• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 2 ۔ شحنہء حق ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 2۔ شحنہء حق ۔ یونی کوڈ


Ruhani Khazain Volume 2. Page: 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا
قرآن شریف الجزو پنجم
ترجمہ۔یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومنوں کو ملزم کرنے کے لئے راہ پاسکیں۔
کتاب لاجواب
شحنہءِ حق
جس کا دوسرا نام یہ ہے
آریوں کی کسی قدر خدمت
اور
ان کے ویدوں اور نکتہ چینیوں کی کچھ ماہیت
یہ رسالہ جو تالیفات مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ میں سے ہے اس پُر افترا رسالہ کا جواب ہے جو چند قادیان کے ہندوؤں کی طرف سے بامداد و اعانت لیکھرام پشاوری چشمہ نور امرتسر میں چھپا تھا سو عام فائدہ کے لئے مرزا صاحب موصوف کی طرف سے
مطبع ریاض ہند امرتسر میں باہتمام شیخ نور احمد مالک مطبع طبع ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 324
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 324
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اعلان
چونکہ رسالہ سراج منیر جو پیش گوئیوں پر مشتمل ہوگا چودہ سو روپیہ کی لاگت سے چھپے گا۔ اس لئے چھپنے سے پہلے خریداروں کی درخواستیں آنا ضروری ہے تا بعد میں دقتیں پیدا نہ ہوں۔ قیمت اس رسالہ کی ایک روپیہ علاوہ محصول ہوگی۔ لہذا اطلاع دی جاتی ہے کہ جو صاحب پختہ ارادہ سے سراج منیر کو خریدنا چاہتے ہیں وہ اپنی درخواست معہ پتہ سکونت وغیرہ کے ارسال فرمائیں۔ جب ایک حصہ کافی درخواستوں کا آجائے گا تو فی الفور کتاب کا طبع ہونا شروع ہوجائے گا۔
والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار
غلام احمد از قادیان
عام اطلاع
ناظرین پر واضح رہے کہ ہمارا ہرگز یہ طریق نہیں کہ مناظرات و مجادلات میں یا اپنی تالیفات میں کسی نوع کے سخت الفاظ کو اپنے مخاطب کے لئے پسند رکھیں یا کوئی دل دکھانے والا لفظ اس کے حق میں یا اس کے کسی بزرگ کے حق میں بولیں کیونکہ یہ طریق علاوہ خلاف تہذیب ہونے کے ان لوگوں کے لئے مضر بھی ہے جو مخالفت رائے کی حالت میں فریق ثانی کی کتاب کو دیکھنا چاہتے ہیں وجہ یہ کہ جب کسی کتاب کو دیکھتے ہی دل کو رنج پہنچ جائے تو پھر برہمی طبیعت کی وجہ سے کس کا جی چاہتا ہے کہ ایسی دل آزار کتاب پر نظر بھی ڈالے لیکن ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ ہمیں اس رسالہ میں ایک ایسے یا وہ گوکی تحریر کا جواب لکھنا پڑا جس نے اپنے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 325
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 325
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
افترا سے سوالات ہی ایسے کئے تھے جن کا پورا پورا اور واقعی سچا بھی وہی جواب تھا جو ہم نے لکھا ہے۔ ہر چند ہم نے حتی الوسع رفق اور نرمی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور وہی الفاظ لکھے جو واقعی صحیح اور اپنے محل پر چسپاں ہیں۔ لیکن ہماری کانشنس اور حفظ مراتب کے جوش نے اس بات سے بھی ہم کو منع کیا کہ ہم سفلہ مزاج اور گندی طبیعت کے لوگوں کے لئے وہ آداب استعمال کریں جو ایک شریف اور مہذب جنٹلمین کے لئے واجب ہیں۔ ان آریوں نے ہم سے کس قسم کی تہذیب کا برتاؤ کیا؟ یہ ہم ابھی بیان کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ شریف آریہ ان حرکات بے جا کو بالکل روا نہیں رکھتے ہوں گے جو ہماری نسبت اپنے اقوال پر فحش سے بعض دل چلے آریوں نے اپنے وحشیانہ جوش سے ظاہر کئے ہیں۔ انہوں نے میری نسبت ایسے گندے اشتہار چھاپے ہیں۔ ایسے پردشنام گمنام خط بھیجے ہیں۔ ایسی غائبانہ گندیاں باتیں کہیں ہیں کہ مجھے ہرگز امید نہیں کہ کوئی نیک ذات آریہ اس صلاح اور مشورہ میں داخل ہوگا۔ اور پھر ان نیک بختوں نے اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ بار بار خطوط اور اشتہاروں کے ذریعہ سے مجھے قتل کرنے کی بھی دھمکی دی ہے لیکھرام پشاوری نے جس قدر گندے اور بدبو سے بھرے ہوئے ہماری طرف خط لکھے وہ سب ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور گمنام خطوط جو جان سے مار دینے کے بارے میں کسی پرجوش آریہ کی طرف سے پہنچے گو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کس آریہ کی طرف سے ہیں مگر یہ ہم جانتے ہیں کہ شورہ پشتوں کے گروہ میں سے کوئی ایک ہے۔ ایسا ہی جن اشتہاروں کو یہ لوگ وقتاً فوقتاً جاری کرتے ہیں ان کے پڑنے سے ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا کچھ بھرا ہوا ہے۔ گمنام خط جس قدر آریوں کی طرف سے آتے ہیں وہ اکثر بیرنگ ہوتے ہیںؔ اور علاوہ ایک آنہ محصول ضائع کرنے کے جب اندر سے کھولا جاتا ہے تو نری گالیاں اور نہایت گندی باتیں ہوتی ہیں ایسے خط معلوم ہوتا ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 326
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 326
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کسی لڑکے بدخط سے لکھائے جاتے ہیں عبارت وہی معمولی ان گندہ زبان آریوں کی ہوتی ہے اور خط بچوں کا سا۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم نے ان کا کیا گناہ کیا ہے راستی کو تہذیب اور نرمی سے بیان کرنا ہمارا شیوہ ہے ہاں چونکہ یہ لوگ کسی طور سے ناراستی کو چھوڑنا نہیں چاہتے اس لئے سچ کہنے والے کے جانی دشمن ہوجاتے ہیں سو چونکہ ہمارے نزدیک کلمہ حق سے خاموش رہنے اور جو کچھ خدائے تعالیٰ نے صاف اور روشن علم دیا ہے وہ خلق اللہ کو نہ پہنچانا سب گناہوں سے بدتر گناہ ہے اس لئے ہم ان کی قتل کی دھمکیوں سے تو نہیں ڈرتے اور نہ بجز ارادہ الٰہی قتل کردینا ان کے اختیار میں ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی ظالم آریہ کے اقدام قتل سے ہمارے ہموطن اور ہم شہر آریہ پولیس کی کشاکشی میں پھنس جائیں۔ اس لئے اوّل تو انہیں ہم یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اس سرحدی شخص سے جس کا نام لیکھرام یا لیکھ راج ہے پرہیز رکھیں۔ اس کے ساتھ ان کی درپردہ خط و کتابت اچھی نہیں اس کی تحریریں جو ہمارے نام آئی ہیں سخت خطرناک ہیں اور دوسرے ہم یہ بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ اب ہم اپنے پیارے زادبوم قادیان کو مصلحت مذکورہ بالا کے لحاظ سے چھوڑ دیں اور کسی دور کے شہر میں جاکر مسکن اختیار کریں کیوں کہ جس جگہ میں ہمارا رہنا ہمارے حاسدوں کے لئے دکھ کا موجب ہو ان کا رفع تکلیف کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ بخدا ہم دشمنوں کے دلوں کو بھی تنگ کرنا نہیں چاہتے اور ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہں کہ نہ صرف نبی بلکہ بجز اپنے وطن کے کوئی راستباز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھاتا اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے
وَمَنْ يُّهَاجِرْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِى الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً‌
یعنے جو شخص اطاعت الٰہی میں اپنے وطن کے چھوڑے تو خدائے تعالیٰ کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائے گا جن میں بلا حرج دینی خدمت بجا لاسکے۔ سو اے ہم وطنوں ہم تمہیں عنقریب الوداع کہنے والے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 327
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 327
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Èِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نحمدہٗ ونصلی
آج کل مذہبی تحریکوں کی ایک پرجوش ہوا کے چلنے سے ان کو بھی مناظرہ و مجادلہ کا خیال ہوگیا ہے جن کی کھوپری میں بجز بخارات تعصب و عناد کے اور کسی قسم کی لیاقت نہیں۔ یہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ایک بندہ خدا فضل ایزدی سے قوت پاکر بدمذہبی اور بدعقیدگی کے دور کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا ہے اور تائید ربانی نے اس کی تقریر اس کی تحریر اس کی زبان اس کے بیان میں کچھ ایسی تاثیر و برکت رکھی ہے کہ وہ ایک تیز آگ کی طرح جھوٹ کو بھسم کرتی جاتی ہے تب ان کی جانوں پر لرزہ پڑتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حق کا شعلہ ایسی ترقی پکڑ جائے کہ ہمارے ناپاک اصولوں اور عقیدوں کو جو مذہب کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں بالکل نیست و نابود کردے۔ تب یہ لوگ اول تو یہ سوچتے ہیں کہ کسی طرح گالیوں اور بدزبانیوں سے اس سچے ریفارمر اور مصلح کا مونہہ بند کیا جائے۔ اور جب پھر اس پر کچھ اثر مترتب نہیں ہوتا تو پھر بہتانوں اور بے جا الزاموں سے یہ مطلب نکالنا چاہتے ہیں تا اگر وہ اپنے کام سے باز نہیں آتا تو لوگوں کو ہی اس پر بداعتقاد کریں اور اس طرح اس کی کارروائی میں خلل انداز ہوجائیں پھر اگر یہ تدبیر بھی بے سود جاتی ہے تو آخر اس کی جان پر حملہ کرتے ہیں اور صفحہ تواریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ صدہا صدیق اور راستباز ایسے ہی کور باطنوں کے ہاتھ سے تکالیفِ مذکورہ بالا اٹھا کر آخر کسی نابکار کے ہاتھ سے شہادت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 328
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 328
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کے درجہ کو پہنچے اور جس کے اظہار جلال کے لئے بیڑا اٹھایا تھا آخر اس کی راہ میں جان دے دی۔ پس جس حالت میں قدیم سے جاہلوں کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ جب وہ معقول باتوں سے ملزم اور لاجواب ہوجاتے ہیں تو آخر انہیں یہی تدبیر سوجھتی ہے کہ اس شخص کو ہر قسم کا دکھ اور تکلیف پہنچائیں یا اس کی زندگی کا ہی خاتمہ کردیں۔ اس صورت میں ہمیں حضرات آریوں پر جو ہماری نسبت ایسی ہی کاروائیاں کررہے ہیں*کچھ افسوس نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ہم ہرایک قسم کا دکھ اٹھانے کو ہروقت مستعدؔ ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی وسیلہ سعادت اندوزی کا نہیں۔ کہ گمراہوں کو عذاب الیم سے چھوڑانے کے لئے اپنے نفس کو مصیبتوں میں ڈالا جائے لیکن اگر ہمیں کچھ افسوس یا تعجب ہے تو بس یہی کہ اگر ہم بقول ان کے بالکل ان کے مذہب سے بے خبر
جسؔ شخص نے آریوں کی بدزبانی اور سخت کلامی ہماری نسبت سننی ہو وہ لیکھرام پشاوری کی تحریریں اور تقریریں سنیں اور ۲۷؍ جولائی ۱۸۸۶ ؁ء کا اشتہار جو آریوں کی طرف سے مطبع چشمہ نور امرتسر میں ہماری نسبتؔ چھپا ہے وہ دیکھے اور نیز ایک اشتہار ان کا مسمی بہ بیل نہ کودا کودی گون مطالعہ کرے۔ اور نیز وہ رسالہ آریوں کا جس کا عنوان یہ ہے کہ سرمہ چشم آریہ کی حقیقت اور فن فریب غلام احمد کی کیفیت ضرور اس ہمارے رسالہ کے ساتھ دیکھنے کے لائق ہے۔ اس لیکھرام پشاوری کا ہر جگہ اور ہر جلسہ میں یہی طریق ہورہا ہے کہ گند بکنا اور گالیاں دینا اور بہتان لگانا اس نے اپنی کتاب تکذیب براہین احمدیہ میں بہت سی توہین آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہے اور ایک گندہ نامعقول سے مقدس رسول کی زندگی کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے مگر شکر ہے کہ آریہ درپن کے پرچوں اور اندرمن کے اشتہاروں اور پنڈت شیونرائن صاحب کی پوست کندہ تحریروں نے اس مقابلہ کی حاجت نہیں رہنے دی۔ ۲۷؍جولائی ۱۸۸۶ ؁ء کے اشتہار میں جو آریوں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 329
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 329
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 330
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 330
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 331
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 331
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
طرف سنسکرت پڑھنے کا مادہ نہیں رکھتے۔ سارا مدار لاف و گزاف پر۔ تین بکائن اور لالہ جی باغ میں انصاف سے دیکھنا چاہیئے کہ مسلمان جس پاک اور کامل کتاب پر ایمان لائے ہیں کس قدر اس مقدس کتاب کو انہوں نے اپنے ضبط میں کرلیا ہے عموماً تمام مسلمان ایک حصہ کثیر قرآن شریف کا حفظ رکھتے ہیں جس کو پنج وقت مساجد میں نماز کی حالت میں پڑھتے ہیں۔ ابھی بچہ پانچ یا چھ برس کا ہوا جو قرآن شریف اس کے آگے رکھا گیا۔ لاکھوں آدمی ایسے پاؤ گے جن کو سارا قرآن شریف اول سے آخر تک حفظ ہے اگر ایک حرف بھی کسی جگہ سے پوچھو تو اگلی پچھلی عبارتیں سب پڑھ کر سنادیں۔ اور مردوں پر کیا موقوف ہے ہزاروں عورتیں سارا قرآن شریف حفظ رکھتی ہیں۔ کسی شہر میں جاکر
کہ میں جان کو دوست نہیں رکھتا میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا خدا کے لئے ہے وہی حقدار خدا جس نے ہریک چیز کو پیدا کیا ہے ہاں یہ دھمکیاں ان دلوں پر کارگر ہوسکتی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینا نہیں چاہتے کیونکہ اس کی طرح قدیم اور انادی اور غیر مخلوق بنے بیٹھے ہیں اور اس کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس حق گزاری کے لائق ہو اور جبکہ اس سے انہیں پیار نہیں تو پھر اپنی زندگی سے پیار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس قسم کی ویدوں میں دعائیں ہیں جیسے رگوید اشتک اول میں یہ دعا ہے، اے اگنی تو ایسا کر کہ ہم سو جاڑوں تک زندہ رہیں اور اپنے سارے دشمنوں کو مار ڈالیں۔ اور ان کا مال لوٹ لیں مگر جو لوگ پاک تعلیم کے اثر سے غیروں سے قطع تعلق کرکے احکام الٰہی کے خادم ہوجاتے ہیں ان میں اس فانی زندگی کی نسبت خود ہی سرد مہری پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم اس جگہ تک تحریر کرچکے تھے کہ پرچہ دھرم جیون ۶؍ مارچ ۸۷ء پہنچا اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوا کہ آریوں کی طرف سے ایک اعلان پنڈت شو نارائن صاحب کے قتل کے لئے بھی جاری کیا گیا ہے۔ اس سزائے موت کے لئے ان کے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 332
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 332
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مساجد و مدارس اسلامیہ میں دیکھو صدہا لڑکوں اور لڑکیوں کو پاؤ گے کہ قرآن شریف آگے رکھے ہیں اور باترجمہ پڑھ رہے ہیں یا حفظ کررہے ہیں اب سچ سچ کہو کہ اس کے مقابل پرویدؔ کا کیا حال ہے اور خود ایماناً اپنے ہی کانشنس سے پوچھ کر دیکھو کہ وید کی حالت کو اس سے کیا نسبت ہے تو اس سے ہی تم سمجھ سکتے ہو کہ کس کتاب کے شامل حال نصرت الٰہی ہے اور کونسی کتاب اپنی تعلیموں میں شہرت تام پاچکی ہے یوں تو متعصبوں کا تعصب خدا ہی مٹاوے تو مٹ سکتا ہے لیکن غور کرنے والی طبیعتیں سمجھ سکتی ہیں کہ آج کل آریوں کی کارروائی وید کی نسبت چوروں کی طرح ہورہی ہے نہ ویدوں کے ترجمے اردو انگریزی میں آپ شائع کریں اور نہ شائع شدہ کو منظور رکھیں۔ بھلا میں پوچھتا ہوں کہ مثلاً اگر وہ ترجمہ رگ وید جو دہلی سوسائٹی نے چھاپا ہے اور لاکھوں آدمیوں میں مشہور ہوچکا ہے صحیح نہیں ہے اور موجب فتنہ ہے تو
