• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 18 ۔نزول المسیح ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 18. Page: 377

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 377

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 378

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 378

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 379

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 379

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نَحْمَدُہٗ وَ نُصلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

*

۱؂

۲؂

یہ لوگ ارادہ کر رہے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مُنہ کی پھونکوں سے

بجھا دیں اور خدا تو باز نہیں رہے گا جب تک کہ اپنے

نورکو پورا نہ کرے اگرچہ کافر لوگ

کراہت ہی کریں

ہم نے طاعون کے بارے میں جو رسالہ دافِعُ البَلاء لکھا تھا اُس سے یہ غرض تھی کہ تا لوگ متنبہ ہوں اور اپنے سینوں کوپاک کریں اور اپنی زبانوں اور آنکھوں اور کانوں اور ہاتھوں کو ناگفتنی اور نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے روکیں اور خدا سے خوف کریں تا خدا تعالیٰ اُن پر رحم کرے اور وہ خوفناک وَبا جو اُن کے مُلک میں داخل ہوگئی ہے دُور فرماوے۔ مگر افسوس کہ شوخیاں اور بھی زیادہ ہو گئیں اور زبانیں اور بھی دراز ہو گئیں۔ اُنہوں نے ہمارے مقابل پر اپنے اشتہاروں میں کوئی بھی دقیقہ ایذا اور سبّ و شتم کا اُٹھا نہیں رکھا اور کسی قسم کی ایذاسے دستکش نہیں ہوئے مگر اُسی سے جس تک ہاتھ نہیں پہنچ سکا۔ *** اور سبّ و شتم میں وہ ترقی کی کہ شیعہ مذہب کے لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کیونکہ شیعہ نے تو اپنے خیال میں *** بازی کے فن کو حرف الف سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 380

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 380

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


شروؔ ع کرکے حرف یا تک پہنچا دیا تھا یعنی ابوبکر سے یزید تک مگر یہ لوگ جو اہل حدیث اور حنفی کہلاتے ہیں انہوں نے اس کارروائی کو ناکامل سمجھ کر *** بازی کے دائرے کو اس طرح پر پورا کیا کہ جس شخص کو خدا نے آدم سے لے کر یسوع مسیح تک مظہر جمیع انبیاء قرار دیا تھا یعنی الف سے حرف یا تک اور پھر تکمیل دائرہ کی غرض سے الف آدم سے لے کر الف احمد تک صفت مظہریت کا خاتم بنایا تھا اُسی پر لعنتوں کی مشق کی۔

۱ ؂

لیکن یاد رکھیں کہ یہ گالیاں جو اُن کے مُنہ سے نکلتی ہیں اور یہ تحقیر اور یہ توہین کی باتیں جو اُن کے ہونٹھوں پر چڑھ رہی ہیں اور یہ گندے کاغذ جو حق کے مقابل پر وہ شائع کر رہے ہیں یہ اُن کے لئے ایک رُوحانی عذاب کا سامان ہے جس کو اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے طیار کیا ہے۔ دروغگوئی کی زندگی جیسی کوئی *** زندگی نہیں۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے منصوبوں سے اور اپنے بے بنیاد جھوٹوں سے اور اپنے افتراؤں سے اور اپنی ہنسی ٹھٹھے سے خدا کے ارادے کو روک دیں گے یا دنیا کو دھوکہ دے کر اس کام کو معرض التوا میں ڈال دیں گے جس کا خدا نے آسمان پر ارادہ کیا ہے۔ اگر کبھی پہلے بھی حق کے مخالفوں کو اِن طریقوں سے کامیابی ہوئی ہے تو وہ بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خدا کے مخالف اور اُس کے ارادہ کے مخالف جو آسمان پر کیا گیا ہو ہمیشہ ذلّت اور شکست اُٹھاتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے لئے بھی ایک دن ناکامی اور نامرادی اور رُسوائی درپیش ہے خدا کا فرمودہ کبھی خطا نہیں گیا اور نہ جائے گا۔ وہ فرماتاہے:۔

۲؂

یعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنّت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 381

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 381

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کا ناؔ م * پاکر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اِس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ

* یہ قول اس حدیث کے مطابق ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آنے والا مہدی اور مسیح موعود میرا اسم پائے گا اور کوئی نیا اسم نہیں لائے گا یعنی اس کی طرف سے کوئی نیا دعویٰ نبوت اور رسالت کا نہیں ہو گا بلکہ جیسا کہ ابتدا سے قرار پا چکا ہے وہ محمدی نبوت کی چادر کو ہی ظلّی طو رپر اپنے پر لے گا اور اپنی زندگی اُسی کے نام پر ظاہر کرے گا اورمرکر بھی اُسی کی قبر میں جائے گا تا یہ خیال نہ ہو کہ کوئی علیحدہ وجود ہے اور یا علیحدہ رسول آیا بلکہ بروزی طور پر وہی آیا جو خاتم الانبیاء تھا۔ مگر ظلّی طور پر اسی رازکے لئے کہا گیا کہ مسیح موعود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کیا جائے گا کیونکہ رنگِ دوئی اس میں نہیں آیا پھر کیونکر علیحدہ قبر میں تصور کیا جائے۔ دنیا اس نکتہ کو نہیں پہچانتی۔ اگر اہلِ دنیا اس بات کو جانتے کہ اس کے کیا معنی ہیں کہ اِسْمُہٗ کَاِسْمِیْ وَیُدْفَنُ مَعِی فِی قَبْرِیْ تو وہ شوخیاں نہ کرتے اور ایمان لاتے۔ اِس نکتہ کو یاد رکھو کہ مَیں رسول اور نبی نہیں ہوں۔ یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے۔ اور مَیں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ اگر مَیں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہوتا تو خدا تعالیٰ میرا نام محمد اور احمد اور مصطفےٰ اور مجتبیٰ نہ رکھتا اور نہ خاتم الانبیاء کی طرح خاتم الاولیاء کا مجھ کو خطاب دیا جاتا بلکہ مَیں کسی علیحدہ نام سے آتا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک بات میں وجودِ محمدی میں مجھے داخل کر دیا یہاں تک کہ یہ بھی نہ چاہا کہ یہ کہا جائے کہ میرا کوئی الگ نام ہو یا کوئی الگ قبر ہو کیونکہ ظل اپنے اصل سے الگ ہو ہی نہیں سکتا اور ایسا کیوں کہا گیا اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُس نے خاتم الانبیاء



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 382

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 382

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


جسؔ زمانہ میں ان مولویوں اور اُن کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بدزبانی کے حملے شروع کئے اُس زمانہ میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا۔ گو چند دوست جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے میرے ساتھ تھے۔ اور اِس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ستر ہزار کے

ٹھہرایا ہے اور پھر دونوں سلسلوں کا تقابل پُورا کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی مسیح بھی شانِ نبوت کے ساتھ آوے تا اس نبوت عالیہ کی کسر شان نہ ہو اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے وجود کو ایک کامل ظلّیت کے ساتھ پیدا کیا اور ظلّی طور پر نبوت محمدی اس میں رکھ دی تا ایک معنی سے مجھ پر نبی اﷲ کا لفظ صادق آوے اور دوسرے معنوں سے ختم نبوت محفوظ رہے۔

اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ خدائے حکیم علیم نے وضع دنیا دوری رکھی ہے یعنی بعض نفوس بعض کے مشابہ ہوتے ہیں نیک نیکوں کے مشابہ اور بد بدوں کے مشابہ مگر باایں ہمہ یہ امر مخفی ہوتا ہے اور زور شور سے ظاہر نہیں ہوتا۔ لیکن آخری زمانہ کے لئے خدا نے مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ ایک عام رَجعت کا زمانہ ہو گا تا یہ اُمت مرحومہ دُ وسری اُمتوں سے کسی بات میں کم نہ ہو۔ پس اُس نے مجھے پیدا کرکے ہر ایک گذشتہ نبی سے مجھے اُس نے تشبیہ دی کہ وہی میرا نام رکھ دیا۔ چنانچہ آدم، ابراہیم، نوح، موسیٰ، داؤد، سلیمان، یوسف، یحییٰ، عیسیٰ وغیرہ یہ تمام نام براہین احمدیہ میں میرے رکھے گئے اور اس صورت میں گویا تمام انبیاء گذشتہ اس اُمت میں دوبارہ پیدا ہو گئے یہاں تک کہ سب کے آخر مسیح پیدا ہو گیا اور جومیرے مخالف تھے اُن کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا چنانچہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے ۱؂ پس یہ آیت صاف کہہ رہی ہے کہ اس اُمّت کے بعض افراد کو گذشتہ نبیوں کا کمال دیا جائے گا اور نیز یہ کہ گذشتہ کفّار کی عادات بھی بعض منکروں کو دی جائیں گی اور بڑی شد و مد سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 383

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 383

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


قریب ؔ بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے کہ جو نہ میری کوشش سے بلکہ اُس ہَوا کی تحریک سے جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دَوڑے ہیں۔ اور اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلہ کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جان کاہی

آئندہ نسلوں کی گذشتہ لوگوں سے مشابہتیں ظاہر ہو جائیں گی۔ چنانچہ بعینہٖ یہودیوں کی طرح یہودی پَیدا ہو جائیں گے اور ایسا ہی نبیوں کا کامل نمونہ بھی ظاہر ہو گا۔ اسی کی طرف سورۃ الانبیاء جزو نمبر ۱۷ میں اشارہ ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؂ ان آیات کا یہ منشاء ہے کہ جو لوگ ہلاک کئے گئے اور دنیا سے اُٹھائے گئے اُن پر حرام ہے کہ پھر دنیا میں آویں بلکہ جو گئے سو گئے۔ ہاں یاجوج و ماجوج کے وقت میں ایک طور سے رجعت ہو گی یعنی گذشتہ لوگ جو مر چکے ہیں، اُن کے ساتھ اس زمانہ کے لوگ ایسی اتم اور اکمل مشابہت پیدا کر لیں گے کہ گویا وہی آ گئے۔ اسی بناء پر اس زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا اور محمدی مسیح کا نام ابن مریم رکھا گیا اور پھر اُسی خاتم الخلفاء کا نام باعتبار ظہور بیّن صفات محمدیہ کے محمّد اور احمد رکھا گیا اور مستعار طور پر رسول اور نبی کہا گیا اور اُسی کو آدم سے لے کر اخیر تک تمام انبیاء کے نام دیئے گئے تا وعدۂ رجعت پورا ہو جائے۔ یہ ایک باریک دقیقہ معرفت ہے اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ سورۃ فاتحہ سے بھی التزامی طور پر یہ بات نکلتی ہے کہ مسلمانوں میں سے منعم علیہم بھی انبیاء گذشتہ کی طرح ہوں گے اور نیز مغضوب علیہم بھی یعنی یہودی ہوں گے غرض تمام نبیوں کے نزدیک زمانہ یاجوج وماجوج زمان الرجعت کہلاتا ہے یعنی رَجعت برُوزی نہ رجعت حقیقی۔ اگر رجعت حقیقی ہو تو پھر سب میں حقیقی چاہئیے نہ صرف حضرت عیسیٰ میں۔ کیا وجہ کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رجعت تو بروزی طور پر مہدی کے لباس میں ہو اور عیسیٰ کی رجعت واقعی طو رپر۔ شیعہ کو یہ دھوکا لگا ہے کہ انہوں نے اس زمانہ کو رجعت حقیقی کا زمانہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 384

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 384

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کےؔ ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے یہاں تک کہ حکّام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں خون کے جُھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا اور ہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دئے۔ اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں۔ مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا۔ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور اُن کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا۔ پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحۂ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پُھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دُور دُور چلی گئیں اور اب وہ درخت اِس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پر آرام کر رہے ہیں۔ اور اس نشان کے ساتھ ایک عظیم الشان نشان یہ ہے کہ آج سے تیئیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلہ کو مٹا دیں اور ہر ایک مکر کام میں لائیں گے مگر مَیں اس سلسلہ کو بڑھاؤں گا اور کامل

خیال کر لیا۔ مگر یہ ان کی غلطی ہے۔ حدیثوں سے صاف طور پر یہ بات نکلتی ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی دنیا میں ظاہر ہوں گے اور حضرت مسیح بھی مگر دونوں بروزی طور پر آئیں گے نہ حقیقی طور پر۔ یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح کے مقابل پر یہودی بھی جوش و خروش کریں گے مگر وہ یہودی بھی بروزی ہیں نہ حقیقی۔ قدیم سے حدیثوں میں یہ تشریح ہے کہ انہی مولویوں کا نام اُس وقت یہودی رکھا جائے گا اور درحقیقت سورۃ فاتحہ نے بکمال صفائی یہ پیشگوئی کر دی ہے کیونکہ سورہ فاتحہ میں یہ دُعا سکھلائی گئی کہ ایسا نہ ہو کہ ہم وہ یہودی بن جائیں جو عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے ۔ پس مسلمان لوگ ایسے یہودی کیونکر بن سکتے ہیں جب تک اُن میں بروزی طور پر مسیح موعود پیدا نہ ہو اور اُس کی مخالفت نہ کریں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 385

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 385

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/385/mode/1up


کروؔ ں گا اور وہ ایک فوج ہو جائے گی۔ اور قیامت تک اُن کا غلبہ رہے گا اور مَیں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک شہرت دُوں گا اور جَوق در جوق لوگ دُور سے آئیں گے اور ہر ایک طرف سے مالی مدد آئے گی۔ مکانوں کو وسیع کرو کہ یہ طیاری آسمان پر ہو رہی ہے۔ اب دیکھو کس زمانہ کی یہ پیشگوئی ہے جو آج پوری ہوئی۔ یہ خدا کے نشان ہیں جو آنکھوں والے ان کو دیکھ رہے ہیں مگر جو اندھے ہیں اُن کے نزدیک ابھی تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔

اِس صدی میں سے بیسواں سال بھی شروع ہو گیا مگر اُن کا مجدّد اب تک نہ آیا۔ آسمان نے رمضان کے کسوف خسوف سے گواہی دی اور یہ گواہی نہ صرف سُنیوں کی کتاب دارقُطنی میں درج ہے بلکہ شیعوں کی کتاب اکمال الدین نے بھی جو نہایت معتبر سمجھی جاتی ہے۔ یہی حدیث کسوف و خسوف کی مہدی موعود کی علامت لکھی ہے مگر پھر بھی ان لوگوں نے صریح بے ایمانی سے اِس حدیث کو بھی ردّ کر دیا۔ کیا باوجود اتفاق دو فرقوں کے پھر بھی یہ حدیث صحیح نہیں؟ ایسا ہی طاعون کی حدیث کتاب اکمال الدین میں بھی موجود ہے اور سُنّیوں کی کتابوں میں بھی کہ مسیح کے زمانہ میں طاعون پھیلے گی۔ مگر افسوس کہ ان لوگوں کے نزدیک یہ نشان بھی کچھ نشان نہیں۔ صلیبی جوش کی حالت موجودہ نے بھی تقاضا کیا کہ آسمان سے کوئی ایسا پیدا ہو کہ جو اس فتنہ کو فرو کرے مگر اُن کے نزدیک ابھی کچھ حرج نہیں ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس اپنے بندہ کی تائید میں ڈیڑھ سو کے قریب نشانات دکھلائے جس کے مُلک میں لاکھوں انسان گواہ ہیں جو عنقریب ایک نقشہ کی صورت میں شائع کئے جائیں گے مگر ان لوگوں کے نزدیک اب تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اب نہ معلوم یہ نشان کس کو کہتے ہیں؟ اس کا جواب خدائے قادر خود ہی دے گا کیونکہ اگر وہ ارادہ کرے تو بڑے سے بڑے کج طبع کو قائل کر سکتا ہے۔ چونکہ اس رسالہ میں اختصار منظور ہے اس لئے ہم اس سے زیادہ لکھنا نہیں چاہتے ہمارا اور اِن لوگوں کا آسمان پر مقدمہ دائر ہے۔ وہ حقیقی بادشاہ جو آسمان اور زمین کا مالک ہے وہ ایک دن اس مقدمہ کو فیصلہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 386

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 386

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/386/mode/1up


کردؔ ے گا۔ یہ بات ہر ایک راستباز کے نزدیک مسلّم ہے کہ دو گروہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ضرور *** زندگی رکھتے ہیں۔ (۱) اوّل وہ شخص اور اُس کی جماعت جو خدا تعالیٰ پر افترا کرتے ہیں اور جھوٹ اور دجّالی طریق سے دنیا میں فساد اور پُھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ (۲) دُوسرے وہ گروہ جو ایک سچّے منجانب اﷲ کی تکذیب اور تحقیر کرتے ہیں۔ اس کا زمانہ پاتے ہیں اُس کے نشان دیکھتے ہیں اور اُس کی حجت کو اپنے پر سے اُٹھا نہیں سکتے مگر پھر بھی اُس کو ایذا دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اُس کو نابود کر دیں۔ اب اس بات کا خدا سے بڑھ کر کس کو علم ہے کہ یہ دو گروہ جو اس وقت موجود ہیں یعنی مَیں اور میرے وہ مخالف جو مجھے گالیاں دیتے اور ہر ایک طور سے دُکھ پہنچاتے ہیں اور میری موت چاہتے ہیں۔ اِن دونوں گروہوں میں سے وہ گروہ کون ہے جس کی *** زندگی ہے اور وہ گروہ کون ہے جس کو بہت برکتیں دی جائیں گی۔ اِس راز کو بُجز خدا کوئی نجومی نہیں جانتا نہ رمّال اور نہ کوئی قیافہ سے کام لینے والا۔ یہ راز میرے خدائے قادر کاایک سربستہ راز ہے۔ اسی راز کے انکشاف پر سب فیصلے ہو جائیں گے۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پر اگر وہ خدا کی طرف سے ہے تو کیا خدا اس کو چھوڑ دے گا نہیں بلکہ وہ دن نزدیک ہیں جو خدا اپنے زبردست حملوں سے اُس کی سچائی ثابت کر دے گا۔ جہنم کے عذابوں میں سے کوئی عذاب حسرت جیسا نہیں۔ وہ حسرت جو سچے کے ردّ کرنے میں ہوتی ہے اور وقت گذر جاتا ہے۔ لیکن اب جس امر کے لکھنے کے لئے ہم نے ارادہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا رسالہ دافع البلاء جو طاعون کے بارے میں شائع ہوا تھا اس کے مقابل پر ہمارے ظالم طبع مخالفوں نے طرح طرح کے افتراؤں سے کام لیا ہے اور اس قدر جھوٹ کی نجاست کھائی ہے کہ کوئی نجاست خور جانور اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا ہمیں تعجب ہے کہ کہاں تک ان لوگوں کی نوبت پہنچ گئی کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سُنتے ہوئے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 387

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 387

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/387/mode/1up


نہیںؔ سُنتے اور سمجھتے ہوئے نہیں سمجھتے۔ اُن میں سے جُھوٹ بولنے کا سرغنہ پیسہ اخبار کا ایڈیٹر ہے جو بارہا دروغگوئی کی رسوائی اُٹھا چکا ہے اور پھر باز نہیں آتا۔ وہ میری نسبت آپ ہی اقرار کرتا ہے کہ انہوں نے قادیان کے بارے میں صرف اِس قدر الہام شائع کیا ہے کہ اس میں تباہی ڈالنے والی طاعون نہیں آئے گی ہاں اگر کچھ کیس ہو جائیں جو موجب افراتفری نہ ہوں تو یہ ہو سکتا ہے اور پھر اپنے دوسرے پرچوں میں فریاد پر فریاد کر رہا ہے کہ قادیان میں طاعون آ گئی۔ اگر اس کی فطرت کو ایمانداری اور انصاف اور شرم میں سے کچھ حصہ ہوتا تو اس فضول بحث کا نام ہی نہ لیتا۔ کیونکہ اگر قادیان میں بباعث عام بخار کے جو موسمی تھا دو تین آدمی مر بھی گئے تو کس ڈاکٹر نے تصدیق کی تھی کہ وہ طاعون ہے۔ کیا قادیان کے احمق اور جاہل اور کمینہ طبع بعض آریہ یا اور کوئی اُن کا ہم مادہ جو حق اور سچائی سے دِلی کینہ رکھتے ہیں اور اُن کی کھوپری میں یہ عقل ہی نہیں جو طاعون کس کو کہتے ہیں اُن کی شرارت آمیز کسی تحریر سے یہ ثابت ہو گیا جو قادیان میں طاعون پھوٹ پڑی اُن کے ایمان اور دیانت پر خود طاعون کا پھوڑا نکلا ہوا ہے جس سے جان بری مشکل ہے۔ ماسوا اِس کے اگر اڈیٹر پیسہ اخبار کو دیانت اور سچائی سے کچھ غرض ہوتی تو اس کو ثابت کرنا چاہئیے تھا کہ کس طرح اشتہار یا رسالہ میں ہم نے یہ بھی لکھا ہے کہ قادیان میں کبھی طاعون نہیںآئے گی اور کبھی ایک کیس بھی نہ ہو گا بلکہ رسالہ دافع البلاء جو پانچ ہزار شائع کیا گیا ہے اس کے صفحہ ۵ کے حاشیہ میں بتصریح تمام یہ عبارتیں لکھی گئی ہیں اور وہ یہ ہیں:۔

طاعون کی قسموں میں سے وہ طاعون سخت بربادی بخش ہے جس کا نام طاعون جارف ہے یعنی جھاڑو دینے والی جس سے لوگ جابجا بھاگتے ہیں اور کتوں کی طرح مرتے ہیں یہ حالت انسانی برداشت سے بڑھ جاتی ہے (اور کم سے کم آبادی کا ایک عشر لیتی ہے ورنہ نصف تک یا تین حصّے پانچ حصّوں میں سے کھا جاتی ہے) پس اس کلام الٰہی میں یہ وعدہ ہے کہ یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہیں ہو گی۔ اسی کی تشریح دُوسرا الہام کرتا ہے لولا الاکرام لھلک المقام یعنی اگر مجھے اِس سلسلہ کی عزّت ملحوظ نہ ہوتی تو مَیں قادیان کو بھی ہلاک کر دیتا۔ اِس الہام سے دو باتیں سمجھی جاتی ہیں (۱) اوّل یہ کہ کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں کوئی واردات شاذو نادر طو رپر ہو جائے جو بربادی بخش نہ ہو اور موجب



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 388

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 388

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/388/mode/1up


فرارؔ و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذ و نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے (۲) دوسرے یہ امر ضروری ہے کہ جن دیہات اور شہروں میں بمقابلہ قادیان کے سخت سرکش اور شریر اور ظالم اور بدچلن اور مفسد اور اس سلسلہ کے خطرناک دشمن رہتے ہیں اُن کے شہروں اور دیہات میں ضرور بربادی بخش طاعون پُھوٹ پڑے گی (اگر توبہ نہ کریں) اور یہاں تک ہو گا کہ لوگ بے حواس ہو کر ہر طرف بھاگیں گے۔ اور ہم دعویٰ سے لکھتے ہیں کہ قادیان میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے مگر اس کے مقابل پر دُوسرے شہروں اور دیہات میں جو ظالم اور مفسد ہیں ضرور ہولناک صورتیں پیدا ہوں گی (اگر توبہ نہ کریں) تمام دنیا میں ایک قادیان ہی ہے جس کے لئے ’’اب یہ وعدہ ہوا گو پہلے سے حرم رسول کے لئے بھی ایک وعدہ ہے۔‘‘ یہ عبارت ہے جو صفحہ مذکور میں درج ہے جس کو ہم نے لفظ بلفظ اس جگہ نقل کر دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارا ہرگز یہ دعویٰ نہ تھا کہ قادیان طاعون سے بالکل محفوظ رہے گی۔ ہم نے عام لوگوں کے سامنے یہ عبارت جو دافع البلاء میں شائع ہو چکی ہے رکھ دی ہے تا خود لوگ پڑھ لیں اور پھر انصافاً بتلاویں کہ ہمارے پر یہ الزام کہ گویا ہم نے اس رسالہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ قادیان کے نزدیک طاعون نہیں آئے گی اور ایک بھی کیس نہیں ہو گا۔ کیا یہ ایمانداری ہے یا بے ایمانی؟ ہم خود منتظر ہیں کہ اس وحی اﷲ کے مطابق قادیان میں صاف اور صریح طور پر بعض کیس طاعون ہوں لیکن اب تک جوکچھ پیسہ اخبار اور بعض دُوسرے جلدباز اڈیٹروں نے لکھا ہے کہ قادیان میں سات۷ کیس ہو چکے ہیں وہ تحریریں صرف تین قسم کے واقعات کا مجموعہ ہیں۔ (۱) اوّل ایسی تحریریں جو محض جھوٹ اور افتراہیںیعنی ایسے لوگوں کی نسبت خواہ نخواہ جھوٹی خبریں موت کی شائع کی گئی ہیں جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ نہ وہ بیمار ہوئے نہ اُن کو طاعون ہوئی۔ یہ اوّل درجہ کا جھوٹ ہے جس کے ارتکاب سے پیسہ اخبار نے بے ایمانی کا بڑا حصہ لیا ہے اور ناحق شریف اور عزیز لوگوں کا دِل دُکھایا ہے۔ اُس کو سوچنا چاہئیے کہ اگر یہ خلاف واقعہ خبر اُس کے عزیزوں تک پہنچائی جائے کہ محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار طاعون سے مر گیا تو کیا ان کو کچھ صدمہ پہنچے گا یا نہیں تو پھر وہ جواب دے کہ ایسا جھوٹ اُس نے کیوں بولا اور کس غرض سے بولا اور کیوں خلاف گوئی کی نجاست کھا کر شریف اور معزز لوگوں کو دُکھ دیا۔ کیا یہ *** زندگی نہیں کہ ناحق



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 389

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 389

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/389/mode/1up


کینہؔ وری کی راہ سے جھوٹ بولا جائے؟ جن کو وہ کمال بے حیائی سے مُردوں میں داخل کر تاہے وہ تو ایک دن کے لئے بھی بیمار نہ ہوئے اور نہ گاؤں سے باہر نکالے گئے۔ مثلاً جیسا کہ پیسہ اخبار نے اخویم مکرم مولوی حکیم نور دین صاحب کی نسبت شائع کیا کہ ان کی کوئی رشتہ دار عورت طاعون سے مر گئی اور بعض نے یہ مشہور کیا کہ وہ مولوی صاحب کی ساس تھی۔ اور بعض خبیثوں نے یہ شہرت دی کہ وہ آپ کی بیوی تھی حالانکہ نہ ساس نہ بیوی نہ کوئی اور رشتہ دار مولوی صاحب موصوف کا طاعون سے فوت ہوا اور نہ گاؤں سے باہر نکالا گیا۔ یہ کس قدر خباثت اور بے ایمانی ہے کہ ایسے صریح جھوٹ جن کی کچھ بھی اصلیّت نہیں ایسے اخبار میں درج کئے جائیں جس کے کئی ہزار پرچے ہفتہ وار شائع ہوتے ہیں۔ افسوس کہ اس شخص نے ناحق مولوی صاحب موصوف کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو رنج پہنچایا اور بے وجہ دلوں کو صدمہ پہنچا کر سخت دل آزاری کا موجب ہوا۔ اس کو کیا خبر نہیں تھی کہ قادیان میں اکثر آریہ وغیرہ مذہب اسلام سے اور بالخصوص اِس جماعت سے سخت عداوت رکھتے ہیں اور اِن لوگوں کے نزدیک جھوٹ بولنا شیر مادر ہے شیاطین ہیں نہ انسان۔ پھر کیوں اور کس وجہ سے ان کی ایسی جھوٹی خبروں کو اخبار میں درج کرکے شائع کیا گیا اب جواب کا کون ذمہ وار ہے کہ اس قدر گندے جھوٹ سے ایک جماعت کا دِل دُکھایا گیا۔ ایسا شخص جو ملک میں بے امنی پھیلانا چاہتا اور زندوں کو مار رہا ہے اور اپنے اندرونی کینوں کی وجہ سے امن عامہ کا دشمن ہے۔ بے شک وہ اس لائق ہے کہ قانون کی حد تک اس سے مواخذہ ہو کہ اس نے ایسا گندہ اور دلآزار جُھوٹ ملک میں پھیلایا۔ اور اخویم مکرم مولوی نور دین صاحب کے اقارب کی نسبت ایک بے اصل صدمہ پہنچانے والی بات کو شہرت دی اور بہت سے دلوں کو صدمہ پہنچایا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ پہلے فرضی طور پر زندہ کو مارا اور پھر اُس فرضی میّت کی تذلیل کی۔

کیا اخبار کا یہی فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک روایت بغیر تفتیش اور تنقید کے شائع کر دی جائے۔ ہمیں تو کچھ انگریزی قانون کا حال معلوم نہیں اگر گورنمنٹ نے اپنے قانون میں اخبار نویسوں کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ ایسے بے اصل جھوٹ جن سے دلوں کو آزار اور صدمہ پہنچتا ہے بے دھڑک شائع کر دیا کریں تب تو کوئی چون و چرا کی جگہ نہیں ورنہ گورنمنٹ پبلک پر احسان کرے گی اگر ایسے گندے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 390

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 390

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/390/mode/1up


اورؔ ناپاک اور دِلآزار جھوٹوں کے شائع کرنے کی وجہ سے پیسہ اخبار سے باز پُرس کرے اور ایسی جھوٹی موتوں کا اُس سے ثبوت طلب کرے اور قانون کی حد تک اُس کو پوری سزا کا مزا چکھاوے۔

غور کا مقام ہے کہ ایک تو واقعی طور پر ملک میں طاعون نے تشویش پھیلا رکھی ہے اور دُوسرے اس جھوٹی طاعون کے شائع کرنے کا پیسہ اخبار نے ٹھیکہ لے لیا ہے ۔ پھر اگر ایسی صورت میں یہ گورنمنٹ جو رعایا کی ہمدرد ہے ایسے کھلے کھلے جھوٹ کے وقت میں جس کا نہایت دلیری سے ارتکاب کیا گیا ہے ایسے مُنہ پھٹے انسان سے مواخذہ نہ کرے تو نہ معلوم دروغگوئی میں کس حد تک اس شخص کا حال پہنچ جائے گا اور کن کن دِلوں کو بے وجہ دُکھائے گا ۔ ہنوز ابتدائی حالت ہے تھوڑی سزا سے بھی متنبہ ہو سکتا ہے پس کم سے کم دروغگوئی کی یہ سزا ہے کہ بلاتوقف اس کی یہ اخبار بند کر دی جائے یا علاوہ اس کے اور کوئی مناسب سزا دی جاوے اور اگر گورنمنٹ کو اس ہماری تحریر میں شبہ ہو تو اپنے کسی افسر کو قادیان میں بھیج کر تحقیق اور تفتیش کر لیں کہ کیا یہ تحریر واقعی ہے یا غیر واقعی۔ بدقسمت اڈیٹر نے اس گندے جُھوٹ سے خود اپنے تئیں پبلک کے سامنے اور نیز گورنمنٹ کے سامنے ایک دروغگو اور مُفتری ثابت کر دیا ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ اس جھوٹ سے اس کو کچھ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اصل مطلب اس دروغگوئی سے اُس کا یہ تھا کہ تا اِس بات کو ثابت کرے کہ گویا ہم نے اپنے رسالہ دافع البلاء میں یہ لکھا ہے کہ قادیان میں طاعون ہرگز نہیں آئے گی اور طاعون آگئی۔ کاش اگر وہ رسالہ دافع البلاء کو ذرہ غور سے پڑھ لیتا اور اس کے صفحہ پانچ کے حاشیہ کو دیکھ لیتا جس کو ہم نے اس رسالہ میں نقل کر دیا ہے تو اس دروغگوئی کی *** سے بچ جاتا۔ اس کا یہ عذر صحیح نہیں ہو گا کہ بدبخت شریروں اور جھوٹوں نے قادیان سے مجھے خبر دی اس لئے مَیں نے جھوٹ کو شائع کر دیا کیونکہ شائع کرنے کا ذمّہ دار وہ ہے نہ کوئی اور شخص بلکہ اس نے تو ساتھ ہی دوسرے چند اخباروں کو بھی آلودہ کیا۔ اس کو خوب معلوم تھا کہ قادیان کے آریہ اُس وقت سے جبکہ لیکھرام کے حق میں پیشگوئی پوری ہوئی دِل سے اس سلسلہ کے ساتھ عناد رکھتے ہیں اور بعض دُوسرے مذہب بھی ان کے ہمرنگ ہیں پھر وہ کیونکر ایسے امین ٹھہر سکتے ہیں کہ اُن کے بیان کی تفتیش ضروری نہیں اور باایں ہمہ پیسہ اخبار اِس بات کو بھی مخفی نہیں رکھ سکتا کہ وہ آدم کے سانپ کی طرح



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 391

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 391

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/391/mode/1up


اسؔ سلسلہ کا پُرانا دشمن اور معاند ہے پس اس میں کیا شک ہے کہ اُسی عناد کی وجہ سے یہ انبار جُھوٹ کا اُس نے اپنے اخبار میں درج کر دیا ہے۔

پھر اسی پرچہ میں وہ لکھتا ہے کہ مولاچوکیدار کی بیوی بھی طاعون سے فوت ہوگئی حالانکہ وہ اس وقت تک قادیان میں زندہ موجود ہے۔ ہر ایک شخص سوچ لے کہ اس شخص نے کیا وتیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ زندوں کو مار رہا ہے۔ کیا ایک ایڈیٹر اخبار کی قلم سے ایسے خطرناک جھوٹ شائع ہونا اور دلوں کو آزار پہنچانا موجب نقض امن نہیں ہے جس شخص کے اخبار کے ہر ہفتہ میں ہزار ہا پرچے شائع ہوتے ہیں قیاس کرنے کی جگہ ہے کہ وہ کس قدر خلاف واقعہ ماتم کی خبروں سے بے گناہ دلوں کو دُکھ دے رہا ہے اور دنیا میں بے امنی پھیلا رہا ہے۔ ایک تو آسمان سے انسانوں پر واقعی مصیبت ہے اب دُوسری مصیبت یہ پیدا ہو گئی ہے جو پیسہ اخبار کے ذریعہ سے ملک میں پھیلتی جاتی ہے نہ معلوم اس ملک کے لوگ ایسے گندے اخبار سے کیا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں گورنمنٹ عالیہ اس موذی اخبار کے بند کرنے میں توقف کر رہی ہے کیونکہ ایک گندے اخبار کا بند ہونا لاکھوں دلوں کو آزار پہنچنے سے بہتر ہے۔

(۲) دوسرا طریق افترا کا جو پیسہ اخبار نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ صرف فرضی نام لکھ کر ظاہر کر تا ہے کہ یہ لوگ قادیان میں طاعون سے مرے ہیں حالانکہ ان ناموں کا کوئی انسان قادیان میں نہیں مرا۔ مثلاً وہ لکھتا ہے کہ مسمّی مولا کی لڑکی طاعون سے مری ہے حالانکہ مولا مذکور کے گھر میں کوئی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ ایسا ہی وہ لکھتا ہے کہ ایک صدرو بافندہ طاعون سے مرا ہے حالانکہ اس گاؤں میں صدرو نام کوئی بافندہ ہی نہیں جو کہ طاعون سے مر گیا ہو۔ نہ معلوم اس کو یہ کیا سُوجھی کہ فرضی طور پر نام لکھ کر ان کو طاعونی اموات میں داخل کر دیا۔ شاید اس لئے ایسا کیا گیا کہ تا کچھ پتہ نہ چل سکے اور جاہل لوگ سمجھ لیں کہ ضرور ان ناموں کے کوئی لوگ ہوں گے جو مَرے ہوں گے۔

(۳) تیسرا طریق افترا کا جو پیسہ اخبار نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض آدمی فی الحقیقت مرے تو ہیں مگر وہ کسی اور حادثہ سے مَرے ہیں نہ طاعون سے اور اس نے محض چالاکی اور شرارت سے طاعون کی اموات میں داخل کر دیا ہے مثلاً وہ اپنے اخبار میں بڈھا تیلی کے لڑکے کی نسبت لکھتا ہے کہ وہ طاعون سے مَرا ہے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 392

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 392

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/392/mode/1up


حالاؔ نکہ تمام گاؤں جانتا ہے کہ وہ دیوانہ کُتّے کے کاٹنے سے مرا تھا اور جیسا کہ معمول ہے سرکاری طور پر اس کی موت کا نقشہ طیار کیا گیا اور کُتّے کے کاٹنے کی تاریخ وغیرہ اُس میں لکھی گئی پھر یہ کیسی پیسہ اخبار کی ایمانداری ہے کہ ایسے جھوٹوں کو جن سے گورنمنٹ پر بھی حملہ ہے اپنے اخبار میں شائع کیا گویا گورنمنٹ نے اپنے ملازموں کے ذریعہ سے عمدًا طاعون کے کیس کو چھپایا اور اپنے نقشوں میں دیوانہ کُتّے سے مرنا درج کیا۔ مگر پیسہ اخبار نے گورنمنٹ کا یہ جھوٹ پکڑ لیا۔ پس جبکہ پیسہ اخبار کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ وہ بلادھڑک گورنمنٹ کے تحقیق کردہ امور کے برخلاف جھوٹ بولتا ہے تو کس قدر وجود اس کا خطرناک ہے۔ اڈیٹروں کا یہ فرض ہونا چاہئیے کہ وہ سچائی کو دنیا میں پھیلاویں نہ جھوٹ کو۔ اِس لئے ہم بار بار کہتے ہیں کہ ایسے گندے اور ناپاک اخبار دنیا کو بجائے فائدہ کے نقصان پہنچاتے ہیں اور جھوٹ جو ایک نہایت پلید اور ناپاک چیز ہے اس کو دنیا میں رائج کرتے ہیں۔ ابھی ہمیں معلوم نہیں کہ ہماری مخالفت کے جوش میں کہاں تک یہ شخص جھوٹ سے کام لے گا اور کس قدر فرضی طور پر نامُردہ لوگوں کو طاعون سے مارے گا۔ اِسی افترا کی قسم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نتّھو چوکیدار کی مَوت کو بھی طاعون سے لکھتا ہے حالانکہ ایک عرصہ ہواکہ وہ غریب کچھ مدّت تپ سے بیمار رہ کر بقضائے الٰہی فوت ہوا ہے چنانچہ سرکاری کتاب میں اس کی موت اور مولاچوکیدار کی موت کا باعث بخار ہی لکھا ہے۔ پھر کیا ممکن ہے کہ سرکارمیں جھوٹی خبر دی گئی۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ جیسا کہ ہمیشہ گرمی کی شدّت کی وجہ سے بخار ہوتا ہے قادیان میں بھی بخار رہا ہے اور اندازہ کیا گیا ہے کہ ایک سو سے زیادہ لوگوں کو بخار ہوا ہوگا اور خود ایک دو دن مجھے اور ہمارے بچوں کو بھی بخار ہوا۔ مدرسہ کے بعض لوگوں کو بھی بخار ہوا اور عام طور پر گاؤں میں بہتوں کو بخار ہوا۔ اسی کثرت بخار کے سلسلہ میں چند آدمی بخار سے فوت بھی ہو گئے جن میں سے بعض چند ماہ کے بیمار تھے اور بعض تپ محرقہ سے فوت ہوئے اور جہاں تک ہمیں علم ہے ایسے آدمی دو یا تین سے زیادہ نہیں جو قریباً سو آدمی میں سے جومبتلائے بخار تھے جانبر نہ ہو سکے۔ اب کیا اس کو طاعون کہنا چاہئیے؟ جائے شرم ہے کیا گرمی کے موسم میں اس سے پہلے کبھی بخار نہیں ہوئے بلکہ بعض برسوں میں جبکہ طاعون کا دنیا میں نام و نشان نہ تھا اسی موسم میں اسی گاؤں قادیان میں بعض لوگ تپ محرقہ سے تیس تیس کے قریب مر گئے تھے اب تو خدا کا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 393

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 393

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/393/mode/1up


ٰٰفضلؔ ہے موت بہت کم ہے۔ غرض یہ معمولی وبائیں ہیں جو اِس موسم میں آتی ہیں۔ اورجاہل لوگ جن کو فن طبابت کی کچھ بھی خبر نہیں ہر ایک بیماری کو ناحق طاعون بنا دیتے ہیں اور ایسے اڈیٹر جو اجہل الجہلاء ہیں وہ جاہلوں کی باتوں کو ایسا قبول کر لیتے ہیں کہ گویا ایک بڑے اور تجربہ کار ڈاکٹر نے ان کو خبر دی ہے۔ حالانکہ طاعون کی مرض ایسی ہے کہ اس کی تشخیص کرنے میں بڑے بڑے ڈاکٹروں کی عقل بھی چکّر کھا جاتی ہے۔ عجیب تر یہ ہے کہ بعض وقت بیماروں کو پھوڑے نکلتے ہیں پھر بھی وہ طاعون نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ امر بڑا مشکل امر ہے۔ گذشتہ دنوں میں مشہور ہوا تھا کہ دہلی میں طاعون پھوٹ پڑی لیکن تحقیقات کے بعد یہی ثابت ہوا کہ وہ ایک قسم کے محرقہ تپ ہیں نہ طاعون۔ اور خود طاعونیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وبائی اور ایک غیر وبائی۔ وبائی وہ ہوتی ہیں جو جلد جلد پھیلتی ہیں اور متعدّی ہوتی ہیں اور موتیں تیز قدم کے ساتھ بڑھتی جاتی ہیں اور غیر وبائی طاعونیں خوفناک طور پر نہیں پھیلتیں وہ زہرناک پھنسیاں ہیں جو کبھی کان میں نکلتی ہیں اور کبھی ہتھیلی میں اور کبھی چھاتی پر اور کبھی ناک پر اور کبھی کان کے پیچھے اور کبھی لب پر اور کبھی کسی اُنگلی پر اور کبھی کسی اور حصہ بدن پر۔ یہ سب طاعونیں ہیں اگر یہ انسانوں میں زور کے ساتھ نہ پھیلیں اور کثرت موت کا موجب نہ ہوں تو اُس وقت تک یہ وبائی طاعون نہیں کہلاتیں غرض اِس مرض کی تشخیص بہت مشکل ہے اور خود بڑے بڑے طبیب اِس میں غلطیاں کھا سکتے ہیں چہ جائیکہ جاہل بازاری جو اِس کوچہ سے محض ناواقف اور انسانیت سے بہت ہی تھوڑا حصہ رکھتے ہیں۔ اِس مرض میں ایک اور خاصیّت ہے کہ تیزی کے زمانہ میں جبکہ موتوں کا گرم بازار ہوتا ہے ہولناک حملے اس کے ہوتے ہیں اور پھر جب موسم کی تبدیلی سے اور یا اندرونی اسباب سے جن کا انسانوں کو پورا علم نہیں اس کی تیزی کم ہوتی جاتی ہے تو بعض انسانوں پر اس کا ایسا اثر خفیف ہوتا ہے کہ اس کا پھوڑا ایک معمولی پھوڑا اور اس کا تپ ایک معمولی تپ ہوتا ہے اور درحقیقت اس حالت کا نام طاعون نہیں بلکہ وہ زہریلی مرض ایک معمولی مرض کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔

اب ہم نصیحتاً کہتے ہیں کہ آئندہ پیسہ اخبار ایسے افتراؤں اور قابلِ شرم جھوٹوں سے باز آ جائے ورنہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ یہ جھوٹ ہمیشہ اس کو ہضم ہو سکیں اور افسوس کہ بعض امرتسر کے سفلہ طبع بھی اپنے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 394

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 394

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/394/mode/1up


اشتہاؔ روں میں پیسہ اخبار کے نقش قدم پر چلے ہیں۔ بعض نے یہاں تک جھوٹ بولا ہے کہ گویا ہماری جماعت میں ہی طاعون پھوٹ پڑی ہے اور گویا قادیان میں وہ طاعون پیدا ہو گئی ہے جو طاعون جارف کہلاتی ہے۔ ان کے جواب میں بجُز اس کے ہم کیا کہیں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی یہی قدیم سنت ہے کہ جس گاؤں یا شہر میں خدا کی طرف سے کوئی مرسل آتا ہے وہ جگہ نسبتی طور پر دارالامن ہو جاتی ہے اور اس میں وہ بیحواس اور دیوانہ کرنے والی تباہی نہیں پڑتی جس میں لوگ پروانوں کی طرح مَرتے ہیں ہاں مَوت کا درازہ بھی بند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ باوجودیکہ مکۂ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کے دَارالامان ہونے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں اور قُرآن کریم نے بھی اس کی تصدیق کی ہے مگر پھر بھی بعض اوقات انسانی برداشت تک مکّہ معظمہ میں ہیضہ پھوٹ پڑتا ہے اور ایسا ہی مدینہ منورہ میں بھی کئی وارداتیں ہو جاتی ہیں مگر ان وارداتوں سے ان دونوں حرمین شریفین کے دارالامن ہونے میں فرق نہیں آتا۔ اِسی طرح ہمیں اس سے انکار نہیں کہ قادیان میں بھی کبھی وبا پڑے یا کسی معمولی حد تک طاعون سے جانوں کا نقصان ہو لیکن یہ ہرگز نہیں ہو گاکہ جیسا کہ قادیان کے اردگرد تباہی ہوئی یہاں تک کہ بعض گاؤں موت کی وجہ سے خالی ہو گئے یہی حالت قادیان پر بھی آوے۔ کیونکہ وہ خدا جو قادر خدا ہے اپنے پاک کلام میں وعدہ کر چکا ہے جو قادیان میں تباہ کرنے والی طاعون نہیں پڑے گی۔ جیسا کہ اُس نے فرمایا لَوْ لَا الْاِکْرَامُ۔ لَھَلَکَ المقَامُ۔ یعنی اگر مجھے تمہاری عزّت ظاہر کرنا ملحوظ نہ ہوتا تو مَیں اس مقام کو یعنی قادیان کو طاعون سے فنا کر دیتا یعنی اس گاؤں میں بھی بڑے بڑے خبیث اور شریر اور ناپاک طبع اور کذاب اور مفتری رہتے ہیں اور وہ اس لائق تھے کہ قہر الٰہی سب کو ہلاک کر دیوے مگر میں ایسا کرنا نہیں چاہتا کیونکہ درمیان میں تمہارا وجود بطور شفیع کے ہے اور تمہارا اکرام مجھے منظور ہے اس لئے میں اس مرتبہ سزا سے درگزر کرتا ہوں کہ ایک خوفناک تباہی اور موت ان لوگوں پر ڈال دوں تاہم بکلی بے سزا نہیں چھوڑوں گا اور کسی حد تک وہ بھی عذاب طاعون میں سے حصہ لیں گے تاشریروں کی آنکھیں کھلیں۔ ماسوا اس کے اگر قادیان میں ایسی طاعون آوے جیسا کہ گردو نواح میں بعض جگہ یہ صورتیں پیدا ہوئیں کہ دیہات میں صدہا لوگ مرے اور کئی دیہات تباہ ہو گئے اور بہت سے گھر ایسے ہو گئے کہ بجُز شیرخوار بچوں کے ان میں کوئی بھی نہ رہا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 395

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 395

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/395/mode/1up


تو اِؔ س صورت میں ظاہر ہے کہ یہ جماعت جو قادیان میں بیٹھی ہے وہ سب مع اِن کے امام کے تباہ ہوں گے اور سب طاعون سے مریں گے اور یہ خدا کو منظور نہیں کیونکہ یہ اس کی قوم ہے جو اس نے طیار کی ہے۔ اوریہ جو بھیجا گیا ہے یہ اُس کے ہاتھ کا پودہ لگایا ہوا ہے۔ پس کیونکر وہ اپنے باغ کو خود کاٹ دیوے جو اُس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ پس اس لئے اور اسی غرض سے تمام گاؤں کو تخفیف عذاب کی رعایت دی گئی ہے یہ ایسی ہی مثال ہے کہ مثلاً ایک جہاز میں ایک خدا کا برگزیدہ سوار ہو۔ تا وہ کسی ملک میں جا کر تبلیغ کرے اور اِس حالت میں سمندر میں طوفان آوے۔ پس سنت اﷲ کے موافق یہ ضروری امر ہے کہ اس جہاز میں بہت سے ایسے لوگ سوار ہوں کہ جو غرق کرنے کے لائق ہوں مگر وہ اس شخص کے لئے غرق نہیں کئے جاویں گے کیونکہ اُن کے غرق ہونے سے اس برگزیدہ پر بھی صدمہ آتا ہے اور یہ خدا کو منظور نہیں۔ یاد رہے کہ معمولی حد تک موتیں ایک محفوظ جہاز میں بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر وہ جہاز کے مسافروں کی بے امنی کو اس حد تک نہیں پہنچاتیں کہ وہ بے حواس ہو کر جہاز پر سے کُود پڑیں اور سب ایک زبان سے ہائے وائے کے نعرے نکالیں۔ مگر یہ خوفناک موتیں جو جہاز کسی ٹھوکر سے یکدفعہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور اس میں بیٹھنے والے بیکبارگی پانی میں بہ جائیں اور سمندر کی لہریں ان کو ڈھانک لیں یہ عظیم حادثہ ہے اور ایسا مُہلک حادثہ کبھی اس حالت میں نہیں ہوتا جبکہ ایسے جہاز میں خدا کا کوئی نبی اور رسول اور برگزیدہ بیٹھا ہو بلکہ اس کے طفیل اور اس کی شفاعت سے دوسرے لوگ بھی کنارہ پر سلامت پہنچائے جاتے ہیں تا خدا کا ایک کامل بندہ جو خدا کے جلال کے لئے سفر کر رہا ہے اس تشویش اور تباہی میں شریک نہ ہو اور تا وہ کام معطل نہ رہ جائے جس کام کے لئے اس نے سفر کیا ہے۔ اسی سنت اﷲ کے موافق قادیان کے لئے انّہ اوی القریۃ کا الہام صادر ہوا تا خدا کے کاموں میں حرج نہ ہو ورنہ قادیان سب سے پہلے فنا کرنے کے لائق تھی کیونکہ یہ لوگ نزدیک ہو کر پھر دُور ہیں اور بہتوں کا خدا پر ایمان نہیں اور نہ چاہتے ہیں کہ اپنا ناپاک چولہ اتار کر حق کو قبول کریں۔ غرض یہ سنت اﷲ ہے کہ جس گاؤں یا شہر میں خدا کا کوئی فرستادہ نازل ہو تو وہ گاؤں یا شہر نہ تو طاعون سے تباہ اور ہلاک ہوتا ہے اور نہ کسی اوروبا سے اور نہ کسی آتش فشاں پہاڑ سے ہلاک کیا جاتاہے۔ ہاں معمولی موتیں خواہ طاعون سے ہوں خواہ ہیضہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 396

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 396

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/396/mode/1up


سےؔ خواہ کسی اور سبب سے وہ سب انسانی برداشت کی حد تک اُس میں ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ اس مامُور کی کارروائی کی حارج نہیں ہیں۔ پس جس الہام کو ہم نے قادیان کے بارے میں شائع کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے اس سے زیادہ نہیں۔

بعض آدمی یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ مسیح موعود کے وقت میں امن اور آسائش کا زمانہ ہونا چاہئیے تھا نہ کہ طاعون ملک میں پھیلے اور قحط پڑے اور طرح طرح کے اسباب سے کثرت موت ہو۔ اِن اوہام باطلہ کا یہ جواب ہے کہ انسان کا اختیار نہیں ہے کہ اپنی طرف سے حکم چلاوے کہ یُوں ہونا چاہئیے تھا اور اِس طرح ہونا چاہئیے تھا۔ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں بہت تصریح سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زما نہ میں ضرور طاعون پڑے گی اور اِس مَرِی کا انجیل میں بھی ذکر ہے اور قرآن شریف میں بھی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہےالخ ۱؂ یعنی کوئی بستی ایسی نہیں ہو گی جس کو ہم کچھ مدت پہلے قیامت سے یعنی آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ہلاک نہ کر دیں یا عذاب میں مبتلا نہ کریں۔

یاد رہے کہ اہلِ سنّت کی صحیح مُسلم اور دُوسری کتابوں اور شیعہ کی کتاب اکمال الدین میں بتصریح لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ اکمال الدین جو شیعہ کی بہت معتبر کتاب ہے اُس کے صفحہ ۳۴۸ میں اوّل چار حدیثیں کسوف خسوف کے بارہ میں لایا ہے اور امام باقر سے روایت کرتا ہے کہ مہدی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ قبل اس کے کہ وہ قائم ہو یعنی عام طور قبول کیا جاوے رمضان میں کسوف خسوف ہو گا*۔

* حاشیہ : حضرت مسیح بروز جمعہ بوقت عصر صلیب پر چڑھائے گئے تھے جب وہ چند گھنٹہ کیلوں کی تکلیف اُٹھا کر بیہوش ہو گئے اور خیال کیا گیا کہ مر گئے تو یکدفعہ سخت آندھی اُٹھی اور اس سے سُورج اور چاند دونوں کی روشنی جاتی رہی اور تاریکی ہو گئی۔ وہ دسویں محرّم تھی اور اُس دن یہود کو روزہ تھا اور دُوسرے دن ان کی عید فسح تھی اُن بزرگوں نے عین روزہ کی حالت میں اپنی دانست میں یہ ثواب کا کام کیا مطلب یہ تھا کہ حضرت مسیح کو کسی طرح *** ثابت کریں۔ ایسا ہی مسیح موعود پر جب کفر اور قتل کا فتویٰ لگایا گیا تو اس کے بعد رمضان میں کسوف خسوف ہوا تا دونوں واقعات میں مشابہت ہو کیونکہ جس طرح عیسیٰ مسیح استعارہ کے رنگ میں مُردوں میں سے جی اُٹھا اسی طرح اس مسیح کو تکفیر کی دو سو ۲۰۰ مہر سے اپنی دانست میں ہلاک کر دیا گیا تھا مگر پھر وہ جی اُٹھا اور کھڑا ہو گیا۔ اس لئے امام قائم کہلایا ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 397

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 397

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/397/mode/1up


اورؔ پھر بعد اس کے لکھا ہے کہ یہ بھی اس کے ظہور کی ایک نشانی ہے کہ قبل اس کے کہ قائم ہو یعنی عام طورپر قبول کیا جائے دنیا میں سخت طاعون پڑے گی یہاں تک کہ ایک گھر میں جو سات آدمی ہوں گے اُن میں سے صرف دو۲ رہ جائیں گے اور پانچ مر جائیں گے۔ پس اس کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ یہ دونوں نشان اُس وقت ظہور میںآئیں گے جبکہ اس کی دنیا میں تکذیب ہوگی۔ کیونکہ مسیح کے بھی یہ دونوں نشان تھے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب ہو کر اُن کے لئے صلیب تیار کیا گیا تھا تب آفتاب و ماہتاب دونوں تاریک ہو گئے تھے اور طاعون بھی پڑی تھی۔ غرض اس کتاب میں لکھا ہے کہ رمضان میں خسوف کسوف ہونا اور ملک میں طاعون پھیلنا مہدی معہود کا ایک معجزہ ہو گا۔ پس بلاشبہ یہ امر تواتر کے درجہ پر پہنچ چکا ہے کہ مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے وقت میں اور اس کی توجہ اور دُعا سے ملک میں طاعون پھیلے گی آسمان اس کے لئے چاند اور سُورج کو رمضان میں تاریک کرے گا اور زمین اُس کے لئے طاعون کی تاریکی اور مصیبت پھیلائے گی کیونکہ وہ ابتدا میں قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے انذاری نشان اُس کے لئے ظاہر ہوں گے اور اُس کے نفس سے یعنی توجہ اور دُعا اور اتمام حجت سے کافر مریں گے۔* اور وہ مرنا دو قسم کا ہو گا (۱) ایک تو رُوحانی طور پر کہ اس کے وقت میں تمام مذاہب بجُز اسلاممُردہ ہو جائیں گے (۲) دوسرے جسمانی طور پر۔ چونکہ وہ ستایا جائے گا اور دکھ دیا جائے گا اس لئے خدا کا غضب مخلوق پر بھڑکے گا۔ تب وہ ایسی موتوں کا سلسلہ جاری کر دے گا کہ نمونہ قیامت ہو جائیں گی۔ تب انجام کار لوگ سوچیں گے کہ کیوں یہ آفتیں ہم پر پڑ گئیں اور سعیدوں کا راہ دِکھلایا جائے گا۔ غرض عام موتوں کا پڑنا مسیح موعود کی علامات خاصہ میں سے ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام گواہی دیتے آئے ہیں۔

* حاشیہ : یہ عجیب مشابہت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے وقت میں بھی بباعث سخت آندھی کے سُورج اور چاند کی روشنی روزہ کے دن میں یکدفعہ جاتی رہی تھی اور پھر زمین پر طاعون بھی پڑی یہ دونوں باتیں اب بھی ظہور میں آ گئیں۔ یعنی بذریعہ خسوف کسوف رمضان میں تاریکی بھی ہو گئی جیسا کہ یہود کے روزہ کے دن تاریکی ہو گئی تھی اور پھر طاعون سے بھی دنیا تباہ ہو گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 398

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 398

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/398/mode/1up


اورؔ اگر کہو کہ اگر تم ہی مسیح موعود ہو اور تمہارے لئے ہی یہ طاعون بطور نشان ظاہر کی گئی ہے تو چاہئیے تھا کہ قبل اس سے جو ملک میں طاعون پھیلتی پہلے ہی خدا تعالیٰ تمہیں خبر دے دیتا کہ طاعون آئے گی؟

اِس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت خدا نے طاعون کی پہلے ہی سے مجھے خبر دی ہے اور یہ ایسی یقینی خبر ہے جس سے کسی کو مسلمانوں عیسائیوں ہندوؤں میں سے انکار نہیں ہو سکتا بلکہ اُس نے نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ خبر دی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے:۔

(۱) اوّل خدائے عزّو جلّنے آج سے تیئیس برس پہلے عام موت کے نشان کی براہین احمدیہ میں مجھے خبر دی جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ پانچ سو اٹھارہ میں یہ خدائے عزّو جلّ کا کلام بطور پیشگوئی ہے وقالوا انّٰی لک ھٰذا ان ھٰذا الا سحر یؤثر۔ لن نؤمن لک حتّٰی نری اﷲ جھرۃ۔ لایصدق السفیہ الاسیفۃ الھلاک۔ عدولی و عدولک ۔ قل اَتٰی امر اﷲ فلا تستعجلوہ۔ اذاجاء نصر اﷲ الست بربکم قالوابلٰی۔ ترجمہ ۔ اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھے کیسے مل سکتا ہے یہ تو ایک مکر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو آشکارا طور پر نہ دیکھ لیں۔ سفیہ آدمی بجز مَوت کے نشان کے کسی نشان کو نہ مانیں گے کیونکہ وہ میرے دشمن اور تمہارے بھی دشمن ہیں انہیں کہہ کہ موت کا نشان بھی آنے والا ہے یعنی طاعون مگر کچھ دیر سے سو تم جلدی مت کرو۔ پھر اس کے ساتھ ہی صفحہ ۵۱۹ میں یہ الہام درج ہے امراض الناس وبرکاتہ یعنی لوگوں میں مرض پھیلے گی اور اس کے ساتھ ہی خدا کی برکتیں نازل ہوں گی اور وہ اِس طرح پر کہ وہ بعض کو نشان کے طور پر اس بلا سے محفوظ رکھے گا اور دُوسرے یہ کہ یہ بیماریاں جو آئیں گی یہ دینی برکات کا موجب ہو جائیں گی اور بہتیرے لوگ اُن خوفناک دِنوں میں دینی برکات سے حِصّہ لیں گے اور سلسلہ حقّہ میں داخل ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور طاعون کا خوفناک نظارہ دیکھ کر بڑے بڑے متعصّب اِس سلسلہ میں داخل ہو گئے ہیں اور اس وقت تک بذریعہ طاعون دو ہزار سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 399

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 399

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/399/mode/1up


بھیؔ زیادہ مخالف ہمارے سلسلہ میں داخل ہو چکا ہے سو یہی وہ برکتیں ہیں جن سے بموجب پیشگوئی کے بذریعہ طاعون لوگوں نے حصہ لیا ہے۔

اور پھر صفحہ ۵۵۷ میں خدائے عزّو جلّ کا یہ کلام ہے جو ایک عام عذاب کے نازل ہونے کے بارے میں ہے اور وہ یہ ہے۔ مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ دیکھو صفحہ ۵۷۷ براہین احمدیہ۔ اس وحی مقدس میں خدائے ذوالجلال نے میرا نام نذیر رکھا جو اصطلاح قرآنی میں اس کو کہتے ہیں جس کے ساتھ عذاب بھی آوے اور فرمایا کہ مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ یعنی ایک خاص قہری تجلّی ظاہرکروں گا۔ خدا کی کتابوں میں چمکار دِکھلانے سے مراد ہمیشہ عذاب ہوا کرتا ہے اور پھر فرمایا کہ اپنی قُدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ اِس فقرے کے معنی کی نسبت واضح ہو کہ یُوں تو خدا تعالیٰ کی قُدرتیں ہمیشہ ظاہر ہوتی رہتی ہیں کونسا وقت ہے کہ کوئی قدرت ظاہر نہیں ہوتی۔ مگر اس جگہ قدرت نمائی سے وہ قدرتیں مراد ہیں جو خارق عادت ہیں یعنی عام طور پر وقوع اُن کا نہیں خاص خاص وقتوں میں نشان کے طور پر اُن کا ظہور ہوتا ہے۔ اِس سے بھی یہی اشارہ نکلتا ہے کہ وہ ایک قہری قدرت ہوگی۔ اور یہ جو فرمایا کہ تجھ کو اٹھاؤں گا اس سے یہ مراد نہیں کہ زندہ بجسم عنصری آسمان پر اُٹھا لوں گا۔ یہ گذشتہ لوگوں کی غلطیاں ہیں کہ بعض انسانوں کی نسبت ایسے لفظوں سے یہ معنی نکالتے رہے خدا ان کے قصور معاف کرے بلکہ مراد یہ ہے کہ تیرے مخالف بہت شور ہو گا اور چاہیں گے کہ تحت الثریٰ میں تیری جگہ ہو مگر میں آخرکار ثابت کردوں گا کہ تیرا مقام بلند ہے اور تُو آسمانی لوگوں میں سے ہے نہ زمینی کیڑوں میں سے۔ اور پھر فرمایا کہ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا یعنی ردّ کر دیا اور کافر اور دجّال اس کا نام رکھا اور جو چاہا اس کے حق میں کہا مگر مَیں اُن کے مخالف ہو جاؤں گا۔ وہ تیری ذلّت تلاش کریں گے اور مَیں عزّت دوں گا اور وہ تجھے گمنام کرنا چاہیں گے اور مَیں زمین کے کناروں تک تیری شُہرت پھیلا دوں گا اور وہ تجھے جاہل کہیں گے اور مَیں تیرا علم ثابت کروں گا اور وہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 400

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 400

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/400/mode/1up


تجھؔ پر *** کریں گے اور مَیں تجھ پر برکتیں نازل کروں گا اور وہ تجھ پر باب معیشت تنگ کرنا چاہیں گے اور مَیں تیرے پر تمام نعمتوں کے دروازے کھول دُوں گا اور پھر فرمایا کہ بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ سو خدا کے زور آور حملوں میں سے یہ طاعون ہے جو ملک میں پھیل گئی اور نہ معلوم کہ کب تک اس کا دور ہے۔ غرض براہین احمدیہ میں آج سے تیئیس ۲۳ برس پہلے اس عذاب کی خبر دی گئی ہے بلکہ صفحہ ۵۱۰ براہین احمدیہ میں یہ بھی وحی الٰہی ہے ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔ یعنی جب عذاب کا وقت آوے تو ظالموں کی میری جناب میں شفاعت مت کر کہ مَیں اُن کو غرق کروں گا۔ اس الہام کا دُوسرا حصہ یہ ہے وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ یعنی ہمارے حکم اور ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی تیار کر۔ کشتی سے مراد سلسلہ بیعت ہے جو خاص وحی الٰہی اور امر الٰہی سے قائم کیا گیا۔اور پھر صفحہ ۵۰۶ براہین احمدیہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہے۔ لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکّین حتّی تاتیھم البیّنۃ و کَان کیدھم عظیمًا اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ اس وحی الٰہی سے بھی ثابت ہے کہ دنیا کو شرک اور کفر اور مخلوق پرستی کی عادت ہو گئی تھی اور وہ کسی آسمانی گو شمالی کی محتاج تھی اور اسی وحی کے ساتھ صفحہ ۵۰۷ میں یہ خدا کا کلام ہے تلطف بالنّاس و ترحم علیھم انت فیھم بمنزلۃ موسٰی و اصبر علٰی مایقولون۔ یعنی لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی کر اور اُن پر رحم کر تُو ان میں بمنزلہ موسٰی کے ہے اور اُن کی باتوں پر صبر کر۔ پس اگرچہ حضرت موسیٰ بُردباری اور حلم اور تہذیب اخلاق میں تمام بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے اوّل درجہ پر تھے اور توریت خود اُن کے اخلاق فاضلہ کی تعریف کرتی ہے اور ان کواسرائیلی نبیوں میں سے بے نظیر ٹھہراتی ہے لیکن اُن کے کمال حلم کا آخر یہ نتیجہ ہوا کہ جب قوم اسرائیل کے مفسد کسی طرح درست نہ ہوئے تو آخر خدا نے موسیٰ اپنے بندہ کی حیات میں ہی اُن کو طاعون سے ہلاک کیا جیسا کہ توریت میں یہ قصہ موجود ہے سو اِسی کی طرف یہ اشارہ ہے کہ تو موسیٰ کی طرح صبر کر اور آخر ہماری طرف سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 401

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 401

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/401/mode/1up


تنبیہؔ نازل ہوگی۔

اور پھر براہین احمدیہ میں یہ الہام الم نجعل لک سھولۃ فی کل امر* بیت الفکر و بیت الذکر و من دخلہٗ کَان اٰمنًا۔ یعنی ہم نے تیرے لئے بیت الفکر اور بیت الذکر بنایا ہے اور جو ان میں داخل ہو گا وہ امن میں آ جائے گا۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ جانتا تھا کہ ملک میں عام طاعون پڑے گی اور کسی کم مقدار کی حد تک قادیان بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گی اس لئے اس نے آج کے دِنوں سے تیئیس۲۳ برس پہلے فرما دیا کہ جو شخص اس مسجد اور اس گھر میں داخل ہوگا یعنی اخلاص اور اعتقاد سے وہ طاعون سے بچایا جائے گا۔ اسی کے مطابق ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا انی احافظ کل من فی الدار۔ الا الذین علوا من استکبار۔ واحافظک خاصۃ سلام قولا من ربّ رحیم یعنی مَیں ہر ایک انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہو گا مگر وہ لو گ جو تکبّر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور مَیں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا۔ خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام۔

جاننا چاہئیے کہ خدا کی وحی نے اِس ارادہ کو جو قادیان کے متعلق ہے دو حصوں پر تقسیم کر دیا ہے۔ (۱) ایک وہ ارادہ جو عام طور پر گاؤں کے متعلق ہے اور وہ ارادہ یہ ہے کہ یہ گاؤں اس شدت طاعون سے جو افراتفری اور تباہی ڈالنے والی اور ویران کرنے والی اور تمام گاؤں کو

* درحقیقت ہمارے اس زمانہ نے دنیا کے ہر ایک پہلو میں سہولت کا ایک نیا رنگ ظاہر کر دیا ہے ہر ایک کام کے لئے مشینیں تیار ہو گئی ہیں جس قدر جلدی سے اب ہم کتابیں چھاپ سکتے ہیں اور پھر ہم اُن کو دُور دُور مقامات تک شائع کر سکتے ہیں اور شائع شدہ کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں اور ہزارہا اغراض دینی میں صنائع جدیدہ سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور تمام دنیا کا سیر کر سکتے ہیں۔ یہ سہولت کامل پہلے کسی نبی یا رسول کو ہرگز نہیں ہوئی۔ مگر ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے باہر ہیں کیونکہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ اُنہیں کا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 402

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 402

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/402/mode/1up


منتشرؔ کرنے والی ہو محفوظ رہے گا۔ (۲)دُوسرے یہ ارادہ کہ خدائے کریم خاص طور پر اس گھر کی حفاظت کرے گا اور اس تمام عذاب سے بچائے گا جو گاؤں کے دُوسرے لوگوں کو پہنچے گا اور اس وحی اﷲکا اخیر فقرہ اُن لوگوں کے لئے مُنذر ہے جن کے دلوں میں بے جا تکبّر ہے۔

اِس لئے مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ تکبّر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبّر کیا چیز ہے۔ پس مُجھ سے سمجھ لو کہ مَیں خدا کی رُوح سے بولتا ہوں۔

ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اِس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہُنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اوراپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کر دے اور اُس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اُس سے بہتر عقل اور علم اور ہُنردے دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصوّر کرکے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اِس بات کو بُھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے۔ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے

اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سُناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اُس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدّت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوںؔ کیونکہ وہ جوچاہتا ہے کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 403

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 403

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/403/mode/1up


دُعا مانگنے میں سُست ہے وہ متکبر ہے کیونکہ قُوّتوں اور قُدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظرمیں متکبّر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبّر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اُس نے بھی تکبّر سے حصّہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور مُنہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دُعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اُس نے بھی تکبّر سے ایک حصّہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبّر سے ایک حصّہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبّر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصّہ تکبّر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکواور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اُس سے کرواور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو۔

اب ہم پھر اپنے پہلے بیان کی طرف رُجوع کرکے لکھتے ہیں کہ طاعون کے بارے میں پیشگوئی صرف براہین احمدیہ میں ہی نہیں بلکہ براہین کے زمانہ سے جس کو بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر گیا۔ اس زمانہ تک جس قدر کتابیں تالیف ہوئی ہیں یا اشتہار شائع ہوئے ہیں اکثر میں یہ پیشگوئی موجود ہے چنانچہ آج سے آٹھ برس پہلے یہی پیشگوئی رسالہؔ نور الحق میں جو عربی رسالہ ہے اس کے صفحہ ۳۵۔۳۶۔ ۳۷۔۳۸ میں کی گئی ہے اور پھر آج سے پانچ برس پہلے یہی پیشگوئی رسالہ سراج منیر کے صفحہ ۵۹ و ۶۰ میں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 404

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 404

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/404/mode/1up


کی گئی۔ اور پھر آج سے چار برس چھ ماہ پہلے اشتہار طاعون مورخہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ ؁ء میں یہ پیشگوئی کی گئی جس کے یہ الفاظ تھے کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ کے ملائک ملک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں۔ بعض درخت لگانے والوں سے مَیں نے پُوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے۔ دیکھو اشتہار طاعون مورخہ ۶؍ فروری ۱۸۹۸ ؁ء اور یہ رسائل اور یہ اشتہار لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکے ہیں اور ظاہرہے کہ اس قدر عظیم الشان پیشگوئی کہ ایک مُدّت دراز طاعون کے وجود سے پہلے کی گئی یہ انسان کا کام نہیں اور اس سے یہ ثابت ہے کہ یہ طاعون محض اس لئے ملک پنجاب میں سب ملکوں سے زیادہ حملہ آور ہے کہ اسی ملک نے سب سے زیادہ خدا کی باتوں پر حملہ کیا اور اسی ملک نے خدا کے مامور اور مرسل کے مقابل پر طریقہ رہزنی اختیار کیا۔ نہ آپ سلسلہ حقہ میں داخل ہوئے نہ ہندوستان کے لوگوں کو داخل ہونے دیا۔ پس چونکہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں اوّل درجہ کا مخالف یہی ملک تھا اس لئے اوّل درجہ کے طاعون سے اسی ملک نے حصّہ لیا اور اسی ملک کے لئے وہ دُعا تھی جو طاعون کے لئے آج سے ایک مُدّت دراز پہلے مَیں نے مانگی تھی جو قبول کی گئی جس کے صدہا پرچے ملک میں شائع کئے گئے تھے مگر افسوس کہ اس ملک کے لوگوں نے بڑی سنگدلی ظاہر کی۔ خدا کے کُھلے کُھلے نشان دیکھے ا ور انکار کیا۔ وہ نشان جو ملک میں ظاہر ہوئے جن کے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان گواہ ہیں جن میں سے کسی قدر بطور نمونہ اِسی کتاب میں لکھے جائیں گے وہ ڈیڑھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن اِس ملک کےؔ لوگ ابھی تک کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ تو اب بتلاؤ کہ کیا اَب بھی طاعون مُلک میں ظاہر نہ ہو۔ نشانوں کو دیکھنا اور پھر تکذیب کرنا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 405

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 405

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/405/mode/1up


کیا اس سے زیادہ کوئی اور شرارت ہو گی۔ کیا خسوف کسوف رمضان میں نہیں ہوا؟ کیا شیعہ اور سُنّی دونوں فریق کی کتابوں میں یہ حدیثیں موجود نہیں! کیا بجز میرے کسی اور مدعی کے وقت ہوا؟ اور کون ہے جس نے کہا کہ یہ میرے لئے ہوا؟ اور یہ کہنا کہ یہ حدیث صحیح نہیں یہ دوسرا ظلم ہے۔ اے نادانوں جبکہ یہ حدیث سُنّیوں اور شیعوں دونوں فریق کی کتابوں میں موجود ہے اور پھر علاوہ اس کے خدا نے حدیث کے مضمون کو واقع کرکے اس کی صحت ثابت کر دی تو یہ حدیث تو اور تمام حدیثوں کی نسبت اوّل درجہ کی قوی ہو گئی کیونکہ نہ صرف یہ کہ دو فریق اس کے محافظ چلے آئے ہیں بلکہ خدا نے اس حدیث کی پیشگوئی کو پورا کرکے اس کی سچائی پر مُہر کر دی اور اس سے علاوہ یہ کہ پہلی کتابوں میں بھی مسیح موعود کی علامت خسوف و کسوف لکھا ہے اور یہ حدیث کتاب دارقطنی اور اکمال الدین میں ہے جس پر انہوں نے کوئی جرح نہیں کی۔ اور یہ امر کہ خسوف کسوف مہدی موعود کی علامت کیوں ٹھہرایا گیا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کا انکار جو زمین پر ہو رہا ہے یہ موجب غضب الٰہی ہے چنانچہ بعد اس کے زمین پر وہ غضب بذریعہ طاعون ظاہر ہو گیا۔ غرض اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ لوگوں کی تنبیہ اور یاددہانی کے لئے یہ نمونہ آسمان پر قائم کرے اور نمونہ کے لئے کسوف خسوف دونوں کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ آفتاب کی سلطنت دن پر ہے اور ماہتاب کی سلطنت رات پر اسی طرح یہ امام موعود دونوں سلطنتوں کا مالک کیا گیا ہے۔ یعنی دین اسلام جو بطور دن کے ہے اور دوسرے ادیان جو بطور رات کے ہیں ۔ ان سب پر حکمرانی کرنے کے لئے یہ موعود آیا ہے پس ایسے وقتؔ میں کہ اس کے دن کی سلطنت میں بھی روکیں اور حجاب ہیں اور نیز رات کی سلطنت میں بھی روکیں ہیں حکمت الٰہی نے چاہا کہ آسمان پر کسوف خسوف کا انذاری



