اس اعتراض کے نتیجے میں صرف ایک مؤقف رہ گیا ہے کہ تینوں واقعات ایک ہی واقعہ کے مختلف بیانات ہیں کہ اس پہلو سے اور اُس پہلو سے۔ مگر یہ توجیہہ اس لیے منظور نہیں کہ حضرت اسمٰعیل کا پہلے بولنا اپنے متعلق کہنا اور دوسرے دوواقعات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے متعلق کہنا یہ بالکل نذر انداز کر دیا گیا اورصرف حضرت سارہ کے بوڑھا ہونے کا ذکر کرنا یہ میرے نزدیک قطعی گواہی ہے۔ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں ۔
یہ جو آج کا درس ہے اس مہینے رمضان کے درسوں کاآخری سے پہلا درس ہے یعنی اس سورت کے مضمون پر تو یہ آج کا آخری درس ہے اس ماہ کا اس سال کا … لیکن کل انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس وقت ۳۰:۱۱ بجے اکٹھے ہوں گے اورو ہاں ہم کل دعا میں شامل ہوں گے جو اس کے آخر میں کی جائے گی۔ پہلے عموماً درس لمبے ہوجاتے تھے دعا کیلئے تھوڑا وقت ملتا تھا۔ پچھلے سال بھی میں نے کہا تھا اب میں کوشش کروں گا کہ دعا کیلئے بھی وقت ملے کیونکہ دعا کے اعلانات بھی کرنے ہیں۔ اعلانات کے ضمن میں مَیں نے ربوہ والوںکی بات کی تھی تو آج مجھے وہاں سے فیکس ملا ہے کہ ربوہ میں تو ایک عجیب منظر ہے۔ خداتعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ نہایت ہی اعلیٰ درجے کے انتظامات ہیں اور جہاں تک وہ جمعہ کا تعلق ہے، جمعۃ الوداع اس میں کہتے ہیں اتنی حاضری تھی کہ مسجد سے باہر صحن بھر گئے، صحن سے باہر جو پارکوں کیلئے جگہیں مقر ر کی تھیں ان کی ضرورت پیش آگئی۔ پارکیں تبدیل کی گئیں، ایک سمندر تھا جو شامل ہواہے ۔ جمعۃ الوداع میںاور بہت خوشی کا اظہار کیا گیا مگر میںاپنا تبصرہ تو پہلے ہی دے چکا ہوں۔ یہ آنکھوں کو دکھانے والا ایک منظر ہے، بڑا لوگ مرعوب ہوجاتے ہیں ۔اصل جو منظر ہے وہ یہ ہے کہ ہر جمعہ سے یہ مسلمان سلوک کریں جمعۃ الوداع جمعۃ الاستقبال بن جائے اور جہاں تک ممکن ہے سب لوگ جو شامل ہونے کی توفیق رکھتے ہیں وہ آئیں وہ ضرور شامل ہوں۔ اسی طرح اگر ہوجائے تو ہماری مساجد کے جغرافیے بدلنے پڑیں گے۔ بہت بڑی بڑی وسیع مساجد بنانی پڑیں گے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جتنی مسجدیں ہیں نمازی اس سے زیادہ ہیں۔ یہ کمزوری میرے سامنے اس لئے نہیں آتی کہ نمازیوں میں کمزوری ہے وہ پورے سامنے نہیں آتے۔ یہ جو آجکل دلکش مناظر ہیں تب دلکش کہلائیں گے اگر ان کے پیچھے آنے والے مناظر بھی ان کی پیروی کریں۔ ورنہ یہ صرف لطف کی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
جہاں تک درسوں کا تعلق ہے انہوں نے بتایا ہے کہ بڑے انہماک سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مختلف مراکز میں لوگ سنتے ہیں۔لجنہ اماء اللہ نے بڑی محنت کی ہے۔ خواتین کے کوائف جس طرح لجنہ بھیجتی ہیں باقاعدہ گنتیاں کرکے ہر جگہ Privateمقامات کے Antennaکے visualسے بھی، اس طرح انصار یا خدام نے کبھی اس محنت یا اصلاح و ارشاد نے یہ کوائف اکٹھے نہیں کیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مگرنے میںنے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً پانچ ہزار سے زائد تو خواتین ہی ہوتی ہیں اور مرد اور لڑکے اگر گنوادیے جائیں تو ۲۰ ہزار سے اوپر یا ۲۰ ہزار تک امکان ہے۔ جبکہ سابقہ دور میں زیادہ سے زیادہ جو مسجد میں درس سننے آیا کرتے تھے وہ تین چار سو ہوا کرتے تھے بلکہ یہ بھی زیادہ ہے خال خال لوگ ہوتے تھے۔ اب دیکھیں خداتعالیٰ نے ہجرت کا کیسا انعام دیا ہے۔ بہت زمین آسمان کا فرق ہے۔ ۲۴ ہزار درس سننے والے اگر پانچ سو واں حصہ بھی سمجھا جائے تو ۴۸ سال میںجتنے لوگوں نے درس سننا تھا وہ ایک سال میں سن رہے ہیں ۔ لیکن ۴۸ سال میں بھی انہوں نے ہی سنا تھا۔ اس لیے وہ جمع تفریق کام نہیںکرتی۔ بہرحال اہل ربوہ کو اللہ تعالیٰ مزہ دے بہت ہی ماشاء اللہ اخلاص میں بڑھ گئے ہیں اور وفاداری کے سب تقاضے پورے کررہے ہیں۔ کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں مگر وہ کم ہوتے جارہے ہیں اور جہاں تک صدر صاحب عمومی کا تعلق ہے انہوں نے بھی ماشاء اللہ نیک مضامین کی طرف بڑی توجہ کی ہے اور ایک بہت ہی اچھا قابل تحسین ماحول پیدا ہورہا ہے۔ اللہ مبارک کرے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 3رمضان بمطابق24؍جنوری 1996ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالاً و کثیراً و نساء واتقواللہ الذی تساء لون بہ والارحام۔ ان اللہ کان علیکم رقیبًا۔
سورۃ النساء کی یہ پہلی آیت ہے جس کے تعلق میں کچھ باتیں میں نے کل کیں تھیں اور بعض باتوں کے متعلق مزید تحقیق کے بعد آج اس کا ماحاصل پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایک چیز تو یہ ہے تساء لون کے متعلق میں نے کہا تھا کہ مسلمہ اور مروجہ ترجمہ جو باب کے عین مطابق ہے کہ تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو یہ ترجمہ تو درست ہے، لیکن مجھے خیال جاتا ہے کہ ہوسکتا ہیتسآء لون میں یہ معنی بھی ہوں ’’کثرت سے یا بہت زیادہ سوال کرتے ہو‘‘۔ تو جو لغوی تحقیق کی ہے اس میں یہ معنی نہیں بنتے کیونکہ یہ باب تفاعل سے ہے اور اصل میں تتسآء لون تھا اور عربی زبان میں یہ مروجہ دستور ہے کہ بسا اوقات تتسآ ء لون میں پہلی ت اُڑ جاتی ہے اور تسآء لونادائیگی کی سہولت کی خاطر پڑھاجاتا ہے تو اس کا مطلب صرف ایک دوسرے سے اور آپس میں سوال کرنا ہے ۔تو ترجمہ پھر وہی ہوگا کہ تسآء لون بہٖ والارحام یعنی یہی ترجمہ پہلے بھی کیا گیا ہے مگر میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اس کے سوا دوسرے ترجمے کی عربی لغت اجازت نہیں دیتی کہ تم جس خدا کے نام پر اس کے حوالے سے اس کا تعلق یاد کراکر کثرت سے ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو والارحام اور یاد رکھنا ارحام کو ایک بہت اہمیت حاصل ہے اس معاملہ میں۔ ارحام کو جو اہمیت حاصل ہے وہ میں نے بتادی ہے پہلے ہی۔ ارحام کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ ارحام کے ذریعے آپس کے تعلقات دنیا میں رشتوں کے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اور ماں کی وساطت کے بغیر ناممکن ہے، کیونکہ باپ پیدا نہیں کرسکتا اکیلا ، ماں اکیلے پید اکرسکتی ہے۔کیونکہ پہلے کرتی رہی اور خاوند کے ساتھ مل کر زوج کے ساتھ مل کر جو پید اکرتی ہے تو عام معروف معلوم رواج ہے۔ پس اس پہلو سے اب ناممکن ہے کہ ماں کے رشتے کے بغیر تمہارے خاندانی اور خونی روابط قائم ہوسکیں اور جتنا یہ معاملہ بنی آدم کے آپس کے تعلقات میں اہمیت رکھتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کے رحمن ہونے سے اگر تم نے تعلق باندھنا ہے تو اس کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے۔ وہ لوگ جو قطع رحمی کرتے ہیں وہ اللہ کی رحمٰنیت سے بھی کاٹے جاتے ہیں۔ یہ ہے مضمون تسآ ء لون بہ والارحام کا ۔ دوسری بات جو میں نے کہی تھی وہ ایک بحث چل پڑی تھی Timothyکے اوپر ۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جب مجھے یہ کہا یہ تمطائوس یا اس قسم کی کوئی چیز تھی کوئی یہ جو New Testamentہے تو میں نے کہا تھا کہ مجھے تو اس قسم کی کوئی کتاب یاد نہیں اس نام کی۔ بعدمیں تحقیق کی تو پتا چلا کہ اردو تلفظ تھا اس کا ۔ اصل نام ٹیموتھی ہے، لیکن افسوس کہ ایک چٹ بھیجنے والے نے وہاں غلط معلومات دے کر تو مجھے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ٹیموتھی دراصل ہے ہی Old Testamentکی کتاب۔ یہ بالکل غلط بات ہے ۔ جو نوٹ بھیجنے والے ہیں ، جب تک ان کو کامل یقین نہ ہو، حوالہ سامنے نہ ہو ، ایک دم جلدی سے اٹھ کر چٹ بھیج دیتے ہیں اور اس وقت میرے پاس تحقیق کا وقت نہیں ہوتا ، یہ اعتماد کرتے ہوئے کہ جس نے چٹ بھیجی ہے اس نے کچھ دیکھ کر بھیجی ہوگی ۔ اس کومیںبعض دفعہ شامل کرلیتا ہوں ۔ تو آئندہ سے سختی سے بند کریں اس بات کو۔ امام صاحب پہلے چیک کرلیا کریں کوئی چٹ آئے اور مجھے دینے سے پہلے یقینی ہوجائے تو پھر آگے بات پہنچائیں۔ تو ٹیموتھی تو بہرحال ایک معروف یعنی New Testamentکا وہ حصہ ہے جس میں خطوط کے ذریعہ عیسائیت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس میں پطرس کے خطوط بھی ہیں ، اس میں پال کے خطوط بھی ہیں اور ٹیموتھی میں قطعیت کے ساتھ وہ حوالہ موجود ہے ۔( کہاں ہے جی وہ اصل حوالہ ۔ دوبارہ پڑھ کر یاددہانی کروادیں، پیچھے رہ گیا ہے اس میں۔ نکالیں ۔۔۔ یہ ہے ۔ میں آپ کو یاد دلانے کیلئے کہ کل کونسی بحث چل رہی تھی میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہا تھا کہ مجھے ایک حوالہ بائبل سے دیں Old Testamentسے، اور ایک New Testament سے ،جو حوالہ ان کو بتایاکہ اس مضمون کا حوالہ یقینا موجود ہے ۔ آپ ریسرچ گروپ کو کہیں کسی کتاب سے نکال دے۔ وہ جب انہوں نے نکالا تو اس کو یہ تیموتھیوس پڑھ رہے تھے ، جس کی وجہ سے ساری مشکل پیش آئی۔ مگر اصل کتاب ٹیموتھی نام سے انگریزی میں یعنی اس کے باب ۲ آیت ۱۲ تا ۱۵ میں یہ لکھا ہے ’’ اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکومت چلائے ، بلکہ چپ چاپ رہے کیونکہ پہلے آدم بنایا گیا اس کے بعد حوا، اور آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھاکر گناہ میں پڑ گئی ۔ لیکن اولاد ہونے سے نجات پائے گی‘‘ (اس میں دونوں باتیں آگئی ہیں ۔ موروثی گناہ کاذکر بھی اسی حوالے میں موجود ہے) اور آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھاکر گناہ میں پڑ گئی لیکن اولاد ہونے سے نجات پائے گی(اب اولاد ہونے سے نجات کیسے پائے گی،یہ ان کی جو Commenteriesہیں ان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ درد سے بچہ جننا اس کی سزا ہے)۔ پس جو درد سے بچہ جنے گی ا س کو بائبل کے بعض یعنی New Testamentمیں محض سزا کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کے کفارے کے طور پربھی پیش کیا گیا ہے۔ پس عورت جب درد سے بچہ جنے گی تو وہ پاک ہوجائے گی۔ یہ الجھنیں بہت سی ہیں جو New Testamentمیں Old Testamentکے حوالے سے پائی جاتی ہیں اور اس ضمن میں آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات قطعیت سے میں آپ کے اوپر کھول دینا چاہتا ہوں کہ یہ خیال کہ گویا پرانے یعنی Old Testamentنے موروثی گناہ کا تصور پیش کیا تھا یہ درست نہیں ہے۔ Old Testament نے یہ تو کہا کہ حوا نے پہل کی او ریہ بھی کہا کہ اس کی سزا مقرر ہوگئی لیکن وضاحت کے ساتھ کہ آدم ضرور گناہ گار پیدا ہوگا اس کے برعکس Old Testament میںبہت سے حوالے موجود ہیں ،یہاں تک کہ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ کیسے کہہ سکتے ہو تم کہ باپ نے یادادا نے کھٹے انگور کھائے تھے تو اس سے ہمارے دانت کھٹے ہوگئے۔ تو حقیقت میں Old Testament کی حقیقی تعلیم ہرگز یہ نہیں ہے۔ وہاں جو غلطی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ حوا کو پہلا گناہگار بنا کر اور آدم کو پہلی پیدائش بنا کر بہت سے حقائق کو الجھادیا گیا ہے ۔ یہ جو جوش و خروش ہے موروثی گناہ کا یہ St. Paulمیں ملتا ہے اور پولین Pauleenجو فلاسفرز ہیں سوچنے والے ، انہوں نے رفتہ رفتہ اس پر اتنا شور ڈالا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیت کا جز و لاینفک بن گیا۔ ایسا جزو جو الگ نہیں ہوسکتا۔ تبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو بحثیںعیسائیوں سے ہوئیں ہیں ان میں موروثی گناہ نے ایک بہت اہمیت اختیار کی اور عیسائیت کی عمارت اس تصور پر قائم کی گئی کہ اگر انسان گناہ سے نجات پاسکتا تو پھر کسی نجات دہندہ کی ضرورت نہیں تھی ، جو آکر اپنا خو ن بہاتا۔ انسان گناہ سے نجات پا ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پیدائشی طور پر گناہگار ہے۔ اس کی ماں نے گناہ کیا یعنی حوا نے پھرآدم سے کروایا اور ا س کے بعد سے مسلسل یہ گناہ اس کے خون میں چلا آرہا ہے ۔ بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے زیور اور یہ مالی قربانیاںتمہارا گناہ صاف کرسکتی ہیں اس کیلئے اس برّے کی ضرورت تھی جو بے داغ ہو اور اسی کا خون ہے جو تمہارے گناہ صاف کرسکتاہے۔
پس اس پہلو سے یہ بحث اہمیت رکھتی ہے کہ حقیقت میں Old Testamentکی طرف New Testamentکے بعض لکھنے والوں نے ایک ایسی بات منسوب کی ہے جس کو بائبل خود جھٹلارہی ہے اور اس کی تکذیب کرتی ہے ۔ لیکن جب ایک واقعہ کے معنی نکالے جائیں توپھر کئی قسم کے مواقع ، امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مگر عیسائیت نے جو بعد میں بگڑی ہوئی شکل اختیار کی ہے اس میں یہ عقیدہ بہت گہرائی سے سرائیت کرچکا ہے۔ حضرت مسیح کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ کبھی آپ نے پیدائشی گناہ کا ذکر کیا ہو۔ (کیوں جی امام صاحب! آپ کے علم میں ہے کہیں؟) حضرت مسیح کے جو بھی ہم نے New Testamentمیں حضرت مسیح کے حوالے پڑھے ہیں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک اشارۃً بھی حضرت مسیح نے کسی موروثی گناہ کا ذکر نہیں کیا نہ تثلیث کا ذکر کیا ہے۔ پس عیسائیت کی بحث میں جب اس قسم کے خیالات داخل ہوتے ہیں تو دراصل بگڑے ہوئے عیسائی عقیدے کے خیالات ہیں اور ٹھوس اور اصل کتابوں میں ان کے حوالے تلاش کرنا عبث ہے ۔ چنانچہ میں نے جو ٹیم لگائی تھی انہوں نے یہی نتیجہ نکالاہے، کہتے ہیں کہ اصل بائبل جو New Testamentہے اس میں بھی اور پرانے Testamentمیں بھی وہ حوالے کہیں نہیں ملے جو عیسائیت کا مفہوم اب سمجھا جاتا ہے وہ قطعی حوالے نہیں ملے جن سے ہم کہہ سکیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ انسان پیدائشی گناہگار ہے۔ یہ وضاحت اس لیے کررہا ہوں کہ ہم جو زور دے رہے ہیں کہ عیسائیت کا یہ عقیدہ ہے او ربعض حوالے ان کے پیش کرتے ہیں تو کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ واقعۃً Old Testamentکی یہی تعلیم تھی یا نعوذ باللہ حضرت مسیح کی بھی یہی تعلیم تھی۔ کوئی خدا کا سچانبی ایسی لغو تعلیم نہیں دے سکتا کہ ہر شخص پیدائشی گناہگار ہے۔ حضرت مسیح نے تو یہاں تک فرمایا کہ ہر شخص اپنی صلیب آپ اُٹھائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے گناہوں کا بار خوداٹھائے گا ۔ لاتزر وازرۃٌ وزر اُخری وہی تعلیم ہے دراصل جو قرآن کی ہے اور اسی کو حضرت مسیح نے اپنے رنگ میں بیان کیا تھا ۔ تو اس وضاحت کے بعد اب پھر ہم اس آیت کریمہ کی طرف واپس آتے ہیں جس پر درس شروع ہوا تھا۔
یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ اب نفس واحدہ پر زور جو ہے یہ کیوں ہے، اس کے متعلق میں پھر دوبارہ گفتگو کرو ں گا ، مگر اس سے پہلے اب میں مفسرین کی باتیں بتاتاہوں آپ کو ۔ اور وہ کیا کیا اس بارے میں کن کن خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ بہر حال موروثی گناہ کو تو قرآن کریم اس طرح کاٹ کر پھینکتا ہے اور ہر شخص کو خود اپنا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس کی پیدا ئش کو پاک قرار دیتا ہے، ہر شخص فطرت پر پیدا ہوا ہے اور خود حضرت مسیح نے بھی یہی فرمایا ہے کہ انسان جو ہے اللہ تعالیٰ کی فطرت پر پیدا ہوا ہوا ہے۔ الفاظ یہ نہیں مگر مضمون یہی ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے کل نفسٍ بما کسبت رھینۃ ۔کل امریٍ بما کسب رھین۔ اب میں آپ کو نفس کے بعدمیں نے جو مضمون لغت کے حوالے سے چنا تھا ، خلق کی بحث ہوچکی ہے ۔ خلق کی ہوچکی ہے اب زوج کی ہے ۔ ٹھیک ہے۔ زوج :جانداروں میں سے کسی جوڑے کا فرد نر ہو یا مادہ زوج کہلائے گا۔ ثمٰنیۃ ازواج آٹھ زوج یعنی آٹھ فرد نر و مادہ ملاکر چار جوڑے ہیں۔ جن کو اُردو میں ہم جوڑے کہتے ہیں ان چار میں سے ثمٰنیۃ ازواج سے مراد یہ ہے کہ چار جوڑوں کے آٹھ افراد۔ قرین: ساتھی یا دوست کو کہتے ہیں۔ انبتنا فیھا من کل زوجٍ کریم: قرآن کریم میں جو ہے زوج کریم یہاں بھی اس لحاظ سے ہر جوڑے کا فرد سب اس میں شامل ہوجائے گا۔ دو زوج یعنی ایک نر اور ایک مادہ۔ جیسا کہ فرمایا وانہ خلق الزوجین الذکر والانثیٰ۔ تو زوج سے مراد مرد اور عورت الگ الگ زوج اور زوجین سے مراد مرد اور عورت کاجوڑا۔ اور ہم جو کہتے ہیں کہ ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا وہ خالی زوج لفظ سے نہیں آتا بلکہ زوجین سے یہ مضمون نکلتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا من کل شیء خلقنا زوجین: ہم نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کیئے ہیں۔ ایک ہی قسم کے دو افراد ، نر اور مادہ ہر چیز سے پیدا کیا ہے۔ یہ جو آیت کریمہ ہے یہ صرف زندگی پر حاوی نہیں بلکہ مردہ چیزوں پر بھی حاوی ہے ۔ جتنی بھی کر ی ایشن (Creation)ہے اس میں جوڑے ملتے ہیں ۔ یہاں تک کہ سب atomic particlesمیں بھی جوڑے ملتے ہیں۔ کوئی چیز بھی ابھی تک جوڑے کے بغیر دریافت نہیں ہوسکی۔ تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا وہ من کل شیئٍ خلقنا زوجین بہت گہری صداقتوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ پھر فرماتا ہے فیھا من کل فاکھۃٍ زوجٰن اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے ہوں گے یعنی زوجان کے معنی صرف ایک قسم کا پھل اکیلا نہیں ہوگا بلکہ اس کے مقابل کا یا ملتا جلتا پھل ، اس کے علاوہ موجود ہوگا۔ اس کی بحث کافی ہوگئی مزید ضرورت نہیں میرے خیال میں۔ حوالے تو کثرت سے ہیں۔ واذ النفوس زوّجت: جب نفوس زوِّجَتْ اکٹھے کئے جائیں گے ۔ ہم کہتے ہیں زوِّجَت اس سے مراد یہ ہے کہ وہ نفوس جو ایک جنس سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی اپنی جنس میں ان کو اکٹھا کیا جائے گا۔ یہاں دو دو کے معنی نہیں ہیں زوِّجَ کا مطلب ہے ہم جنسوں کے ساتھ ہم جنس اکٹھے کئے جائیں گے۔ اور آجکل کے زمانے کے جو چڑیا گھر ہیں ان کی پیشگوئی بھی اسی آیت میں موجود ہے۔کوئی شیروں کا گھر ہے ، کوئی طوطوں کا گھر ہے، کوئی چڑیوں کا گھر ہے۔ چڑیا گھر میںسب قسم کے گھر ہیں اور ایک ہی جنس کے مختلف جانور ان میں اکٹھے ملتے ہیں۔اور قرآن کریم کے سوا کسی کتاب میں یہ پیشگوئی آپ کو دکھائی نہیں دے گی کہ آئندہ زمانے میں جانوروں کو ان کی قسموں اور ان کی جنسوں کے مطابق اکٹھا کیا جائے گا۔
و زوّجنھم بحورٍ عینٍ: ہم انہیں حورِ عین بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی ، گورے رنگ کی حوریں عطا کریں گے۔ زوّجنھم بحورٍ عینٍ۔ یہاں زوج کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی ان کے ہم جنس او رہم شکل ہوں گے۔ یعنی صرف جو جوڑا ہے وہ ایک ہی جنس سے بنایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ زوج کے اندر یہ مفہوم شامل ہوتا ہے۔ الگ الگ جنسوں کے جوڑے نہیں بنا کرتے۔ تو حورٍ عین کے ساتھ زوج کرنا دو باتیں ایسی رکھتا ہے جو آپ کے پیش نظر رہنی چاہئیں ۔ اوّل یہ کہ حور مؤنث کا صیغہ نہیں ہے بلکہ مذکر اور مؤنث دونوں معنی حور میںہیں۔ یہ خیال کہ صرف مردوں کو حوریں ملیں گی اور عورتیں بیچاری محروم رہ جائیں گی۔ سورہ النساء کے حوالے سے اس کی وضاحت ضروری ہے، یہ درست نہیں۔حضرت امام راغب لکھتے ہیں اور ہم ان کو گورے گورے بڑی بڑی آنکھ والے مرد اور گوری گوری بڑی بڑی آنکھ والی بیویوں کا ہم نشین بنائیں گے۔ یعنی دونوں کیلئے حور ہیں کسی ایک کیلئے نہیں ہیں۔ اور دراصل زوَّجنا بتارہا ہے کہ وہ ان جیسے ہی ہوں گے۔ اس وقت جو تخلیق نو ہوگی اس میں تخلیقی فرق نہیں ہوگا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جنسی فرق بھی کوئی نہ ہوگا۔ یعنی عورتیں اور مرد دو الگ الگ جنسیں نہیں رکھیں گی یا رکھیں گے۔ اس لئے جو جنت میں حوالے ملتے ہیں بظاہر مردوں کے حوالے ملتے ہیں۔ لیکن لفظ حور مثلاً بتارہا کہیں کہیں کہ یہاں صرف مرد پیش نظر نہیں عورتیں بھی پیش نظر ہیں۔ لیکن یہ بھی تفصیلی ایک الگ مضمون ہے۔ میرے نزدیک تو جنت میں جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے جنسی فرق نہیں ہوں گے اور یہ ہمارے یہاںکے تصورات ہیں لیکن فرق کچھ نہ کچھ ایسے ضرور ہوں گے جس سے ہمنشینی کے لطف ہوں گے۔ وہ کیا ہیں ہم اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ مگر خاوند کو بیوی سے جو تعلق ہے وہ ہرگز جنسی تعلق نہیں ہوگا۔ مرد کو عورت سے عورت کومرد سے تعلق ہے ایک لیکن ان کی نئی شکل ایسی ہوگی کہ وہ ایک ہی جنس کے مختلف افراد تو دکھائی دیں گے مگر مرد اور عورت اور نر اورمادہ کی تقسیم کے لحاظ سے جنسی فرق نہیں ہوگا۔ اور وہ جوڑے بنائے جائیں گے اپنے مزاجوں کے مطابق اور اپنی کیفیات کے مطابق۔ یہ مضمون بہت ہی گہرا ہے اور اہم ہے لیکن اس کے متعلق اس وقت موقع نہیں آئندہ انشاء اللہ کسی وقت میں یہ بات کھولوں گاکہ فی الحقیقت جس کو ہم لذت کہتے ہیں دنیامیںلذت اس کا فلسفہ کیا ہے، کیوں لذت عطا ہوتی ہے اور مرنے کے بعد یہی چیزیں دہرائی نہ جانے کے باوجود جو ہمیں یہاں ملتی ہیں۔ پھر لذت کیسے مل سکتی ہے۔ وہ قرآن کریم کے حوالے سے او رانسانی فطرت کے حوالے سے ایک وسیع مضمون ہے جو بیان ہونے والا ہے۔ لیکن اس موقع پر میں صرف اشارۃً ذکر کرکے اب اس کو چھوڑتا ہوں۔
جنس ۔ زوج اور آگے ہے ارحام ۔ الرّحم رحم المرء ۃ و امرء ۃ رحوم تشتکی رحمھاو منہ الستعیر الرحم للقرابۃ لکون ھم خارجین من رحم واحدۃٍ۔ عورت کا رحم مراد ہے ارحام میں۔ وہ عورت جسے رحم کی تکلیف ہو اسے رُحُومْ کہا جاتا ہے۔ قرابت داروں کیلئے رحم کا لفظ مستعا ر لیا گیا ہے۔بسبب اس کے کہ وہ سب ایک ہی رحم سے پیدا ہوئے۔ یہ رحم کی بحثیں ہیں ساری۔ اور رحوم پر بہت زور ڈالا گیا ہے لغت میں ۔ یہ ہمارے نقطہ نگاہ سے بے تعلق بحثیں ہیں کیونکہ رحوم بیمار رحم والی عورت کو کہتے ہیں اور اونٹنیوں کا بھی ذکر ہے۔ وہ بھی اگر رحم کی تکلیف میں مبتلاء ہوجائیں تو وہ رحوم ہی کہلائیں گی۔ غرضیکہ لغت نے ایسی بحثیں اٹھائی ہیں جن کا اس آیت کی تفسیر سے کوئی ایسا گہرا قطعی تعلق نہیں ہے جسے زیادہ وضاحت سے بیان کرنا ضروری ہو۔ رَقَبْ: لفظ آخری جو اس میں استعمال ہوا ہے اہم لفظ ۔ ان اللہ کان علیکم رقیبًا۔ تو لفظ رقیب کی بحث میں آتا ہے کہ رَقَبَ کا مطلب ہے پابندی کرنا ، کسی کا لحاظ کرنا جیسا کہ فرمایا: لایرقبوا فیکم الا ولا ذمۃ: وہ تمہارے اندر کسی عہد، ذمہ داری وغیرہ کا کوئی لحاظ نہیں کرتے۔ رقیب: دیکھنے والے کو خیال رکھنے والے کو کہتے ہیں۔ رَقَبَ: گردن کوکہتے ہیں۔ فضرب الرقاب : جیسا کہ فرمایا ان کی گردنوں کو مارو۔ گردن کا مجازاً انسان… فکُّ رقبۃٍ: گردنوں کا آزاد کرنا یعنی انسانوں اور غلاموں کا آزاد کرنا ۔ اِرْتَقَبَ: کہتے ہیں غور سے کسی چیز کو دیکھنے کو ۔ اس آیت کریمہ کی شان نزول۔ ایک شان نزول یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حضور ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں کچھ لوگ آئے ننگے بدن ، ننگے پائوں ، تلواریں لٹکائے ہوئے ، اکثر ان میں ’’مضر‘‘ (مُضَرہے یا مَضَر ہے؟ ہیں ۔ م کی پیش سے۔ ہاں مُضَرقبیلے سے تھے)قبیلے سے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ بدل گیا ان کی محتاجی دیکھ کر، پہلے اندر گئے پھر نکلے ، پھر بلال کو حکم دیا اذان دینے کا۔ انہوں نے اذان دی، نماز تیار ہوئی ۔ پھرآپ نے نماز پڑھی، پھر خطبہ پڑھا اور فرمایا یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ وہ سمجھتے ہیں یعنی مفسرین کہ اس حدیث سے لگتا ہے کہ یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی تھی اور اس وجہ سے نازل ہوئی تھی۔ لیکن یہ آیت تو بہت ہی وسیع معانی پر مشتمل ہے اور جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں، پہلی سورۃ سے بلکہ مسلسل پہلی سورتوں سے تدریجی تعلق رکھتی ہے اور انسان کی گہری تاریخ سے پیدائش کی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ صرف چند غریبوں کو دیکھ کر یہ ایک موقعہ پیدا ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی یہ درست نہیں ہے۔ ایسی احادیث کا صرف اتنا مطلب سمجھنا چاہیے کہ آیا ت جو مختلف وقتوں میں نازل ہوئی ہیں، یہ بھی فصاحت و بلاغت کا ایک کمال ہے قرآن کریم کا کہ عین اس وقت کوئی ملتی جلتی بات ایسی ظہور میں آتی تھی کہ جو آیت کے مضمون سے تعلق رکھنے والی ہوتی تھی، یہاں تک درست ہے۔ اس سے آگے بالکل غلط ہے کہ اسی واقعہ سے اس کا تعلق ہے ۔ وہ واقعہ نہ ہوتا تو یہ آیت نازل نہ ہوتی۔ یا اس واقعہ میں جتنی باتیں موجود ہیں اُنہی پر آیت کا اطلاق ہوتا ہے ، اس سے آگے نہیں۔ آیات قرآنی کا آپس میں ایک تعلق ہے جو آزاد تعلق ہے اور دائمی تعلق ہے ، اس کاکسی واقعہ کے ہونے سے یا نہ ہونے سے ہرگز کوئی رشتہ باندھنا ضروری نہیں۔ اتفاقاًکوئی واقعہ اس راہ میں آجائے اور اس پر اطلاق ہوجائے تو یہ درست ہے لیکن وجہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے شانِ نزول کہنا سوائے چند استثنائی باتوں کے وہ الگ ہیں۔ یہ درست نہیں مگر اکثر مفسرین نے احادیث کے حوالے سے یا بعض دور کی روایت کے حوالے سے جہاں تک ان کا بس چلا ہے آیات کو شان نزول کے لحاظ سے باند ھ دیا ہے۔ حضرت امام رازی اس کے آغاز کے متعلق یہ ذکر فرماتے ہیں۔
یایھاالناس اتقوا ربکم : یہ جو آغاز ہے یہ کہتے ہیں کہ سورۃ نساء کے بعد سورۃ حج میں ملتا ہے اور ان دونوں کے درمیان معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تعلق ہے کیونکہ ایک ہی انداز سے دونوں سورتوں کو شروع کیا گیا ہے۔ سورۃ النساء قرآن کے نصف اوّل کی چوتھی سورۃ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کے حکم کی وجہ بیان فر مائی ہے کہ مبدأ آغاز خلق یہ ہے وجہ تقویٰ کی۔ تقویٰ اختیار کرنے کی حکمت۔ سورۃ حج میں امر کو تقویٰ کے ساتھ باندھتے ہوئے فرمایا ۔ اس طرح کہ ان زلزلۃ الساعۃ شیئٌ عظیم۔ اس سے مَعَاد یعنی انجام کے عرفان کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔ یہ جو عبارت ہے کچھ مشکل ہے لیکن اس کامفہوم میں آپ کو بتادیتا ہوں۔ حضرت امام رازی کے نزدیک ان دو سورتوں میں جو جوڑ ہے وہ یہ آیت کا پہلا حصہ ہے جس میں یایھاالناس کرکے مخاطب فرمایا گیا اور تقویٰ کی تعلیم دی گئی۔ سورۃ النساء میں جو پہلے آئی ہے تقویٰ کو ایک آغاز سے باندھا گیا ہے اور سورۃ حج میں معاد سے انجام سے باندھا گیا ہے ۔ یعنی تمہارا آغاز ایک ہے ، تقویٰ اختیار کرو۔ تمہارا انجام ایک ہوگا واپس خدا کی طرف لوٹ کے جائو گے اکٹھے۔ اس لیے تقویٰ اختیار کرو۔ یہ مضمون نکالا ہے انہوں نے اس سے۔
اب رہا آدم کے متعلق۔ میں اپنے خیالات کا اظہار قرآن کریم اور سائنس کے حوالے سے کل کرچکا ہوں لیکن جو مفسرین ہیں ان کی راہ میں سب سے بڑی مشکل بائبل کے بیان نے کھڑی کردی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ آدم بہر حال پہلے پیدا ہوا تھا، حوا بعد میں پیدا ہوئی تھی۔ اس بناء پر وہ بڑے مخمصے میں پھنس گئے ہیں اور آدم کی عمر مقرر کرنا اس کی تاریخ اور پہلا آدم کون تھا ، کیسے پید اہوا تھا ؟ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ پہلاآدم واقعۃً مٹی کامادھو بنا کر گھڑا گیا تھا ، جس طرح لوگ مٹی کے بت بنالیتے ہیں ، تو خدا نے بھی اسی طرح اس کی آنکھ پلک ٹھیک کی اور جب وہ اچھا سا بت خوبصورت سا بن گیا ، پھر زندہ کرنے کیلئے پھونک ماری۔ یہ جو تخلیق کا تصور ہے اس کا خداتعالیٰ کی فعلی شہات سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت وہی ہے جو کل میں نے مختصراً آپ کے سامنے رکھی تھی کہ آغاز ہوا ہے مٹی سے ، لیکن بیشمار مراحل اور پیدا ہوئے ہیں۔ یہ جو مضمون ہے اگر اس کی تفصیل میںجائوں تو کئی گھنٹے لگیں گے۔ مگر جو اب میری کتاب شائع ہونے والی ہے اس میں ایک Chapterمیں نے، اور کافی بڑ ا ساباب ہے جوآغازِ آفرینش ، زندگی کے آغاز اور اس کے ارتقائی منازل سے گزرنے کے اوپر قرآن اور سائنس کے حوالے سے وقف کیا ہوا ہے، وہ جب شائع ہوجائے گی تو پھر انشاء اللہ آپ کو ان مضامین کی زیادہ بہتر سمجھ آئے گی۔ مگر یہ بات یاد رکھیں اچھی طرح کہ قرآن کریم نے ہرگز کہیں وہ تصور پیش نہیں کیا جو بعض بائبل کے ماننے والے بائبل سے سمجھتے ہیں، کہ پہلے آدم کو مٹی سے بنا کر تیار کردیا پھر اس میں پھونک ماری ، پھر وہ زندہ ہوگیا، پھر اس کی پسلی کاٹی اور اس سے حوا بنائی۔ جو مفسرین نے اپنی تائیدمیں حدیث پیش کی ہے وہ صرف ایک حدیث ہے جو حدیث خود اس استنباط کے خلاف ہے جو وہ کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ عورت کو سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو یہ پسلی سے بنائی گئی ہے ، اور اگر زیادہ سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ یہاں مفہوم صرف عورت کی لطافت اور نزاکت ہے اور پسلی سے بنائی جانے کے تصور کی ایک ایسی تفسیر ہے جو اہل بائبل کو سوجھی نہیں کبھی اور آنحضرت ﷺ نے یہ تفسیر فرمائی ، باوجود اس کے کہ قرآن میں پسلی کا ذکر نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ حضور اکرم ﷺ بائبل کی تفسیر فرمارہے ہیں اور ایسی تفسیر جو بہت دل نشین ہے ۔ فرمایا عورت کی لطافت اور نزاکت کے ذکر کے لحاظ سے اسے پسلی سے پیدا ہوا کہا گیا ہے اور کچھ اس میں کجیاں ہیں جو اس کے حسن کی علامت ہیں اور وہ جن کو تم کجیاں سمجھتے ہو وہی تمہاری حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔ کیونکہ پسلیوں کے خم نہ ہوتے تو دل کا گھیرا اور اعضائے رئیسہ کا گھیرا نہ ڈال سکتیں اور تمہیں بچاتی نہ۔اس کا یہ معنی کہ واقعتہً وہ پسلی سے تراش خراش کر نکالی گئی ، یہ ویسے بھی درست نہیں بنتا۔ کیونکہ اگر عورت ایک پسلی سے پیدا کی گئی ہے توآدم کی ساری پسلیاں تھیںوہ آدم بھی تو پسلیوں کا بنا ہوا ہے سارا۔ پھر آدم تو بالکل ہی سیدھا ہونے کے لائق نہ رہا۔ ایک پسلی والی اگر بیچاری ہمیشہ کیلئے ٹیڑھی ہوگئی ۔ تو ڈاکٹر صاحب اس دن کتنی پسلیاں بتائیں تھیں آپ نے ہمیں ’’بارہ جوڑے‘‘ ۔ ہاں بارہ جوڑے چوبیس پسلیاں۔ تو ۲۴ پسلیوں میں سے ایک کم نہیں ہوئی اگرچہ نکالی گئی تھی مگر پتا نہیں کیسے وہ کم نہیں ہوئی ، تو وہ وہیں کی وہیں ہے۔ تو ۲۴ پسلیوں والا زیادہ ٹیڑھا ہوگا پھر۔ اور عورت کی بھی ۲۴ ہی ہیں ویسے۔ تو یہ مضمون ہیں معانی رکھتے ہیں، بعض لطافتیں رکھتے ہیں ، ان کو ظاہر پر محمول کرکے تو انبیاء اور کلام الٰہی کو مسخ کرنے والی بات ہے۔ جہاں تک عمر دنیا کا تعلق ہے ، اب یہ آدم پیدا ہوا یہ ساری باتیں اس آیت سے نکال کر علماء نے مختلف بحثیں اُٹھادیں ہیں۔ بعض کہتے ہیںسات ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے نہیں۔ عمر دنیا ہی سات ہزار سال ہے۔ کلھم اور حضرت آدم کے زمانے سے رسول اللہﷺ کے زمانے تک ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اتنا فاصلہ ہے کہ گویا عصر کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ یعنی آنحضور ﷺ عصر کے وقت ظہور فرما ہوئے تو پہلے اس سے اتنا زمانہ گزرتا ہے اب اگر اس کو بانٹا جائے تو وہی پانچ اور سات ہزار سال کا جو آپس کا تعلق ہے وہی بنتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ پانچویں ہزار سال میں پیدا ہوئے اورباقی جو دو گھڑیاں رہ گئیں ہیں وہ سور ج غروب ہونے تک کی گھڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مگر یہ بھی وہ احادیث ہیں جن کا ظاہری حقائق سے وہ تعلق نہیں ہے جو مسلمان سمجھے ہیں، ہرگز آنحضرت ﷺکی یہ مراد نہیں کہ پہلا آدم پانچ ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور رسول اللہﷺ کے وقت عصر ہوگئی گویا کہ اب اختتام قریب ہے۔ دراصل یہ مذہب کے ارتقاء کی طرف اشارہ ہے ، اس مذہبی ارتقاء کی طرف اشارہ ہے جو آدم کے ساتھ ظہور پذیر ہوا اور اسے خلیفۃ اللہ قرار دیا گیا ۔اس خلیفۃ اللہ کے بعد گویا عصر کا زمانہ آیا ہے تو آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور عصر کے بعد پھر سورج غروب ہوجایا کرتا ہے اور اس میں نئے خم نہیں پیدا ہوتے پھر۔ پس عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک آنحضرتﷺ کا زمانہ رہے گا۔ اس سے زیادہ اس کا مفہوم نہیں ہے۔ اور علماء چونکہ اکثر لفظی ترجموں کی طرف جاتے ہیں اس لیے اس مشکل میں پڑ گئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ واقعتہً پہلا انسان آدم تھا۔
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات اس سلسلہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ سے بھی سوال ہوا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ آدم یا یوں کہیے کہ پہلا انسان جیہون سیہون میں پیدا ہوا تھا۔ اور اس کا وہی ملک تھا تو پھر کیا یہ لوگ جو دنیاکے مختلف حصوں امریکہ ، آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں یہ اس آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ جواب فرمایا ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چھ فرمایا ہے آپ چھٹے ہزار میں پیدا ہوئے ہیں نا؟ ایک ہزار گویا اس لحاظ سے باقی رہ جاتا ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آخری آدم کی نسل ہے۔ ہم تو اُس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتا لگتا ہے خداتعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ انی جاعلٌ فی الارض خلیفۃ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت سے استنباط فرمایا ہے انی جاعل فی الارض ادم نہیں فرمایا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ خلیفہ کہتے ہیں جانشین کو اس سے صاف پتا چلتاہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی ، اُس مخلوق میں سے جانشین پکڑنا تھا یہ مراد ہے۔ یعنی پہلا آدم پیدا کرنامراد نہیں بلکہ آدم جو موجود تھے ان میں سے کسی کو اپنا جانشین بنانا مقصود تھا۔ پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگو ںکے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کے سوال کے مناسب حال ایک قول حضرت محی الدین ابن عربی صاحب کا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی فرمارہے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں حج کرنے کے واسطے گیا، وہاںمجھے ایک شخص ملا جس کو میں نے خیال کیا کہ وہ آدم ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو ہی آدم ہے ۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ تم کون سے آدم کے متعلق سوال کرتے ہو آدم تو ہزاروں گزرچکے ہیں۔پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا بھی وہی مسلک ہے جو کل میں نے سائنس کے حوالے سے قطعی طور پر ثابت کیا تھا کہ آدم کا آغاز تو بہت پہلے سے ہوا ہے۔ مٹی والا معاملہ تو ایک ارب سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن جب آدم جنس بنی ہے۔ نوع انسانی جس کو کہتے ہیں ، اس کو بھی ایک لاکھ سال سے اوپر گزر چکے ہیں۔ پس اتنا محدود تصور دنیا کا کرنا جس کا قرآن کریم میں ذکر نہ ہو مگر بائبل کی آیات کو غلط سمجھنے کے نتیجے میں اس تعلیم کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرنا یہ قرآن کریم سے زیادتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ یہ لاعلمی میں ہوجاتا ہے ، ضروری نہیں کہ گناہ ہو۔ دوسرے حوالے میں بھی حضرت رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا ذکر ہے جیساکہ اوّل میں ایک آدم تھا ویسا ہی آخر میںایک آدم ہے۔ حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ اس دنیا کے عمر کے روز میں گویا عصر کا وقت تھا جبکہ وہ عصر کا وقت تھا تو خود اندازہ ہوسکتا ہے کہ اب کتنا وقت باقی ہوگا۔ پھر فرماتے ہیں۔
آریہ نے سوال کیا کہ اسلام کے مطابق تو دنیا آدم سے شروع ہوئی ہے یعنی چھ ہزار سال سے۔ حضرت نے فرمایا یہ غلط ہے۔ اسلام اورقرآن شریف کا یہ مذہب نہیں کہ دنیا چھ ہزار سال سے ہے۔ یہ تو عیسائی لوگوں کا عقیدہ ہے ، مگر قرآن شریف میں تو خداتعالیٰ نے آدم کے متعلق فرمایا ہے انی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔ اب ظاہر ہے کہ خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے پیچھے آوے اور اس کا جانشین ہو، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق تھی۔ آدم اس کا قائم مقام اور جانشین ہوا۔اب یہ ایک اور لطیف معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی آیت کریمہ سے یہ نکالا ہے جو قابل توجہ ہے۔ فرمایا یہاں خلیفہ جو ہے یہ پہلوں کا خلیفہ بھی ہے، صرف اللہ نے اپناجانشین نہیں بنایا بلکہ اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ آدم خلیفہ ہے۔ خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے پیچھے آئے اور یہ جو مضمون ہے یہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ خلیفہ کس پہلی قوم کا خلیفہ کے طور پر قرآن کریم ذکر فرماتا ہے ۔ہم نے پھر تمہیں خلیفہ بنادیا زمین میں پھر تمہیں خلیفہ بنادیا۔ اور پہلی قوموں کا خلیفہ ہے۔ توفرمایا اس سے پہلے مخلوق موجود تھی، آدم سے پہلے بھی مخلوق تھی، آدم اس کا قائمقام اور جانشین ہوا۔ اب اس تفسیر میں مضمون کومزید کھول دیا ہے یہ نہیں فرمایا کہ آدم سے پہلے انسان تھے بلکہ فرمایاکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے مخلوق تھی اور قرآن کریم کی دوسری آیات جن کو یہاں اب زیر بحث لانے کا موقع نہیں ہے۔ مگر کسی موقع پر انشاء اللہ پیش کروں گا، ان آیات سے یہ مضمون اور بھی کھل جاتا ہے، وضاحت کے ساتھ کہ انسان اس سے پہلے مخلوقات کاجانشین بنایا گیا ہے اور وہ مخلوقات ترقی کرتے کرتے ایسے موقع پر پہنچیں کہ جہاں آدم ظہور میں آیا اور پھر وہ زمین کاجانشین بن گیا ، ان کا جانشین زمین میں۔ یعنی زمین پھراس کے قبضہ میں آگئی۔ گویا کہ ہر وہ ترقی یافتہ زندگی کی صورت جو اپنے دور میں سب سے آخری ہو وہ اس زمانے کی جانشین ہوتی ہے۔ اور اس طرح درجہ بدرجہ زندگی ترقی کرتے کرتے آگے بڑھتی ہے۔ اور جو سب سے آخری جانشین ہے وہ انسان ہے۔ یہ جانشین کا ایک معنی ہے اور خلیفۃ اللہ کا معنی بھی قرآن کریم میں مذکور ہے ، لیکن وہ مذہبی نقطہ نگاہ سے ہے ، بدنی پیدائش کے لحاظ سے نہیں۔
اب خلق منھا زوجھا میں ھا کی جو ضمیر ہے مؤنث کی اسے تمام مفسرین نے نظر انداز کردیا ہے اور ھا کو آدم کی طرف پھیرا ہے ۔ ا س لیے کہ بائبل نے آدم سے پیدائش کا ذکر کیا ہے اس لیے عجیب بات ہے۔ حالانکہ اگر قرآن کریم نے آدم کاذکر کرنا ہوتا تو لفظ نفس کی طرف منہ کی ضمیر بھی جاسکتی تھی۔ یہ عربی میں جائز بلکہ رائج ہے کہ نفس کو مؤنث بھی بیان کیاجاتا ہے اور مذکر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اگر مذکرپیش نظر ہو تو قرآن کریم منہکہہ سکتا تھا لیکن منہٗ نہیں فرمایا بلکہ منھا فرمایاہے۔نفسٍ واحدۃٍنہیں فرمایا ۔ نفسٍ واحدۃٍفرمایا ہے اگر آدم پیش نظر ہوتا تونفس واحد کہنا چاہیے تھا نفسٍ واحدۃٍ نہیںکہنا چاہیے تھا۔ تمام مفسرین۔۔۔۔ اس زوج سے مراد حوا ہے اور حوا کے آدم سے پیدا کئے جانے کے بارہ میں دو اقوال ہیں۔ یہ وہی بات چل پڑی ہے وہ ہر جگہ زوج منھا پیدا کیا کا مطلب لیتے ہیں کہ حوا پیدا کی۔حالانکہ منھاسے اگر حوا پیدا کی تو پھر عورت سے عورت پیدا کی بنے گا۔ عورت سے مرد پیدا کیا نہیں بن سکتا۔ زوج یہاں مذکر ہے اور منھا زوجھا سے مرا دہے اس نفسِ واحدہ سے جوتانیث کے طور پر تھی اس سے اس کا جوڑ یعنی مرد اس کا نر پیدا کیا۔ اس کے سوا دوسرا معنی ممکن ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ میں بے بیان کیا سارے بائبل کے ایک تاثر کی وجہ سے بہک گئے ہیں اور ایک غلط معنی کی طرف چل پڑے ہیں۔ جتنی تفسیریں ہیں یہاں ان سب میں یہی بات دہرائی جارہی ہے۔
حضرت امام باقر نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ آدم حوا کی پسلی سے پیدا ہواہے۔ اگرچہ انہوں نے جو تصور پیش کیا ہے وہ اپنی ذات میں خود قابل فکر ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں کوئی اور مضمون بنتا نہیں۔ مگر اتنی فراست کا تو انہوں نے قطعی طور پر انہوں نے اظہار فرمایا کہ یہ خیال کہ آدم کی پسلی سے نکال کر اس سے خدا نے حواکو پیدا کیا تھا اس کو ردّ کردیا ہے۔ تفسیر صافی میں لکھا ہے عیاشی امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے پوچھاگیا کہ خد انے حوا کو کس چیز سے پیدا کیا ؟ دریافت فرمایا لوگوں کاخیال کیا ہے۔عرض کیا کہ لوگ تو حوا کاآدم کی پسلی سے پید اہونا بیان کرتے ہیں۔ فرمایا یہ جھوٹ ہے ہرگز پیدا نہیں ہوئی۔ اور رسول اللہﷺ کی ایک اورحدیث اس کے سامنے اس کے مقابل پر رکھی۔ غالباً اس پسلی والی حدیث کے ازالے کی خاطر اور اس کا حوالہ یہاں نہیں ہے ورنہ وہ ہمیںاس کا مطالعہ کافی فائدہ دے سکتا تھا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے دائیں ہاتھ سے ملادیا اس کے دونوں ہاتھ ہی یمین ہیں۔ یعنی خدا کا جب داہنا ہاتھ کہتے ہیں تو مراد یہ نہیں کہ ایک دایاں ہاتھ ہے ایک بایاں ہاتھ ہے بلکہ یمین ہی کہلائیں گے۔ اس کی ساری طاقتیں یمین ہی کہلائیں گی۔ پس خدا نے اس سے آدم کو پیداکیا۔ کچھ مٹی جو بچ گئی تھی اس سے حواپیداکی۔اب یہ جو حصہ ہے مٹی جو بچ گئی تھی یہ دیکھنے والی بات ہے کہ اصل حدیث کے کیا الفاظ ہیں۔ ورنہ ایک بات تو بہر حال قطعی ہے کہ پرانے آئمہ میں سے بھی حضرت امام باقرعلیہ رحمتہ کی شان کے آئمہ بھی من و عن پسلی سے پید اکرنے کا انکار کررہے ہیں۔
علامہ زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ اس میںکیا کہتے ہیں۔ وہ عام طور پر یہ کشاف جو ہے کافی نسبتاً زیادہ منطقی اور مدلل کتاب ہے۔ ترجمہ اس کا میں پیش کردیتاہوں۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر تو کہے کہ ربط کلام کی درستگی اور شوکت تقویٰ کے حکم کے بعد ایسا عمل بیان کرنے کی متقاضی ہے جو تقویٰ کو واجب ٹھہرائے ، اس کی طرف بلائے اور اس کی ترغیب دلائے۔ ساری مخلوق کی نفس واحدہ سے تخلیق کس طرح تقویٰ کوواجب کرتی ہے۔ یہ سوال انہوں نے اٹھایا لیکن مرد اور عورت کی تخلیق کا الگ الگ ذکر نہیں کیا۔ نفس واحدہ بہرحال فرمایا ہے ، یہ نہیں کہا کہ آدم سے تخلیق۔جہاں واتقوا اللہ کے متعلق تھا۔ آیت کا آغاز جو ہے یاایھاالناس اتقوا ربکم اب ارحامکم جو مفعو ل ہے اس کے اوپر یہ نصب کیوں ہے؟ تسآ ء لون بہٖ ۔ خداتعالیٰ کے نام کے حوالے دے دے کر تم مانگتے ہو۔ اگر یہ مراد ہوتی کہ والارحام اور رحموں کے حوالے دے دے کر تم مانگتے ہو تو پھر دونوں کے ایک جیسے اعراب ہونے چاہیے تھے۔ اس لیے مفسرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ارحام یہاں منسوب ہے او رمنسوب کا مطلب ہے کہ اس پر کوئی اور فعل وارد ہوا ہے اور وہ مفعول کا رنگ رکھتا ہے۔ جیسے میں یہ کہتا ہوں یہ صفحے میں نے اٹھائے۔ میں فاعل ہوا یہ صفحات مفعول ہوگئے جن کو اٹھایا گیا ۔ تو ارحام کا تعلق کسی ایسے فعل سے ہے جو پہلے گزرا ہے ۔ وہ کہتے ہیں جہاں واتقوا فرمایا گیا تھا یاایھاالناس اتقوا ربکم وہاں والارحام اس سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ کا خوف بھی کرو اور ارحام کا خوف بھی کرو۔ یا ارحام کا تقویٰ کرو۔ یہ بحث چھیڑ کر حضرت امام رازی لکھتے ہیں ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں مضمون کے اعتبار سے یہ شکل بنتی ہے ۔ واتقوا الارحام ای ان تقطعوھا یعنی رحموں کا تقویٰ کرو یعنی ان کو کاٹنا نہ۔ یعنی رحمی تعلق قطع کرنے سے ڈرویعنی اللہ کا ڈر تو خدا کے ڈر کے معنو ںمیں وسیع تر ہے۔ لیکن رحموں کا ڈر مراد یہ ہے کہ رحموں کی طرف سے نہ کہیں مارے جانا کہ رحموں کو قطع تعلق کردو اور پھر خدا کی ناراضگی کے نیچے آجائو۔ مجاہد ، قتادہ ، سدی(سُدِّیْ ہے یا سَدِّی ہے امام صاحب؟ سُدّی ہوتا ہے ہاں سُدّی) ضحاۃ،ابن زید، فراۃ ، زجاج کی یہی رائے ہے۔ اس صورت میں ارحام کی نصب اللہ پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے یعنی اتقوا اللہ واتقوا الارحام۔ ارحام کے حقوق کے بارہ میں تقویٰ اختیار کرو اور رحمی رشتوں کو قطع نہ کرو۔
حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ تقویٰ چار طرح کا ہے۔ خد اکے علاوہ خاص لوگوںکیلئے گناہوں سے اجتناب تقویٰ ہے۔ خاص اولیاء کیلئے افعال کا وسیلہ (انبیاء کا تقویٰ) انبیاء کا تقویٰ اوّل و آخر خدا ہے۔ یہ تو اس بحث سے براہ ِ راست تعلق نہیں رکھتی بات۔ کشاف میں ہے۔۔۔ ارحام ہی ہیں جن کے تعلق میں تقویٰ اختیار کیا جاتا ہے اور انہی کے واسطے سے سوال کیا جاتا ہے۔ تو یہ تسآء لون بہٖ والارحام میں ، ارحام کو بھی سوالا ت کا واسطہ شمار کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں انہوں نے ارحام کو تساء لون بہٖ والارحام ۔ تسآ ء لون باللہ و بالارحام یہ معنی کیسے لئے؟ اگر ارحام منسوب ہے تو یہ معنی تو نکل نہیں سکتے اس سے۔ کیوں امام صاحب؟اس کاجائزہ لیں کیونکہ ارحام جو ہے وہ جیساکہ امام رازی کا حوالہ گزرچکا ہے ہم نے اس کو ہمیشہ منسوب ہی شمار کرتے ہیں تو تسآ ء لون بہ والارحام کا ترجمہ کیسے جائز ہوا اگر وہ منسوب ہے اور اس کا عطف اللہ پر ہے۔ سمجھے ہیں؟ یہ سوال نکالیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رحم عرش سے معلق ہے جب اس کے پاس ایک صلہ رحمی کرنے والا آتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے، اس سے کلام کرتا ہے اور قطع رحمی کرنے والا آتا ہے تو اس سے چھپ جاتا ہے۔ تفسیر بحر محیط میں یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ تسآء لون بہٖ والارحام کہ اللہ کے نام کے حوالے سے بھی مانگتے ہو اور ارحام کے حوالے سے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس لئے ترجمہ ہم کررہے ہیں کہ عرب یہ کہتے ہیں اُنْشِدُکَ بِاللّٰہِ وَ بِاالرَّحِم میں تمہیں خدا کے نام کی قسم دے کر یہ کہتا ہوں کہ یہ کام کرو اور رحم کے حوالے سے بھی، رحمی رشتے کابھی واسطہ دیتاہوں۔ حضرت امام رازی کہتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کے واسطے سے سوال کے جواز پر دلالت کرتی ہے ۔ یہاں رحم کا ذکر نہیںکرتے اس تعلق میں، کیونکہ وہ اس کو منسوب جانتے ہیں اور تقویٰ کے تعلق میں رحم کی بات کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں یہ اللہ کے واسطے سے سوال کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرے اسے پوراکرو۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو رحم کا حوالہ دے کر سوال کرے اسے پورا کرو۔ باقی حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں۔ میرے خیال میں ہم نے یہ جو لغوی بحثیں اور اس آیت کے تعلق میں پیداہونے والی بعض ضمنی بحثوں میں کافی وقت لگا دیا ہے۔ اگر اسی طرح بیٹھے رہے تو پھر اس رمضان میں صرف چند ایک آیات ہوسکیں گی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اب میں آگے چلوں۔
یاایھاالناس اتقوا ربکم۔ اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یاد رکھیں یہاں ایھاالناس کا خطاب عامۃ الناس سے ہے اور یہ جو ویری وغیرہ نے استنباط کرنے کی کوشش کی ہے کہ مکی دور میں چونکہ عامۃ الناس سے مخاطب تھا قرآن اس لئے الناس کا خطاب ہوا۔ مدنی دور میں یہود سے اہل کتاب سے خطاب شروع ہوئے، یہ درست نہیں ہے۔ ایھا الناس تمام تر قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کی عالمی نبوت کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے اور اس سورۃ میں بھی جو مدنی ہے اس کی پہلی آیت میں ایھاالناس کا خطا ب بتار ہا ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام بنی نوع انسان کے رسول ہیں اور اس کو مخاطب کرکے تقویٰ کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔ اب یہ بحث ربکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ کا تقویٰ سے کیا تعلق ہے۔ یہ ہے اصل بنیادی چیز جو علماء اٹھارہے ہیں بحث۔کہتے ہیں آگے وجہ بیان کی جاتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرو ۔ کیوں تقویٰ اختیار کرو اس لیے کہ اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور ارحام بھی فرمادیا۔ یہ الجھن جو ہے میرے نزدیک تو اس میں الجھن ہے ہی نہیں کوئی۔ ایک بات ہے انصاف کی تعلیم ہے اور بنی نوع انسان کو بعینہٖ برابر سمجھنے کی تعلیم ہے۔ اور نفس واحدہ میں جہاں تخلیقی لحاظ سے انسان کا آدم ایک ہے ۔ یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے ۔ وہاں نسل اور قوم اور رنگ کی تمیز کو مٹادیا گیا ہے۔ اس پہلو سے تقویٰ کی طرف اشارہ کرتی ہے یہ آیت کہ دیکھو اگر تم نے اپنے فرقوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی ایک دوسرے پر زیادتی کی تو خدا کا خوف کرنا، کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا جانتا ہے کہ تمہیں اس نے کوئی ایک دوسرے پر فوقیت عطا نہیں کی۔ ذاتی فوقیت ، نسلی فوقیت۔ فوقیت صرف تقویٰ سے ہے۔ تو تقویٰ کی جو بحث اُٹھ رہی ہے تو سب سے اہم بات یہ پیش کرنی ضروری تھی کہ تقویٰ کرو کیونکہ تم سب برابر ہو۔ اور اگر تم نے فرق کیا تو تقویٰ سے گرجائو گے۔ اور رحموں کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ماں کے تعلقات میں بھی خصوصیت سے تقویٰ کرنا کیونکہ رحمی رشتے بھی تم کو برابر ایک ہی مرتبے اور مقام پر کھڑا کردیتے ہیں۔ پس دو حوالے ہیںبرابری کے۔ ایک جنس کا آغاز ایک ہی قسم سے ہونا ، ایک ہی روح سے، ایک ہی نفس سے سب بنی نوع انسان کا پیداہونا یہ توجہ دلاتا ہے کہ تم آپس میں کوئی ظلم ایک دوسرے سے نہ کرنا، ناانصافی سے کام نہ لینا ۔کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ اس نے جو تمہیں مختلف صورتیں دی ہیں یہ فضیلت کی صورتیں نہیں ہیں آخر تم ایک آدم کی اولاد ہو۔ اور چھوٹے پیمانے پر آخر پر ارحام فرمادیا کہ رحمی رشتوں میں بھی یہی مضمون ہے ۔ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھنا اس حوالے سے کہ ماں ایک ہے اور رحمی تعلقات میں اگر تم نے تفریق کی اور ظلم کیے تو خداتعالیٰ اس کو بھی پسند نہیں فرماتا ۔ دوسرے رحمانیت کے ساتھ چونکہ تخلیق کاتعلق ہے ، اس لیے نفس واحدہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوا ہے اور خدا ہی سب بندوں کا پیداکرنے والا ہے ، اسی نے سب سے پہلے ایک جان سے تمہیں پیدا کیا تھا۔ اس مضمون سے یہ پیش نظربات رکھنی چاہیے کہ اگرماں کے تعلق سے تم رشتوں کا خیال کرتے ہو اور ماں کا لحاظ کرتے ہو اور ماں کی محبت ہی ہے جو باقی تعلقات میں آگے تقسیم ہوتی ہے ۔ تو سب سے زیادہ محبت کا حق خد اسے ہے۔ کیونکہ اس نے تمہیں پیدا کیا تھا اور ایک جان سے پیدا کیا تھا۔ پس اوّل خالق جو ہے اس سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہیے اور اگر ماں کے حوالے سے بہن بھائی ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیںتو خدا کے حوالے سے بنی نو ع انسان کا کیوں خیال نہیں کرتے۔ وہ بھی تو اللہ کی پیداوار ہیں۔ اللہ کی طرف سے پیدا کئے گئے ہیں۔ یہ مضمون ہے تقویٰ کا جو اس آیت کو تقویٰ سے باندھ رہا ہے۔ اور ان اللہ کان علیکم رقیبًا میں متوجہ فرمادیا کہ تمہیں پیدا کرکے خدا بھول نہیں گیا، مسلسل تمہاری نگرانی کررہا ہے۔ تمہارے اعمال کو دیکھا جارہا ہے اور اس کا نتیجہ نکلے گا اگر تم خداتعالیٰ کا خوف نہیں کھائو گے۔ یہاں تقویٰ کا معنی خوف بن جاتا ہے ۔ ایک ہے تقویٰ ، خدا کو پیش نظر رکھ کر نیک اعمال بجالانا انصاف کے کام کرنا، اچھے اعمال بجالانا۔دوسرا تقویٰ ہے سزا سے ڈرنا اور رقیبًا نے اس دوسرے تقویٰ کی طرف اشارہ کردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں تعلیم تو دے رہا ہے کہ نیک اعمال بجالانا ۔ اللہ کے تعلق میں اس کے خوف سے یااس کے لحاظ سے، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھنا ان اللہ کان علیکم رقیبًا خدا تمہاری مسلسل نگرانی کررہا ہے اور اس صورت میں اتقوا کا مطلب ہے پھر اس سے ڈرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر نہیں ڈرو گے تو تمہیں ا س کی سزا ملے گی۔
اس سے اگلی آیت ہے واتوا الیتمیٰ اموالھم ولا تتبدلوا الخیبث بالطیب ولا تاکلوا موالھم الی اموالکم انہ کان حوبًا کبیراً۔ اس سے پہلے کہ میںان الفاظ کی تفسیر بیان کروں لغت کے حوالے سے ، مَیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اس آیت کا پہلی آیت سے کیا تعلق ہے۔ واتوالیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث : یتیموں کو ان کے اموال دو اور خبیث چیز کو لے کر طیب ہاتھ سے نہ چھوڑدو۔ تتبدلواالخبیث باالطیب ۔ کہ تم پاکیزہ چیزوں کی بجائے خبیث اور ناپاک اور پلید چیزیں قبول کرلویہ درست نہیں ہے، یہ ظلم نہ کرنا۔ ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم : اور ان کے اموال اپنے اموال کیساتھ ملاکر نہ کھائو۔ انہ کان حوبًا کبیرًا ۔ یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اب یہ طبعی سوال اُٹھتا ہے کہ اس پہلی آیت کا اس آیت سے کیا تعلق ہے۔ یہ مضمون اچانک پلٹ کیوں گیا۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ پہلے میں کھول چکا ہوں یہ آیت جنگ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ان احتمالات کے ازا لے کی خاطر آئی ہے جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیدا ہوتے ہیں ۔ ربط ٹوٹ جاتے ہیں ایک دوسرے سے دشمنیاں پید اہوتی ہیں۔ اور مومنوں کیلئے کئی قسم کے خوف پیدا ہوجاتے ہیں اور ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مضبوط رشتوںمیں باندھے جائیں۔ جو دوسرے مضامین بیان ہوئے ہیں وہ ضمنی ہیں ۔ مگر تعلق یہ ہے اصل میںپہلے سے ۔ اور وہ ضمنی ہونے کے باوجود گہرے تعلقات اس سے پہلے مضامین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم کے چونکہ مضامین بہت سے رسوں میں یا زنجیروں میںبٹے ہوئے ہیں اس لیے ان سب کو اکٹھا پیش نظر رکھنابعض دفعہ انسان کیلئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اور سوالات اٹھتے ہیں تو آدمی کہتا ہے کہ پھریہ کیوں ہوگیا۔ اب میں آپ کو بتارہا ہوں۔ پہلاایک تعلق میں نے قائم کردیا تھا اور رابطوا کے حوالے سے اس آیت کا یہ مضمون آپ کو سمجھایا تھا کہ قرآن کریم متنبہ کررہا ہے کہ جنگ یعنی خدا کی خاطر جہاد کے نتیجہ میں تم لوگو ںکو شدید نقصان جوپہنچے ہیں کچھ غیروں کے متعلق تمہیں متنبہ کیا جارہا ہے کہ ان کی نگرانی کرنا۔ اس طرف سے جو خطرات ہیں ان سے متنبہ رہنا۔ کچھ اس نتیجہ میں اندرونی طور پر تمہاری آزمائشیں آنے والی ہیں اور وہ آزمائشیں تمہیں ایک دوسرے سے کاٹیں گی اور ان آزمائشوں کی تعلیم اب شروع ہونے والی ہے۔ ان آزمائشوں کا مضمون کھول کر ان سے کامیابی سے گزرنے کی تعلیم دی جارہی ہے ۔ رابطوا کا مطلب جیسا کہ میںنے بیان کیا تھا اس جگہ رحمی مضمون کے اوپر اطلاق پائے گا کہ ربط باہم کا خیال رکھنا اور آپس میں تعلقات کے وقت گناہوں کے خلاف بھی رباط کرنا ہے۔ اور دلوں کو جوڑ کر بھی رباط کرنا ہے۔ ٹوٹے ہوئے خاندانوں کو جوڑنا ہے۔ کیونکہ جنگ نے سوسائٹی کو منتشر کردیا ہے۔ کئی کئی قسم کی مصیبتیں ڈال دی ہیں ۔تو رحم کا حوالہ دینے کے بعد پھر یتامیٰ کا مضمون شروع کیا ہے۔ کہ دیکھو یتامی اب ایسے جنگ کی پیداوارہیں جس کے نتیجہ میں ان کا بظاہر والی وارث کوئی نہیں رہا۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایک والی ان کا خدا ہے جس نے تمہیں بھی اسی طرح پیداکیا تھا جس طرح ان یتامی کو پیدا کیا ہے۔ اور تمہارا آغاز ایک ہے۔ دوسرا ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یتامی کے والدین فوت ہوچکے ہوں والد فوت ہوچکے ہوں اس کو یتیم کہتے ہیں۔ تو یتامی کے رحمی رشتے تو ہیں ہی تمہارے اندر ان کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔ پس باپ نہیں ہے تو خدا ہے اور مائیں ہیں اور ان کے تعلق سے ان کے کچھ حقوق تم پر قائم ہوتے ہیں۔ یہ وہ مضمون ہے جس کو نہ سمجھنے سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت دوسرے سے بالکل کٹی ہوئی اور الگ پڑی ہوئی ہے۔ اب اس آیت میں داخل ہوتے ہیں۔
اتوالیتمی اموالھم: یتیموں کو ان کے اموال دینے ہیں۔ کیونکہ ان کا باپ نہیں رہا۔ یاد رکھو خدا نگران ہے اور خدا کی نگرانی کے حوالے سے تم نے ان کے حقوق ضرور ادا کرنے ہوں گے اور اگر تم اس خیال سے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ان کے اموال اپنے اموال میں ملا جلا کے کھاجائو گے، تو یہ پھر پاک چیز کو خبیث بنانے والی بات ہے۔ تمہارے اموال تو پاک ہیں کیونکہ محنت، دیانتداری سے کمائے ہوئے ہیں، ان اموال کو جب غریبوں کے اموال سے ملا لو گے تو عملاً یہ بات ہوگی کہ تم نے پاک اموال کو چھوڑ دیا اور خبیث اموال لے لئے یعنی مطلب یہ ہے کہ تمہارے سارے اموال خبیث ہوجائیں گے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ اموال کا ایک حصہ جو پاک تھا وہ دے کر تم نے خبیث مال خریدا ہے۔ یہ تو کوئی بھی ایسا نہیں کیاکرتا۔ اور نہ اس زمانے میں ایسا ہوتا تھا۔ بددیانتی سے جب گندا مال شامل ہوجائے تو جو پاک مال کہلاتا تھا وہ پاک نہیں رہتا۔ تو گویا کہ تبادلہ مکمل ہوا۔ پوری طرح پاک مال کے بدلے پوری طرح خبیث مال قبول کرلیاگیا۔ یہ وارننگ یا تنبیہ ہے جو دے دی گئی ہے۔ ولا تاکلو اموالھم الی اموالکم ۔ اور ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھالیاکرو ۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے ۔ ولا تاکلو اموالھم ہے اموالکم بعدمیں ہے۔ اموالھم پہلے ہے۔ ولا تاکلو اموالھم الی اموالکم۔ ان کے اموال اپنے مالوں کے ساتھ ملاکر نہ کھالیا کرو۔ اس کے باوجود کہ اس کو یتیموں کے اموال قرار دیا گیا ہے ۔ بعد میں جوآیات آنے والی ہیں ان میں ان اموال کو جو یتیموں کے اموال ہیں سارے قوم کے اموا ل بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہ کیوں ایسا ہوا ہے۔ کہیں ان کے مال کہیں تم سب کے مال۔ اور اگر ساری قوم کے اموال ہیں تو پھر ملاکرکھانا اس کا جائز ہونا چاہیے۔ مگر قرآن کریم ان باتوں سے خودبخود ساتھ ساتھ پردے اُٹھاتا چلا جاتا ہے۔ یہاں صرف یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خبیث مال۔۔ طیب کے بدلے خبیث نہ لے لو تو مراد یہ ہے کہ جب بھی تم اپنے اموال میں یتیموں کے اموال شامل کرلو گے توتمہارے اموال خبیث ہوجائیں گے۔ انہ کان حوبًا کبیرًا اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔
یتیماً کی بحث ہے۔ یہ تو عرف عام میں جس کو ہم یتیم سمجھتے ہیں جانتے ہیں اسی حالت کانام یُتم ہے۔ ہاں اگر حیوانوں کو ماں سے علیحدہ کردیا جائے تو عرب محاورے میںاس کیلئے بھی یُتْمْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ الگ تھلگ جو گھرہو ، جو کٹ گیا ہو اس کو بھی بیت الیتیم کہتے ہیں۔ بیتٌ یتیمٌ وہ گھر جس سے تعلق کاٹا گیا ہو۔ پس اس پہلو سے یتیم کے حقوق میں یہ بات بھی داخل ہوجائے گی کہ یتامی کو الگ نہ چھوڑ دیا کرو ۔ جیسے ایسا گھر جس سے کسی کا تعلق نہ رہے کسی کا آناجا نا نہ ہو۔ وہ لوگ جو براہِ راست اموال کے ذمہ دار ہیں ان کیلئے یتیم کا معنی ہے جن کا والی وارث کوئی نہ ہو ، خدا سے ڈرنا اللہ ان کا والی ہے۔ اور وہ جو سوسائٹی اس کے علاوہ موجود ہے ۔ یتیم لفظ کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ یہ مراد ہوگی اس سے کہ یتیموں کو الگ تھلگ نہ چھوڑدینا ۔ گویا ان کے ساتھ تمہارے معاشرتی تعلقات میں فرق آجائے، کیونکہ ان کا باپ کوئی نہیں۔ اسی لئے عربی میں ہر منفردچیز کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے۔ جو اکیلی چھوڑ دی گئی ہو دُرّۃٌ یّتیمۃ۔ دُرّ یتیمکا مطلب ہے انتہائی قیمتی موتی جس کی کوئی مثال نہ ہو ۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کوجب درّ یتیم کہا جاتا ہے تو یہ مراد نہیں ہے کہ لوگوں نے چھوڑ دیااس موتی کو ۔ مراد یہ ہے کہ ایسا موتی جس کے ساتھ ملنے والا ہم شکل موتی موجود ہی کوئی نہیں۔ یعنی تنہا ان معنوں میں ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ لسان العرب کہتے ہیں کہ یتُم سست روی ہے اصل میں۔ عربی کا جو لفظ یُتُم ہے اس میں سست روی ہے اور اس سے یتیم نکلا ہے۔ مراد یہ ہے کہ یتمیوں کے ساتھ لوگ تعلقات میں سست روی اختیار کرتے ہیں اور سرد مہری اختیارکرتے ہیں۔
الحوب : جس کو ہم نے گناہ کے طور پر جس کا ترجمہ گناہ کیا ہے۔ کہتے ہیں یہ دراصل وحشت کے معنی رکھتا ہے۔ الاثمۃ الوحشۃیعنی دونوں معنی اس میں پائے جاتے ہیں۔ النقرآئُ والحوب ای الوحشۃُ۔ اس پہلو سے اس آیت میں ایک اورمعنی بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ گناہ عظیم عام استعمال کا جو لفظ ہے گناہ کا اِثم وہ استعمال نہیں فرمایا ، بلکہ حُوب فرمایا ہے۔ حُوبًا کبِیْرًا سے مراد یہ ہے کہ بہت بڑی وحشت کی بات ہے۔ جہالت کی بات ہے۔ وحشیانہ طرز عمل ہے۔ اگر تم نے رحمی رشتوں کا خیال نہ رکھا اور ظلم کیئے ایک دوسرے کے اوپر یا سوسائٹی کا خیال نہ کیا تو خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ شمار ہوگا۔ انہ کان حوبا کبیرا ۔ یہاں یتیموں کے مال کے حوالے سے حوب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تو سوسائٹی کا میں نے جوترجمہ کیا ہے مراد یہی ہے کہ اگر سوسائٹی میں یتیموں کو اگربے حال چھوڑ دیا جائے یہ ایک وحشیانہ حرکت ہے۔ انسانی تقاضوں سے گری ہوئی بات ہے اور بہت ہی بھیانک غیر انسانی حرکت بھی کہہ لیں گے، وحشیانہ حرکت۔ کہتے ہیں الحُوْبُ الحُزْنُ وقِیْلَ الوَحْشَۃُ: یعنی حزن بھی مراد ہے غم اور وحشت بھی کہاجاتا ہے۔ تو حوباکبیراً حزن کے معنوں میں ۔ یہ بنے گا کہ یہ بات بہت ہی غم کی بات ہے بہت بڑی غم اور فکر کی بات ہے کہ تم ایسی حرکت کرو۔ یہ ساری لغوی بحثیں ہیں جو بہت لمبی چلا دی ہیں۔ مفسرین نے ماشاء اللہ بیحد محنت کی ہے قرآن کریم کے مطالب پر غور کرنے کیلئے۔
ایک بحث جو ضروری ہے اس میں پیش کرنے والی وہ یہ ہے کہ یتیم لفظ کا اطلاق کس مدت تک انسان پر ہوتا ہے۔ حضرت امام رازی نے یہ بحث اٹھائی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک خط کے ذریعہ پوچھا گیا کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے ، انہوں نے لکھا کہ شعور اور بلوغت کے آثار ظاہر ہونے پر یتیمی ختم ہوجائے گی۔ بعض روایات ہیں کہ آدمی کے جب داڑھی نکل جائے تو یتیم نہیں رہتا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یتیم کا لفظ بلوغت کے بعد بھی اس وقت تک اطلاق پاتا رہے گا جب تک اس میں پختگی کے آثار ظاہر نہ ہوں۔ یہ جو لفظ پختگی ہے یہ اس لیے ہے کہ قرآن کریم نے یتامی کے اموال کو ان کی طرف لوٹا نے کیلئے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ بالغ بھی ہوجائیں اور عقل پختہ ہوچکی ہو۔ ان میں تم پختگی کے آثار دیکھو۔ یعنی اپنے فیصلے وہ خود کرسکتے ہوں، اپنے اموال پر ان کو پوری طرح یعنی اموال کو استعمال کرنے اور حفاظت سے استعمال کرنے کا سلیقہ آچکاہو۔ تو اس لیے یتیم کی تعریف میں صرف داڑھی نہیں ہے یا عورت کا حیض کے ذریعہ جوانی کی علامت ظاہر کرنا نہیں ہے بلکہ عقلی پختگی بھی اس میں ساتھ شامل فرمادی گئی ہے۔ بعض مفسرین جہاںتک شان نزول کا تعلق ہے یہاں تک بھی گئے ہیں ، کہتے ہیں یہ آیت دراصل غطفان کے ایک آدمی کے بارے میں اتری تھی۔ اب دیکھیں کتنی عجیب بات ہے، اتنا عظیم الشان مضمون ہے ، اتنا وسیع اور ایک بڑی عام حالت سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن شان نزول کے شوقین اس کو غطفان کے ایک شخص کے ساتھ باندھ رہے ہیں۔ میں نے کہا اس وقت میرے ساتھ بیٹھ کے یہ جو ایک ہی مضمون کے حوالے بار بار آرہے ہیں ہر لغت میں ۔ پچھلی دفعہ بھی میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ سب کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب اتنے بڑے دتھے میں سے مجھے نکالنا پڑرہا ہے کہ شاید کوئی نئی بات آئے تو یاتو وہاں نشان ڈال لیں گے مل کر ۔ تاکہ جہاں نشان ہے صرف اسی بات پرذکر کر کے آگے چلے جائیں ،ورنہ جب میں پڑھتاہوں تو ہر تفسیر کے حوالے میںوہی باتیں بار بار آرہی ہیں جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ تفاسیر میں تو اس کے سواکوئی اور بحث مجھے نہیں ملی جو میں آپ کے سامنے رکھ چکاہوں ۔ کل کی آیات میں انشاء اللہ میں کوشش کروں گا کہ جو زائد حوالے ہیں، تکرار والے وہ پہلے ہی نکال دیے جائیں تا کہ درس کے دوران آپ کا وقت ضائع نہ ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کے طرز بیان سے ایک اورنکتہ بہت عارفانہ نکالا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں:۔ واتوالیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث باالطیب : یہاں مراد یہ ہے کہ تم اچھی چیزوں کے عوض میں خبیث اور ردّی چیزیں نہ دیا کرو۔ یہ جو لفظ بولا گیا ہے حالانکہ مضمون تو واضح ہے کہ اگر تم ان کا مال کھائو گے تو تمہارا مال بھی گندا ہوجائے گا۔ مگر طرز کلام اس لئے اختیا کی گئی ہے کہ اس مضمون کو عام کردیا جائے ۔ یعنی جس طرح دوسروں کا مال دبالینا ناجائز ہے، جیسا کہ یتیموں کا مال دبالینا ناجائز ہے، اسی طرح خراب چیزیں بیچنا یا اچھی کے عوض بری دینا بھی ناجائز ہے۔ یعنی یہ جو طرز کلام اختیار کی گئی ہے اس نے اس مضمون کو عام کردیا ہے اوردوسرے کا مال دبالینا جیسے گناہ ہے، اسی طرح یہ بھی گناہ ہے کہ بری چیز بیچ کر اچھی چیز لی جائے اور جب بری چیز تم بیچ کر اچھی لیتے ہو تو وہ مال جو ہے تمہارا خبیث مال ہے۔ کیونکہ مال جو لے رہے ہو اس کی قیمت دینے والے مال سے وابسطہ ہے۔ اگر وہ مال گندا ہے تو یہ نہیںکہہ سکتے کہ میں نے اچھا مال لے لیا برا مال دے کر۔ مراد یہ ہے کہ تم نے خبیث مال لیا ہے تمہارا جو سودا ہے وہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے۔ اس کی تشریح دوسری جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ہاں یوں ملتی ہے ۔جو مال ان کا ہے وہ تمہارے لیے حرام ہے اور خبیث ہے ۔ یعنی جب تم کوئی مال ایسے بے جا تصرف سے لیتے ہو تو یہ بے جا تصرف اس کو خبیث بنادیتا ہے۔ اپنی ذات میں جو یتیموں کا مال تھا ان کیلئے تو خبیث نہیں ہے بہر حال ۔اس کا خبیث بننا ان معنوں میں ہے کہ تمہارا تصرف ناجائز ہے۔ آگے پھر وہ دوسری آیت شروع کردیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ کے حوالے میں میرا خیال ہے سردست یہی بہت کافی ہے اس آیت کے متعلق۔ اب اگلی آیت پر چلتے ہیں۔ واتو الیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث باالطیب ولا تاکلو اموالھم الی اموالکم انہ کان حوبا کبیرا۔ اس کے بعد آیت کون سی ہے چوتھی آیت۔ چوتھی آئے گی نا۔
وان خفتم ۔ ہیں؟ وقت ہوچکا ہے۔ اچھا جی باقی انشاء اللہ پھر کل۔ آج کیلئے مَیںایک لحاظ سے معذرت خواہ ہوں کہ جو دتھہ میرے ہاتھ میں ہے حوالوں کا میں نے جو ہدایت کی ہوئی ہے کہ ہر مفسر کے کچھ جو حوالے ہیں وہ الگ الگ پیش کرو ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ میں دیکھ کر جو تکرار ہے اس کو چھوڑ دو ں گا اور جو نئی باتیں ہیں وہ آپ کے سامنے رکھو ںگا مفسرین کے حوالے سے۔ لیکن چونکہ دوسری باتوں میں بہت زیادہ وقت خرچ ہوگیا اس لئے مجھے وقت نہیں مل سکا کہ پہلے دیکھ کر ان کو الگ الگ کرسکوں۔ کل انشاء اللہ ایسی تکراروں پر وقت نہیں خرچ ہوگا ، جہاں تک میری کوشش ہوگی اور ہم تھوڑ ے وقت میں زیاہ آیات پر انشاء اللہ تعالیٰ بات کرسکیں گے۔ اب اس کی آپ کی ذمہ داری ہے۔ ٹھیک ہے؟ کوئی اور بات تو نہیں تھی جو میں نے کل کہی تھی کہنے والی اور رہ گئی ہو آج۔ وہ ٹیموتھی کا حوالہ ہوگیا۔ ٹھیک۔ ہاں ایک اور بات میں نے کہی تھی مگر اس کیلئے اب یہاں موقعہ نہیں ہے وہ بعد میں کہیں موقعہ آئے گا تو پیش کرو ں گا۔ میںنے آپ سے کہا تھا کہ جس طرح عورت کا حوالہ ملتا ہے اور ایک تدریجی مضمون ہے جو بیان ہورہا ہے مسلسل اسی طرح احکامات کا مضمون بھی ہے۔ اور بہت ہی پرلطف ارتقائی مضمون ہے۔ کہاں سے احکامات شروع ہوئے ہیں ۔ پہلی قوموں کے حوالے سے، اسلام کے حوالے سے لیکن یہ اس ایک آیت کے حوالے سے بیان نہیں ہوسکتا۔ آئندہ جہاں موقعہ آئے گا میں نے مضمون اکٹھا کرلیا ہے، یہ حوالے انشاء اللہ پھر آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔ باقی پھر کل۔ ٹھیک ہے۔ اب آج آپ نے وقت لینا ہے مجھ سے۔ کیونکہ جب میںاکیلا بیٹھا تو زیادہ وقت لگ جائے گا، آپ کی مدد سے جلدی جلدی کام ہوجائے گا ۔ ٹھیک ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اب انشاء اللہ نماز کیلئے حسب سابق سنتیں پڑھ کر میںآجاتا ہوں۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ30؍رمضان بمطابق20؍فروری 1996ء
آج توباہر بڑا طوفان ہے برف کا اور سردی کا۔ ہوا بہت تیز چل رہی ہے۔ عید کا کیا کرنا ہے پھر؟ اپنے اپنے گھروں میں؟ ہیںاچھا ! پورے آجائیں گے آپ اس میں ہال کے اندر کیا؟کس طرح پورے آجائیں گے؟ ہال میں اگر آٹھ ، آٹھ، دس، دس منزلیں بھی بنائیں تبھی بھی نہیں آئیں گے، امام صاحب سوچیں پھرکوئی ہال بڑا ہو ابھی ہماری جگہ تو ۔ معاملہ توخدا کے فضل کے سے تقریباً طے ہوگیا ہے لیکن ہمارے قبضے میں تو نہیں نہ آئی۔ ہنگامی صورت میں یہ جگہ کام آسکتی تھی یہاں نئی مسجد بنائیں گے انشاء اللہ۔ تو پتہ کریںبعدمیںمجلس عاملہ میں بیٹھیں۔ ہاں ہاں نزدیک یہاںکہیں لند ن کے اندر ہی کہیںکوئی بڑا تو بہتر یہی ہے ہال مل جائے۔ بعض دفعہ کانفرنسز کیلئے ہال ہوتے ہیں۔اتنے بڑے ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے؟ مل سکتا ہے ، ٹھیک ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھواللہ احدOاللہ الصمدOلم یلد ولد یولدO ولم یکن الہ کفوًا احدO
تو کہہ دے اور کہتا چلا جا کہ اللہ ایک ہے ۔ اللہ وہ ہے جس کے سب محتاج ہیں۔ وہ کسی کامحتاج نہیں ۔ نہ وہ اس نے پیدا کیا نہ وہ پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں پیدائش سے مراد تخلیق نہیں بلکہ ولادت ہے۔ ولم یکن لہ کفوا احد اور اس کا کبھی بھی کوئی شریک یا کفو نہیں ہوا۔ کفوًا ان معنوں میں جو اردو میں بھی مستعمل ہیں، عربی سے بھی ماخوذ ہیں ان معنوں میں معروف ہیں۔ اس لیے اس کا ترجمہ کئے بغیر ہی بات سمجھنی چاہیے۔ کفو سے مراد ہے کہ چونکہ رشتوں میں عموماً استعمال ہوتا ہے کفو کا لفظ اور کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کا کفو ہے ۔ تو مراد یہ ہے اس سے شراکت ہو، اخلاق کی، رہن سہن کی، خاندان کی، مزاج کی ۔ یہ ساری چیزیں کفو کہلاتی ہیں۔ تو ان معنوں میں لم یکن لہ کفوا احد اس کا کبھی بھی کوئی کفو نہیں ہوا۔ کیونکہ رشتے کے تعلق میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے لم تکن لہ صاحبہ کا وہ جو مضمون ہے وہ بھی اس میں پیش نظر ہے کہ جس کی بیوی ہی کوئی نہ ہو، نہ ہوسکتی ہو۔ اس کا بچہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یعنی بچے کا تصور ہی اس کے ساتھ مطابقت نہیں کھاتا۔ جس کا کوئی ایسا ہم کفو نہ ہو جس سے شادی ہوسکتی ہو۔ پس کفو میں جب زیادہ گہرائی میںجاکر دیکھیںگے تو تولید کاجو مضمون ہے وہ اور زیادہ کھل جاتا ہے۔ کیونکہ ایک تو کفو ہے معاشرتی کفو، رواجی کفو، خاندانی کفو ، ذات کا کفو ، ایک کفو ہے جنس کا کفو اور جنس کا کفو اولاد کیلئے ضروری ہے۔ اگرایک جنس دوسری جنس کے ساتھ بیاہی جائے تو بچہ نہیں ہوسکتا ۔ تو خداتعالیٰ کے ہاں جب ہم کفو کہتے ہیں کہ کفو نہیں تو مراد ہے کہ کوئی کسی قسم کا بھی کفو نہیں اور جنسی کفو جب نہیں ہے تو پھر اولاد کا تصور ویسے ہی جاہلانہ بات ہے۔ تو ہر پہلو سے وہ احد کی تفسیر گویا آخر میںبیان فرمادی ۔ احد کیا ہے؟ جس کا کوئی کفو نہیں ہے۔ اب لفظ احد کے متعلق ،بجائے اس کے کہ لفظاً لفظاً تمام لغت کی بحث کو یہاں دہرایا جائے اس سال میں سمجھتا ہوں نسبتاً مختصراً رکھنا ہے۔ ا س لئے تفصیلی تفاسیر میںنہیں جانا چاہیے۔ایک دفعہ وہاں داخل ہوگئے تو پھر ان سے درس کے اختتام سے پہلے نکلنا مشکل ہوگا۔ یعنی ایک ہی سورۃمیں ہم وقت سارا گزار دیں گے۔ موٹی موٹی باتیں جو اس سورت سے متعلق یاد رکھنے کے لائق ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ سورۃ اخلاص کہلاتی ہے کیونکہ اس میں توحید کا خالص بیان ایسا ہے جو آگے پھرخداتعالیٰ سے توحید کے تعلق میں اخلاص پیدا کرنے والا ہے ۔
پس سب سے اعلیٰ او رمعروف اور مشہور نام اخلاص ہے اور احدکے متعلق پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ اس ایک کو کہتے ہیں جس کے ثانی کا کوئی تصور نہ ہو۔جس کے بعد دوسرے کا تصور نہ ہو۔ اس کے مقابل پر ایک لفظ واحد ہے ۔ واحد اس ذات کو کہتے ہیں جس کے بعد دو اور تین کا تصور ہو۔ اس لئے عموماً علماء نے احدکے تصور سے تثلیث کی نفی کی ہے لیکن میرے نزدیک احد کے تصور سے تثلیث کی نفی اور معنوں میں ہے اور واحد کے تصور سے اور معنوں میں ہے۔ دونوں ہی میں تثلیث کی نفی ہے۔ اگر واحدسے بھی تثلیث کی نفی نہ ہوتی تو سورۃ الکہف کے آخر پر جہاں عیسائیت کے انجام کا ذکر ہے وہاں یہ اعلان نہ ہوتا ۔ قل انما انا بشرمثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحًاکہ اے محمدﷺ اعلان کردے کہ میں بھی ایک تم جیسا بشر ہی تو ہوں مگر اس فرق کے ساتھ کہ مجھ پر وحی نازل ہورہی ہے۔ پس ایسا بشر جس پر وحی نازل ہورہی ہو اس کا مرتبہ عام بشر سے بلند تر ہوجاتا ہے مگر تخلیقی لحاظ سے نہیں بلکہ تعلق باللہ کی وجہ سے۔فمن کان یرجوا لقاء ربہ۔عیسائی تو جیسا کہ آخری زمانے میں قرآن کریم کی کسی سورت میں آخری حصہ میںبیان ہے۔ لقاء باری تعالیٰ سے منحرف ہوچکے ہوں گے اوراس وقت یہ اعلان ضروری ہے کہ لقاء کا ثبوت تو میں ہوں۔ سب سے بڑا ثبوت بشر میں سے تم جیسا ہو کر ایسی وحی مجھ پر نازل ہوئی کہ جس کی کوئی مثال اور دکھائی نہیںدیتی۔ پس لقاء باری تعالیٰ کے مظہر کے طور پر آنحضرت ﷺ کو پیش کیا گیا اورلقاء ہی کے مضمون کو پھر کھول دیا گیا۔
ومن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحًا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ مگر اس سے پہلے وہ لفظ واحد آیا ہے۔ قل انما انا بشرمثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد، وحی کے ذریعے الہ واحد کا اعلان جو ہے یہ بتارہا ہے کہ عیسائیت کے تعلق میں ہے ورنہ یہاں احدکہا جاتا اگر صرف احد ہی کا تعلق اگر تثلیث کی نفی سے ہوتا۔ وہ ان معنوں میں ہے کہ واحد کے بعداثناء کیا کیا لفظ آتے ہیں؟ ثالث اور…نہیں واحد اثنان ہے، اثنان وغیرہ الفاظ اس کے بعد آتے ہیں ایک دو، تین احد کے بعد نہیں آتے ۔ توچونکہ احد کے بعد نہیں آتے اس لیے علماء نے سمجھا کہ تثلیث کی نفی دراصل احد میںہوتی ہے ۔ احد میںبھی ہوتی ہے مگر واحد میں ان معنوں میں ہوتی ہے کہ جہاں دو اور تین کے دعاوی ہوں،وہاں ان کے دعاوی کو غلط قرار دینے کیلئے واحد کہنا ضروری ہے کہ تم نے اثنان بنالئے (یا ثالث کیلئے کیا لفظ آئے گا؟ اثنان کے بعد ثلث؟ ثلاثہ ۔ ہاں اثنا ن کے بعد ثلاثہ) ۔جو تم نے جو اثنان یا ثلاثہ یا زائد کا تصور باندھ رکھا ہے وہ غلط ہے۔ صرف واحد ہے تو واحد سے واحد کے ایک سے زیادہ بعدمیں آنے والے امکانات کو ختم کیا گیا جو اٹھتے ضرورہیں۔جب لفظ واحد کہتے ہیں تو دو کا بھی تصور پیدا ہوتا ہے، تین کا بھی پیدا ہوتا ہے، چار کا بھی پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ واحد تو پہلا حصہ ہے۔ تو ہر تصور کی نفی کردی گئی کہ خدا واحد ہے بس۔ اس کے بعد دو نہیں ہے، تین نہیں ہے ۔ یعنی و ہ Multiply نہیں ہوسکتا۔ اوراحد میں جو تصور ہے وہ اس کے sub-units کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔ چنانچہ امام رازی نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ واحد احد میں سماسکتا ہے احدواحد میں نہیںجاسکتایعنی واحد کے اندرونی ٹکڑے تو ہو سکتے ہیں۔ بیرونی طور پر مزید کا تصور نہیں لیکن ایک احد جو ہے ہو سکتا ہے۔ اس کے دو یا تین unitsہوں ان کو مل کر ایک احد بنا ہو۔ مگر تثلیث کا توڑ احد میں ان معنوں میں ہے کہ تم کہتے ہو کہ آگے اس کے بچے پیدا ہو گئے تو تین ایک ہے اور ایک تین ہے، تو اس کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے ۔ وہ احد ہے اورinvisibleہے اس کی اکائی آگے تقسیم نہیں ہوسکتی۔ پس احد وہ لفظ ہے جس کے نیچے اور کوئی اکائی موجود نہ ہو اور یہ ایک ایسادعویٰ ہے جو عیسائیت کے دعویٰ کو بالکل بے بنیاد قراردے دیتا ہے، بے حقیقت قرار دے دیتاہے کہ تم سمجھتے ہو کہ ایک بھی ہے اور دو یا تین بھی ہیں ۔ کہ دو یا تین کا unitمل کر ایک بنتا ہے ۔ یہ جھوٹ ہے کیونکہ احد میں اس تصورکی کوئی گنجائش موجود نہیںہے۔ یہی توحید کا مضمون مختلف پہلوئوں سے آگے بڑھتا ہے۔
الصمدکے متعلق پہلے بھی تفصیل سے بیان کرچکاہوں ۔ اس میں خصوصیت سے احتیاج کے لحاظ واحدانیت مراد ہے۔ بنیادی طور پر اس پہلوکو پیش نظر رکھیں کہ احد جو ہے ’’اکیلا‘‘ اس کا ایک ترجمہ اکیلا بھی ہے ۔ جب اکیلا کہہ دیا جائے خدا کو، تو اس میں ایک قسم کابیچارگی کا احساس بھی تو ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی احد کا ترجمہ اکیلا ہی کیا ہے۔ تو جب اکیلا کہہ دیں تو یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اکیلا بے یارومددگار۔ اورجب بھی کسی نے مظلوم بناناہو اپنے آپ کو تو میں تو اکیلا، بلکہ کہاجاتا ہے کسی کوبا پ اور بیٹا جارہے تھے تو کسی ڈاکونے حملہ کرکے ان سے مال چھین لیا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ تم دو تھے وہ ایک تھا۔ کہتا ہے دو کہاں تھے کہ چور تے لاٹھی دوجنے میں تے باپو کلے(چور اور لاٹھی جو تھے وہ دو تھے میں اور باپ اکیلے)۔تو یہاں اکیلے میں دراصل مسکین ہونا ظاہر ہوتا ہے، بے سہارا ۔تو اس بات کی نفی اگلا لفظ الصمدکرتا ہے ۔ کہتا ہے اس کو احتیاج نہیں ہے کسی کی اور ہر ایک کو اس کی احتیاج ہے۔ اس معنوں میں اس کا اکیلا ہونا اسے بے سہارا قرار نہیںدیتا بلکہ ہرسہارا ڈھونڈنے والے کا سہارا قرار دیتا ہے ۔ پس ایسا وجود جس کا اس بارے میں بھی کوئی شریک نہ ہو کہ کوئی اس سے سہارا نہ ڈھونڈے ۔ ہر شخص لازم ہے کہ اس کا سہارا ڈھونڈے اورہر شخص جب ایک کا سہار ا ڈھونڈے گا تو اکیلا ہی ہوگا ، اس صفت میں کہ وہ کسی کا سہارا نہیں ڈھونڈ رہا ہر ایک اس کا سہارا ڈھونڈ رہا ہے۔ ان معنوں میں اکیلے سے جو ایک منفی معنی پیدا ہوا تھا اس کا قلع قمع فرمایا گیا اور فرمایا کہ اکیلا ان معنوں میں ہے کہ تم سب اس کے محتاج ہو اور جب یہ فرمادیا گیا توپھر کثرت بھی آگئی بیچ میں۔ اکیلا ہونا اورکثرت ہونا ، اس کامسئلہ حل ہوگیا کہ اکیلا ان معنوں میں نہیں کہ اس کے سوا کوئی وجود ہے ہی نہیں، اکیلا ان معنوں میں ہے کہ اس جیسا کوئی وجود نہیں۔ ہر وجود اگر ہے تو اس کے سہارے سے ہے اس میں صرف احتیاج کا سہارا نہیں بلکہ وجود کا سہارا بھی داخل ہے اکیلا ہونے کے باوجود کثرت بھی تمہیں دکھائی دیتی ہے۔ مگر کثرت میں سے کوئی ایک ذات بھی ایسی نہیں ہے جو اس کے سہارے کے بغیر وجود کی طاقت رکھتی ہو۔
پس اکیلا مگر سب کو وجود بخشنے والا، ایسا اکیلا جس کے ساتھ ایک ان گنت کائنات وجود میںآئی ہوئی ہے۔ مگر ہر چیز فی ذاتہٖ اس کے سہارے کی بناء پر زندہ اور موجود اور قائم ہے اگر وہ تعلق ٹوٹ گیا تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ پس روحانی معنوں میں یہ مفہوم پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہمارے وجود کی کوئی بھی حیثیت نہیں اگر تعلق باللہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو ہمارا وجود بنتا ہے ۔پس جیسے مادی وجود میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسی کے سہارے ہر چیز موجود ہے پھر بھی وہ اکیلا ہے تو اس لحاظ سے خدا سے تعلق پیدا کرنا لازم ہے تاکہ روحانی وجود قائم رہے اور خداتعالیٰ سے تعلق والے کسی شخص کو اس کا شریک ٹھہرانا گناہ ہے۔ کیونکہ پھر بھی وہ اکیلا رہے گا، تعلق انبیاء کو پید اکرے گا، تعلق بڑے بڑے بزرگوں کو ، ایسے لوگوںکو پیدا کرے گا جو خدا والے کہلاتے ہیںمگر پھر بھی وہ اکیلا ہی ہے ۔ تو صمد نے یہ مضمون بھی پید اکردیا کہ اس کے بغیر تو تم جی سکتے ہی نہیں، اس لیے اگر روحانی زندگی بنانی ہے تو اس سے تعلق باندھو، تعلق باندھو گے تو تم بھی پید اہوجائو گے ایک روحانی وجود کے طور پر۔ مگر اس کی وحدانیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تم اس کے محتاج رہو گے وہ تمہارا محتاج نہیں۔ پس ہر وہ شخص جو خداتعالیٰ سے تعلق سے بڑا بنتا ہے یا بڑا دکھائی دیتا ہے اس کی ذاتی حیثیت کچھ بھی نہیں مگر اسی حد تک جس حد تک وہ خدا سے تعلق رکھتا ہے اور اخلاص سے تعلق رکھتا ہے۔
تیسرا ہے لم یلد ولم یولد ۔ اب جب ایک سے زیادہ کا تصور’ ـالصمد‘نے پیدا کردیا اور احد نے اس تصورکی نفی کی تھی تو اگلالفظ ہے لم یلد ولم یولد جب ایک سے زیادہ موجود ہیں تو اس کا سہارا ڈھونڈرہے ہیں ناں، اگر نہ ہوتے تو کیسے سہارا ڈھونڈتے۔ فرمایا یہ کثرت تولید کے ذریعے نہیںہوتی۔ نہ وہ خود پیدا ہوا، کسی باپ یا ماں کے ہاں ایک بیٹے کے طور پر، نہ اس نے کسی کوجنا، اکیلے یا کسی کے تعلق کے ساتھ۔ پس کثرت پھر تخلیق سے تعلق رکھتی ہے تولید سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی سورۃ کا مضمون ہی اس سے شروع ۔قل اعوذ بربّ الفلق۔ من شرّ ما خلق ۔ تو جب کثرت پید اہوئی ہے خلق کے ذریعے اور تولید کے ذریعے نہیں ہوئی توپھر خلق کا مضمون اس کے بعد آنا چاہیے تھا اور اس کی وضاحت ضروری تھی۔ پس اگلی جو سورۃ ہے وہ خلق کیلئے وقف ہے۔خلق کیا چیز ہے؟ کیا کیا ا س میں فوائد یا مضرات مضمر ہیں؟ ان سے پناہ مانگنی ہے توکیوں مانگنی ہے؟ کیسے مانگنی ہے ؟ یہ ساری باتیں سورۃ فلق سے تعلق رکھنے والی بعد میں آئیں گے۔ لم یلد ولم یولدکی جو آیت ہے اس نے عیسائی مستشرقین کو مصیبت ڈال رکھی ہے ۔ بہت بڑے چکر میںپھنسے ہوئے ہیں ، نکل ہی نہیںسکتے اس چکر سے۔ ان میں سے بعض لوگ جب اس سورۃ کی شان سے متاثر ہوتے ہیں تو ساتھ ہی یہ خیال ان کو پریشان کرتا ہے کہ یہ سورۃ تو ظاہر و باہر عیسائیت کا پول کھول رہی ہے اور عیسائیت کی نفی کررہی ہے اور عیسائیت کے تانے بانے کو ادھیڑ کر پھینک رہی ہے اور یہ سورۃ ابتدائی سورتوں میںسے ہے۔ اس لئے یہ جو ان کو مصیبت پڑ گئی کہ یہ سورۃ تو مکی دور کی ابتدائی سورتوں میںسے ہے۔ یہاں تک کہ نولڈیکے نے بھی لکھا کہ تیسرے سال کے ساتھ ہی ہے یہ یعنی چوتھے سال کے بالکل آغاز میں ہوگی اس کے بعد نہیں ہم اس کو مان سکتے۔ صرف مشکل یہ پڑگئی کہ بعض مفسرین نے اس کومکی قرار دے دیامدنی قرار دے دیا اور بہانہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کے ہاتھ میں کہ کچھ یہ کہتے ہیں اور کچھ وہ کہتے ہیں۔ دراصل ان کو مصیبت یہ پڑی ہوئی ہے کہ تثلیث کی بیخ کنی کی۔ اتنی شاندار سورت جو واضح طورپر عیسائیت کو پیش نظر رکھ کر بات کررہی ہے وہ اس وقت کیسے آگئی جبکہ ابھی عیسائیت کے ساتھ مسلمانوں کا رابطہ نہیں ہوا تھا۔ جبکہ شاذ کے طور پر شنید تھی کہ عیسائی ہیں مگر کوئی مذہب نہیں تھا عیسائیت۔ مکہ میں عیسائیت کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ کوئی کہیں راہب آجاتا تھا اور پیغام مل جاتا تھا ورنہ مدینے میں اور اس کے قرب و جوار میںعیسائی بھی رہتے تھے اوردوسرے اہل کتاب یہود بھی رہتے تھے۔ تو ان کے ساتھ تصادم سے اتنا پہلے اتنی قطعیت کے ساتھ عیسائی فلسفلے کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکنا یہ ان کو متردّد کرتا ہے اور دل میں یہ چور ہے کہ اگر ہم اس کو مانیں گے تو معلوم ہوگا کہ الٰہی کلام ہے اس کیلئے پھروہ کئی عذر گھڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض وہ روایات ہیں جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مثلاًمنسوب ہوتی ہیں ۔ اب روایات نے جو مشکل ڈالی ہوئی ہے اس میںیہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیوں اس مشکل میں پڑے ہوئے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ روایت منسوب ہے کہ آپ ؓ کہتے تھے کہ یہ مدنی ہے۔ جبکہ دوسرے چوٹی کے اہل علم جن میں ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ صف اوّل میں سے ہیں وہ قطعی طور پر اس کو مکی قرار دیتے ہیں اور مکی ہونے کے شواہد اس کثرت سے ہیں۔ اکثر مستشرقین ، یہاں تک کہ دشمن بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ مکی ہے مگر جب وہ مکی مانتے ہیں تو ساتھ اس بات کا انکار کردیتے ہیں کہ اس کا عیسائیت سے کوئی تعلق ہے۔ وہیری بھی مانتا ہے کہ مکی ہے لیکن کہتا ہے کہ عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں اور باتیں کوئی ہورہی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتا ہے یہ عجیب بات ہے چونکہ جھوٹ کی کوئی ایک مقام ایک ایسی جگہ نہیںکہ جہاں جھوٹ ثابت ہو۔ وہ تو ایسے کلمہ خبیثہ کی طرح ہے جو اکھڑا ہوا ہوتاہے۔ کبھی یہاںپناہ ڈھونڈتا ہے کبھی وہاںپناہ ڈھونڈتا ہے ۔ تو اس آیت نے افراتفری ڈالی ہوئی ہے ان کواس سورۃ نے۔وہ پناہ دوسری اس بات میں ڈھونڈتا ہے کہ دیکھو سورۃ کے ایسے شاندار الفاظ ماننا پڑتا ہے اس کو۔ کہتا ہے یہ تو لفظاً لفظاً بائبل کی نقل ہے اور بائبل میں یہ ساری آیات موجود ہیں۔ اب یہ حسد پیدا ہوا ہے بڑا سخت کہ کاش یہ ہماری سورت ہوتی۔اوردعویٰ یہ کردیا کہ ابھی تصادم نہیں ہوا تھا اس لیے مشرک مخاطب ہیں اور اند ر سے دل کی بات اچھل پڑی کہ اس سورۃ میں جو شان دکھائی دیتی ہے وہ تو بائبل کی شان ہے، اس لئے جھوٹ خود جھوٹ کی نفی کرتا ہے۔ ایک تضاد دوسرے تضاد کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔لم یلد ولم یولد میں جو دلیل قائم فرمائی گئی آخر کیا دلیل ہے کہ جس سے ہم قطعیت سے یہ سمجھ سکیں کہ خداتعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں ، کوئی اس کا باپ نہیں، یہی بحث ہے جس نے بعض مفسرین کو ان دو گروہوں میں بانٹ دیا کہ یہ آیت کس بات کی طرف دلالت کررہی ہے مکی ہے یا مدنی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ روایت منسوب ہوئی کہ یہود نے آکر رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا تھا کہ اگر خدا کا کوئی باپ نہیں ہے تو خداپھر کیسے آیا، اس سے پہلے کوئی نہیںتھا تو خدا کیسے بنا؟ اگر خدا ہے تو اس سے پہلے بھی کوئی بنانے والاہوگا؟ اگر وہ تھا تو اس سے پہلے بھی۔ یہ جو بچگانہ سوال آج تک اسی طرح چلا آرہا ہے اور عموماً بچوں کے ذہن میںجب وہ بلوغت میںداخل ہوتے ہیں تو یہ سوال بھی ساتھ ہی داخل ہوجاتا ہے اور اکثر اس مشکل میں الجھے رہتے ہیں بیچارے۔ کیونکہ غلط تصور پیش کیا جاتا ہے ۔ خداتعالیٰ نے لم یلد ولم یولد میں ولادت کی نفی فرمائی ہے وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا کوئی چیز اس سے پیدا نہیں ہوئی۔ پھرجو تخلیق کا معاملہ ہے وہ اگلی سورت میں بیان ہوا ہے۔ فرمایا ہے وہ ہر چیز کا خالق ہے یعنی اس کا کوئی خالق نہیں ۔ تو ولادت کی نفی اس سوال کا حل ہے جو عیسائیت کی طرف سے اٹھایا گیا ہے اور تخلیق کا سوال یہود میں بہت عام اور مشہور تھا کہ اگروہ خدا خالق ہے تو پھر ہر چیز کا کوئی خالق ہونا چاہیے، اس کا بھی خالق ہونا چاہیے۔ قرآن کریم نے کہیں نہیںفرمایا کہ ہر چیز کا کوئی خالق ہونا چاہیے مگر اگر کوئی چیز ہمیشہ سے ہے تو لازم ہے کہ اس کا کوئی خالق نہ ہو۔ یہ ہے اصل مضمون اور اس کی دلیل وہیں اس بات میں موجود ہے کہ اگرہمیشہ سے قرار دیا جارہا ہے کسی چیز کوتو اس کا خالق ہو نہیں سکتا۔ اور یہ سورت بتارہی ہے ولم یکن لہٗ کفوًا احدکہ چونکہ اس کی مثال کوئی نہیں ہے ، اس جیسا کسی پہلو سے بھی اورکوئی ہے نہیں، اس لیے اس کی ذات ہمیشگی میں صرف اکیلی ہے اور احد کے معنی یہ بنے گا کہ وہ ایک ایسی اکیلی ذات ہے کہ ہمیشگی میںبھی کوئی اس کا اکیلے ہونے کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ وہی ہے جو اکیلا ہے اور ہمیشہ سے وہی اکیلا ہے ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو پھر کس نے کس کو پید اکیاکا سوال پیداہوسکتا تھا اور یہ ایک منطقی بات ہے اس کے سوا کوئی دنیا کا فلسفی کوئی دوسرا نتیجہ نکال ہی نہیں سکتا۔ اگر وجود ہے تو یا وہ پیدا ہوا ہے یا وہ ہمیشہ سے ہے تیسری کوئی بات عقلاً آہی نہیں سکتی ،سوچی ہی نہیںجاسکتی۔ وجود کا ہونا اسلئے وجود کی نفی نہیں کرتا کہ اس کو کس نے پیدا کیا۔ آخر کوئی تو ہے ہمیشہ سے ورنہ وجود نہ ہوتا۔ اگر وجود ہے تو پھر وہ کس کا وجود ہے ۔ یہ قرآن فرماتا ہے خالق کا وجود ہے اگر وجود ہے تو دو ہی ذریعے ہیں جن سے وہ پیدا ہوسکتا تھا ۔ ایک تولید کا ذریعہ یعنی اس کا باپ ہوتا، اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ آگے بھی پیدا کرتا چلا جاتا۔ ایک ذریعہ تخلیق کا ذریعہ کہ وہ دوسروں کو پیدا کرتا اور خود بھی تخلیق کے ذریعے پیدا ہوا ہوتا۔ تو یہ دو صورتیں یکے بعد دیگرے ان تمام امکانات کو کالعدم قرار دیتی ہیں اور کفوًا احدمیں یہ مضمون آچکا ہے اصل میں۔
پس بعد کی سورت کا سہارا لیے بغیر بھی ہم قطعیت سے یہ کہہ سکتے ہیں (کیوں جی کوئی چٹ آپ دینا چاہتے ہیں؟ ہاں ٹھیک ہے) یہ کہہ سکتے ہیںبلا خوف تردید کہ یہ سورت اپنی ذات میں ایک کامل سورت ہے اور اتنی چھوٹی سورۃ میں ایک عظیم مضامین کا بیان جو خدا کی توحید اور واحدانیت کے اوپر مکمل مضمون پیش کرتے ہوں، ہر اعتراض کی نفی کرتے ہوں۔ یہ خود ایک ایسا عظیم اعجاز ہے کہ اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ اس لئے وہیری کا دعویٰ ہے یا کسی اور کا دعویٰ کہ یہ تو ہماری ہے بالکل جھوٹ ہے ۔ وہاںتوحید خالص کا بیان ہی کوئی نہیں۔ جہاں ایک تین اور تین ایک ہیں وہاں توحید خالص کہاں سے آگئی ۔ اور ولادت کا مضمون چل پڑا اور کفو کے مضمون کو بھی توڑ گیا، کیسی جاہلانہ باتیں ہیں صرف یہ حسد کے نتیجے میں یا اس حسرت کے نتیجے میں ہے کہ کاش یہ سورۃ محمدرسول اللہﷺ پر نازل نہ ہوئی ہوتی ۔ ہماری ہوتی تو اس نے کہا کہ ہے ہی ہماری اور ہماری کتابوں سے لی گئی ہے۔ حالانکہ اگر یہ تمہاری ہے تو پھر تمہیں عیسائیت کا کیا حق ہے۔ پھر توبہ کرو اور اسلام میںداخل ہو۔تو یہ سورۃ جو ہے اس نے سب اعتراض کے دروازوں کو بالکل بند ،مکفل ہمیشہ کیلئے مضبوطی سے کردیا ہے اور تخلیق کے مضمون پر بھی روشنی ڈال رہی ہے۔ تولید کے مضمون پر بھی روشنی ڈال رہی ہے۔ جس کا کفو کوئی نہیںہوگا اس کا ازلی ہونالازم ہے اور بعض مستشرقین بھی یہ نتیجہ اس سے نکالنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً منٹگمری واٹ نے بھی لکھا ہے کہ صمدکے اندر ازلیت پائی جاتی ہے کیونکہ اکیلا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں۔ تو پھر کسی نے نہ اس کو پید اکیا، نہ وہ پیدا ہوا، وہ ازل سے ہے اور جب ازل سے ہے جو چیز وہ مخلوق ہو ہی نہیں سکتی اورجوچیز ازل سے ہے وہ ہر چیز کی خالق ہی ہوسکتی ہے اور یہی حصہ اگلی سورۃ میں بیان ہے ۔ قل اعوذ بربّ الفلق۔ من شرّ ماخلقمیں نے جیسے کہا تھا اس وقت تو میںمختصر عمومی تعارف کروائوں گا، کیونکہ تفصیلات میں گیا تو پھر جیسا کہ پہلے ہوتا آیا ہے زیادہ سارا وقت تو تقریباً یہی سورۃ لے جائے گی۔ جو مستشرقین بعض مجبور ہیں ماننے پر کہ یہ کرسچنDoctrineکے مخالفانہ ایک سورۃ ہے۔ جو آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر Christianityکو مخاطب ہورہی ہے۔ اس میں ایک Richard Bellکی گواہی بھی ہے ۔ کہتا ہے
Most modern regarded as directed against Christian doctrine of the devine sonship.
پھروہ کہتا ہے باقی آیتوں میں تو شاید کوئی اور معنی ہوںلیکن
Verse four how ever must be directed against Christain doctrine
تو جہاں تک مستشرقین کا تعلق ہے وہ پسند نہیں کرتے یہ اعتراف کرے مگر مجبور ہیںتو یہ Bell بھی نکلنے کی کوشش کرتا ہے ادھر ادھر سے مگر آخر کہتا ہے کہ جہاں تک آیت ۴ ہے لم یلد ولم یولدوہاں توہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں سوائے اس کے کہیں کہ Christian doctrine کو مخاطب کر رہی ہے اب یہ دیکھیں منٹگمری واٹ صاحب بیچارے بہت ہی تکلیف میں ہوتے ہیںاور چونکہ انہوں نے اپنی شرافت کا ایک رعب قائم کر رکھا ہے کہ میں مخالف اسلام نہیں ہوں اس لئے ایسے لپٹے ہوئے لفظوں میں بات کر جاتے ہیں کہ بعض سادہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کیا کہہ گئے ہیں۔
It is unlikely that the original reference was to Jews and Christains.
۔۔۔۔ کہتا ہے کہall right تومیں مان گیا ہوں ہے لیکن ضمناً it is unlikelyکوئی دلیل نہیں کوئی وجہ بیان نہیں جو اس کے شاگرد ہیں وہ ان کے دماغ میں unlikelyہی رہ جائے گا باقی۔ تو اس طرح اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں ، آنکھیں بند کرلیتے ہیں حقیقتوں سے اور دعویٰ کردیتے ہیں پولے منہ سے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے، کیا بات کہہ گئے ہیں ۔کیسے unlikelyاتنا واضح قطعی مخاطب ہے Christainityکہ اس سے بچ کر نکل ہی نہیںسکتے تم اور ویری بیچارہ کہتا ہے
The primary illusion here is to the idolatory of the Quraish اور پھر کہتا ہےbut afterwards was made to aply to the Jews who are said to have call Ezra son of God and to the Christian who worship Christ the son of God.
کہتا ہے پہلا تو یہی مقصد تھا کہ قریش سے ہی بات ہورہی تھی مگر بعد میں بنا لیاگیا ۔ تو بعد میںبنانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یہ تو اتنی قطعیت کے ساتھ عیسائیت کو سامنے رکھ کر اس کا تار پود اکھیڑ کر پھینک دیتی ہے ان لوگوں کے پاس چارہ کوئی نہیں اس سے بچ کر نکلنے کا ۔ اب منٹگمری واٹ جب کہتے ہیں ناunlikelyتو وہاں آپ دیکھیں بات کیسی عجیب کہہ رہا ہے کہ جب begotten forپر آیا سورۃ نمبر۴ پر تو جس کے متعلق Bellکہتا ہے کہ ناممکن ہے کہ اس کا کوئی او رترجمہ کیا جائے سوائے اس کے کہ عیسائیت کو اس کا مخاطب سمجھا جائے ۔ منٹگمری واٹ صاحب کہتے ہیں۔
has not be gotten presumebly directed against the Arabian pegan belief in daughter of God.
لم یلد ولم یولددونوں ایک بریکٹ میںہیں اور ایسا کوئی تصور عربوں میں موجود نہیں تھا۔ لم یلد ولم یولدکے منافی اس بریکٹ میں سوائے عیسائیت کے اور کوئی مخاطب ہو ہی نہیںسکتا۔ تو Persumeblyکہہ کے اس قسم کے لفظوں کے سہارے یہ بات جب مانتے ہیں کہ یہ مکی ہے تو پھر اس کے طبعی نتائج سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر ویری کچھ ویر کرکے جو کچھ اس کے متعلق حاسدانہ تصورات پیش کرنے تھے کر بیٹھا تو اس کو آخر پہ کہتے ہیں Cat is out of a bag
‏because this verse with those we receieve express a Bible.... the whole chapter is made of scriptual phrases
یہ جو میں آپ سے باتیں کرچکاہوںاب اس کو چھوڑتے ہیں ۔ا ب اگلا حصہ لیتے ہیں ۔
سورۃ اخلاص او رسورۃ الفلق کا ایک تعلق ایسا ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے۔ اس سے پہلے بہت سے ایسے تعلقات تھے جن کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تفسیری کلام کے حوالے سے میں نے روشنی پچھلے سال ڈالی تھی۔ اس سے پہلے بھی ڈالتا آیا ہوںلیکن ایک اور تعلق بھی ہے جو میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ وہ وہی ہے کہ ولادت بمقابل تخلیق، ولادت تو نہیں ہے پھر کثرت کیوں ہوئی۔ اس کا جواب یہ کہ سورۃ دے رہی ہے سورۃ الفلق۔ اور سورۃ الفلق زیادہ تربعض زمانے کے ایسے آنے والے فتنوں کی طرف اشارہ کررہی ہے جو درمیانی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تین زمانے ہیں آغاز نبوت جو آدم سے شروع ہوا اوررسول اللہ ﷺ پر منتج ہوگیا۔ وہاں وہ تخلیق کامل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے دونوں مظاہر پیدا کردیئے کثرت کے کہ کثرت بذریعہ خلق اور کثرت بذریعہ روحانی خلق، یعنی وجود بھی کثرت سے ہوئے اور اپنی انتہاء کو پہنچے اوررسول اللہﷺ پیدا ہوئے اور تعلق باللہ کے ذریعے جو خلق آخر ہوتی تھی اس کا مظہر بنے۔ اگر یہ مانا جائے تو یہ بھی ایک پہلو نکلتا ہے جو میں آج آپ کے سامنے رکھناچاہتا ہوں کہ ان سورتوں میں ارتقائی دور کی طرف اشارہ ہے۔ سب سے پہلے خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے اس کے سوا جتنے اور وجود ہیں ان سے ولادت کا تعلق نہیں مگر خلق کا تعلق ہے اور خلق مختلف شر کے ادوار سے گزر کر کامل ہوئی ہے۔ہر قدم پر مخلوق کو خطرات درپیش تھے اور ہر قدم پر خدا کی غالب تقدیر نے ان خطرات سے اس کو نکالا اور پہلے سے بہتر حالت کی طرف منتقل کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ سورۃ الناس اس مضمون کو الناس تک پہنچادیتی ہے۔ یعنی تخلیق میں پہلا دور ہے تخلیق عالم دوسرا دور ہے، تخلیق جو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی وہ عالم جو بے جان تھا اور اس عالم کی تخلیق کے بعد پھر اس عالم کی بات ہونی چاہیے جو جاندار ہے اور جاندار عالم میں جو وسطی دور ہے وہ سورۃ الفلق سے تعلق رکھتا ہے۔ جب حیوانی تخلیق مکمل ہوگئی توپھر انسانی تخلیق کی باری آئی اورالناس جو آخری مقصود تھا تخلیق عالم کا وہ پید اہوگئے ۔ تو گویایہ تخلیق کا دور اس طرح مکمل ہوا ہے اور مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ جتنا بھی آغازنبوت ہے وہ توحید سے ہوا ہے۔ توحید کامل سے ہر نبوت پھوٹی ہے لیکن اس کے باوجود فوری طور پر اپنی ترقی کے آخری مدارج تک نہیں پہنچی ، پھر وہ فلق کے دور سے گزری ہے اور وسق کے دور سے گزری ہے ۔ کئی قسم کے اندھیروں اور ظلمات سے نکلتے ہوئے وہ قدم بڑھاتی رہی، یہاں تک کہ اس نبی ٔکامل تک جاپہنچی جو الناس کی طرح جس طرح الناس حیوانی تخلیق کے سب سے اوپر کھڑا ہے ۔ اسی طرح محمد رسول اللہ اور آپ کا دین تمام روحانی تخلیقات میں سب سے آخری منزل پر کھڑے ہیں۔ تو اس طرح الناس تک یہ مضمون پہنچا ہے اورسورۃ الفلق کے رستے سے او روہاں جاکر پھر کیا ہوگا اور آخر پر کیا ہوگا یہ ساری باتیں اس میں آجاتی ہیں۔ تو اس لیے اب ہم سورۃ فلق کو اس حوالے سے دیکھتے ہیںکہ کیا مطلب ہے۔ اگر سورۃ فلق خداتعالیٰ کی تخلیق کا مظہر ہے اور خصوصیت سے زندہ تخلیق کا مظہر ہے تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے۔ دیکھیں نا اس سے پہلے جو سورۃ اخلاص نے باتیں کیں ہیں اس میں انسان اور زندگی کا براہ راست ذکر نہیں فرمایا۔ یہ بتا یا ہے کہ وہ ازل سے ہے، کوئی اس کا شریک ثانی تھا ہی نہیں ، نہ ہے۔ کثرت جو تمہیں دکھائی دیتی ہے وہ تخلیق کی کثرت ہے، تولید کی کثرت نہیں ہے۔ اوراس جیسا کوئی نہیںہے، نہ تھا، نہ ہے ، نہ ہوگا۔ یہ باتیں کسی زندہ وجود کی طرف اشارہ نہیں کررہیں اگرچہ جب ہم ایک دوسرے پہلو سے غور کرتے ہیں تو یہ پھر معنی نکالتے ہیں کہ ہر زندہ وجود، ہر وہ وجود جو باشعور ہے وہ بھی اسی کا محتاج ہے اور لم یلد ولم یولدمیں بھی پھرزندگی کا اشارہ ان معنوں میں ملتا ہے مگر آغاز ہے یہ اس میں قطعیت سے، کوئی شک نہیں کہ احد سے آغا زہوا ہے کائنات کااور کثرت کے باوجود بھی وہ احد رہا ۔ یہ پہلو ہے جس کو سمجھنا لازم ہے جو ازل سے تعلق رکھتا ہے ازلیت اور ابدیت یعنی Eternity۔ اگر کثرت کوئی موجود ہو تو پھر وحدت کیسے رہی، ہر کثرت کو وحدت کا محتاج کردیا اور فی ذاتہٖ ان کے وجود کی نفی فرمادی۔ تو Enternityایک ہی کے ساتھ وابستہ ہے اور دوسری کوئی چیز بھی Eternalنہیں۔ یہ مضمون ہے جو فلسفی نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو اس میں قطعاً کوئی ذرہ بھی رخنہ نہیں بنتا۔ کوئی اعتراض اٹھ ہی نہیں سکتا۔ واحد ہے مگر تخلیق کے ذریعے، کثرت بھی ہے ، کو ن ایک ہے اور کون زیادہ ہیں۔ یہ معاملہ اس فیصلے سے تعلق رکھتا ہے کہ اگر ایک کو نکالا جائے تو باقی کون رہ جائے گا۔ ایک ایک کرکے تمام مخلوق کو نکال دو تو صمد پھر بھی رہے گا۔ تمام مخلوق مٹ جائے گی مگر وہ صمد اسی طرح رہے گا۔ جس کا تعلق لفظ صمد سے بھی ہے۔ یعنی اس چٹان سے جو ایسے سیلاب کے وقت جیسے نوح علیہ السلام کا سیلاب آیا تھا، ہر چیز غرق کرگیا وہ سیلاب، مگر وہ چٹان پھر بھی اوپر نکلی رہی اور ہر جاندار، ہر پناہ لینے والا اس چٹان پر آکر بیٹھا تو بچا ورنہ نہیں بچ سکا۔ یہ صمد کا ایک نقشہ ہے جو عربی زبان میں پیش کیا جاتا ہے، تو الصمد وہ ذات ہوئی جو ایسی ہے ۔پس اس کا زلی ہونا اور اس کے باوجود ایک ہونا اور اس کا ازلی ہونا اور بظاہر مخلوق کا ازل سے دکھائی دینا یا ایک دفعہ آنے کے بعد پھر باقی رہ جانا۔ یہ مضمون ہے جس کو اس سورت نے حل فرمایا ہے اور خلق والا مضمون اس کے منافی نہیں ہے۔ وہ حل یہ ہے کہ ہمیشگی میں اس کے سوا نہیں ہے۔ہر کثرت کے اوپر جب تم یہ سوال اٹھائو گے، اس کی کوئی بھی شکل ہوکہ کیا یہ چیز ہمیشہ سے ہے؟ تو جواب ہے کہ نہیں۔ ہمیشہ سے ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کی بناوٹ کے اندر وہ دلائل موجود ہیں جو اس کو ہمیشہ سے قرار دے ہی نہیں سکتے۔ کائنات ہے اس کے متعلق بہت لمبی چوڑی بحثیں ہوئیں۔ فلسفیوں نے بھی اٹھائی ۔ ہندو فلسفے نے خصوصیت سے اس بحث کو چھیڑا کہ ہمیشہ سے ہے ورنہ ہو نہیں سکتی تھی۔ مگر اب سائنس جس نتیجے پر پہنچی ہے قطعیت کے ساتھ وہ یہ ہے جس کی ایک زندگی ہو جس span ہو وہ ہمیشہ سے ہو ہی نہیں ہوسکتا ۔ پس اس کائنات کا آغاز بھی تھا اور انجام بھی اور ہمیشہ سے اس لئے بھی نہیں ہوسکتاکوئی وجود کہ وہ گھٹتا ہے یا بڑھتا ہے ۔ جو بڑھتا ہے وہ بھی ہمیشہ سے نہیں ہوسکتا۔ جو گھٹتا ہے وہ بھی ہمیشہ سے نہیں ہوسکتا۔ پس کائنات پر دو ہی دور ہیں ایک ارتقائی دور جو وہ بڑھتی رہی اور منظم ہوتی رہی ایک دور ہے اس کے گھٹنے کا۔ اور اس مضمون کو لفظ Entopyکھولتا ہے جس کو سائنسدان اچھی طر ح سمجھتے ہیں۔Entopyاس Energyکو کہتے ہیں (energyکو نہیں کہتے، میں بات پہلے سمجھادوں پھر لفظ entopyسمجھ آجائے گا) ہر چیز جو موجود ہے اس سے کچھ گرمی نکل رہی ہے۔ ایسی گرمی جو پھر واپس وجود میں لوٹ نہیں سکتی جو recycleableنہیں ہے۔ اوراس پہلو سے wasted energyکا levelاونچا ہورہا ہے اور wasteful energyکا levelکم ہورہا ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے بعد کئی سائنسدان ہکا بکا رہ گئے اور انہوں نے واضح طور پر سوال اٹھایا کہ اگر یہ بات ہے تو لازمی طور پر اس مخلوق کا کوئی خالق ماننا پڑے گا جو Entopyسے بالا ہے ورنہ ازل میںتو آج ہم ہوتے ہی نہ، ازل میںتوزمانے کو جتنا چاہو پیچھے دھکیلتے چلے جائو۔ اگر ارب ہا ارب ضرب ارب ہا ارب سال بھی چاہیے ہوں energyکے zeroہونے کیلے یا پھر وہ ایک level سمندر بن جائے جس میں سے کچھ نہ پیدا ہوسکے نہ وہ reactکرسکے کسی کے ساتھ۔ یہ Entopyکا مضمون ہے اس میں پھر پیچھے جو ازل بیٹھی ہوئی ہے وہ کبھی کا ختم کرچکی ہوتی اور ہم ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ہمارا ہونا بتارہا ہے کہ ہمارا آغاز بعد میں ہوا ہے اور اگر ہمارا آغاز ہوا تو ہم سے پہلے کوئیeternalچیزہونی چاہیے جو entopyکی دست درازی سے اوپر ہو۔ entopyکا ہاتھ (اس تک پہنچ نہ سکے، کبھی اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کا وہ تصور ہے ہی نہیں کہ جو entopyسے بالا ہو مگر ہو بھی تو ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ کائنات وجود میں رکھتی ہے ۔ اگر ایسا وجود نہ ہو یہ میں اس لیے آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ بعض فلسفی آپ کو اس بحث میں الجھاسکتے ہیں کہ entopyثابت کرو کہ خدا entopyکا شکار نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود وہ طاقت رکھتا ہے ۔ آپ یہ مؤقف لے سکتے ہیں) کہ ہر چیز جو تم نے دیکھی بھالی، تمہار اپنا وجود یہ entopyکا شکار ہے۔ اگر ہے تو entopyکے بعد کسی وجود کے باقی رہنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ مگر چونکہ تم ہو اس لیے ماننا پڑے گاکہ کوئی وجود ہے ۔جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اوراگر وہ خودEntopyکا شکارہوتا تو پھر بھی تم نہ ہوتے۔تمہارا ہونا بتار ہا ہے کہ جس وجود نے تمہیں پید اکیا ہے وہ Entopyسے بالا ہے، ورنہ تم ہو ہی نہیں سکتے تھے ۔ تو ہر وجود خدا کی ہستی پر گواہ ہے۔ اور ایسا گواہ ہے کہ اس کی گواہی کو کسی پہلو سے ردّ کیا جاہی نہیں سکتا۔
یہ مضمون ہے جو سورۃ توحید یا سورۃ اخلاص میں کامل ہوگیا ہے۔ پوری طرح ہر پہلو سے بیان ہوگیا ہے، لفظ، اصطلاحیں (الفاظ اور اصطلاحیں توسائنس کی نہیں ہیں) مگر جو بیان ہے وہ اتنا کامل ہے کہ اس کے سوا کوئی نتیجہ نکالا ہی نہیں جاسکتا۔ اب اگر خلق ہے تو پھرخدا خالق ہوا۔ اگر خدا خالق ہواتو شر جو پید اہوتا ہے کیا اس کا بھی وہی خالق ہے اور اگر اس کا وہ خالق ہے تو پھر ابدی طور پر ایک پاک خدا کا تصور باندھا ہی نہیں جاسکتا جو ہر شر سے بالا ہو، ہر شر سے پاک ہو، ورنہ اس کی شریر مخلوق اس کی ذمہ داری بن جائے گی۔ اس مضمون پر سورۃ فلق نے بہت ہی پیاری روشنی ڈالی ہے ربّ الفلق زندگی کے پیدا کرنے والے ربّ کی پناہ میں آتا ہوں۔ کہہ دے، من شرّ ماخلق، پیدا ہوئی ہوئی چیزوں کے شر سے نہ کہ خالق کے شر سے اور یہاں شر کا مضمون صرف سمجھا دیا جائے توباقی وقت نہیں ہے تفصیل میں جانے کا۔ اس حصے کو سمجھ لیں تو بہت باتیں سمجھ آجاتی ہیں۔ ہر چیز جو پید اہوتی ہے اس کے متعلق ہم کہتے ہیں ایک مثبت پہلو ہے ایک منفی پہلو ہے ۔ اچھی سے اچھی چیز کسی مثبت فائدے کیلئے بنائی جائے تو اس کاایک منفی پہلو ضرور اس کے وجود سے ابھر آئے گا اور منفی پہلو مخلوق کے تصور سے بندھا ہوا ہے، خالق کے تصور سے نہیں ہے۔ جب کوئی چیز وجود میں آتی ہے تو اس کا استعمال بتائے گا کہ یہ اچھی فائدہ مند چیز ہے یا نقصان دہ چیز ہے۔ اگر کسی خاص فائدے کی خاطر چیز کو پیدا کیا جائے اور استعمال کرنے والا اس فائدہ کی بجائے غلط محل پہ استعمال کرے تو ذمہ داری خالق پر نہیںپڑتی۔ ایک کار کیسی اچھی ہو Mercedez کی اعلیٰ قسم ہو یا Rolls Royceکی ہو یا اور Ferrariوغیرہ کی باتیں کریں ۔ وہ ساری بہت ہی اعلیٰ قسم کی کاریں ہیں جن کے Designer نے ان کو خاص مقصد کیلئے ، خاص حدود میں استعما ل کرنے کیلئے بنایا ہے جب ان مقاصد کو توڑ کر ایک ڈرائیور، ان سے وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کیلئے وہ بنائی ہی نہیں گئیں تو نہایت ہولناک accidentہوتے ہیں ۔ کیا کبھی Ferrariپر مقدمہ ہوگا یا Rolls Royceکے مالکوں پریا مرسیڈس پر ، کہ آپ نے کیسی Mercedezبنائی ہے ۔ کل میر ابچہ بیٹھا تھا اس میںاور سیدھی اس نے دیوار سے ٹکر ماردی نہ موٹر رہی نہ بچہ رہا تو نکالو اب پیسے، جاہلانہ تصور ہے۔ جہاں اپنے معاملات میں تم ایک تصور کو جاہلانہ قرار دیتے ہو تو خدا کے معاملات کیسے اس پر یہ حملے کرسکتے ہو۔ تو من شرّماخلق نے بتادیا کہ تخلیق رب العالمین کی طرف سے ہے اورربوبیت کے پیش نظر ہے، ایک اور راز سے پردہ اٹھاکہ ربوبیت کی خاطر کثرت سے ایسی چیزوں کا ہونا ضروری ہے جو صحیح استعمال ہوںتو فائدہ دیں گی اور اس کے بغیر ربوبیت مکمل نہیں ہو سکتی مگر غلط استعمال ہوں تو نقصان پہنچائیں گی اور ایسی چیزیں تخلیق کی فلاسفی کا ایک طبعی حصہ ہیں۔ سوئیاں بھی استعمال ہوتی ہیں مگر سوئیاں اس لیے تو نہیں بنائی جاتیں کہ پائوں رکھا جائے ان کے اوپر مگرسوئیاں نہ بنیں تو کپڑے بھی نہیں بنیں گے اور بھی ایسی چیزیںساری ہمارے فائدے کی پیدا ہی نہیں ہوسکتیں تو ربوبیت کا لفظ ہے جو اس مسئلے کو حل فرمارہا ہے۔ وہ ربّ ہے اور اس نے ہر چیز کو کھولا اور پھاڑا اور ایک نیا وجود اس سے پیداکیا۔ پس جہاں سورۃ اخلاص خداتعالیٰ کے اوّل ہونے کا مظہر ہے گویا وہ بدیع السمٰوٰت والارضہے وہاں سورۃ فلق بدیع ہونے کے بعد جو چیزیں وجود میں آئیں ہیں ان کے اندر تخلیقی تعلقات کی باتیں کررہی ہے یہ سورۃ، اور سورۃ الناس مالکیت کی بات کررہی ہے۔ پس اس پہلو سے سورۃ توحید کو اگر سورۃ فاتحہ کے آخری لفظ سے باندھا جائے کہ وہ ضالینکے مضمون پر روشنی ڈالتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔
تویہ عجیب قسم کا Returnہے اصل کی طرف، ضالینسے مضمون شروع ہوا مغضوبکی طرف جائے گا جو تخلیق کی ہر چیز کا غلط استعمال کرکے تباہی و بربادی مچاتے ہیں اور ملعون ہوجاتے ہیں اور پھر مالک کی طرف جائے گا کیونکہ ربّ الناس، ملک الناس، الہ الناس۔ یہ تین سورۃ فاتحہ کی ابتدائی باتیں ہیں، غور کرکے دیکھیں کہ سورۃ فاتحہ کے آغاز میں جو مضمون ہے وہضالین توبعد میں آیا ہے۔ جب ضالین کو پہلے رکھ لیا سورۃ اخلاص میںتوپھر درجہ بدرجہ واپسی شرو ع ہوئی ہے اور اس میں مالکیت خدا کی تخلیق سے تعلق رکھتی ہے یہ بحث سورۃ فلق میں آگئی ہے اور آخر پر یہ بتایا گیا کہ سورۃ فاتحہ کا جو آغاز ہے ، اس میںتین باتیں خد اکی ملتی ہیں۔ اوّل خدا وہ ہے جو ربّ ہے، دوسرا مالک ہے نتیجے اسی کے نکلیں گے تیسرا ایسے خالق سے عبودیت کا تعلق پید اکروایاک نعبد و ایاک نستعین۔ تو یہ جو آخری سورتیں ہیں اس پہلو سے سورۃ فاتحہ کے آغاز کی طرف لوٹ رہیں ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ الحمدللہ رب العالمین۔ الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین۔ ایاک نعبد و ایاک نستعینکی باتیں ہورہی ہیں۔ چنانچہ سورۃ الناس کہتی ہے قل اعوذ برب الناس۔ ملک الناس۔ الہ الناس۔الہ الناسپر بات ختم کی ہے۔ رب الناسربوبیت، ملک الناس جس نے اپنی تخلیق کو مکمل کرکے مالکیت کا اظہار فرمایا اور جس چیز کا آغاز کیا بطور مالک اس کو نیک انجام تک پہنچادیا تخلیق عالم میں الناس تک پہنچ کر اس کی مالکیت کا مضمون کھل گیاتو آغاز کرکے ربوبیت کا الگ ہٹ رہنے والا نہیں تھا۔ اس نے مسلسل اپنی تخلیق سے رابطہ رکھا یہاں تک کہ وہ الناس کے مدارج تک جاپہنچی۔ ناس ان معنوں میں کہ روحانی تخلیق کاجب اس نے آغاز فرمایا تو جب تک حضرت محمدرسولا للہ ﷺ کا کامل وجود ظاہر نہیں ہوا، اس وقت تک اس نے اس تخلیق کو چھوڑا نہیں۔ پس ان معنوں میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ محمد رسول اللہ ﷺ مالکیت کے مظہر ہیں اور تمام دوسرے انبیاء اس سے پہلی صفات کے مظہر تھے مگر مالکیت میں جو کامل شان ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی اور نبی میں دکھائی نہیں دیتی۔ تو یہ جو میں آپ کے سامنے مضمون رکھ رہا ہوں اس کے ساتھ عین مطابقت رکھتا ہے۔ تو ناس جو ہے اس کا تعلق پھر خلاصہ بن گیا کہ معبود ہے وہ جو رب بھی ہے اور مالک بھی ہے۔ اس کے بغیر تم کسی اور کی عبادت نہیں کرسکتے اگر کرو گے تو نقصان اٹھائو گے اور سورۃ فلق نے جتنے خطرات بیان کئے تھے وہ خلاصۃً وہ سارے خطرات اس بات سے وابستہ ہیں کہ تم معبود سے تعلق کاٹ لو۔ قل مایأبئکم ربی لولا دعائُ کمیہ وہ مضمون ہے جو یہاںاس رنگ میں بھی دہرایا گیا کہ تو بتادے ان کو کہ اگر تم معبود سے تعلق نہیں باندھو گے تو اس کی ربوبیت کے نتیجوں سے محروم رہ جائو گے۔ جس نے تمہیں ناس تک پہنچادیا یا انسان کامل تک بنادیا، اس کے نتیجے میں اور مالکیت کہ آخری فیصلہ ، آخری تقدیر، آخری نتیجہ اسی کے حوالے سے محفوظ ہے۔ ورنہ تمہاری ساری محنتیں رائیگاں جائیں گی۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری محنتیں رائیگاں نہ جائیں، مالکیت سے استفادہ کرو اور آغاز سے صرف نہیں بلکہ آخر تک خد اسے تعلق قائم رکھو تو پھر عبادت کے سوا ممکن نہیں اور اگر عبادت کرو گے تو پھر نعمت والا مضمون از خود کھلے گا ۔ اگر عبادت نہیں کرو گے اور خدائے واحد کی عبادت نہیں کرو گے تو ضالین تک جا پہنچو گے۔ تو اس طرح کے جو اندرونی رابطے ہیں وہ ایک پہلو سے دیکھیں تو ایک اور مضمون روشن ہوتا ہے ۔ ایک اور پہلو سے دیکھیں تو ایک اور مضمون روشن ہوتا ہے ۔ اسے بیرونی سہاروں کی ضرورت نہیں۔ یہ سورتیں خود اپنی ذات میں بولتی ہیں کہ ہاں ہمارے یہ اندرونی تعلقات ہیں۔
پس چونکہ اب وقت ختم ہوگیا ہے تفسیر کا، جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا آج میں نے یہی سوچا کہ اگر میں نے حوالے پڑھنے شروع کردیئے تو پھر بات میرے قبضے سے باہرنکل جائے گی۔ اس لیے عمومی تاثرآپ کے سامنے پیش کرکے باتیں بیان کردوں اور ان کی تائید میں دلائل بہت کثرت سے موجود ہیں ۔ اب چونکہ رمضان کی دعا کے وہ لمحات آرہے ہیں جہاں دعا شروع ہونے سے پہلے دعائوں کا تعارف بھی کرانا ضروری ہوا کرتا ہے تاکہ آپ کے دل میں دعائوں کی خاص تحریک پیدا ہو۔ لوگ اکثر کہتے ہیں رمضان کے آخری لمحات ہیں اگر انگریزی میں کہیں تو کہیں گے Dying Momentsاور میں نے پچھلے سال بھی یاد دلایا تھا آپ کو، رمضان میں Reviving Momentsہوتی ہیں جتنا آگے بڑھتا ہے اورزندگی بخش ہوتا چلا جاتاہے اور آخری زندگی کا پیغام دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد پھر صبح ہے لیلۃ القدرکے بارے میں قرآن نازل ہوا۔ اس کا یہی مضمون ہے کہ اس کے لمحات اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جارہے ہیں اور جو ںجوں اس کے آخری لمحات آئیں گے، تمہیں فکر کی بات کوئی نہیں، کیونکہ یہ تمہیں اندھیروں سے چھڑا کر ایک دائمی دن میں داخل کردیں گے جو تمہاری زندگی پر حاوی ہوگا کیونکہ اس کا زمانہ اوسط انتہائی عمر سے اوپر حاوی ہے۔ پس اس پہلو سے رمضان المبارک جو دراصل لیلۃ القدرکا مظہر ہے ۔ یہ اپنے اس اختتام کو پہنچ رہا ہے جو ظاہری اختتام ہے ۔ مگر ہمیں ایسی زندگی بخش سکتا ہے جو دائمی ہوجائے۔ ایسے لمحات عطا کرسکتا ہے جو ساری زندگی کو زندہ کردیں۔ پس یہ جو آخری لمحات ہیں یہ Reviving Momentsہیں ان میں سب سے پہلی دعا تو یہی کرنی چاہیے کہ اے خدا! ہمیں زندہ کردے۔ اے خدا ! ہمیں ایسا نور عطا کر جو ہماری ساری زندگی پر چھا جائے اور پھر ہم ان اندھیروں سے خوف زندہ نہ ہوں جن کا ذکر سورۃ الفلق میں ملتا ہے۔ اور اپنے اس ربّ کی طرف آجائیں جو ربّ بھی ہے ، مالک بھی ہے اور معبود بھی ہے ۔ اسی کی حفاظت میں ہمیشہ رہیں تو یہ دعا سب سے پہلے ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتاہوں ۔ دوسرا میں نے آپ سے پہلے بھی بیان کیا تھا اب بھی وہی باتیں یاددہانی کے طور پر دہراتا ہوں کہ سب سے اعلیٰ آغاز دعا کا سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم سے ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو الہاماً یہ بتایا گیا کہ اس کے ساتھ اللھم صلی علی محمد وال محمدپڑھا کرو ۔ تو ہر وہ دعاجس کا آغاز اس سے ہو خداکی تسبیح اور تحمید اور درود سے اس سے متعلق تو قطعیت سے احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضور ﷺ نے خود یہی مضمون سکھایا تھا۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کی سچائی اور بھی زیادہ کھل جاتی ہے، جب اس حدیث کی روشنی میں اس کو دیکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے مقبول دعاکروانی ہے ،تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعائوں میں اثر ہوجائے اور قبولیت کے مرتبے تک پہنچیں توپہلے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو، اس کی تحمید کرو ، اس کی حمد کے گیت گائو پھر مجھ پر درود بھیجو اور امرواقعہ یہ ہے کہ جتناآپ غور کریں یہ ایک اٹوٹ تعلق بنتا ہے کیونکہ سبحان اللہ وبحمدہٖ وہ خدا جو ہر نقص سے پاک ہے اس کے مقابل پر ہر حمد اس میں ہے۔ ہر نقص جس کی نفی ہوتی ہے اس کے مقابل پر ایک حمد ہے جو اس میں موجود ہے تووہ جوفلق والا پہلو میں نے آپ کے سامنے رکھا تھا کہ دراصل حمد ہی ہے ا س کی نفی سے نقص پیدا ہوتا ہے تو سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم نے یہ مضمون اس طرح کھولا کہ اگر کوئی ذات ہر عیب سے پاک ہے تو تب وہ قابل عبادت ہے ، تب وہ عظیم کہلاسکتی ہے ۔ اگر وہ ہر حمد سے پوری ہوئی ہو،محض عیب سے پاک ہونا کوئی خوبی نہیں ہے ، عیب سے پاک ہوناتو ضروری نہیں کہ حمد کو بھی چاہے۔ کہتے ہیں عصمت بی بی بیچارگی، کسی میں طاقت ہی نہیںگناہ کرنے کی تو اس کی بیچارگی توقابل تعریف نہیںہے۔ اس کو یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دیکھو بڑی نیک بی بی ہے کوئی گناہ نہیں کرتی ۔ وہ ہے ہی بیچاری اس کو توفیق ہی نہ ہو۔ بعض بھولیاں بیچاری ایسی پید اہوتی ہیں ان کو پتہ ہی نہیں توگناہ ہوتا کیا ہے۔ سادہ زندگی گزار کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوجاتیں ہیں۔ ان کی تعریف اتنی تو ہوگی کہ یہ بیچاری بھولی بھالی تھیں۔ لیکن یہ کہنا کہ ایک آدمی جس کو گناہ کی توفیق تھی، اس کوصلاحیتیں موجود تھیں اس کا گناہوں سے تصادم ہوا۔ ہر موقعہ پر اس تصادم میں اس نے گناہوں کو توڑ پھینکا اور ان سے مرعوب نہیں ہوا، اس سے متاثر نہیں ہوا، ان کا غلام نہیں بنا، زمین آسمان کا فرق ہے۔ توسبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیممیں اللہ کی حمد سبحان ہے پہلے۔ وہ ہر برائی سے پاک ہے مگر وبحمدہٖہر پاکیزگی کے ساتھ ایک حمد وابستہ ہے اور حمد نہ ہو تو پاکیزگی کوئی معنی نہیں رکھتی، ان معنوں میں سبحان اللہ العظیمکا آخری دعویٰ ہے عظمت اس کو کہتے ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جو ایسی عظیم ہے کہ ہر عیب سے ان معنوں میں پاک کہ اس کے برعکس خوبیاں موجود ہیں۔