تین قصور ہیں اول یہ کہ بڑی تحقیق اور دعویٰ سے انہوں نے پرچہ دھرم جیون میں کئی دفعہ یہ مضمون شائع کیا ہے کہ وید ان کم فہم لوگوں کے خیالات ہیں کہ جو حقیقت میں آگ و سورج و پانی وغیرہ کو اپنا پرمیشر سمجھتے تھے اور ان کی عقل بھی اسی قدر تھی۔ دوسرے یہ جرم کہ انہوں نے اپنے اسی پرچہ میں یہ بھی شائع کردیا کہ ویدوں میں لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کے اولاد نہ ہو تو وہ ایک دوسرے شخص سے کہ جو دراصل اس کا خاوند نہیں ہے اولاد حاصل کرنے کے لئے صحبت کرسکتی ہے۔ اس عمل کا نام ویدوں میں نیوگ ہے اور لائق پنڈت دیانند جی اس عملؔ کے جاری رکھنے کے لئے ستیارتھ پرکاش میں آریوں کو بہت تاکید کرتے ہیں کہ اس طور پر ان کی عورتیں ضرور اولاد حاصل کرتی رہیں بے اولاد نہ رہیں۔ تیسرے یہ قصور کہ انہوں نے اپنے پرچہ دھرم جیون میں بحوالہ پرچہ آریہ درپن وغیرہ اور خود اپنی تحقیق کے رو سے بیان کیا کہ دیانند جی ہندوؤں کے اوتاروں کو ُ برا کہتے ہیں باوا نانک صاحب کا نام فریبی اور مکار اور ٹھگ رکھتے ہیں۔ مگر خود ان کی ذاتی کرتوتیں ایسی ہیں کہ ان کی تمام زندگی میں دنیا طلبی ہی ان کا اصول رہا جس سے کیا فریب ہی کیا یاں تک کہ ماں اور باپ سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 333
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 333
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کیا اس فتنہ کے فرو کرنے کی غرض سے آریوںؔ کے لائق ممبروں پر واجب نہیں ہے کہ وہ بھی ایک تحت اللفظ ترجمہ اسی رگوید کا اردو زبان میں شائع کردیں تا فیصلہ کرنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ اس پہلے ترجمہ میں کون سی خیانتیں اور تحریفیں ہوئی ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ آریہ لوگ ہرگز ایسا ترجمہ تحت اللفظ اردو میں شائع نہیں کریں گے کیونکہ درحقیقت یہی لوگ پکے خائن اور چور ہیں اور اپنے دلوں میں خوب سمجھتے ہیں کہ جس دن ہم نے اپنے ہاتھ سے عام طور پر اردو میں ویدوں کے تحت اللفظ ترجمے شائع کردیئے اس دن ہمارے ویدوں کی خیر نہیں اور ایسے اڑجائیں گے جیسے آگ لگ جانے سے سارا باروت خانہ اڑ جاتا ہے اسی وجہ سے ان کو یہ بھی حوصلہ نہ پڑا کہ ستیارتھ پرکاش کا ہی اردو میں ترجمہ کردیں چنانچہ ۶؍ مارچ ۱۸۸۷ ؁ء کے دھرم جیون میں لکھا ہے کہ بعض سادہ لوح آریوں
بھی فریب جن کے نطفہ سے وجود لیا تھا عقل کے بھی ایسے موٹے کہ ایک بات پر کبھی قائم نہ رہے کبھی چار پستکوں کا نام وید رکھا اور کبھی اسی زبان سے بائیس یا چوبیس وید بنا ڈالے کبھی ان کے پرمیشر کو دنیا کی ہی خبر نہیں کہ کتنی ہے اور کبھی ایسا زود رنج کہ مکتی دے کر اور بڑے بڑے مقدس رشی بنا کر پھر ان کی تمام عزت خاک میں ملاتا ہے اور کیڑے مکوڑے بناتا ہے۔ غرض دھرم جیون اور پرچہ برادر ہند میں ایسے ایسے بہت سے حملے مگر سچے دیانند پر کئے گئے تھے جس کی پاداش میں آج پنڈت شونارائن بھی سزائے موت کے مستحق ٹھہرے غضب کی بات ہے کہ کوئی آریہ یہ خیال نہیں کرتا کہ جن قصوروں کا دیانند آپ ہی معترف ہے یا جو نالائق باتیں جیسے عمل نیوگ خود آپ ہی اس نے ستیارتھ پرکاش میں لکھ کر اور ویدوں کے حوالے دیکر آریوں کی پاک دامن عورتوں کو دوسروں کے ساتھ خراب کرنا چاہا ہے ان باتوں میں پنڈت شونارائن کا کیا قصور ہے یہ تو وید کا قصور ہے جس میں ایسی ایسی پاک تعلمیں بھی موجود ہیں اور یا دیانند کا قصور جس نے نادانی سے ایسے نازک مسائل ستیارتھ پرکاش میں درج کردیئے اور ویدوں کے مقدس ہونے کا نقارہ بجا کر نمونہ دکھلا دیا۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 334
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 334
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نے ترجمہ کے لئے اصرار بھی کیا مگر لائق ممبروں کی طرف سے جواب ملا کہ مصلحت نہیں ہاں پنڈت شو نارائن صاحب اگنی ہوتری نے عہد کیا ہے کہ اس متبرک کتاب کا ہم ترجمہ کریں گے۔ افسوس کہ آریوں میں ایسے آدمی بہت ہی تھوڑے ہیں جو اپنی گانٹھ کی عقل رکھتے ہوں لاکھوں آدمیوں کی شہادت چھوڑ کر ایک دیانند پر مرے جاتے ہیں۔ اب ہم اس قصہ کو مختصر کرکے ایک نئی کتاب کے ماہ بماہ نکلنے کی بشارت دیں گے اور اسی کے ضمن میں آریوں کےؔ اس رسالہ کا رد لکھا جائے گا جس کا نام انہوں نے سرمہ چشم آریہ کی حقیقت رکھا ہے۔ ہر چند ایسے لغویات کے لئے اپنے بیش قیمت اور عزیز وقت کو کھونا شاید بعضوں کی نظر میں لاحاصل معلوم ہوگا مگر ہم نے صرف چار یا پانچ گھنٹے اپنے پیارے وقت کے اس مختصر رسالہ کے لکھنے میں صرف کئے ہیں اور وہ بھی اس لئے کہ تا بے خبر ہندو زادے اور سادہ لوح مُغ بچے ہماری خاموشی کو اس بات پر حمل نہ کرلیں کہ ان کا پر عفونت رسالہ کچھ حیثیت رکھتا ہے اور چونکہ ہمارے اس رسالہ میں ان کی بے جا نکتہ چینیوں پر تنبیہ کا تازیانہ جڑنا اور الزام اور ملامت کا ہنڑتاڑ تاڑ مارنا قرین مصلحت سمجھا گیا ہے اس لئے اس رسالہ کا نام بھی شحنہ حق رکھا گیا۔ کیونکہ یہ رسالہ آریوں کے آوارہ طبع لوگوں کے سیدھا کرنے لئے شحنہ کا حکم رکھتا ہے۔ اور ظریفانہ طور پر اس رسالہ کا ایک اور نام بھی رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے:۔
آریوں کی کسی قدر خدمت
اور
ان کے ویدوں اور نکتہ چینیوں کی کچھ ماہیت
فَالْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا ھُوَمَوْلَانَا وَ نَاصِرُنَا فِیْ کُلِّ مَوْطِن وَلَا مَوْلٰی لِلْکَافِرِیْنَ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 335
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 335
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چو شیر شرزۂ قرآن نماید رو بغریدن
دگر آنجا نماند روبہ ناچیز را غوغا
اشتہار
رسالۂ ماہواری
قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ
جو جون ۱۸۸۷ ؁ء کی بیسویں تاریخ سے ماہ بماہ نکلا کرے گا۔
جب تک میں نے آریہ صاحبوں کا وہ رسالہ نہیں دیکھا تھا جس کا نام ہے۔
سرمہ چشم آریہ کی حقیقت اور فن اور فریب غلام احمد کی کیفیت۔ تب تک مجھے اس طرف ذرہ بھی توجہ نہیں تھی کہ میں کوئی ماہوؔ اری رسالہ قرآنی علوم اور صداقتوں کا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 336
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 336
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اس غرض سے نکالوں کہ تا اگر کوئی آریہ ویدوں کو کچھ حقیقت سمجھتا ہو تو قرآنی صداقتوں سے اس کا مقابلہ کرکے دکھلاوے۔ مگر سبحان اللہ کیا حکمت و قدرت الٰہی ہے کہ اس نے بعض بداندیشوں کو اس خیر محض کا سبب بنا دیا تا دنیا کو قرآنی شعاعوں سے منور کرے اور شپر طینتوں پر ان کی کور باطنی ظاہر کرے سو جس رسالہ کا نام میں نے عنوان میں لکھ دیا ہے یعنی قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ یہ وہی مومنین کا دوست صادق ہے جس کے قدوم میمنت لزوم کا اصل موجب دشمن ہی ہوئے ورنہ خدائے کریم علیم ہے کہ اس سے پہلے میں جانتا بھی نہیں تھا کہ ایسے رسالہ ماہواری کے نکالنے کی خدمت بھی مجھ سے ظہور میں آئے گی۔ اب تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب ارادہ الٰہی اس بات کی طرف متعلق ہوا کہ کوئی ایسا رسالہ ماہواری نکالا جائے کہ جو قرآنی طاقتوں اور صداقتوں کو ہریک مہینہ میں دکھلا کر ویدوں سے بھی ایسے ہی علوم و معارف کا مطالبہ کرے اور اس طور سے ویدوں کی ذاتی لیاقت کی کیفیت ہریک پر بخوبی کھول دے اور قرآن شریف کی عظمت اور وقعت ہریک منصف پر ظاہر کرے تو اس حکیم مطلق نے مصلحت عام کے لئے یہ تقریب قائم کی بعض آریہ صاحبوں نے ایک اشتہار بصورت رسالہ بماہ فروری ۱۸۸۷ ؁ء چشمہ نور امرتسر میں چھپوایا اور اس میں بڑے زور سے انہیں امور کے لئے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں تحریک کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس اشتہار کا راقم یا مہتمم صرف پنڈت لیکھرام پشاوری ہی نہیں ہے بلکہ اصل بانی مبانی اس کے آریہ صاحبوں کے کئی شریف اور فرشتہ خو اور راست گو اسی قصبہ قادیان کے رہنے والے ہیں جن میں ایک کیسوں والا آریہ بھی ہے اور اصل املا ان کی اس رسالہ کا آرین تہذیب کے موافق ایک اور شیرین زبان پاکیزہ بیان آریہ نے درست کیا ہے جو شاید نابھہ کی ریاست میں نوکر ہے بہرحال یہ رسالہ آریوں کا ان لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے بغرض مقابلہ وید و قرآن ایک ایسے رسالہ کی تالیف کے لئے ہم سے درخواست کی ہے جو قرآنی علوم اور حقائق کو بیان کرنے والا ہو اور درخواست بھی ا ن شستہ اور پرتہذیب الفاظ سے جس کا ہریک
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 337
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 337
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
لفظ ان کی شرافت ذاتی اور طہارت باطنی اور حق گوئی پر دلالت کررہا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ اول تو مرزا کو اس کام کا ارادہ ہی وہم و خیال ہے کیونکہ وہ ہندوؤں کے ساتھ بحث مباحثہ کا نام لینے کے بھی لائق نہیں کتب مذہبی سے بے بہرہ محض ہے حتی کہ حرف شناسی سے بھی محروم مطلق ہے پھرؔ اگر شرمے شرمائے اس کام کو شروع کرے گا تو آخر نیچا دیکھے گا۔ صرف آیات قرآنی سے اپنا مدعا ثابت کرکے دکھلاوے ورنہ ہم خوب بنائیں گے۔ قرآن سے ہرگز کوئی بات علم کی برآمد نہیں ہوگی اور جہلاء عرب کو علم سے کام ہی کیا تھا۔ * اور تمام جہان میں جو علم ظاہر ہوا وہ وید اقدس کی بدولت ہے۔ مرزا کو ہم علانیہ متنبہ کرتے ہیں کہ بے شک وہ رسالہ موعودہ تیار کرے اگر کرے گا تو نیچا دیکھے گا۔ ہم خوب بنائیں گے ہم مرزا سے کوئی شرط نہیں کرتے کیونکہ اسکا مال حرام ہمارے کس کام ہے وہ دغا و فریب سے جمع کیا گیا ہے اور مرزا چاروں طرف سے قرضدار ہے اور کوڑی کوڑی سے لاچار اور جائداد بھی سب فروخت ہوگئی۔ مرزا کے دل پر جہالت کا پردہ ہے اور نیز وہ بڑا مفلس ہے زمین بھی بک گئی دیکھو قرضداری اور ناداری کے ثبوت میں اسکے دو خط ہیں جو کسی ہندو کے نام لکھے تھے کھیوٹ بندوبست کے حصہ کشی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی فقط ساٹھ گھماؤں زمین ہے بڑا فریبی ہے قرآن قرآن لئے پھرتا ہے قرآن سے تو یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ خدا جسم و جسمانی نہیں مرزا تو کیا چیز کوئی محمدی عالم بھی ثابت نہیں کرسکتا جس
یہ لفظ اس نے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت استعمال کیا ہے اور ایسی بے ادبی کے الفاظ اور بھی بہت سے ہیں جو ہم نے لکھنے چھوڑ دیئے ہیں۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 338
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 338
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/338/mode/1up
قرآن کا یہ حال ہے تو پھر اس میں علم کیا ہو فقط۔ یہ پاکیزہ الفاظ ہیں جن میں سے ہم نے کچھ کم درجہ کے سنگین لفظ چھانٹ کر خلاصہ کے طور پر اس جگہ درج کئے ہیں لیکن ہم اس بچوں کی سی سمجھ اور سادہ لوحی پر جو بہت سے غصہ اور اشتعال کے ساتھ ملا کر ظاہر کی گئی ہے ہنسیں یا روویں حقیقت میں ہندو لوگ دنیا کے کمانے میں گو کیسے ہی چتر اور ہوشیار ہوں مگر دین کے بارے میں بہت ہی ابلہ اور بے مغز ہیں اور اس کے ساتھ خیانت کی بھی وہی عادت چلی آتی ہے جیسے لون مرچ کے بیچنے اور تولنے میں بچپن سے رکھتے ہیں۔ ناحق نادانی اور بے سمجھی کی راہ سے آپ ہی ایک بات کہہ کر دانشمندوں پر ثابت کرادیتے ہیں کہ کس قدر دماغ ان کا علمی روشنی سے بھرا ہوا ہے اور کس قدر معلومات ان کے وسیع ہیں واہ واہ کیا خوب سمجھ ہے اسی سمجھ پر تو یہ ٹھٹھا کرانے والا اعتراض پیش کردیا کہ قرآن خدائے تعالیٰ کو جسم اور جسمانی قرار دیتا ہے اور اس میں کوئی آیت تنزیہ کی نہیں۔ کاش ان حضرات نے قرآن شریف کا ایک ورق ہی کسی سے پڑھ لیا ہوتا پھر اعتراض کیلئے پیش قدمی کرتے۔ بھلا جوؔ شخص ایک حرف بھی قرآن شریف کا صحیح طور پر نہیں پڑھ سکتا اور نہ کسی اسلامی کتاب میں کوئی ایسا اقرار اس نے دیکھا ہے جس پر اعتراض جم سکے تو کیا ایسے شخص کو یہ منصب پہنچتا ہے جو یونہی اعتراض کیلئے دس گز کی زبان نکالے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ رسالہ قرآنی طاقتوں کے جلوہ گاہ میں پہلے اسی بحث کو چھیڑیں گے کہ خدائے تعالیٰ کی پاک اور کامل صفتیں اور اس کی خدائی کی خاصیتیں اور قدرتیں (جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جسم اور جسمانی ہونے سے منزہ ہے) کس کتاب میں صحیح اور کامل طور پر پائی جاتی ہیں آیا وید میں یا قرآن میں۔ اور پھر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 339
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 339
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/339/mode/1up
بحوالۂ آیات بینات قرآنی ثبوت پیش کرکے لالہ صاحب کے وید سے بھی ایسے ہی ثبوت کا مطالبہ ہوگا تب معلوم نہیں کہ مصرجی کس سوراخ میں چھپتے پھریں گے۔ کوئی پڑھے تو اسے معلوم ہو کہ قرآن شریف ربانی صفات کے بیان کرنے میں اور انہیں جسم اور جسمانی چیزوں سے ممیز اور ممتاز ٹھہرانے میں ایسا بے مثل و مانند ہے کہ یہ روشن بیان کسی دوسری کتاب میں ہرگز پایا جاتا ہی نہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ کلام الٰہی کا پڑھنا اور سمجھنا ہریک ُ بز اخفش کا کام نہیں کچھ تو تمیز چاہیئے۔ نرا کھڑ پنچ بن کر رائے دینے والا نہ بن بیٹھے۔ بھلا ہم تم سے ہی انصاف چاہتے ہیں کہ جو شخص ایک مواج دریا کی نسبت یہ رائے ظاہر کرے کہ اس میں ایک قطرہ پانی کا بھی نہیں ایسے شخص کا کیا نام رکھنا چاہئے اندھا یا سوجا کھا۔ افسوس کہ آریہ لوگ رگوید کی ان شرتیوں کو نہیں پڑھتے جن میں اِندر کو خدا بنا کر پھر سوم کا عرق اس کے حلق میں ڈالا گیا ہے اور اگنی کو پرمیشر قرار دے کر دھوئیں کی جھنڈی اس کے سر پر رکھی گئی ہے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ رگوید سنتھا اشتک اول میں اندر پرمیشر کو کوسیکارشی کا پوتر بھی بنادیا گیا ہے جس کے گھر اِندر نے آپ ہی جنم لے لیا تھا اور پھر اتنے پر بھی کفایت نہیں بلکہ اسی اشتک میں پرمیشر کے پرمیشر پن کا یاں تک ستیاناس کیا گیا ہے کہ اس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ وہ جوان بھی ہوتا ہے اور بوڑھا بھی اور سوم کا رس پیتے پیتے سمندر کی مانند اس کا پیٹ ہوجاتا ہے اور اگنی پرمیشر کی نسبت لکھا ہے کہ دو لکڑیوں کے رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے والدین بھی ہیں غرض کہاں تک ہم اپنے کاغذات کو سیاہ کریں جن لوگوں کا پرمیشر اس قدر جسم اور جسمانی صفات میں بلکہ آفات
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 340
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 340
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/340/mode/1up