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 406

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 406

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/406/mode/1up


نمونہ پیش کرے اور اس نشان میں ظاہر کیا گیا ہے کہ جیسا کہ کسوف خسوف کچھ تھوڑی مدّت کے بعد رفع اور دور ہو جاتا ہے اور یہ دونوں نیرّ اپنی اپنی سلطنت پر قائم ہو جاتے ہیں ۔ ایسا ہی اس جگہ بھی ہو گا۔ سُنی اور شیعہ دونوں گروہ اس کسوف خسوف کے تیرہ سو برس سے منتظر تھے مگر جب وہ ظاہر ہوا تو اُس کی تکذیب کی۔ کیا یہودیت کے کچھ اور بھی معنی ہیں۔ پھر دیکھو کہ قرآن اور حدیث دونوں بتلا رہے ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹ بیکار ہوجائیں گے یعنی اُن کے قائم مقام کوئی اور سواری پیدا ہو جائے گی یہ حدیث مُسلم میں موجود ہے اِس کے الفاظ یہ ہیں ویترکن القلاص فلایسعٰی علیھا اور قرآن کے الفاظ یہ ہیں ۱؂ شیعوں کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے مگر کیا کسی نے اس نشان کی کچھ بھی پروا کی۔ ابھی عنقریب اس پیشگوئی کا دلکش نظارہ مکّہ اور مدینہ کے درمیان نمایاں ہونے والا ہے جبکہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کی جگہ ریل کی گاڑیاں نظر آئیں گی اور تیرہ سو برس کی سواریوں میں انقلاب ہو کر ایک نئی سواری پیدا ہو جائے گی۔ اس وقت ان مسافروں کے سر پر جب یہ آیت 3اور یہ حدیث ویترکن القلاص فلا یسعٰی علیھا پڑھی جائے گی تو کیسے انشراح صدر سے ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ درحقیقت آج کے دن کے لئے ایک نشان تھا اور ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو ہمارے نبی کریمؐ کے مبارک لبوں سے نکلی اور آج پُوری ہوئی مگر افسوس اے تکذیب کرنے والو تم کب باز آؤ گے وہ کب دن آئے گا جو تمہاری بھی آنکھیں کھلیں گی۔ خدا کے نشان یُوں برسے جیسے برسات میں مینہ برستا ہے مگر تمہاری خشکی دور نہ ہوئی۔ دیکھتے دیکھتے صدی کا پانچواں حصہ بھی گذر گیا مگر تمہارا کوئیؔ مجدّد ظاہر نہ ہوا۔ خدا نے نشانوں کے دکھلانے میں کمی نہ رکھی۔ کسوف خسوف رمضان میں بھی ہوا اور بموجب حدیث کے ستارہ ذوالسنین بھی مُدّت ہُوئی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 407

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 407

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/407/mode/1up


کہ نکل چکا۔ اور قرآن اور پہلی کتابوں اور سُنّیوں اور شیعوں کی حدیثوں کے موافق طاعون بھی ملک میں ظاہر ہو گئی اور حج بھی روکا گیا۔ اور بجائے اونٹوں کے نئی سواریاں بھی پیدا ہو گئیں اور کسر صلیب کی ضرورت بھی سخت محسوس ہونے لگی کیونکہ انتیس لاکھ نومرتد عیسائی پنجاب اور ہندوستان میں ظاہر ہو گیا اور آدم سے چھ ہزار برس بھی گذر گیا مگر اب تک تمہارا مسیح نہ آیا۔ کیا خدا نے نشان نمائی میں کچھ کسر رکھی۔ کیا اُس نے پیشگوئی کی شرطوں کے موافق آتھم کی زندگی کا خاتمہ نہ کیا۔ کیا اُس نے قطعی مُدّت اور میعاد کے موافق لیکھرام کے فتنہ سے زمین کو پاک نہ کیا۔ کیا اُس وقت جبکہ اعتراض کیا گیا کہ اخویم مولوی نور دین صاحب کا لڑکا فوت ہو گیا ہے خدا نے یہ خبر نہ دی کہ ایک اور لڑکا اُن کے گھر میں پَیدا ہو گا اور دیکھو نشان یہ ہے کہ اُس کے بدن پر خوفناک پھوڑے ہوں گے۔ پس کس قدر کُھلا کُھلا نشان تھا کہ وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحی ہے اور اُس کے بدن پر خوفناک پھوڑے تھے جن کے نشان اب تک موجود ہیں۔ اور یہ پیشگوئی صدہا اشتہاروں کے ذریعہ سے ملک میں شائع کی گئی۔ اور نیز یہ پیشگوئی کہ اِس عاجز کے گھر میں چا رلڑکے پیدا ہوں گے اور عبدالحق غزنوی ابھی زندہ ہو گا کہ چوتھا لڑکا پیدا ہو جائے گا کس زور سے بذریعہ اشتہارات شائع کی گئی تھی اور کیسی صفائی سے پُوری ہوئی مگر کون اس پر ایمان لایا اور یہ سب نشان صرف دوچار نہیں بلکہ ڈیڑھ سو سے بھی زیادہ نشان ہیں۔ اگر ان نشانوں کے گواہ جنہوں نے یہ نشان دیکھے جو اب تک زندہ موجود ہیں صف باندھ کر کھڑے کئے جائیں تو ایک بھاری گورنمنٹ کے لشکر کے موافق اُن کی تعداد ہو گی۔ ابؔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قدر نشانوں کو دیکھ کر پھر کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور مولویوں کے لئے تو خود اُن کی بے علمی کا نشان اُن کے لئے کافی تھا کیونکہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 408

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 408

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/408/mode/1up


ہزارہا روپے کے انعامی اشتہار دئے گئے کہ اگر وہ بالمقابل بیٹھ کر کسی سورۃ قرآنی کی تفسیر عربیفصیح بلیغ میں میرے مقابل پر لکھ سکیں تو وہ انعام پاویں۔ مگر وہ مقابلہ نہ کر سکے تو کیا یہ نشان نہیں تھا کہ خدا نے اُن کی ساری علمی طاقت سلب کر دی۔ باوجود اس کے کہ وہ ہزاروں تھے تب بھی کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ سیدھی نیّت سے میرے مقابل پر آوے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ اس مقابلہ میں کس کی تائید کرتا ہے۔ پھر ایک اور نشان اُن کے لئے تھا کہ انہوں نے میرے تباہ کرنے کے لئے جان توڑ کر کوششیں کیں اور کوئی مکر اور فریب اُٹھا نہ رکھا جو اس کو استعمال نہ کیا اور مخالفت کے اظہار میں تمام زور اپنا انواع اقسام کے وسائل سے خرچ کر دیا اور ناخنوں تک ز ور لگایا اور جائز ناجائز طریق سب اختیار کئے اور سبّ و شتم اور تحقیر اور توہین سے پُورا کام کیا۔ حکّام تک مقدمات پہنچائے خون کے الزام لگائے۔ لیکن آخر نتیجہ یہ ہو اکہ جو جماعت پہلے دنوں میں چالیس آدمیوں سے بھی کم تھی آج ستّر ہزار کے قریب پہنچ گئی۔ اور باوجود سخت مخالفانہ مزاحمتوں کے براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے بیس برس پہلے دنیا میں شائع ہو چکی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ لوگ مزاحمتیں کریں گے اور اس سلسلہ کو نابود کرنا چاہیں گے لیکن خدا ان کے ارادوں کے مخالف کرے گااور اس سلسلہ کو ایک بڑی جماعت بنا دے گا یہاں تک کہ یہ سلسلہ بہت ہی جلد دنیا میں پھیل جائے گا اور اُن لوگوں کے ارادوں پر *** کا داغ ظاہر ہو جائے گا جنہوں نے روکنا چاہا تھا اب بتلاؤ کہ کیا اب تک خدا کی معجزانہ تائید ثابت نہ ہوئی۔ اگر یہ کاروبار کسی مکّار کا ہوتا تو کیا اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہئیے تھا۔ اُٹھو اور دنیا میں اس بات کی تلاش کرو کہ کون مکّار تاریخ کے صفحہ سے تم بتلا سکتے ہو جس کے ہلاک کرنے کے لئےؔ یہ کوششیں کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا۔ اے سخت دل قوم تمہیں کس نے چاند پر تُھوکنا سِکھلایا ۔ کیا تم اُس سے لڑو گے جس نے زمین و آسمان کو



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 409

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 409

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/409/mode/1up


پیدا کیا۔ اپنے دلوں میں غور کرو کہ کبھی خدا نے کسی جھوٹے کے ساتھ ایسی رفاقت کی کہ قوموں کے ارادوں اور کوششوں کو اس کے مقابل پر ہر ایک میدان میں نابود کر دیا۔ اور اُن کو ہر ایک کو اس کے حملہ میں نامراد رکھا۔ باز آ جاؤ اور اُس کے قہر سے ڈرو اور یقیناًسمجھو کہ تم اپنی مفسدانہ حرکات پر مُہر لگا چکے۔ اگر خدا تمہارے ساتھ ہوتا تو اس قدر فریبوں کی تمہیں کچھ بھی حاجت نہ ہوتی۔ تم میں سے صرف ایک شخص کی دُعا ہی مجھے نابود کر دیتی۔ مگرتم میں سے کسی کی دُعا بھی آسمان پر نہ چڑھ سکی۔ بلکہ دُعاؤں کا اثریہ ہوا کہ دن بدن تمہارا ہی خاتمہ ہوتا جاتا ہے۔ تم نے میرا نام مسیلمہ کذّاب رکھا۔ لیکن مسیلمہ تو وہ تھا جس کا ایک ہی جنگ میں خاتمہ ہو گیا مگر تم تو بیس برس تک جنگ کئے گئے اور ہر جنگ میں نامُراد رہے کیا سچوں اور مومنوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم گھٹتے جاتے اور ہم بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر تمہارا قدم کسی سچائی پر ہوتا تو کیا اس مقابلہ میں تمہارا نجام ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا۔ کس نے تم میں سے مباہلہ کیا کہ آخر اُس نے ذِلت یا موت کا مزہ نہ چکھا۔

اوّل تم میں سے مولوی اسمٰعیل علیگڑھ نے میرے مقابل پر کہا کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مَر جائے گا۔ سو تم جانتے ہو کہ شاید دس سال کے قریب ہو چکے کہ وہ مر گیا۔ اَور اب خاک میں اُس کی ہڈیاں بھی نہیں مل سکتیں۔ پھر پنجاب میں مولوی غلام دستگیر قصُوری اُٹھا اور اپنے تئیں کچھ سمجھا اور اُس نے اپنی کتاب میں میرے مقابلہ میں یہ لکھا کہ ہم دونوں میں سے جو جُھوٹا ہے وہ پہلے مَر جائے گا سو کئی سال ہو گئے کہ غلام دستگیر بھی مر گیا۔ وہ کتاب چھپی ہوئی موجود ہے۔ اِسی طرح مولویؔ رشید احمد گنگوہی اُٹھا اور ایک اشتہار میرے مقابل پر نکالا اور جھوٹے پر *** کی اور تھوڑے دنوں کے بعد اندھا ہو گیا۔ دیکھو اور عبرت پکڑو۔ پھر بعد اس کے مولوی غلام محی الدین لکھوکے والا اُٹھا۔ اُس نے بھی ایسے ہی الہام



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 410

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 410

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/410/mode/1up


شائع کئے آخر وہ بھی جلد دنیا سے رخصت ہو گیا۔ پھر عبدالحق غزنوی اُٹھا اور بالمقابل مباہلہ کرکے دُعائیں کیں کہ جو جھوٹا ہے خدا کی اُس پر *** ہو برکتوں سے محروم ہو دنیا میں اُس کی قبولیت کا نام و نشان نہ رہے۔ سو تم خود دیکھ لو کہ ان دُعاؤں کا کیا انجام ہوا اور اب وہ کس حالت میں اور ہم کس حالت میں ہیں۔ دیکھو اس مباہلہ کے بعد ہریک بات میں خدا نے ہماری ترقی کی اور بڑے بڑے نشان ظاہر کئے آسمان سے بھی اور زمین سے بھی اور ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور جب مباہلہ ہوا تو شاید چالیس۴۰ آدمی میرے دوست تھے* اور آج ستّر ہزار کے قریب اُن کی تعداد ہے اور مالی فتوحات اب تک دو لاکھ روپیہ سے بھی زیادہ اور ایک دنیا کو غلام کی طرح ارادت مند کر دیا اور زمین کے کناروں تک مجھے شہرت دے دی۔ لطف تب ہو کہ اوّل قادیان میںآؤ اور دیکھو کہ ارادت مندوں کا لشکرکس قدر اِس جگہ خیمہ زن ہے اور پھر امرتسر میں عبدالحق غزنوی کو کسی دوکان پر یا بازار میں چلتاہوا دیکھو کہ کس حالت میں چل ؔ رہا ہے۔ بڑا افسوس ہے کہ خدا کی طاقت کھلے کھلے طور پر میری تائید میں آسمان سے نازل ہو رہی ہے مگر یہ لوگ شناخت نہیں کرتے۔ ٹرنسوال اور دولت برطانیہ کی صلح ہو گئی۔ مگر ان لوگوں کا اب تک جنگ باقی ہے ٹرنسوال نے عقلمندی کرکے

* حاشیہ : عبدالحق کا یہ مباہلہ بھی اِس بات پر دلالت کرتا تھا کہ اس کو خدا اور رسول کی کچھ بھی پروا نہیں کیونکہ جبکہ اﷲ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ عیسیٰ فوت ہو گیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے گواہی دے دی کہ مَیں اُس کو مُردہ رُوحوں میں دیکھ آیا ہوں اور صحابہ نے اجماع کر لیا کہ سب نبی فوت ہو چکے ہیں اور ابن عباس نے بخاری میں توفی کے معنی بھی موت کر دیئے تو اِس صورت میں مباہلہ کے معنی بجُز اس کے کیا تھے کہ مَیں خدا اور رسول کو نہیں مانتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 411

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 411

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/411/mode/1up


انگریزی گورنمنٹ کو طاقتور پایا اور اطاعت قبول کر لی مگر یہ لوگ اب تک آسمانی گورنمنٹ کے باغی ہیں۔ خدا کے نشانوں کو نہیں دیکھتے۔ اُمّت ضعیفہ کی ضرورت پر نظر نہیں ڈالتے۔ صلیبی غلبہ کا مشاہدہ نہیں کرتے اور ہر روزہ ارتداد کا گرم بازار دیکھ کر اُن کے دل نہیں کانپتے۔ اور جب اُن کو کہا جائے کہ عین ضرورت کے وقت میں عین صدی کے سر پر عین غلبہ صلیب کے ایام میں یہ مجدّد آیا جس کا نام اِن معنوں سے مسیح موعود ہے کہ جو اسی صلیبی فتنہ کے وقت میں ظاہر ہوا تو کہتے ہیں کہ حدیثوں میں ہے کہ اس اُمت میں تیس ۳۰ دجّال آویں گے کہ تا اُمت کا اچھی طرح خاتمہ کر دیں۔ کیا خوب عقیدہ ہے!!! اے نادانوں کیا اِس اُمت کی ایسی ہی پھوٹی ہوئی قسمت اور ایسے ہی بدطالع ہیں کہ اُن کے حصہ میں تیس دجّال ہی رہ گئے۔ دجّال تو تیس مگر طوفانِ صلیب کے فرو کرنے کے لئے ایک بھی مجدد نہ آسکا زہے قسمت۔ خدا نے پہلی اُمتوں کے لئے تو پے در پے نبی اور رسول بھیجے لیکن جب اِس اُمت کی نوبت آئی تو اس کو تیس۳۰ دجّال کی خوشخبری سُنائی گئی اور پھر یہ بھی ثابت شدہ پیشگوئی ہے کہ آخرکار اس اُمّت کے علماء بھی یہودی بن جائیں گے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اب تک لاکھوں آدمی مُرتد ہو چکے جنہوں نے دینِ اسلام کو ترک کر دیا پس کیا اس درجہ کی ضلالت تک ابھی خدا خوش نہ ہوا اور اس کے دل کو سیری نہ ہوئی جب تک اُس نے خود اِسی اُمت میں سے صدی کے سر پر ایک دجّال بھیج نہ دیا۔ خوب اُمت مرحومہ ہے جس کے حق میں یہ عنایات ہیں اور پھر یہ کہ باوجودیکہ اس دجّال کے مارنے کے لئے مومنوں کے سجدات میں ناکَ گھس گئے۔ لاکھوں دعائیں اورؔ تدبیریں اُس کی ہلاکت اور تباہی کے لئے کی گئیں مگر خدا نہیں سنتا مُنہ پھیر لیتا ہے بلکہ برعکس اِس کے یہ دجّال برابر تیس برس سے ترقی کر رہا ہے اور دنیا میں آسمان کے نور کی طرح پھیلتا جاتا ہے۔ اِس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اُمت نہایت ہی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 412

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 412

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/412/mode/1up


بدقسمت ہے اور خدا کا پختہ ارادہ ہے کہ اس کو ہلاک کر دے یہ کیسی موردِ غضب الٰہی ہے کہ ایک تو دجّال کے قبضہ میں دی گئی اور اب تک سچے مسیح اور مہدی کا نہ آسمان پر کچھ پتہ ملتا ہے نہ زمین پر۔ ہزار چیخیں بھی مارو وہ دونوں گمشدہ جواب بھی نہیں دیتے کہ زندہ ہیں یا مُردہ اور کدھر ہیں اور کہاں ہیں۔ نبیوں کے مقرر کردہ وقت بھی گذر گئے اور اُمّت کو عیسائی مذہب نے کھا لیا مگر نہ خدا کو رحم آیا اور نہ مہدی اور مسیح کے دِل نرم ہوئے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ بے شک قرآن سے مسیح ابن مریم کی وفات ثابت ہوتی ہے اور سورۃ نور اور سورۃ فاتحہ وغیرہ سورتوں پر نظر غائر کرکے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اُمت کے کل خلفاء اِسی اُمّت میں سے ہوں گے اور ہم مانتے ہیں کہ صلیبی مذہب نے بھی بہت کچھ فتنہ پیدا کیا ہے اور یہ وہ مصیبت ہے کہ اسلام پر اس سے پہلے کبھی نہیں آئی۔ وقت اور زمانہ بے شک ایسے مصلح کو چاہتا ہے جو صلیبی طوفان کا مقابلہ کرے اور صدی کا سر بھی اسی کو چاہتا تھا اور صدی میں سے بھی قریباً پانچواں حصّہ گذر گیا۔ سب کچھ سچ لیکن ہم کیونکر مان لیں کیونکہ اِس شخص کے عقائد ہمارے علماء کے عقائد سے مختلف ہیں اگر یہ اُن کا ہمزبان ہوتا تو ہم قبول کر سکتے۔ اب دیکھو کہ یہ خیالات اُن کے کس قدر دیوانگی کے ہیں۔ جب آپ ہی قائل ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم کی حیات اور نزول میں علماء غلطی پر ہیں تو پھر خدا کا مُرسل کیونکر اس غلطی کو مان لے ماسوا اس کے جبکہ مسیح موعود کا نام حَکمہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے بہتر ۷۲ فرقوں میں فیصلہ کر ے اور بعض خیالات ردّ کرے اور بعض کی تصدیق کرے۔ یہ کیونکر ہو سکے کہ جو حَکم کہلاتا ہے وہ تمہارا سب رطب یابس کا ذخیرہ مان لے اورؔ پھر اس کے وجود سے فائدہ کیا ہوا اور کس وجہ سے اس کا نام حَکمرکھا گیا۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ رطب یابس کے ذخیرہ میں سے بعض ردّ کرے اور بعض قبول کرے۔ اور اگر سب کچھ قبول کرتا جائے تو پھر حَکم کس بات کا ہوا۔ مثلاً دیکھو تم میں ایک فرقہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 413

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 413

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/413/mode/1up


تو اِس بات کا قائل ہے کہ عیسیٰ ابن مریم دوبارہ آسمان سے واپس آئے گا مگر اس کے مقابل پر معتزلہ اور بعض صوفیہ کا یہ فرقہ ہے کہ دوبارہ آنا غلط ہے بلکہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور آنے والا اِسی اُمت میں سے ہو گا۔ اب بتلاؤ کہ میں نے کونسی زیادتی اور مخالفتِ اسلام کی۔ صرف یہ کیا کہ خدا سے وحی پا کر مُسلمانوں کے دو عقیدوں میں سے ایک عقیدے کو ردّکر دیا اور اس کو مخالف قراٰناور مخالف اجماع صحابہ بتلایا اور دُوسرے عقیدہ کی تصدیقکی اور اس کے موافق اپنے تئیں ظاہر کیا۔ کیا حَکم کے لئے ضروری تھا کہ تمہارے کئی فرقوں میں سے صرف اہلحدیث کی بات مانتا یا صرف حنفیوں کی بات قبول کرتا اور باقی تمام فرقوں کے تمام اجتہادی عقائد کو ردّ کر دیتا تو اِس صورت میں تو تُم ہی حَکَم ٹھہرے نہ وُہ۔ ہاں سچ ہے کہ ہر ایک عقیدہ جب عادت میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح جو مُدّت کے فوت ہو چکے آپ لوگوں کے خیال میں وہ اب تک بجسم عنصری آسمان پر بیٹھے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ آسمان پر نہیں بلکہ آپ لوگوں کے دل پر بیٹھے ہیں اور پُرانے عقیدوں کی وجہ سے ہردم زبان پر نزول کر رہے ہیں۔ تم سے پہلے یہودیوں کو بھی یہی بلاپیش آئی تھی کہ اُن کے نزدیک صحیح عقیدہ یہی تھا کہ الیاس آسمان سے نازل ہو گا تب مسیح آ ئے گا لیکن جب حضرت مسیح آئے اور الیاس آسمان سے نازل نہ ہوا تو یہودیوں نے تکذیب کا وہ شور مچایا کہ آپ لوگوں کے شور اور اُن کے شور میں فرق کرنا مشکل *ہے اور ؔ بڑے جوش سے حضرت عیسیٰ سے یہودیوں نے سوال کیا کہ ابھی الیاس تو دوبارہ دنیا میں آیا نہیں تو تم کیونکر سچا مسیح ٹھہر سکتے ہو۔ تب انہوں نے جواب دیا کہ الیاس تم میں موجود ہے جو یوحنّا نبی ہے یعنی یحییٰ مگر کسی نے یہ جواب پسند نہ کیا اور آج تک حضرت عیسیٰ کو

* حاشیہ ۔ یہودیوں اور عیسائیوں اور مسلمانوں پر بباعث اُن کے کسی پوشیدہ گناہ کے یہ ابتلا آیا کہ جن راہوں سے وہ اپنے موعود نبیوں کا انتظار کرتے رہے اُن راہوں سے وہ نبی نہیں آئے بلکہ چور کی طرح کسی اور راہ سے آ گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 414

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 414

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/414/mode/1up


اِسی وجہ سے کافر کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے یہودیوں کے اجماعی عقیدہ کے برخلاف رائے ظاہر کی۔ اور عجیب تر یہ بات ہے کہ ہمارے مخالف قطع نظر اس سے جو ہماری دعوت کو مان لیں وہ اپنا ذخیرہ ظنون شکوک کا ہمیں منوانا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اس خدا سے بالکل بے خبر ہیں جس سے نجات ملتی ہے۔ جس حالت میں خدا نے ہم پر فضل کرکے ہمیں اپنی طرف سے نور بخشا جس نور سے ہم نے اُس کو پہچانا اور ہمیں نشان عطا فرمائے جن نشانوں سے ہم نے اُس کی ہستی اور صفات کاملہ پر یقین کر لیا تو کیونکر ہم اس نور اور معرفت اور یقین کو اپنے آپ سے دُور کردیں۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں اور خدا ہمارے اس قول پر گواہ ہے کہ اگرچہ خدائے تعالیٰ کی ہستی اور اسلام کی سچائی کا یقین قرآن کے ذریعہ سے ہمارے پاس آیا مگر خدا نے اپنی وحی تازہ کے ذریعہ سے ہمیں اپنی خاص چمکاریں دکھلائیں یہاں تک کہ ہم نے اُس خدا کو دیکھ لیا جس سے ایک دنیا غافل ہے۔ اس کے دلکش نشانوں نے جو میرے علم میں ہزاروں تک پہنچ گئے گو دنیا کو ابھی صرف ڈیڑھ سو نشان سے اطلاع ہوئی مجھ میں وہ یقین اور بصیرت اور معرفت کا نور پیدا کیا جو مجھے اس تاریک دنیا سے ہزاروں کوس دُور ترکھینچ کر لے گیا اب اگرچہ مَیں دنیا میں ہوں مگر دنیا میں سے نہیں ہوں۔ اگر دنیا مجھے نہیں پہچانتی تو کچھ تعجب نہیں کیونکہ ہر ایک چیز جو بہت دور اور بہت بلند ہے اس کا پہچاننا مشکل ہے۔ میں کبھی امید نہیں کرتا کہ دنیا مجھ سے محبت کرے کیونکہ دنیا نے کبھی کسی راستباز سے محبت نہیں کی۔ مجھے اس سے خوشی ہے کہ مجھے گالیاں دی گئیں دجّال کہا گیا کافر ٹھہرایا گیا کیونکہ سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسیٰ کو کافرؔ اور دجّال کہہ کر مغضوب علیہم بن گئے بعض مسلمان بھی ایسے ہی بنیں گے۔ اِسی لئے نیک لوگوں کو یہ دُعا سکھلائی گئی کہ وہ منعم علیہم میں سے حصہ لیں اور مغضوب علیہم نہ بنیں۔ سورۃ فاتحہ کا اعلیٰ مقصود مسیح موعود اور اس کی جماعت اور اسلامی یہودی اور اُن کی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 415

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 415

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/415/mode/1up


جماعت اور ضالین یعنی عیسائیوں کے زمانہ ترقی کی خبر ہے۔ سوکس قدر خوشی کی بات ہے کہ وہ باتیں آج پوری ہوئیں۔

بالآخر مَیں ایک اور رؤیا لکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ مَیں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر مُنہ آدمی کے مُنہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ یُوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور مَیں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بَن ہیں جن میں بیل گدھے گھوڑے کتے سور بھیڑیے اونٹ وغیرہ ہر ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بدعملوں سے اِن صورتوں میں ہیں۔ اور پھر مَیں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پَیدا ہو گیا ہے وہ میرے پاس آ بیٹھا ہے اور قطب کی طرف اُس کا منہ ہے خاموش صورت ہے آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد اُن بنوں میں سے کسی بَن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بَن میں داخل ہوتا ہے تو اُس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اُٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چابنے کی آواز آتی ہے۔ تب وہ فراغت کرکے پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے اور پھر دوسرے بَن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے۔ آنکھیں اُس کی بہت لمبی ہیں اور مَیں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اورؔ وہ اپنے چہرہ کے انداز ہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اِس میں کیا قصُور ہے مَیں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پرہیز گار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے۔ تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 416

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 416

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/416/mode/1up


ہے اور یہی وہ دابّۃ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔ ۱؂ اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے۔ دیکھو سورۃ النمل الجزو نمبر ۲۰۔

اور پھر آگے فرمایا ہے ۲؂ ترجمہ ۔ اُس دن ہم ہر ایک اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور اُن کو ہم جُدا جُدا جماعتیں بنا دیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ عدالت میں حاضر کئے جائیں گے تو خدائے عزّو جلّ اُن کو کہے گا کہ کیا تم نے میرے نشانوں کی بغیر تحقیق کے تکذیب کی یہ تم نے کیا کیا اور ان پر بوجہ اُن کے ظالم ہونے کے حجت پُوری ہو جائے گی اور وہ بول نہ سکیں گے۔ سُورۃ النمل الجزو نمبر ۲۰۔

اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دابّۃ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتدا سے مقرر ہے۔ یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے ؔ جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دابّۃ الارض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چُوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صُورتوں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 417

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 417

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/417/mode/1up


میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہو سکتی ہے اِسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں۔ اور اس بیان پر کہ دابّۃ الارض درحقیقت مادہ طاعون کا نام ہے جس سے طاعون پیدا ہوتی ہے مفصلہ ذیل قرائن اور دلائل ہیں۔

(۱) اوّل یہ کہ دابّۃ الارض کے ساتھ عذاب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؂ یعنی جب اُن پر آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ حجت پوری ہو جائے گی تب دابّۃ الارض زمین میں سے نکالا جائے گا۔ اب ظاہر ہے کہ دابّۃ الارض عذاب کے موقعہ پر زمین سے نکالا جائے گا نہ یہ کہ یُوں ہی بیہودہ طور پر ظاہر ہو گا جس کا نہ کچھ نفع نہ نقصان۔ اور اگر کہو کہ طاعون تو ایک مرض ہے مگر دابّۃ الارض لغوی معنوں کے رُو سے ایک کیڑا ہونا چاہئیے جو زمین میں سے نکلے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حال کی تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ طاعون کو پیدا کرنے والا وہی ایک کیڑا ہے جو زمین میں سے نکلتاہے بلکہ ٹیکا لگانے کے لئے وہی کیڑے جمع کئے جاتے ہیں اور اُن کا عرق نکالا جاتا ہے اور خوردبین سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کی شکل یُوں ہے (۰۰) یعنی بہ شکل دو نقطہ۔ گویا آسمان پر بھی نشان کسوف خسوف دو کے رنگ میں ظاہر ہوا اور ایسا ہی زمین میں۔

(۲) دوسرا قرینہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض کی تفسیر ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں یہ مرکب لفظ آیا ہے ۔ اس سے مُراد کیڑا لیا گیا ہے مثلاً یہ آیت ۲؂ یعنی ہم نے سلیمان پر جب موت کا حکم جاری کیا تو جنّات کو کسی نے اُنؔ کے مرنے کا پتہ نہ دیا مگر ُ گھن کے کیڑے نے کہ جو سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا۔ سورۃ السبا الجزو نمبر ۲۲۔ اب دیکھو اِس جگہ بھی ایک کیڑے کا نام دابّۃ الارض رکھا گیا بس اِس سے زیادہ دابّۃ الارض کے اصلی معنوں کی دریافت کے لئے اور کیا شہادتہو گی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 418

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 418

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/418/mode/1up


کہ خود قرآن شریف نے اپنے دوسرے مقام میں دابّۃ الارضکے معنے کیڑا کیا ہے۔ سو قرآن کے برخلاف اس کے اور معنی کرنا یہی تحریف اور اِلحاد اور دَجل ہے۔

(۳) تیسرا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نشانوں کی تکذیب کے وقت میں کوئی امام الوقت موجود ہونا چاہئیے کیونکہ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ کا فقرہ یہی چاہتا ہے کہ اتمام حجت کے بعد یہ عذاب ہو اور یہ تو متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خروج دابّۃ الارض آخری زمانہ میں ہو گا جبکہ مسیح موعود ظاہر ہوگا تاکہ خدا کی حجت دنیا پر پُوری کرے۔ پس ایک منصف کو یہ بات جلد تر سمجھ آ سکتی ہے کہ جبکہ ایک شخص موجود ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور آسمان اور زمین میں بہت سے نشان اس کے ظاہر ہو چکے ہیں تو اب بلاشبہدابّۃ الارض یہی طاعون ہے جس کا مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہونا ضروری تھا اور چونکہ یاجوج ماجوج موجود ہے اور 3 ۱؂ کی پیشگوئی تمام دنیا میں پُوری ہو رہی ہے اور دجّالی فتنے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں اور پیشگوئی یترکن القلاص فلا یُسْعٰی علیھا بھی بخوبی ظاہر ہو چکی ہے اور شراب اور زنا اور جھوٹ کی بھی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں میں یہودیت کی فطرت بھی جوش مار رہی ہے تو صرف ایک بات باقی تھی جو دابّۃ الارض زمین میں سے نکلے سو وہ بھی نکل آیا۔ اِس بات پر جھگڑنا جہالت ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ پھٹے گی ا ور دابۃ الارض وہاں سے سر نکالے گا پھر تمام دنیا میں چکر مارے گا کیونکہ اکثر پیشگوئیوں پر استعارات کا رنگ غالب ہوتا ہے جب ایک بات کی حقیقت کھل جائے تو ایسے اوہام باطلہ کے ساتھ حقیقت کو چھوڑنا کمالؔ جہالت ہے اِسی عادت سے بدبخت یہودی قبول حق سے محروم رہ گئے۔

(۴) قرینہ چہارم دابّۃ الارض کے طاعون ہونے پر یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں ایک رنگ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ کسی وقت بعض مسلمان بھی وہ یہودی بن جائیں گے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 419

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 419

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/419/mode/1up


کے وقت میں تھے جو آخر کار طاعون وغیرہ بلاؤں سے ہلاک کئے گئے تھے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی قدیم سے یہ عادت ہے کہ جب ایک قوم کو کسی فعل سے منع کرتا ہے تو ضرور اس کی تقدیر میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے اس فعل کے ضرور مرتکب ہوں گے جیسا کہ اُس نے توریت میں یہودیوں کو منع کیا تھا کہ تم نے توریت اور دوسری خدا کی کتابوں کی تحریف نہ کرنا۔ سو آخر اُن میں سے بعض نے تحریف کی مگر قرآن میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم نے قرآن کی تحریف نہ کرنا بلکہ یہ کہا گیا ۱؂ سو سورۃ فاتحہ میں خدا نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی۲؂۔ اس جگہ احادیث صحیحہ کے رُو سے بکمال تواتر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ المغضوب علیہم سے مُراد بدکار اور فاسق یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو کافر قرار دیا اور قتل کے درپے رہے اور اُس کی سخت توہین و تحقیر کی اور جن پر حضرت عیسیٰ نے *** بھیجی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور الضّآلین سے مراد عیسائیوں کا وہ گمراہ فرقہ ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھ لیا اور تثلیث کے قائل ہوئے اور خون مسیح پر نجات کا حصر رکھا اور ان کو زندہ خدا کے عرش پر بٹھا دیا۔ اب اس دُعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا ایسا فضل کر کہ ہم نہ تو وہ یہودی بن جائیں جنہوں نے مسیح کو کافر قرار دیا تھا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے تھے اور نہ ہم مسیح کو خدا قرار دیں اور تثلیث کے قائل ہوں۔ چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں اِسی اُمّت میں سے مسیح موعود آئے گا اور بعض یہودی صفت مسلمانوں میں سے اس کو کافر قرار دیں گے اور قتل کے درپے ہوں گے اور اس کی سخت توہین و تحقیر کریں گے اورنیز جانتا تھا کہ اس زمانہ میں تثلیث کا مذہب ترقی پر ہو گا اور بہت سے بدقسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اِس لئے اُس نے مسلمانوں کو یہ دُعا سکھلائی اور ؔ اس دُعا میں مَغْضُوْب عَلَیْہِم کا جو لفظ ہے وہ بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مغضوب علیہم ہوں گے جیسا کہ اسرائیلی مسیح کے مخالف مغضوب علیہم تھے اور حضرت مسیح خودانجیل میں اشارہ کرتے ہیں کہ میرے منکروں پر مَرِیْ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 420

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 420

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/420/mode/1up


یعنی طاعون پڑے گی* اور بعداس کے دُوسرے عذاب بھی نازل ہوں گے۔ اس لئے ضروری تھا کہ مسیح اسلامی کی تائید میں بھی یہ باتیں ظہور میں آتیں۔ اور بھی دلائل اس بات پر بہت ہیں کہ یہی دابّۃ الارضجس کا قرآن شریف میں ذکر ہے طاعون ہے اور بلاشبہ یہ زمینی بیماری ہے اور زمین میں سے ہی نکلتی ہے اس سے محفوظ رہنے کے لئے بعد اس کے جو ایک شخص اس جماعت میں داخل ہو اور تقویٰ اختیار کرے تکرار سورۃ فاتحہ کا حضور دل سے اور اس کے معنوں پر قائم ہونے سے بہت مؤثر ہے جو شخص طاعون کی ناگہانی آفات سے بچنا چاہتا ہے اس کے لئے اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں جو خدائے قادر ذوالجلال پر سچا ایمان لائے اور اپنے تمام اعضا کو معاصی سے بچاوے اور دین کو اور دینی خدمات کو دنیا پر مقدم رکھ لے اور اس سلسلہ حقہ میں صدق اور اخلاص کے ساتھ داخل ہو جائے اور دلی جوش کے ساتھ دعا میں لگا رہے اور اپنی عورتوں کو جن کے شرّ کے بداثر میں وہ بھی شریک ہو سکتا ہے غافلانہ زندگی سے بچاوے اور کوشش کرے کہ اُ س کے گھر میں ذکر الٰہی ہو پھر اس کے ساتھ قرآن شریف کے جمیع احکام کا پابند ہو کر ظاہری پلیدیوں اور ناپاکیوں سے بھی اپنے گھر کو صاف رکھے جو شخص ظاہری پلیدیوں سے نفرت نہیں رکھتا اور ا س کا گھر اور اس کے گھر کا صحن ناپاک رہتے ہیں وہ اندرونی پاکیزگی میں بھی سُست ہو سکتا ہے سو تم کوشش کرو کہ تمہارے گھر کا کوئی بھی حصہ ناپاک نہ ہو اور نہ ناپاک پانی اور کیچڑ بدررؤں میں کھڑا رہے اور نہ کپڑے میلے کچیلے رہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے جو قرآن شریف میں آ چکا ہے۔ ایسے احکام جو خدا تعالیٰ کی کتاب میں آئے ہیں وہ اس لئے آئے ہیں تاتم سمجھو کہ جسمانی سلسلہ

* ذکریا ۱۴ باب میں مذکور ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود کے عہد میں سخت طاعون پڑے گی۔ اس زمانہ میں تمام فرقے دنیا کے متفق ہوں گے کہ یروشلم کو تباہ کر دیں۔ تب انہی دنوں میں طاعو ن پھوٹے گی اور اُسی دن یوں ہو گا کہ جیتا پانی یروشلم سے جاری ہوگا یعنی خدا کا مسیح ظاہر ہو جائے گا۔ اور اس جگہ یروشلم سے مراد بیت المقدس نہیں ہے بلکہ وہ مقام ہے جس سے دین کے زندہ کرنے کے لئے الٰہی تعلیم کا چشمہ جوش مارے گا اور وہ قادیاں ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں دارالامان ہے۔ خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اس اُمت کے خاتم الخلفاء کا نام مسیح رکھا ایسا ہی اس کے خروج کی جگہ کا نام یروشلم رکھ دیا اور اُس کے مخالفوں کا نام یہود رکھ دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 421

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 421

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/421/mode/1up


کو رُوحانی سلسلہ سے ایک تعلق ہے سو تم نہ تو ظاہری طور پر زمین کے نجس حصوں کی طرف جھکو اور نہ رُوحانی طور پر بلکہ اگر ممکن ہو تو اوپر کے مکانوں میں رہو اور ہوادار اور روشن مکان اختیار کرو اور نہ تم باطنی طور پر زمین کی طرف جھکو بلکہ آسمان میں سے حصّہ لو۔ یہ جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ ؔ وہ دابّۃ الارض یعنی طاعون کا کیڑا زمین میں سے نکلے گا اس میں یہی بھید ہے کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ اُس وقت نکلے گا کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابّۃ الارض بن جائیں گے۔ ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابّۃ الارض ہیں اوراب ہم نے اِس رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ دابّۃ الارض طاعون کا کیڑا ہے۔ ان دونوں بیانوں میں کوئی شخص تناقض نہ سمجھے۔ قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں * جو ایک دوسرے کی ضد نہیں اور جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اُترا اسی طرح اس کے معارف بھی دِلوں پر یکدفعہ نہیں اُترتے۔ اسی بنا پر محققین کا یہی مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معارفبھی یکدفعہ آپ کو نہیں ملے بلکہ تدریجی طور پر آپ نے علمی ترقیات کا دائرہ پُوراکیا ہے۔ ایسا ہی مَیں ہوں جو بروزی طور پر آپ کی ذات کامظہر ہوں۔ آنحضرت کی تدریجی ترقی میں سِرّ یہ تھا کہ آپ کی ترقی کا ذریعہ محض قرآن تھا پس جبکہ قرآن شریف کا نزول تدریجی تھا اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکمیل معارف بھی تدریجی تھی اور اسی قدم پر مسیح موعود ہے جو اِس وقت تم میں ظاہر ہوا۔ علم غیب خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے جس قدر وہ دیتا ہے اُسی قدر ہم لیتے ہیں۔ پہلے اُسی نے غیب سے مجھے یہ فہم عطا کیا کہ ایسے سُست زندگی والے جو خدااوراُس کے رسول پر ایمان تو لاتے ہیں مگر عملی حالت میں بہت کمزور ہیں یہ لوگ دابّۃ الارض ہیں یعنی زمین کے کیڑے ہیں آسمان سے ان کو کچھ حصہ نہیں۔ اور مقدر تھا کہ آخری زمانہ میں یہ لوگ بہت ہو جائیں گے اور اپنے ہونٹوں سے اسلام کی شہادت دیں گے مگر ان کے دل تاریکی میں ہوں گے۔ یہ تو وہ معنی ہیں جو پہلے ہم نے

* جس طرح اﷲ تعالیٰ نے نباتات وغیرہ میں کئی قسم کے خواص رکھے ہیں مثلاًایک بُوٹی دماغ کو قوت دیتی ہے اور ساتھ ہی جگر کو بھی مفید ہے اِسی طرح قرآن شریف کی ہر ایک آیت مختلف قسم کے معارف پر دلالت کرتی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 422

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 422

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/422/mode/1up


شائع کئے اور یہ معنے بجائے خود صحیح اور درست ہیں۔ اب ایک اور معنے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس آیت کے متعلق کھلے جن کو ابھی ہم نے بیان کر دیا ہے یعنی یہ کہ دابّۃ الارض سے مرادوہ کیڑا بھی ہے جو مقدر تھا جومسیح موعود کے وقت میں زمین میں سے نکلے اور دنیاکوان کی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ کرے۔ یہ خوب یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جیسے یہ آیت دو معنوں پر مشتمل ہے ایسے ہی صدہا نمونے اسی قسم کے کلام الٰہی میں پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اُس کو معجزانہ کلام کہا جاتا ہے جو ایک ایک آیت دس ؔ ۱۰دس ۱۰ پہلو پرمشتمل ہوتی ہے اور وہ تمام پہلو صحیح ہوتے ہیں بلکہ قرآن شریف کے حروف اور اُن کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے مثلاً سورۃ والعصرکی طرف دیکھو کہ ظاہری معنوں کی رُو سے یہ بتلاتی ہے کہ یہ دُنیوی زندگی جس کو انسان اس قدر غفلت سے گذار رہا ہے آخر یہی زندگی ابدی خُسراناور وبال کا موجب ہو جاتی ہے اور اس خُسرانسے وہی بچتے ہیں جو خدائے واحد پر سچے دِل سے ایمان لے آتے ہیں کہ وہ موجود ہے اور پھر ایمان کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ اچھے اچھے عملوں سے اس کو راضی کریں اور پھر اسی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اس راہ میں ہمارے جیسے اور بھی ہوں جو سچائی کو زمین پر پھیلاویں اور خدا کے حقوق پر کاربند ہوں اور بنی نوع پر بھی رحم کریں۔ لیکن اس سورۃ کے ساتھ یہ ایک عجیب معجزہ ہے کہ اس میں آدم کے زمانہ سے لے کرآنحضرتؐ کے زمانہ تک دنیا کی تاریخ اَبْجَدْ کے حساب سے یعنی حساب جمل سے بتلائی گئی ہے۔ غرض قرآن شریف میں ہزارہا معارف و حقائق ہیں اور درحقیقت شمار سے باہر ہیں۔ اسی بناء پر قرآن شریف فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں دو قسم کے دابّۃ الارض پیدا ہو جائیں گے (۱) ایک تو علماء بے عملجن کے دل زمین کے ساتھ چسپاں ہوں گے زمین کی شہرت چاہیں گے۔ (۲) دوسرے طاعون کا کیڑا جو بطور سزا دہی ظاہر ہو گا۔ سو اس زمانہ میں دونوں باتیں ظہور میں آ گئیں اور دراصل حدیثوں میں اِن دونوں باتوں کی طرف اشارہ ہے صحیح مسلم کی ایک حدیث میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں ملک میں طاعون پھوٹے گی اور شیعہ کی کتابوں کی حدیثوں میں بھی طاعون کا ذکر ہے اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ذکر ہے کہ اس وقت اکثر علماء یہودی صفت ہو جائیں گے یعنی محض زمین کے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 423

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 423

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/423/mode/1up


کیڑے بن جائیں گے۔ دیکھو یہ دونوں پہلو جو قرآن شریف میں سے نکلتے ہیں حدیث سے ثابت ہوئے۔

بعض نادان شیعہ نے جنہوں نے حسین کی پرستش کو اسلام کا مغز سمجھ لیا ہے ہمارے رسالہ دافع البلاء کے دیکھنے سے بہت زہر اگلا ہے اور گالیاں دے کر یہ اعتراض کیا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ شخص امام حسین سے افضل ہو اور جوش میں آ کر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ امام حسین کی وہ شان ہے کہؔ تمام نبی اپنی مصیبتوں کے وقت میں اسی امام کو اپنا شفیع ٹھہراتے تھے اور اس کی طفیل اُن کی مصیبتیں دُور ہوتی تھیں ایسا ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی مصیبت کے وقت میں امام حسین * کے ہی دستِ نگر تھے اور آپ کی مصیبتیں بھی امام حسین کی شفاعت سے ہی دُور ہوتی تھیں۔ افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسین کو رتبہ ابنیّت کا بھی نہیں دیا بلکہ نام تک مذکور نہیں اُن سے تو

ہم اس حاشیہ میں ایک شیعہ صاحب کا اشتہار مطبوعہ مطبع شریفی پشاور درج کرتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ علی حائری صاحب نے امام حسین کی نسبت جو خیال ظاہر کیا ہے وہ خود اُن کے ہم مذہب لوگوں کی رائے میں صحیح نہیں ہے اور اس سے ان کی غلطی کا اور کیا زیادہ ثبوت ہو گا کہ اُن کا ہم مذہب ہی مضبوط دلیلوں سے اپنے اشتہار مندرجہ ذیل میں اُن کے خیال کو ردّ کرتا ہے اور یہ ایک نصرت الٰہی ہے کہ عین اس رسالہ کی تحریر کے وقت ہمیں یہ اشتہار مل گیا ہے جو علی حائری صاحب کی تحریر کی حقیقت کھولنے کے لئے کافی ہے اور وہ یہ ہے :۔

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

نحمدہٗ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم

آج یہ رسالہ وسیلۃ المبتلا میری نظر سے گذرا ہر چند میں نے اپنے تئیں ضبط کیا اور دل کو سمجھایا کہ ایسے معاملات میں کیوں دخل دیتے ہو مگر دل قابو سے نکل گیا اور یہ خیال کیا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے علماء امامیہ کیسے بودے خیال کے ہیں وہ عقل خداداد سے کام نہیں لیتے۔ اپنے علم اور شرافت کا کوئی کرشمہ نہیں دکھلاتے۔ کیا ایک ایسے مدعی امامت کے مقابلہ میں اس قسم کے جوابات بے دلیل کفایت کرسکتے ہیں اور اس قسم کی روایات موضوعہ مسکت للخصم ہو سکتی ہیں۔ بخدا میں امامیہ ہو کر انصافاً کہتا ہوں کہ ہرگز یہ روایات اور استدلال من غیر کلام اﷲ ایک ایسے زبردست مدعی کے بالمقابل مکتفی نہیں ہو سکتے ۔ گالیاں نکالنا اور کسی کو نجس اور خبیث



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 424

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 424

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/424/mode/1up


زید ہی اچھا رہا جس کا نام قرآن شریف میں موجود ہے ان کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بیٹا کہنا قرآن شریف کے نصّ صریح کے برخلاف ہے جیسا کہ آیۃ ۱؂ سے سمجھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رجال میں سے تھے عورتوں میں سے تو نہیں تھے حق تو یہ ہے کہ اس آیت نے اس تعلق کو جو امام ؔ حسین کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بوجہ پسر دختر ہونے کے تھا نہایت ہی ناچیز کر دیا ہے تو پھر اس قدر اُن کو آسمان پر چڑھانا کہ وہ جناب پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی افضل ہیں۔ یہ قرآن شریف پر بھی تقدم ہے ہر ایک کو فضیلت وہ دینی چاہیئے کہ قرآن سے ثابت ہے قرآن تو ان کی ابنیت کی بھی نفی کرتا ہے مگر یہاں حضرات شیعہ تمام انبیاء کا انہیں کو شفیع ٹھہراتے ہیں یہ کیسی فضولی ہے یہ قول کس قدر حیا سے دُور ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام امام حسین کے ہی طفیلی ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تمام نبیوں کا نجات پانا مشکل بلکہ غیر ممکن تھا۔ ہائے افسوس کہاں ہے اسلام ان لوگوں کا جو عیسائیوں کی طرح حسین کی خاطر اس رسول پر بھی زبان دراز کر رہے ہیں جو

اورؔ ضال لکھنا اور جس قدر الفاظ ناشائستہ لغت کی کتابوں میں درج ہیں اپنی تحریر کو ا ن سے مزیّن کرنا اور علم اور شرافت کو بٹا لگانا ہے۔

علماء ربّانی کا کام یہ ہے کہ دلیل اور بُرہان سے اپنے عندیات کو قوت دیں۔ پھر انصاف پسند طبائع پر اُن کی معقولیت ظاہر کریں۔ ناظرین حق اور باطل میں خود تمیز رکھیں گے۔

اب میں جناب مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ جناب من آپ کا مخاطب ایک مدعی امامت ہے اگرچہ آپ اُس کو کاذب اور مفتری جانتے ہیں۔ پس اُس کے مسلّمات سے اُسے ساکت کرنا لازم ہے۔ تفسیر برغانی اور طبرانی ابو نعیم وغیرہ کا حوالہ دینا یا اُن کی روایات غیر مصححہ پیش کرنا ایک مدعی امامت کے بالمقابل جس کا دعویٰ ہو کہ مَیں حَکم ہو کر قرآن مجید اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے لئے دنیا میں آیا ہوں اپنے اوپر جہالت کا الزام قائم کرنے سے زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی نہ حنبلی اور نہ جعفری نہ مقلّد نہ اہل حدیث۔ پھر آپ حنفیوں یا شافعیوں یا مالکیوں وغیرہ کے علماء یا مفسّرین کے اقوال پیش کرکے اس کو ملزم کیونکر کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ان اقوال کا پابند ہو تو منصب امامت درحقیقت اس کے لئے سزا وار نہیں ہے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں اس وقت کا حَکم ہوں برغانی ہو یا طبرانی اُن میں مفسروں کے اپنے عندیات



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 425

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 425

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/425/mode/1up


تمام انبیاء سے افضل ہے۔ کیا تعجب نہیں کہ قرآن ابوبکر کی تعریف کرے اور اس کی خلافت کی صریح لفظوں میں بشارؔ ت دے مگر حسین جو تمام انبیاء کا شفیع ہے اس کا سارے قرآن میں ذکر ندارد۔ پھر عجیب تر یہ بات ہے کہ حسین کو یہ شرف بھی نصیب نہیں ہوا کہ وہ موت کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر کے قریب دفن کیا جاتا مگر ابوبکر و عمر جن کو حضرات شیعہ کافر کہتے ہیں بلکہ تمام کافروں سے

بدتر سمجھتے ہیں ان کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایسے ملحق ہو کر دفن کئے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے اگر وہ کافر تھے تو خدا نے ایسا کیوں کیا۔ کافر سے بدتر دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ کیا کوئی شیعہ راضی ہو سکتا ہے کہ اُس کی پاکدامن ماں ایک زانیہ کنجری کے ساتھ دفن کر دی جائے اور کافرتو زناکار سے بدتر ہے پھر خدا نے کیوں ایسا کیا کوئی عقلمند اور خدا سے ڈرنے والا اس کا جواب دے۔ غرض حسین کو نبیوں پر فضیلت دینا بیہودہ خیال ہے ہاں یہ سچ ہے کہ وہ بھی خدا

کا ذخیرہ ہو گا یا کچھ اَور۔ اگر آپ کہیں کہ تفسیر قرآن ہے تو ہم کہیں گے کہ پھر اس قدر مختلف الاقوال تفاسیر جن کی تعداد ہزار ہا سے بڑھ گئی کیوں شائع ہوئی ہیں اور ان میں اختلاف ہی کیوں واقع ہوا۔ اور حضرت مہدئ آخر الزمان کی نسبت کیا آپ کے مسلّمات میں درج نہیں کہ وہ اختلاف رفع کرنے کو آویں گے اور سب ادیان کو ایک دین بنا دیں گے۔ کیا جب امام مہدی تشریف لاویں گے بلاوعظ اور بلانصیحت اور بلاتغیر و تبدّل دین خودبخود ایک ہو جاوے گا آیا کچھ ترمیم و تنسیخ بھی کریں گے یا نہیں۔ کیا وہ ظاہر ہو کر مجتہدین کربلا کے فتوے پر چلیں گے یا مجتہدین نجف و ایران یا مجتہدین لکھنؤ و لاہور۔ فرماویں وہ کس مجتہد کے مقلّد ہوں گے اور کس کے فتوے پر عمل کریں گے نہیں مَیں بھول گیا وہ ضرور آپ کے فتوے پر چلیں گے۔ مگر افسوس کہ آپ یہ بھی نہ مانیں گے۔ پس جو امام ہوتا ہے وہ کسی کا مقلّد نہیں ہوتا بلکہ وہ خود حَکم ہوتا ہے اس کے بالمقابل تفسیر برغانی اور دلائل النبوّت کا حوالہ دینا کوئی عقلمند طبیعت اس کو جائز نہیں رکھ سکتی ہے۔ ہاں اس کے مسلّمات قرآن مجید اور سنّت صحیحہ ہیں۔ مَیں بہت خوش ہوتا کہ جب آپ نے سورہ انعام* کی آیت یاایّہا الذین آمنوا الخ۔ پیش کی تھی اس کی تفسیر میں قراٰن مجید ہی سے ثابت کیا ہوتا کہ لفظ وسیلہ سے جو آیۃ مرقومہ بالا میں ہے حسین اور اُس کے آباء کرام مراد ہیں اور اپنے دعوے کو مؤکد کرنے کے لئے بخاری یا مسلم کی کوئی حدیث پیش کی ہوتی جو مدعی امامت کی مسلمہ کتب سے ہیں یا ذرا غصّہ کو ٹال کر اپنی ہی تفسیروں

* مولوی صاحب کی تحریر کے مطابق ہم نے سورۃ الانعام لکھا ہے ورنہ آیت مذکورہ سورۃ مائدہ میں ہے۔۱۲ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 426

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 426

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/426/mode/1up


کےؔ راستباز بندوں میں سے تھے لیکن ایسے بندے تو کروڑہا دنیا میں گذر چکے ہیں اور خدا جانے آگے کس قدر ہوں گے۔ پس بلاوجہ ان کو تمام انبیاء کا سردار بنا دینا خدا کے پاک رسولوں کی سخت ہتک کرنا ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اور اُس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالیٰ کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کو تمام انبیاء کے صفات کاملہ کا مظہر* ٹھہرایا ہے۔

کیؔ طرف رجوع کیا ہو تاکہ وہ کیا کہتے ہیں جہاں تک مَیں اپنی تفسیروں کو دیکھتا ہوں ان میں بھی اس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں ایک شخص بیہقی اور حاکم اور ابو نعیم کا حوالہ دیتا ہے اور ایک روایت یا واقعہ بیان کرتا ہے۔ دُوسرا اس کے بالمقابل قرآن مجید سے نکال کر خدا کا کلام پیش کرتا ہے اور اپنے دعویٰ کے واسطے سنّت صحیحہ اور حدیث پیش کرتا ہے ہم کس کو مانیں اور کس کو جانیں کہ وہ عالم اور عامل بالقرآن ہے۔ اس کے آگے آپ فرماتے ہیں ثابت ہے کہ حسینؑ اور اس کے آباء اطہار کو انبیاء و اوصیاء نے سخت تکلیف کے وقت خدا اور اپنے درمیان وسیلہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی حاجتیں پُوری ہوئیں۔ آپ اپنے زعم کی بنیاد مجاہد اور طبرانی اور حاکم وغیرہ کا قول قرار دیتے ہیں اور آیت 3کو اپنے زعم کی تفسیر قرار دیتے ہیں گویا آپ کا قول مجمل تھا جو پہلے سے کسی کتاب آسمانی میں درج چلا آتا تھا قرآن نے اس کی تصریح کر دی ہے۔ بریں علم و دانش بباید گریست۔ اسی فہم لطیف کے بھروسہ پر اپنے مخالف پر طعن کرتے ہیں ذرا انصاف کریں اور اپنی ہی کتابوں کو دیکھیں کہ کیا علماء اور مفسرین امامیہ نے کلمات کی تفسیر میں انہی نامہائے مبارک پر حصر تفسیر رکھا ہے۔ میرے پاس اس وقت تین تفسیریں امامیہ کی موجود ہیں۔ تفسیر عمدۃ البیان۔ خلاصۃ المنہج۔ مجمع البیان۔ ان میں بہت سے مختلف اقوال درج ہیں پھر حیات القلوب نکال کر جلد اول صفحہ ۵۶و ۵۷ میں روایات مختلفہ کا حال

* علی عائری صاحب نے اپنے رسالہ تبصرۃ العقلاء میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اہل بیت کے برابر غیر اہل بیت نہیں ہو سکتا اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ سادات کی جڑ یہی ہے کہ وہ بنی فاطمہ ہیں۔ سو مَیں اگرچہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔ ہمارے خاندان میں یہ طریق جاری رہا ہے کہ کبھی سادات کی لڑکیاں ہمارے خاندان میں آئیں اور کبھی ہمارے خاندان کی لڑکیاں اُن کے گئیں۔ ماسواؔ اس کے یہ مرتبہ فضیلت جو ہمارے خاندان کو حاصل ہے صرف انسانی روایتوں تک محدود نہیں بلکہ خدا نے اپنی پاک وحی سے اس کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ وہ عزوجل ایک اپنی وحی میں جو حکایتاً عن الرسول ہے میرا نام سلمان رکھتا ہے اور فرماتا ہے سلمان منّا اہل البیت علٰی مشرب الحسن یعنی اﷲ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سلمان جو دو سلم کا موجب ہو گا۔ یعنی دو صلح کا موجب ہو گا۔ یہی شخص ہے اور یہ اہل بیت میں سے ہے حسن کے مشرب پر۔ اور پھر ایک اور وحی میں فرماتا ہے الحمد ﷲ الذی جعل لکم الصھر و النسب اُس خدا کو تعریف ہے جس نے تمہیں سادات کا داماد بنایا اور نیز نسب عالی بھی عطا کی جس میں خون فاطمی ملا ہوا ہے اور پھر ایک کشف میں جو براہین احمدیہ میں مندرج ہے میرے پر ظاہر کیا گیا کہ میرا سر بیٹوں کی طرح حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی ران پر ہے علاوہ اس کے جس شخص کو خدا نے مسیح موعود بنایا صدہا نشان دیئے اور ا س کو رسول اﷲ صلعم نے ائمہ اہل بیت میں سے قرار دیا اور اس کو مظہر صفات جمیع انبیاء ٹھہرایا اس کی نسبت یہ زبان درازیاں کر ناخدا اور رسول پر حملہ کرنا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 427

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 427

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/427/mode/1up


اب سوچنے کے لائق ہے کہ امام حسین کو اس سے کیا نسبت ہے یہ اور بات ہے کہ سُنّی یا شیعہ مجھ کو گالیاں دیں یا میرا نام کذّاب دجّال بے ایمان رکھیں لیکن جس شخص کو خدا تعالیٰ بصیرت عطا کرے گا وہ مجھے پہچان لے گا کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی اﷲ رکھا ہے اور اس کو سلام کہا ہے۔ اورؔ اپنا دُوسرا بازو اس کو قرار دیا ہے اور خاتم الخلفاء ٹھہرایا ہے وہ مجھے اسی طرح افضل سمجھے گا جس طرح خدا اور رسول نے مجھے فضیلت دی ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن اور احادیث اور تمام نبیوں کی

دیکھیںؔ کہ کس قدر اقوال نقل کئے گئے ہیں اور ہر ایک کو علامۂ مجلسی نے لکھا ہے کہ بسند صحیح از امام محمد باقر منقول است و در حدیث معتبر دیگر منقول است و بسند صحیح از حضرت صادق منقول است وغیرہ وغیرہ کرکے لکھا ہے۔ پھر مولانا صاحب جب آپ کے گھر میں ہی روایات متعددہ مختلفہ ہیں تو مہربان من آپ نے کَلِمَاتٍ کی تفسیر میں جزم کس طرح کر لیا کہ اُن سے مراد اسماء پنجتن پاک ہیں اور پھر اُس پر متفق علیہ کا جملہ جڑ دیا۔ اس میں تو علماء اور مفسرین امامیہ ہی متفق نہیں اَوروں کا تو کیا ذکر۔ اس کے آگے آپ ارقام فرماتے ہیں کہ تہتّر مذہب کی متفق علیہ حدیثوں سے یہی ثابت ہے کہ حضرت نوح ؑ نے طوفان کے وقت اور حضرت ابراہیم ؑ نے الیٰ آخرہ۔ ذرا مہربانی فرما کر تہتّر مذہب کے اتفاق کا جو آنجناب نے دعویٰ کیا ہے ہر ایک مذہب والے کی ایک ایک حدیث اس مضمون کے متعلق درج فرماویں اور ہم آپ کی ان احادیث پیش کردہ میں مطابق اصول احادیث جرح بھی نہ کریں گے خواہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہوں۔ صرف مذہب والے کا نام اور حدیث کے وہ عربی الفاظ جو بقید روات درج کئے گئے ہوں معہ حوالہ کتب جس میں وہ حدیث نقل کی گئی ہے مرحمت فرماویں۔ پھر مَیں اصل مطلب کی طرف عود کرکے آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ رسالہ کے سر پر یہ عبارت درج فرماتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں ( اس کے ردّ میں اور امام حسین کی فضیلت بغیر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کُل انبیاء پر)۔ (۱) ان الفاظ کے ثبوت میں آپ نے کونسا قول خدا کا ذکر کیا ہے جہاں اﷲ جلّشانہٗ نے فرمایا ہو کہ امام حسین ؑ افضل ہیں تمام انبیاء پر اجمالی طور یا تفصیلی طور جُدا جُدا انبیاء علیہم السلام کے نام ذکر کرکے۔ (۲) کسی حدیث صحیح میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ حسین افضل ہیں تمام انبیاء سے۔ (۳) امام حسینؑ نے خود فرمایا ہو کہ مَیں افضل ہوں تمام انبیاء سے سوائے آنحضرت کے (۴) باقی ائمہ اہل بیت میں سے کسی امام نے فرمایا ہو کہ امام حسینؑ افضل ہیں تمام انبیاء سابقہ سے سوائے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے۔ اب ہم آپ کا منطقی ثبوت دیکھتے ہیں کہ کہاں آپ نے منطق کا صغریٰ اور کبریٰ قائم کرکے اس کا ثبوت دیا ہے۔ ہاں (الاشارۃ تکفی للعاقل) چونکہ تمام انبیاء نے حضرت حسین علیہ السلام اور اُن کے آباء کرام کو وسیلہ اپنی دُعاؤں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 428

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 428

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/428/mode/1up


شہادت سے مسیح موعود حسین سے افضل ہے اور جامع کمالات متفرقہ ہے پھر اگر درحقیقت مَیں وہی مسیح موعود ہوں تو ؔ خود سوچ لو کہ حسین کے مقابل مجھے کیا درجہ دینا چاہئیے۔ اور اگر مَیں وہ نہیں ہوں تو خدا نے صد ہا نشان کیوں دکھلائے اور کیوں وہ ہر دم میری تائید میں ہے۔

میںؔ گردانا ہے۔ نوٹ ۔ (اس کا ثبوت ابھی آپ کے ذمہ باقی ہے) اور اسی کے ذریعہ سے ان کی دعائیں قبول ہوئیں۔ اس لئے جس کا وسیلہ ڈالا جاتا ہے اور اس کے طفیل انبیاء علیہم السلام کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں وہ وسیلہ ضرور خدا کے نزدیک افضل ہوتا ہے ورنہ انبیاء علیہم السلام اس کو وسیلہ نہ گردانتے۔ یہ ہے آپ کی انوکھی منطق اور بوسیدہ علم کلام مثالاً۔ کیا اگر کوئی حکیم کسی مریض کو ایک نسخہ بتلا دے کہ اگر تم یہ نسخہ استعمال کرو تو تم اچھے ہو جاؤ گے اور تمہارا مرض سلب ہو جائے گا اور ایسا اتفاق بھی ہو جاوے کہ وہ مریض اچھا ہو جاوے تو کوئی عاقل اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ وہ نسخہ افضل ہے بیمار سے۔ تعجب کا مقام ہے کہ جس الزام پر آپ نے اپنے مخالف کو کوسا کہ حسین سے اپنے کو افضل بتلاتے ہیں خود اس میں مبتلا ہو گئے کہ خود حسین کی فضیلت تمام انبیاء پر ثابت کرنے لگے۔ پھر دعویٰ تو اس قدر مگر دلیل ندارد۔ آپ کو چاہئیے تھا کہ فضیلت کے وہ مدارج تحریر کرتے کہ ان ان باتوں سے حسینؑ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ علماء امامیہ نے حضرت علی ؑ کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے بالمقابل باقی صحابہ کے مدارج فضیلت قائم کئے ہیں۔ آپ کو چاہئیے تھا کہ (مثالاً) تحریر کرتے کہ حضرت امام مظلوم حسینؑ عابد تھے اور اس کے بالمقابل حضرت آدم یا حضرت نوح کی عبادت اُن سے بہت کم تھی یا حضرت حسین صابر اور شاکر تھے اور اس کے بالمقابل دیگر فلاں فلاں انبیاء میں صبر اور شکر کم تھا اور اس کمی کو اس ترازو میں بھی وزن کرتے جو آپ کے پاس ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب اس قسم یا اس جیسے جو بخیال آپ کے وجہ فضیلت قرار پا سکتے ہوں تمام مدارج اور اصول فضیلت بالمقابل باقی انبیاء علیہم السلام کے آپ بیان فرماتے اور ان کو نص یا حدیث صحیح اور متواتر اور تعامل قومی سے بھی مؤکد کرتے تب اہلِ حق پر ظاہر ہو جاتا کہ واقعی امام حسین افضل ہیں دیگر انبیاء پر۔ یہ خشک منطق کہ چونکہ انبیاء گذشتہ نے حسین کو وسیلہ اپنی دعاؤں میں خدا کے پاس گردانا ہے اس لئے وہ افضل ہیں ہمارے کس کام ۔ اوّل تو آپ قرآن سے ثابت کریں کہ واقعی حضرت آدمؑ نے حسین کا نام لے کر اُن کو وسیلہ گردانا تھا۔ اس وقت حسین کہاں تھا نام لکھا ہوا دیکھا کہاں ذکر ہے قرآن میں کہ حضرت آدم نے ساق عرش پر اسماء پنجتن لکھے ہوئے دیکھے کہاں ذکر ہے کہ آدم نے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 429

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 429

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/429/mode/1up


کِتاؔ ب سیف چشتیائی

یہ کتاب مجھ کو یکم جولائی ۱۹۰۲ء کو بذریعہ ڈاک ملی ہے جس کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے شاید اس غرض سے بھیجا ہے کہ تا وہ اِس بات سے اطلاع دیں کہ انہوں نے میری کتاب اعجاز المسیح اور نیز شمس بازغہ کا جواب

دیکھؔ کر سمجھ بھی لیا کہ یہ حسین یا پنجتن پاک میرے سے چھ ہزار سال بعد پَیدا ہوں گے کِس نے اُن کے دل میں القاء کیا اور القاء کرنے کا ذکر قرآن میں کہاں ہے قرآن مجید میں تو صاف ہے اور ایک لطیف بیان اپنے اندر رکھتا ہے۔ دیکھو جہاں اسماء کی تعلیم کا ذکر ہے۔ وہاں اﷲ جلّ شانہٗ نے صاف فرمایا ہے کہ ۱؂ ۲؂ ۳؂ مگر اس جگہتو۴؂ صاف ہے۔ دُوسرے موقعہ پر یعنی حضرت آدم کے قصّہ میں قرآن شریف نے کلمات کی تفسیر کر دی ہے۔ سورۃ اعراف الخ۵؂ اب جس کی تصریح خود قرآن کریم نے کردی ہو نہ کنایہ اور اشارہ سے بلکہ صاف الفاظ میں، اور کچھ ابہام اور شک بھی باقی نہ رہتا ہو ، پھر ایسے معقول استدلال قرآنی کو چھوڑ کر آپ کے یا برغانی کے زعم کی پیروی کون عقلمند کرسکتا ہے۔

(میاں) سید علی ہمدانی اور طبرانی نے لکھا ہے اپنی اپنی کتابوں میں ۔ اے مدعی علم و تحقیق کیا یہ لوگ معصوم تھے کہ جو کچھ انہوں نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے واجب الاخذ ہے یا اُن پر وحی نازل ہوتی تھی یا حضرت آدم خواب میں آ کر ان کو بتلا گئے تھے کہ ابتلا کے وقت مَیں نے یہ نام لئے تھے۔ (أ کنتم شہداء ام علی اﷲ تفترون) وہ سینکڑوں سالوں کے بعد زمانہ میں ہو کر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے اور منقولی روایت جس کی صحت کا کوئی معیار اُن کے پاس نہیں اپنی اپنی کتابوں میں درج کر دی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 430

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 430

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/430/mode/1up


لکھؔ دیا ہے اور اس کتاب کے پہنچنے سے پہلے ہی مجھ کو یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ اعجاز المسیح کے مقابل پر وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں مگر مجھ کو یہ امید نہ تھی کہ وہ میری عربی کتاب کا جواب اُردو میں لکھیں گے بلکہ مجھے یہ خیال تھا کہ چونکہ اکثر باسمجھ لوگوں نے پیر صاحب کی اس مکارانہ کارروائی کو پسند نہیں کیا

سنیئےؔ رسُول خدا نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد بہت کذّاب پیدا ہوں گے اور جھوٹی حدیثیں میرے نام سے روایت کریں گے پس تم کو لازم ہے کہ اس وقت حدیث کو کتاب اﷲ پر عرض کرو اگر موافق ہو تو لے لو ورنہ ترک کرو۔پھر ہم بغیر اس معیار کے کسی حدیث کو کیونکر صحیح سمجھ سکتے ہیں جبکہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ معیار تصحیح حدیث بتلا دیا ہے۔ اور مولٰنا صاحب نے بھی اس حدیث کو اپنے کسی رسالہ میں ذکر کیا ہوا ہے۔ پس یہ بات کہ جو حدیث کسی کتاب میں لکھی ہو وہ درحقیقت حدیث رسول ہو گی امر مسلّم نہ رہا بلکہ جو حدیث مطابق کتاب اﷲ ہو گی وہ حدیث رسول ہو گی۔ دیکھیں اصول کافی کتاب العلم امام جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں۔ فما وافق کتاب اﷲ فخذوہ وما خالف فدعوہ، کل حدیث لایوافق کتاب اﷲ فھو زخرف۔ اصولؔ کافی کے دیباچہ ہی میں نظر کریں کہ ہمارے شیخ المحدثین اپنے شیعوں کی احادیث کی نسبت کیا تحریر فرماتے ہیں۔ طُرفہ بریں یہ کہ آپ تو ان علماء پر جن کی روایات آپ نے پیش کی ہیں تبرّا بھیجتے ہیں۔ پھر اُن سے حجت پکڑنا چہ معنی دارد۔ دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو آپ میرزا صاحب کے اصول سے بکلّی ناواقف ہیں یا عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اب آخری فیصلہ بھی ذرہ سُن لیں۔ غایۃ المقصود حصّہ اوّل صفحہ ۱۰ سطر ۹ ملاحظہ ہو۔ جناب مولانا صاحب نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ (نبوت افضل از امامت است قطعاً) اس جگہ امام حسین خود واقعی امام تھے ان کی نسبت کوئی استثناء ذکر نہیں فرمایا گیا پھر کس طرح یہ بات کہی جاتی ہے کہ امام حسینؑ افضل ہیں سب انبیاء سے بغیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے۔

خاکسار

نذر علی از پشاور ۱۹۰۲ ؁ء



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 431

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 431

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/431/mode/1up


جو اؔ نہوں نے لاہور میں کی تھی۔ * اس لئے ندامت مذکورہ بالا کا داغ دھونے کے لئے ضرور انہوں نے یہ ارادہ کیا ہو گا کہ میرے مقابل تفسیر نویسی کے لئے کچھ طبع آزمائی کریں اور میری کتاب اعجاز المسیح کی مانند سورۃ فاتحہ کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں شائع کر دیں تا لوگ یقین کر لیں کہ پیر جی عربی بھی جانتے ہیں اور تفسیر بھی لکھ سکتے ہیں لیکن افسوس کہ میرا یہ خیال صحیح نہ نکلا جب ان کی کتاب سیف چشتیائی مجھے ملی تو پہلے تو اُس کتاب کو ہاتھ میں لے کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اب ہم ان کی عربی تفسیر دیکھیں گے اور بمقابل اُس کے ہماری تفسیر کی قدرو منزلت لوگوں پر اَور بھی کُھل جائے گی۔ مگر جب کتاب کو دیکھا گیا اور اُس کو اُردو زبان میں لکھا ہوا پایا اور تفسیر کا نام و نشان نہ تھا تب تو بے اختیار اُن کی حالت پر رونا آیا

لاہور میں جو ایک قابل شرم کارروائی پیر مہر علی شاہ صاحب سے ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بذریعہ ایک پُرفریب حیلہ جوئی کے اُس مقابلہ سے انکار کر دیا جس کو وہ پہلے منظور کر چکے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورۃ کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا اور اس مقابلہ کے لئے پیر جی موصوف کو بھی بُلایا گیا تا وہ اگر حق پر ہیں تو ایسی تفسیر بالمقابل بیٹھ کر لکھنے سے اپنی کرامت دِکھلاویں یا ہمارے دعویٰ کو قبول کریں۔ تو اوّل تو پِیر جی نے دُور بیٹھے یہ لاف مار دی کہ اِس نشان کا مقابلہ مَیں کر وں گا۔ لیکن بعد اس کے اُن کو میری نسبت بکثرت روائتیں پہنچ گئیں کہ اس شخص کی قلم عربی نویسی میں دریاکی طرح چل رہی ہے اور پنجاب و ہندوستان کے تمام مولوی ڈر کر مقابلہ سے کنارہ کش ہو گئے ہیں تب اُس وقت پیرجی کو سُوجھی کہ ہم بے موقعہ پھنس گئے۔ آخر حسب مثل مشہور کہ مرتاکیا نہ کرتا انکار کے لئے یہ منصوبہ تراشا کہ ایک اشتہار شائع کر دیا کہ ہم بالمقابل بیٹھ کر تفسیر لکھنے کے لئے تیار تو ہیں مگر ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تفسیر لکھنے سے پہلے عقائد میں بحث ہو جائے کہ کس کے عقائد صحیح اور مسلّم اور مدلّل ہیں اور مولوی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 432