پس عیب کا وجود مٹ گیا اور خوبیاں باقی رہ گئیں اور وہی ہے جو کائنات ہے خدا نے خوبیاں ہی پیدا کی ہیں ان کے فقدان کا نام عیوب ہے۔ تو جس نے اس طرح کائنات کو پیدا کیا ہے وہ ہر کمزوری سے پاک، ہر خوبی سے مرصع اور عظمت کا حامل وہی ایک ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ انسانوں میں ہر عیب سے پاک جس حد تک انسان ممکن ہے اور ہر خوبی سے مرصع جس حد تک انسان کیلئے ممکن ہے ۔ تو ایک وجود ہے جو انسانوں میں ایک قسم کے بے مثل ہیں۔ جس طرح خدا تمام کائنات میں بے مثل ہے اسی طرح رسول اکرم ﷺ تخلیق کائنات میںجس کا آخری پھل انسان کی صورت میں ظاہر ہوا، بے مثل ہیں ۔ اور اگر انسانوں میں سے کوئی عظیم کہلاسکتا ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ وہ عظیم انسان ہیں۔ پس اس ذات کے ذریعے ہم نے خدا کو پایا ہے کیونکہ وہ ذات جو خدا سے یوں مشابہت نہ رکھتی ہو جس کا میں بیان کرچکا ہوں وہ ذات اس خدا تک پہنچا بھی نہیں سکتی، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیمکے نقطہ نگاہ سے وہ ایک وجود ہیں جو اس آیت کے تما م مضامین کے پیش نظر رکھتے ہوئے اس خدا ئے واحد تک پہنچاسکتے ہیں کیونکہ آپ کے راستے سے یہ سفر آسان ہے۔ آپ ایک ایسے انسان کو جانتے ہیں ، دیکھتے ہیں، اس کی صفات سے واقف ہیں جس نے ہر نقص کو اپنے سے دور کردیا خدا کے فضل کے ساتھ، اور ہر نقص کے مقابل پر ایک حمد وہاں دکھائی دیتی ہے ۔ اس لیے لفظ محمد ﷺ استعمال ہوا ہے وہ لفظ جو بطور نام کے ودیعت ہوا ہے جو بطور نا م کے آسمان سے اترا ہے، ہر خوبی کا حامل ہے اس میںجو نفی ہے ناپاکی کی یاکمزوری کی وہ خود ہی داخل ہے۔ کیونکہ اس مضمون نے کھول دیا سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم اس پر اس وجود پر درود بھیجنا لازم ہے کیونکہ ہر فیض جس سے پایا ہو آپ نے فیض رساں تک پہنچانے والا فیضان رساں اس کو بیچ میں سے نکالاجا ہی نہیں جاسکتا۔ اس سے محبت کریںگے، اس سے تعلق رکھیں گے، اس سے پیار کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے تو احسان کا اظہار توکریں۔ جب خداکو سبحان اللہ وبحمدہٖکہا جاتاہے تو احسان کا بدلہ تو نہیںاتار اکرتے ۔ صرف احسان کا ذکر ہی بعض دفعہ ایک انسان کے بس میں ہوتا ہے کہ وہ بطور بدلے کے یہی کہتا رہے، کسی بادشاہ کے دربار میں جائیں گے تو بدلہ تو نہیں اتارسکتے۔ یہ کہتے ہیں واہ واہ کیا بات ہے، تو نے سب کچھ عطا کیا، سب تیرا ہی عطاکردہ ہے، سب کچھ تو نے ہمیں دیا۔ حالانہ وہ ایک جھوٹی تعریف ہے مگر خدا کے معاملے میںتو ایک سچی تعریف ہے۔
پس سب کچھ دینے والا سب چیزوں کا مالک اور خالق ہر عیب سے پاک ، ہر حمد سے مرصع ذات تک پہنچانے والے کو وہ رستے بنانے ہوں گے جو ہر معاملے میں اس کو بھی عیب سے پاک بنائیں اور جن پر وہ چل تبھی سکتا ہے جب وہ خود عیوب سے پاک ہوجائے اور حمد سے مرصع ہوجائے۔ اس کے پیچھے چلنے والے احسان کا بدلہ کیسے طرح اتارسکتے ہین ناممکن ہے مگر دورد بھیج کر، اعتراف کرکے کہ خدا تک پہنچنے والا یہ وجود ہے، یہ وسیلہ ہے اس لئے درود لازم ہے۔ میں اس کی حکمت بتارہا ہوں کہ نعوذ باللہ من ذالک رسو ل اللہ ﷺ نے کوئی خود غرضی کی بات نہیں کی کہ مجھے دے دو تو۔مجھ پر دورد بھیجو تو بڑی اچھی بات ہے۔ آپ نے بتایا اس کے سوا رستہ کوئی نہیں تمہارے لیے، جس خدا نے مجھ پر نظر رکھی ہے اور جانتا ہے کہ میں وسیلہ بنایا گیا ہوں اس وسیلے کی بات کروگے ، اس پر درود بھیجو گے تو پھر وہ تم پر رجوع برحمت ہوگا ، وہ رحمت کے ساتھ تم پر جھکے گا اور تمہاری باتوں کو قبول کرے گا۔ جیسے فقیر مائوں کے بعد ان کے بچوں کو بھی دعائیں دیتے ہیں اور مائوں کی رحمت لینی ہوتو بچوں کو بعض دفعہ زیادہ ہی دعائیں دیتے ہیں۔ مگر یہ زیادہ والی بات توایک مبالغہ آمیزی ہے۔ حقیت یہ ہے کہ مائوں سے تعلق ہو اور بچوں سے دشمنی، یہ ہو نہیں سکتا اور اس الہام میں یہ مضمون بھی آگیا وال محمدٍ ، اللہ کی آل تو کوئی نہیں، مگر اس کی مخلوقات میں سب سے کامل مخلوق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے ۔ اس ذات سے تعلق باندھناہے تو اس کامل ذات سے تعلق باندھو مگر چونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا تعلق خدا سے تخلیق میں کامل تھا، اس لحاظ سے جب تم محمد ﷺ پر درود بھیجو گے تو خدا تم سے خوش ہوگا اور محمد ﷺ کی اپنی آل ہے ایک جو اس کو بہت پیاری ہے اور اس تک درود اور سلام پہنچانے کیلئے اس آل کو ضرور پیش نظر رکھو۔ یہاں آل سے مراد محض اہل بیت نہیں ہیں بلکہ تمام آل ہے جو آنحضرت ﷺکی حقیقی ، سچی، غلام اور عاشق اور آپ ﷺ کے روحانی گھر میں داخل ہوجاتی ہے۔ پس یہ ایک کامل دعا ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور اس دعا میں ڈوب کر اب باری باری اپنی توجہات کو مختلف ضرورتوں کی طرف پھیریں ، مختلف لوگوں کی طرف پھیریں، تو ہر موقع پر یہ دعاان ضرورتوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتی ہے۔ پھر میں نے کہا تھا گزشتہ صلحائے امت کیلئے وہ اسی میں آگئے ۔ جب اس کی تفسیر بیان ہوگئی تو صلحائے امت آپ ہی آپ اس میں آگئے، عالم اسلام کیلئے سب سے افضل دعا یہ ہوگی کہ آل محمدﷺ بنادے ان کو اور آل محمدﷺ بنائے گاتو ہماری بھی اور سب فرشتوں کی اور ساری کائنات کی دعا میں آل محمد مصطفی ﷺ کو یعنی اہل اسلام کو جوسچے آل محمد ﷺ ہوں ان تک پہنچیں گی۔
دجّال کے فتنوں کا ذکر تھا سورۃ فلق میں، تو میں نے کہا تھا اس فتنے سے بچنے اور ان چالوں سے بچنے کیلئے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اور پھر اس آخری فتنے سے بچنے کیلئے جس میں ربوبیت اور مالکیت اور الوہیت کو جدا جدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسلام سے حسد کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔ جہاں وہم پھونکے جاتے ہیں جہاں فتنے دلوں میں پھونکے جاتے ہیں ۔ یہ دونوں معنے گزشتہ اہل علم نے قبول کئے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خصوصیت سے یہ مضمون پیش نظر رکھا کہ من شرّ النفّٰثٰت فی العقد کا مطلب ہے کہ تعلقات کی گانٹھوں میں پھونک کر توان کو کھول دینا، ان کو جدا جدا کردینا، وہ فتنے جو انسان کو انسان سے الگ کرتے ہیں ، قوموں کو قوموں سے الگ کرتے ہیں، جو ہر قسم کے تعلقات میں تفرقے ڈالتے ہیں، ان سب فتنوں سے بچنے کیلئے ابھی یہ دعا ضروری ہے اور وہ تبھی ممکن ہے ، آل محمد ﷺبن جائو۔ پس بات پھر وہیں جاکر تان ٹوٹے گی کہ سب دنیا کیلئے آل محمد ﷺ بننے کی دعائیں کریں۔ اشاعت اسلام اور احمدیت جوں جوں مختلف مراحل سے گزررہی ہے، بہت سی مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں، تربیتی مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں ۔ فتنہ پرداز حسد کے نتیجے میں وہاں پہنچتے ہیں وہاں جاکر گانٹھوں میںپھونکے ڈالتے ہیں۔احمدیوں کے ان سے تعلق کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سب ضروریات میںجو دینی ضروریات ہیں خدمت کرنے والوں کو کامیاب، مؤثر، پرحکمت اور باثمر خدمت کرنے کی توفیق کیلئے دعائیں مانگیں۔ واقفین کیلئے اور وقف نو کے مجاہدین کیلئے، تحریک جدید کیلئے اور وقف جدید کے وعدے پورے کرنے والوں کیلئے، ان کی فہرستیں کسی زمانے میں تو اتنی ہوتی تھیں کہ پڑھ کرسنائی جاسکتی تھیں۔ لیکن اب وہ حد نکل چکی ہے کہ رات بھی شروع کیا جائے تراویح کی بجائے توساری رات فہرستیں پڑھی جائیں تو کبھی بھی پوری نہیں ہوں گی۔ اس لیے وہ میں نے سلسلہ بند کردیا ہے۔لکھوکھہا نام ہیں انہوں نے جو خدمتیں کیں ہیں، قربانیاں دی ہیں، کس کس کا نام آپ لے سکتے ہیں۔ اسیرانِ راہ مولیٰ میں سے ابھی بھی کچھ ہیں جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ اسیران راہ مولیٰ میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں میانولی کیس کہلاتا ہے۔وہ بالکل معصوم، کوئی گناہ نہیں 195-Cان کے اوپر اطلاق پاگئی ہے ہر کوشش ان کو Bailپر رہا کرنے کی جو کی گئی ہو، وہ ردّ کردی گئی۔ میں نے چند دن پہلے دعائوں کے دوران چونکہ وہ یاد آئے ان کو، ان میں سے کسی کو دعائیہ خط لکھا، اپنے ہاتھ سے ان کو بتایا کہ ہم سب آپ کیلئے فکر مند ہیں، دعا گو ہیں۔ اس کا جو خط آیا ہے وہ حیرت انگیز ہے کہتا ہے آپ ہماری فکر کیوں کررہے ہیں ۔ ہم تو موجوں میں ہیں۔ ہم خد اکو دیکھ رہے ہیں ۔ ہم یوسفی دور کی قربانیوں میں سے گزررہے ہیں ۔ آپ اس فکر میں ،ہمارے فکر میںاپنے آپ کو ہلکان نہ کریں کہ آپ کا غم ہمارے غم میں اضافہ کرے، ہماری تکلیف میں اضافہ کرے گا، اس کو کم نہیں کرے گا۔ لیکن یہ غم تو دعا بن کے کم کرتا ہے۔
وہ تو ضمناً میں نے ان کو لکھ دیا تھا کہ تمہاری فکر کرنے والے سب دنیا میں موجود ہیں۔ ان اسیروں کو بھی تنہا نہ چھوڑیں۔ ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں،ان کے بچوں کواپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ بڑی بڑی قربانیاں دینے والے ہیں، بڑے صاحب عظمت لوگ ہیں۔ کئی امیر ہیں ایسے جو اپنے ضلعوں کے امیر ، راجن پور کے مثلاً لمبے عرصے سے ابتلائوں میں وقت کاٹ رہے ہیں لیکن کوئی پرواہ نہیں۔ اپنا سر خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جھکانے پر آمادہ نہیں۔ ان پر اورایک انور احمد ہیں شاید وہیں کے جن پر 295-C( 295-C ہے یا) کے مقدمے قائم ہوئے ( نہیں نہیں وہ اور ہیں وہ اور ہیں) ۔ بہر حال یہ سارے اور لاڑکانے کے اسیراوران پر جو کثرت سے مسلسل مظالم ہوتے چلے جارہے ہیں اور شاید اس لئے ان کو وہاں کوئی نہیں پوچھتا کہ کوئی یہ نہ الزام لگادے کہ بے نظیر احمدیوں کی ہمدردہے یا پیپلز پارٹی احمدیوں کی ہمدرد ہے ۔ وہ جو خدمتیں تھیں، کسی زمانے میں اس کا ابھی تک ہمیں بدلہ عطا ہورہا ہے اور اس طرح بدلہ دینے والے یہ بھی بدلہ دیا کرتے ہیں مگر لاڑکانہ جو سیٹ ہے وہاں اس وقت سب سے زیادہ مظالم ہورہے ہیں ۔ جو سیٹ ہے وزیر اعظم کی اور ڈیرہ غازیخان جو سیٹ ہے صدر کی اس میں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں اس قدر بے حیائی کے ساتھ مظالم قانونی طور پر ہورہے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو ان کے ہاتھ روکے، سب کو اپنی پگڑی کا خوف ہے۔ پس خدائے واحد و یگانہ کی پناہ میں آئے بغیر ہم ان مصیبتوں سے چھٹکارا پا نہیں سکتے، ان سے نپٹ نہیں سکتے۔ ہمیں ذاتی طاقت کوئی نہیں ہے یہ تعلق باللہ کے نتیجے میں ہوگا۔ پس دعائوں میں اپنے ان اسیر بھائیوں کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ان کے دن پلٹ دے اور ان کو بھی ہماری طرح آزاد ی کے سانس نصیب کرے۔ ملک قید خانہ بن گیا ہے۔ سارا ملک زنداں خانہ بنا ہوا ہے یعنی پاکستان ۔ اس کے علاوہ اور ممالک بھی ہیں جو مظالم کربھی رہے ہیں اور مظالم کا نشانہ بھی ہیں ۔ ان میں بعض طبقے ظالم اور بعض مظلوم ہیں۔ ہندوستان ہے، کشمیر ہے، سری لنکا ہے ، آئرلینڈ ہے۔ ہر دنیا کے کونے کونے میں مشرق و مغرب میں ایسے ممالک ہیں جو انسان کے شر سے اور فتنہ پردازوں کے شر سے دکھ اٹھارہا ہے انسان ۔ اور خالق نے جو اچھی باتیں پیدافرمائیں تھیںان کو چھوڑ کر اس سے منفی پہلونکال کے شر کو پھیلانے والے لوگ ہیں ۔ اس کے نتیجے میںجہاں جہاںبھی انسانیت مظالم کا شکار ہے ان سب کو اپنی دعائوں میںیاد رکھیں۔ عالمگیر جماعت احمدیہ وہ انفرادی لوگ جو قرضوں میں مبتلا ہیں، جو خانگی مشکلات میں مبتلا ہیں کہیں بیوی خاوند کیلئے مصیبت ہے، کہیں خاوند بیوی کیلئے مصیبت بنا ہوا ہے، کہیںاولاد اپنے ماں باپ سے نالاں بیٹھی ہے یہاں تک کہ یہ یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ جو یہ فرمایا ہے کہ اف نہ کرو، یہ کہاں تک فرمایا ہے کیا یہ کچھ بھی کرجائیں ماں باپ تو ، تب بھی اف نہیں کرنی۔ تو یہ وہ سوال اٹھتے ہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب ظلم شروع ہوجائے تو تخلیق کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں جس کو تخلیق کا ایک اورپہلو مظلوم نہ بناسکے۔ تخلیق کے نتیجے میں جو رشتے قائم ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ امن اور حفاظت کا رشتہ بچوںکا ماں باپ کے ساتھ رشتہ ہے۔ جہاں ماں باپ ظالم بن جائیں ، جہاں وہ child abuseمیںملوث ہوجائیں جہاں دیگر مظالم کے ذریعے اپنی اولاد کا امن اٹھادیں، تو وہاں پناہ تو خالق ہی کی ہوگی ، جس نے سب کچھ پید اکیا ،اس شر سے ہمیںبچائے، قرضوں میں بوجھوں میںدبے ہوئے ہیں لوگ بیچارے بعض، بعضوں کی جائیداد یں حادثات کا شکار ہوگئیں۔ بیوگان اور یتامیٰ جو حقوق سے محروم کئے گئے یا ویسے ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ ایسی بچیاں جن کے رشتے نہیں ہورہے۔ یہاں بھی ہیں اور بھی جگہوں پر ہیں ان کے والدین کی زندگی بڑی تلخ گزرتی ہے۔ بہت مشکل میں کٹتی ہے۔ بیٹیاں آنکھوں کے سامنے جوان ہورہی ہیں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق ان کی تربیت کی گئی ہے ان کیلئے اپنے طبعی جواندرونی دبائو ہیں نفسیاتی ان کو کھول کر آزاد کرنے کی کوئی راہ نہیں۔ اور کوئی رشتہ مناسب نہیںملتا۔ رشتے نامناسب تو نہیں کہہ سکتے مگر بعضوں کے مزاج بدل جاتے ہیںان کو مناسب رشتہ بھی پیش کیا جائے ۔ تو ان کے مزاج کے مطابق نامناسب رشتہ ہوتا ہے۔ رشتوں میں تو ہمیشہ Give and Takeکو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یہ ناممکن ہے کہ مکمل رفاقت کسی انسان کی ایسی نصیب ہو کہ اس کے درمیان میںکوئی بھی اختلاف نہ ہو، بہترین رفاقت جو دنیا میں تھی وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی رفاقت تھی ۔ اس کے باوجود ازواج مطہرات میں سے بہتوں کے متعلق ذکر ملتا ہے۔ قرآن نے بھی اس کے ذکر کو محفوظ کیا ہے کہ آنحضرت ﷺکے مزاج کے ساتھ بعض دفعہ وہ نہیں چل سکتیں تھیں اور اس لحاظ سے حق ادا کرنے سے بعض دفعہ محروم رہ جاتی تھیں۔ تو مزاج کا Perfectlyایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ، یہ تو ناممکن ہے انسانوں میں بھی۔ تو کفو خداکے معاملے میںکہاں سے لائو گے۔ جہاں اس کا ہم جنس ہے ہی کوئی نہیں۔ جہاںہم جنس ہو، ہم خاندان ہو، وہاں بھی Perfectکفو ہو نہیں سکتا۔ لیکن کچھ باتوں سے صرف نظر کرنی پڑتی ہے، حوصلہ کرنا پڑتا ہے، بہترین مشایعت ، بہترین رفاقت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ ہے جو زندگی کو بہتر بناتا چلا جاتا ہے تو اس پہلو سے بھی غور کرنا چاہیے۔ اگر فطرتاً کوئی نیک ہو اور بعض اس میںمجبوریاں اور کمزوریاں ہیں، انگلستان کی بات ہورہی تھی، میں جانتا ہوں ۔ بعض کہتے ہیں جی ، پیدا ہواباہر کا ہے او رشاید Asylumکی خاطر رشتہ ڈھونڈ رہا ہو، بھئی تمہاری بلا سے رشتہ Asylumکی خاطر ڈھونڈتا ہے یا نہیں، اگر وہ نیک فطرت انسان ہے سعید ہے تو ضرور اچھا ہوگا۔جو ادنیٰ معمولی فرق ہیں ان کو دیکھتے چلے جائو گے اور روکیں بناتے چلے جائو گے تو اپنے رستے بند کردو گے ۔ اس لئے استغفار کرو اوردعا کرواور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حل بیان فرمایا ہے نیکی سب کمزریوں کا علاج ہے دراصل ۔ اگر سعید فطرت انسان ہو، با اخلاق ہو اور ہمدردیٔ خلائق سے مرصع ہو، عورت کے ساتھ ملائمت اورشفقت کا سلوک کرنے کامزاج رکھتا ہو۔ تو نہ اس کی غربت ہمیشہ غربت رہے گی نہ اس کی دوسری کمزوریاں اس رشتے میں حائل ہوسکتی ہیں۔ دن بدن حالات بہتر ہی ہوتے چلے جائیں گے۔ اس لیے بعض دفعہ رشتوں میں قربانی کا پہلو بھی رکھنا چاہیے۔ مگر ایسی بچیاں ہیں بہت دردناک حال میں ، ان کیلئے ضرور دعائیں کرنی چاہئیں۔ پھر دشمنان اسلام ہیں جو اسلام کو یا مسلمانوں کو کئی جگہ اپنے مظالم کا نشانہ بنارہے ہیں۔ بوسنیا میں بھی یہ کیفیت ہے،کشمیر میں بھی ہے، فلسطین میں بھی ہے،چیچنیا میں بھی ہے۔ افریقن ممالک میں بھی ہے ۔ مگر میں نے ظلم کے خلاف بات کی ہے بنیادی طور پر۔ اسلام کو نشانہ بنارہے ہیں یا مسلمان کو۔ یہ دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ جو اسلام کومظالم کانشانہ بنارہے ہیں ان کیساتھ تو ہمار ی ایک عالمگیر جنگ ہے اور ہم ایک عالمگیر جہاد بحیثیت عالمگیرحیثیت سے کرسکتے ہیں جو ملکی مصالح کے پیش نظر بعضوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اسی ملک میں کثرت سے احمدی بھی تو آباد ہیں ۔ اس لئے ان ملکوں کے خلاف ہم کوئی جہاد نہیںکرسکتے۔ محض ظلم کے خلاف جہاد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہماری عالمگیر حیثیتCompromiseہوجائے گی۔ اگر ہم نے کسی ایک ملک کا ساتھ دے کر اس کے حوالے سے کسی دوسرے ملک کی دشمنی کی باتیں کیں تویہ ناجائز ہے ہمارے لیے۔ کیونکہ ہمارے تشخص کے خلاف ہے۔پس اس احتیاط کے ساتھ سب سے اعلیٰ بات یہ ہے کہ ظلم کے خلاف جہاد کریں ، ظلم کے خلاف دعائیں کریں اور جن لوگوں سے ظلم پھوٹتا ہے۔ سب سے زیادہ ظالم وہ ہیں جو خدا سے تعلق کے دعوے کرکے خداکے نام پر ظلم کی تعلیم دیتے ہیں ، سب سے زیادہ ظالم اس لیے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے بھی خود ان کو سب سے زیادہ ظالم اور شریر قرار دیا ہے۔ شرمن تحت عدیم السماء ۔ پس جو بھی اس حدیث نبوی کے اطلاق (جو بھی وہ وجود ہیںجن پر یہ حدیث نبویؐ اطلاق پاتی ہے) اس اطلاق کی شرط کومد نظر رکھتے ہوئے ان کے متعلق دعاکریں اللھم مزقھم کل ممزق و سحقھم تسحیقااے خدا ان کو پارہ پارہ کردے، ان کے جھوٹے تعلقات جو صرف انہوں نے ہماری ان دعائوں کے مقابل پر ان کو ناکام کرنے کیلئے بنا رکھے ہیں ان کو توڑ دے۔ پس جہاں تعلقات کو توڑنا ایک گناہ ہے ۔ وہاں تعلقات کو توڑنا ایک نیکی بھی تو ہے۔ وہ تعلقات جو نیکی پر قائم ہوں ان کو توڑنا گانٹھوں میں پھونکنے والا مضمون ہے وہ تعلقات جو فساد اور شرپر قائم ہوں ان کو توڑنا مومن کا اوّلین فریضہ ہے اور چونکہ براہ راست نہیں توڑسکتا تو وہ دعائوں کے ذریعے توڑے گا۔ اہل ربوہ کیلئے اس لحاظ سے دعا خصوصیت سے کہ وہاں چونکہ خلافت کا ایک لمبے عرصے تک قیام رہا ہے اس لیے باقی سب شہروں سے علاوہ ان کا ایک تعلق ہے۔ جیسے ایک ہی گائوں والے لوگ ہیں ، تو یہ زائد تعلق ہے جس کی وجہ سے میں ذکر کرتاہوں کسی او رکیلئے کسی حسد کا تو سوال ہی نہیں۔ رشک کی بھی کوئی ضرورت نہیں، یہ مجبوریاں ہیں۔ اب اہل لندن پر لوگ رشک کرتے ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں، بے اختیاری ہے۔ اس لئے ایسے محروموں کیلئے دعا کریں جن کو حالات کی مجبوری نے محرو م کردیا ہے۔
تحریک جدید کا ذکر میں کرچکا ہوں، وقف جدید کا ذکرکرچکاہوں، ان کی مالی ضروریات کے علاوہ مالی خدمت کرنے والوںکے علاوہ ان سب کو دعائوں میںیاد رکھیں۔ جو کسی پہلو سے بھی خدمتیں کررہے ہیں تمام خدمت کرنے والے دنیا بھر میںجیسا کہ انگلستان میںاب کثرت کے ساتھ اتنے خدمت کرنے والے پیدا ہورہے ہیں۔ نوجوان نسلوں میںتناسب کے لحاظ سے شاید ہی کہیں اور اتنے ہوں۔ تناسب کے لحاظ سے۔ جرمنی میں بھی بڑی خدمت کرنے والے ہیں۔ امریکہ میںبھی دن بدن تعداد بڑھ رہی ہے، کینیڈا میں بھی بڑھ رہی ہے ان کی پہلی اطلاعیں تھیں کہ وہ خاموش بیٹھے ہیں تبلیغ میں ، اس کا ازالہ کرنے کیلئے کثرت سے مجھے لکھ رہے ہیں کہ اب ہم دل و جان سے تبلیغ میں منہمک ہوگئے ہیں۔ تو ہر خدمت کرنے والے کیلئے جو داعی الی اللہ ہو یا داعی الی اللہ کے کاموں میںممد ہوں۔ جیسا کہ MTAسے متعلق لوگ ہیں ان سب کو اپنی دعائوں میںیاد رکھیں اور آنحضرت ﷺ کی آل میں اہل بیت اور خونی رشتے والے بھی اوّل مرتبے پر ہیں۔ اگر وہ روحانی رشتے میں بھی منسلک ہوں تو ان کیلئے پھر دوہری دعائوں کی ضرورت ہے۔ ان سے ایک طبعی تعلق زیادہ بڑھ جانا چاہیے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایک خونی رشتہ رکھتے ہیں خواہ چودہ سو سال گزر گئے ہوں، مگر اس خون کا کوئی نہ کوئی پہلو ان کے اندر موجود ہے جب وہ نیکی اختیار کرتے ہیں تو وہ خون کا پہلو چمک اٹھتا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے ایک قسم کی مشابہت پیداہوجاتی ہے ۔ یہی حال خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے ان کیلئے اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے جو ویسے الدارمیں داخل ہیں اور ان کی اولادوں کیلئے یہ دعائیں کریں کہ یہ تعلق دائمی اٹوٹ تعلق رہے اور بڑھے اور جوں جوں یہ تعلق والے لوگ روحانی تعلق کو پھر از سر نو قائم کریں یاجو قائم ہے اس کی حفاظت کریں ان کی صفات چمک اٹھیں اور دنیا کو نور سے منور کردیں اور جو خدا نے سعادت بخشی ہے اس سعادت کے حقدار ٹھہریں، اس سعادت کے ناشکرے نہ بنیں۔ ان دعائوں کی تحریک کے ساتھ اور اس تحریک کے ساتھ کہ اگر مجھ سے کوئی دعائوں کے ذکرمیںکمی رہ گئی ہو تو اللہ اپنے فضل سے ان لوگوں کو بھی داخل کردے جو مستحق تو تھے مگر کسی ہماری کوتاہی کی وجہ سے وہ رہ گئے۔ مثلاً نو مبایعین ہیں ان کے حقوق ہم نے ادا کرنے ہیں ان کے متعلق خطرہ کہ دشمن فتنے میں مبتلا نہ کرے تو پہلو بہ پہلو اور پہلونکلتے چلے جاتے ہیں۔ شقیں بڑھتی جاتی ہیں۔ پس تمام دنیا کیلئے سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم۔اللھم صلی علی محمد و آل محمدکے حوالوں سے دعائیں کریں۔ آئیے ہم سب اس عالمگیر دعا میںشامل ہوجاتے ہیں۔
إإإ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 4؍رمضان بمطابق25؍جنوری 1996ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلث و ربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوماملکت ایمانکم ذلک ادنی الا تعولوا۔
یہ جو آیت چارجس کی میں نے تلاوت کی ہے، یہ آیت بہت سے ایسے مباحث پر مشتمل ہے جو کافی وقت لیں گے۔ اس آیت میں ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت موجود دکھائی دیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ کچھ شرطیں عائد کی گئی ہیں اور چونکہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کے اسلامی اذن پر یا اجازت پر مغربی دنیا کی طرف سے خصوصاً عیسائی پادریوں کی طرف سے سب سے زیادہ حملے ہوئے ہیں اور ہندوستان میں آریوں کی طرف سے اس آیت کریمہ کے مضمون کو مسلسل طعنہ آمیزی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کے متعلق زیاہ تفصیل سے گفتگو کی جائے۔ ا س لیے ہوسکتا ہے آج بھی ختم نہ ہو کل بھی نہہو ، مگر یہ ایسا مضمون ہے جسے ہر پہلو سے کھولنا لازم ہے ۔ کیونکہ مجھے بھی تجربہ ہے کہ جب بھی کہیں مجالس سوال و جواب میں جاتا ہوں تو یہ آیت ضرور حوالہ دیا ہو یا نہ دیا ہو مبحث بنتی ہے۔ یعنی ضروری نہیں کہ سوال کرنے والا اس آیت کا حوالہ دے مگر مضمون یہی ہے جو چھیڑا جاتا ہے۔ اور بعض جگہ تو صاف ثبوت ملتا ہے کہ بعض سوال کرنے والوں کو بعض پادریوں نے باقاعدہ تیار کیا ہے کہ یہ سوال ضرور کرنا ۔ اور جب بات کھل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غلط فہمیاں دور کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اس آیت پر بحث اسلام کیلئے کسی قسم کی خفت کا موجب بنی ہو، بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے فتح کا سہرا اسلام ہی کے سر پہ باندھا جاتا ہے۔ مگر میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اگر اس کا تفصیلی علم نہ ہو اس آیت کے مضمون کا ، اعتراضات کی نوعیت کا، ان کے جواب کے متعلق کیسے دینا چاہیے تو پھر بعض دفعہ لوگ عام گفتگو میں اس میں کمزوری محسوس کرتے ہیں اور گھبراجاتے ہیں گفتگو سے۔ حالانکہ ایسی چیز ہے جس کو اٹھانا چاہیے بیشک خود اُٹھائیں کیونکہ اس میں اسلام کی عظیم الشان فتح کے دلائل موجود ہیں۔ گویا اس کے کہ اس کے برعکس صورتحال ہو، اگر شرمانا ہے تو دوسرے شرمائیں اسلام کیلئے اس آیت یا اس کے مضمون میں شرمانے کی کوئی گنجائش ، کوئی جواز نہیں ہے۔ اب اس کا ترجمہ جو سادہ سلیس ترجمہ ہے وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی اگر تم یہ خوف کرو ، ڈرو اس بات سے کہ تم یتامی کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے فانکحوا ما طاب لکم من النساء توپھر شادیاں کرو ما طاب لکم من النساء ان عورتوں سے جو تمہیں خوش آئیں ۔ خوش آنا ایک اردو کا محاورہ ہے جو طاب کا بعینہٖ لفظی ترجمہ بھی بنتا ہے کوئی چیز خوش ہو ، خوش آئے کا مطلب ہے موافق ہو ، مناسب حال ہو ، اچھی لگے اور مزاج کے لحاظ سے تمہارے مزاج کے مطابق ہو۔ ان چیزوںکو خوش آنا کہتے ہیں۔ تو عربی میں ماطاب کا بالکل یہی مطلب ہے کہ عورتوں میں سے جو تمہیں پاکیزہ ہوں ، تمہارے لیے پسندیدہ ہوں، مزاج کے موافق ہوں، ان کے آنے سے گھر میں تازگی پیدا ہو، ایسی عورتوں سے شادیاں کرو۔ مثنی و ثلث و ربع دو دو اور تین تین اور چار چار ۔فان خفتم یہ ان خفتم کی تکرار ہے ، پہلے ایک خوف کی وجہ سے اجازت دی گئی ہے اب ایک اور خوف کی وجہ سے اجازت کو محدود کردیا گیا۔ یہ ہے جو ایک بہت ہی حیرت انگیز طرز کلام ہے اس کو جب تک آپ اچھی طرح سمجھیں گے نہیں آپ کو اس حکم کا مفہوم ہی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یہی وہ راز ہے جس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں بہت سے مفسرین بھی اور دوسرے بھی الجھنوںمیں مبتلاء ہوگئے کہ دو خوفوں کے درمیان اجازت کو باندھا گیا ہے۔ اگر یہ خوف ہو تو پھر دو دو، تین تین، چار چار شادیاں کرو، اگر یہ خوف ہو تو ایک ہی کرو ، اور وہ خوف کیا ہے۔ پہلا خوف اوردوسرا خوف ایک ہی چیز ہے۔ وہ مختلف زاویوں سے اس پر نظر ڈالی گئی ہے۔ پہلا خوف یہ ہے کہ الا تقسطوا فی الیتمیکہ تم یتامی میں ان سے انصاف نہیں کرسکو گے اگر یتامی سے انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک سے زیادہ شادیاں کرو ۔ دوسرا خوف یہ ہے اگر تم بیویوں سے انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک پر واپس آجائو یعنی یتامی کا حق ادا کرنے کی خاطر عورتوں پر ظلم کرنے کی اجازت تمہیں نہیں دی جاسکتی ۔وہ اگر تم بچنے کی خاطر کرتے ہو تو ٹھیک ہے، بیشک ایک سے زائد کرو مگر ان کو قربان نہیں کرسکتے اپنے اعلیٰ مقاصد کے اوپر، تمہارا فرض ہے انصاف قائم رکھو۔ یہ تونہیںکہ عورتوں کو قربانیوں کا بکرا بنا لو۔ پس یہ دو خوف ہیں جن کے درمیان اس آیت کو باندھ دیا گیا ہے۔ الا تعدلوا فان خفتم الا تعدلوا۔اگرتمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے فواحدۃً تو پھر صرف ایک ہے۔ اوماملکت ایمانکم یا وہ جو تمہارے داہنے ہاتھوں کے نیچے ہیں یعنی وہ لونڈیاں جو جنگ کے دوران جنگی قیدی بنا کر تقسیم کی جاتیں ہیں۔ ذلک ادنی الاتعولوا ۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم ناانصافی نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شادی انصاف کے قریب تر ہے اور محفوظ چیز ہے۔ یاد رکھو زیادہ شادیوں کی اجازت ناانصافی کے خوف سے دی گئی تھی ۔ تو ناانصافی کا ایک خوف دوسری ناانصافی میں تمہیںنہ جھونک دے ۔ اس لیے جس سے بچنے کی وجہ سے اجازت دی گئی تھی اُس مقصد کو قربان کردو ، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پس واحدہ ہی ٹھیک ہے اس صورت میں، اور یہ انسانی فطرت کے لحاظ سے بات ہورہی ہے۔ ذالک ادنی الا تعولوا ۔ ایک شادی کی صورت میں تمہارے لیے ناانصافی کا موقعہ نہیں رہتا پھر ۔کم موقعہ رہتا ہے۔ ناانصافی تو ایک بیوی سے بھی کی جاتی ہے اور بڑی شکایتیں ملتی ہیں ۔ مگر مراد یہ ہے کہ یہ جو ناانصافی کا دوسرا پہلو پید اہوجاتا ہے کہ دو عورتوں کے درمیان سلوک میں نا انصافی ہوجائے جوایک طبعی امر ہے اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایک ہی پہ قائم رہو۔ یہ ہے اس یہ آیت اور اس کا منطوق جو میں نے کھول دیا ہے۔ یہ بحثیں بعد میں اب آئیں گی کہ اجازت ہے یا تحدیدہے۔مختلف مواقع پر، اپنی سوال و جواب کی مجالس میں مَیں یہ بات خوب کھول چکا ہوں کہ دراصل یہ ایک مسلّمہ رواج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تعداد کو کم کیا گیا ہے نہ کہ بڑھایا گیا ہے۔ یہ مراد نہیں کہ یتیم ہوئے تھے تو، اس لیے سوسائٹی میں یتیم پیدا ہوئے تھے تو اس لیے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی گئی۔ جبکہ عربوں کا دستور یہ تھا اور اہل کتاب کا بھی یہی تھا کہ ایک ہی بیوی پر وہ اکتفا کیا کرتے تھے یہ بالکل غلط بات ہے۔
عربوں میں اُس زمانے میں بھی سینکڑوں شادیوں تک کا رواج تھا اور افریقہ میں اب بھی جو مشرک افریقہ ہے اس میں بھی کوئی پابندی نہیں ہے، بلکہ بعض جگہ مسلمان افریقہ میںبھی یہ رواج جگہ پاگیا ہے کہ ایک سے زیادہ سو سو تک شادیاں کرو، کیونکہ یہ آجکل تو شادی زیادہ کرنا دولت کی علامت ہے اور کمائی کا بہترین ذریعہ ہے افریقہ میں۔ کیونکہ افریقہ میں دو رواج ایسے ہیں جن کی وجہ سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ان کے مردوں کے فائدے میں جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ اکثر کام عورتیں کرتیں ہیں اور فیلڈ میں یعنی گھاس پھوس بھی وہی کاٹتی ہیں، بیج بھی وہی لگاتی ہیں، ہل چلاتی ہیں۔ فصلیں اگاتی ہیں، ان کی نگہداشت کرتی ، بچے پیدا کرتیں، اپنے پیچھے جھولیوں میں ڈال کے پھر ساتھ وہ کھیتی باڑی بھی ساتھ ساتھ کررہی ہوتیں ہیں اور پھر فصلیں کاٹتی ، برداشت کرتیں اور ان کو لاکر مارکیٹ میں بیچتی ہیں۔ تو ایسی بیوی بوجھ ہے کہ سہارا ہے۔ مرد اکثر نکمے بن جاتے ہیں اس وجہ سے کہ یہ ایسی بیویاں ان کی خدمت کیلئے معمور ہیں ۔ دولت بھی وہی کما کے دیتی ہیں اور ورثہ بھی انسان عورت سے پاتا ہے۔یعنی عورت کی طرف سے ماموں کا ورثہ پاتا ہے۔ اب یہ عجیب رواج ہے ،مگر ہے بہرحال رواج کہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کے بچے ورثہ نہیں پائیں گے اس کی بہن کے بچے ورثہ پائیں گے۔ تو ایک یہ ضمنی بات میں آپ کو بتارہا ہوں ۔ مگر امرواقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے رواجوں میں کچھ محض نفسانی خواہشات جو ازدواجی تعلقات سے متعلق ہیں وہ پیش نظر نہیں ہوتیں بلکہ اتنی عورتوں کے حقوق ادا کرنا تو انسان کیلئے ناممکن ہے۔ دراصل اور بھی بہت سی منفعتیںہیں جو ان رواجوں کے ساتھ شامل ہوگئیں اور یہ رواج بہت پرانے ہیں۔ عرب میں بھی یہ رواج تھے اور بڑی اچھی طرح مستحکم تھے اس لیے ایک شادی ایک سے زائد شادی کے احکام نہیں ہیںیہ۔ یہ زیادہ شادیوں کو محدود کیا گیا ہے اور یہی جواب میںہمیشہ دیتا رہا ہوں دفاعی طور پر نہیں بلکہ حقیقت کے طور پر ایک سے زیادہ شادیاں اگر ضروری ہیں اور بعض حالات میں ضروری ہوتی ہیں،تو اپنی ذات میں ان کی اجازت ملنی چاہیے۔ پس اسلام نے تعدد ازدواج کو مقید کردیا ہے چار تک اور چار تک مقید کرنے کے بعد اس کو اس اجازت کو واپس لے لیا اگر انصاف قائم نہیں رہ سکتا۔ گویا عملاًاس کااستعمال بہت ہی محدود کردیا گیاخواہ کوئی اس کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک سے زائد شادیاں کرے یا اپنے نفس کی خاطر زیادہ کرے یہ الگ بحث ہے مگر قرآنی حکم کا جہاں تک تعلق ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے۔ اب مختلف مفسرین اور مختلف مستشرقین معترضین جو آریوں، عیسائیوں میںسے بھی ہیں اور آریوں میں سے بھی ان کے حوالے سے بات کرکے اس مضمون کے دوسرے پہلوپرروشنی ڈالوں گا ۔ سب سے پہلے لفظ یعنی بعض الفاظ کی لغوی بحث ہے۔ قَسَطَ قِسْطٌ عدل اور انصاف بِالقِسْط کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں انصاف کیلئے ۔ وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط پس جب بھی تم حکومت کرو یا فیصلے کرو تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ قَاسِطْظالم کو بھی کہتے ہیں، نافرمانی کرنے والے کو بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا وام القاسطون و کانوا لجھنم حطبپس جہاںتک ظالموں اور نافرمانی کرنے والوں کا تعلق ہے جہنم اُن کاایندھن اُن کیلئے جلنے کی جگہ بنے گی۔ حَطَب تو ایندھن کو کہتے ہیں(کیوں جی؟)۔ جہنم ان کا ایندھن ہوگی یعنی جہنم میں جلیں گے محاورہ اتنا ہی مراداس سے اتنا ہی مراد ہے۔ اَقْسَطَ: انصاف کرنا ۔ اب یہ عربی محاورہ ہے طرز بیان ہے کہ ایک لفظ کو اگر باب افعال میں لے جاتے ہیں تو اس کا برعکس معنی پیدا ہوجاتا ہے اگر قَسَطَ کا مطلب ہے ظلم کرنا جیسا کہ ابھی بتایاہے قَاسِط ظلم کرنے والا تو اِقسَاطکا مطلب بن جائے گا انصاف کرنا۔ اقسط فیہ او الیہیہاں انصاف مراد ہوتی ہے او تسرُ حھم وتقسطوا الیھمجیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا مقسطاسم فاعل کے طور پر انصاف کرنے والے کو کہتے ہیں۔ پس جہاں ثلاثی مجرد سے فاعل قَاسِط بنتا ہے ۔ قَسَطَ تین حرف ہیں جن سے یہ لفظ بنا ہے۔ ق۔ س ۔ط۔ ان تین حرفوں کے باب کو ثلاثی مجرد کہتے ہیں اور تین حرفی باب کثرت سے عربی میںاستعمال ہوتے ہیں اور بھاری تعداد جو جملوں کی قرآن کریم میں اور دیگر عرب کلام میں ملتی ہے وہ تین حرفی کلام پر ہی مشتمل ہیں۔ تین حرفی کو کہتے ہیں ثلاثی تین۔ مجرد جو اکیلا ہو اس میں زائد نہ کچھ کیا گیا ہو تو ثلاثی مجرد کو کہتے ہیں۔ ایسا ثلاثی جو صرف تین حرف تین حرفوں پر مشتمل ہو اور اسی سے پھر آگے بہت سے معنی پیدا کئے گئے ہوں اور ثلاثی مزید فیہ ان تین حرفوں کو بنیاد رکھتے ہوئے ان کو مختلف سانچوں میں ڈھالاجائے اور ہر سانچے کے معنی اُس میں پیدا کئے جائیں تو اس کو مزید فیہ کہتے ہیں۔ ایسے ابواب جن میںڈھل کر یہ لفظ کچھ زائد الفاظ کو اپنالیتے ہیں حرفوں کو اور ہمیشہ خاص پیمانے کے مطابق وہ حرف داخل کئے جاتے ہیں۔ یہ ثلاثی مزید فیہ کا باب ہے جن کو عربی گرائمر کی زیادہ تفصیل نہ بھی علم ہو یہ روز مرہ آنے والے محاورے کی باتیں ہیں اتنا سمجھ لینا چاہیے تین حرفی کلام اور اکثر عربی الفاظ تین حرفی ہی ہیں۔ وہ اگر محض تین حرفی رہیں بول چال میں تو کیا کہیں گے اس کو ؟ ثلاثی مجرد۔ مجرد کہتے ہیں، کنوارا۔ اب شادیوں کی بحث ہورہی ہے اس لیے مجرد کو یاد رکھیں کہ صرف ایک یا زائدچار شادی کرنے والے نہیں بعض بیچارے مجرد بھی ہوتے ہیں۔ اب جتنے لوگ زیادہ شادیاں کریں گے اتنے ہی مجر د بڑھ جائیں گے دنیامیں۔ اس طرف بھی دھیان رہنا چاہیے ۔ تو ثلاثی مجردکا کثرت سے ملتا ہے لیکن ایسے ثلاثی بھی ہیں جنہوں نے بہت شادیاں کی ہوئی ہیں اور حروف اور ساتھ شامل کرلیے ہیں ان میں سے ایک ہے باب اِفعَال۔ وہ پیمانہ جس میں ایک حرف کا اضافہ ہوتا ہے خاص انداز سے۔ مثلاً قَسَطَ اس نے انصاف کیا، ناانصافی کی۔ قسطظلم کیا۔ اقسط اس نے انصاف کیا اور قرآن کریم میں روزوں کے ذکر میں یہ ملتا ہے۔ یُطیقُون۔ أَطاق۔ یُطِیقُ ۔ طَاق کہتے ہیں طاقت ہو جس کو اور اَطَاقَایک الف پیچھے شروع میں بڑھادیا اَطَاق کا مطلب ہے طاقت نہ ہو ۔تو یہ باب أَطاق۔ یُطِیق۔ اَفعَلَ یُفعِلُ، اَقسَطَ یُقسِطُ یہ ایسا باب ہے جس میں بیک وقت دونوں معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی اس میں ترجمہ کرنے والوں کیلئے حسب حال ایک سہولت پید اہوجاتی ہے، امکان کھل جاتا ہے ۔ چاہوتو مثبت ترجمہ کرلو، چاہو تو منفی۔ لیکن دونوں صورتوں میں دلیل قائم کرنا تمہارا فرض ہے۔ یعنی بے تکی ہر جگہ اپنی مرضی تمہیں دھونس کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ موقع محل بتائیں گے کہ یہاں منفی معنی ہوسکتا ہے کہ نہیں اور اگر دونوں ہوسکتے ہوں تو دونوں کی اجازت ہے۔ چنانچہ روزوں کے بیان میں مَیں نے خطبے میںاس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ وہاں یُطِیق کا لفظ أَطاق۔ یُطِیق کا باب جوہے وہ بیک وقت دونوں معنوں پر حاوی ہے ۔ وہ جنہیں روزے کی طاقت نہیں ہے ان کیلئے یہ حکم ہے اور اسی لفظ کا ترجمہ یہ بنے گا اور وہ جن کو روزے کی طاقت ہے وہ فدیہ اس لیے دیں کہ طاقت تھی اور نہیں رکھا۔ پس اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ قَسَطَ بھی انہی ثلاثی مجرد میں سے ہے جو باب افعال میں جب جاتے ہیں تو ناانصافی کی بجائے انصاف کے معنی اس میں پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے فرمایا الا تقسطوا فی الیتامی۔ اُقسط انصاف کیا۔ تقسط تم انصاف کرتے ہو ، ناانصافی کا الٹ۔ پس اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ تم یتامی کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لوگے تو پھر یہ اجازت ہے۔ مُقسِطْ اسم فاعل ہے اقسط یقسطُ سے جس کا مطلب ہے انصاف پر چلنے والا۔ ان اللہ یحب المقسطین قرآن میں سورۃ ممتحنہ میں آتا ہے اور مائدہ میں بھی کہ اللہ مقسطین سے محبت کرتا ہے یعنی انصاف کرنے والوں سے۔ طَابَ میں ابھی پہلے بھی بیان کرچکا ہوں اس کا ترجمہ۔ اس کے جو تراجم لکھے ہوئے ہیں مختلف حوالوں سے ان میں ایک ہے خوشگوار ہونا ، جس کیلئے میں نے عربی میں خوش آنا کاترجمہ کیا ہے اردو میں اور اس کا معنی خوشی سے دینا بھی ہے۔ خوشی بھی ہے۔ طوبی لھم۔ و حسن ماب میں جو لفظ طوبیٰ ہے وہ بھی اس کا ہم معنی ہے ۔ طابَ ہی سے نکلا ہوا ہے۔ ط۔ا۔ب طَابَ وہ حلال ہوگئی ۔ چیز خوش آئی، خوشگوار ہوئی اور خوشی سے کسی کو دیا اور طوبیٰ لفظ خوش بختی اور خوشی۔ قرآن کریم نے طوبی لھم و حسن ماٰب یہ اس طرح استعمال کیا جیسے یوں لگا جیسے خوشخبری ہے ان کیلئے۔ معنی خوشخبری ہی کا ابھرتا ہے۔ مگر مراد یہ ہے کہ ان کیلئے خوشی کا موقعہ ہوگا بہت اچھا پیارا ماحول ہوگا۔ طیب ہم کہتے ہیں کھانا حلال بھی ہو طیب بھی ہو ۔ تو طیب سے مراد یہ ہے کہ محض اجازت نہ ہو کھانے کی بلکہ خوشگوار کھانا ہو، اس کی مہک اچھی ہو، اس کارنگ مزہ صورت جو بھی تمہارے دل کو خوش آئے وہ کھایا کرو۔ کلوا من طیبت مارزقنٰکمکھایا کرو من طیباتٍ ۔ یعنی مومنوں کیلئے صرف حلال کی تعلیم نہیں ہے بلکہ طیّبٰتکی تعلیم بھی ہے۔ یعنی ان کے معیار کو بلند تر کیا گیا ہے۔ ان کی نفاست کا مرتبہ توقع کے لحاظ سے زیادہ اونچا رکھا گیا ہے ۔ صاف ستھرا موافق مفید یہ سب طیب ہے۔ پس طاب لکم من النساء کا مفہوم اس کی رُ و سے یہ بنے گا کہ وہی عورتیں جو یہ سب خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہوں ، جن کے آنے سے گھر میں خوشگواری پیدا ہو، گھر کا ماحول نہ بگڑے جو تمہارے مزاج کے موافق ہوں اور ان کے اندر حسن فطرت پایا جائے۔ محض بیویاں بننے کی اہلیت نہ ہو۔ بلکہ خوشگوار اچھی ماحول کو سنوارنے والی بیویاں بننے کی صلاحیت ہو، ان سے شادی کرو ۔ اس لیے طاب لکم کا لفظ یہاں بہت اہمیت رکھتا ہے ، عام اجازت نہیں ہے ۔ کیونکہ ایسی صورت میں اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔ اگر عام اجازت دی جائے، کیونکہ عام طور پر ایک سے زیاہ شادیوں سے یتیموں کو تو اور بھی مصیبت پڑ جاتی ہے، گھر کے ماحول بگڑتے ، گالی گلوچ ہوتی، ناانصافی کے تقاضے ہوتے۔ اس لیے یہ شرط بیچ میں داخل ہے جس کو عموماً لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔ ناانصافی کا خوف ہو تو شادی کرو۔ مگر یاد رکھنا پھر ایسی عورتیں گھر میں لانا جو گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے والی ہوں اور محض اجازت کے نام پر کسی الف ب کو گھر میں نہ ڈال لینا کیونکہ وہ اصل مقصد کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کردیں گی، کیونکہ اکیلی بیوی کے گھر میں ماحول کا بہتر رہنا زیادہ قرین قیاس ہے بہ نسبت ایک سے زائد بیویوں کے نتیجہ میں گھر کے ماحول کا خوشگوار رہنے کاخوشگوار رہنا۔ اگلا لفظ ہے تَعُولُوا۔ عَالَ۔ اس کالفظ اصل میں تو اس کا مطلب یہ ہے کم ہوگیا۔ عال المیزان یعول عولاً و یعیل عیلاً نقص و جارَ۔یعنی کم ہوگئی کوئی چیز۔ اس نے ظلم کی راہ سے کوئی چیز رکھ دی گئی ۔ اس کو عال یعولُ کے باب کے الفاظ سے بیان کیا جاتا ہے۔ عال فلانٌ فی المیزان کسی شخص نے تکڑی کے تول میں عال سے کام لیا ۔ عَالَ!اس کامطلب ہے خَانَ اس نے بددیانتی کی عال المیزان عولاً ای مالجھک گیا۔ اس نے تکڑی کو عَالَکیا، عَولاً یعنی جھک گیا تول میں خیانت کی۔ایک پلٹ ڈنڈی مارنے کو جس کوہم اردو میں کہتے ہیں ناں ڈنڈی مارنا۔ وہ لفظ عَالَ سے بیان ہوتا ہے۔ عال امر القوم اشتدّ کسی قوم کا معاملہ اگر عَالْ ہوجائے تو شدید ہوگیااور بڑھ گیا، اس پر کوئی مصیبت پڑ گئی، کوئی معاملہ الجھ گیا یا اس میں سختی پیدا ہوگئی۔ عال الناقۃ ذنبھا یہ تو دُم اٹھانے کو کہتے ہیں۔ عال فلان عولاً و عیالۃً کوئی شخص عَالَہوجائے تو اس کا مطلب ہے کثرتِ عیال ۔ اہل و عیال کہتے ہیں نا جو بڑے عیال والا ہے وہ لفظ عول ہی سے نکلا ہوا ہے ۔ تو کثرت عیال اور ناانصافی کا آپس میں کیا جوڑ ہے ۔ غالباً بچے جب زیادہ ہوں اور آدمی خود غریب ہو تو کسی کا بھی حق ادا نہیں کرسکتا اور اس کے متعلق تو ایک عرب شاعر کہتا ہے ؎
و بہ الذِّئب یأوِی کالخلیل معیلی
کہ صحرا میں بھیڑیا بھی اس طرح چیخ و پکار کررہا تھا جیسے زیادہ اہل و عیال والا جس کے بچے بہت زیاد ہ ہوں اور غریب ہو تو وہ روتا پیٹتا ہے۔ یہ مراد ہے ناانصافی کی کہ اگر کوئی شخص اپنی توفیق اور حیثیت سے بڑھ کر بچے پید اکرلے تو یہ وہ ہرایک سے ناانصافی کرے گا۔ آگے عَالَ کا ایک معنی ہے عَالَ صبرُہٗ وَعِیلَ صبرُہٗ غَلَبَ وَافتَقَرَ فَھُوَ مَعُول رَفَعَ صَوتَہٗ بالبکاء یعنی ایسا شخص جو بلند آواز ، جس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ بلند آواز سے واویلا کرنے لگے۔ ان سب معنوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ ترجمہ یہ بنے گا فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ او ماملکت ایمانکم ذالک ادنی الا تعولوا اسی لیے بعض آئمہ نے اس کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے ، یہ زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ تم بہت زیادہ بچے نہ پیدا کردویعنی بہت زیادہ عیال دار نہ ہوجائو۔ لیکن وہ ایک معنی ہے اصل اس موقعہ اورمحل کے مطابق وہی معنی ہے کہ تم ناانصافی سے بچنا چاہتے ہو ،تو ایک بیوی کی صورت میں ناانصافی کا احتمال یقینا کم ہوگا اور واویلے کا احتمال بھی کم ہوگا ، تمہاری آہ و بکا کا بھی احتمال کم ہوگا۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں کر بیٹھے اور طاب کی شرط نہ رکھی ،انصاف نہ کیا تو بڑا شور پڑے گا ، گھر کا امن برباد ہوجائے گا۔ آئے دن اس گھر سے بھی جوتیاں کھاکے آئو گے ، اُس گھر سے بھی جوتیاں کھاکے آئو گے اور اس وقت کاجو تمہارا واویلا ہے وہ کسی کام نہیں آئے گا ۔ اس لیے کوئی شوق کی بات نہیں، ذمے داری کی بات ہے۔ تمہاری نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر حکم نہیں دیا جارہا ، ایک بڑی ذمہ داری کی بات ہے ، اس میں ذرا سی بھی ٹھوکر کھائی، غلطی کھائی تو تم مصیبت میں مبتلاء ہوجائو گے۔ لسان العرب میں وہ جو میں نے کہا تھا ناں زیادہ عیال والا یہ آتا ہے۔ حضرت امام شافعیؒ نے یہ معنی کیے ہوئے ہیں کہ ایک رکھو ورنہ عیال دار بڑے ہوجائو گے ، سنبھالے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ لسان العرب میں یہ حوالہ دیا ہے عال امر القوم عولاً اشتد و تفاقمیہ نہیں یہ زائد معنی ہے ایک اور ۔ وہ بہر حال قول حضرت امام شافعیؒ کا ہے جو میں نے بیان کیا تھا۔ اب امام جلال الدین صاحب سیوطی کہتے ہیں۔ آیت کے متعلق مختلف آراء اور مختلف پس منظر جو بیان کئے گئے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ان کے نزدیک عکرمہ کہتے ہیں کہ قریش میں یہ عادت تھی کہ ان میں سے جس کی نگرانی میں عورتیں ، یتیم بچے ہوتے تو اپنا مال ختم ہونے پر وہ یتیموں کے مال پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اب یہ عجیب و غریب تصور ہے جو اس کثرت سے دوسری تفاسیر میں بھی ملتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے یعنی وجہ جواز وہ پیش کی جو عقل میں آتی ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ رواج تھا کہ وہ یتیموں والی مائوں سے یا یتیم بچیوں سے شادیاں کرتے رہتے تھے۔ ایک سے بڑھ کر اور جب اپنا مال ختم ہوجاتا تھا تو پھر ان کا شروع کرتے تھے۔ یہ تو ویسے ہی لغو بات ہے ، جو بے ایمان ہو ، جو ظلم کرنے والا ہو وہ اتنا انتظار کہاں کیا کرتا ہے کہ پہلے میں اپنامال ختم کروں پھر دوسرے کا شروع کروں۔ یہ ایک فرضی بات بنائی ہوئی ہے اس کا اس آیت سے ، اس سیاق و سباق سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جو موقعہ ہے وہ جنگ کے دوران لونڈیوں کا بڑھنا ہے، یتیم بچوں لڑکوں اور لڑکیوں کا بڑھنا ہے اور بیوائوں کا بڑھنا ہے اور ایسی یتیم لڑکیوں کا بھی یہ معاملہ ہے جن کے ماں باپ دولت مند تھے اور والد مثلاً ماں باپ کا لفظ تو محاورۃً کہہ دیا ہے جن کے باپ دولت مند تھے جنگ میں شہید ہوگئے اور ان سے شادی کے تعلق میں بھی یہ آیت آتی ہے۔ ایسی بچیاں کسی کی کفالت میں دی جاتیں تھیں کیونکہ ان حالات میں بغیر کسی کفالت کے کسی کو رکھنا مناسب نہیں تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ آیت کفالت کے مضمون میں صرف ان بچیوں پر اطلاق پاتی ہو جن کی مائیں پہلے ہی فوت ہوچکی ہوں اور اس صورت میں لازم تھا کہ ان کی دیکھ بھال کیلئے کوئی مقر رکی جائے اتھارٹی ان کی نگہداشت کیلئے اور یہ طریق جو ہے یہ ابھی بھی اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ ربوہ میں مَیں نے ہدایت کی ہوئی ہے کہ ایسے لوگ جن کے نگران گھر میں نہ ہوں ان کی دیکھ بھال کرنے والے معمر بزرگ انصار کی ان کو ڈیوٹی لگانی چاہیے، نظامِ جماعت کی طرف سے کہ ان گھروں کی دیکھ بھال کیا کریں، کبھی پوچھ لیا کریں کہ کوئی ضرورت ہے کہ نہیں اور بچیوں کے حالات اور صحت وغیرہ کے اوپر اور دوسرے بچوں کے بھی نظر رکھا کریں ۔ یہ نہ ہو کہ آپ کی نظر سے یہ معاملہ اوجھل رہے اور محض اس وجہ سے کہ کوئی سرپرست نہیں ہے ان کے اندر بعض ایسی خرابیاں پیدا ہوجائیں جو بعد میں ان کیلئے بھی اور معاشرے کیلئے بھی تکلیف کا موجب بنیں۔ تو یہ نگرانی ایک فریضہ ہے۔ بعض مستشرقین جن کامیں آگے جاکے بیان کروں گا وہ نہایت ہی جاہلانہ حملہ کرتے ہیں اسلا م پر کہ اسلا م میں تو کسی عورت پر اعتبار ہی کوئی نہیں ۔یہ سارا بے اعتباری کا مسئلہ تھا وہ کہتے ہیں کہ کوئی عورت بھی اپنے آپ کو سنبھال سکتی نہیں۔ اس وجہ سے اسلام نے یہاں یہ مسئلہ چھیڑا کہ یتیم لڑکیاں آئیں گی تو ان کو تو ضرور کسی کی نگرانی میں دینا ہوگا۔ حالانکہ یہ بالکل جہالت ہے یہ جنگ کے خاص حالات کی بات جو میں کررہا ہوں اس کے علاوہ بھی تو یتیم بچے ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ بھی تو یتیم بچیاں ہوتیں ہیں ، کب اسلام میں حکم ہے اور کہاں یہ حکم جاری کیا گیا کہ جس کا جن بچوں کا باپ مرجائے ان کو فوراً کسی کے حوالے کر دو۔ اس لیے یہ جاہلانہ بات ہے اس کا اس آیت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں۔ اعتباری بے اعتباری کا مسئلہ ہی زیر بحث نہیں ہے۔ مسئلہ انصاف اور ناانصافی کا ہے اور ہر وہ ترجمہ جو انصاف اور ناانصافی کو پیش نظر نہ رکھے ہر وہ تفسیر جس کو نظر انداز کرکے اس آیت کی طرف معنی منسوب کرے وہ درست نہیں ہوگی۔ اتنا کھول دیا گیا ہے ، دو عنوان باندھ دیئے گئے ہیں۔ ایک آیت کے دائیں طرف ایک بائیں طرف عدل عدل، عدل کی بناء پر تمہیں یہ کرنا ہوگا، عدل کی بناء پرتمہیں رکنا ہوگا۔ اورچونکہ عدل کی بحث تھی اس لیے دراصل پابندی لگائی جارہی ہے ۔ قرآن کریم کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ جتنا بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رجحان بڑھے گا عدم عدل کااحتمال بڑے گا یہاں تک کہ چار حد ہے، سوائے ان کو جن کو خداتعالیٰ نے غیر معمولی عدل کی طاقت دی اور اسی پہلو سے آنحضرت ﷺ کا جو استثناء ہے وہ آپ کے حیرت انگیز طورپر عادل ہونے کے نتیجہ میں ہے۔ آپﷺ سے کوئی احتمال دور کا بھی نہیں ہے۔ اس لیے اگر ضرورت کے مطابق شادی ایک سے زائد کرنی ہو، کسی کو حق ہے تو وہ ہے جو عدل پر قائم ہو۔ اور عدل کے اعلیٰ تقاضے پورے کرے۔ یہ گفتگو ہورہی ہے ، اسی وجہ سے چار کی پابندی کردی گئی ہے عام انسانوں میں چار سے زیادہ کی شادیاں کرکے عدل قائم رکھنے کا احتمال ان کا امکان بہت دورکا ایک امکان ہے۔ اس لیے عمومی نصیحت یہ فرمائی گئی ہے کہ آج کے بعد تم نے چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرنی گویا کہ تحدید ہے ، اجازت نہیں ہے تحدید ہے کیونکہ عربوں میںچار سے زیادہ شادیوں رواج موجود تھا۔ رئوساء کثرت سے شادیاں کرتے تھے، سینکڑوں تک پہنچ جاتی تھیں بیویاں۔ پس ایسے ماحول میں اجازت کا کیا مطلب تھا۔ پھر جب اجازت دی گئی تو تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہ مشکل پیش آئی کہ کس کو رکھیں اور کس کو طلاق دیں کیونکہ وہ صحابہ جنہوں نے ایک سے زائد شادیں کیں ہوئی تھیں ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن کی چار سے زائد تھیں، اور یہ مسئلہ درپیش ہوگیا کہ کس کورکھیں اب۔ یہ نہیں ہوا کہ دوڑتے پھرتے ہوں کہ چلودو کی اجازت مل گئی ہے دوسری کہاں سے ڈھونڈیں۔یہ ایک بھی ذکر نہیں ملتا۔ پس تحدید تھی یعنی تعداد پر پابندی لگائی گئی ہے نہ کہ اسے بڑھایا گیا ہے اور تعدد ازدواج کا ایک مصرف بتایا جارہا ہے اب۔ کہ تعدد ازدواج تو تم کرتے ہو اب دو باتیں یادرکھنا ، ایک تو یہ کہ آج کے بعدسے چار سے زیادہ نہیں اجازت ہو گی، دوسرا اسے کسی خاص حکمت کیلئے استعمال کرو، قومی فائدے کیلئے استعمال کرو، اپنی ذاتی اغراض کیلئے استعمال نہ کرو۔ قو م میں یتامی کثرت سے پھیل گئے ہیں ان کی دیکھ بھال کا مسئلہ ہے۔ یتیم بچیوں کی شادی کا مسئلہ ہے، بیوہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ ہے۔ اور اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو معاشرہ میں بد اخلاقی پھیل جائے گی۔
پس اگر کوئی موقعہ ہے ایک سے زائد شادی کا اور جیساکہ ہے تو سب سے بہترین مصرف یہی ہے کہ اسے نیکی کیلئے استعمال کرو، بدی کیلئے نہیں، اور قیام انصاف کیلئے استعمال کرو نہ کہ عدم انصاف کیلئے۔ اب مختلف جو وجوہات پیش کی گئی ہیں، کیوں یہ حکم دیا گیا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ منسوب کیا گیا ہے کہ مرد کو چار شادیوںتک محدود رکھنا یتیموں کے اموال کی حفاظت کی وجہ سے ہے اور یتیموں کے اموال کی حفاظت کی وجہ سے ہے ، یہ درست نہیں ہے۔کیونکہ قرآن کریم میں تو بالعموم ناانصافی کی روک تھام یا ازالہ کی خاطر اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ہر وہ حالت جس میںتمہیں خطرہ ہو کہ تم ناانصافی کرو گے ، اس میں اجازت ہے اور صرف یتیموں سے شادی کی اجازت کا بحث نہیں ہے۔ یتیموں کا تو ضمناً اس معاشرے میں جہاں جنگ کے بعد کے حالات تھے ذکر کیا گیا ہے اور ان کو فائدہ پہنچانے کیلئے اس کو ایک ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ ورنہ بنیادی طور پر انصاف اور انصاف ! یہ دو باتیں ہیں جو عنوان بنیں گی اس مضمون کی۔ علامہ آلوسیؔنے بھی یہی دُرّ منشور والی بات لکھی ہے۔ دُرّ منشورمیں جلد ۲ صفحہ ۱۱۸ پر امام جلا ل الدین صاحب سیوطیؔ وہ روایت لائیں ہیں عکرمہ کی جس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ’’ چار شادیوں تک محدود رکھنایتیموں کے اموال کی حفاظت کی وجہ سے ہے‘‘۔ تفسیر روح المعانی بھی یہی بیان کرتی ہے۔ ایک روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیان ہوئی ہے جو محل نظر ہے۔ کیونکہ اس سے تو اس آیت کا جو منطوق ہے بالکل حد سے زیادہ محدود ہو کے رہ جاتا ہے اور آنحضرتﷺ کی سنت اور صحابہ اور خلفاء کی سنت کے بالکل خلاف ہے ۔ اس لیے کوئی ایسی حدیث جو ان میں تفاسیر کی کتابوں میںملتی ہے جو قرآن کریم یا قطعی زیادہ قوی احادیث سے ٹکراتی ہوئی معلوم ہو وہ قابل قبول نہیں ہے، وہ حدیث ہو ہی نہیں سکتی یا پھر اس کا مفہوم سمجھنے میں کسی نے غلطی کی ہے ۔ مگر میں آپ کو سنا دیتاہوں ۔ کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آیت و ان خفتم ان لا تقسطوا کے بارہ میں فرماتی ہیںکہ ’’یہ آیت ایسے شخص کے بارہ میں نازل ہوئی جس کی کفالت میں صاحبِ مال یتیم بچی ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور اس مال کا عوے دار نہ ہو۔ اب یہ ایسی عجیب شرط ہے جو شاذ کے طور پر وہاں کبھی ملتی ہوگی کہ کوئی صاحبِ مال یتیم بچی ایسی ہو جو کلالہ بھی ہو اس کا کوئی اور والی وارث ، کوئی رشتہ دار نہ ہو۔ ایسی بچی کے مال کی حفاظت کی خاطر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ مضمون جو وسعت رکھتا ہے وہ اتنا واضح ہے قرآن کریم سے اور دیگر احادیث سے اور صحابہ کے تعامل سے کہ یہاں اس کو اس حد تک محدود کردینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ یہ اسباب نزول العلی بن احمد الواحدی نے اس بات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس کی جو شان نزول ہے وہ ایک تو یہ خاص بچی کے متعلق اور دوسری یہ کہ عربوں کا یہ طریق تھا کہ یتامی کے اموال سے اجتناب کرتے ۔ یعنی صحابہ کا غالباً مراد ہے اس زمانے میں یہ طریق تھا کہ یتامی کے اموال سے اجتناب کرتے اور عورتوں سے شادیاں کرنا جائز سمجھتے اور جس سے چاہتے شادی کرلیتے۔ کبھی ان سے عدل کرتے کبھی نہ کرتے۔پس جب انہوں نے یتیموں کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ بھی عجیب و غریب ساایک منظر کری ایٹ(Create)کیا گیا ہے۔ جس میں کوئی تُک نہیں ہے ، بالکل بے معنی اور بے محل بات ہے۔ امام رازی اپنی تفسیر ، تفسیر کبیر میں جلد ۹ صفحہ۱۷۱تا۱۷۲ میں لکھتے ہیں ’’اس آیت کے مطابق وہ یتامی کی ولایت سے انقباض محسوس کرتے تھے‘‘۔ اس آیت کے مطابق وہ یتامیٰ کی ولایت سے انقباض محسوس کرتے تھے۔۔ کون محسوس کرتے تھے ۔ مسلمان! جنگ کے بعد جب یتامی پیدا ہوئے کثرت سے تو اس وقت بہت سے صحابہ ان کی ولایت کے قبول کرنے سے گھبراتے تھے اوران کی وجہ گھبرانے کا جو ذکر ہے وہ دراصل اس آیت میں اس لفظ میں ہے وان خفتم ان لا تقسطوا ۔ انہوں نے یہ اس سے نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اس خوف سے کہ کہیں ہم ناانصافی نہ کرجائیں یتیموں سے ، اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور ذمہ داری قبول کرنے سے احتراز کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ دیکھو بات تو ٹھیک ہے ، خوف تو اچھا ہے لیکن اس کا حل ہم تمہیں بتاتے ہیں، ذمہ داری قبول کرلو اور ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرو۔ اب یہ کیا جوڑ ہے اس کا۔ یہ کافی غور طلب بات ہے ، لیکن اس مضمون پر ہم پھر دوبارہ واپس آئیں گے کہ اصل کیا جوڑ بنتا ہے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ مطلب بنے گا پھر کہ پس جو عورتیں تمہارے لیے جائز ہیں ان سے نکاح کرلو اور محرمات کے ارد گرد مت منڈلائو۔ یعنی یہ ہاں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ حل نہیںہے اس کا۔ وہ کہتے ہیں یتامی سے تو تم ڈرتے ہو کہ کہ ان کے ساتھ ناانصافی نہ ہوجائے تو پھر معاشرے میں تمہاری وجہ سے خطرہ ہے اوربدیاں نہ پھیل جائیں کیونکہ ان حالات میں ہوسکتا ہے تم بے راہ روی اختیار کرجائو، تو کم سے کم اپنی عصمت کی حفاظت کی خاطر ایک سے زائد شادیاں کرلو۔ اب یہ موقعہ اورمحل کے مطابق تو عجیب سا یہ تبصرہ بنتا ہے قرآن کریم کا۔ مسئلہ اور ہے اور جواب بالکل اور دیا جارہا ہے ۔ اصحاب ظاہر کہتے ہیں کہ نکاح واجب ہے اور وہ اسی آیت سے استنباط کرتے ہیں، کہتے ہیں فانکحوا ما طاب لکمیعنی جو مزید باتیں اس آیت کے متعلق کہی گئی ہیں وہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ جو اصل میرا مسلک تھا جو واضح ایک معین قرآنی ہدایت اس کے مطابق احادیث کی تائید ملتی ہے وہ میں آپ کے سامنے پہلے پیش کرچکا ہوں۔ اب میں وہ مختلف روایات بتارہا ہوں جن کے پیش نظر مفسرین نے کئی کئی نئے نتائج نکالے ہیں اور کئی نئے نکات پیدا فرمائے ۔ فانکحوا ماطاب لکم من النسآء اصحاب ظاہر کے نزدیک نکاح واجب ہے ، اس کیلئے وہ اسی آیت سے استنباط کرتے ہیں اس لیے کہ فانکحوا امر ہے یہ واضح امر وجود پر دلالت کرتا ہے۔
امام شافعیؔ کے نزدیک نکاح ان آیات کے باعث ہرگز واجب نہیں۔ پس نکاح کا وجود ان معنوں میں کہ جو نکاح نہیں کرے گا وہ حرام موت مرے گا ، وہ نافرمانی کی حالت میں مرجائے گا۔ یہ مسلک بھی نکالا گیا ہے اور اس آیت کو انہوں نے استعمال کیا ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ فانکحوا میں وہ حکم ہے اور اگر فانکحوا میں حکم ہے تو ’’ف‘‘ کس غرض سے آئی ہے۔ ف پچھلی بات کا تعلق جوڑنے کیلئے آئی ہے اور وہ بات یہ ہے اگر تم ناانصافی سے ڈرتے ہو تو پھر فرض ہوا اس لیے ف نے بتادیا کہ عمومی فرض یہاں ہے ہی نہیں، عمومی گفتگو ہے ہی نہیں۔ ایک مسئلہ اُٹھایا اس کا حل بیان کیا گیا ۔ مسئلہ یہ اُٹھایا کہ اگر تم ناانصافی سے ڈرتے ہو یتامیٰ کے بارے میں تب شادی کرو ایک سے زائد۔ پس اگر اسے محدود کرنا ہے تو صرف ان معنوں میں محدود کیا جاسکتا ہے اور عام کرنا ہے تو ایک سے زائد شادیوں کو رواج کے طور پر قبول کرنے کے معنوں میں ۔ اسے یتامیٰ کے حوالے کے علاوہ بھی ایک سے زیادہ شادی کے ذکر پر مشتمل آیت شمار کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ استنباط بہر حال درست نہیں کہ یہاں انکحوا کا لفظ چونکہ حکم ہے اس لئے ہر شخص کیلئے شادی کرنا فریضہ ہے مذہبی! نہ کرے گا تو اس پہلو سے وہ نافرمان ٹھہرے گا، نافرمانی کی حالت میں مرے گا۔ کیونکہ شادی کیلئے ایک سے زائد بہت سے ایسے محرکات بھی ہوتے ہیں اور لوازمات بھی ہوتے ہیں جو ہر انسان کے اپنے بس میں نہیں ۔ ایک آدمی ہے بیچارہ وہ غریب ہے ، ایک آدمی جسمانی طو رپر ایسا ہے کہ اس سے کوئی شادی کیلئے تیار نہیں ہوتا ، مزاج کے لحاظ سے ایسا ہے کہ اس سے شادی کرنا ایک عذاب بن جائے ، اس لیے یہ کہنا کہ حکم ہوگیا سب کیلئے یہ ویسے ہی درست نہیں ہے۔ ابھی چند دن ہوئے میں نے سیر پر کسی کے متعلق بات کی تھی کہ اس کی شادی کیوںنہیں کراتے تو جواب ملا کہ یہ کام ہی نہیںکرتا توشادی کون کرے گا اس سے۔ اب وہ بیچارہ اگر کوئی کام کرے ہی نہ اور کوئی اس سے شادی نہ کرے تو نعوذ باللہ وہ حرام موت مرے گا ، اس کا اختیار ہی کوئی نہیں، کام ڈھونڈنا تو فرض ہے لیکن کام مل جانا تو اختیار میں نہیں ہے۔ تو ایک سے زیادہ محرکات اورموجبات ہیں جو شادی کے معاملے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے ہرگز حکم ان معنوں میںنہیں جن معنوں میں اصحاب ظاہر نے لیا ہے۔ حضرت امام شافعی نے ایک استنباط بہت عمدہ فرمایا ہے فرمایا فمن یستطع منکم طولاً الی ذالک لمن خشی ۔ اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم تو صاف فرمارہا ہے کہ صاحب حیثیت ہو یہ کرو اور اگر صاحب حیثیت نہ ہوتو صبر سے کام لو ، استغفار کرو، اپنی عصمت کو بچا کے رکھو ۔ اس مضمون کی آیت کے ہوتے ہوئے کیسے تم استنباط کرسکتے ہوکہ قرآن کریم ہر مسلمان مرد یا عورت کیلئے شادی ضروری قرار دیتا ہے۔
تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے ، یہ بھی وہی کہا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مرد چار پانچ چھ اور دس شادیاں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر فلاں شخص نے شادیاں کیں ہیں تو مجھے ایسا کرنے میں کیا بات ہے۔ پھر جب اپنا مال ختم ہوجاتا تو زیر کفالت یتیم کے مال پر ہاتھ صاف کریں۔ ایسا فرضی قصہ گھڑا ہوا ہے کہ تصور میں ہی نہیں آتا کہ آٹھ دس شادیاں کرتے جاتے تھے اور پھر زیر کفالت یتیم بھی تھے، کچھ ان کا مال روک کے رکھا ہوا تھا۔ جب پیسے ختم ہوجاتے تو ان کا مال شروع کردیتے۔ محض فرضی کہانی ہے اس کا کوئی بھی حقیقت سے تعلق نہیں۔ پس یتامیٰ کے اولیاء کو منع کیا چار سے تجاوز نہ کریں تاکہ یتیم کے مال کے محتاج نہ ہوجائیں اور چار والے محتاج ہوجائیں تو پھر اس کی روک تھام کیا ہے، یہ جتنی زیادہ ہوں گی اتنے بچے زیادہ ہوں گے، جتنے بچے زیادہ ہوں گے اتنا ہی یتیم کے مال کیلئے خطرات بڑھیں گے۔ تو چار پر بھی جاکے بات نہیں ٹھہرتی ، بلکہ با لکل الٹ مضمون بن جاتا ہے۔ یتیموں کے مال کی حفاظت مقصود ہے اور کہہ دیا عیال دار بن جائو تاکہ تم مجبور ہوجائو یتامیٰ کے مال میں سے کھانے کیلئے۔ پتا نہیں کہاں کہاں ان لوگوں کے دماغ جاتے ہیں۔ مگر خوب سوچا ہے لوگوں نے بھی، اندازہ کریں کوئی کونا کھدرا چھوڑا نہیں جہاں تفسیر کی تلاش میں نہ نکل کھڑے ہوں۔ یعنی تفسیر کو ئی نئی کرنی ہوتی ہے نا کوئی تلاش کرنی پڑتی ہے بات، پہلی تفسیروں سے زائد کچھ یہ بات بھی داخل ہوجائے ۔ اس لیے میں نے کہا ہے کہ تفسیر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں لوگ۔
ایک صاحب نے ایک اور مسئلہ اس میں سے نکال دیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے ۔ تفسیر قاسمی یہ شیعہ تفسیر ہے؟ اچھا یہ کہتے ہیں کہ فانکحوا ما طاب لکم من النسآء یہ پوری تعداد کیلئے حصول اجازت پر تنبیہ ہے۔ الثالث وائو عطف عربی میں مطلق جمع کیلئے آتی ہے ۔ پس یہ جو استنباط کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ مثنیٰ کا مطلب ہے کہ دو دو و ثلاثہکا مطلب ہے کہ تین تین ربعکا مطلب ہے چارچار۔وہ کہتے ہیں اس کا مطلب ہے تین جمع چار ۔ دو جمع تین جمع چار کتنی بن گئیں نو(۹) ۔ کہتے ہیں لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی نو کی اجازت تھی۔ مگر کہتے ہیں ٹھہر و ابھی میں نے احتیاط سے کام لیا ہے ، اجازت زیادہ کی ہے کیونکہ دو دو جب کہا گیا تو دو جمع دو چار ہے اصل میں تین تین جب کہا گیا تو تین جمع تین چھ ہوگیا اور چار چار جب کہا گیا تو آٹھ تو اٹھارہ کی اجازت ہے۔ تم خوامخواہ چار پہ بیٹھے ہوئے ہو ۔ یہ تفسیری نکات دیکھیں ہیں آپ نے کہاں سے کہاں جاکے دُور دُورکی کوڑیاں لاتے ہیں۔ حضرت امام رازیؒ تفصیلی بحث جب فرماتے ہیں اس کے آخر پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اَدنیٰ ان لا تعولوا کے معنی ہیں لا تجوروا یعنی ظلم نہ کرو ۔ ایک دوسری روایت میں ان لا تمیلوا کہ کسی ایک کی طرف جھک ہی نہ جائو۔ تو چار شادیوں کی اجازت کو انصاف پر مبنی قرار دے کر، انصاف کو اس کا محرک بتا کر ، انصاف کی خاطر کرو یہ قطعی شرط لگادی کہ ایک دوسری عورت کی طرف دو شادیوں کی صورت میں ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف میلان نہ کرلو تعولوا کا مطلب یہ ہے اور رسول اللہﷺ کا یہ ترجمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیش کیا ہے کہ آنحضورﷺ نے اس آیت کا یہ ترجمہ بھی فرمایا ہے اور تجوروا کا بھی کہ ایک پر ظلم نہ شروع کردو ، دونوں کے آپس میں مقابلے میں اور امام رازیؓ صاحب کشاف کا حوالہ بھی دیتے ہیں ۔ نہیں امام رازی دیتے ہیں صاحبِ کشاف کا یا ان کی بات ختم ہوگئی (میں دیکھتا ہوں ایک منٹ یہ الگ شرو ع کی ہے ۔ ہاں ٹھیک ہے انہوں نے کوٹ کیا ہے ماذکروا صاحب الکشاف ٹھیک ہے) امام رازی صاحبِ کشاف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب اس کے عیال کی کثرت ہوگی تو اس کا ظلم کرنا ممکن ہے۔ یعنی زیادہ امکان بن جاتا ہے ۔ اس لیے بھی کہ ان حالات میں رزق طیب اور حلال روزی کے حصول کیلئے تقویٰ پر کاربند رہنا مشکل ہوجاتا ہے یہ ایک اور بھی نقطہ بڑا لطیف ہے جو اٹھایا گیا کہ جب بال بچے زیادہ ہوجائیں اور رزق کے ذرائع کم ہوں تو ایسے آدمی کیلئے حرام کمائی میں مبتلاء ہونے کے زیادہ احتمالات ہیں ۔ کیونکہ وہ کہتا ہے میں نے بچوں کا پیٹ بھرنا ہے بہرحال اور اس کیلئے جائز ناجائز میں بھی مبتلاء ہوجاتا ہے۔ تو یہ اس لیے بھی منع ہے۔ پس جہاں اجازت ہے وہاں مناہی بھی ہے۔ اور مناہی کا جو پلڑا ہے وہ زیادہ بھاری دکھائی دے رہا ہے اور اجازت کے جو مواقع ہیں وہ بہت کم اور شاذ ہیں۔ اس لیے اس کو عام اجازت اور کھلا دستور قرار دے دینا بالکل قرآن کریم کے مفہوم کے مخالف ہے اور غلط سمجھا جارہا ہے ۔ اور اب اس کے نتیجے میں چونکہ مسلمان علماء نے اس کو ایسے ہی سمجھا ہے، بہت سے علماء نے بعضوں نے نہیں سمجھا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، تو انہوں نے مستشرقین کے ہاتھوں کو تقویت دے دی ہے اور ان کی زبانیں کھولنے میں مددگار بن گئے۔(ایک اور مفسر تفسیرروح المعانی کس کی ہے یہ؟ علامہ آلوسی کی ٹھیک ہے) انہوں نے بھی وہی بات کی ہے جو تفسیر قاسمی میں کی گئی ہے کہ نو(۹) بلکہ اٹھارہ کی اجازت ہے۔
حضرت امام بخاری کتاب التفسیر میں یہ روایت لاتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا باقی سب نے مثنیٰ و ثلثٰ و ربٰع کی تفسیریہ کی ہے کہ دو دو ، تین تین، چار چار اور عرب لوگ ربٰع سے آگے نہیں بڑھتے اس کی اصل عربی یہاں نہیں ہے۔ کیا مراد ہے عرب لوگ ربع سے آگے نہیں بڑھتے۔ یہ تو مراد نہیں کہ یہ جو دو دو کا محاورہ جو ہے یہ ربع پہ جاکے ٹھہر جاتا ہے اور پانچ کے اوپر استعمال نہیں ہوتا غالباً یہی ہے۔ عربی میںمثنیٰ و ثلثٰ و ربٰع تک تو محاورہ ملتا ہے دو دو ، تین تین، چار چاراور پانچ کیلئے یہ محاورہ ہی موجود نہیںہے۔ یہ حضرت امام بخاری کا استنباط معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آکے بات ٹھہر جاتی ہے اور پانچ والا محاورہ ہی کوئی نہیں ہے۔ اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے واقعتہً خُمٰسٰی کا لفظ کہیں کوئی نہیں ملتا(پس وہ جو ہیں؟ نہیں ناملتا ہے خمس خُمسٰیوغیرہ) ۔ اس سے اب کیا استنباط ہوگا ، اس سے کیا وہ تفسیر قاسمی والا استنباط ہوگا کہ کیونکہ نہیں تھا اوپر اس لئے اسی سے فائدہ اٹھا لو جتنا اُٹھانا ہے۔ ضربیں دیتے رہو اندر اندر، آگے تو بات نہیں بڑھنی۔ پانچویں تک کا تو محاورہ ہی نہیں ہے عرب میں۔ آگے اب سنیے علامہ ابن کثیر وہ قطعی طور پر تفسیر قاسمی وغیرہ یا علامہ آلوسی کے مخالف ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہرگز یہ بات جائز نہیں ہے۔ یہاں چار سے زیادہ کسی طرح بھی اجازت کا ذکر نہیں ہے۔ اگر چار سے زائد بیویوں کا جمع کرنا جائز ہوتا تو ضرور اس کا ذکر ہوتا ۔ وہ کہتے ہیں حضرت امام شافعی نے فرمایا کہ (رسول اکرمﷺ کی کیا؟) کہ رسول اللہﷺ کے علاوہ کسی اور شخص کیلئے چار سے زائد بیویاں کو جمع کرنا جائز نہیں ، تو ایک اور فقیہ کو بھی انہوں نے کوٹ کیا ہے، اس کا حوالہ دیا ہے کہ قطعی طور پر وہ استثنائی حکم ہے ۔ اس کی اور وجوہات ہیں اور یہ بات جو امام شافعی نے بیان فرمائی اس پر جمہور علماء متفق ہیں۔ جمہور علماء اتفاق کرتے ہیں کہ ایک عام مسلمان کیلئے چار سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں۔ رسول اللہﷺ کی وہ جو سنت ہے وہ آپﷺ پر خاص ہے۔ کہتے ہیں سوائے ایک شیعہ گروہ کے جو یہ بیان کرتا ہے کہ چار سے لے کر نو تک بیویوں کو جمع کرنے کا جواز ہے اور ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ بغیر حد بندی کے اور بغیر حد بندی کا، جنہوں نے غالباً جو نکالا ہے استنباط وہ یہ ہے کہ چار پر عربی ختم ہوگئی تھی تو اجازت کس طرح بڑھاتے۔ مطلب ہے چل سو چل پھر ۔ چار چار ، آٹھ آٹھ ، دس دس کرتے چلے جائو، جتنا بنانا ہے تم نے۔ او ربعض تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس فعل سے لازم سمجھتے ہیں کہ چار سے نو تک بیویاں جمع کرنا درست ہے اور یہ جمہور علماء کے نزدیک حضرت رسول اکرمﷺ سے خاص ہے اورامت میں کسی اور کیلئے جائز نہیں۔ جیسا کہ ہم اس امر کو ان حدیثوں سے واضح کریں گے جو چار تک محدود کرنے کے بارے میں ہے۔ حضرت غیلان بن سلمہ الثقفی جب ایمان لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ حضرت رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے چار بیویوں کو اختیار کر باقیوں کو چھوڑ دے۔ تو صاف پتا چلا کہ اس سے پہلے صحابہ میں تعدد ازدواج کا رواج تھا اور دس تک کی تو روایت ہے ، اس سے زیادہ بھی تھیں ۔ کیونکہ مشرکوں میں یہ روا ج تھا، عربوں میں یہ رواج تھا کہ زیادہ کیا کرتے تھے۔تویہ سوال اٹھا تھا کہ کس کو رکھنا ہے کس کو چھوڑنا ہے۔تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے قال بعضھم ان فیھا اشارۃ أیضا الی استحباب الزیادۃ علی الواحدۃ لمن لم یخف عدم العدل لانہ سبحانہ قدم الامر باالزیادۃ و علق الامر أمر الواحدۃ لخوف العدم العدل۔یہ جو کہتے ہیںامام روح المعانی والے کہ بعض نے کہا ہے کہ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں مستحب ہیں، اس شخص کیلئے جو عدم عدل سے خائف نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زیادہ شادیوں کے امر کو مقدم رکھا ہے اور ایک شادی کے امر کو عدم عدل کے خوف سے باندھا ہے۔ حضرت امام شافعیؒ نے کہا ہے کہ لا تعولوا کی تفسیر یہ ہے کہ نہ زیادہ ہوں تمہاری اولادیں یعنی حد سے زیادہ بڑھا ہوا خاندان نہ بن جائے ۔ اب یہ جو بات اٹھائی گئی ہے کہ مستحب ہے یہ درست نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک اجازت دے کرپابندی ایسی سخت لگادی جاتی ہے کہ اجازت کا اطلاق بہت کم لوگوں پر ہوسکتا ہے اور تعولوا کا یہ معنی جو امام شافعی نے بیان کیا اور عربی لحاظ سے جائز ہے، یہ اس مضمون پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ اس طرح کہ تمہیں ایک سے زائد کی اجازت تب ہے وہ بھی صرف چار تک اس سے بڑھ کر نہیں کہ تم یہ نیت لے کے اُٹھو کہ انصاف قائم ہو اور تمہیں یقین ہو کہ تم انصاف پر قائم رہ سکتے ہو۔ اگر یہ شرط پوری نہیں ہوتی تو پھر ایک بہتر ہے۔اور ناانصافی سے مراد یہ نہیں ہے صرف یہ نہیں ہے کہ تم بیویوں کو برابر دو بلکہ ناانصافی سے مراد رسول اللہﷺ کے ترجمے کے پیش نظر یہ ہے کہ کسی کی طرف زیادہ میلان کر جائو ، کسی کی طرف کم میلان کرو، کسی کو عدم توجہ کا نشانہ بنالو اور کسی کی طر ف بہت زیادہ جھک جائو اور دوسرا لفظی معنی کے لحاظ سے امام شافعی کی تفسیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی معنی بنے گا کہ ناانصافی سے یہ بھی مراد ہے کہ اتنے بچے پید اکرلوکہ تم ان کو سنبھال نہ سکتے ہو۔ پس اگر تمہیں استطاعت ہی نہیں ہے ایک سے زیادہ بیویوں کے حقوق ادا کرنے کی اور ایک سے زیادہ بیویوں کے بچوں کو پالنے کی تو تمہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس وسیع ترترجمے کی رو سے دنیا کی اکثر آبادی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت سے مستثنیٰ ہوجاتی ہے اور وہ لوگ جو دولت مندہیں ان کے اوپر دوسرے معنی کااطلاق تو نہیں ہوتا کہ اگر تمہیں خطرہ ہے کہ تم روپے پیسے کی کمی کی وجہ سے اقتصادی مسائل کی وجہ سے سب کے حقوق ادا کرسکو گے ۔ اگر یہ ایسے لوگ ہوں یہ خطرہ ان کے اوپر اطلاق نہ پاتا ہو وہ خوشی سے سب کے حقوق ادا کرسکتے ہوں ، ایسے ہی لوگ ہیں جو اکثر ناانصافیوں کی طرف بھی مائل ہوتے ہیں اور زیادہ تر ناانصافیاںایسے دولت مندوں سے ظہور میں آتی ہیں۔چنانچہ ہم نے رئیسوں کی شادیوں میں ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ شاذ ہی کوئی استثناء ہو ، اللہ کے خاص خوف رکھنے والے کا ورنہ اکثر رئوسا ء جو شادیاں کرتے ہیں وہ پہلیوں کو چھوڑ تے چلے جاتے ہیں اور ان کے حقوق تلف کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور ان کی شادیوں کی غرض و غایت قیام انصاف نہیں بلکہ ناانصافی ہے اور حرص و ہوا ہے۔ ایسے لوگ پہلی آیت کے پہلے مضمون کے تابع مجاز ہی نہیں ہیں کہ وہ شادی کریں ایک سے زائد(کہاں گئی آیت وہ ۔ اُہ ہوں بیچ میں چھپ گئی ہے۔ ہوں یہ مل گئی ہاں۔ ٹھیک ہے۔ اچھا نشان لگایاہے آپ نے ماشاء اللہ)۔ وان خفتم الا تقسطوا کی شرط اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے ۔ الا تقسطوا کہ انصا ف نہیںکرسکو گے تب شادی کرو اور ناانصافی کرنے کامیلان ہو تو شادی کی اجازت کہاں سے ہوجائے گی ۔ اگر بعض لوگوں کے مزاج میں ناانصافی داخل ہو تو ان کوایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت ہی نہیں۔ اور آجکل ہمارے معاشرے میں جو پاکستان میں ہے ، بلکہ دنیا بھر میں ہر جگہ قریباً یہی حال ہے، عورت کے معاملے میں انصاف کی مرد سے بہت کم توقع ہے۔ کیونکہ وہ بسا اوقات دوسری شادی نفسانی خواہشات کی خاطر کرتا ہے اور یہی وجوہات ہیں ورنہ فرض کی ادائیگی کی خاطر تو شاذ کے طور پر لوگ شادی کرتے ہیں۔ نفس کی خاطر جب شادی کی جاتی ہے تو نا انصافی کا احتمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور یہی ہوتا ہے اسی وجہ سے اکثر قضائی جھگڑے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ بہت شاذ ہیں جو ایک سے زائد شادی کرتے ہیں ،کم سے کم احمدیوں میں تو بہت شاذ کے طور پر مثال سامنے آتی ہے اور ان میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ دو بیویاں ایک دوسرے سے بہنوں کی طرح سلوک کرتی ہیں وہ مستثنیٰ ہیں اس سے۔ میرے سامنے معین مثالیں ہیں ۔ دو عورتیں ایک دوسرے کی سوتیںاور ایک دوسرے پر جان چھڑکتی ہوئی ایک دوسرے کے بچوں کے اوپر قربان ہوتیں ہوئیں ایسی کہ ایک دوسرے کو دعائیں دیتی ہیں۔ یہ مثالیں بھی سامنے ہیں تو، مگر یہ استثناء ہے جو چند کرتے ہیں ان میں سے اکثر ان چند میں سے اکثر اس شرط پر پورے نہیں اترتے اس لیے یہ جھگڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور بعض قوموں میں اور بعض علاقوں میں تو رواج ہے کہ ایک نئی شادی کی اور پہلی کو یکسر بھلادیا اور گھر بٹھادیا ، یہ بالکل جائز نہیں ہے ۔ پس ان شادیوں کی خرابیوں کو اسلام کی طرف منسوب کرنے کا دنیا میں کسی کو حق نہیں ہے۔ اسلام پر حملہ کرنا ہے اُن حدود کے اندر آکر حملہ کرکے دکھائو یہ جو حدود قائم کردی گئیں ہیں اس میں کسی حملہ آور کو قدم رکھنے کی مجال نہیں ہے۔ ایسی اعلیٰ تعلیم ہے ، اتنی محفوظ تعلیم ہے کہ اس کے اوپر ناانصاف کو حملہ کرنے کی استطاعت ہی نہیں ہے۔ پس ایک سے زیادہ شادیوں کو ۔۔۔ مستحب قرار دینا یہ سب یونہی علماء کے ڈھکوسلے ہیں۔ مستحب کا تو مضمون بنتا ہی کوئی نہیں یہاں پہ شرطیں اتنی کڑی لگائیں ہوں تو مستحب کیسے ہوجائے گا۔ امام شافعی نے تبھی ’’بحر محیط‘‘ میں بھی لکھا ہے کہ دراصل یہ مراد لی ہے کہ اقتصادی لحاظ سے تم میں استطاعت ہو ورنہ فقیر ہی نہ بن جائو۔ اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم فقیر بن جائو گے یعنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرسکو گے تو تمہیں ہرگز اجازت نہیںہے اور تفسیر ’’بحر محیط‘‘ میں ہے ذالک ادنٰی کے بحث میںآیا ہے اقرب زیادہ قریب لا تعولوا یعنی لاتمیلوا عن الحق یہ بات زیادہ قریب ہے ، قرینِ قیاس ہے کہ تم اگر ایک بیوی سے شادی کرو اور ایک ہی پر اکتفا کرو ۔ تو یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ تم حق پر قائم رہو گے اور ناانصافی نہیں کرو گے، یہ مستحب ہے۔مستحب کا مطلب تو کھل گیا ،اگر یہ فرمایا جائے کہ تمہارا ایک بیوی کے ساتھ رہنا زیادہ قرین قیاس ہے زیادہ امکان رکھتا ہے کہ تم انصاف پر قائم رہو اور حق کے تقاضے پور ے کرو اور ناانصافی سے پرہیز کرو ، ظلم سے پرہیز کرو، یہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ یہ کہہ کر یہ کیسے کہاجاسکتا ہے کہ مگر مستحب یہی ہے کہ تم ایک سے زیادہ کرو۔ مستحب وہی ہے جس کے ساتھ تقویٰ کے تقاضے زیادہ واضح طور پر باندھے گئے ہوں اور مستحب ا س کے باوجود ان کیلئے صرف مستحب ہے ایک سے زیادہ شادی کرنا۔ جو اس شرط پر پورا ا ترتے ہوں کہ ایک ہوں یا دو ہوں یا چار، قطعی طور پر وہ کسی پہلو سے بھی انصاف کے تقاضوں کو قربان نہ کریں ، ان کیلئے مستحب ہے اور بڑی محدود تعدادہے وہ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو اس آیت کریمہ کا ترجمہ کیا ہے اس میں بھی بہت سے لطیف اشارے موجود ہیں۔ آگے جب میں تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیش کروں گا تو وہ نکات اور بھی زیادہ کھل جائیں گے(لیکن یہ نیچے رکھا گیا تھاترجمہ) ۔ اس لیے میںپہلے اس میں سے نہیں پڑھ سکا ، اسلامی اصول کی فلاسفی جو پیش نظر ہے جس نے یہ نوٹ کیا ہے اس کے صفحہ ۲۷ پر یہ ہے عبارت۔ اب مختلف چھپے ہیں ایڈیشن! ہوسکتا ہے کسی جگہ صفحہ ۲۷ پر ہو کسی جگہ کسی اور صفحہ پرہو ۔ فرماتے ہیں ،مگر یہ پتا لگ جائے گا ان خفتم ان لا تقسطوا کا ترجمہ اسلامی اصول کی فلاسفی میں یہ موجود ہے۔ یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں، لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں ، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ یہ ہے اصل مفہوم جو اس ترجمہ سے خوب کھل جاتا ہے کہ ایسے حالات میںیتیم بچیوں سے شادی کرنا ناجائز تو نہیں ہے یہ تو نہیں کہ وہ بیچاریاں اکیلی پھینک دی جائیں اس خوف سے کہ ناانصافی نہ ہوجائے ۔ مگر تم اس بات کا جائزہ لے لو کہ اگر تمہارا مزاج ایسا ہو کہ خطرہ ہے کہ وہ جن کا پوچھنے والا کوئی نہیں ، جن کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں رہا ان کے معاملے میں تم جو چاہو کرتے پھرو اور خاص طور پر اموال کی زیادتی عورتوں سے ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اموال کے معاملے میں عورتوں کی سمجھ بوجھ اور تجربہ بہت سے ملکوں میں مردوں سے کم ہے ۔ بعض جگہ بڑی سمجھ بوجھ رکھتی ہیں عورتیں۔ مثلاً بعض افریقہ کے ممالک میں جہاں مالی امور طے ہی وہی کرتی ہیں لیکن بالعموم جہاںتک انسانوں کا تعلق ہے مرد مالی معاملات کی زیادہ مہارت رکھتے ہیں عورتیں کم۔ اور عورتیں جن کی شادیاں ایسے خاوندوں سے ہوں جو ان کے اموال کی نگرانی کریں ان کو پتا بھی نہیں لگے گا کہ مرد کیا کیا حرکتیں کرگیا، کیسے کیسے کھاگیا۔ عام طور پر ان کے ماں باپ پھر خیال رکھتے ہیں ۔ یہاں بھی انگلستان میں آج کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا ہے ایک اختلاف ہوا مالی لین دین کا ، پتا لگا کہ وہ مرد جس سے اختلاف تھا ، اس مرد کا سسر بیچ میں آکے حساب کتاب میں پڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا اس کا بیچارے کا کیا تعلق ہوا۔ وہ خسر صاحب کو کیا ضرورت پڑی تھی، آپ دونوں آپس میں کیوں نہیںکراتے تو انہوں نے کہا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کا مؤقف یہ ہے کہ میری بیٹی کا(اصل میں) بیچ میں کچھ حصہ ہے اور بیٹی چونکہ مالی امور میں ایسی شد بد نہیں رکھتی اس لیے میں زیادہ اہل ہوں اس بات کا کہ اس کی حمایت میں یہ دیکھو ںکہ اس کونقصان نہ ہوجائے۔ اب یہ ناجائز نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ بھی کیا ہو اہے ۔ اگر وہ چالاکی سے نقصان نہ پہنچائے دوسرے کو، صرف انصاف کے تقاضوں کی حفاظت کی خاطر اپنی بیٹی کی مدد کرتا ہے یا اپنی بہن کی مدد کرتا ہے تو ہرگز ناجائز نہیں، کیونکہ حمایتی موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس ترجمے کی رو سے یہ بات بنے گی کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ لاوارث ہے ، تم پر کوئی نگران نہیں رہے گا جو چاہو کرلو اور یہ خطرہ ہو کہ تم ایسا کرو گے تو پھر رک جائو، پھر یتیم لڑکیوں سے شادی کی بجائے عام عورتیں نسآء جو ہیں ان سے شادی کرو۔ جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے ، کیونکہ ان کے پیچھے حمایتی موجود ہیں۔ ایک ،دو ، تین، چار تک کرسکتے ہو۔ ایک دو ، تین ، چار تک کرسکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرو۔ اور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو۔ گو ضرورت پیش آوے،گو ضرورت پیش آوے۔اگرانصاف نہیں کرسکتے تو ضرورت کو فوقیت نہیں دی جائے گی۔ پھرلازماً تمہیں ایک پر اکتفا کرنا ہوگا۔ چار کی حد لگادی گئی ہے وہ اس مصلحت سے ہے کہ تا تم پرانی عادت کے تقاضے سے افراط نہ کرو۔ یعنی عربوں میں پرانا رواج تھا اس لیے چار کی حد لگائی گئی ہے۔ یہ ایک کو بڑھا کر چار نہیں کیا جارہا بلکہ سینکڑوںکو کم کرکے چار تک پہنچایا جارہا ہے۔ یعنی صدہا تک نوبت نہ پہنچے۔ بالکل یہی بات مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں یا کہ حرامکاری کی طرف جھک نہ جائو۔دوسری بدیاں بھی معاشرے میں نہ پھیلیں۔ اس ترجمے میں سب باتیںآجاتی ہیں۔ ماشاء اللہ! تفسیر کے سارے پہلو اسی ترجمے سے پھوٹ رہے ہیں۔ اب اس کے بعد ابھی ہمارے پاس وقت ہے میں بعض مستشرقین کے تبصرے اوران کی بعض کی یاوہ گویاں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، اس کے بعد ان کا جواب دینے کیلئے کہیں اورجانے کی ضرورت نہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے جو اصولاً اسلام کی حمایت میں مختلف عیسائیوں اورآریوں کے حملے کے مقابل پر دفاع فرمایا ہی وہی بہت کافی ہے۔ اپنی طرف سے ہمیں کسی جوابی سختی کی اورضرورت باقی نہیں رہتی۔ منٹگمری واٹ:
"Companion to the Quraan based on Arberry's translation" The point is presumably that if each Muslim marries several wives no girl (orphan) need be left in the inferior polyandrous condition.
اب یہ جو پولی اینڈرس کا جو نکالا ہے اس نے یہ حیرت انگیز بات ہے اشارۃً بھی۔ Polyandryکا ذکر نہیں آیا اور اس نے یہ چونکہ بہت گہرا زہر رکھتا ہے منٹگمری واٹ(Montgomery Watt) نئی نسل کے جو پیدا کیے ہیں اسلام پر حملہ کرنے والے بڑی چالاکی اورہوشیاری کے ساتھ ان کا یہ باوا امجد ہیں جناب واٹ صاحب، منٹگمری واٹ صاحب۔ اب ان کا طریق کار دیکھیں یہ بھی ضمناً میں بتادوں کہArbery کی translation پر ان کو Companion to the Quraanپیش کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی ہے ۔آربری(Arbery)ایک ایسے مستشرق ہیں جنہوں نے محسوس کیا کہ قرآن کریم کے اندر ایسا عظیم حسن ہے اور ایسی شوکتِ کلام ہے کہ جتنی بھی translationsہوتی ہیں وہ اس پہلو سے بالکل ناقص اور کوتاہ(دست) ہیں وہ پہنچ ہی نہیں سکتیں قرآن کریم کے حسن کے بیان کو ۔ اور وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ اکثر لوگ عربی ٹیکسٹ(text)کے قریب رہنا خواہ مطالب واضح ہوں یا نہ ہوں اتنا ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ ترجمے کے رستے میں یہ بات روک بن جاتی ہے۔ دوسری بات وہ یہ سمجھتے ہیں اور یہ درست ہے اور ایسی ہے جس سے مفر نہیں ۔ وہ کہتے ہیں شوکت کلام زبان پر منحصر ہے۔ زبان کے محاورے پر منحصر ہے اور دوسری زبان کے محاورے بسا اوقات اس بات کے کفیل ہو ہی نہیں سکتے کہ ان۔۔۔۔۔ محاوروں کے قریب رہتے رہتے ترجمہ کرو۔ اور پھر بھی شوکت مضمون ترجمے میں آجائے۔ شوکت کلام ترجمے میں آجائے۔ اس لیے کسی حصے کو قربان کرنا پڑتا ہے وہ کہتے ہیں ا س لحاظ سے جو ہمارے مغربی لوگ ہیں وہ جب قرآن کریم کے مروجہ تراجم دیکھتے ہیں تو ان کو عجیب تعجب محسوس ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ایسا کلام جس میں بار بار بڑی شان کے ساتھ دعوے کیے گئے ہیں کہ اس کی فصاحت و بلاغت کی نظیر تو لاکر دکھائو، ایک سورۃ ہی بنا کر دکھائو، چند آیا ت ہی لے آئو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس میں کوئی فصاحت و بلاغت ایسی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ عادی ہیں شیکسپیئر پڑھنے کے ۔ دوسرے ایسے لکھنے والوں کے۔ کہتے ہیں جو ترجمہ سامنے ہے اس میںتو وہ بات ہے ہی نہیں ۔ تو Arberyکہتا ہے کہ جن کو عربی آتی ہے وہ جانتے ہیں کہ حقیقت میں کیسا عظیم اور پرشوکت کلام ہے ۔ تو میں جو ترجمہ کررہا ہوں یہ آزاد ہے ان پابندیوں سے جو مترجمین نے اپنے اوپر لگار کھی تھیں ۔ یہ ترجمہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کو مغرب کے سامنے پیش کرنے کیلئے ایک کوشش ہے۔ اس لئے اگر میں کچھ ہٹا ہوا دکھائی دوں تومجھے معاف سمجھا جائے۔ مگر مضمون کو قربان میں نے نہیں کیا۔ میں کوشش کروں گا کہ مضمون قربان نہ ہو اور اس کے باوجود شوکت قرآن، شوکت کلام قرآن ترجمے میں داخل ہوجائیں ۔ اس طرح انہوں نے یہ ترجمہ بنایا۔ میں جب یہاں طالب علم تھا تو ا س وقت پہلی مرتبہ یہ ترجمہ چھپا ہے وہ اس Arberyکا۔ اور میرے دل میں پہلی دفعہ ان سے تعارف ہوا میرے دل میں بہت ان کی عزت ہے۔
ایک منصف مزاج ایک انگریز جس نے باقی ظالمانہ روش سے ہٹ کر ایک منصفانہ بلکہ دوستانہ روش اختیار کی۔ چوہدری ظفراللہ خانصاحب کے وہ ذاتی واقف بلکہ وہ چوہدری صاحب کا بہت احترام کرنے والے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ابتدائی کاپیوں میں سے خود تحفۃً چوہدری ظفراللہ خانصاحب کو بھیجی اور چوہدری صاحب نے بطور احسان وہ مجھے دی کہ یہ ترجمہ اگر آپ نے دیکھنا ہے کہ ترجمہ کیا ہوتا ہے، یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہے۔ واقعتہً کہ فصاحت و بلاغت قرآن کی کچھ انگریزی میں بھی جھلکنے لگے۔ تویہ ترجمہ پڑھو اس لیے میرا تعارف اس وقت سے ہے ۔ یہ ترجمہ بعض لوگوں کو ضرور تکلیف دیتا ہوگا کیونکہ اس ترجمے سے پڑھنے والا بہت متاثر ہوتا ہے اور کئی جگہ مضامین میں غلطی کھاگئے ہیں، میں نے دیکھا ہے وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے نہ کہ تعصب کی وجہ سے۔ مضامین میںہمارے علماء بھی قرآن کریم کی بعض آیات کو اور طرح پیش کردیتے ہیںجو اصل مقصد نہیں ہوتا اور دوبارہ پھر بار بار نئے بہتر ترجمے پیش کرنے کی ضرورت پیش رہتی ہے۔ اس پہلو سے یہ نہیں میں کہہ رہا کہ سو فیصدی قرآن کی درست نمائندگی کی ہے۔ مگر جو بھی کی ہے انصاف کے ساتھ، محبت کے ساتھ ، نیک نیتی کے ساتھ۔ اب یہ بات تولوگوں کو بھا نہیںسکتی ۔ اس لئے منٹگمری صاحب واٹ کو یہ ضرورت پیش آئی کہ اس کا بھی ایک کمپینیئن(Companion)بنالیں تا کہ جو نیک اثر پڑے ہوں جہاں تک ممکن ہے وہ سارے مٹادیں۔ میں تو یہ نہیں پڑھ سکا آج تک مجھے موقع نہیںملا کیونکہ اس قسم کی جو تحریریں ہیں ویسے ہی طبیعت پر بہت (بوجھ ڈالتی ہیں) بوجھ ڈالتی ہیں۔ مگر یہ اقتباس نکالنے والوں نے مجھے نکال کے بھیجا ہے۔
The point is presumably. The point is presumably that if each Muslim marries several wives no girl orphans need be left in the inferior polyandrous contition.
‏ polyandrousکہتے ہیں جہاں عورتیں ایک سے زیادہ خاوند کرتی ہیں ۔ اب یہ کون سی بحث ہے کہاں وہ مسلمان سوسائٹی میں نعوذ باللہ من ذالک یہ رواج تھا یا عرب سوسائٹی سے انہوں نے یہ اخذ کرکے اختیار کیا ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں اسلام کو اس کا حل پیش کرنا پڑا اور Polyandryکا تعلق کیا ہے اس مضمون سے ۔بالکل غلط بات ہےPolygamyاور چیز ہے Polyandryاور چیز ہے۔ Polygamyکہتے ہیں ایک سے زیادہ عورتیں بیاہ کے لانا۔ Polyandryکہتے ہیں ایک سے زیادہ خاوند بیاہ کے لانا۔ تو کہتا ہے کہ Inferior polyandrous conditionسے یتیم بچیوں کو نکالنے کیلئے اسلام ۔۔۔۔۔نے یہ ترکیب پیش کی ہے۔
It is to be noted that this verse on which permission for a Muslim to have four wifes is based does not Restrict a previous unlimited polyandry.
کس قدر ۔۔۔۔۔ متعصبانہ حملہ ہے۔ ایک آدمی کھول رہا ہے اندر سے کہ آربری نے اچھا بھلا شریفانہ ترجمہ کرکے ۔۔۔ مصیبت ڈال دی ہمیں۔ اب اس کے سارے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرو اور اسلام پر ایک یہاں حملہ کرو ۔ اس نے وہی مؤقف لیا ہے جو بعض شیعوں کابیان کیا گیا ہے۔ وہ پتا نہیں کون ہیں شیعوں میںسے بھی ۔ اکثر ہرگز اس بات کے قائل نہیں کسی زمانے میں کوئی ہوں گے ایسے علماء اس کو بھی تمام مسلم جمہور نے ردّ کردیا کہ اس سے چار سے زیادہ کی اجازت نکالی جاسکتی ہی نہیں۔ اور احادیث سے ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کے نزدیک اور آپ کی ہدایات کے پیش نظر تمام جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ چار آخری حد ہے ۔اور اس سے پہلے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ یہ منٹگمری صاحب واٹ کا تبصرہ ہے اور اس تبصرے پر آج کا درس ختم کرتے ہیں۔ کل انشاء اللہ اس مضمون کے دوسرے پہلوؤ ں کو پیش کیا جائے گا۔ اور یہ جوبیری ہے اسلام کا جس کو ویری بھی کہا جاتا ہے اس کے حوالے بھی میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اور اس دفعہ میں نے اس کا جواب خود نہیں دینا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو عیسائی حملوں کے جواب دیے ہیں وہ سن لیں گے، اسی سے انشاء اللہ دل ٹھنڈا ہوجائے گا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 6؍رمضان بمطابق27؍جنوری 1996ء
آج برفباری بھی ہے ، ٹھنڈ بھی بہت ہے۔ شاید اسی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ عام طورپر اس موسم کا سیٹلائٹ کنکشن سے تعلق تو نہیں ہوا کرتا اور آج غیر معمولی تاخیر سے تعلق قائم ہوسکا ہے۔ اس لئے مجھے ا بھی اطلاع ملی کہ تعلق قائم ہوچکا ہے اس لئے میں آیا ہوں۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلث و ربع۔ فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوماملکت ایمانکم۔ ذلک ادنی الا تعولوا۔(نسائ:۴)
اس آیت کا ترجمہ ہوچکا ہے اور تفسیر بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس لئے جہاں میں نے بات چھوڑی تھی اس سے اب آگے مضمون کو بڑھاتے ہیں۔ میں مستشرقین کے تبصرے آپ کے سامنے پیش کررہا تھا۔ ان میں سے ایک Jame Rodwellہیں۔ The Quran translated from the Arabic(The Everyman Library Publication) ہے۔ یہ نسبتاً منصفانہ رویہ رکھتے ہیں اس معاملہ میں، مگر آگے جاکے دیکھیں کیا کیا سامنے آتا ہے۔
Mohammad assumed to himself the privilege of having a yet greater number of wives. But is doing so, he was probably actuated by desire for male offspring.
کہ رسول اللہ ﷺنے چار کی پابندی سے اپنے آپ کو بالا سمجھا، مگر غالباً ان کے پیش نظر نراولادیعنی بیٹے کی پیدائش کی خواہش تھی۔ اس پہلو سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے توجیہہ پیش کی ہے۔
Khadijah was his only wife untill quite a late period of his career compare Arbah Turim.
اس نے ساتھ ہی ایک اور دلچسپ حوالہ پیش کردیا ہے جو مسلمانوں کے حق میں ہے اور مسلمانوں کیلئے وہ حوالہ اہل کتاب کا منہ بند کرنے کیلئے بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے اپنے ہاں بائبل میں جو اس مضمون پر تعلیم ملتی ہے اس کو بھی پیش نظر رکھو۔
"A man may marry many wifes, for Rabba saith it is lawful to do so, if he can provide for them. Nevertheless, the wise-man have given good advice, that a man should not marry more than four wives".
اب یہ چار بیویوں کا جو تصور ہے بعینہٖ یہ پہلے بائبل میں بھی ملتا ہے۔ اور یہ جو مستشرقین حملے کرنے والے ہیں، یہ تعجب ہوگا اگر ہم یہ سمجھیں کہ انہوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا ہوا۔ معروف باتیںہیں کہ یہ ان کااپنا ساتھی مستشرق جب یہ حوالے دے چکا ہے۔ اور یہ ایک دوسر ے کی کتابیں خوب غور سے پڑھتے ہیں ۔ تو یہ لاعلمی کاکوئی جواز نظر نہیں آتا ، جان بوجھ کر ان باتوں پر ہاتھ رکھتے ہیں تاکہ اسلام پر حملہ کا زیادہ موقع ملے۔ See also Yad Hachazakah Hilchoth Ishuthیہ چونکہ وہ ہے Hebrew(ہیبرو) تلفظات ہیںجو رومن میں لکھے ہوئے ہیں اس لیے ٹھیک پڑھے نہیں جارہے۔ 14/3اس کا حوالہ دیا ہوا ہے راڈویل نے۔ رچرڈ بیل کہتا ہے:-
Marriage would appear to be intended as a means of saying that justice is done to orphan. The danger of their property being neglected or absued may be obviated by the marriage eitherof the widowed. Mother of orphan children or of the orphan girl herslef for the possibility that child marriage may be contemplated it would then become the husband's personal interest to see that the property was looked after to facilitate this marriage of several wives up to four and perhaps.
آگے لفظ چھوٹا ہوا ہے یا اسی پر اس نے بات چھوڑی دی ہے۔ and perhaps....... is permitted.۔ اس کا مفہوم مختصراً یہی ہے کہ marriageکے پیچھے یتامی کا بڑی تعداد میں موجود ہونا ایک حکمت تھی جس کی وجہ سے یہ آیت یہاں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کا ذکر کرتی ہے۔ لیکن جو اس نے سمجھا ہے مضمون وہ کافی الجھائو رکھتا ہے۔ میں نے اس غرض سے اس کو پیش نہیںکیا کہ یہ اس سے کیا نتیجہ نکال رہاہے۔ یہاں آگے چل کر ایک اعتراض کرتا ہے اس کو پیش کرنے کیلئے۔ یہ میں نے ایک حصہ اس کا پڑھ کر سنایاہے۔
To facilitate this marriage of several wives up to four and perhaps( (More)مراد ہوگی۔مورلکھا ہوگاMore )is permitted.
اس مقصد کو آسانی سے حل کرنے کیلئے کہ یتٰمٰی کی اور خصوصاً یتیم بچیوں کی جائیداد وں کا کوئی دیکھ بھال کرنے والا ہو۔ ایک سے زائد یا ان کے ہاتھ انصاف کا معاملہ کیا جائے۔ ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی گئی۔ چار تک یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ پھر وہ آگے لکھتا ہے۔
Bell in his introduction to Surah Al-Nissa summarires this verse as the recommendation of polygramy as a need of providing for female orphans subtitled late insertion in verse.
یہ اس کی عادت ہے، رچرڈ بیل کی کہ آیتوں کو بھی اپنی مرضی سے ادھر ادھر پھینکتا پھرتا ہے۔ وہاں سے اٹھائی وہاں رکھ دی۔ گویا کہ اس کو خداتعالیٰ نے مقر ر کیا ہو اہے۔ قرآن ری آرگنائز کرنے کیلئے اور بے تکا، بے دلیل مختلف آیتوں کے نمبر الگ لگائے ہوئے ہیں اس نے اور یہاں محض ایک تک بازی سے بات کہتا ہے ۔
Marry such a women as seen good to you (double or trubble or four fold). But if he fear that he may not be fair than one or what your right hand possess. That is more likely to secure that he not be partial.
اب آگے جاکر یہ کہتا ہے اسی مضمون پر
As the passage is really address to the Muslim community as a whole it does not necessarily mean that the guardian should himself marry those for the management of whose property he is responsible. The general practice of polygamy would ease the situation but the widowes or orphan thus married are not to be denied their bride price though they may not be in position demanded. The clause i n the middle of the verse in fifteen ان لا تعولوا is interested rather in marriage than in orphan's property and restricts the freedom given in the first part of the verse is probably a later edition.
یہ ہے جو اصل حصہ ہے اس کا جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا تھا۔ انصاف کرتے کرتے پھراچانک وہ ڈنڈی مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ کہتا ہے یہ سب کچھ ٹھیک ہے سمجھ آجاتی ہے بات، لیکن یہ جو آخری حصہ ہے آیت کا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگرتمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر چار شادیاں نہیں کرنی یا ایک سے زائد نہیں کرنی بلکہ ایک ہی پر اکتفا کرنا ہوگا۔ کہتا ہے کہ یہ غالباً بعد میں زائد کردیا گیا ہے۔ کوئی تک نہیں کوئی اصول نہیں ہے۔ پورا یہ خود مختار ایک خداتعالیٰ کے انداز اختیار کرتا ہے ، گویا کلام الٰہی کے متعلق۔ یہ یوں نہیں میں سمجھتا ہوں۔ یوں ہے اس لیے یوں ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے بھی کئی مثالیں ایسی پہلے گذرچکی ہیں۔ خاص رچرڈ بیل کی یہ عادت ہے۔ اب منٹگمری واٹ سن لیجئے۔
Will not act justly towards your orphans. Verse is for Al-Nissa.یہ آئبیری کی ٹرانسلیشن پر companionجو اس نے لکھا ہے اس میں لکھتا ہے۔
There were still many traces of polyandry and similar practices in Madina.
اب یہ پولی اینڈری کا لفظ بار بار استعمال کرتا ہے۔جہاں تک مجھے یاد تھا پولی اینڈری تو ایک سے زیادہ خاوندوں کیلئے استعمال ہوگا ہے۔ ایک سے زیادہ بیوی کیلئے تو پولیگمی آتا ہے۔احتیاطاً میں نے کل جاکر ڈکشنریاں بھی چیک کیں اور ہر جگہ یہی ملا کہ پولی انڈری ایک سے زیادہ خاوندوں کیلئے استعمال ہوتا ہے اور پولیگمی(Polygamy)ایک سے زیادہ بیویوں کیلئے۔ تو یہ کیا سکاٹ لینڈ کی انگریزی مختلف ہے؟ یا یہ جان کر تعصب سے شرارت کررہا ہے۔ ایک پرا نا لکھنے والا ماہر جس نے کئی نسلوں کو تربیت دی ہے۔ اسلام کے خلاف اس کے متعلق یہ کہنا کہ انگریزی زبان نہیں آتی یہ تو بڑی تعجب کی بات ہے۔ اس لیے عمداً لفظ پولینڈری استعمال کرتا ہے اور مبحث کو ہی بدل دیا ہے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی بحث میں ایک سے زیادہ خاوندوں کی بحث کو اٹھاتا اور اپنی طرف سے فرضی باتیں بیان کرتا چلا جاتاہے گویا کہ ساری سوسائٹی میں ایک سے زیادہ مردوں کا رواج تو تھا ہی۔ ان آیتوں نے اس رواج کو نہیں چھیڑا وہ اپنی طور پر جاری رہا ، یہ تعصب پید اکرتا ہے۔ لیکن ساتھ اس کے برعکس بات کیوں کہہ دیتا ہے جو خود ا س کے مؤقف کے خلاف چلتی ہے۔ پہلے میں اس کا پورا پڑھ دوں passage۔
There were still many traces of polyandry and civil practices in Madina. The unjust treatment of girl orphans persumably consisted in keeping them polyandrous.
جہاں تک ان جسٹ پریکٹس کا ذکر ہے وہ یہ مطلب ہے اموال کی بحث نہیں ہے۔ یہ مطلب ہے کہ ان کو ایک سے زیادہ خاوند کرنے پر مجبور نہ کرو بلکہ تم ایک سے زیادہ بیویاں کرلو۔ کیسی بے تکی بات ہے۔ کہتا ہے قرآن یہ کہہ رہاہے کہ یتیم بچیوں کو ایک سے زیادہ خاوند کرنے پر مجبور نہ کرو اس سے بہتر یہ ہے کہ تم ایک سے زیادہ شادیاں کرلو۔اب کوئی جوڑ کوئی تک ہے۔ اصل میں تعصب سے عقل بالکل ماری جاتی ہے ، یہ اس کی ایک مثال ہے۔ پھر کہتا ہے:
And so subject not to any husband but to the guardian who doubtless could make some profit from this arrangement.
کچھ سمجھ نہیں آئی اس انگریزی کی۔ یہ میری سمجھ سے تواوپرہے یہ:-
In keeping them polyandrous and so subject not to any bushand but to guardian.
کہ اس کو گارڈین کیلئے رہنے دو صرف۔ غالباً یہی مراد ہوگی۔
Who doubtless could make some profit from this arrangement.
یعنی ان کے ساتھ تو پھر وہ فائدے اٹھائے گا ، مطلب یہ ہے کہ اور بدکاریاں کروائے گا۔یہی اشارہ اس سے معلوم ہوتا ہے۔
The passage is said to have been revealed after the death of many, male Muslims at the battle of Uhud.
جب میل(Male)مسلمز زیادہ فوت ہوگئے ، شہید ہوگئے تو پولی اینڈری کی پروموشن کی کیا بحث اٹھتی ہے۔ خود تسلیم کرلیا کہ صورتحال عورتوں کے زیادہ ہونے کہ ہے نہ کہ مردوں کے زیادہ ہونے کی۔ اس لئے وہ ایک حیرت انگیز تحریر ہے جس کی کسی معقول آدمی کو کچھ سمجھ نہیں آسکتی۔ لیکن نامعقول آدمیوں کی کمی بھی کوئی نہیں دنیا میں۔ پھر منٹگمری واٹ لکھتا ہے۔
Some modern Muslim argue that since no man can be impartial between several women this virtually describes monogamy.
اب یہ بھی جھوٹ ہے واضح۔ اتنا بڑا سکالر اس کو علم نہ ہو کہ پرانے کلاسیکلز سکالرز نے بعینہٖ یہی نتیجہ نکالا ہوا ہے، جو یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ پچھلے تمام جو مفسرین تھے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ اگر تم انصاف نہیں کرسکتے تو ایک کرو پھر۔ حالانکہ سب لکھ رہے ہیں اس لئے ساری پچھلی صدیاں چھوڑ کر جدید زمانہ میں آکر اپالوجیٹک قرار دے رہا ہے ان کو عملاً۔ کہتا ہے کہ ہاں اسی جدید زمانہ میں کچھ مسلمان ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ نتیجہ بھی اس آیت سے نکالتے ہیں کہ چونکہ انصاف کرنا اکثر لوگوں کے بس کی بات نہیں اس لیے عملاً یہی کہا جارہا ہے کہ تم چونکہ انصاف نہیں کرسکو گے اس لیے ایک ہی کرو۔ یہ جو طرزِ کلام ہے ان کی منٹگمری واٹ صاحب کی جس کے نتیجہ میں کثرت سے عرب شہزادے ان کے شاگرد بنا کر بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان سے آکر اسلام سیکھیں۔ اگر کثرت سے نہیں تو روایتاً بار ہا بھیجے گئے ہیں۔
اب ویری شروع ہوجائے۔ جگر تھامنا پڑے گا۔ اللہ رحم کرے۔ کیونکہ اس موقع پر اپنے جذبات کو قابو رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔سور النساء آیت چار ۔
And if ye fear that ye shall not act with equity, towards orphans of the female sex take in marriage of such other women as please you two or three or four and not more. But if ye fear that ye can not..... act equitably towards... so, many, ........... marry one only or the slaves which ........ ye shall have acquired. This will be easire that ........... ye swerve not from ......... righteousness.
ترجمہ ٹھیک ہے ترجمہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
(Note). it is the Muslims theory that woman can never in any time, place or circumstances, .............. be trusted.
اب دیکھو یہاں سے کیا تھیوری نکال رہا ہے۔ وہاں یہ کہہ رہاہے کہ عورتیں بیچاریاں اموال جن کے بے حفاظت ہیں سوسائٹی کے مردtrustworthyنہیںہیں۔ بعینہٖ یہی نتیجہ نکلتا ہے اس بات کا کہ عورتوں بیچاریوں کے ٹرسٹ کی تو بات ہی کوئی نہیں ہے۔یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم مردوں کی سوسائٹی میںرحجان ہے کہ عورتوں پر ظلم کرو گے جب تم ان کو بے حفاظت دیکھو گے۔ اس لئے تمہاری بددیانتی کے خوف سے یہ حکم دیا جارہا ہے کہ ان کی حفاظت کا انتظام کرو اور ان کے اموال پر بری نظر نہ رکھنا اور ان کی نگرانی سے مراد ان کے مفادات کی نگرانی ہے۔ اور یہاں اس نے ایک قصہ کش دیا ہے کہ نگرانی کو بدل کے کچھ اور معنی بنادیے ہیں۔
‏It's the Muslim theory. اور یہ اپنی تھیوری بھی مسلمانوں کے نام لگادی خوامخواہ۔
that women can never in any time, place, or circumstances be trusted. They must be watched veiled, suspected, secluded.
اب جہالت کی بھی حد ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو محصنات پر تہمت لگاتے ہیں ان کیلئے شدید عذاب ہے۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی کا ہے ان پر حکم۔ اور جو چار گواہ نہیں لاسکتے جو کہ بہت ہی ایک مشکل کام ہے ان کو اسّی کوڑے لگائے جائیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ عورتوں کی عصمت کی حفاظت کرتاہے کسی بدکار ، جھوٹے انسان کو جرأت ہی نہ ہو۔ کبھی ان پر الزام لگانے کی ۔ او ریہ اس نے نتیجے نکالے کہاں سے نکالے ہیں؟ اس آیت سے کہ یتیم بچیوں کے مال کی حفاظت کرنا نتیجے نکالے ہیں۔
women can never in any time, place, or circumstances be trusted. They must be watched veiled, suspected, secluded
ہر وقت ان کا خیال رکھنا۔ قرآن کریم کہتا ہے ولا تجسسوا۔ سوسائٹی میں کسی کو بھی جاسوسی کی نظر نہ سے دیکھو، کسی کی کمزوریاں تلاش نہ کرو کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ veiled۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پردہ ٹھیک ہے suspected۔۔۔ ہر وقت شک کرو ان کے اوپر کہ ضرور دال میں کچھ کالاکالا ہے۔ secludedاور سب سوسائٹی سے ان کو الگ رکھو۔
In these days when so much has been written about the high ethical tone of Islam we shall speak plainly on this subject unpleasant though it is.We would reitrate the position already taken that polygamy has not diminished licentiousness among the Muhammadans.
وہ کہتا ہے ہم پہلے بھی ا س موضوع پر بات کرچکے ہیں ۔ آجکل اسلام کو اخلاقی قدروں کے محافظ کے طور پر یا اخلاقی قدریں پیش کرنے والے کسٹوڈین کے طو رپر پیش کیا جارہا ہے، لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے جہاں تک پولیگمی کا تعلق ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا وہ مسلمانوں کے اندر جو دوسرے بے حیائی کے ارتکابات ہیں ان کو روکنے میں کامیاب نہیںہوسکی۔ پھر کہتا ہے۔
Nor........ have we any hasitation in saying that the law here recorded permitting as many as so lawful wives and any number of slave women besides, with whom even the form of a marriage is not in noway necessary to legalise......... cohabitation is respnsible in large measure for this state of things. It is one of the darkest of the many spots which marg passages of the Quran.
کہتا ہے ہم یہ بیان کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی اس میں تردّد محسوس نہیں کرتے یہ کہنے میںکہ چار تک شادیوں کی اجازت دینے سے اور لونڈیوں سے ازدواجی تعلقات کی اجازت دینے سے جن کیلئے کسی قسم کا کوئی قانونی سہارا ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے ، کوئی اور رسمی کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جو قرآن کریم کی تعلیم ہے اس کے نتیجے میںجو بے حیائی پھیلی ہے یہ قرآن کریم کے بہت سے passagesجو بہت سیاہ دکھائی دیتے ہیں ان میں یہ سیاہ ترین ہے۔ پھر وہ کہتا ہے۔
Or the slaves it is not even necessary that a muslim have even one lawful wife.
کہتا ہے یہ جو ایک شادی کا ذکر ہے یہ بھی ضمناً آگیا ہے۔مسلمان کو تو ایک کی بھی ضرورت نہیں ہے۔کیوں؟
Should he feel it difficult to be impartial ............ towards many . He many take his slave girls whom he may treat as he please and so avoid............... the responsibility of providing a dowry for even one wife.
کہتا ہے یہ طریقہ ایساہے جس کے ذریعہ سے وہ حق مہر ادا کرنے سے بالکل بچ جاتا ہے اور slave girl کو اختیار کرلے۔ اس لئے اس کو شادی کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے۔ سستا طریقہ یہ ہے۔ اب اس بیوقوف کو یہ پتا نہیںکہ ڈائوری جس کے متعلق یہ کہہ رہا ہے ایک بہت بڑا ٹیکس مسلمان پر پڑتا ہے ، وہ توآج تک بھی 32روپے ہی بیان کی جاتی ہے اور پرانے زمانہ میں حسب توفیق ایک کھجور دے کر بھی شادی کی جاسکتی تھی۔ اس لئے اس کو (Marriage Money)قرار دینا حد سے زیادہ حماقت ہے۔ وہ ایک رستہ رکھا گیا ہے جس میں ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق کچھ ذمہ داری ادا کرے اور عورت کو جو کچھ اس کا ہے اس میں سے کچھ ادا کرے۔ یہ جو احمدیہ جماعت میں جو اس سے مفہوم سمجھا جاتا ہے وہ تو منٹگمری واٹ کے علم میں نہیں ہے۔ اس لئے میں ایک فرق ظاہر کرکے پھر اس پرجرح کروں گا۔
منٹگمری واٹ کو یہ تو پتہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک اس میں حکمت یہ ہے کہ عورت جب وہ ایک دفعہ کسی کو بیاہی جائے ، پھر اس کو الگ ہونے کی صورت میں اپنا کچھ مالی تحفظ ملے اور یہ چونکہ ایک طبعی بات ہے کہ ایک عورت غیر شادی شدہ ہو تو ا س کی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ شادی شدہ ہوجائے ، طلاق ہو یا بیوہ ہو تو اس کی مانگ کم ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ احتمال ہے کہ چونکہ سوسائٹی میں اکثر کمانے کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے عورت کے الگ کمانے کے امکانات کم ہیں اس لیے کچھ اس کے پاس ذاتی رقم ہونی چاہیے اور اسی وجہ سے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہاں تک استنباط کیا کہ اگر ایک خاوند اپنے سال کی کل آمد حق مہر کے طور پر لکھواسکے تو یہ اولیٰ ہے۔ سب سے اچھا ہے ورنہ کم سے کم چھ مہینے ضرور کرے۔ سال کا استنباط اس لئے کیا کہ قرآن کریم نے ایک سال تک بیوی کو یا بیوہ کو گھر سے نکالنے کی اجازت نہیںدی، خود چلی جائے تو اور بات ہے۔ جس سے غالباً اس سے یاکسی اور چیز سے استنباط کرتے ہوئے اس حکم کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حق مہر کے ساتھ مذاق اڑانا اور معمولی حق مہر مقرر کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہماری جماعت میں اولیٰ یہی ہے کہ ایک شخص اپنی ایک سال کی کمائی کے برابر حق مہر مقرر کردے اور یا چھ مہینے۔ چھ مہینے غالباً اس لیے کہا کہ چھ مہینے کی کمائی میں اگر صرف عورت حقدار ہو تو اس کی ایک سال ہی کی توبن جائے گی کم از کم۔ اگر مرد ساتھ نہ ہو اس کمائی میں تو مرد جوکماتا ہے وہ دو کیلئے کم از کم پورا ترنا چاہیے جب عورت کو چھ مہینے کی آمد دیتا ہے تو وہ عورت کیلئے ایک سال کے لئے کافی ہونا چاہیے۔ تو یہ کم سے کم ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال۔
لیکن اس پر بھی بڑھا یا جاسکتا ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ……ایک سال مقرر کیا ہے۔ کم سے کم چھ اور اس کے استنباط کی وجوہات ہیں ۔ قرآن کریم اور سنت وغیرہ سے آپ نے یہ روح سمجھی ہے ڈائوری کی یعنی حق مہر کی کہ عورت کو مالی تحفظات ملیں۔ یہ باتیں منٹگمری کے علم میں تو نہیں ہیں۔ منٹگمری واٹ جو مانتا ہے ہے وہ جو ہمارے ہاں رسمی اسلام پایا جاتا ہے جو اکثر وسطی صدیوں میں پنپا ہے اور اس کے کسٹوڈین عموماً وہ جو کہتے ہیں ہم سوادِ اعظم کے نمائندہ مسلمان ہیں وہ لوگ ہیں۔۔۔ ان کی تعلیمات سے یہ خوب واقف ہے ان کی کتابیں اس نے خوب پڑھی ہوئی ہیں اور اچھا بھلا جانتا ہے کہ حق مہر کے متعلق اکثر علماء اس بات کے حق میں گئے ہیں کہ کچھ بھی مقرر کردیاجائے یہاں تک کہ کوئی ایسی چیز دے دی جائے جس کی قیمت آجکل کے ترجمہ میں 32روپے کے برابر ہو۔ یعنی 75p(پنس) کہتے ہیں آج ہوجائے اگر تو جائز ہے۔ آج تک یہی رسم و رواج چلا آرہا ہے، اس لئے کہتا ہے کہ وہ بچانے کی خاطر لونڈی کتنا آسان کام ہے۔ اور اس بیوقوف کو یہ نہیں پتا کہ لونڈی جو بازاروں میں پڑی ہوئی تو نہیں ملتی یا درختوں سے تو نہیں اگتی کہ جنگل کی چیز ہے جائواٹھا لائو وہاں سے۔ لونڈی کی قیمتیں بہت ہوا کرتی تھیں اور لونڈی کا اسلام کا جہاں تک تعلق ہے لونڈی کا پیدا ہوناخود ایک مشکل امر ہے۔ کیونکہ قرآن کریم آنحضرتﷺ کو واضح حکم دیتا ہے کہ جب تک ایسی جنگ نہ ہو جس میں خوب خون بہایا جائے اس وقت تک کسی آزاد کو تم غلام بنا ہی نہیںسکتے۔ اور آنحضرتﷺ نے واضح طور پر ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کے خلاف بڑی سختی سے تنبیہ فرمائی اور عذاب کی خبردی کہ اگر کوئی شخص کسی آزاد کو قید کرلیتا ہے، غلام بناتا ہے تو خدا کے نزدیک وہ مغضو ب ہوگا۔ اس تعلیم کے ہوتے ہوئے لونڈیاں آئیں گی کہاں سے۔ اور اگر باہر کی بنی ہوئی لونڈیاں خریدی جارہی ہیں جیسا کہ اس زمانہ میں رواج تھا تو پیسے دینے پڑتے ہیں اور وہ پیسے اس ڈائوری سے کہیں زیادہ بنتے ہیں۔
اس لیے اس کا سارا استنباط ہی احمقانہ ہے ۔ جب یہ تعصب میںآکر بات کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ اسلامی فقہ کیا کہتی ہے۔ اسلامی رواج کیا کہتا ہے۔ اس زمانہ کی تاریخ کیا منظر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ پس لونڈیاں تو امیروں کے نخرے تھے جو شاذ کے طو رپر سوسائٹی میں ملتے ہیں اور اکثر سوسائٹی غرباء پر مشتمل ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ غریب آدمی کو تو پھر شادی کی ضرورت ہی کوئی نہیں وہ اسی طرح گذارہ کرے لونڈیوں پر ۔ جیسے لونڈیوں کے بازار ہوتے ہوں اور وہ مفت میں وہاں ملتی ہوں۔ بالکل جاہلانہ تصور ہے اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو جنگیں ہوئیں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اس میں بہت تھوڑی تعداد میں عورتیں قیدی کے طور پر ہاتھ آئیں ہیں اور مسلمان سوسائٹی اس کے مقابل پر بہت زیادہ وسیع تعداد میں تھی اس لئے یہ جو سوال اٹھایا جارہا ہے اس کو تاریخی حقائق سے الگ کرکے اعداد و شمار پر غور کیے بغیر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ سورہ سورۃ النساء مسلّمہ ہے کہ تین سے لے کر پانچ تک اتری ہے اورسن ۵ھ تک ابھی جنگ احزاب بھی نہ ہوئی تھی، اُحد تھی اور بدر تھی۔ اب آپ بتائیے کہ اُحد اور بدر میں کتنی لونڈیاں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں تھیں۔ بدرمیں تو جو حملہ آور تھے وہ باہر سے آئے ہیں اور چند عورتیں جوگانا بجانے والی ساتھ تھیں یا پڑھنے والی جنگی نغمے و ہ بھاگ گئیں تھیں اسی طرح۔ اور جو احد کا حال ہے وہ آپ کے اوپر روشن ہے ایک بھی عورت کفار مکہ کی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں آئی۔
تو یہ سورۃ جو نازل ہی اِس دور میں ہوئی ہے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ منظر پیش کرتا ہے کہ کثرت سے لونڈیاںوہاں تھیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ غربت کا مسلمانوں کا یہ حال تھا اور عورتوں کی کمی کا یہ عالم تھا کہ مدینہ میں بعض اہل مدینہ نے مؤاخات کے وقت از خود یہ خواہش کی کہ چونکہ ہمارے مہاجر اپنی بیویاں، اپنی عورتیں بہت سی صورتوں میں چھوڑ کر آگئے ہیں اور ان کیلئے شادی کے امکانات کوئی نہیں ہیں ۔ ہم اپنی بعض بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں تاکہ ان سے یہ شادی کریں۔ یہ ہے مدینہ کی سوسائٹی کا منظر ۔ اور غربت کا یہ عالم کہ کئی سو آدمی تھے جو مسجد نبوی میں رہتے تھے تھڑوں کے اوپر۔ ان کی خوراک کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ رسول اللہﷺ کے گھر آگ نہیں جلتی تھی، کئی کئی دن مسلسل اور انتظار تھا کہ خدا کہیں سے کوئی تحفہ بھیج دے اور اس وقت پیٹ کی ضرورتیں پوری ہوں۔یہ منظر ہے۔ جنگ احزاب تک غربت کا یہ عالم تھا کہ فاقے سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور رسول اللہﷺ نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے اور یہ بدبخت لوگ اس طرح زبانیں دراز کرتے ہیں اور ان کیلئے کوئی عذر نہیں ہے کہ لاعلمی میں کیا گیا ہے۔ ان کے سامنے اس تاریخ کے سارے باب ایک ایک ورق روشن ہے۔جانتے ہیں کہ مسلمان کس حال میں زندگی بسر کررہے تھے تو اس وقت یہ طعن آمیزی کرتا ہے اور جان کر وہاں اُچھل کر اُس دور میں پہنچ جاتے ہیں جو آیات کے سینکڑوں سال بعد کا دور ہے۔ جب لونڈیاں اور غلام آنے شروع ہوئے ہیں۔ تو بعد میںجب یہ ایران سے جنگیں ہوئیں ہیں یا اور بہت سے ملکوںسے جب بعد میں لڑائیاں ہوئی ہیں اس وقت یہ سلسلہ زیادہ چلا ہے۔ او رجس وقت یہ آیت نازل ہورہی ہے یہ، تو کہتا ہے رسول اللہﷺ کا کلام تھا خدا کا تو تھا ہی نہیں۔ اگر رسول اللہﷺ کا کلام تھا تو آپ کو کس طرح پتا چل گیا تھا کہ بعد میںاتنی لونڈیاں آنے والی ہیں۔ اس لئے یہ سراسر جھوٹ ہے اور تعصب ہے اس کے سوا ان باتوں کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔ کہتا ہے کہ ایک بیوی کو بھی حق مہر نہیںدینا پڑے گا۔ چلوچھٹی ہوئی۔ پھر کہتاہے۔
Muhammad did not bind himself by this law (see chapter 32,49). Even the heaven of Islam is to witness the perpetuation of almost unlimited polygamy. (see chapter 4 and six perhaps one six).
اب کہتا ہے (جنت کو بھی نہیں چھوڑ رہا بیچارا)۔ کہتا ہے کہ دیکھو نہ ان کو چار بیویوں سے شادیوں کا شوق ایک سے زیادہ کا اتنا کا کہ جنت میں بھی پولیگمی کا منظر پیش کردیا ہے۔اب یہ سننے والا فقرہ ہے۔
No countries under heaven present such a cesspool of seething corruption and sensuality as those reuled over by the Muslims.
کہتا ہے آسمان کے پردے کے نیچے کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو بے حیائی اور بدکرداری کا وہ منظر پیش کرسکے، ایک طوفان دکھاسکے۔جیسا وہ ممالک دکھاتے ہیں جو مسلمانوں کے نیچے آئے ہیں۔جن پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے۔ یہ سیل ہے۔ سیل نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
For slaves requiring not so large a dower, nor so good and plentiful a maintenance as free women, a man might keep several of the former as easily as one of the latter.