میں ڈوبا ہوا ہو وہ قرآن شریف پر اعتراض کریں۔ کیا یہ افسوس کا مقام ہے یا نہیں۔ ہمیں ان کی سخت کلامی کا تو کچھ بھی رنج نہیں اور نہ کرنا چاہیئے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی پر دس 3روپیہ کی ڈگری بھی کسیؔ عدالت سے ہوجاتی ہے تو وہ اپنی بد باطنی سے اپنے گھر تک اس حاکم کو برا بھلا کہتا چلا آتا ہے پس جبکہ ادنیٰ خلاف طبع بات پر جاہلوں کے جوش کا یہ حال ہے تو پھر ہم جو ان کی بدمذہبی کی بیخ کنی کررہے ہیں ہم کو اگر برا نہ کہیں تو اور کس کو کہیں اور نیز جبکہ انہوں نے اپنے مشہور بزرگوں راجہ رام چندر صاحب اور را جہ سری کرشن صاحب کو جو سرآمد بزرگان ہنود ہیں۔ جن کی شہرت کے آگے وید کے رشیوں کا کچھ بھی وجود اور نمود نہیں علانیہ برا بلکہ آریہ گزٹ ۱۸۸۶ ؁ء میں جس کا ثبوت ہم رکھتے ہیں کتنے بیتوں میں گندی گالیاں دیں۔ اور ایسا ہی دیانند نے اپنی ستیارتھ پرکاش میں صفحہ ۳۵۶ میں باوا نانک صاحب کا نام فریبی اور مکار رکھا۔* تو پھر ایسے لوگوں پر ہمیں کچھ بھی افسوس نہیں کرنا چاہیئے۔ وجہ یہ کہ جب کہ یہ لوگ جن میں سے بعض نے بڑے بڑے کیس بھی سر پر رکھ چھوڑے ہیں اور کشن سنگھ اور بشن سنگھ و نرائن سنگھ نام رکھ لیا ہے خود اپنے گورو کو ہی یہ انعام دیتے ہیں تو پھر دوسری جگہوں میں یہ کب چوکنے والی آسامی ہیں۔ جنہوں نے چیلا ہوکر اپنے پرانے پیشواؤں کو یہ خلعت دی کہ وہ ٹھگ اور فریبی ہیں تو وہ دوسروں سے کس صاف باطنی سے پیش آئیں گے اور جبکہ اپنے مرشد کی ہی پگڑی اتارنے لگے تو غیروں
اس بے ادبی کا ذکر پرچہ دھرم جیون ۶؍ مارچ ۱۸۸۷ ؁ء میں بھی موجود ہے کہ ستیارتھ پرکاش میں بڑے لائق دیانند جی نے باوا نانک صاحب کو مکار کہا ہے۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 341
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 341
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/341/mode/1up
کی عزت کا انہیں کیا پاس ہوگا۔ ان کے حق میں یہ شعر کیا ہی خوب صادق آتا ہے۔ بادوستاں چہ کردی کہ کنی بدیگراں ہم حقا کہ واجب آمد زِتو احتراز کردن
سو ہمیں ان لوگوں کی توہین کی باتوں پر تو کچھ خیال نہیں اور نہ کچھ افسوس لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب کوئی نادان ہوکر دانائی کا دعویٰ کرے اور جاہل ہوکر عالم ہونے کا دم مارے اور دروغگو ہوکر راست گو بن بیٹھے اور چور ہوکر الٹا کوتوال کو ڈانٹے تو ایسا شخص ہریک کو برا معلوم ہوتا ہے، اور علیٰ ہذاا لقیاس ہم کو بھی۔ رہی یہ بات کہ ان کی عقل عجیب کے نزدیک قرآن شریف علم الٰہی سے خالی اور وید علوم و معارف سے بھرا ہوا ہے تو اس کا فیصلہ تو خود مقابلہ و موازنہ سے ہوجائے گا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ ہم خود منتظر تھے کہ ایسا فیصلہ جلد تر ہوجائے۔ سو آریہ صاحبوں نے اس کیلئے آپ ہی سلسلہ جنبانی کی۔ پسؔ ہم ان کی اس تحریک اور سلسلہ جنبانی کو بہ تمام تر شکر گزاری قبول کرتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں کہ انشاء اللہ ہم بفضل و توفیق ایزدی جون ۱۸۸۷ ؁ء کے مہینے سے برطبق درخواست ان کے ایسا رسالہ ماہواری شائع کرنا شروع کردیں گے۔ لیکن ساتھ ہی ہم بادب عرض کرتے ہیں کہ جب وہ رسالہ یعنی قرآنی طاقتوں کا جلوہ گاہ شائع ہونا شروع ہو تو پھر لالہ صاحبان مقابلہ سے کہیں بھاگ نہ جائیں اور اپنے وید کی حمایت کرنے کو تیار رہیں۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ آج کل ہمارے ہم وطن آریوں کو جس قدر ویدوں کی نسبت جوش و خروش ہے وہ دراصل ایک ہی شخص کی لاف زنی کی بنا پر ہے کہ جو اس دنیا سے گزر بھی گیا ورنہ ان کی نسبت تو یہی مثال ٹھیک ہے کہ دیکھا نہ بھالا صدقے گئی خالا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 342
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 342
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/342/mode/1up
لیکن تاہم عام لوگوں پر ثابت کر دکھانا ہمارا فرض ہے کہ وید صرف اس زمانہ کے موٹے اور پست خیالات ہیں کہ جب آریوں میں ہنوز مخلوق اور خالق میں تمیز کرنے کا مادہ پیدا نہیں ہوا تھا اور عناصر اور اجرام سماوی کو خدائے تعالیٰ کی جگہ دی گئی تھی۔ چنانچہ رگوید کے شاعروں کے وہ سب پرجوش شعر جن میں اندرواگنی وغیرہ سے بہت سی گوئیں اور گھوڑے اور لوٹ کا مال مانگا گیا اس بیان پر شاہد ہیں برخلاف اس کے قرآن شریف ایسا علوم و معارف و کمالات ظاہری و باطنی پر حاوی ہے کہ صریح حد بشریت سے بڑھا ہوا ہے اور بہ بداہت معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اس نے حقائق و دقائق کو ایک بے مثل بلاغت و فصاحت میں بیان کیا ہے اور پھر بالتزام ایسے بلیغ و فصیح بیان کے تمام دینی صداقتوں پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہوگیا ہے حقیقت میں یہ ایسا کام ہے جس کو معجزہ کہنا چاہئے کیونکہ یہ انسانی طاقتوں سے ماورا اور بشری قوتوں سے بالاتر ہے۔ بالآخر ہم یہ بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ آریہ صاحبوں کے نوجوان صاحبزادوں نے جس قدر ہمارے اور ہمارے دوستوں کے سوشیل امور اور اسلامی فضائل و قرآنی حقائق میں اپنی عادت کے موافق بے اصل اور بیہودہ نکتہ چینیاں کی ہیں ان کا الگ الگ جواب برعایت اختصار ذیل میں دیا جائے سو وہ یہ ہے۔
قولہ۔ مرزا ہماری کتب مذہب سے محض بے بہرہ ہے۔
اقول ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہی حال ہے تو ایسے بے بہرہ محض کے آگے کیوں تم ایک دم کے لئے بھی نہیں ٹھہرسکتے اور اس چڑیا کی طرح جو باز سے ڈر کر چوہے کے سوراخ میں گھس جاتی ہے کیوںؔ اِدھر اُدھر چھپتے اور بھاگتے پھرتے ہو اس کی کیا وجہ ہے۔ کیا سرمہ چشم آریہ نے آپ کے مذہب کا کچھ باقی بھی چھوڑا؟ کیا ٹھیک ٹھیک گت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 343
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 343
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/343/mode/1up
بنانے میں کچھ کسر بھی رکھی؟ پس اس سے سمجھ لو کہ اگر ہم آپ کے گھر کے بھیدی نہیں تھے تو پھر کیونکر ہم نے وید کے چھپے ہوئے عیبوں کو کھول کر رکھ دیا اور اگر ہم پورے پورے بھیدی نہیں ہیں تو کیونکر ہم نے کئی جزیں ویدوں کی براہین احمدیہ میں نقل کردیں اور کیونکر سرمہ چشم آریہ میں وہ کاری زخم آپ لوگوں کو پہنچا دیا جس کا ابھی تک کچھ جواب بن نہ آیا۔ اب چھ مہینے کے بعد جواب نکلا تو یہ نکلا جس میں بجز بدزبانی اور افترا بیانی کے اور خاک بھی نہیں۔ انتظار کرتے کرتے ہم تھک بھی گئے کہ کونسا لطیف اور مغزدار جواب آتا ہے۔ آخر آپ کے مرتبان میں سے صرف ایک مکھی نکلی کیا جواب دینا اور رد لکھنا اسی کو کہتے ہیں۔ بھلا کوئی منصف ہندو ہی آپ لوگوں کے رسالہ کو پڑھ کر دیکھے اور پھر حلفاًبیان کرے کہ ہمارے رسالہ سرمہ چشم آریہ کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اس خس و خاشاک سے زوال پذیر ہوا ہے اور اگر کہو کہ تمہیں سنسکرت کی زبان کی واقفیت نہیں تو میں کہتا ہوں کہ جس حالت میں دیانندی وید بازاروں میں چار چار آنہ کو خراب ہوتے پھرتے ہیں اور آپ کا وید اردو میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے اور ایسا ہی انگریزی میں بھی چھپ گیا اور خود دیانند نے بھی جابجا وید کے عقائد اور اصول کو کھول کر سنادیا بلکہ ایک کافی حصہ وید بھاش کا عام فہم عبارت اُردو بھاشا میں چھپ بھی گیا ایسا ہی کئی دوسرے رسالے بھی آریہ مت کے عقائد کے بارے میں صاف صاف طور پر قلمبند ہوکر اردو زبان میں شائع ہوگئے اور زبانی لکچروں میں بھی ان کے لائق ممبروں نے ہریک جگہ اپنے اصولوں اور عقیدوں کی اشاعت کی تو کیا اب بھی ہماری واقفیت میں کچھ کسر رہ گئی اور کیا ابھی تک ہم یہی خیال کیا کریں کہ ویدوں کے اصول اور عقائد کی گٹھری کسی برہمن کی اندھیری کوٹھری میں بہت سی خاک کے نیچے دبی پڑی ہے جس تک کسی ڈھب
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 344
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 344
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/344/mode/1up
اور کسی تدبیر سے ہماری دسترس ممکن ہی نہیں۔ کیا تمہیں دیانند کی کتابوں اور ان کے زبانی لکچروں اور ان کے تحریری مباحثہ پر بھی اعتبار نہیں۔ کیا وہ لوگ بالکل جھوٹے ہی ہیں جنہوں نے صدہا روپیہ سرکار انگریزی سے ویدوں کا اردو انگریزی ترجمہ کرنے میں پایا ہے۔ پھر جب واقفیت حاصل کرنے کے لئے اس قدر سامان اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں اور وید اور ویدوں کے بھاش اور دیانندی ستیارتھ پرکاش وغیرہ کتابیں ہماری المارؔ یوں میں رکھی پڑی ہیں۔ اور زبانی مناظرات میں بھی ہماری عمر گذر گئی ہے تو کیا اب تک ہم آپ لوگوں کے گھر سے ناواقف ہیں۔ پھر جب اس قدر ہمارے وسیع معلومات ہیں تو ایک سنسکرت اگر نہیں تو نہیں سہی اور خود باوجود اس درجہ کے وسعت معلومات کے جو سالہا سال کا ذخیرہ ہے اس کاگ بھاشا کی ضرورت ہی کیا ہے۔
قولہ۔ مرزا کوڑی کوڑی سے لاچار اور قرضدار ہے۔
اقول۔ اس جگہ ہمیں حیرت ہے کہ لالہ صاحبوں کو ہمارے قرض کی کیوں فکر پڑگئی۔ اگر وہ سرمہ چشم آریہ کا رد لکھ کر دکھلاتے اور پھر منشی جیون داس صاحب اس رد کی صحت و کمالیت پر قسم کھانے کو تیار ہوجاتے۔ تب اگر ہم اس جلسۂ قسم میں حسب وعدہ خود پانسو 3روپیہ نقد پیش کرنے سے عاجز رہ جاتے تو ایسے اعتراضوں کا محل بھی ہوتا۔ مگر اب تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری حیثیت خانگی کے بارے میں اس راقم دزدمنش کو جس نے ہمارے مقابل پر کبھی اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا کیوں اتنے تفکرات پیدا ہوگئے یہاں تک کہ بندوبست کے کھیوٹ میں ہماری زمین تلاش کرتا پھرتا ہے اور اپنی بدقسمتی سے اس تلاش میں بھی غلطی پر غلطی کھاتا ہے اور سراسر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 345
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 345
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/345/mode/1up
خلاف واقعہ بیان کرتا ہے سو ہمیں بڑی حیرت ہے کہ اس قدر دھڑکا اس کے دل کو کیوں پیدا ہوگیا اور اس حرکت بے جا کا باعث کیا ہے۔ ہمارے اس ملک میں جو ایک قوم ہندو جٹ ہیں جن میں سے بعض سر پر کیس بھی رکھا کرتے ہیں میں نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ اکثر ان کی یہ عادت ہے کہ جب وہ اپنی دختر کا ناطہ کسی جگہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے چپکے چپکے اس گاؤں میں چلے جاتے ہیں جس جگہ اپنی دختر کی نسبت کرنا ان کا ارادہ ہوتا ہے تب اس گاؤں میں پہنچ کر نہایت تحقیق و تفتیش کی غرض سے پٹواری کی کھیوٹ اور گرداوری اور روزنامہ سے اور نیز دوسرے طریقوں سے بھی دریافت کرلیتے ہیں کہ اس شخص کی زمین کتنی ہے اور سال تمام کی آمدنی کس قدر ہے اور شریکوں میں اس کا کیا حصہ ہے تب اس تمام جانچ اور پڑتال کے بعد اپنی دختر یعنی لڑکی اس کو دے دیتے ہیں لیکن اس جگہ تو ان امور میں سے کوئی بات بھی نہیں تھی۔ ہاں اگر کوئی ہمارے الہامی اشتہارات کے مقابل پر آتا تو اس کا حق تھا کہ پہلے اپنی تسلی کرلیتا بلکہ بینک میں روپیہ جمع کرانے کے لئے ہمیں مجبور کرتا پھر اگر ہم روپیہ جمع نہ کراسکتے تو جو چاہتا ہم پر الزام لگاتا لیکن ہمارے مقابلہ کے لئے تو کسی نے اس طرف رخؔ بھی نہ کیا اور ایسے بھاگے کہ جیسے سکھ انگریزوں سے شکست کھا کر دریا میں ڈوب ڈوب کر مرے تھے۔ تو کیا اب بیہودہ باتیں بنانا حیا اور شرم کا کام ہے کیا ہم نے منشی اندرمن مراد آبادی کے لئے چوبیس 3سو روپیہ نہیں بھیجا تھا۔ جس سے لالہ صاحب روپوش ہوکر اب تک نظر نہ آئے کہ کہاں ہیں۔
قولہ ۔ جان محمد امام مسجد قادیان کو مرزا نے کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ تم اپنے لڑکے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 346
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 346
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/346/mode/1up
کی قبر کھودو یعنے اب وہ مرے گا حالانکہ وہ نہیں مرا۔
اقول ۔ اس افترا کا جواب یہی کافی ہے کہ *** اللّٰہ علی الکاذبین۔ اور اگر اور بھی کچھ ثبوت چاہو تو یہاں جان محمد صاحب کی دستخطی تحریر حاشیہ میں موجود ہے۔* اس کو ذرا آنکھ کھول کر پڑھ لو اور دروغ بے فروغ کی ندامتوں کا کچھ مزہ اٹھاؤ اور اگر کچھ شرم حیا ہے تو قادیان میں ایک جلسہ کرکے اس ہندو کو ہمارے سامنے کرو جس نے یہ بے بنیاد قصہ لکھ کر بھیجا ہے کیونکہ اس قدر افترا محض کا تصفیہ بالمواجہ خوب ہوجائے گا۔ اور ہم اسی جلسہ عام میں اس ہندو کو کوئی ایسی قسم دیں گے جو اس پر مؤثر ہوسکے اور اس طرح پر جو جھوٹا ہو اس کی قلعی کھل جائے گی۔ لیکن صرف بیہودہ تحریروں سے اس مفتری ہندو کا نام لینا کافی نہ ہوگا کیونکہ یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ اس جگہ کے ہندوؤں پر جو تحریروں کے ذریعہ سے الزام لگایا جاتا ہے پیچھے سے وہ کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہیں چنانچہ نظیر میں وہ اشتہار کافی ہے جس میں لکھا تھا کہ گویا لالہ شرم پت کہتا ہے کہ میں مرزا کے دعویٰ الہامات کو سراسر مکر و فریب سمجھتا ہوں اور میں ان کے کسی الہام اور پیشگوئی
یہؔ بہتان کہ گویا مرزا صاحب نے یہ کہا کہ درحقیقت تمہارے لڑکے کے لئے مجھے الہام ہوا کہ تم اس کی قبر کھودو سراسر افترا ہے جس کی کچھ بھی اصلیت نہیں اور میں جانتا ہوں کہ یہ ان نااہل لوگوں کی گھڑت ہے کہ جو نہ خدا کی *** اور نہ خلقت کی *** سے ڈرتے ہیں۔ کیا خوب ہو کہ ایک جلسہ ہوکر ایسا شخص میرے روبرو کیا جائے تا میں بھی اس کو بٹھا کر پوچھ لوں کہ اے بھلے مانس کب تیرے روبرو مرزا صاحب نے ایسا الہام مجھ کو سنایا تھا۔
العبد خاکسار جان محمد امام مسجد قادیان
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 347
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 347
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/347/mode/1up
کا گواہ نہیں ہوں حالانکہ ہمارے پوچھنے پر لالہ شرم پت اس تحریر کے شائع کرنے اور ایسے اشتہار کے لکھنے سے سراسر انکاری ہے اور قسم کھا کر کہتا ہے کہ مجھے اس کی اطلاع بھی نہیں بلکہ اس سے پہلے کئی دفعہ ہمارے روبرو اپنی مستعدی ظاہر کرچکا ہے کہ ان الہامی پیش گوئیوں کو جن کا وہ گواہ ہے عام طور پر شائع کرے اور ایک دفعہ لیکھ رام پشاوری قادیاں میں آکر بہت کچھ اس کو بہکاتا رہا کہ شہادت الہاماؔ ت سے انکار کرنا چاہیئے مگر وہ دروغ صریح سے نفرت کرکے اس کے پیچ میں نہ آیا۔ اور اب بھی اگر جلسۂ عام میں قسم دے کر اس کو پوچھا جائے تو صفائی سے وہ بیان کرسکتا ہے کہ دیانند کے مرنے کی خبر کئی دن پیش ازموت اسے بتلائی گئی تھی اور خاص لالہ شرم پت کے ایک بھائی پر جو ایک پیچدار اور ُ پرخطر مقدمہ چیف کورٹ میں دائر تھا اس کا انجام بھی پیش گوئی کے طور پر اس پر ظاہر کیا گیا تھا۔ ایسا ہی دلیپ سنگھ کو دو صورتوں میں سے ایک صورت یعنے موت یا بے عزتی اور ناکامی از سفرپنجاب اس کو اس وقت کھول کر سنا دی گئی تھی کہ جب اس مصیبت کا نام و نشان موجود نہ تھا اور ایسی ہی اور بہت قبل از وقوع باتیں اس پر ظاہر کی گئی تھیں جن باتوں کا تو وہ بڑی مضبوطی سے گواہ ہے مگر تصدیق اس کی جلسہ عام میں قسم کے ساتھ ہونی چاہیئے نہ یوں ہی متعصبانہ تحریروں کی روبہ بازی سے ماسوا اس کے رسالہ سراج منیر بھی جو پیشگوئیوں پر مشتمل ہے اب بہت جلد نکل کر دروغ گوؤں کا منہ کالا کرنے والا ہے۔