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 432

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/432/mode/1up


یہ ؔ کتاب اگرچہ اس لائق نہ تھی کہ ایک نظر بھی اس کو دیکھ سکیں کیونکہ مؤلف کتاب نے جیسا کہ اُس کو چاہئیے تھا بالمقابل عربی تفسیر لکھ کر اپنی معجزانہ طاقت کا کچھ ثبوت نہیں دیا اور جس فرض کو ادا کرنا تھا اور اس قدر لمبی مُدّت میں بھی اس کو ادا نہیں کر سکا بلکہ مقابلہ سے مُنہ پھیر کر اپنی درماندگی کی نسبت اپنے ہاتھ سے مہر لگادی* اور آپ گواہی دے دی کہ درحقیقت اعجاز المسیح خدا کی طرف سے ایک نشان ہے جس کی نظیر پر وہ قادر نہ ہو سکا۔ تاہم مَیں نے اس اُردو کتاب کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بجز بیہودہ نکتہ چینیوں کے کوئی امر بھی اس میں قابل التفات نہیں اور نکتہ چینی بھی ایسی کمینہ پن اور جہالت کی کہ اگر اس کو ایک جائز اعتراض سمجھا جائے تو نہ اس سے قرآن شریف باہر رہ سکتا ہے اور نہ احادیث نبویہ اور نہ اہل ادب کی کتابوں میں سے کوئی کتاب۔

اب نکتہ چینی کو غور سے سنو کہ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ اس کتاب اعجاز المسیح میں جو دو سو صفحہ کی کتاب ہے چند فقرے جو اکٹھا کرنے کی حالت میں چار۴ سطر سے زیادہ نہیں ہیں ان میں سے بعض مقامات حریری اور بعض قرآن شریف سے اور بعض کسی اور کتاب سے مسروقہ ہیں اور بعض کسی قدر تغییر تبدیل کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور بعض عرب کی مشہور مثالوں میں سے ہیں یہ ہماری چوری ہوئی جو پیر صاحب نے پکڑی کہ بیس ہزار فقرہ میں سے دس باراں فقرے جن میں سے کوئی آیت قرآن شریف کی اور کوئی عرب کی مثال اور کوئی بقول اُن کے

محمدؔ حسین بٹالوی کہ جو نزول مسیح میں انہیں کے ہم عقیدہ ہیں اس تصفیہ کے لئے منصف مقرر کئے جائیں پھر اگر مولوی صاحب موصوف یہ کہہ دیں کہ پیر جی کے عقائد صحیح اور مسیح ابن مریم کے متعلق جو کچھ انہوں نے سمجھا ہے وُہی ٹھیک ہے تو فی الفور اُسی جلسہ میں یہ راقم ان کی بیعت کرے اور اُن کے خادموں اور مُریدوں میں داخل ہو جائے اور پھر تفسیر نویسی میں بھی مقابلہ کیا جائے۔ یہ اشتہار ایسا نہ تھا کہ اُس کا مکر اور فریب لوگوں پر کُھل نہ سکے آخر عقلمند لوگوں نے تاڑ لیا کہ اس شخص نے ایک قابلِ شرم منصوبہ کے ذریعہ سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے میری بیعت کی اور خود اُن کے بعض مُرید بھی اُن سے بیزار ہو کر بیعت میں داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ ستّر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کی تعداد پہنچ گئی اور مولویوں اور پیرزادوں اور گدی نشینوں کی حقیقت لوگوں پر کُھل گئی کہ وہ ایسی کارروائیوں سے حق کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ منہ

* گویا ان کا نام مِہر علی نہیں ہے بلکہ مُہر علی ہے کیونکہ وہ اپنے عاجز اور ساکت رہنے سے کتاب

اعجاز المسیح کے اعجاز پر مُہر لگاتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 433

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 433

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/433/mode/1up


حریرؔ ی یا ہمدانی کے کسی فقرہ سے توارد تھا۔ افسوس کہ اُن کو اس اعتراض کے کرتے ہوئے ذرہ شرم نہیں آئی اور ذرہ خیال نہیں کیا کہ اگر ان قلیل اور دو چار فقروں کو توارد نہ سمجھا جائے جیسا کہ ادیبوں کے کلام میں ہوا کرتا ہے اور یہ خیال کیا جائے کہ یہ چند فقرے بطور اقتباس کے لکھے گئے تو اس میں کون سا اعتراض پیدا ہو سکتا ہے خود حریری کی کتاب میں بعض آیات قرآنی بطور اقتباس موجود ہیں ایسا ہی چند عبارات اور اشعار دوسروں کے بغیر تغییر تبدیل کے اس میں پائے جاتے ہیں اور بعض عبارتیں ابوالفضل بدیع الزمان کی اس میں بعینہٖ ملتی ہیں تو کیا اب یہ رائے ظاہر کی جائے کہ مقامات حریری سب کی سب مسروقہ ہے بلکہ بعض نے تو ابو القاسم حریری پر یہاں تک بدظنی کی ہے کہ اس کی ساری کتاب ہی کسی غیر کی تالیف ٹھہرائی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ فن انشاء میں کامل سمجھ کر ایک امیر کے پاس پیش کیا گیا اور امتحاناً حکم ہوا کہ ایک اظہار کو عربی فصیح بلیغ میں لکھے مگر وہ لِکھ نہ سکا اور یہ امر اُس کے لئے بڑی شرمندگی کا موجب ہوا مگر تاہم وہ اُدباء میں بڑی عظمت کے ساتھ شمار کیا گیا اور اُس کی مقامات حریری بڑی عزّت کے ساتھ دیکھی جاتی ہے حالانکہ وہ کسی دینی یا علمی خدمت کے لئے کام نہیں آ سکتی کیونکہ حریری اِس بات پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی سچے اور واقعی قصہ یا معارف اور حقائق کے اسرار کو بلیغ فصیح عبارت میں قلمبند کرکے یہ ثابت کرتا کہ وہ الفاظ کو معانی کا تابع کر سکتا ہے۔ بلکہ اُس نے اوّل سے آخر تک معانی کو الفاظ کا تابع کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ ہرگز اس بات پر قادر نہ تھا کہ واقعہ صحیحہ کا نقشہ عربی فصیح بلیغ میں لکھ سکے لہٰذا ایسا شخص جس کو معانی سے غرض ہے اور معارف حقائق کا بیان کرنا اُس کا مقصد ہے وہ حریری کی جمع کردہ ہڈیوں سے کوئی مغز حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کے کلام کا اتفاقاً خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض فقرات میں کسی سے توارد ہو جائے کیونکہ بعض محاورات ادبیّہ کا کوچہ ایسا تنگ ہے کہ یا تو اُس میں بعض اُدباء کو بعض سے توارد ہو گا اور یا ایک شخص ایک ایسے محاورہ کو ترک کرے گا جو واجب الاستعمال ہے ظاہر ہے کہ جس مقام پر خصوصیات بلاغت کے لحاظ سے ایک جگہ پر مثلاً اقتحمکا لفظ اختیار کرنا ہے نہ اور کوئی لفظ تو اس لفظ پر تمام اُدباء کا بالضرور توارد ہو جائے گا اور ہر ایک کے مُنہ سے یہی لفظ نکلے گا۔ ہاں ایک جاہل غبی جو اسالیب بلاغت سے بے خبر اور فروق مفردات سے ناواقف ہے وہ اس کی جگہ پر کوئی اور لفظ بول جائے گا اور اُدباء کے نزدیک



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 434

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 434

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/434/mode/1up


قابلؔ اعتراض ٹھہرے گا۔ ایسا ہی اُدباء کو یہ اتفاق بھی پیش آجاتا ہے کہ گو بیس شخص ایک مضمون کے ہی لکھنے والے ہوں جو بیس ہی ادیب اور بلیغ ہوں مگر بعض صورتوں کے ادائے بیان میں ایک ہی الفاظ اور ترکیب کے فقرہ پر اُن کا توارد ہوجائے گا اور یہ باتیں ادباء کے نزدیک مسلّمات میں سے ہیں جن میں کسی کو کلام نہیں ا ور اگر غور کرکے دیکھو تو ہر ایک زبان کا یہی حال ہے اگر اُردو میں بھی مثلاً ایک فصیح شخص تقریر کرتا ہے اور اُس میں کہیں مثالیں لاتا ہے کہیں دلچسپ فقرے بیان کرتا ہے تو دُوسرا فصیح بھی اُسی رنگ میں کہہ دیتا ہے اور بجُز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے۔ اگر بعض پُر فصاحت فقرے اور مثالیں جو قرآن شریف میں موجود ہیں شعرائے جاہلیت کے قصائد میں دیکھی جائیں تو ایک لمبی فہرست طیّار ہو گی اور ان امور کو محققین نے جائے اعتراض نہیں سمجھا بلکہ اسی غرض سے ائمہ راشدین نے جاہلیت کے ہزارہا اشعار کو حفظ کر رکھا تھا اور قرآن شریف کی بلاغت فصاحت کے لئے ان کوبطور سند لاتے تھے۔

یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اُردو یا فارسی دو حصّہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ واﷲ اعلم۔ (۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے * اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت

* جیسا کہ بارہا بعض امراض کے علاج کے لئے مجھے بعض ادویہ بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ پہلے مجھ سے جالینوس کی کتاب میں لکھی گئی ہیں یا بقراط کی کتاب میں۔ایسا ہی میری انشاء پردازی کا حال ہے۔ جو عبارتیں تائید کے طور پر مجھے خدائے تعالیٰ سے معلوم ہوتی ہیں مجھے اُن میں کچھ بھی پروا نہیں کہ وہ کسی اور کتاب میں ہوں گی بلکہ وہ میرے لئے اور ہر یک کے لئے جو میرے حال سے واقف ہو معجزہ ہے اور اگر کسی کے نزدیک معجزہ نہ ہو تو اس پر پانی پینا حرام ہے جب تک بالمواجہ بیٹھ کر بپابندی شرائط مشتہرہ مقابلہ نہ کرے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 435

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 435

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/435/mode/1up


لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ؔ ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔ مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اُس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنے ہیں بسیاری عیال۔ یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصّہ سے چُپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دِل پر وحی ہوئی کہ وجوم ۔ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا اُن کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے۔ اور بعض اوقات کچھ مُدّت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القا ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے۔ یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے اُن زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہمیں کچھ نمونہ اُن کا لکھا گیا ہے اور مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اﷲ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصّے بیان کرکے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصّے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے علمِ غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا۔ پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے مَیں ایک دنیا کو



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 436

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 436

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/436/mode/1up


معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں ورنہ انسان کیا چیزاور ابن آدم کیا حقیقت کہ غرور اورؔ تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بُلاوے یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بعض فقروں میں خداتعالیٰ کی وحی انسانوں کی بنائی ہوئی صرفی نحوی قواعد کی بظاہر اتباع نہیں کرتی مگر ادنیٰ توجہ سے تطبیق ہوسکتی ہے اسی وجہ سے بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بیہودہ ہیں۔ زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو ۔ اور زبان جیسا کہ تغیر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے ایسا ہی تغیر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ آج کل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھاجائے جو مصر اور مکّہ اور مدینہ اور دیارِ شام وغیرہ میں بولی جاتی ہے تو گویا وہ محاورہ صَرف و نحو کے تمام قواعد کی بیخ کنی کر رہاہے اور ممکن ہے کہ اسی قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گذر چکا ہو۔ پس خدا تعالیٰ کی وحی کو اس بات سے کوئی روک نہیں ہے کہ بعض فقرات سے گذشتہ محاورہ یا موجودہ محاورہ کے موافق بیان کرے اِسی وجہ سے قرآن میں بعض خصوصیات ہیں۔ علاوہ اس کے اس ملک میں صرفی نحوی قواعد سے بھی لوگوں کو اچھی طرح واقفیت نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب تک زبان عرب میں پورا پورا توغل نہ ہو اور جاہلیت کے تمام اشعار نظر سے نہ گذر جائیں اور کتب قدیمہ مبسوطہ لغت جو محاورات عرب پر مشتمل ہیں غور سے نہ پڑھے جائیں اور وسعت علمی کا دائرہ کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک عربی محاورات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا اور نہ اُن کی صرف اور نحو کا باستیفاء علم ہو سکتا ہے۔ ایک نادان نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں صلہ درست نہیں یا ترکیب غلط ہے اور اسی قسم کا صلہ اور اسی قسم کی ترکیب اور اسی قسم کا صیغہ قدیم جاہلیت کے کسی شعرمیں نکل آتا ہے اور اس مُلک میں جو لوگ علماء کہلاتے ہیں بڑی دوڑاُن کی قاموس تک ہے حالانکہ قاموس کی تحقیق پر بہت جرح ہوئی ہیں اور کئی مقامات میں اُس نے دھوکہ کھایا ہے۔ یہ بیچارے جو علماء یا مولوی کہلاتے ہیں ان کو تو قدیم معتبر کتابوں کے نام بھی یاد نہیں اور نہ اُن کو تحقیق اور توغل زبان عربی سے کچھ دلچسپی ہے۔ مشکوٰۃ یا ہدایہ پڑھ لیا تو مولوی کہلائے اور پھر دِہ بدِہ پیٹ کے لئے وعظ کرنا شروع کر دیا۔ اگر وعظ سے کوئی عورت دام میں پھنس گئی تو اُس سے نکاح کر لیا۔ یا کسی گدّی پر بیٹھ کر تعویذ گنڈوں سے اپنا معاش چلایا۔ پس اغراض نفسانیہ کے ساتھ زبان پر کیونکر احاطہ ہو سکے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 437

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 437

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/437/mode/1up


اور معارف قرآنیہ کیونکر حاصل ہو سکیں اور لغت عرب جو صرف نحو کی اصل کنجی ہے وہ ایک ایسا ناپیدا کنار دریاؔ ہے جو اس کی نسبت امام شافعی رحمۃ اﷲ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لایعلمہ الا نبیّ یعنی اس زبان کو اوراس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجُز نبی کے اور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کرسکتا۔ اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہر یک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پُورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام سے ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ نکتہ چینی مذکورہ بالا ایک مُلْھمکے مقابل پر کہ جو عربی نویسی میں بہت سے فقرے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام کے پاتا ہے بالکل بے محل ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طر ح پر بھی مدد دے کہ کبھی ایک مسلسل تقریر میں کسی کتاب کا کوئی عمدہ فقرہ بطور وحی اُس کے دل پر القا کر دے تو ایسا القاء اس عبارت کو اعجازی طاقت سے باہر نہیں کر سکتا۔ باہر تب ہو کہ جب دُوسرا شخص اس کی مثل پر قادر ہو سکے مگر اب تک کون قادر ہوا؟اورکس نے مقابلہ کیا۔ اورخود اُدباء کے نزدیک اس قدر قلیل توارد نہ جائے اعتراض ہے اور نہ جائے شک ۔ بلکہ مستحسن ہے کیونکہ طریق اقتباس بھی ادبیہ طاقت میں شمار کیا گیا ہے اور ایک جُز بلاغت کی سمجھی گئی ہے۔ جو لوگ اس فن کے رجال ہیں وہی اقتباس پر بھی قدرت رکھتے ہیں ہر یک جاہل اور غبی کا یہ کام نہیں ہے۔ ماسوا اس کے ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں۔ اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طو رپر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الٰہی کا خادم بنایا جائے اور جبکہ ایسا دعویٰ ہے تو محض انکار سے کیا ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی مثل پیش نہ کریں یوں تو بعض شریر اور بدذات انسانوں نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے مضامین توریت اور انجیل میں سے مسروقہ ہیں اور اس کی امثلہ قدیم عرب کی امثلہ ہیں جو بالفاظہا سرقہ کے طو رپر قرآن شریف میں داخل کی گئی ہیں۔ ایسا ہی یہودی بھی کہتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چُرائی گئی ہیں۔ چنانچہ ایک یہودی نے حال میں ایک کتاب بنائی ہے جو اس وقت میرے پاس موجود ہے اور بہت سی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 438

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 438

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/438/mode/1up


عبارتیں طالمود کی پیش کی ہیں جو بجنسہٖ بغیر کسی تغیر تبدّل کے انجیل میں موجود ہیں اور یہ عبارتیں صرف ایک ؔ دو فقرے نہیں ہیں بلکہ ایک بڑا حصہ انجیل کا ہے اور وہی فقرات اور وہی عبارتیں ہیں جو انجیل میں موجود ہیں اور اس کثرت سے وہ عبارتیں ہیں جن کے دیکھنے سے ایک محتاط آدمی بھی شک میں پڑے گا کہ یہ کیا معاملہ ہے اور دِل میں ضرورکہے گا کہ کہاں تک اس کو توارد پر حمل کرتا جاؤں اور اس یہودی فاضل نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ باقی حصّہ انجیل کی نسبت اُس نے ثابت کیا ہے کہ یہ عبارتیں دوسرے نبیوں کی کتابوں میں سے لی گئی ہیں اور بعینہٖ وہ عبارتیں بائبل میں سے نکال کرپیش کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ انجیل سب کی سب مسروقہ ہے اور یہ شخص خدا کا نبی نہیں ہے بلکہ اِدھر اُدھر سے فقرے چُرا کر ایک کتاب بنالی اور اس کا نام انجیل رکھ لیا۔ اور اس فاضل یہودی کی طرف سے یہ اس قدر سخت حملہ کیا گیا ہے کہ اب تک کوئی پادری اِس کا جواب نہیں دے سکا۔ یہ کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو ابھی ملی ہے۔ اَبْ چونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ حضرت مسیح نے ایک یہودی اُستاد سے سبقًاسبقًا توریت پڑھی تھی اور طالمود کو بھی پڑھا تھا اِس لئے ایک شکی مزاج کے انسان کو اِس شبہ سے نکلنا مشکل ہے کہ کیوں اِس قدر عبارتیں پہلی کتابوں کی انجیل میں بلفظہا داخل ہو گئیں اورنہ صرف وہی عبارتیں جو خدا کی کلام میں تھیں بلکہ وہ عبارتیں بھی جو انسانوں کے کلام میں تھیں مگر اس سنت اﷲ پر نظر کرنے سے جس کو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یہ شبہ ہیچ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بباعث اپنی مالکیّت کے اختیار رکھتا ہے کہ دُوسری کتابوں کی بعض عبارتیں اپنی جدید وحی میں داخل کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں چنانچہ براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ہر ایک پر ظاہر ہو گا کہ اکثر قرآنی آیتیں اور بعض انجیل کی آیتیں اور بعض اشعار کسی غیرملہم کے اس وحی میں داخل کئے گئے ہیں جو زبردست پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے جس کے منجانب اﷲ ہونے پر یہ قوی شہادت ہے کہ تمام پیشگوئیاں اُس کی آج پوری ہو گئیں اور پوری ہو رہی ہیں۔ غرض خدائے تعالیٰ کی یہ قدیم سے عادت ہے کہ وہ اپنی وحی کی عبارتوں اور مضمونوں کو دوسرے مقام سے بھی لے لیتا ہے اور پھرجاہلوں کو اعتراض پیدا ہوتے ہیں چنانچہ ان دنوں میں ایک اور شخص نے تالیف کی ہے جس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ توریت کی کتاب پیدائش جو گویا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 439

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 439

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/439/mode/1up


توریت کے فلسفہ کی ایک جڑھ مانی گئی ہے ایک اور کتاب میں سے چرائی گئی ہے جو موسیٰ کے وقت میں موجوؔ د تھی تو گویا ان لوگوں کے خیال میں موسیٰ اور عیسیٰ سب چور ہی تھے۔ یہ توانبیاء علیہم السّلام پر شک کئے گئے ہیں مگر دوسرے ادیبوں اور شاعروں پر نہایت قابلِ شرم الزام لگائے گئے ہیں۔ متنبّی جو ایک مشہور شاعر ہے اس کے دیوان کے ہر ایک شعر کی نسبت ایک شخص نے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسرے شاعروں کے شعروں کا سرقہ ہے۔ غرض سرقہ کے الزام سے کوئی بچا نہیں نہ خدا کی کتابیں اور نہ انسانوں کی کتابیں۔ اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ کیا درحقیقت ان لوگوں کے الزامات صحیح ہیں؟اس کا جواب یہی ہے کہ خدا کے ملہموں اور وحی یا بوں کی نسبت ایسے شبہات دِل میں لانا تو بدیہی طور پر بے ایمانی ہے اور لعنتیوں کا کام۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ کے لئے کوئی عار کی جگہ نہیں کہ بعض کتابوں کی بعض عبارتیں یا بعض فقرات اپنے ملہموں کے دِل پر نازل کرے بلکہ ہمیشہ سے سنت اﷲ اسی پر جاری ہے۔

رہی یہ بات کہ دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں پر بھی یہی اعتراض آتا ہے کہ بعض کی عبارتیں یا اشعار بلفظہا یا بتغیّرما بعض کی تحریرات میں پائے جاتے ہیں تو اس کا جواب جو ایک کامل تجربہ کی روشنی سے ملتا ہے یہی ہے کہ ایسی صورتوں کو بجُز توارد کے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جن لوگوں نے ہزارہا جزیں اپنی بلیغ عبارت کی پیش کردیں ان کی نسبت یہ ظلم ہو گا کہ اگر پانچ سات یا دس بیس فقرات اُن کی کتابوں میں ایسے پائے جائیں کہ وہ یا اُن کے مشابہ کسی دُوسری کتاب میں بھی ملتے ہیں تو اُن کی ثابت شدہ لیاقتوں سے انکار کر دیا جائے اِسی طرح اُن لوگوں کو انصاف سے دیکھنا چاہئیے کہ اب تک ہماری طرف سے بائیس ۲۲ کتابیں عربی فصیح بلیغ میں بطلب مقابلہ تصنیف و شائع ہو چکی ہیں اورعربی کے اشتہارات اِس کے علاوہ ہیں اور کتابوں کے نام یہ ہیں۔ تبلیغ۔ نور الحق حصّہ اوّل ۔ نورالحق حصہ ثانی۔ اتمام الحجہ۔ خطبہ الہامیہ۔ الہدٰی، اعجاز ا لمسیح۔ کرامات الصادقین۔ سر الخلافہ۔ انجامِ آتھم، نجم الہدٰی ، منن الرحمن، حمامۃ ا لبشریٰ، تحفہ بغداد ، البلاغ ، ترغیب المومنین۔ لجّۃ النور *



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 440

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 440

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/440/mode/1up


اس قدر تصانیف عربیہ جومضامین دقیقہ علمیہ حکمیہ پر مشتمل ہیں بغیر ایک کامل علمی وسعت کے کیونکر انسان ان کو انجام دے سکتا ہے۔ کیاؔ یہ تمام علمی کتابیں حریری یا ہمدانی کے سرقہ سے طیار ہو گئیں اور ہزارہا معارف اور حقائق دینی و قرآنی جو اِن کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ حریری اور ہمدا نی میں کہاں ہیں۔ اس قدر بے شرمی سے مُنہ کھولنا کیا انسانیت ہے۔ یہ لوگ اگر کچھ شرم رکھتے ہوں تو اس شرمندگی سے جیتے ہی مر جائیں کہ جس شخص کو جاہل اور علم عربی سے قطعًا بے خبر کہتے تھے اُس نے تو اِس قدر کتابیں فصیح بلیغ عربی میں تالیف کر دیں مگر خود اُن کی استعداد اور لیاقت کا یہ حال ہے کہ قریباً دس برس ہونے لگے برابر اُن سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ ایک کتاب ہی بالمقابل اِن کتابوں کے تالیف کرکے دکھلائیں مگر کچھ نہیں کر سکے صرف مکّہ کے کفّار کی طرح یہی کہتے رہے کہ لَوْنَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَا کہ اگر ہم چاہیں تو اِس کی مانند کہہ دیں۔ لیکن جس حالت میں ان کو گالیاں دینے کے لئے تو خُوب فرصت ہے تو پھر کیا وجہ کہ ایک عربی رسالہ کی تالیف کے لئے فرصت نہیں ہے اور جس حالت میں ہزاروں اشتہار گالیوں کے چھاپ کر شائع کر رہے ہیں تو پھر کیا وجہ کہ عربی کتاب کے چھاپنے کے لئے اِن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ مَیں خیال نہیں کر تاکہ کوئی عاقل ایسے عذرات اِن کے کو قبول کر سکے اور صرف چند فقرے بیس ہزار فقروں میں سے پیش کرکے یہ کہنا کہ یہ مسروقہ ہیں یہ اِس درجہ کی بے حیائی ہے جو بجُز پیر مہر علی شاہ کے کون ایسا کمال دِکھلا سکتا ہے۔

اے نادان! اگر علمی اور دینی کتابیں جو ہزارہا معارف اور حقائق پر مندرج ہوتی ہیں صرف فرضی افسانوں کی عبارتوں کے سرقہ سے تالیف ہو سکتی ہیں تو اِس وقت تک کس نے آپ لوگوں کا مُنہ بند کر رکھا ہے کیا ایسی کتابیں بازاروں میں ملتی نہیں ہیں جن سے سرقہ کر سکو۔ اُن لعنتوں کو کیوں آپ لوگوں نے ہضم کیا جو در حالت سکوت ہماری طرف سے آپ کے نذر ہوئیں اور کیوں ایک سورۃ کی بھی تفسیر عربی بلیغ فصیح میں تالیف کرکے شائع نہ کر سکے تا دنیا دیکھتی کہ کس قدر آپ عربی دان ہیں۔ اگر آپ کی نیّت بخیر ہوتی تو میرے مقابل تفسیر لکھنے کے لئے ایک مجلس میں بیٹھ جاتے تا دروغ گو بے حیا کا مُنہ ایک ہی ساعت میں سیاہ ہو جاتا۔ خیر تمام دنیا اندھی نہیں ہے آخر سوچنے والے بھی موجود ہیں۔ ہم نے کئی مرتبہ یہ بھی اشتہار دیا کہ تم ہمارے مقابلہ پر کوئی عربی رسالہ لکھو پھر عربی زبان جاننے والے اُس کے منصف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 441

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 441

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/441/mode/1up


ٹھہرؔ ائے جائیں گے پھر اگر تمہارا رسالہ فصیح بلیغ ثابت ہوا تو میرا تمام دعویٰ باطل ہو جائے گا اور مَیں اب بھی اقرار کرتا ہوں کہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد اگر تمہاری تفسیر لفظاً و معناً اعلیٰ ثابت ہوئی تو اُس وقت اگر تم میری تفسیر کی غلطیاں نکالو تو فی غلطی پانچ روپیہ انعام دُوں گا۔ غرض بیہودہ نکتہ چینی سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بذریعہ تفسیر عربی اپنی عربی دانی ثابت کرو۔ کیونکہ جس فن میں کوئی شخص دخل نہیں رکھتا اُس فن میں اُس کی نکتہ چینی قبول کے لائق نہیں ہوتی۔ معمار معمار کی نکتہ چینی کر سکتا ہے اور حدّاد حدّاد کی مگر ایک خاکروب کو حق نہیں پہنچتا کہ ایک دانا معمار کی نکتہ چینی کرے۔ آپ کی ذاتی لیاقت تو یہ ہے کہ ایک سطر بھی عربی نہیں لکھ سکتے۔ چنانچہ سیف چشتیائی میں بھی آپ نے چوری کے مال کو اپنا مال قرار دیا تو پھر اس لیاقت کے ساتھ کیوں آپ کے نزدیک شرم نہیں آتی۔ اے بھلے آدمی پہلے اپنی عربی دانی ثابت کر پھر میری کتاب کی غلطیاں نکال اور فی غلطی ہم سے پانچ روپیہ لے اور بالمقابل عربی رسالہ لکھ کر میرے اس کلامی معجزہ کا باطل ہونا دِکھلا۔ افسوس کہ دس برس کا عرصہ گذر گیا کسی نے شریفانہ طریق سے میرا مقابلہ نہیں کیا۔ غایت کار اگر کیا تو یہ کیا کہ تمہارے فلاں لفظ میں فلاں غلطی ہے اور فلاں فقرہ فلاں کتاب کا مسروقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر صاف ظاہر ہے کہ جب تک خود انسان کا صاحب علم ہونا ثابت نہ ہو کیونکر اُس کی نکتہ چینی صحیح مان لی جائے کیا ممکن نہیں کہ وہ خود غلطی کرتا ہو اور جو شخص بالمقابل لکھنے پر قادر نہیں وہ کیوں کہتا ہے کہ کتاب میں بعض فقرے بطور سرقہ ہیں اگر سرقہ سے یہ امر ممکن ہے تو کیوں وہ مقابل پر نہیں آتا اور لونمبڑی کی طرح بھاگا پھرتا ہے۔ اے نادان اوّل کسی تفسیر کو عربی فصیح میں لکھنے سے اپنی عربی دانی ثابت کر پھر تیری نکتہ چینی بھی قابلِ توجّہ ہو جاوے گی ورنہ بغیر ثبوت عربی دانی کے میری نکتہ چینی کرنا اور کبھی سرقہ کا الزام دینا اور کبھی صرفی نحوی غلطی کا۔ یہ صرف گُوہ کھانا ہے۔ اے جاہل بے حیا اوّل عربی بلیغ فصیح میں کسی سُورۃ کی تفسیر شائع کر پھر تجھے ہر ایک کے نزدیک حق حاصل ہو گا کہ میری کتاب کی غلطیاں نکالے یا مسروقہ قرار دے۔ جو شخص ہزارہا جُز عربی بلیغ فصیح کی لکھ چکا ہے نہ صرف بیہودہ طور پر بلکہ معارف حقیقی کے بیان میں، تو کیا صرف انکار سے اس کا جواب ہو سکتا ہے یا جب تک کام کے مقابل پر کام نہ دکھلایا جاوے۔ صرف زبان کی بک بک حجت ہو سکتی ہے اور اس بات سے کونسی لیاقت ثابت



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 442

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 442

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/442/mode/1up


ہو ؔ سکتی ہے کہ صرف مُنہ سے یہ کہہ دیں کہ یہ کتاب غلط ہے یا فلاں کتاب سے بعض فقرے اس کے چُرائے گئے ہیں۔ بھلا اس سے اپنا کمال کیا ثابت ہوا اور اگر کمال ثابت نہیں تو کیونکر قبول کیا جائے کہ نکتہ چینی صحیح ہو گی۔ بلکہ جو شخص ایسے لائق اور کامل انسانوں پر اعتراض کرتا ہے کہ جو لوگ اپنے کمال کا کچھ نمونہ دکھا دیتے ہیں اُس سے زیادہ کوئی دیوانہ اور پاگل نہیں ہوتا۔ اگر انسان ایسا سُلطان القلم ہوجائے کہ امور علمیہ اور حکمیہ کو انواع اقسام کی رنگین عبارتوں اور بلیغ فصیح استعارات میں ادا کر سکے اوراُس کو موہبت الٰہیّہ سے نظم اور نثر میں ایک ملکہ ہو جائے اور تکلّف اور عجز باقی نہ رہے تو پھر ایسے کمال تام کی حالت میں اگر اُس کی عبارتوں میں مناسب مقاموں اور محلوں میں بعض آیات قرآنی آجاویں یا متقدمین کے بعض امثال یا فقرات آ جاویں تو جائے اعتراض نہ ہو گا کیونکہ اس کی طلاقت لسانی کا کمال ایک ثابت شدہ امر ہے جو دریا کی طرح بہتا اور ہوا کی طرح چلتا ہے۔ وہ *** کیڑا ہے نہ آدمی جو خود بے ہنر ہو کر ایسے شخص کی بلاغت اور فصاحت پراعتراض کرے جس نے بہت سی عربی کتابیں تالیف کرکے بلیغ فصیح عبارت کامعجزہ ثابت کر دکھایا اور ظاہر کر دیا کہ اس کو بلیغ عبارت کی آمد کا معجزہ بحرِ ذخار کی طرح دیا گیا ہے۔ اس قسم کے خبیث طبع ہمیشہ ہوتے رہے ہیں جو خدا کی کلام پر بھی اعتراض کرتے ہوئے نہیں ڈرے اور باوجود تہی مغز ہونے کے نکتہ چینی سے باز نہ آئے۔ مثلاً جن خبیث لوگوں نے اعتراض کیا کہ قرآن شریف کی سُورۃ ۱؂کے بعض فقرات دیوان امرء القیس کے ایک قصیدہ کا اقتباس ہے یعنی وہ فقرات اس سے لئے گئے ہیں ان کو یہ خیال آنا چاہئیے تھا کہ قرآن شریف کے وہ تمام قصے پہلی کتابوں کے جو نہایت رنگین عبارت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ الٰہیات کے معارف حقائق جو اس میں معجزانہ عبارت میں بیان کئے گئے ہیں وہ عرب کے کس شاعر کی کلام کا اقتباس ہے۔ پس ایسے شخص اندھے ہیں نہ سُوجا کھے جو اس کمال کو نہیں دیکھتے جو ایک دریا کی طرح بہتا ہے اور ایک دوفقرہ میں توارد پا کر بدظنی پَیدا کرتے ہیں یہ لوگ اسی مادّہ کے آدمی ہیں جیسا کہ وہ شخص تھا جس کے مُنہ سے ۲؂ نکلاتھا اور اتفاقاً وہی آیت نازل ہو گئی تب وہ مُرتد ہو گیا کہ میرا ہی فقرہ قرآن میں داخل کیا گیا۔ اب پِیر مہرعلی شاہ صاحب کی کرتُوت کو دیکھنا چاہئیے کہ خود



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 443

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 443

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/443/mode/1up


توؔ بمقابلہ ساڑھے باراں جُز کی کتاب کے ایک جُز بھی نہ لکھ سکے اور اتنی ضخیم کتاب میں سے دو چار فقرے پیش کر دئے کہ یہ فلاں کتاب میں موجود ہیں۔ اب سوچو کہ یہ کس قدر کمینگی ہے۔ کیا کوئی اہلِ ادب اس کو پسند کر ے گا۔ ادیب جانتے ہیں کہ ہزارہا فقرات میں سے اگر دوچار فقرات بطور اقتباس ہوں تو اُن سے بلاغت کی طاقت میں کچھ فرق نہیں آتا بلکہ اس طرح کے تصرّفات بھی ایک طاقت ہے۔ دیکھو سبعہ مُعلقہ کے دو شاعروں کا ایک مصرعہ پر توارد ہے اور وہ یہ ہے۔

ایک شاعر کہتا ہے یقولون لا تھلک اسًی و تجمّلٖ

اَور دُوسرا شاعر کہتا ہے یقولون لَا تھلک اسًی و تجلّدٖ

اب بتلاؤ کہ ان دونوں میں سے چور کون قرار دیا جائے ۔ نادان انسان کو اگر یہ بھی اجازت دی جاوے کہ وہ چُر اکر ہی کچھ لکھے تب بھی وہ لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی طاقت اُس کے اندر نہیں مگر وہ شخص جو مسلسل اور بے روک آمد پر قادر ہے اس کا تو بہرحال یہ معجزہ ہے کہ اُمور علمیہ اور حکمیّہ اور معارف حقائق کو بلاتوقف رنگین اور بلیغ فصیح عبارتوں میں بیان کر دے گو محل پرچسپاں ہو کر دس ہزار فقرات بھی کسی غیر کی عبارتوں کا اُس کی تحریر میں آ جائے کیا ہر یک نادان غبی بلید ایسا کر سکتا ہے اور اگر کر سکتا ہے تو کیا وجہ کہ باوجود اتنی مدّت مدید گزرنے کے پیر مہر علی شاہ صاحب کتاب اعجاز المسیح کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے اور نہایت کار کام یہ کیا کہ دو سو صفحہ کی کتاب میں سے کہ جو چار ہزار سطر اور ساڑھے باراں جُز ہے ایسے دو چار فقرے پیش کر دئے کہ وہ * بعض امثلہ مشہورہ سے یا مقامات وغیرہ کے بعض فقرات سے توارد رکھتے ہیں یا مشابہ ہیں بھلا بتلاؤ کہ اِس میں اُنہوں نے اپنا کمال کیا دِکھلا یا۔ ایک منصف انسان سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص نے اِتنی مدت تک موقعہ پا کر اپنے گوشۂخلوت میں دوچار ورق تک بھی اعجاز المسیح کا نمونہ پیش نہیں کیا تو وہ لاہور کے مقابلہ پر اگر اتفاق ہوتا کیا لِکھ سکتا تھا۔ وہ پیر فرتوت



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 444

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 444

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/444/mode/1up


جو ؔ اس قدر سہارے کے ساتھ بھی اُٹھ نہ سکا وہ بے سہارے کیونکر اٹھ سکتا یقیناًسمجھو کہ پیر مہر علی شاہ صاحب محض جھوٹ کے سہارے سے اپنی کوڑ مغزی پر پردہ ڈال رہے ہیں اور وہ نہ صرف دروغگو ہیں بلکہ سخت دروغگو ہیں اُن کا یہ آخری جُھوٹ بھی ہمیں کبھی نہ بُھولے گا جِس پر انہوں نے دوبارہ اس کتاب میں بھی اصرار کیا کہ مَیں لاہور میں وعدہ کے موافق آیا مگر تم قادیان سے باہر نہ نکلے لیکن جن لوگوں نے اُن کا اشتہار دیکھا ہو گا وہ اگر چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے کمال رو بہ بازی سے مقابلہ سے گریز اختیار کی تھی کیا یہ دیانت کا طریق تھا کہ پیر مہرعلی صاحب نے اپنے اشتہار میں لکھا کہ مَیں بالمقابل تفسیر عربی فصیح میں لکھنے کے لئے لاہور میں پہنچ گیا ہوں مگر میری طرف سے یہ شرط ہے کہ اوّل اختلافی عقائد میں زبانی گفتگو ہو اور مولوی محمد حسین منصف ہوں۔ پھر اگر منصف مذکور یہ بات کہہ دے کہ عقائد پیر مہر علی شاہ کے درست اور صحیح ہیں اور انہوں نے اپنے عقائد کا خوب ثبوت دے دیا ہے تو فریق مخالف یعنی مجھ پر لازم ہو گا کہ بلاتوقف پیر مہر علی شاہ سے بیعت کروں پھر بعد اس کے تفسیر نویسی کا بھی مقابلہ ہو جائے گا۔ اب دیکھو یہ کس قدر مکّاری ہے جبکہ مولوی محمد حسین ا ور پِیر مہر علی شاہ صاحب نزول مسیح اور صعود مسیح کے عقیدہ میں اتفاق رکھتے ہیں تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ مولوی محمد حسین کے مُنہ سے یہ نکلتا کہ مہر علی کے عقائد صحیح نہیں ہیں یا اُس کے دلائل باطل ہیں جبکہ دونوں کے عقائد ایک ہیں تو پھر وہ پیر مہر علی کی تکذیب کیونکر کر سکتا تھا۔ ہاں بلاغت فصاحت کے امور میں جس کو اہل اسلام وغیراہل اسلام جانچ سکتے ہیں کسی دشمن سے بھی دلیری نہیں ہو سکتی کہ ایسے فریق کو اعلیٰ درجہ کا سارٹیفکیٹ عطا کرے جس کی عبارت گندی اور بودی اور اغلاط نحوی صرفی سے بھری ہوئی ہو۔ سو کتاب اعجاز المسیح کی اشاعت سے پِیر مہر علی صاحب کو دوبارہ موقعہ دیا گیا تھا کہ وہ اگر ممکن ہو تو اب بھی اپنی علمی لیاقت سے میری اس شان کو کالعدم کر دیں جس سے صدہا آدمی سلسلہ بیعت میں داخل ہو رہے ہیں۔ مگر وہ بالکل اُس گنگے کی طرح رہ گئے جس پر اشارہ سے بات



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 445

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 445

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/445/mode/1up


کرنا ؔ بھی مشکل ہوتا ہے اور اگر کیا تو یہ کیا کہ دوچار فقرے دو سو صفحہ کی کتاب میں سے پیش کر دیئے کہ یہ مقامات حریری وغیرہ کے چند فقرات کا سرقہ ہے اور صرف ایک یا دو سہو کاتب کو صرفی نحوی غلطی قرار دے دیا اور اپنی جہالت سے بعض بلیغ اور صحیح ترکیبوں کو یُونہی غیر فصیح اور غلط سمجھ لیا ہے۔ یہ ہیں گدّی نشین اِس مُلک کے جنہوں نے خواہ مخواہ مولویّت کا دم بھر کر ہمیشہ کے لئے ایک سیاہ داغ اپنے چہرے پر لگا لیا۔ * مگر چونکہ پِیر مہر علی صاحب نے مجھے مفتری

* حاشیہ :۔ مَیں نے ابھی اسی قدر مضمون لکھا تھا کہ مجھے آج ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۰۲ء کو موضع بھیں سے میاں شہاب الدین دوست مولوی محمد حسن بھیں کا خط ملا جس میں اُنہوں نے تحریر کیا ہے کہ مَیں پِیر مہر علی شاہ کی کتاب دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اتفاقاً ایک آدمی مجھ کو ملا جس کے پاس کچھ کتابیں تھیں اور وہ مولوی محمد حسن کے گھر کا پتہ پوچھتا تھا اور استفسار پر اُس نے بیان کیا کہ محمد حسن کی کتابیں پیر صاحب نے منگوائی تھیں اور اب واپس دینے آیا ہوں مَیں نے وہ کتابیں جب دیکھیں تو ایک اُن میں اعجاز المسیح تھی جس پر محمد حسن متوفی نے اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھے ہوئے تھے۔ اور ایک کتاب شمس بازغہ تھی اور اُس پر بھی محمد حسن مذکور کے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور اتفاقاً اُس وقت کتاب سیف چشتیائی میرے پاس موجود تھی جب مَیں نے ان نوٹوں کا اس کتاب سے مقابلہ کیا تو جو کچھ محمد حسن نے لکھا تھا بلفظہا بغیر کسی تصرف کے پیر مہر علی نے بطور سرقہ اپنی کتاب میں اس کو نقل کر لیا تھا بلکہ بہ تبدیل الفاظ یُوں کہنا چاہئیے کہ پیر مہر علی شاہ کی کتاب وہی مسروقہ نوٹ ہیں ا س سے زیادہ کچھ نہیں۔ پس مجھ کو اِس خیانت اور سرقہ سے سخت حیرت ہوئی کہ کس طرح اُس نے اُن تمام نوٹوں کو اپنی طرف منسوب کر دیا۔ یہ ایسی کارروائی تھی کہ اگر مہر علی کو کچھ شرم

ہوتی تو اِس قسم کے سرقہ کا رازکھلنے سے مَر جاتا نہ کہ شوخی اور ترک حیا سے اب تک دوسرے شخص کی تالیف کو جس میں اُس کی جان گئی اپنی طرف منسوب کرتا اور اس بدقسمت مُردہ کی تحریر کی طرف ایک ذرہ بھی اشارہ نہ کرتا اور پھر بعد اس کے میاں شہاب الدین



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 446

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 446

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/446/mode/1up


ٹھہرؔ ایا ہے اور چور قرار دیا ہے اور بار بار بطور مباہلہ میرے پر *** بھیجی ہے اِس لئے مَیں اپنی بریت پبلک پر ظاہر کرنے کے لئے تیسری دفعہ پیر مہر علی شاہ صاحب کو موقعہ دیتا ہوں اور وہ یہ کہ ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم اس رسالہ کے آخر میں اگرخدا تعالیٰ نے چاہا تو چند عربی اشعار لکھیں گے اور پیر مہر علی صاحب سے اور نیز ایک اور شخص سے جو شیعہ ہے اور علی حائری کے نام سے موسوم ہے اِن اشعار کی مثل کا مطالبہ کریں گے۔ اور

لکھتا ہے کہ مَیں ہر ایک شخص کو جو مہر علی کی اِس خیانت کو دیکھنا چاہے اُس کی یہ قابلِ شرم چوری دکھا سکتا ہوں بلکہ اُس نے خود پیر مہر علی شاہ کا دستخطی ایک کارڈ بھیج دیا ہے جس میں وہ اس چوری کا اقرار کرتا ہے لیکن بعد اس کے یہ بیہودہ جواب دیتا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں مجھے اجازت دے دی تھی کہ اپنے نام پر اس کتاب کو چھاپ دیں لیکن یہ عذر بد تر از گناہ ہے کیونکہ اگر اس کی طرف سے یہ اجازت تھی کہ اُس کے مَرنے کے بعدمہر علی اپنے تئیں اس کتاب کا مؤلّف ظاہر کرے تو کیوں مہر علی نے اس کتاب میں اس اجازت کا ذکر نہیں کیا اور کیوں دعویٰ کر دیا کہ مَیں نے ہی اس کتاب کو تالیف کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تو بے ایمانی کا طریق ہے کہ ایک شخص وفات یافتہ کی کُل کتاب کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور اُس کا نام تک نہ لیا۔ جس حالت میں محمد حسن نے خداتعالیٰ کا مقابلہ کرکے اپنے تئیں اعجاز المسیح کے ٹائیٹل پیج کی مندرجہ پیشگوئی انّہ تندّم و تذمّر کے موافق ایسا نامراد بنایا کہ جان ہی دے دی اور پھر اعجاز المسیح صفحہ ۱۹۹ کی مباہلانہ دُعا کا مصداق بن کر اپنے تئیں ہلاکت میں ڈال لیا تو ایسے کشتہ مقابلہ کے احسان کا ذکرکرنا بہت ضروری تھا اور دیانت کا یہ تقاضا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاف لفظوں میں لِکھ دیتا کہ یہ کتاب میری تالیف نہیں ہے بلکہ محمد حسن کی تالیف ہے اور مَیں صرف چور ہوں نہ یہ کہ دروغگوئی کی راہ سے خطبہ کتاب میں اس تالیف کو اپنی طرف منسوب کرتا بلکہ چاہئیے تھا کہ اُس بدقسمت وفات یافتہ کی بیوہ کے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 447

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 447

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/447/mode/1up


درخواؔ ست یہ ہے کہ ان اشعار کی برعایت تعداد و پابندی مضمون نظیر پیش کرکے پیر صاحب اپنی کرامت دکھلاویں ۔ اور علی حائری صاحب امام حسین کی کرامت۔ اگر ایسا کر دکھائیں اور جس قدر تعداد میں ہم نے یہ شعر لکھے ہیں اور جن مضامین کے متعلق یہ اشعار ہیں۔ اگر ان دونوں شرطوں کو بلاغت فصاحت کے پَیرایہ میں یہ دونوں بزرگ یا کوئی اُن میں سے پُورا کر دکھائیں گے تو ہم قبول کر لیں گے کہ اِس بارے میں ہمارا معجزہ کا دعویٰ باطل ہے۔

گذارہ کے لئے اُس کتاب میں سے حصّہ رکھ دیتا جس حالت میں محض لاف زنی کے طور پر اُس نے یہ مشہور کیا ہے کہ مَیں نے یہ کتاب مفت تقسیم کی ہے تو کس قدر ضروری تھا کہ وہ کتاب کے ابتدا میں لکھ دیتا کہ مَیں اپنا حق تو اِس کتاب کے متعلق چھوڑتا ہوں لیکن چونکہ دراصل یہ کتاب محمد حسن کی تالیف ہے جس کو مَیں نے بطور سرقہ اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اِس لئے مَیں اُس کی بیوہ کے گذارہ کے لئے ۴ ؍ فی جلد خریداروں سے مانگتا ہوں۔ تا وہ چکّی پِیسنے کی مصیبت سے بچے۔ اور اگر وہ ایسا طریق اختیار کرتا اور فی جلد ۴ ؍ وصول کرکے مصیبت زدہ بیوہ کو دیتا تو اِس رُوسیاہی سے کسی قدر بچ جاتا مگر ضرور تھا کہ وہ اِس قابل شرم چوری کا ارتکاب کرتا تا خدا تعالیٰ کا وہ کلام پُورا ہوجاتا کہ جو آج سے کئی برس پہلے میرے پر نازل ہوا اور وہ یہ ہے انّی مھین من اراد اھانتک یعنی مَیں اُس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ اس شخص نے کتاب سیف چشتیائی میں میرے پر الزام سرقہ کا لگایا تھا اور سرقہ یہ کہ کتاب اعجاز المسیح کے تقریباً بیس ہزار فقرہ میں سے دو چار فقرے ایسے ہیں جو عرب کی بعض مشہور مثالیں یا مقامات حریری وغیرہ کے چند جملے ہیں جو الہامی توارد سے لکھے گئے۔

اور اپنی کرتُوت اس کی اب یہ ثابت ہوئی جو محمد حسن مُردہ کا سارامسودہ اپنے نام منسوب کر لیا اور اُس بدبخت کا ذکر تک نہ کیا۔ اب دیکھو یہ خدا تعالیٰ کا نشان ہے یا نہیں کہ دوچار



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 448

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 448

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/448/mode/1up


مگرؔ شرط یہ ہے کہ اُس تاریخ سے کہ یہ رسالہ شائع ہو ٹھیک ٹھیک عرصہ بیس یوم تک اِسی مقدار اور اسی بلاغت فصاحت کے لحاظ سے اور انہیں مضامین کے مقابل پر اشعار بنا کر اور طبع کرا کر ملک میں شائع کر دیں ورنہ اخبار کے ذریعہ سے اُن کا عجز شائع کر دیا جائے گا۔ اور ہم دوبارہ اقرار کرتے ہیں کہ اگر ان اشعار میں تاریخ معیّنہ کے اندر وہ ہمارا مقابلہ کر سکیں گے۔ اور اہلِ علم کی شہادت سے اُن کے اشعار ہمارے اشعار کے ہم مرتبہ ہوں گے اور تعداد میں بھی برابر

فقروں کا سرقہ میری طرف منسوب کرنے کے ساتھ ہی خود ایک پوری کتاب کا سارق ثابت ہو گیا۔ اگر اُس کا اعتراض صحیح تھا تو کیوں خدا تعالیٰ نے اُس کو رُسوا کیا اور جب لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ مہر علی نے ایک مُردہ کا مضمون چرا کر کفن دُزدوں کی طرح قابل شرم چوری کی ہے اور بعض اُس کے دوستوں نے اُس کی طرف خط لکھے کہ ایسا کرنا مناسب نہ تھا تو یہ جواب دیا کہ مَیں نے محمد حسن مُردہ سے اجازت لے لی تھی صاف ظاہر ہے کہ اگر محمد حسن مُردہ اجازت دیتا تو اپنی زندگی میں ہی دیتا مسودہ اس کے پاس بھیجتا نہ یہ کہ اُس کے مَرنے کے بعد اُس کی بیوہ کے پاس سے منگوایا جاتا اور پھر بہرحال یہ ذکر تو کرنا چاہئیے تھا کہ مَیں بذاتِ خود عربیت اور علم ادب سے بے نصیب ہوں اور یہ مسودات محمد حسن مُردہ کے مجھے ملے ہیں مگر کہاں ذکر کیا۔ بلکہ بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ یہ کتاب مَیں نے آپ بنائی ہے۔ دیکھو اہل حق پر حملہ کرنے کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مجھے چند فقرہ کا سارق قرار دینے سے ایک تمام و کمال کتاب کا خود چور ثابت ہو گیا اور نہ صرف چور بلکہ کذّاب بھی کہ ایک گندہ جھوٹ اپنی کتاب میں شائع کیا اور کتاب میں لکھ مارا کہ یہ میری تالیف ہے حالانکہ یہ اُس کی تالیف نہیں۔ کیوں پیر جی اب اجازت ہے کہ اس وقت ہم بھی کہہ دیں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہ علی الکاذبین۔ رہا محمد حسن پس چونکہ وہ مَر چکا ہے۔ اس لئے اُس کی نسبت لمبی بحث کی ضرورت نہیں وہ اپنی سزا کو پہنچ گیا۔ اُس نے جھوٹ کی نجاست کھا کر وہی نجاست پیرصاحب کے مُنہ میں رکھ دی۔مَیں نے کتاب اعجاز المسیح کے سر پر بطور پیشگوئی بیان کر دیا تھا کہ جو شخص اِس



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 449

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 449

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/449/mode/1up


ہو ؔ نگے تو پھر بلاشبہ ہمارا یہ دعویٰ باطل ہو جائے گا کہ اعجازی طاقت جو انشاء پردازی اور نظم اور نثر میں ہے یہ بھی خدا کا ایک نشان ہے جو ہمارے مسیح موعود ہونے پر ایک گوا ہ ہے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر حلفی وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس عرصہ میں اسی تعداد کے لحاظ سے انہیں مضامین کی پابندی سے ان کے اشعار مقرر کردہ منصفوں کی شہادت سے جو اہل علم ہوں گے ہمارے اشعار سے فصاحت بلاغت کے رُو سے بہتر ثابت ہوں تودونوں مخاطبین کو ایک

کتاب کے جواب کا ارادہ کرے گا وہی نامراد رہے گا۔ سو اس سے زیادہ کیا نامرادی ہے کہ وہ اپنی لغو کتاب کوچھاپ ہی نہ سکا اور مَر گیا اور پھراس کے مُردار کو چُرا کر پیر مہر علی نے اپنی کتاب میں کھایا اور وہ بھی نامراد رہا کیونکہ مہر علی کی غرض یہ تھی کہ اس کتاب کے لکھنے سے اپنی مشیخت ظاہر کرے کہ مَیں بھی عربی خوان ہوں اور ادیب ہوں مگر بجائے ناموری کے اس کا چور ہونا ثابت ہوا۔ کون اس سے تعجب نہیں کرے گا کہ چور بھی ایسا دلیر چور نکلا کہ مُردہ کی ساری کتاب کو نگل گیا اور ڈکار نہ لیا اور محمد حسن بدقسمت کا ایک دفعہ بھی ذکر نہ کیا۔ اَور ایک دوسرا نشان یہ ہے کہ اسی کتاب اعجازالمسیح کے صفحہ ۱۹۹ میں مَیں نے یہ دُعا کی تھی ربّ ان کنت تعلم ان اعدائی ھم الصادقون المخلصون فاھلکنی کما تُھلک الکذّابون۔ وان کنت تعلم انی منک و من حضرتک فقم لنصرتی۔ ترجمہ۔ یعنی اے میرے خدا اگر تُو جانتا ہے کہ میرے دشمن سچے ہیں اور مخلص ہیں پس تُو مجھے ہلاک کر جیسا کہ تُو جُھوٹوں کو ہلاک کرتا ہے اور اگر تُو جانتا ہے کہ مَیں تیری طرف سے ہوں تو دشمن کے مقابل پر میری مدد کرنے کے لئے تُو کھڑا ہو جا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اِس کتا ب اعجاز المسیح کے شائع ہونے کے بعد محمد حسن بھیں مقابلہ کے لئے میدان میں نکلا۔ اس لئے بموجب اِس مباہلہ کی دُعا کے مارا گیا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 450

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 450

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/450/mode/1up


ایک ؔ سو روپیہ انعام دیا جائے گا ان کا اختیار ہے کہ یہ انعام کسی بینک میں پہلے جمع کرا دیں۔ اب بالخصوص میاں مہر علی صاحب کو اس مقابلہ سے بالکل نہیں ڈرنا چاہئیے کیونکہ ان کو معلوم ہو گیا ہے کہ سرقہ کے ذریعہ سے نظم اور نثر طیار ہو سکتی ہے تو گویا اب ان کو اس کام کی کَل ہاتھ آ گئی ہے سو اب یقین ہے کہ اس کل کی وجہ سے ان کی تمام بُزدِلی دُور ہو جائے گی بلکہ وہ اِس لائق بھی ہو جائیں گے کہ بالمقابل حوصلہ کرکے کسی سُورۃ کی تفسیر بھی لکھ سکیں کیونکہ اب تو بات

اب ہم اس با ت کے ثابت کرنے کے لئے کہ درحقیقت پیر مہر علی صاحب نے اپنی کتاب سیف چشتیائی میں جس کو درحقیقت طنبورچشتیائی کہنا چاہئیے اپنی طرف سے اور اپنے دماغ سے کام لے کر کچھ نہیں لکھا بلکہ اس میں تمام و کمال چوری کا سرمایہ جمع کردیا اور چوری بھی مُردہ کے مال کی جوہر طرح قابلِ رحم تھا مفصلہ ذیل ثبوت پیش کرتے ہیں۔

نقل خط میاں شہاب الدین ساکن بِھیْں

پہلے ہم صفائی بیان کے لئے لکھنا چاہتے ہیں کہ میاں شہاب الدین جن کا نام عنوان میں درج ہے۔ یہ محمدحسن متوفّی کے دوست ہیں اورعلاوہ اس کے یہ اس بدقسمت وفات یافتہ کے ہمسایہ بھی ہیں اور اس کے اسرار سے واقف۔ اور انہیں کی کوشش سے پیر مہر علی شاہ کے سرقہ کا مقدمہ برآمد ہوا۔ اور بڑی صفائی سے ثابت ہو گیا کہ اس کی کتاب سیف چشتیائی مال مسروقہ ہے اور اس میں مہر علی کی عقل اور علم کا کچھ بھی دخل نہیں اور بجز اس کے کہ وہ اِس کارروائی سے نہ صرف جُرم سرقہ کا مرتکب ہوا بلکہ اُس نے اِس شیخی کو حاصل کرنے کے لئے بہت قابلِ شرم جُھوٹ بولا اور اپنی کتاب سیف چشتیائی میں اُس مُردہ بدقسمت کا نام تک نہیں لیا اور بڑے زور اور دعویٰ سے کہا کہ اِس کتاب کا مَیں مؤلف ہوں چنانچہ نقل خطوط یہ ہے۔

پہلے خط کی نقل

مرسل یزدانی و مامور رحمانی حضرت اقدس جناب مرزا جی صاحب دام برکاتکم و فیوضکم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 451

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 451

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/451/mode/1up


بہت ؔ سہل ہوگئی دوسرے لوگوں کی عبارتیں چُرالیں اور تفسیر کولِکھ مارا لیکن اوّل ہم اُن اشعار کے مقابل پر ان بزرگوں کی علمی طاقت کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر اس نمونہ میں پیر مہر علی صاحب نے اپنی کرامت دِکھلا دی تو پھر یقین ہے کہ وہ تفسیر نویسی میں بھی گذشتہ بُزدلی کو دُور کرکے سیدھی نیت سے میرے مقابل پر آجائیں گے لیکن کل کے دِن جبکہ ہمیں موضع بِھیْں سے پیرمہرعلی کی اس کرتوت پر اطلاع ہوئی۔ جس کی تفصیل حاشیہ میں درج ہے تب سے ہم ایسا

السّلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ۔ امّابعد۔ آپ کا خط رجسٹری شدہ آیا۔ دل غمناک کو تازہ کیا۔ روئداد معلوم ہوئی ۔ حال یہ ہے کہ محمد حسن کا مسودہ علیحدہ تو خاکسار کو نہیں دکھایا گیا کیونکہ اُس کے مَرنے کے بعد اس کی کتابیں اور سب کاغذات جمع کرکے مقفّل کئے گئے ہیں۔ شمس بازغہ اور اعجاز المسیح پر جو مذکور نے نوٹ کئے تھے وہ دیکھے ہیں۔ اور وُہی نوٹ گولڑی ظالم نے کتابیں منگوا کر درج کر دیئے ہیں اپنی لیاقت سے کچھ نہیں لکھا۔ اب محمد حسن کا والد وغیرہ میرے تو جانی دشمن بن گئے ہیں۔ کتابیں تو بجائے خود ایک ورقہ تک نہیں دکھاتے۔ پہلے بھی دیکھنے کا ذریعہ یہ ہوا تھا کہ جب گولڑی نے کتابیں یعنی شمس بازغہ اور اعجاز المسیح محمد حسن کے والد سے منگوائیں اور فارغ ہو کر واپس روانہ کیں توچونکہ وہ حامل کتب اجنبی تھا اِس لئے بھول کر میرے پاس مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ مولوی محمد حسن کا گھر کدھر ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کام۔ کہنے لگا کہ مہر علیشاہ نے مجھ کو کتابیں دے کر روانہ کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے والد کو یہ کتابیں شمس بازغہ اور اعجاز المسیح دے آ۔ پھر مَیں نے کتابیں لے کر دیکھیں تو ہر صفحہ ہر سطر پر نوٹ ہوئے ہوئے دیکھے۔ میرے پاس سیف چشتیائی بھی موجود تھی عبارت کو ملایا تو بعینہٖ وہ عبارت تھی۔ آپ کا حکم منظور لاکن محمد حسن کا والد کتابیں نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میرے رُوبرو بے شک دیکھ لو۔ مگر مہلت کے واسطے نہیں دیتا۔ خاکسار معذور ہے کیا کرے*۔ دوسری مجھ سے

* پھر بعد اس کے محمد حسن کے بیٹے نے جو اصل وارث ہے مبلغ 3۶ روپے لے کر وہ دونوں کتابیں جن پر محمد حسن متوفی کے نوٹ درج ہیں میرے معتبر کو دے دیں اور اب وہ میرے پاس موجود ہیں جن سے پیر مہر علی کی چوری ایسی کھلتی ہے جیسا کہ کوئی چور عین نقب لگاتے وقت پکڑا جائے۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ سچ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے انّی مھین من اراد اھانتک۔ ۱۲ من المؤلف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 452

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 452

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/452/mode/1up


سمجھتےؔ ہیں کہ گویا پیر صاحب فو ت ہو گئے اور اب اُن کو مخاطب کرنا بھی اُن کو وہ عزت دینا ہے جس کے وہ ہرگز لائق نہیں ہیں لیکن ہم نے مناسب دیکھا کہ ایک شروع کئے ہوئے مضمون کو انجام دے دیں اور حاشیہ کے پڑھنے سے ناظرین کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ جس قدر پیر مہر علی نے اعجاز المسیح پر نکتہ چینی کی ہے یا جو شمس بازغہ پر نکتہ چینی ہے یہ اُس کی طرف سے نکتہ چینی نہیں ہے بلکہ اصل نکتہ چینی کرنے والا محمد حسن بِھیْن ہے۔ اَور جب وہ دونوں کتابوں پر نکتہ چینی کر چکا

ایک غلطی ہو گئی کہ ایک خط گولڑی کو بھی لکھا کہ تم نے خاک لکھا کہ جو کچھ محمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر دئے۔ اِس واسطے گولڑی نے محمد حسن کے والد کو لکھاہے کہ ان کو کتابیں مت دکھاؤ کیونکہ یہ شخص ہمارا مخالف ہے اب مشکل بنی کہ محمد حسن کا والد گولڑی کا مُرید ہے اور اُس کے کہنے پر چلتا ہے۔ مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ مَیں نے گولڑی کوکیوں خط لکھا جس کے سبب سے سب میرے دشمن بن گئے۔ براہ عنایت خاکسارکو معاف فرماویں۔ کیونکہ خالی میرا آنا مُفت کا خرچ ہے اور کتابیں وہ نہیں دیتے۔ فقط۔

خاکسار شہاب الدین از مقام بِھیں تحصیل چکوال

دوسرے خط کی نقل

مکرمی و معظمی و مولائی جناب مولوی عبدالکریم صاحب السّلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہٗ

امابعد خاکسارخیریت سے ہے آپ کی خیریت مطلوب۔ مَیں آنے سے کچھ انکار نہ کر تا لاکن کتابیں نہیں دیتے جن پر نوٹ ہیں۔ یعنی شمس بازغہ اور اعجاز المسیح سیف چشتیائی میں جتنی سخت زبانی ہے اکثر محمد حسن کی ہے۔ اِسی وجہ سے اُس کی مَوت کا ۔۔۔ نمونہ ہؤا۔۔۔۔۔۔ اب میرے خط لکھنے سے گولڑی خوداقراری ہے چنانچہ یہ کارڈ گولڑی کے ہاتھ کا لکھا ہؤا ہے جو اس نے مولوی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 453

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 453

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/453/mode/1up


تو ؔ اُس نے میری کتاب کے حاشیہ پر مباہلہ کی دُعا لکھی یعنی یہ کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جُھوٹا ہے اُس کے لئے خدا تعالیٰ کی **** اور اُس کا قہر مانگا اور اب تک وہ دعاءِ مباہلہ کتاب کے حاشیہ پر خاص اُس کی قلم سے درج ہے چنانچہ فی الفور دُعا قبول ہو گئی اور بعد اس کے وہ ایک سخت بیماری اور سرسام میں مبتلا ہو کر چند روز میں ہی قبر میں جا پڑا اور کتاب کے چھپنے کی نوبت نہ آئی۔ وہی مضمون اُس کا پِیر مہر علی نے اپنے نام سے چھپوایا اور جس پر حسب درخواست اُس کی جو مباہلہ کے رنگ میں تھی خدا کا قہر گرا یعنی اپنی عزیز

کرم الدین صاحب کو لکھا ہے۔ غرض گولڑی نے محمد حسن کے والد کو بہت تاکید کی ہے ان کو کتابیں مت دکھاؤ یعنی اِس راقم خاکسار کو۔ گولڑی کارڈ میں لکھتا ہے کہ محمد حسن کی اجازت سے لکھا گیا مگر یہ اعتراف راستبازی کے تقاضا سے نہیں بلکہ اس لئے کہ یہ بھید ہم پرکھل گیا اس لئے ناچار شرمندہ ہو کرا قراری ہؤا۔ دُوسرے خط میں گولڑی کا کارڈ ہے جو اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر روانہ کیا ہے ملاحظہ ہو۔ خاکسارشہاب الدین از مقام بِھیْں

مولوی کرم الدین کے خط کی نقل

مکرمنا حضرت اقدس مرزا صاحب جی مدظلّہ العالی۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہٗ۔ مَیں ایک عرصہ سے آپ کی کتابیں دیکھا کرتا ہوں مجھے آپ کے کلام سے تعشق ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ عالم رؤیا میں بھی آپ کی نسبت اچھے واقعات دیکھے ہیں اکثر آپ کے مخالفین سے بھی جھگڑا کرتاہوں۔ اگرچہ مجھے ابھی تک جناب سے سلسلہ پیری مُریدی نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں میرے خیال میں بہت احتیاط درکار ہے جب تک بالمشافہ اطمینان نہ کیا جاوے بیعت کرنا مناسب نہیں ہوتا لیکن تاہم مجھے جناب سے غائبانہ محبت ہے مَیں نے چار پانچ یوم کا عرصہ ہوا ہے کہ جناب کو خواب میں دیکھا ہے آپ نے مجھے مبارکباد فرمائی

* اسلام میں *** اللہ علی الکاذبین کہنا ایک بددُعا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ جو شخص کاذب ہے وہ خدا کی رحمت سے نومید ہو اور اُس کے قہر کے نیچے آجائے۔ اِسی لئے قرآن شریف میں ایسے مَردوںیا ایسی عورتوں کے لئے جن پر مجرم ہونے کا شبہ ہو اور اُن پر اَور کوئی گواہ نہ ہو جس کی گواہی سے سزاد ی جائے۔ ایسی قسم رکھی ہے جو مؤکّد بہ *** ہوتا اِس کا نتیجہ وہ ہو جو گواہ کے بیان کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی سزا اور قہر الٰہی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 454

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 454

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/454/mode/1up


زندؔ گی سے خلاف خواہش اپنی فوت ہو گیا اُسی کے مضمون کی چوری کی۔ افسوس کہ اس قدر عظیم الشان معجزہ کے ظاہر ہونے کے بعدبھی پیر مہر علی اپنی شوخی سے بازنہ آیا اور وہ شخص جو اپنے مباہلہ کے اثر سے مر گیا اُسی کے پلید مال کی چوری کی۔

اب ہم بعض دوسرے اعتراضات اور شبہات پیر مہر علی شاہ کے جو درحقیقت محمد حسن متوفی کے ہیں مع جواب ذیل میں درج کرتے ہیں اور ناظرین سے امیدوار ہیں کہ وہ انصافاً گواہی دیں کہ کیا

ہے اور کچھ شیرینی بھی عنایت کی ہے اور اُس وقت میرے دل میں دو باتیں تھیں جن کو آپ نے بیان کر دیا ہے اور اُسی خواب کے عالم میں مَیں یہ کہتا تھا کہ آپ کے کشف کا تو مَیں قائل ہو گیا ہوں۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ بعض باتوں کی سمجھ بھی نہیں آتی ہے اِس واسطے میرا خیال ابھی تک جناب کی نسبت یک رُخہ نہیں ہے گو آپ کے صلاح و تورع کا مَیں قائل ہوں۔ مَیں نے اگلے روز آپؑ کی کتاب سرمہ چشم آریہ کی ابتدا میں چند اشعار فارسی اور چند اُردو پڑھے ہیں اور وہ پڑھ کر مجھے رونا آتا تھا اور کہتا تھا کہ کذّابوں کی کلام میں کبھی بھی ایسا درد نہیں ہوتا۔

کل میرے عزیز دوست میاں شہاب الدین طالب علم کے ذریعہ سے مجھے ایک خط رجسٹری شدہ جناب مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف سے ملا جس میں پیر صاحب گولڑی کی سیف چشتیائی کی نسبت ذکر تھا۔ یہاں شہاب الدین کو خاکسار نے بھی اس امر کی اطلاع دی تھی کہ پیر صاحب کی کتاب میں اکثر حصہ مولوی محمدحسن صاحب مرحوم کے اُن نوٹوں کا ہے جو مرحوم نے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے وہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آ گئی ہیں۔ مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصلہٖ درج کتاب پائے گئے یہ ایک نہایت سارقانہ کارروائی ہے کہ ایک فوت شدہ شخص کے خیالات لکھ کر اپنی طرف منسوب کر لئے اور اس کا نام تک نہ لیا۔ اور طرفہ یہ کہ بعض وہ عیوب جوآپ کی کلام کی نسبت وہ پکڑتے ہیں۔ پیر صاحب کی کتاب میں خود اس کی نظیریں موجود ہیں۔ وہ دونوں کتابیں چونکہ مولوی محمدحسن صاحب



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 455

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 455

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/455/mode/1up


یہ ؔ اعتراضات دیانت اور تقویٰ اور حق پرستی کی راہ سے کئے گئے ہیں یا بددیانتی اور ترک تقویٰ اور دھوکہ دہی اور ظلم اور تعصّب کے طریق سے لکھے گئے ہیں اور ہم اُن کے تمام اعتراضات اس جگہ بجنسہٖ اُن کی عبارت میں ہی نقل کر دیتے ہیں تا خلاصہ کرنے کی حالت میں شبہات پیدا نہ ہوں اور وہ یہ ہیں:۔

نقل مطابق اصل ازکتاب سیف چشتیائی صفحہ ۶ و ۷ و ۸

’’ نبوت اصلیّہ کے مدّعی ہونے کا ثبوت اور اُس کی تردید‘‘

کے باپ کی تحویل میں ہیں اس واسطے جناب کی خدمت میں وہ کتابیں بھیجنا مشکل ہے۔ کیونکہ اُن کا خیال آپ کے خلاف میں ہے اور وہ کبھی بھی اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہاں یہ ہو سکے گا کہ اُن نوٹوں کو بجنسہٖ نقل کرکے آپ کے پاس روانہ کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خاص آدمی جناب کی جماعت سے یہاں آ کر خود دیکھ جائے۔ لیکن جلدی آنے پر دیکھاجاسکے گا۔ پیر صاحب کا ایک کارڈ جو مجھے پرسوں ہی پہنچا ہے باصلہا جناب کے ملاحظہ کے لئے روانہ کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے خود اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے نوٹ انہوں نے چُرا کر سیف چشتیائی کی رونق بڑھائی ہے لیکن ان سب باتوں کو میری طرف سے ظاہر فرمایا جانا خلاف مصلحت* ہے۔ ہاں اگر میاں شہاب الدین کا نام ظاہر بھی کر دیا جائے تو کچھ مضائقہ نہ ہو گا۔ کیونکہ مَیں نہیں چاہتا کہ پِیر صاحب کی جماعت مجھ پر سخت ناراض ہو۔ آپ دُعا فرماویں کہ آپ کی نسبت میرا اعتقاد بالکل صاف ہو جاوے اور مجھے سمجھ آجاوے کہ واقعی آپ ملہم اور مامورمن اﷲ ہیں۔ جناب مولوی عبدالکریم صاحب و مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں دست بستہ السلام علیکم عرض ہے۔ زیادہ لکھنے میں ضیق وقت مانع ہے۔میاں شہاب الدین کی طرف سے بعد سلام علیکم مضمون واحد ہے۔ والسلام

خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از بِھیں تحصیل چکوال

مورخہ ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۰۲ء

* مولوی کرم الدین صاحب کو سہواً اِس طرف خیال نہیں آیا کہ شہادت کا پوشیدہ کرنا سخت گناہ ہے جس کی نسبت اٰثم قلبہٗ کا قرآن شریف میں وعید موجود ہے۔ لہٰذ اتقویٰ یہی ہے کہ کسی لوم لائم کی پروانہ کریں اور شہادت جو اپنے پاس ہو ادا کر دیں۔ سو ہم اِس بات سے معذور ہیں جو جرم اخفاء کے ممدو معاون بنیں۔ اور مولوی کرم الدین صاحب کا یہ اخفاء خدا کے حکم سے نہیں ہے صرف دِلی کمزوری ہے ۔ خدا ان کو قوت دے۔ ۱۲ من المؤلف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 456

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 456

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/456/mode/1up


’’دیکھوؔ اشتہار مذکور ‘‘ (۵ ؍ نومبر ۱۹۰۱ء جس کا عنوان ہے ایک غلطی کا ازالہ) صفحہ (۱) سطر (۱۳) چنانچہ وہ مکالماتِ الہٰیّہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ وحی اﷲ ہے ھو الّذی ارسل رسُولہٗ بالھُدیٰ و دین الحقّ لیظھرہٗ علی الدّین کلّہ دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ۔ اِس میں صاف طور پر اِس عاجز کو رسول کرکے پُکارا گیا ہے۔