اب یہ سارا تاریخی کے حقائق سے کلیتہً لاعلمی اور عربوں کی اس زمانہ کے اقتصادی حالت سے بالکل لاعلمی کے نتیجے میں یہ بات کرتے چلے جاتے ہیں۔ لاعلمی ان کی طرف منسوب کرنابڑا مشکل ہے۔ کیونکہ جہاں تک کتابوں کا تفھرس، قرآنی لٹریچر کے پڑھنے کا تعلق ہے، بہت سے مسلمان علماء سے زیادہ ان لوگوں نے محنتیں کیں ہیں اور گہرے مطالعے کیے ہیں ۔ ایک ایک کونہ کھدرا تلاش کیا ہے ، پرانے مفسرین کا تاکہ کہیں سے کوئی اعتراض نکل سکتا ہو تو نکال لائیں۔ اس لیے لاعلمی ان کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔
مرگولیتؔ جو عموماً مسلمانوں میں یا اسلام میں عیب کی تلاش میں رہتا ہے، کوئی ایسا دوست محقق نہیں ہے کہ جس کے متعلق کہا جائے کہ ایک دوست کا حوالہ پیش کیا جارہا ہے۔ منفی رحجان رکھتا ہے۔ اس موقع پر آکر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ’’ محمد کی بہت سے شادیاں جو خدیجہ کے بعد وقوع میں آئیں بیشتر یورپین مصنفین کی نظر میں نفسانی خواہشات پر مبنی قرار دی گئی ہیں۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اس جذبے پر مبنی نہیں تھیں۔محمدﷺ کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے تحت تھیں ، کیونکہ محمدﷺ یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعے سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوستہ کرلیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لڑکیوں کی شادیاں یقیناً اسی خیال کے تحت کی گئیں تھیں ۔ اسی طرح سر برا بردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمدﷺ کی شادیاں سیاسی اغراض کے تحت وقوع میں آئیں تھیں۔ باقی شادیاں اس نیت سے تھیں کہ تا آپ کو اولاد نرینہ حاصل ہوجاوے جس کی آپ کو بہت آرزو رہتی تھی‘‘۔ اب جہاں تک آنحضرتﷺ کی شادیوں کا تعلق ہے اس ضمن میں مَیں آپ کے سامنے چند حقائق رکھتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ مستشرقین کیسے ظالمانہ حملے کرتے ہیں اور اصل حقائق جن سے پردہ اٹھانا لازم ہے ان پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں۔ ایک شخص ، جیسا یہ پیش کرتے ہیں جو اپنی نفسانی خواہشات کا غلام ہوجائے ، جو اندھا دھند احکامات قرآنی کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے لئے زیادہ چاہے باقیوں کیلئے کم چاہے، ایسا شخص کس زمانے میں زیادہ سے زیادہ نفسانیت یا نفسانی خواہشات کا مغلوب ہوسکتا ہے ۔ چالیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان کے اعضاء ڈھلنے لگ جاتے ہیں ۔ چالیس سال کی عمر تک آنحضرت ﷺ کی ایک ہی بیوی ہے جو عمر میں پچیس سال یا پندرہ سال کتنی بڑی تھیں؟پندرہ سال۔ آپ پچیس کے تھے اور وہ چالیس کی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب شادی ہوئی ہے ، اور پچاس سال تک کی عمر تک یہی رہتا ہے یعنی پچاس سال کی عمر تک نعوذ باللہ من ذالک جو نفسانی جوش ان کو دکھائی دینے لگے ہیں ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اچانک کیسے وہ نفسانی جوش کودے اور کہاں سے پھوٹے؟ پچا س سال تک ایک عورت کے ساتھ رہے جو معمر تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی عمر جب پچاس برس تھی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پینسٹھ برس تھی۔ یہ ان کی نفسانیت کا تصور ہے اندازہ کرلیں۔ جہالت کی بھی تو حد ہونی چاہیے ، کوئی ان کے ہاں کوئی حد مقرر نہیں ہے اور جو بعد میں بیویاں ہوئیں ہیں کس عمر میں، وہ میں آپ کو بتا رہا ہوں ۔ پچاس سال کی عمر پہنچنے کے بعد جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوتی ہے تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پہلی شادی ہوئی ہے۔ پھر وہ بھی اس وقت دو نہیں تھیں ایک ہی تھی وہ اور اس وقت آنحضرت ﷺکی عمر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پچا س سال تھی۔ دوسری شادی جو مدینے میں ہوئی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کی عمر اس وقت بارہ سے لے کر سولہ سال تک بتائی جاتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی عمر پچپن برس تھی۔ پھر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی ہوئی ہے اور دوسری شادیاں جو بھی ہوئی ہیں پچپن سے ساٹھ سال کے عرصے میں ہوئی ہیں اور پچپن سے ساٹھ سال کے عرصے میں اچانک یہ غیر معمولی جوشِ جوانی کیسے کود سکتا ہے کسی کو۔ اس لئے لازماً ان کا الزام جھوٹا ہے ۔ ایک نفس کا غلام انسان پچاس برس تک ایک پر صبر کرکے بیٹھا رہے اور اچانک اس کا صبر ٹوٹ جائے جبکہ جوانی ڈھل چکی ہو یہ ناممکن ہے، عقل کے خلاف بات ہے۔ اور پھر شادیاں آنحضرت ﷺ جس وقت چاہتے جس کو پسند فرماتے، جس کا عشق تھا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسلمانوں کو، کوئی ایک بھی ایک لمحہ کیلئے بھی حقیقت میں تردّد محسوس نہ کرتا اور آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ بات بڑی واضح اور کھلی ہوئی ہے کہ آپ نے بیوہ عورتوں سے زیادہ شادیاں کیں ہیں اور غیر بیوہ سے بہت کم۔
اب یہ دیکھیں کہ اس میں حکمتیں اور بھی ہیں۔ بیوہ عورتوں سے شادی کرنے میں ضروری نہیں کہ یہ حکمت ہو کہ شادی ہو،بلکہ جہاد کے نتیجے میں جو بیوہ ہوئی ہیں زیادہ تر وہی ہیں جن کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے عقد فرمایا۔ جو باکرہ ہیں یعنی ایسی شادی جس میں عورت کا پہلے کبھی کوئی نکاح نہیں ہوا تھا ، نہ وہ مطلقہ تھیں، نہ وہ بیوہ تھی وہ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ اندازہ کرلیں کہ جو نفسانی خواہشات کا نعوذ باللہ من ذالک شکار بناکے رسول اللہ ﷺ کو دکھاتے ہیں ان کے متعلق یاد رکھیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی بیوہ تھیں، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی بیوہ تھیں، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہابھی بیوہ تھیں ، ایک اور زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں ایک زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت جحش ہیں۔ وہ زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مطلقہ ہیں ۔ ایک اس سے پہلے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہابھی جو بنت خزیمہ ہیں یہ بھی بیوہ تھیں، حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی بیوہ تھیں، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت جحش مطلقہ تھیں اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی بیوہ تھیں اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی بیوہ تھیں۔ اور ایک وہ جو آخری ہیں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ بھی ان کے متعلق ذکر نہیں آرہا۔ وہ کیوں نہیں آیا؟ ہیں لکھا ہوا ہے کہاں ہے وہ؟ حضرت صفیہؓ یہ بھی بیوہ ہی تھیں؟ اچھا اچھا! میرا خیال تھا کہ شاید بیوہ نہیں ہیں۔ تو ساری بیوائیں ہیں جن سے آنحضرت ﷺ نے شادی فرمائی ہے اور ایک حکمت نہیں مختلف حکمتیں ہیں اور اکثر قربانی ہے یہ اور بڑی بھاری قربانی ہے ۔ کیونکہ اتنی بیویوں کی ذمہ داریاں سنبھالنا اور پھر ان کے آپس کے جو تعلقات ہیں ان کو متوازن رکھنا اور با ر بار ان کے درمیان اختلافات کا ایک تکلیف دہ صورت بھی یا کئی دفعہ بار بار نہیں تو کئی دفعہ تکلیف دہ صورت اختیار کرکے آنحضرت ﷺ کے دل پربوجھ پڑنا۔ یہاں تک کہ اللہ کا آپ کو اجازت دینا کہ چاہو تو سب کو طلاق دے دو اور کھلا چھوڑ دو ، ان کے اوپر او ر جو نفس کا مریض ہے وہ کیسے سب کو طلاق دینے کی جرأت کرسکتا ہے۔ جبکہ عمر اس کی ساٹھ برس کی ہوگئی ہو اور پھر اتنی مشقتوں کا عادی ہو، جنگوں میں تکلیفیں، ویسے بھوک اورپیاس اور شدت کی آزمائشوں سے گذرا ہو وہ تصور ہی اور ہے ۔ یہ کھاؤ پیو لوگ ، بدمعاش، آوارہ، شرابی یہ سو چ بھی نہیں سکتے کہ آنحضرت ﷺ کا مزاج تھا کیا؟ اور کن چیزوں سے آپ کے مزاج کا خمیر اٹھا ہے؟ پس اس پہلو سے ہم ان کو مجبور سمجھتے ہیں ان کی عادتیں ہیں۔ عیش و عشرت کی یہ بیچارے یہا ں بیٹھ کے اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ اس طرح ہو اہوگا اور اس طرح وہ رسول نعوذ باللہ من ذالک جس کاعنوان لگادیا ’’رنگیلا رسول‘‘ یہ تصورہے رنگیلے رسول کا۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض حوالے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔فرماتے ہیں:۔
’’اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعددازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو رد کردیا ہے‘‘۔ اور یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اٹھایا ہے اس سے پہلے میں کئی دفعہ یہ بات پیش کرچکا ہوں کہ کم کیاہے مگر کبھی یہ خیال نہیں گذرا تھا کہ الٰہی کتب میں ایک قرآن ہی ہے جس نے کم کیا ہے اور کسی کتاب نے کم نہیں کیا اور پابندی لگادی۔ فرمایا: ’’اس نے ازدواج کی بے حد ی اور بے قیدی کو ردّ کردیا ہے ۔ اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی‘‘۔اب میں یہاں آپ کے سامنے ایک اہم بات رکھنا چاہتا ہوں ، کوئی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو ایک ہی شادی کی بات کی ہے اور آپ کے ارشادات میں کہیں د وشادیوں کا ذکر نہیں ملتا۔ یہ درست ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ارشادات میں دو شادیوں کا ذکر نہیں ملتا لیکن انجیل کا تحدید کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ جس سے وہ استنباط کرتے ہیں وہ آیت خود حضرت مسیح علیہ السلام کے اس آیت سے ٹکراتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میں کتاب کو یعنی تورات کا ایک شوشہ بھی منسوخ کرنے نہیں آیا۔ پس دونوں آیتوں میں سے ایک کو سنبھالیں گے اور دوسری کو نکالنا پڑے گا اور یہ آیت جو میں بیان کررہا ہوں یہ اتنی مسلمہ اور قطعی ہے کہ اس کے اوپر شرو ع سے لے کر آج تک عیسائی مصنفین لکھتے ہیں اور اس کو بڑے فخر سے پیش بھی کرتے ہیں اوراس کی تاویلیں بھی کرتے ہیں ، مگر ردّ نہیں کرتے۔ تاویلیں یہ کرتے ہیں کہ مراد یہ نہیںتھی کہ آپ تبدیل نہیں کرسکتے بلکہ مراد یہ تھی کہ آپ نے مکمل کیا ہے، اُس کو زیاد ہ خوبصورت بناکے دکھایا ہے۔ یہ تاویل مان بھی لی جائیں تو اس آیت کی رو سے پرانی کسی تعلیم کو ردّ کرکے اس کو کاٹنے کی اجازت پھر بھی نہیں نکلتی۔ پس یہ آیت زیر بحث رہی ہے اور اس آیت کو الحاقی قرار نہیں دیا گیا، تسلیم کرکے اس کی تشریحات پیش کی جاتی ہیں۔ پس ایک قطعی نتیجہ اس آیت کا یہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کبھی اپنا یہ اختیار بیان نہیںکیا کہ بائبل کی تعلیمات کی تحدیدکریں۔ تکمیل کرنے میں اضافے تو ممکن ہیں perfectکا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن کمی کرنے کی کوئی اجازت نہیں ملتی۔ پس جہاںجہاں بھی حضرت مسیح علیہ السلام نے معین طو رپر بائبل کی تعلیمات کا حوالہ دے کر اس کے خلاف کوئی تعلیم نہیں دی وہاں ویسے بھی ہمیں کوئی حق نہیں بنتا کہ کسی اشارۃً ذکر سے کوئی استنباط کریں، مگر اس آیت کی رو سے آپ نے کبھی کسی پرانی تورات کی تعلیم کو ردّ نہیں کیا ، کاٹا نہیں، محدود نہیں کیا۔ اگر کچھ کیا ہے تو perfectionکی طرف گئے ہیں۔ مثلاًحضرت مسیح علیہ السلام نے انتقام والی تعلیم کو ردّ کیے بغیر جو عفو والا حصہ تھا اس کو اٹھایا اور اس کواور زیادہ اچھال کر اور کھول کر دنیا کے سامنے پیش کیا اور گویا اسی کے ہورہے ، مگر وہ حصہ ہے جس میں perfectionنہیں ہوئی تھی۔یوں کہنا چاہیے کہ یہودی تعلیم میں ایک شگوفہ تھا جو خوب کھلا اور خوب اس نے پتیاںنکالیں، یہاں تک کہ وہ اپنی عمر کو پورا کرگیا، یہ تھا انتقام والا۔ ایک شگوفہ تھا اگر بخشو تو یہ بھی ہوسکتا ہے یہ نامکمل رہا تھااُس شگوفے پر حضرت مسیح علیہ السلام نے کام کیا اُس کو کھولا اس نے پھر خوب اپنی پتیاں نکالیں ،خوشبو دی یہاں تک کہ وہ بھی بالآخر مرجھا گیا ، تب اسلام آیا ہے جس نے دونوں پہلوئوں کو بروقت برقرار رکھا ۔ تو perfectionکا معنی اگر کچھ کیا جاسکتا ہے تو یہ کیا جاسکتا ہے ، یہ ہرگز نہیں کیا جاسکتا کہ پہلی تعلیمات کو ردّ کرکے پھینک دیا گیا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے‘‘۔ میں نے اس لئے یہ وضاحت کی ہے کہ کوئی شخص اپنی لا علمی میں یہ نہ کہہ بیٹھے کہ انجیل میں بھی ایک ہی شادی کی تعلیم ہے کیونکہ انجیل ایک شادی کی تعلیم کی مجاز ہی نہیں تھی۔ جب تک پچھلے تمام انبیاء اور پچھلی تمام تعلیمات کو واضح طور پر ردّ نہ کرتی۔ ’’اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس۔۔۔‘‘ ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سو سو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرامکاری میں مبتلاء رہے۔ کیا کہہ رہے ہو اپنی کتابیں تو اٹھا کر دیکھو اور کیاان کی اولاد جن میں سے بعض راستباز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے؟‘‘۔ کیونکہ یہ لوگ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا جس کی اسلام نے اجازت دی ہے دراصل یہ زنا کاری کی تعلیم تھی، اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ان کے ملکوں میں یہ قوانین بھی ہیں کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی نہیں جاسکتی ۔ لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ حرامکاری جتنی مرضی کرلو ۔ اس پہ قانون تمہیں کوئی نہیں پکڑے گا۔ لیکن اگر ایک سے زیادہ کرو تو پھر تم مارکھانے کیلئے تیار ہوجائو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-الحکم جلد۷ نمبر۸ ، ۲۸؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵:(باقیوں کے حوالے اگر نہیں بھی دیئے تو جب تحریر میں آئے گا۔ اس وقت آجائیں گے زبانی ضروری نہیں ہے کہ ساتھ ساتھ دئے جائیں)
’’چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے اور کہاں حکم دیا ہے ایک شرط قائم کی ، حالات بیان کئے اور پھر اجازت دی چار تک کی۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنالے۔ قرآن کا منشاء تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چار تک اجازت دے دی ہے‘‘۔
اور یہاں میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ طرز بیان سے لوگ بعض دفعہ یہ استنباط کرلیتے ہیں، بعض لوگ اور خاص طور پربعض عورتیں یہ استنباط کرتی ہیں کہ یتامی کی جو شرط ہے جب وہ شرط موجود نہ رہے تو اجازت بھی کالعدم ہوگئی۔ حالانکہ یہ اس آیت کے طرز بیان کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں یہ بات پیدا ہوئی ہے۔ ایک ضرورت کے وقت ایک اجازت کی طرف توجہ دلائی ہے جو پہلے سے رائج تھی اور وہ اجازت تھی ایک سے زیادہ شادی کرنا۔ تو قرآن کا طرز بیان یہ ہے کہ اگر تم ناانصافی کا خوف رکھتے ہو، یتامی سے ناانصافی کروگے تو پھر پہلے ہی سے اجازت موجود ہے، اب نہیں دی جارہی ہے۔ تو پھر یہ فرق پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر اب اجازت دی گئی تھی تو اس سے پہلے مسلمان سوسائٹی میں صرف ایک بیوی ہونی چاہیے تھی جو قطعاً غلط ہے۔ تو ایک مسلمہ، تسلیم شدہ رواج کی بات کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس کیلئے تمہارے پاس حل موجود ہے ایک سے تم اور عورتوں سے شادی کرو، مگر اب ہم پابندی لگاتے ہیں کہ اجازت نہیں ہے ۔ دراصل اجازت کے ساتھ ہی پابندی مقصود ہے۔ پابندی یہ لگاتے ہیں کہ آج کے بعد دو ، تین، چار سے آگے نہیں بڑھنا۔ یہ آخری حد ہے جس کی تمہیں اجازت دی جاسکتی ہے۔’’ایسے لوگ جو ایک اعتراض تو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر خود اسلام کا دعویٰ بھی کرتے ہیں میں نہیںجانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ سکتا ہے‘‘۔ آگے سے بات واضح ہوجائے بعض لوگوںکے مؤقف کے متعلق جو مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اس آیت کا غلط ترجمہ کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعویٰ بھی کرتے ہیں میں نہیںجانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے ۔ وہ تو اسلام کے معترض ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ بھلا اگرکسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جذام ہوگیا ہے۔۔۔‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان ہوتے ہوئے ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ لاعلمی میں جہالت میں ایسی بات کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ قانون کے کیا تقاضے ہوتے ہیں اور قرآن کریم نے کس حکمت کے ساتھ ان تقاضوں کو پورا فرمایا ہے۔ پس یہاں محض یتیم کی شرط کو آپ نے پیش نہیں فرمایا۔فرماتے ہیں:۔
’’ایک مقنّن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ بھلا اگر کسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جذام ہوگیا ہے یا آتشک میں مبتلاء ہے یا اندھی ہوگئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولاد اسے حاصل ہوسکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلاء ہوجائے تو اس حالت میں اب اس خاوند کر کیا کرنا چاہیے ،کیا اس بیوی پر قناعت کرے؟ ایسی مشکلات کے وقت وہ کیا تدبیر پیش کرتے ہیں یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بدمعاشی وغیرہ میں مبتلاء ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اس کو اپنی بیوی کا خطاب دے رکھے۔ خدا جانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہوجاتے ہیں، یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریات کو ہی پورا نہیں کرسکتا۔ اب ان مذکورہ حالتوں میںعیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے۔ قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنادیاہو۔ اب تو انگلستان میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے ۔ ابھی ایک لارڈکی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کرلی ، آخر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میںجارہا ہے۔ غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرلے۔ جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کوقرآن شریف سی اتم اکمل کتاب بھیجی گئی ہے‘‘۔
اب یہ جو حصہ ہے اس کے متعلق ایک مغالطہ دورہونا ضروری ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی ہیں ان میںایک بیوی تک کا جوا ز تو سمجھ آگیا مگر دو بیویوں کا جواز کہاں سے نکل آیا اور تین کا اورچارکا۔ اس لئے ایک کے بعد دوسری کسی کی اجازت دے کے معاملہ کو وہاں ختم کردیا جاتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں جو استثنائی صورتحال پیش فرمائی ہے ان کا تقاضا بعض دفعہ ایک بعض دفعہ دو تک بھی جاسکتا ہے ۔ مگرقرآن کریم نے اس سورۃ کو ، اس آیت کو جس محل میں رکھا ہے وہ واضح طور پر ایک جنگ کے بعد کے اثرات سے متاثر سوسائٹی کامنظر ہے ایک ایسا منظر کھینچا ہے جس سے پہلے کوئی ایسی جنگ گزری ہے یا ایسے حالات پید ا ہوئے ہیں کہ مردوں کی تعداد کم رہ گئی اور عورتوں کی تعداد بڑھ گئی اور یتامی پیدا ہوگئیںاور بیوائیںبھی پیدا ہوگئیں، ایسی صورت میں کیا ایک ہی شادی کی اجازت کافی ہوسکتی تھی۔ ایک مزید شادی کی اجازت کافی ہو سکتی تھی جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ہر شخص کی اقتصادی استطاعت ہی میں نہیں ہوتا۔ محض اجازت کی بحث نہیں ہوا کرتی۔ استطاعت کا جو مضمون ہے وہ آخر پر بیان ہوگیا ہے اگر تم میں استطاعت نہیں اس کی وجہ سے ناانصافی کرنے پر مجبو ر ہو یا ویسے تمہارا مزاج ایسا ہے کہ ناانصافی کرو تو ایک ہی کی اجازت ہے۔ تو اس آیت نے ہر امکانی پہلو کو پیش نظر رکھا ہواہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ان مسلمان معترضین کا جوا ب دے رہے ہیں جو کہتے ہیں بالکل کوئی ضرورت ہی نہیں ، ان پر ثابت کررہے ہیں کہ انفرادی طور پر تو تمہارے سامنے یہ ضرورتیں آتی رہتی ہیں جہاں تک قومی ضرورت کا تعلق ہے اس آیت کا واضح اور اوّل تعلق قومی ضرورت سے ہے اور قومی ضرورت کے نتیجے میں بسا اوقات ایک سوسائٹی میںعورتوں کی تعداد اتنی بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک اور چار کی نسبت بھی ہوجاتی ہے اور ایک اور دو اور تین کی نسبت تو عام دیکھی جاتی ہے۔ جنگ عظیم ثانی میں یورپ میںہی جس کثرت سے مرد قتل ہوئے ہیں اور مارے گئے ہیں جنگ میں جن میں اس نے توازن اتنا بگاڑ دیا تھا کہ کثرت سے عورتیں سوسائٹی میںملتی تھیں ، جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا، کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ پس اس صورت میں یتامی کی دیکھ بھال کا مضمون ایک اور معنے بھی رکھتا ہے ۔ اگر تم یتامی کے متعلق یہ محسوس کر وکہ ان کا کوئی والی وارث نہیں ، کوئی ان کا دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے، ان کے حقوق ادا نہیں کررہے وہ گلیوں میں آوارہ بن کر سوسائٹی کو بھی نقصان پہنچائیں گے ، اپنا مستقبل بھی تباہ کریں گے۔ ایسی صورت میںیہ ضروری حل ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاںکر واور جو طَابَ ہیں عورتوں میںسے تمہارے لیے، جو تمہیں راس آئیں، جو تمہیں خوش آئیں ان عورتوں سے شادی کرو تاکہ معاشرے کی مشکل حل ہو۔ یہ تفصیل اس وقت ہوسکتا ہے لوگوں کی نظروں کے سامنے نہ ابھری ہو کیونکہ اس وقت کی مقامی ضرورت جو تھی اس کے حوالے سے تمام مفسرین اور محدثین بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ایسی بڑی ضرورت دکھائی نہیںدی جس کو یہ آیت اپنے پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن چونکہ قرآن کریم ایک عالمی کتاب ہے ، چونکہ قرآن کریم کا اطلاق ہر زمانے پر ہوتا ہے اس لئے تمام زمانے کی عالمی ضرورتوں کوپیش نظر رکھتا ہے ۔
پس یہ آیت اس سے بہت زیادہ وسیع ہے جتنا اس وقت کے حالات پر نظر رکھنے سے دکھائی دیتی ہے۔ وہ وقتی حالات تھے مگر ان کے حوالے سے بات وہ کہہ دی گئی جو وسیع اثر ہے اور بہت پھیلنے والی ہے اور تمام دنیا کی قومی کی ضرورتوں پر نگاہ رکھنے والی ہے۔ پس جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم ثانی میںجو عورتوں کا بڑھنا ہے اور اس حکم کا فقدان کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتے ہو ، اس نے مغربی معاشرے کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ ایسا خطرناک ہے کہ آج تک پھر اس کا کوئی ازالہ نہیں کیا جاسکا۔ اس ضمن میں کچھ حوالے ہیں یہ میں آپ کو بعدمیں پڑھ کر سنائوں گا ۔ یہ باتیں جب میری سوال و جواب کی مجالس میں اٹھائی جاتی ہیں اور شاذ ہی ایسا ہوا کہ نہ اٹھائی گئی ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف عورتوں کو بدظن کرنے کیلئے ان کے پاس غیر مسلموں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے اور عورتوں ہی سے سوال کرواتے ہیں اور جب میں یہ جواب دیتاہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چونکہ یہا ں اب انصاف کا معیار بلند ہوگیا ہے ان کے محققین میں انصاف کا معیار ہو یا نہ ہو لیکن یہ غلط ہے کہنا، میری مراد یہ تھی کہ اسلام دشمن محققین، اسلام کا معیار بلند ہو یا نہ ہو مگر بالعموم ان کے محققین میں بھی اور عامتہ الناس میں انصاف کا معیا رپہلے سے بہت بلند ہوچکا ہے، کیونکہ سیکولر ازم نے اورکچھ خرابیاں توپیدا کیں مگر ساتھ یہ بات بخوبی بھی دے دی کہ مذہبی تاثرات سے بالا ہوکر انصاف کے دائرہ میں رہو اور معقول بات قبول کرو۔ آپ اگر ویڈیو دیکھیں تو آ پ حیران ہوں گے اگر اس وقت اس سوال کرنے والی پرکیمرے کا فوکس ہے تو جب میں یہ باتیںسمجھاتا ہوں تو سب ہاںہاں جواب میں nodکرتی ہیں جو اعتراض کرنے والی تھیں اور ان کے چہرے کے آثار بدل جاتے ہیں۔ لیکن ایک سوال کئی دفعہ اٹھایا جاتا ہے اور وہ کسی تعصب کی وجہ سے نہیں یو ں ہی ایک عجیب سا خیال دماغ میں اٹھتا ہے وہ کہتے ہیں اچھا اگر مرد کو اجازت دی جاسکتی ہے تو فرض کریں ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ بعض جگہ عورتیں زیادہ ہونے کی بجائے مرد زیادہ ہوں اوریہ امکانات بھی تو ہیں ، توکیوں نہیں بیک وقت ایک سے زیادہ مردوںسے شادی کی اجازت نہیں ملتی۔ میں نے کہا جب تم ایک دفعہ قانون بنادو تو پھر کسی ایک شخص کو کسی جگہ پابند نہیں کرسکتے اور دونوںبیک وقت اگر رائج ہوجائیں تو سوسائٹی میں کیا خاندان کا نقشہ ابھرے گا وہ میں آپ کے سامنے کھول کر دکھا دیتا ہوں۔
ایک شخص ہے وہ چار شادیاں کرتاہے اس کی بیویاں بھی اس کی مزاج کی ہیں اور کہتی ہیں اجازت ہے تو کیوں نہ؟ ان میں سے ہر بیوی تین تین اور مرد کرلیتی ہے اور ہر مرد جس کے ساتھ ا س شادی شدہ بیوی نے شادی کی ہے وہ کہے گا میں کیوں نہ اور کروں ، وہ تین تین اور کرلیتا ہے اور وہ جو تین تین اورہین ان کا بھی تو حق ہے وہ تین تین اور مرد کرلیں تو خاندان کا کیا تصور رہے گا۔ کتنے بڑے شہر یا کتنے بڑے ملک پر یہ خاندان پھیلا ہوگا۔ لیکن ان کو میں بتاتا ہوں کہ اس کے علاوہ بھی ایک مشکل ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ہر بچے کے متعلق ہم یقینا کہہ سکتے کہ یہ فلاں مرد کا بچہ ہے اور قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے، ذمہ داریاں ڈالنے کیلئے اس پر بوجھ ڈالا جائے گا۔ مگر ایسی سوسائٹی میںجہاں تین تین چار چار خاوند دوسرے بھی ہوں وہاں بچہ کس کا ہوگا اور کون ذمہ داریاں قبول کرے گا اور کیا سارے اکٹھے طلاق دیا کریں گے یا ایک طلاق دے گا تو پھر اس کے نتیجہ میں کیا مسائل پیدا ہوں گے ۔ ورثے کے کیا مسائل پیدا ہوں گے ۔ تو یہ جب الجھن ان کو دکھائی جاتی ہے تو فوراً وہ توبہ توبہ کرتی ہیں کہ نہیں ۔ سوائے ایک صاحب کے ایک دفعہ وہ اٹھے تھے اور مجھے بھی بڑا تعجب ہوا کہ حد کردی انہوں نے۔ ہم نے سنا تھا کہ سکھوں میں ایک سے زیادہ خاوندوں کا رواج ہے لیکن ہم نے کبھی اس کو کھولا نہیں۔ ایک سردار صاحب اٹھ کھڑے ہوئے بحث کرنے جرمنی میں اور بڑے زور اور تحدی سے کہا آپ نے تو بالکل غلط بات کی ہے ہمارا تجربہ ہے کہ ایک سے زیادہ خاوند ہوتے ہیں اور کوئی فرق نہیںپڑتا۔ ان کو میں نے سمجھایا۔ میں نے کہا بہت سے معزز، شریف سکھ ایسے ہیں جو آپ کی بات کو پسند نہیں کریں گے ، آپ ان کی دل آزاریں نہ کریں۔ کہتے نہیںنہیں یہ کس طرح ہوسکتا ہے میں کیوں نہ کرو۔ مجھے پتا ہے ہمارے ہاں اگر بارہ لڑکے بھی ہوں تو پہلی بہو جو آتی ہے وہ سب کی ہوتی ہے۔ دوسری بھی سب کی ہوتی ہے، تیسری بھی سب کی ہوتی ہے، اتنا اعلیٰ نظام ہے اور آپ اس پر اعتراض کررہے ہیں۔ آپ اعتراض کرتے ہیں تو میں جواب کیوں نہ دوں۔ وہاں بعض بیچارے جو سکھ تھے وہ تو شرم سے پانی پانی ہورہے تھے کر کیا رہا ہے یہ حرکتیں، مگر باز نہیں آرہے تھے ، تلے ہوئے تھے اس بات پر کہ ایک سے زیادہ مردوں سے شادی کے نظام کو وہ درست بتائیں اوراس کے حق میں، اس کے جواز میں دلیلیںپیش کریں۔ مگر امر واقعہ ہے کہ یہ بات عام طور پر سکھ سوسائٹی کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے اور ان پر عمومی فتویٰ دینا بالکل ناجائز ہے کیونکہ ان کے مذہب نے کہیں یہ نہیں لکھا اس لئے سکھ تعلیم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر کہیں کوئی رواج ہوا ہے تو بعض علاقوں میں جہالت کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن اس کے نتیجہ میں نہ آپ سکھ ازم پر حملہ کرنے کے مجاز ہیں نہ یہ کہنے کے کہ عموماً یہی چیز پائی جاتی ہے۔ پس ایک سے زیادہ مرد اور ایک سے زیادہ عورتوں کی شادیوں کا بیک وقت کوئی امکان نہیں ہے عقلی، یہ ہو ہی نہیں سکتا اور اس کے نتیجے میں بہت سے نقصانات پہنچیں گے۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
’’عرب صدہا بیویوں تک نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی انصاف کا برابری کا سلوک کیا جائے۔ ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے ۔ اسلام نے آکر عورتوں کو طرح طرح کے مظالم سے نجات بخشی ہے، طرح طرح کے رواجوں کی مصیبت سے آزاد کیا ہے۔ یہ اسلام کا احسان ہے جس کو یہ لوگ بھول جاتے ہیں‘‘۔
فرمایا:-’’قرآن کریم نے ان صدہا نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچادیا ۔ پس ایک کو زیادہ نہیں کیا زیادہ کو کم کیاہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھر ایک ہی رکھو۔ پس اگر کوئی قرآن کے زمانے پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدایوں سے عورتوں کے ساتھ برتائو ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیاکہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کردیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضے سے جس میں مباشرت ناممکن ہو جیسی بعض صورتوں میں ہوجاتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاںرہتی ہیں اور یہ بھی کہ بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے‘‘۔
بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے خصوصاًوہ عورتیں جن کے نکاح دیر میں کئے جائیں ان میں چھوٹی عمر کے نکاح والی عورتوں کے مقابل پر بڑھاپا بہت جلد آجاتا ہے۔ ہاں فرمایا:-
’’یہ سب فطرتاً دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے یا کسی بیوی کے جلدجلد حمل دار ہونے کے باعث وہ بہت جلد اپنی جوانی اور طاقتیں کھو بیٹھتی ہے جبکہ مرد ابھی جوان ہے اور پوری طرح اس کے قویٰ مجتمع ہیں اور ضرورتمند ہے ۔ ایسی صورت میںفطرتاً دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اسی لئے اس قدر تعدد کیلئے جو جواز کا حکم دے دیا ہے اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگادی‘‘۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو عمومی رحجان ظاہر ہوا ہے اس آیت کے تعلق میں وہ یہ ہے کہ اکثر باقی رہنے والی ضرورتیں انفرادی نوعیت کی ہیں ان پر اس آیت کا اطلاق ہوگا اورجہاں ضرورت پہنچ گئی وہاں بات ختم ہوجانی چاہیے ۔ لیکن اگر کوئی شخص زیادہ بڑھنا چاہے تو پھر یہ شرط اس کے سامنے آکھڑی ہوگی کہ دیکھو اعتدال سے کام لینا ہے۔ اگر تم سب کے حقوق ادا نہیں کرسکتے اور اعتدال کو قائم نہیں رکھ سکتے تو پھر ایک یا دوسے زائد کی اجازت نہیں ہے۔ یہ جو ضرورتیں ہیں اس کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انفرادی صورتوں میں بیان نہیں فرمائی کیونکہ مختلف مردوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں ، ان کی ذمہ داریاں مختلف ہوتی ہیں اور تقاضے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہر مرد ایک ہی قسم کا نہیں جس طرح سائنس میں ویلنسیز ہوتی ہیں بعض کیمیائی مادے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بعض دو سے، بعض تین سے اور بعض چار سے یہاں بات ختم۔ تو اسی طرح مردوں میں بھی خداتعالیٰ نے مختلف مزاج کے لوگ پیدا کیے ہیں اور ان کی صلاحیتوںکو اس طرح کم اور زیادہ بنایا ہے ۔ چونکہ یہ بحث بہت زیادہ تفصیل سے جاتی اور بہت سی باتیں ایسی بیان کرنا پڑتیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام احتراز فرمارہے ہیں اس لئے اشارہ کرکے بات چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لئے یہ نتیجہ بہر حال نہیں نکلتا کہ آپ کہتے ہیں کہ ایک پوری کرو ضرورت تو بات وہیں ختم ہوگئی۔ مراد ہے ایک ضرورت پوری کرنے کا امکان ہے زائد تم جانتے ہو مگر یہ یاد رکھنا کہ انصاف شرط ہے۔ انصاف کی شرط قائم رہے تو پھر چار تک پہنچو ورنہ تمہیں ایک ہی پر قرار پکڑناپڑے گا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :- ’’ شریعت حقہ نے اس ضرورت کے واسطے جائز رکھا ہے۔ ایک لائق آدمی کی بیوی اگر اس قسم کی ہے کہ اس سے اولاد نہیں ہوسکتی‘‘۔ (یہ وہی باتیں ہیں)۔ آگے فرماتے ہیں :-
’’پادری لوگ دوسری شادی کو زناکاری قرار دیتے ہیں تو پھر پہلے انبیاء کی نسبت کیا کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی کہتے ہیں کئی سو بیویاں تھیں اور ایسا ہی حضرت دائود علیہ السلام کی تھیں، نیت صحیح ہو اور تقویٰ کی خاطرہو تو دس بیس بیویاں بھی گناہ نہیں۔ اگر نعوذباللہ عیسائیوں کے قول کے مطابق ایک سے زیازہ نکاح سب زنا ہیں تو حضرت دائود علیہ السلام کی اولاد سے ہی ان کا خدا بھی پیدا ہوا ہے تب تو یہ نسخہ اچھا ہے اور بڑی برکت والا طریق ہے کہ گناہ سے خدا پیدا ہوتاہے‘‘۔
یہ لطیف نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیسے انداز سے پیش کردیا ہے کہ اگر پادری ٹھیک کہتے ہیں ’’ توحضرت دائود علیہ السلام کی اولاد سے ہی ان کا خدا بھی پیدا ہوا ہے تب تو یہ نسخہ اچھا ہے اور بڑی برکت والا طریق ہے ۔ پادری لوگ نکمی باتوں کی طرف جاتے ہیں اور اصل امر کو نہیں دیکھتے۔ انجیل میں لکھا ہے جس کے اندر رائی کے برابر ایمان ہے وہ پہاڑ کو کہے کہ یہاں سے اٹھ کر وہاں چلا جا تو وہ چلا جائے گا ۔ عیسائیوں کو چاہیے کہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں ورنہ سب بے ایمان ہیں‘‘۔آگے فرماتے ہیں: ۔ ’’یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوں کے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک ہی وقت میں رکھی ہیں وہ دو یا تین بیویوں کاجمع کرناایک کبیر گناہ سمجھتے ہیں بلکہ اس فعل کو زنا اور حرامکاری خیال کرتے ہیں‘‘۔ پھر فرماتے ہیں:-
’’ جو اپنے مسلم النبوت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کرکے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں‘‘۔ پیسے جاتے کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ جیسے مجہول میں بات ہو ادھر جیسے کھایا جاتا ہے یہ اردو میں محاورہ پیستے جاتے کا متبادل طرز بیان ہے پیسے جاتے ہیں یعنی بند ہی نہیں کرتے بار بار جوش اٹھتا ہے تو پھر وہ دانت پیستے ہیں۔ ’’ناحق دانت پیسے جاتے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑ اپنی ماں کی جہت سے ہے وہی کثرت ازدواج ہے جس کی حضرت دائود مسیح کے باپ نے نہ دو نہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کو زنا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں‘‘۔ (یعنی یہ بات ماننے کے باوجود ) ’’اس پر خُبْثِ کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم سے نکاح کی طرف عائد ہوتا ہے اس سے ذرا پرہیز نہیں کرتے اور باوجود اس تمام بے ادبی کے دعویٰ محبت مسیح رکھتے ہیں‘‘۔فرمایا حضرت مسیح کی بے ادبی کرتے ہیں اور پھر بھی دعویٰ ساتھ محبت کا کیے جاتے ہیں۔ ’’ جاننا چاہیے کہ بائبل کی رُو سے تعدد نکاح نہ صرف قولاً ثابت ہے بلکہ بنی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح کے دادا صاحب بھی شامل ہیں عملاً اس فعل کے جوازبلکہ استحباب پر مہر لگادی ہے۔ اے نا خدا ترس عیسائیو! اگر ملہم کیلئے ایک ہی جورو ہونا ضروری ہے تو پھر کیا تم دائود جیسے راستباز نبی کو نبی اللہ نہیں مانو گے یا سلیمان جیسے مقبول الٰہی کو ملہم ہونے سے خارج کردو گے ۔ کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل ان انبیاء کا جن کے دلوں پر گویا ہردم الہام الٰہی کی تار لگی ہوئی تھی اور ہر آن خوشنودی یا نا خوشنودی کی تفصیل کے بارے میں احکام وارد ہورہے تھے ، ایک دائمی گناہ نہیں ہے جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا او راس کے حکموں کی کچھ پرواہ نہ کی۔ وہ غیر مند اور نہایت درجہ کا غیور خدا جس نے نافرمانی کی وجہ سے ثمود اور عاد کو ہلاک کیا، لوط کی قوم پر پتھر برسائے، فرعون کومع تمام شدید جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کردیا۔کیا اس کی شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس نے ابراہیم او ریعقوب او رموسیٰ اور دائود اور سلیمان اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نافرمان پاکر اور پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیابلکہ انہی سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی ۔ کیا آپ کے خدا کو الہام اتارنے کیلئے کوئی اور آدمی نہیں ملتا تھا یا بہت سے جوروان کرنے والے ہی اس کو پسند آگئے ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نبیوں اور تمام برگزیدوں نے بہت سی جوروان کرکے اور پھر روحانی طاقتوں اور قبولیتوں میں سب سے سبقت لے جاکر تمام دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ دوست الٰہی بننے کیلئے یہ راہ نہیں کہ انسان دنیا میں مخنثوں اور نامردوں کی طرف رہے بلکہ ایمان میں قوی الطاقت وہ ہے جو بیویوں اور بچوں کا سب سے بڑھ کر بوجھ اٹھا کر پھر باوجود ان سب تعلقات کے بے تعلق ہو۔ یعنی جس نے خدا کیلئے اتنے تعلقات قائم کرکے پھر بھی آخری گوشہ خدا کی جانب خداسے تعلق کا ایسا رکھا ہو کہ اس کے مقابل پر ہر دوسرا تعلق بے تعلق دکھائی دے۔ خدا کا تعلق ہر تعلق پر غالب نظر آئے ‘‘۔
یہ ہے آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۸۴، ۲۸۱(باقی انشاء اللہ کل ۔ پھر تھوڑا سا دیر میں شروع ہوا تھا مگر زیادہ لمبا نہیں چلا سکتے کوئی اور بھی ان کے پروگرام ہوں گے۔ اچھا جی السلام علیکم)۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ7؍رمضان بمطابق28؍جنوری 1996ء
ڈاکٹر صاحب آپ کو سمجھ آجاتی ہے۔ ہیں۔ کمال کرتے ہیں ۔ اردو کلاس کے شاگرد ہیں نا۔ ا س وقت اردو کلاس کے سب سے پاپولر شاگرد یہ ہیں۔ بڑا بچہ کہلاتے ہیںیہ۔ عمران بھی آیا ہوا ہے؟ عمران؟ ہاں ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اچھا ہوا پوچھنے کا فائدہ ہو گیا آگے آگئے ہیں۔ پر چلے گئے ہیں آجکل ایک چرچ کا کوئی پروگرام آرہا تھا تو دوسری کمپنی نے گزارہ وقت لے لیا زبردستی۔ پھر بعد میں جب پروٹیسٹ کیا توپھر پتا لگا کہ یہ نیوٹرل سیٹ کا قصور نہیں تھا بلکہ ایک اور کمپنی نے وقت پہ چھوڑا نہیں ان کو پتا ہی نہیں لگا۔ آج تو خدا کے فضل سے وقت پر چلا گیا ہے۔ آگے یہی آیت چل رہی ہے پہلی۔ دوبارہ اسی سے شرو ع کرتے ہیں۔
اعوذ باللّہ من الشیطن الرجیم۔
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلث و ربع۔ فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوماملکت ایمانکم۔ ذلک ادنی الا تعولوا۔
اس کا ترجمہ پہلے ہوچکا ہے اوراس ضمن میں مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ بخاری کی ایک روایت کے آخر پر جو الفاظ ہیں اس سے لگتا ہے کہ عربوں میں ربع سے بعد پانچ پانچ ، چھ چھ کا ذکر کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ لیکن فلسطین سے ایک حوالہ دیاملا ہے ، اُس میں اس کے برعکس ایک بات بیان کی گئی ہے ۔ مگر میں نے غور کیا ہے تو وہ دراصل دوسرا طریق ہے۔ اس کے برعکس نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تفسیر القرآن کے دوران جو مثنی و ثلث و ربع کی بات کے اعداد کے بارے میں دریافت فرمایا گیا تھا۔ اس قسم کے اعداد عربی میں فعال اور مفعلا کے وزن پر آتے ہیں ۔ جیسا کہ اُحاد، مَوحَدَا۔ ثَنٰی وَمَثْنٰی، ثُلاَثَ وَ مَثْلَثَ، رُبٰعَ وَمَرَبَعَ اور پھر چلتے چلے جاتے ہیں۔ خُمَاسَ وَمَخْمَسَ۔ سُدَاسَ وَ مَسْدَسَ۔ تو ان کا خیال یہ ہے کہ عربوں میںبھی یہ رائج تو ہیں۔ زائد کے الفاظ مگر شاذ کے طور پر ہیں۔ مگر جو مثال انہوں نے بتائی ہے وہ اس بات کو قرآنی طرز بیان سے مختلف طور پر پیش کررہی ہے۔ قرآن کریم میں تو ہے مثنیٰ و ثُلَاثَ ۔ ایک ایک دفعہ ایک لفظ کو بولا گیا ہے۔ مثنیٰ و ثلاث و ربع ۔ اور یہ اس طرح کہتے ہیں کہ جآء القوم اُحادو مَوحَدَا ۔ بالکل مختلف طرز ہے دونوں کو اکٹھا استعمال کرتے ہیں عرب اُحاد، مَوحَدَااکیلے اکیلے آئے ۔ قوم یعنی لوگ اکیلے اکیلے آئے۔ وَذَھَبُوا خُمَاسَ وَمَخمسَ اور گئے پانچ پانچ کی ٹولیوں میں ۔ تو یہاں جو بھی مثالیں انہوں نے دی ہیں وہ دو دو لفظوں کی اکٹھی مثالیںدی ہیں۔ اور قرآن کریم کی طرز بیان اور ہے مختلف ہے۔ پس خُماسَ اور مَخمَسَۃ کے مخمصے میں آپ کو پھنسانے کی بجائے میں واپس روز مرہ کے درس کی طرف آتاہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی جو توضیحات تھیں اور اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ آپ نے مختلف موقعوں پر لکھا یا بیان فرمایا۔ اس میں سے کچھ حصے چنے تھے ۔ایک تو وہ حصے جو اس آیت پر مختلف پہلوئوں سے اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کے جوابات، خصوصیت سے عیسائی حملوں کے پیش نظر۔ دوسرے عمومی اعتراض جو بعض مسلمان جدید فکر کے لوگوں کی طرف سے بھی کئے گئے ۔ کچھ اور متفرق امور بھی ہیں۔ اور پھر اس کے علاوہ آریوں کی طرف سے کیے گئے اعتراضات بھی ہیں، جن کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جواب دیاہے۔ یہ سنانے کے بعد پھر میں آپ کو مستشرقین کی طرف واپس لے کر جائوں گا اور مستشرقین کی زبان میں جو بہت صاحب علم بھی ہیں اور مقابلتہً پہلے مستشرقین جن کے حوالے دیے تھے ، ان کے مقابل پر واضح طو رپر سچائی پرست ہیں، ان کے حوالے میں پھرآپ کے سامنے رکھوں گا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازواج میں یہ ظلم ہے کہ، ایک لفظ اِزْدواج ہے ناوہ لفظ۔ تو یہ اَزواج ہے اِزْدواجنہیں ہے۔ تعدد ازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا۔ اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کیلئے ایک ہی بیوی ہو۔ کہتے ہیں یہ عموماً لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اصل مناسب جو متواتر منصفانہ تعلیم ہے وہ تو یہی ہے کہ ایک مرد کے ساتھ ایک عورت۔ مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خوامخواہ مداخلت کرتے ہیں۔ جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں۔ یعنی یہ استثنائی اجازت کی تعلیم ہے نہ کہ کوئی جبری حکم ہے کہ ہر ایک ایسا کرے او رہر ایک مردو عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے۔یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اوّل شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا۔ اگر یہ شرط کرالیں تویہ جائز ہے کیونکہ اس پر فرض نہیں ہے دوسری بیوی کرنا۔ اور یہ اپنے لیے حق محفوظ کرنا چاہتی ہے کہ میں چونکہ دوسری بیوی برداشت نہیں کرسکتی طبعاً اس لئے مجھے یہ شروع ہی میں یہ حق دو اور تحریر میں دو تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ بالکل جائز ہے ایسا کیا جاسکتا ہے۔ اب مجھے صرف یہ پڑھ کے فکر لاحق ہوئی ہے جب میں سنائوں گا یہ جیسا کہ سنا رہا ہوں تو ہمارے نکاح فارم میں اضافہ ہی نہ کرنا پڑے کچھ۔ شرط آخر جو شرط اوّل بھی ہوگی۔ تو فرماتے ہیں کہ اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بیشک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مرتکب ہوگا۔ یعنی اسلامی قانون جو تعدد ازدواج کا ہے وہ تو نہیں توڑے گا مگر یہ دوسرا جرم صادر ہوگا کہ اس نے عہد شکنی کی ہے۔ لیکن اگرکوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اور حکم شرعی پر راضی ہووے تواس حالت میںدوسرے کا دخل دینا بے جا ہوگا۔ اور اس کی جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدد ازواج فرض واجب نہیں کیا ہے۔ خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے۔
پس اگر کوئی مرداپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رو سے ہے تو اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کیلئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے۔یعنی اس پر بھی کوئی زبردستی نہیں۔نسبتاً چھوٹی چھوٹی باتوں پر روزمرہ طلاقیں ہوتی رہتی ہیں۔یہ اتنا بڑا ہم مسئلہ ہے اس کے اوپر اگر وہ طلاق لے لے تو اس کو حق ہے وہ طلاق لے اور اس غم سے نجات پاوے۔اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہوتو اس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے کسی پر جبر تو نہیں۔لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں تو اس صورت میں کسی آریہ کو خواہ مخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔کیا اس مرد نے ان عورتوں سے نکاح کرنا ہے یا اس آریہ سے۔جس حالت میں خدا نے تعدد ازواج کو کسی موقع پر انسانی ضرورتوں میں جائز رکھا ہے اور ایک عورت اپنے خاوند کے دوسرے نکاح میں رضامندی ظاہر کرتی ہے اور دوسری عورت بھی اس نکاح پر خوش ہے تو کسی کا حق نہیں ہے کہ ان کے باہمی فیصلے کو منسوخ کرے۔پھر فرماتے ہیں یہ کہنا کہ تعددازواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سرا سر جاہلانہ اور متوسمانہ خیال ہے۔ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربے سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعددازواج کی مبارک رسم کے پابند ہو جائیں تب تو وہ فسق و فجور،اور زناکاری اور بدکاری سے رک جاتے ہیں۔اور یہ طریق ان کو متقی اور پرہیزگار بنا دیتا ہے۔ورنہ نفسانی شہوات کا تند اور تیزسیلاب بازاری عورتوں کے دروازے تک ان کو پہنچادیتا ہے۔ آخر آتشک یا سوزاک خریدتے یا اور کسی خطرناک مرض میں مبتلاء ہوتے ہیں۔ اور وہ کام فسق و فجور کے چھپے چھپے اور کھلے کھلے ان سے صادر ہوتے ہیں جن کی نظیر ان لوگوں میں ہر گز نہیں پائی جاتی جن کی دو دو، تین تین دل پسند بیویاں ہوتی ہیں۔ یہ جو آخری پہلو ہے اس کے متعلق سب سے زیادہ بدگوئی اس نے کی ہے ویری(Wherry)نے۔ اور تعدد ازواج کے حکم کویا اجازت کو سب سے زیادہ اسلامی دنیا میں بدکاری پھیلانے کا موجب بنایاہے۔ یہ اوّل تو ویسے ہی وحشیانہ، جاہلانہ حملہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ایک سے زائد بیویاں کرنا نفسانی خواہشات کو پور اکرنے کیلئے کوئی عذر نہیں ہے ورنہ ان کی سوسائٹی اور ہر دوسری سوسائٹی آجکل ایشیاء میں۔ کھلے عام ایسے رستے پیش کررہی ہے۔ جس کے پیش نظر کسی کو کوئی مصیبت نہیں پڑی ہوئی کہ وہ ایک کی بجائے دو اور پھر تین شادیاں کرے اور ان کے سارے بوجھ اٹھائے ، ان کے جھگڑے برداشت کرے اور یہ تو کئی قسم کی مصیبتیں مول لینا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا کوئی ایسا دل پسندیدہ مشغلہ نہیں ہے کہ جس کے پیش نظر یہ رواج عام راہ پاگیا ہو۔ جہاں ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں وہاں انسان خود بخود رک جاتا ہے ۔ کوئی ذمہ دار انسان جس کو یقین ہو کہ میں نے اسلامی شریعت کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں، فور طور پر بلا دیکھے، بلا سوچے سمجھے محض اپنے نفس کی خواہش کی خاطر یہ انتظام نہیں کر سکتا۔ بلکہ بسا اوقات وہ لوگ جنہوں نے دیکھی ہیں ایک سے زائد شادیاں، مثالی بھی ہوں تب بھی رک جاتے ہیں۔ کیونکہ مثالی شادیاں ہونے کے باوجود اپنی ذات میں یہ ایک بہت ذمے داری کا کام ہے حضرت مصلح موعود نے ایک وقت میں چار شادیاں کیں اور جب ایک بیوی فوت ہوئی تو دوسری شادی کی اور دوسری بیوی فوت ہوئی تب تیسری شادی کی ۔ غرضیکہ کل سات شادیوں میں ایسا وقت رہا کہ چار چار بیویاں موجود تھیں۔ اور آپ کے بچوں میں سے تیرہ لڑکے جو ہوئے ان میں سے ایک نے بھی دو شادیاں نہیں کیں۔ تو اگر یہ گھرمیں دیکھ رہے تھے کہ اس سے عیش و عشرت کے سامان مہیا ہوتے ہیں تو کسی ایک کو تو خیال آتا کہ چلو ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور یہ اس کے باوجود ہے کہ بیحد عمدہ اور پاکیزہ ماحول تھا۔ اور ایک سے زائد شادیوں میں اگر مثالی شادیاںقرار دیا جاسکتا ہے تو بہت سے پہلوئوں سے یہ شادیاں مثالی تھیں۔ بچوں میں آپس میں کوئی سوکنا پن نہیں، ایک دوسرے سے بیحد تعلق اور پیار، یہاں تک کہ بسا اوقات ایک ماں کے بچوں کا تعلق دوسری ماں کے بچوں سے اپنی ماں کے بچوں کے مقابل پر زیادہ رہا۔ اور مثلاً میرے ہم عمر تھے مرزا انور احمد صاحب، پچپن سے ہم دونوں ہی دوست تھے اوران کے بھائی دوسرے تھے، ان کے مقابل پر مجھ سے ہمیشہ تعلق بڑا رہاان کا ۔اسی طرح اور بھی بچے تھے بڑی عمر میں بھی، چھوٹی عمر میں بھی۔ کہیں بھی ماں کا سوکنا پا بچوں کی محبت میں کمی نہیں پیدا کرسکا۔ اس لیے مثالی ماحول تھا۔ اس کے باوجود یہ طبعی فطرت کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے گھر میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے بڑا مشکل تھا یہ ذمہ داریاں ادا کرنا اور کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک سے بڑ ھ کر شادیاں کرنا۔
پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جو فرمارہے ہیں کہ اس کا اس سے نفسانی خواہشات سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ نفسانی خواہشات والوں کو کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ ایک سے زائد شادیاں کرلیں۔ ایک گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہوتے تھے غالباً یا کوئی اور افسر تھے انگریز بڑے، انہوں نے شادی نہیں کی اور مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جس نے ان سے معین سوال کیا کہ آپ نے اتنی دیر ہوگئی، آپ اچھے بھلے ہیں، بہت سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ اور well to do۔ اب مجھے یاد نہیں کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پروفیسر تھے یا کسی اور بڑے ادارے پر فائز تھے، کسی عہدے پر فائز تھے ۔ مگرچونکہ ہلکا سا تاثر تھا اس لیے میں نے کہہ دیااس کو کوئی مبحث بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک انگریز ایک بہت بڑے افسر ہندوستان میںانہوں نے عمر بھر خدمت کی۔ ان کے ایک احمدی دوست نے ان سے پوچھا ۔ اس نے مجھے خود بتایا کہ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے۔ اس نے کہا کہ الٹی بات کررہے ہو تم۔ سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ تم کیوںشادی کرتے ہو؟ اس نے کہا دیکھو جس کو روز بروز تازہ دودھ مہیا ہو ، اسے گھر میں گائے باندھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اب جن کی سوسائٹی عیش و عشرت کی کھلی اجازت دیتی ہو وہاں ایک سے زیادہ شادیاں پنپتی نہیں ہیں اور بہت بری لگتی ہیں ان کو ۔ وجہ کیا آخر کہ قانونی طور پر کسی اور عورت کو بھی ذمہ داریوں میںشریک کرلیا جائے ۔ اور الٹ بات ہے بے حیائی وہاں پھیلتی ہے جہاں ایک سے زائد شادیوں کا رواج نہیں ہے یا اس کی اجازت، اس کے مواقع مہیا نہیں ہوتے۔ مگر یہ باتیں پھر انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا ۔ اس وقت ایک اور ، اب آریوں کا ذکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے تو ان کے اعتراضات کے متعلق بات کرکے پھر ویری کی طرف واپس آئیں گے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں آریوں کے ہاتھ میں آجکل مسلمانوں کے بر خلاف غلط فہمی پھیلانے کے واسطے صرف تعدد ازدواج ہی کا مسئلہ رہ گیا ہے ۔ جس پر یہ لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے، اس کی حکمت اور حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے اعتراض کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ موجودہ زمانہ پکا راُٹھا ہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ واقعی تعدد ازدواج کی ضرورت ہے ۔ آریوں نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا ہے اور ضرورت کا احساس تو سب نے کرلیا ہے باقی رہی یہ بات کہ اس ضرورت کو ہم نے کس رنگ میں پوراکیا اور آریوں نے اس کو پورا کرنے کی کیا راہ سوچی ۔ سو وہ تعدد ازدواج نیوگ ہے۔ اب ان دونوں باتوں کا مقابلہ کرکے دیکھ لو کہ کون سی راہ اچھی ہے۔ وہ کہتے ہیں تعدد ازدواج، سو وہ تعدد ازدواج اورنیوگ ہے۔ دو باتیں ہیں ایک نہیں اور کا لفظ بھی اس میں ہے مراد یہ ہے کہ انہوں نے بعض ضرورتیں جوانسان کو طبعاً پیش آتی ہیں ان کا ایک حال تجویز کیا ہے۔جس کے ساتھ اس بات پرتو انہو ںنے مہر تصدیق ثبت کردی کہ اسلام نے اگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے تو ضرورت بہر حال حقہ ہے اور اس کا کوئی حل ضرور ہونا چاہیے۔ حل کیا ہے عمداً۔ ایک تو وہ کئی آریہ ہندوستان میں ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے ہیں اور کرلیتے ہیں ، دوسرا ایک مسئلہ نیوگ کا ہے جو انہوں نے اس مسئلہ کے حل کے طور پر مذہبًااپنا رکھا ہے یا مذہبی عقیدہ کے طور پر انہوں نے اپنایا ہوا ہے۔ اس کی تفصیل میںحضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک اور حوالے سے۔ یہ میں بیچ میں کچھ عبارتیں چھوڑ چھوڑ کر پڑھوں گا ورنہ بہت لمبا ہوجائے گا حوالہ۔ جو اس موقعہ اور محل کے مطابق عبارت ہے اتناحصہ میں پڑھوں گا۔ اگرچہ آریہ سماج والے تعدد ازواج کو نظر نفرت سے دیکھتے ہیں مگر بلا شبہ وہ اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جس کیلئے اکثر انسان تعدد ازواج کیلئے مجبور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے ا س کیلئے یہ ضروری امر ہے کہ اپنی نسل باقی رکھنے کیلئے کوئی احسن طریق اختیار کرے او رلاولد رہنے سے اپنے تئیں بچائے۔ پھر کچھ چھوڑ کر ۔ یہ تو وہ ذریعہ کثرت نسل کا ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور اس کے برخلاف جو وید نے ذریعہ پیش کیا ہے جس کو وہ نہایت ضروری سمجھتا ہے وہ نیوگ ہے۔ یعنی یہ کہ اگر کسی کے گھر میں پہلی بیوی سے اولاد نہ ہو تو اولاد حاصل کرنے کیلئے دو طریق ہیں۔ ایک یہ اس کی اپنی بیوی کسی دوسرے مرد سے منہ کالا کراوے۔ یہ منہ کالا کراوے وید نے نہیں لکھا ہوا اس کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کواپنے لفظوں میں بیان کیا ہوا ہے۔ نہ ایک دن نہ دو دن بلکہ قریباً چودہ سال تک کسی دوسرے مرد سے ناجائز تعلق رکھے یا کم و بیش۔ اور جو اس غیر مرد سے اولاد ہو وہ مرغیوں کے بچوں کی طرف نصف نصف تقسیم ہوجائے۔ آدھی اس کو ملے جو قانونی طو رپر خاوند ہے اور آدھی اس کوملے جو غیر قانونی طور پر خاوند ہے۔ اور انصاف دیکھیں کیسا عمدہ ہے کہ چودہ سال کے بعد جتنے بچے ہوں آدھے آدھے بانٹ لیں۔ اور اگر ایک زائد بچہ نکل آئے پھر؟ یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام والا واقعہ ہوگا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہوا تھا دو عورتوں کا کہ وہ دونوں ایک بچے کی ماں بنتی تھیں۔ اور چھینا جھپٹی ہورہی تھی اور کوئی قاضی فیصلہ نہیں کرسکا۔ آخر وہ جھگڑا حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت تک پہنچایا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ دونوں عورتیں بڑے زور اور تحدی سے اپنا بچہ قرار دے رہی ہیں اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی کہ ایک کو سچا اوردوسری کو جھوٹاکہا جاسکے۔ تو اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے انصاف کی کرستی پر بیٹھتے ہوئے فرمایا’’ اس کا ایک ہی حل ہے۔ اس بچے کو دو ٹکڑے کردیا جائے ، عین نصف سے۔ آدھا ایک ماں کو دے دو ، آدھا دوسری ماں کو دے دو‘‘ قصہ ختم۔ اس پر جو سچی ماں تھی وہ چیخیں نکل گئیں اس کی۔ اس نے کہا کہ میرا بچہ نہیں ، میں جھوٹ بولتی تھی، اسی کو دے دو۔ یہ ہے فطرت کی آواز۔تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی فطرت کی آواز دکھارہے ہیں آپ کو۔ کوئی سخت کلامی مراد نہیں۔ کوئی سختی پیش نظر نہیں ، بتارہے ہیں کہ ان کی فطرت بول رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اولاد آدھی آدھی تقسیم کردو۔ لیکن میں عرض کرتا ہوں اس کے ساتھ کہ اگر ایک بچہ زائد ہوجائے تو پھر کس کو ملے گا۔غالباً جو اس کا باپ ہوگا اصلی باپ ہوگا وہ کہے گا کہ اس کو دے دو بدبخت کو کہ جس نے بے حیائی قبول کرلی ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے کیونکہ اصلی باپ ہے۔ وہی اس کی فطرت ہے جو اس کی حفاظت کیلئے بے چین ہوگی۔ مگر یہ لکھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کیا نصف بچے تو اس پاک دامن کے خاوند کو ملیں گے اور نصف دیگر اس کو ملیں گے جس کے ساتھ یارانہ اولاد کیلئے لگایا گیا۔ اب اگرچہ آریہ صاحبان اس کام سے کچھ نفرت نہیں کرتے مگر میں جانتا ہوں۔ اب یہ دیکھیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے انصافاً ان سب آریوں کا دفاع فرمایا ہے جو عقیدتاً تو آریہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن فطرتاً نیک اور پاکباز ہیں۔ اس لئے یہ تاثر نہ پڑے کسی پر کہ ہندوستان کے سارے آریہ اسی قسم کی بے حیائی کرتے ہیں۔
آ پ فرمارہے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ اب بھی کئی کروڑ ہندو اسی آریہ ورت میں ایسے ہوں گے کہ وید کی اس تعلیم کو ان کا دل ہر گز منظور نہیں کرتا ہوگااور مسلمانوں کی طرح ضرورت کے وقت دوسری شادی کرتے ہوں گے۔ یعنی بے حیائی کے کام اپنی بیوی سے کسی حالت پر بھی کرانے کیلئے آمادہ نہیں ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ شریف ہندوئوں کی فطرت میں بھی ضرورت کے وقت نکاح ثانی کو پسند کیا ہے۔ اگر تم پنجاب میں تلاش کرو تو ہزار ہا دولت مند اور امیر ہندو ایسے نکلیں گے کہ وہ دو دو، تین تین بیویاں رکھتے ہوں گے ، مگر بجز اس قلیل گروہ آریوں کے کوئی شریف باعزت ہندو اس بات کو منظور نہیں کرے گاکہ وہ یہ یہ باتیں کرے۔ پھر دوبارہ عیسائیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور نکتہ پیش فرماتے ہیں ۔ عیسائیوں نے جو مسیح کو خدا بناتے ہیں ، باوجود خدا بنانے کے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور باتوں کے علاوہ ایک نئی بات مجھے معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ سے معلوم ہوا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی اس کی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی۔ اب یہ مجھے بھی پہلی دفعہ یہ بات پڑھ کر پتا چلا ہے ۔ ہوسکتا ہے آپ میں سے بھی اکثر کو پہلے علم نہ ہو۔ شاذ ہی کسی کو ہوگاکہ حضرت یوسف پہلے سے شادی شدہ تھے۔ اور وہ یہ ہے کہ تاریخ سے معلوم ہوا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی اس کی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی۔ اب غور طلب یہ امر ہے کہ یہودیوں نے تو اپنی شرارت سے اور حد سے بڑھی ہوئی شوخی سے حضرت مسیح کی پیدائش کو ناجائز قرار دیا اور انہوں نے یہ ظلم پر ظلم کیا کہ ایک تارکہ اور نذر دی ہوئی لڑکی کا اپنی شریعت کے خلاف نکاح کیا اور پھر حمل میں نکاح کیا۔ یعنی مراد یہ ہے کہ ان کی تاریخ کی رو سے حضرت مریم جب اس مشرقی جگہ سے واپس لوٹی ہیں جہاں حمل کے دوران چلی گئی تھیں اور وہیں بچہ جنا۔ تو جب یہ پتا چلا کہ حمل ٹھہرا ہوا ہے تو اس وقت انہوں نے حضرت یوسف سے بدنامی کا داغ دھونے کی خاطر ان کی شادی کرادی۔ یہ روایت ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرمارہے ہیں کہ حمل کے دوران جب پتا لگ گیا کہ حمل ٹھہر گیا ہے تو یونہی لوگوں کے سامنے ایک قسم کا کمزور ی پر پردہ ڈالنے کی خاطر ان کی شادی کرادی اور دو جرم کئے۔ ایک تو یہ کہ حاملہ کی شادی ایک اور شخص سے کرادی گئی ، دوسرا یہ کہ وہ دستور تھاکہ جو اس وقت کے ٹیمپل (Temple) یہودی ٹیمپل کیلئے وقف ہوجائے ، اگر کوئی وقف ہوتو وہ شادی نہیں کرسکے گی۔ یہ دستور تھا یا نہیں، یہ مبحث ہے۔میرے نزدیک تو یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی لڑکی کو یہودی ٹیمپل میں وقف کیا گیا ہو او ریہ تعجب والی بات تھی اس سے پہلے رواج نہیں تھا۔ اس لیے بعد میں حضرت مریم کی اس قربانی کی وجہ سے عیسائیوں میں یہ رواج آیا ہے۔ ورنہ یہودی راہبائیں نہیں ملا کرتی تھیں۔ لیکن جب ایک دفعہ وقف ہوگئیں تو پھر ان پر یہ پابندی تھی اور انہوں نے اپنے آپ کو اس شرط کے ساتھ پیش کیا تھا کہ میں شادی نہیں کرائوں گی۔ یا کسی مرد سے میرا تعلق قائم نہیں ہوگا۔ پس جب بچہ ہوگیا تو پھر شادی کا جواز پید اہوا اس سے پہلے نہیں تھا۔
تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان کی تاریخ ہمیں بتارہی ہے کہ دو شرطیں تھیں جن کو اس وقت کے یہودی مذہبی رہنمائوں نے نظر انداز کیا اور ایک بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ حاملہ عورت سے ایک اور مرد کی شادی کرائی اور یہ جو عہد تھا ان کا چرچ کے سامنے اس کو توڑ نے کے باوجود اس پر کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ اس پر پردے ڈالنے کی کوشش کی اور عہد کے برخلاف شادی تسلیم کرلی اس کی۔ فرماتے ہیں اس طرح پرانہوں نے شریعت موسوی کی توہین کی اور بایں ہمہ۔ بایں ہمہ نہیں لکھا عام طور پر بایں ہمہ ہوتا ہے لیکن بایں ہے یہاں صرف۔ یعنی اس کے باوجود حضرت مسیح کی پاک پیدائش پر نقطہ چینی کی اور ایسی نقطہ چینی جس کو ہم سن بھی نہیں سکتے۔ یعنی ایک طرف ان کے ایلڈرز (Elders)یہ کام کررہے تھے دوسری طرف انہوں نے حضرت مسیح کے اوپر زبانیں دراز کیں اور ایسی خوفناک نقطہ چینی کی کہ ہم جو حضرت مسیح سے حقیقی محبت رکھتے ہیں ہم سننے کے روادار بھی نہیں ہیں ان باتوں کو۔ پھر فرماتے ہیں ،ان کے مقابلے میں عیسائیوں نے کیا کیا۔ عیسائیوں نے حضرت مسیح کی پیدائش کو تو بیشک اعتقادی طور پر روح القدس کی پیدائش قراردیا اور خود خدا ہی کو مریم کے پیٹ سے پیدا کیا مگر تعدد ازواج کو ناجائز کہہ کر وہی اعتراض اس شکل میں حضرت مریم کی اولاد پر کردیا۔ تعدد ازواج کو ناجائز کہہ کر خود حضرت مریم پر گویا حملہ کردیا۔ وہی اعتراض اس شکل میں حضرت مریم کی اولاد پر کردیا۔ کس طرح کیا؟ کچھ سمجھ آئی ہے؟ وہ اس طرح کیا کہ اس سے پہلے یوسف کی ایک بیوی تھی اور عیسائی کہتے ہیں کہ اگر ایک بیوی کسی کی ہو اور پھر وہ دوسری شادی کرے تو دوسری اولاد ولد الزناکہلائے گی اور ناجائز سمجھی جائے گی اور یہی کہہ کر انہوں نے بڑی بدبختی سے اپنی زبانیں کھولی ہیں آنحضرتﷺ اور صحابہ کے اوپر ۔
اب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کس لطافت سے اس مضمون کو بیان فرمادیا ہے۔ کہ یہود نے تو مریم کے ایک بیٹے پر حملہ کیا تھا کہ وہ ناجائز ہے تم نے مریم کی ساری اولاد کو ناجائز قرار دے دیا۔ جب یہ فتویٰ دیا کہ ایک سے زیادہ شادی ایک مرد نہیں کرسکتا تو یوسف کے بچے تھے جس کی پہلی بھی بیوی تھی۔ پس اس پہلو سے تم نے مریم کی اولاد پر وہ حملہ کردیا اور اس طرح پر خود مسیح اور ان کے دوسرے بھائیوں کی پیدائش پر حملہ کیا۔ حضرت مسیح کی پیدائش بھی مجروح ہوگئی اورآپ کے بھائیوں کی پیدائش بھی مجروح ہوگئی۔واقعی عیسائیوں نے تعدد ازواج کے مسئلہ پر اعتراض کرکے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ ہم تو حضرت مسیح کی شان بہت بڑی سمجھتے ہیں اور اسے خدا کا سچا اور برگزیدہ نبی مانتے ہیں۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی پیدائش باپ کے بِدوں خداتعالیٰ کی قدرت کا ایک نمونہ تھی اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مخفی نکاح کے نتیجہ میں ہوئی یہ غلط ہے اور بالکل جھوٹ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واضح قطعی فتویٰ ہے اورقرآن کے طرز بیان سے بھی بالکل کھل کھل کر ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ پیدائش خدا کی خاص تقدیر کے نتیجہ میں قانون قدرت کے مطابق تھی۔ تقدیر خاص تھی، قانون قدرت وہی تھا جو جاری و ساری ہے ، اس کا استثنائی استعمال ہوا ہے۔ مگر یہ بحث یہاں نہیں اٹھتی اس کو چھوڑتا ہوں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں خداتعالیٰ کی قدرت کا ایک نمونہ تھی اور حضرت مریم صدیقہ تھیں۔ یہ قرآن کریم کا احسان ہے حضرت مریم پر اور حضرت مسیح پر جو ان کی تطہیر کرتا ہے اور پھر یہ احسان ہے اس زمانہ کے موعود امام کا کہ اس نے از سر نو اس تطہیر کی تجدید فرمائی ہے۔ پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر جو زبانیں دراز کرتے ہیں کہ انہوں نے نعوذ باللہ حضرت مسیح کی ہتک کی، گستاخیاں کیں، وہ احسان فراموش ہیں۔ فرماتے ہیں اس زمانہ میں اس جدید دور میں جب کہ خود مسلمانوں کی طرف سے بھی کئی کئی تاویلیں کی جانے لگیں اور یہ شک کا اظہار کیا گیا کہ حضرت مسیح کی پیدائش کوئی غیر معمولی قدر ت کی رونمائی نہیں ہوئی ہے بلکہ عام انسانی پیدائش تھی اور اس کو ڈھانپنے کیلئے وہ جو جو بھی وہ عذر تراش کریں اصل حقیقت یہی بنتی ہے کہ وہ الزام مان جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس دور میں بڑی جرأت کے ساتھ ایک اعلان ِ عام کیا ہے اور جماعت ِاحمدیہ کے ذریعہ یہ تمام دنیا میں پھیلتا چلا جارہا ہے کہ حضرت مسیح پاک تھے اور آپ کی ماں مریم پاک تھیں۔ پس وہ لوگ جو آجکل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف اس ملک میں بھی یہ پروپیگنڈہ کرتے پھرتے ہیں وہ بالکل ناجائز بات کرتے ہیں ان کو کوئی حق نہیں۔ اس کی ضرورت وضاحت کی مجھے اس لئے پیش آئی ہے کہ ابھی حال ہی میں جو ہم نیا مرکز لینے لگے تھے اس مرکز کے خلاف مولویوں نے جتھا بندی کرکے اس علاقے کے سب لوگوں کو ہم سے متنفر کرنے کی خاطر جو طریق کار اختیار کیا اس میں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ ان کو بھڑکایا گیا اور اس ضمن میں نیشنل فرنٹ سے بھی گلے لگ گئے جو ان کے ہمیشہ سے خلاف چلے آرہے ہیں۔ اور دونوں نے جتھا بندی کرکے وہاں گھر گھر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ جماعت احمدیہ جس کو تم جگہ دینے لگے ہو اس کے بانی نے تو مسیح کے خلاف نہایت ظالمانہ زبان استعمال کی ہے۔ تم کیسے برداشت کرو گے ایسی جماعت کو ، اور ساتھ ہی کئی حوالوں کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جاتا رہا۔ جس کے نتیجہ میں باقاعدہ ایک چرچ میں اشتعال انگیز میٹنگ کی گئی اور اس میںچرچ گو توشاذ کے طور پر تھے اکثر اسی قسم کے ریفلیٹ اکٹھے ہوگئے تھے ۔ مولوی بڑے نمایاں طور پرپیش تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن ہیں ان کو اپنے ملک میں جگہ نہ دو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جماعت کے متعلق بڑی اونچی آواز سے بولتے بولتے اپنے گلے بٹھاچکے ہیں کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور انگریزوں نے اس کو پیدا کیا تھا۔ اب آکر انگریزوں کو بتارہے ہیں کہ یہ تو تمہاری اوّلین دشمن جماعت ہے۔