قولہ ۔ ہم نے اپنے اشتہار میں ثابت کردیا ہے کہ مرزا کے اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء میں پیشگوئی پسر موعود کا حمل موجودہ پر حصر رکھا گیا ہے جس میں سے آخر لڑکی پیدا ہوئی۔
اقول۔ وہ اشتہار جس میں ہماری طرف سے الہامی یا تشریح کے طور پر اس
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 348
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 348
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/348/mode/1up
حصر کے لفظ موجود ہیں جو اسی حمل میں وہ لڑکا پیدا ہوگا اُس سے ہرگز ہرگز تخلف نہیں کرے گا ضرور اس میں پیدا ہوجائے گا وہی اشتہار ایک جلسہ منعقد کرکے بحاضری چند مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں کے پیش کردینا چاہیئے تا دروغگو کی سیاہ روئی سب پر کھل جائے لیکن اگر اشتہار کے پیش ہونے کے بعد اشتہار کی عبارت سے یہی بات بہ بداہت ثابت ہوتی ہو کہ شاید وہ لڑکا اب ہو یا بعد میں ہو تو پھر ایسے بے شرم دروغگو کے لئے کہ جو برخلاف ہماری تشریح مندرجہ اشتہار کے ناحق بار بار خلق اللہ کو دھوکا دے صرف *** اللہ علیہ کہنا کافی نہیں۔ بلکہ اس کو کسی قدر سزا دینا بھی ضروری ہے تا پھر آئندہ اپنی بے حیائی دکھلانے کے لئے جرأت نہ کرے۔
قولہ۔ ایک ڈوم ٹکڑہ خوری گمنام نے مرزا کی تعریف میں دو ورق کا اشتہار بعنوان رسالہ سرمہ چشم آریہ سیاہ کیا ہے محض دنیاوی طمع میں اندھا ہورہا ہے۔ اس کوتاہ اندیش نامعقول پر کیا بلاپڑی کہ مفت میں جھوٹ بول رہا ہے۔
اقوؔ ل۔ یہ پاک سیرت راقم رسالہ جو شاید اپنے گمان میں اپنے تئیں کسی راجہ کا بیٹا سمجھتا ہوگا۔ ہم اس کو ہرگز ڈوم یا ڈوم کی ذریت نہیں کہیں گے۔ خدا جانے یہ کون ہے اور کس کا ہے مگر یہ یاد رہے کہ یہ شخص اپنے ان گندے الفاظ سے جو کسی قدر ابھی ہم نے لکھے ہیں اور کسی قدر خلاف تہذیب اور سخت مکروہ دیکھ کر چھوڑ دیئے ہیں ایک نہایت عالی خاندان سید صاحب کی نسبت جو بڑے شریف اور ایک شہر کے معزز اور نامور رئیس ہیں ازالہ حیثیت عرفی کا مرتکب ہورہا ہے اور خدائے تعالیٰ کا خوف اسے کاہے کو ہوگا۔ مگر دفعہ ۵۰۰ تعزیرات ہند اور کئی ایسے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 349
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 349
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/349/mode/1up
جرائم سے جن میں اس قسم کے یا وہ لوگ اکثر پھنس جایا کرتے ہیں اسے اندیشہ کرنا چاہیئے۔ ہرچند ہم نے سید صاحب ممدوح کی خدمت میں بانکسار عرض کردیا ہے کہ آپ ایسے نااہلوں کی دل آزار باتوں کو دل میں جگہ نہ دیں اور صبر و شکیب کو کام فرمائیں جیسا کہ طیبین طاہرین آل رسول کریم قدیم سے کرتے چلے آئے ہیں اور یہی سید صاحب کی ذات ستودہ صفات پر امید بھی ہے کیونکہ وہ نہایت شریف اور مہذب اور علوم و فنون سے آراستہ اور بوجہ کامل لیاقت انگریزی دانی کے انگریزی دفتروں کے معزز عہدوں پر بھی سرفراز رہ چکے ہیں اور اشتعالی حالت تو گویا فطرتی طور پر ان کی طبیعت سے مسلوب ہے مگر پھر بھی چونکہ ایک مگس طینت کے قلم کا بخار کبھی کبھی اچھے اچھے قوم کے شریفوں کو بھی ساتھ کھینچ لیا کرتا ہے اسلئے ہم بکمال ادب بخدمت شریف منشی جیونداس صاحب اور دوسرے معزز آریہ صاحبوں کی محض خیر خواہی کے طور سے عرض پرداز ہیں کہ ایسے خوش لہجہ آریہ کو اس بدزبانی کی دھن سے روک دیں کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں اور گو ہماری ذات کی نسبت کوئی شخص برا کہے یا بھلا ‘افترا پردازیاں کرے یا جعلسازیاں اسے اختیار ہے کیونکہ ہم مجازی حکومتوں کی طرف رجوع کرنا نہیں چاہتے اور اپنا اور اپنے بدگو کا فیصلہ احکم الحاکمین پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن ان نوخیزوں کو جو اپنی ہریک تحریر میں آریوں کی نئی تہذیب کا چاند چڑھارہے ہیں دوسرے رئیسوں اور شریفوں اور معزز مسلمانوں کی ہتک اور توہین سے پرخطر رہنا چاہیئے تا کسی پیچ میں آکر بڑے گھر کی ہوا نہ کھانی پڑے کیا بحث اسی بات کا نام ہے کہ گند بولیں اور فحش تولیں غرض ہریک منہ بگڑے اور بے راہ کیلئے قانونی تدارک موجود ہے آئندہ اختیار بدست مختار۔
قوؔ لہ۔ سرمہ چشم آریہ میں نہ ہماری کسی کتاب کا حوالہ ہے نہ فصل وباب کا پتہ ہے۔
اقول۔ کتنا جھوٹ ہے۔ جس شخص کی دروغ گوئی اس حدکو پہنچ جائے تو اسے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 350
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 350
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/350/mode/1up
کوئی کیا کہے۔ بھلا جس حالت میں جابجا فریق مخالف کے انکار پر اس کی مسلم الثبوت کتابوں کا فصل و صفحہ تک پتہ بتلا دیا گیا تو کیا ابھی ہم نے کتاب کا حوالہ نہ دیا۔ دیکھو صفحہ (۷۳) سرمہ چشم آریہ۔ ہاں جن باتوں کو لالہ مرلی دھر صاحب اس بالموا جہ بحث میں آپ ہی مانتے گئے۔ ان کا حوالہ دینا داب مناظرہ کے خلاف اور ناحق کا طول تھا اگر وہ انکار کرتے تو حوالہ بھی سن لیتے۔ مگر تاہم اجمالی طور پر ہر جگہ کہا گیا کہ یہ تمہارے عقائد و اصول ہیں۔ چنانچہ جابجا لالہ صاحب موصوف ان الزامات کا اقرار کرتے گئے اور کچھ بھی چوں چرا نہ کیا۔ دیکھو صفحہ ۱۱۴۔ ۱۷۹۔ ۱۹۴۔ ۲۰۴۔ ۲۰۶ سرمہ چشم آریہ۔ ماسوا اس کے یہ بات یاد رہے کہ ہم نے جس قدر آریوں پر رسالہ سرمہ چشم آریہ میں اعتراضات کئے ہیں ان سب کو ہم نے ان کے لائق گرو دیانند کی ستیارتھ پرکاش سے اخذ کیا ہے تم ذرا منہ سے تو یہ بات نکال کر دیکھو کہ ہم آریوں کے وہ عقائد نہیں ہیں پھر دیکھنا کہ کیسی خبر لی جاتی ہے غضب کی ہٹ دھرمی ہے کہ جن عقائد اور اصولوں کو آپ ہی ہرکوچہ و بازار میں مشہور کرچکے ہیں اب ان سے اِدھر اُدھر بھاگنا چاہتے ہیں مگر پھنسی ہوئی چڑیا اب بھاگے کہاں۔ اب تو دیانند کی جان کو رونا چاہئے جو تمہیں پھنسا کر آپ الگ ہوگیا اور وید کا آخری نچوڑ یہ چھوڑ گیا کہ جیسے پرمیشر خود بخود ویسا ہی دنیا کا ذرّہ ذرّہ خودبخود۔
قولہ۔ تمام جہان میں جو علم و ہنر ظاہر ہورہا ہے سب وید اقدس کی بدولت ہے۔
اقول۔ ویدوں کے علوم و فنون کی حقیقت تو بہت سی کھل گئی اور کھلتی جاتی ہے۔ بھلا جن ویدوں نے اس رنگا رنگ کی مخلوقات کے وجود میں اپنی فلاسفی یہ بتلائی کہ یہ سب چیزیں اور سب روحیں یہاں تک کہ ذرہ ذرہ عالم کا اپنے وجود کا آپ ہی ربّ ہے کوئی ان کا موجد و پیدا کنندہ و حقیقی سہارا نہیں ضرور ان میں اور علوم و فنون بھی ہوں گے ایسے لائق ویدوں کا وجود کب بے ہنر و علم رہ سکتا ہے اگرچہ ویدوں کی عجیب حکمت پر خود ذاتی طور پر ہمیں بہت سی اطلاع ہے لیکن آریوں کے لائق پنڈت دیانند نے جو ستیارتھ پرکاش میں ویدک فلاسفی کا کچھ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 351
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 351
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/351/mode/1up
بیان کیا ہے اسی سے ناظرین بطور نمونہ سمجھ سکتے ہیں کہ آریوں کا وید مقدس کس عالی مرتبہ کی ؔ کتاب ہے۔
چنانچہ منجملہ ان کے ایک مسئلہ دائمی وجوب تناسخ کو ہی دیکھو جس میں ویدک فلاسفی کے رو سے ہمیشہ روحوں کا اسی دنیا میں پھر پھر آنا اور بڑے بڑے عارف گیانی۔ رکھی اور دیوتے بننے کے بعد بھی ہمیشہ کتے بلے کیڑے مکوڑے بنتے رہنا واجب و لازم *ہے اس بدبختی کا اصل موجب یہ ہے کہ روحیں معدود اور پرمیشر پیدا کرنے سے عاجز بالکل ناطاقت بلکہ کچھ بھی نہیں پھر اگر وہی مکتی یافتہ بار بار انسان کتّا بلّا نہ بنتے رہیں تو دنیا کیونکر قائم رہے مگر اس اصل دلیل کو چھپا کر ایک جھوٹی دلیل وید کی طرف سے پیش کی گئی ہے کہ مکتی خانہ میں ہمیشہ رہنے کے لئے انسانوں کے عمل وفا نہیں کرسکتے اور پرمیشر اتنا ہی دے سکتا ہے جتنا کہ ان کا حق ہے کم و بیش نہیں بہت خوب۔
لیکن یہ تقریر اس صورت میں کچھ چسپاں ہوسکتی ہے کہ جب مکتی (نجات) کو ایک ایسی شے سمجھا جائے کہ جو نون مرچ کی طرح بکتی ہے۔ اور
یوں تو آریہ لوگ کہتے ہیں کہ تناسخ ضرور سچ ہے اور ایسا ہمیشہ کے لئے واجب الوقوع ہے کہ مکتی کے بعد بھی اس سے پیچھا نہیں چھوٹتا لیکن بوجہ نادانی انہیں خیال نہیں کہ دائمی تناسخ کے ماننے سے تمام مقدسوں اور برگزیدوں کی ایسی بے ادبی ہوتی ہے کہ ہر ایک کے لئے قبول کرنا پڑتا ہے کہ وہ بے شمار مرتبہ نجات پانے کے بعد بھی کیڑے مکوڑے بن چکے ہیں اور ابھی آئندہ بنتے رہنے کا کچھ انتہا نہیں۔ کیونکہ اگر یہ سب حیوانات کتے بلے گدھے سور وغیرہ بے شمار مراتب مکتی کو پاچکے ہیں تو اس بات کے نہ ماننے کی کوئی و جہ نہیں کہ کسی زمانہ میں یہی حیوانات وید کے رشی یا اوتار وغیرہ بھی ہوں گے تو اس صورت میں تو آریوں کو قائل ہوجانا چاہیئے کہ ممکن ہے کہ درحقیقت یہ سب ان کے بزرگ ہی ہوں یا بعض ان میں سے تو ضرور ہی ہوں۔ واضح رہے کہ ہم ایسے خیال کو نہایت خبیث اور دوراز ادب سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی پر ایسا خوش ہوکر کہ اس کو مکتی دے کر پھر کسی وقت اس کوکتا بلا سور وغیرہ بنادے اس لئے ہم آریوں کو محض نصیحت سے کہتے ہیں کہؔ اگر تم دوسرے پاک نبیوں کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہو مگر اے بھلے مانسو تم اپنے وید کے رشیوں کی ایسی بے ادبی سے تو باز آؤ۔ اگر حوالہ کے شائق ہو تو دیکھو لائق پنڈت دیانند کی ستیارتھ پرکاش اور اواگون کی بحث۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 352
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 352
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/352/mode/1up
پرمیشر کو ایک بنیا قرار دیا جائے جو اُس جنس کو داموں کے موافق بیچتا ہے یا یہ خیال کیا جائے کہ پرمیشر کا مکتی خانہ کرایہ پر چلتا ہے۔ جتنے دنوں کا کرایہ دیا اتنے دن رہے اور پھر نکالے گئے۔ اب ہم آریوں کے بڑے دستار بندوں سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا مکتی کی حقیقت میں یہی فلاسفی ہے جس کو آپ کا وید مقدس سکھا رہا ہے کیا وید کا یہی علم وہنر ہے جس پر ناز کیا جاتا ہے سب دانشمند جانتے ہیں کہ نجات کی جڑھ اور اس کا اصل نور جس سے یہ روشنی پیدا ہوتی ہے یہی ہے کہ ماسوا اللہ سے انقطاع کلی ہوکر خدا تعالیٰ سے ایسا سچا تعلق پیدا ہوجائے کہ وہ محبت اور عشق کے غلبہ سے ہریک چیز پر بلکہ اپنی جان پر بھی مقدم ہوجائے اور آرام اور انس اور شوق اور دل کی خوشی اُسی سے اور اُسی کے ساتھ ہو اور جیسا کہ وہ حقیقت میں واحد لاشریک ہے ؔ ایسا ہی پیار کی نظر سے بھی اپنی عظمت اور جلال اور ساری کامل صفتوں میں واحد لاشریک ہی نظر آوے یہ نور نجات ہے جو اسی دنیا سے محب صادق کے ساتھ جاتا ہے اور اس کے وجود میں جان کی طرح داخل ہو کر ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے سو جب کہ شخص نجات یافتہ ہمیشہ کے لئے یہ علت موجبہ نجات اپنے ساتھ رکھتا ہے تو پھر یہ وید کی کس قسم کی عقلمندی ہے کہ باوجود موجودیت علت تامہ کے یعنے نور نجات کے معلول تخلف یعنے نجات کا اس سے روا رکھتا ہے کیا کوئی آریہ اپنے ویدوں کی اس عجیب فلاسفی کو ہمیں سمجھا سکتا ہے۔
اور پھر ثبوت تناسخ پر دلیل بھی کیا ہی عمدہ ستیارتھ پرکاش میں لکھی گئی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 353
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 353
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/353/mode/1up
کہ جب بالک پیدا ہوتا ہے تو اسی وقت اپنی ماں کا دودھ پینے لگتا ہے۔ سبب یہ کہ اس کو پہلے جنم کا خیال بنا رہتا ہے پس اس سے ثابت ہوگیا کہ تناسخ سچ ہے۔ تعجب کہ ایسے تیز عقل پنڈت نے کیوں حیض کے خون کو بھی جو پیٹ کے اندر بچہ کی خوراک بنتا ہے اسی پہلے جنم کی یادداشت پر دلیل نہ ٹھہرائی تا بجائے ایک کے دو دلیل مل جاتیں۔
افسوس یہ لوگ تناسخ کے جال میں پھنس کر اور جونوں کے خیال محال میں مبتلا ہوکر ایسے اس میں مدہوش ہوئے کہ پھر کسی چیز نامعلوم الاسباب کا سچا سبب تلاش کرنے کے عادی ہی نہ رہے اور ویدوں کی گمراہ کنندہ تعلیموں نے ہزاروں عمدہ اور دلربا فلسفی نکتوں سے ان کا منہ پھیر کر بار بار آواگون کے ہی گڑھے میں ڈالا اور سارے عالم کے تعلیم خانہ میں سے صرف یہی ایک غلط حرف ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ دنیا کا وجود اور زمین و آسمان کا نمود فقط انسانی عملوں کی شامت سے ہے نہ کسی صانع کی حکمت کاملہ سے اگر بدکاریاں اور بدعملیاں نہ ہوں تو پھر گائے بیل وغیرہ انسانی ضرورت کی چیزیں بھی نہ ہوں بلکہ خود انسان میں سے عورت کی قسم بھی نہ ہو سو اسی وجہ سے یہ لوگ حکیمانہ اور باقاعدہ تحقیقاتوں سے ہمیشہ انحراف اختیار کرکے بلکہ اس مذاق سے بالکل خالی اور بے بہرہ اور سادہ لوح رہ کر اپنی زندگی کے قابل تفتیش راز اور دوسرے تمام مخلوقات کے ؔ بے انتہا اسرار کو یوں ہی گزشتہ جنم کی شامت اعمال یا نکوئی افعال پر حمل کرکے پھر آئندہ اس میں کچھ جستجو ہی نہیں کرتے اور اس طرح پر ایک جھوٹے اور بے اصل خیال کو مضبوط پکڑنے سے نہایت سچی اور صحیح صداقتوں کے قبول کرنے سے محروم اور بے نصیب رہ جاتے ہیں ہر چند اس عالم کا ہرایک جوہر اور عرض ہزارہا باریک حکمتوں اور لطیف بھیدوں اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 354
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 354
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/354/mode/1up
حقیقتوں سے ُ پر ہے اور جو کچھ صانع نے جس جس جگہ رکھا ہے نہایت ہی موزوں اور جواہرات حکمت و معقولیت سے بھرا ہوا ہے مگر ان کور باطنوں کی نظر میں یہ سب کچھ صرف گزشتہ جنموں کے نتائج کا ایک گڑبڑ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں اور پرمیشر ایسا لاحاصل اور بے کار اور ایک فضول اور بے نفع وجود ہے کہ نہ تو کبھی رحم اور فضل اور کرم اس سے ظہور میں آیا اور نہ کبھی اس کو اپنی حکمت و قدرت دکھلانے کا موقع ملا اور نہ کبھی اس نے اپنے وجود میں طاقت پائی کہ اپنی خدائی کے نشان ظاہر کرے۔ عقل تو پکار پکار کر کہتی ہے کہ یہ سب چیزیں خدائے تعالیٰ کے ملنے کا ہمارے لئے راہ بتانے والیں اور اس کے احسانات کا ایک رشتہ قائم کرنے والی ہیں مگر ان کا وید کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں یہ سب کچھ اتفاقی ہے جو گزشتہ جنموں کی شامت سے ظہور پذیر ہورہا ہے ورنہ ایک قطرہ پانی کا بھی جس میں صدہا کیڑے ہیں پرمیشر کی طرف سے عطا نہیں ہوا بلکہ خود ان کیڑوں کی کسی پہلے زمانہ کی اپنی ہی بداعمالی پانی کے وجود اور ہماری آب نوشی کا باعث ہوگئی ہے۔ اب جن کے پرمیشر کا یہ حال ہے کہ ایک قطرہ پانی پر بھی اختیار نہیں کہ خودبخود پیدا کرسکے تو کیا ایسے ضعیف اور ناتواں کا نام پرمیشر رکھنا جائے عارہے یا نہیں اور ایسا بدنصیب پرمیشر کس تعریف اور شکر گزاری یا کس مدح و ثنا کے لائق ہوگا۔ جس کی ملکیت ایک بوند پانی بھی نہیں۔ ہائے افسوس ان لوگوں نے الٰہی قدرتوں اور حکمتوں اور صنعتوں کو اواگون اور وید کی محبت میں پھنس کر کیسا خاک میں ملا دیا ہے۔ صرف ایک تناسخ کے بیہودہ خیال سے ہزارہا صداقتوں کا خون کرتے جاتے ہیں اور فلسفی اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 355