دُوسرا خط مولوی کرم الدین صاحب بنام حکیم فضل دین صاحب معتبرایں عاجز

مکرم معظم بندہ جناب حکیم صاحب مدّظلّہ العالی

السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہٗ ۔ ۳۱ ؍ جولائی کو لڑکا * گھر پہنچ گیا۔ اُسی وقت سے کار معلومہ کی نسبت اس سے کوشش شروع کی گئی پہلے تو کتابیں دینے سے اُس نے سخت انکار کیا اور کہا کہ کتابیں جعفر زٹلی کی ہیں اور وہ مولوی محمد حسن مرحوم کا خط شناخت کرتا ہے اور اُس نے بتاکید مجھے کہا ہے کہ فوراً کتابیں لاہور زٹلی کے پاس پہنچا دوں لیکن بہت سی حکمت عملیوں اور طمع دینے کے بعد اُس کو تسلیم کرایا گیا مبلغ چھ روپیہ معاوضہ پر آخر راضی ہوا۔ اور کتاب اعجاز مسیح کے نوٹوں کی نقل دُوسرے نسخہ پر کرکے اصل کتاب جِس پر مولوی مرحوم کی اپنی قلم کے نوٹ ہیں ہمدست حامل عریضہ ابلاغ خدمت ہے کتاب وصول کرکے اس کی رسید حامل عریضہ کو مرحمت فرماویں اور نیز اگر موجود ہوں تو چھ روپے بھی حامل کو دے دیجئے گا تاکہ لڑکے کو دے دئے جاویں اور تاکہ دُوسری کتاب شمس بازغہ کے حاصل کرنے میں دِقت نہ ہو۔ کتاب شمس بازغہ کا جس وقت بے جلد نسخہ آپ روانہ فرمائیں گے فوراً اصل نسخہ جس پر نوٹ ہیں اسی طرح روانہ خدمت ہو گا آپ بالکل تسلّی فرماویں۔ انشاء اﷲ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہ ہو گی۔ اس لڑکے نے کہا ہے کہ اور بھی مولوی مرحوم کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی ایک نوٹ ہیں جو تلاش پر مل سکتے ہیں۔ جس وقت ہاتھ لگے تو اُن کا معاوضہ علیحدہ اُ س سے مقرر کرکے نوٹ قلمی فیضی مرحوم بشرط ضرورت لے کر ارسال خدمت ہوں گے آپ شمس بازغہ کا نسخہ

* لڑکے سے مراد محمد حسن متوفی کا لڑکا ہے جو اس کا وارث ہے اُسی نے بقول مولوی کرم دین صاحب چھ روپے نقد لے کر دونوں کتابیں یعنی اعجاز المسیح اور شمس بازغہ جن پر محمد حسن مذکور کے دستخطی نوٹ تھے ہم کو دے دیں اور مہر علی کی پردہ دری کا یہی موجب ہوا۔ من المؤلّف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 457

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 457

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/457/mode/1up


’’اقولؔ ۔ یہ آیت سورۂ فتح کے رکوع اخیر میں موجود ہے جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت اور آپ کے دین پاک کے غالب کر دینے کا ذکر ہے کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو خواب میں یا بیداری میں آیت مذکورہ سُنائی دے جیسا کہ اکثر حفاظ اور شاغلین کو کثرت استعمال و خیال کے سبب سے ایسا ہوا کرتا ہے۔ فرض کیا بذریعہ الہام ہی سہی۔ تو کیا وہ شخص بشہادت اس آیت کے رسول کہلوانے کا مجاز

بہت جلدی منگا کر روانہ فرماویں کیونکہ لڑکا صرف ایک ماہ کی رخصت پر گھر میں آیا ہے۔ اس عرصہ کے انقضاء پر اس نے کتاب لاہور لے جانی ہے اور پھر کتاب کا ملنا متعذر ہو جائے گا۔ چکوال سے تلاش کریں شاید نسخہ مل جاوے تو حامل عریضہ کے ہاتھ روانہ فرماویں اور اپنا آدمی بھی ساتھ بھیج دیں تاکہ کتاب لے جاوے۔ امید ہے کہ میری یہ ناچیزخدمت حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت قبول فرما کر میرے لئے دُعاء خیر فرمائیں گے لیکن میرا التماس ہے کہ میرا نام بالفعل ہرگز ظاہر نہ کیا جاوے تاکہ پھر بھی مجھ سے ایسی مدد مل سکے۔ مولوی شہاب الدین کی جانب سے السلام علیکم ۔ والسلام

خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از بھیں تحصیل چکوال ۳؍ اگست ۱۹۰۲ ؁ء

پیر مہر علی شاہ کے کارڈ کی نقل جس میں وہ اقرار کرتا ہے کہ کتاب سیف چشتیائی

درحقیقت محمد حسن کا مضمون ہے

کارڈ۔محبی و مخلصی مولوی کرم الدین صاحب سلامت باشند و علیکم السلام ورحمۃ اﷲ۔ اما بعد یک نسخہ بذریعہ ڈاک یا کسے آدم معتبر فرستادہ خواہد شد۔ آپ کو واضح ہو کہ اس کتاب (سیف چشتیائی) میں تردید متعلق تفسیرفاتحہ (یعنی اعجاز المسیح) جو فیضی صاحب مرحوم ومغفور کی ہے باجازت* اُن کے مندرج ہے۔ چنانچہ فیما بین تحریراً و نیز مشافۃً جہلم میں قرارپا چکا تھا بلکہ فیضی صاحب مرحوم کی درخواست پر مَیں نے تحریر جواب شمس بازغہ پر مضامین ضرور یہ لاہور میں اُن کے پاس بھیج دئے تھے اور ان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے نام پر طبع کرا دیویں۔ افسوس کہ حیات نے وفا نہ کی اور نہ وہ میرے مضامین مرسلہ لاہور میں مجھے ملے۔آخر الامر مجھ کو ہی یہ کام کرنا پڑا۔ لہٰذا آپ سے ان کی کتابیں مستعملہ منگوا کر تفسیر کی تردید

* اگر اجازت سے یہ کام تھا چوری سے نہیں تھا تو کیوں کتاب میں محمد حسن کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اس کی اجازت سے مَیں نے اس کے مضمون لکھے ہیں اور کیوں جُھوٹ بولا گیا کہ یہ مَیں نے تالیف کی ہے اور کیوں اپنی کتاب میں اس کی کوئی تحریر طبع نہیں کی جس میں ایسی اجازت تھی اور کیوں اُس وقت تک خاموش رہا جب تک کہ خدا نے پردہ دری کر دی اور چوری پکڑی گئی۔ من المؤلف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 458

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 458

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/458/mode/1up


ہو ؔ سکتا ہے ۔ ہرگز نہیں۔ ورنہ ۱؂ کے سننے سے محمد رسول اﷲ صلی ا ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اور اصحاب کبار بھی، ہر ایک سننے والا کیوں نہ ہو جبکہ (رسولہ) کے سننے سے رسول بن گیا تو (محمد رسول اللّٰہ) کے سننے سے محمد رسول اﷲ اور (والذین معہ) کے سننے سے اصحاب کباراور (الکفّار) کے سننے سے کفار کیوں نہیں بن سکتا۔ ایسا ہی

مندرجہ حسب اجازت سابقہ بتغیر ماکی گئی۔ آئندہ شاید آپ کو یا مولوی غلام محمد صاحب کو تکلیف اٹھانی ہو گی۔ والسلام

نقلؔ اُن نوٹوں کی جو محمد حسن نے

اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر لکھّے تھے

یہ تمام نقل بعینہٖ ہمارے پاس آ گئی ہے جس کو محمد حسن متوفی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور چونکہ یہ تمام نوٹ وہی ہیں جو کتاب سیف چشتیائی میں لکھے گئے ہیں اس لئے اُن کا اس جگہ نقل کرنا طوالت سے خالی نہیں مگر اس بات کے گواہ کہ یہی وہ نوٹ ہیں جو محمد حسن نے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر لکھے تھے پانچ آدمی ہیں (۱) پہلے میاں شہاب الدین بھیں جیسا کہ ان کے دونوں خطوط ہم نقل کر چکے ہیں۔ (۲) دوسرے مولوی کرم الدین صاحب دوست پیر مہر علی صاحب جن کا ہم سے کچھ بھی تعلق نہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اعجاز المسیح اور شمس بازغہ کے حاشیہ پر سے یہ نوٹ نقل کئے ہیں جن کا خط ہم ابھی نقل کر چکے ہیں (۳) مہر علی شاہ کا اپنے ہاتھ کا کارڈ بنام مولوی کرم الدین صاحب جو ابھی نقل ہو چکا ہے (۴) محمد حسن متوفی کا باپ جس نے وہ دونوں کتابیں میاں شہاب الدین اور مولوی کرم الدین صاحب کے حوالہ کیں جن پر محمدحسن متوفی کے نوٹ لکھے ہوئے تھے اور نیز اپنے روبرو یہ نوٹ نقل کرائے۔ (۵) محمد حسن متوفی کا لڑکا جس نے اپنے گھر سے اس کام کے لئے کتابیں نکالیں کہ اپنے خسر کو دیوے تا وہ فروخت کرا دیوے اور جواب مفصل حاشیہ میں آگیا ہے ان نوٹوں میں اس نے اپنی جہالت اور تعصّب اور شتاب کاری کی وجہ سے بہت سی قابلِ شرم غلطیاں کی ہیں۔ لیکن اب مُردہ کو ملامت کرنا بے فائدہ ہے۔ اسؔ قدر اس کے نوٹوں میں فحش غلطیاں ہیں کہ اگر اس کو جلدی سے موت نہ پکڑ لیتی تو وہ ضرور نظر کرکے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 459

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 459

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/459/mode/1up


( ) ۱؂ کے سننے سے کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ مَیں نبی و رسول ہوں اور نئی نماز و زکوٰۃ کا حکم میرے پر نازل ہوا ہے ہرگز نہیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتا تو پھر آیت ۲؂ کے الہام ہونے سے بروزی رسالت کو (رسولہ) کے لفظ سے کس طرح مراد لے سکتا ہے۔ بینوا وانصفوا۔ الغرؔ ض برتقدیر تسلیم الہام بآیۃ مذکورہ کادیانی کو استحقاق (رسول) کہلوانے کا ہرگز نہیں پہنچتا۔ بفرض محال اگر آیت مذکورہ کے سننے سے (رسول) کہلوانے کے مستحق بنیں تو اُسی معنے سے رسول ہوں گے جو معنے آیت مذکورہ میں مراد ہے یعنی رسول اصلی ورنہ دلیل دعویٰ پر منطبق نہ ہوگی۔ کیونکہ دعویٰ میں رسول ظلّی اور دلیل یعنی (ارسل رسُولہ) میں رسول اصلی ع

ببیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا *

اور نیز (رسولہ) سے رسول ظلّی مراد لینے کی تقدیر پر تحریف معنوی کلام الٰہی میں لازم آوے گی۔ لہٰذا استدلال بآیت مسطورہ بلند آواز سے پکار رہا ہے کہ کادیانی رسول اصلی ہونے کا مدعی ہے۔ چنانچہ اس کا للکار کر کہلوانا بھی اِس پر شاہد ہے ۔ کیونکہ صرف فنا فی الرسول ہونا اس کا مقتضیا نہیں۔

پھر اُسی اشتہار میں متصل عبارت منقولہ بالا کے لکھتے ہیں۔ ’’پھر اس کے بعد اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اﷲ ہے۔ جَری اﷲ فی حلل الانبیاء یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلّوں میں۔ دیکھو براہین صفحہ ۵۰۴۔‘‘

الجواب

اوّل یہ وسوسہ پیر جی کا کہ کیوں یہ تمہاری وحی از قبیل اضغاث احلام اور حدیث النفس نہیں ہے۔

اپنی غلطیوں کی حتی المقدور اصلاح کرتا۔ مگر یہ سوال کہ اس قدر جلد تر کیوں موت آ گئی اِس کا جواب یہی ہے کہ اس موت کی تین وجہ ہیں۔ اوّل تو یہی کہ اُس نے اِن نوٹوں میں اپنے مُنہ سے موت مانگی۔ اور اپنے ہاتھ سے کتاب پر لکھا کہ *** اﷲ علی الکاذبین۔ چنانچہ جن نوٹوں میں اُس نے فریق کاذب

*خدا کی وحی پر یہ دلیل پیش کرنا قیاس مع الفاروق ہے۔ وہ اپنی کلام میں ہر ایک اختیار رکھتا ہے۔ اُس نے رسول کا لفظ اُن رسولوں کے لئے بھی استعمال کیا ہے کہ جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت کمتر تھے اور آپ کے لئے بھی جو سب سے افضل بلکہ سب کے لئے بطور افعل کے ہیں وہی رسول کا لفظ استعمال ہوا۔ اور آیات کے معنوں میں تحریف وہ ہے جو انسان کرے نہ کہ جو خود خدا ایک آیت کے دوسرے معنے کرے وہ بھی تحریف ہے۔ من المؤلّف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 460

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 460

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/460/mode/1up


اس کا یہی جواب ہے کہ جیسا کہ وحی تمام انبیاء علیہم السلام کی حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک از قبیل اضغاث احلام و حدیث النفس نہیں ہے۔ ایسا ہی یہؔ وحی بھی اُن شبہات سے پاک اور منزہ ہے۔ اور اگر کہو کہ اُس وحی کے ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی معجزات اور پیشگوئیاں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گذشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں اور نیز ان کی پیشگوئیاں اور معجزات اس وقت محض بطور قصوں اور کہانیوں کے ہیں مگر یہ معجزات اور پیشگوئیاں ہزارہا لوگوں کے لئے واقعات چشم دید ہیں اور اس مرتبہ اور شان کے ہیں کہ اس سے بڑھ کر متصوّر نہیں یعنی دنیا میں ہزارہا انسان

پرؔ ہم دونوں فریق میں سے *** کی ہے وہ اس وقت ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ جو پانچ گواہوں کی شہادت سے وہی نوٹ ہیں جو اس نے اپنی قلم سے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر لکھے تھے اور خود اصل نوٹ جن کی یہ نقل اس کے باپ نے ان گواہوں کے حوالہ کی اُس کے گھرمیں موجود* ہے جو اُس کے مباہلہ کی ایک پختہ نشانی ہے جو باوا نانک کے چولہ کی طرح زمانہ دراز تک یادگار رہے گی اور یہ مباہلہ جس کے بعد وہ دو ہفتہ بھی زندہ نہ رہ سکا۔ اُن لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے جو کہا کرتے ہیں کہ ہم اس مباہلہ کو مانیں گے جس کے آخری نتیجہ پر دو تین ہفتہ سے زیادہ طول نہ کھچے۔ سو اب ہم منتظر ہیں کہ وہ اس نشان کو مانتے ہیں یا نہیں اور عجیب تر کہ محمد حسن مباہلہ کے بعد مرا۔ اسی طرح غلام دستگیر قصوری کا حال ہوا تھا کہ اس نے بھی محمد حسن کی طرح میری ردّ میں ایک کتاب بنائی اور اس کا نام فتح رحمانی رکھا اور اس کے صفحہ ۲۷ میں جوش میں آکر دعا کر دی جس کا یہ خلاصہ ہے کہ یاالٰہی جو شخص کاذب ہے اور جھوٹ بول رہا ہے اور سچ کو چھوڑ رہا ہے اس کو ہلاک کر۔آمین۔ تب ایک مہینہ بھی اس کتاب کے لکھنے

* بعد اس کے وہ کتابیں محمد حسن کے بیٹے سے ہم کو مل گئیں جن پر اصل نوٹ ہیں یعنی محمد حسن کے خود

دستخطی وہ نوٹ ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 461

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 461

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/461/mode/1up


اُنؔ کے گواہ ہیں مگر گذشتہ نبیوں کے معجزات اور پیشگوئیوں کا ایک بھی زندہ گواہ پیدا نہیں ہو سکتا باستثناء ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے کہ آپ کے معجزات اور پیشگوئیوں کا میں زندہ گواہ موجود ہوں اور قرآن شریف زندہ گواہ موجود ہے اور مَیں وہ ہوں جس کے بعض معجزات اور پیشگوئیوں کے کروڑہا انسان گواہ ہیں۔ پھر اگر درمیان میں تعصب نہ ہو تو کون ایماندار ہے جو واقعات پر اطلاع پانے کے بعد اِس بات کی گواہی نہ دے کہ درحقیقت

پرؔ نہ گذرنے پایا تھا کہ آپ ہلاک ہو گیا اس کی یہ کتاب یعنی فتح رحمانی چھپی ہوئی موجود ہے دیکھو صفحہ ۲۶ و ۲۷ ۔ اَور خدا سے ڈرو۔ یہ دونوں پنجاب کے آدمی ہیں جو اپنے مُنہ سے مباہلہ کرکے آپ ہی مر گئے اگر یہ نشان نہیں تو معلوم نہیں ہمارے مخالفوں کے نزدیک نشان کس چیز کا نام ہے۔ * دوسری محمد حسن کی موت کا موجب وہ پیشگوئی ہے جو اعجاز المسیح کے ٹائٹل پیچ پر لکھی گئی اور وہ یہ ہے۔ من قام للجواب و تنمّر۔ فسوف یری انہ تندّم وتدمّر یعنی جو شخص اس کتاب کے جواب پر آمادہ ہو گا اور پلنگی دکھلائے گا وہ عنقریب دیکھے گا کہ اس کام سے نامراد رہا اور اپنے نفس کا ملامت گر ہوا اور اس سے بڑھ کر کیا نامرادی ہو سکتی ہے کہ محمد حسن حسرت کو ساتھ ہی لے گیا اور مر گیا۔ اور اس ارادہ کو جو کہ وہ عربی کتاب کا عربی میں جواب لکھے پُورا نہ کر سکا اور نہ کچھ شائع کر سکا۔ تیسری محمد حسن کی موت کا موجب وہ دُعائے مباہلہ ہے جو اعجاز المسیح کے صفحہ ۱۹۹ میں کی گئی تھی۔ چوتھے محمد حسن کی موت کا موجب وہ وحی الٰہی ہے جو مُدّت ہوئی جو دنیا میں شائع ہو چکی یعنی یہ کہ انّی مھین من اراد اھانتک یعنی مَیں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت چاہتا ہے۔ پس چونکہ اس نے اعجاز المسیح پر قلم اٹھا کر میری ذلت کا ارادہ کیا اس لئے خدا نے اُس کو ذلیل کر دیا اور اپنے مُنہ سے موت مانگ کر چند روز میں ہی مر گیا اور اپنی موت کو ہمارے لئے ایک نشان چھوڑ گیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ منہ

* اسی طرح محی الدین لکھو کے والے کا حال ہوا جب اس نے یہ الہام چھپوایا کہ ’’مرزا صاحب فرعون‘‘ تب اس کی وفات سے پہلے میں نے اس کو بذریعہ ایک خط کے جو اگست ۱۸۹۴ء کو لکھا گیا تھا اطلاع دی کہ اب وہ فرعون کی طرح اِس موسیٰ کے سامنے اپنی سزا کو پہنچے گا۔ چنانچہ انہیں دِنوں اور اس کی زندگی میں وہ خط الحق سیالکوٹ میں چھپا اور پھر اُس کے مَرنے کے بعد اس نشان کے اظہار کے لئے وہی خط مع اس کی تاریخ وفات کے اخبار الحکم قادیان مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۱ء میں چھاپا گیا۔ دیکھو الحکم ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ کالم ۲ و ۳ ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 462

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 462

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/462/mode/1up


اکثرؔ گذشتہ نبیوں کے معجزات کی نسبت یہ معجزات اور پیشگوئیاں ہر ایک پہلو سے بہت قوی اور بہت زیادہ ہیں۔ اور اگر کوئی اندھا انکار کرے تو ہم موجود ہیں اور ہمارے گواہ موجود ہیں وَلَیس الخبر کالمعاینۃ۔ پھر جس حالت میں صدہا نبیوں کی نسبت ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سبقت لے گئی ہیں تو اب خود سوچ لو کہ اس وحی الٰہی کو اضغاث احلام اور حدیث النفس کہنا در حقیقت تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت سے انکار کرنا ہے اور اگر شک ہو تو خدا تعالیٰ کا خوف کر کے ایک جلسہ کرو اور ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سنو اور ہمارے گواہوں کی شہادت رویت جو حلفی شہادت ہو گی قلمبند کرتے جاؤ اور پھر اگر آپ لوگوں کے لئے ممکن ہو تو باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں کسی نبی یا ولی کے معجزات کو ان کے مقابل پیش کرو لیکن نہ قصوں کے رنگ میں بلکہ رویت کے گواہ پیش کرو۔ کیونکہ قصے تو ہندؤں کے پاس بھی کچھ کم نہیں۔ قصوں کو پیش کرنا تو ایسا ہے جیسا کہ ایک گوبر کا انبار مشک اور عنبر کے مقابل پر۔ مگر یاد رکھو کہ ان معجزات اور پیشگوئیوں کی نظیر جو میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں کمیت اور کیفیت اور ثبوت کے لحاظ سے ہرگز پیش نہ کر سکو گے۔ خواہ تلاش کرتے کرتے مر بھی جاؤ۔ پھر اگر یہ وحی جس کی تائید میں یہ نشان ظاہر ہوئے خدا کا کلام نہیں ہے تو پھر تو تمہیں لازم ہے کہ دہریہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں سے انکار کر دو کیونکہ نبوت کی عمارت کی شکست ریخت جس قدر ہو چکی ہے اب خدا تعالیٰ ان تازہ معجزات اور پیشگوئیوں سے سب کی مرمت کر رہا ہے اور اب وہ گزشتہ قصوں کو واقعات کے رنگ میں دکھلا رہا ہے۔ اور منقولات کو مشہودات کا پیرایہ پہنا رہا ہے تا جو لوگ شکوک کے گڑھے میں گر گئے ہیں دوبارہ ان کو یقین کا لباس پہناوے لہٰذا جو شخص مجھے قبول کرتا ہے وہ تمام انبیاء اور ان کے معجزات کو بھی نئے سرے قبول کرتا ہے اور جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا اس کا پہلا ایمان بھی کبھی قائم نہیں رہے گا کیونکہ اس کے پاس نرے قصے ہیں نہ مشاہدات۔ خدا نمائی کا آئینہ میں ہوں جو شخص میرے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 463

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 463

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/463/mode/1up


پاسؔ آئے گا اور مجھے قبول کرے گا وہ نئے سرے اُس خدا کو دیکھ لے گا جس کی نسبت دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصے باقی ہیں۔ میں اُس خدا پر ایمان لایا ہوں جس کو میرے منکر نہیں پہچانتے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جس پر وہ ایمان لاتے ہیں اُن کے وہ خیالی بُت ہیں نہ خدا۔ اسی وجہ سے وہ بت ان کی کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ ان کو کچھ قوت نہیں دے سکتے۔ ان میں کوئی پاک تبدیلی پیدانہیں کر سکتے۔ ان کے لئے کوئی تائیدی نشان نہیں دکھلا سکتے۔ اور یاد رہے کہ یہ اندھوں کے بیہودہ شکوک اور شبہات ہیں جو اس وحی الٰہی کی نسبت ان کے دلوں کو پکڑتے ہیں جو میرے پر نازل ہو رہی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ خدا کا کلام نہ ہو بلکہ انسان کے اپنے دل کے ہی اوہام ہوں۔ مگر ان کو یاد رہے کہ خدا اپنی قدرتوں میں کمزور نہیں وہ یقین دلانے کے لئے ایسے خارق عادت طریقے اختیار کر لیتا ہے کہ انسان جیسے آفتاب کو دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ یہ آفتاب ہے ایسا ہی خدا کے کلام کو پہچان لیتا ہے۔ کیا ان کا یہ خیال ہے کہ آدم سے لے کر آنحضرت تک خدا تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ اپنی پاک وحی کے ذریعہ سے حق کے طالبوں کو سرچشمہء یقین تک پہنچاوے مگر پھر بعد اس کے اُس فیضان پر قادر نہ رہا۔ یا قادر تو تھا مگر دانستہ اس امت غیر مرحومہ کے ساتھ بخل کیا اور اس دعا کو بھول گیا جو آپ ہی سکھلائی تھی ۔ ۱؂

اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ تم نے کیونکر پہچانا اور یقین کیا کہ وہ کلمات جو تمہاری زبان پر جاری کئے جاتے ہیں وہ خدا کا کلام ہے حدیث النفس یا شیطانی القاء نہیں تو میری روح اس سوال کا مندرجہ ذیل جواب دیتی ہے:۔

(۱) اوّل جو کلام مجھ پر نازل ہوتا ہے اس کے ساتھ ایک شوکت اور لذت اور تاثیر ہے۔ وہ ایک فولادی میخ کی طرح میرے دل کے اندر دھنس جاتا ہے اور تاریکی کو دور کرتا ہے اور اس کے ورود سے مجھے ایک نہایت لطیف لذت آتی ہے۔ کاش اگر میں قادر ہو سکتا تو میں اس کو بیان کرتا۔ مگر روحانی لذتیں ہوں خواہ جسمانی ان کی کیفیات کا پورا نقشہ کھینچ کر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 464

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 464

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/464/mode/1up


دکھلاناؔ انسانی طاقت سے بڑھ کر ہے۔ ایک شخص ایک محبوب کو دیکھتا ہے اور اس کی ملاحت حُسن سے لذت اٹھاتا ہے مگر وہ بیان نہیں کر سکتا کہ وہ لذت کیا چیز ہے اسی طرح وہ خدا جو تمام ہستیوں کا علّت العلل ہے۔جیسا کہ اس کا دیدار اعلیٰ درجہ کی لذت کا سرچشمہ ہے ایسا ہی اس کی گفتار بھی لذات کا سر چشمہ ہے۔ اگر ایک کلام انسان سنے یعنی ایک آواز اس کے دل پر پہنچے اور اس کی زبان پر جاری ہو اور اس کو شبہ باقی رہ جاوے کہ شائد یہ شیطانی آواز ہے یا حدیث النفس ہے تو در حقیقت وہ شیطانی آواز ہو گی یا حدیث النفس ہو گی کیونکہ خدا کا کلام جس قوت اور برکت اور روشنی اور تاثیر اور لذت اور خدائی طاقت اور چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے خود یقین دلا دیتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور ہرگز مردہ آوازوں سے مشابہت نہیں رکھتا بلکہ اس کے اندر ایک جان ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک طاقت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک کشش ہوتی ہے اور اس کے اندر یقین بخشنے کی ایک خاصیت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک لذت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک روشنی ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک خارق عادت تجلی ہوتی ہے اوراس کے ساتھ ذرّہ ذرّہ وجود پر تصرف کرنے والے ملایک ہوتے ہیں اور علاوہ اس کے اس کے ساتھ خدائی صفات کے اور بہت سے خوارق ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ ایسی وحی کے مورد کے دل میں شبہ پیدا ہو سکے بلکہ وہ شبہ کو کفر سمجھتا ہے اور اگر اس کو کوئی اور معجزہ نہ دیا جاوے تو وہ اس وحی کو جو ان صفات پر مشتمل ہے بجائے خود ایک معجزہ قرار دیتا ہے۔ ایسی وحی جس شخص پر نازل ہوتی ہے اس شخص کو خدا کی راہ میں اور خدا کی محبت میں ایسے عاشق زار کی طرح بنا دیتی ہے جو اپنے تئیں صدق و ثبات کے کمال کی وجہ سے دیوانہ کی طرح بنا دیتا ہے اس کا یقین اس کے دل کو شہنشاہ کر دیتا ہے وہ میدان کا بہادر اور استغناء کے تخت کا مالک بن جاتا ہے۔ یہی میرا حال ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ قبل اس کے جو میں معجزات دیکھوں اور آسمانی تائیدوں کا مشاہدہ کروں میں اس کی کلام سے ہی اس کی طرف ایساکھینچا گیا کہ کچھ اٹکل نہیں آتی کہ مجھے کیا ہوگیا تیز تلواریں میرے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 465

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 465

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/465/mode/1up


اسؔ پیوند کو چھڑا نہیں سکتیں۔ کوئی آگ مجھے ڈرا نہیں سکتی۔ وہ کشش جس نے میرے دل پر کام کیا وہ دلائل سے باہر ہے اور بیان سے بلند تر اور براہین سے بالاتر۔ ابتدا میں کلام تھا اُس کلام نے جو کچھ کیا سو کیا۔ وہ خدا جو نہاں در نہاں ہے اس نے میری روح پر ابتدا میں محض کلام کے ساتھ تجلی کی اور اپنے مکالمات کا دروازہ میرے پر کھولا۔ پس وہی ایک بات تھی جو بالخصوص میرے لئے کافی کشش ہوئی اور حضرت احدیّت کی طرف مجھے کھینچ کر لے گئی۔ اور یہ کہ کلام کی طاقت نے میرے دل پر کیا کیا اثر ڈالے اور مجھے کہاں تک پہنچا دیا اور کیا کیا تبدیلیاں کیں اور کیا میرے دل میں سے لے لیا اور کیا دے دیا۔ ان باتوں کو میں کن لفظوں میں ادا کروں اور کس پیرایہ میں دلوں پر بٹھا دوں۔ جن خارق عادت عنایات کے ساتھ وہ مجھ سے نزدیک ہوا کوئی نہیں جانتا مگر میں۔ اور جس محبت کے مقام پر میرا قدم ہے کوئی نہیں جانتا مگر وہ۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ابتدا اس ترقی اور تعلق کا خدا کا کلام ہے جس کی ناگہانی کشش نے مجھے ایسا اٹھا لیاجیسا کہ ایک زبردست بگولہ ایک تنکے کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیتا ہے۔ پس میرے پاس یہ ذکر کرنا کہ کیوں وہ کلام جو تم پر نازل ہوا حدیث النفس نہیں۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ کوئی کہے کہ کیوں ممکن نہیں کہ تمہارا یہ خیال کہ تم آنکھوں سے دیکھتے ہو اور زبان سے بولتے ہو اور کانوں سے سنتے ہو یہ غلط خیال ہو۔ پس عزیزو! تم سوچو اور سمجھ لو کہ کیا وہ شخص جس کو معلوم ہے کہ آنکھ بند کرنے سے پھر کچھ دیکھ نہیں سکتا اور کانوں کے بند کرنے سے پھر کچھ سن نہیں سکتا اور زبان کے کاٹے جانے سے پھر کچھ بول نہیں سکتا وہ ایسے منکرانہ جرح کو کچھ حقیقت نہیں سمجھے گا یا شک میں پڑے گا کہ شائد میں آنکھ سے نہیں دیکھتا اور کان سے نہیں سنتا اور زبان سے نہیں بولتا۔ سو اسی طرح میرا حال ہے۔ خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اور ہوتا ہے وہ میری روحانی والدہ ہے جس سے میں پیدا ہوا۔ اس نے مجھے ایک وجود بخشا ہے جو پہلے نہ تھا اور ایک روح عطا کی جو پہلے نہ تھی۔ میں نے ایک بچہ کی طرح اس کی گود میں پرورش پائی اور اس نے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 466

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 466

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/466/mode/1up


مجھےؔ ہر ایک ٹھوکر سے سنبھالا اور ہر ایک گرنے کی جگہ سے بچا لیا۔ وہ کلام ایک شمع کی طرح میرے آگے آگے چلا یہاں تک کہ میں منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ اس سے زیادہ کوئی بد ذاتی نہیں ہو گی کہ میں یہ کہوں کہ وہ خدا کا کلام نہیں۔ میں اسی طرح اس کو خدا کا کلام جانتا ہوں جس طرح میں یقین رکھتا ہوں کہ میں زبان سے بولتا ہوں اور کانوں سے سنتا ہوں اور میں کیونکر اس سے انکار کروں اس نے تو مجھے خدا دکھلایا اور چشمہ شیریں کی طرح معارف کا پانی مجھے پلاتا رہا۔ اور ایک ٹھنڈی ہوا کی طرح ہر ایک حبس کے وقت میں مجھے راحت بخش ہوا۔ وہ ان زبانوں میں بھی مجھ پر نازل ہوا جن زبانوں کو میں نہیں جانتا تھا جیسا کہ زبان انگریزی اور سنسکرت اور عبرانی۔ اس نے بڑی بڑی پیشگوئیوں اور عظیم الشان نشانوں سے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کا کلام ہے اور اس نے حقائق و معارف کا ایک خزانہ میرے پر کھول دیا جس سے میں اور میری تمام قوم بے خبر تھی۔ وہ کبھی کبھی زبان عربی یا انگریزی یا کسی دوسری زبان کے ان دقیق اور نا معلوم الفاظ میں میرے پر نازل ہوا جن سے میں بے خبر تھا۔ تو کیا باوجود ان روشن ثبوتوں کے کوئی شک کا مقام ہو سکتا ہے کیا یہ باتیں پھینک دینے کے لائق ہیں کہ ایک کلام جس نے معجزہ کی طاقت دکھلائی اور اپنی قوی کشش* ثابت کی اور غیب کے بیان کرنے میں وہ بخیل نہیں نکلا بلکہ ہزارہا امورغیبیہ اس نے ظاہر کیے۔ اور ایک باطنی کمند سے مجھے اپنی طرف کھینچا اور ایک کمند دنیا کے سعید دلوں پر ڈالا اور میری طرف ان کو لایا اور ان کو آنکھیں دیں جن سے وہ دیکھنے لگے اور کان دئیے جن سے وہ سننے لگے اور صدق و ثبات بخشا جس سے وہ اس راہ میں قربان ہونے کے لئے موجود ہو گئے تو کیا یہ تمام کاروبار شیطانی یا وسوسہ نفسانی ہے۔ کیا شیطان خدا کے برابر ہو سکتا ہے تو پھر کیوں وہ تمہاری مدد نہیں کرتا۔ سنو وہ جس نے یہ کلام نازل کیا وہ کیا کہتا ہے اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور

* بعض میرے معجزات کے ظہور کا باعث خود میرے دشمن ہو گئے کہ انہوں نے مجھ کو مقابل پر رکھ کر خود دعا کر دی کہ جو ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے جیسا کہ مولوی غلام دستگیر قصوری اور مولوی اسماعیل علی گڑھی اور جیسا کہ جھوٹے پر *** کی دعا محمد حسین متوفی نے کی اور پھر بعد اس کے وہ سب کے سب مر گئے اور یقیناًسمجھو کہ اگر ان میں سے ہزار مولوی بھی مجھے مقابل رکھ کر ایسی دعا کرتا کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے تو ضرور وہ تمام گروہِ علماء مر جاتا جیسا کہ یہ لوگ مر گئے کیا کسی مغرور مولوی کو اس معجزہ میں بھی شک ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 467

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 467

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/467/mode/1up


حملوںؔ سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ سو ضرور ہے کہ یہ زمانہ گذر نہ جائے اور ہم اس دنیا سے کوچ نہ کریں جب تک خدا کے وہ تمام وعدے پورے نہ ہوں۔ جو شخص تاریکی میں پڑا ہوا ہے اور اس سے بے خبر ہے کہ خدا کا یقینی اور قطعی کلام بھی اس کے بندوں پر نازل ہوا کرتا ہے وہ خدا کے وجود سے ہی بے خبر ہے لہٰذا وہ اپنی طرح تمام دنیا کو وساوس کے نیچے پامال دیکھتا ہے اور اس کا یہی عقیدہ ہوتا ہے کہ بجز وساوس اور اضغاث احلام اور حدیث النفس کے اور کچھ نہیں اور غایت کار وہ ظنی طور پر نہ یقینی اور قطعی طور پر الہام الٰہی کا خیال دل میں لاتا ہے مگر ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ جس دل پر در حقیقت آفتاب وحی الٰہی تجلی فرماتا ہے اس کے ساتھ ظن اور شک کی تاریکی ہرگز نہیں رہتی۔ کیا خالص نور کے ساتھ ظلمت رہ سکتی ہے۔ پھر جس حالت میں موسیٰ کی ماں کو بھی یقینی الہام ہوا جس پر پورا یقین رکھ کر اس نے اپنے بچہ کو معرضِ ہلاکت میں ڈال دیا اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بجرم اقدام قتل مجرم نہ ہوئی تو کیا یہ امت اسرائیل کے خاندان کی عورتوں سے بھی گئی گذری ہے اور پھر اسی طرح مریم کو بھی یقینی الہام ہوا جس پر بھروسہ کر کے اس نے قوم کی کچھ پرواہ نہیں کی توحیف ہے اس امت مخذول پر جو ان عورتوں سے بھی کم تر ہے۔ پس اس صورت میں یہ امت خیر الامم کا ہے کو ہوئی بلکہ شرالامم اور اجھل الامم ہوئی۔ اسی طرح خضر جو نبی نہیں تھا اور اسے علم لدُنّی دیا گیا تو کیا اگر اس کا الہام ظنی تھا یقینی نہیں تھا تو کیوں اس نے ایک ناحق بچہ کو قتل کر دیا۔ اور اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ الہام کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو غسل دینا چاہئے یقینی اور قطعی نہ تھا تو کیوں انہوں نے اس پر عمل کیا۔ پس اگر ایک شخص اپنی نابینائی سے میری وحی سے منکر ہے تا ہم اگر وہ مسلمان کہلاتا ہے اور پوشیدہ دہریّہ نہیں تو اس کے ایمان میں یہ بات داخل ہونی چاہئے کہ یقینی قطعی مکالمہ الٰہیہ ہو سکتا ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کی وحی یقینی پہلی امتوں میں اکثر مردوں اور عورتوں کو ہوتی رہی ہے اور وہ نبی بھی نہ تھے اس امت میں بھی اس یقینی اور قطعی وحی کا وجود ضروری ہے۔ تا یہ امت بجائے افضل الامم ہونے کے احقر الامم نہ ٹھہر جائے۔ سو خدا نے آخری زمانہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 468

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 468

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/468/mode/1up


میںؔ اکمل اور اتم طور پر یہ نمونہ دکھایا ان واقعات سے تعجب نہیں کرنا چاہئے بلکہ در حقیقت انسان کی نجات اسی پر موقوف ہے کہ یا تو وہ خود ایسا شخص ہو جو براہ راست خدا تعالیٰ سے شرف مکالمہ اور مخاطبت رکھتا ہو مگر ایسا مکالمہ مخاطبہ نہ ہو کہ جس میں قطعی فیصلہ نہ ہو کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی ہے اور یا وہ شخص نجات پا سکتا ہے جو ایسے شخص کا ہم صحبت اور اس کے دامن سے وابستہ ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جس قدر دنیا میں گناہ پیدا ہوئے ہیں ان کی یہی وجہ ہے کہ جس قدر انسان کو دنیا کی لذّات اور دنیا کی عزّت اور دنیا کے مال و متاع پر یقین ہے یہ یقین آخرت پر نہیں ہے اور جیسا کہ وہ ایک ایسے صندوق پر توکل کر سکتا ہے جو قیمتی جواہرات اورخالص سونے سے بھر ا ہوا ہے اور اس کے قبضے میں ہے ایسا وہ خدا پر توکل نہیں کر سکتا۔ اور جیسا کہ دنیا کی گورنمنٹ اور دنیا کے حکام سے لوگ ڈرتے ہیں اور مداہنہ سے زندگی بسر کرتے ہیں ایسا خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ یہی سبب ہے کہ دنیا کے پیش افتادہ اسباب اور وسائل ان کی نظر میں ایسے یقینی ہیں کہ دینی عقائد ان کے آگے کچھ بھی چیز نہیں۔ اب اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ نجات بجز حق الیقین کے ممکن نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؂ یعنی کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا بلکہ اس سے بھی بد تر۔ تو بغیر یقین کامل کے کیونکر نجات ہو۔ اور اگر ایک مذہب کی پابندی سے نجات نہیں تو اس مذہب سے حاصل کیا۔ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کے زمانہ میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہیں نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیاتھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں جب وہ زمانہ جاتا رہا اور اس زمانہ پر صد ہا سال گذر گئے تو پھر ذریعہ یقین کا کون سا تھا۔ سچ ہے کہ قرآن شریف ان کے پاس تھا اور قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئیایک



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 469

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 469

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/469/mode/1up


بہادرؔ کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ۔۱؂ پس قرآن سے جو تزکیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جوہر شناس ہے لہٰذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کے لئے اور اس کے جوہر دکھلانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے۔ غرض جب خداتعالیٰ نے فرما دیا کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گاتو ہر ایک طالب حق کے لئے ضروری ہوا کہ اسی جہاں میں آنکھوں کا نور تلاش کرے اور اس زندہ مذہب کا طالب ہو جس میں زندہ خدا کے انوار نمایاں ہوں۔ وہ مذہب مردار ہے جس میں ہمیشہ کے لئے یقینی وحی کا سلسلہ جاری نہیں کیونکہ وہ انسانوں پر یقین کی راہ بند کرتا ہے اور ان کو قصوں کہانیوں پر چھوڑ دیتا ہے اور ان کو خدا سے نومید کرتا اور تاریکی میں ڈالتا ہے اور کیونکر کوئی مذہب خدا نما ہو سکتا اور کیونکر گناہوں سے چھڑا سکتا ہے جب تک کوئی یقین کا ذریعہ اپنے پاس نہیں رکھتا اور جب تک سورج نہ چڑھے کیونکر دن چڑھ سکتا ہے۔ پس دنیا میں سچا مذہب وہی ہے جوبذریعہ زندہ نشانوں کے یقین کی راہ دکھلاتا ہے باقی لوگ اسی زندگی میں دوزخ میں گرے ہوئے ہیں بھلا بتاؤ کہ ظن بھی کوئی چیز ہے جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ شائد یہ بات صحیح ہے یا غلط ۔ یاد رکھو کہ گناہ سے پاک ہونا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں۔ فرشتوں کی سی زندگی بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں۔ دنیا کی بے جا عیاشیوں کو ترک کرنا بجزیقین کے کبھی ممکن نہیں۔ ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلینا اور خدا کی طرف ایک خارق عادت کشش سے کھینچے جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں۔ زمین کو چھوڑنا اور آسمان



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 470

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 470

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/470/mode/1up


پر ؔ چڑھ جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں۔ خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں۔ تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کو ریاکاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں۔ ایسا ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اس کی کیمیا پر *** بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پرواہ ہو جانا اور صرف خدا کو اپنا ایک خزانہ سمجھنا بجز یقین کے ہرگز ممکن نہیں۔ اب بتلاؤ اے مسلمان کہلانے والو کہ ظلماتِ شک سے نور یقین کی طرف تم کیونکر پہنچ سکتے ہو۔ یقین کا ذریعہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو ۱؂ کا مصداق ہے۔ سو چونکہ عہد نبوت پر تیرہ سو برس گذر گئے اور تم نے وہ زمانہ نہیں پایا جب کہ صدہا نشانوں اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ قرآن اترتا تھا اور وہ زمانہ پایا جس میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول اور اس کے دین پر ہزارہا اعتراض عیسائی اور دہریہ اور آریہ وغیرہ کر رہے ہیں اور تمہارے پاس بجز لکھے ہوئے چند ورقوں کے جن کی اعجازی طاقت سے تمہیں خبر نہیں اور کوئی ثبوت نہیں اور جو معجزات پیش کرتے ہو وہ محض قصّوں کے رنگ میں ہیں تو اب بتلاؤ کہ تم کس راہ سے اپنے تئیں یقین کے بلند مینار تک پہنچا سکتے ہو اور کس طریق سے دشمن کو بتلا سکتے ہوکہ تمہارے پاس خدا پر یقین لانے کے لئے اور گناہ سے بچنے کے لئے ایک ایسی چیز ہے جو دشمن کے پاس نہیں تا وہ انصاف کر کے تمہارے مذہب کا طالب ہو جائے اس حرکت سے ایک عقلمند کو کیا فائدہ کہ ایک گوبر کو چھوڑ دے اور دوسرے گوبر کو کھا لے۔ سچائی کو ہر یک سعید دل لینے کو طیار ہے بشرطیکہ سچائی اپنے نور کو ثابت کر کے دکھلا دے جس اسلام کو آج یہ مخالف مولوی اور ان کا گروہ غیر مذہب کے لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ صرف پوست ہے نہ مغز اور محض افسانہ ہے نہ حقیقت۔ پھر کوئی کیونکر اس کو قبول کرے اور جس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک شخص مذہب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اگر وہی بیماری اس دوسرے مذہب میں بھی ہے تو اس تبدیلی سے بھی کیا فائدہ۔ یوں تو برہمو بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایک خدا کے قائل ہیں مگر خدا کا قائل وہی ہے جس کی یقین کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہی گناہ سے بچ سکتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 471

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 471

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/471/mode/1up


کہؔ جو یقین کی آنکھ سے خدا کو دیکھتا ہے باقی سب قصے جھوٹ ہیں اور سب کفارے باطل ہیں سو وہی زندہ خدا اس آخری زمانہ میں اپنے تئیں پیش کرتا ہے تا لوگ ایمان لاویں اور ہلاک نہ ہوں۔ قرآن شریف خدا کا کلام تو ہے بلکہ سب سے بڑا کلام مگر وہ تم سے بہت دور ہے تمہاری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتیں اب وہ تمہارے ہاتھ میں ایسا ہی ہے جیسا کہ توریت یہودیوں کے ہاتھ میں۔ اسی وجہ سے اگر تم انصاف کرو تو گواہی دے سکتے ہو کہ بباعث اس کے کہ اس پاک کلام کے یقینی انوار تمہاری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں تم اس سے باطنی تقدس کا کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے اور اگر واقعات خارجیہ کی شہادت کچھ چیز ہے تو تم انصافاً آپ ہی شہادت دے سکتے ہو کہ اس موجودہ زمانہ میں تمہاری کیا حالتیں ہیں سچ کہو کہ کیا تم گناہوں سے اور تمام ان حرکات سے جو تقویٰ کے برخلاف ہیں ایسے ڈرتے ہو جیسا کہ ایک زہرہلاہل استعمال سے انسان ڈرتا ہے۔ سچ کہو کہ کیا تم اس تقویٰ پر قائم ہو جس تقویٰ کے لئے قرآن شریف میں ہدایت کی گئی تھی۔ سچ کہو کہ وہ آثار جو سچے یقین کے بعد ظاہر ہوتے ہیں وہ تم میں ظاہر ہیں۔ تم اس وقت جھوٹ نہ بولو اور بالکل سچ کہو کہ کیا وہ محبت جو خدا سے کرنی چاہئے اور وہ صدق و ثبات جو اس کی راہ میں دکھلانا چاہئے وہ تم میں موجود ہے۔ تم خدائے عزّوجلّکی قسم کھا کر کہو کہ اس مردار دنیا کوجس صفائی سے ترک کرنا چاہئے کیا تم اُسی صفائی سے ترک کر چکے ہو۔ اور جس اخلاص اور توحید اور تفرید سے خدائے واحدلاشریک کی طرف دوڑنا چاہئے کیا تم اُسی اخلاص سے اُس کی راہ میں دوڑ رہے ہو۔ ریاکاری سے بات مت کرو اور لاف زنی سے لوگوں کو خوش کرنا مت چاہو کہ وہ خدا درحقیقت موجود ہے جو تمہارے ہر ایک قول اور فعل کو دیکھ رہا ہے۔ تم بات کرتے وقت اس قادر کا خیال کر لوجس کا غضب کھا لینی والی آگ ہے وہ جھوٹی شیخیوں کو ایک دم جہنم کا ہیزم کر سکتا ہے۔ سو تم سچ سچ کہو کہ تمہارے قدم دنیا کی خواہشوں یا دنیا کی آبروؤں یا دنیا کے مال و متاع میں پھنسے ہوئے ہیں یا نہیں۔ پس اگر تمہیں خدا پر یقین حاصل ہوتا تو تم اس زہر کو ہرگز نہ کھاتے اور قریب تھا کہ دنیا اس زہر سے مر جاتی اگر خدا یہ آسمانی سلسلہ اپنے ہاتھ سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 472

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 472

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/472/mode/1up


قائم ؔ نہ کرتا اور اگر تم چالاکی سے کہو کہ ہم ایسے ہی ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا اور ہم میں گناہ کی کوئی تاریکی نہیں اور پورے یقین کے انجن سے ہم کھنچے جا رہے ہیں تو تم نے جھوٹ بولا ہے اور آسمان اور زمین کے بنانے والے پر تہمت لگائی ہے اس لئے قبل اس کے جو تم مرو خدا کی *** تمہاری پردہ دری کرے گی۔ یقین اپنے نوروں کے سمیت آتا ہے۔ کوئی آسمان تک نہیں پہنچا سکتا ہے مگر وہی جو آسمان سے آتا ہے۔ اگر تم جانتے کہ خدا کا تازہ بتازہ اور یقینی اور قطعی کلام تمہاری بیماریوں کا علاج ہے تو تم اس سے انکار نہ کرتے جو عین صدی کے سر پر تمہارے لئے آیا۔ اے غافلو یقین کے بغیر کوئی عمل آسمان پر جا نہیں سکتا اور اندرونی کدورتیں اور دل کی مہلک بیماریاں بغیر یقین کے دور نہیں ہو سکتیں۔ جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام۔ حقیقی اسلام سے شکل بدل جاتی ہے اور دل میں ایک نور پیدا ہو جاتاہے اور سفلی زندگی مر جاتی ہے اور ایک اور زندگی پیدا ہوتی ہے جس کو تم نہیں جانتے یہ سب کچھ یقین کے بعد آتا ہے اور یقین اس یقینی کلام کے بعد جو آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ خدا ،خدا کے ذریعہ سے ہی پہچانا جاتا ہے نہ کسی اور ذریعہ سے۔ تم میں سے کون ہے جو اپنے ہم کلام کو شناخت نہیں کر سکتا۔ پس اسی طرح مکالمات کی حالت میں معرفت میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ بندہ کا دعا کرنا اور خدا تعالیٰ کا لطف اور رحم سے اس دعا کا جواب دینا نہ ایک دفعہ نہ دو دفعہ بلکہ بعض موقعہ پر بیس بیس دفعہ یا تیس تیس دفعہ یا پچاس پچاس دفعہ یا قریباً تمام رات یا قریباً تمام دن اسی طرح ہر یک دعا کا جواب پانا اور جواب بھی فصیح تقریر میں۔ اوربعض دفعہ مختلف زبانوں میں اور بعض دفعہ ایسی زبانوں میں جن کا علم بھی نہیں اور پھر اس کے ساتھ ایسے نشانوں کی بارش اور معجزات اور تائیدوں کا سلسلہ ۔ کیا یہ ایسا عمل ہے کہ اس قدر مسلسل مکالمات اور مخاطبات اور آیات بینات کے بعد پھر خدا کے کلام میں شک رہے۔ نہیں نہیں بلکہ یہ ایسا امر ہے کہ اس کے ذریعہ سے بندہ اسی عالم میں اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور دونوں عالم اس کے لئے بلا تفاوت یکساں ہو جاتے ہیں اور جس طرح نورہ کے استعمال سے یکدفعہ بال گر جاتے ہیں ایسا ہی اس نور کے نزول جلال سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 473

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 473

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/473/mode/1up


وحشیاؔ نہ زندگی کے بال جو جرائم اور معاصی سے مراد ہے کالعدم ہو جاتے ہیں اور انسان مُردوں سے بیزار ہو کر اس دلآرام زندہ کا عاشق ہو جاتا ہے جس کو دنیا نہیں جانتی اور جیسا کہ تم دنیا کی چیزوں سے بے صبر ہو ویسا ہی وہ خدا کی دوری پر صبر نہیں کر سکتا غرض تمام برکات اور یقین کی کنجی وہ کلام قطعی اور یقینی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ پر نازل ہوتا ہے۔ جب خدائے ذوالجلال کسی اپنے بندہ کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے تو اپنا کلام اس پر نازل کرتا ہے اور اپنے مکالمات کا اس کو شرف بخشتا ہے اور اپنے خارق عادت نشانوں سے اُس کو تسلی دیتا ہے اور ہر ایک پہلو سے اس پر ثابت کر دیتا ہے کہ وہ اس کا کلام ہے تب وہ کلام قائمقام دیدار کا ہو جاتا ہے اس روز انسان سمجھتا ہے کہ خدا ہے کیونکہ اناالموجود کی آواز سنتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی کلام سے پہلے اگر انسان کا خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان ہوتا ہے تو بس اسی قدر کہ وہ مصنوعات پر نظر کر کے یہ خیال کر لیتا ہے کہ اس ترکیب محکم ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے لیکن یہ کہ درحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے یہ مرتبہ ہرگز بجز مکالمات الٰہیہ کے حاصل نہیں ہو سکتا اور گندی زندگی جو تحت الثریٰ کی طرف ہر لمحہ کھینچ رہی ہے وہ ہرگز دور نہیں ہوتی۔ اسی جگہ سے عیسائیوں کے خیالات کا بھی باطل ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ ابن مریم کی خودکشی نے ان کو نجات دے دی ہے اورحالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تنگ و تاریک دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں جو محجوبیت اور شکوک اور شبہات اور گناہ کا دوزخ ہے۔ پھر نجات کہاں ہے۔ نجات کا سرچشمہ یقین سے شروع ہو جاتا ہے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا یقین دیا جائے کہ اس کا خدا درحقیقت موجود ہے جو مجرم اور سرکش کو بے سزا نہیں چھوڑتااور رجوع کرنے والے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہی یقین تمام گناہوں کا علاج ہے بجز اس کے دنیا میں نہ کوئی کفارہ ہے نہ کوئی خون ہے جو گناہ سے بچاوے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہر یک جگہ تمہیں یقین ہی ناکردنی باتوں سے روک دیتا ہے تم آگ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے کہ وہ مجھے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 474

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 474

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/474/mode/1up


جلا ؔ دے گی۔ تم شیر کے آگے اپنے تئیں کھڑا نہیں کرتے کیونکہ تم یقین رکھتے ہوکہ وہ مجھے کھا لے گا۔ تم کوئی زہر نہیں کھاتے کیونکہ تم یقین رکھتے ہوکہ وہ مجھے ہلاک کر دے گی۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ بے شمار تجارب سے تم پر ثابت ہو چکا ہے کہ جس جگہ تمہیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ فعل یا یہ حرکت بلا شبہ مجھے ہلاکت تک پہنچائے گی تم فی الفور اس سے رک جاتے ہو اور پھر وہ گناہ تم سے سرزد نہیں ہوتا۔ پھر خدا تعالیٰ کے مقابل پر تم کیوں اس ثابت شدہ فلسفہ سے کام نہیں لیتے کیا تجربہ نے اب تک گواہی نہیں دی کہ بجز یقین کے انسان گناہ سے رک نہیں سکتا۔ ایک بکری یقین کی حالت میں اس مرغزار میں چر نہیں سکتی جس میں شیر سامنے کھڑا ہے پس جب کہ یقین لایعقل حیوانات پر بھی اثر ڈالتا ہے اور تم تو انسان ہو۔ اگر کسی دل میں خدا کی ہستی اور اس کی ہیبت اور عظمت اور جبروت کا یقین ہے تو وہ یقین ضرور اسے گناہ سے بچا لے گا اور اگر وہ نہیں بچ سکا تو اسے یقین نہیں کیا خدا پر یقین لانا اس یقین سے کم تر ہے کہ جو شیر اور سانپ اور زہر کے وجود کا یقین ہوتا ہے۔ سو وہ گناہ جو خدا سے دور ڈالتا ہے اور جہنمی زندگی پیدا کرتا ہے اس کا اصل سبب عدم یقین ہے۔ کاش میں کس دف کے ساتھ اس کی منادی کروں کہ گناہ سے چھڑانا یقین کا کام ہے۔ جھوٹی فقیری اور مشیخت سے توبہ کرانا یقین کا کام ہے۔ خدا کو دکھلانا یقین کا کام ہے۔ وہ مذہب کچھ بھی نہیں اور گندہ ہے اور مردار ہے اور ناپاک ہے اور جہنمی ہے اور خود جہنم ہے جو یقین کے چشمہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ زندگی کا چشمہ یقین سے ہی نکلتا ہے اور وہ پر جو آسمان کی طرف اڑاتے ہیں وہ یقین ہی ہے۔ کوشش کرو کہ اس خدا کو تم دیکھ لو جس کی طرف تم نے جانا ہے۔ اور وہ مرکب یقین ہے جو تمہیں خدا تک پہنچائے گا۔ کس قدر اس کی تیز رفتار ہے کہ وہ روشنی جو سورج سے آتی ہے اور زمین پر پھیلتی ہے وہ بھی اس کی سرعت رفتار کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتی اے پاکیزگی کے ڈھونڈنے والو اگر تم چاہتے ہو کہ پاک دل بن کر زمین پر چلو اور فرشتے تم سے مصافحہ کریں تو تم یقین کی راہوں کو ڈھونڈو۔ اور اگر تمہیں اس منزل تک ابھی رسائی نہیں تو اس شخص کا دامن پکڑو جس نے یقین کی آنکھ سے اپنے خدا کو



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 475

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 475

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/475/mode/1up


دیکھؔ لیا ہے اور یہ کہ کیونکر یقین کی آنکھ سے خدا کو دیکھا جاوے اس کا جواب کوئی مجھ سے سنے یا نہ سنے مگر میں یہی کہوں گا کہ اس یقین کے حاصل کرنے کا ذریعہ خدا کا زندہ کلام ہے جو زندہ نشان اپنے اندر اور ساتھ رکھتا ہے جب وہ آسمان پر سے اترتا ہے تو نئے سرے مردوں کو قبروں میں سے نکالتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ باوجود آنکھوں کے بینا ہونے کے تم آسمانی آفتاب کے محتاج ہو اسی طرح خدا شناسی کی بینائی محض اپنی اٹکلوں سے حاصل نہیں ہو سکتی وہ بھی ایک آفتاب کی محتاج ہے۔ اور وہ آفتاب بھی آسمان پر سے اپنی روشنی زمین پر نازل کرتا ہے یعنی خدا کا کلام۔ کوئی معرفت خدا کے کلام کے بغیر کامل نہیں ہو سکتی۔ خدا کا کلام بندہ اور خدا میں ایک دلالہ ہے وہ اترتا ہے اور خدا کا نور اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جس پر وہ اپنے پورے کرشمہ اور پوری تجلی اور پوری خدائی عظمت اور قدرت اور برہنہ کرشمہ کے ساتھ اترتا ہے اس کو وہ آسمان پر لے جاتا ہے۔ غرض خدا تک پہنچنے کے لئے بجز خدا تعالیٰ کے کلام کے اور کوئی سبیل نہیں۔

نظم

کے شوی عاشق رخ یارے

لاجرم عشق دلبرِ خوش خو

ہر کہ ذوق کلام یافتہ است

دوزخی کز عذاب پُرچون خُم

ہست دا روئے دل کلام خدا

تا نشد مشعلے ز غیب پدید

تانہ خود از سخن یقین بخشید

گر یقین نیست بر خدائے یگان

بے یقین و تجلیاتِ یقین

تانہ بر دل رخش کند کارے

خیزد از گفتگو چو دیدن رُو

راز این رہ تمام یافتہ است

اصل آن ہست لا یکلمھم

کے شوی مست جز بجام خدا

از شب تار جہل کس نرہید

کس ززندانِ ریب و شک نرہید

از محالات قوتِ ایمان

کس نہ رستہ زدام دیو لعین

ہم چنین زان لبے دو۲ گفتارے

گفتگو را کشش بود بسیار

زیر لب گفتگو ئے جانانے

دل نہ گردد صفا نہ خیز د بیم

تانہ او گفت خود انا الموجود

تانہ خود را نمود خود دادار

ہر چہ باشد ززہدو صدق و سداد

بے یقین دین و کیش بیہودہ است

بے یقین از گنہ نہ رست کسے

آن کند کارہاکہ دیدارے

بے سخن کم اثر کند دیدار

زندگی بخشدت بیک آنے

تا چو موسیٰ نمیشوی تو کلیم

عقدہ ہستیش کسے نہ کشود

کس ندانست کوئے آن دلدار

بے یقین سست باشدش بنیاد

بے یقین ہیچ دل نیا سودہ ست

دانم احوال شیخ و شاب بسے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 476