اسے دیکھیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے لیکن وہ جو حوالے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جس طرح کہ اس سے پہلے ذکر گزرچکا ہے عیسائیوں کو متہم کیا ہے کہ تم اپنے اندر کم سے کم یگانگت توپیدا کرو ، تمہارے اندر تضادات ہیں۔ تم ایک طرف دو شادیوں کے مسئلہ پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ پر تیر اندازیاں کرتے ہو اور ذرا خوف خدا نہیں کھاتے اور دوسری طرف جس کو خدا کا بیٹا کہتے ہو اس کی دادیاں، نانیاں تمہاری بائبل کے مطابق فاحشہ عورتیں تھیں، اور یہ بالکل درست ہے حوالہ دیا ہوا ہے۔ اب اس پر یہ طرز بیان چھپا کر یہ کہنا صرف کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نزدیک فاحشہ کی اولاد ہیں۔ یا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نزدیک چونکہ دائودعلیہ السلام نے زیادہ بیویاں کیں تھیں اور سلیمان علیہ السلام نے کی تھیں اور وغیرہ وغیرہ ۔ اور مسیح آپ ہی کی نسل سے ہیں اس لئے آپ نعوذ باللہ من ذالک ناجائز اولاد کی نسل سے ہیں۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اور پورادھوکہ دہی ہے۔سخت قسم کی دھوکہ دہی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تو فرماتے ہیں وہ جائز تھیں۔ اور جن پر تم نے الزام لگایا وہ غلط الزامات ہیں۔ ان الزامات کو قبول نہیں کرتے ، دائود علیہ السلام کی بھی بریت کرتے ہیں، سلیمان علیہ السلام کی بھی بریت کرتے ہیں۔ ان تمام بزرگوں کی بریت کرتے ہیں جن کا ذکر بائبل میں آتا ہے ۔ مگر بائبل کے مصنفین کو لے کر بتاتے ہیں کہ تم نے خدا کا کلام پیش نہیں کیا۔ اپنی نفسانی باتوں کو اس میں داخل کردیا ہے اور اس کو خدا کا کلام قبول کرکے اس کے نتائج کو بھی تو پھر دیکھو کہ کیا نکلتے ہیں۔ اگر یہ من و عن خدا کا کلام ہے ، اس میں اگر انسان نے تحریف نہیں کی تو پھر تمہار امسیح، تمہارا خداکا بیٹا اس کی یہ صورت بنتی ہے۔ اس کے بعد پھر قرآن کے حوالے سے آ پ کی پاکی بیان کرتے ہیں ، وہ حصے سب چھوڑدیتے ہیں۔ فرماتے ہیں، یہ تو وہ یسوع ہے جس کو تم نے اور تمہاری بائبل نے پیش کیا ہے۔ وہ مسیح کون ہے جو خدا کا پاک بندہ وہاں سولی پر چڑھایا گیا تھا اور خدا نے اسے بچالیا۔ فرمایا اس کا ذکر قرآن میں پڑھو۔ وہ بھی پاک ، اس کی ماں بھی پاک۔ کہیں ایک الزام بھی قرآن کریم نے آپ کے آبائو اجداد پر یا کسی پر نہیں لگایا ۔ یہ ہے پوری تصویر۔ تو یہ لوگ کس طرح بہانے بنا کر پھر احمدیت کے خلاف ان کے ساتھ ہاتھ ملالیتے ہیں جو اس سے پہلے ان کے دشمن ہوتے ہیں ۔ تو احمدیوں کو اس ساری مغربی دنیا میں اس مؤقف کو سمجھنا چاہیے کہ یہ جوابی حملہ جو ہے وہ حضرت مسیح کی ذات پر ہرگز نہیں ہے۔ اگر ہے تو یا اس فرضی یسوع پر ہے جس کا قرآن کریم نے کوئی بیا ن نہیں کیا۔ جس کی وجود کی کوئی تصدیق نہیں فرمائی، کوئی خیالی وجود تھا جو نعوذ باللہ من ذالک خدا کا بیٹا تھا۔
جس حقیقی مسیح کو قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے ، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کی پاکیزگی کے گیت گائے ہیں۔ اس کی تعریف فرمائی ہے اور سب سے بڑا ثبوت یہ کہ خود اپنے آپ کو مسیح ثانی قرار دیا ہے۔ اور یہ ایسے شریر لوگ ہیں کہ اس پر بھی آکر پھر حملے کرتے ہیں۔ یہ تو ان کے منہ چرے ہوتے ہیں، ایسے منہ پھٹ ہیں کہ ہر موقع پر ایک بات اس موقع پر کہی، پھر دوسری اس کے الٹ دوسرے موقع پر کہی۔ جہاں جہاں گالیاں دینے کا موقع ملتا ہے یہ اس سے چوکتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں دیکھو مسیح کے متعلق یہ فرمایا کہ اس کی نانیاں، دادیان یہ ہیں۔ آپ مسیح کے دعویدار ہوئے۔ عوام سے پھر پوچھتے ہیں کہ بتائو پھر کیا ہوئے؟ تو وہ بکواس کرتے ہیں ، یہ دیکھ لو۔ حالانکہ یہ بے غیرت لوگ ہیں ، ان کو پتا نہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو جوابی حملہ کیا ہے اوّل تو وہ اصل مسیح پر نہیں بلکہ اس فرضی مسیح پر جس کو یہ خدا کا بیٹا بنائے ہوئے ہیں۔ دوسرے بائبل کے حوالے سے کیا ہے اور تیسرے خود مسیح کو جس طرح پیش کیا ہے۔ ایسی پاک ذات کے طور پر پیش کیا ہے جس کے آبائو اجداد میں بھی کوئی ناپاکی نہیں تھی اور اس کے مثیل بنے ہیں، نہ کہ اس یسوع کے مثیل جن کو یہ گالیاں دیتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ یسوع وہی ہے۔
اب اگلا سوال جو اٹھتا ہے ، اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس کے مثیل نہیں ہیں تو جس یسوع کو تم مان رہے جو ، جس کے متعلق کہہ رہے ہو کہ اس کا مثیل ہے تو ایسا ہوگا وہ خود بھی تو آئے گا آج نہیں تو کل کو تو تمہارے نزدیک آجائے گا۔ تو مثیل تو پھر بھی مثیل ہیں ضروری نہیں کہ ہر مماثلت میں یکساں ہو جائے۔ مگر وہ خود آجائے گا کہ جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ وہ یہ بنتا ہے اور یہ بنتا ہے پھر تم کیا کرو گے ، تمہارا کیا حال ہوگا۔ اس لئے جو غیض و غضب کی وجہ سے انکارہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ہمیشہ ایسے ظالم خود اپنے پائوں پر کلہاڑیاں مارتے ہیں۔ صرف انسان کو پوری طرح ان کے مؤقف کو سمجھنا چاہیے پھر سمجھ آجائے گی کہ ان کی کسی دلیل میں کوئی جان نہیں۔ نتیجہ نکلتا ہے تو ان کے اپنے مؤقف کے برعکس نکلتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جہاں تعدد ازواج کی حکمت بیان فرماتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ کوئی عورت شادی سے پہلے یا شرط لگاکر اس تکلیف سے بچ جائے اگر اس کا نفس برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ فطرتی بات ہے۔ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صاف لکھ رہے ہیں کہ یہ فطرتی بات ہے۔ اس سے ہرگز انکار نہیں کہ ایک عورت بعض دفعہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کے اوپرایک سوت آجائے۔ لیکن قرآن کریم نے اس رنگ میں اس مضمون کو رکھا ہے کہ حقیقی ضرورتیں پوری ہوں اور فطرتی تقاضے بھی اپنی جگہ قائم رہیں اور بیچ کی کوئی ایسی راہ نکلے کہ جس میں عورتیں خدا کی رضا کی خاطر یا حقیقی ضرورت کو پہچان کر خود اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرلیں۔ یہ ہے تعدد ازدواج کا فلسفہ جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اسی آیت کی رو سے۔ فرماتے ہیں لیکن یہ باتیں نہ کر نا اور جو خدا نے حقوق دیے ہیں ان کو استعمال نہ کرنا خود کسی اور عورت پر سوت بن کر آجانا یہ بھی تو عورت ہی کا کام ہے۔ اور پھر بدزبانیاںکرنا یہ جائز بات نہیں ہے۔ عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کیلئے کوئی دوسرا نکاح کرناچاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں او رشور مچاتے ہیں اور اس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں۔ ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں۔ کیونکہ اللہ جلشانہ نے اپنی حکمت کاملہ سے جس میںصدہا مصالح ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کرلیں۔ پھر جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں برا کہا جائے۔ ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں ، نہایت مردود اور شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں۔ کیونکہ وہ خدا او ر رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے ربّ کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں۔ اگرکسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے۔
فرمایا ویسے اس کو مصلحت اور نہ ہو تو یہ بھی ایک مصلحت ہے۔ اگر بیوی خدا اور اس کے حکموں کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور بدتمیزی کی باتیں کرتی ہے اور گھر میں اسلام کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھتی ہے تو اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ اور مصلحت ہو یا نہ ہو ایسی عورت کا خاوند ضروردوسری شادی کرے۔ اب پتا نہیں کتنے ہیں (قہقہہ) مگر اللہ رحم فرمائے۔ جہاں تک لونڈیوں کا ذکر ہے ، ایک یہ بھی حصہ ہے اس آیت کریمہ کا آخری جسے طعن و تشنیع کا موجب بنایا گیا۔ اس سے پہلے بارہا یہاں کے سوال و جواب کی مجالس میں مَیں بات کھول چکا ہو کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو اس زمانہ کے رواجات سے ایسا تعلق رکھتی ہیں کہ اگر ان رواجات کو ترک کیاجائے تو ایک پارٹی کاکام نہیں کہ ترک کردے جب تک دوسرا فریق بھی ترک نہ کرے ، اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے کہ اس رواج کا قلع قمع کیا جائے۔ اس لئے قرآن حکیم ایسی کوئی تجویز کر ہی نہیں سکتا تھا جس کے نتیجہ میں انصاف کے نام پر ناانصافی ہو ۔ چنانچہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جنگی قیدی جیتنے والی قوم کے افراد اور ان کے سپاہیوںاورجرنیلوں کے درمیان بطور غلام تقسیم کردیے جاتے تھے۔ کوئی وار کیمپس (War Camps)نہیں تھے اور دشمن اسلام جو اپنے رواج کے تابع تھا وہ مسلمان عورتوں سے وہی سلوک کرتا تھا کہ بغیر نکاح، بغیر شادی کے اس کو اپنے لئے جائز سمجھتا تھا۔ اب اگر خداتعالیٰ مسلمانوں کیلئے اس کے مقابل پر ناجائز قرار دے دیتا تو بڑا بھاری ظلم ہوتا اور ایک طرف مسلمان عورتوں سے یہ سلوک ہورہا ہوتا دوسری طرف ان کی عورتوں کی حفاظت اور عصمت کا خیال رکھا جاتا، جن کی عصمت ویسے ہی مشکوک تھی۔ کیونکہ ان ملکوں میں ایسے بھی رواج تھے جہاں بہت گند پھیلا ہوا تھا۔
اس لئے قرآن کریم نے ایک ایسی اجازت دی ہے جو آئندہ زمانوں میں کام آسکتی تھی اور بین الاقوامی سمجھوتوں میں اس بات کو پیش نظر رکھا جاسکتا تھا۔ بہت ہی مفید ایک گنجائش رکھی گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایسی تعلیمات دی ہیں کہ جس کے نتیجہ میں وہ عورت جو مسلمان کے گھر میں بستی ہے اس کے حقوق اس عورت کے مقابل پر جو مسلمان جنگی قیدی بن کر دوسرو ںکے پاس جاتی ہے بہت زیادہ ہیں۔ یعنی بدلے کا قانون بھی خداتعالیٰ نے پیش نظر رکھا تاکہ قوم کو سزا دی جائے جس نے ایک بد رویہ اختیا ر کیا ہے اور کلیتہً ہاتھ نہ کھینچ لیا جائے اور انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پھر بھی قربان نہیں کیا ۔ معاشرے کے اس حسن کو جو خود اسلا م نے پید اکیا تھا ، اس کو قائم رکھنے کیلئے اور ذرائع اختیار فرمائے ۔ چنانچہ غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق جو تعلیم قرآن کریم نے دی ہے اس کی روشنی میں ا س حکم کو ایک عیاشی کا ذریعہ یا بہیمانہ طریق قرار دینا حد سے بڑھی ہوئی جہالت ہے۔ اس وقت کی عیسائی دنیا اس وقت کی یہودی دنیا، اس وقت کی ساری دنیا اپنے جنگی قیدیوں سے یہی سلوک کیا کرتی تھی لیکن بدتر ازدواجی تعلقات میں یہی سلوک، لیکن دوسرے تمام معاملات میں انتہائی بہیمانہ سلوک۔ ان سب باتوں سے قرآن کریم نے روک دیا ہے اور اس عورت کوجو کسی کی ملکیت میں جاتی ہے جنگی قیدی کے طور پر، اس عورت کو یہ حق دیا کہ اگر اس کے پیٹ سے بچہ ہوتا ہے تو وہ آزاد ہے اور بیوی کا درجہ پائے گی۔ تو ایسی حفاظت کا انتظام دنیا کے کس مذہب میں پہلے کیا گیاہے؟
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی او رزیادتی کا طریق چھوڑ دیا ہے ۔ اس لئے اب مسلمانوں کیلئے بھی روا نہیںکہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بناویں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو۔ یہ قرآنی جو سند ہے اس کی روشنی میں یہ مسئلہ حل فرمایا ہے آپ نے ۔ کوئی ایسی تاویل نہیں فرمارہے جو اپنی خواہش کے مطابق قرآن کے مضمون کو کھینچ کر کہیں اور لے جارہی ہو۔ فرماتے ہیں، قرآن کریم نے جو یہ بالا ، حتمی، دائمی اصول پیش فرمادیا کہ دشمن جیسی زیادتی تم پر کرتا ہے اس حد تک تم پر جائز ہے ، اس سے آگے نہیں بڑھنا۔ اب جبکہ دنیا کے حالات بدل چکے ہیں اور کوئی قوم بھی کسی جنگی قیدی کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ وہ سلوک کرنے کی اجازت نہیں دیتی جو پرانے زمانوں میں کیا جاتا تھا۔ تو قرآن کریم مسلمان کے ہاتھ باندھ رہا ہے اور مسلمان کیلئے اب پہلے تصور کے مطابق لڑائیوں کے نتیجہ میںلونڈیاں بنانا اور ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات کو قائم کرنا ناجائز ہے۔ پس موجودہ دور میںتو یہ مسئلہ ہی ختم ہوگیا اور یہ مسئلہ اس لئے دیر میں ختم ہوا کہ غیروں نے اپنی اصلاح دیر میں کی ہے۔ کیونکہ یہاں دو پارٹیاں ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں دو پارٹیاں ہوا کرتی ہیں۔ اور جب تک دو نوں پارٹیاں ایک مسلک پر اکٹھی قائم نہ ہوں اس وقت تک یکطرفہ فیصلے چل ہی نہیں سکتے۔ پس یہ حیثیت ہے اس سارے مضمون کی جہاں لونڈیوں کا ذکر آتا ہے۔ اور یکطرفہ فیصلوں کا تو ایک ایسا مسلمہ اصول ہے ۔ یعنی یہ کہ اس مسلمہ اصول کے یکطرفہ فیصلے بین الاقوامی معاملات میں نہیں چلا کرتے کہ جنگ کے معاملات میں ان کی کنوینشنز ہوتی ہیں۔اور وہ ملک جو آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں یا جن کے لڑنے کے احتمالات ہیں وہ بھی کنوینشنزمیں اکٹھے بیٹھ کر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ لڑائی توہم کریں گے مگریہ بہیمانہ حرکتیں نہیں کریں گے، فلاں بہیمانہ حرکت نہیں کریں گے۔ فلاں حرکت نہیں کریں گے۔ پس یہ ثابت کرتا ہے کہ جب تک ایسا زمانہ آتا کہ ساری دنیاانسانیت کے نسبتاً اعلیٰ مقام پر قائم ہوتی، انسانی قدروں کی حفاظت کرتی، اس وقت تک اسلام کے یہ احکامات مجبوری کے تھے۔ مگر ایسی مجبوری کے جو اگر آئندہ پھر پیش آئے تو پھر بھی اجازت ہوگی۔ اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلیم عارضی ہے اور زمانے سے پیچھے رہ کر ختم ہوگئی ہے ۔ جو تعلیم مشروط ہو اس کو عارضی نہیں کہا جاتا۔ غیر مشروط تعلیم عارضی ہوجایا کرتی ہے، مشروط تعلیم عارضی ہو ہی نہیں سکتی ۔ اگر یہ ہو تو یہ پھر بھی ہوگا۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ نہیں ہوگا۔ اسی طرز استدلال سے حضرت مسیح موعودتک نے جہاد کے متعلق روشنی ڈالی ہے اور فرمایا ہے کہ جب تک دشمن تلواریں استعمال نہیںکرتا اسلام کے قلع قمع کرنے میں ، اس وقت تک تمہیں بھی مقابل پر تلواریں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ دشمن زبان کا جہاد کرتاہے،قلم کا جہاد کرتا ہے، تمہارا جہاد بھی جواباً زبان کا ہوگااو رقلم کا ہوگا۔ پس جہاں یہ معاملہ دشمن کی سوچ پر مبنی ہوجائے کہ وہ کیا طریق اختیار کرتا ہے وہ معاملہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اب دشمن کی سوچ بدلی ہے ، اس لئے وہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ۔ یہ مشروط معاملہ ہے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعودتک نے جہاد کے تعلق ہی میں لکھا ہے کہ جہاد ان معنوں میں منسوخ ہے جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں۔ قرآن کریم نے جو شرطیں عائد کی تھیں آجکل وہ دکھائی نہیںدے رہیں ،مگر ہمیشہ کیلئے ان معنوں میں منسوخ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ شرطیں جو قرآن نے بیان فرمائی ہیں کبھی کسی جگہ یا آئندہ کسی زمانہ میں پوری ہوں تو بعینہٖ وہی تلوار کا جہاد پھر فرض ہوجائے گا۔ پس یہ اعتراض بھی غلط ہے کہ گویا یہ تعلیم زمانے میں پیچھے رہ گئی ہے۔ فرماتے ہیں، اب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بناویں۔ بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں ۔ اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کوبھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔یعنی اگر وہ ایسا کریں گے تو دشمن کو دعوت دیں گے کہ مسلمان عورتوں کے ساتھ بے حیائی کا سلوک کریں۔ قرآن کی عمومی تعلیم کی رو سے بھی اور مصلحتاً بھی یہ ان کیلئے ناجائز اور حرام ہے۔ مگر جو لوگ ان باریک باتوں کو نہیں سمجھتے ، بعض دفعہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی جنگ ہو تو جو عورتیں ہاتھ آئیں ان کے ساتھ جو مرضی سلوک کرو۔ جب میں وقف جدید میں ہوا کرتا تھا تو ایک صاحب جن کی شادی نہیں ہوتی تھی، ان کو کسی نے پٹی پڑھادی کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بہت سی ہندو عورتیں جو راجستھان کے علاقہ سے قبضے میں آئی ہیں وہاں کئی مولوی پہنچ گئے ہیں اور کئی جابر لوگ پہنچ گئے ہیں وہ ان کو بیچ رہے ہیں اب پکڑ پکڑ کے۔ تو ان کیلئے یہ مسئلہ نہیں تھا کہ جائز ہے کہ نہیں وہ سمجھتے تھے کہ جائز تو ہے ہی پیسے کی کمی تھی آیا وہ اس کی قیمت ادا کرسکتے ہیں کہ نہیں۔ اس لیے یہ خیال آج بھی باطل ہے کہ لونڈی نسبتاً زیادہ آسان ہے ، لونڈی کی قیمت دینی پڑتی تھی، ابھی بھی دینی پڑتی ہے۔
وہ میرے پاس آئے کہ کچھ امداد ہوجائے نیک کام میں تو کیا مضائقہ ہے۔ آپ لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں تو میری بھی ہوجائے۔ تو اس کا بھی کافی دیر مذاق رہا۔ کئی لوگ ان سے مسئلہ چھیڑ بیٹھتے تھے وہ بیٹھ کے تقریر کیا کرتے تھے کہ ہاں یہ سب کچھ ٹھیک ہے ، کچھ مالی کمی ہے بس۔ تو ان کو میں نے سمجھایا کہ خدا کا خوف کرو یہ ہرگز وہ مسئلہ نہیں ہے ان حالات میں یہ اجازت نہیں ہے۔ کافی دل شکستہ ہوئے تھے مگر میں مجبور تھا۔ اب میں بعض منصف اور نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے انگریز مصنفین کا ذکر کرتا ہوں۔ کیونکہ جب ویری جو امریکن ہے اس کی بات ہو یا بعض دوسروں کی جو میں بیان کرچکا ہوں منٹگمری واٹ کی عبارت کے بعض جملے۔۔۔ تو بعض انگریز احمدیوں پر شاید یہ شاق گزرے کہ ہر دفعہ بیچارے ہم لوگ ہی رگڑے جاتے ہیں اور جانتے تو ہیں کہ یہ مجبوری ہے۔ مگر بہرحال ایک قومی محبت ہوتی ہے اس کے تقاضے ہیںجو سر اُٹھاتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے لوگوں کیلئے ابتلاء بھی آجاتا ہے۔چنانچہ یہ آج کی بات نہیں ہمیشہ سے اسی طرح ہے۔ حضرت عکرمہ جو ابوجہل کے بیٹے تھے اور بعد میںوہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بیٹے بن گئے ابوجہل کو چھوڑ کے۔ ان کو جب لوگ ابو جہل کا بیٹا کہتے تھے تو بہت تکلیف پہنچتی تھی اور یہ حوالہ دیتے تھے اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ یارسول اللہﷺ! میرے باپ کی بدبختی تھی میں جانتا ہوں، لیکن میں بیٹاہوں اس کا میں کیا کروں؟ لوگ مجھے ابو جہل کا بیٹا کہتے ہیں۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ کوئی ان کو اب ابوجہل کا بیٹا نہیں کہے گا۔ اب دیکھیں یہ کسی اعلیٰ منصفانہ تعلیم ہے۔ پس ایسے نوجوان انگریز یا بوڑھے جب وہ یہ درس سنتے ہوں گے یا پہلے کہیں یہ ذکر سنتے ہوں گے تو ان کے دل پر ضرور ایک تکلیف ، ایک شاق تو گزرتا ہوگا کہ ہماری قوم ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے ان کے اوپر تنقید ہورہی ہے۔ بات سچی بھی ہے مگر ہم ایک پہلو سے احمدی ہیں، ایک پہلو سے انگریز ہیں۔ اب ہم کیا کریں۔
ان کو میں سمجھانے کی خاطر کہتا ہوں کہ میں ایک پہلو سے پاکستانی ہوں اور ایک پہلو سے احمدی ہوں۔ پاکستان کے حالات پر جو تبصرہ میں کرتا ہوں کیا مجھے تکلیف نہیں ہوتی۔ مگر جب احمدیت کا معاملہ آتا ہے ،جب مذہب کے نام پر پاکستانی احمدیوں سے دشمنیاں کی جاتی ہیں تو خدا کے نام پر جو دشمنیاں کی جارہی ہیں میرا فرض ہے کہ اس کا جواب دوں اور اس بات کو بھلادوں کہ بحیثیت قوم خود مجھ پر بھی حرف آرہا ہے۔ اس عرب شاعر والی بات کہ میری ہی قوم ہے جس نے میرے بھائی پر تیر چلا یا تھا یا قتل کیا تھا اس کو۔ اگر اب میں اس قوم پر تیر چلائوں گا تو خود اپنے اوپر تیر چلائوں گا۔ لیکن یہ مجبوریاں ہیں مذہبی نقطہ نگاہ سے۔ مذہب کا معاملہ فائق ہے ۔ چونکہ یہ اللہ کے رشتے ہیں، دنیاوی رشتے، قومی رشتے ، عارضی دنیا کے رشتے ہیں۔ جو ماں سے رحمی رشتوں کے تابع آتے ہیں اس کا پھیلائو ہی ہے۔ لیکن رحمن خدا جو خالق ہے اس کا رشتہ بہر حال اولیٰ اور افضل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جب ان کے بیٹے ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے یہ بعد میں کہا ایک دفعہ فخر سے بتایا اپنے ابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہ فلاں موقعہ پر میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا ۔ میں چاہتا تو ایک ہی وار میںآپ کو قتل کرسکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیںکیا۔ دیکھیں یہ اپنی طرف سے وہ احسان بتارہا تھا۔ آپ نے جواب دیا میں ہوتا تو کردیتا۔ کیونکہ خدا کے معاملہ میں میرے نزدیک کوئی رشتہ رشتہ نہیں ہے۔ پس یہ ایک تو مجبوری ہے۔ ہرگز اس میں کسی قسم کا کوئی قومی تعصب محرک نہیں ہوتا جب ہم یہ باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی میں نے سوچا کہ وہ بھی تو حوالے پیش کیے جائیں جو ان میں سے شریف لوگ خود حضرت محمد ﷺ کے دفاع میں بیان کرتے ہیں تاکہ ایک توازن پیدا ہوجائے۔ اور لوگوں کویہ پتا لگے کہ باضمیر لوگ ہر قوم میں موجود ہیں۔ بڑی جرأت کے ساتھ اپنی قوم کی عمومی آواز کے خلاف اپنی اکیلی آواز اٹھانے کی بھی جرأت کرتے ہیں اور نہایت اعلیٰ لفظوں میں آنحضرت ﷺ اور آپ کی پاکیزگی کو خراجِ تحسین ادا کرتے ہیں۔ بعض ان میںایسے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ وہ اگر زندہ ہوں تو آدمی ان کے ہاتھ چوم لے۔
‏Apology for Muhammad , by Godfray Higgins یہ تو غالباً زندہ ہوں گے Godfree۔ پتا کریں یہ پرانے ہیں ان سے ملاقات کروانی چاہیے تا کہ میں خود اپنے جذبات کا اظہار ان کے سامنے کروں۔ لکھتے ہیں polygamyکے اوپر لکھتے ہوئے یعنی تعدد ازدواج۔
Because Muhammad follwoing the example of the Legislator of the oldest ceremonial religion rest of the utilities and as well as an all Christians maintian of the world Moses. Allowed his people the desendence as they say and probably with truth of Ismail, the son of the father of faithfull a provarity of wives
آجکل جو رواج ہے انگریزی کااس میں فقروں کو چھوٹا کیا جاتا ہے۔ لمبے فقرے اب پسند نہیں کیے جاتے۔ مگر پہلے زمانہ میں اور بعض دفعہ اس زمانہ میں بھی بعض سکالرلی لوگ اس وجہ سے دم نہیں توڑتے کہ مضمون کہیں قطع نہ ہوجائے۔ وہ لمبا فقرہ بولتے بولتے جب تک بات بیان نہ ہوجائے وہ فل سٹاپ نہیں ڈالتے۔تو یہ طریق حضرت مسیح موعودؑکے ہاں بھی ملتا ہے لیکن اردو میں تو ویسے ہی ’’اور‘‘ کے ذریعے فقرے بہت لمبے ہوجاتے ہیں ۔ اور برے نہیں لگتے۔ مگر انگریزی میں یہ جو سکالرز ہیں بعض دفعہ ان کے فقرے بہت لمبے ہیں ، الجھے ہوئے ، اس لئے ان کا اردو ترجمہ ویسے بھی کرنا تھا مگر میں جانتا ہوں جس کو پڑھ کر جو انگریزی دان احمدی ہیں ان کو بھی پوری بات فوراً سمجھ میں نہیں آئے گی۔ جب تک ان کو سمجھائی نہ جائے۔ کیوں؟ ڈاکٹر صاحب آپ کو سمجھ آگئی ہے؟ جو یہ فقرہ پڑھا ہے۔ ہیں۔ جتنی ذرا آئی ہے وہ سنادیں اچھا چلتے ہیں۔
A provality of wives he has been constantly abused by Christians to use their words for pandering into the specials of his followers. But are also .......... should be visited with such very hard sanction I do not know.
یہاں ایک فقرہ ختم ہوا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو بعض دفعہ انگریز بھی اعتراض کرتے ہیں ۔ جب حضرت مسیح موعودؑکا ترجمہ ہو تو لمبا فقرہ آجائے تو کہتے ہیں یہ تو بالکل سمجھ نہیں آتی۔ ایک تو یہ کہ اس زمانہ میں تو رواج تھا عام۔ ایک ایک صفحہ کے فقرے بھی ہوا کرتے تھے۔ مگر اردو میں وہ عجیب لگتے نہیں ہیں۔ کیونکہ اور دراصل فقروں کے درمیان تفریق کرتا چلا جاتا ہے اور سانس لینے کاموقع دے دیتا ہے۔ مگر انگریزی میں بھی ایک زمانہ میں میں بڑے لمبے لمبے فقرے آیا کرتے تھے۔ ان کی جو کتابیں ہیں فکشن کی اور دوسری بھی۔ فلاسوفیکل بکس اس میں بڑے لمبے فقرے ملتے ہیں۔ آج بھی یہ ابھی تک چل رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ ترجمہ کرنے والوں کا قصور ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے فقروں میں کوئی الجھائو نہیں ہوتا۔ جب ہم پڑھتے ہیں تو مضامین کے گہرا ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ سمجھ آنی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن زبان کے الجھائو کی وجہ سے کبھی یہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اب سنیں اس کا ترجمہ۔ کہتے ہیں چونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے قانون ساز انسان کی پیروی کی یعنی اس کے بنائے ہوئے قانون کو بحال رکھا جو Uferitiesکہاں گیا ہے لفظ، ابھی بتاتا ہوں۔of the oldest ceremonial religion rest of the ufilitiesفرات کے مغرب میں سب سے زیادہ عظیم تر روایتی مذہب کا جو بانی تھا یعنی Mosesاور دنیا بھر میں بھی Mosesکو یہ مقام حاصل ہے کہ ایک عظیم روایتی مذہب کا یہ بانی بنا۔ اس کی پیروی میں اس سے اختلاف نہ کرتے ہوئے اس نے اپنے ماننے والوں کو جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میںسے تھے ،اور یہ بات وہ کہتا ہے کہ Probably with truth. وہ ٹھیک کہتے ہیں جو عرب ہیں وہ اسماعیل ہی کی اولاد میں سے تھے۔ تو اسماعیلیوں کو یعنی اسماعیلی وہ مراد نہیں۔ بنو اسحق کے مقابل پر بنو اسمٰعیل کو وہ تعلیم دی جو اسحق کے بیٹے موسیٰ نے بنو اسحق کو دی تھی۔ تو کہتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس پر تعجب کی کیا بات ہے اور یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر بد تمیزی اور اس قدر گندہ ذہنی کے استعمال کا موقع کیسے پیدا ہوگیا۔ وہ الفاظ جو لکھتا ہے وہ دوبارہ بتارہا ہوں ۔ یہ میں نے مضمون بیان کیا ہے جو اس کا ترجمہ بنتا ہے۔ اب سنیں غور سے۔
‏The son of the father of the faithful a provality of wives He has been constantly absued by Christians.وہ مسلسل عیسائیوں کے حملوں کا نشانہ بنارہا ہے۔To use their words for pandering to the day spasion of his followers.۔ ان کے الفاظ میں اپنے ماننے والوں کی جنسی خواہشات کی دلالی کرنے والا شخص۔ یعنی Pendralوہ ہوتا ہے جو ایک بے حیاء کو دوسرے بے حیا ء سے ملاتا ہے۔ ایک جنسی دیوانے کا تعلق ایک اور جنسی مریض سے جوڑتا ہے اور یہ کام کرتا ہے۔ یہ آنحضرتﷺ کے متعلق ان خبیثوں نے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔کہتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیسے ان کو یہ جواز ہے۔ کیسے حق حاصل ہوگیا؟ کہ ایک ایسا شخص جو ان کے مذہب کی دو شاخوں کو جوڑ رہا ہے اور جس کے وہ خود قائل ہیں اسی تعلیم کو اسماعیل بنو اسحق کے بھائی ، بنو اسماعیل کو دے رہا ہے ، اس پر یہ بکواس کررہے ہیں۔ کہتا ہے
Pendring to the day spassion to his followrs but while the allounce of provality, the wives should be visited with such very hard senture. I do not know. Surely the example of Soloman and David the man of the God's own heart.
اب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریر دیکھیں بالکل یہی تھی جو میں نے آپ کو پڑھ کر سنائی تھی۔ اس کی تائید میں یہ بیان پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ Surely the example of Solomen۔ یقینا سلیمان علیہ السلام کی مثال and Davidاور دائودعلیہ السلام کی مثال۔The man of the God's own heartوہ جو عین خدا کی دل کی محبت کے مطابق تھا۔ دل کی آرزو کے مطابق۔ یعنی جو خدا کا پسندیدہ تھا۔ Which he had found to fulfil his law۔ جس کو خدا نے دریافت کیا تھا کہ وہ اس کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ Mighty pleed for a little Mercy particularly as Jesus nowhere۔ اب یہ بھی پڑھنے والی بات ہے۔ کہتے ہیں Might pleed for a little Mercyیہ طرز بیان ہے۔ یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ رسول اللہﷺ ان سے رحم مانگیں ۔ مطلب ان کا یہ طرز بیان ہے انگریزی کامطلب ہے کہ تمہیں کچھ خوف کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رحم کا حق رکھتا ہے تو یہ شخص ہے۔ اگر تم انصاف کے سارے تقاضے بالائے طاق رکھ دیتے ہو۔تو سوچو تو سہی کہ کیا ایسا شخص ظلم کا مستحق ہوسکتا ہے۔ پس رحم مانگنے سے مراد یہ نہیںکہ واقعتہً رحم کی بھیک مانگی جائے۔ مراد یہ ہے کہ یہ شخص ظلم کا ہر گز مستحق نہیں ہے۔ یہ کہنے کے بعد کہتے ہیں Jesus no where expressly forbids it in any one of the twnety Gospels.۔کل جو بات میں نے کہی تھی اس کے بھی حق میں گواہی مل گئی۔ میں نے کہا تھا کہ انہوں نے فرضی بات بنائی ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک شادی کی تعلیم دی ہے۔کہتے ہیں ۲۰گاسپلزمیںایک بھی ایسی آیت نہیں کہ جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ یقینی طور پر یہاں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک شادی کی پابندی کا حکم دیا ہے اور ایک سے زائد شادیوں کو ناجائز قرا ردیا ہے۔ Apology for Muhammad by Godfray Higins اپالوجی کے نام پر یہ بات کررہا ہے مگر رسول اللہﷺneed no apology۔ یہ اس کاایک طرز بیان ہے ۔ اس لئے اس پر ہمیں اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ پھر یہ لکھتا ہے Apology for Muhamamdاسی کتاب میں گاڈ فری ہگنز صفحہ ۸۵،۸۶ ۔ یہ پیرا جو تھا صفحہ ۷۵ کا تھا۔ یہ آپ کو ہمارے ریسرچ گروپ نے ابھی دیا ہے ناںتازہ۔ ربوہ سے آیا ہے اچھا۔ اچھا انہوں نے فوری کارروائی کی ہے ماشاء اللہ پیغام بھیجتے ہی فوراً جواب آگیا۔
But if the allounce of a provality of wives to his fellowers though with many very strict regulations. May aford to the Christian preasts a moment yet there are some other of this presess which may induce the cool inquirer of the truth to doubt not perphas to deny all together the charge of pendreny their day passion.
‏Pendingکا مضمون کہہ رہا ہے۔ اوّل تو تم لوگ یہ سوچو کہ جو اجازت دی گئی ہے اس کو اتنی سخت شرطوں سے باندھ دیا گیا ہے کہ اس کے متعلق عیاشی کا لفظ استعمال ہو ہی نہیںسکتا۔ اس کو انسانی نفس کی غلامی کا نام دیا جا ہی نہیں سکتا۔ اس کا بالکل بے تعلق ہے۔ ان شرطوں کے ساتھ تم جب اس اجازت کو پڑھو گے تو اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اس شخص کی دوسری تعلیمات کو بھی تو نظر کرو۔ اس کی زندگی، اس کے طرزِ بود وباش کو دیکھو۔ کیا یہ بدکاروں اور اوباشوں کی طرزِ زندگی ہے۔ تو انصاف سے کام لو، عقل سے کام لو اور آنحضرت ﷺ کی اس تعلیم کو ، یہ تو رسول اللہﷺ کی تعلیم کہہ رہے ہیں مگر مرادو ہی ہے جو خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ تو کہتے ہیں اس تعلیم کو جس کو تم محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سمجھ رہے ہو اس کی دوسری تعلیمات پر بھی تو نظر کرو۔ کیا یہ دو باتیں اکٹھی ایک وقت میں ہو سکتی ہیں ۔ ایک عیاش کے دماغ کی پیداوار یہ تعلیم ہو جس کا یہ کردار ہو ، جس نے اپنی قوم کو اس قسم کی زندگی کی طرف بلایا ہو۔
‏The cool inquirer of the truth.۔ ٹھنڈے دل سے غور کرنے والا، جستجو کرنے والا۔ یہ بھی تو دیکھے کہ اس چارج پنڈنگ والے کو چارج کو آپ کی دوسری تعلیمات کلیتہً ردّ کررہی ہے۔ The fast of Ramazanاب یہ جس میں سے گزرر ہے ہیں ہم ،اس کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
The fast of the Ramazan which by the serculating effects of the lunar years must often fall in the hotest days of our Isiatic summer
کیایہ عیاش قوم کی تعلیم ہے کہ ایک مہینہ کے روزے رکھو۔ ایسے ممالک میںبھی جہاں بسا اوقات اتنی سخت گرمی کے روزے آتے ہیں کہ انسان برداشت نہیں کرسکتا اس وقت پیاس کے تقاضو ں کو ۔
When the pious Muslmen are forbidden to taste a moral of food or even a single drop of water to their parching thrist from morning to evening, for thirty days together, is surly something not very like pending to the passion or.......
یہ تعلیم تو پینڈنگ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی۔
What will the watery of pleasure the indolence sun of luxury say to the pilgrimig to Mecca.
کہتا ہے یہ جو بے تمیزیاں کرنے والے اور حق میں بولنے والے ہیں ان الزامات کے وہ مکہ کے pilgrimig(حج)کو کیا کہیں گے؟ یہ بھی ایک عیاشی کا طریق ہے۔
Muhammad surely will not be accused of pendring to pleasure in ordring if indeed he did order which I doubt this terrible journey.
یہ کتنی خوفناک journey ہے ۔ مکہ کی journey خاص طور پر گرمیوں کے زمانہ میں ۔کہتا ہے اگر رسول اللہﷺ نے یہ حکم دیا ہے ، یہ الفاظ بڑے دلچسپ ہیںIf indeed the did order which doubt this terrible jouney.۔مرا د یہ ہے کہ یہ محمدرسول اللہﷺ کے دماغ کی کمپلینٹ دے رہا ہے کہ دماغ کی پیدوار ویسے بھی نہیں ہوسکتی، یہ خدا کا ہی کلام ہوگا۔ یہ حکم دینا کہ سب دنیا سے لوگ اس گھر میں آیا کریں اور اس مصیبت سے آیا کریں اور اس طرح سختیاں جھیل کر واپس جایا کریں ۔ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے دماغ کی مجھے ایجاد نہیں لگ رہی، یہ کوئی مجبوری ہے کہ کوئی اوپر سے آیا ہوا حکم ہے۔ اب بولرفارچ جو کہ اسسٹنٹ ماسٹر ان دی ہیرو سکول لیٹ فیلو آف ٹرنیٹی کالج آکسفورڈ ہیں۔ بہت زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اور ، بہت عظیم الشان دفاع کیا ہے۔ اس لیے ان کا بھی ذکر بڑی محبت اور جذبہ احسان کے ساتھ ضروری ہے۔ polygamyکے اوپر میں بتا رہا ہوں آپ کے ساتھ، آپ کے سامنے۔
Polygamy is an insitution which brings from causes far to deep, far to deep down among the roots of society for any reformer however great to abolish it by the word of his mouth or of the stoke of his pen.
کہتا ہے یہ جو مسئلہ تعدد ازواج ہے یہ ساری دنیا میں انسانی سوسائٹی کے اندر ایسا گہرا سرایت کیے ہوئے ہے اور اس کی جڑ یں تاریخ میں بھی اور تمام انسانی قوموں میں بھی اتنی گہری نیچے تک اتری ہوئی ہیں کہ کسی انسان کو اختیار اور طاقت نہیں ہے کہ اسے کلیتہً کالعدم قرار دے دے۔کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خواہ کتنا بڑا ہی ریفارمر ہو۔ اس کیلئے یہ ناممکن ہے کہ
abolish it by the world of his mouth or of the stoke of his pen. In abolishing idolatry. Muhammad found among the Arabs as I have shown in my last lecture and historical ground work of belief in the unity of the Goded. And even in the existing religious sentiments in his favour and he was not backward to aware himself of itself.
کہتا ہے جہاں تک شرک کے خلاف آنحضرت ﷺ کا جہاد تھا اور بڑا عظیم جہا دتھا۔ باوجود اس کے کہ عرب سوسائٹی مشرکانہ تھی، مگر اس مشرکانہ سوسائٹی کے پس منظر میں بھی توحید کی تعلیم موجود تھی اور خود اس زمانہ میں بھی ایسے ایلیمینٹس موجود تھے جو اور ایسے اندرونی محرکات تھے جو اس توحید کی تعلیم کے مددگار بن سکتے تھے۔ اس لیے اگرچہ یہ بہت بڑا جہاد ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ مددگار بھی تھے جو آنحضرت ﷺکی توحید کے جہاد کے ممد اور معاون تھے۔
Existing religious sentiments in his favour and he was not backward to aware himself of itself.
اور اس معاملہ میںوہ پیچھے نہی رہا۔ اس توحید کے پس منظر سے استفادہ کرنے میں اور ان جذبات میں جو سینوں میں پائے جاتے تھے مگر ابھرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ ان سے استفادہ کرنے میں محمد رسول اللہﷺ نے کوئی کمی نہیں کی یعنی backwordپیچھے نہ رہے۔ But in forbidding polygamy he would have found no such support.۔ polygamy کے مقابل پر جو جہاد ہے اس کیلئے آپ کے پاس کوئی بھی بیرونی ممد اور معاون نہیں تھا۔ تمام سوسائٹی عرب کی بھی، دنیا کی بھی ۱۰۰ فیصدی پولیگمی polygamy کی قائل چلی آرہی تھی۔
There does not seem among the hot spirits of Arabia to have been even so much as a flouting sentiment in favour of monogamy. And the women themselves were as contented with this part of their condition as weel their masters.
کہتے ہیں کہ عرب میں ایک سایہ بھی فضا میں تیرتا ہوا آپ کو دکھائی نہیں دے گاجو پولیگمی polygamyکے خلاف ہو۔ یعنی ایک شیڈ بھی نظر نہیں آئے گا۔ ایک aspectبھی نظر نہیں آئے گا۔ کسی جگہ ساری عرب سوسائٹی میں ، جہاں یہ شبہ پڑ سکتا ہو کہ کچھ جذبات پولیگمی polygamy کے خلاف ہیں۔ حتی کہ خواتین ، خود وہ بھی اپنے ماسٹر ز کے ساتھ سوفیصدی متفق تھیں ۔ اور اس بات پر راضی بر ضا ہو چکی تھیں اور اس اصول کو تسلیم کرچکی تھیں۔ خوشی کے ساتھ کہ ہاں پولیگمی(Polygamy)ہونی چاہیے۔ اور مرد کا حق ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔ کہتا ہے:-
As a true Arab Muhammad recogonised polygamy as an existing institution as a reforming legislator. He made many regulatoins for lessening its evey. But it is hardly more fair on these grounds to say that Muhammadanism is responsible for polygamy.
کہتا ہے آنحضرتﷺ نے ان حالات میں جو کچھ ممکن تھا تعدد ازواج کے بد اثرات کوکم کرنے کیلئے وہ سب کچھ کیا اور ان حالات میں بڑی ناانصافی ہے ، بڑا ظلم ہے یہ کہنا کہ گویاا سلام نے پولیگمیpolygamy کی حمایت کی ہے اور اس کو تقویت بخشی ہے۔ کہتا ہے اسی طرح ظالمانہ بات ہوگی جیسے فقرہ ابھی چل رہاہے ، فقرہ ختم نہیں ہوا ، میں نے اپنا دم لینے کیلئے فقرہ توڑا ہے۔ ان کے قلم کا دم نہیں ٹوٹا۔ And then it is to say that Christanity is responsible for slavery.۔ کہتا ہے ایسی ہی ظالمانہ بات ہوگی کہ جیسے یہ کہنا کہ عیسائیت غلامی کی تعلیم کی ذمہ دار ہے۔ اگر یہ جائز ہے تو پھر بیشک یہ بھی کہہ لو اور اگر یہ جائز نہیںتو پھر نہیں۔لیکن ساتھ جو بیان کرتا ہے معلوم یہ ہوتا ہے آگے جاکے کہ یہ کہنا تو پھر بھی جائز ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ عیسائیت غلامی کی تعلیم کی ذمہ دار ہے مگر یہ بہر حال جائز نہیں ہے کہ اسلام نے یا حضرت رسول اللہؐ ن ے ایک سے زیادہ شادیوں کی حمایت میں کسی کارروائی کا آغاز کیا ہو۔ جو بھی کیا ہے اس کے برعکس اس کے بد اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی حمایت کے آغاز کا کوئی الزام آپ کے اوپر عائد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد یہ لکھتا ہے:
‏The newtestament contains it is true no direct condemination of slavery۔ کہتا ہے نئے ٹیسٹامنٹ میں ایک بھی براہ راست کنڈمنشینز سلیوری کی نہیں ملے گی آپ کو ۔ On the contravry it recogonizes it as an existing institution۔ کہتا ہے اس کے برعکس اسے ایگزسٹنگ انسٹی ٹیوشن کے طور پر نیوٹیسٹا منٹ تسلیم کرتا ہے۔
And saint Paul is atleast as precised upon the duties of servents, whom by the way he calls by the down right name of slaves.
فقرہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔ مگر مراد یہ ہے کہ سینٹ پال نے نوکروں کی ذمہ داریوں کو اتنی قطعیت کے ساتھ ، اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جن کو وہ غلام کا down right nameدیتا ہے۔ وہ ہر نوکر کو انسانی غلام سمجھتے ہوئے ایک غلام کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کی ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہے۔ A term hardly used in the Quran۔ ایک ایسی اصطلاح جو قرآن کریم میں مشکل سے ہی استعمال ہوئی ہوگی۔ نہیں ہوگی۔ ہر خدمتگار کو قرآن کریم نے کہیں بھی غلام نہیں کہا ۔ لیکن کہتا ہے سینٹ پال کہتا ہے ۔ اس لیئے میں نے جو استنباط کیا تھا کہ وہ دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ عیسائیت پر تو الزام لگ سکتا ہے کہ غلامی کو ترویج دینے میں اس نے کام کیا مگر اسلام پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ تعدد ازواج کے مضمون کا اس نے آغاز کیا یا اس کو تقویت دینے میں کسی قسم کی کوئی کوشش کی۔
A term hardly used in the Quran to their masters as he is upon the duties of masters to them.
کہتا ہے جیسا کہ سینٹ پال ماسٹرز کی ڈیوٹی بیان کرنے میں بھی واضح اور قطعی ہے ۔ کم از کم اتنی ہی وضاحت اور صفائی کے ساتھ تمام نوکروں کی ذمہ داریوں کو بیان کررہا ہے اور ان کو slaveکے نام سے یاد کرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔
But no Christian will grant on this law that his religion has either senction slavery is responsible for it.
کہتا ہے اس کے باوجود کوئی عیسائی یہ تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ سینٹ پال نے کرسچنٹی کو نہ بلکہ سلیوری کو یعنی غلامی کو جائز سمجھا اور اس کو ترجیح دی۔ جہاں تک جائز سمجھنے والا حصہ ہے یہ مشکوک ہے۔ کیونکہ سینٹ پال کے بیان میں ایسی باتیں قطعیت سے ملتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سلیوری کو جیسا کہ قبول کیا گیا تھا رواج کے مطابق، اس وقت ان حالات میں جائز سمجھا گیا تھا ورنہ اس کے خلاف بیخ کنی کی کوئی کوشش کی جاتی۔ لیکن کوئی ایسی کوشش نہیں کی گئی۔ کوئی ایسا حوالہ نہیں ملتا جس میں اس کو کنڈم کیا گیا ہو۔ بلکہ پیرابلز(pyrables)میں یہ ملتا ہے کہ جو خدا کے نوکر مثلاً پیرابل ون یارڈ میں جس طرح نوکروں کو پیش کیا گیا ہے وہ بھی سلیوری کا رنگ رکھتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے حوالے ایسے ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سلیوری کو نام آنے پر بھی کنڈم کرکے غیر مذہبی قدر کے طور پر ردّ نہیں کیا گیا اور یہ نتیجہ نکال رہے ہیں بال ویل باکل درست نکال رہے ہیں۔
But we have to deal with facts as they are and it is a fact that slavery has co-existence with Christianity.
کہتا ہے ہمیں تو(ابھی کچھ حصہ بیچ کا چھوڑ دیا ہے میں ہے) ہمیں تو واقعات کے پیچھے چلنا ہے ۔ فرضی دلائل پیش کرنا ہمارا حق نہیں ہے اور واقعات ہمیں یہی بتارہے ہیں۔
That slavery has co-existence with Christanity. Nay has professed to justify itself by Christanity even till this ninteenth century.
کہتا ہے واقعات بہر حال یہی ہیں کہ کرسچینٹی نے سلیوری کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملاکر عمر گزاری ہے اور اس کے حق میں اس کو جسٹی فائی(justify)کرنے کے حوالے آج تک انیسویں صدی تک ملتے ہیں کرسچینٹی میں۔ اب بتائیں اس کے باوجود کہتا ہے کہ تم لوگ یہ پسند نہیں کرتے اور اس کو ناجائز سمجھو گے کہ اگر کوئی کہے کہ کرسچینٹی نے سلیوری پید اکی یا سلیوری کو تقویت دی۔ مگر میرا خیال ہے اب وقت ختم ہوگیا ہے۔ کیوں جی۔ کافی دلچسپ ہیںیہ بعض حوالے۔ انشاء اللہ باقی کل سہی۔ ٹھیک ہے۔ یہاں تک پہنچا ہوںمیں ۔ یہ الگ رکھ لیں ۔اچھا جی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ8؍رمضان بمطابق29؍جنوری 1996ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلث و ربع۔ فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃً اوماملکت ایمانکم۔ ذلک ادنی الا تعولوا۔
اور اگر تم یہ خوف رکھتے ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو جو بھی تمہیں پسند آئیں عورتوں میں سے ان سے دو دو، تین تین، چار چار نکاح میں لائو۔ فان خفتم پس اگر تم یہ ڈرتے ہو کہ انصاف سے کام نہیں لے سکو گے یا انصاف کو قائم نہیں رکھ سکو گے فواحدۃً تو صرف ایک ہی کی اجازت ہے۔ اوماملکت ایمانکم یا جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ ذلک ادنی الا تعولوا یہ زیادہ قریب ہے اس بات سے کہ تم ظلم سے بچو۔
یہ آیت ہے جس پر تفسیر جاری ہے۔ اس سلسلے میں کل میں نے مثنیٰ و ثلث و ربع کے محاورہ سے متعلق ایک فلسطین سے آیا ہوا نوٹ پڑ ھ کے سنایا تھا جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ عرب اس کے سوا اوپر کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اسی طرز پر۔ اس میںمَیں بیان کرچکا ہوں کہ وہ طرز بیان مختلف ہے اور یہ طرز بیان مختلف ہے اور دوسرے میں نے شک کا اظہار کیا ۔ ہوسکتا ہے شاید حضرت امام بخاریؒ کے اس قول، اس تبصرے کو سمجھنے میں غلطی لگی ہو جو میں نے سمجھا یہ تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ عربوں میں اس سے زیادہ کا استعمال موجود ہی نہیں۔ چارچار کے بعد پانچ پانچ، چھ چھ ، سات سات کا استعمال عرب نہیں کرتے تھے۔ تو اس کے جواب میں فلسطین سے وہ خط آیا تھا کہ ان کے نزدیک استعمال ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق ایک حافظ مظفر صاحب نے اور ایک سیّد عبدالحئی صاحب نے بھجوائی ہے (وہ کہاں ہے؟ یہ ہے)۔ یہ ضمنی بحث ہے مگر اب چونکہ ایک دفعہ چھڑ چکی ہے اس لئے اسے کسی کنارے تک پہنچانا مناسب ہوگا۔ حافظ صاحب نے تو بہت باریکیوں میں اتر کر لغوی نحوی بحثیں اٹھا کر یہ دکھایا ہے کہ عربوں میں اس کے علاوہ دوسرے استعمالات بھی زیر بحث آئے ہیں۔ لیکن خلاصہ اس بحث کا یہ بنتا ہے کہ اکثر جنہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس سے زیادہ جائزہے وہ محض منطقی استدلال سے نہیں(ناں) محض لغوی اور نحوی استدلال سے یہ بات کرتے ہیں اور ان کے مقابل کا جو گروہ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ تم محض ایک خیال آرائی کررہے ہو۔ عربوں میں سماعی طور پر اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ عرب شعراء نے یا جو آنحضرت ﷺ سے پہلے کے عرب فصحاء تھے انہوں نے اس کو اس سے زیادہ استعمال کیا ہو۔ ربع تک تو قطعی طور پر ملتا ہے اس کے علاوہ نہیں ملتا۔ اس لئے ایک چیز ہے سماعی۔ وہ سماعی سے مراد یہ ہے کہ جس کو ہم نے رواج میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھا اور سنا ہو تو اس پہلو سے چار تک بات ختم ہوجاتی ہے ۔ اس کے مقابل پر دوسرا گروہ ان سے دلیل دیتے وقت متنبی کا حوالہ دیتا ہے کہ متنبی نے کون سا سداس کا لفظ استعمال کیا تھا۔ متنبی نے (کہاں ہے وہ حافظ صاحب کا نوٹ؟) یہی ہے متنبی کا ذکر کہا ں غائب ہوگیا ہے۔ یہ تو مشہور شاعر عمیط اسدی کی بات ہورہی ہے (حافظ صاحب نہ شاہ صاحب یہ ٹھیک ہے) متنبی نے اپنے ایک شعر میں سداس استعمال کیا ہے(سداس ہی ہے) لیکن تنقید نگاروں نے متبنی کے اس استعمال کو غیر فصیح قرار دیا ہے۔ چنانچہ حریری نے بھی اس پر تنقید کی ہے ، جو عرب جواہل قلم ہیں ان میں ایک بہت ہی بلند پایہ چوٹی کا مقام رکھنے والے ہیں جن کے مقامات حریری اپنے رنگ میں اپنی فصاحت و بلاغت میں بے مثل قرار دیئے جاتے ہیں۔ اس حریری نے اس کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ فصیح و بلیغ بات ہے۔وہ کہتا ہے عربوں میں یہ مستعمل نہیں تھا۔ اس لئے گرائمر کی رو سے بات گھڑ لینا اور بات ہے اور ایک فصیح موجود کلام کے طو رپر اس کو دلیل پیش کرنا بالکل اور بات ہے۔ پس ان سب بحثوں کا خلاصہ آخر یہی بنتا ہے کہ حضرت امام بخاریؒ کا موقف بالکل درست ہے۔ یہی ان کی مراد تھی کہ فصحائے عرب میں اور بلیغ کلام بولنے والوں میں ربع کے بعد پانچ پانچ، چھ چھ ، سات سات کا مضمون نہیں ملتا۔ دوسرے وہ جو شعر انہوں نے بیان کئے ہیں وہ میں نے دیکھے ہیں ۔ ان میں چھ چھ، سات سات، آٹھ آٹھ، نو نو کا مضمون ہے ہی نہیں۔ صرف چھ اور سات اس وزن پر استعمال ہوا ہے۔
اس لئے ویسے ہی وہ بحث ہمارے مقصد سے بے تعلق بن جاتی ہے۔ یہ جوہے(ربع، دو ہونا ، دو تین) مثنی ثلث ربع، دو دو، تین تین، چار چار۔ یہ جو مضمون ہے اور یہ محاورہ ہے یہ ان شعراء نے بھی اس طرح استعمال نہیں کیا۔ مثلاً خُمٰسَ کہہ کر میں نے ضربیں لگائیں یا ضرب لگائی وہاں صاف اس شعر سے پتہ چلتا ہے ، پانچ ضربیں لگائیں۔ پانچ پانچ ضربیں نہیں۔ یہ کون اس وقت گن گن کے پانچ پانچ ضربیں لگایاکرتا ہے میدان جنگ میں۔ لیکن چار ضربیں لگائیں، پانچ لگائیں، چھ لگائیں۔ اس طرح وہ ذکر کررہا ہے اتنی بھی اتنی بھی۔ یعنی مضمون کو آگے بڑھارہا ہے۔ اس شعر میں توبہر حال پانچ پانچ کا مضمون دکھائی نہیں دیتا ہے۔ مگر ہو بھی تو وہ شعر فصیح و بلیغ شعر نہیں ہے۔ یہ قطعی طور پر ثابت بات ہے کہ عرب فصحاء اور بلیغ کلام کرنے والوں نے مثنیٰ و ثلث و ربع سے اوپر اس طرز بیان کو استعمال نہیں کیا اور قرآن کریم نے بھی فرشتوں کے ذکر میں ربع تک بات چھوڑدی ہے (جو اَجْنِحَۃُٗ ۔ ذُوْأَجْنِحَۃٍ کا لفظ ہے)۔ اُوْلِیْ اَجْنِحَۃٍ دو دو، تین تین، چار چار پروں والے تو وہیں بات کو ختم فرمادیا ہے۔ اس لئے یہ بات اب تک قطعی سمجھیں اس بحث کو اب دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں آپ کے سامنے دو انگریز مصنفین کے حوالے پیش کررہا تھا جو مجھے بہت ہی پسند آئے، ان کیلئے دل سے دعا نکلی اور خواہش بھی پیدا ہوئی کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے ملاقات ہوتی۔ مگر لفظ Late Fellowآف ٹرینٹی کالج سے پتہ چلتا تھا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں Ex. Fellowنہیں ہیں Late Fellowہیں۔ لیکن مجھے پوری طرح ان کی تاریخ کا علم نہیں تھا۔ اس لئے میں نے ربوہ کو لکھا یا از خود انہوں نے بھجوادیا ہے۔ پیغام دیا تھا کہ ذرا تفصیل سے ان کے پس منظر بتائیں۔ یہ کون بزرگ ہیں؟ اب اس کا جواب آگیا ہے ، اب میں آپ کے سامنے مزید تعارف کروادیتا ہوں۔ بائولے سمتھSmithاسسٹنٹ ماسٹر ان ہیرڈ سکول، اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر ہیں (مراد یہ ہے)۔ ان کی کتاب ہے ’’محمد اینڈ محمڈن ازم‘‘۔
‏Four lecutres delivered at the Royal Institutioin London in 1874.۔بہت پرانی بات ہے اور جتنی پرانی بات ہے جس زمانے کی یہ بات ہورہی ہے اتنا ہی ان کا مقام بلند ہوجاتا ہے کیونکہ اس زمانے میں جبکہ اکثر مستشرقین تعصب میں ڈوبے ہوئے تھے، اس جرأت کے ساتھ اور اس حکمت اور عقل کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا دفاع کرنا بہت بڑی نیکی ہے اور واقعتا یہ اس پہلو سے ہمیشہ مسلمانوں کو عزیز رہنے چاہئیں بائولے سمتھ۔اور جس حد تک (جنازے کے علاوہ) دعا کا تعلق ہے ان لوگوں کو دعا میں یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے بڑی بہادری اور جرأت کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کی تائید کی ہے۔ جیفری ہگنز: ان کی کتاب جو میں نے پڑھ کے اس کے حوالے دیئے تھے آئندہ بھی آنے والے ہیں (یہ ہے)۔ یہ صاحب ہیں یارکشائر کے رہنے والے تھے۔ آرکیالوجسٹ تھے۔یہ ان کا مضمون جو تھا کیا کہتے ہیں (اردو ترجمہ آرکیالوجسٹ کا کیا ہے؟) آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والا مضمون ۔ڈون کیسٹر کے رہنے والے تھے جو یارکشائر میں ہے۔An apology for Muhammadانہو ں نے ۱۸۲۹ء میں لکھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ انہوں نے پایا ہے۔ ان کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ Nazariteتھے یعنی اس عیسائی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جس سے اب شاذ شاذ لوگ ملتے ہیں تعلق رکھنے والے۔ مگر وہ موحد تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بائبل سے کٹے ہوئے الگ ایک وجود کے طور پر یہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ جنہوں نے ایک نیا مذہب دے دیا بلکہ نصرانی موحد بھی تھے۔ تثلیث کے خلاف تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امت موسوی کا ایک نبی تسلیم کرتے تھے اور اکثر جو قرآن کریم میں عیسائیوں کا ذکر آتاہے وہ نصرانی کے طور پر ہی آتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اگر چہ وہ ان میں وہ بھی شامل ہیں قرآنی تعریف کی رو سے جو بعد میں تثلیث کے قائل ہوئے اور ایک سے زائد خدا کے ماننے والے بن گئے مگر قرآن کریم نے لفظ نصرانی جو استعمال فرمایا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شروع میں نصرانی ہی تھے اور کرسچن نام کا وجود ہی کوئی نہیںتھا۔ نصرانی ہی تھے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والے کہلاتے تھے۔ وہ جب بگڑے ہیں توپھر کرسچنز کہلائے بعد میں اور کرائسٹ کی طرف منسوب ہونے لگ گئے۔ مگر اصل نصرانی جو محاورہ ہے اس کا غالباً تعلق صرف Nazariteسے نہیں بلکہ نحن انصاراللہ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اگر اعلیٰ رنگ کا معنی کیا جائے تو نصرانی وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے نحن انصاراللہ کا نعرہ بلند کیا تھا۔
یہ اس لئے مضمون دلچسپ ہے ہمارے لئے کہ قرآن کریم نے جو یہ فرمایا کہ مسیحیوںنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جواب میں من انصاری الی اللہ یہ اعلان کیا تھا کہ نحن انصاراللہ ۔ اس کا ذکر عیسائی تاریخ میں نہیں ملتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے معین طور پر کہا ہو کہ انصاری کون ہے۔ لیکن یہ ذکر ضرور ملتا ہے کہ موحد عیسائی وہ ہی تھے جو نصرانی کہلاتے تھے اور یا پھر ایبونائٹس تھے وہ بھی نصرانیوں کی ہی ایک قسم ہے۔ ا س سلسلے میں مَیں تحقیق کے متعلق پہلے بھی بیان کرچکا ہوں۔ کہ غالباً ان کا وجود ’’میسو پٹامیہ‘‘ میں مل جائے گا جو عراق کے شمالی علاقے ہیں ان میں بھی وسط میں شاید مل جائے ۔ مگر زیادہ تر شمالی علاقے کے پہاڑوں میںیہ پرانے فرقوں کے جو بچے ہوئے حصے ہیں وہ ابھی تک ملتے ہیں۔ اس لئے جن کی رسائی ہو ان کو تحقیق کرنی چاہیے۔ ان کا بہت سا لٹریچر ہے جو غائب کردیا گیا ہے اور اس میں قرآن اور اسلام کی تائید میں بہت مواد ہے جو موجود ہونا چاہیے۔ اس لئے جہاں بھی کسی احمدی کا بس چلے، رسائی ہوسکے اسے ایبونائٹس کی اور نصرانیوں کی بائبل تلاش کرنی چاہیے ۔ اس سے بہت کچھ ان کے باطل عقائد کی تردید کا سامان مہیا ہوگا۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ نصرانی اس وقت تک موجود تھے یعنی پچھلی صدی تک اور اب یہاں پتہ کرنا چاہیے انگلستان میں بھی تحقیق کروانی چاہیے یہ کون لوگ ہیں؟ آیا ان کا کوئی چرچ موجود ہے کہ نہیں؟ کوئی باقاعدہ جماعت منظم موجود ہے کہ نہیں اور لٹریچربھی ہوسکتا ہے کچھ مہیا ہوجائے۔ ان کے خاندان کا بھی پتہ کروائیں یہ آرکیالوجسٹ صاحب ہیں جیفر ہگنز۔ ان کی فیملی ڈان کیسٹر میں ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ ان کی Personal Library(پرسنل لائبریری) بھی ہو۔ وہاں سے ہمیں بہت سی کچھ چیزیں مل سکیں۔ (ہیں؟۔۔۔ ان کے متعلق کہا ں ہے وہ۔ وہ کیوں آپ چھپا کر بیٹھ گئے ہیں۔ (ہیں؟ اس میں آگئے ہیں) کوئی نئی بات ہے۔۔۔۔ یہ تو بے تعلق سی باتیں ہیں۔ اچھا اس میں)۔ ان کے بچے ابھی تک موجود ہیں ، ابھی تک زندہ ہیں(ماشاء اللہ) ہیں؟ ہاں جو میں کہہ رہا ہوں ۔ان کے۔ اس وقت ان کے پسماندگان میں سے۔ اگلی نسل بھی تو گزری ہوگی کچھ۔ اگر ہو تو ان سے یہ رابطہ ۔ ان کے گھر کے وزٹvisit تک۔ اگر محفوظ رکھا گیا ہو اور لائبریری دیکھنی چاہیے ، اس میں کیا کیا کتابیں تھیں؟ کیونکہ اس مضمون پر ہمیں بہت تھوڑا مواد مل رہاہے کہ اصل نصرانی۔ انجیل کیاتھی؟ ان کے لٹریچر ، ان کے جو آپس میں بحثیں ہوا کرتی تھیں اس کا مواد۔ معین طور پر ہمارے سامنے جو کچھ بھی آیا ہے اب تک۔ میں نے ریسرچ گروپ کو اس پر لگایا ہوا تھا۔ بہت تھوڑا ہے میرے نزدیک وہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے مزید کی تلاش چاہیے(یہ لے لیں)۔
اس نے ایک اور دلچسپ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس کا مواد ضرور وہاں کہیں ملنا چاہیے اس کے نوٹس میں۔ وہ ضائع نہیں ہوجائے۔ اس لئے مجھے زیادہ دلچسپی اس لئے بھی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ پرانا نصرانی لٹریچر بلکہ
He had intended to exhibit in a future book. (In a future book)ہوگا غالباًHe Had intended to exhibit in a future book the Christianity of Jesus Christ from his own mouth. He claimed to be a Christian regarding a Lord as a Nazarite.
وہی ہے نصرانی ۔Dictionary of National Biography by Lrenen Stephen۔(یہ جو میں اقتباسات پڑھ رہا تھا اس میں کہاں تک پہنچا تھا but we have اچھا۔ یہاں تک ٹھیک ہے۔ یہ حوالہ کس کا چل رہا ہے۔ ان دونوں میں سے Bob Smith؟
But we have to deal with facts as they are ‘‘
ہاں یہ بات میں نے کل کہی تھی۔ پڑھ لی تھی۔
facts as they are and it is a fact the slavery has co-existed with Christianity may has professed to justify itself by christianity even till this 19th century. Now the Mosaic law so far from prohibiting polygamy did not even put any limitation on it. The patriarch indulged in polygamy so did the judges, so did the kings and not least so the more elevated and the more spritiually minded amongst them.
کہتے ہیں کہ جہاں تک موسیٰ علیہ السلام کے قانون کا تعلق ہے۔۔۔بجائے اس کے کہ تعدد ازدواج کے خلاف کسی قسم کاکوئی ۔۔۔۔ حکم اس میں ملتا ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں بلکہ (موسیٰ ؑ نے تو )۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کے قانون نے تو ازدواج ازواج کی تعداد پر کوئی بھی پابندی نہیں لگائی۔ یعنی کم کرنا تو درکنار اوپر کی limitلمٹ میں پابندی بھی۔ کبھی کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ وہ کہتا ہے The Patriarchs dulged in polygamy جو ان کے بڑے بڑے مذہبی رہنما تھے۔ جو چرچ وغیرہ کے سربراہ تھے patriarchsان میں polygamyکا ثبوت قطعیت کے ساتھ ملتا ہے اور judgesقاضیوں ۔ جو کتابیں ہیں ناں۔ وہ دو ر جو آتا ہے بعد میں حضرت دائود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے بعد وہ judgesکا دورکہلاتا ہے ۔ وہ بھی کتابیں باقاعدہ ان کی Old Testament کا حصہ ہیں اور سلاطین بھی آتا ہے اس کے بعد۔ آپ نے اردو ترجمہ میں دیکھا ہوگا انگریزی میں کہتے ہیں۔۔۔۔۔ judges and kings۔ کہتے ہیں کہ
So did the judges so did the kings and not least so the more elevated and more spiritually minded amongs them.
کہتا ہے اسی طرح قاضی بھی کیا کرتے تھے اورا ن کے سلاطین بھی کیا کرتے تھے اور سب سے اہم اگرچہ آخر پر ذکر ہورہا ہے ۔ جو بھی ان میں سے روحانی طو رپرزیادہ بلند مقامات پر پہنچے ہوئے اور روحانی ذہنیت رکھنے والے لوگ تھے ۔ ان میں بھی تعدد ازواج کا ذکر ملتا ہے۔
The man after God's own heart and the king whose wisdom and magnificance still from folklore of so many eastern countries can hardly be surpassed in this particular even by those Musalman princes who break the law of the Quran and strain the traditions almost to bursting that they may qualify their love of display of their brutal appetites.
خو ب لکھا ہے اس نے یہ کہتا ہے کہ وہ جب بادشاہوں کا ذکر کرتا ہے۔ چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک بھی ایسے بادشاہ کے طور پر یہ مانتے ہیں جو خدا کو بہت پیارا تھا۔ قرآن کریم نے تو نبی کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ علامتیں اور ذکر تو نبیوں والے ہی کرتے ہیں مگرلفظ نبی نہیں دیتے ان کو ۔ بلکہ بادشاہوں میں سے وہ جس کو کہتا ہے وہ The man after God's own heart عین خدا کے دل کی آرزوکے مطابق تھا اور وہ بادشاہ جس کی حکمت کے افسانے دور دو رتک مشرقی ممالک میںایک روز مرہ کی کہانیوں کے طور پر رائج ہوچکے ہیں۔ folklore جو مرغوب روز مرہ کی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ So many eastern countriesبہت سے مشرقی ممالک میں can hardly be surpossed in this particularکہتا ہے وہ بادشاہ ، وہ بزرگ بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو کسی قیمت ، کسی پہلو سے بھی اپنی شادیوں کے شوق اور ان پر عمل کرنے کے پہلو سے بعد میں آنے والے کسی شخص سے مات نہیں کھاسکتا۔ سب سے بالا رہے گا ۔ یہاں تک کہ وہ مسلمان شہزادے جن کو تم پیش کرتے ہو کہ انہوں نے حرم رکھے ہوئے ہیں ان کا ذکر کرکے کہتاہے کہ وہ مسلمان شہزادے بھی جو قرآن کا قانون توڑتے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو کھینچ کر اپنے لئے جواز تلاش کرتے ہوئے اتنا کھینچتے ہیں کہ گویا وہ پھٹ گئی ہیںحدیثیں ۔ ان کا عمل بھی سلیمان کے مقابلے پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اب بتائو تمہیں کیا حق ہے محمد رسول اللہ ﷺ پر حملے کرنے کا۔ کیسا زبردست اس نے خراج تحسین کیا ہے اور کتنی پیاری اور پر حکمت بات کی ہے کہ مسلمان بادشاہ یا شہزادے اگر یہ حرکت کررہے ہیں تویہ جھوٹ ہے کہ قرآن کے مطابق کررہے ہیں۔ وہ قرآنی قانون کو توڑتے ہوئے ایسا کررہے ہیں۔ اور احادیث کے سہارے ڈھونڈتے ہیں اور احادیث میں بھی ان کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے وہ کھینچ تان کر اس کو لمبا کرتے ہیں اورتاکہ وہ اس کے اندر پورے آسکیں۔ آگے کہتا ہے۔
The Arabs of the ignorance for instance allowed any number of wives the Quran limits the number of lawful wives to four. It was a remark of Neopleon that Muhammad was the only eastren legislator who ever attempted to impose any restraint polygamy. A fact which should be born in mind - (see Iron's Modren Egyption 1/121 - 1/128)
‏One(۱)اس کے بعد ہے 121۔ یعنی ایک ۔ پہلا حصہ کتاب کا اس کے ایک سو بیس صفحہ اور ایک سو اٹھائیس صفحہ۔ For analysis of the laws of Islam rellating to woman and slaves)۔ اب یہ حوالہ اس نے بہت اچھا ایک نپولین کا بھی دیا ہے۔ کہتا ہے عرب اپنی جہالت کے زمانہ میں تو جتنی چاہتے تھے بیویاں کرتے تھے ،کوئی قانون، کوئی روایت ان کو روکتی نہیں تھی۔ ہاں قرآن نے اس تعداد کو چار تک محدود کیا۔ لیکن یہاں نپولین کا ایک تبصرہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ نپولین کہتا ہے کہ کسی دنیا کے مشرقی legislatorنے اور مذہبی دنیا میںکسی مغربی legislatorکا ذکر ہی نہیں ملتا۔ جب کہتے ہیں کہ کسی مشرقی legislatorنے تو مراد یہ ہے دنیا بھر میں کسی قانون دان نے قانون ساز نے سوائے محمد ﷺ کے polygamyکو restraint کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بہت ہی زبردست پر حکمت بات ہے جو مسلمان لکھنے والوں کو بھی اس پہلو سے نہ سوجھی۔ اس طرز بیان کے ساتھ پیش کرنے کی توفیق نہ ملی اور نپولین چونکہ اسلام کا بہت قائل تھا اوربہت متاثر تھا اسلام سے اس لئے ۔ بہت اچھے اچھے تبصرے اس کے ہاں ملتے ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک ہے کہتا ہے کہ ’’ساری مشرقی دنیا میں کوئی قانون ساز ایسا نہیں آیا۔ جس نے کبھی بھی تعدد ازدواج کے مسئلے کو کسی حدود کا پابند کرنے کی کوشش کی ہو سوائے محمد(ﷺ) کے‘‘۔ آگے پھر یہ divorceپر چل پڑتا ہے۔ کہتا ہے divorceکا بھی عجیب حال تھا اور عورتوں کے ساتھ جو ظلم اور سفاکی ہوتی تھی ان سب کو آنحضرت ﷺ نے آکر یک قلم موقوف کیا اور اس کو ایک نہایت ہی اعلیٰ اخلاقی پیمانے کے مطابق قانونی سازی فرمائی۔ یہ قانون سازی کا حوالہ رسول اللہ ﷺ کی طرف دیتے ہیں مگر ظاہر بات ہے کہ شریف النفس ہے مسلمان تو نہیں ہوا تھا۔ اس لئے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا نے یہ بتایا۔ اگر یہ کہتا ہے تو پھر یہ بحث اٹھانی اس کیلئے ممکن ہی نہ رہتی کہ رسول اللہ ﷺ کا قصور تھا کہ نہیں تھا۔ وہ ایک قانون دان کے طور پر، ایک قانون ساز کے طور پر آپ کو پیش کرتاہے اور ہر الزام کی بریت کرتا ہے۔ (آگے یہ جب ورثے کی جب بات آئے گی تو اس وقت یہ حصہ کام آئے گا)۔ (اس ملک میں اچھے اچھے لوگ آکے گذر گئے ہیں)
ع خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
(ان کو یہ اتنا زیادہ اچھالتے بھی نہیں ہیں اپنے لٹریچر میںاسی لیے، یعنی شریف لوگ تھے)۔اب ایک اور دلیل۔ وہ یہ کہتا ہے pandring and this and thatسب بکواس جوہے۔ اس کے جواب میں یہ اب Godfrey Higginsکی بات کررہا ہوں۔ اس نے Apology for Muhamamdصفحہ ۷۵ پریہ لکھا ہے ۔
The simple austerity of his daily life, to the very last, his hard mats for sleeping on, his plain food, his self imposed manual work point him out as an as ascetic rathes than a voluptuary in most senses of the word.
کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نہایت سادہ زندگی ۔ austerityایسی سادہ زندگی کو کہتے ہیں جس میں کوئی بھی دنیاوی لذتوں کے سامان نہ ہوں۔ خشک، ایک راہبانہ سی زندگی ہو اس کو austerityکی زندگی کہتے ہیں۔ to the very lastآخری سانس تک آپ کا یہ دستور العمل کہ انتہائی سادگی کے ساتھ غریبانہ طور پر رہیں۔ his hard mat for sleeping on آپ کا سخت ٹاٹ جس پر آپ سویا کرتے تھے۔ his plain foodآپ کا نہایت سادہ غریبانہ کھانا his self imposed manual workاپنے اوپر خود جو گھر کے روزانہ کے۔۔۔ چھوٹے موٹے کام وہ اپنے اوپر آپ نے خود لاد دیئے تھے۔ point him out as an asceticایک راحت کے طو رپر آپ کو پیش کرتے ہیں rather than a voluptuaryبجائے اس voluptuaryکے جس کا نقشہ ہمارے مستشرقین کھینچتے ہیں یعنی جو نفس کا بندہ ہو اس کو voluptuaryکہتے ہیں۔ in most scence of the word(voluptuary)کے جتنے بھی معنی ہیں اکثر معنوں میں کسی پہلو سے بھی اس کا اطلاق رسول اللہ ﷺ کی زندگی پر نہیں ہوتا۔
‏Two things he loved perfumes and women۔یہ ٹھیک ہے د وچیزیں آپ کو پسند تھیں ایک خوشبو اور ایک عورت، عورتیں۔ The first was harmless enoughایک تو ظاہر ہے کہ harmlessتھیں۔ and the special case of his wives has a special answer۔ اور جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے آپ کی بیویوں کے مضموں پر غور کرنے سے یہ جواب مل جاتا ہے۔لیکن دراصل وہ اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ میں جو میں نے ایک خطاب کیا تھا لجنہ میں اسی حدیث کو موضوع بنایا تھا وہ چھپ بھی چکا ہے انگریزی میں (یہاں۔ ہیں ناں یہاں؟ کہ نہیں ہے؟)۔ (آپ کو خبر نہیں یہ باقی سب کو ہے۔ انگلستان والوں کو خبر نہیں ۔ وہ اس سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ اس میں یہی مضمون ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے خوشبو اور عورت پسند ہیں دنیا کی چیزوں میں اور وہ باقاعدہ اس کا ترجمہ وہاں سے ہوکر آیا تھا جس کو کافی ناقص تھا اس کو میں نے خود ساتھ بیٹھ کے بعضوں کے ساتھ بیٹھ کے reviseکیا تھا۔ چھپ بھی چکا ہے اور آپ کو علم نہیں ہوا۔ وہ اس سوسائٹی میں ضروری ہے کہ تقسیم کیا جائے کیونکہ یہاں ضرورت ہے اس کی اور اسی طرح یورپ کی دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ ہونا چاہیے)۔
‏( But says the learned writer we are quoting ) (یہ Godfreyجو ہے Godfrey نام ہے ناں اس کا؟ پورانام ہے Godfrey Higgins)۔ Godfrey Higginsاس کتاب میں کسی اور aoutherکا حوالہ دے رہا ہے جس کا ذکر کئے کچھ عرصہ گزرچکا ہے تو اب یہ پھر دہراتا ہے۔But says the learned writer we are quoting کہتا ہے لیکن جو قابل لکھنے والا ہے وہ مزید کہتا ہے اور اب ہم quoteکرتے ہیں اس کو ۔
"Be it remembered that with his unlimited power, he need not have ristricted himself to a number insignificant compared with the 'Harams' of some of his successors.
کہتا ہے لوگوں کو یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ کو اس سوسائٹی میں جب آپ کو پوری طرح نبی تسلیم کیا گیا ہے، لامحدود طاقت تھی جو چاہتے اگر وہ خود بنانا چاہتے تو جو چاہتے بناسکتے تھے اور اپنے آپ کو پابندیوں میں نہ جکڑتے خودہی۔ اس کے مقابل پر جو بعد میں آنے والے بادشاہ گزرے ہیں انہوں نے تو بغیر پابندیوں کے ہر قسم کے معاملات کو اپنے لئے جائز سمجھا ہے اور Haramsکو بھی کسی تعداد کے اندر محدود نہیں کیا۔ جو Haramsان کے تھے ان کے مقابلے پر رسول اللہ ﷺ کی شادیاں insignificantہیں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیںرہتی مقابلے میں۔ پھر دوسری بات کہتا ہے کہ یہ فقرہ اسی طرح چل رہا ہے میں جہاں ٹھہر گیا تھا وہاں فقرہ ختم نہیں ہوا تھا ۔ اب پھرمیں دوبارہ چلاتا ہوں۔
Be it remembered that with his unlimited power, he need not have restricted himself to a number insignificant compared with the Harams of some of his successors that all of them save one were widows.
اب successorsکی بات نہیںہورہی۔ یہ بیویوں کی بات ہورہی ہے، ازواج مطہرات کی ۔ کہتا ہے یہ یاد رکھو سوائے ایک کے ساری بیوائیں تھیں۔ جو کل میں ویسے بھی بیان کرچکا ہوں۔
And that one of these widows was endowed with so terrific temper that Abu-Bakar and Usman had already politly declined the honour of alliance before the Prophet married her. The gratification of living with a Viekson can not surely be excessive.
‏Vieksonکے لفط سے میں کچھ چونکا تھا یہ کیا لفظ استعمال کرگیا ہے۔ مگر وہ میں نے حوالہ دیکھا ہے ڈکشنری میں مطالعہ کیا ہے۔ عام طور پر تو لومڑی کو کہتے ہیں ناں۔ مگر ڈکشنریاں دیتی ہیں کہ سخت تیز مزاج عورت کو بھی Viekson کہتے ہیں۔ جو بات بات پر بھڑک اٹھے اور مصیبت پڑی ہو گھر میں تو یہ اب یہ کہہ رہا ہے کہ یاد رکھو کہ وہ ساری بیوائیں تھیں سوائے ایک کے اور ایک ان میں سے ایسے مشتعل مزاج کی تھیں کہ آنحضرت ﷺ کے عقد میں آنے سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی شادی پیش کی گئی ۔ لیکن انہوں نے توبہ کی کہ نہیں۔ کیونکہ ان کا مزاج مشہور تھا۔ کہتا ہے کہ اب مجھے بتائو کہ ایک ایسی عورت سے شادی کرنا جس کی یہ شہرت ہو ، اس کو تم عیاشی میں شمار کرو گے۔ کوئی عقل کی بات ، کوئی ہوش کے ناخن لو۔ عقل کی بات کرو۔ کوئی اور حکمت ہوسکتی ہے اس کو کوئی عیش و عشرت کی طرف مائل انسان یہ حرکت نہیںکرسکتا۔ لفظ تو سخت بولے ہیں لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ کی تائید میں لکھے ہیں اس لئے ہم ان کوپڑھ کر سنارہے ہیں ۔
Several of these marriages must have been entered into from the feeling that those woman whose husbands had fallen in battle for the faith and who had thus been left unprotected had a claim upon the generosity of him, who prompted the fight.
یہ مجھے اس لئے بھی خوشی ہوئی دیکھ کہ کل جو میں نے بات پیش کی تھی کہ یہ وجہ ہوسکتی ہے غالباً ایک مستشرق کو جو مسلمان بھی نہیں ہے اس کا مزاج ایسا صاف ہے کہ یہی بات وہ آنحضرت ﷺ کی طرف نیت کے لحاظ سے منسوب کررہا ہے۔ کہتا ہے کہ واضح بات جو دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی بیوائوں سے شادی کرنا جن کے خاوند جہاد میں شہید ہوگئے ، وہ جہاد جو خود آپ نے جس کی تلقین فرمائی تھی۔ اس کو کسی پہلو سے بھی سوائے اس نیک نیتی کے نہیں سمجھا جاسکتا کہ آپ سمجھتے تھے کہ میری اولین ذمہ داری ہے اور میں ان کا پناہ گاہ بنوں کیونکہ میری وجہ سے بیوہ بنیں۔ میری وجہ سے مراد ہے کہ میری تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں یہ بیوائیں بنیں۔
اور یہی مضمون ہے جو حضرت زینب کے تعلق میں جو زید کی مطلقہ تھیں صادق آتا ہے کیونکہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہابنت جحش کو بھی آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر حضرت زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیاہا گیا اور عرب جو خصوصاً مکہ کے قریش اور معززین تھے وہ ہرگز پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کی عورتیں غلاموں سے بیاہی جائیں۔ اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ غلام تھے اس پہلو سے طبعی طور پر ذہن پر ایک تردّد سا تھا۔ خواہ وہ کھلے لفظوں میں بیان کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ پر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی پیروی میں اور آپ کا پاس رکھتے ہوئے وہ شادی قبول کرلی۔ جب وہ طلاق ہونے کو آئی تو پھر رسول اللہ ﷺ قرآن کے بیان کے مطابق بار بار زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھاتے رہے کہ تم طلاق نہ دو۔ اور عجیب ظلم ہے کہ مفسرین میں سے بعض مسلمان مفسرین میں سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا نعوذ باللہ دل آگیا تھا اورشرمارہے تھے دنیا سے ۔ اس لئے اللہ نے حکم دیاکہ بالکل کرو بیشک ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں۔حالانکہ قرآن واضح طور پر فرمارہا ہے کہ بار بار وہ زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا کا خوف دلارہے تھے ۔ کہ اللہ کا خوف کرو اور اس کے ساتھ نباہ کرو جہاں تک ممکن ہے۔جس کا دل آیا ہوا ہو وہ ایسی باتیں تو نہیںکیا کرتا۔ ان سے شادی کرنا بھی وہی روح رکھتا ہے جو بیوائوں سے شادی کرنا ۔ شادی کی روح ہے کہ ایک اعلیٰ اسلامی تعلیم کی خاطر کسی نے قربانی کی ہے تو اس کا سہارا بنیں۔ یہ اس نے Godfreyنے بات خوب کہی ہے ۔ Other marriages were contracted from motives of policy۔ اب other marriagesرہ کو ن سی گئیں پھر۔ کیونکہ آٹھ تو، سوائے ایک کے ساری بیوائیں اور جوایک تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ اس لئے other marriagesسے مراد غالباً اس کی یہ ہے کہ اس کے علاوہ یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے ۔ ورنہ اس کے کوئی other marriagesرہتی ہی نہیں ہیں۔
from the motives of policy in order to consiliate the heads of rival factions perhaps the strongest reason one of which it is impossible to overestimate the force that impelled Muhammad to take wife after wife has his deisre for male offspring. It was a natural wish that he should follow in his steps and carry on his work.
یہ جو بچے کی خواہش ہے اس کو بھی ایک ضرورت حقہ کے طور پر پیش کررہا ہے۔ عرب سوسائٹی میں بیٹا پیدا ہونے کی ضرورت عیاں تھی ظاہر و باہر تھی۔ اور اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی خواہش کہ شاید اس بیوی سے کوئی بیٹا پیدا ہوجائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محرک بنی ہو لیکن یہ دو محرکات مختلف ہیںاس لیے ایک دوسرے کو compromiseکردے گا، بیک وقت دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ایک طرف یہ قربانی کہ اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے جن کے خاوند شہید ہوئے ہوں، ان کو ان کی شہادت کا ایک مرتبہ یہ بھی دینا کہ ان کی بیوائوں سے خود رسول اللہﷺ کی شادی کرلینا بہت بڑی قربانی بھی ہے اور بہت بڑا اعزاز بھی ہے۔ اور ساتھ اس خواہش کو ملادینا کہ بیٹے پیدا ہوجائیں۔ یہ اکٹھے نہیں چل سکتے میرے نزدیک یا یہ ہے یا وہ ہے اور جو پہلا ہے وہ زیادہ قرین قیاس ہے اور رسول اللہ ﷺ کے مزاج اور اخلاق کاملہ کے زیادہ مطابق ہے۔ دوسرے یہ کہ آنحضرت ﷺکی اکثر شادیاں تو اس وقت ہوئیں ہیں جب وہ آیت خاتم النبین نازل ہوچکی تھی۔ یہ بات قطعی طور پر اس احتمال کا قلع قمع کرتی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی طرف ان لوگوں نے منسوب کیا ہے۔ نیک نیتی سے کیا ہے۔ لیکن کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اکثر شادیاں پانچ کے بعد ہوئیں ہیں جو میں کل بتاچکا ہوں۔ ساتواں سال ہے ہجرت کا جس میں زیادہ تر شادیاں ہوئی ہیں اور پانچ میں یہ آیت قطعی طور پر رسول اللہ ﷺ پر ثابت کرچکی تھی کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں کہلائیں گے۔ وما کان محمد ابا احد من رجالکم کہ محمد تم جیسوں میں سے یا انسانوں میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے۔ اتنا حتمی فیصلہ خود خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوچکا ہو او ررسول اللہ ﷺ بیٹے کی خواہش میں شادیاں کرتے چلے جائیں یہ ناممکن ہے۔ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔خواہ کوئی روایت اس کی تائید کرے یا نہ کرے بے تعلق بات ہے۔ مگر یہاں اس مصنف نے ان باریکیوں پر نظر تو نہیں ، مگر اس نے نیکی کے جذبے سے یہ کیا ہے اور آخر پر نتیجہ بھی یہ نکالتا ہے۔
That he should follow in his steps and carry on his work.
رسول اللہ ﷺ کے مزاج کو بہر حال یہ سمجھتا ہے کہ نیک مزاج تھا۔ وہ کہتا ہے کہ یہی ایک صورت ہو سکتی ہے کہ بیٹے کی خواہش ہو مگر اس نیت سے کہ وہ آپ کے نیک کاموں کو جاری رکھ سکے۔ اور آپ ہی کے نقش قدم پر چلنے والا بیٹاہو۔
There is indeed, say Sir William, no ground for supposing that Muhammad ever contemplated the succession of princely office in his own family. The prophetical dignity was personal, and his Political authority exercised solely in virtue of it. But he regard his children with a loving and partival eye. He no doubt also rejoiced in prospect dare to every Arab of having his name in memory perpetuated by male issue. And he might naturally expect that his son should be cherished and honoured by all followers of Islam.
اب میور نے اس بات کو دوسرے twistکے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ خواہش کہ بیٹا ہو عرب رواج وغیرہ کی روشنی میں اس وجہ سے ہوسکتی ہے کہ وہ یہ کہتے ہوں کہ میری اولاد ہمیشہ آنر کے ساتھ دنیا کو نظر آئے اور معزز ایک نسل ہو جس کی عزت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ بھی گویا کہ عزت حاصل کررہے ہوں۔ یہ جو طرز بیان ہے اگرچہ دشمنی کی وجہ سے نہیں مگر ہے غلط۔ دشمنی کی وجہ سے اس لئے نہیں کہ اس سے پہلے کا جو حصہ ہے وہ سر ولیم میور کی تحریر کا اسی تحریر کا پہلے والا حصہ وہ قطعی طور پر ثابت کررہا ہے کہ ولیم میور یہاں کسی دشمنی کی رو سے بات نہیں کررہا کیونکہ وہ یہ کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ یعنی محمدﷺ نے کبھی بھی کوئی ایسا تصور نہ باندھا ،نہ ایسا کوئی معاملہ کیا جس سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ آپ اپنی اولاد میں شہزادیت کو آگے جاری کرنا چاہتے تھے۔ ولیم میور لکھتا ہے کہ آپ کا روحانی اعزاز قطعی طور پر ایک ذاتی اعزاز تھا جو اولاد کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا تھا۔
پس وہ بات جو شیعہ عقیدہ کے لوگوں کو سمجھ نہ آئی۔ کم سے کم ولیم میور اس کو سمجھ گیا ہے آنحضرت ﷺ کے کردار کے حوالے سے۔اور جب کردار کے حوالے سے کہا جاتا ہے تو پھر اس میں وزن پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی اگر محض ایک عیسائی کا ہوتا کا یہ تبصرہ ہوتا تو شیعہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں کیا اس سے؟ عیسائی لاکھ تبصرے کرتے رہتے ہیں مگر ایک عیسائی جواگر اس کو موقعہ ملے تو وار کرنے سے بھی نہ چوکے۔ وہ عیسائی محمد رسول اللہﷺ کے کردار سے یہ بات ثابت کررہا ہے کہ آپﷺ کا کردار اتنا عظیم تھا کہ اس میں کسی تمنا کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا کہ آپ کی اولاد آپ کا روحانی ورثہ پاکر از خود بادشاہوں کے بچوں کی طرح treatکی جائے اور ایک شاہی نسل اس سے جاری ہوجائے۔ اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ جو آخری تبصرہ ہے وہ معاندانہ بہر حال نہیں ہوسکتا۔ پھر یہی مضمون نگار اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتا ہے کہ
for five and twenty years Muhammad remained faithful to his elderly ...... wife
پچیس سال تک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اپنی بوڑھی اور بوڑھی ہوتی ہوئی بیوی سے پوری طرح وفادار رہے۔ ایک ادنیٰ سا بھی اشارہ اس کے برعکس کہیں نظر نہیں آتا۔
For five and twenty years Muhammad remained faithful to his elderly wife. And when she was sixty five.
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پینسٹھ سال کی عمر کو پہنچ گئیں۔
and they might have celebrated their silver wedding.
اور وقت قریب تھا کہ آپ سلور جوبلی اپنی مناتے شادی کی۔
He was as devoted to her as when first he married her.
اسی طرح آپ کا تعلق محبت اور وفا کا استوار رہا جیسا کہ اس وقت تھا جب آپ ﷺنے نئی نئی شادی کی تھی۔
During all those years, there was never a breath of scandal
کہتے ہیں کہ ان پچیس سالوں کے دوران ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب کہ سکینڈل scandalکو معمولی سی ہوا بھی دی گئی ہو۔ a breath of scandleکا مطلب ہے کہ ایک چھوٹا سا سانس سا بھی آیا ہو جس میں سکینڈل پھیلانے کی کوشش کی گئی ہو۔ یعنی ہوا کے طو رپر بھی کوئی ایسا ذکر نہیںملتا۔
....... never a breath of scandal. Thus for Muhammad's is life will bare microscopic scrutiny.
کہتا ہے کہ یہ وہ دور ہے جس میں مائیکرو سکوپ سے بھی دیکھو تو محمد رسو ل اللہﷺ کی ذات ہر عیب سے پاک دکھائی دے گی، ہر داغ سے مبرا دکھائی دے گی۔
Then Khadija died. And though he married many women after wards. Some of them rich in youth and beauty.
اوراگرچہ بعد میں آپ ﷺ نے اوربہت سی شادیاں کیں ۔ بعض بیویاں نہ صرف حسن میںبلکہ مال و دولت کے لحاظ سے بھی غنی تھیں۔ کافی متمول تھیں۔
He never forgot his old wife. And love her best to the end.
وہ آپ نے اس بقیہ چھوٹے سے دور میں بھی کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنی بیوی کو فراموش نہیں کیا۔ اور loved her bestسب بعد میں آنے والیوں سے زیادہ اس پیار کیا۔ رسول اللہﷺ کا ایک قول لکھتا ہے
When I was poor, she enriched me. when they called me liar she alone believed in me. And all the world was against me, she alone remained true.
میں کیسے اس بیوی کو بھلا سکتا ہوں کہ جب سب دنیا مجھے جھوٹا کہتی تھی وہ ایک تھی جو مجھ پر ایمان لائی اور مجھے سچا کہتی تھی۔ جب تمام دنیا میری مخالف تھی وہ اکیلی تھی جو میرے پہلو پہ کھڑی ہوئی اور ہر طرح سے اس نے میری حمایت کی اور وفاداری سے بات نبھائی۔
کہتا ہے کہ
This loving tender memory of an old wife laid in the grave, belongs only to a nobel nature. It is not to be looked for in a voluptuary.
‏what a beautiful commentکہتا ہے کہ یہ الفاظ کسی نفس پرست کے ہو ہی نہیں سکتے۔ ناممکن ہے، انسانی فطرت کے خلاف ہے کہ اتنا عظیم جو تبصرہ فرمایا ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک بوڑھی بیوی پر جس کے ساتھ آپ اکیلے رہے ہیں مسلسل۔ اس کے متعلق کیسی جاہلانہ بات ہے کہvoluputaryکہا جائے ۔ ایک نفس پرست انسان اس کو قرار دیا جائے۔
It is of course a fact that after the death of Khadeja, Muhammad like any other man, whether professed ........ or not during that period took several wives until the ....... by him of the following.
اب کہتا ہے کہ یہ درست ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد رسول اللہ ﷺ نے پھر اور بھی شادیاں کیں ہیں جبکہ خدا کا یہ حکم آخری آگیا کہ اب نہیں۔ لیکن یہ حکم کب آیا ہے؟ شادیاں کب کیں ہیں؟ ۱۰ ؍نبوی میںتو وفات ہوگئی ہے۔ سات میں شادیاں ہوئیں ہیں اور یہ حکم اس کے بعد آیا ہے تو صاف پتہ چل رہا ہے کہ عملاً وہ رسول اللہ ﷺ کی شادی کا جو دور تھا اور وہ حکمتوں کا دو رجن کی وجہ سے شادیاں کی گئیں تھیں وہ ختم ہورہا تھا۔ کیونکہ سات کے بعد پھر کوئی ایسی جنگیں نہیں ہوئی ہیں جو نمایاں طو رپر ، جن میں شہداء کا ذکر ملتا ہو۔ فتح مکہ ہو گئی ہے۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کا وصال بہت قرب تھا اور اس وقت شادی کا جو مرحلہ ہے وہ بے محل دکھائی دیتا تھا۔ اس لیے دراصل وہ پیشگوئی تھی رسول اللہ ﷺ کے وصال کے قرب کی ۔یعنی یہ نہیں تھا کہ تو چاہے گا اور میں روک رہا ہوں۔ عملاً اس بات میں یہ بات تھی کہ اب ایسا وقت نہیں رہا۔ محل نہیں ہے کہ اب اور شادیاں کی جائیں۔ مگر ضرورت بہرحال حنین کے وقت تو پیدا ہوئی ہوگی ۔ او ربھی بعض ایسے مواقع آئے ہیں جہاں شہادتیں ہوئی ہیں مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے زندگی کے دن اتنے تھوڑے تھے کہ اس میں کسی شادی کا کوئی سوال مناسب اور برمحل نہیں تھا۔
آگے چل کے کہتا ہے
He therefore offered them the alternative of either gracefully sepreating themselves.
اچھا یہ وہ مناہی والا حکم نہیںبیان کررہا ۔ یہ کہہ رہا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے بعض ان کے جھگڑوں کی وجہ سے بعض نامناسب حرکتوں کی وجہ سے بعض کی، خداتعالیٰ کے ارشاد کے مطابق یہ اعلان کردیا کہ اگر تم چھوڑنا چاہتے ہوتو جائو میں تمہیں دولت دوں گا ، تمہیں سہولت کے سارے سامان مہیا کروں گا۔ تم خوشی کے ساتھ مجھ سے علیحدگی اختیار کرلو۔ اس وقت پھر رسول اللہ ﷺ نے کیا کیا۔ یہ اب وہ بات چلا رہا ہے۔ کہتا ہے کہ اس وقت تک شادیاں کیں اس کے بعدپھر شادی نہیں ۔
He therefore offered them the alternative of either gracefuly sepreating themselves from him, and enjoying life and its immediate good which has denied them so long as they were with him.
اب یہ بھی بہت اہم نقطہ ہے کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شادی کرنا دنیا کی لذات سے کنارہ کشی اختیار کرنا تھا۔ یعنی ایک voluptuaryوالا انسان ایسی شادیاں تو نہیں کیا کرتا کہ جن کی شادیاں ہوں وہ بھی بے چاری بھوکی رہنی لگ جائیں۔ وہ بھی اچھا پہننے سے محروم ہوجائیں اور علیحدہ ہوں توپھر یہ زندگی کی لذتیں اور نعمتیں مہیا ہوں۔ اس آیت سے یہ استنباط بہت ہی عمدہ استنباط ہے۔ کہتا ہے کہ یہ کہہ رہے ہیں خدا کے حکم سے اچھا اگر تمہیں علیحدہ ہونا ہے تو پھر تمہاری لذت کے ، دنیا کے زندگی کی سہولتوں کے سارے سامان میں مہیا کرتا ہوں۔ اس لیے اس میں کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ مجھے چھوڑ کر دنیاوی پہلو سے تم بہت بہتر ہوجائو گی۔
whcih was denied them so long as they were with him. And saving themselves the privation and hardship as such a life entailed.
اور اس طرح اس زندگی کی سختی سے بھی وہ نجات پاجائیں گی جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے ساتھ ایک لازمہ تھیں۔ یعنی ایسی سخت زندگی تھی کہ وہ کوئی آسان بات نہیںتھی کہ آپ کے ساتھ رہیں۔
Or remaining with him and practicing benevolence in weal and woe for a yet higher recompense from God.
کہتا ہے یا یہ چوائس ہے یا دوسرا چوائس عیش و عشرت کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ
‏practicing benevolence in weal and woe for a yet higher recomfence from God.
کہ وہ بنی نو ع انسان کی ہمدردی یا نیکیوں کیلئے ایک مشفقانہ زندگی بسر کرتی رہیں۔ خواہ حالات اچھے ہوں یا برے ہوں۔ اچھے دن ہو ں یا برے دن ہوں۔ اس سے قطع نظر اس غرض سے تاکہ اللہ کی طرف سے ان کو ایک بلند تر اوربالا جزاء مل سکے ۔ یہ چوائس تھا جو رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے۔ یعنی جو خدا نے دیا ہے آپ ﷺ کے ذریعہ سے۔
But sooner them leave the companion ship of their beloved master. They unanimously prefered to live with him.
کہتا ہے کہ یہ tributeبھی یاد رکھو کہ تمام تر سب نے اتنی اچھی دنیا کی نعمتوں کے وعدوں کو ترک کرکے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سختی کی زندگی رہنا پسند کرلی۔ یہ کیسی عیش و عشرت کی زندگی ہے ۔ اس قدر اس نے بخیے ادھیڑ دیئے ہیں اس الزام کے کہ حیرت ہوتی ہے۔
‏could he not them use his husband's۔his نہیں۔۔۔ ۔ اچھا hisہی ہے مگر رسول اللہ ﷺ کی طرف ضمیر جارہی ہے اس کی۔ اور معنوں میں ہے میں سمجھا تھا her husband'sہونا چاہیے ۔ لیکن his husband's prerogative۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا وہ استحقاق جو خاوند کو ہوتا ہے یہ مراد ہے۔
could he not then use his husband's prerogative of divorecing some even though they may not like it.
کہتا ہے اب بتائو کہ کیامرد کو جو استحقاق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ان کے انکار کے باوجود استعمال کرسکتے تھے کہ نہیںکرسکتے تھے؟ مطلب ہے کرسکتے تھے۔
‏But it would be obviously unfair to deal thus with those loving souls.
لیکن یہ بہت ناانصافی ہوتی ، غیر منصفانہ اور غیر رحیمانہ طریق ہونا ان محبت کرنے والی روحوں کے متعلق جنہوں نے ہر قسم کی قربانیاں دے کر worldy comfortsکے اوپر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کو پسند کرلیا۔
And had persisted in throwing in their .......... with him in order therefore. That their eyes might rejoice and they grieve not, the while they are pleased with what thou.
‏thoughنہیں ہے thouہے (ٹائپنگ میں کافی غلطیاں ہوئی ہوئی ہیں)۔ though تو معنی کوئی نہیں رکھتا یہاں۔ اب یہ فقرہ یوں ہے۔That their eyes might rejoiceتاکہ تیرے ساتھ رہیں اگر چاہیں اس لیے کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے۔And they grieve notاور تجھ سے علیحدگی کا دکھ نہ ان کو سہنا پڑے۔
‏The while they are pleased with what thou does give each of them.
جبکہ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ تو ان میں سے ہر ایک کو جو چاہے دے ان کو اس کی کوئی حرص اور کوئی لالچ نہیں، کوئی رقابت نہیں ہے۔ کسی سے وہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ اس پر راضی ہیں پھر اس کے بعد کوئی وجہ نظر نہیںآتی کہ محمد رسول اللہ ﷺ ان کو طلاق دے دیتے ۔
‏It become the imperative duty of Muhammad to retain all his wives.
(کہتا ہے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لمبا کوٹ اور پھر یہ فقرہ یہاں ختم ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے اس کا ٹکڑوں میں اس کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھا ہے۔مگر فقرہ یہاں مکمل ہوا ہے)۔ کہتا ہے یہ ساری باتیں محمد رسول اللہ ﷺ کیلئے کوئی گنجائش نہیںچھوڑتی تھیں کہ آپ اس کے بعد کسی کو طلاق دیتے۔
The utmost he could do at this stage was to refrain from marrying any more given on the demise ..... of some or all of them.
کہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس وقت آپ یہ احسان کا سلوک ان سے کرسکتے تھے کہ اس واقعہ کے بعد پھر کسی سے اور کوئی شادی نہ کرتے خواہ ان میں سے کوئی فوت ہوجاتا تب تھی نہ کرتے۔ خواہ ساری ہی فوت ہوجاتیں تب بھی نہ کرتے۔ یہ اس نے ایک سوال نے اٹھایا ہے؟This he imposed upon him as a rule۔ کہتا ہے exactlyیہی چیز ہے جو آپ ﷺ نے خود اپنے اوپر ایک قانون کے طور پر وارد فرمالیا۔
Surely this is not as has been said that while the prophet allowed his followers only four wives, he took more then a dozen himself.
کہتا ہے یہ لکھنے والے جن کا فقرہ ۔۔۔۔ لکھتا ہے کہ کس قدر بدتمیزی ہے ایسے شخص کے متعلق یہ لکھ رہے ہیں کہ وہ دوسروں کو تو چار چار اور آپﷺ ۱۲ تک کرلیں شادیاں۔ آگے پھر یہ بیویوں کی تفصیل بیان فرماتا ہے کہ کس کس کیٹگری کی ہیں وہ wivesجن کو آپ نے ان کاحق مہر ادا فرمادیا ، جن کا معین ذکر ملتا ہے۔ سوداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا daughter of Jahash۔ مگر اس کی جوتفصیل کی یہاں ضرورت نہیںہے۔ کسی نے دیکھنا ہو تو یہ کتاب ملتی ہوگی یہاں عام کہ نہیں ملتیں یہ کتابیںپتہ کریں یہ دونوں ملتی ہیں کہ نہیں۔ بہر حال ان کتابوں سے معلوم کی جاسکتی ہیں باقی تفصیلیں۔ یہ پڑھنے والی کتابیں ہیں منگوائیں اس کو دونوں کو ۔
All these were to be retained by Muhammad as lawful wives and this was a provision.
( یہ جو ایک referenceدے رہا ہے اوپر ایک رائٹر کا وہ یہ کہتا ہے بائوے سمتھ کا ریفرنس ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب ہے بائبل کی تعلیم کی رو سے کتنی شادیاں جائز تھیں ۔ یہ تو میں بیان کرچکا ہوںان کے حوالوں میں آگیا ہے کہ بائبل میں کہیں کوئی restrictionنہیں لگائی مگر جو حوالے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ جہاں قطعیت کے ساتھ اور تسلسل کے ساتھ یہ ذکر ملتے ہیں۔
پیدائش باب ۱۶ آیت ۳، پیدائش باب۲۶ آیت۳۴، پیدائش باب۲۸ آیت۸ اور ۹، پیدائش باب۲۹ آیت ۲۳ تا ۳۰۔
پیدائش باب۳۰ آیت۴، پیدائش باب۳۰ آیت ۹،سموئیل ۱باب ۲۵ آیت ۴۰،سموئیل ۱باب۲۵ آیت ۴۳، سموئیل ۱باب۲۷ آیت۳
۲سموئیل باب ۵ آیت ۱۳، سموئیل۲ باب ۱۱ آیت ۲۷
1تواریخ یعنی Chroniclesجس کو انگریزی میں کہتے ہیں باب ۳ آیت ۱ تا ۴۔ ۱ ؍تواریخ باب ۱۴ آیت۳
اور سلاطین Kingsجس کا میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں۔
۱؍سلاطین باب ۱۱ آیت 1 اور 1سلاطین باب ۱۱ آیت ۳
یہ حوالے ہیں اگر کسی نے مزید دیکھنا ہوتو تعدد ازواج کا ذکر یا تعدد ازواج کا ذکر ان حوالوں میں میں ملتا ہے۔
یہ جو ایک بحث اٹھائی گئی تھی کہNew Testamentمیں کہیں بھی کوئی معین آیت ایسی نہیں ہے جس سے یہ استنباط قطعیت کے ساتھ کیا جاسکے کہ حضرت مسیح نے ایک سے زیادہ شادیوں کو منع فرمایا اور تاکید کی ہے کہ صرف ایک ہی رہے۔ یہ چیز جو ہے اس کے متعلق ایک حوالہ صبح ملا تھا جو مجھے یہ فوزیہ شاہ نے بھیجا ہے۔ (یہ وہی ہے صبح والا۔ یہ وہ حوالہ ہے (جس میں متی کی۔۔۔ کا وہ۔۔۔ ایک اور۔۔۔۔) ضمن میں حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ اُس سے عیسائی استنباط کرتے ہیں۔ مگر اس وقت یہاں موقع نہیں ہے۔ اُس استنباط کی ان کے پاس کوئی گنجاش نہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت مریم اپنی والدہ کے متعلق جب یہ ثابت ہو کہ وہ ایک ایسے خاوند کی بیوی بنیں جس نے اس سے پہلے بھی ایک بیوی کی ہوئی تھی۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فتویٰ خود اپنی ذات پر سب سے زیادہ پڑتا ہے ۔ اور ایک بات کو عیسائی کبھی سامنے نہیں رکھتے اور مسلمان لکھنے والوں نے بھی اس کو نوٹ نہیں کیا۔ اگر حقیقتاً قانونی نظر سے دیکھا جائے تو عیسائیت کی رُو سے ایک سے زیادہ خاوندوں کی بھی اجازت ہونی چاہیے ، نہ صرف یہ کہ ایک کی پابندی ہو اورحضرت مسیح کے حوالے سے یہ بات میں ثابت کرتاہوں اور جتنے پادری ایسے ملتے ہیں جو کہ بعض دفعہ گستاخی پر آمادہ ہوتے ہیں رسول اللہﷺ کی یا جیسے غیر پادری بھی ملتے ہیں۔ ان کے سامنے یہ بات رکھا کرتاہوں تاکہ کچھ ان کو اپنی ذات کی تلخی کا مزہ بھی ملے اور جواب پوچھتا ہوں آج تک جواب نہیں ملا۔
حضرت مریم کا معاملہ بہت ہی دلچسپ ہے ۔ ایک پہلو یہ ہے کہ حضرت یوسف یعنی(پہلے حضرت یوسف نہیں بلکہ اُ س دور کے یوسف) اُن سے بیاہی گئیں جن کی پہلی شادی تھی اور اس سے بچے ہوئے۔ دوسرا یہ کہ جس وقت بیاہی گئیں اس وقت بائبل کی رو سے خدا سے ایک بچہ پیٹ میں تھا۔ تو کیا خدا ناجائز تعلقات رکھنے والا خدا تھا۔ یا ان کی حیثیت ایک قانونی بیوی کے شمار کرو گے۔ اگر قانونی بیوی کی حیثیت نہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کو تم کیا کہو گے اور پھر یہودیوں سے کیا جھگڑتے ہو۔ پھر تمہارا اپنا یہ موقف ہوجائے گا کہ ’’یہ تو چلتا ہے‘‘۔ مذہب میں کوئی حرج نہیں اور اگر حضرت مسیح کی والدہ خدا کی بیوی نہیں تھیں تو پھر بچے کی کیا حیثیت ہے۔ یہ جو مضمون ہے یہ کوئی فرضی بات نہیں قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ اس کو اٹھایا ہے۔ اور اسی سے میری توجہ اس طرف گئی تھی۔ قرآن کریم میں فرماتا ہے بدیع السموت والارض ۔ اس سے پہلے آیت کا ٹکڑا کیا ہے مجھے یاد تو ہے لیکن اس وقت اچانک توجہ پھیرنے کی وجہ سے ذہن سے اتر گئی ہے۔ اَنَّ یَکُوْنُ لَہٗ الْوَلَدُ وَلَمْ تَکُنْ لَہٗ صَاحِبَۃیہاں صاحبہ واضح طور پر بیوی کے معنوں میں ہے کہ اس کا بیٹا ہو کیسے سکتا ہے جبکہ اس کی بیوی کوئی نہیںتھی۔ پس اگر بیٹاتھا تو مریم اس کی بیوی تھی چونکہ خدا کی طرف ناجائز تعلقات توویسے ہی منسوب نہیں ہوسکتے کیونکہ نوع ہی ایسی الگ ہے کہ یعنی کس ہمت پر انسانی ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہیں آسکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی سے شادی کرے۔ لیکن عیسائیوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ، اُن کو سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک بہت ہی پیارا نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس خدا کا بیٹا ہو کیسے سکتا ہے؟ جبکہ اس کی بیوی نہ ہو اور بیوی کا لفظ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت مریم کے ساتھ نعوذ باللہ من ذالک خدا کے کوئی ناجائز تعلقات تو نہیں ہوسکتے۔ اس لیے جب بیٹا ہوا تو خدا کی بیوی بن گئی۔ پس یہ ایک اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو یوسف سے شادی سے پہلے طلاق دے دی تھی یا ایک وقت میں دو خاوند تھے۔ طلاق کا مسئلہ عیسائی مانتے نہیں ۔ کہتے ہیں طلاق کی اجازت ہی نہیں۔ کیونکہ وہ جو حوالہ ہے جو یہاں پیش کیا ہے فوزیہ شاہ نے اس میں اصل بحث طلاق کی ہورہی ہے۔
حضرت مسیح کے متعلق یہ مؤقف تو ملتا ہے ۔ اس حوالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق کے آپ خلاف تھے۔ یعنی ناپسندیدگی کی حد تک ہوگالیکن جو بائبل میں مذکور ہے اس سے لگتا ہے کہ طلاق کو گویا آپ حرام سمجھتے تھے۔ اور یہودی جو محققین تھے یا یہودی علماء اس زمانے کے وہ حضرت مسیح سے یہ بحث کررہے تھے۔ حضرت مسیح مان نہیں رہے تھے کہ نہیں بائبل کی رو سے Old Testamentکی رو سے طلاق نہیں ہوسکتی۔ اب یہ حوالہ یہاں موقع پر چسپاں ہوتا ہے حضرت مسیح کی کیا پوزیشن ہوگی۔ اس والدہ کے بیٹے جس کی یوسف سے شادی ہوئی جو ایک اور بیوی بھی رکھتا تھا اور دو بیویوں کے خلاف تھا۔ اس ماں کے بیٹے جس کی اس شادی سے پہلے خداتعالیٰ کے ساتھ کسی تعلق کے نتیجے میں (جس کی تفصیل ہم نہیں کہہ سکتے) ایک بیٹا پید اہوا اور وہ خدا کی بیوی کہلاسکتی ہیں۔ وہ قرآن کریم نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ بیوی کے بغیر خدا کے بیٹے کا تصور ہو نہیں سکتا۔ اگر کہلاسکتی ہیں تو پھر طلاق والا مسئلہ بھی ساتھ ہی گیا۔ کیونکہ اگر طلاق نہیں دی تھی تو پھر یہ بھی مانو گے کہ ایک وقت میں عیسائیت کی رو سے دو بیویاں بھی جائز ہیں دو خاوند بھی جائز ہیں اوراگر طلاق دو گے۔ تو یہ آیتیں کہاں چلی جائیں گی اور طلاق والے مضمون میں تمہارا مؤقف کیا رہے گا۔ سمجھ گئے ہیں بات ڈاکٹر صاحب۔ سمجھ گئے شکر ہے۔ یہ ہے قصہ وہ جوحوالہ یہ جو بات ہے یہ کوئی محض بداخلاقی کا مظہر بات نہیں ہے ہرگز کہ یہ کہا جائے قرآن کریم نے ایک لفظ کے اندر ایک ایسا مضبوط استدلال ہمارے ہاتھ میں تھمادیا ہے کہ اس سے یہ کسی صورت نکل ہی نہیں سکتے ۔آج تک جن کے سامنے مجھے یہ بات کرنے کا موقع ملا ہے ان میں سے دویاتین تو یقینی طور پر وہ جو گھر گھر کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں کیا کہتے ہیں ان کو جہوا وٹنسJehovah's Witnessesوالے تھے اور وہ بڑے کٹرہیں بڑے کرخت ہیں ان باتوں میں جب انہوں نے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بدتمیزی کی بات کی میں نے ان کے سامنے یہ سوال رکھ دیا ۔ میں نے کہا بتا ئو تم کیوں دو خاوند نہیں کرتیں تم لوگ۔ عیسائیت نے تو اجازت دی ہے ، ایک دم بھڑک کر کہتے ہیں ہرگز نہیں جھوٹ ہے ۔ میں نے کہا اب بتا ئو یہ کیا قصہ ہے۔ ہمیشہ بہانہ بنا کر وہ بھاگے ہیں۔ ایک caseتو ایسا تھا جو مجھے تنگ کرنا شرو ع کردیا تھا ۔ آئے دن نام لکھا ہوتا تھاملاقات میں کہ یہاں کے ہمارے قریب کے ہی رہنے والے تھے جیہووا والے بات ان سے کوئی کیا کرے جب کوئی دلیل دیں تو وہ ضد لگا بیٹھتے ہیں۔ اس طرح نہیں یہ بات یوں نہیں ہے، یوں ہے ۔ میں نے پھر اس طریقے سے پیچھا چھڑایا۔ میں نے کہا تم نے اتنے سوال کرلیے ہیں کافی ہوگیا۔ اب میرا ایک سوال ہے اس کا جواب لائوگی تو ملاقات کا وقت ملے گا اس کے بغیر نہیں ملے گا ۔ دو عورتیں اکٹھی آیا کرتی تھیں (آپ سے پہلی کی بات ہے)۔۔۔ پھر نظرہی نہیںکہیں آئیں۔ نام لکھوانا تو درکنار پتا نہیں کہاں غائب ہوگئیں۔ تو قرآن کریم نے یہ دلیل بڑی مضبوط دی ہے اس کو استعمال کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے متعلق بتادیا جائے کہ ہم حضرت مریم صدیقہؑ کو ہرگز یہ نہیں سمجھتے جو تم سمجھ رہے ہو۔ تم جو سمجھتے ہو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے اور بہت ہی ظلم کرتے ہو تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ، حضرت مریم پر اور تم ہماری دل آزادی کرتے ہو ، ہم تمہاری نہیں کررہے۔ کیونکہ ہم جس مریم کو اتناپاکباز سمجھتے ہیں خدا تعالیٰ کے اعجازی نشان سے اس سے بچہ پیدا ہوا ہے ، اس پر تم داغ لگارہے ہو، عجیب و غریب قسم کے مسائل اٹھارہے ہو جس سے دنیا کیلئے نجات پانا مشکل ہوجائے گی کہ خدا گویا کہ شادی کرتا ہے طلاق نہیں دیتا اوپر سے ایک اور آدمی بھی۔ ایک اورظلم ایک اوریہ ہے کہ جوبڑے لوگ ہیں ان کی بیویاں پھر دوسری شادی نہیں کیا کرتیں عموماً شرعاً جائز یا ناجائز کی بحث نہیں اُٹھاتیں۔ ان کے مزاج کے خلاف ہوجاتا ہے کہ وہ غیر اس سے گھٹیا یا کم مقام والے کسی اورسے شادی کریں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ اگرچہ خدا نہیں تھے مگر انبیاء میں ایک ایسا عظیم مقام تھا کہ اس سے اونچا مقام کسی نبی کا نہیں تھا۔ اس لیے یہ مسلک باقی انبیاء کے متعلق بھی ہوگا مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق قطعیت سے ملتا ہے کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں کے کسی اور سے شادی کرنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اور قرآن کریم نے اس کو کلیتہً رول آئوٹ کردیا ہے۔ اُمہات کہنا ان معنوں میں ہے۔ اگرچہ منہ سے کہنا سے کوئی بیٹا تو نہیں بن جاتا کیونکہ انسان کے منہ کی بات ہے مگر جب خدااُمہات کہہ دے تو ہر دوسرا وجود جس کی طرف ماں کا حوالہ ہے وہ حرام ہوجاتا ہے۔
پس یہ کیس ہے حضرت محمدﷺ کی ازواج مبارکہ کا اور خدا کی زوجہ مبارکہ کا کیا بنے گا اگر طلاق بھی مانو گے تو کیسے نعوذ باللہ من ذالک، نعوذ باللہ من ذالک خدا کی زوجہ مبارکہ صاحبہ جس کو قرآن کہتا ہے وہ کسی اور سے شادی کرتی تو ایسا لچر خیال ہے ایسا عقیدہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ نہ بائبل نہ Old Testament میں نہ New Testamentمیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی حوالہ جو ہے نہ یہ اُس مسلک کو تو ثابت کرے نہ کرے ۔اس کوتو ضرور ثابت کرتا ہے۔ سنادوں اب پڑھ کے اب چھڑگئی ہے بات تو چھیڑ ہی دیتے ہیں پوری طرح ۔
‏Mathew 19 / 4,5جہاں تک ہمارے تحقیق کے گروہ نے کوشش کی ہے اس آیت کی تلاش میں جس کو عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ان معنوں میں منسوب کرتے ہیں کہ آپ نے قطعیت کے ساتھ ایک سے زیادہ شادیوں سے منع فرمایا یہ بحث تھی۔ اس سے پہلے میں کرواچکا ہو تحقیق اس وقت تو کوئی ایسی معین آیت ساتھ نہیں آئی تھی۔ ایک آیت تھی جو مشکوک تھی یعنی اس سے استنباط کئی قسم کے ہوسکتے ہیں جو عیسائی مصنف Boswarthنے لکھا ہے۔ اس نے بالکل یہی بات لکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ہرگز کوئی ایک ایسی آیت بھی نہیں جس کو قطعیت کے ساتھ ایک سے زیادہ شادیوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہو۔ کہتا ہے ۲۰ جو ہیں گوسپلز (gospal)ان میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ یہ آیت ہمارے ریسرچ گروپ نے نکالی کہ ایک پادری نے اس کو کوٹ کیا ہے اپنی ایک کتاب میں وہ یہ ہے Mathew 19/ 4,5
He replied, have you not read that the Creator from the begining made them male and female and that he said, this is why man must leave his father and mother and cling to his wife and the two become one body. this quote from the christian view that Jesus condemed polygamy. Our Lord does not directly forbid polygamy or even elude to the subject.
یہ بھی مانا ہے یہاں بھی۔ کہتا ہے اس سے ہم استنباط کرتے ہیں اگرچہ ہمارے لارڈ نے براہِ راست polygamyکو حرام قرار نہیںدیا۔
No case of polygamy amongss the Jesus is presented in the Gospel narrative.
کہہ رہا ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ Gospelکے بیانات میں یہود کی polygamyکا کوئی حوالہ بھی نہیں ملتا ۔ یہ مضمون ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔
And when a wife is mentioned it is stated or implied in their account that she is only wife.
کہتا ہے یا تو بیان کیا گیا ہے واضح طور پہ یا impliedہے وہ ایک ہی بیوی ہوگی۔ اب کیسیflimsyاور بے وزن دلیل ہے جو یہ پیش کررہا ہے بائبل کوتسلیم بھی کررہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تسلیم کررہے ہیں اور اس کے باوجود چونکہ انہوں نے حوالہ نہیں دیا اس لئے polygamyکے خلاف یہ بات جاتی ہے۔
The special evil of Jewish society was the facility of divorce men putting their wives for any after cause to which Jesus replied in the above quote.
کہتے ہیں کہ مبحث یہ تھا کہ یہودی اپنی بیویوں کو ایک سے زائد جو بیویاں ہوتی تھیں ان کو طلاق دے دیا کرتے تھے معمولی معمولی عذر رکھ کر ، ادنیٰ سا قصور دیکھتے تھے تو ظالمانہ طو رپر طلاق دے دیا کرتے تھے ان کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا تھااصل میں۔ اب دیکھیں حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کی بحث تویہود سے صرف یہ چل رہی تھی کہ تم چھوٹی چھوٹی باتو ں پر طلاق دے دیتے ہو اوراس کا تمہارے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اس بات کو بھول جاتے ہو جو بائبل میں آغاز ہی میں لکھی ہوئی ہے کہ خدا نے مرد کو عورت کا جزو بنایا اور وہ ہمیشگی کا ساتھ ظاہر کرنے والا محاورہ ہے۔ یہ ہے استنباط یہ حضرت آدم کے ذ کر سے بات چلی ہے۔ اس سے ایک نصیحت کے رنگ میں یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ ایسے واضح طور پر ایسا ایک طرز بیان ہے جو یوں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا ساتھ ہے اور یہی مضمون اسلام میں بھی ملتا ہے۔آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ خدا کو جتنے بھی حلال ہیں ان میں سے سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔ اس لیے جلد بازی نہ کیا کرو اور یہی وہ نصیحت تھی جو حضرت مسیح یہود کو اس زمانے میں فرمارہے تھے کہ تم نے تو طلاق کا مذاق بنالیا ہے ۔ بائبل کی اس تعلیم کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے جس سے یوں لگتا ہے جیسے زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ اس لیے life companian(رفیقہ ٔ حیات) یہ القاب ملتے ہیں بیوی کیلئے مختلف زمانوں میں اس سے آگے اس کو کھینچ کر ایک بیوی پر محدود کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیونکہ جس بائبل کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام تسلیم کرکے پیش کرتے ہیں اسی بائبل میںاسی جگہ سے آگے پھر ایک سے زیادہ بیویوں کے تذکرے شرو ع ہوجاتے ہیں اور مسلسل آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے عظیم انبیاء جن کے متعلق حضرت مسیح کی طرف کسی قسم کا سخت کلمہ کوئی عیسائی بھی منسوب نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ بھی دو تو یہ ساری وہ نسل ہے جو ایک سے زائد شادیاں کرتی چلی آئی ہے۔ پس ان کا یہ کہنا عیسائیوں کا کہ چونکہ ان کا ذکر نہیں فرمایاجنہوں نے زیادہ شادیاں کی ہیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ایک شادی کے قائل تھے، نہایت ہی لغو اور بودا خیال ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بیان قطعی ہے اور تمام مذاہب پر نظر ڈال کر آپ نے فرمایا ہے کہ دُنیا کی کسی الٰہی کتاب میں تعدد ازدواج پر تم کہیں کوئی پابندی نہیں دیکھو گے سوائے قرآن کریم کے۔ اور یہ قرآن کا ایک امتیازی نشان ہے اور اللہ کی شان ہے کہ اس کو کتابوں میں عطا ہوئی جو ہر پہلو میں ، ہر مضمون میں بالا رہتی ہے۔ استثناء کے حوالے سے polygamy referencesجو ہیں وہ میں آپ کو بتاتا ہوں ایک اور استثناء کا حوالہ ہے اس کی ضرورت نہیں کافی بیان ہوچکا ہے استثنا میں If a man had two wives one beloved and other hated۔ تو یہ سارے حوالے اب بیکار ہیں ضرورت نہیں اب ان کو پڑھنے کی۔ تواریخ کا حوالہ ہے۔ اب آخر پر میں ایک ایسی بات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اس نے اٹھائی ہوئی ہے وہیری نے اور بڑے ظالمانہ طور پر یہ کہا ہے کہ ’’بداخلاقی کی تاریخ میں اور بے حیائی کی تاریخ میں ان ممالک سے زیادہ بے حیا اور بد اخلاق اور نفسانی بے راہ روی میں مبتلاء آپ کو نظر نہیں آئیں گے جن پر مسلمانوں نے حکومت کی ہو کہ جن ملکوں میں مسلمان راج رہا ہو وہ اس تاریخ میں سب دنیا کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔ یہ ایسا بے حیائی کا کلام ہے اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ تمام تاریخ کے حوالے سے اس کو قطعی طو رپر جھوٹا، لغو، بیہودہ الزام ثابت کیا جاسکتا ہے اور معاملہ اس کے برعکس ہے۔ معاملہ اس کے برعکس صرف عیسائی ملکوں کے لحاظ سے نہیں ہندو ملکوں کے لحاظ سے بھی بدھسٹ ملکوں کے لحاظ سے بھی ، جو غیر مذہبی ممالک ہیں جن میں کوئی مذہب نہیں چلتا یعنی pagansہیں ان میں بھی یہی بات ہے۔ ہر دنیا کا انسان جو اسلام کی تعلیم سے باہر زندگی بسر کررہا ہے وہ پاکیزگی ، صفائی اور ازدواجی تعلقات کی پاکیزگی اور عورتوں سے تعلقات کے تعلق میں، اسلام سے بہتر نمونہ کہیں نہیں دکھاسکتا، نہ دکھاسکا، نہ دکھاسکتا ہے۔
یہ کچھ حوالے ہیں جو میں انشاء اللہ کل آپ کے سامنے رکھو ں گا اس میں کچھ کلیسا کے بھی حوالے ہیں۔ اب اس میںوہیری نے مجھے مجبور کیا ہے کہ یہ آپ کے سامنے رکھوں۔ اس کے اوپر بعض ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک Priest Craftہے۔ اس میں تو بڑے بڑے خطرناک حوالے ملتے ہیں اس بات کے جو بتاتے ہیں کہ اس آتھر کے نزدیک مذہبی دنیا میں اس سے زیادہ بے حیائی کی کہیں مثال نظر نہیں آتی جتنا عیسائی مذہب کے علمبرداروں کے حوالے سے ملتے ہیں وہ جن کے سپرد مسیح کی بھیڑیں کی گئی تھیں۔ ان کا کیا حال تھا یہ کتاب اس مضمون پر ہے۔ کہ چونکہ بعض دوسرے حوالے بہت ہی شاید سخت اور بعض لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہوں مگر ضمناً یہ بتانے کیلئے کہ یہ جھوٹا شخص ہے ۔ وہیری بالکل جھوٹ بولتا ہے ، برعکس معاملہ ہے۔میں انشاء اللہ بعض حوالے کل آپ کے سامنے رکھوں گا۔ ۔۔ یہ رہ گئے ہیںباقی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 9؍رمضان بمطابق 30؍جنوری 1996ء
آج تو عین وقت پر رابطہ ہوگیا ہے۔
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتٰمٰی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنٰی و ثلثٰ و ربع و ان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ او ماملکت ایمانکم ذلک ادنیٰ الا تعولواO
سورۃ النساء آیت ۴ کا درس جاری ہے۔ اس کے تعلق میں یہ جو آخری حصہ ہے اس میں مَیں نے یہ بیان کرنا تھا کہ جن لوگوں نے اسلام پر یہ الزام لگایا کہ شادی کے حکم کے نتیجہ میں بلکہ ایک سے زائد شادیوں کے حکم کے نتیجہ میں ایسی بدکرداری پھیلی ہے اسلامی ممالک میں، اس کی کوئی نظیر نہیںملتی۔ اس کے جواب کے طور پر سب سے پہلے تو میں ایک ایسی کتاب کا حوالہ دیتا ہوں جس پہ مختصر تبصرے کے بعد آگے بڑھ جائوں گا کیونکہ وہ بہت ہی مکروہ واقعات ہیںاورمحض کسی انتقامی جذبہ سے ان پر زیادہ گفتگو کرنا اچھا نہیں لگتا کیونکہ و ہ تعلق رکھتے ہیں عیسائی تعلیم سے، اس لئے تعلیم کے حملے کہ جواب میں ضروری ہے کہ کچھ جوابی ذکر ضرور کیا جائے۔ دعویٰ یہ ہے کہ جیسا کہ ویری نے لکھا کہ اسلام نے جو تعدد ازدواج یا تعدد ازواج کا حکم دیا اور اس کے ساتھ لونڈیوں کی بھی اجازت دی اس کے نتیجہ میں اسلامی ممالک میں ایسی بدکرداری پھیلی ہے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی اور دنیا کے پردے میں سب سے زیادہ گندے، بداخلاق ، بدکردار لوگ وہ ہیں جن پر اسلام نے حکومت کی ہے۔ خواہ وہ پھرمسلمان ہوں یا نہ ہوں سب اس کے دائرے کے اندر آجاتے ہیں۔اس کے برعکس عیسائیت نے جو پاک تعلیم دی جس کو وہ اچھالتے ہیں وہ راہبانہ تعلیم ہے جس کے نتیجہ میںجہاں تک ممکن ہو وہ شادی سے ہی پرہیز کرے۔اور راہبانہ زندگی بسر کرے۔ اور اس کے نتیجہ میں پھر nunsکی situation وجود میں آئی۔ ایسی عورتیں راہبہ عورتیں جو قسم کھاتی ہیں کہ ہم کبھی بھی شادی نہیں کریں گی۔ کیا یہ فطری تعلیم ہے یا اسلامی تعلیم فطری تھی۔ یہ موازنہ ہے چنانچہ اس کے اوپر جو بہت سی کتب لکھی گئی ہیں ان میں ایک بہت اہم کتاب Priest Craft ہے جو ولیم ہاورڈ نے لکھی اور اس پر اس نے بہت محنت کی ہے بہت جستجو کرکے تمام monastariesوغیرہ کے حالات اور وہ حالات جو تاریخ سے اس زمانے میں ثابت تھے یا وہ حالات جو کھدائی کے نتیجہ میں سامنے آئے وہ بیان کئے ہیں۔ مثلاً وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ بعض monastariesکی جب کھدائی کی گئی تو اندر سے جو خزانہ دریافت ہوا ہے وہ معصوم بچوں کی لاشیں تھیں جو کثرت کے ساتھ دفن کئے گئے محض اس لئے کہ ان لوگوں کو جو monastariesکے رہنے والے تھے ، ان کو تحفظ مل جائے اور ان کی بے حیائی پکڑی نہ جائے ، دنیا کے سامنے نہ آئے۔ تو وہ بچے جو پیدا ہوتے تھے۔ وہ نو مہنے میں آخر جب تک وہ پیدا ہوتے اپنا اشتہار خو دیتے چلے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری organiztion پورا نظام ان کو تحفظ دے رہا تھا۔ اور یہ روز مرہ کے واقعات تھے جس کے اوپر کسی کو اجازت نہیں تھی کہ گھر کی بات باہر نکالے او رکثرت کے ساتھ ایسا ہوتا اور پھر ان کا قتل بھی کیا جاتا اور وہیں اسی monastaryکے نیچے دفن کردیے جاتے۔ چنانچہ ایک بیان کے مطابق سینکڑوں لاشیں ایسے بچوں کی ملی ہیںجو اندر مدفون ہیں۔
بہرحال ساری باتیں تو میں اس کی بیان نہیںکرسکتا۔ میں چند ایک صرف حوالے نکالے ہیں جس سے وہ کہتا ہے کیوں یہ بے حیائی وہاں پھیلی اورکیا مقصد کیا وجہ بنی کن حالات میں اسے تقویت ملی۔ اس کتاب Priest Craftکے صفحہ 68اور 69پر لکھا ہے۔
"Every person was to confess his sins to the priest."
یہ جو confessionکا نظام ہے یہ سب سے بڑی بلا بن کے ٹوٹا ہے اور
"Thus the priest was put into possession of everything which could enslave a man to him."
کہتے ہیں ہر شخص کیلئے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنے گناہ پادری کے سامنے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرے یا اپنے گناہ تسلیم کرے ۔ اس طرح پادری کے ہاتھ میںہر ایسے شخص کے خلاف ایک بہت بڑی طاقت جمع ہوگئی جس کے نتیجے میںعملاً وہ ہر دوسرے شخص کو وہ اپنا غلام بناسکتا تھا۔
"The priest had not only power to hear sins but to pardon them."
مشکل یہ تھی کہ چونکہ صرف اس کو یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ سنے بلکہ چرچ کہتا تھا کہ وہ بخش بھی سکتا ہے ۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ معصوم لوگ بخشش کی تمنا لئے ہوئے priestکی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اس کے سامنے اپنے گناہوںکا اقرار کرکے وہ گناہ بخشواتے تھے۔ ان میں کثرت سے عورتیں بھی تھیںجو اپنی مخفی زندگی کے حالات عیسائی کو بتاتی تھیں پادری کواور اس ذریعہ سے پادری کے پاس ان کے خلاف ایک ہتھیار آجاتا تھا اور ان کو وہ اس ذریعہ سے بدکرداری پر مجبور کرتا تھا۔
Millions of monks ..............
کہتا ہے دسیوں لاکھMillions of monks and secular priestsاور وہ priestبھی جو secularتھے۔ secularسے مراد عموماً تو لامذہب ہوتا ہے لیکن ممکن ہے وہ priestجو باقاعدہ ایک نظام کا جزو نہ بن چکے ہوں vowکرکے ان کو یہ secular priestsکہ رہا ہو۔
all forbidden to marry
یہ سارے کے سارے جو secularبھی تھے یا دوسرے ان کو شادی حرام تھی منع کی گئی تھی
all pampered in luxurious ease and abundance to voluptuousness.
‏ voluptuousجو اسلام کے خلاف انہوں نے لفظ استعمال کیا ہے بار بار مستشرقین نے یہ اب دیکھیں کہاں استعمال ہورہا ہے۔
All pampered in luxurious ease
‏ pamperedکہتے ہیں لاڈ سے کسی بچے کے مزاج بگاڑ دیئے جائیں۔pampered childہے۔ زیادہ لاڈ کے نتیجہ میں بگڑا ہوا بچہ۔ تو کہتے ہیں وہ pamperedتھے in luxurious easeکہ عیش و عشرت کی آرام طلبی کے اندر، آرام دہ زندگی میں وہ ان کے اخلاق اور مزاج بگڑ چکے تھے۔ and abudance to voluptuousnessاور شہوانی جذبات کو پورا کرنے کیلئے جس کثرت سے ان کو مواقع میسر تھے اس کی وجہ سے ان کے اخلاق ان کے مزاج بالکل بگڑ چکے تھے۔
were let loose on the female world as counsellors.
کہتا ہے یہ ہیں بدبخت لوگ جو بے چاری نسوانی دنیا پر مشیر کے طور پر بلائے ناگہانی بن کے اترے ہیں یہ لوگ تھے جن کو نسوانی دنیا کا مشیر مقرر کیا گیا۔
confess counsellors and confessors.
اور ان سے ان کے راز معلوم کرنے کیلئے ان کے ہمراز بنائے گئے یہ۔ confessorsکا ایک یہاں یہ معنی ہے کہ جو ان کے رازوں کے رقیب بن گئے نقیب بن گئے۔
with secrecy in one hand and impress power or absolution from the on the other.
ایک ہاتھ میں ان کے راز رکھنے کی طاقت کا ہتھیار تھا کہ ہم چاہیں تو تمہارا راز رکھ سکتے ہیں ، دوسرے ہاتھ میںتمہارے ہر قسم کے گناہ ہم بخش سکتے ہیں اس کو کہتا ہے
They effect on the domastic purity may be rarely imagined.
اس سے اندازہ کرلو کہ عیسائی دنیا کی روز مرہ کی گھریلو زندگی پر اور اس کی پاکیزگی پر اس کا کتنا بھیانک اثر پڑا ہوگا۔ کتنا ایک معقول مدلل بیان ہے۔ کہاں یہ کہ ایک آدمی دو شادیاں کرلیتا ہے تو اس کا اخلاقی دنیا پر ایسا بھیانک اثر پڑے۔ اس کی کوئی دلیل ہی نہیں بنتی۔ جو دو شادیاں کرتا ہے وہ رکتا ہے تودو کرتا ہے۔ اگر وہ بے حیائی سے رکے نہ تو اس کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ دو شادیاں کرتا پھرے۔ بے حیائی سے رکنا مجبوری ہے جو دو شادی پر مجبور کرسکتی ہے ورنہ بے حیا آدمی کیلئے یہ مصیبت پالنا کوئی اچھی بات آسان بات نہیں ہے۔
دوسری بات ………… یہ لکھتا ہے:-
The establishment of monekry was in other means a building up a perfect despotism by papists.
کہ جو پوپ کے آدمی ہیں یعنی پوپ کا نظام جہاں جاری تھا ان میں ان کے غیر معمولی استبداد کو مستحکم کرنے کیلئے monastaries نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ انہوں نے اس کو establishکرنے میں بڑی مدد دی ہے۔ monkeryسے مراد ہے جہاں monksبنتے ہیں وہ خاص قسم کے پادری جو monksکے طور پر monkeryمیںرہتے تھے اور پھر nunsبھی رہا کرتی تھیں وہاں They as well as secular clergy were forbidding to marry.اس کے مقابل پر یہاں پھر secular clergyکا لفظ استعمال کیا ہے۔ (secular clergy، monkeryکے مقابل پر کیا معانی ہیں؟ ordainedاور inordained…… وہ secularبھی ordainedہی ہوتی ہے ان کو بھی شادی کی اجازت نہیں ……… یہ چیک کرنا)۔
and hence flowed a torrent of corruption through out the world.
کہتا ہے کہ اس طرح تمام دنیا میں ایک بے حیائی کا سیلاب اُمڈ پڑنے کی راہ نکل آئی۔
In the third century they formed says moreshine connections with those wemen who had made vows of chasted.
تیسری صدی میں ان لوگوں نے ان عورتوںسے ازدواجی، اپنے آوارگی کے تعلقات قائم کرلئے تھے جنہوں نے حلف اٹھائے تھے کہ وہ ہمیشہ کنواری رہیں گی۔
And it was an ordinary thing for an ........................... to admit one of these fair saints to his bed but still under under the most solemn declarations that nothing past contrary to the rules of chastity and virtue.
کہتا ہے ان Saintsکا یا یہ کہتے ہیں ٹھہریں justدوبارہ دیکھتا ہوںAnd it was an ordinary thing for an... ایک پادری کیلئے ایک معمول کی بات تھی to admit one of these fair saints۔ ان خوبصورت اور اچھے نظر آنے والے saintsکو، جو عورتیں تھیں اپنے بستر میں داخل کرنا ان کیلئے ایک روز مرہ کی معمول کی بات تھی لیکن ایک شرط کے ساتھstill under the most solemn declarationsاس یعنی باقاعدہ solemn declarationکا مطلب ہے بقائمی ہوش و حواس ایک اقرار صالح کیا جائے۔ یہ وہ اقرار صالح کیا کرتے تھےnothing past contrary to the rules of chastity and virtue کہ chastityپاکیزگی اور عصمت کا جہاں تک تعلق ہے ہمارے ان تعلقات کی وجہ سے ان پر ایک ذرہ بھی حرف نہیں آیا۔ یہ آپس کا ایک حلف اٹھاتے تھے وہ اپنی جگہ قائم ہے یہ رشتہ اپنی جگہ استوار these holy concubines یہ مقدس داشتائیں،اس نے بھی داشتائوں پر زبان کھولی ہے۔ اب میں ان کے اپنے الفاظ میں بتارہا ہوں آپ کو کہ دیکھیں کس طرح اسلام کے خلاف محض تعصب کی وجہ سے زبان درازی کی سزا خدا نے ان کو دی کہ خود ان کے اپنے نیک دل اور صاف گو ہم مذہبوں نے ان کے اپنے رازوں سے پردے اٹھادیئے جس کی باہر کسی کو طاقت نہیںتھی کہ وہ کچھ ایسا کرسکتا ہے۔
کہتا ہے یہ holy concubinesیہ نئی اصطلاح نکلی ہے۔ یہ مقدس داشتائیںwere called mauliaries sub introductor (یہ کوئی latin لفظ لگ رہا ہے)
In the succeeding ages so much did their licentiousness and ignorance increased that in the 10th century, few of the monks knew the rules of their own orders which they had sold to obey, but lived in the most luxurious and prodigal magnificence with their concubines.
کہتا ہے تیسری صدی سے شروع ہوا ہوا ہے قصہ اور دسویں تک پہنچتے پہنچتے تو یہ عالم ہوچکا تھا کہ شاذو نادر ہی کوئی ایسا monkدکھائی دیتا ہوگا جو اپنی monkeryکے اپنی institutionsکے تمام قوانین توڑ نہ چکا ہو اور ان سے بالا نہ ہوچکاہو۔ جن کے متعلق قسمیں کھائی ہوئی تھیں کہ ہم ان کو ضرور followکریں گے۔
but lived in the most luxurious and prodigal magnificence with their concubines.
ان مقدس داشتائوں کے ساتھ بڑی شاھانہ زندگی وہ بسر کرنے لگے تھے دسویں صدی تک۔
The history of every European nation is full of the fearful and disgraceful details of the rank licentius corruption of monasteries and priestly houses.
کہتا ہے کہ کسی ایک ملک کا قصہ نہیں تمام یورپین ممالک میں، تمام یورپین قوموں میں یہ داستانیںfull of fearful and disgraceful detailsملتی ہیں۔ یہ کہانیاں جو نہایت ہی خوفناک او رسخت قابل شرم تفاصیل کے ساتھ ملتی ہیں۔
‏ of the rank licentious corruptionایسی corruptionکی اپنے آپ کو اجازت دینا..... licentious ایسی corruptionجو ہر چیز کی کھلی اجازت دے دیتی ہے، چھٹی دے دیتی ہے۔ rankسے مطلب ہے ہر قسم کی ذلیل ترین ، انتہائی حد تک پہنچی ہوئی یا گری ہوئی حد سے زیادہ۔
‏ rank licentious corruption of monasteries and preistly houses.
‏ monasteriesکی اور یہ جو پادریوں کے گھر تھے ان کے حالات پر ۔ حالات کی یہ کہانیاں یورپ کے ہر ممالک میںملتی ہیں۔
‏ The disclosures made as is well known by our commissioners.
وہ جو رازوں سے پردے اٹھائے گئے ہیںمعلوم طور پر ہمارےcommissionersکے ذریعے جو مقرر کئے گئے تھے۔
Commissioners of the state of the monasteries in our own country previous to the desolation are too ............ to human nature to be mentioned.
کہتا ہے وہ commissioners جو monasteriesکو ختم کرنے سے پہلے ہمارے ملک میں بھی monasteries تھیں اور ان کو بالاخر قانونی ذرائع سے ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا۔ اس سے پہلے جو کمشنرز بٹھائے گئے تھے کہ اس کے اوپر وہ رپورٹ کریں، کہتا ہے ان کی رپورٹ ، یہ جو باتیں بیان کررہا ہے یہ کہتا ہے یہ تو بیان کی جاسکتی ہیں کوئی ایسی بڑی شرم کی بات نہیں۔ مگر وہ باتیں جو کمشنرز نے لکھی ہیں وہ ایسی قابل شرم ہیں کہ ان کے بیان کی بھی ہم میں طاقت نہیں۔
what was worse while they had been for generations living in this abhorrent style having the very monasteris.................... with women. They had not only been burning all those dare to defer with them in opinion. But it was declared by an act of .................... that upon trust of the privilege of the church diverse person................... had been made bold to commit murder, rape, robbery, theft and all other michievous deeds.