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 355
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/355/mode/1up
طبعی تحقیقاتوں کی طرز پر کسی چیز یا عارضہ کا حقیقی سبب ہرگز تلاش نہیں کرتے۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ کسی امر مجہول کی واقعی حقیقت دریافت کرنے کے لئے بڑی وسیع تحقیقات کی جاتی ہے۔ اور ایک جزئی کی خاطر تمام جزئیات پر نظر ڈالنی پڑتی ہے اور محققانہ نگاہ ؔ سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ خاص جزئی جس کا کوئی حال یا عارضہ متنازعہ فیہ قرار دیا گیا ہے۔ کیا اس کی یہ خاصیت جس میں نزاع کی گئی ہے اسی کی ذات تک محدود ہے یا ایک عام بات ہے جو دوسری کئی جزئیات میں یا جمیع جزئیات میں پائی جاتی ہے۔ پھر اگر کھوج لگاتے لگاتے اس حد تک پہنچ جائیں جو اس جزئی کا اس حال یا عارضہ متنازعہ فیہ میں دوسری جزئیات سے ممتاز ہونا ثابت ہوجائے یا دوسری جزئیات اس کے شریک نکل آئیں یعنی جیسی کہ صورت ہو اس پر عمل کیا جاتا ہے اور ناحق ایک عام کو خاص یا خاص کو عام نہیں بنایا جاتا۔ لیکن اس فلسفیانہ طرز سے دیانندی پالسی الگ ہی ہے۔ خیال کرنا چاہیئے کہ اس بندہ خدا نے تناسخ کے بارے میں کیا ُ شستہ ثبوت دیا ہے جس کے پیش کرنے کے وقت نہ تو یہ سوچا کہ یہ جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ ضرور نوزاد بچہ اپنی ما ں کے پستان کی طرف ہی جاتا ہے نہ کسی اور طرف۔ یہ دعویٰ دراصل صحیح ہے یا غلط اور نہ یہ خیال کیا کہ جیسے میرا دعویٰ عام ہے دلیل جو پیش کرتا ہوں وہ بھی عام ہے یا نہیں خیر اگر اس نے نہ سوچا اور نہ سمجھا تو اب ہم ہی دیانندی منطق کا نمونہ ظاہر کرنے کے لئے اس کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ سو واضح ہو کہ یہ دعویٰ کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسی وقت اپنی ماں کا دودھ پینے لگتا ہے یہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 356
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 356
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/356/mode/1up
دراصل دعویٰ ہی فاسد ہے کیونکہ مشاہدہ کے رو سے فقط اتنا مسلم ہے کہ بچہ بہ سبب زندہ اور جاندار ہونے کے غذا کا طالب ہوتا ہے لیکن یہ ہرگز نہیں مانا جاسکتا کہ خواہ نخواہ ماں کے پستان ہی کی طرف دوڑے بلکہ بہ بداہت ثابت ہے کہ اس وقت وہ ایک سادہ نفس ہوتا ہے اور جس عادت پروہ لگا دیا جائے اسی پر لگ جاتا ہے اور اسی کو پختہ طور پر پکڑ لیتا ہے مثلاً اگر بچہ کوپیدا ہونے کے بعد بتی سے یا نلی سے دودھ پلانا شروع کردیں تو فی الفور اسی طرح سے پینا شروع کردیتا ہے پھر ممکن نہیں کہ بآسانی ماں کے پستان کی طرف رخ بھی کرے مگر شاید بڑی مشقت اور مصیبت کے بعد پہلی عادت کو چھوڑے اور دوسری عادت کو پکڑے۔ یہ تو سچ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد غذا کی طرف بچہ کی خواہش جنبش کرتی ہے مگر وہ خواہش فقط درد اشتہا سے پیدا ہوتی ہے نہ کسی اور سبب سے اور تجارب روزمرہ صاف اور صریح شہادت دیتے ہیں کہ انسان یا حیوان یا کسی پرند یا کسی کیڑے مکوڑے کا پیدا ہونے کے بعد اپنی غذا کی طرف توجہ کرنا حقیقت میں ایک میل طبعی ہے جو حکیم مطلق نے اپنی ؔ حکمت کاملہ کی وجہ سے ہر ایک جاندار میں بلکہ نباتات و جمادات کی فطرت میں بھی رکھی ہوئی ہے تا وہ بالطبع اپنی اُس غذا کے طالب ہوں جو ان کے مناسب حال ہے۔ اسی وجہ سے ہریک چیز اپنے اپنے طور پر جو اس کے وجود کی بناوٹ میں مقرر کیا گیا ہے تحصیل غذا کے لئے میل کرتی ہے اور جیسے ایک بچہ انسان یا حیوان کا غذا کو حاصل کرنا چاہتا ہے ایسا ہی درختوں اور بوٹیوں کی جڑھیں بھی تخمی حالت سے آگے قدم رکھتی ہیں اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 357
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 357
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/357/mode/1up
قوت نامیہ کا پردہ تو وہ پاتی ہیں اپنی غذا کو جو پانی ہے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیتی ہیں اور وہ جڑھیں اپنی قوت جاذبہ سے دور دور سے پانی کھینچ لاتی ہیں۔ غرض حکمت کاملہ الٰہیہ سے ہریک چیز میں تحصیل غذا کے لئے پہلے ہی سے ایک قوت رکھی جاتی ہے خواہ وہ چیز پتھر ہو یا درخت یا انسان یا حیوان درحقیقت یہ سب ایک ہی قوت کی تحریکوں سے حصول غذا کے لئے متوجہ کی جاتی ہیں اور اس بات کے جواب میں کہ کیوں یہ چاروں قسم کی چیزیں غذا کی طالب ہیں کوئی ُ جدا ُ جدا بیان نہیں تا کسی جگہ پہلے جنم کی یادداشت اور اس کا خیال بنا رہنا سمجھا جائے اور کسی جگہ کوئی اور وجہ بتلائی جائے بلکہ درحقیقت ان چاروں چیزوں کا تحصیل غذا کے لئے میل کرنا ایک ہی باعث سے ہے یعنی فطرتی قوت جو وجود پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس میں پیدا ہوجاتی ہے اور اسی کی طرف اس پاک اور مقدس کلام میں اشارہ ہے جو فلسفی صداقتوں سے بھرا ہوا ہے جیسا کہ وہ جل شانہٗ فرماتا ہے
اَعْطٰـى كُلَّ شَىْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى‏
یعنے تمہارا وہ خدا ہے جس نے ہریک چیز کو مناسب حال اس کے وجود بخشا پھر غذا وغیرہ کی طلب کے لئے جس پر اس کی بقا موقوف ہے اس کے دل میں آپ خواہش ڈالی۔ سو یہی صداقت حقہ ہے جس کو ایک قاعدہ کلی کے طور پر اللہ جل شانہٗ نے اپنی کتاب عزیز میں بیان فرما دیا ہے۔ نادانوں اور جاہلوں کی نظر محیط نہیں ہوتی اس لئے وہ فقط ایک جزئی کو دیکھ کر اپنی غرض فاسد کے مطابق اس کے لئے ایک جھوٹا منصوبہ گھڑ لیتے ہیں اور دوسرے جزئیات کو جو اسی کے شریک ہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی ہی دیانندی فلاسفی ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 358
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 358
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/358/mode/1up
جو آنکھیں بند کرکے وید کی خاطر گھڑی گئی ہے۔ بھلا کوئی سوچے کہ پہلے جنم کی یادداشت کہاں ہے اور کس دلیل سے سمجھی گئی کیا یہ سچ نہیں کہ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے اور روزمرہ کے تجارب اس پر شاہد ہیں کہ جن بچوں کو پیدا ہونے کے بعد بکری کے پستان پر لگایا جائے پھر وہ کسی عورت کےؔ پستان سے دودھ پینا نہیں چاہتے اور جن کو مثلاً انگریزی شیشی پر لگایا جائے ان کے لئے ماں کا یا بکری کا دودھ پینا ایسا مشکل کہ گویا موت ہے ہزار حیلہ کرو اس طرف رخ بھی نہیں کرتے۔ اب اگر دیانندی مسئلہ سچا ہوتا تو چاہیئے تھا کہ کوئی لڑکا بجز ماں کے پستان کے اور کسی طور سے دودھ نہ پیتا۔ سو نوزاد بچوں کی یہ مذکورہ بالا عادت ابطال تناسخ پر دلیل ہے نہ کہ ثبوت تناسخ پر کوئی دلیل اس سے پیدا ہوسکے۔ اب دعویٰ کی خوبی کا تو بیان ہوچکا۔ دیانندی دلیل کی بھی کیفیت سنیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماں کا دودھ پینا یہ پہلے جنم کا خیال ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر ویدوں کی یہ دلیل سچی ہوتی تو پھر اصول تناسخ کا یہ چاہیئے تھا کہ ہریک جاندار کا بچہ اپنے پہلے جنم میں بھی اسی نوع میں سے ہوتا ہے جس میں اب پیدا ہوا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا بچہ پیدا ہونے کے بعد دودھ کا محتاج ہوتا ہے اور مرغ کا بچہ پیدائش کے بعد دانہ مانگتا ہے جونک کا بچہ مٹی کھاتا ہے اور شہد کی مکھی کا بچہ شہد سے خوراک پاتا ہے سو اگر یہ میل طبعی نہیں ہے بلکہ بقول دیانند پہلے جنم کا خیال بنا ہوا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ انسان کا بچہ اپنے پہلے جنم میں ضرور انسان ہی ہو کچھ اور نہ ہو۔ ایسا ہی یہ بھی واجب ٹھہرتا ہے کہ مرغ کا بچہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 359
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 359
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/359/mode/1up
بھی اپنے پہلے جنم میں ضرور مرغ ہی ہو اور جونک کا بچہ اپنے پہلے جنم میں جونک ہی ہو نہ اور کچھ اور مکھی کا بچہ اپنے پہلے جنم میں مکھی ہی ہو نہ کچھ اور کیونکہ یہ سب مختلف قسم کے جاندار پیدا ہونے کے بعد اسی طور اور اسی قسم کی غذا کو طلب کرتے ہیں جو ان کی نوع کے لئے مقرر ہے۔ اب دیکھا ویدک فلاسفی کی کیسی قلعی کھل گئی اب ہم اگر ایسی فلاسفی کو دور سے سلام نہ کریں تو اور کیا کریں کیوں لالہ صاحب؟ یہ وہی ویدوں کے علوم ہیں جن سے تمام دنیا فیض یاب ہوئی ہے۔ روح کا شبنم کی طرح زمین پر گرنا اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر کسی گھاس پات پر پھیلنا اور پھر وہی بچہ پیدا ہونے کا موجب ہونا جیسا کہ رسالہ سرمہ چشم آریہ کے صفحہ ۷۳ میں اور صفحہ ۲۶۳ ستیارتھ پرکاش میں مفصل درج ہے یہ ویدوں کے ذریعہ سے ہی علوم و فنون حاصل ہوئے ہیں عجیب تر یہ کہ ایسی بوٹیوں کو شوہردار عورتیں ہی کھاتی ہیں کبھی باکرہ اور عقیمہ عورتیں یا مرد نہیں کھالیتے تا ان سب کو حمل ٹھہر جائے ایسی گھاس پات کو دیانند بھی کھا لیتا تو ایک تماشا ہوتا اور ویدوں کےُ گن خوب ظاہر ہوتے قربان جائیں ایسے ویدوں پر بھلا کس حکیم یا فیلسوف کی بلا کو بھی خبر تھی کہ روح بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر سبز کھیتوں پر پڑا کرتی ہے اور پھر وہ سب ٹکڑے کوئی عورت کھا جاتی ہے اس سے حمل ہوتا ہے مردوں کو ایسی ؔ روحانی غذا سے کچھ حصہ نہیں یوں ہی بلا دلیل بچوں کو اپنے باپوں سے اخلاق وغیرہ میں روحانی مشابہت ہوتی ہے اس سے بڑھ کر ویدوں کے جامع العلوم ہونے پر اور کیا دلیل ہو۔ گو تم رکھی جو ویدوں کو سراسر دوراز صداقت اور طفلانہ خیالات سمجھتا تھا کیا یہ حکمت کی باتیں اس کو نہ ملیں تا وہ بھی ان پر فدا ہوجاتا۔ دیکھو بدھ شاستر (ادھیا ۲ سوترا) دیانند کو بھی مچھلی کی طرح پتھر چاٹ کر اخیر پر یہ کہنا پڑا کہ اب میرا ایمان ویدوں پر نہیں رہا۔ دیکھو پرچہ دھرم جیون ۱۸۸۶ ؁ء
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 360
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 360
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/360/mode/1up
اس وقت مجھے ایک اور پنڈت صاحب بھی یاد آگئے جن کا نام کھڑک سنگھ ہے یہ صاحب ویدوں کی حمایت میں بحث کرنے کے لئے قادیان میں آئے اور قادیان کے آریوں نے بہت شور مچایا کہ ہمارا پنڈت ایسا عالم فاضل ہے کہ چاروں وید اسے کنٹھ ہیں۔ پھر جب بحث شروع ہوئی تو پنڈت صاحب کا ایسا برا حال ہوا کہ ناگفتہ بہ اور سب تعریفیں وید کی بھول گئے دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام تو قبول نہ کیا مگر قادیان سے جاتے ہی وید کو سلام کرکے اصطباغ لے لیا اور اپنے لیکچر میں جو ریاض ہند اور چشمہ نور امرتسر میں انہوں نے چھپوایا ہے صاف صاف یہ عبارت لکھی کہ وید علوم الٰہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہوسکتے اور آریوں کا ویدوں کے علم اور فلسفہ اور قدامت کے بارے میں ایک باطل خیال ہے اس نازک بنیاد پر وہ حال اور ابد کے لئے اپنی امیدوں کی عمارت اٹھاتے ہیں اور اس ٹمٹماتی ہوئی روشنی کے ساتھ زندگی اور موت پر خوش ہیں۔
بالآخر اگر ہم ان سب واقف کاروں کی شہادت اور خود وید کی غلط فلاسفی سے قطع نظر کرکے قبول بھی کرلیں کہ اگرچہ وید دینی صداقتوں سے خالی ہیں اور بظاہر ان میں کوئی اور علوم و فنون بھی نہیں پائے جاتے مگر معماری و نجاری کے متعلق بعض علوم صنعت ان کی تہ کے اندر چھپے ہوئے ہیں تو اس سے اگر کچھ ثابت بھی ہو تو یہی ثابت ہوگا کہ وید کسی لوہار یا معمار کے پرانے خیالات ہیں۔
یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ جس قدر ہندوؤں کے ہاتھ میں علوم طبعی و طبابت و ہیئت وغیرہ ہیں یہ سب درحقیقت وید ہی سے نکلے ہیں یہ بیان
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 361
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 361
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/361/mode/1up
ویدوں کیلئے کچھ موجب عزت نہیں بلکہ باعث رسوائی و ذلت ہے کیونکہ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ہندی علوم کا مخرج و مبدؔ ء وید ہی ہیں تو پھر وہ ساری غلطیاں جونئی روشنی کی فلاسفی نے ان پرانے علموں میں نکالی ہیں وہ سب داغ ملامت کی طرح وید کی پیشانی پر وارد ہوں گی۔ ہم ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ ویدوں میں بجز مشرکانہ تعلیم کے کوئی معرفت اور حکمت کا بیان نہیں۔ سب سے پہلے کتاب الٰہی اپنی اسی ذمہ واری میں آزمائی جاتی ہے کہ وہ معارف دینی کو جیساکہ انکی ضرورت ہے تفصیل و توضیح سے بیان کرے نہ یہ کہ دعویٰ تو کرے دینی رہنما ہونے کا اور پھر عاجز ہوکر کہے کہ یہ تو نہیں مگر ریل کا انجن مجھے ضرور بنانا آتا ہے بھلا اگر آریوں کو خدائے تعالیٰ نے کچھ بھی غیرت کا مادہ بخشا ہے تو قرآن شریف کی ان دو آیات کا ہی مضمون کسی اپنے وید سے بحوالہ نام وید وانو کا وسکت وغیرہ نکال کر دکھلائیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک یہ ہے
لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِىْ خَلَقَهُنَّ
لجزو نمبر۲۴۔ تم نہ سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی بلکہ فقط اس ذات قدیم کی پرستش کرو جس نے ان تمام علوی وسفلی چیزوں کو وجود بخشا ہے۔ ہم بدعویٰ کہتے ہیں کہ ویدوں میں مضمون اس صداقت کا ہرگز نہیں نکلے گا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے پرمیشر کی دونوں ٹانگیں توڑ رکھی ہیں نہ وہ اپنی پرستش میں شراکت غیر سے محفوظ ہے نہ اپنی قدامت اور غیر مخلوق ہونے میں۔
دوسری آیت یہ ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآىِٕ ذِىْ الْقُرْبَىٰ
الجزو ۱۴۔ خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 362
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 362
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/362/mode/1up
عدل کا معاملہ کرو یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہوسکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروت و سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہوسکے تو ایسے بے علت و بے غرض خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجالاؤ کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔
قولہ۔ اکثر عیسائی اور اہل اسلام بھی متفق ہیں کہ سب علوم و فنون آریوں سے تمام جہان میں پھیلے ہیں۔ اقول۔ اول تو یہ بات ہی غلط ہے کیوں کہ انگریزوں کا اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہؔ انگلستان میں علوم و فنون کا پودہ عرب کے عالیشان مدارس سے آیا ہے اور دسویں صدی میں جب کہ یورپ جہالت میں پڑا ہوا تھا۔ اہل یورپ کو تاریکی جہالت سے علم و عقل کی روشنی میں لانے والے مسلمان ہی تھے۔ (دیکھو صفحہ ۹۵ کتاب جان ڈیون پورٹ صاحب) ایسا ہی رائے بہادر ڈاکٹر چیتن شاہ صاحب آنریری سرجن اور ڈاکٹر دتّامل صاحب سول سرجن پنجاب ریویو جلد نہم میں لکھتے ہیں کہ اہل یورپ کو اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ تمام علوم فلسفۂ طب وغیرہ بذریعہ اہل عرب ان تک پہنچے ہیں۔ کمسٹری یعنے علم کیمیا بھی اہل یورپ نے عروج سلطنت اسلامیہ میں عربوں سے حاصل کیا ہے۔ اگرچہ ہندی طبابت نے (جو بزعم آریوں کے ویدوں سے لی گئی ہے) جو ہماری اپنی وطنی طبابت ہے یونانی اور انگریزی طبابت سے کوئی چیز عاریتاً نہیں لی۔ لیکن یہ اس کا مستعار نہ لینا اس کے فخر کا باعث نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں اسی قدر نقص اور خرابیاں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 363
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 363
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/363/mode/1up
و تبدیل کرکے اور اپنی طرف سے کچھ کا کچھ تودہ طوفان بنا کر اور بات کو کہیں سے کہیں لگا کر یہ اعتراض کرتا ہے کہ گویا ہم نے یہ مکروفریب کیا اور جھوٹ بولا اور جھوٹ کی ترغیب دی۔ پس اول تو ہم آریہ صاحبوں کے شریف لوگوں پر جن کو اپنی سوسائٹی کی عزت اور نیک نامی کا خیال ہے ظاہر کرتے ہیں کہ جس ناجائز طور سے یہ خطوط حاصل کئے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ لالہ بشن داس مکتوب الیہ کی دکان پر ایک کیسوں والے آریہ نے (جو اب باوا نانک صاحب سے بیزار ہوکر دیانندی پنتھ میں داخل ہوگیا ہے) ایک دو آریہ اوباشوں کی رازداری و تحریک سے بیٹھنا شروع کیا ایک دن بشن داس اس دیانندی تانتیا بھیل کے اعتبار سے جیسا کہ دوکانداروں کی عادت ہے اپنی دکان کو کھلی چھوڑ کر کسی کام کے لئے بازار میں نکلا اس کے جانے کے ساتھ ہی سکھ صاحب نے اس کے صندوق کو ہاتھ مارا شاید اس دست درازی سے نیت تو کسی اور شکار کی ہوگی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ مالدار آدمی ہے مگر لالہ بشن داس کی قسمت اچھی تھی کہ اس جلدی میں زیور تک جو صندوق میں پڑا ہوا تھا ہاتھ نہ پہنچا صرف دو خط ہاتھ میں آگئے جن کو اس کے انہیں ہم مشورہ یاروں نے جو ایک ہی سانچے کے ہیں بہت سی خیانت اور یا وہ گوئی کے ساتھ چھاپ دیا اور حیا اور شرم سے الگ ہوکر ایک بے اصل تراش خراش سے ایک ناواجب اعتراض ہم پر بنایا اور جس شنیع کام کا آپ ارتکاب کیا اس کی طرف ذرّہ بھی خیال نہ آیا۔ ہم لاہور کے معزز آریہ سماج والوں کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ان لوگوں کی جلدی سے خبر لیں ورنہ جن نالائق منصوبوں اور ُ برے خیالات کی اس سماج میں کھچڑی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 364
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 364
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/364/mode/1up
پکتی رہتی ہے اس کا انجام ہرگز بہتر نہیں ہوگا۔ کیا یہ بات قرین قیاس نہیں کہ جس نے آج یہ واردات کی کل اس سے بڑھ کر کوئی چاند چڑھائے گا۔ کیا انہیں کرتوتوں سے آریہ سماج روشن ہوجائے گی۔ کیا چوروں کے سو دن کے بعد ایک دن کسی سادھ کا نہیں آئے گا۔ اسی واردات کو دیکھئے کہ لالہ بشن داس نے اپنی شرافت سے صبر کیا اور مقدمہ کو عدالت تک نہ پہنچایا ورنہ سکھ صاحب اور اس کے رفیقوں کو بیگانہ صندوق میں ہاتھؔ ڈالنے کا ابھی مزہ معلوم ہوجاتا۔ ہماری دانست میں یہ مقدمہ اب بھی دائر ہونے کے لائق ہے کیونکہ گو لالہ بشن داس کے زیور وغیرہ کا کچھ نقصان نہیں ہوا خیرگیر*ی مگر خطوط کی چوری بھی حسب قانون مروجہ انگریزی ایک چوری ہے۔ جس کی سزا میں شاید تین سال تک قید ہے مسروقہ خطوں کے پیش ہونے سے ثابت ہوسکتا ہے کہ ان خطوط میں کوئی بھی ایسی تحریر نہیں تھی جو اس سکھ یا اس کے دوسرے یاروں سے کچھ تعلق رکھتی ہو بلکہ وہ صرف ایک حسابی معاملہ کے خطوط تھے جو فقط لالہ بشن داس کی ذات سے تعلق رکھتے تھے اور اس کے نج کے مطالب پر مشتمل تھے جن کا بے اجازت کھولنا بھی ایک جرم تھا اب انصاف کی جگہ ہے کہ جن لوگوں کے اپنے ذاتی چال چلن کا یہ حال ہو کہ چوری تک حلال ہے وہ ہم پر کوئی اعتراض کرنے کے لئے کوشش کریں اور اعتراض بھی کیا عمدہ کہ بشن داس کو اس کے امر متعلق کے مخفی رکھنے کی تعلیم کی حالانکہ کسی عقل مند کی یہ رائے نہیں ہوسکتی کہ انسان اپنے تمام اسرار کو عام طور پر فاش اور شائع کردیا کرے تب اس کا نام راست گو ہوگا ورنہ نہیں۔ غور سے دیکھنا چاہیئے کہ جس قدر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 365
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 365
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/365/mode/1up
امور ملکی و مدنی و منزلی اور خود فرد فرد کے ذاتی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ ہر وقت اور ہر جگہ ان کے رازوں کا افشا کرنا مصلحت ہو یا عدم افشا کا نام مکر اور فریب رکھا جائے۔ خدا تعالیٰ نے دل و زبان وغیرہ قویٰ انسان کو عطا فرما کر ان کے مناسب استعمال کے لئے اسے ذمہ وار بنایا ہے اور ہر ایک بات کی عمدگی اور خوبی دکھلانے کے لئے ُ جدا جدا موقع اور محل اور وقت اس بات کے مقرر کئے ہیں کوئی خلق خواہ کیسا ہی عمدہ ہو مگر جب وہ بے محل اور بے وقت صادر ہوگا تو ساری خوبی اور خوبصورتی اس کی خاک میں مل جائے گی اور کوئی مفید چیز اپنے فوائد ہرگز ظاہر نہیں کرے گی جب تک وہ ٹھیک ٹھیک اپنے وقت پر استعمال میں نہ لائی جائے۔ خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت اور نوع انسان کی حقیقی بھلائی وہی شخص بجالاسکتا ہے جو وقت شناس ہو ورنہ نہیں۔ مثلاً ایک شخص گو راست گو ہے مگر اپنی راستی کو حکمت کے ساتھ ملا کر استعمال نہیں کرتا بلکہ لاٹھی کی طرح مارتا ہے اور بے تمیزی سے ایک شریف خصلت کو بے محل کام میں لاتا ہے تو وہ ایک حکیم منش کے نزدیک ہرگز قابل تعریف نہیں ٹھہرتا۔ ایسے کو جاہل نیک بخت کہیں گے نہ دانا نیک بخت ۔اگر کوئی اندھے کو اندھا اندھا کرکے پکارے اور پھرؔ کسی کے منع کرنے پر یہ کہے کہ میاں کیا میں جھوٹ بولتا ہوں تو اسے یہی کہا جائے گا کہ بے شک تو راست گو ہے مگر احمق یا شریر کہ جس راستی کے اظہار کی تجھے ضرورت ہی نہیں اس کو واجب الاظہار سمجھتا ہے اور اپنے بھائی کے دل کو دکھاتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی امور کا تمام عقد جواہر اسی ایک ہی رشتہ سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 366
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 366
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/366/mode/1up
بستہ ہے کہ ہر ایک خلق اپنے وقت پر صادر ہو۔ درشتی۔ نرمی۔ عفو۔ انتقام۔ غضب۔ حلم۔ منع۔ عطاسب وابستہ باوقات ہیں اور ان کی خوبصورتی اور بہتری بھی تب ہی ظہور میں آتی ہے کہ وہ عین اپنے محل پر استعمال کئے جائیں۔ یہی قرآنی فلاسفی ہے جس پر عقلِ سلیم شہادت دیتی ہے۔
غرض جو کچھ اس اعتراض میں نیک بخت آریوں نے ہم پر طعن کرنا چاہا ہے وہ سراسر ان کی نادانی اور کارستانی ہے وہ آج کل بہتان اور افترا کے پتھروں سے دوسروں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ پتھر انہیں پر پڑیں گے نہ دوسروں پر۔
کوئی چیز ایسی چھپی ہوئی نہیں جو آخر ظاہر نہ ہو۔ پس اگر ہم درحقیقت فریب پر ہیں تو یہی فریب ہمیں ہلاک کرے گا لیکن اگر ہم راستی پر ہیں اور وہ جو ہمارے دل کو دیکھ رہا ہے وہ اس میں کچھ فریب نہیں پاتا تو اگر آریوں کے پہلے اور آریوں کے پچھلے اور آریوں کے زندے اور آریوں کے مردے بلکہ تمام اولین آخرین مخالف ہمارے نابود کرنے کے لئے جمع ہوجائیں تو ہمیں ہرگز نابود نہیں کرسکتے۔ جب تک ہمارے ہاتھ سے وہ کام انجام پذیر نہ ہوجائے جس کے لئے اللہ جل شانہٗ نے ہمیں مامور کیا ہے۔ سو آریوں کے افترا اور بہتان اور قتل کرنے کی دھمکیاں سب ہیچ اور بے اثر ہیں جن سے ہم ڈرتے نہیں۔ اگر ان کا حسد سے یہ خیال ہو کہ لوگ ان کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں ان کو کسی تدبیر سے بند کرنا چاہیئے تو انہیں سمجھنا چاہیئے کہ لوگ درحقیقت کچھ چیز ہی نہیں اور نہ ہماری لوگوں پر نظر ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 367
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 367
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/367/mode/1up
ایک ہی ہے جو ان کو کھینچ کر لاتا ہے اور نیز یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم بدظن لوگوں سے ہرگز نہیں ڈرتے اور اگر بدظن لوگ اتنے ہوجائیں کہ دنیا میں سما نہ سکیں تو وہ درحقیقت اپنا نقصان کریں گے نہ ہمارا اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری نظر میں تمام دنیا بجز اس ایک کے یا اس کے خالص محبوں کے جتنے اور لوگ ہیں خواہ وہ بادشاہ ہیں یا امیر ہیں یا وزیر ہیں یا راجے ہیں یا نواب ہیں ایک مرے ہوئے کیڑے کی مانند بھی نہیں ہاںؔ ہم اپنے محسنوں کے شکر گزار ہیں ایسا ہی گورنمنٹ برطانیہ کے بھی کیونکہ بڑا بدذات وہ شخص ہے جو اپنے محسن کا شکر گزار نہ ہو۔
سو اے آریو تم غلطی پر ہو یقیناً سمجھو کہ تم غلطی پر ہو۔ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے اور تم کچھ بھی ہمارا بگاڑ نہیں سکتے۔ اگر تم نے ہمیں فریبی کہا تو اس سے ہم کچھ غصہ بھی نہیں کرتے کیونکہ رگ وید میں تمہارے پرمیشر کا نام بھی فریبی ہے اور وہ شرتی یہ ہے اے اندر تو نے سوشنا کو فریب سے قتل کیا دیکھو رگ وید اشتک اول انوکا ۳ سکت ۴ شرتی نمبر ۷۔ سو جب کہ اندر پرمیشر اپنے فریب سے قتل کا مرتکب ہوا تو کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور بھی فریب ہوگا۔ دیانندی* فریبوں سے بھی آپ ناواقف نہیں ہوں گے۔ اول تو وہ پاک زبان ایسے تھے کہ ادنیٰ رنج سے اپنے معزز مخالفوں کو کتا اور بلا اور سور کہہ دیا کرتے تھے۔ بھرؔ موچھیدن جو انہوں نے ایک رسالہ راجہ شیو پرشاد ستارہ ہند کے جواب میں بنایا ہے گویا وہ ان کی اخلاقی حالت کا آئینہ ہے جس میں راجہ صاحب کو کسی جگہ تو پاگل کہا ہے اور کسی جگہ گنوار اور کسی جگہ مورکھ اور کسی جگہ کتے سے تشبیہ دی ہے۔ اور سنیاسی بن کر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 368
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 368
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/368/mode/1up
بات بات پر جھاگ اگلی ہے۔ دیکھو بھارت متر مطبوعہ ۲۶۔ اگست ۱۸۸۰ ؁ء ہم نے جو اپنے کسی صفحہ گذشتہ میں اس پنڈت کی نسبت گندہ کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ اسی گندہ زبانی کی وجہ سے ہے جس کا جابجا شہرہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ پنڈت شیونارائن صاحب کو بھی اپنے رسالہ برادر ہند ستمبر و اکتوبر ۱۸۸۰ ؁ء میں یہ مشہور واقع لکھنا پڑا۔ ماسوا اس کے اگر ان کے فریب کا کچھ نمونہ دیکھنا ہو تو پرچہ دھرم جیون ۱۳۔ مارچ ۱۸۸۷ ؁ء کو دیکھنا ہی کافی ہے کہ پہلے انہوں نے منشی اندرمن کے مقدمہ کے لئے ہندوؤں میں ایک جوش دیکھ کر اور چندہ دینے پر مستعد پاکر تاڑلیا کہ تنور تو بہت گرم ہے بہتر ہو کہ اس میں ہماری بھی کوئی روٹی پک جائے تب جھٹ پٹ پنڈت جی نے اندرمن کو بذریعہ تار خبر دی کہ میں تمہارا ہمدرد ہوں تمہیں آنا چاہئے۔ خیر وہ ان کے پاس افتان و خیزاں میرٹھ میں آیا۔ پنڈت صاحب نے باتیں بنا ؔ کر اجازت لے لی کہ چندہ ہم جمع کراتے ہیں پھر تو روپیہ پر روپیہ آتے دیکھ کر سنیاسی صاحب کی ایسی نیت بدل گئی کہ سارا روپیہ نگل جانا چاہا۔ مگر منشی اندرمن بھی تو ایک پرانا خورندہ تھا جس نے ایسے کئی سنیاسی کھاپی چھوڑے تھے۔ اس نے پنڈت جی کے طور بے طرح دیکھ کر مراد آباد سے چٹھی لکھی کہ تم نے میرے نام سے ہزاروں روپیہ اکٹھا کرلیا ہے اور مجھ کو ایک کوڑی تک دینا نہیں چاہتے اور خود ہضم کرنا چاہتے ہیں پس میں آپ کے اس جھوٹے سنیاس کی قلعی کھولنے کو تیار ہوں۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 369
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 369
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/369/mode/1up
اس چٹھی کو دیکھ کر پنڈت جی سمجھ گئے کہ اب یہ ہماری بری طرح خبر لے گا۔ اسی وقت کچھ قدر قلیل بھیج کر راضی کرنا چاہا مگر وہ کب راضی ہوتا تھا۔ اسی وقت اس نے ایک لمبا چوڑا اشتہار چھپوایا جس کا ایک پرچہ ہمارے قادیان میں بھی آیا تھا اس پرچہ میں بھی سنیاسی صاحب کی اس کارروائی کا بہت کچھ ذکر تھا پنڈت دیانند نے اس کا جواب چھپوایا اس طرف سے ایک ایسا جواب الجواب چھپاؔ جس سے پنڈت صاحب کی دروغ گوئی کی ساری حقیقت کھل گئی۔ اس کے بعد پنڈت جگن ناتھ نے دیانندی فریبوں کا ایک رسالہ مشتہر کیا جس کو پڑھ کر کل آریہ سماجوں میں ایک تہلکہ پڑگیا۔ اسی اثناء میں لوگوں کو یہ بھی خبر ملی کہ درحقیقت یہ شخص رکابی مذہب ہے کبھی تناسخ کا قائل کبھی منکر کبھی بیشنو فرقہ کی تائید میں کبھی شیبو پنتھ کی حمایت میں اور کبھی دہریوں کا مددگار۔ غرض پیٹ کے دکھ سے کبھی کچھ کبھی کچھ جیسا کہ دھرم جیون دسمبر ۱۸۸۳ ؁ء میں اس کی تفصیل (یہ) ہے ان باتوں کے سننے سے لوگوں کے دل ٹوٹ گئے اور صرف احمق لوگ پھنسے رہ گئے اور باقی سب دانا دیانندی پیچ سے نکل گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند کی موت کا اصلی موجب یہی ندامتیں تھیں جو یک بیک اس کو اپنی کرتوتوں سے اٹھانی پڑیں۔
ابؔ اپنے سنیاسی صاحب سے ہماری کارروائی کا مقابلہ کرلینا چاہیئے اگر ہم نے لالہ بشن داس کو لکھا بھی کہ تم نے یہ امر مخفی رکھنا تو کیا ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ دوسروں کا روپیہ مارلیں اور اگر یہی بات ہوتی کہ ہم بابو محمد صاحب اور منشی عبدالحق صاحب کو ان کا روپیہ دینا نہیں چاہتے تھے تو پھر کیوں اسے انبالہ چھاؤنی میں انہیں روپیہ لینے کے لئے پیغام دیا جاتا۔ دونوں صاحبان ایماناً اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ اول ہم نے بابو محمد صاحب کو میاں فتح خان کی معرفت اور شاید خود بھی اپنا روپیہ لینے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا کچھ قرضہ نہیں میں نے سب کچھ بطور امداد دیا ہے۔ پھر منشی عبدالحق صاحب کی خدمت میں لکھا گیا کہ اب روپیہ آتا جاتا ہے آپ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 370
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 370
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/370/mode/1up
پانسو روپیہ اپنا قرضہ لے لیں تو انہوں نے جواب بھیجا کہ میرے قرضہ کا آپ کو فکر نہیں کرنا چاہئے آپ اسی روپیہ سے رسالہ سراج منیر کو چھاپیں۔ اب تمہیں اے آریو! ذرہ شرمندہ ہونا چاہئے کہ گو ہم نے اسے انبالہ چھاؤنی میں ان مخلص دوستوں کو روپیہ لینے کے لئے کہا مگر انہوں نے وہ جواب دیئے جو اُوپر لکھے ہیں اور اندرمن اور دیانند بھی باہم دوست ہی تھے مگر اخیر میں جو کچھ نجاست نکلی وہ ظاہر ہے۔