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 476

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/476/mode/1up


آنؔ خدائے کہ ذات اوست نہان

دُور تر از دو چشم عالمیان

بر وجودش یقین چسان آید

گر نظر نیست گفتگو باید

زین سبب ہست حاجت گفتار

گر میسر نمے شود دیدار

بے کلام و شہادت آیات

کے یقین میشود کہ ہست آن ذات

بے یقین کے ہمین شود دل پاک

مُردہ چون سر برآرد از تہِ خاک

گر یقین نیست نیز ایمان نیست

زہدو صدق و ثبات و عرفان نیست

جز یقین مشکلست صدق و ثبات

سخت دشوار ترک منہیات

زین سبب خلق شد چو مردارے

سر تہی گشت از سرِ یارے

روز شب کاروبار فسق و فجور

حاصل عمر کفر و کبر و غرور

دین و مذہب برائے آن باشد

کز یقین سوئے حق کشان باشد

این چہ دینے کہ می کشد ہر آن

سوئے شیطان و سیرت شیطان

از ریا عیب خویش مے پوشند

ہر دم از حرص و آز می جوشند

چون یقین نیست بر خدائے وحید

لا جرم نفس شد خبیث وپلید

نفس دون تانہ بیندآن انوار

کے شود سرد خواہش مُردار

ہست واللہ کلامِ ربّانی

از خدا آلہ خدا دانی

اژدہائے دمان کہ نفسش نام

بے کلامِ خدا نہ گردد رام

این فسون است بہر این مارے

کز لبِ یاریک دو گفتارے

وہ چہ دارد اثر کلام خدا

دیو بگریزد از پیامِ خدا

دُزد را کار ہست باشب تار

چون سحر شد گریزد آن غدار

ہمچو قول خدا کدام سحر

کہ رود تیرگی ازو یکسر

ہر کہ این دربرو خدا بکشاد

بے توقف خدائش آمدیاد

آنچنان دور شد زخبث و فساد

کہ نماندہ اثر ز استعداد

وان کہ در عمر خود ندیدآن نور

کورماند و ز نورِ حق مہجور

کس نیابد ازان یگان اسرار

جز سعیدے کہ یا بدآن گفتار

ہر کہ این مہر برسرِ او تافت

ذوق مہر خدا ہمان کس یافت

ہیچ دانی کلامِ رحمان چیست

وان کہ آن خور بیافت آن مہ کیست

آن کلامش کہ نورہا دارد

شک وریب از قلوب بردارد

نوردر ذات خویش و نوردہد

رگِ ہر شک و ہر گمان ببرد

دل کہ باشد گرفتہء اوہام

یا بداز وے سکینت و آرام

ہمچو میخے کہ ہست فولادی

در دل آید فزائدت شادی

زو ر ہد عادت فساد و شقاق

چارۂ زہر نفس چون تریاق

کارہا میکند بانسانی

ہمچو باد صبا بہ بستانی

مے کشاید دو چشم انسان را

مے نماید جمال رحمان را

درِ وحی خدا چو گردد باز

بستہ گردد بر آدمی درِ آز

یک کشش کار میکند بدرون

در دل آید فرو رُخ بیچون

زان کشش دل ہمی شود بیدار

متنفّر ز غیر و طالبِ یار

روز ہر حرص و آز تابندہ

سوئے یارِ ازل شتابندہ

میوہ از روضۂ فنا خوردہ

و از خود و آرزوئے خود مُردہ

سیلِ عشقش زِجائے خود بُردہ

رخت در جائے دیگر آوردہ

پاک و طیب بچشم بیچونی

پیش کوران خبیث و ملعونی

از یقین پُرچو شیشۂ عطّار

لا اُبالی زِ ***ِ اغیار

دست غیبی کشیدہ دامنِ دل

برکشیدہ دو دست یارزِ گل

پاک دل پاک جان و پاک ضمیر

دور تر از مکائد و تزویر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 477

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 477

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/477/mode/1up


آنچنان عشق تیز مرکب راند

پُرزِ عشق و تہی زِ ہر آزے

رفتہ بیرون ز حلقہء اغیار

آنچنان یار در کمند انداخت

ذکرِ دلبر غذائے او گشتہ

دل و جان بر رُخے فدا کردہ

از خودی ہائے خود فتاد جُدا

عشق دلبر بروئے او بارید

ہر ظہورے یکے سبب دارد

این میسر نمے شود ز نہار

بالخصوص آن سخن کہ از دلدار

ہر زمانے قتیل تازہ بخواست

کر بلائے است سَیرِ ہر آنم

کار ہائے کہ کرد بامن یار

دل من بردو اُلفتِ خود دار

دیدم از خلق رنج و مکروہات

آنچہ من بشنوم زوحی خدا

من خدا را بدو شناختہ ام

آنچہ برمن عیان شداز دادار

انبیاء گرچہ بودہ اندبسے

آن یقینے کہ بود عیسیٰ را

کہ ازان مشت خاک ہیچ نماند

قصہ کوتاہ کرد آوازے

دل بریدہ ز غیرآن دلدار

کہ نداند بدیگرے پرد اخت

ہمہ دلبر برائے او گشتہ

وصل او اصل مدعا کردہ

سیل پُر زور بود بُرد از جا

ابر رحمت بکوئے او بارید

داندآن کو بدل طلب دارد

جز سخن ہائے دلبر و دلدار

خاصیت دار داندر این اسرار

غازۂ روئے اودمِ شہد است

صد حسین است در گریبا نم

برتر آن دفتر است از اظہار

خود مرا شد بوحی خود اُستاد

و آنچہ چیز است پیش این لذات

بخدا پاک دانمش زخطا

دل بدین آتشش گداختہ ام

آفتا بے است بادو صد انوار

من بعرفان نہ کمترم زکسے

بر کلامے کہ شد برو القاء

کشتۂِ دلبر و دلآرامے

آن ندائے یقین کہ گوش شنید

پاک گشتہ زلوث ہستی خویش

قدم خود زدہ براہ عدم

سوختہ ہر غرض بجز دلدار

مردہ و خویشتن فنا کردہ

تن چو فرسود دلستان آمد

از یقینے کہ شد ز گفتارے

پس چنین شورش محبت یار

عشق کور و نمائد از دیدار

کشتہ او نہ یک نہ دونہ ہزار

این سعادت چو بود قسمت ما

آدمم نیز احمدِ مختار

آنچہ داداست ہر نبی را جام

وحی او را عجب اثر دیدم

دیدم از ہجر خلق جلوۂ یار

ہمچو قرآن منزّہ اش دانم

بخدا ہست این کلام مجید

این خدائیست ربّ اربابم

وارث مصطفیٰ شدم بہ یقین

وان یقین کلیم بر تورات

رُستہ یکسر ز ننگ و از نامے

کرد کار و زغیر حق ببرید

رستہ از بند خود پرستی خویش

گم بیادش ز فرق تا بقدم

دوختہ چشم دل ز غیر نگار

عشق جوشید و کارہا کردہ

دل چو از دست رفت جان آمد

در دلِ او برست گلزارے

کہ بشوئد ہم از خودی آثار

نیز گہ گہ بہ خیزد از گفتار

این قتیلان او برون ز شمار

رفتہ رفتہ رسید نوبت ما

در برم جامۂ ہمہ ابرار

داد آن جام را مرا بتمام

روئے آن مہر زان قمر دیدم

کار دیگر برامد ازیک کار

از خطاہا ہمین است ایمانم

از دہان خدائے پاک و وحید

بکہ رو آرم ار ازو تابم

شدہ رنگین برنگ یار حسین

وان یقین ہائے سید السادات



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 478

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 478

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/478/mode/1up


کمؔ نیم زان ہمہ بروئے یقین

ہرچہ آن یاربر دلِ من ریخت

ہست آن وحی تیرہ سو ختنی

آمدم آن زمان کہ باد خزان

عاشق زر شد ند و دولت و جاہ

پس مرا از جہانیان بگزید

کرد دیوانہ و خردہا داد

من نیم کور تا چو کورانی

گر جہانے بدشمنی خیزد

رخت ہرگز ز کوچہ اش نبرم

شورش عشق ہست ہر آنے

آمدم چون سحر بلجّہء نور

غافلان من ز یار آمدہ ام

آمدم تا نگار باز آید

نور الہام ہمچو باد صبا

پُر شد از نور من زمان و زمین

از تورّع برون نہادی پا

رو بدوکن کہ رورخِ یار است

تانہ کارِ دلت بجان برسد

تانیائی ز نفس خود بیرون

تانہ خونت چکد برائے کسے

ہر کہ گوید دروغ ہست لعین

نہ شیاطین بدونہ نفس آمیخت

کہ نبود است بر یقین مبنی

کر دیکسر ریاض دین ویران

دل تہی از محبت آن شاہ

در دلم روح پاک خویش دمید

بست یک در ہزار در بکشاد

بگزنیم چہے ز بستانی

تیغ گیرد کہ خون من ریزد

بزدلان دیگر اند و من دگرم

تابکے خیر این گریبانے

تا شود تیرگی ز نورم دور

ہمچو بادِ بہار آمدہ ام

بے دلان را قرار باز آید

نزدم آرد ز غیب خوشبوہا

سر ہنوزت بر آسمان از کین

ہوش کن اے بریدہ زان یکتا

ہمہ روہا فدائے دلدار است

چون پیامت زدلستان برسد

تانہ گردی بروئے او مجنون

تانہ جانت شود فدائے کسے

لیک آئینہ ام زربِّ غنی

خالص آمد کلام آن دادار

لیکن این وحی بالیقین زخدا ست

در مشائخ نماند جز تزویر

اندرین روز ہائے چون شب تار

در دل من زعشق شور افگند

خلق و مردم نصیحتم بکنند

آن بر تازہ کان عطیہ یار

من نہ آنم کہ ترک او گوئم

فارغم کرد عشق صورت یار

ناصحان را خبر ز حالم نیست

شور ا فگندہ ام کہ تا زین کار

این زمانم زمانہء گلزار

دست غیبم بپر ورد ہر دم

زندہ شد ہر نبی بآمدنم

با خدا جنگہاکنی ہیہات

از پئے خلق و ننگ و نام ورسوم

وحی حق را چو بشنوی از ما

تانہ از خود روی جُدا گردی

تانہ خاکت شودبسان غبار

چون دہندت بکوئے جانان راہ

از پئے صورتِ مہِ مدنی

زین سبب شددِ لم پُراز انوار

ہمہ کارم ازان یقین شدہ ر است

عالمان ہم نشستہ ہم چو ضریر

قوم را دید حق بحالتِ زار

خود مراشد گسست ہر پیوند

تا ببرم ز یار خود پیوند

چون زدست افگنم پئے مُردار

جان من ہست یار مہ روئم

از غم حملہ ہائے این اغیار

گذرے سوئے آن زلالم نیست

خلق گرد د ز خواب خود بیدار

موسمِ لالہ زار و وقت بہار

کرد وحیش بمن ظہور اتم

ہر رسولے نہان بہ پیر ہنم

این چہ جوروجفا کنی ہیہات

تافتی رو ز حضرتِ قیوم

این مگو ما نیافتیم چرا

تانہ قربان آشنا گردی

تانہ گردد غبار تو خونبار

چون ندا آیدت ازان درگاہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 479

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 479

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/479/mode/1up


توؔ حریص دراہم و دینار

گر بجوئی سوار این رہ راست

اندر آنجا بجو کہ مرگ آمد

لاف ہائے زبان بود مردار

این قبولیت از خدا آید

در بود زیر جامہ شیطانے

تانہ میری بترز مردارے

تا نہ ریزد ترا ہمہ پر و بال

ہر کہ را دولتِ ازل شد یار

آبرو ریختہ پئے آن شاہ

کردہ بنیاد خود ہمہ ویران

لا جرم این چنین وفا دارے

لیکن آن یار خود فرود آید

این نہان جنگ گر بشر دیدے

چون شود بندہ یار آن جانان

از سگان کمتر است دشمن او

ہیچ دانی لئیم را چہ نشان

گر نبودے شقی و کرمِ زمین

گر شعارِ تو اِتّقا بودے

نیستی از خدا توراز شناس

نفسِ تو فربہ روحِ تو خستہ

روزوشب چون سگان بران مردار

اندر آنجا بجوکہ گرد بخاست

چون خزان رفت بارو برگ آمد

جز سگان کس نجویدش زنہار

نہ بتزویر و افترا آئی

زود بینی تباہ و ویرانے

دور از فضل حضرت بارے

اندر این جا پریدن است محال

کار او شد تذلل اندر کار

دل زکف واز سر اوفتادہ کلاہ

ہم ملایک ز صدق شان حیران

جام عزت خورد ازان یارے

تا عدو را دو دست بنماید

راہ مردان راہ بگزیدے

برکابش دوند سلطانان

بد گہر کوفتہ ز ہاون او

آنکہ او دشمن امام زمان

توبہ کر دی زگفتگوئے چنین

مشعلِ غیب رہنما بودے

ہمہ برظن و وہم ہست اساس

ہمہ ابواب آسمان بستہ

با چنین حرص و آزو کبر و غرور

اندر آنجا بجوکہ زور نماند

فانیان را جہانیان نرسند

در د لے چون بروئد آن گلزار

چادرے کاند رو خدا باشد

میخوری زہر گر تو بخل و حسد

تانہ گردد سرت نگون ز نیاز

پردۂ نیست بر رخ دلدار

آن سعیدان لقائے او دیدند

گر نیابند سوئے یار گذر

چون دلے سوئے دل رہے دارد

ہمچو دیوانہ یک جہان خیزد

ہمچنین صادقان نشان دارند

ہر عدوے کہ خیز داز سرِکین

ہر کہ جان بہر یار باختہ است

ہست از عادت خدائے علیم

آنکہ او آمداز خدائے یگان

آنچہ بامن کند عنایتِ یار

اتقا را بود ز صدق آثار

آنچہ گوئی ز راہ کبرو جحود

این چہ غفلت کہ خود بدین کیشے

چون نمانی زکوئے جانان دُور

خود نمائی و کبر و شور نماند

جانیان را ز بانیان نرسند

بُلبلش اہلِ دل شوند ہزار

صد عزیزے برو فدا باشد

میکنی با عباد ربّ احد

پردہ از نفس تو نہ گردد باز

تو ز خود پردۂ خودی بردار

کہ بلاہا برائے او دیدند

از غمش جان کنند زیرو زبر

یار چون یا ر خویش بگذارد

تابیک لحظہ خون او ریزد

قدسیان بہر شان بہ پیکاراند

خود بکو بد سرش خدائے معین

یارِ ما قدر او شناخۃ است

میکند فرق در سعید و لیئم

پیش چشمش زخیل مفتریان

کے بغیرے شنیدی اے مردار

اے سیہ دل ترا بصدق چہ کار

پیش ازین گفتہ اند قوم یہود

واز خدا ہیچ گہ نیندیشے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 480

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 480

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/480/mode/1up


اےؔ بسا راز ہاکہ عین صواب

یک شب از صدق نعرہ ہا بردار

ترکن زا شک خویش بستر خویش

چوں ملائک ندیدہ اند آن نور

ما خطا کارو کار مااست خطا

گنہِ ما بہ بخش و چشم کشا

اہل اخلاص چون کنند دُعا

پس کجائی چرا نمے آئی

از خودی حالِ خود خراب مکن

پس چرا نُصرتش نمے خواہی

ایکہ چشمت ز کبر پوشیدہ

راز راہِ خدا بجو ز خدا

سر کشیدن طریق شیطانی است

آن خدائے کہ وعدۂ حَکَمے

ورنہ کارِ حَکَم چہ خواہد بود

این مگو ما خودیم عالم دین

دین نیاید بغیر دیندارے

گر بَری ریگ را رفیع وبلند

این زمانِ ہزار طوفان است

آنچہ بادین نمود قوم پلید

ایکہ راضی شدی بنقص و زِیان

مسلمت* مسلمی نہ کرد اے دون

پیش کوران مقام استعجاب

پیش آن عالمِ حقیقت کار

باز لب را کشائے بادل ریش

کان در آدم تو داشتی مستور

شدتبہ کار ما ز عجلت ہا

تانہ میریم از خلاف و اِبا

از سر صدق و ابتہال و بکا

اندر این بارگاہِ یکتائی

شب پری کار آفتاب مکن

دور رفتی بکام گمراہی

چہ کنم تاکشایدت دیدہ

تونہء چون خدا بجائے خود آ

بر خلاف سرشت انسانی است

داد از راہ رحم ولطف ہمے

رہ نمائی بمرد راہ چہ سود

توبہ کن از مکالمات چنین

سگ نداند بغیر مردارے

جنبشِ بادِ خواہدش افگند

خانہ از پائے بست ویران است

با اما مان نہ کردہ است یزید

این نہ دین است بلکہ دشمن آن

واز بخاری بخارِ سرافزون

راہ طلب کن بگر یہ و زاری

از ادب نے براہ استکبار

کائی خدائے علیم راز نہان

ما چہ چیزیم و علم ما است چہ چیز

گر زتُست این کہ سوئے تو خواند

ورنہ این ابتلا ز ما بردار

شور افتدازان در اہل سما

تو دعا کن بصدق و سوز و گداز

چون رسد عجز کس بحد مقام

نہ زمان بینی و نہ حالت قوم

گر ترا در دلست صدق و طلب

ہوش دار اے بشر کہ عقل بشر

تانہ فضلش درِ تو بکشائد

او بدا نست از ازل کہ انام

راہ گم کردہ را حَکَم باید

کور را کور کے نماید راہ

سخنِ یارو سینہء افسردہ

خانہ آنست کان زمعمارے

این عجب قوم ہست نا ہنجار

باز گوئی کہ من نمے بینم

دین بیا موزدت خدائے قدیر

این ہمہ استخوان بد امانت

تا بجو شد ترحم باری

زو مدد خواہ اندر این اسرار

کے بعلمت رسددل انسان

بے تو در صد خطر قیاس و تمیز

وز تو بہترکدام کس داند

کہ رحیمی و قادر و غفَّار

زان رسد حکم نصرت و ایوا

شود بر دلت درِ حق باز

نصرۃ یار را رسد ہنگام

دل چو کوران زبان کشادہ بلوم

خودروی ہامکن زترک ادب

دراد اندر نظر ہزار خطر

صد فضولی بکن چہ کار آید

راہ خود گم کنند از اوہام

تابد و راہ راست بنماید

ہر کہ آگاہ از خدا آگاہ

جامہء زندہ است بر مردہ

ورنہ افتد ز سیل دیوارے

با چنین خانہ فارغ از معمار

حاجت دیگرے پئے دینم

ورنہ رسمے است خام وزشت و حقیر

نیست یک ذرہ مغز در جانت



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 481

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 481

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/481/mode/1up


کورئؔ و باز در دلت ہوسے

اے نشستہ بصدر سجادہ

از خدا چون رسید پیغامت

حجت لغو درمیان آری

صد نشان شد عیان چو مہرِ منیر

وہ چہ این چشم ہست و این دیدہ

از دل و جان طریق او جوئی

گر نباشد لقائ محبوبے

آنکہ داری بدل محبت او

دست از ہجر او کباب شود

دست در د امنش زنی بجنون

این وفاہا بذرۂ ناچیز

آن قدر بارہا نشان بنمود

لا ابالی فتادۂ زان یار

کش شنیدی کہ قانع از یار است

عاشقان رابودز صدق آثار

عزتش این کہ کا فرش خوانی

خویشتن را تو عالم انگاری

پائے سعیت بلند تر نرود

تانہ سوزی زسوز و غم نرہی

کلبہء جسم خود بکن برباد

کہ بخواند ترا بصیر کسے

این چہ سودات در سر افتادہ

چون نترسی زخبث انجامت

خبث نفس است اصل بیزاری

نزد تُست این دروغ یا تزویر

کہ برو آفتاب پوشیدہ

واز سرِ صدق سوئے او پوئی

جوئد از نزدِ یار مکتوبے

نایدت صبر جز بصحبت او

چشمت از رفتنش پُر آب شود

کہ ز نادیدنت دِلم شد خون

فارغ افتادۂ ز یار عزیز

کہ زصد معرفت درے بکشود

فارغی زان جمال وزان گفتار

عشق و صبراین دوکارد شواراست

اے سیہ دل ترا بہ عشق چہ کار

واز سرِ زجر ازدرش رانی

زین فضولی کنی بغدّاری

تا ترا دود دل بسر نرود

تانہ میری زموت ہم نرہی

چون نمی گردد از خدا آباد

زین خیال تو مُردنت بہتر

ناید اندر قیاس و فہم کسے

بس ہمین است طاعتت اے غول

ہر چہ ثابت شد است از قرآن

دیدہ آخر برائے آن باشد

گر بدل با شدت خیال خدا

ہر کرا دل بود بدلدارے

بے دلآرام نایدش آرام

فرقت او گر اتفاق افتد

باز چون آن جمال و آن روئے

این محبت بذرۂ امکان

او فرستاد بندۂ از جود

باز سر میزنی بانکارے

مردگان را ہمین کشی بکنار

این بود حال و طور عاشق زار

نزد تر چون رسید زان کوئے

صد ہزاران نشان ہمے بینی

تا ز تو ہستی ات بدر نرود

یار پیدا شود دران ہنگام

چیست آن ہر زہ جان و تن کہ نسوخت

پائے خود راجدا کن از تنِ خویش

زین غذا ز ہر خوردنت بہتر

کہ شود کارپیل از مگسے

کہ دلت حکم حق نہ کرد قبول

تو ازو سر بہ پیچی اے نادان

کہ بدو مرد راہ دان باشد

این چنین ناید از تو استغنا

خبرش پُرسد از خبردارے

گہ بروئش نظر گہی بکلام

در تن و جان تو فراق افتد

شد نصیب دو چشم در کوئے

واز دل افگندۂ خدائے جہان

تارہاند ترا زریب و جحود

سہل پنداشتی چنین کارے

و از دلآرام زندۂ بیزار

این بود قدر دلبر اے مُردار

پیک آن دلستان خوش روئے

باز منکر شوی ز بے دینی

این رگ شرک از تو بر نرود

کہ تو گردی نہان زخود بتمام

آتش اندر دلی بزن کہ نسوخت

چون نگیرد رہ صداقت پیش



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 482

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 482

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/482/mode/1up


آفرؔ ین خدا بران جانے

از خودی دورشدو خدا را یافت

وقت عیش ست و موسم شادی

خیز و از بہر یار کارے کن

آن صبا نگہتی زِ یار آورد

از پئے زندہ کردن آمد یار

گر درین قصہ ہا اثر بودے

زین قصص ہیچ راہ نکشاید

اندرون تو ہست دیو خصال

در خور و مہ شکے نہ گیرد راہ

این مگو من محافظ دینم

تند بادِ بخواہ از دادار

خبری نیستت ز جانانہ

آن یقینے کہ بخشدت دادار

و ان دگراز خیال خود بگمان

آن خدادان کہ خود دہد آواز

ورنہ دین ست محض افسانہ

دین ہمان دین بود کہ وحی خدا

بے یقین چون نجات یا بد خلق

ایکہ مغرور راہ مظنونے

چون بہ بینی بہ بیشۂ شیرے

کہ زخود شد برائے جانانے

گمشدودست رہنما را یافت

توچہ در سوگ و ماتم افتادی

یک نظر سوئے این بہارے کن

در دمے موسمِ بہار آورد

تو ہم از دست خود شدی مُردار

دلت از رجس دُور تر بودے

صد ہزاران بگو چہ کار آید

بر زبان قصہ ہائے از ابدال

تو ز دا دار خویش دیدہ بخواہ

خود شفا بخش دین مسکینم

تا خس و خار تو برد یکبار

مے زنی ہر زہ کام کورانہ

چون خیال خودت نہد بکنار

پس کجا باشد این دو کس یکسان

نہ کہ ازوہم کس نمائد باز

این چنین دین ز صدق بیگانہ

نشود زو بہ ہیچ وقت جُدا

بیگمان رُو ز حق بتابد خلق

تو نہ عاقل کہ سخت مجنونے

نہ کنی در گریختن دیرے

منزل یار خویش کرد بدل

ایکہ دیوانۂ پئے اموال

از خدایت رسید رہبر دین

ورنہ مرگ است اژدہائے دمان

تو خزان بہر خود پسندیدے

قصہ ہا پیش میکنی زِ ضلال

قصہ ہا گر بیان کنی تو ہزار

بنشین مُدّتے باہل یقین

روز چون روشن است از د ادار

نیستی طالبِ حقیقت راز

در دلت صد ہزار بیماری

جز خدا راہ چارہ سازی نیست

ہمچو کرمے بجز کلام خدا

آن یکے ازدہان دلدارے

ذوق این مے چو تو نمیدانی

واجب آمد ازین بہر دوران

آن زشیطان بودنہ ازحق دین

وحی و دین خدا ست چون تو ام

بے خدا چویقین بدل آید

نفس امّارہ بندۂ صد آز

ہم چنین پیش تو چوگرگ آید

و از ہواہا رمید صد منزل

وہ کہ درکار دین چنین اہمال

مرددین باش و چون زنان منشین

زود میگیردت مشو نادان

من نہ دانم چہ در خزان دیدے

کاین کرامات ہائے اہل کمال

کے رمداز تو خبث دل ز نہار

تا دہندت دو دیدۂ حق بین

چشم بکشاو شب پری بگذار

پس ہمین مشکلست اے ناساز

چہ ازین دل توقعی داری

بازکن دیدہ جائے بازی نیست

مُردہ ہستی بغیر جام خدا

نکتہ ہائے شنید و اسرارے

ہرزہ عو عو کنی بنادانی

کہ تکلّم کند خدائے یگان

کہ نہ دارد دوام وحی یقین

یک چوگم شد د گر شود گم ہم

گفتگو یا لقا ہمے باید

جز یقین کے بگردد ازوے باز

دل تپد ہیبتِ سُترگ آید



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 483

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 483

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/483/mode/1up


پسؔ بدین دعویٰ یقین کہ ترا

برخدا نیستت یقین ز نہار

آن کلامِ خدا بقطع و یقین

کس شنیدی کہ بالیقین ہلاک

شک و ظن را یقین نہادی نام

تا بدانی کہ کور و محجوبی

این خدائے عجیب در دل تست

خیزد بر حال خود نگاہ بکن

چہ یقین نزد اوست ز آبحیات

ہرچہ در فطرت تو ریختہ است

باز انسان ز قصر ہمت اُو

آنچہ در فطرتِ بشر مکتوم

پس اگر قانعی بمظنونے

افلا تبصرونگفت خدا

ہر کہ جو یائے اوست یافتہ است

از پئے وصل آن مہیمن پاک

ذرہ ذرہ جُدا شدہ ززمین

این ہمہ حالت از خدا آید

اے دریغا کہ دل ز درد گداخت

عمرما ہم رسید تابکنار

آن یقین جو کہ سیل توگردد

ہست بر کرد گار و روز جزا

زین چوگرگان خوشایدت مردار

پاک و برتر ز دخل دیو لعین

باز در بیشۂ رود بیباک

زین شدی با جرائمت بدنام

سخت محروم ماندہ زین خوبی

کہ ازو صد نبات ظلمت رست

خطرِ رہ بہ بین و آہ بکن

یا پسندید ورطۂ شبہات

باز زان عزم چون گریختہ است

گشت غافل زنور فطرت اُو

چون بماند بشر ازو محروم

تو نہ عاقل کہ سخت مجنونے

خیزد در نفس جو تعطش ہا

تافت آنِ روکہ سر نتافتہ است

اوفتادہ سرِ نیاز بخاک

دل پریدہ بسوئے عرش برین

چون یقین از کلامش افزاید

درد ما را مخاطبے نشناخت

بکنارم در آئی اے دلدار

ہمہ در یار میل تو گردد

باز چون میکنی گناہِ بزرگ

آن یقینے کہ مانعے زخطاست

پس ہمان چارۂ خطا کاریست

پس چہ ممکن کہ بایقین خدا

اند کے سوئے خود نظر انداز

ذرۂ نیست در تو از انوار

شب تارست و دشت و بیم دوان

خیز د از نفس خود بپرس نشان

گر دلت می تپد برائے یقین

زین عیان شد کہ آن کریم و رحیم

گر یقین نیست خواہش انسان

بحر فیض است چون روان ہر دم

دل تپداز برائے رفع حجاب

ہمت دون مدار چون دو نان

آفرین خدا بران مردے

ہر زمان با خدائے یکتائے

بر رُخِ او تجلّیات خدا

تو نفہمی ہنوز این سخنم

اے خورِ روئے یار زود بر آ

ایکہ تو طالبِ خدا ہستی

آن یقین جو کہ آتش افروزد

چہ خدا نیست نزد تو چون گرگ

گر بخواہی رہش بگوئم را ست

راہ دیگر طریق مکاریست

باز گردد ولے بگرد خطا

از سرِ غور دیدہ راکن باز

شب دیجور را بماہ چہ کار

چون بخو ابے زغفلت اے نادان

کہ چہ خواہد مراتبِ عرفان

بخل چون کرد آن کریم و معین

داد ہر مقتضائے این تقویم

پس چہ باعث کہ جویدش ہر آن

تا رسانند تا یقینِ اتم

جز دلے کان شد است ہمچو کلاب

رو بجو یار را چو مجنونان

کہ برین در شدت چون گردے

بر زمین و بر آسمان جائے

دردلش جلوہ گاہ ذات خدا

در دلت چون فروشوم چہ کنم

کہ دل آزرد از شبِ یلدا

آن یقین جو کہ بخشدت مستی

ہر چہ غیر خدا ہمہ سوزد



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 484

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 484

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/484/mode/1up


ازؔ یقین ست زہد و عرفان ہم

بے یقین نفس گرددت چو سگے

گر تراآرزوئے دیدار است

این خردجملہ خلق میدارند

زہر فرقت چشی و ناکامی

داروئے ہر شکے کہ دردل ہاست

آن گمان بردو این نمود فراز

آنکہ بشکست ہر بت دل ما

آنکہ داد ازیقینِ دل جامے

اے بریدہ امیدہا ز خدا

ترک کن کین و کبرو نازو دلال

اے زدین بے خبر بخور غم دین

دل ازین دردو غم فگار بکن

بخت گرد چو زد بگردی باز

دولتِ عمر دمبدم بزوال

این ہمہ را بکشتنت آہنگ

ہر کہ دارد یکے دلآرامے

در دلِ عاشقان قرار کجا

کامیابان و زین جہان ناکام

در خداوند خویش دل بستہ

ریزہ ریزہ شد آبگینہ شان

گفتمت آشکار و پنہان ہم

جنبدش نزد ہر فساد رگے

پاک دل شونہ مشکل این کار است

ناز کم کن کہ چون تو بسیاراند

باز منکر ز وحی و الہامی

آن بدارالشفاءِ وحی خدا ست

آن نہان گفت و این کشود آنراز

ہست وحی خدائے بے ہمتا

ہست گفتار آن دلآرامے

توبہ کن از فساد خود باز آ

تانہ کارت کشد بسوئے ضلال

کہ نجاتت معلّق است بدین

دل چہ جان نیز ہم نثار بکن

دولت آید زآمدن بہ نیاز

تو پریشان بفکرِ دولت ومال

گر بصلحت کشندو گاہ بجنگ

جز بو! صلش نیابد آرامے

توبہ کردن ز روئے یار کجا

زیر کان دور ترپریدہ ز دام

باطن از غیر یار بگسستہ

بوئے دلبر دمد ز سینہء شان

جز یقین دینِ تو چو مر دارے

ہرکہ دور از نگار خواہد ماند

این مراد از خرد چہ می جوئی

چارۂ دل کلام دلدار است

جان تو بر لب از نخوردن آب

ہست بر عقل منت الہام

آن فرو ریخت این بکف بسپرد

آنکہ ما را رُخ نگار نمود

وصل دلدار و مستی از جامش

عیش دنیا ئے دون دمے چند است

چوں ازین دام گہ ببندی بار

ہاں تغافل مکن ازین غم خویش

ہست کارت ہمہ بآن یک ذات

اے رسن ہائے آز کردہ دراز

خویش و قوم و قبیلہ پُر زد غا

ہست آخر بآن خدا کارت

تا نہ بیند صبوریش نائد

حُسن جانان بگوش خاطر شان

از خودو نفس خود خلاص شدہ

پاک ازدخل غیر منزل دل

نقش ہستی بشُست جلوہ یار

سر پُراز کبرو دل ریا کارے

نفس دون راشکار خواہد ماند

وحی حق شوید از سیہ روئی

ہر چہ غیرش کنند بیکار است

باز از آب زندگی رو تاب

کہ ازو پخت ہر تصور خام

آن طمع داد و این بجا آورد

ہست الہام آن خدائے ودُود

ہمہ حاصل شدہ زالہامش

آخرش کار باخدا وند است

باز نائی درین بلاد و دیار

کہ ترا کار مشکلست بہ پیش

چون صبوری کنی ازو ہیہات

زین ہوس ہا چرا نیائی باز

تو بریدہ برائے شان ز خدا

نہ تو یارِ کسے نہ کس یارت

ہر دمش سیل عشق برباید

گفت رازے کہ گفتنش نتوان

مہبطِ فیض نور خاص شدہ

یار کردہ بجان و دل منزل

سر زد آخر زجیب دل دلدار



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 485

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 485

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/485/mode/1up


فانیاؔ ن و پر از خدائے وحید

نے ز سر ہوش نے زپا خبرے

عالمِ دیگر است عالم شان

فارغان از مذمت و تحسین

ہر کہ گیر د درش بصدق و حضور

عشق آن یار مدعا گشتہ

ہر کہ آن در گرفت کارش شد

بہ کہ تو زود تر رہش گیری

پارۂ عمرِ رفت در خُردی

بشنو از وضع عالم گذران

گر بود گوش بشنوی صد آہ

ہمچنین ساعتے ترا در پیش

زن بنالد بدیدۂ خونبار

ناگہان بانگ آمداز سر درد

این مآل است عیش دنیا را

این جہان است مثل مُردارے

لطف او ترک طالبان نہ کنند*

پاک و رنگین برنگ ربّ مجید

در سرِ دلستان بخاک سرے

دور از غیر حق معالم شان

نے زِمدحے خبر نہ از نفرین

از در و بام او ببارد نور

دل ز غیر خدا جدا گشتہ

صد امیدے بروزگارش شد

این نہ باشد کہ پیش ازان میری

پارۂ را بسر کشی بُردی

چون کند از زبان حال بیان

از دل مردۂ درون تباہ

گور آواز ہا دہد چون خویش

پسرے گرید از پسِ دیوار

کہ فلان زین سرائے رحلت کرد

گر ندانی بپرس دانا را

ہر طرف چون سگے طلبگارے

کس بکار رہش زیان نہ کنند*

آن خدا دیگر و دگر انسان

ہر کسے را بخود سرو کارے

خفتہ اند و بچشم تو بیدار

ہر کہ باذات و سرے دارد

نور تابان چومہ ز پیشانی

لطف او ترک طالبان نکند

مثل آن دلستان کجا دیدی

عمر اول ببین کجا رفت است

تازہ رفت و بماند پس خوردہ

کین جہان باکسے وفانکند

کہ چرا رو بتافتم ز خدا

یاد کن وقتِ کوچ و ترک جہان

دخترے سر برہنہ اشک راون

چند فرزند را گذاشت یتیم

بر سرِ گور پائے تُست اے خام

رُست آنکس کہ رُست زین مُردار

ہر کہ از خودشد ایز دش خواند

لیکن اینان درو شدند نہان

کار دلدادگان بدلدارے

جز خدا کس نہ محرمِ اسرار

پشت بر روئے دیگرے دارد

پر ہمہ روز عشق ربّانی

کس بکار رہش زیان نکند

پس چرا ہجر او پسندیدی

رفت و بنگرز تو چہارفت است

دشمنان شاد و یار آزردہ

نکند صبر تا جدا نہ کند

دل نہادم در آنچہ گشت جدا

جان بلب خانہ پُر زشوروفغان

ہمہ خویشان شدہ تنِ بیجان

بیوہ بیچارہ ماندہ باصد بیم

ہوش کن تانہ بد شود انجام

خاک شدتا مگر شود خوش یار

نکتہء ہست گر کسے داند

ماحصل اس تمام تقریر کا یہ ہے کہ انسان اس دارالظلمات میں آکر کبھی نجات نہیں پا سکتا بجز اس کے کہ خود خدا تعالیٰ کے مکالمات سے مشرف ہو کر یا کسی اہل مکالمہ یقینیہ اور اہل آیات بینہ کی صحبت میں رہ کر اس ضروری اور قطعی علم تک پہنچ جائے کہ اس کا ایک خدا ہے جو قادر اور کریم اور رحیم ہے اور یہ دین یعنی اسلام جس پر یہ قائم ہے در حقیقت یہ سچا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 486

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 486

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/486/mode/1up


اورؔ روز جزا اور بہشت اور دوزخ سب سچ ہے کیونکہ اگرچہ قصہ اور نقل کے طور پر تمام اہل اسلام اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا موجود ہے اور اس کا رسول بر حق مگر یہ ایمان کوئی یقینی بنیاد نہیں رکھتا اس لئے ایسے ضعیف ایمان کے ذریعہ سے یقینی رنگ کے آثار ظاہر ہونا اور گناہ سے سچی نفرت کرنا غیر ممکن ہے اور بوجہ اس کے کہ اسلام پر تیرہ سو برس گذر گئے تمام معجزات گزشتہ برنگ نقول اور قصص ہو گئے ہیں اور قرآن شریف اگرچہ عظیم الشان معجزہ ہے مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو اور وہ اس تلوار کی طرح ہے جو درحقیقت بے نظیر ہے لیکن اپنا جوہر دکھلانے میں ایک خاص دست و بازو کی محتاج ہے۔ اس پردلیل شاہد یہ آیت ہے کہ ۱؂ پس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہو اور وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہو گا۔ غرض تمام برکات اور یقین کے حصول کا ذریعہ خدا کا مکالمہ اورمخاطبہ ہے اور انسان کی یہ زندگی جو شکوک اور شبہات سے بھری ہوئی ہے بجز مکالمات الٰہیہ کے سر چشمہ صافیہ کے یقین تک ہرگز نہیں پہنچ سکتی مگر خداتعالیٰ کا وہ مکالمہ یقین تک پہنچاتا ہے جو یقینی اور قطعی ہو جس پر ایک ملہم قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ وہ اسی رنگ کا مکالمہ ہے جس رنگ کا مکالمہ آدم سے ہوااور پھر شیث سے ہوا اور پھر نوح سے ہوا اور پھر ابراہیم سے اور پھر اسحاق سے اور پھر اسماعیل سے اور پھر یعقوب سے ہوا اور پھر یوسف سے اور پھر چار سو برس کے بعد موسیٰ سے اور پھر یسوع بن نون سے ہوا اور پھر داؤد سے ہوا اور سلیمان سے اور الیسع نبی سے اور دانیال سے اور اسرائیلی سلسلہ کے آخر میں عیسیٰ بن مریم سے ہوا اور سب سے اتم اور اکمل طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ لیکن اگر کوئی کلام یقین کے مرتبہ سے کمتر ہو تو وہ شیطانی کلام ہے نہ ربّانی۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ جب آفتاب طلوع کرتا ہے اور اپنی کرنیں زمین پر چھوڑتا ہے تو اس کی روشنی ایسی صاف دنیا پر پڑتی ہے کہ کسی دیکھنے والے کو اس کے نکلنے میں شک



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 487

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 487

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/487/mode/1up


باقیؔ نہیں رہتا اور نہ وہ کہہ سکتا ہے کہ کل کا سورج تو یقینی تھا مگر آج کا شکی۔ پس کیا تم اس الہام میں شک کر سکتے ہو کہ خدائی چہرہ کا نور اپنے اندر رکھتا ہے کیا خداکی کلام کا طلوع سورج کے طلوع سے کچھ کمتر ہے کوئی چیز اپنی صفات ذاتیہ سے الگ نہیں ہو سکتی۔ پھر خدا کا کلام جو زندہ کلام ہے کیونکر الگ ہو سکے۔ پس کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتاب وحی الٰہی اگرچہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اس کو نصیب نہیں۔ گویا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا اور گویا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے لیکن خدا کا کلام اس کے بر خلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ دعا سکھلاتا ہے کہ ۱؂ اس دعا میں اُس انعام کی امید دلائی گئی ہے جو پہلے نبیوں اور رسولوں کو دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اُن تمام انعامات میں سے بزرگ تر انعام وحی یقینی کا انعام ہے کیونکہ گفتار الٰہی قائمقام دیدار الٰہی ہے کیونکہ اسی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس اگر کسی کو اِس اُمت میں سے وحی یقینی نصیب ہی نہیں اور وہ اس بات پر جرأت ہی نہیں کر سکتا کہ اپنی وحی کو قطعی طور پر مثل انبیاء علیہم السلام کے یقینی سمجھے اور اس کی ایسی وحی ہو کہ انبیاء کی طرح اس کے ترک متابعت اور ترک عمل پر یقینی طور پر دنیا کا ضرر متصور ہوسکے، تو ایسی دعا سکھلانا محض دھوکا ہو گا کیونکہ اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دعا انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اس امت کو بھی شریک کرے تو اس نے کیوں یہ دعا سکھلائی اور ایک ناشدنی امر کیلئے دعا کرنے کی ترغیب کیوں دی۔ پس اگر یہ دعا سکھلانا یقین اور معرفت کا انعام دینے کی نیت سے نہیں بلکہ محض لفظوں سے خوش کرنا ہے پس اسی سے فیصلہ ہو گیا کہ یہ امت اپنے نصیبوں میں سب اُمتوں سے گری ہوئی ہے اور خداتعالیٰ کی مرضی نہیں ہے کہ اس امت کو یقینی چشمہ کا پانی پلا کر نجات دے بلکہ وہ ان کو شکوک اور شبہات کے ورطہ میں چھوڑ کر ہلاک کرنا چاہتا ہے لیکن یاد



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 488

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 488

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/488/mode/1up


رہےؔ کہ ضرور ان انعامات میں جو نبیوں کو دئیے گئے اس امت کے لئے حصہ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کے کامل افراد کی فطرتوں میں یہ حصہ نہ ہوتا تو ان کے دلوں میں یہ خواہش نہ پائی جاتی کہ وہ خدا شناسی کے درجہ میں حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائیں اور ان انعامات سے سب سے بڑھ کر یقینی مخاطبات اور مکالمات کا انعام ہے جس سے انسان اپنی خدا شناسی میں پوری ترقی کرتا ہے گویا ایک طور سے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی ہستی پر رویت کے رنگ میں ایمان لاتا ہے تب الٰہی ہیبت پورے طور پر اس کے دل پر کام کرتی ہے اور جیسا کہ ہر ایک جگہ رویت اور یقین کا خاصہ ہے وہ خاصہ اس کے اندر اپنا کام کرنے لگتا ہے اور شکوک اور شبہات کی تاریکی اس طرح دور ہو جاتی ہے جیسا کہ آفتاب سے ظلمت۔ تب روئے زمین پر اس جیسا کوئی اتقٰی نہیں ہوتا اور اس جیسا کوئی گناہ سے بیزار نہیں ہوتا اور اس جیسا اس خالق یگانہ سے کوئی محبت کرنے والا نہیں ہوتا اور اس جیسا اس یار کا کوئی وفادار نہیں ہوتا ۔ اور اس جیسا کوئی ڈرنے والا نہیں ہوتا اور اس جیسا کوئی توکل کرنے والا نہیں ہوتا ۔ اور اس جیسا پیوند میں کوئی صادق نہیں ہوتا۔ اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے یقینی اور قطعی وحی کا قیامت کے دن تک اس امت کو وعدہ کیا گیا ہے ایسا ہی عقل بھی نوع انسان کے لئے اس کو ضروری سمجھتی ہے کیونکہ گناہ اور فسق و فجور کا علاج اور چارہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ خدا کا جمال اور جلال یقینی طور پر انسان پر مکشوف ہو۔ وجہ یہ کہ تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ یا تو سچی محبت گناہ اور مخالفت سے روکتی ہے یا سچی ہیبت نافرمانیوں سے باز رکھتی ہے اور سچی محبت میں بھی ایک خوف ہوتا ہے اور وہ یہی کہ یار مہربان سے تعلق نہ ٹوٹ جائے اور جس پر سچی محبت اور سچی ہیبت کی کیفیت یقینی طور پر وارد ہو اور یا وہ شخص کہ جو کامل طور پر اس شخص کا شناسندہ اور محبت کنندہ اور اس کا زیراثر ہو وہ بلاشبہ گناہ سے روک لیا جاتا ہے اور دوسرے لوگ دنیا میں جس قدر ہیں ان میں سے کوئی بھی گناہ کے زہر سے خالی نہیں۔ ہاں مکّاری سے بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں اور ہمارے دلوں میں کوئی ناپاکی نہیں مگر وہ جھوٹے ہیں اور خدا اورمخلوق کو دھوکا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 489

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 489

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/489/mode/1up


دیناؔ چاہتے ہیں گناہ سے پاک ہونا بجز اس کے ممکن ہی نہیں کہ ہیبت اللہ کی موت یقین کی تیز شعاعوں کی وجہ سے انسان کے دل پر وارد ہو جائے اور سچی محبت اور سچی ہیبت دل میں بس جائے اور دل خدا کے جمال اور جلال سے رنگین ہو جائے اور یہ دونوں کیفیتیں کبھی اور ہرگز دل میں آ ہی نہیں سکتیں جب تک کہ خدا کی ہستی اور اس کی ان دونوں قسم کے صفات پر یقین پیدا نہ ہو ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ نجات کی جڑاور نجات کا ذریعہ صرف یقین ہے۔ وہ یقین ہی ہے کہ باوجود بلاؤں کے سامنے کے اطاعت کے لئے گردن جھکا دیتا اور آگ میں داخل ہونے کے لئے کھڑا کر دیتا ہے وہ یقینی نظارہ ہی ہے جو عاشق بنا دیتا ہے اور مرنے کے لئے تیار کر دیتا ہے۔ وہ یقینی نظارہ ہی ہے کہ جس سے انسان خدا کے لئے آرام کا پہلو چھوڑتا اور مخلوق کی تعریف اور تحسین سے لاپرواہ ہو جاتا اور ایک کے لیے تمام دنیا کو اپنا خطرناک دشمن بنا لیتا ہے۔ انسان یقینی ہیبت کی وجہ سے مباح چیزوں کو بھی ڈرتا ڈرتا ہی استعمال کرتا ہے اور زبان کو ناگفتنی باتوں سے روکتا ہے گویا اس کے منہ میں سنگریزے ہیں اور یہ یقین یا تو دیدار سے میسر آتا ہے اور یا اس گفتار سے جو خدا کا یقینی کلام ہے جو اپنی طاقت اور شوکت اور دلکش خاصیت اور خوارق سے ثابت کر دیتا ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے بجز اس صورت کے نہ خدا کی ہستی پر یقین آ سکتا ہے اور نہ اس کی صفات پر۔ اب جس حالت میں یہ مانا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ یقینی کلام کسی بندہ پر نازل فرماوے اور اس کا وعدہ انعمت علیہم اس امکان کو ضروری ٹھہراتا ہے اور نجات بھی اس کلام الٰہی پر موقوف ہے جو یقینی ہو اور انسانی فطرت بھی اس کی پیاسی پائی جاتی ہے تو کیوں اور کیا وجہ کہ خدا اس فیض سے امت کو محروم رکھے۔ کیا انسان کی فطرت میں یہ جوش نہیں ڈالا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا کرے اور کوئی ایسا ذریعہ اس کو حاصل ہو جس سے وہ سمجھ لے کہ وہ اپنی تمام پاک صفات کے ساتھ درحقیقت موجود ہے مگر کیا وہ ذریعہ صرف آسمان اور زمین کی صنعتیں ہو سکتی ہیں ہرگز نہیں کیونکہ غایت درجہ ان سے صرف ضرورت خالق محسوس ہوتی ہے نہ کہ یہ کہ خالق درحقیقت موجود بھی ہے اور ضرورت خالق پر دلیل



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 490

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 490

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/490/mode/1up


قائمؔ ہونا اس خالق کی واقعی ہستی پر قطعی دلیل نہیں ہو سکتی اسی لئے انبیاء اور آسمانی نشانوں کی حاجت پڑی کیونکہ دلائل عقلیہ صرف اس حد تک خدا تعالیٰ کی نسبت علم بخشتے ہیں کہ ان مصنوعات پر نظر کر کے جن میں ایک ابلغ اور محکم ترکیب پائی جاتی ہے یہ ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ ان کا ایک صانع ہونا چاہئے لیکن یہ دلائل یہ ثابت نہیں کرتے کہ وہ صانع فی الواقع ہے بھی۔ اور ہے اور ہونا چاہئے میں ایک فرق ہے جو اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح نہیں کہہ سکتے کہ پہلی کتابیں اور پہلے معجزات خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک قطعی دلیل ہے کیونکہ اس وقت نہ وہ معجزات بدیہی طور پر مشاہدات میں سے ہیں اور نہ اس وقت وہ کلام نازل ہو رہا ہے ۔ ہاں قرآن شریف معجزہ ہے مگر وہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک ایسا شخص ہو کہ اس معجزہ کے جوہر ظاہر کرے اور وہ وہی ہو گا جو بذریعہ الہامی کلام کے پاک کیا جائے گا۔ اب جب کہ انسانی فطرت اور انسانی کانشنس اور انسانی روح شکوک و شبہات کی موت سے مرنا پسند نہیں کرتی اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک کھلے کھلے یقین کی پیاسی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ جس قادر اور حکیم نے انسان کو یقین حاصل کرنے کی پیاس لگا دی ہے اس نے پہلے سے اس بات کا انتظام بھی کر لیا ہے کہ انسان یقین کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا انتظام ہے جو یقین تک پہنچاتا ہے سو مجھے چھوڑو تا میں صاف صاف کہہ دوں کہ وہ انتظام ابتدا دنیا سے آج تک ایک ہی چلا آیا ہے یعنی خدا کا قول جس کی تائید اور تصدیق اس کا خارق عادت فعل کرتا ہے اور یہ دھوکا مت کھاؤ کہ خدا کا کلام ایک مرتبہ یا چند مرتبہ جو گزشتہ زمانہ میں ناز ل ہو چکا ہے وہ یقین عطا کرنے کے لئے کافی ہے بار بار کی کیا ضرورت ہے اسی شبہ میں آریہ سماج والے گرفتار ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک وید خدا کا کلام ہے اور وہ ایک دفعہ اس موجودہ دَورِ دنیا کے لئے نازل ہو چکا ہے پھر بار بار کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن وہ اور ایسا ہی ان کے سب ہم خیال دھوکا کھاتے ہیں اور اس دھوکا میں عیسائی بھی شریک ہیں جو کہتے ہیں کہ توریت نے تعلیم کے حق کو پورا کر دیا تھا پھر قرآن کی کیا ضرورت تھی۔ ان تمام توہمات کا جواب یہی ہے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 491

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 491

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/491/mode/1up


کہؔ خدا کی غرض کتابوں کے نازل کرنے سے افادہ یقین ہے کہ تا اس کی ذات اور صفات اور اس کی پسندیدہ اور ناپسند راہوں پر لوگوں کو یقین آجاوے اور پھر یقین کی برکت سے وہ اپنے خدا پر پورا ایمان لاویں اور بدی سے پورے طور پرپرہیز کریں اور نیکی کو پورے طور پر حاصل کریں سو جب نبوت کا زمانہ گذر جاتا ہے اور خدا کاکلام قصوں کے رنگ میں پڑھا جاتا ہے تب یہ غرض مفقود ہو جاتی ہے اور دلوں میں ا س کلام پر یقین نہیں رہتا جیسا کہ تم یہودیوں کا حال دیکھتے ہو کہ توریت ان کے ہاتھ میں ہے اور کھوٹ ان کے دلوں میں۔ اور کیا تم عیسائیوں میں بتا سکتے ہو کہ ایسے لوگ ان میں کتنے ہیں کہ ایک طرف مار کھا کر دوسری طرف بھی پھیر دیتے ہیں اور چادر لینے والے کو کرتہ دینے کے لئے طیار ہیں اور آنکھوں کو بد نظری سے روکتے ہیں اور لوگوں پر عیب نہیں لگاتے اور ان کے دل ٹیڑھے اور مکّار اور منصوبہ باز نہیں مگر شاذونادر جس نے نہ انجیل سے بلکہ اپنی فطرت کی ہدایت سے بدی سے پرہیز کی ہو۔ غرض جس طرح ہر یک صبح تازہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جب مرور زمانہ سے نور ایمان جو یقین ہے کم ہو جاتا ہے تو وہ خدا کی کلام کو پڑھتے تو ہیں مگر وہ پڑھنا ان کے حلق کے نیچے نہیں اترتا۔ تب خدا کا کلام جو ان سے دور ہو جاتا ہے اور انہیں چھوتا نہیں کوئی نیک اثر ان پر ڈال نہیں سکتا گویا وہ کلام ان کو چھوڑ کر آسمان پر اٹھ جاتا ہے تب ایک جوہر قابل پیدا کیا جاتا ہے جس کو کلام اپنی طرف کھینچتا ہے اور خدا کی کلام کی طاقت اس کو یقین کے کامل مرتبہ تک پہنچاتی ہے تب وہ علم جو آسمان پر اٹھ گیا تھا پھر اس کے ذریعہ سے زمین پر واپس آجاتا ہے اسی طرح ہمیشہ یقین خدا کے تازہ مکالمہ سے تازہ پیدا ہوتا رہتا ہے اور جس شریعت کو خدا تعالیٰ منسوخ کر دیتا ہے اس شریعت کی پیروی کرنے والوں کے دل ممسوخ ہو جاتے ہیں اور ان میں کو ئی باقی نہیں رہتا جس پر تازہ کلام وارد ہو۔ تب وہ کتاب ایک متعفن پانی کی طرح ہو جاتی ہے جس کے ساتھ بہت کیچڑ اور گند مل گیا ہے اور ایسی شریعت سے انسانوں کو کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے ہاتھ میں صرف قصے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 492

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 492

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/492/mode/1up


رہؔ جاتے ہیں اور آسمان کا تازہ پانی یعنی تازہ کلام الٰہی ان کے پاس نہیں آتا۔ پس اس سے سمجھا جاتا ہے کہ خدا نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ مردود مذہب کی یہ نشانی ہے کہ تازہ کلام کا نور ا س میں پایا نہیں جاتا اور وہ لوگ ہمیشہ اسی کلام پر بھروسہ رکھتے ہیں جس کو تازہ الٰہی کلام تصدیق نہیں کرتا اور نہ تازہ نشان تصدیق کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے دل مردہ رہتے ہیں اور نور یقین جو گناہوں کو جلاتا ہے ان کے نزدیک نہیں آتا۔ اس تمام بیان کا خلاصہ در خلاصہ یہ ہے کہ تازہ کلام الٰہی خدا کی شریعت کا پشتیبان ہے اور اس کشتی کو جو گناہوں کے سبب سے غرق ہونے لگتی ہے جلد تر کنار امن تک پہنچانے والا ہے مگر شائد کو ئی بھول نہ جائے اس لئے بار بار کہا جاتا ہے کہ کلام الٰہی سے مراد وہی کلام ہے کہ جو زمانہ کے لئے تازہ طور پر اترتا ہے اور اپنی طبعی خاصیت سے مُلہم اور اس کے ہم نشینوں پر ثابت کرتا ہے کہ میں یقینی طور پر خدا کاکلام ہوں۔ اور ایسا مُلہم طبعاً اس میں اور خدا کے دوسرے کلمات میں جو پہلے نبیوں پر نازل ہوئے من حیث الوحی کچھ فرق نہیں سمجھتا گو دوسری وجوہ سے کچھ فرق ہو۔ لیکن یاد رہے کہ عوام الناس کے ایسے شکی وہمی الہام ہماری اس بحث سے خارج ہیں جن کے ساتھ نہ تو خدائی نشان اور آسمانی متواتر تائیدیں ہوتی ہیں کہ تا اس قول کو فعل کی شہادت کے ساتھ قوت دیں اور نہ خود ملہم کو ان کی نسبت یقین کامل ہوتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ دُبدہا میں رہتا ہے کہ آیا یہ شیطانی ہیں یا رحمانی۔ اس جگہ یہ نقطہ خوب توجہ سے یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جو الہامات ایسے کمزور اور ضعیف الاثر ہوں جو مُلہم پر مشتبہ رہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہیں یا شیطان کی طرف سے۔ وہ درحقیقت شیطان کی طرف سے ہی ہوتے ہیں یا شیطان کی آمیزش سے۔ اور گمراہ ہے وہ شخص جو ان پر بھروسہ کرتا ہے اور بد بخت ہے وہ شخص جو اس خطرناک ابتلا میں ماخوذ ہے کیونکہ شیطان اس سے بازی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو ہلاک کرے۔ اکثر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ پھر رحمانی الہام کی نشانی کیا ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اس کی کئی نشانیاں ہیں۔ (۱) اول یہ کہ الٰہی طاقت اور برکت اس کے ساتھ ایسی ہوتی ہے کہ اگرچہ اور دلائل ابھی ظاہر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 493

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 493

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/493/mode/1up


نہ ؔ ہوں وہ طاقت بڑے جوش اور زور سے بتلاتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور مُلہم کے دل کو ایسا اپنا مسخر بنا لیتی ہے کہ اگر اس کو آگ میں کھڑا کر دیا جاوے یا ایک بجلی اس پر پڑنے لگے وہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ الہام شیطانی ہے یا حدیث النفس ہے یا شکی ہے یا ظنی ہے بلکہ ہر دم اس کی روح بولتی ہے کہ یہ یقینی ہے اور خدا کا کلام ہے۔ (۲) دوسرے خدا کے الہام میں ایک خارق عادت شوکت ہوتی ہے (۳) تیسری وہ پُر زور آواز اور قوت سے نازل ہوتا ہے (۴) چوتھی اس میں ایک لذت ہوتی ہے (۵) اکثر اس میں سلسلہ سوال و جواب پیدا ہو جاتا ہے۔ بندہ سوال کرتا ہے خدا جواب دیتا ہے اور پھر بندہ سوال کرتا خدا جواب دیتا ہے۔ خدا کا جواب پانے کے وقت بندہ پر ایک غنود گی طاری ہوتی ہے لیکن صرف غنودگی کی حالت میں کوئی کلام زبان پرجاری ہوناوحی الٰہی کی قطعی دلیل نہیں کیونکہ اس طرح پر شیطانی الہام بھی ہو سکتا ہے (۶) چھٹی وہ الہام کبھی ایسی زبانوں میں بھی ہو جاتا ہے جن کا ملہم کو کچھ بھی علم نہیں۔ (۷) خدائی الہام میں ایک خدائی کشش ہوتی ہے۔ اول وہ کشش ملہم کو عالم تفرید اور انقطاع کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور آخر اس کا اثر بڑھتا بڑھتا طبائع سلیمہ مبائعین پر جا پڑتا ہے تب ایک دنیا اس کی طرف کھینچی جاتی ہے اور بہت سی روحیں اس کے رنگ میں بقدر استعداد آ جاتی ہیں(۸) آٹھویں سچا الہام غلطیوں سے نجات دیتا اور بطور حَکَم کے کام کرتا ہے اور قرآن شریف کے کسی کلام بیان میں مخالف نہیں ہوتا۔ (۹) سچے الہام کی پیشگوئی فی حد ذاتہ سچی ہوتی ہے ۔ گواس کے سمجھنے میں لوگوں کو دھوکا ہو۔ (۱۰) دسویں سچا الہام تقویٰ کو بڑھاتا اور اخلاقی قوتوں کو زیادہ کرتا اور دنیا سے دل برداشتہ کرتا اور معاصی سے متنفر کر دیتا ہے (۱۱) سچا الہام چونکہ خدا کا قول ہے اس لئے وہ اپنی تائید کے لئے خدا کے فعل کو ساتھ لاتا ہے اور اکثر بزرگ پیشگوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو سچی نکلتی ہیں اور قول اور فعل دونوں کی آمیزش سے یقین کے دریا جاری ہوجاتے ہیں اور انسان سفلی زندگی سے منقطع ہو کر ملکوتی صفات بن جاتا ہے۔ یقینی الہام میں سے جو اس عاجز کو عطا کیا گیا ہے وہ حصہ جو خوارق اور پیشگوئیوں پر مشتمل ہے ہم کسی قدر اس میں سے بطور نمونہ ذیل میں لکھتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 494

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 494

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/494/mode/1up


یعنیؔ ہم نمونہ کے طور پر چند وہ نشان لکھتے ہیں جو اس وحی کے ساتھ وقتاً فوقتاً ظاہر ہوئے جو میرے پر نازل ہوئی اور وہ یہ ہیں:۔

نمبرشمار

تاریخ بیان پیشگوئی

جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اسی وحی نے یہ خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دنیا پر ظاہر ہو چکیں اور ہزار ہا ان کے گواہ ہیں جن میں سے بعض اس جگہ لکھے گئے ۔

تاریخ ظہور پیشگوئی

پہلی پیشگوئی معہ تفصیل واقعہ۔ میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے گورنمنٹ انگریزی میں وہ پنشن پاتے تھے اور اس کے علاوہ چار سو روپیہ انعام ملتا تھا اور چار گاؤں زمینداری کے تھے پنشن اور انعام ان کی ذات تک وابستہ تھے اور زمینداری کے دیہات کے متعلق شرکاء کے مقدمات شروع ہونے کو تھے اتنے میں وہ قریباً برس کی عمر میں بیمار ہو گئے اور پھر بیماری سے شفا بھی ہو گئی۔ کچھ خفیف سی زحیر باقی تھی۔ ہفتہ کا روز تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ مجھے کچھ غنودگی ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا ۔ وَالسَّماءِ وَالطّارقجس کے معنی مجھے یہ سمجھائے گئے کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی کہ غروب آفتاب کے بعد پڑیگا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ پیشگوئی میرے والد کے متعلق ہے اور وہ آج ہی غروب آفتاب کے بعد وفات پائیں گے اور یہ قول خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ماتم پرسی کے ہے۔ اس وحی الٰہی کے ساتھ ہی میرے دل میں بمقتضائے بشریت

اس وحی الٰہی کی گواہ رویت ایک بڑی جماعت ہے۔ اگر میں تفصیل سے لکھوں تو ایک ہزار سے بھی زیادہ ہو گا مگر چونکہ حضرت مرزا صاحب مرحوم کی وفات کے بعد ہی جس کو آج اٹھائیس برس گذر چکے ہیں اس الہام کو ایک نگینہ پر کھدوا کر ایک مہر بنوائی

گئی تھی جو اب تک موجودہے جس کا یہ نشان ہے اس لئے زیادہ ثبوت کی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 495

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 495

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/495/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکی ہیں ہزارہا اُن کے گواہ ہیں جن میں سے بعض اس جگہ لکھے گئے

یہ گذرا کہ ان کی وفات سے مجھے بڑاا بتلا پیش آئے گا کیونکہ جو وجوہ آمدنی ان کی ذات سے وابستہ ہیں وہ سب ضبط ہو جائیں گی اور زمینداری کا حصہ کثیرہ شرکاء لے جائیں گے اور پھر نا معلوم ہمارے لئے کیا کیا مقدر ہے میں اس خیال میں ہی تھا کہ پھر یکدفعہ غنودگی آئی اور یہ الہام ہوا الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ۔ پھر اس کے بعد میرے دل میں سکینت نازل کی گئی اور نماز ظہر کے بعد میں نیچے اترا اور جون کا مہینہ اور سخت گرمی کے دن تھے اور میں نے جا کر دیکھا کہ میرے والد صاحب تندرست کی طرح بیٹھے تھے اور نشست برخاست اور حرکت میں کسی سہارے کے محتاج نہ تھے اور حیرت تھی کہ آج واقعہ وفات کیونکر پیش آئے گا۔ لیکن جب غروب آفتاب کے قریب وہ پاخانہ میں جا کر واپس آئے تو آفتاب غروب ہو چکا تھا اور پلنگ پر بیٹھنے کے ساتھ ہی غرغرہ نزع شروع ہو گیا۔ شروع غرغرہ میں مجھے انہوں نے کہا دیکھا یہ کیا حالت ہے اور پھر آپ ہی لیٹ گئے اور بعد اس کے کوئی کلام نہ کی اور پھر چند منٹ میں ہی اس ناپائیدار دنیا سے گذرگئے۔ آج تک جو دس۱۰ اگست ۱۹۰۲ ؁ء ہے مرزا صاحب مرحوم

کچھ ضروت نہیں کیونکہ یہ مہر ایک آریہ کی معرفت بنوائی گئی تھی جو اب تک زندہ موجود ہے جس کا نام ملاوامل ہے اور اسکا دوسرا ہم قوم بھائی شرمپت نام بھی اس بات کا گواہ ہے اور وہ آریہ میرے اس الہام کو بذریعہ میرے ایک خط کے امرتسر میں حکیم محمدشریف کلانوری مرحوم کے پاس لے گیا تھا اور وہاں ایک مُہر کن سے یہ مُہر بنوائی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 496

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 496

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/496/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکی ہیں ہزارہا اُن کے گواہ ہیں جن میں سے بعض اس جگہ لکھے گئے

کے انتقال کو اٹھائیس۲۸ برس ہو چکے ہیں بعد اس کے میں نے مرزا صاحب کی تجہیز تکفین سے فراغت کر کے وہ وحی الٰہی جو تکفل الٰہی کے بارہ میں ہوئی تھی یعنی الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ اس کو ایک نگینہ پر کھدوا کر وہ مُہر اپنے پاس رکھی اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ خارق عادت طور پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور نہ صرف میں بلکہ ہر یک شخص جو میرے اس زمانہ کا واقف ہے جب کہ میں اپنے والد صاحب کے زیرسایہ زندگی بسر کرتا تھا وہ گواہی دے سکتا ہے کہ مرزا صاحب مرحوم کے وقت میں کوئی مجھے جانتا بھی نہیں تھا اُن کی* وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے اس طور سے میری دستگیری کی اور ایسا میرا متکفل ہوا کہ کسی شخص کے وہم اور خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہونا ممکن ہے ہریک پہلو سے وہ میرا ناصر اور معاون ہوا مجھے صرف اپنے دسترخوان اور روٹی کی فکر تھی مگر اب تک اس نے کئی لاکھ آدمی کو میرے دسترخوان پر روٹی کھلائی۔ ڈاکخانہ والوں کو خود پوچھ لو کہ کس قدر اس نے روپیہ بھیجا ۔ میری دانست میں دس لاکھ سے کم نہیں اب ایماناً کہو کہ یہ معجزہ ہے یا نہیں۔

گئی تھی حکیم صاحب مرحوم کے دوستوں اور اولاد کو بھی یہ واقعہ معلوم ہے اب جو شخص ذرا حیا کو کام میں لا کر یہ سوچے اور تحقیق کرے کہ آج سے ۲۸ برس پہلے یعنی حضرت والد صاحب کے زمانہ میں مَیں کیا چیز تھا پھر خدا کی اس وحی الیس اللّٰہ بکاف عبدہ کے بعد خدا نے میری کیسی پرورش کی تو میں یقین نہیں رکھتا کہ اس معجزہ سے بجز اس شخص کے کہ سخت درجہ کا بے حیا ہو انکار کر سکے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 497

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 497

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/497/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں ہزارہا اُن کے گواہ ہیں جن میں سے بعض اس جگہ لکھے گئے

لا تیئس من روح اللّٰہ الا ان روح اللّٰہ قریب۔ الا ان نصراللّٰہ قریب۔ یاتیک من کل فج عمیق۔ یأتون من کل فج عمیق۔ ینصرک اللّٰہ من عندہ ۔ ینصرک رجال نوحی الیہم من السماء ۔ لا مبدل لکلمات اللّٰہ۔ دیکھو صفحہ ۲۴۱ براہین احمدیہ مطبوعہ ۱۸۸۰ ؁ء و ۱۸۸۲ ؁ء سفیر ہند پریس امرتسر۔ ترجمہ۔ خدا کے فضل سے نوامید مت ہو یعنی یہ خیال مت کر کہ کوئی میری طرف التفات نہیں کرتا اور نہ کوئی میری نصرت کرتا ہے یہ بات سن رکھ کہ خدا کا فضل قریب ہے خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک ایسی راہ سے تجھے پہنچے گی کہ کبھی بند نہیں ہو گا اور لوگ ہر یک راہ سے آتے رہیں گے جو بند نہیں ہو گا بلکہ لوگوں کے چلنے سے عمیق ہوتا رہے گا یعنی لوگ ہر ایک راہ سے بکثرت تیرے پاس آئیں گے یہاں تک کہ راہیں عمیق ہو جائیں گی۔ یہ استعارہ اس منشاء کے ادا کرنے کے لئے ہے کہ سلسلہ رجوع خلائق کا کبھی بند نہیں ہو گا اور یہ اُس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا مگر شاذونادر جو صرف چند ابتدائی زمانہ کے تعارف والے تھے اور نہ گورنمنٹ کو میری طرف کچھ

اس پیشگوئی کا بیان کرنا اور پھر پورا ہونا براہین احمدیہ کی شہادت سے ثابت ہے کیونکہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں یہ پیشگوئی مندرج ہے اور براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو قریباً بائیس برس سے ملک میں شائع ہو گئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب میں گوشہء تنہائی میں پڑا ہوا تھا نہ مہمان تھے اور نہ کوئی مہمان خانہ تھا ۔ اس واقعہ کو تمام یہ قصبہ جانتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 498

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 498

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/498/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں ہزارہا اُن کے گواہ ہیں جن میں سے بعض اس جگہ لکھے گئے

خیال تھا کہ اس کا اتنا بڑا سلسلہ قائم ہو گا اور نہ اس ملک کے لوگوں میں سے کوئی پیشگوئی کر سکتا تھا کہ یہ غیر معمولی ترقی ایک دن ضرور ہو گی مگر یہ خدا کا فعل ہے جو باوجود ہزارہا روکوں کے جو قوم کی طرف سے اور مولویوں کی طرف سے ہوئیں خدا نے میری اس دعا کو قبول کر کے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۲ میں ہے یعنی یہ کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا۔ اپنے بندوں کو میری طرف رجوع دیا۔ جب میں نے کہا کہ اے میرے پروردگار مجھے اکیلا مت چھوڑ تو جواب دیا کہ میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ اور جب میں نے کہا کہ میں نادار ہوں مجھے مالی مدد دے

تو اس نے کہا کہ ہریک راہ سے مدد آئے گی اور وہ راہیں عمیق ہو جائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یکوں کی کثرت سے قادیان کی سڑک کئی دفعہ ٹوٹ گئی اُس میں گڑھے پڑ گئے اور کئی دفعہ سرکار انگریزی کو وہ سڑک مٹی ڈال کر درست کرانی پڑی اور پہلے اس سے قادیان کی سٹرک کا یہ حال تھا کہ ایک یکہ بھی اُس پر چلنا شاذونادر کے حکم میں تھا اب ہر یک سال راہ یکوں کے باعث سے عمیق ہو جاتا ہے اور نیز خدا نے اسی سال میں قریب ستر ہزار کے اس جماعت کو پہنچا دیا۔ کون مخالف ہے جو اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ جب ابتدا میں یہ وحی الٰہی نازل ہوئی

کون ایسا بے ایمان ہے جو اس سے انکار کرے گا اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ صد ہا انسان جو اب آتے جاتے اور موجود رہتے ہیں یہ اس وقت بھی موجود تھے ڈاکخانوں کی کتابوں کو دیکھو کہ کیا یہ مالی آمدن پہلے بھی کبھی تھی اور کیا پہلے بھی اس کثرت سے لوگ آتے تھے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 499

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 499

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/499/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

تو اس وقت سات آدمی بھی میرے ساتھ تھے مگر اس کے بعد ان دنوں میں ہزار ہا انسانوں نے بیعت کی خاص کر طاعون کے دنوں میں جس قدر جوق در جوق بیعت میں داخل ہوئے اس کا تصور خدا کی قدرت کا ایک نظارہ ہے۔ گویا طاعون دوسروں کو کھانے کے لئے اور ہمارے بڑھانے کے لئے آئی۔ ابھی معلوم نہیں کہ طاعون کی برکت سے کیا کچھ ترقی ہو گی۔ اسی برس میں تمام بیعت کرنے والوں نے اپنے ذمّہ لے لیا کہ کچھ نہ کچھ ماہانہ اس سلسلہ کی مدد میں نذر کیا کریں سو اس ایک ہی برس میں ہزارہا روپیہ کی آمدن ہوئی اور ہزارہا لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہیں اور وہ الہام کہ یأتیک من کل فج عمیق و یأتون من کل فج عمیق۔ عین طاعو ن کے دنوں میں پورا ہوا۔ اگر کوئی شخص براہین احمدیہ کو ہاتھ میں پکڑے اور میری پہلی حالت غربت اور تنہائی کو جو براہین احمدیہ کے زمانہ میں تھی قادیان میں آ کر تمام ہندو مسلمانوں سے دریافت کرے یا گورنمنٹ انگریزی کے کاغذات میں دیکھے کہ کب سے گورنمنٹ نے میرے سلسلہ کو ایک جماعت عظیم قرار دیا ہے تو بلاشبہ وہ یقینی اور قطعی طور پر سمجھ لے گا کہ اس قدر خدا کی طرف سے حسبِ منشاء پیشگوئی کے نصرت ہونا اور ستر۷۰ ہزار سے بھی زیادہ لوگوں کا بیعت میں داخل ہونا باوجود تمام مولویوں کے شور

اور وہ معزز احباب جو بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ کیونکر اس پرانے زمانہ کی پیشگوئی بڑے زورو شور سے ان دنوں میں پوری ہو رہی ہے ان احباب کے بطور گواہان رویت ذیل میں چند نام لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 500

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 500

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/500/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

و فریاد کرنے کے بے شک ایک معجزہ ہے ورنہ خدا قادر تھا کہ اس سلسلہ کو ترقی سے روک دیتا اور مولویوں کے منصوبوں کو پورا کر دیتا یا مجھے ہلاک کر دیتا اور خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ یأتیک من کل فج عمیق و یأتون من کل فج عمیق۔اس طرح پر بھی ہر ایک پر ثابت ہو سکتا ہے کہ بیس برس کے بعد ان دنوں میں پنجاب اور ہندوستان کے شہروں میں سے کوئی شہر خالی نہیں رہا جس کے باشندوں میں سے کوئی نہ کوئی قادیان میں نہیں آیا اور نہ کوئی ایسی طرف ہے جس سے مالی مدد نہ آئی۔ اب سوچ لو کہ کیا اس قدر دور دراز عرصہ کے بعد غیب کی باتیں پورا ہونا کیا بجز خدا کی وحی کے کسی اور کے کلام میں یہ طاقت ہے اور اگر انسان ایسا کر سکتا ہے تو نظیر کے طور پر پیش کرو کہ کس نے میری طرح گمنامی کی حیثیت میں ہو کر ظہور پیشگوئی کے دنوں سے بیس برس پہلے بذریعہ تحریر تمام دنیا میں شائع کیا کہ ایک دن وہ آنے والا ہے کہ میری یہ حالت گمنامی جاتی رہے گی اور ہزار ہا تحائف میرے پاس آئیں گے اور ہزار ہا لوگ دور دراز ملکوں کا سفر کر کے میرے ملنے کے لئے آئیں گے میں جانتا ہوں کہ ایسی نظیر پیش کرنے پر ہرگز انسان قادر نہیں۔

مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ مولوی محمد علی ایم اے۔ نواب محمد علی خان صاحب مالیرکوٹلہ۔ خواجہ کمال الدین صاحب بی اے پلیڈر۔ میر ناصر نواب صاحب دہلوی۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی۔ مرزا خدا بخش صاحب جھنگ۔ سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراس۔ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹ چھاؤنی۔ شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر بمبئی ہؤس لاہور۔ خلیفہ نورالدین صاحب جموں وغیرہ گواہان جو دس ہزار۱۰۰۰۰ سے بھی زیادہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 501

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 501

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/501/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلا تََسْءَمْ مِنَ النَّاسِ ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۲۔ ترجمہ: خلق اللہ تیری طرف رجوع کرے گی سو تجھے چاہئے کہ تُو اُن سے منہ نہ پھیرے اور نہ ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک جائے۔ اس الہام میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ لوگ فوج در فوج تیرے پاس آئیں گے اور اس قدر آئیں گے کہ انسان بمقتضائے بشریّت ان کی متواتر ملاقاتوں سے ملول ہو سکتا ہے اور اُن کے ہجوم سے تھک سکتا ہے کیونکہ بہت کثرت ہو گی۔ سو تُو ایسا مت کرنا اور کثرت مخلوقات سے گھبرانا مت۔ اب جس حد تک کوئی انسان چاہے ثابت کر لے کہ براہین احمدیہ کے زمانہ میں جس کو بیس بائیس برس گذر گئے لوگوں کا میری طرف رجوع نہ تھا بلکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں تھا جن کا دنیا میں کچھ ذکر کیا جاتا ۔ پس خدا کا یہ فرمانا کہ تم نے کثرت خلق اللہ کو دیکھ کر تھکنا مت۔ یہ خبر پورے بیس برس بعد اس پیشگوئی کے ظہور میں آئی یعنی حال میں جب کہ ہزار ہا لوگ قادیان میں آنے لگے اور آرہے ہیں۔

اصحاب الصُّفۃ وما ادراک مااصحاب

الصُّفۃ۔ ترٰی اعینھم تفیض من الدمع۔

یصلّون علیک۔ ربّنا اننا سمعنا

ان تمام پیشگوئیوں کا گواہ ناطق براہین احمدیّہ ہے اور اس قصہ کو تمام لوگ اس گاؤں اور گردو نواح کے جانتے ہیں کہ جس زمانہ کی یہ پیشگوئیاں ہیں اس زمانہ میں میری شہرت کا نام و نشان نہ تھا اور پنجاب کے لوگ بآسانی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 502

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 502

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/502/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

منادیا ینادی للایمان۔ وداعیًاالی اللّٰہ وسراجا منیرا۔ املوا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۲۔ ترجمہ :۔ صُفّہ کے دوست اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صُفّہ کے دوست تو ان کی آنکھوں کو دیکھے گا کہ ان سے آنسو جاری ہیں۔ تیرے پر درود بھیجیں گے ۔ یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز کو سنا جو کہتا تھا کہ اپنے ایمان کو درست کرو اور قوی کرو او روہ خدا کی طرف بلاتا تھا اور شرک سے دور کرتا تھا اور وہ ایک چراغ تھا زمین پر روشنی پھیلانے والا (لکھ لو) یہ پیشگوئی جس زمانہ میں براہین احمدیہ میں شائع کی گئی اُس وقت نہ کوئی صُفّہ تھا نہ اصحاب الصّفہ۔ پھر بعد اس کے جو مخلصین قادیان میں ہجرت کر کے آئے ان کے لئے صفے اور مہمان خانے طیار کئے گئے۔ دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ اس زمانہ میں یہ باتیں بتلائی گئیں جب کہ کسی کو اس طرف خیال بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ قادیان میں ایسے مخلص جمع ہوں گے اور ان کے لئے صفے تیار کئے جاویں گے۔

سبحان اﷲ تبارک و تعالٰی زاد مجدک ینقطع اٰبائک و یبدأ منک دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۰۔ ترجمہ۔ پاک ہے خدا ہر ایک تہمت سے جو بہت برکت والا اور بہت بلند ہے وہ تیری بزرگی کو زیادہ کرے گا۔ تیرے باپ دادے کا

سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس زمانہ میں نہ خود کبھی قادیان آئے اور نہ لوگوں کو قادیان آتے دیکھا اور نہ سنا اور نیز بڑا ثبوت ا س کا کاغذات گورنمنٹ ہیں اور پیشگوئی نمبر پنجم کا ثبوت خود ظاہر ہے کہ بعد اس پیشگوئی کے خدا نے چار لڑکے مجھے دئے اور وہ عزت اور شہرت مجھے دی کہ میرے خاندان میں کسی کو نہیں دی گئی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 503

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 503

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/503/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

ذکر منقطع ہو جائے گا ۔ اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی بنیاد تجھ سے ڈالے گا۔ اب بتلاؤ کیا یہ سچ نہیں کہ میری شہرت میرے خاندان کی شہرت سے بہت زیادہ بڑھ گئی اور ہزار ہا مخلوقات کو خدا نے ربقہ اطاعت میں داخل کر دیا اور آج کے دن سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس سلسلہ کی اس قدر ترقی ہو جائے گی خاص کر براہین احمدیہ کے زمانہ میں جبکہ نہ کوئی سلسلہ تھا نہ دعوت تھی نہ جماعت تھی نہ شہرت تھی۔ پس افسوس ان پرجو نہیں سمجھتے اور خدا کی عجائب قدرتوں پر غور نہیں کرتے۔

اردت ان استخلف فخلقت اٰدم ۔ انّی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۲۔ یہ پیشگوئی باعتبار مفہوم لفظ آدم کے ہے کیونکہ فرشتوں نے آدم کی خلافت کو منظور نہ کیا۔ مگر آخر وہی جس کو رد کیا گیا تھا خلیفہ ٹھہرایا گیا اور نامنظور کرنے والوں کی کچھ پیش نہ گئی بلکہ سخت منکر ان میں سے شیطان کہلایا۔ پس لفظ آدم میں اس قصہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہو گا اور خدا اس خلافت کو اپنے ہاتھوں سے زمین پر جمائے گا ۔ اور اس پیشگوئی کا ایک حصہ ازالہ اوہام میں ایک الہام ہے اور وہ یہ ہے۔ قالوا أ تجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدّمآء قال انّی اعلم مالا تعلمون۔ ان تمام الہامات کا ترجمہ یہ ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ زمین پرپیدا کروں۔

پیشگوئی نمبر ۵ کا ثبوت گذر چکا اور پیشگوئی نمبر ۶ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آدم کے رنگ پر میرے پر بھی اعتراض ہوں گے اور میری معائب شماری ہو گی اور آخر خدا میری عزت ظاہر کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عیب شمار لوگوں کو خائب و خاسر ہونا پڑا اور خدا نے میری تائید کی اور اگرچہ تائید الٰہی بجائے خود



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 504

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 504

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/504/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

سو میں نے آدم کو یعنی اس عاجز کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ میں اسی آدم کو زمین پر اپنی خلافت کے لئے مامور کرنے والا ہوں اور لوگ کہیں گے کہ کیوں ایساخلیفہ مقرر کیا جاتا ہے کہ مفسد ہے اور خونریز ہے یعنی خونریزی کی تہمت لگائیں گے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق آخر کار نادان لوگوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ لیکھرام کے معاملہ کے بارے میں اور ڈاکٹر کلارک کے بارے میں اور آتھم کے بارے میں۔ پھر فرماتا ہے کہ خدا کہے گا کہ تم غلطی کرتے ہو اس شخص کی نسبت جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ یہ پیشگوئی صاف طور پر دلالت کرتی ہے کہ لوگ انکار کریں گے اور جھوٹے الزام لگائیں گے اور منظور نہیں کریں گے سو ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے میرا نام آدم رکھا تا آخر کو اول سے نسبت ہواور نیز یہ بھی مشابہت درمیان تھی کہ آدم توام کے طور پر پیدا کیا گیا پہلے نر اور پیچھے مادہ ہوا۔ تا ترقی کرنے والے انسانی سلسلہ کی طرف اشارہ کرے اور میں بھی آدم کی طرح توام پیدا کیا گیا مگر پہلے لڑکی پیدا ہوئی اور بعد اس کے مَیں ۔ تا یہ وضع پیدائش انسانی سلسلہ کے ختم ہونے پر اشارہ کرے۔ سو میں اس طور سے آخر ہوں جیسا کہ آدم اول تھا اور عیسیٰ بن مریم کو آدم سے صرف ایک مناسبت تھی کہ بغیر باپ کے پیدا ہوا اور وہ مناسبت بھی ناقص

ایک نشان ہوتا ہے لیکن جب قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں اس کو بیان کیا جاوے تو وہ نشان نور علیٰ نور ہو جاتا ہے کیونکہ پیشگوئی کا پورا ہونا اس بات پر مہر کر دیتا ہے کہ وہ تائید جو ظہور میں آئی ہے وہ درحقیقت منجانب اللہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 505

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 505

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/505/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

کیونکہ ماں موجود تھی مگر میں روحانی طور پر بغیر باپ اور ماں دونوں کے ہوں کیونکہ نہ کوئی مرشد رکھتا ہوں جو بجائے باپ کے ہو اور نہ خاندان نبوت جو بجائے ماں کے ہو اور میں آدم کی طرح توام ہوں اور حضرت عیسیٰ توام نہیں تھا اور آدم کی طرح خونریزی کی میرے پر تہمت لگائی گئی اور حضرت عیسیٰ پر یہ تہمت نہیں لگائی گئی۔ اور آدم کی طرح میں جمالی اور جلالی دونوں رنگ رکھتا ہوں مگر حضرت عیسیٰ محض جمالی رنگ تھا۔ اس لئے میں آدم کے لئے مظہر اتم ہوں مگر حضرت عیسیٰ مظہر اتم نہیں تھا چونکہ نوع انسان جس نقطہ سے شروع ہوئی اسی نقطہ پر اس کو بلحاظ وضع دوری ختم ہونا چاہئے اس لئے آخر سلسلہ نوع انسان میں آدم کا مظہر اتم پیدا کیا گیا تا اس طرح پر دائرہ خلقت انسان پورا ہو جائے اور چونکہ آدم نر اور مادہ پیدا کیا گیاتھا اسلئے خدا نے مجھے نر اور مادہ یعنی بطور توام پیدا کیا تا آخر کو اول سے مشابہت ہو اور نیز مجھے اس نے نہ خاندان نبوت سے پیدا کیا جو بطور ماں کے ہے اور نہ مرشد جو روحانی تعلیم دیتا مجھے عطا کیا تا بطور روحانی باپ کے ٹھہرتا اور یہ ضرور نہ تھا کہ میں عیسیٰ کی طرح بغیر باپ کے پیدا ہوتا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضرور نہ تھا کہ عصا کا سانپ بناتے بلکہ قرآن شریف کے معجزہ کو قائمقام عصا ٹھہرا یا گیا کیونکہ خدا نہیں چاہتا کہ گذشتہ نشانوں کو دوبارہ ظاہر کرے مگر برنگ دیگر

نہ کہ اتفاقی طور پر ۔ غرض ایک مرسل اور مامور کے لئے خلافت اور نبوت کا منصب ثابت کرنا کسی ایسی تائید الٰہی کو چاہتا ہے جس کے ساتھ پیشگوئی ہو اور اس پیشگوئی کی ضرورت سمجھتا ہے جس کے ساتھ تائید ہو اور اثبات مدعا کے لئے بجز اس کے اور کوئی ضرورت نہیں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 506

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 506

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/506/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

وان یرو ا اٰیۃ یعرضوا و یقولو ا سحر مستمر۔واستیقنتھا انفسہم وقالوا لات حین مناص۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۸۔ ترجمہ۔ جب دیکھیں گے کوئی نشان تو مُنہ پھیر لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ایک مکر ہے اور یہ تو ابتدا سے چلا آتا ہے کوئی انوکھی بات نہیں کوئی خارق عادت امر نہیں اور ان کے دل یقین کر گئے اور کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں ۔ یہ آیت یعنی ۱؂یہ سورۃ قمر کی آیت ہے شق القمر کے معجزہ کے بیان میں اس وقت کافروں نے شق القمر کے نشان کو ملاحظہ کر کے جو ایک قسم کا خسوف تھا یہی کہا تھا کہ اس میں کیا

براہین احمدیہ کا الہام صفحہ ۴۹۸۔ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی بارہ برس پہلے خسوف سے کی گئی تھی اور باوجود اسکے کہ یہ پیشگوئی کتاب دار قطنی میں قریباً ہزار برس پہلے اور کتاب اکمال الدین میں جو شیعہ کی نہایت معتبر کتاب ہے اسی قدر مدت پہلے کی گئی تھی مگر تب بھی لوگوں نے قبول نہ کیا اور کہا کہ خسوف قمر مہینہ کی پہلی رات میں یعنی ہلال کو ہونا چاہئے تھا اور کسوف شمس ٹھیک ٹھیک مہینہ کے وسط میں ہونا چاہئے تھا یعنی پندرھویں تاریخ مگر جس طرح پر یہ ہوا یہ تو ایک مستمر امر ہے یعنی قدیم سے اسی طرح چلا آتا ہے حالانکہ حدیث میں خارق عادت کا کوئی لفظ نہیں صرف اپنی نادانی سے فقرہ اول شب اور فقرہ درمیانی روز سے یہ غلط معنی نکالتے ہیں اور حدیث کا مطلب ظاہر ہے اور وہ یہ کہ خسوف قمر اس کی مقررہ راتوں میں سے جو قانون قدرت میں مقرر ہیں اول رات میں ہو گا اور کسوف شمس اس کے مقررہ دنوں میں سے درمیان کے دن میں یعنی اٹھائیس تاریخ ہو گا اور اسی طرح وقوع میں آیا یہ ایک سچے مہدی موعود کیلئے ایک علامت مقرر کی گئی تھی کہ اس کے دعویٰ کے دنوں میں جب اس کی تکذیب ہو گی اور وہ نشان کا محتاج ہو گا تب ماہ رمضان میں ان تاریخوں میں خسوف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 507

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 507

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/507/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکی ہیں

انوکھی بات ہے قدیم سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کوئی خارق عادت امر نہیں ۔ پس خدا تعالیٰ نے اس الہام میں وہی آیت پیش کرکے یہ اشارہ کیا ہے کہ ان لوگوں کو بھی خسوف کا نشان دکھلایا جاوے گا اور منکر لوگ وہی کہیں گے جو ابوجہل وغیرہ نے کہا تھا یعنی ’’اس طرح پر قدیم سے خسوف کسوف ہوتا آیا ہے‘‘ خارق عادت ہونا چاہئے تھا تا ہم مانتے۔ پس دیکھو یہ پیشگوئی کیسی عظیم الشان ہے جو خسوف کسوف سے بارہ برس پہلے لکھی گئی۔