کہتا ہے صرف اسی حد تک بات ٹھہر جاتی تو پھر بھی ہم سمجھتے کہ چلو ایک حد پرآکر ٹھہر گئی ،مگر سب سے بڑی بھیانک اور خوفناک بات یہ تھی کہ ان بدبختوں کو اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ مکمل اختیارات تھے قانونی طور پر کہ جو بھی ان کے رازوں سے پردہ اٹھائے ان کی مرضی کے خلاف بات کرے اس کو زندہ آگ میںجلانے کا حکم دے دیںاور ہزارہا ایسی عورتیں اور ایسے لوگ ان کے کہنے پر زندہ آگ میں جلائے گئے کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے خلاف کوئی انگلی اٹھاتا۔ اور سب سے آسان طریقہ ان کے پاس یہ تھا جو اس نے نہیں لکھا لیکن دوسری کتب میں موجود ہے وہ یہ تھا کہ …………… اس کا حوالہ پہلے میں دے دوں۔
حوالہ:priest Craft ، 146 صفحہ اب ہمیں صفحہ لکھتے وقت یہ بھی لکھنا چاہئے ۔ ہاں لکھا ہوا ہے اس میں کب کی چھپی ہوئی ہے۔
……………………………………………………………………… ………………………………………………………………………………
مڈل سیکس ہوگا آگے …………… کچھ آگے حوالہ ہے۔
۱۔۴ میں سے کچھ یہ جو رومن حرف ہیں نا ان کی جمع تفریق بڑا مشکل کام ہے۔ بائیں طرف جو آئے اس کو منفی کرتے ہیں دائیں طرف جو آئے اس کو جمع کرتے ہیں او ریہ بڑا لمبا سا ایک فقرہ بن گیا ہے اس کی جمع تفریق میرے لئے بڑامشکل ہے یہاں …………… یہ ہے نمبر اس وقت اس نمبر کے ساتھ یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔
‏ page 68,69,82,83,146یہ وہاں سے حوالے لئے گئے ہیں ۔ تو میںیہ بتارہا تھا کہ وہ جو جلنے کے قصے آپ نے سنے ہوئے ہیں ہزارہا عورتوں کو زندہ جلایا گیا ہے اس مصنف کے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کیونکہ جب بھی ان کی بے حیائیوں کے خلاف کوئی عورت احتجاج کرتی تو ان کے پاس ایک کھلا ہتھیار تھا کہ اس کو جادوگرنی قرار دے کر اس کو وہ رستے سے ہٹادیتے۔ اور چرچ کو یہ اختیار تھا او رکوئی قانون اس کی راہ میں حائل نہیںہوسکتا تھا کہ جب وہ کسی کو جادوگرنی کہہ کر جلانے کا حکم دے دے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا تھا۔ اتنی بڑی ہولناک طاقتیں چرچ نے اکٹھی کرلی تھیں اور اس کا طریق ایسا تھا جس کے نتیجہ میںجادوگرنی نہ بھی ثابت ہوتی تو پھر بھی بول نہیں سکتی تھی کیونکہ جادوگرنی کا ٹیسٹ ایک مقرر کیا ہوا تھاانہوں نے۔ انہوں نے کہا تھا جس کو چرچ والے جادوگرنی کہہ دیں یا جس کے، عورت بے چاری پر جادوگرنی کا الزام ہو اور چرچ والے اس کو سرسری جائزے کے بعد قبول کرلیں کہ ہاں اس الزام کی اتنی حقیقت ضرور ہے کہ ہمیں اب اس کی تحقیق کرنی چاہئے اس پر بہترین ٹیسٹ تھا ان کا جو کسی صورت میں بھی ناکام نہیں ہوا کرتا تھا وہ یہ تھا کہ اس کو ہاتھ پائوں باندھ کر تالاب میں پھینک دو اگر بچ گئی تو جادوگرنی پھر اس کو عذاب دے کر مارو اور اگر نہ بچی تو معصوم تھی مگر وہ ہاتھ سے نکل گئی کچھ نہیںہوسکتا تھا۔ تو اس سے زیادہ اور کسی گواہی کی ضرورت ہی کوئی نہیں ۔ اب جو عورت ان کے متعلق بات کرنے کی مجال، سوچے بھی وہ بھی اس انجام سے کس قدر خوفزدہ ہوگی اس لئے کسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ اس کے باوجود کچھ تحقیقات ہوئیں اور وہ آخر پر جو تحقیقات ہوئی ہیں یہ ان کا ذکر کررہا ہے۔ جب عام باتیں ہوگئیں اور عوام الناس میں اس کے خلاف ایک سخت ردّ عمل اٹھا تو اس وقت کچھ کمشنرز مقرر ہوئے حکومت کی طرف سے اور اس وقت تک چرچ کی طاقت کسی حد تک کمزور پڑ چکی تھی۔ پھر جب انہوں نے تحقیقات کی ہیں تو بہت ہی خوفناک حالات سے پردے اٹھائے ہیں۔ انگلستان میں بھی ایسی ہی تحقیق شائع ہوئی ہے۔
"English Monks and the Supression of the Monasteris by Joffery Baskerwheel"حوالہ کتاب
یہ مصنف ہے Joffery Baskerwheelاس نے جو کچھ لکھا ہے وہ تفصیل میں یہاںجانے کی ضرورت نہیں۔ یہ باقاعدہ ایک کمیشن تھا حکومت کی طرف سے اس کے نتیجہ میں جو واقعات سامنے آئے ہیں یہ اس کے متعلق رپورٹنگ کررہا ہے ۔ اب جہاں تک بے حیائی کے عام ہونے کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی بھی شک نہیں کہ ساری دنیا ہی اس وقت بے حیائی کے سیلاب میں بہہ چکی ہے۔ لیکن اگر موازنہ کرنا ہے اور چونکہ موازنہ ہی کیا گیا ہے تو پھر مجبوراً یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ عیسائی دنیا میں خواہ وہ یورپ میںہو یا افریقہ میںہو یا کہیں اور یا فلپائنز میں ہو ، عیسائی دنیا میں بے حیائی اسلامی دنیا کے مقابل پر دسیوں گناہ زیادہ ہے۔ کوئی موازنہ نہیں ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ غیر عیسائی دنیا میں حالات کو نسبتاً دبایا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض سوسائٹیوں میںحالات کو دبایا بھی جاتا ہے ، چھپایا بھی جاتا ہے مگر اس کے باوجود بہت سے ایسے امور ہیں جن کے ذریعے باتوں کو جانچا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک ہے ایسے بچوں کی پیدائش جو حرام کے بچے کہلاتے ہیں اور abortionsکی تعداد۔ کیونکہ جب ایسا بچہ ہو تو اس کی abortionکم سے کم ایسے ممالک میںجہاں سوسائٹی ان چیزوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے و ہ اس معاملے کو بہت ہی مشکل بنادیتی ہے کہ چھپایا جائے۔ کیونکہ ایک طرف تو سوسائٹی دبائو کی وجہ سے لوگ اپنی کمزوریوں اپنے گناہوں کو چھپانے پرزیادہ آمادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا جائز نہیں ہوگا کہ چونکہ وہاں کے جو published factsہیں جو شائع شدہ حقیقتیں ہیں ان کی رو سے وہاں نسبتاً کم بے حیائی ہے۔ عیسائی ممالک میںزیادہ ہے اس لئے ثابت ہوگیا کہ وہ زیادہ پاکباز ممالک ہیں یہ استدلال درست نہیں ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جہاں دبائوزیادہ ہوں وہاں منافقت بھی خود بخود بڑھتی ہے اور بعض جرائم یہاں کھل کر سامنے آجاتے ہیں لوگ تسلیم کرلیتے ہیں وہاں نہیں کرتے اور چھپالیتے ہیں ۔ اس لئے محض یہ تاثر کہ وہاں ایسے واقعات کم دکھائی دیتے ہیں یا زیادہ دکھائی دیتے ہیں درست نہیں۔ کیونکہ ایک موقع پر میں نے تحقیق کرائی غریب ممالک کے متعلق تو پتا چلا کہ ان کے غریبوں میں بہت ہی زیادہ بے حیائی غربت کی وجہ سے پھیل رہی ہے اور اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ملک کا فرق نہیں ہے۔ عرب ممالک میں چونکہ بنیادی معیار زندگی اونچا ہے اس لئے وہاں اقتصادیات کو اس معاملے میں کوئی بڑا دخل نہیں وہاں یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے تمام محققین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عرب ممالک میں جو بے حیائی کا معیار ہے وہ نیچا ہے بہت یعنی پاکیزگی کا معیار نسبتاً بہت اونچا ہے، اس کی وجہ وہ سخت اسلامی قوانین اور اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات ہیں۔ تو اگر کسی جگہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بے حیائی کم ہے تو وہ عرب ممالک ہیں جہاں اسلامی قانون سختی کے ساتھ نافذ ہے اس کے متعلق کوئی دنیا کا محقق یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں باقیوں کے مقابل پر زیادہ بے حیائی ہے۔ لیکن بعض اور شکلیں بے حیائی کی وہاں رائج ہوچکی ہیں ان کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں۔ مگر میںیہ بتانا چاہتاہوں کہ اخلاقی دبائو کے بڑھنے کی وجہ سے منافقت بھی بڑھ جایا کرتی ہے اس لئے محض اس وجہ سے کسی ملک کو پاکباز اور کسی ملک کو بے حیا کہنا جائز نہیںہے۔ لیکن ایک بات دوسری بھی ہے کہ جہاں کھلم کھلا کھیلنے کی اجازت ہو جہاں اخلاقی دبائو نہ ہوں وہاں بکثرت ایسے لوگ بھی بے حیائی کا شکار ہوجاتے ہیں جو اخلاقی دبائو کی صورت میںکبھی بھی نہ ہوتے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آتا کہ ایسی حرکتیں کرنی ہیں۔
پس کثرت کے ساتھ معصوم بچیاں ایسے بہیم صفت انسانوں کے، بہیمانہ صفت انسانوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں اور جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض اعداد و شمار بولتے ہیں ان میں ایک abortionکے اعداد ہیں۔ ایک اس کے بیماریوں کے جن کاSex سے تعلق ہے ان بیماریوں کے اعداد و شمار ہیں۔ پس اس نقطہ نگاہ سے اب میں آپ کے سامنے کچھ حوالے رکھتا ہوں اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلامی ممالک میں بچیاںہوتی ہیں یابچے ہوتے ہیں ناجائز اور ان کو چھپالیا جاتا ہے کیونکہ جب بچہ ہوجائے تو اس کو پھر چھپایا نہیں جاسکتا جتنا زیادہ tabooہو جتنا زیادہ اس کے خلاف ایک عوام الناس میں ایک مزاج پایا جاتا ہو اس کے خلاف اسی حد تک اس کا نمایاںہوکر سامنے آنا ایک قدرتی اور لازمی امر ہے اس لئے abortionبھی وہاں بہت کم چھپ سکتی ہے۔ اورجن ممالک میں اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا وہاں کھل کر اعداد و شمار دیئے جاتے ہیں ۔ اب میں آپ کے سامنے بغیر شادی کے پیدائش کی شرح بعض مستند حوالوں کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ (میں نے کہا مستند حوالوں کے ساتھ تو میں نے کہہ دیا اور حوالہ دیا ہی کوئی نہیں۔ ہیں؟ اچھا آپ نے مجھے شرمندہ کروادیاکوئی ایسی چیز جس کا مستند حوالہ نہ ہو ہم پیش کر ہی نہیں سکتے۔ ایسے مقام پر اس جگہ سے سمجھے ہیں۔)
(کہاںہیں وہ؟ انہوں نے اصل کتاب کا حوالہ دیا ہے؟ نام لیاہے؟ یہ تو یہ ہے میرے سامنے Brtitishجو ہے۔
‏ National Society of Prevention of Cruelty to Childrenیہ ہے… صالحہ صفی؟ ساری ذمہ داری ان پر آگئی ہے۔ اب صالحہ صفی صاحبہ! آپ کے نام پر یہ گناہ اگر گناہ نکلے خدا نہ کرے۔ کیونکہ صالحہ صفی بہت پختہ مزاج کی ہیں ……… لائبریرین ہیں Expertوہ کبھی بھی غلط بات نہیں کہہ سکتیں۔ ان سے میں نے درخواست کی تھی کہ مستند کتب اور مستند رسائل جن کی گواہی تسلیم شدہ ہو یا جن کا وقار ہو اس دنیا میں ان سے حوالے دیں۔ اگر یہ صالحہ صفی کی طرف سے آئے ہیں تو یہی کافی سند ہے۔ ٹھیک ہے ناں! یہ بھی طریقہ ہوتا ہے سند کا کہ شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے امام کی طرف سے ہے اور امام غلط بات کہہ ہی نہیںسکتا۔ تو ہماری جماعت میں تو غیر آئمہ بھی ایسے ہیں جو غلط بات نہیں کہہ سکتے ماشاء اللہ۔ یہ حوالے یہ بتارہے ہیں کہ امریکہ …… یونائٹیڈ سٹیٹس آف امریکہ میں ۱۹۷۲ء میں کل تعداد جو تھی ایسے بچوں کی جو شادی کے بغیر پیدا ہوئے وہ یہ تھی اور جو شادی کے ساتھ پیدا ہوئے وہ یہ تھی۔ Figuresیہ بتائی ہیں (دو لاکھ) ۲۸ لاکھ پچپن ہزار دو سو گیارہ ۱۹۷۲ ء میں باقاعدہ شادی کے نتیجہ میں پیدا ہوئے اور چار لاکھ تین ہزار دو سو بغیر شادی کے اور اس کے بعد ۸۹ء میں یہ تعداد پھر اور بڑھ گئی۔ اور ۸۹ء تک کے صرف اس کے ……… یہ کتاب سے لیا ہوگا۔ انہوں نے کچھ …………… کیونکہ تازہ نہیںہے یہ figuresمگر ۸۹ء گزرے ہوئے کافی دیر ہوگئی ہے اس میں یہ تعداد اس طرح ہوئی کہ جو شادی کے ساتھ پیدا ہوئے تھے ان کی تعداد اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار چھ سو دس یعنی ۷۲ء سے ۸۹ء تک اس تعداد میں کوئی خاص اضافہ نہیںہوا۔ جبکہ بغیر شادی کے پیدا ہونے والوں میںنمایاں اضافہ ہوا اور پانچ لاکھ ستانوے ہزار سات سو اٹھاسی ایسے بچے پید اہوئے جو بغیر شادی کے تھے اور یہ کل نسبت 17.1فیصد بنی۔
فرانس میں ۷۲ء میں 7.8 تھی اور ۸۰ء میں 11.4ہوگئی۔ جرمنی میں ۷۲ء ہی میں 16.2تھی جو ۸۰ء میں بڑھ کر 22.8 تک جاپہنچی اور ۸۰ ء سے اب تک کافی وقت گزرچکا ہے۔ انگلستان میں ۷۲ء میں یہ نسبت 8.6تھی اور ۸۹ء میں 10.9 ہوگئی۔ سویڈن سرفہرست ہے کیونکہ بڑی دیر سے ہی وہاں عجیب قسم کے حالات ہیں کہ دہریت اور کٹر عیسائیت دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اکٹھے رہتے ہیں اور عامۃ الناس بکثرت وہ دہریہ ہوچکے ہیں۔ اور ان کے سکولز ان کے کالجز میں دہریت کی پرورش گاہیں ہیں اور اس کے باوجود جب اسلام کا سوال آئے تو عیسائیت کو وہاں بڑی سخت طاقت حاصل ہے اور بڑے متشدد طور پر وہ اسلام کی مخالفت میں باتیں کرتے، بیان دیتے اور کوئی ان کو روکنے والا نہیںہے۔ پس اگر کوئی عیسائیت وہاں باقی رہ گئی ہے تو اسلام دشمنی ہی میں رہ گئی ہے جو قابل فکر بات ہے۔ سویڈش مزاج کیلئے ایک چیلنج ہے ان کو اس بارے میں ضرور کچھ سوچنا چاہئے۔ ۱۹۷۲ء میںان کی figure تھیں 25.1، یعنی جرمنی کی جو بڑھ کر ۸۰ء میںہوئی وہ آغاز ہی سے ان کی تھیں25.1 ۔اور ۱۹۸۰ء میں 39.7فیصد بچے یہ وہ بچے ہیں جن کے متعلق official decleration ہے تحقیق کے بعد کہ جن کے متعلق قطعیت سے ثابت ہے کہ یہ بغیر شادی کے پیدا ہوئے ہیں۔
ڈنمارک بھی سیکنڈے نیوین ممالک میں ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں ان باتوں میں ڈنمارک اور سویڈن ۔ ڈنمارک میں ۷۲ء میں 14.4تھی جو سویڈن سے کم تھی مگر ۸۰ میں بہت تیزی سے اس نے ترقی کی ہے اور سویڈن کے قدم کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کی ہے چودہ سے چھلانگ لگاکر 33.2تک پہنچ گیا ہے ڈنمارک۔ یہ کل ہے ان کی نسبت جس کو ہم جائز یا ناجائز اولاد کہتے ہیں۔ ناروے ان میں سے بہت بہتر ہے اور ناروے کے بہتر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے مذہب نہیں ہے بلکہ ان کی عائلی زندگی کا نسبتاًintact ہونا ہے۔ ناروے کا بہت سا علاقہ دیہاتی ہے اور دیہاتی طرز زندگی کو وہ پسند کرتے ہیں۔ اگر شراب کی خرابی نہ ہوتی جو ناروے میں بہت بری عادت ہے تو ناروے اخلاقی لحاظ سے ان ممالک میں بہت بہتر ہوتا۔ جو بھی اگر جرائم ہیں یا کچھ ظلم پائے جاتے ہیں تو شراب کی وجہ سے ، شراب تو ایسا ہے جیسے اس کے بغیر وہ رہ ہی نہیںسکتے۔ اس لئے ناروے میں اس کے باوجود صرف 8.7 کی تعداد جو ۸۰ء میں 14.5ہوگئی دیگر ممالک میں امریکہ ……… یا کل موازنہ شرح فیصد……… یہ طلاقوں کا ہے اس کوضرورت نہیں دینے کی اس وقت۔ اب میںایک اصولی طور پر ایک کتاب ہے برٹش گورنمنٹ کی پبلیکشن ہے اس میں سے آپ کو اس مضمون پر بتاتا ہوں کہ کیا ہورہا ہے۔ یہ official declarationہے
According to the British Government's yearly publication social trends 25 published 1995 HMSO.یہ تازہ حوالہ ہے
" The increasing numbers of conceptions outside marriage has led to a big increase in the proportion of birth outside marriage. Over the past 30 years the percentage of birth outside marriage has increased from about 1 in 20 to almost 1 in 3 in 1993.
بہت ہی خوفناک حال ہے۔ اللہ رحم کرے اس ملک پہ اس کے خلاف باقاعدہ یہاں کے احمدیوں کو اپنے اپنے ماحول میں ایک جہاد شروع کرنا چاہئے کہ حیاداری کی طرف واپس آئو۔ یہ دیکھیں یہ کہتا ہے کہ conceptionsجو حمل ٹھہرے ہیں شادی کے بغیر اس کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے اور جو گرائے گئے ہیں وہ تو گرائے گئے ان کا کوئی ریکارڈ نہیں مگر جو بچے گرائے جانے کے بعد بچ رہے اور پیدا ہوئے ، ان کی نسبت کہتا ہے اب ۹۳ء میں بڑھ کر، پہلے یہ ہوتی تھی تیس سال پہلے کے جو اعداد ہیں ان کے مقابل پر جب پہلے بیس میں سے ایک بچہ، بیس پیدائشوں میں سے صرف ایک بچہ غیر قانونی طور پر پیدا ہوتا تھا۔ اب ہر تین میں سے ایک بچہ غیر قانونی طور پر پیدا ہورہا ہے۔ اور یہ وہ ہیں جو تسلیم شدہ حقائق ہیں۔ کیونکہ یہاں ایک اور پہلوبھی ہے یہ جو اعداد و شمار ہیں یہ پھر دھوکا بھی دے سکتے ہیں۔ ایسے ممالک جہاں بے حیائی تو ہے مگر شادی نے پردے ڈالے ہوئے ہیں، وہاں بہت کم لوگ ہیں جو اقرار کریں کہ یہ بچہ تو میرے خاوند کے ذریعے نہیں بلکہ دوسرے شخص کے ذریعے ہے یہ جو رجحان ہے یہ آزاد ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔جب تک کوئی باقاعدہ تحقیق ، سوال کرکے اس بات کو اچھالے نہیں اس وقت تک عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جس خاوند کی بیوی کا بچہ ہے وہ اسی خاوند کا بچہ ہوگا۔ لیکن یہ جو بے حیائی ہے اس کا تیسری دنیا کے ممالک میں پتا کرنا بہت مشکل ہے اگر ہے تو ………… اور ضرور ہوگی جیسا کہ آج کل بدکرداری پھیل رہی ہے۔ وہ پکڑی نہیںجاسکتی وہاںتحقیقی ٹیمیں بھی کریں گے کام کریں گی ناں، تو جس گھر میں جائیں گے وہ جوتیاں مار کر نکال دیں گے وہاں سے ۔ خبردار! تم ہوتے کون ہوہم پر الزام لگانے والے یا پوچھنے والے۔ یہاںیہ بات نہیں ہے وہ یہ ایک شرافت ایک پہلو سے بڑی بھاری شرافت ہے کہ سچائی کے معاملے میں تعاون کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر چھپائیں گے بھی تو کہیں گے کہ جائو ہم کچھ کہنے کیلئے تیار نہیں۔ ورنہ بعض دفعہ مان جاتے ہیں کہ ہاں یہ بات ہوئی ہے، اس لئے جہاںایک طرف ایک قسم کی برائی ہے وہاں دوسری طرف دوسری قسم کی برائی ہے۔ وہاں معاشرتی دبائو نے بعض برائیوںکو کم تو کیا ہے لیکن بعض برائیوںکو بڑھا بھی دیا ہے اور وہ ہے سچ اور جھوٹ کا توازن ۔
ایسی جگہ جہاں غیر معمولی سختی کی جائے اور اخلاق کو بہتر بنانے پر زور دینے کی بجائے بداخلاقی جہاں ظاہر ہو اس کو تیز سزائیں دینے کا رجحان ہووہاںلازماً جھوٹ بڑھے گا۔ اور یہ واقعہ ہے کہ تیسری دنیا میں عموماً اور بعض اسلامی ممالک میں یہ بات عام ہوچکی ہے کہ وہ جھوٹ بول کراپنی عزت بچانے میں باک محسوس نہیں کرتے۔ جہاں اخلاقی قدروںکو بحال رکھنے اور قائم رکھنے کیلئے کوشش نہ کی جارہی ہو مگر ساتھ ہی ان کے نتائج پر غیر معمولی سختی نہ کی جائے وہاں سچ پنپتا رہتا ہے کیونکہ سچ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے ایک یہ ضمنی فائدہ ان لوگوںکو ہوگیا ہے کہ کھلے ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں سچائی پرورش پارہی ہے جو اگر ایک ایسے معیار تک پہنچ جائے کہ وہ قوم کا کردار بن جائے تو بہت سی دوسری چیزوں میں بڑے فائدے پہنچاسکتی ہے۔ یہ لوگ اگر اسلام کو قبول کرکے سچائی کی طرف لوٹیں گے یا اگر اچھی قدروں کی طرف لوٹیں گے تو آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک نمونہ ہے۔ واقعتا یہ لوگ پاکباز ہوئے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے ممالک میں بدقسمتی سے اس یقین اور تحدی سے یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال یہ جو افسوسناک کوائف ہمارے سامنے آئے ہیں میں آپ کے سامنے اس لئے محض اس لئے رکھ رہا ہوں کہ وہ تاثر جو دیا گیا تھا کہ مسلمان ممالک میں بے حیائی سب دنیا میں سب سے بڑھ گئی ہے بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔
آج جبکہ حد سے زیادہ معاملہ گرچکا ہے، آج بھی ان سب باتوں کے جو باوجود میں آپ کو بتارہا ہوں یہ منافقت ہے ، جھوٹ ہے پھر بھی قطعیت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں بے حیائی یہاں کی نسبت بہت کم ہے۔ یہ عمومی تبصرہ کرتے ہوئے یہ رپورٹ لکھتی ہے۔
Although the proportion of birth outside marriage varies considerably which countries increasing throughout the westeren Europe. The United Kingdom have a relatively high proportion of birth outside marriage at 31% in 1992, but the rate is higher still in Denmark and France at 46% and 33%.
اب ڈنمارک میں نے بتایا تھا بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے مقابلے میں ۔46 پہ پہنچ گیا ہے۔33 پہ پہنچا تھا جبکہ سویڈن ابھی 37 پر تھا اور کوئی پتہ نہیں کہ اب سویڈن کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہو۔
on the other hand the rate is still very low in Greece and Italy.
‏ Greeceاور اٹلی میں یہ ریٹ بہت low ہے۔ تین اور سات فیصد respectively۔ اب یہ کیا وجہ ہے کہ وہاں lowہے اس کی وجہ وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی ہے ناروے کے حوالے سے جہاں خاندانی دبائو زیادہ ہوں سوسائٹی کے بغیر وہاں ایک طبعی طور پر ان چیزوں پر قدغن لگ جاتی ہے اور اگر کچھ ہوا ہے تو وہ پردے میں ہی رہتا ہے پھر۔ اس کو باہر نکلنے نہیں دیا جاتا۔اس لئے یہ کہنا کہ اٹلی اخلاقی لحاظ سے بہت بہتر ہے یہ اعداد و شمار بتارہے ہیں مگر جو عمومی جائزہ ہے یہاں سے جانے والوں کا، میں نے خود بھی سفر کرکے دیکھا ہے اٹلی میں مختلف جگہوں پر نظر آتا ہے کہ بے حیائی موجود ہے صرف فیملی نے کچھ اس کو محدود دائرے میں محفوظ کررکھا ہے اور کچھ فیملی دبائو کے نتیجہ میںیقینا شمالی علاقوں کی نسبت کم ہے۔ کم ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن وجہ اس کی یہی ہے کہ خاندانی نظریں ، خاندانی تحفظات یہ بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔۔ بے حیائی کے خلاف، اور اسی لئے ہمیں یہاںبھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جہاں جہاں یہ خاندانی قدریں ٹوٹتی ہیں وہاں معاشرے کا عمومی نقصان وہاں زیادہ سرایت کرجاتا ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کواور جماعت احمدیہ کو خصوصیت کے ساتھ اس معاملے میں ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔وہاں کا عمومی معاشرہ جیسا کہ اعداو شمار سے ظاہر ہوچکا ہے کچھ نہیں بھی ہوا وہ بہت زیادہ زہریلا ہوگیا ہے۔ اتنا زہریلا کہ دنیا کے پردے پہ کہیں کوئی ایسا معاشرہ زہریلا نہیں ہوگا کیونکہ آزادی کے نام پر انہوں نے کھلم کھلا بے حیائی کی تعلیم دینے کے اڈے بنائے ہوئے ہیں اور دنیا کے کسی ملک میں بے حیائی کی تعلیم کیلئے ایسی institutionموجود نہیں جیسی امریکہ میں ہیں اور امریکن فلموں نے تمام دنیا میں ایک مصیبت ڈال رکھی ہے اس پہلو سے ۔ بے حیائی میں leadوہ کرتے ہیں پھر یورپ ان کے پیچھے پیچھے چلتا ہے پھر دوسرے ممالک ان کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ پہلے تو سیٹلائٹ ٹیلیویژن کا رواج نہیں اس لئے تیسری دنیا کے ممالک تک ان بے حیا فلموں کی رسائی نہیں تھی۔ اب بد قسمتی سے سیٹلائٹ کو جو رواج ملا ہے وہ بے حیائی کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر رواج ملا ہے۔ اور اس کے بغیر سیٹلائٹ چل ہی نہیں سکتے سوائے احمدیہ سیٹلائٹ کے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنی بھی کمپنیاں اس وقت دنیا میں کام کررہی ہیں سیٹلائٹ کے ذریعے ٹیلیویژن کی تصویریں یا پروگرام پہنچانے کے وہ تمام تر اس اشتہاری آمد پر اپنے کام چلاتی ہیں جو مختلف کمپنیاں اپنے اشتہار کیلئے ان کو دیتی ہیں۔ کوئی مخلص جماعت تو نہیں ہے جو قربانیاںکر کر کے اس نظام کو کوئی زندہ رکھنے کیلئے اپنے پیسے اس میں پھینکے۔ ایک ہی ہے صرف ساری دنیا میں۔ کوئی مثال نہیں اس کی۔ احمدیہ جماعت کے سوا اس قسم کا ٹیلیویژن نہ وجود میں آیا ہے نہ آسکتا ہے کبھی۔ کیونکہ جماعت احمدیہ کو خدا نے یہ توفیق بخشی ہے کہ محض للہ اعلیٰ قدروں کی خاطر قربانی کریں اور اس میں لذت اٹھائیں، قربانی کرکے بور محسوس نہ ہوں۔ جتنی کریں اتنا ہی ان کا مزا بڑھتا چلا جاتا ہے اس لحاظ سے تو جماعت احمدیہ کی حالت تو اس بلی کی سی ہے جو ریتی سے اپنی زبان چاٹتی تھی۔ ریتی چاٹتی تھی مگر چاٹ رہی تھی اپنی زبان۔ اور اس خون کا جو مزہ آرہا تھا اس میں وہ اپنی ساری زبان کھاگئی۔ وہی حال جماعت احمدیہ کا اس حد تک ہے کہ قربانی میں ویسا ہی مزا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محسوس کرنے لگی ہے جو اپنی زبان چاٹتی ہوئی بلی کومزہ آتا تھا۔ مگر ایک فرق ہے کہ یہ زبان چاٹی نہیں جاسکتی کیونکہ خدا کی طرف سے ایک وعدہ ہے حتمی کہ لاکھ زبانیں تم چاٹو گے تو کروڑ تمہیں عطا کردی جائیں گے یہ زبان کبھی ختم نہیں ہوگی۔
پس آج کی دنیا میں جماعت احمدیہ کا ٹیلیویژن بے حیائی کے خلاف ایک عظیم کردار ادا کرنے میں ایک معجزہ ہے اور باقی سب ٹیلیویژن اب ایسے چنگل میں پھنس چکے ہیں کہ ان کے بس کی بات ہی نہیںرہی۔ میری مختلف ٹیلیویژن کے نمائندوں سے جو یہاں ہمارے کاموں کے سلسلے میں کئی دفعہ آتے رہے، چوٹی کے ، ان سے بات ہوئی ہے۔ وہ صاف صاف اقرار کرتے ہیں کہ یہ جو آپ کا ٹیلیویژن ہے یہ کسی کے بس میں ہے ہی نہیں دنیا میں۔کیونکہ ہم کمپنیاں ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں ہیں۔ ہم اگر نیک ٹیلیویژن بنائیں گے تو ٹیلیویژن بند ہوجائیں گے۔ سارے اشتہار دینے والی کمپنیاں ہاتھ کھینچ لیں گی کہ تم پاگل ہوگئے ہو کون تمہیں دیکھے گا۔ کون ہماری چیزیں خریدے گا۔ پس جہاں بے حیائی اشتہار کے ساتھ اس طرح باندھی جائے کہ چولی دامن کا ساتھ ہوجائے ایک دوسرے پر ان کی بقا کا انحصار ہو وہاں یہ lost battle ہے already۔ ایسی جنگ جس کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ کون جیتے گا کون ہارے گا ۔ بے حیائی جیتے گی اور حیا ہارے گی۔ یہاں صرف احمدیہ جماعت کو خدا نے توفیق بخشی ہے کہ ان سب کے مقابل پر ایک عجب نئی آواز اٹھائیں۔ اور جو دوسرے کوشش کریں گے وہ بھی ناکام ہوجائیں گے ۔ ایک رستہ ہے صرف کوشش کا کہ اسلامی ممالک اپنے پیسے سے کثرت کے ساتھ روپیہ اس معاملے میں خرچ کریں اور ایسی نئی ٹیلیویژن کمپنیاں بنائیں جو دینی پروگرام بنائیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کو دیکھنے والا نہیں ملے گا۔ وہ بنا کے دیکھیں لوگوں نے سوئچ آف کرکے دوسری طرف چلا جانا ہے۔ ہمارے پروگراموں کے دیکھنے والے guaranteedہیں یہ ایک دوسرا پہلو ہے اگر guaranteed نہ ہوتے تو اپنے پلّے سے پیسے کیوں دیتے ان کا اپنے پلّے سے پیسے دینا بتارہا ہے کہ ان کو اتنا عشق ہے نیکی کے پروگراموں سے کہ اپنے پلّے سے دیتے بھی ہیں تو پھر دیکھنے کیلئے دیتے ہیں ناں۔ اس لئے وہ سارے خاندان، ان کے بچے، چھوٹے بڑے سارے اپنی آنکھیں ٹیلیویژن سے پیوستہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور اس کا ان کو جس طرح دنیا کو drug addictionہے اب آج کل احمدی دنیا میں MTA addictionہورہی ہے اور اللہ کے فضل سے اچھی addictionہے۔ یہ جو حصہ ہے یہ میں آپ کو بیان کررہا ہوں کہ بے حیائی کے جہاں تک نئے زمانے کے تقاضے ہیں بے حیائی بظاہر جیتتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اس میں ساری دنیامیں سب سے بڑا کردار اسلامی ممالک نہیں عیسائی ممالک ادا کررہے ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو کوئی تلخ محسوس کرے تو جائز نہیں ہوگا اس کیلئے۔ بالکل سادہ واقعات ہیں ، سادہ حقائق ہیں جو خود بول رہے ہیں۔ جوں جوں سیٹلائٹ ٹیلی ویژن کا رواج بڑھ رہا ہے ساتھ ساتھ اسی طرح بے حیائی کی تصویریں بھی عام ہوتی جارہی ہیں اور چونکہ بے حیائی کے سہارے چل رہے ہیں وہ نظام اس لئے وہ مقبول بھی ہیں۔ بے حیائی نکال دیں گے تو ان کی عمارتیں دھڑام سے نیچے جا پڑیں گی ۔ اس کے باوجود جو ہمارے حق میں شرافت اور حیاداری کے حق میں جو خداتعالیٰ نے قدرت کے ذریعے قدرتی طور پر انسانی فطرت میں کچھ رجحانات رکھے ہیں وہ اپنا اثر دکھانے لگے ہیں ۔ بہت سے ممالک میں اس رجحان کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اکثر ٹیلیویژن کو منسلک کیا جاتا ہے سیٹلائٹس وغیرہ کے ذریعے اس مقصد سے کہ ذراگندی اوربے حیا فلمیں دیکھیںگے۔ اس کے باوجود ہر خاندان میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دل میں اس کے خلاف ردّ عمل ہے۔ ان کو متبادل نظام ملتا ہے تو احمدیہ جماعت کے ٹیلیویژن میں ملتا ہے اور جب وہ دیکھتے ہیں تو دو باتوں سے وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صاف پاک، کوئی بے حیائی کی بات نہیں اس کے برعکس کوششیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ مذہبی ہونے کے باوجود دلچسپ ہیں اور دل اور دماغ کو پکڑ لیتے ہیں۔
پس اس پہلو سے کوئی دوسری مسلمان ریاست بھی احمدیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ایک یہ بھی وجہ ہے کہ دلچسپ پروگرام دینے ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ جب وہ مذہبی بات کریں گے تو medievalعلماء کی طرف جائیںگے جو رسول اللہ ﷺ تک پہنچتے ہی نہیں ، وہ بیچ کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں جو تاریکیوں کا دلدل تھا ۔ وہ وسطی دور جس میں فقہا کی حکومت تھی اور سخت فتویٰ دینے والوں کا دور تھا، ان کی راجدھانی تھی جس طرح priesthoodکا ایک دور نظر آتا ہے جو میں نے آپ کو دکھایا ہے اسی طرح ایک دور ایسا گزرا ہے جہاں فقیہہ بہت بڑی طاقت کے ساتھ ابھرا ہے اور ریاست کا قانون اس کے مظالم میں اس کا مددگار بن گیا ۔ یہ رجحان جو ہے یہ اسلامی تاریخ میں سب سے بدترین رجحان تھا۔ اور یہ وہ دور ہے جس نے ایسے ایسے مظالم کو جنم دیا جس کے متعلق اب بھی مغربی دنیا شور مچاتی ہے۔ حالانکہ اپنے مظالم کو چھپادیتے ہیں جو مذہب کے لحاظ سے مذہب کے نام پر اس سے بہت زیادہ تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وسطی ازمنہ میں مذہب کو جس قدر ظالمانہ طریق پر استعمال کیا گیا ہے اسلامی دنیا میں بھی وہ ہمارے لئے سخت تکلیف کا اورشرم کا موجب ہے ، مگر ملاّں ہمیشہ ریاست کے ساتھ ساز باز کرتا ہے۔ وہ ریاست کے اوپر ایک عجیب طرح سے دبائو ڈالتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر تم ہمارے شر سے بچنا چاہتے ہو تو پھر ہمارے فتووں کو اہمیت دو ہمارے دائیں طرف رہو۔ اگر تم ہماری دائیں طرف رہو گے تو ہم بائیں طرف رہتے ہوئے بھی اپنے شر سے تمہیں بچائے رکھیں گے۔ اور اس طرح ہاتھ میں ہاتھ ملاکر وقت کے علماء حکومت کے ساتھ چلتے اور سیاست دان رفتہ رفتہ ملاّں کا غلام ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ پھر بہت دیر ہوجاتی ہے۔ پھر اس کیلئے پیچھا چھڑاکر آزاد ہونا ممکن ہی نہیں رہتا۔ یہی کھیل پہلے کھیلا گیا وسطی ازمنہ میں۔ یہی آج بعض اسلامی ممالک میں کھیلا جارہا ہے۔ ہم بار بار ان کو متنبہ کرتے ہیں مگر افسوس! کہ پوری طرح ہوش نہیں۔ مگر جو لوگ سنتے ہیں ان تنبیہات کو مثلاً لقامع العرب وغیرہ میں۔ ان میں سے بہت سے پھر خط لکھتے ہیں، رابطے کرتے ہیں، کہتے ہیں آج ہمارے دل کی بات ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے تو سب فتنہ و فساد تھا مذہب کے نام پر۔ سمجھ ہی کچھ نہیں آتی تھی ہوکیا رہا ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ ایک حقیقت میں اسلام کا نقیب بھی ابھرا ہے جو MTAکی صورت میں ہمارے سامنے آگیا ہے۔ یہ تو خدا کے فضل سے بہت ہی مبارک ایک نظام ہے جس کے ذریعے سے انشاء اللہ تعالیٰ ہم پہلے سے بہت بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ اور قوت کے ساتھ اور گہرا اثر رکھتے ہوئے انشاء اللہ دنیا کے اخلاق کو اسلامی اخلاق بنانے کی کوشش کریں گے لیکن اب جو حل ہے اس کی اب تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ یہی ہے کہ بے حیائی کا پلڑا بہت بھاری ہے اور اتنا بھاری ہوچکا ہے کہ اب کہنا کہ یہ عیسائی دنیا میں زیادہ اور غیر عیسائی دنیا میں کم ہے یہ اگر درست بھی ہو تو ایک محفوظ دعویٰ نہیں ہے کیونکہ توازن بگڑ رہے ہیں بڑی تیزی سے۔ غیر عیسائی دنیا بھی اب بے حیائی میں آگے بڑھ کر سامنے آرہی ہے اور ایک ذریعہ اب ہمارے پاس باقی ہے ۔ ہاں ایک بات میں یہ کہنا بھول گیا کہ جب یہ بے حیائی بڑھتی ہے تو پھر شرافت اور انصاف اور انسانی قدروں کے ہر تقاضے کو پامال کردیتی ہے۔ اس پہلو سے childabuseکا جو نیا دور ہے بدبختی کا یہ بھی ایک تھرما میٹر ہے بتانے کیلئے کہ عیسائی دنیا میں زیادہ ہے یا غیر عیسائی دنیامیں زیادہ ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عیسائی دنیا اس وقت اس بدبختی میں، بدنصیبی سے سب سے آگے بڑھ گئی ہے اور اسلامی ممالک میںایسے واقعات اگر ہوتے ہیں تو دبا دلیے جاتے ہوں گے مگر اس کے باوجود ہم سوسائٹی کو جانتے ہیں ۔ بہت ہی شاذ ہیںایسے کہ ایک شہر میں چند بھی ہوجائیں تو وہ بہت ہی ایک ہولناک منظر پیدا کرتے ہیں اور پھر سوسائٹی بالآخر قانون اجازت دے نہ دے ان کو دبالیا کرتی ہے۔ مگر پھر بھی اندر اندر پنپتے ہوں گے۔ یہاں بھی اندر اندر پنپتے رہتے ہیں جو اچھل کر باہر آگئے ہیں ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اور ان کا رجحان بہت مہیب ہے۔ یہ رپورٹ ہے "NSPCC" Record یہ NSPCC کیا چیز ہے؟
National Society for the Prevention of Cruelty to Children.
انگلستان کی ایک نیشنل سوسائٹی ہے جو بچوں کو مظالم سے بچانے کے لئے قائم کی گئی ہے اور زیادہ تر اپنے ماں باپ کے مظالم سے بچانے کیلئے، غیروں سے نہیں۔ غیروں سے بھی بچاتے ہوں گے مگر اصل ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ معصوم بچے جو بظاہر اپنی چاردیواری میں اپنے ماں باپ کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں۔ اس سے زیادہ محفوظ او رکون ہوسکتا ہے جو اپنے ماں باپ کے قبضے میں ہو۔ مگر وہی ظالم بھیڑیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس رجحان کے خلاف اس کی روک تھام کیلئے یہ سوسائٹی وجود میںآئی اور ان کی رپورٹس شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:-
A record rise ........................
(اچھا نہیں وہ نہیں لکھتے ان کی رپورٹس میںسے ہم نے نکالا ہے)
A record rise in reports of child's sexual abuse, showing 137% increase last year.
اب اندازہ کرلیں یعنی اپنے بچوں کو جنسی اور شہوانی جذبات کا نشانہ بنانا اور ان بے چاروں کو جن کی کوئی آواز نہیں ، ان مظلوموں کے گلے گھونٹ دینا گھر کے اندر اور بے حیائی کا نشانہ بنانا جس میں ایسے مقدمے یہاں سامنے آئے ہیں کہ بیویاں خاوند کی مدد کرتی ہیں اپنے بچوں کے خلاف ، خاوند بیویوں کی مدد کرتے ہیں۔ اور ایسے گھرہیں انتہائی بہیمانہ حرکتیں اس تہذیب کے بظاہر ترقی یافتہ دور میں دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ لکھ رہے ہیں یہ سوسائٹی والے کہ پچھلے سال سے اس سال 137فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ اور اکثر لوگ، اس رپورٹ میں بھی یہ ذکر ہے اور باقی جگہ بھی، میں تفصیل سے نہیںپڑھنا چاہتا کیونکہ بہت ہی یہ تکلیف دہ کوائف ہمارے سامنے رکھ رہی ہے ۔ اکثر محققین اس بارہ میں کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں آزاد دوسری قسم کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ مبالغے نہیں کررہے بلکہ اصل کہانی سے بہت تھوڑی بیان کررہے ہیں کیونکہ کسی بیرونی تنظیم کو یہ توفیق نہیں ہے کہ گھروں کے اندر داخل ہوکر ان کے اندر کے ظلم کی کارروائی کو باقاعدہ ریکارڈ کرسکے۔ اتفاقاً کبھی ہمسائیوں کے نظر رکھنے کے نتیجے میں، کبھی بچے کی بدحالی جو سکول میں ظاہر ہوجاتی ہے، کبھی ان بچوں کے ذریعے جو بھاگ جاتے ہیں گھر چھوڑ کر اور بعض دفعہ سردیوں میں یہ جو بڑے بڑے سٹیشن ہیں tube stationsا ن کے اندر چھوٹے چھوٹے بچے بیچارے اکٹھے ہوئے ہوئے کسی طرح سردی میں رات گزارتے ہیں اس وجہ سے کہ ان کو اپنے گھروں میں امن نہیں ہے ۔ ایسے ظلم کے واقعات زیادہ ہیں بہت جو اعداد وشمار دکھارہے ہیں۔ تو یہ ہے سزا اس ظلم کی جو، ایک یہ بھی وجہ ہے جو اسلام کے خلاف ان کی صدیوں نے توڑے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا پادری اٹھتا تھا اور جھوٹے ناجائز حملے حضرت رسول اللہ ﷺکی ذات پر بے حیائی کے ساتھ کرتا رہا ، کوئی روکنے والا نہیںتھا۔ اب خدا نے دکھادیا ہے، خدا کی تقدیر نے جو اپنے معصوم بندوں کی حفاظت کیلئے پھر للکارتی ہے اور ایک کارروائی کرتی ہے کہ وہ ساری بھڑکیاں ، سب بکواس، جھوٹ جو محمد رسول اللہﷺ کے خلاف بہتان کے طور پر باندھا گیا تھا،اسلامی سوسائٹی کے خلاف بہتان کے طور پر باندھا گیا تھا وہ اب ان کی گلیوں میں بول رہے ہیں ، ان کے گھروں میں بول رہا ہے اور بسااوقات اس کی آواز سنائی نہیں دیتی کیونکہ اس کے گلے گھونٹے جارہے ہیں۔
پس یہ کسی فخر کے اظہار کے طور پر نہیں کیونکہ یہ فخر والی بات ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس فکر کے اظہار کے طور پر کہ یہ باتیں جن رجحانات کا طبعی تقاضا تھیں وہ طبعی رجحانات ہمارے ملکوں میں بھی پھیل رہے ہیں۔ اس انجام کو پہنچو گے تم اگر تم نے ہاتھ نہ روکے اور قدم نہ روکے اور جس بے حیائی کے ساتھ گھروں میں اب اڈے بن گئے ہیں فلمیں دیکھنے کے، بلیو فلم یا this and thatوہ جو اڈے ہیں وہ اپنے بد اثرات ، زہریلے اثرات ضرور چھوڑیں گے اور یہ میں صرف ایک تفاخر کے طور پر نعوذ باللہ من ذالک ہر گز بیان نہیں کررہا۔ ایک تنبیہ کے طور پر کررہاہوں کہ جب یہ حالات ہوجائیں جہاں مذہب بھی منافقت کا ذریعہ بن جائے وہاں پھر یہ چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک اور چیز یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ ہو تو کیا قانون قدرت خاموش رہتا ہے؟ اور خاموشی سے ان چیزوں کو آگے بڑھنے دیتا ہے؟ یہ درست نہیں ہے اور جو قانون قدرت کارروائی کرتا ہے وہ خود سب سے زیادہ قطعی ذریعہ بن جاتی ہے، یہ معلوم کرنے کا کہ کس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ مثلاً اپنی بے حیائیوں کو تو بعض سوسائٹیاں چھپالیں گی، بعض خاندان چھپالیں گے مگر اپنی بیماریوں کو نہیں چھپاسکتے، وہ بولتی ہیں ، وہ کھل کر باہر نکلتی ہیں ان کی اموات ان کی موت کی طرزیں بولتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ اس کے پس منظر میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ اس لئے سب سے آخر پر میں یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہوں سب دنیاکو کہ حقیقت میں اگر امن ہے تو اسلامی قدروں میں ہے، اسلامی اخلاق میں ہے۔ اگر یہ قدریں کسی اسلامی ملک میں نہیں رہیںاس وجہ سے بے حیائی ہوئی ہے۔ تو اسلامی ممالک بھی ذمہ دار ہیں ان کو بھی خدا کے حضور جواب دینا ہوگا۔ لیکن اگر انہوں نے کسی دنیا میں، دنیا میں کسی ملک میں واقعتا اپنے مستقبل کے آنے والی نسلوں کیلئے امن کا کچھ حصہ باقی چھوڑنا ہے تو ان کیلئے لازم ہے کہ وہ اسلامی قدروں کی طرف لوٹیں اور خصوصیت سے جنسی بے راہ روی کا جہاں تک تعلق ہے س کا علاج اسلامی تعلیم ہی میں ہے۔ اسلامی تعلیم بے حیا نہیں بناتی بلکہ بے حیائی کے خلاف سب سے بڑی روک ، بلکہ سدّ سکندری کھڑی کرتی ہے۔ اس تعلیم پر اگر عمل ہو تو اللہ کے فضل کے ساتھ سوسائٹی اب بھی بچ سکتی ہے۔
اب ایڈز ہے جو قانون قدرت کے ذریعہ سزا کے طور پر وارد کی گئی ہے اب۔ اس سے پہلے اور بھی تھیں بیماریاں جنہوں نے ایک لمبے عرصے تک ایسے بے راہ رووں کو سزائیں دیں جن کا جنسی بے راہ روی سے تعلق تھا۔ مگر وہ دور اپنے پورے کرچکی ہیں۔ اب پھر بعض واپس بھی آجاتی ہیں۔ مگر اب وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ایڈز اس کے مقابل پر ایک بہت بڑی بلا ہے جو ان کے سارے ذرائع اختیار کرنے کے باوجود رک نہیں رہی، آگے بڑھ رہی ہے ۔ جب شروع شروع میں ایڈز کے قصے چلے تھے تو ٹیلیویژن میں یہ بار بار تنبیہیں کرتے تھے کہ ایک ہی علاج ہے کہ تم شریف ہوجائو اور کوئی علاج نہیں ۔ پھر وہ دور آگیا کہ نہیں شریف ہونے کی ضرورت نہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرلو۔ کیونکہ شرافت کی طرف لوٹ نہیں رہے تھے یہ آواز کسی کان پہ اثر ڈالتی ہی نہیں تھی۔ تو اچھا پھر احتیاطی تدابیر ہی اختیار کرلو۔ اب کہتے ہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے تو ہو مگر اب ہم کیا کریں پھر بھی پھیل رہی ہے کیونکہ احتیاطی تدابیر میں حادثاتی واقعات بھی تو گزرتے رہتے ہیں اور کہاں تک انسان جو نفس کا غلام ہوچکاہو احتیاطی تدابیر اختیار کرکرکے اپنی لذتوں میں کدورت پیدا کرے۔ کیونکہ احتیاطی تدابیر کچھ قیمت مانگتی ہیں۔ پیسوں کی صورت میں نہیں بلکہ جن لذتوں کی اندھا دھند تقلید ہورہی ہے ان کے اندر کچھ کمی پیدا کرکے وہ تدابیر بعض دفعہ اپنے طور پر سزا بن جاتی ہیں مثلاً عورتیں ہیں جو preventives اختیار کرلیتی ہیں۔ رحموں کے اوپر، مونہوں کے اوپر چیزیں باندھ لیتی ہیں اور بہت سے ایسے معاملات ہومیو پیتھی کے دوران میرے سامنے آئے ہیں جس سے ثابت ہوا کہ uterusکی گردن کا کینسر اس کی وجہ سے ان لوگوں میں زیادہ ہے جو یہ ٹوپیاں پہنتی ہیں بہ نسبت ان کے جن میںیہ رواج نہیں جو اس سے بچتی ہیں۔
چنانچہ میرے علم میںجب کوئی آئے تو میں بڑی، جہاں تک ممکن ہے، سختی سے سمجھاتا ہوں کہ ایسا کام نہ کرو کیونکہ گناہ تو نہیں ہوگا کیونکہ ڈاکٹر تمہیں کہتا ہے کہ تم بچہ نہ جنو بیشک لیکن گناہ نہیں پھر بھی اپنی ذات کیلئے نقصان دہ ہے۔ اس کے متعلق کوئی تحقیقی رپورٹ میر ے سامنے نہیں ہے اس لئے کوئی اس کو medicalyسند نہ سمجھے ۔ مگر میرا یہ تاثر ہے کیونکہ میرے پاس بہت سے کیسز آتے ہیں جہاں utrineکی خرابیاں رحموںکی تکلیفوں کے واقعات ہیں، آئے دن بعض دفعہ ۲۰ سے بھی زائد سامنے آتے ہیں۔ ان کے معائنے سے ان کے عمومی مطالعہ سے میں نے یہ تاثر اخذ کیا ہے کہ ایک وجہ گردن کے زخموں کا اور گردن یعنی گردن سے مراد رحم کی گردن صراحی دار گردن جو ہے ا س کے زخموںاور اس کی سوزشوں کا اور ہوسکتا ہے اس کے کینسر کا اس قسم کے ذرائع سے بھی ہو لیکن یہ پھر میں وارننگ دے رہا ہوں کہ یہ میرا تاثر کسی تحقیقی رپورٹ کی بنا پر نہیں ہے ۔ ہاںہوسکتا ہے آئندہ کوئی رپورٹ ایسی شائع ہو جو اس کو تقویت دے۔ مگر احتیاط بہرحال بہتر ہے، اس سے بچنا چاہئے۔ پس یہ میں مثال دے رہا ہوں اس طرح کے ذرائع اکثر ، بعض تو مجبوری میں کرتے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ تمہیں بچہ نہیں کرنا چاہئے ، بعض بے حیائی کی ترویج کی خاطر یہ کرتے ہیںبے دھڑک ہوکر پھر جو چاہے کرتے پھریں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایسے لوگوں کو پھر قدرت اور طرح سزائیں دیتی ہے اور ان میںسے ایک میں نے یہ بتائی تھی سوزشیں، کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں مگر جو ایڈز کی سزا ہے وہ سب سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسی سزا ہے جس کے متعلق یہ کہنا کہ لازماً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سزا مقرر ہوئی ہے۔ اتنی یقینی بات ہے کہ اس کے خلاف آپ کے دل میں ذرابھی تردّد نہیںہونا چاہئے کیونکہ اس کے سزا ہونے کا عنوان آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت ﷺ نے لگایا تھا ایک ایسے زمانے میں ایسی بات کی کہ جس زمانے میں اس قسم کی بے حیائی کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھا جس کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ صحیح مسلم کی حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میںجہاں دجال کا ذکر ہے ظاہر ہے کہ دجال کے زمانے کی باتیں ہورہی ہیں اور دجال کا زمانہ وہ زمانہ ہے جس کو ہم تفصیل سے قطعی طور پر ثابت کرچکے ہیں کہ آج کا دور جس میں و ہ سواریاں ایجاد ہوئیں جو دجال کے گدھے کے طور پر بیان کی گئیں۔ ان قوموں کا عروج ہوا جن کی علامتیںکھل کر سامنے آگئی ہیں۔ اس لئے اس میں شک ہی کوئی نہیں کہ دجال کا دور یہ دور ہے جس میں سے ہم گزررہے ہیں ، کہیں پگھلنا بھی شروع ہوچکا ہے دجال لیکن کہیں یہ ابھی اپنے زوروں پر ہے۔ اس کے آخر پر یہ بات رکھنا قطعی طور پر ثابت کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس زمانے کے حالات ملحوظ رکھتے ہوئے ایک پیشگوئی فرمارہے ہیں ۔ فرماتے ہیں ’’ایسے لوگ……… یہ الفاظ پورے یہاں نہیں ہیں یہ ذکر ہے کہ:- ’’ وہ لوگ………‘‘ اچھا یہاں مختصر ذکر ہے دوسری حدیث جو تفصیلی میرے زیر نظر تھی وہ دوسری ہے میں ابھی وہ بھی پڑھ کر سناتا ہوں۔ وہ سنن ابن ماجہ سے ہے یہ پہلی حدیث صحیح مسلم سے ہے۔ دجال کا ذکر کرکے آخر پر رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں فیرسِلُ اللّٰہ تعالیٰ علیھمُ النَّغَفَ فی رِقابھِم تب اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں کیڑے پیدا کردے گا۔ ترجمہ کیا گیا ہے لیکن نَغَفَ کی لغوی تحقیق جو میںنے کی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ (…………) کی خرابیاں ہیں۔ کیونکہ نَغَفْکہتے ہیں سوکھے ہوئے بلغمی مادے کو اورجہاں جہاں سوکھا ہوا بلغمی مادہ ملتا ہے خصوصاً ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف جو لوتھڑے سے بنتے ہیں وہ بھی نَغَفَکے نیچے آتے ہیں کیونکہ نغف کی تعریف جو میں تصریح کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ یہ چیزیں ہیں جو متاثر ہوتی ہیں اور اس میں خصوصیت سے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف کے جو چھوٹے سے ابھرے ہوئے گوشت کے لوتھڑے ٹکڑے وغیرہ ہیں ان کا ذکر بھی ملتا ہے تو چونکہ نغف کا تعلق (lymphatic glands) کی secretionsسے ہے اس لئے یہ ترجمہ درست نہیں کہ گردنوں میں کیڑے پیدا کردے گا ۔ رقاب کے دونوںطرف ………… ہیں lymphatic glands کی chainsہیں تو یہ chainsپھر بغلوں میں بھی آتی ہیں دوسری جگہ بھی جاتی ہیں اور جو مریض ایڈز کے میرے سامنے آئے ہیں ان میں سے بہت سے یہ بتاتے ہیں کہ اس کا آغاز lymphatic glands کی ورم سے پیدا ہوا تھا۔
کیوں ڈاکٹر صاحب یہ درست ہے؟
ایڈز میں بھی کہتے ہیں کہ کئی مریضوں نے مجھے بتایا ہے کہ lymphatic glands کی سوزش سے اکثر گردن ورنہ پھر بغل میں بہت بڑی سوزش پیدا ہوئی ہے اور طاعون میںبھی یہی glandsہیں جو متاثر ہوکر بہت سوج جاتے ہیں ، بہت تکلیف دہ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے یہ فرمایا ہے مسلم میںدجال کی روایت کو مکمل کرتے ہوئے آخری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اس زمانے میں ایک بیماری پھیلے گی جس کو رقاب کا نغف کہا گیا ہے۔ دوسری حدیث جو اس بیماری کا پس منظر کھول رہی ہے کیوں پھیلے گی؟ کن قوموں میں پھیلے گی؟ وہ کہتی ہے سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے:-
لَمْ تَظْھَرِ الفَاحِشَۃُ فِی قَومٍ قَطُّ حتّٰی یُعْلِنُوْ ا بِھَا اِلَّا فَشا فیھم الطَّاعون۔ والْاَوْجٓاء الَّتی لَمْ تکن مَضَتْ فِی اسلافھِمُ الَّذین مَضَوْا۔
یہ حدیث قدسی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسی بات بیان کررہے ہیں جس کا علم غیب سے تعلق ہے اللہ کی طرف سے بتائے بغیر آپ ﷺ کو علم میں آہی نہیں سکتی۔ کہتے ہیں لم تظھر الفاحشۃ فی قوم قطّ حتی کسی قوم میں فاحشہ اس حد تک نہیں پھیلی جب تک اس کا یہ نتیجہ ظاہر نہیں ہوا کس حد تک؟ فرماتے ہیں کہ وہ اعلانیہ بے حیائی کریں اور پھر اپنی بے حیائی کو دکھائیں لوگوں کو ۔ کوئی حیا محسوس کرنے کی بجائے کھلم کھلا دکھائیں اب یہ جو میں نے ٹیلیویژن کے تعلق میں باتیں بتائیں تھیں بعینہٖ یہی نقشہ ہے جو کھینچا جارہا ہے۔ یعنی sexکو displayکریں گے۔ فرمایا کہ اگر ایسا ہوگا تو خدابتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کو جب بھی وہ ایسا کریں گے لازماً طاعون کے ذریعہ سزا دی جائے گی۔ او رطاعون ایسا کہ اس کی مثال اس جیسا طاعون پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تو a type of pestilence یہ مطلب بنتا ہے اس کا۔ عام طاعون تو ہوتا ہی ہے وہ انبیاء کے انکار کے نتیجہ میں بطور سزا استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں فحشاء کی وجہ سے جو سزا ہے اس کو فرمایا گیا ہے ایک قسم کا طاعون ہے کیونکہالطاعون والاوجاء التی لم تکن مضت فی اسلافھم کہ ان کے آبائو اجداد میں اس کی کوئی مثال نہیں دیکھی گئی۔ ایسا طاعون ہوگا اور عام طاعون کی تو کثرت سے مثالیں ملتی ہیں۔ تاریخ ان کے ذکر سے بھری پڑی ہے تو a type of plague, a type of pestilence اب یہی محاورہ جو آج کل کے ماہرین ایڈز کے متعلق استعمال کرتے ہیں۔
کہتے ہیں یہ نام تو اس کا ایڈز ہے بیماری کا لیکن It's a type of pestilence. ، a type of plague یہ دونوںمحاورے یہ اہل علم کے مونہہ پر جاری ہیں ۔ اب یہ ایک طرف دیکھیںاور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام۔ تبصرہ نہیں الہام ہے پہلے میں یہ بیان کرتار ہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی کی ہے۔ میںسمجھتا تھا الہام سے اخذ کرکے اپنے الفاظ میں لیکن تذکرے میں چھپا ہوا الہامات میں یہ الہام درج ہے ’’یورپ اور دوسرے‘‘ (یہ ۱۹۰۷ء میں ہوا تھا)۔
’’ یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں، یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت سخت ہوگی‘‘ ایک قسم کی۔ یہ نہیں فرمایا، طاعون تو ایک معروف چیز تھی۔ یہ نہیں فرمایا کہ طاعون پھیلے گی اب اس کو آپ اس حدیث سے اب دیکھ لیں جوڑ کر کہ ۱۴ سوسال پہلے جو پیشگوئی کی گئی تھی کس وضاحت کے ساتھ کتنا کھل کر معین طور پر اس پیشگوئی کے ساتھ آپس میں پیوست ہوجاتی ہے۔ ایک دونوں کے ساتھ linkہوجاتی ہیںدونوں پیشگوئیاں۔ اور چونکہ اس زمانے کا واقعہ تھا اس زمانے کے امام کو خدا نے الہاماً دوبارہ بتایا کہ آنحضورﷺ نے جو پیشگوئی فرمائی تھی اس کے دن قریب ہیں اور اس کے متعلق اعلان عام کردو۔ پس اپنے وصال سے پہلے جو الہامات آپ علیہ السلام کو ہوئے ہیں آخری دور کے سات اور آٹھ کے یہ ان میں ۱۹۰۷ء کا الہام ہے کہ یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ۔اب صرف ایک بحث رہ جاتی ہے کہ کیایہ عیسائی ملکوں کیلئے خاص ہے؟ دراصل عیسائی ملکوں کا ذکر جو یہاں ملتا ہے وہ محض اس لئے ہے کہ چونکہ اس دور میں ان ممالک میں بے حیائی کی تعلیم آزادیٔ انسانیت کے نام پر دے دی جانے تھی اور ان لوگوں نے آزادی کا مطلب یہ سمجھ لیا اپنی طرف سے ایک بڑ ابھاری بلند کیا ہے عَلَم کہ انسان آزاد ہے جو چاہے کرے۔ مگر جو چاہے کرے میں ایسی بے حیائی کی طرف ان کو بلانے لگ گئے جو قدرت کوکبھی بھی قبول نہیں ہوتی۔ بالآخر اس کی سزا دی جاتی ہے۔ اس لئے عیسائی ممالک صرف یورپ نہیں بلکہ اور دوسرے عیسائی ممالک کا ذکر اس اعلان میں ملتا ہے۔ مگر کیوں پھیلے گی اس کی تفصیل اس حدیث میں موجود ہے ۔ پس مراد یہ ہوئی ان دونوں حدیثوں کو اکٹھا پڑھنے سے---- اس حدیث کو اور اس الہام کو کہ اکثرو بیشتر ان ممالک میںیہ پھیلے گی جو یورپین ممالک کہلاتے ہیں یا دیگر عیسائی ممالک ہیں۔ وجہ بے حیائی ہوگی اور چونکہ بے حیائی وجہ ہوگی اس لئے یہ وجہ جہاں بھی پائی جائے گی وہاں بھی پھیلے گی۔ کیونکہ خداتعالیٰ یہ تو ناانصافی نہیں کرسکتا کہ عیسائی بے حیائی کرے تواس کو سزا دے دے، مسلمان کرے تو اس کو نہ دے۔ تو ان دونوںکو اکٹھا پڑھیں گے تو پھر بات کھل جاتی ہے اور کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ اب یہ حوالے جو ہیں یہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ بیماری ایسی ہے جو شادی شدہ جوڑوں کے اندرونی تعلقات کے نتیجہ میں کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک بیوی ہو یا چار بیویاں ہوں یا ہزار کوئی کرے جیسا کہ افریقہ میں ہوسکتی ہیں۔ اگر وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں وفا رکھتے ہیں اور حیا کے تقاضے پورے کرتے ہیں یہ بیماری ہو ہی نہیں سکتی۔ اس بیماری کا بے حیائی سے تعلق ہے اور بے حیائی سے بھی بیوفائی کہنا چاہئے۔ بیوفائی سے تعلق ہے کہ ایک جوڑا دوسرے سے بیوفائی کرتا ہے اور غیر شادی شدہ تعلقات بڑھاتا ہے۔ دوسرا اس کا تعلق ایک ایسی بیماری سے ہے جس کے نتیجہ میںلوط کے زمانے میں وہ بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹادی گئیں جن میں اس بیماری کا ذکر ملتا ہے اور وہ اس لئے حضرت لوط علیہ السلام کے حوالے سے ذکر ملتا ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس سے پہلے ایک گناہ کی وباء کے طور پر یہ بیماری پہلے کسی قوم میں دکھائی نہیں دے گی یعنی لوط کی قوم کے زمانے میں جب ایک قومی بیماری بن گئی ہے ۔ اس پر خدا نے فیصلہ فرمایا کہ ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔ اور یہی ایڈز کی اوّل ترین ذمہ دار ہے۔ یعنی ہم جنس سے جنسی اختلاط۔ کئی یہاں کے مصنفین نے پہلے اس سے جب ایڈز کا وجود بھی نہیں آیا تھاایک قسم کا کچھ tauntکرتے ہوئے خداتعالیٰ کی ذات پر یا کچھ اس کی غیرت کو بھڑکانے کی خاطر یہ اعلان کئے کہ اے خدا کیا گمار اور دوسری کونسی تھی؟ سدوم کی بستیاں قیامت کے دن تیرے خلاف اٹھ نہیں کھڑی ہوں گی کہ وہ بے حیائیاں جن کے نتیجے میں تم نے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا آج شہر شہر ، قریہ قریہ ، ملک ملک میں عام ہورہی ہیں اور تو خاموش بیٹھا ہے۔ اس کو پتا نہیں تھا کہ خدا خاموش نہیں بیٹھا کرتا۔ مگر اس کی خاموش زبان ہے، زبان میںایسی خاموشی ہے جو اگر تم سمجھتے ہو توزبان بولنے لگتی ہے۔ یہ ایڈز کی بیماری بھی اسی پکار کا جواب ہے جو میں نے جس کا ذکر کیا ہے کہ اے خدا اب تیری غیرت کہاں گئی؟
پس یہ جو سزا ہے اس کا اس بیماری کے ساتھ ایک گہرا جوڑ ہے اور بے حیائی اور ہم جنس سے جنس پرستی یہ دونوں اکٹھے چلتے ہیں۔ اور یہ پھوٹتی ہی اس وقت زیادہ ہے جب بے حیائی عام ہوکر منظر عام پر ابھر آئے تو یہ چیزیں بھی نکلتی ہیں۔ ان سب چیزوں کا ایک آپس کا جوڑ ہے اب سوال ہے اس سزا کا اس بیماری سے کیا جوڑ ہے؟ اس سزا کا اس بیماری سے وہی جوڑ ہے جو لوط کی بستی کی سزا کا ایڈز سے ہے۔لوط کی بستی کو عدم ہونے کا حکم جو دیا گیا وہ اس لئے تھا کہ خداتعالیٰ نے جنس میں لذت محض لذت کی خاطر نہیں رکھی بلکہ انسانی نسل کی افزائش اور اس کی حفاظت کی خاطر رکھی ہے اور یہی قانون ہے جو ہر زندگی کی لذت کے خلیوں سے وابستہ ہے۔ کہیں بھی لذت کا مضمون آپ نہیں پائیں گے جہاں کوئی فائدہ پیش نظر نہ ہو۔ پس ایک فائدے کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ارتقائی سبق ہے جو ہمیںحاصل ہوتا ہے۔ تمام ارتقائی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ اس نظر سے میں نے مطالعہ کیا ہے اور میں آپ کو یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ہروہ حسںجو حواس خمسہ کا ایک جزو ہے وہ ایک لذت کے سہارے سے آگے بڑھائی گئی ہے۔ اور لذت عطا ہوئی ہے تو اس کے ساتھ حس پیدا ہوئی۔ حس پیدا ہوئی تو لذت ہوئی اور ہر چیز کا ایک مقصد ہے۔جنس میں اور بھوک کے ذریعے جو لذت حاصل ہوتی ہے ان میں آپس میں ایک جوڑ ہے۔ انسان کو کھانے میں بیحد لذت محسوس ہوتی ہے اور روز مرہ سب سے زیادہ جولذت……… کا ذریعہ ہے وہ بھوکا ہوکر پھر کھانا کھانا ہے جتنی بھوک بڑھ جائے اتنی ہی لذت زیادہ کیونکہ جتنی بھوک بڑھ جائے اتنا ہی انسان موت کے قریب پہنچ رہا ہوتاہے۔
پس بقاء میں لذت ہے اور یہ لذت ایک ارب سال میں آہستہ آہستہGlands بن بن کر ہمارے منہ میں داخل ہوگئی، خوشبو کی قوت بن کے ناک میںآگئی، سردی گرمی کا احساس بن کر ہمارے خلیوں میں داخل ہوگئی اور ان سب نے مل کر مزا پیدا کردیا۔ میٹھے کا مزا، نمک کا مزا، خوشبو کا مزا، اس کے لمس کا مزا وغیرہ وغیرہ اور اصل بات کیا ہے؟ بقاء کیلئے جو چیز ضروری تھی اس میں مزا تھا۔ اور مزا بقاء میں ہے لیکن رفتہ رفتہ انسان یہ بات تو بھول جاتا ہےconscioulsyاس لئے تو نہیں کھاتا کہ بقاء کیلئے مجبوری ہے۔ پیٹ بھرا بھی ہو تو میں نے لوگوں کو چگتے دیکھا ہے جگہ جگہ کوئی چیز ہاتھ میں آگئی تو منہ میں ڈال لی تو یہ لذت ہے جو اگر مقصود بن جائے اور اصل مقصد سے ہٹ کر استعمال ہو تو بیماری بن جاتی ہے۔ کھانے میںہو یا جنس میں ہو اور جنس کا مزا تو شروع میں تھا ہی نہیں آغاز میں۔ جو جانوروں کو جنس عطا ہوئی ہے اس میں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مزا نہیں تھا کہ ہم وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے ان کی کیفیتوں میں ۔ مگر یہ پتا کر سکتے ہیں لازمی طور پر کہ جب جنس کا آغاز ہوا ہے تو رفتہ رفتہ ، دم بدم وہ سفر بے لذتی سے لذت کی طرف جاری رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک یقینی رشتہ باندھ دیا گیا جنسی تعلقات کا لذت کے ساتھ تاکہ آئندہ نسل انسانی کی افزائش میں انسان بوجھ نہ سمجھے۔ اس کو آپ نکال لیں اگر تو کتنے لوگ یہ مصیبت کریں گے اور کتنی مائیں یہ برداشت کریں گی کہ ایک ایسے تعلقات رکھیں جن میں ان کی طبعی کوئی بھی خواہش نہ ہو اور اس کے نتیجے میں نو مہینے بچہ پالنا پڑے ……………… مصیبت۔ وہ بچے کا مزا بھی دراصل اس لذت کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور وہ بھی بقاء کا مزا ہے۔ ہر انسان ایک وقت میں زندہ رہنا چاہتا ہے اور اپنے وجود کو پھیلانا چاہتا ہے یہ ایک بنیادی صفت ہے جس میں جو چیز بھی مددگار ہو وہ مزا پیدا کردیتی ہے۔ ایک لمبے سفر کے بعد ایک دم مزا نہیں آیا۔ ایک ارب سال میں زندگی نے آہستہ آہستہ ان چیزوں کا مزا سیکھا جن کا مزا ہوتا تھا مگر جسمانی اعدادو شمار میںجسمانی بیانات میںان کو ڈھالا نہیں جاسکتا تھا۔ اس طرح ارتقاء ہوا ہے اور مستقبل میں ہمیشگی کی تمنا نے جنس پیداکی ہے۔ پس اوروہ ہر وہ چیز جو آپ کے وجود کو اس دنیا میں وسیع کرے ، پھیلائے اور بڑھائے وہ لازماً مزا دے گی ہر وہ چیز جو دوسروں پر غلبے کے ذریعہ آپ کے اندر ایک طاقت کا احساس کرے یہ مزا دے گا۔ تبھی دنیا میں ایسے ظالم سیاست دان اور حکومت کے پیچھے پاگل ہوئے ہوئے لوگ دکھائی دیتے ہیں آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ ان کی کی زندگی کیا زندگی ہے۔ ہر وقت دھکے کھاتے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ، کسی کی خاطر کوئی سفارشیں کرتے ۔ غرضیکہ بیشمار خرچ بھی کرتے، مصیبت بھی کرتے کوئی سکون کا پہلو میسر نہیں …………… کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارا دوسروں پر غلبہ ہوگا تو وہ لذت ایسی ہے۔ اس میںایک نفس پھیل گیا ہے بہت سے نفوس پر اس سے پھر سیاست کے غلبے، حکمرانی کے غلبے، دولت کے غلبے یہ ساری چیزیںوجود میں آئی ہیں۔ تو ہر لذت کیلئے خداتعالیٰ نے جو نظام قائم کیا ہے وہ جب لمبا عرصہ تک ہوتا رہے تو glandsبن جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ پھر glandsکی صورت میں ہمیں وہ چیز دکھائی دیتی ہے۔ اور جب آغاز میں ہو یا ابھی ہزار دس بیس ہزار سال کی بات ہو تو glandsتو نہیں بنتے لیکن وہ اپنی ذات میں طاقت حاصل کرتی چلی جاتی ہے۔ ایک رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے۔
پس حکمرانی کا رجحان ، دوسرے کو غلام بنالینے کا رجحان ، دولت سمیٹنے کا رجحان یہ ایک وقت میں ایک spaceکے اندر پھیلنے کا رجحان ہے جس سے لذت ملتی ہے۔ خواہ glands بنیں یا نہ بنیں۔ مستقبل میںہمیشگی اختیار کرنے کا رجحان ایسے کاموں پر انسان کو مائل کرتا ہے جس سے وہ شہرت کے ذرائع کماتا ہے۔ ایک جرنیل ہے جو بڑے بڑے عظیم کارنامے ادا کرتا ہے قربانیاں دیتا ہے۔ ایک سپاہی قربانیاں دیتا ہے، لیکن اس کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ دراصل وہ بقاء کی خاطر کررہا ہے مرجائے گا تو نام باقی رہ جائے گا۔ اور یہ نام کے صدقے یہ سارے کاروبار چل رہے ہیں قربانیوں کے۔ اور افزائش نسل عملاً وجود کی صورت میں ایک عارضی انسان کے ، دائم ہونے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اس میں لذت ہے۔ وہ بیماری فُحشاء جس میں ہم جنس پرستی ہو وہاں یہ اعلان کرتا ہے انسان کہ ہم نے ……… اللہ تونے لذت جو رکھ دی تھی وہ شکر یہ قبول ہے لیکن نسل کی افزائش کیلئے ہم اس کو استعمال ہیں کریں گے۔ ہم مقصد سے ہٹیں گے اور لذت پرستی کی خاطر استعمال کریں گے۔ اس کا کیا جواب ہونا چاہئے۔ اچھا پھر تم مٹ جائو اگر نسل کی افزائش کے قائل نہیں تو پھر چند لمحے کی لذتیں حاصل کرکے تم مٹ جائو تم زندہ رہنے کے لائق نہیں ہو۔ یہی سلوک تھا جو لوط کی بستیوں سے کیا گیا تھا وہی خدا آج ہے۔ آج اس نے ایڈز کی بیماری یہی پیغام دے کر دوبارہ بھیجی ہے۔ یہ ٹھیک ہے تو پھر تم مٹ جائو۔ اس لئے خدا کے قوانین میں کہیں بھی ناانصافی، کہیں تضاد نہیں ہے۔ زمانہ کتنا بھی گزر جائے خدا وہی ہے، اس کا قانون قدرت اسی طرح عمل دکھاتا ہے۔ پس ایڈز کے جو اعداد و شمار باقی رہ گئے ہیں چند وہ پھر پڑھ دیں گے۔اب وقت ختم ہوگیا ہے۔ اچھا جی!اسلام علیکم ورحمۃا للہ
 
Top