قوؔ لہ۔ جس قدر براہین احمقیہ میں الہامات لکھے ہیں سب انہیں فن و فریب سے بنائے گئے ہیں۔
اقول ۔ فن و فریب تو دیانند کا خاصہ ہے جو اسی کے قومی بھائی اندرمن نے ثابت کرکے بھی دکھلا دیا پھر اس کی تعلیم سے تم لوگوں کا خاصہ جو چوری کرنے سے بھی نہ ڈرے اور براہین احمدیہ کا نام براہین احمقیہ کرکے بار بار لکھنا یہ بید بے ثمر کی تہذیب ہے۔ ان بیدوں نے بجز گالیوں اور بدزبانیوں کے اور کیا سکھلایا؟ جابجا اول سے آخر تک یہی شرتیاں ویدوں میں پائی جاتی ہیں کہ اے اندر ایسا کر کہ ہمارے سارے دشمن مرجائیں ان کے بچے مرجائیں اور ہمیشہ کے لئے ان کی دولت ان کا ملک ان کی گوئیں گھوڑے زمین وغیرہ سب ہم کو مل جائے لیکن اندر کی خدائی تو خوب ثابت ہوئی کہ ایک طرف دعائیں تو یہ اور دوسری طرف بجائے دشمنوں کے ہلاک ہونے کے آپ ہی ہندو لوگ تباہ ہوتے گئے۔ چنانچہ مدت دراز سے یہودیوں کی طرح بجز محکومیت اور غلامانہ اطاعت کے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 371
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 371
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/371/mode/1up
اور کسی جگہ اسؔ قوم کی سلطنت باقی نہیں رہی کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ وید کے رشی الہام الٰہی سے بالکل خالی اور قبولیت الٰہی سے بالکل بے بہرہ تھے۔ جن کی ہزاروں دعاؤں کا خاک بھی اثر نہ ہوا بلکہ الٹی پڑیں۔ الہامی دعا کا ظہور میں نہ آنا اس الہام کے جھوٹے ہونے کی نشانی ہے اور نیز ایسا پرمیشر دعا کیوں کر قبول کرسکے جس کی نسبت لکھا ہے کہ وہ سوم کا رس پینے سے زندہ اور فربہ رہتا ہے ورنہ اس کی خیر نہیں۔ دیکھو دوسرا ادھیا اشتک اول رگ وید۔ اور ہمارے الہامات کا نام فریب رکھنا یا فریب سے بنایا جانا دعویٰ کرنا یہ اس وقت ہندو زادوں کو زیبا تھا کہ جب ہمارے بلانے پر وہ ہمارے دروازہ پر آبیٹھتے لیکن ہم نے سرمہ چشم آریہ میں چہل روزہ اشتہار بھی جاری کرکے دیکھ لیا کسی ہندو نے کان تک نہیں ہلایا خیال کرنا چاہئے کہ جو شخص تمام دنیا میں اپنے الہامی دعویٰ کے اشتہار بھیج کر سب قسم کے مخالفوں کو آزمائش کے لئے بلاتا ہے اس کی یہ جرأت اور شجاعت کسی ایسی بنا پر ہوسکتی ہے جو نرا فریب ہے کیا جس کی دعوت اسلام و دعویٰ الہام کے خطوں نے امریکہ*اور یورپ کے دور دور ملکوں تک ہل چل مچا دی ہے
کیا ایسی استقامت کی بنیاد صرف لاف و گزاف کا خس و خاشاک ہے کیا تمام جہان کے مقابل پر ایسا دعویٰ وہ مکار بھی کرسکتا ہے کہ جو اپنے دل میں جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ اور خدا میرے ساتھ نہیں افسوس آریوں کی عقل کو تعصب نے لے لیا۔ بغض اور کینہ کے غبار سے ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 372
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 372
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/372/mode/1up
اب اس روشنی کے زمانہ میں وید کو خدا کا کلام بنانا چاہتے ہیں نہیں جانتے کہ اندر اور اگنی کا مدت سے زمانہ گزر گیا۔ کوئی کتاب بغیر خدائی نشانوں کے خدا تعالیٰ کا کلام کب بن سکتی ہے اور اگر ایسا ہی ہو تو ہریک شخصؔ اٹھ کر کتاب بنادے اور اس کا نام خدا تعالیٰ کا کلام رکھ لیوے۔ اللہ جل شانہٗ کا وہی کلام ہے جو الٰہی طاقتیں اور برکتیں اور خاصیتیں اپنے اندر رکھتا ہے۔ سو آؤ جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے وہ قرآن شریف ہے جس کی صدہا روحانی خاصیّتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سچے پیرو اس کے ظلّی طور پر الہام پاتے ہیں اور تادمِ مرگ رحمت اور برکت ان کے شامل ہوتی ہے۔ سو یہ خاکسار اسی آفتاب
حقیقت سے فیض یافتہ اور اُسی دریائے معرفت سے قطرہ بردار ہے اب یہ ہندو روشن چشم جو اس الٰہی کاروبار کا نام فریب رکھ رہا ہے اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ ہرچند اب ہمیں فرصت نہیں کہ بالمواجہ آزمائش کے لئے ہر روز نئے نئے اشتہار جاری کریں۔ اور خود رسالہ سراج منیر نے ان متفرق کارروائیوں سے ہمیں مستغنی کردیا ہے لیکن چونکہ اس دزدمنش کی روبہ بازیوں کا تدارک ازبس ضروری ہے جو مدت سے بُرقع میں اپنا مونہہ
امریکہ سے ابھی ہمارے نام ایک چٹھی آئی ہے جس کے مضمون کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ صاحب من ایک تازہ پرچہ اخبار اسکاٹ صاحب ہمہ اوستی میں میں نے آپ کا خط پڑھا۔ جس میں آپ نے ان کو حق دکھانے کی دعوت کی ہے اس لئے مجھ کو اس تحریک کا شوق ہوا۔ میں نے مذہب بدھ اور برہمن مت کی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 373
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 373
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/373/mode/1up
حقیقت سے فیض یافتہ اور اُسی دریائے معرفت سے قطرہ بردار ہے اب یہ ہندو روشن چشم جو اس الٰہی کاروبار کا نام فریب رکھ رہا ہے اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ ہرچند اب ہمیں فرصت نہیں کہ بالمواجہ آزمائش کے لئے ہر روز نئے نئے اشتہار جاری کریں۔ اور خود رسالہ سراج منیر نے ان متفرق کارروائیوں سے ہمیں مستغنی کردیا ہے لیکن چونکہ اس دزدمنش کی روبہ بازیوں کا تدارک ازبس ضروری ہے جو مدت سے بُرقع میں اپنا مونہہ چھپا کر کبھی اپنے اشتہاروں میں ہمیں گالیاں دیتا ہے کبھی ہم پر تہمتیں لگاتا ہے اور فریبوں کی طرف نسبت دیتا ہے اور کبھی ہمیں مفلس بے زَر قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ کس کے پاس مقابلہ کے لئے جاویں وہ تو کچھ بھی جائداد نہیں رکھتا ہمیں کیا دے گا کبھی ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور اپنے اشتہاروں میں ۲۷۔ جولائی ۱۸۸۶ ؁ء سے تین برس تک ہماری زندگی کا خاتمہ بتلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک بیرنگ خط میں بھی جو کسی انجان کے ہاتھ سے لکھایا گیا ہے جان سے مار دینے کے لئے ہمیں ڈراتا ہے لہٰذا ہم بعد اس دعا کے کہ یا الٰہی تو اس کا اور ہمارا فیصلہ کر اس کے نام یہ اعلان جاری کرتے ہیں اور خاص اُسی کو اِس آزمائش کے لئے بلاتے ہیں کہ اب بُرقع سے مونہہ نکال کر ہمارے سامنے آوے اور اپنا نام و نشان بتلاوے اور پہلے چند اخباروں میں شرائط متذکرہ ذیل پر اپنا آزمائش کے لئے ہمارے پاس آنا شائع کرکے اور پھر بعد تحریری قرارداد چالیس۴۰ دن تک امتحان کے لئے
بابت بہت کچھ پڑھا ہے اور کسی قدر تعلیمات زردشت و کنفیوشس کا مطالعہ بھی کیا ہے لیکن محمد صاحب کی نسبت بہت کم۔ میں راہ راست کی نسبت ایسا مذبذب رہا ہوں اور اب بھی ہوں کہ گو میں عیسائی گروہ کے ایک گرجا کا امام ہوں مگر سوائے معمولی اور اخلاقی نصیحتوں کے اور کچھ سکھلانے کے قابل نہیں۔ غرض میں سچ کا متلاشی ہوں اور آپ سے اخلاص رکھتا ہوں۔ آپ کا خادم الیگزنڈر آروب۔ پتہ۔ ۳۰۲۱۔ اسٹرن اونیو سینٹ لوئس مسوری اضلاع متحدہ امریکہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 374
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 374
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/374/mode/1up
ہماری صحبت میں رہے اگر اس مدّت تک کوئی ایسی الہامی پیشگوئی ظہور میں آگئی جس کے مقابلہ سے وہ عاجز رہ جائے تو اسی جگہ اپنی لمبی چوٹی کٹا کر اور رشتہ بے سود زنار کو توڑکر اُس پاک جماعت میں داخل ہوجائے جو لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی توحید سے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی کامل رہبری سے گم گشتگان بادیہ شرک و بدعت کو صراط مستقیم کی شاہراہ پر لاتے جاتے ہیں پھر دیکھئے کہ بے انتہا قدرتوں اور طاقتوںؔ کے مالک نے کیسے ایک دم میں اندرونی آلائیشوں سے اُسے صاف کردیا ہے اور کیونکر نجاست کا بھرا ہوا لتّہ ایک صاف اور پاک پیرایہ کی صورت میں آگیا ہے لیکن اگر کوئی پیش گوئی اس چالیس دن کے عرصہ میں ظہور میں نہ آئے تو چالیس دن کے حرجانہ میں سو روپیہ یا جس قدر کوئی ماہواری تنخواہ سرکار انگریزی میں پاچُکا ہو اس کا دو چند ہم سے لے لے اور پھر ایک وجہ معقول کے ساتھ تمام جہان میں ہماری نسبت منادی کرادے کہ آزمائش کے بعد میں نے اس کو فریبی اور جھوٹ پایا یکم اپریل ۱۸۸۷ ؁ء سے اخیر مئی ۱۸۸۷ ؁ء تک اسے مہلت ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ اس کے اطمینان کے لئے روپیہ کسی برہمو صاحب کے پاس رکھا جائے گا جو دونوں فریق کے لئے بطور ثالث ہیں اور وہ برہمو صاحب ہمارے جھوٹا نکلنے کی حالت میں خود اپنے اختیار سے جو پہلے بذریعہ تحریر خاص ان کو دیا جائے گا اس آریہ فتح یاب کے حوالہ کردیں گے۔ اور اگر اب بھی روپیہ لینے میں دھڑکا ہو تو اس عمدہ تدبیر پر کہ خود آریہ صاحب سوچیں عمل کیا جائے گا۔ مگر روپیہ بہرصورت ایک معزز برہمُو صاحب (ثالث)
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 375
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 375
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/375/mode/1up
کے ہاتھ میں رہے گا لہٰذا ہم تاکیدًا اس آریہ صاحب کو جس نے ہمارا نام فریبی رکھا الہامات ربّانی کو سراسر فریب قرار دیا پورا نے وحشی آریوں کی طرح ہمیں گندیاں گالیاں دیں جان سے مارنے کی دھمکیاں سنائیں بآواز بلند ہدایت کرتے ہیں کہ ہماری نسبت تو اس نے دُشنام دہی میں جہاں تک گند اس کی سرشت میں بھرا ہوا تھا سب نکالا لیکن اگر وہ حلال زادہ ہے تو اب امتحان کے لئے بپابندی شرائط متذکرۂ بالا سیدھا ہمارے سامنے آجائے تاہم بھی دیکھ لیں کہ اس فرشتہ خوشُستہ زبان کی شکل کیسی ہے اور اگر اخیر مئی ۱۸۸۷ ؁ء تک مقابل پر نہ آیا اور نہ اپنی مادری خصلت سے باز رہا تو دیکھو میں بعد شاہد حقیقی کے زمین و آسمان اور تمام ناظرین اس رسالہ کو گواہ رکھ کر ایسے یا وہ اور جنگ جو کو مندرجہ ذیل انعام جو فی الحقیقت نیش زنی اور رہزنی اور ظالم منشی کی حالت میں اُسی کے لائق ہے دیتا ہوں تا میں دیکھوں کہ اب وہ سوراخ سے نکل کر باہر آتا ہے یا اس نیچے لکھے ہوئے انعام کو بھی نگل جاتا ہے اور وہ انعام بحالت اُس کے نہ آنے اور بھاگ جانے کے یہ ہے۔
۱۔
ایک
***
۲۔
دو
***
۳ؔ ۔
تین
***
۴۔
چار
***
۵۔
پانچ
***
۶۔
چھ
***
۷۔
سات
***
۸۔
آٹھ
***
۹۔
نو
***
۱۰۔
دس
***
تِلْکَ عَشَرَۃ کَامِلَہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 376
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 376
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/376/mode/1up
اب ہم اس موقع پر ان چند آریہ صاحبوں کا نام درج کرتے ہیں جو ہماری بعض الہامی پیش گوئیوں کے گواہ ہیں۔ یوں تو ظاہر ہے کہ آج کل بباعث ایک تعصّبیآگ کے بھڑکنے کے جو آریوں کو پیروں سے لے کر دماغ تک جلارہی ہے ایسی اس قوم کی ایک دفعہ حالت بدل گئی ہے کہ اگر کسی قدر شریف آدمی بھی ان میں ہیں تو وہ بھی کھڑپنچوں کے شوروغوغا کے خوف سے دبے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ ایمانی قوت تو رکھتے ہی نہیں کہ تا ان بک بک کرنے والوں کی لعن و طعن کی کچھ پروا نہ رکھیں بلکہ ایک ہی دھمکی سے مثلاً اسی قدر کہنے سے کہ برادری سے نکالے جاؤ گے لڑکے لڑکیاں بیاہی نہیں جائیں گی۔ رشتے ناطے سب چھوٹ جائیں گے لالہ صاحبوں کے رنگ زرد اور بدن پر لرزہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر تو وہ حالت ہوجاتی ہے کہ جس قدر کسی مسلمان پر تہمت بہتان الزام لگانا چاہیں یا جو کچھ افترا پردازوں کی طرف اشتہار وغیرہ کے چھپوانے کی تجویز ہو جھٹ پٹ دستخط کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اسی ترکیب سے آج کل قادیان کے ہندو اشتہارات جاری کررہے ہیں۔
ایں نہ از خود ہست جوش جان شان
دست کھڑ پنچاں کشد دامان شان
غرض یہ لوگ جو سراسر افترا کے طور پر اشتہارات جاری کرتے رہتے ہیں اور پھر ان میں اکثر گندے لفظ اور گالیاں بھی دیتے ہیں تو دراصل اس کا یہی باعث ہے کہ وہ اپنے خواہ نخواہ کے جمعداروں پر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم سچے دل سے مسلمانوں کے ذاتی دشمن ہیں اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 377
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 377
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/377/mode/1up
ایسے پختہ ہیں کہ سرجائے دھرمؔ جائے ایمان جائے مگر بازی نہ جائے۔ سو اب اسی بنا پر سب کارروائی ہوتی ہے اور لالہ شرمپت اور ملاوا مل ساکنان قادیان کی طرف سے جو ایک اشتہار شائع ہوا تھا جو ہم مرزا کو فریبی جانتے ہیں ملہم من اللہ نہیں سمجھتے وہ بھی درحقیقت قومی دیوی کو بھینٹ چڑھائی گئی تھی۔ ورنہ جو واقعی بات ہے اس کو تو ان کا جی خوب جانتا ہے مگر اسی خیال سے جو ہم اوپر ذکر کرآئے ہیں ان ہر دو آریوں نے بھی افتراؤں پر کمربستہ کررکھی ہے اور یہ خیال یک لخت بھلا دیا کہ ہمارے سر پر خدا بھی ہے سو چونکہ خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ایک اقبال مند کے لئے جیسے دوستوں کے وجود کو چاہتا ہے ایسے ہی دشمنوں کے وجود کو بھی۔ اس لئے ہم ان دشمنوں کے وجود کو بھی خالی ازحکمت نہیں سمجھتے کیونکہ شمع صداقت کے لئے پروانوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آفتاب باوجود اتنی مقدار اتنی بلندی اور اتنی تیز شعاعوں کے دشمنوں سے امن میں نہیں اور دشمن بھی وہی جو درحقیقت اسی کے آوردہ اور دست پروردہ ہیں۔ ایک طرف بادل اس کا دشمن ہے جو اس کی نورانی صورت پر اپنی سیاہ چادر کا پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور ایک طرف غبار اُس سے عداوت کررہی ہے۔ جو اس کے صافی چہرہ پر دھبہ لگانا چاہتی ہے لیکن آفتاب انہیں اپنے نور کشفی سے کہتا ہے کہ اے بادل تو کیوں اتنا اونچا ہوتا ہے تو عنقریب قطرہ قطرہ ہوکر بصد انکسار زمین پر گرے گا اور اے غبار تو اس کے ساتھ ہی معدوم ہوجائے گی۔ سو بخیال تعصبات مذکورہ بالا یہ تو ہم
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 378
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 378
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/378/mode/1up
جانتے ہیں کہ آج کل آریوں کے اجتماعی جوش نے جو افاقۃ الموت کی طرح آخری دم میں ان میں پیدا ہوگیا ہے بے طرح انہیں بے خوف اور چالاک کر رکھا ہے جس سے وہ اپنے پرمیشر کے پرمیشر پن کو ہی جواب دیئے جاتے ہیں۔ اور راست گوئی اور حیا اور شرم سے بھی فارغ ہوبیٹھے ہیں لیکن چونکہ سچائی ایک ایسی چیز ہے جو کسی نہ کسی حکمت عملی سے اپنا چہرہ نورانی دکھا ہی دیتی ہے۔ اس لئے آخر ہمیں بھی سوچتے سوچتے ایک تدبیر چور پکڑنے کی سوجھ گئی اور وہ یہ ہے کہ اسی رسالہ میں ایک فہرست ایسی پیش گوئیوں کی جن کے آریہ لوگ گواہ ہیں لکھی جائے اس طرح پر کہ اول نمبر شمار اور پھر نام آریہ اور پھر بمحاذی ہریک نام کے جدا جدا ان پیشگوئیوں کی تفصیل لکھی جائے جن کے وقوع کا گواہ وہ آریہ ہو جس کا محاذات میں نام درج ہو اور پھر ایسے نقشہ اسم وار کے شائع ہونے کے بعد جو ابھی لکھا جاتا ہے قادیان کے آریوں پر جو فساد پھیلانےؔ کی جڑہیں فرض ہوگا کہ اگر وہ حقیقت میں ہمیں فریبی سمجھتے ہیں تو اسی قادیان میں ایک جلسہ عام میں ایک ایسی قسم کھا کر جو ہریک شہادت کے نیچے لکھی جائے گی ان الہامی پیش گوئیوں کی نسبت لاعلمی ظاہر کریں۔ تب ہم بھی ان کا پیچھا چھوڑ دیں گے اور اس قادر مطلق کے حوالہ کردیں گے جو دروغ گو کو بے سزا نہیں چھوڑتا اور بے عزتی سے اپنے مالک کے نام لینے والے کو ایسا ہی بے عزت کرتا ہے جیسا کہ وہ جھوٹی قسم اللہ جل شانہٗ کی کھاکر اس ذوالجلال کی عزّت کی کچھ پرواہ نہیں کرتا لیکن اگر اب بھی آریوں نے یہ کھلا کھلا فیصلہ نہ کیا اور صرف جعل سازی کی اوٹ میں دور سے تیر مارتے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 379