کسوف ہو جائیگا ۔ اب ظاہر ہے کہ ہمیشہ رمضان میں خسوف کسوف نہیں ہوتا اگر ہوتا ہو گا تو صد ہا برس کے بعد۔ اور پھر یہ کہ خسوف بھی انہیں تاریخوں میں ہو یہ خصوصیت بھی صدہا سال کو ہی چاہتی ہے۔ اب حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مہدی معہود ظاہر نہ ہو یہ خصوصیتیں کسی زمانہ میں کسی کاذب مدعی کے وقت میں جمع نہیں ہوں گی صرف مہدی کے وقت میں جمع ہوں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا تو اب ظاہر ہے کہ مہدی معہود کی علامت کے لئے اسی قدر کافی تھا کہ اس کے ابتدائی زمانہ میں رمضان میں ان تاریخوں میں خسوف کسوف ہو گا قانون قدرت کو توڑنے کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ رہا یہ امر کہ دار قطنی کی حدیث ضعیف ہے۔ اگر ہم فرض کر لیں تو پھر کتاب اکمال الدین میں بھی تو یہی حدیث ہے ماسوا اس کے اصل بات تو یہ ہے کہ محدثین کی نہ تو تصدیق یقینی ہے اور نہ تکذیب۔ اس لئے خدا نے اس حدیث کی تصدیق خود کر دی اب کس محدث کی مجال ہے کہ اس کی تکذیب کرے۔ پیشگوئی تو انجیل اور تورات کی بھی ماننی پڑے گی اگر وہ صفائی سے پوری ہو جاوے گو وہ کتابیں محرف مبدل ہیں بلکہ اگر سکھوں کے گرنتھ میں بھی کوئی پیشگوئی ہو جو بے حد رطب و یا بس کا ذخیرہ ہو اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تب بھی ماننی پڑے گی۔ کیا انسان کی تنقید خدا کی تنقید سے بہتر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 508

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 508

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/508/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

یا عبدالقادر انی معک اسمع وارٰی غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی۔ والقیت علیک محبۃ منّی۔ ولتصنع علٰی عینی۔ کزرع اخرج شطأہ فاستغلط فاستوٰی علٰی سوقہٖ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۴۔ ترجمہ۔ اے قادر کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں۔ میں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں۔ میں نے اپنی محبت تیرے پر ڈال دی تا کہ تو میری آنکھوں کے روبرو پرورش کیا جائے۔ تو ایک بیج کی طرح ہے یعنی اکیلا ہے جس کی ابھی کوئی شاخ نہیں نکلی۔ صرف ایک سبزہ نکلا مگر بعداس کے ایسا ہو گا کہ وہ سبزہ موٹا ہو جاوے گا اور اس کی شاخیں تنا پر قائم ہوں گی اور وہ ایک بڑا درخت بن جائے گا اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی کس قدر صفائی سے پوری ہوئی اور باوجود سخت مخالفوں کی سخت مزاحمتوں کے یہ سلسلہ ایک عظیم بزرگی کے ساتھ قائم ہو گیااور جیسا کہ پیشگوئی کا منشاء تھا اس تخم کی بہت سی شاخیں نکل آئیں اور پنجاب اور ہندوستان میں پھیل گئیں اور پھیلتی جاتی ہیں۔ براہین احمدیہ میں بارہا یہ ذکر آچکا ہے کہ تو اس وقت اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں جیسا کہ ایک جگہ میری دعا کا خود خدا تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ یعنی اے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہترین ورثاء ہے پس اس جگہ خدا گواہی دیتا ہے کہ اس الہام کے وقت میں اکیلا تھا سو خدا نے وعدہ دیا کہ تو اکیلا نہیں رہے گا اور ایک جہان تیری شاخوں میں داخل ہو جائے گا۔

براہین احمدیہ ان تمام پیشگوئیوں کی گواہ ہے اور کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ اس زمانہ کی پیشگوئیاں ہیں کہ جبکہ اس اقبال اور عزت اور کامیابی کے کچھ بھی آثار نہ تھے کہ جو اب ۱۹۰۱ ؁ء و ۱۹۰۲ ؁ء میں ظہور میں آئے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 509

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 509

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/509/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ فَبَرَّأَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۶۔ ترجمہ۔ کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں۔ پس وہ اس کو ان تمام الزاموں سے بری کرے گا جو اس پر لگائے جائیں گے اور وہ خدا کے نزدیک وجاہت رکھتا ہے۔ یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے وقت میں میرے پر خون کا الزام لگایا گیا خدا نے اس سے مجھے بری کر دیا اور پھر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کے وقت میں مجھ پر الزام لگایا گیا اس سے بھی خدا نے مجھے بری کر دیا۔ اور پھر مجھ پر جاہل ہونے کا الزام لگایا سو مخالف مولویوں کی خود جہالت ثابت ہوئی اور پھر مہر علی نے مجھ پر سارق ہونے کا الزام لگایا سو اس کا خود سارق ہونا ثابت ہوا۔ ایسا ہی یہ دن کبھی نہیں گذریں گے جب تک خدا کج دل انسانوں کو نہ دکھلا دے کہ یہ میرا بندہ میری طرف سے تھا۔ تب بہتوں کی آنکھیں کھلیں گی مگر کیا فائدہ۔ اکنوں ہزار عذر بیاری گناہ را۔ مرشوی کردہ رانبود زیب دخترے

3یعنی ہم تجھے بہت سے ارادتمند عطا کریں گے اور ایک کثیر جماعت تجھے دی جاوے گی۔ دیکھو اس پیشگوئی کو بیس برس گذر گئے۔ اور اب وہ کثیر جماعت ہوئی اور نہ صرف ستر ہزار بلکہ اب تو یہ جماعت لاکھ کے قریب ہو گئی اور اُن دنوں میں ایک بھی نہ تھا۔

جن مقدمات میں خدا نے مجھے بری کیا جو بڑے افترا اور اتفاق سے پیدا کئے گئے تھے ان کے لکھنے کی کچھ ضرورت نہیں سرکاری کاغذات موجود ہیں اور جن صدہا نشانوں کے ساتھ تہمت اور کذب اور افترا اور جہل سے خدا نے مجھے بری کیا ان نشانوں میں سے بطور نمونہ اسی فہرست میں موجود ہیں اور منصف کے لئے کافی ہو سکتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 510

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 510

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/510/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکی ہیں

یا احمد فاضت الرحمت عَلٰی شفتیک۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۷۔ ترجمہ۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی جاویگی۔ بلاغت اور فصاحت اور حقائق اور معارف تجھے عطا کئے جاویں گے سو ظاہر ہے کہ میری کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس الہام کے بعد بیس۲۰ سے زیادہ کتابیں اور رسائل میں نے عربی بلیغ فصیح میں شائع کئے مگر کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔ خدا نے ان سے زبان اور دل دونو چھین لئے اور مجھے دے دئے۔

وقالواانّی لک ھٰذا ان ھٰذا الَّا سحر یؤثر۔ لن نؤمن لک حَتّٰی نری اللّٰہ جھرۃ لایصدق السفیہ الاسیفۃ الھلاک عدوٌّلّی وعدوٌّ لک۔ قل اتٰی امراﷲ فلا!تستعجلوہ۔ دیکھو صفحہ ۵۱۸ و۵۱۹ براہین احمدیہ۔ ترجمہ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مقام تجھے کہاں سے ملا یہ تو ایک فریب ہے۔ ہم تیرے پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو نہ دیکھ لیں یہ لوگ تو بجز موت کے نشان کے کبھی مانیں گے نہیں۔ ان کو کہہ دے کہ مری یعنی طاعون بھی چلی آتی ہے سو تم مجھ سے جلدی مت کرو۔ یہ پیشگوئی بیس برس پہلے طاعون کے کی گئی تھی۔

امراض الناس وبرکاتہ۔ لوگوں کی مرضیں اور خدا کی برکتیں۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۹۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک

جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ یہ تمام پیشگوئیاں براہین احمدیہ میں درج ہیں اور وہ گواہ بھی درج ہیں جن کے روبرو بعض پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور طاعون پھیلنے کی خبر جو براہین احمدیہ میں تھی وہ اب ملک میں پھیل رہی ہے اس وقت بھی جو ۲۰؍ اگست ۱۹۰۲ ؁ء ہے بعض حصوں پنجاب میں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 511

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 511

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/511/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

سخت وبا کا زمانہ آئے گا اور آخر کار یہ ہو گا کہ جو لوگ خدا اور اس کے مامور کی طرف سچے دل سے اور پورے اخلاص سے توجہ کریں گے وہ بچائے جائیں گے اور بہر حال نسبتاً عافیت سے حصہ لینے والے سب سے زیادہ وہی ہوں گے سو یہ طاعون کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے اور جو لوگ انجام تک جیتے رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ وباء طاعون کے دنوں میں خدا کی خاص برکات اس سلسلہ کے مخلصوں کے شامل حال رہیں گی اور وہ نسبتاً جلتی ہوئی آگ سے بہت دور رہیں گے۔

بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمد یان برمنارِ بلند تر محکم افتاد۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۲۲۔ یعنی اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اوراب وہ وقت آ رہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی براہین احمدیہ میں ایک انگریزی الہام ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ دن آ رہے ہیں کہ جب خدا تمہاری مدد کرے گا خدائے ذوالجلال آفرینندہ زمین و آسمان ۔ یہ ان دنوں کی پیشگوئی ہے جب کہ اس سلسلہ کا نام و نشان نہ تھا کیا یہ انسان کی قدرت میں سے ہے۔

طاعون زور پر ہے اور معلوم نہیں کہ موسم سرما میں کیاصورت پیش آئے گی اب سوچ لو کہ کیا یہ امور غیبیہ انسان کے ہاتھ میں ہیں کیا آج سے بیس۲۰ برس پہلے کسی کو خبر بھی تھی کہ اس ملک میں اس زور سے طاعون آئے گی ایسا ہی ان پیشگوئیوں میں ترقی کے زمانہ کی اس وقت خبر دی گئی ہے جب کہ یہ عاجز گوشہء گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ اب سوچ لو کہ کیا انسان بھی یہ قدرت رکھتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 512

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 512

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/512/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

ایک دفعہ مجھے قطعی طور پر الہام ہو اکہ آج 3آئیں گے آ نہ کم نہ زیادہ۔ چنانچہ قادیان کے آریوں کو ملزم کرنے کے لئے اس روپیہ کے آنے کی اطلاع دی گئی تب تفتیش کے لئے ایک آریہ گیا اور ہنستا ہوا آیا کہ صرف پانچ روپیہ آئے ہیں پھر الہام ہوا کہ اکیس روپیہ آئے ہیں ۔ ایک اور آریہ پھر ڈاکخانہ میں گیا اور وہ خبر لایا کہ در اصل 3 روپیہ آئے ہیں ڈاکخانہ والے نے غلطی سے پانچ روپیہ کہے تھے اور اسی موقع پر ایک شخص وزیر سنگھ نامی نے علاج کرانے کی غرض سے ایک روپیہ دے دیا۔ اس طرح پر پورے اکیس روپیہ ہو گئے۔ یہ بیس روپیہ منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ نے مجھے بھیجے تھے اور جب ایسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور آریہ اس کے گواہ ہو گئے تب میں نے ایک روپیہ کی شیرینی آریوں کے کھلا دی تا ہمیشہ اس پیشگوئی کو یاد رکھیں ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۲۴۔

براہین احمدیہ چھپ رہی تھی اور روپیہ نہیں تھا چھاپنے والے کا تقاضا تھا ۔ تب دعا کی گئی اور یہ الہام ہوا ۔ ’’دس دن کے بعد موج دکھاتا ہوں‘‘ ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا ۔ ’’دَن وِل یُو گو ٹُو امرت سر‘‘ یعنی اس دن تم امرتسر بھی جاؤ گے۔ یہ الہام آریوں کو سنایا گیا خوب کان کھولے گئے چنانچہ دس دن تک ایک پیسہ نہ آیا جب گیارہواں دن ہوا تو ایک3 سو بیس روپیہ محمد افضل خان صاحب ایک شخص نے راولپنڈی سے بھیجے اسی دن3 ایک اور شخص نے بھیج دئیے اسی دن سرکاری سمن آیا اور ایک گواہی کے لئے امرتسر جانا پڑا۔ دیکھوبراہین احمدیہ صفحہ ۴۶۹۔

پیشگوئی نمبر ۱۵ میں جس قدر خدا کی قدرت اور غیب کی خبر پائی جاتی ہے اس کو غور سے پڑھو اور پیشگوئی نمبر ۱۶ خود ظاہرہے ۔ کیا ایسی صاف غیب گوئی کہ دس دن تک کوئی روپیہ نہیں آئے گا اور دس کے بعد گیارہویں ۔۔۔۔۔۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 513

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 513

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/513/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

ایک شخص نور احمد نام مولوی غلام علی صاحب امرتسری کے شاگردوں میں سے قادیان میں آیا اور اس سے منکر تھا کہ اس امت کے بعض افراد خدا تعالیٰ سے سچی اور یقینی وحی پا سکتے ہیں۔ اس کو یہ کہہ کر ٹھہرایا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں شائد اللہ تعالیٰ کوئی ایسا الہام کرے جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہو۔ سو دعا منظور ہو کر یہ الہام حکایتًاعن الغیر انگریزی میں ہوا آئی ایم کوُرْلَرْ یعنی میں مقدمہ کرنے والا ہوں اور جھگڑنے والا ہوں اور ساتھ ہی یہ الہام ہوا ھٰذا شاھد نزاغ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۷۲۔ یعنی یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے اور تفہیم کی گئی ہے کہ کسی کا مقدمہ ہے اور وہ مجھے گواہ بنانا چاہتا ہے یہ تمام مراتب میاں نور احمدکو قبل از ظہور پیشگوئی سنائے گئے اس دن حافظ نور احمد امرت سر جانے کو تیار تھا بارش ہوئی اور وہ روک لیا گیا۔ شام کو اس کے روبرو رجب علی نام اڈیٹر مطبع سفیر ہند کا امرتسر سے خط آیا اور ساتھ ہی ایک سمن شہادت میرے نام آیا جس سے معلوم ہوا کہ پادری رجب علی نے مجھے اپنا گواہ لکھوایا ہے۔ اور دعویٰ صحیح تھا اور میری شہادت موجب تباہی مدعا علیہ تھی یہی معنے

دن روپیہ ضرور آئیگا اوراس دن کسی مجبوری سے امرتسر بھی جانا پڑے گا کیا ایسی پیشگوئیوں پر انسان بھی قادر ہو سکتا ہے اور اس سے زبردست اور کیا ثبوت ہو گا کہ آریہ جو دین کے پکے دشمن ہیں اس پیشگوئی کے گواہ ہیں۔ منجملہ ان کے لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنان قادیان جو اب تک زندہ موجود ہیں اس نشان سے خوب واقف ہیں ان کے لئے بڑی مصیبت ہے کہ اسلام کی گواہی دیں لیکن اگر یہ مقام براہین احمدیہ کا ان کو دکھلایا جاوے اور ان کی اولاد کی ان کو قسم دی جاوے کیونکہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف نہیں تو ممکن نہیں کہ جھوٹ بولیں کیا دعا قبول ہو کر پھر خدا کا پیشگوئی کرنا اور اپنی تائید دکھلانا اور امرتسر جانے کا نشان ساتھ رکھنا یہ معجزہ نہیں ۔ اور پیشگوئی نمبر ۱۷ کا حافظ نور احمد اور حافظ حامد علی وغیرہ گواہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 514

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 514

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/514/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جو دُنیا پر ظاہر ہو چکیں

اس الہام کے تھے کہ ھٰذا شاھد نزاغ۔ سو اس طرح پر حافظ نوراحمد امرتسری نے جو ہمارے مخالف تھا پیشگوئی کا سن بھی لیا اور پھر اس کو پورے ہوتے دیکھ بھی لیا۔ مذکورہ بالا آریہ جو میرے پاس ہر روز آتے تھے وہ بھی اس بات کے گواہ ہیں میرے ملازم اور متعلقین بھی گواہ ہیں اب دیکھو کہ علم غیب تو خاصہ خدا ہے اگر یہ الہامات خدا کی طرف سے نہیں تو کیا نعوذ باللہ شیطان ایسے صاف اور صریح غیب پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؂ یعنی صاف اور صریح غیب محض برگزیدہ رسولوں کو دیا جاتا ہے اگر کوئی ان بیانات کو جھوٹا سمجھتا ہے تو اُسے سمجھنا چاہئے کہ ۲۰برس کے یہ الہامات شائع ہیں اور کتاب میں گواہوں کے نام درج ہیں مگر کسی نے تکذیب شائع نہ کی اور انسان جھوٹ پر صبر نہیں کر سکتا اور اب بھی اکثر گواہ زندہ ہیں اور اگر اب بھی تسلی نہیں تو ایسے مکذب کو اختیار ہے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین سے ہی فیصلہ کر لے۔

ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے چنانچہ میں نے شرمپت اور ملاوامل مذکور بالا آریوں کو یہ پیشگوئی بتلائی مگر اُن آریوں نے اس بات پر ضد کی کہ انہیں میں سے

براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۷۴و۴۷۵ میں یہ ہر دو پیشگوئیاں الفاظ مذکورہ بالا کی موجود ہیں وہ ہر دو آریہ مخالف دین اور ہندو ہیں اب تک زندہ موجود ہیں دشمن دین ہیں قسم کے ساتھ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ پس دیکھو خوارق اور معجزات اس کو کہتے ہیں جس کے دشمن گواہ ہوں ۔ ایسا ہی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 515

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 515

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/515/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

کوئی ڈاکخانہ میں جائے تا معلوم کرے کہ اسی دن کسی ایسے شخص کی طرف سے کوئی روپیہ آیا ہے یا نہیں چنانچہ ملاوامل آریہ اس کام کے لئے گیا اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ مبلغ دس۱۰ روپیہ ارباب سرور خان نے بھیجے ہیں مگر آریوں نے اس بات سے انکار کیا کہ سرور خان کو محمد لشکر خان کا کوئی قرابتی سمجھا جائے۔ ناچار منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ مصنف عصائے موسیٰ جو ہوتی مردان میں تھے ان کو خط لکھنا پڑا کہ اس جگہ یہ بحث در پیش ہے اور دریافت طلب یہ امر ہے کہ سرور خان کی محمد لشکر خان سے کچھ قرابت ہے یا نہیں۔ ہوتی مردان سے منشی الٰہی بخش صاحب نے لکھا کہ سرور خان ارباب لشکر خان کا بیٹا ہے اور آریہ لاجواب ہو گئے۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۷۴و صفحہ ۴۷۵۔

جس۱؂ زمانہ میں براہین چھپ رہی تھی روپیہ کی آمدن میں قدم قدم پر تنگی تھی۔ کوئی جماعت نہ تھی جن سے چندہ لیا جائے اس لئے مدت تک مسودہ کتاب کا معطل پڑا رہا۔ اور الہامات تسلی دیتے

منشی الٰہی بخش صاحب مصنف عصائے موسیٰ دشمنوں میں سے ہیں مگر ان کو بھی قسم سے سچ بولنا پڑے گا۔

علاوہ اس کے یہ پیشگوئی بیس۲۰ برس کی ہے اگر اس میں کوئی امر خلاف واقعہ ہوتا تو آریہ باوجود اس قدر مذہبی عداوت کے اس پر صبر نہیں کر سکتے تھے ضرور اس کا ردّ قسم کے ساتھ شائع کرتے کہ یہ امور خلاف واقعہ ہیں۔

اور پیشگوئی نمبر ۱۹ کے گواہ اول تو براہین احمدیہ ہے جس میں یہ پیشگوئی لکھی گئی پھر اس زمانہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 516

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 516

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/516/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

تھے کہ یہ تمام کام ہو جائیں گے اور ایک جماعت بھی ہو جائے گی چنانچہ منجملہ ان کے بعض انگریزی الہامات ہیں اور میں انگریزی نہیں جانتا۔ اس کوچہ سے بالکل ناواقف ہوں ایک فقرہ تک مجھے معلوم نہیں مگر خارق عادت طور پر مندرجہ ذیل الہامات ہوئے۔ آئی لو یو۔ آئی ایم وِدْ یو۔ آئی شیل ہیلپ یُو۔ آئی کین ویٹ آئی وِل ڈو۔ وی کین ویٹ وی وِل ڈو۔ صفحہ ۴۸۰ و۴۸۱ گاڈ اِز کمِنگ بائی ہِز آرمی۔ صفحہ ۴۸۴۔ ہی اِز وِدْ یو ٹُو کِل اینیمی صفحہ ۴۸۴۔ دی ڈیزشل کم دینْ گاڈ شیل ہیلپ یُو گلوری بی ٹو دس لارڈ۔ گارڈ میکر اوف ارتھ اینڈ ہون۔ صفحہ ۵۲۲۔ دوہ آل مَین شُڈ بی اینگری بٹ گاڈ اِز وِد یو ہی شیل ہیلپ یو۔ وارڈس آف گاڈکین ناٹ ایکس چینج صفحہ ۵۵۴۔ آئی لو یو۔ آئی شیل گِو یو ءِ لارج پارٹی آف اسلام صفحہ ۵۵۶۔ دیکھو صفحات مذکورہ براہین احمدیہ ۔ ترجمہ۔ میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں کر سکتا ہوں جو چاہوں گا۔ ہم کر سکتے ہیں جو چاہیں گے۔ خدا ایک لشکر لے کر چلا آتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے تا تمہارے دشمن کو ہلاک کرے۔ یعنی اس کو مغلوب و مخذول کرے

اور براہین کے زمانہ کو پیش نظر رکھ کر ہر ایک عاقل سوچ سکتا ہے کہ براہین کے وقت میں کیا حالت تھی اور بعد میں کیا حالت ہوئی اور جیسا کہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں یہ پیشگوئیاں جن میں یہ ذکر ہے کہ میں اس سلسلہ کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ ان کا ۱۹۰۱ء و ۱۹۰۲ء میں پورا ہو جانا اظہر من الشمس ہے اول یہ بات ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں کہ یہ ایک بڑی جماعت بنائی جائیگی۔ اس



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 517

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 517

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/517/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا خدائے ذوالجلال آفرینندہ زمین و آسمان۔ اگر تمام آدمی تم سے ناراض ہو جائیں گے مگر خدا تمہارے ساتھ رہے گا۔ وہ انجام کار تمہاری مدد کرے گا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ میں ایک بھاری جماعت اسلام کی تمہیں دوں گا اور میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔

اب دیکھو جس زمانہ میں یہ انگریزی الہام ہوئے تھے کیسی گمنامی اور کس مپرس کا زمانہ تھا اور آج وہ تمام وعدے پورے ہو گئے اور اس زمانہ میں جماعت کا وعدہ ہوا جب کہ میرے ساتھ ایک بھی نہ تھا اور اب یہ جماعت ستر ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہے اور انگریزی الہام میں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمام آدمی تم سے ناراض ہو جائیں گے مگر خدا تمہارے ساتھ رہے گا اور وہ انجام کار تمہارا مدد گار ہو گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کا ایک خاص فضل تمہارے شامل حال ہے جو محبین اور محبوبین کے شامل حال ہوا کرتا ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ دنیا میں تین قسم کے کام کیا کرتا ہے (۱) خدائی کی حیثیت سے (۲) دوسری دوست کی حیثیت سے (۳) تیسرے دشمن کی حیثیت سے۔ جو کام عام مخلوقات سے ہوتے ہیں وہ محض خدائی حیثیت سے ہوتے ہیں۔ اور جو کام محبین اور محبوبین سے ہوتے ہیں وہ نہ صرف خدائی حیثیت سے

وقت جماعت کا نام و نشان نہ تھا جیسا کہ خود براہین احمدیہ میں بار بار اس کا ذکر ہے۔ اور یہ دعا بھی ہےیعنی اے میرے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑیو اور تو بہتر وارث ہے۔ ماسوا اس کے کون پنجاب یا ہندوستا ن سے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ براہین احمدیہ کے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 518

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 518

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/518/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

بلکہ دوستی کی حیثیت کا رنگ ا ن پر غالب ہوتا ہے اور صریح دنیا کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا اس شخص کی دوستانہ طور پر حمایت کر رہا ہے ۔ اور جو کام دشمنوں کی حیثیت سے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ایک موذی عذاب ہوتا ہے اور ایسے نشان ظاہر ہوتے ہیں جن سے صریح دکھائی دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس قوم یا اس شخص سے دشمنی کر رہا ہے اور خدا جو اپنے دوست کے ساتھ کبھی یہ معاملہ کرتا ہے جو تمام دنیا کو اس کا دشمن بنا دیتا ہے اور کچھ مدت کے لئے ان کی زبانوں یا ان کے ہاتھوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ یہ اس لئے خدائے غیور نہیں کرتا کہ اس اپنے دوست کو ہلاک کرنا چاہتا ہے یا بے عزت اور ذلیل کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ تا دنیا کو اپنے نشان دکھاوے اور تا شوخ دیدہ مخالفوں کو معلوم ہو کہ انہوں نے دشمنی میں ناخنوں تک زور لگا کر نقصان کیا پہنچایا ۔

ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاٰخرینصفحہ ۵۵۶۔ ترجمہ۔ دو گروہ یعنی دو جماعتیں تمہیں عطا کی جاویں گی ایک وہ جماعت ہے جو نزول آفات

زمانہ میں مریدانہ طور پر مجھ سے کوئی تعلق رکھتا تھا بلکہ میرے روشناس بھی صرف چند آدمی ہی نکلیں گے اور خود گورنمنٹ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ قادیان میں میرے لئے کسی کی آمدورفت نہ تھی۔ اور پیشگوئی نمبر بیس۲۰ کا ثبوت بھی براہین احمدیہ پر غور کرنے سے کھلتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ جس میں یہ پیشگوئی ہے بتلا رہی ہے کہ براہین کا زمانہ تنہائی کا زمانہ تھا اور اب ہمارے سلسلہ میں ہزارہا آدمی شامل ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 519

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 519

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/519/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

سے پہلے قبول کر لے گی اور دوسری وہ جماعت ہے جو نشانوں کو دیکھ کر بکثرت جوق جوق سلسلہ بیعت میں داخل ہو گی۔ اب بتلاؤ کہ کیا حسب اس پیشگوئی کے وقوع میں آ گیا یا نہیں ایسی آنکھیں تو بند نہیں کرنی چاہئیں جیسا کہ اندھوں کی آنکھیں ہوتی ہیں ذرہ دریافت کرو خواہ سرکاری کاغذات دیکھ لو کہ کیا براہین احمدیہ کے وقت سات آدمی بھی تھے اور کیا اب ستر ہزار آدمی میرے ساتھ داخل بیعت ہیں یا نہیں یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ تائید اور رحمت سے ملی ہوئی پیشگوئی ہے۔

قریباً پندرہ برس پہلے براہین احمدیہ کی تالیف سے مجھے بذریعہ زیارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں اطلاع دی گئی کہ میں ایک کتاب تالیف کروں گا اور اس کتاب کو مسلمانوں میں عام قبولیت کا مرتبہ حاصل ہو گا اور مخالف اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ چنانچہ پندرہ برس کے بعد براہین احمدیہ تالیف کی گئی اور اس میں یہ تمام تذکرہ موجود ہے۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۸ و ۲۴۹

شرمپت آریہ جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اس کا بھائی بشمبر داس نامی اور ایک دوسرا شخص خوشحال نامی ایک مقدمہ میں دونوں قید ہو گئے تھے جب

پیشگوئی نمبر ۲۰ کا ثبوت ہم لکھ چکے ہیں ۔ اور پیشگوئی نمبر ۲۱ کا ثبوت وہ گواہ ہیں جن کے پاس یہ خواب بیان کی گئی تھی اور اب تک ان میں سے بعض زندہ ہیں اور نیز خود براہین احمدیہ بھی گواہ ہے کیونکہ جس قبولیت کی یہ رؤیا بشارت دیتی تھی جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۸اور۲۴۹ میں چھپ گئی۔ چھپنے کے وقت اس قبولیت کا کوئی نشان ظاہر نہ تھا بلکہ مالی مشکلات پیش آئی تھی لیکن ایک مدت کے بعد براہین احمدیہ کے لوگوں میں قبولیت اور شہرت پھیل گئی اور پیشگوئی نمبر۲۲ اس تمام گاؤں میں ایک مشہور واقعہ ہے اور کئی مسلمان اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتے ہیں مگر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 520

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 520

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/520/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

اپیل گذار شرمپت نے جیسا کہ اضطرار کے وقت ہندوؤں کا حال ہوا کرتا ہے مجھ سے دعا کی درخواست کی اور انجام دریافت کیا۔ تب دعا کرنے کے بعد رات کے وقت خدا تعالیٰ نے رؤیا میں کل حقیقت مقدمہ کی مجھ پر کھول دی اور ظاہر کیا کہ دعا اس طور پر قبول ہو گی کہ بشمبر داس کی نصف قید تخفیف کر دی جائے گی اور یوں ہو گا کہ اس مقدمہ کی مثل عدالت چیف کورٹ سے پھر ماتحت عدالت میں واپس آئے گی اور اس عدالت سے بشمبرداس کی قید صرف آدھی رہ جائے گی اور آدھی معاف کر دی جائے گی اور اس کا دوسرا رفیق خوشحال نامی پوری قید بھگت کر خلاصی پائے گا اور ایک دن بھی کم نہیں ہو گا اور وہ بھی بَری نہیں ہو گا۔ اسی وقت اس رؤیا سے بہت سے آدمیوں کو اطلاع دی گئی اور شرمپت کو بھی بلا کر اطلاع دی گئی اور آخر اسی طرح وقوع میں آیا جس طرح پیشگوئی کی گئی تھی۔ دیکھوبراہین احمدیہ صفحہ ۲۵۱۔

مقدمہ مذکورہ بالا جس میں بشمبرداس قید ہوا تھا بصورت اپیل چیف کورٹ میں دائر کیا گیا تو بشمبرداس کے بھائی مسمّی دھنپت نے گاؤں میں آ کر مشہور کر دیا کہ ہماری اپیل منظور ہو گئی اور بشمبرداس بَری ہو گیا۔ یہ خبر عشاء کے وقت مشہور

پیشگوئی نمبر ۲۲ ، پیشگوئی نمبر ۲۳ کی نسبت بشمبرداس کے حقیقی بھائی شرمپت کی گواہی کافی ہے جس نے مجھ سے دعا کرائی تھی اور جس کا نتیجہ نصف قید کی تخفیف ہوئی تھی شرمپت کو قبل از وقت خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر مقدمہ کا انجام میں نے بتلا دیا تھا کہ مثل واپس آ گئی اور بشمبرداس کی نصف قید تخفیف کی جائے گی بری نہیں ہو گا۔ اس قدر تخفیف دعا کا نتیجہ ہے۔ مگر خوشحال اس کا رفیق بالکل بری نہیں ہو گا ایک دن بھی اس کا کم نہیں ہو گا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 521

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 521

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/521/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

ہوئی اور اس وقت میں مسجد میں تھا اور چونکہ یہ صورت میری پیشگوئی کے مخالف تھی اس لئے سخت گھبراہٹ کا موجب ہوئی میں اس بیقراری میں تھا کہ عین سجدہ کے وقت میں مجھے الہام ہوا لا تخف انک انت الاعلٰی یعنی کچھ خوف نہ کر تو ہی غالب ہے ۔ آخر وہ خبر غلط ثابت ہوئی اور بشمبرداس کی قید تو تخفیف ہوئی مگر وہ بری نہ ہوا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۰ ۵۵۔

ہمارا ایک مقدمہ تحصیل بٹالہ میں موروثی اسامیوں پر بابت درود درختوں کے تھا مجھے معلوم کرایا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہو گی مگر حکم سنانے کے وقت فریق ثانی تو عدالت میں موجود تھا اور ہماری طرف سے اتفاقاً کوئی حاضر نہ تھا۔ شام کو فریق ثانی اور اس کے گواہوں نے جو قریب پندرہ آدمی کے تھے بازار میں آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہو گیا۔ شرمپت اور دیگر آریہ لوگوں کو جو میں نے یہ پیشگوئی سنائی تھی وہ بہت خوش ہوئے کہ آج ہمارا ہاتھ پڑ گیا اور مجھے سخت اضطراب ہوا اس لئے کہ بیان کرنے والے پندرہ آدمی ہیں۔ عصر کا وقت تھا اور میں مسجد میں اکیلا تھا اور کوئی نہ تھا اتنے میں ایک آواز گونج کر آئی ۔ میں نے خیال کیا کہ یہ باہر سے آواز ہے آواز کے یہ لفظ تھے کہ ڈگری ہو گئی مسلمان ہے یعنی تُو کیوں باور نہیں کرتا

پیشگوئی نمبر ۲۴ کے متعلق مثل دفتر سرکاری میں موجود ہے اور شرمپت وغیرہ آریہ گواہ ہیں۔ حاکم مجوز نے جس کا نام حافظ ہدایت علی تھا صرف مدعا علیہ کے بیان پر کہ ہمیں حسب فیصلہ صاحب کمشنر درخت کاٹ لینے کا حق حاصل ہے، مقدمہ کو خارج کر دیا اور مدعا علیہ کو حکم سنا کر معہ اس کے گواہوں کے رخصت کر دیا۔ اس پر انہوں نے گاؤں میں آکر مشہور کر دیاکہ مقدمہ خارج ہو گیا ہے لیکن جب وہ عدالت کے کمرہ سے نکل گئے تو اس وقت مثل خوان نے جو اتفاقاً باہر گیا ہوا تھا حاکم کو کہا کہ آپ نے اس مقدمہ میں دھوکا کھایا ہے اور جو فریق ثانی نے نقل روبکار صاحب کمشنر پیش



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 522

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 522

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/522/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس کی خارق عادت پیشگوئیاں جوظہور میں آچکیں

کیا خدا سے کوئی زیادہ معتبر ہے آخر یہی سچ نکلا کہ ڈگری ہو گئی تھی اور اُس فریق کودھوکا لگاتھا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۲

میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا ۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم (یعنی انہیں ایام میں ایک فتنہ ہو گا پس تو اولوالعزم رسولوں کی طرح صبرکر) *یہ پیشگوئی لیکھرام کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ میں تجھے قدرت نمائی سے اٹھاؤں گا چنانچہ آتھم کی نسبت شور و ہنگامہ کے بعد لیکھرام والی پیشگوئی ایسے شوکت اور ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی کہ تمام دشمنوں کے مُنہ کالے ہو گئے اور مجھ کو انہوں نے گرانا چاہا تھا خدا نے اپنے ہاتھ سے مجھے اٹھا یا اور ایک چمکتا ہوا نشان دکھلادیا اور لیکھرام کے متعلق جو پیشگوئی ظہور میں آئی وہ در حقیقت خدا کی ایک چمکار تھی گویا خدا اپنے رسول کے لئے خود اتر کر لڑا۔ اور اس پیشگوئی کے بعد بد قسمت آریوں کی دشمنی بڑھ گئی یہاں تک کہ انہوں نے اس نادان برہمن کے مرنے کے بعد ہمارے گھر کی تلاشی بھی کرائی۔ اسی کی طرف پیشگوئی میں بھی اشارہ ہے کہ فرمایا

کی ہے وہ حکم تو فنانشل صاحب کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے اور اس نے روبکار دکھلا دی ۔ تب ہدایت علی کی عقل نے چکر کھایا اور اسی وقت اپنی روبکار پھاڑ دی اور ڈگری کی۔ یہ خدا کی قدرت کے نظارے ہیں ۔ پیشگوئی نمبر ۲۵ کا پورا ثبوت لیکھرام والی پیشگوئی میں ابھی آئے گا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 523

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 523

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/523/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبراولو العزم۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۷ ۵۵۔ اور خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں دو امر کی خبر دی ہے (۱) اول یہ کہ دنیا سخت مقابلہ کرے گی اور کسی طرح قبول نہیں کرے گی اور وہ اپنی طرف سے زمین پر گرا دے گی اور جھوٹا ہونے کا الزام دے گی جیسا کہ آتھم کے شرطی میعاد کے بعد نادان مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر شور برپا کیا اور اپنے خیال میں گرا دیا اور خدا نے لیکھرام کو قتل کر کے گرنے کے بعد پھر اٹھایا (۲) دوسری یہ کہ خدا اس پیشگوئی میں وعدہ کرتا ہے کہ میں زور آور حملوں سے اس مرسل کی سچائی ظاہر کروں گا۔ سو وہی زور آور حملے ہیں کہ کھلے کھلے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن خود بخود مر رہے ہیں۔ قوم کے دشمنوں نے اس نور کو بجھانے کے لئے ناخنوں تک زور لگائے مگر یہ جماعت جو اول صرف دو تین آدمی تھے اب ستر ہزار تک پہنچ گئی اور خدا کے قہر کے ہاتھ نے سرغنہ مخالفوں کے پانچ حصوں میں سے تین حصے دنیا پر سے اٹھا لئے۔ اسمٰعیل مولوی علیگڑھ جس نے کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے (یعنی وہ اور میں) جو شخص جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ چنانچہ خود وہ پہلے مر گیا اور غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب فتح رحمانی میں مجھے جھوٹا قرار دے کر خدا تعالیٰ سے جھوٹے کی موت چاہی سو وہ اس مباہلہ کو شائع کر کے پھر زندہ نہ رہ سکا اور چند ہی روز میں فوت ہو گیا۔ دیکھو کتاب فتح رحمانی صفحہ ۲۶ و ۲۷

اس پیشگوئی کا ثبوت ظاہر ہے کیونکہ خدا نے لیکھرام کو مار کر ثابت کر دیا کہ اس کا

یہ بندہ

اس کی طرف سے ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 524

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 524

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/524/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور محی الدین لکھو کے والے نے بھی اسی مضمون کا الہام شائع کیا یعنی یہ الہام شائع کیا کہ مرزا صاحب فرعون مگر جیسا کہ الحکم ۲۴جولائی ۱۹۰۱ ؁ء کے صفحہ ۵ دوسرے کالم میں شائع ہو چکا ہے میری پیشگوئی کے مطابق وہ فوت ہو گیا۔ ایسا ہی رشید احمد گنگو ہی اپنے اشتہار کے بعد اندھا ہو گیا۔ شاہدین مخالف لدھانوی دیوانہ ہو گیا اور محمد حسن بھیں میرے مقابلہ اعجاز المسیح پر یہ کلمہ لکھتے ہی کہ *** اللّٰہ علی الکاذبین اپنے منہ کی *** سے ہی پکڑا گیا اور مر گیا۔ ایسا ہی لدھانہ کے تین مولوی بھی یعنی عبداللہ۔ عبدالعزیز۔ محمد وہ تینوں میرے مقابل پر گندے اشتہار لکھنے کے بعد مر گئے۔ یہ خدا کے زور آور حملے ہیں جن سے سچائی ظاہر ہے اور انہی پر ختم نہیں ابھی اور حملے بھی ہیں آسمان نہیں تھکے گا جب تک زمین اپنی شوخیاں نہیں چھوڑتی۔

اشکر نعمتی رئیت خدیجتی ۔ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸۔ ترجمہ۔ میرا شکر کر کہ تونے میری خدیجہ کو پایا۔ یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا جس سے بفضلہٰ تعالیٰ چار لڑکے پیدا ہوئے اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل

پیشگوئی نمبر ۲۵ پر تو ایک دنیا گواہ ہے کہ پہلے کیا تھا اور پھر کیا ہو گیا۔ اور پیشگوئی نمبر ۲۶ یعنی شادی کے معاملے میں جو آج سے اٹھارہ۱۸ برس ہوئے دہلی میں ہوئی تھی آریہ شرمپت اور ملاوامل اور اکثر دوست گواہ ہیں کہ ان کو اس پیشگوئی کی پہلے خبر دی گئی تھی۔ اس شادی کے متعلق تین الہام تھے۔ ایک یہی کہ جو براہین احمدیہ میں صفحہ ۵۵۸ میں درج ہو گیا۔ دوسرا الہام تھا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 525

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 525

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/525/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کی ماں ہے جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہو گی اسی کے مطابق دوسرا الہام ہے اور وہ یہ ہے الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصّھر والنسب یعنی وہ خدا جس نے باعتبار رشتہ دامادی اور باعتبار نسب تمہیں عزت بخشی۔

مبارک و مبارک و کل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ ومن دخلہ کَانَ اٰمِنًا۔براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۹۔ ترجمہ۔ یہ مسجد برکت دی گئی ہے اور برکت دینے والی ہے اور ہر ایک کام جو برکت دیا گیا ہے وہ اس میں کیا جائے گا۔ اور جو اس میں داخل ہو وہ امن میں آ جائے گا۔ اس الہام میں تین قسم کے نشان ہیں (۱) اوّل یہ کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مادۂ تاریخ بنائے مسجد ہے (۲) دوم یہ کہ یہ پیشگوئی بتلا رہی ہے کہ ایک بڑے سلسلہ کے کاروبار اسی مسجد میں ہوں گے چنانچہ اب تک اسی مسجد میں بیٹھ کر ہزارہا آدمی بیعت توبہ کر چکے ہیں اسی میں بیٹھ کر صد ہا معارف بیان کیے جاتے ہیں اور اسی میں بیٹھ کر کتب جدیدہ کی تالیف کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی میں ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا پنج وقت نماز پڑھتا ہے اور وعظ سنتے ہیں اور دلی سوز سے دعائیں کی جاتی ہیں اور بنائے مسجد کے وقت

الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصّھر والنسب۔ تیسرا الہام تھا بکروثیب یعنی تمہارے لئے مقدر ایک بکر ہے اور ایک بیوہ۔ یہ الہام بخوبی یاد ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کو میں نے بمقام بٹالہ انہی کے مکان پر سنایا تھا اتفاقاً انہوں نے دریافت کیا تھا کہ کوئی تازہ الہام ہے تب میں نے سنا دیا تھا۔ اور پیشگوئی نمبر ۲۷ کے مطابق پچاس ہزار سے بھی زیادہ اب تک اس مسجد میں نماز پڑھ چکے ہیں اور ان کو خدا نے طاعون اور ہریک وبا سے بچایا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 526

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 526

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/526/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

میں ان باتوں میں سے کسی بات کی علامت موجود نہ تھی (۳)سوم یہ کہ یہ الہام دلالت کر رہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں کوئی آفت آنے والی ہے۔ اور جو شخص اخلاص کے ساتھ اس میں داخل ہو گا وہ اس آفت سے بچ جاوے گا اور براہین احمدیہ کے دوسرے مقامات سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ آفت طاعون ہے سو یہ پیشگوئی بھی اس سے نکلتی ہے کہ جو شخص پوری ارادت اور اخلاص سے جس کو خدا پسند کر لیوے اس مسجد میں داخل ہو گا وہ طاعون سے بھی بچایا جائے گا یعنی طاعونی موت سے۔

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۰۔ ترجمہ۔ مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نور کو اپنے مُنہ کی پھونکوں سے بجھا ویں۔ یعنی بہت سے مکر کام میں لاویں گے۔ مگر خدا اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا اگرچہ کافر لوگ کراہت ہی کریں۔ یہ اُس زمانہ کی پیشگوئی ہے کہ جب کہ اس سلسلہ کے مقابل پر مخالفوں کو کچھ جوش اور اشتعال نہ تھا اور پھر اس پیشگوئی سے دس۱۰ برس بعد وہ جوش دکھلایا کہ انتہا تک پہنچ گیا یعنی تکفیر نامہ لکھا گیا قتل کے فتوے لکھے گئے اور صدہا کتابیں اور رسالے چھاپ دئے گئے

پیشگوئی نمبر ۲۷ کا ثبوت بیان ہو چکا اور پیشگوئی نمبر ۲۸ کا ثبوت خود ظاہر ہے کہ مخالف مولویوں نے اس سلسلہ کی بیخ کنی کے لئے ناخنوں تک زور لگایا مگر یہ سلسلہ آخر ترقی کر گیا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 527

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 527

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/527/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور قریباً تمام مولوی مخالف ہو گئے اور کوئی ذلیل سے ذلیل منصوبہ نہ چھوڑا جو میرے تباہ کرنے کے لئے نہ کیا گیا مگر نتیجہ بر عکس ہوا اور یہ سلسلہ فوق العادت ترقی کر گیا۔

وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ لَا النَّصَارٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد اَللّٰہُ الصَّمَد لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَد۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۱۔ ترجمہ۔ یعنی پادری صفت عیسائی جو اپنے زعم میں عیسائیت کے ناصر ہیں اور یہودی صفت مسلمان جو اپنے زعم میں یہودیوں کی طرح

عامل بالحدیث ہیں ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تو ان کے مذہب میں داخل نہ ہو۔ کہہ وہ خدا ایک ہے ۔ اور بے نیاز ہے ۔ نہ وہ کسی کا بیٹا

ہے نہ کوئی اس کا بیٹا اور یہ لوگ باہم مل کر کچھ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے۔ اور اس وقت تیرے لئے ایک فتنہ برپا ہو گا سو صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا ہے۔ یہ پیشگوئی اس فتنہ کے متعلق ہے کہ جو عیسائیوں اور مسلمانوں نے اول آتھم کے وقت کیا۔ اور پھر کلارک کے دعویٰ اقدام قتل کے وقت کیا اور

براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں مجھے مخاطب کر کے یہ پیشگوئی موجود ہے کہ پادری اور یہودی صفت مسلمان مل کر کوئی مکر کریں گے اور تم پر ایک فتنہ برپا کریں گے مگر خدا اصلیت ظاہر کر دے گا سو اول آتھم کے مقدمہ میں ایسا ہی ہوا کہ ان لوگوں نے مل کر پیشگوئی کو جھوٹی قرار دینا چاہا مگر خدا نے اس کی سچائی ظاہر کر دی۔ آتھم نے پیشگوئی کی شرط کے موافق دجال کہنے سے عین مجمع میں رجوع کیا اور بہت سا ہراساں اور خائف ہوا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 528

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 528

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/528/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کلارک کے مقدمہ میں سب نے اتفاق کر لیا اور ممکن ہے کہ کوئی اور فتنہ بھی ان لوگوں کے ہاتھ سے مقدرہو کیونکہ ان کا جوش ابھی کم نہیں ہے۔

ان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ مِن عندہٖ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۰۔ ترجمہ۔ اگرچہ لوگ تجھے نہ بچاویں یعنی تباہ کرنے میں کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کر کے تجھے بچائے گا۔ خدا تجھے ضرور بچا لے گا اگرچہ لوگ بچانا نہ چاہیں۔ اب دیکھو کہ یہ کس قوت اور شان کی پیشگوئی ہے اور بچانے کے لئے مکرر وعدہ کیا گیا ہے اور اس میں صاف وعدہ کیا گیا ہے کہ لوگ تیرے تباہ اور ہلاک کرنے کے لئے کوشش کریں گے اور طرح طرح کے منصوبے تراشیں گے مگر خدا تیرے ساتھ ہو گا اور وہ ان منصوبوں کو توڑ دے گا اور تجھے بچائے گا۔ اب سوچو کہ کونسا منصوبہ ہے جو نہیں کیا گیا بلکہ میرے تباہ کرنے اور ہلاک کرنے کے لئے طرح طرح کے مکر کئے گئے چنانچہ خون کے مقدمے بنائے گئے بے آبرو کرنے کے لئے بہت جوڑ توڑ عمل میں لائے گئے اور ٹکس لگانے کے لئے منصوبے کئے گئے کفر کے فتوے لکھے گئے، قتل کے فتوے لکھے گئے لیکن خدا نے سب کو نا مراد رکھا۔ وہ اپنے کسی فریب میں کامیاب نہ ہوئے۔ پس اس قدر زور کا طوفان جو بعد میں آیا

جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور پھر باوجود وعدہ چار ہزار روپیہ کے انعام کے جو قسم کھانے پر ہماری طرف سے تھا قسم نہیں کھائی اور پھر پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق میری زندگی میں ہی مر گیا اور پیشگوئی کا خلاصہ یہی تھا کہ فریقین میں سے جو جھوٹا ہے پہلے مرے گا سو مدت ہوئی کہ وہ اس جہان سے گزر گیا اور اس بات پر مہر لگا گیا کہ وہ مباحثہ میں جھوٹا تھا (۲)دوسرا مکر پادریوں اور مسلمانوں کا یہ تھا کہ ڈاکٹر کلارک نے ایک جھوٹا مقدمہ میرے اقدام



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 529

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 529

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/529/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

مدت دراز پہلے خدا نے اس کی خبر دے دی تھی خدا سے ڈرو اور سچ بولو کہ کیا یہ علم غیب اور تائید الٰہی ہے یا نہیں اور اگر کہو کہ عصمت کا وعدہ چاہتا تھا کہ وہ لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دیں مگر انہوں نے جھوٹے مقدمات کر کے عدالت میں جانے کی تکلیف دی بہت سی گالیاں دیں مقدمات کے خرچ سے نقصان کرایا اس کا جواب یہ ہے کہ عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جو دشمنوں کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے اور یہ حادثہ وعدۂ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو فرمایا تھا ۱؂ یعنی یاد کر وہ زمانہ کہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے میں نے تجھ سے روک دیا حالانکہ تواتر قومی سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا لیکن خدا نے آخر جان بچا دی۔ پس یہی معنے کے ہیں جیسا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کے ہیں

قتل کی نسبت دائر کیا اور تمام مخالف مسلمان اس کے حامی ہو گئے اور بعض مولویوں نے عدالت میں اس کی طرف سے میرے بر خلاف گواہی دی مگر آخر وہ مقدمہ جھوٹا ثابت ہوا اور خارج ہو گیا سو تم اس پیشگوئی کی شان دیکھو کہ ان مقدمات سے کئی سال پہلے خبر دی گئی کہ اس طرح پر پادری اور مسلمان باہم مل کر تیرے پر مقدمات کریں گے اور خدا ان کے مکر کو پاش پاش کر دے گا ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور پیشگوئی نمبر ۳۰ جو اوپر بیان ہو چکی ہے اس کا ثبوت بھی اسی سے ملتا ہے کہ دشمنوں نے خون کے مقدمات بھی کئے مگر خدا نے مجھے ان سے بھی بچا یا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 530

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 530

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/530/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفّرَ اَوْقِدْلِیْ یَا ھامَان لَعَلِّی اَطَّلِعُ عَلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَاکَانَ لَہٗ اَنْ یَّدخُلَ فِیْھَا اِلاَّ خَاءِفًا۔ وَمَا اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ اَ لَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ۔ لِیُحِبَّ حُبًّاجَمَّا۔ حُبًّا مِنَ اللّٰہ العزیز الاکرم عَطَاءً ا غَیْر مجذوذ۔ شاتان تذبحان و کُلّ من علیھا فان۔ترجمہ۔ اور یاد کر وہ زمانہ جب کہ ایک ایسا شخص تجھ سے مکر کرے گا کہ جو تیری تکفیر کا بانی ہو گا اور اقرار کے بعد منکر ہو جائے گا(یعنی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی) اور وہ اپنے رفیق کو کہے گا (یعنی مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کو) کہ اے ہامان میرے لئے آگ بھڑکا یعنی کافر بنانے کے لئے فتویٰ دے میں چاہتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا کی تفتیش کروں اور میں گمان کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے۔ اس جگہ خداتعالیٰ نے میرا نام موسیٰ رکھا تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ جس نظر سے یعنی نہایت تحقیر اور استخفاف سے فرعون نے موسیٰ کو دیکھا تھا اور کہتا تھا کہ یہ میرا ہی پرورش یافتہ ہے اور میں ہی اس کو ہلاک کروں گا یہی طریق محمد حسین نے اختیار کیا اور نیز اس فتح کی طرف اشارہ ہے جو مقدر تھا کہ مجھے موسیٰ کی مانند فرعون پر حاصل ہو گی اور پھر مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہراکر تبّت یدا ابی لہب وتبّفرما دیا یعنی

پیشگوئی نمبر ۳۱ کا ثبوت خود مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے ہاتھ سے دیا کہ میرے لئے کفرنامہ لکھا اور کافر ٹھہرایا ۔ پھر بعد اس کے بحکم حاکم تکذیب اور تکفیر سے روکا گیا۔ جیسا کہ پیشگوئی میں بیان ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 531

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 531

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/531/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے یعنی بے کار ہو گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا یعنی ضلالت کے گڑھے میں گرا اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے۔ اور جو کچھ تجھے دکھ پہنچے گا وہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ تیرے لئے ایک فتنہ ہو گا۔ پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا وہ خدا کی طرف سے اس لئے فتنہ ہے تا وہ بہت ہی تجھ سے پیار کرے اس خدا کا پیار جو عزیز اور بزرگ ہے اور یہ وہ نعمت ہے جو کبھی نہیں چھینی جائے گی۔ اس جماعت میں سے دو بکریاں ذبح کی جائیں گی ہر ایک جاندار آخر مرنے کو ہے۔ دیکھو اب اس پیشگوئی پر انصاف سے غور کرو کہ اس زمانہ سے پہلے کی یہ پیشگوئی ہے کہ جب مولوی محمد حسین نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا اور یہ پیشگوئی بھی پڑھی تھی کیا بغیر خدا کے کسی کا کام ہے کہ اس پوشیدہ غیب کی خبر دیدے جس کی کسی کو بھی اطلاع نہیں تھی۔ براہین احمدیہ صفحہ ۱۵۰۔

خدا نے عالم رؤیا میں اپنی وحی خاص سے میرے پر ظاہر کیا کہ پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے جا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں انہوں نے جواب

پیشگوئی نمبر ۳۱ کا ثبوت گذر چکا ہے اور پیشگوئی نمبر ۳۲ کو ہم نے اپنے اشتہار ۶ فروری ۱۸۹۸ ؁ء اور ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ ؁ء میں شائع کیا تھا جو بہت صفائی سے پوری ہو گئی۔ جب یہ پیشگوئی ۶ فروری ۱۸۹۸ ؁ء میں شائع ہوئی تب پنجاب میں صرف دو ضلع آلودہ تھے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 532

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 532

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/532/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں میری تائید میں بیان فرمائیں

دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے اور الہام ہوا کہ الامراض تشاع والنفوس تضاع انّ اللہ لا یغیّر ما بقومٍ حتّٰی یغیّروا ما بأنفسھم انّہٗ أوی القَرْیۃ یعنی یہ طاعون جو ملک میں شروع ہو گئی ہے یہ کبھی دور نہیں ہو گی اور یہ مرض پھیل جائے گی اور بہت موتیں ہوں گی اور کم نہیں ہوں گی جب تک لوگ اپنے اعمال کی اصلاح نہ کریں مگر اس قادر خدا نے قادیان کو متفرق اور منتشر ہونے سے بچا لیا ہے یعنی قادیان پر ایسی تباہی نہیں آئے گی کہ اس قصبہ کو بکلی برباد کر دے اور فنا کر دے اور منتشر کر دے اور قادیان بکلی طاعون سے محفوظ بھی رہ سکتی ہے مگر بشرط توبہ یعنی اس شرط سے کہ تمام لوگ اپنی بد زبانیوں اور بد اعمالیوں اور خباثتوں سے توبہ کر لیں۔ دیکھو اشتہار طاعون شائع کردہ ۶ فروری ۱۸۹۸ء و۱۷ مارچ ۱۹۰۱ء۔ یہ رؤیا اور الہام تھا کہ مجھے دکھایا گیا اور بتایا

گیا اور پھر اشتہار ۶؍ فروری ۱۸۹۸ء سے اور۴ برس کے بعد عام طور پر پنجاب میں طاعون پھیل گئی چنانچہ یکم اکتوبر ۱۹۰۱ء سے ۱۹ جولائی ۱۹۰۲ء تک عرصہ پونے دس ماہ میں اس قدر پھیل گئی کہ کل ۲۳ اضلاع پنجاب کے اس سے آلودہ ہو گئے۔ دیکھو سرکاری نقشجات متعلقہ طاعون پنجاب ۔ پس یہ پیشگوئی ایسے وقت میں کی گئی تھی یعنی فروری ۱۸۹۸ء میں جبکہ تمام پنجاب میں صرف دو ضلعے طاعون سے آلودہ تھے۔ دیکھو اخبار عام ۲؍ اگست ۱۹۰۲ء جس میں یہ سرکاری شہادت درج ہے۔

مگر بعد اس کے پنجاب کے ۲۳ ضلعے اس مرض سے آلودہ ہو گئے اور پونے دس ماہ میں تین لاکھ سولہ ہزار کیس ہوئے اور دو لاکھ اٹھارہ ہزار سات سو ننانوے فوتیاں ہوئیں۔ دیکھو سرکاری نقشجات۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 533

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 533

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/533/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں میری تائید میں بیان فرمائیں

اسی طرح اس زمانہ میں جب کہ بمبئی میں بھی طاعون کا نام و نشان نہ تھا طاعون کے آنے کے لئے دعا کی گئی اور وہ دعا منظور ہو گئی چنانچہ ۱۳۱۱ہجری میں جس کو نو برس ہو گئے یہ دعائیہ شعر حمامۃ البشریٰمیں موجود ہے۔

فَلَمَّا طَغَی الفِسْقُ الْمُبِیْدُ بِسَیْلِہٖ

تَمَنَّیْتُ لَوْکَانَ الْوَبَاءُ الْمُتَبّرٗ

دیکھو صفحہ اول قصیدہ حمامۃ البشریٰ یعنی جب فسق کا طوفان برپا ہوا تو میں نے خدا سے چاہا کہ طاعون آوے۔

ایسا ہی طاعون کے بارے میں رسالہ سراج منیر صفحہ ۵۹ میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ جن لوگوں نے لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی کو قبول نہیں کیا تھا ان پر بھی طاعون کی بلا نازل ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱؂ یعنی جنہوں نے گو سالہ کو عزت دی اور اس کی پرستش کی ان پر غضب آئے گا اور ذلت کی مار ان پر پڑے گی سو دنیا میں غضب نازل ہونے سے مراد طاعون ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۶۰ میں طاعون کی نسبت یہ الہام بھی لکھا تھا یا مسیح الخلق عدوانا یعنی طاعون کے غلبہ کے وقت لوگ کہیں گے کہ اے مسیح ہماری شفاعت کر۔ اور اس کتاب کے شائع کرنے پر آج سے جو ۱۸ جولائی ۱۹۰۲ ؁ء ہے پانچ برس گذر گئے

ان دونوں پیشگوئیوں نمبر ۳۳و ۳۴ کے ثبوت میں سرکاری نقشجات کافی ہیں جن کا ہم صفحہ ۱۵۳و۱۵۴ میں ذکر کر آئے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 534

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 534

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/534/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور اس زمانہ میں طاعون کے پھیلنے کی کچھ بھی امید نہ تھی پس دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان غیب کی خبریں ہیں جو برابر بائیس برس سے مسلسل طور پر شائع ہو رہی ہیں اور متواتر خبر دی گئی کہ ملک میں طاعون آنے والی ہے۔

عرصہ نو برس کا جاتا ہے کہ کتاب سرالخلافۃ کے صفحہ ۶۲ میں مخالفوں پر تباہی پڑنے اور نیز طاعون نازل ہونے کے لئے دعا کی گئی تھی سو اب تک ہزارہا مخالف طاعون اور دوسری آفات سے ہلاک اور تباہ ہو چکے ہیں اور وہ دعا یہ ہے۔

وخذ ربّ مَن عادی الصّلاح ومُفسدًا

و نزّل علیہ الرِجْز حقًّا و دَمّرٖ

وَفَرِّجْ کُرُوبِیْ یَا کَرِیْمی وَ نَجِّنِیْ

و مزّق خصیمی یَا الٰہی و عَفّرٖ

ترجمہ: یعنی اے میرے خدا ہر ایک پر جو مفسد ہے طاعون نازل کر یا کسی دوسری موت سے ہلاک کر یا کوئی اور مواخذہ کر اور مجھے غموں سے نجات بخش اور میرے دشمن کو پارہ پارہ کر اور خاک میں ملا دے اور خاک سے آلودہ کر اور خاک میں غلطاں پیچاں کر۔ سو ملک میں طاعون نازل ہو کر ہزار ہا بخیل جو ہمارے سلسلہ کے دشمن تھے طاعون سے فوت ہو گئے۔ ابھی آئندہ کی خبر نہیں ماسوا اس کے جو منتخب مولوی تھے بعض ان میں اندھے ہو گئے اور بعض کانے ہو گئے اور بعض دیوانے اور بہت سے ان میں سے مر گئے چنانچہ برطبق اس دعا کے مولوی شاہ دین دیوانہ ہو گیا۔ رشید احمد اندھا ہو گیا۔

پیشگوئی نمبر ۳۵ کے ثبوت کے لئے بھی سرکاری نقشجات کافی ہیں اور یہ پیشگوئی کتاب سرالخلافہ میں موجود ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 535

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 535

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/535/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

محمد بخش طاعون سے مرا۔ تینوں مولوی لدھیانہ کے ہلاک کئے گئے۔ محمد حسن بھیں ہلاک کیا گیا۔ غلام دستگیر قصوری ہلاک کیا گیا۔ محی الدین لکھو کے والا ہلاک کیا گیا۔ اور اصغر علی کی ایک آنکھ جاتی رہی اور مولوی محمد حسین عَفِّرِ کی دعا کے نیچے آ گیا کیونکہ عَفَرَ لغت عرب میں خاک آلودہ کرنے کو کہتے ہیں ۔ سو وہ تکفیر کی جمعداری سے بحکم حاکم روکا گیا اور زمینداری کی گردو غبار میں آلودہ کیا گیا کیونکہ خاک میں غلطاں پیچاں ہونا لوازم زمینداری میں سے ہے۔ وجہ یہ کہ ہر وقت خاک سے ہی کام پڑتا ہے۔ اس قدر تو وقوع میں آ گیا ابھی معلوم نہیں کہ اس کا حصہ اور کس قدر باقی ہے۔

کتاب نور الحق کے صفحہ ۳۵ سے ۳۸ تک بذریعہ الہام الٰہی طاعون کی خبر دی گئی ہے جو چھ برس بعد ظہور میں آئی ۔ صفحہ ۳۵ میں یہ عبارت ہے۔ اِعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ نَفَث فِیْ رَوْعِیْ انَّ ھٰذَا الْخَسُوْف وَالکسوف فِیْ رَمَضَان اٰیَتَانِ مخوفتانِ لِقَوْم اتّبعُوا الشّیْطان۔۔۔ وَلَءِنْ اَبَوا فَاِنَّ الْعَذَابَ قَدْحَان۔ ترجمہ۔ خدا نے اپنے الہام کے ساتھ میرے دل میں پھونکا ہے کہ خسوف کسوف ایک عذاب کا مقدمہ ہے یعنی طاعون کا جو قریب ہے۔

پیشگوئی نمبر ۳۵ کا ثبوت گذر چکا ہے وہی ثبوت پیشگوئی نمبر ۳۶ کا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 536

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 536

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/536/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

پنڈت دیانند آریوں کے سرگروہ کی وفات کی خبر تین ماہ اس کے مرنے سے پہلے دی گئی اور لالہ شرمپت وغیرہ آریوں ساکنان قادیان کو وہ پیشگوئی سنائی گئی۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۳۵۔ یہ لوگ اگر حلف دی جاوے تو سچ سچ کہہ دیں گے۔ پنڈت دیانند کے مرنے پر ہمیں بہت افسوس ہوا اس لئے کہ وہ ہمارے چند سوالات کے جواب دینے سے پہلے ہی گزر گیا۔ ایک یہ سوال تھا کہ اواگون یعنی شامت اعمال سے جون بدلنا یہاں تک کہ کیڑے مکوڑے کتے بلے بن جانا۔ یہ تو بقول آریہ صاحبان کروڑہا برسوں سے ان کے گلے پڑا ہوا ہے لیکن باوجودیکہ وہ معدودے چند تھے غیر محدود نہ تھے اب تک نجات نہیں ہوئی۔ یا تو پرمیشر نجات دینا نہیں چاہتا یا کوئی قاعدہ نجات

کا وید میں مقرر نہیں اور ظاہر ہے کہ بغیر یقین کے انسان گناہ سے رک نہیں سکتا سو وید نے کوئی ذریعہ پرمیشر پر یقین لانے کا پیش نہیں کیا اس لئے آریوں کے پاس خدا شناسی کا کوئی یقینی طریق نہیں پس شائد اسی وجہ سے کیڑوں مکوڑوں کی اب تک خلاصی نہیں ہوتی ایک تو یہی سوال تھا۔ دوسرا یہ کہ آریہ کی عورت ایک ہی وقت میں ایک خاوند اور ایک اور شخص بطور یارانہ رکھ سکتی ہے۔ کیا یہ دیوّثی نہیں۔ تیسرا یہ کہ اگر پرمیشر روحوں کا پیدا کرنے والا نہیں اور روحیں کسی وقت گناہ سے نجات پا سکتی ہیں تو جیسا کہ وید کا اصول ہے دنیا کا سلسلہ ہمیشہ

اس پیشگوئی کا گواہ لالہ شرمپت آریہ اور چند مسلمان ہیں لیکن شرمپت کی گواہی مضبوط ہے صرف قسم کی حاجت ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 537

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 537

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/537/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں میری تائید میں بیان فرمائیں

کے لئے چل نہیں سکتا اور پرمیشر خالی ہاتھ رہ جاتا ہے کیونکہ جو شخص گناہ سے نجات پا گیا وہ تو پرمیشر کے ہاتھ سے گیا اس لئے کہ اس کا کوئی گناہ نہیں رہا۔ لہٰذا وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور اس سے وید کا یہ اصول جھوٹا ہوتا ہے کہ روحیں باربار دنیا میں آتی ہیں ۔ ان باتوں میں سے کسی بات کا جواب دیانند نے نہ دیا اور اجمیر میں جا کر نامرادی کی حالت میں مر گیا۔

ایک دفعہ یہ وحی الٰہی میری زبان پر جاری ہوئی کہ عبداللہ خان ڈیرہ اسماعیل خان۔ وہ صبح کا وقت تھا اور اتفاقاً چند ہندو اس وقت موجود تھے ۔ ان میں سے ایک ہندو کا نام بشنداس تھا میں نے سب کو اطلاع دی کہ خدا نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ آج اس نام کے ایک شخص کی طرف سے کچھ روپیہ آئے گا۔ بشنداس بول اٹھا کہ میں اس بات کا امتحان کروں گا اور میں ڈاکخانہ میں جاؤں گا۔ چونکہ قادیان میں ڈاک ان دنوں میں دوپہر کے بعد دو بجے آتی تھی وہ اسی وقت ڈاکخانہ میں گیا اور جواب لایا کہ ڈاک منشی کی زبانی معلوم ہوا کہ درحقیقت ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک شخص عبداللہ خان نے جو اکسٹرا اسسٹنٹ ہے روپیہ بھیجا ہے۔ اور پھر اس نے بہت متعجب اور حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ یہ کیونکر معلوم ہو گیا

اس پیشگوئی نمبر ۳۸ کا وہی بشنداس گواہ ہے جو ساکن قادیان ہے اور اب تک زندہ موجود ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 538

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 538

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/538/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

میں نے جواب دیاکہ وہ خدا جس کو تم لوگ نہیں پہچانتے اس نے یہ خبر دی ہے۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۶۔

ایک دفعہ قادیان کا ایک آریہ جو سرگرم آریہ ہے ملاوامل نام مرض دق میں مبتلا ہو گیا اور تپ پیچھا نہیں چھوڑتا تھا اور آثار نومیدی ظاہر ہوتے جاتے تھے چنانچہ وہ ایک دن میرے پاس آ کر علاج کا طلبگار ہوا اور پھر اپنی زندگی سے نومید ہو کر بیقراری سے رویا اور میں نے اس کے حق میں دعا کی خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا قلنا یا نار کونی بردًا وسلامًا۔یعنی ہم نے کہا کہ اے تپ کی آگ سرد اور سلامتی ہو جا چنانچہ بعد اس کے اسی ہفتہ میں وہ ہندو اچھا ہو گیا اور اب تک زندہ موجود ہے۔ براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۷۔

جب کتاب براہین احمدیہ کے بعض حصے طیار ہو گئے تو مجھے خیال آیا کہ ان کو چھاپ دیا جاوے مگر میرے پاس کچھ سرمایہ نہیں تھا تب میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ لوگ مدد کی طرف متوجہ ہوں اُسی وقت تھوڑی سی غنودگی ہو کر جواب ملا (بالفعل نہیں) تب باوجود بہت سی کوشش کے کسی نے ایک پیسہ بھی نہیں بھیجا اور ایک مدت گزر گئی۔ دیکھو براہین صفحہ ۲۲۵۔

پیشگوئی نمبر ۳۹ کا گواہ خود ملاوامل آریہ ہے اس کو خوب یاد ہو گا کہ کیسی نومیدی کے وقت میں یہ الہام اس کو بتلایا گیا اور پھر ایک ہفتہ تک اچھا ہو گیا۔ اور پیشگوئی نمبر ۴۰ کے تو بہت گواہ ہیں اور بعض اسی جگہ موجود ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 539

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 539

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/539/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

جب مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ بالفعل تمہاری کچھ مدد نہیں کی جاوے گی تو ایک مدت تک کوئی بھی میری طرف متوجہ نہ ہوا اور لوگ لاپروائی سے پیش آئے اور کتاب کا چھپنا معرض التوا میں رہا۔ تب ایک دن قریب مغرب کے پھر دعا کے لئے دل میں جوش پیدا ہوا تو خدائے عزّوجلّ کی طرف سے یہ وحی میری زبان پر جاری ہوئی۔ ھُزِّ اِلَیْکَ بجذع النخلۃ تسَاقط عَلَیْک رطبًا جنیًا۔ دیکھو براہین صفحہ ۲۲۶۔ یعنی کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ تب میں نے چند مشہور لوگوں کی طرف خط لکھے تواس قدر روپیہ آ گیا کہ میں پہلا اور دوسرا حصہ براہین احمدیہ کا اس روپیہ کے ذریعہ سے چھاپ سکا۔ مگر ابھی میری حالت معمولی تھی اور صرف ایک پرانے خاندان کی کسی قدر شہرت بعض دلوں کو متوجہ کرنے کے لئے خداتعالیٰ کے اذن اور حکم سے محرک ہو گئی تھی۔ پھر بعد اس کے خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ ایک ذاتی وجاہت کے لحاظ سے مجھے دنیا میں قبولیت بخشے تب اس کے بعد یہ تمام الہام ہوئے جو کہ براہین احمدیہ میں درج ہیںیعنی القیت علیک محبّۃً مِنِّی ولتصنع علٰی عینی سینصرک رجال نوحی الیھم من السّماءِ یأتون من کل فج عمیق۔ یأتیک من کلّ فج عمیق ۔ ولا تصعّر لخلق اللّٰہ ولا تسئم من الناس۔ براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۱و۲۴۲۔ ترجمہ یعنی میں نے اپنی طرف سے تیری

ڈاکخانوں کے رجسٹر اس بات کے گواہ ہیں کہ اس کے بعد کس قدر روپیہ آیا اور سرکاری تحریریں گواہ ہیں کہ کس قدر مہمان آئے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 540

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 540

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/540/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

محبت مستعد دلوں میں ڈال دی تا کہ میری آنکھوں کے سامنے تو پرورش پاوے عنقریب تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کی طرف میں وحی بھیجوں گا وہ ہر ایک دور کی راہ سے تیرے پاس آئیں گے اور انواع اقسام کے تحائف از قسم نقد و جنس ہر ایک راہ سے تیرے پاس لائیں گے۔ سو اس کے بعد یہ پیشگوئی ایک تخم کی طرح بڑھتی گئی یہاں تک کہ ان دنوں میں جو ۱۳۲۰ ہجری ہے بمقابل اس زمانہ کے کہ جب دو تین آدمی مجھ سے تعلق رکھتے تھے اور وہ بھی بعد میں اب ایک لاکھ سے کچھ *زیادہ اس جماعت کا عدد پہنچ گیا ہے اور ہر ایک طرف سے جب کوئی انسان آتا ہے یا کسی نئے شخص کی طرف سے کوئی تحفہ آتا ہے تو وہ ایک نشان ظاہر ہوتا ہے اور چونکہ اس جگہ آ کر بیعت کرنے والے پچاس ہزار سے کم نہیں ہوں گے اور جو روپیہ اور تحائف متفرق وقتوں میں آئے وہ دس۱۰ لاکھ سے کم نہیں ہوں گے اس لئے یہ بات بالکل صحیح اور سچ ہے کہ علاوہ ان نشانوں کے جو اس نقشہ میں لکھے گئے ہیں کم سے کم دس۱۰ لاکھ اور ایسے نشان ہیں جو الہام یاتون من کل فج عمیقاور یاتیک من کل فج عمیق سے ثابت ہوتے ہیں اور ایک سلسلہ ان نشانوں کا وہ ہے جو الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھانَتَکَکے ذریعہ سے ظہور میں آئے ہیں۔ اس جگہ ایک اور نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وحی

* حاشیہ۔ میں خیال کرتا تھا کہ احاطہ بمبئی میں مجھ سے بیعت کرنے والے چھ سات سے زیادہ نہیں ۔ اب سرکاری چٹھی سے معلوم ہوا کہ احاطہ مذکورہ میں بیعت کرنے والے ۱۱۰۸۷۔ آدمی ہیں سرکاری تحریر ہے میمو نمبر ۱۹۱۴۳ مورخہ ۲؍ ستمبر ۱۹۰۲ء ازپونا بجواب چٹھی مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۰۲ء مرقومہ (مفتی محمد صادق صاحب) اسسٹنٹ سکرٹری انجمن اشاعت اسلام ۔ التماس ہے کہ فرقہ احمدیہ کی تعداد پچھلی مردم شماری میں ۱۱۰۸۷ تھی۔ دستخط ہیڈ کمپائلر ۔ بجائے پروونشل سپرنٹنڈنٹ مردم شماری۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 541

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 541

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/541/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

یعنی ھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبًا جنیّا۔یہ حضرت مریم کو اس وقت وحی ہوئی تھی کہ جب ان کا لڑکا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور ہوئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے اسی کتاب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا کہ وکن من الصالحین الصدّیقین۔ دیکھو ص۲۴۲ براہین احمدیہ۔ پس یہ میری وحی یعنی ھزّ الیک اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ صدیقیت کا جو حمل تھا اس سے بچہ پیدا ہوا جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور جب تک وہ کمزور رہا صفات مریمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا تو اس کو پکارا گیا یَاعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ دیکھو صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ۔ یہ وہی وعدہ تھا جو سورہ تحریم میں کیا گیا اور ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا اور پھر اس طرح پر ترقی کر کے اس سے عیسیٰ پیدا ہوتا اور وہ ابن مریم کہلاتا سو وہ میں ہوں۔ وحی ھزّی الیکمریم کو بھی ہوئی اور مجھے بھی مگر باہم فرق یہ ہے کہ اس وقت مریم ضعف بدنی میں مبتلا تھی اور میں ضعف مالی میں مبتلا تھا۔

منجملہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان نشانوں کے وہ نشان ہے جو اس خدائے قادر نے ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی کی نسبت ظاہر فرمایا اور اس کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ مئی اور جون ۱۸۹۳ ؁ء میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کی تحریک سے اسلام اور عیسائیت میں ایک مباحثہ قرار پایا اس مباحثہ میں

پیشگوئی نمبر ۴۲ یعنی عبداللہ آتھم کے متعلق جو میں نے پیشگوئی کی تھی اس کا ثبوت اس رسالہ مباحثہ میں موجود ہے جس کا نام جنگ مقدس ہے اور اسی سے ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی کیوں کی گئی یعنی آتھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا تھا اور پھر پیشگوئی کو سن کر قریباً



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 542

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 542

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/542/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آتھم انتخاب کیا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے میں پیش ہوا اور عبداللہ آتھم نے مباحثہ سے کچھ دن پہلے اپنی کتاب اندرونہ بائیبل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دجال کا لفظ لکھا تھا جیسا کہ کتاب جنگ مقدس کے آخری صفحہ میں اس کا ذکر ہے وہ شرارت اور شوخی اس کی مجھے تمام ایام بحث میں یاد رہی اور میں دل وجان سے چاہتا تھا کہ اس کی سرزنش کی نسبت کوئی پیشگوئی خدا تعالیٰ سے پاؤں ۔ چنانچہ میں نے آتھم سے ایک دستخطی تحریر بھی اسی غرض سے لے لی تھی تا وہ پیشگوئی کے وقت عام عیسائیوں کی طرح میری آزار دہی کے لئے کسی عدالت کی طرف نہ دوڑے۔ سو میں پندرہ۱۵ دن تک بحث میں مشغول رہا اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا۔ جب بحث کے دن ختم ہو گئے تو میں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پائی کہ اگر آتھم اس شوخی اور گستاخی سے توبہ اور رجوع نہیں کرے گا جو اس نے دجال کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اپنی کتاب میں لکھا تو وہ ہاویہ میں پندرہ مہینہ کے اندر گرایا جائے گا۔ سویہ امر الٰہی پا کر بحث کے خاتمہ کے دن ایک جماعت کثیر کے روبرو جس میں عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر مارٹن کلارک اور تیس کے قریب اور عیسائی تھے اور میری جماعت کے لوگ بھی تیس یا چالیس کے قریب تھے جن میں سے اخویم مولوی حکیم نوردین صاحب اور اخویم مولوی عبدالکریم اور اخویم

ستر۷۰ آدمیوں کے روبرو رجوع کیا ۔ جن میں اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب اور اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی ہوس لاہور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 543

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 543

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/543/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

شیخ رحمت اللہ صاحب اور اخویم منشی تاج الدین صاحب اکونٹنٹ دفتر ریلوے لاہور اور اخویم عبدالعزیز خان صاحب کلارک دفتر اگزیمینر ریلوے لاہور اور اخویم خلیفہ نوردین صاحب وغیرہ احباب موجود تھے۔ میں نے ڈپٹی عبداللہ آتھم کو کہا کہ آج یہ مباحثہ منقولی اور معقولی رنگ میں تو ختم ہو گیا مگر ایک اور رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کے نام سے پکارا ہے اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا رسول جانتا ہوں اور دین اسلام کو منجانب اللہ یقین رکھتا ہوں۔ پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا اور وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول صادق کو کاذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن

سے پندرہ مہینہ تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہاویہ میں گرے گا ۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یعنی راستباز اور صادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بیباکی اور بد زبانی نہ چھوڑے۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کرنا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہرتا بلکہ بے باکی اور شوخی اور بد زبانی مستوجب سزا ٹھہراتی ہے ۔ غرض جب آتھم کو ایسی مجلس میں جس میں ستر سے زیادہ آدمی ہوں گے یہ پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے تب اس نے

اور اخویم خلیفہ نور الدین صاحب تاجر جموں اور اخویم منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ اور اخویم خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر پشاور اور خلیفہ رجب الدین صاحب لاہور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 544

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 544

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/544/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

بلا توقف اپنی زبان مُنہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو معہ سر کے ہلانا شروع کیا جیسا کہ ایک ملزم خائف ایک الزام سے سخت انکار کر کے توبہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار لرزتے ہوئے زبان سے کہتا تھا کہ توبہ توبہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز ہرگزدجال نہیں کہا اور کانپ رہا تھا اس نظارہ کو نہ صرف مسلمانوں نے دیکھا بلکہ ایک جماعت کثیر عیسائیوں کی بھی اس وقت موجود تھی جو اس عجز و نیاز کوبھی دیکھ رہی تھی۔ اس انکار سے اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا تھا کہ میری اس عبارت کے جو میں نے اندرونہ بائیبل میں لکھی ہے اور معنی ہیں بہر حال اس نے اس مجلس میں قریباً ستر آدمی کے روبرو دجّال کہنے کے کلمہ سے رجوع کر لیا اور یہی وہ کلمہ تھا جو اصل موجب اس پیشگوئی کا تھا اس لئے وہ پندرہ مہینہ کے اندر مرنے سے بچ رہا کیونکہ جس گستاخی کے کلمہ پر پیشگوئی کا مدار تھا وہ کلمہ اس نے چھوڑ دیا اور ممکن نہ تھا کہ خدا اپنی شرط کو یاد نہ

کرے اور اگرچہ رجوع کی شرط سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسی قدرکافی تھا مگر آتھم نے صرف یہی نہیں کیا کہ اپنے قول دجال کہنے سے باز آیا بلکہ اسی دن سے جو اس نے پیشگوئی کو سنا اسلام پر حملہ کرنا اس نے بکلی چھوڑ دیا اور پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر روز بروز بڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ مارے ڈر کے سراسیمہ ہو گیا اور اس کا آرام اور قرار جاتا رہا اور یہاں تک اس نے اپنی حالت میں تبدیلی

میاں محمد چٹو صاحب لاہور اور منشی تاج الدین صاحب لاہور اور مولوی الہ دیا صاحب از لودیانہ اور منشی محمد اروڑا صاحب از کپورتھلہ۔ اور میاں محمد خان صاحب از کپورتھلہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 545

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 545

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/545/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کی کہ اپنے پہلے طریق کو جو ہمیشہ مسلمانوں سے مذہبی بحث کرتا تھا اور اسلام کے ردّ میں کتابیں لکھتا تھا بالکل چھوڑ دیا اور ہر یک کلمہ توہین اور استخفاف سے اپنا منہ بند کر لیا بلکہ اس کے منہ پر مہر لگ گئی اور خاموش اور غمگین رہنے لگا اور اس کا غم اس درجہ تک پہنچ گیا کہ آخر وہ زندگی سے نومید ہو کر بے قراری کے ساتھ اپنے عزیزوں کی آخری ملاقات کے لئے شہر بشہر دیوانہ پن کی حالت میں پھرتا رہا اور اسی مسافرانہ حالت میں انجام کار فیروز پور میں فوت ہو گیا۔ اور یہ سوال کہ باوجود اس کے کہ اس نے اپنی بے باکی کے لفظ سے عام مجلس میں رجوع کر لیا اور بار بار عجز و نیاز سے دجال کہنے کے کلمہ سے بیزاری ظاہر کی تو پھر کیوں وہ پکڑا گیا اور کیوں جلد انہیں دنوں میں فوت ہو گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ مباہلہ کا نشانہ ہو چکا تھا لہٰذا ان پیشگوئیوں کے موافق جو کتاب انجام آتھم کے پہلے صفحہ میں موجود ہیں جو آتھم کی زندگی میں ہی پندرہ مہینے گذرنے کے بعد کی گئی تھیں اس کا مرنا ضروری تھا کیونکہ ان پیشگوئیوں میں صاف لفظوں میں لکھا گیا تھا کہ آتھم انکار قسم اور اخفاء شہادت اور

اعادہ بے باکی کے بعد جلد تر فوت ہو جائے گا۔ پس جب کہ اس نے ارتکاب ان جرائم کا کیا تو ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے بعد فوت ہو گیا اور نیز اس لئے اس کا مرنا بہرحال ضروری تھا کہ پیشگوئی کے مضمون میں یہ بات داخل تھی کہ جو جھوٹا ہے وہ صادق سے پہلے مرے گا لہٰذا رجوع کا فائدہ اس نے صرف اس قدر اٹھایا کہ پندرہ میں نہ مرا لیکن بعد میں جب کہ وہ پندرہ مہینہ

اور شیخ نور احمد صاحب اڈیٹر اخبار ریاض ہند امرتسر ومالک مطبع ریاض ہند امرتسر اور میاں نبی بخش صاحب تاجر پشمینہ امرت سر اور میاں قطب الدین مس گر امرت سر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 546

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 546

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/546/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کے گزرنے کے پیچھے اپنے رجوع پر بھی قائم نہ رہ سکا اور اس کے دل میں وہ خوف نہ رہا جو پندرہ مہینہ کی میعاد کے اندر تھا اور جھوٹ بولا اور کہا کہ میں پیشگوئی سے ہرگز نہیں ڈرا اور جب چار ہزار روپیہ نقد دینے کے وعدہ سے قسم کے لئے بلایا گیا تو قسم بھی نہ کھائی۔ لہٰذا خدا نے انکار اور اخفاء شہادت اور بے باکی کے بعد ہمارے آخری اشتہار سے سات ماہ کے اندر یعنی پندرہ۱۵ مہینہ کے اندر ہی مار دیا اور ۲۷ ؍جولائی ۱۸۹۶ ؁ء کو بمقام فیروز پور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس صورت میں جو پندرہ مہینہ پیشگوئی کے لئے مقرر ہوئے تھے آخر آتھم اس دائرہ کے اندر ہی مرا اور پندرہ مہینہ کی میعاد بہر صورت قائم رہی۔ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے جمالی رنگ میں تھی یعنی رفق اور نرمی کے لباس میں ۔ چونکہ آتھم نے اپنی روش میں نرمی اختیار کی اورا س سخت گندہ زبانی کو اختیار نہ کیا جس کو لیکھرام نے اختیار کیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی اس سے نرمی کا ہی برتاؤ کیا اور اس کو مہلت دینے اور آخر مارنے سے جمالی رنگ کا نشان دکھلایا لیکن لیکھرام نہایت دریدہ دہن اور بد زبان تھا اس لئے خدا نے جلالی رنگ کا نشان اس میں دکھلا دیا اور جب نادانوں اور اندھوں نے اس جمالی نشان کا قدر نہ کیا کہ جو بذریعہ آتھم ظاہر ہوا تو خدا نے اس کے بعد لیکھرام کی موت کا نشان جو ہیبت ناک اور جلالی تھا ظاہر کر دیا۔

مفتی محمد صادق صاحب۔ صاحبزادہ سراج الحق صاحب ۔ قاضی ضیاء الدین صاحب۔ مولوی عبداللہ سنوری صاحب ۔ شیخ چراغ علی صاحب وغیرہ اس پیشگوئی کے گواہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 547

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 547

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/547/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جودنیا پر ظاہر ہوئیں

جب عیسائیوں نے آتھم کے نشان کو جو صاف اور روشن تھا اپنے ظلم اور افترا سے پوشیدہ کرنا چاہا اور نادان مسلمان بھی ان کے ساتھ مل گئے اور خدا کے بزرگ نشان کو قبول نہ کیا بلکہ بڑا فتنہ برپا کیا اور اس بات کو کسی نے نہ سوچا کہ پیشگوئی کا اصل مدعا تو یہ تھا کہ کاذب صادق کی زندگی میں ہی مرے گا اور وہ وقوع میں آ گیا اور نہ یہ سوچا کہ آتھم نے تو ایک بھری مجلس میں دجال کہنے سے رجوع کر لیا جو اس پیشگوئی کا اصل موجب تھا تو پھر وہ شرط سے کیوں فائدہ نہ اٹھاتا۔ غرض جب خدا کی پیشگوئی کو لوگوں نے مشتبہ کرنا چاہا تو خداتعالیٰ نے گواہی کے طور پر ایک دوسری پیشگوئی کو ظاہر فرمایا

یعنی لیکھرام کی نسبت پیشگوئی جو بہت قوت اور شوکت سے جلالی رنگ میں ظاہر ہوئی۔ پس واضح ہو کہ منجملہ ہیبت ناک اور عظیم الشان نشانوں کے پنڈت لیکھرام کی موت کا نشان ہے جس کی بنیاد پیشگوئی میری کتابیں برکات الدعاء اور کرامات الصادقین اور آئینہ کمالات اسلام ہیں جن میں قبل از وقوع خبر دی گئی کہ لیکھرام قتل کے ذریعہ سے چھ سال کے اندرا س دنیا سے کوچ کرے گا اور وہ عید سے دوسرا دن ہو گا تا یہ صورت اس بات پر دلالت کرے کہ جس دن مسلمانوں کے گھر میں عید ہو گی اس سے دوسرے دن ہندوؤں کے گھر میں ماتم ہو گا اور یہ پیشگوئی نہ صرف میری کتابوں میں درج ہو گئی بلکہ لیکھرام نے خود اپنی کتاب میں نقل کر کے

پیشگوئی نمبر ۴۳ کے گواہ لاکھوں ہیں کیونکہ بذریعہ اشتہارات و کتب جن کا حوالہ متن میں آیا ہے۔ اس کو کثرت سے شائع کیا گیا تھا اور لیکھرام نے خود بھی اس کو اپنی کتاب میں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 548

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 548

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/548/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اپنی قوم میں اس پیشگوئی کی قبل از وقوع شہرت دے دی اور جس قدر اس پیشگوئی کے وقوع کی شہرت ہوئی اس کے بیان کی اس سے کم شہرت نہ تھی البتہ وقوع کے وقت آریوں میں سخت ماتم ہوا اور ماتم کے ذریعہ سے انہوں نے اور بھی شہرت دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برٹش انڈیا کے تمام ہندو مسلمان اور عیسائی بلکہ ہماری گورنمنٹ خود اس نشان کی گواہ بن گئی۔ اللہ اللہ یہ کیسا ہیبت ناک اور وہشت ناک نشان ظاہر ہوا جس نے آنکھوں والوں کو خدا کا چہرہ دکھا دیا۔ واضح ہو کہ لیکھرام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن اور بد زبان تھا وہ آریوں کا ایک بڑا ایڈوکیٹ اور لیکچرار تھا اور جا بجا تقریریں کرتا پھرتا تھا اور کئی ایک کتابیں بھی اسلام کے برخلاف لکھی تھیں لیکن نرا گو سالہ تھا فہم اور علم اس کے نزدیک نہیں آیا تھا اور اس کے پاس بجز بدزبانی اور فحش گوئی اور نہایت قابل شرم گالیوں کے اور کچھ نہ تھا اور یہاں قادیان میں بھی مباحثہ کے لئے آیا اور پھر نشان کا طلب گار ہوا۔ اور جب اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں یہ لکھا گیا کہ لیکھرام پشاوری اور بعض دیگر آریوں کے قضاء قدر کے متعلق کچھ تحریر ہو گا۔ اگر کسی صاحب پر ایسی پیشگوئی شاق گذرے تو وہ اطلاع دیں تا اس کی نسبت کوئی پیشگوئی شائع نہ کی جائے تو اس پر پنڈت لیکھرام کا کارڈ پہنچا کہ میں اجازت دیتا ہوں کہ میری موت کی نسبت پیشگوئی کی جائے مگر معیاد مقرر ہونی چاہئے ۔ پھر رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر ۱۳۱۱ ہجری میں یہ پیشگوئی درج

شائع کیا تھا اور کئی اخباروں میں یہ پیشگوئی بھی شائع ہوئی تھی اور اس کے پورا ہونے پر کئی سو آدمیوں نے جو ہماری جماعت میں سے نہ تھے اور جن میں سے بہت سے ہندو



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 549

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 549

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/549/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کی گئی جس کے الفاظ یہ ہیں وعدنی ربّی واستجاب دعائی فی رجل مفسد عدواللّٰہ ورسولہ المسمّٰی لیکھرام الفشاوری واخبرنی انہ من الھالکین۔ انہ کان یسب نبی اللّٰہ ویتکلم فی شانہ بکلمات خبیثۃ۔ فدعوت علیہ فبشرنی ربّی بموتہ فی ست سنین ان فی ذٰلک لاٰیۃ للطالبین۔ یعنی خدا تعالیٰ نے ایک اللہ اور رسول کے دشمن کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور ناپاک کلمے زبان پر لاتا ہے جس کا نام لیکھرام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعا سنی اور جب میں نے اس پر بد دعا کی تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔ یہ ان کے لئے ایک نشان ہے جو سچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں پھر اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ ؁ء مشمولہ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں یہ پیشگوئی شائع کی گئی تھی کہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ؁ء کے اشتہار پر لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ ہمارے نام لکھا تھا کہ جو موت کی پیشگوئی میری نسبت چاہو شائع کرو سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جلّ شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا عجل جسد لہ خوار۔ لہ نصب و عذاب یعنی یہ ایک گو سالہ سامری ہے جو مردہ ہو کر پھر آواز نکالتا ہے یعنی روحانیت سے بے بہرہ اور بے جان ہے اور اس گوسالہ سامری کی طرح اس کا انجام عذاب ہے۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ جیسا گوسالہ سامری شنبہ کے

بھی تھے۔ یہ شہادت دی کہ واقعی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ ان میں سے چند ایک کے نام کتاب تریاق القلوب میں (قریباًتین سوکے) ہم نے لکھے ہیں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 550

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 550

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/550/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی کی خارق عادت پیشگوئیاں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ویسا ہی یہ بھی ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا اور پھر آگ میں جلایا جائے گا۔ غرض یہ اس کے قتل کی طرف اشارہ تھا یعنی یہ کہ وہ گوسالہ سامری کی طرح نہایت سختی سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ لیکھرام نہایت سختی سے کاٹا گیا اور اس کے کاٹے جانے کا دن شنبہ تھا اور شنبہ سے پہلے مسلمانوں کی عید تھی اور گوسالہ سامری کے کاٹے جانے کی بھی یہی تاریخ تھی یعنی شنبہ کا دن تھا اور یہودیو ں کی عید بھی تھی اور گوسالہ سامری ٹکڑے کرنے کے بعد جلایا گیا تھا ۔ ایسا ہی سارا معاملہ لیکھرام کے ساتھ ہوا کیونکہ اول قاتل نے اس کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیاپھر ڈاکٹر نے اس کے زخم کو چھری کے ساتھ زیادہ کھولا ۔ پھر لاش پر ڈاکٹری امتحان کی چھری چلی پھر وہ آگ میں جلایا گیا اور بالآخر گوسالہ سامری کی طرح دریا میں ڈالاگیا۔ اور جیسا کہ گوسالہ سامری کے بعد قوم اسرائیل میں سخت طاعون پڑی تھی کہ انہوں نے اس بت کو خدا کے مقابل عظمت دی ایسا ہی جب قوم نے لیکھرام کو بہت عظمت دی تو پھر بعد اس کے طاعون پڑی کیونکہ انہوں نے خدائے ذوالجلال کی پیشگوئی کو تحقیر کی نظر سے دیکھا اور اس شخص کو جس کا نام خدا نے گوسالہ سامری رکھا تھا بہت بزرگی کے ساتھ یاد کیا اور اشتہار میں اس الہام کے بعد یہ لکھا گیا تھا کہ آج ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ ؁ء کو جب لیکھرام کے عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج سے چھ برس

اس جگہ بطور نمونہ چند ایک کے نام درج کرتے ہیں ورنہ اصل میں ہندوؤں مسلمانوں یا عیسائیوں کا اور دیگر مذاہب کا کوئی گھر ہو گا جس میں اس



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 551

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 551

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/551/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے خارق عادت پیشگوئیاں مجھے بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کے عرصہ تک اس شخص پر ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں ایک ایسا عذاب نازل ہو گا جو معمولی تکالیف سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو گا اور تاکیدًا اس اشتہار میں لکھا گیا تھا کہ اگر میں ا س پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہرایک سزا کے بھگتنے کے لئے طیار ہوں اور میں اس عذاب پر راضی ہوں گا کہ میرے گلے میں رسہ ڈال کر مجھے پھانسی دیا جاوے اور اس پیشگوئی کے ساتھ آتھم کی پیشگوئی کی طرح کوئی شرط نہ تھی بلکہ قطعی اور اٹل طور پر در صورت تخلف سخت سے سخت سزا اپنے لئے قبول کر کے پیشگوئی شائع کی گئی تھی اور اسی اشتہار مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء کے سرے پر ایک نظم بھی لکھی گئی تھی جو لیکھرام کی صورت موت پر بلند آواز سے دلالت کرتی ہے اور اسی نظم میں اس مقام پر جہاں بطور پیشگوئی تیغ برّاں کا فقرہ لکھا گیا ہے ایک ہاتھ بنایا گیا تھا جو لیکھرام کی طرف اشارہ کرتا تھا اور ظاہر کرتا تھا کہ یہ شخص قتل کی موت سے مرے گا ۔ اب ہم اس نظم کو جو ہماری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں معہ نشان ہاتھ نو برس سے شائع ہو چکی ہے اس جگہ دوبارہ لفظ بلفظ نقل کر دیتے ہیں اور وہ اس طرح پر ہے۔

عجب نوریست درجانِ محمدؐ

عجب لعلیست درکانِ محمدؐ

زظلمت ہا دلے آنگہ شود صاف

کہ گردد از محبَّان محمدؐ

عجب دارم دلِ آن ناکسان را

کہ رُو تا بنداز خوانِ محمدؐ

پیشگوئی کی خبر نہ پہنچی ہو ۔ اور وہ نام یہ ہیں ۔ خان بہادر سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار ضلع شاہ پور۔ حکیم علاؤ الدین صاحب ساکن شیخوپور تحصیل بھیرہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 552

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 552

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/552/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ندانم ہیچ نفسے در دو عالم

کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ

خدا زان سینہ بیزار ست صد بار

کہ ہست از کینہ داران محمد ؐ

خدا خود سوزد آن کرم دنی را

کہ باشد ازعدوانِ محمدؐ

اگر خواہی نجات از مستی ء نفس

بیادر ذیلِ مستانِ محمدؐ

اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت

بشو از دل ثنا خوانِ محمدؐ

اگر خواہی دلیلے عاشقش باش

محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ

سرے دارم فدائے خاکِ احمد

دِلم ہر وقت قربانِ محمدؐ

بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم

نثارِ روئے تابانِ محمدؐ

درین رہ گر کشندم ودر بسوزند

نتابم رُوز ایوانِ محمدؐ

بکارِ دین نترسم از جہانے

کہ دارم رنگِ ایمانِ محمدؐ

بسے سہل از است از دُنیا بریدن

بیادِ حُسن و احسانِ محمدؐ

فدا شد در رہش ہر ذرّۂ من

کہ دیدم حسن پنہانِ محمدؐ

دِگر استاد رانامے ندانم

کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ

بدیگر دلبرے کارے ندارم

کہ ہستم کشتۂ آنِ محمدؐ

مرا آن گوشہء چشمے بباید

نخواہم جُز گلستانِ محمدؐ

دلِ زارم بہ پہلو یم مجوئید

کہ بستیمش بدامانِ محمدؐ

من آن خوش مرغ از مر غانِ قدسم

کہ دارد جا بہ بستانِ محمدؐ

تو جانِ مامنور کر دی از عشق

فدایت جانم اے جانِ محمدؐ

دریغا گر دہم صد جان دریں راہ

نباشد نیز شایانِ محمدؐ

چہ ہیبت ہابدادنداین جوان را

کہ ناید کس بمیدانِ محمدؐ

رہِ مولےٰ کہ گم کر دند مردم

بجو در آل و اعوانِ محمدؐ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 553

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 553

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/553/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ

الا اے منکر از شانِ محمدؐ

کرامت گرچہ بے نام و نشان است

بترس از تیغ بُرّانِ محمدؐ

ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ

بیا بنگر ز غلمانِ محمدؐ

اپنی کتاب میں پیشگوئی کی تھی کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ سے مر جائے گا اور میں نے بھی اس کی نسبت موت کی پیشگوئی کی تھی کہ چھ برس تک چھری سے مارا جائے گا۔ اب دیکھ لو کہ مسلمانوں کاخدا ہندوؤں کے مصنوعی پرمیشرپرغالب آ گیا۔ مَیں زندہ موجود ہوں اور یہ مر گیا اور اس کی شیطانی پیشگوئی جھوٹی نکلی اس شخص کی لاش اسلام کی سچائی کا کھلا کھلا ثبوت دے رہی ہے۔ پس خداسے ڈرو ۔ اے آریو۔ اور کمزور پرمیشر کوچھوڑو۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 554

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 554

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/554/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مجھے خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

یاد رہے کہ یہ وہی اشعار اور وہی آخر پر نشان ہاتھ کا ہے جو لیکھرام کی موت کی طرف پیشگوئی کرتا ہے جس کو ہم نے لیکھرام کی موت اور اس کے مجروح ہونے سے پانچ برس پہلے آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور اس نقل میں کوئی تصرف نہیں بجز اس کے کہ آئینہ کمالات اسلام میں لیکھرام کا لفظ موٹے قلم سے لکھ کر تصویر کی طرح لٹا دیا گیا ہے اور اس جگہ وہ لاش کی تصویر ہی لکھ دی ہے جس کو خود آریوں نے نظارہ کے لئے شائع کیا ہے۔ اب ان تمام اشعار سے ظاہر ہے کہ لیکھرام کی موت کے لئے ایک تیغ برّان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پھر اس پیشگوئی کو نہایت وضاحت کے ساتھ ٹائیٹل پیج برکات الدعا میں اخبار انیس ہند میرٹھ کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے چنانچہ ہم اس جگہ بجنسہٰ وہ عبارت جو لیکھرام کی موت سے کئی برس پہلے شائع ہو چکی ہے ٹائیٹل پیج برکات الدعا سے نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے۔

نمونہ دعائے مستجاب

انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض

اس اخبار کاپرچہ مطبوعہ ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۳ ؁ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھرام پشاوری کے بارے میں مَیں نے شائع کی تھی کچھ نقطہ چینی ہے مجھ کو ملا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گذرا ہے اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے۔ سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب

شیخ فضل الٰہی آنریری مجسٹریٹ بھیرہ۔ جیون سنگھ نمبردار بھاٹانوالہ۔ ملاوامل۔

شرمپت آریہ قادیان۔ ملاوامل لاہوری۔ جوالا سنگھ نمبردار کوٹلومان تحصیل رعیہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 555

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 555

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/555/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خداتعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا میرا اس میں دخل نہیں ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہو گی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہو گئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہو گی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہو گا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں پس اس صورت میں بلاشبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت اور ہیبت دنوں اور وقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں۔ اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حد مقرر کر دینا کافی ہے پھر اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہور پذیر ہو تو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور یہ سارے خیالات اور یہ تمام نکتہ چینیاں جو پیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہو ؔ جاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں

حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی۔ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی پلیڈر پشاوری۔ مولوی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 556

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 556

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/556/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

سے رجوع کرتے ہیں ماسوا س کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یا وہ گوئی کے طور پر چند احتمال *بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور اٹکل سے کام لے کر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی تو ایسا کر سکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کر دے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں معیاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس۱۰ برس لکھ دے۔ لیکھرام کی عمر اس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تیس۳۰ برس کی ہو گی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کا آدمی ہے اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھر باوجود اس کے مقابلے میں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون سی بات انسان کی طرف سے ہے اور کون سی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے۔ اور معترض کا یہ کہنا کہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے جو اکثر لوگ مُنہ سے بول دیا کرتے ہیں۔ میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کے لئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شائد اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کوئی بھی مل نہ سکے ۔ ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اور مکر مخفی نہیں رہ سکتا مگر یہ تو راستبازوں کے لئے اور بھی خوشیؔ کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اور سچ میں فرق کرنا جانتا ہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اور بخوشی اور دوڑ کر سچائی کو قبول کر لیتا ہے

محمد علی صاحب ایم اے ایل ایل بی پلیڈر قادیان۔ مولوی غلام قادر صاحب

سب رجسٹرار پشاور۔ میر ناصر نواب صاحب دہلوی۔ مفتی محمد صادق صاحب



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 557

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 557

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/557/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرا لیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ زمانہ صدہا ایسی نئی باتوں کو قبول کرتا جاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں اگر زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے زمانہ بے شک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن اور یہ کہنا کہ زمانہ عقلمند ہے اور سیدھے سادھے لوگوں کا وقت گذر گیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمت ہے گویا یہ زمانہ ایک ایسا بدزمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پا کر پھر ا س کو قبول نہیں کرتا لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض ان میں سے بی اے اور ایم اے تک پہنچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نو مسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گروہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کے لئے کافی ہیں ۔ آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیےؔ چڑھاویں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک

خلیفہ نور الدین صاحب تاجر کتب جموں۔ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ۔

شیخ رحمت اللہ صاحب بمبئی ہوس لاہور۔ منشی تاج دین صاحب لاہور۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 558

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 558

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/558/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہو گا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہرہو گی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہو گا وہ ہستی قدیم اور پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عز ت نہیں دیتا۔ یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا توہین سے یاد کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے۔ والسّلام علٰی من اتبع الہدٰی۔ پھر اسی کتاب برکات الدعاء کے حاشیہ پر وہ کشف درج ہے جو ۲؍ اپریل ۹۳ء کو میں نے دیکھا کہ ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے گویا وہ انسان نہیں ملایک شداد غلاظ سے ہے وہ میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا جو یاد نہیں رہا اور کہا کہ وہ کہاں ہے۔ تب میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے کی سزادہی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ دیکھو ٹائیٹل پیج برکات الدعاء مطبوعہ ؔ اپریل ۱۸۹۳ ؁ء اس کے بعد ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء کو لیکھرام بذریعہ قتل فوت ہو گیا اور اس وقت کہ جب یقینی اور قطعی طور پر مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ میری دعا کے قبول ہونے پر آسمان پر یہ قرار پا چکا ہے کہ لیکھرام ایک درد ناک عذاب سے قتل کیا جائے گا میں نے اسی کتاب برکات الدعا میں سید احمد خان کو جو اپنے باطل عقیدہ کے

میاں نبی بخش صاحب رفو گر امرت سر۔ ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی صاحب امرت سر۔

ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن رڑکی۔ سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 559

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 559

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/559/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

رو سے دعاؤں کے قبول ہونے سے منکر تھا اس طرف توجہ دلائی اور اس کے سامنے اپنی دعا سے لیکھرام کے مارے جانے کی نظیر پیش کی حالانکہ لیکھرام ابھی زندہ پھرتا تھا اور میں نے سید احمد خان کو مخاطب کر کے کتاب برکات الدعا میں لکھا کہ لیکھرام کی موت کے لئے میں نے دعا کی ہے اور وہ دعا قبول ہو گئی سو آپ کے لئے نمونہ کے طور پر یہ دعائے مستجاب کافی ہے مگر اس تحریر پر ہنسی کی گئی کیونکہ لیکھرام ابھی زندہ اور ہر طرح سے تندرست اور توہین اسلام میں سخت سرگرم تھا اور میں نے اس مراد سے کہ لوگ پیشگوئی کو یاد کرلیں اشعار میں سید احمد خان کو مخاطب کیا اور وہ اشعار یہ ہیں جو برکات الدعا میں درج ہیں۔

روئے دلبر از طلبگاران نمیدارد حجاب

میدر خشد د رخور و مے تابد اندر ماہتاب

لیکن این روئے حسین از غافلان ماند نہان

عاشقے باید کہ بردارند از بہرش نقاب

دامن پاکش ز نخوت ہا نمے آید بدست

ہیچ راہے نیست غیر از عجزو درد و اضطراب

بس خطرناک است راہ کوچۂ یار قدیم

جان سلامت بایدت از خود روی ہا سر بتاب

تا کلامش عقل و فہم ناسزایان کم رسد

ہر کہ از خود گم شود او یا بد آن راہ صواب

مشکل قرآن نہ از ابنائے دُنیا حل شود

ذوق آن میداند آن مستی کہ نو شدآن شراب

اےؔ کہ آگاہی ندادندت ز انوار درون

در حقِ ما ہر چہ گوئی نیستی جائے عتاب

از سرِ وعظ و نصیحت ایں سخن ہا گفتہ ایم

تا مگر زیں مرہمے بہ گردد آن زخمِ خراب

از دعا کن چارۂ آزار انکارِ دعا

چُوں علاج مَے ز مَے وقتِ خمار و التہاب

ایکہ گوئی گر دعاہا را اثر بودے کجاست

سوئے من بشتاب بنمایم ترا چُوں آفتاب

ہاں مکن انکار زیں اسرار قُدرتہائے حق

قصہ کوتاہ کن بہ بین از ما دعائے مستجاب

شیخ محمد خان صاحب وزیر آباد۔ ڈاکٹر میرزا یعقوب بیگ صاحب پروفیسر میڈیکل کالج لاہور۔ منشی نواب خان صاحب تحصلیدار گوجرات۔ میاں معراج الدین صاحب لاہور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 560

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 560

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/560/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

پھر اس پیشگوئی کی وضاحت صرف اس حد تک نہیں کہ تیغ برّان کے ذریعہ سے ایک ہیبت ناک موت کی خبر دی گئی ہو بلکہ کتاب کرامات الصادقین کے ایک عربی شعر میں جو واقعہ قتل پنڈت لیکھرام سے چار سال پہلے تمام قوموں میں شائع ہو چکا تھا اس کی موت کا دن اور تاریخ بھی بتلائی گئی تھی چنانچہ اس شعر پر ہندو اخبار نے لیکھرام کے قتل کے وقت بڑا شور مچایا تھا اور وہ شعر یہ ہے :۔

وبَشّرنی ربّی و قال مبشرا

ستعرف یوم العید والعید اقرب

یعنی میرے خدا نے ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کی خبر دی ہے اور خوشخبری دے کر کہا کہ تو عیدکے دن کو پہچانے گا جبکہ نشان ظاہر ہو گا۔ اور عید کا دن نشان کے دن سے بہت قریب اور ساتھ ملا ہوا ہو گا۔ غرض یہ عظیم الشان پیشگوئی اس قدر قوت اور عام شہرت کے ساتھ پھیلنے کے بعد ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء کو اس طرح پوری ہوئی کہ ایک شخصؔ نے جس کا آج تک پتہ نہیں لگا کہ کون تھا شام کے وقت لاہور کے شہر میں شنبہ کے دن جو عید سے دوسرا دن تھا لیکھرام کے پیٹ میں ایک کاری چھری مار کر دن دہاڑے ایسا غائب ہوا کہ آج تکپھر اس کا پتہ نہ لگا۔ حالانکہ لیکھرام کے ساتھ کتنی مدت سے رہتا تھا اور اس قتل کی خبر کے ساتھ سب ہندو ۔ مسلمان ۔ عیسائی پر ایک رعب اور ہیبت طاری ہوئی اور آریوں نے بڑا شور مچایا اور سر کردہ مسلمانوں اور اسلامی انجمنوں کی خانہ تلاشیاں

چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ۔ منشی عبدالعزیز صاحب محافظ دفتر دہلی۔

سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس۔ زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجنئیر بمبئی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 561

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 561

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/561/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کرائیں اور ہر جگہ اس مقتول کی ہمدردی کے لئے بڑے بڑے جلسے کئے اور تجویزیں قرار پائیں کہ سال بسال اس ماتم کا ایک دن مقرر کیا جائے تا یہ واقعہ ہمارے دلوں سے بھولنے نہ پائے اور نظموں اور نثروں میں مرثیے اور بین لکھے اور ملک میں شائع کئے اور خدا نے یہ سب کچھ اس لئے ہونے دیا تا پیشگوئی کی عظمت دلوں میں پھیل جائے کیونکہ جس قدر مقتول کو عظمت دی جاوے در حقیقت وہ پیشگوئی کی عظمت ہے وجہ یہ کہ اگر مقتول ایک ذلیل اور حقیر آدمی ہو تو پیشگوئی کو بہت توجہ سے ذکر نہیں کیا جاتا اور اس طرح پر جلد تر وہ بھول جاتی ہے پس خدا نے چاہا کہ لیکھرام کو اس کی قوم بہت کچھ عظمت دیوے تا اس عظمت سے پیشگوئی کی عظمت ثابت ہو۔ اور نیز آریوں کے دل میں ڈال دیا کہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے اس کی یاد گاریں قائم کیں۔ غرض یہ پیشگوئی ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے اور

شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرت سر۔ میاں عبدالخالق صاحب امرتسر۔

میاں قطب الدین صاحب مس گر امرتسر۔ ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر۔

* خدا کی قدرت کہ میرے نشانوں میں سے بہت سا حصہ آریوں نے ہی لیا ہے ۔ لالہ شرمپت آریہ قادیان کو جو قادیان میں زندہ موجود ہے میں نے خبر دی کہ میری دعا سے اس کے بھائی بسمبر داس کی نصف قید تخفیف ہو گی اور میں نے اسے کہا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ چیف کورٹ سے مثل اپیل ضلع میں آئے گی اور نصف قید معاف کی جائے گی مگر اس کے رفیق کی قید کا ایک دن بھی معاف نہیں ہو گا اور نیز اس کو پنڈت دیا نند سُرستی کی وفات کی قبل از وقت خبر دی اور لالہ ملاوامل ساکن قادیان مدقوق ہو گیا تھا اس کی نسبت میں نے دعا کر کے شفا کی خبر دی ۔ چنانچہ وہ اس مہلک مرض سے شفا پا گیا ۔ اے آریو! ان دونوں اپنے بھائیوں آریوں کو قسم دے کر پوچھو کہ کیا یہ سچ ہے یا نہیں۔ اے سخت دل قوم تم نے یہ تین نشان دیکھ لئے اور خدا کی حجت تم پر پوری ہو گئی اب اسلام کی تکذیب کرنا اور توہین کرنا اور اسلام میں داخل نہ ہونا سخت بے ایمانی اور *** زندگی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 562

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 562

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/562/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

حضرت رسول کریم کے اس معجزے کے ساتھ مشابہ ہے جس میں کسریٰ ہلاک ہوا تھا اور جس قدر کوئی طالب حق اس میں غور کرے گا اسی قدر حق الیقین کے مرتبہ سے نزدیک ہوتا جائے گا۔ اس پیشگوئی کے متعلق آئینہ کمالات اسلام والا اشتہار پڑھو پھر برکات الدعاء کی عبارت غور سے پڑھو پھر وہ اشتہار دیکھو جس میں ایک ہاتھ بنا ہوا ہے جو لیکھرام کی طرف اشارہ کرتا ہے پھر وہ کشف غور سے پڑھو جو برکات الدعا کے اخیر صفحہ کے حاشیہ پر ہے پھر سَتُعرف والا عربی شعر پڑھو ۔ پھر وہ عربی پیشگوئی پڑھو جو کرامات الصادقین کے اخیر ٹائیٹل پیج کے صفحہ پر ہے پھر انصاف سے سوچو کہ اس قدر امور غیبیہ کا بیان کرنا کیا کسی مفتری انسان کا کام ہے اور کسی کی قدرت اور اختیار میں ہے کہ محض اپنے منصوبہ سے ایسی خارق عادت اور فوق الطاقت باتیں بیان کر سکے جو آخر اسی طرح پوری بھی ہو جائیں ہم اس جگہ آئینہ کمالات اسلام کا اشتہار جو لیکھرام کی موت کے بارے میں قبل از وقت شائع کیا گیا تھا ذیل میں لکھ دیتے ہیں تا ناظرین کو معلوم ہو کہ کس قوت اور شوکت سے یہ اشتہار لکھا گیا تھا اور وہ یہ ہے ۔

لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی

واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل

شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی ۔ شیخ عبدالرحیم صاحب۔ پیر منظور احمد صاحب ۔

صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی۔ میاں نجم الدین صاحب بھیروی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 563

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 563

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/563/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کیا گیا تھا اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہش مند ہوں تو ان کی قضاوقدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں سو اس اشتہار کے بعد اندر من نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جل شانہ‘ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔

عجل جسد لہٗ خوار۔ لہٗ نصب و عذاب

یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا اور اس کے بعد آج جو ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء روز دو شنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ ؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔ سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ ۶برس کے عرصہ میں آج کی

ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب پروفیسر مڈیکل کالج لاہور۔ منشی نواب خان صاحب تحصیلدار گوجرات۔

چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن رڑکی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 564

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 564

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/564/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

تاریخ سے کوئی ایسا عذاب۱؂ نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کے لئے میں تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے زیادہ اس سے کیا لکھوں۔ واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بدن کانپتا ہے اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور توہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو باایں ہمہ شوخی و خیرگی یہ شخص سخت جاہل ہے عربی سے ذرا مس نہیں بلکہ دقیق اردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں۔ اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کے لئے دعا کی جس کا یہ جواب ملا اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کے لئے بھی نشان ہے کاش وہ حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے۔ اب میں اسی خدائے عزّوجلّ کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا۔

والحمد للّٰہ والصّلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ محمد المصطفٰی

افضل الرسل وخیرالورٰی سیدنا وسید کلّ مافی الارض والسّما۔

خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور

۲۰ فروری ۱۸۹۳ ؁ء

لیکھرام والی پیشگوئی قبل از وقت بہت سی کتابوں اور اشتہاروں میں درج ہو چکی تھی جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے اور اس کے گواہ ساری برٹش انڈیا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 565

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 565

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/565/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائی ہیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

میں نے اپنے اشتہار مورخہ ۲۴ ؍ مئی ۱۸۹۷ ؁ء میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ رومی سلطنت کے ارکانِ دولت بکثرت ایسے ہیں جن کا چال و چلن سلطنت کو مضرّ ہے اور جیسا اسی اشتہار میں درج ہے۔ اس امر کی اشاعت کا یہ باعث ہوا تھا کہ ایک شخص مسمی حسین بک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی جو سفیر روم کہلاتا تھا قادیان میں میرے پاس آیا اور وہ خیال رکھتا تھا کہ وہ اور اس کے باپ سلطنت ٹرکی کے بڑے خیر خواہ اور امین اور دیانت دار ہیں مگر جب وہ میرے پاس آیا تو میری فراست نے گواہی دی کہ یہ شخص امین اور پاک باطن نہیں اور ساتھ ہی میرے خدا نے مجھے القا کیا کہ رومی سلطنت انہی لوگوں کی شامتِ اعمال کے سبب خطرہ میں ہے سو میں اس سے بیزار ہوا لیکن اس نے خلوت میں کچھ باتیں کرنے کے لئے درخواست کی چونکہ وہ مہمان تھا اس لئے اخلاقی حقوق کی وجہ سے اس کی درخواست کو رد نہ کیا گیا پس خلوت میں اس نے دعا کے لئے درخواست کی تب اس کو وہی جواب دیا گیا جو اشتہار ۲۴؍مئی ۱۸۹۷ ؁ء میں درج کیا گیا تھا اور اس تقریر میں دو پیشگوئیاں تھیں(۱) ایک یہ کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں اور دیانت اور امانت کے نیک صفات سے تم محروم ہو۔ (۲) دوم یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھا پھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہو گا۔ پھر اسی اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ بہتر تھا کہ یہ میرے پاس نہ آتا میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اس کی سخت بد قسمتی ہے

اس پیشگوئی کے گواہ شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر بمبئی ہوس لاہور۔

مفتی محمد صادق صاحب۔ صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی۔ شیخ عبدالرحیم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 566

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 566

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/566/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

یہی وجہ تھی کہ میری نصیحت اس کو بُری لگی اور اس نے جا کر میری بدگوئی کی۔ پھر اشتہار ۲۵؍جون ۱۸۹۷ ؁ء میں یہ لکھا گیا تھا کہ کیا ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں۔ یہ تو میرے الہامات تھے جو لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اشتہارات شائع کئے گئے تھے مگر افسوس کہ ہزارہا مسلمان اور اسلامی اڈیٹر مجھ پر جوش کے ساتھ ٹوٹ پڑے اور حسین کامی کی نسبت لکھا کہ وہ نائب خلیفۃ اللہ سلطان روم ہے اور پاک باطنی سے سراپا نور ہے اور میری نسبت لکھا کہ یہ واجب القتل ہے۔ سو واضح ہو کہ اس واقع کے دو سال بعد یہ پیشگوئیاں ظہور میں آئیں۔ اور حسین کامی کی خیانت اور غبن کا ہندوستان میں شور مچ گیا۔ چنانچہ ہم اخبار نیّر آصفی مدراس مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۹ ؁ء میں سے تھوڑا سا نقل کرتے ہیں ۔ ’’حسین کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ (چندہ مظلومان کریٹ جو ہند میں جمع ہوا تھا اس کے تمام) روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی نے بڑی فراست اور عرقریزی سے اُگلوایا۔ یہ روپیہ ایک ہزار چھ سو کے قریب تھا جو کہ حسین کامی کی اراضیات مملوکہ کو نیلام کرا کر وصول کیا گیا اور اس غبن کے سبب حسین کامی کو موقوف کیا گیا۔ ‘‘

ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب۔ خواجہ کمال الدین صاحب۔ مولوی نورالدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ شیخ یعقوب علی صاحب وغیرہ احباب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 567

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 567

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/567/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

حبّی فی اللہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کا ایک شیر خوار بچہ فوت ہو گیا تھا۔ جس پر مخالفین نے طعن کیا تب میں نے مولوی صاحب موصوف کے لئے دعا کی۔ تو خواب میں دکھایا گیا کہ مولوی صاحب کی گود میں ایک لڑکا کھیلتا ہے اور اس کے بدن پر خطرناک بڑے بڑے پھوڑے ہیں پس یہ پیشگوئی اشتہار انوارالاسلام کے صفحہ ۲۶ میں درج کی گئی اور اس کے ذریعہ سے یہ الہام شائع کیا گیا کہ مولوی صاحب کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا جس کے بدن پر پھوڑے ہوں گے۔ چنانچہ اس کے پانچ سال بعد مولوی صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام عبدالحی رکھا گیا اور ساتھ ہی اس کے بدن پر خطرناک پھوڑے نکلے جن کے نشان اب تک موجود ہیں جو چاہے دیکھ لے۔ یہ کتنا بڑا معجزہ ظاہر ہوا جو پیرانہ سالی اور نومیدی کے بعد ایک لڑکے کی خبر دی گئی اور بتلایا گیا کہ اس کے پیدا ہوتے ہی بڑے بڑے پھوڑے اس کے بدن پر نمودار ہوں گے یہ اس کا نشان ہو گا۔

انی مھین من اراد اھانتک یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے اور جس کسی نے اس سلسلہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کی وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا۔ مثلاً مولوی محمد حسین نے کپتان ڈگلس کے روبرو میرے برخلاف گواہی دی اور میری توہین چاہی تو اس کو کرسی کے مانگنے پر ڈپٹی کمشنر نے سخت جھڑکا

ان پیشگوئیوں کے گواہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔ حضرت مولوی حکیم

نور الدین صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔

مولوی حاجی حکیم فضل الدین صاحب۔ خلیفہ رجب الدین صاحب لاہور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 568

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 568

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/568/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور ذلیل کیا ۔ جب مخالف مولوی لوگوں نے مجھے جاہل کہا تو خدا نے مجھے ایسی عربی فصیح بلیغ کتابیں لکھنے اور مقابلہ کے لئے سب کو چیلنج کرنے کی توفیق دی کہ آج تک کوئی مولوی جواب نہیں دے سکا۔ پیرمہر علی شاہ نے میری اہانت چاہی تو اول اعجاز المسیح کا جواب عربی میں نہ لکھنے پر وہ ذلیل ہوا اور پھر ایک مردہ کی تحریرات اپنے نام پر بطور سرقہ شائع کر کے ذلیل ہوا اور کیسا ذلیل ہوا کہ چوری بھی کی اور وہ بھی نجاست کی چوری۔ کیونکہ محمد حسن مُردہ کی کل تحریر غلط تھی اور مہرعلی اس کا چور تھا اس چوری سے کیا کیا ذلتیں اٹھائیں (۱) اول مردہ کے مال کا چور(۲) دوسرا چونکہ مال سب کھوٹا تھا اس لئے دوسری ذلت یہ ثابت ہوئی کہ علمی رنگ میں بصیرت کی آنکھ ایک ذرہ اس کو حاصل نہیں تھی۔ (۳) تیسری یہ ذلت کہ سیف چشتیائی میں اقرار کر چکا کہ یہ میری تصنیف ہے بعد ازاں ثابت ہو گیا کہ جھوٹا کذاب ہے یہ اس کی تصنیف نہیں بلکہ محمد حسن متوفی کی تحریر ہے جو مر کر اپنی نادانی کا نمونہ چھوڑ گیا۔ مہر علی نے خواہ نخواہ اس کی پیشانی کا سیہ داغ اپنے ماتھے پر لگا لیا۔ لگا مولوی بننے اگلی حیثیت بھی جاتی رہی یہی پیشگوئی تھی کہ انی مھین من اراد اھانتک۔ محمد حسن مردہ نے جبھی کہ میری کتاب اعجاز المسیح کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا اس کو خدا نے فوراً ہلاک کیا۔ غلام دستگیر نے اپنی کتاب فتح رحمانی کے صفحہ ۲۷ میں مجھ پر بد دعا کی اس کو خدا نے ہلاک کیا۔ مولوی محمد اسمٰعیل علیگڑھ نے مجھ پر

قاضی ضیاء الدین صاحب اور یہ پیشگوئی کتاب انوار الاسلام میں درج ہو کر ہزاروں لوگوں میں شائع ہو چکی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 569

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 569

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/569/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

بد دعا کی اس کو خدا نے مار دیا۔ محی الدین لکھو کے والا نے مجھ پر بددعا کی اس کو خدا نے مار دیا۔ مہر علی نے مجھ کو چور بنانا چاہا وہ خود چور بن گیا۔ محمد حسن بھیں نے میری کتاب کا رد لکھ کر مجھے ذلیل کرنا چاہا خود ایسا ذلیل ہوا کہ خدانے اس کی سزا صرف اس کی موت تک کافی نہ سمجھی بلکہ ہر ایک غلطی میری جو اس نے نکالی وہ ان کی خود غلطی ثابت ہوئی بد قسمت مہر علی کو بھی ساتھ ہی لے ڈوبا۔

۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں ابتداءً اور ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء میں ثانیاً یعنی بذریعہ اشتہار ایک پیشگوئی شائع کی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سید احمد خان صاحب کے ۔سی۔ ایس۔ آئی کو کئی قسم کی بلائیں اور مصائب پیش آئیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا کہ اول تو اخیر عمر میں سیدصاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا اور پھر قوم مسلمانان کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جو ان کی امانت میں تھا ان کا ایک معتمد علیہ شریر ہندو خیانت سے غبن کر کے ان کو ایسا صدمہ اور ھم وغم پہنچاگیا جس سے ان کی تمام اندرونی طاقتیں اور قوتیں یک دفعہ صلب* ہو گئیں اور جلد انہوں نے راہ عدم دیکھا۔

خداوند علیم و خبیر سے خبر پا کر میں نے اپنے اشتہار ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء میں اس امر کو ظاہر کر دیا تھا کہ اب سید احمد خان صاحب کے ۔ سی۔ ایس۔ آئی کی موت کا وقت

یہ پیشگوئیاں قبل از وقت بذریعہ اشتہاروں کے ہزارہا لوگوں میں شائع ہو چکی تھیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 570

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 570

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/570/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

قریب ہے ۔ افسوس ہے کہ ایک نظر دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔ سیدصاحب غور سے پڑھیں کہ اب ملاقات کے عوض میں یہی اشتہار ہے چنانچہ اس اشتہار کے ایک سال بعد سید صاحب وفات پا گئے۔

مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی چنانچہ قبل ولادت بذریعہ اشتہار کے وہ پیشگوئی شائع ہوئی پھر بعد اس کے وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بھی رؤیا کے مطابق محمود احمد رکھا گیا اور یہ پہلا لڑکاہے جو سب سے بڑا ہے۔

پھر مجھے دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کی نسبت الہام ہوا کہ جو قبل از ولادت بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا الہام یہ تھا سیولد لک الولد۔ ویُدْنٰی منک الفضل اور وہ الہام آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۲۶۶ میں بھی درج کیا گیا تھا اور اس کے بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد ہے۔

پھر تیسرے بیٹے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی کہ انا نبشّرک بغلام اور یہ پیشگوئی رسالہ انوار الاسلام میں قبل از وقت شائع کی گئی۔ چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تیسرا بیٹا عطا فرمایا جس کا نام شریف احمد ہے۔

پھر چوتھے لڑکے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام میں بشارت دی۔

یہ پیشگوئیاں بذریعہ مطبوعہ اشتہاروں کے ہزار ہا لوگوں میں شائع ہو چکی ہیں اور پھر پوری ہوئیں اور ہزاروں زندہ گواہ موجود ہیں مثلاً مولوی حکیم نور الدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ قاضی ضیاء الدین صاحب۔ صاحبزادہ سراج الحق صاحب وغیرہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 571

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 571

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/571/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

جس کی اشاعت پر عبدالحق غزنوی نے کچھ اعتراض کئے تو دوبارہ کتاب ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ پر اس بات کو بڑے زور سے شائع کیا گیا کہ یہ پیشگوئی جب تک پوری ہو ضرور ہے کہ اس وقت تک عبدالحق غزنوی زندہ رہے چنانچہ چوتھا لڑکا بھی جون ۱۸۹۹ ؁ء کو پیشگوئی کے مطابق پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد ہے۔ والحمد للّٰہ علٰی ذالک یہ پیشگوئی کس قدر خدا کے ہاتھ سے خصوصیت رکھتی ہے کہ ایک کے تولد کو ایک سن رسیدہ آدمی کے زندہ ہو نے کے ایام سے وابستہ کیا اور ایسا ہی ظہور میں آیا جیسا کہ ایک لڑکے کی پیدائش کو پھوڑوں کے ساتھ منسوب کیا اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔

جب میری پیشگوئی کے مطابق لیکھرام کے قتل ہو جانے پر آریوں میں میری نسبت بہت شور مچا اور میرے قتل یا گرفتار ہونے کیلئے سازشیں کیں چنانچہ بعض اخبار والوں نے ان باتوں کو اپنی اخباروں میں بھی درج کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا ۔ سلامت بر تو اے مرد سلامت۔ چنانچہ یہ الہام بذ ریعہ اشتہار کے شائع کیا گیا اور اس وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجھے مخالفین کے مکرو فریب اور منصوبوں سے محفوظ رکھا۔

کتاب اعجاز المسیح کے بارے میں یہ الہام ہوا تھا کہ ’’من قام للجواب وتنمّر فسوف یریٰ انہ تندم و تذمر‘‘ یعنی جو شخص غصہ سے بھر کر اس کتاب کا جواب

پیشگوئی نمبر ۵۲ ضمیمہ انجام آتھم میں شائع ہوکر لاکھوں آدمیوں میں مشہور ہو چکی تھی۔ باقی اس صفحہ کی پیشگوئیوں کے گواہ ہماری جماعت کے اور بہت آدمی ہیں۔ مثلاً صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔ مولوی حکیم نور الدین صاحب وغیرہ وغیرہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 572

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 572

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/572/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

لکھنے کے لئے طیار ہو گا وہ عنقریب دیکھ لے گا کہ وہ نادم ہوا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا۔ چنانچہ محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقعہ شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ میں اس کتاب کا جواب لکھتا ہوں اور ایسی لاف مارنے کے بعد جب اس نے جواب کے لئے نوٹ تیار کرنے شروع کئے اور ہماری کتاب کے اندر بعض صداقتوں پر جو ہم نے لکھی تھیں لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین لکھا تو جلد ہلاک ہو گیا۔ دیکھو مجھ پر *** بھیج کر ایک ہفتہ کے اندر ہی آپ *** موت کے نیچے آگیا۔ کیا یہ نشان الٰہی نہیں۔

پیر مہر علیشاہ گولڑی نے جب اس کتاب اعجاز المسیح کا بہت عرصہ کے بعد جواب اردو میں لکھا تو اس بات کے ثابت ہو جانے سے کہ یہ اردو عبارت بھی لفظ بہ لفظ مولوی محمد حسن بھینی کی کتاب کا سرقہ ہے مہر علی شاہ کی بڑی ذلت ہوئی اور مذکورہ بالا الہام اس کے حق میں بھی پورا ہوا۔

صدہا مخالف مولویوں کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا تھا جن میں سے عبدالحق غزنوی میدان میں نکلا اور مباہلہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت تو صرف چند آدمی ہمارے ساتھ تھے اور اب ایک لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں اور دن بدن ترقی کر رہے ہیں اور اس کے مقابل جا کر دیکھنا چاہئے کہ عبدالحق کے ساتھ کتنے ساتھی ہیں اور اس کی کیا عزت ہے کیا یہ خدا کا نشان نہیں۔

ان پیشگوئیوں کے گواہ ہزاروں ہزار آدمی ہیں ۔ مثلاً شیخ رحمت اللہ صاحب۔

منشی ظفر احمد صاحب۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ شیخ نور احمد صاحب ایڈیٹر ریاض ہند امرتسر۔ مفتی محمد صادق صاحب ۔ حکیم فضل الدین صاحب بھیروی۔ سید حامد شاہ صاحب وغیرہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 573

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 573

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/573/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

دسمبر ۱۸۹۶ ؁ء میں پنجاب کے صدر مقام لاہور میں ایک بڑا بھاری جلسۂ مذاہب ہوا جس میں تمام مذاہب کے وکلاء اور نامی آدمی دور و نزدیک سے اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے جمع ہوئے کہ مذاہب مروجہ میں سے کون سا مذہب حق اور بنی آدم کے لئے سب سے زیادہ مفید اور اصل مقصد زندگی انسانی کا حاصل کرا دینے والا ہے۔ ہم نے بھی اس جلسہ میں سنانے کے لئے ایک مضمون لکھا اور اس مضمون کے متعلق ہمیں قبل از وقت یہ الہام ہوا کہ مضمون سب پر بالا رہا یعنی تمہارا یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور پھر یہ الہام تھا اللّٰہ اکبر خربت خیبر۔ ان اللّٰہ معک۔ ان اللّٰہ یقوم اَینما کنت ۔ چنانچہ یہ الہام بذریعہ ایک چھپے ہوئے اشتہار مورخہ ۲۱ ؍ دسمبر کے قبل جلسہ ہذا ہی دو روز کے اندر ہی دورو نزدیک شائع کیا گیا اور سب لوگوں کو اس بات سے آگاہی دی گئی کہ ہمارا ہی مضمون غالب رہے گا۔ پس ایسا ہی ہو اکہ اس جلسہ میں جس قدر مضامین پڑھے گئے تھے ان سب پر ہمارا مضمو۱ن غالب اور فائق رہا اور خود اس جلسہ میں غیر مذاہب کے وکلاء نے بھی پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر گواہیاں دیں کہ مرزا صاحب کا مضمون سب پر غالب رہا اور انگریزی اخبار سول ملٹری گزٹ اور پنجاب ابز رور اور دیگر اخباروں نے بڑے زور سے گواہی دی کہ ہمارا مضمون سب مضامین پر غالب رہا۔

یہ پیشگوئی قبل از وقت بذریعہ اشتہار کے شائع کی گئی تھی اور موقع پر اس کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنے والے ہزاروں آدمی اس وقت ہر ملت و مذہب کے میدان جلسہ میں موجود تھے جنہوں نے اقرار کیا کہ یہ مضمون غالب رہا اور نیز انگریزی و اردو اخباروں نے اس امر کی تصدیق کی کہ یہی مضمون سب سے بالا رہا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 574

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 574

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/574/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

۱۸۸۳ء میں مجھ کو الہام ہوا کہ تین کو چار کرنے والا مبارک ۔ اور وہ الہام قبل از وقت بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا تھا اور اس کی نسبت تفہیم یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس دوسری بیوی سے چار۴ لڑکے مجھے دے گا اور چوتھے کا نام مبار ک ہو گا اور اس الہام کے وقت منجملہ ان چاروں کے ایک لڑکا بھی اس نکاح سے موجود نہ تھا اور اب چاروں لڑکے بفضلہ تعالیٰ موجود ہیں۔

اشتہار مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء میں بذریعہ الہام مشتہر کیا گیا تھا کہ احمدبیگ ہوشیار پوری اگر اپنی لڑکی کا نکاح کسی اور کے ساتھ کرے گا تو تین سال کے اندر فوت ہو جائے گا اور اس سے پہلے اس کے کئی اور عزیز فوت ہوں گے چنانچہ اس لڑکی کے دوسری جگہ نکاح کے بعد ایسا ہی ہوا کہ احمد بیگ جلد میعاد کے اندر فوت ہو گیا اور اس سے پہلے کئی ایک اور اس کے عزیز فوت ہوئے ہاں اس پیشگوئی کے تین حصوں سے ابھی ایک باقی ہے اور قابل انتظار ہے مگر چونکہ تینو ں حصے پیشگوئی کے ایک ہی الہام میں تھے اس لئے دو کے پورا ہونے نے پیشگوئی کی سچائی ظاہر کر دی ہے۔

۲۹؍جولائی ۱۸۹۷ ؁ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے جو بے آواز اور بے ضرر ایک روشن ستارہ

پیشگوئی نمبر ۵۸و۵۹ پوری ہونے سے پہلے بذریعہ اشتہار شائع کی گئی تھیں اشتہار موجود ہیں اور تینوں پیشگوئیوں کے گواہ بھی بہت ہیں جیسے حامد علی منشی ظفر احمد صاحب میاں محمد خان صاحب منشی رستم علی صاحب وغیرہ وغیرہ ۔ پیشگوئی نمبر ۶۰ سے قبل از وقت قریباً پانسو آدمیوں کو اطلاع دی گئی تھی چنانچہ بعض کے نام یہ ہیں۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 575

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 575

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/575/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کی مانند آہستہ حرکت کرتی ہوئی میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور جب قریب پہنچی تو میر ی آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا تھا۔ پھر الہام ہوا ما ھذا الا تھدید الحکام یعنی یہ ایک مقدمہ ہو گا اور صرف حکام کی باز پرس تک پہنچ کر پھر نابود ہو جائے گا اور بعد اس کے الہام ہوا انّی مع الافواج اٰتیک بغتۃ۔ یاتیک نصرتی اِبْراء انّی انا الرحمٰن ذوالمجد والعُلٰی۔ یعنی میں اپنی فوجوں (یعنی ملائکہ) کے ساتھ ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا اور اس مقدمہ میں میر ی مدد تجھے پہنچے گی۔ میں انجام کار تجھے بری کروں گا اور بے قصور ٹھہراؤں گا۔ میں ہی وہ رحمان ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے۔ اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا بلجت اٰیاتییعنی میرے نشان ظاہر ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوں گے اور پھر الہام ہوا لواء فتح یعنی فتح کا جھنڈا۔ پھر الہام ہوا انما امرنا اذا اردنا شیئا ان نقول لہ کن فیکون۔اس پیشگوئی سے قبل از وقت پانسو آدمیوں کو خبر دی گئی تھی کہ ایسا ابتلا آنے والا ہے مگر آخر بریت ہو گی اور خدا تعالیٰ کا فضل ہو گاچنانچہ میرے رسالہ کتاب البریت میں یہ تمام الہامات درج ہیں جو قبل از وقت دوستوں کو سنائے گئے اور پھر انہیں کے لئے

مفتی محمد صادق صاحب۔ حکیم فضل الدین صاحب۔ خواجہ کمال الدین صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب۔ حافظ عبدالعلی صاحب بی اے۔ میر ناصر نواب صاحب۔ منشی تاجدین صاحب۔ حکیم فضل الٰہی صاحب۔ خلیفہ رجب الدین صاحب۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ برادر مرزا ایوب بیگ صاحب۔ منشی تاج الدین صاحب کلرک و دیگر جماعت لاہور۔ حکیم حسام الدین صاحب



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 576

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 576

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/576/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کتاب البریّت بھی تالیف ہوئی تا ہمیشہ کے لئے ان کو یاد رہے کہ جو کچھ قبل از مقدمہ ان دوستوں کو خبر دی گئی وہ سب باتیں کیسی صفائی سے ان کے روبرو ہی پوری ہو گئیں۔ یہ مقدمہ اس طرح سے ہوا کہ ایک شخص عبدالحمید نام نے عیسائیوں کے سکھلانے پر مجسٹریٹ ضلع امرتسر کے روبرو اظہار دئے کہ مجھے مرزا غلام احمد نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر مجسٹریٹ امرتسر نے میری گرفتاری کے لئے یکم اگست کو وارنٹ جاری کیا جس کی خبر سن کر ہمارے مخالفین امرتسر و بٹالہ میں ریل کے پلیٹ فارموں اور سڑکوں پرآآ کر کھڑے ہوتے تھے تا کہ میری ذلت دیکھیں لیکن خدا کی قدرت ایسی ہوئی کہ اول تو وہ وارنٹ خدا جانے کہاں گم ہو گیا۔ دوم مجسٹریٹ ضلع امرتسر کو بعد میں خبر لگی کہ اس نے غیر ضلع میں وارنٹ جاری کرنے میں بڑی غلطی کھائی ہے پس اس نے ۶؍اگست کو جلدی سے صاحب ضلع گورداسپور کو تار دیا کہ وارنٹ فوراً روک دو جس پر سب حیران ہوئے کہ وارنٹ کیسا۔ لیکن مثل مقدمہ کے آنے پر صاحب ضلع گورداسپور نے ایک معمولی سمن کے ذریعہ سے مجھے بلا یا اور عزت کے ساتھ اپنے پاس کرسی دی یہ صاحب ضلع جس کا نام کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس تھا بسبب زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج ہونے کے فوراً سمجھ گیا کہ مقدمہ بے اصل اور جھوٹا ہے اس لئے میں نے ایک دوسرے مقام میں اس کو پیلاطوس سے نسبت دی ہے۔

سید حامد شاہ صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر صاحب ضلع۔ شیخ مولا بخش صاحب سوداگرو دیگر جماعت سیالکوٹ۔ شیخ رحمت اللہ صاحب لاہور۔ منشی ظفر احمد صاحب۔ میاں محمد خان صاحب۔ منشی محمد اروڑا صاحب و دیگر جماعت کپورتھلہ۔ خلیفہ نور الدین صاحب و دیگر جماعت جموں۔ چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر۔ سید امیر شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر وغیرہ یہ چند ایک نام بطور نمونہ کے لکھے گئے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 577

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 577

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/577/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

بلکہ مردانگی اور انصاف میں اس سے بڑھ کر۔ لیکن خدا کا اور فضل یہ ہوا کہ خود عبدالحمید نے عدالت میں اقرار کر لیا کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کے لئے ترغیب دی گئی تھی پس صاحب ضلع نے اس آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور وشور کا چٹھا لکھ کر مجھے بری کر دیا اور تبسم کے ساتھ عدالت میں مجھے مبارکباد دی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

اسی مذکورہ بالاسلسلہ الہام میں ایک الہام یہ تھا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق۔ چنانچہ اس الہام کا ایک حصہ تو اس طرح پر پورا ہوا کہ ہمارے مخالفین یعنی عبدالحمید اور اس کو سکھانے والے عیسائیوں میں پھوٹ پڑی کہ عبدالحمید نے صاف اقرار کر لیا کہ مجھے ان لوگوں نے یہ جھوٹی بات سکھائی تھی ورنہ اصل میں یہ کچھ بات نہ تھی صرف ا ن کے بہکانے پر میں نے ایسا کہا اور یہ الہام قبل از وقت تین سو۳۰۰ سے زیادہ اشخاص کو سنایا گیا تھا اور وہ زندہ ہیں۔

اور دوسرا حصہ الہام کا اس طرح سے پورا ہواکہ دوران مقدمہ میں جب موحدین کے ایڈوکیٹ مولوی محمد حسین میری مخالفت میں عیسائیوں کے گواہ بن کر پیش ہوئے تو بر خلاف اپنی امیدوں کے میری عزت دیکھ کر اس طمع خام میں پڑے کہ ہم بھی کرسی مانگیں چنانچہ آتے ہی انہوں نے سوال کیا کہ مجھے

ان پیشگوئیوں کے گواہ ہزاروں آدمی موافق و مخالف موجود ہیں چنانچہ بعض کے نام یہ ہیں ۔ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب۔ شیخ رحمت اللہ صاحب۔ صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب۔خلیفہ نورالدین صاحب۔ خواجہ کمال الدین صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب بی اے۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے۔ وغیرہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 578

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 578

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/578/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کرسی ملنی چاہئے مگر افسوس کہ صاحب ڈپٹی کمشنر نے ان کو جھڑک دیا اور سخت جھڑکا کہ تم کو کرسی نہیں مل سکتی۔ سو یہ خدا کا ایک نشان تھا کہ جو کچھ انہوں نے میرے لئے چاہا وہ خود ان کو پیش آ گیا۔

اسی سلسلہ الہامات میں ایک یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ بلجت آیاتی یعنی میرے نشان ظاہر ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس واقعہ سے قریباً ڈیڑھ سال بعد عبدالحمید ملزم کو پھر گرفتار کیا گیا اور کتنی مدت زیر حراست رکھ کر اس سے پھر اظہار لئے گئے مگر اس نے یہی گواہی دی کہ میرا پہلا بیان ہی جھوٹا تھاجو عیسائیوں کے سکھلانے پر میں نے کہا تھا پس اس طرح خدا نے میری بریت کو مکمل کر دیا۔ اس الہام کے یہ معنی تھے کہ میری بریت کے لئے اور بھی خدا کی طرف سے نشان ظاہر ہوں گے سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔

اسی مقدمہ کے ذریعہ سے جو خون کے الزام کا مقدمہ تھا وہ الہامی پیشگوئی پوری ہوئی جو براہین احمدیہ میں اس مقدمہ سے ۲۰ برس پہلے درج تھی اور وہ الہام یہ ہے فبرّأہُ اللّٰہ ممّا قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا۔ یعنی خدا اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بری کر دے گاکیونکہ وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجودیکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کر لیا تھا مسلمانوں

ان پیشگوئیوں کے گواہ بہت سے احباب ہیں مثلاً منشی تاج الدین صاحب۔

میر ناصر نواب صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی سید محمد احسن صاحب۔

مولوی قطب الدین صاحب۔ حافظ عبدالعلی صاحب بی اے۔ میر محمد اسمٰعیل صاحب۔ صاحبزادہ منظور احمد صاحب وغیرہ وغیرہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 579

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 579

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/579/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں ہیں

کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب تھے ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت وکیل تھے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب مع اپنی تمام جماعت آئے اور جنگ احزاب کی طرح ان قوموں نے بالاتفاق میرے پر چڑھائی کی تھی لیکن خداتعالیٰ نے سب کو ذلیل کیا اور مجھے بری کیا اور عبدالحمید کے مُنہ سے اس طرح سچ نکلوایا جس طرح یوسف کے مقابلہ میں زلیخا کے منہ سے سچ نکل گیا تھا اور یا جس طرح حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں اس مفتری عورت کے منہ سے سچ نکل گیا تھا تا وہ بات پوری ہو جس کی طرف اس الہامی پیشگوئی میں اشارہ تھا کہ برّأ ہ اللّٰہ ممّا قالوا۔

ایک دفعہ مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ شیخ مہر علی۱؂ صاحب رئیس ہوشیار پور کے فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس عاجز نے بار بار پانی ڈال کربجھایا ہے اسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بیقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی کہ شیخ صاحب پر اور ان کی عزت پر سخت مصیبت آوے گی اور وہ مصیبت اور بلا صرف میری دعا سے دور کی جاوے گی۔ میں نے اس خواب سے شیخ صاحب موصوف کو بذریعہ ایک مفصل خط کے اطلاع دیدی تھی چنانچہ اس کے چھ ماہ بعد شیخ مہر علی صاحب ایک ایسے الزام میں پھنس گئے کہ انہیں پھانسی کا حکم دیا گیا۔ ایسے نازک وقت میں اس کے بیٹے کی درخواست سے دعا کی گئی اور رہائی کی بشارت ان کے بیٹے کو لکھی گئی چنانچہ اس کے بعد وہ بالکل رہا ہو گئے۔

۱؂ اس نشان کے گواہ خود شیخ مہر علی صاحب اور ان کے بیٹے اور دیگر سینکڑوں لوگ ضلع ہوشیارپور وغیرہ کے ہیں دیکھو اشتہار ۲۵؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 580

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 580

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/580/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایک دفعہ کشفی طور پر مجھے یا روپیہ دکھائے گئے۔ اور پھر یہ الہام ہوا کہ ماجھے خان کا بیٹا اور شمس الدین پٹواری ضلع لاہور بھیجنے والے ہیں پھر بعد اس کے کارڈ آیا جس میں لکھا تھا کہ ماجھے خان کے بیٹے کی طرف سے ہیں اور یا شمس الدین پٹواری کی طرف سے ہیں پھر اسی تشریح سے روپیہ آئے۔ ۱؂

جب میری لڑکی مبارکہ والدہ کے پیٹ میں تھی تو حساب کی غلطی سے فکر دا منگیر ہوا اور اس کا غم حد سے بڑھ گیا کہ شاید کوئی اور مرض ہو۔ تب میں نے جناب الٰہی میں دعا کی تو الہام ہوا کہ آید آن روزے کہ مستخلص شود۔ اور مجھے تفہیم ہوئی کہ لڑکی پیدا ہو گی۔ چنانچہ اس کے مطابق ۲۷؍رمضان ۱۳۱۴ ؁ھ کو لڑکی پیدا ۲؂ ہوئی جس کا نام مبارکہ رکھاگیا۔

ایک اور زبردست نشان جو میری صداقت میں ظاہر ہوا یہ ہے کہ ایک مولوی نے کتاب نبراس تالیف صاحب زمرد کا حاشیہ لکھتے ہوئے میرے حق میں کسرہ اللّٰہ کی بد دعا کی اس بد دعا کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے حق میں یہ بد دعا کی جائے وہ ایسا تباہ ہو جائے کہ اس کی ساری اولاد مر جائے اور وہ ابتر رہ جائے سو ابھی مولوی مذکور حاشیہ ختم کرنے نہ پایا تھا کہ اس کی سب اولاد مر گئی اور وہ خود بھی ابتر ہو گیا اور مجھے خدا نے ایک اور بیٹا عطا فرمایا۔

۱؂۔ اس کرامت کے گواہ شیخ حامد علی صاحب ساکن تھہ غلام نبی۔ کوڈا باشندہ ضلع امرتسر اور قادیان کے اکثر باشندے ہیں۔

۲؂۔ اس کے گواہ مولوی نور الدین صاحب ۔ مولوی عبدالکریم صاحب اور دیگر بہت سے احباب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 581

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 581

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/581/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری نے اس عاجز کے لئے اپنی کتاب فتح رحمانی کے صفحہ ۲۷ میں میرے پر بددعا کی تھی آخر اس بددعا کا یہ اثر ہوا کہ وہ بہت جلد مرگیا۔

ایسا ہی مولوی اسمٰعیل علیگڑھی نے اپنی کتاب میں مجھے ظالم اور مفتری قرار دے کر بطور مباہلہ کے اپنی کتاب میں میرے حق میں بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کر دیا۔ دیکھو رسالہ مولوی اسمٰعیل۔

ایسا ہی محی الدین لکھو کے والے نے اپنا ایک الہام میرے متعلق شائع کیا کہ مرزا صاحب فرعون اور فرعون کی طرح میری تباہی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے جلد تر اس کو پکڑ ا اور ہلاک کر دیا اور اس کی وفات سے پہلے بذریعہ خط اس کو اطلاع دی گئی تھی۔

ایسا ہی مولوی محمد حسن فیضی ساکن بھیں نے ہمارے متعلق ہماری کتاب اعجاز المسیح پر الفاظ *** اللّٰہ علی الکاذبین کے ساتھ مباہلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک دو ماہ کے اندر اندر اس کو ہیبت ناک بیماری کے ساتھ ہلاک کر دیا اور اس قسم کے اور بہت سے نشان ہیں مگر سب کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔

منجملہ ان نشانات کے جو خالق ارض و سماء نے میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ میں نے باوا نانک صاحب کو خواب میں دیکھا کہ

ان نشانات کے پورا ہونے کے گواہ ان متوفی لوگوں کی اپنی کتابیں اوررسالے اور اشتہار ہیں جو کہ انہوں نے ہماری مخالفت میں شائع کئے اور ہمارے وہ الہامات ہیں جو قبل از وقت ایسے لوگوں کی ہلاکت کے متعلق ہزاروں لوگوں میں شائع ہو چکے تھے اور دیگر زندہ گواہ ان کے متعلق مولوی عبدالکریم و صاحبزادہ سراج الحق وغیرہ احباب اور لالہ شرمپت اور ملاوامل آریہ قادیان ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 582

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 582

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/582/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

انہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا ہے اور میں نے دیکھا کہ ایک ہندو ان کے چشمہ سے پانی پی رہا ہے پس میں نے اس ہندو کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمے سے پانی پیو۔ تیس برس کا عرصہ ہوا ہے جب کہ میں نے یہ خواب یعنی باوانانک صاحب کو مسلمان دیکھا اسی وقت اکثر ہندوؤں کو سنایا گیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس کی کوئی تصدیق پیدا ہو جائے گی چنانچہ ایک مدت کے بعد وہ پیشگوئی بکمال صفائی پوری ہو گئی اور تین سو برس کے بعد وہ چولہ ہمیں دستیاب ہو گیا کہ جو ایک صریح دلیل باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر ہے یہ چولہ جو ایک قسم کا پیراہن ہے بمقام ڈیرہ نانک باوا نانک صاحب کی اولاد کے پاس بڑی عزت اور حرمت سے بطور تبرک محفوظ ہے اور سکھوں کی تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس چولہ کو باوا نانک صاحب پہنا کرتے تھے اس پر بہت سی قرآنی آئتیں لکھی ہوئی ہیں جن میں سے ایک یہ سورۃ ہے ۱؂ اور ایک یہ آیت ہے

۲؂ ۳؂ ایسے چولے باوا نانک صاحب کے زمانہ میں وہ فقیر بنایا کرتے تھے جن کا دعویٰ تھا کہ ہم اسلام میں محو ہیں پس باوا صاحب کا یہ چولہ آپ کو صرف مسلمان ہی نہیں بناتا بلکہ کامل مسلمان بناتا ہے بعض سکھوں کا

اس نشان کے متعلق الہامات کے قبل از وقت سننے والے بہت سارے لوگ ہیں۔ منجملہ ان کے صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی اور شیخ حامد علی صاحب اور شیخ عبداللہ صاحب سنوری۔ منشی تاج الدین صاحب



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 583

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 583

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/583/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

یہ جواب کہ یہ چولہ باوا صاحب نے ایک قاضی سے زبردستی چھینا تھا یہ بہت بیہودہ جواب ہے سکھوں کو اب تک خبر نہیں کہ قاضیوں کا کام نہیں کہ چولے اپنے پاس رکھیں اسلام میں چولے رکھنا اس زمانہ میں فقیروں کی ایک رسم تھی پس یہ بات بہت صحیح ہے کہ باوا صاحب کے مرشد نے جو مسلمان تھا یہ چولہ ان کو دیا تھا ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ جنم ساکھیوں میں بھی لکھا ہے کہ چونکہ باوا صاحب نیک بخت آدمی تھے اور بڑی مردانگی سے ہندوؤں سے قطع تعلق کر بیٹھے تھے مرد میدان بھی بڑے تھے اور ایک شخص حیات خان نامی افغان کی لڑکی سے نکاح بھی کیا تھا اور ملتان اور چند دوسرے اولیاء اسلام کے مقبروں پر چلہ کشی بھی کی تھی اس لئے خدا سے الہام پا کر یہ چولہ انہوں نے بنایا تھا یہ ان کی کرامت ہے گویا چولہ آسمان سے اترا۔ اور میری خواب میں جو باوا نانک صاحب نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اس سے یہی مراد تھی کہ ایک زمانہ میں ان کا مسلمان ہونا پبلک پر ظاہر ہو جائے گا۔ چنانچہ اسی امر کے لئے کتاب ست بچن تصنیف کی گئی تھی اور یہ جو میں نے ہندوؤں کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمہ سے پانی پیو اس سے یہ مراد تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اہل ہنود اور سکھوں پر اسلام کی حقانیت صاف طور سے کھل جائے گی۔ اور باوا صاحب کا چشمہ جس کو حال کے سکھوں نے اپنی کم فہمی سے گدلا بنا رکھا ہے وہ میرے ذریعہ صاف کیا جائے گا اور جس تعلق کو باوا صاحب نے ہندو قوم سے بڑی مردی او رمردانگی

مولوی نور الدین صاحب وغیرہ بہت سے احباب ہیں اور اس کے پورا ہونے کا ثبوت خود چولہ ڈیرہ بابا نانک میں اب تک موجود ہے جو چاہے جا کر خود دیکھ سکتا ہے اور ان آیات کو پڑھ سکتا ہے جو ہم نے اپنی کتاب ست بچن میں لکھ دی ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 584

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 584

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/584/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کے ساتھ توڑ دیا تھا وہ توڑنا دوبارہ ثابت کر دیا جائے گا اور باواصاحب کا اپنے چولہ پر یہ لکھنا کہ اسلام کے بغیر کسی جگہ نجات نہیں اگر سکھ مذہب کے لوگ اسی ایک فقرے پر توجہ کرتے تو وہ مدت سے وہی پاک رنگ اختیار کر لیتے جو باوا صاحب نے اختیار کیا تھا ۔ باوانانک درحقیقت ایک ایسا شخص سکھوں میں گذرا ہے جس کو سکھوں نے شناخت نہیں کیا۔ اکثر لوگ اسلام کی سچائی بذریعہ کتابوں کے دریافت کرتے ہیں مگر باوا نانک نے خدا کے الہام سے سچائی اسلام کی معلوم کر لی۔ تعجب جس قوم کا پیشوا ایسا صاف دل اور حامی اسلام ہو جس نے اسلام کی گواہی دے کر تکلیفیں بھی بہت اٹھائیں اسی کی قوم اور اسی کے پیرو اسلام سے اس قدر دور اور مہجور ہیں۔

ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک دوست انگریزی خوان نجف علی نام (جو کہ کابل میں بھی گیا تھا اور شائد اب بھی وہاں ہے) میرے پاس آیا اور اس کے ہمراہ محبی مرزا خدا بخش صاحب بھی تھے۔ ہم تینوں سیر کے لئے باہر گئے تو راستہ میں کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ نجف علی نے میری مخالفت اور نفاق میں کچھ باتیں کی ہیں چنانچہ یہ کشف اس کو سنایا گیا تو اس نے اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ۱؂ہے۔

عرصہ قریباً اٹھائیس برس کا گذرا ہے کہ میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا وہ نان اس نے مجھے دیا

۱؂ اس نشان کے گواہ مرزا خدا بخش صاحب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 585

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 585

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/585/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور کہا کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے۔ یہ اس زمانہ کی خواب ہے جب کہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میںآ آباد ہوئے ہیں۔ اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا اور ہماری جماعت کا آپ متکفل ہو گا اور رزق کی پریشانگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی۔ چنانچہ سالہائے دراز سے ایسا ہی ظہور میں آرہا ہے۔۱؂

میرے والد میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی وفات کا وقت جب قریب آیا اور صرف چند پہر باقی رہ گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کی وفات سے بدیں الفاظ خبر دی والسماء والطارق یعنی قسم ہے آسمان کی اور اس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد ظہور میں آوے گا۔ سو یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ بعد غروب آفتاب میرے والد صاحب مرحوم نے وفات پائی۔۲؂

ایک مرتبہ میں ایسا سخت بیمار ہوا کہ میرا آخری وقت سمجھ کر مجھ کو مسنون طریقہ سے تین دفعہ سورۂ یٰسٓ سنائی گئی اور میری زندگی سے سب مایوس ہو چکے تھے۔

۱؂ ۔ اس خواب کے گواہ حافظ حامد علی صاحب و دیگر ساکنان قادیان ہیں۔

۲؂ ۔ اس پیشگوئی کے گواہ لالہ شرمپت و ملاوامل ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 586

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 586

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/586/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور بعض عزیز دیواروں کے پیچھے روتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے الہاماً مجھے یہ دعا سکھلائی سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم اللّٰہم صل علٰی محمد وعلٰی اٰل محمداور القا ہوا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینے اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ تو اس سے شفا پائے گا چنانچہ اس پر عمل کیا گیا اور ابھی پیالہ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ مجھے بکلّی صحت ہو گئی۔ پھر یہ الہام ہوا ۔ وان کنتم فی ریب ممّا نزلنا علٰی عبدنا فأتوا بشفاء من مثلہٖ یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو جو ہم نے شفا دے کر دکھایا ہے تو تم اس کی نظیر پیش کرو۔

خدائے عزّ وجل کے زبردست نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ عرصہ تخمیناً بیس سال کا گذر چکا ہے کہ جب مجھے ایک مقدس وحی کے ذریعہ سے خبر دی گئی تھی کہ خدا تعالیٰ ایک شریف خاندان میں میری شادی کرے گا اور وہ قوم کے سید ہوں گے اور اس بیوی کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولاد پیدا ہو گی۔ اور پھر یہ الہام ہوا کہ ہر چہ بائد نو عروسی را ہمہ سامان کنم یعنی اس شادی کے تمام ضروریات کا پورا کرنا میرے ذمہ ہو گا۔ چنانچہ اس نے اس وعدہ کے موافق شادی کے بعد اس کے ہر ایک بوجھ سے مجھے سبکدوش کر دیا اور ہمیشہ کرتا رہا اور سب سامان میسر آئے اور حُسن معاشرت کے لئے سب سامان میسر آتے گئے۔

اس نشان کے گواہ شیخ حامد علی اور لالہ شرمپت اور ملاوامل کھتری اور دیگر بہت سے لوگ ہیں جن کو پہلے سے اس وحی کی خبر دی گئی تھی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 587

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 587

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/587/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

اور کسی طرح کی تکلیف پیش نہ آئی بلکہ ہر طرح کا آرام پہنچا اور دوسرا بڑا نشان یہ ہے کہ جب شادی کے متعلق مجھ پر مقدس وحی نازل ہوئی تھی تو اس وقت میرا دل و دماغ اور جسم نہایت کمزور تھا اور علاوہ ذیابیطس اور دوران سر اور تشنج قلب کے دق کی بیماری کا اثر ابھی بکلی دور نہ ہوا تھا۔ اس نہایت درجہ کے ضعف میں جب نکاح ہوا تو بعض لوگوں نے افسوس کیا کیونکہ میری حالت مردمی کالعدم تھی۔ اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے مجھے خط لکھا تھا جو اب تک موجود ہے کہ آپ کو شادی نہیں کرنی چاہئے تھی ایسا نہ ہو کہ کوئی ابتلا پیش آوے مگر باوجود ان کمزوریوں کے خدا نے مجھے پوری قوت صحت اور طاقت بخشی اور چار لڑکے عطا کئے۔

ایک شخص اہل تشیع میں سے جو اپنے آپ کو شیخ نجفی کے نام سے مشہور کرتا تھا ایک دفعہ لاہور میں آ کر ہمارے مقابلہ میں بہت شور مچانے لگا اور نشان کا طلبگار ہوا۔ چنانچہ ہم نے باشاعت اشتہار یکم ؍ فروری ۱۸۹۷ ؁ء اس کو یہ وعدہ دیا کہ چالیس روز تک تجھے اللہ تعالیٰ کوئی نشان دکھلائے گا۔ سو خدا کا احسان ہے کہ ابھی چالیس ۴۰دن پورے نہ ہوئے تھے کہ نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع میں آ گیا تب تو شیخ ضال نجفی فوراً لاہور سے بھاگ گیا۔

ان پیشگوئیوں کے گواہ حکیم فضل دین صاحب۔ منشی تاج دین صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ مولوی نور الدین صاحب۔ شیخ حامد علی صاحب۔ میاں عبداللہ صاحب سنوری۔ منشی ظفر احمدصاحب۔ مولوی محمد حسین صاحب وغیرہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 588

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 588

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/588/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

مارٹن کلارک والے مقدمہ سے قریباً پچیس سال پہلے میں ایک دفعہ خواب میں دیکھ چکا تھا کہ میں ایک عدالت میں کسی حاکم کے سامنے حاضر ہوں اور نماز کا وقت آ گیا ہے تو میں نے اس حاکم سے نماز کے لئے اجازت طلب کی تو اس نے کشادہ پیشانی سے مجھے اجازت دیدی۔ چنانچہ اس کے مطابق اس مقدمہ میں عین دوران مقدمہ میں جبکہ میں نے کپتان ڈگلس سے نماز کے لئے اجازت چاہی تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے اجازت دی۔

عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہو اکہ کچھ عربی میں بولو چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی ۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریباً ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔۱؂

۱؂ اس الہام سے قبل از وقت بہت سے احباب کو اطلاع دی گئی چنانچہ شیخ رحمت اللہ صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی نورالدین صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب۔ شیخ عبدالرحمٰن صاحب۔ ماسٹر عبدالرحمن صاحب۔ مولوی شیر علی ۔ حافظ عبدالعلی وغیرہ کثیر التعداد دوست اس کے گواہ ہیں جنہوں نے اس نشان کو بچشم خود دیکھا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 589

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 589

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/589/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایک رات کو مجھے اس طرح الہام ہوا کہ جیسے اخبار عن الغائب ہوتا ہے اور وہ یہ الفاظ تھے انّی أَفِرُّ مع اھلی الیک۔ یہ الہام سب دوستوں کو سنایا گیا چنانچہ اسی دن خلیفہ نورالدین صاحب کا جموں سے خط آیا کہ اس شہر میں طاعون کا زور پڑ گیا ہے اور میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ اپنے سب بال بچے کو ساتھ لے کر قادیان چلا آؤں۔۱؂

ایک دفعہ قادیان کے آریوں نے بہت اصرار کیا کہ کوئی نشان دکھلاؤ اور ہمارے مخالف شرکاء مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین بھی نشان دیکھنے کے طلبگار تھے۔ تب ان سب پر حجت ملزمہ قائم کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر میں نے یہ پیشگوئی کی کہ مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین پر اکتیس ماہ کے اندر ایک سخت مصیبت پڑے گی یعنی ان کی اولاد میں سے کوئی ایسا آدمی مر جائے گا جس کا مرنا ان کے لئے تکلیف اور تفرقہ کا موجب ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب اکتیس ماہ کے پورا ہونے میں ابھی پندرہ دن باقی تھے تو مرزا نظام الدین کی لڑکی جو کہ امام الدین کی برادرزادی تھی ۲۵ سال کی عمر میں ایک چھوٹا سا بچہ چھوڑ کر مر گئی جس کا صدمہ ان سب پر بہت سخت ہوا اور یہ امر ان کے واسطے اور نیز آریوں کے واسطے ایک بڑا نشان ہوا۔۲؂

۱؂۔ اس الہام کے گواہ بہت سے آدمی ہیں جو اس وقت قادیان میں موجود تھے۔ منجملہ ان کے مولوی نورالدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب ۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ حکیم فضل دین صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب وغیرہ ہیں۔

۲؂۔ اس کے گواہ مرزا امام الدین نظام الدین اورقادیان کے بہت سے آر یہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 590

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 590

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/590/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

قریباً ۱۸۸۴ ؁ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ ولقد لبثت فیکم عمرًا من قبلہ افلا تعقلون۔ اور اس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے کوئی شخص دور یا نزدیک رہنے والا ہماری گذشتہ سوانح پر کسی قسم کا کوئی داغ ثابت نہیں کر سکتا بلکہ گذشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُر زور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے، پیشگوئی ولقد لبثت فیکم کا مصدق ہے ۔

مرزا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بیدخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جوابدہی میں مصروف ہوئے۔ میں نے جب اس بارہ میں دعا کی تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ اجیب کل دُعائک الَّا فی شر!کائک

اس کے گواہ قادیا ن کے کئی آدمی ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 591

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 591

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/591/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کر کے کھول کر سنا دیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہو گے۔ اس لئے اس سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کر کے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کر کے میری بات کی قدر نہ کی اور مقدمہ کی پیروی شروع کر دی اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہو گئی لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے برخلاف کس طرح ہو سکتا تھا بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہو گئی۔

خواجہ جمال الدین صاحب بی اے جو ہماری جماعت میں داخل ہیں جب امتحان منصفی میں فیل ہوئے اور ان کو بہت ناکامی اور ناامیدی لاحق ہوئی اور سخت غم ہوا تو ان کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا کہ سَیُغْفَرُ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اس غم کا تدارک کرے گا۔ چنانچہ اس کے مطابق وہ جلد ریاست کشمیر میں ایک ایسے عہدہ پر ترقی یاب ہوئے جو عہدہ منصفی سے ان کے لئے بہتر ہوا یعنی وہ تمام ریاست جموں و کشمیر کے انسپکٹر مدارس ہو گئے اور اب تک اسی عہدہ پر قائم ہیں۔۱؂

ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے اور لدھیانہ کی طرف جا رہے تھے کہ الہام ہوا کہ ’’نصف ترا نصف عمالیق را ‘‘ اور اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی

۱؂ اس نشان کے گواہ بہت سارے احباب ہیں مثلاً مولوی حکیم نور الدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ خواجہ کمال الدین صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب۔ حکیم فضل دین صاحب وغیرہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 592

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 592

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/592/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کہ امام بی بی جو ہمارے جدّی شرکا ء میں سے ایک عورت تھی مر جائے گی اور اس کی زمین نصف ہمیں اور نصف دیگر شرکاء کو مل جائے گی۔ یہ الہام ان دوستوں کو جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے سنا دیا گیا تھا۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ عورت مذکور مر گئی اور اس کی نصف زمین ہمیں اور نصف بعض دیگر شرکاء کو ملی۔ مرنے کو تو ہر ایک شخص مرتا ہے مگر اس میں تین بڑے نشان تھے (۱) قبل از وقت اس واقعہ کی خبر دینا اور پھر اس عورت کا معمولی عمر میں ہی مر جانا۔ (۲) ہمارا اس وقت تک زندہ رہنا (۳) زمین کا مطابق الہام کے تقسیم ہونا۔۱؂

مجھے اپنے مرض ذیابیطس کی وجہ سے آنکھوں کا بہت اندیشہ تھا کیونکہ اس مرض کے غلبہ سے آنکھ کی بینائی کم ہو جایا کرتی ہے اور نزول الماء ہو جاتا ہے اس اندیشہ کی وجہ سے دعا کی گئی تو الہام ہواکہ ’’نزلت الرحمۃ علٰی ثلٰثٍ۔ العین وعلی الاُخریین۔‘‘ یعنی رحمت تین اعضاء پر نازل ہوگی۔ ایک تو آنکھ اور دو اور عضو۔ اس جگہ آنکھ کا ذکر تو کر دیا۔ لیکن دو باقی اعضاء کی تصریح نہیں فرمائی۔مگر لوگ کہا کرتے ہیں کہ زندگی کا لطف تین عضوکے بقا میں ہے۔ آنکھ۔ کان۔ پران۔ اس الہام کے پورا ہونے کی کیفیت اس سے معلوم ہو سکتی ہے کہ قریباً اٹھارہ سال سے یہ مرض مجھے لاحق ہے اور ڈاکٹر اور حکیم لوگ جانتے ہیں کہ اس مرض

۱؂۔ اس نشان کے گواہ مولوی حکیم نور الدین صاحب۔ شیخ حامد علی صاحب اور ہمارے کنبہ کے اکثر مرد اور عورتیں ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 593

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 593

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/593/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

میں آنکھوں کو کیسا اندیشہ ہوتا ہے ۔ پھر کون سی طاقت ہے جس نے پہلے سے خبر دے دی کہ یہ قانون تجھ پر توڑدیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی کر کے دکھا دیا۔ کیا یہ انسان کا کام ہے؟ ایسی مرض کی حالت میں دعویٰ کرنا تو درکنار کون ہے جو عین تندرستی اور جوانی کی حالت میں بھی دعویٰ کر سکے کہ میری آنکھیں فلاں وقت تک محفوظ رہیں گی۔۱؂

ہماری ایک لڑکی عصمت بی بی نام تھی ایک دفعہ اس کی نسبت الہام ہوا کہ کرم الجنۃ دوحۃ الجنۃ۔ تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی سو ایسا ہی ہوا۔ ہم اس خیال سے کہ مبادا کسی ناعاقبت اندیش کے دل میں ایسے نشانات کی نسبت کچھ اعتراض پیدا ہو کہ عمر بڑھانے کے لئے دعا کیوں نہ کی گئی۔ اور کی گئی ہو تو وہ قبول کیوں نہ ہوئی یہ امر واضح کر دیتے ہیں کہ ایسے الہامات کے بعد ملہم لوگوں کو فطرتاً دو قسم کی حالتیں پیش آتی ہیں کبھی تو دعا کی طرف غیب سے توجہ اور جوش دیا جاتا ہے اور وہ اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ خدا نے ارادہ فرمایا ہے کہ دعا قبول کرے اور کبھی خدا دعا کو قبول کرنا نہیں چاہتا اور اپنی مرضی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ تب دعا کرنے والے کی طبیعت پر قبض پیدا کر دیتا ہے اور دعا کے اسباب اور حضور اور جوش کو ظہور میں نہیں آنے دیتا۔۲؂

۱؂ اس الہام کے لئے گواہوں کی ضرورت نہیں ذیا بیطس کے مرض کا حال ڈاکٹر لوگوں سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اور آنکھوں پر رحمت نازل ہے۔

۲؂ یہ الہام بہت سے مرد اور عورتوں کو سنایا گیا تھا اور اس وقت قادیان میں بہت ہوں گے جو گواہی دے سکیں ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 594

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 594

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/594/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

جب ہمارے شرکاء مخالفین مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین نے ہماری مسجد کے دروازہ کے راہ میں ایک ایسی دیوار کھینچی جو کہ ہمارے واسطے اور ہمارے مہمانوں کے واسطے بہت ہی تکلیف کا موجب ہوئی اور اس امر کی چارہ جوئی کے لئے عدالت میں نالش کی گئی اور قریب ڈیڑھ سال تک مقدمہ ہوتا رہا۔ تو اس دیوار کے بنائے جانے سے چند دن پہلے ہمیں اس کے متعلق ایک الہام ہوا کہ جو دلالت کرتا تھا کہ ایسی تکلیف عنقریب پیش آئے گی اور آخر فتح ہو گی اور وہ الہام یہ ہے الرحیٰ تدور و ینزل القضاء۔ ان فضل اللّٰہ لآت ولیس لا! حد ان یرد ما اتی__ ظفر مبین وانّما یؤخرھم لا !جل مسمّی۔ چکی پھرے گی اور قضا نازل ہو گی یقیناًخدا کا فضل آنے والا ہے اور کسی کی طاقت نہیں جو رد کرے اس کو جب آگیا۔ وہ فتح مبین ہو گی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ان لوگوں کو خدا نے ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے۔ یہ الہامات ۷؍جنوری کے الحکم میں اور اربعین نمبر ۳ میں شائع ہو گئے اور عین اس وقت سب احباب کو سنائے گئے چنانچہ ۷؍جنوری ۱۹۰۰ ؁ء کو وہ دیوار بنائی گئی جس سے ہمارا راستہ آمد و رفت بند ہو گیا اور ہمارے مہمان بہت تکلیف کے ساتھ دور کے کوچوں سے ہو کر مسجد تک پہنچتے لیکن آخر عدالت کے حکم سے وہ دیوار ۲۰؍ اگست ۱۹۰۱ ؁ء کو گرائی گئی اور مقدمہ کا خرچہ بھی ہمارے مخالفین پر پڑا۔ فالحمدللہ ۔

ان الہامات کے گواہ سید فضل شاہ صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب ۔

مولوی حکیم نور الدین صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب و دیگر بہت سے احباب ہیں ۔ مثلاً شیخ یعقوب علی صاحب۔ حکیم فضل الدین صاحب۔ میر ناصر نواب صاحب ۔ سید عبدالمحی عرب حویزی وغیرہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 595

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 595

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/595/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی غلام قادر صاحب سخت بیمار ہیں۔ سو یہ خواب بہت سے آدمیوں کو سنایا گیا چنانچہ اس کے بعد وہ سخت بیمار ہو گئے تب میں نے ان کے لئے دعا شروع کی تو دوبارہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ فوت شدہ ان کو بلا رہے ہیں اس خوب کی تعبیر بھی موت ہوا کرتی ہے چنانچہ ان کی بیماری بہت بڑھ گئی اوروہ ایک مُشتِ اُستخواں سے رہ گئے اس پر مجھے سخت قلق ہوا اور میں نے ان کی شفا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی جس سے میری تین غرضیں تھیں (۱) میں دیکھنا چاہتا تھا کہ میری دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں (۲) میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے بیمار کو بھی تندرست کرتا ہے یا نہیں (۳) میں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ ایسی منذر خواب جو ان کی موت کی نسبت تھی رد ہو سکتی ہے یا نہیں۔ سو جب میں دعا میں مشغول ہوا تو میں نے کچھ دنوں کے بعد خواب میں دیکھا کہ برادر مذکور پورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا بخشی اور وہ اس واقعہ کے بعد پندرہ برس تک زندہ رہے۔۱؂

مذکورہ بالا واقعہ کے پندرہ برس بعد میرے بھائی صاحب کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں امرتسر میں تھا اسی جگہ میں نے خواب میں دیکھا کہ اب قطعی طور پر ان کی زندگی کا پیالہ پُر ہو چکا ہے چنانچہ میں نے یہ خواب حکیم محمد شریف امرتسری کو سنا یا اور اپنے بھائی صاحب کو بھی ایک خط

۱؂ اس نشان کے گواہ قادیان کے بہت لوگ ہیں جو اب تک زندہ موجود ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 596

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 596

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/596/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

لکھا کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں چنانچہ انہوں نے عام گھر والوں کو اس مضمون سے اطلاع دی اور پھر چند ہفتے میں وہ اس جہان سے گزر گئے۔۱؂

علی محمد خان صاحب نواب جھجر نے لدھیانہ میں ایک غلہ منڈی بنائی تھی۔ کسی شخص کی شرارت کے سبب ان کی منڈی بے رونق ہو گئی اور بہت نقصان ہونے لگا۔ تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف رجوع کیا لیکن پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارے میں آتا میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی کہ اس مضمون کا خط نواب موصوف کی طرف سے آرہے گا۔ چنانچہ میں نے اس واقعہ کی خبر اپنے خط کے ذریعہ سے نواب محمد علی خان* مرحوم کو قبل از وقت دیدی اور ایسا اتفاق ہوا کہ اس طرف سے تو میرا خط روانہ ہوا اور اسی دن ان کی طرف سے اسی مضمون کا خط میری طرف روانہ ہو گیا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا جس کی روانگی کی میں نے اسی وقت ان کو خبر دیدی تھی کہ گویا ایک ہاتھ سے انہوں نے ڈاک میں چٹھی ڈالی اور دوسرے ہاتھ سے وہی خط میرا ان کو مل گیا جس میں اس روانہ شدہ چٹھی کا مع مضمون اس کے ذکر تھا تب تو نواب محمد علی خان* خط کو پڑھ کر ایک عالم سکتہ میں آگئے اور تعجب کیا کہ یہ راز کا خط جس کو میں نے

ا؂ قادیان کے کئی مرد اور عورتیں اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کی موت کے وقت میرا خط ان کے صندوق سے نکل آیا تھا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 597

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 597

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/597/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ابھی ڈاک میں روانہ کیا کیونکر اس کا حال ظاہر کیا گیا اس علم غیب نے ان کے ایمان کو بہت قوت دی چنانچہ انہوں نے بارہا مجھے جتلایا کہ اس خط سے خدا پرمیرا ایمان بہت بڑھ گیا اس خط کو وہ ہمیشہ اپنی کتاب جیبی میں بطور تبرک رکھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے خلیفہ محمد حسین کو بھی جو وزیر اعظم پٹیالہ تھے بڑے تعجب سے وہ خط دکھایا اور موت سے ایک دن پہلے پھر اس خط کو مجھے دکھلایا کہ میں نے اپنی جیبی کتاب میں رکھ لیا تھا اور اس نشان کے ساتھ دوسرا نشان یہ ہے کہ جب عالم کشف میں ان کا دوسرا خط مجھ کو ملا جس میں بہت بیقراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے اس جواب کے خط کو پڑھ کر ان کے لئے دعا کی اور مجھ کو الہام ہوا کہ کچھ عرصہ کیلئے یہ روک اٹھا دی جاوے گی اور ان کو اس غم سے نجات دی جائے گی۔ یہ الہام ان کو اسی خط میں لکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کا موجب ہوا۔ چنانچہ وہ الہام جلد تر پورا ہوا۔ اور تھوڑے دنوں کے بعد ان کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہو گئی اور روک اُٹھ گئی۔ اس نشان میں دو نشان ظاہر ہوئے اول قبل از وقت اطلاع دینا کہ ایسا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ دوئمؔ قبولیت دعا سے اطلاع ہونا کہ منڈی پھر بارونق ہو جائے گی۔۱؂

ایک دفعہ میں نے عالم کشف میں دیکھا کہ

مبارک احمد جو پسر چہارم میرا ہے چٹائی

۱؂۔ نواب صاحب نے اس واقعہ کو اپنی نوٹ بک میں درج کیا تھا اور محمد حسین خان صاحب وزیر پٹیالہ کو بھی میرے سامنے اپنی کتاب دکھائی تھی۔ وزیر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ اور لدہانہ کے کئی آدمی اس واقعہ کے گواہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 598

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 598

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/598/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کے پاس گر پڑا ہے اور سخت چوٹ آئی ہے اور کرتہ خون سے بھر گیا ہے ۔ خدا کی قدرت کہ ابھی اس کشف پر شائد تین منٹ سے زیادہ نہیں گذرے ہوں گے کہ میں دالان سے باہر آیا اور مبارک احمد کہ شائد اس وقت سوا دو سال کا ہو گا چٹائی کے پاس کھڑا تھا بچوں کی طرح کوئی حرکت کر کے پیر پھسل گیا اور زمین پر جا پڑا اور کپڑے خون سے بھر گئے اور جس طرح عالم کشف میں دیکھا تھا اسی طرح ظہور میں آ گیا۔ اس واقعہ کی بہت سی عورتیں خادمہ وغیرہ جو ہمارے گھر میں ہیں گواہ ہیں۔

ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد میرا چوتھا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ اس سے چند دنوں کے بعد مبارک احمد کو سخت تپ ہوا اور آٹھ دفعہ غش ہو کر آخری غش میں ایسا معلوم ہوا کہ جان نکل گئی ہے۔ آخر دعا شروع کی اور ابھی میں دعا میں تھا کہ سب نے کہا کہ مبارک احمدفوت ہو گیاہے۔ تب میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو نہ دم تھا نہ نبض تھی آنکھیں میّت کی طرح پتھرا گئیں تھیں۔ لیکن دعا نے ایک خارق عادت اثر دکھلایا اور میرے ہاتھ رکھنے سے ہی جان محسوس ہونے لگی یہاں تک کہ لڑکا زندہ ہو گیا اور زندگی کے علامات پیدا ہو گئے۔ تب میں نے بلند آواز سے حاضرین کو کہا کہ اگر عیسیٰ بن مریم نے کوئی مردہ زندہ کیا ہے تو اس سے زیادہ ہرگز نہیں یعنی اس طرح کا مردہ زندہ ہوا ہو گا نہ کہ وہ جس کی جان آسمان پر پہنچ چکی ہواور ملک الموت نے اس کی روح کو قرار گاہ تک پہنچا دیا ہو۔۱؂

۱؂ اس واقعہ کے قادیان میں رہنے والے بہت سے مرد اور عورتیں گواہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 599

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 599

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/599/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایک دفعہ میں خود سخت بیمار ہو گیا اور حالت ایسی بگڑی کہ بیماری سے جانبر ہونا مشکل معلوم ہوتا تھا تب یہ الہام ہوا ۔ ’’ما کَان لنفسِِ ان تموت الا باذن اللہ وامّا ما ینفع الناس فیمکث فی الارض چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق عین ناامیدی کی حالت میں شفا بخشی اور یوں تو ہزارہا لوگ شفا پاتے ہیں مگر ایسی ناامیدی کی حالت میں سینکٹروں انسانوں میں دعویٰ سے یہ پیش کرنا کہ شفا ضرور حاصل ہو جائے گی یہ انسان کا کام نہیں۔

شروع اکتوبر ۱۸۹۷ ؁ء میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک گواہی کے لئے ایک انگریز حاکم کے پاس حاضرکیا گیا ہوں اور اس حاکم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے لیکن جیسا کہ شہادت کے لئے دستور ہے مجھے قسم نہیں دی۔ پھر ۸؍اکتوبر۱۸۹۷ ؁ء کو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ اس مقدمہ کا سپاہی سمن لے کر آیا ہے۔ یہ خواب مسجد میں عام جماعت کو سنا دی گئی تھی آخر ایسا ہی ظہور میں آیا اور سپاہی سمن لے کر آگیا اور معلوم ہوا کہ اڈیٹر اخبار ناظم الہند لاہور نے مجھے گواہ لکھا دیا ہے جس پر مولوی رحیم بخش پرائیویٹ سکرٹری نواب بہاولپور نے لائبل* کا مقدمہ ملتان میں کیا تھا۔ سو جب میں ملتا ن میں پہنچ کر عدالت میں گواہی کے لئے گیا تو ویسا ہی ظہور میں آیا حاکم کو ایسا سہو ہو گیا کہ قسم دینا بھول گیا اور اظہار شروع کر دئیے۔۱؂

۱؂ اس نشان کے گواہ ایک گروہ کثیر ہے جیسا خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر پشاور۔ مولوی نورالدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب۔

شیخ عبدالرحمن صاحب۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 600

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 600

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/600/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ہمارے دوست مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم ایک مدت سے بیمار چلے آتے تھے۔ آخر ۱۹۰۰ء میں ان کی حالت بہت بگڑ گئی اور وہ فاضلکا میں اپنے بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن کے پاس چلے گئے کچھ دنوں کے بعد دعا کے لئے ان کا خط آیا ہم نے دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ایسی کہ گویا چاند کے ٹکڑے اکٹھے کر کے بنائی گئی ہے اور ایک شخص نہایت خوش شکل عزیز مرحوم کو اس سڑک پر لئے جا رہا ہے اور وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے اس خواب کی تعبیر یہی تھی کہ ان کا خاتمہ بخیر ہو گا اور وہ بہشتی ہے اور نورانی چہرہ والا شخص ایک فرشتہ تھا جو اس عزیز کو بہشت کی طرف لے جا رہا تھا۔ ہم نے یہ خواب مرزا یعقوب بیگ صاحب کو لکھ دیا اور اپنی جماعت میں بھی شائع کر دیا چنانچہ ۶ ماہ کے بعد اس عزیز نے وفات پائی اور جب ہمارے پاس تار پہنچا اور ہم نے تعزیت کا خط لکھنا شروع کیا اور ہماری توجہ اس عزیز کی طرف تھی کہ کس طرح وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ناپدید ہو گیا تو اس حالت میں الہام ہوا ’’ مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہوں ‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عزیز مرحوم کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی۔۱؂ مرحوم مذکور نیک بخت۔ جوان صالح اور اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا۔

۱؂ اس کے گواہ مرزا یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن۔ مولوی حکیم نور الدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔مولوی محمد علی صاحب ایم اے۔ مفتی محمد صادق صاحب۔

مولوی شیر علی صاحب۔ حکیم فضل دین صاحب۔ میر ناصر نواب صاحب۔ شیخ عبدالرحمن قادیانی صاحب۔ شیخ عبدالرحیم صاحب اور کثیر جماعت لاہور ۔ کپورتھلہ ۔ سیالکوٹ وغیرہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 601

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 601

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/601/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

جولائی ۱۸۹۷ء میں جب عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اسسٹنٹ سرجنی کا آخری امتحان دیا اور ہم نے ان کے لئے دعا کی تو الہام ہوا ’’تم پاس ہو گئے ہو‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ پاس ہو گیا ہے۔ کیونکہ مخلصوں کے لئے جو یگانگت کی حدتک پہنچتے ہیں ایسے فقرے آ جاتے ہیں چنانچہ بائیبل میں بھی اس طرز کی کئی پیشگوئیاں درج ہیں بالآخر عزیز مذکور اپنے امتحان میں بڑی خوبی سے کامیاب ہوا اور لاہور کے میڈیکل کالج میں ہوس سرجن مقرر ہوا۔۱؂

ہمارے ایک مخلص دوست مرزا محمد یوسف بیگ صاحب ہیں جو سامانہ علاقہ ریاست پٹیالہ کے رہنے والے ہیں اور ایک مدت دراز سے ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اسی تعلق میں تمام عمر رہیں گے۔ اور اسی میں اس دنیا سے گذریں گے۔ ایک دفعہ ان کا لڑکا مرزا ابراہیم بیگ مرحوم بیمار ہوا تو انہوں نے میری طرف دعا کے لئے خط لکھا ہم نے دعا کی تو کشف میں دیکھا کہ ابراہیم ہمارے پاس بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بہشت سے سلام پہنچا دوجس کے معنی یہی دل میں ڈالے گئے کہ اب ان کی زندگی کا خاتمہ ہے ۔ اگرچہ دل نہیں چاہتا تھا تا ہم بہت سوچنے کے بعد میرزا محمد یوسف بیگ صاحب کو اس حادثہ سے اطلاع دی گئی اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ جوان غریب مزاج فرمانبردار بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے اس جہان فانی سے چل بسا۔۲؂

۱؂۔ اس نشان کے گواہ ہماری جماعت کے بہت سے آدمی اور میرزا یعقوب بیگ کے ہم جماعت ہیں۔

۲؂۔ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب زندہ موجود ہیں جو اس واقعہ کے گواہ ہیں اور ان کے سوا اور بہت سے آدمی بھی اس کے گواہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 602

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 602

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/602/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مفصلہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکی ہیں

جب بالمقابل تفسیر نویسی میں مخالف مولوی عاجز آ گئے اور مہر علی شاہ گولڑی نے کئی طرح کی قابل شرم کارروائیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو یک طرفہ طور پر تفسیرالقرآن کا معجزہ عطا فرمایا اور ستر۷۰ روز کے عرصہ میں رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا ۔ اس عرصہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آئیں اور بہت سا وقت بیماری میں گذرا۔ اس نشان سے زیادہ تر ہمارے قادیان میں رہنے والے احباب حصہ لے گئے کیونکہ وہ ہماری روز مرہ حالت سے واقف تھے۔ حاصل کلام انہیں دنوں میں اس رسالہ کے متعلق یہ الہام ہوا کہ منعہ مانع من السّماء یعنی روک دیا اس کو روکنے والے نے آسمان سے۔ سو یہ الہام اس صفائی سے پورا ہوا ہے کہ اب تک میاں مہر علی اس کا جواب نہیں دے سکا اور نہ ان کا کوئی حامی جواب دینے پر قادر ہو سکا۔ اگر کارروائی کی تویہ کی کہ صرف اردو میں ایک کتاب لکھی مگر آخر تحریری ثبوت سے ثابت ہوا کہ وہ بھی اپنی ذاتی لیاقت سے نہیں بلکہ مولوی محمد حسن متوفی کے نوٹوں کا بعینہا سرقہ تھا یہاں تک کہ اس نادان نے اس کی قابل شرم غلطیوں کو بھی صحیح سمجھ لیا اور اس مال مسروقہ اور مجموعہ اغلاط کا نام سیف چشتیائی رکھا۔ وہ ایسی سیف تھی جو انہیں پر چل گئی۔۱؂

مر گیا بد بخت اپنے وار سے

کٹ گیا سر اپنی ہی تلوار سے

کھل گئی ساری حقیقت سیف کی

کم کرو اب ناز اس مُردار سے

۱؂۔ اس نشان کا گواہ اول تو خود کتاب اعجاز المسیح ہے اور بہت سے مخلص جو اس جگہ موجود تھے۔

مثلاً مولوی نورالدین صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مفتی محمدصادق صاحب۔

مولوی محمد علی صاحب۔ حکیم فضل دین صاحب۔ پیر منظور محمد صاحب۔ پیر سراج الحق صاحب۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 603

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 603

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/603/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر اعظم پٹیالہ کسی ابتلا اور فکر اور غم میں مبتلا تھے ان کی طرف سے متواتر دعا کی درخواست ہوئی اتفاقاً ایک دن یہ الہام ہوا ۔ ’’چل رہی ہے نسیم رحمت کی ۔ جو دعا کیجئے قبول ہے آج۔ ‘‘ اس وقت مجھے یاد آیا کہ آج انہیں کے لئے دعا کی جائے چنانچہ دعا کی گئی اور ان کو بذریعہ خط اطلاع دی گئی اور تھوڑے عرصہ کے بعد انہوں نے ابتلاء سے رہائی پائی اور بذریعہ خط اپنی رہائی سے اطلاع دی ان کاخط میرے کسی بستہ میں اب تک پڑا ہو گا اور وہی اس بات کا کامل گواہ ہے۔

ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات سے ایک دن پہلے الہام ہوا ۔ ’’جنازہ‘‘ اور میں نے اس الہام کی بہت لوگوں کو خبر دیدی چنانچہ دوسرے روز بھائی صاحب فوت ہوئے۔ اس واقعہ کے بہت لوگ گواہ ہیں۔

منجملہ ان نشانوں کے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے ہاتھ پر ظہور میں آئے ایک یہ ہے کہ جب کتاب امہات المومنین عیسائیوں کی طرف سے شائع ہوئی تو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ممبروں نے گورنمنٹ میں اس مضمون کا میموریل بھیجا کہ اس مضمون کی اشاعت بند کی جائے اور مصنف سے باز پُرس ہو مگر میں ان کے میموریل کے سخت مخالف تھا اور میں نے اپنی تحریر میں صاف طور پر شائع کیا تھا کہ یہ طریق اچھا نہیں مگر ان لوگوں نے میری صلاح کو قبول نہ کیا بلکہ

ان واقعات کے گواہ بہت سے آدمی ہیں مثلاً مفتی محمد صادق صاحب۔

مولوی محمد علی۔ مولوی شیر علی صاحبان۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 604

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 604

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/604/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

بدگوئی کی۔ اسی اثنا میں مجھے الہام ہوا کہ ستذکرون ما اقول لکم وافوض امری الی اللّٰہ یعنی عنقریب جنہیں یہ بات میری یاد آئے گی یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ تمہیں اپنے میموریل میں ناکامی رہے گی اور جس امر کو میں نے اختیار کیا ہے یعنی مخالفین کے اعتراضات کو رد کرنا اور ان کو جواب دینا۔ اس امر کو میں خدائے تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔ یہ الہام قبل از وقت ایک گروہ کثیر کو سنایا گیا تھا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی انجمن کی وہ درخواست نا منظور ہوئی۔

جب کہ دلیپ سنگھ کی پنجاب میں آنے کی خبر مشہور تھی تب مجھے دکھلایا گیا کہ دلیپ سنگھ اپنے اس ارادہ میں ناکام رہے گا اور وہ ہرگز ہندوستان میں قدم نہیں رکھے گا چنانچہ میں نے اس کشف کو لالہ شرمپت ساکن قادیان کو جو آریہ ہے اور کئی ہندو مسلمانوں کو بتلا دیا اور ایک اشتہار بھی شائع کر دیا جو فروری ۱۸۸۲ ؁ء میں چھپ کر تقسیم کر دیا تھا۔ چنانچہ ایساہی ہوا کہ دلیپ سنگھ عدن سے واپس ہوا اور اس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا جیسا کہ میں نے صد ہا آدمیوں کو خبر دی تھی۔ ۱؂

ایک دفعہ ہمارے مخلص میاں عبداللہ سنوری پٹواری علاقہ ریاست پٹیالہ کے دیکھتے ہوئے یہ نشان الٰہی ظاہر ہوا کہ اول مجھے کشفی طور پر دکھایا گیا کہ میں نے بہت سے احکام قضا و قدر کے اہلِ دنیا کی نیکی و بدی کے

۱؂ ۔ اس نشان کے گواہ اکثر قادیان کے لوگ ہیں اور علاوہ ان کے اشتہار جو

فروری ۱۸۸۲ ؁ء میں چھاپ کر شائع کیا تھا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 605

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 605

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/605/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جو دنیا پر ظاہر ہوچکیں ہیں

متعلق اپنے لئے اور نیز اپنے دوستوں کے لئے لکھے ہیں اور چاہتا ہوں کہ ایسا ہی ہو جائے پھر تمثل کے طور پر میں نے خدا تعالیٰ بے مثل و بے مانند کو دیکھا اور وہ کاغذ حضرت جلّ شانہ کے آگے رکھ دیا تا اس پر دستخط کر دے تا وہ سب باتیں جن کے لئے درخواست کی گئی ہے ہو جائیں خدا تعالیٰ نے اس پر سرخی سے دستخط کر دئیے اور قلم کی نوک پر جو سرخی زیادہ تھی اس کو جھاڑ دیا اور جھاڑنے کے ساتھ ہی اس سرخی کے قطرے میرے اور میاں عبداللہ کے کپڑوں پر پڑے اور چونکہ کشفی حالت میں انسان بیداری سے حصہ رکھتا ہے اس لئے میں نے ان قطروں کو بچشم خود دیکھا اور میں اس وقت اس خیال سے کہ خدا نے میرے تجویز کردہ احکام پر دستخط کر دئے چشم پُر آب تھا۔ اور ایک رقّت میرے دل پر طاری تھی اتنے میں میاں عبداللہ نے یہ کہہ کر کہ یہ کہاں سے سرخ قطرے ہمارے پر پڑے مجھے اس حالت سے جگا دیا اور میں

نے اپنے کرتہ اور اس کی ٹوپی پر سرخ اور تر قطرے دیکھے جو ابھی خشک نہیں ہوئے تھے اور تمام حال اس کشف کا سنایا اور اس وقت ہم دونوں نے ادھر اُدھر خوب تلاش کر کے دیکھا مگر کوئی چیز ایسی نظر نہ پڑی جس سے ان قطروں کے گرنے کا گمان ہو سکے تب میاں عبداللہ کو بھی یقین ہوا کہ یہ سرخ قطرے معجزے کے طور پر ہیں ۔ بعض کپڑے اب تک میاں عبداللہ کے پاس موجود ہیں اور وہ خدا کے فضل و کرم سے غوث گڈھ علاقہ پٹیالہ میں زندہ موجود ہیں اور اس کیفیت کو حلفاً بیان کر سکتے ہیں اور یہ بات کہ یہ سرخ قطرے کس بات کی طرف اشارہ

اس کے گواہ میاں عبداللہ سنوری اور دیگر بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اس موقعہ پر اس کُڑتہ کو دیکھا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 606

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 606

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/606/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکی ہیں

کرتے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قبل از وقت اس بات کے لئے نشان دیا گیا تھا کہ آسمان سے قہری نشان ظاہر ہوں گے اور بعض ہیبت ناک موتیں نشان کی طرح ہوں گی۔ جیسا کہ لیکھرام پنڈت کی موت اور جیسا کہ طاعون دنیا کو کھا رہی ہے۔

پنڈت اگنی ہوتری نے جو برہمو سماج کا ایک منتخب معلم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سوم براہین احمدیہ کا رد لکھنا چاہتا ہوں ۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے اس مضمون سے آگاہی دے دی تھی چنانچہ کئی ہندو آریوں کو بلا کر بتا دیا گیا تھا اور ایک آریہ کو ہی شام کے وقت ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تا وہ گواہ بن سکے۔ چنانچہ جب وہ خط لایا تو اس خط کا وہی مضمون تھا جو الہام الٰہی سے خبر پا کر پہلے لوگوں پر ظاہر کر دیا گیا تھا اور وہ خط سب کو دکھایا گیا اور پنڈت اگنی ہوتری کو جواب لکھا گیا کہ جس الہام کے سلسلہ کا تم رد لکھنا چاہتے ہو اسی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیش از وقت تمہارے خط کے مضمون سے اطلاع دے دی ہے اگر چاہو تو قادیان میں آکر اپنے ہندو بھائیوں سے تصدیق کر لو۔۱؂

جب بعض مخالفین کی مخبری سے میرے پر ٹیکس لگانے کے لئے سرکار کی طرف سے مقدمہ ہوا اور میری طرف سے عذر داری کی گئی تو میں ایک دن

۱؂ اس نشان کے گواہ قادیان کے بہت سے آریہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 607

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 607

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/607/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

چھوٹی مسجد میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آمد خرچ کا حساب کر رہے تھے کہ مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوئی اور اس میں دکھایا گیا کہ ہندو تحصیلدار بٹالہ جس کے پاس مقدمہ تھا بدل گیا ہے اور اس کے عوض ایک اور شخص کرسی پر بیٹھا ہے جو مسلمان ہے اور اس کشف کے ساتھ بعض امور ایسے ظاہر ہوئے جو فتح کی بشارت دیتے تھے تب میں نے اسی وقت یہ کشف حاضرین کو سنا دیا جن میں سے ایک خواجہ جمال الدین صاحب بی اے انسپکٹر مدارس جموں و کشمیر تھے اور بہت سے جماعت کے لوگ تھے چنانچہ اس کے بعد ایسا ہوا کہ وہ ہندو تحصیلدار یکایک بدل گیا اور اس کی جگہ میاں تاج الدین صاحب تحصیلدار بٹالہ مقرر ہوئے جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اصل حقیقت کو دریافت کر لیا اور جو کچھ تحقیقات سے معلوم ہوا اس کی رپورٹ ڈکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور میں بھیج دی اور نیک اتفاق یہ ہوا کہ صاحب موصوف بھی زیرک اور انصاف پسند تھے انہوں نے لکھ دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کا ایک شہرت یافتہ فرقہ ہے جن کی نسبت ہم بدظنی نہیں کر سکتے یعنی جو کچھ عذر کیا گیا ہے وہ واقعی درست ہے اس لئے ٹیکس معاف اور مسل داخل دفتر ہو۔۱؂

ایک دفعہ ہمیں موضع کُنجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھہ غلام نبی ہمارے ساتھ تھا جب صبح کو ہم نے جانے کا

۱؂۔ اس نشان کے گواہ خواجہ جمال الدین صاحب بی اے ۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب ۔ مولوی نور الدین صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب۔ شیخ عبدالرحمن صاحب۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 608

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 608

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/608/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں ہیں

قصد کیا تو الہام ہوا کہ اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہو گا چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک چادر اور ہمارا ایک رومال گم ہو گیا اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی۔

ایک دفعہ ڈاکٹر نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت کا لڑکا سخت بیمار ہو گیا اس کی والدہ بہت بیتاب تھی اس کی حالت پر رحم آیا اور دعا کی تو الہام ہوا ’’اچھا ہو جائے گا ‘‘ اسی وقت یہ الہام سب کو سنایا گیا جو پاس موجود تھے آخر ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا خدا کے فضل سے بالکل تندرست ہو گیا۔ ۱؂

ایک دفعہ ہمارے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں بہت خراب ہو گئی تھیں۔ پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا آخر ہم نے دعا کی تو الہام ہوا ۔ ’’برق طفلی بشیر‘‘یعنی میرے لڑکے بشیراحمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں۔ اس سے پہلے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔۲؂

۱؂ بہت سے مرد اور عورتیں اس نشان کے گواہ ہیں مثلاً مولوی نورالدین صاحب۔

مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب۔ شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی وغیرہ۔

۲؂ اس الہام کے بہت سے مرد اور عورتیں قادیان میں گواہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 609

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 609

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/609/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل خارق عادت پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایک دفعہ الہام ہوا ’’ بے ہوشی پھر غشی پھر موت ‘‘ تفہیم ہوئی کہ ہمارے بڑے مخلص مریدوں میں سے کسی کو ایسا واقعہ پیش آئے گا یعنی پہلے بے ہوشی ہو گی پھر غشی طاری ہو گی پھر مر جائے گا۔ یہ الہام یہاں رہنے والے احباب کو سنایا گیا اور خطوط کے ذریعہ سے باہر بھی لکھا گیا تھا آخر ایک دو ہفتہ کے اندر ہمارے مخلص مرید ڈاکٹر بوڑے خان صاحب اسسٹنٹ سرجن قصور عین الہام کے الفاظ کے مطابق یک دفعہ بے ہوش ہو کر اور پھر غش میں پڑ کر فوراً فوت ہو گئے اور ان کی وفات کا تار آیا۔ ۱؂

ایک دفعہ ہمیں لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ ’’اس سفر میں کچھ نقصان ہو گا اور کچھ ہم و غم پیش آئے گا‘‘ اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی چنانچہ جب کہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اتار کر سید محمد حسن خان صاحب وزیر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تا کہ وضو کریں پھر جب نماز سے فارغ ہو کر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رومال گر گیا ہے تب ہمیں وہ الہام یاد آیا کہ اس نقصان کا ہونا ضروری تھا پھر جب ہم گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک اسٹیشن دو راہہ پر ہمارے ایک رفیق کو کسی مسافر انگریز نے

۱؂ اس نشان کے گواہ بہت آدمی یہاں کے اور دیگر مقامات کے ہیں مثلاً مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی نور الدین صاحب۔مفتی محمد صادق صاحب۔مولوی محمد علی صاحب۔مولوی شیر علی صاحب۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 610

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 610

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/610/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بیان فرمائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

محض دھوکا دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہہ دیا کہ لودیانہ آ گیا ہے چنانچہ ہم اس جگہ سب اتر پڑے اور جب ریل چل دی تب ہم کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور اسٹیشن تھا اور ایک بیابان میں اترنے سے سب جماعت کو تکلیف ہوئی اور اس طرح پر الہام مذکورہ کا دوسرا حصہ بھی پورا ہو گیا۔۱؂

ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمٰعیل کا (جن کی عمر اس وقت دس برس کی تھی ) پٹیالہ سے خط آیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اسحاق میرے چھوٹے بھائی کو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے اور پھر خط کے آخیر میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اسحاق بھی فوت ہو گیا ہے اور بڑی جلدی سے بلایا کہ دیکھتے ہی چلے آویں۔ اس خط کے پڑھنے سے بڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس وقت میرے گھر کے لوگ بھی سخت تپ سے بیمار تھے ۔ ایسی ناگہانی دو موتوں کی خبر میں ان کو سنا نہ سکا اور میں سخت بے قراری میں پڑ گیا کہ جن کو بلاتے ہیں وہ خود خطرناک تپ میں مبتلا ہے اور میں ڈرتا تھا کہ اگر میں اس خط کا مضمون اس بیماری کی حالت میں ان کو سناؤں تو جان کا اندیشہ ہے رات کو اس فکر سے نیند میری جاتی رہی کہ کیا کروں اور میں اس خط کو پوشیدہ بھی نہیں رکھ سکتا تھا جب ایک حصہ رات کا گذر گیا تو فکر کرتے کرتے میرا دل نہایت بے قرار ہو گیا جس کا میں اندازہ نہیں کر سکتا تب مجھے اسی تشویش میں ایک دفعہ غنودگی ہوئی اور یہ الہام

۱؂ اس نشان کے گواہ شیخ حامد علی صاحب ۔ شیخ عبدالرحیم صاحب ساکن انبالہ چھاؤنی اور فتح خان ایک افغان ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 611

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 611

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/611/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائی ہیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ہوا۔ ان کید کنّ عظیم یعنی اے عورتو تمہارے فریب بہت بڑے ہیں اور اس حالت میں ہم ان کو خط کا مضمون بھی نہیں سنا سکتے تھے اس مصیبت کو سن کر ان کی جان کا اندیشہ تھا اس کے ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ یہ ایک خلاف واقعہ بہانہ بنایا گیا ہے ۔ تب میں نے اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کے آگے جو اس وقت قادیان میں موجود تھے یہ واقعہ بیان کیا اور ساتھ ہی پوشیدہ طور پر شیخ حامد علی کو جو میرا نوکر تھا پٹیالہ روانہ کیا۔ جس نے واپس آ کر بیان کیا کہ اسحاق اور اس کی والدہ ہر دو زندہ موجود ہیں اور چند روز کی بیماری اور گھبراہٹ اور اشتیاق ملاقات کے سبب یہ خلاف واقعہ خط لکھا کر بھیجا گیا تھا۔۱؂

ایک دفعہ ہمارے ایک مخلص دوست سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس کسی اپنی تشویش میں دعا کے خواستگار ہوئے جب دعا کی گئی تو الہام ہوا۔ ’’ قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے ۔ بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے۔ ‘‘ یہ ایک بشارت ان کا غم دور کرنے کے بارے میں تھی۔ چنانچہ چند ہفتہ کے بعد ہی خدا تعالیٰ نے ان کو اس پیش آمدہ غم سے رہائی بخشی۔ پھر ایک مدت کے بعد اس شعر کے دوسرے مصرع کے مطابق ایک اور سخت ابتلا پیش آیا جس سے امید ہے کہ کسی وقت خدا رہائی دے گا جس طرح چاہے گا۔۲؂

۱؂ اس نشان کے گواہ مولوی عبدالکریم صاحب ۔ شیخ حامد علی ۔ میر محمد اسماعیل صاحب۔ ان کی والدہ و دیگر کئی مرد اور عورتیں ۔

۲؂ اس نشان کے گواہ خودسیٹھ صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی نور الدین صاحب۔ مفتی محمد صادق صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب و دیگر بہت سے احباب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 612

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 612

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/612/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

میاں عبداللہ سنوری جو علاقہ پٹیالہ میں پٹواری ہیں ایک مرتبہ ان کو ایک کام پیش آیا جس کے ہونے کے لئے انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی۔ اور بعض وجوہ سے ان کو اس کام کے ہوجانے کی امید بھی ہو گئی تھی پھر انہوں نے دعا کے لئے ہماری طرف التجا کی۔ ہم نے جب دعا کی تو بلا توقف الہام ہوا ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ ۔ تب میں نے ان کو کہہ دیا کہ یہ کام ہرگز نہیں ہو گا اور وہ الہام سنا دیا اور آخر کار ایسا ہی ظہور میں آیا اور کچھ ایسے موانع پیش آئے کہ وہ کام ہوتا ہوتا رہ گیا۔۱؂

ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً 3پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جا کر اس نہر کے کنارہ پر دعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے جب ہم دعا کر چکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں۔‘‘ تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تا کہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں ۔ چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا۔۲؂

۱؂ اس نشان کے گواہ شیخ حامد علی اور عبداللہ سنوری ہیں۔

۲؂ اس نشان کے گواہ شیخ حامد علی صاحب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 613

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 613

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/613/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

ایک دفعہ مجھے مرض ذیا بیطس کے سبب بہت تکلیف تھی کئی دفعہ سو۱۰۰، سو۱۰۰ مرتبہ دن میں پیشاب آتا تھا ۔ دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہو گئے۔ جن سے کار بنکل کا اندیشہ تھا۔ تب میں دعا میں مصروف ہوا تو یہ الہام ہوا ’’والموت اذا عسعس‘‘ یعنی قسم ہے موت کی جبکہ ہٹائی جائے۔ چنانچہ یہ الہام بھی ایسا پورا ہوا کہ اس وقت سے لے کر ہمیشہ ہماری زندگی کا ہر ایک سیکنڈ ایک نشان ہے۔

میرے چوتھے لڑکے مبارک احمد کی پیدائش سے دو ماہ پہلے یہ الہام ہوا تھا۔ ’’ربّ اصح زوجتی ھذہ‘‘ یعنی اے میرے رب میری اس زوجہ کو بیمار ہونے سے بچا اور بیماری سے شفا دے۔ جس وقت یہ الہام ہوا اس وقت میری بیوی بالکل تندرست تھی گویا اس الہا م میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کسی بیماری کا اندیشہ ہے لیکن بعد میں شفا ہو جائے گی۔ چنانچہ دو ماہ کے بعد یہ الہام ہر دو پہلو سے پورا ہوا۔ یعنی میری بیوی کو ایک سخت مرض نے گھیرا اور خطرناک حالت ہوئی لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے شفا دی۔ ۱؂

ایک دفعہ مجھے الہام ہوا ’’ربّ ارنی کیف تحی الموتٰی رب اغفر و ارحم من السماء ۔‘‘ اے میرے ربّ مجھے دکھا کہ تو مردہ

۱؂ اس کے گواہ مولوی عبدالکریم صاحب ۔ مولوی نور الدین صاحب۔ مولوی محمد علی صاحب۔ مفتی محمد علی صاحب۔ مولوی شیر علی صاحب و دیگر احباب ہیں اور دوسرے شہروں میں بذریعہ خطوط کے یہ الہام لکھے گئے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 614

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 614

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/614/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بیان فرمائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

کیونکر زندہ کرتا ہے اور آسمان سے اپنی بخشش او رحمت نازل فرما۔ اس الہام میں یہ خبر دی گئی کہ کبھی ایسا موقع آنے والا ہے کہ ہمیں یہ دعا کرنی پڑے گی اور وہ قبول ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ ایک دفعہ ہمارا لڑکا مبارک احمد ایسا سخت بیمار ہوا کہ سب نے کہا وہ مر گیا ہے ہم اٹھے اور دعا کرتے ہوئے لڑکے پر ہاتھ پھیرتے تھے تو لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا تھا علاوہ ازیں یہ الہام اس طرح سے بھی پورا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اب تک ہمارے ہاتھ سے ہزار ہا روحانی مردہ زندہ کیے ہیں اور کر رہا ہے۔۱؂

عرصہ قریباً پچیس برس کا گذرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیا ہوا کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتار دوں ۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہو گئے جن میں سے ایک کا نام خیرائتی تھا ۔ وہ تینوں بھی زمین پر بیٹھ گئے اور مولوی عبداللہ بھی زمین پر تھے۔ اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے ان سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم سب آمین کہو تب میں نے یہ دعا کی ربّ اذھب عنی الرجس وطھرنی

۱؂ اس نشان کے گواہ بہت سے مرد اور عورتیں ہیں منجملہ ان کے مولوی نور الدین صاحب۔ مرزا خدا بخش صاحب۔ صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔ شیخ عبدالرحمن قادیانی صاحب اور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 615

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 615

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/615/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں ہیں

تطھیرًا۔ اس دعا پر تینوں فرشتوں اور مولوی عبداللہ نے آمین کہی اس کے بعد وہ تینوں فرشتے اور مولوی عبداللہ آسمان کی طرف اُڑ گئے اور میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ مولوی عبداللہ کی وفات قریب ہے اور میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کر رہی ہے یہاں تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہو گیا وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہو گئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچا تھا۔ اور اس نے میری نسبت گواہی دی اور اس گواہی کو حافظ محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بیان بھی کیا مگر پھر دنیا کی محبت ان پر غالب آ گئی اورمیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے کہ مولوی عبداللہ نے میرے خواب میں دعویٰ کی تصدیق کی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ قسم جھوٹی ہے تو اے قادر خدا مجھے ان لوگوں کی ہی زندگی میں جو مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد یا ان کے مرید یا شاگرد ہیں سخت عذاب سے مار ورنہ مجھے غالب کر اور ان کو شرمندہ یا ہدایت یافتہ۔ مولوی عبداللہ صاحب کے اپنے مونہہ کے یہ لفظ تھے کہ

مفتی محمد صادق صاحب۔ شیخ حامد علی صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی

محمدعلی صاحب۔ شیخ یعقوب علی صاحب۔ منشی ظفر احمد صاحب۔ میر ناصر نواب صاحب۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 616

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 616

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/616/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں ہیں

آپ کو آسمانی نشانوں اور دوسرے دلائل کی تلوار دی گئی ہے اور جب میں دنیا پر تھا تو امید رکھتا تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا یہ میری خواب ہے۔ العن من کذب وایّد من صدق۔

جب مولوی صاحب غزنوی ہماری مذکورہ بالا خواب کے مطابق فوت ہو گئے تو جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے تھوڑے دنوں کے بعد میں نے ان کو خواب میں دیکھا کہ میں اپنا ایک خواب ان کے آگے بیان کر رہا ہوں اور وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں آ گیا ہوں اور ان کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں اور انہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں ۔ وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے تب میں نے مولوی عبداللہ صاحب کو اپنا ایک خواب سنایا میں نے انہیں کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک نہایت چمکیلی اور روشن تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کی نوک آسمان میں ہے اور قبضہ میرے پنجہ میں اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ

خلیفہ نورالدین صاحب۔ منشی تاج الدین صاحب۔ شیخ رحمت اللہ صاحب ۔ میرحامد شاہ صاحب۔ حکیم حسام الدین صاحب۔ شیخ یعقوب علی صاحب اڈیٹر الحکم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 617

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 617

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/617/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُسی وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوں اور ہر ایک وار سے ہزارہا آدمی کٹ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لمبائی کی وجہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر تی جاتی ہے ۔ یہ خواب تھی جو میں نے مولوی عبداللہ کے پاس بیان کی اور جب میں خواب کو بیان کرچکا اور ان سے تعبیر پوچھی تب مولوی عبداللہ نے اس کی تعبیر یہ بتلائی کہ تلوار سے مراد اتمام حجت اور تکمیل تبلیغ ہے اور میرے دلائل قاطعہ کی تلوار ہے اور یہ جو دیکھا کہ وہ تلوار دائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے اس سے مراد دلائل روحانیہ ہیں جو از قسم خوارق او رآسمانی نشانوں کے ہوں گے۔ اور یہ جو دیکھا کہ وہ بائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے اس سے مراد دلائل عقلیہ وغیرہ ہیں جن سے ہر ایک فرقہ پر اتمام حجت ہو گا۔ پر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو امیدوار تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے ایک حصہ کے حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے

میاں محمد جان صاحب کپورتھلہ۔ میاں فتح دین صاحب۔ میاں عبداللہ صاحب پشاوری۔ خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ وغیرہ احباب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 618

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 618

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/618/mode/1up


جس وحی سے میں مشرف کیا گیا ہوں اُس وحی نے مندرجہ ذیل پیشگوئیاں بتلائیں جودنیا پر ظاہر ہوچکیں

بھائی محمد یعقوب نے بھی تصدیق کی ہے شائد میں نے اس خواب کو سو سے زیادہ لوگوں کو سنایا ہو گا۔ چنانچہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو رہی ہے اور روحانی تلوار نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو فتح کر لیا ہے اور کرتی جاتی ہے۔

سید عباس علی لدھیانوی کو ہم نے اپنے ابتدائی خطوط میں اپنے کشوف کے ذریعہ سے اس بات سے پیش از وقت اطلاع دیدی تھی کہ آپ کا انجام اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے حالانکہ وہ اس وقت اپنے تئیں اسی راہ میں فنا شدہ ظاہر کرتے تھے ۔ چنانچہ بعض کلمات ان خطوط کے مفصلہ ذیل ہیں۔ ’’بنظر کشفی آپ کے دل میں انقباض معلوم ہوا ۔‘‘ ’’آپ کسی نئے امر کے پیش آنے پر مضطرب نہ ہوں آپ ابتلا سے بچ نہیں سکتے۔ ‘‘ ’’ نیک ظن بننا آسان ہے مگر نبھانا مشکل ۔‘‘ ’’نہایت بد نصیب وہ انسان ہے جس کا انجام آغاز کا سا جوش نہیں رکھتا۔‘‘ ان سے صاف ظاہر تھا کہ اس کا انجام اچھا نہیں۔ چنانچہ چند سالوں کے بعد وہ مرتد ہو گیا۔ مکتوب میرا اُن کی خاص دستخطی موجود ہے جس میں اس پیشگوئی سے کئی سال بعد اس کا انجام بد ہوا۔ یہ مکتوب ان کی وفات کے بعد ان کے کتب خانہ سے ملا۔ اس مکتوب کے دیکھنے سے ہر یک کو معلوم ہو گا کہ دنیا کیسا عبرت کا مقام ہے جب انسان پر شقاوت کے دن آتے ہیں تو وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا۔ جس شخص کو پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ تُو برگشتہ ہو جائے گا اور ٹھوکر کھائیگا وہ برگشتہ ہو کر اس پیشگوئی سے کچھ فائدہ اٹھا نہ سکا۔

ان نشانوں کے گواہ منشی ظفر احمد صاحب ۔ حافظ محمد یوسف صاحب۔ محمد یعقوب صاحب۔ منشی محمد خان صاحب۔ عبداللہ سنوری وغیرہ احباب ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 619

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 619

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/619/mode/1up


اشاعت

یہ کتاب نزول المسیح زیر طبع تھی کہ مولوی کرم دین ساکن بھین نے جس کے خطوط اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں ایک مقدمہ دائر عدالت کیا کہ مجھ کو کذاب اور لئیم مواہب الرحمن میں ( جو حضرت اقدسؑ کی عربی تالیفات سے ہے) لکھا گیا ہے اور اس کتاب میں میرے جو خطوط لکھے گئے ہیں وہ جعلی ہیں اور ایک نسخہ اس کا کسی ذریعہ سے حاصل کر کے اس کو عدالت میں پیش کیا جس کی وجہ سے کتاب کے طبع ہونے میں روک پیش آ گئی یہ مقدمہ مع دیگر مقدمات کے دو ڈھائی سال تک جاری رہا اور آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں (نسبت انجام مقدمات) کے مطابق یہ مقدمات فیصل ہوئے اور حضرت اقدس و اطہرؑ نے ان کے فیصلہ کے بعد ایک کتاب اور لکھنی شروع کی جس کا نام نصرۃ الحق رکھا اور جو بعد میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کے جلیل القدر نام سے موسوم ہوئی اور اس کے اندر مقدمات میں جو جو تائیدات الٰہیہ آپ کے شامل حال رہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے اوائل کتاب میں ہی کرمدین مدعی کے متعلق یہ شعر تحریر فرمایا کہ ؂

کذاب اس کانام دفاتر میں رہ گیا

چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بَہ گیا

کتاب نصرۃ الحق بھی زیر طبع ہی تھی کہ ایک فتنہ ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کے ارتداد کا اٹھا جس کے دفع کرنے کے واسطے آپ نے حقیقۃ الوحی ایک ضخیم کتاب جو سات۷۰۰ سو صفحہ کی ہے تصنیف فرمائی اور اس میں دو سو۲۰۸ آ ٹھ نشانات کا ذکر بھی آپ نے فرمایا جو آپ کی تصدیق میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے فعلی شہادت کے طور پر ظہور پذیر ہوئے اس کے ختم کرنے پر ارادہ تھا کہ یہ کتاب اور نیز نصرۃ الحق کو مکمل کیا جاوے کہ انہیں ایام میں آپ کا ایک مضمون آریوں کے جلسہ میں پڑھا گیا جس کے بالمقابل آریوں کی طرف سے گالیوں سے بھرا ہوا لیکچر حضرت کے خدام کی حاضری میں سنایا گیا ا س کے جواب میں کتاب چشمہ ء معرفت جو ساڑھے تین سو۳۵۰ صفحہ کی پُر معارف کتاب ہے ، آپ نے شائع فرمائی۔ ابھی اس کو شائع کئے دو تین روز گذرے تھے کہ پیغام صلح کے لکھنے پر ضرورت وقت نے حضور کو توجہ دلائی وہ لکھ ہی رہے تھے اور ختم کیا ہی تھا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے آپؔ کی طلبی کا پیغام آ پہنچا اور رسالہ الوصیت مجریہ ۱۹۰۶ ؁ء کی پیشگوئیوں کے مطابق الرّحیل ثم الرّحیل کا نقارہ بج گیا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 620

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 620

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/620/mode/1up


ان حالات کے ماتحت اس کتاب کا شائع ہونا معرض التواء میں رہا۔ چونکہ اس کے شروع میں نیز کشتی نوح میں آپ نے اس کے اندر ڈیڑھ سو۱۵۰ پیشگوئیوں کے لکھنے کا اور شامل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لئے یہ بات بتا دینے کے لائق ہے کہ حقیقۃ الوحی متذکرہ صدر کتاب حضرت ؑ نے اس کے بعد لکھی تھی جس میں دو سو۲۰۸ آ ٹھ نشانات آپ نے قلمبند فرمائے ہیں اور بعض کے گواہان رؤیت بھی تحریر فرمائے ہیں ۔ اس لئے جو شخص حقیقۃ الوحی کا مطالعہ کرے گا وہ بخوبی سمجھ لے گا کہ ڈیڑھ سو نشانات کی تکمیل کی بجائے دو سو۲۰۸ آ ٹھ نشانات آپ نے اس کتاب میں لکھ کر وعدہ کو پورا فرمادیا ہے اور حقیقۃ الوحی نزول المسیح کا تکملہ کیا بلکہ نأت بخیر منھا کے مطابق بڑھ چڑھ کر معاوضہ ہے۔ اس لئے اب ضرورت نہیں کہ ان نشانات کو لکھ کر اس جگہ ایک سو پچاس پورے کئے جاویں کیونکہ حضرت موعودؑ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کتاب حقیقۃ الوحی میں وہ ضرورت سے بہت کچھ زیادہ موجود ہیں ۔ نظر براں جس قدر کتاب ھٰذا حضرت اقدسؑ کے روبرو طبع ہوئی تھی اسی کو پبلک کے پیش نظر کیا جاتا ہے اور قیمت بہت ہی کم اس خیال سے رکھی گئی ہے کہ ہر مستطیع و غیر مستطیع اس کو خرید کر پڑھ سکے۔ اللہ تعالیٰ پڑھنے والوں کو فہم و فراست اپنی طرف سے عطا فرماوے۔ او رچونکہ مسیحؑ جس کے نزول کا اس میں تذکرہ ہے وہ دنیا سے چلا گیا ہے اور بہت سے علوم و فیوض کے خزانے چھوڑ گیا ہے ۔ پڑھنے والوں کے دلوں کو ان علوم و فیوض کی طرف رغبت بخشے۔ آمین

واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین

المذکّر

کمترین خادمان مسیح موعودؑ مہدی حسین مہتمم کتب خانہ حضرت ممدوح

از قادیان دارالامان

ضلع گورداسپور پنجاب

۲۵؍ اگست ۱۹۰۹ء ؁ ۸؍ شعبان المعظم ۱۳۲۷ ؁ ہجری
 
Top