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 379
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/379/mode/1up
رہے اور گھر میں کچھ اور باہر کچھ اور اخباروں اشتہاروں میں کچھ اور دوسرے لوگوں کے پاس کچھ کہتے رہے تو اے ناظرین آپ لوگ سمجھ رکھیں کہ یہی ان کی ہٹ دھرمی اور دروغ گوئی کی نشانی ہے۔ بہرحال اب اس جلسہ کی نہایت ضرورت ہے تاہم بھی دیکھ لیں کہ سچ کا اختیار کرنا اور جھوٹ کا تیا گنا کہاں تک ان میں پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جس قدر ہم نے الہامات نیچے درج کئے ہیں یہ محض بطور نمونہ درج کئے گئے ہیں اور بہت سی الہامی پیشگوئیاں جن کے یہی آریہ لوگ اور ان کے دوسرے بھائی گواہ ہیں۔ بخوف طوالت چھوڑ دی گئی ہیں لیکن بوقت انعقاد جلسہ سب کا ذکر ہوگا۔
خوش بود گر محک تجربہ آمد بمیاں
تاسیہ روئے شود ہرکہ دروغش باشد
اب چند الہامی پیش گوئیاں بطور نمونہ نقشہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
نمبر
نام آریہ
کس الہام یا کشف کا گواہ ہے۔
۱
کیسوں والا آریہ بھائی کشن سنگھ ساکن قادیان
محمد حیات خان جج کا اس جرم سے رہائی پاجانا جس میں وہ ماخوذ ہوکر اور بے طرح زیر عتاب گورنمنٹ آکر ایک مدّت تک معطل رہا ایک نہایت بعید از قیاس بات تھی سو اُن
دنوں میں مَیں نے اس کے حق میں بہت سی دعا کی کیونکہ اس خاندان سے کسی قدر مخلصانہ اس کا تعلق تھا چنانچہ بفضلہ تعالیٰ انجام اس کا مجھ پر کھل گیا اور میں نے قبل از وقوع پانچ یا چھ ماہ کے قریب تخمیناً ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ آدمیوں کو ہندو اور مسلمانوں میں سے اور نیز اس آریہ کو اُس کے انجام بہ بریّت کے ایسے نازک وقت میں خبر دے دی کہ جبکہ حیات خان کی نسبت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 380
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 380
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/380/mode/1up
نمبر
نام آریہ
کس الہام یا کشف کا گواہ ہے۔
؍؍ وہی آریہ پُر خوف افواہیں اڑ رہی تھیں یہاں تک کہؔ اس کے پھانسی مل
جانے کا بعضوں کو خطرہ تھا۔ سو اگر اس گواہ کے نزدیک یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اس کو چاہئے کہ جلسہ مجوزہ میں اس مضمون کی قسم کھاوے کہ میں اپنے پرمیشر کو حاضر ناظر جان کر سچے دل سے اس کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ پیشگوئی ہرگز مجھ کو نہیں بتلائی گئی اور اگر بتلائی گئی ہو اور میں نے جھوٹ بولا ہے تو اے سرب شکتی مان پرمیشر مجھ پر اور میرے عیال پر کسی دکھ کی مار سے اپنی تنبیہ نازل کر۔
۲
لالہ ملاوا مل کھتری ساکن قادیان
ملاوا مل کو دِق کی بیماری ہوگئی جب وہ خطرہ کی حالت میں پڑگیا تو اس کے لئے دعا کی گئی الہام ہوا قُلْنَا یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا۔ پھر خواب میں دکھایا گیا کہ میں
نے اس کو قبر سے نکال لیا ہے یہ الہام اور خواب دونوں قبل از وقوع اس کو بتلائے گئے چنانچہ چند ہفتہ کے بعد اس کو شفا ہوگئی پھر ایک دن صبح کو الہام ہوا کہ آج ارباب لشکر خان کے قرابتیوں میں سے کسی کا روپیہ آئے گا آزمائش کے طور پر یہی آریہ صاحب ڈاک خانہ میں گئے اور دس3 روپیہ آنے کی خبر لائے۔ جو ارباب سرور خان لشکر خان کے بیٹے نے بھیجے تھے اگر یہ بیان سچ نہیں ہے تو ملاوا مل کو چاہئے کہ جلسہ مجوزہ میں اس مضمون کی قسم کھاوے کہ میں اپنے پرمیشر کو حاضر ناظر جان کر سچے دل سے اس کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ دونوں قسم کی پیشگوئیاں ہرگز مجھ کو نہیں بتلائی گئیں اور اگر بتلائی گئی ہوں اور میں نے جھوٹ بولاہے تو اے سرب شکتی مان پرمیشر مجھ پر اور میرے عیال پر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 381
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 381
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/381/mode/1up
نمبر
نام آریہ
کس الہام یا کشف کا گواہ ہے۔
؍؍ وہی آریہ کسی دکھ کی مار سے اپنی تنبیہ نازل کر ۔اور واضح رہے کہ ملاوا مل نے
اپنے خط ۱۴۔ اگست ۱۸۸۵ء میں جو مِیر عباس علی صاحب کی طرف اس نے لکھا تھا جو ہمارے پاس موجود ہے ان دونوں پیشگوئیوں کی سچائی کا اقرار بھی کرلیا ہے۔
۳
لالہ شرمپت رائے کھتری ساکن قادیان
لالہ شرمپت رائے کا بھائی کسی فوجداری مقدمہ میں ماخوذ ہوگیا تھا۔ چیف کورٹ میں اپیل تھا لالہ شرمپت نے دعا کے لئے کہا چنانچہ کئی دفعہ دعا کی گئی آخر قبولیت دعا ہوکر عالم الغیب کی طرف
سے ظاہر کیا گیا کہ مثل چیف کورٹ سے دوبارہ تفتیش کے لئے واپسؔ آئے گی اور پھر چھوڑ دیا جائے گا۔ پر اس کا دوسرا برہمن رفیق جس کا نام خوشحال ہے رہائی نہیں پائے گا جب تک پوری پوری قید بھگت نہ لے سو یہ خبر قبل از ظہور عین خوف و خطر کے وقت میں لالہ شرمپت کو بتلائی گئی اور پھر جب پوری ہوئی تو بذریعہ تحریر اس کو یاد دلایا گیا تو اس نے جواب لکھ کر بھیجا کہ اس لئے یہ انجام آپ پر کھولا گیا کہ آپ نیک بخت ہیں۔
دو۲سری دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اس کو بتلایا گیا کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کا آنا اس کے لئے مقدر نہیں یا تو یہ مرے گا اور یا ذلت اور بے عزتی اٹھائے گا۔ اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا۔ تیسر۳ی پنڈت دیانند کی بابت اس کی موت سے دو مہینے پہلے لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی کہ اب وہ بہت ہی نزدیک مرے گا بلکہ کشفی حالت میں میں نے اس کو مردہ پایا۔ چوتھی۴ ایک اپنے زمینداری مقدمہ کی نسبت جو شرکاء کے ساتھ دائر تھا اور کئی سال مختلف عدالتوں میں ہوکر چیف کورٹ تک پہنچا مجھے دعا کرنے کے بعد یہ الہام
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 382
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 382
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/382/mode/1up
نمبر
نام آریہ
وہی آریہ
کس الہام یا کشف کا گواہ ہے۔
ہوا تھا کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَاءِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَاءِکَیعنی میں
تیری ساری دعائیں جو تو نے کیں قبول کروں گا۔ پر شرکاء کے بارے میں نہیں۔ سو آخر اس مقدمہ میں شرکاء کو فتح ہوئی۔ اوّل اوّل تو ابتدائی عدالتوں میں شرکاء مغلوب رہے پر آخر چیف کورٹ میں قطعی طور پر فتح پاگئے شاید پچاس سے زیادہ لوگوں کو اس الہام کی خبر ہوگی اور منجملہ ان کے یہ لالہ صاحب بھی ہیں جن کو شروع مقدمات کے ابتدا میں ہی یہ الہام سنا دیا گیا تھا۔ پانچویں ایک مرتبہ مسجد میں بوقت عصر یہ الہام ہوا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔ یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی۔ اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
ہرچہ باید نو عروسے راہماں سامان کنم
و آنچہ مطلوب شما باشد عطائے آں کنم
اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلقؔ بخشا سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمپت کو سنا دیا گیا پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خدا تعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی یعنی نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب سید سندی جو خواجہ میر درد صاحب مرحوم دہلوی کے روشن خاندان کے یادگار ہیں جن کے علوّ خاندان کو دیکھ کر بعض نوّابوں نے انہیں لڑکیاں دی تھیں جیسے نواب
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 383
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 383
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/383/mode/1up
نمبر
نام آریہ
کس الہام یا کشف کا گواہ ہے۔
امین الدین خان والد بزرگوار نواب علاؤ الدین خان والئی ریاست لوہارو کی لڑکی میر ناصر نواب صاحب خسر اس عاجز کے بڑے بھائی کو بیاہی گئی۔ ایسے بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرہ بھی فکر کرنا نہ پڑا۔ اور اب تک اسی اپنے وعدہ کو پورے کئے چلا جاتا ہے۔ چھٹی وہ پیشگوئی مندرجہ نمبر ایک جس کا کیسوں والا آریہ گواہ ہے لالہ شرمپت بھی اس کے گواہوں میں داخل ہے۔ اب میں کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام پیشگوئیاں جو لکھی گئی ہیں لالہ شرمپت ان کو سچ نہیں سمجھتا اور سراسر افترا خیال کرتا ہے تو اس پر عین فرض و سراسر واجب ہے کہ ایک عام جلسہ منعقد کرکے بدیں مضمون ہمارے سامنے قسم کھاوے کہ میں اپنے پرمیشر کو حاضر ناظر جان کر سچے دل سے اس کی سوگند کھاتا ہوں کہ ان الہامی پیشگوئیوں میں سے مجھے کسی کی خبر نہیں اور نہ مجھے کوئی بتلائی گئی اور نہ کوئی بات میرے روبرو پوری ہوئی اور اگر اس بیان میں َ میں نے جھوٹ بولا ہے تو اے پرمیشر سرب شکتی مان مجھ پر اور میری اولاد پر کسی دکھ کی مار سے اپنی تنبیہ نازل کر۔
۴۵
بشن داس براہمن
ولد ہیرا سنگھ
بیج ناتھ برہمن
ولد بھگت رام
بشن داس براہمن ولد ہیرا نند کو اس الہام سے خبر دی گئی تھی کہ آج ایک صاحب عبد اللہ خان نام کا ڈیرہ اسماعیل خان سے خط آنے والا ہے اور وہ کچھ روپیہ بھی بھیجے گا۔ چنانچہ یہ آریہ آزمائش کی غرض سے آپ ہی ڈاکخانہ میں گیا اور عبد اللہ خان اکسٹرااسسٹنٹ کا خط لایاجو ڈیرہ اسماعیل خان سے آیا تھا جس کے ساتھ دس روپیہ بھی آئے تھے سو اسی طرز کی قسم سے بشن داس مذکور سے بھی دریافت ہونا چاہئے ۔ اس شخص نے ہرنام داس آریہ ساکن بٹالہ کے روبرو اس الہام کے دیکھنے کا اقرار بھی کیا تھا۔
بیج ناتھ برہمن ولد بھگت رام کو کشفی طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ایک برس کے عرصہ تک تجھ پر مصیبت نازل ؔ ہونے والی ہے اور کوئی خوشی کی تقریب بھی ہو گی۔ چنانچہ اس پیشگوئی پر اس کے دستخط کرائے گئے جو اب تک موجود ہیں۔پھر بعدازاں ایک برس کے عرصہ میں اس کا باپ جوانی کی عمر میں ہی فوت ہو گیا۔ اور اسی دن ان کی شادی کی تقریب بھی پیش تھی۔ یعنی کسی کا بیاہ تھا۔ یہ پیشگوئی بھی حلفاً مگر اسی قسم کی حلف سے اس سے دریافت ہونی چاہئے۔
اس قدر الہامی پیشگوئیاں ہم نے بطور نمونہ لکھ دی ہیں اور باقی عین جلسہ کے وقت میں پیش کی جائیں گی اگر قادیان کے آریہ لوگ اپنی لاعلمی کی قسم کھالیں گے تو پھر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 384
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 384
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/384/mode/1up
ہندوؤں کے لئے بات کرنے کے لئے ایک گنجائش نکل آئے گی بہرحال اب ہمارے مُخالف آریہ اس تجویز کو خواہ منظور کریں یا نہ کریں لیکن یاد رکھیں کہ اگر فیصلہ منظور ہے تو ہزار بل پھیر کھا کر آخر اِسی راہ پر قدم مارنا پڑے گا۔ ہندی مثل مشہور ہے سر جُٹے اور کوڑ نکھٹے جلسہ عام میں نمونہ مذکورہ کی قسم کھا لینا بس حد ہے جس سے فیصلہ ہوجائے گا ورنہ کس قدر حیا اور شرم سے دور ہے کہ محض جھوٹے افتراؤں کے ذریعہ سے کوشش کی جائے کہ تمام الہامات فن و فریب سے بنائے جاتے ہیں خیال کرنا چاہئے کہ اس بھلے مانس ہندو نے اپنے اس رسالہ میں جس کا نام فن و فریب غلام احمد کی کیفیّت رکھا ہے کس قدر دروغ بے فروغ کی اپنے دل سے ہی عمارت بنا لی ہے جس کو وہ اپنے اس رسالہ کے صفحہ ۲۴ میں لکھتا ہے چنانچہ بجنس عبارت اُس کی ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
اب تازہ الہام سُنئے قادیان میں جان محمد کشمیری مرزا کی مسجد کے امام کا پانچ سالہ لڑکا سخت بیمار ہوکر قریب المرگ ہوگیا تھا اُس وقت کی حالت زار دیکھ کر بیوقوف سے بیوقوف اُس کو کوئی دم کا مہمان جانتا تھا اس حال پر اختلال میں امام صاحب مرزا کے پاس گئے اور مرزا پہلے اس لڑکے کو بچشم خود بھی دیکھ چکا تھا۔ امام صاحب نے کل حال مکرر عرض کرکے کہا کہ آپ مجیبُ الدّعوات ہیں (اس لفظ سے اس ہندو کی لیاقت علمی ظاہر ہے) دُعا کیجئے۔ مرزا نے فرمایا کہ آپ کے آنے سے اول ہی الہام ہوا کہ اس لڑکے کے لئے قبر کھودو۔ مرزا کے مونہہ سے یہ کلمہ نکلنا ہی تھا کہ امام صاحب کے ہوش باختہ ہوگئے۔ واقعی کیوں نہ ہوتے کہ فقط یہی ایک لڑکا تھا وہ بھی پچھلی عمر کا مرزا تو نیم حکیم خطرہ جان ہی تھا۔ مگر خدا بھی جھوٹوں کو جھوٹا کرنے کے لئے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 385
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 385
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/385/mode/1up
عجیب قدرت دکھلاتا ہے کہ جب امام مذکور بحالت زارؔ نزار گھر واپس آیا تو اثر الہام برعکس پایا یعنے لڑکے کے آثار رُ و بصحت دیکھے غرض کہ مونہہ منحوس سے یہ کلمہ نکلنا ہی تھا کہ دم بدم لڑکے کو آرام ہونے لگا۔ جب لوگوں نے مجیبُ الدّعوات صاحب (یہ وہی لفظ ہندو کی لیاقت کا ہے) کی ہنسی اڑائی تو جواب دیا کہ الہام غلط نہیں ہوسکتا۔ دائم یہ بچّہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمام ہوا قصہ ُ پر افترا آریہ کا۔
اب دیکھنا چاہئے کہ وہ کنجر جو ولدا لزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں مگر اس آریہ میں اس قدر بھی شرم باقی نہ رہی جس قوم میں اس جنس کے شریف و امین لوگ ہیں وہ کیا کچھ ترقیاں نہیں کریں گے۔ اب اس نیک ذات آریہ پر فرض ہے کہ ایک جلسہ کرا کر ہمارے روبرو اس بہتان کی تصدیق کرادے تا اصل راوی کو حلف سے پوچھا جائے اور اس بے اصل بہتان کے لئے نہ صرف ہم اس راوی کو حلف دیں گے بلکہ آپ بھی حلف اٹھائیں گے فریقین کے حلف کا یہ مضمون ہوگا کہ اگر سچ سچ اپنے حافظہ کی پوری یادداشت سے بلا ذرہ کم و بیش میں نے بیان نہیں کیا تو اے خدائے قادر مطلق اور اے پرمیشر سرب شکتی مان ایک سال تک اپنے قہر عظیم سے ایسی میری بیخ کنی کر اور ایسا ہیبت ناک عذاب نازل فرما کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو اور پھر اگر ایک سال تک آسمانی عذاب سے اصل راوی محفوظ رہا تو ہم اپنے جھوٹا ہونے کا خود اشتہار دے دیں گے۔ کیونکہ ہم یقینًاجانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے بہتان صریح کو بے فیصلہ نہیں چھوڑے گا یہ تو ہمارے لئے اورہر ایک ملہم من اللہ کے لئے ممکن بلکہ کثیر الوقوع ہے جو کوئی خواب یا الہام مشتبہ طور پر معلوم ہو جس کے احتمالی طور پر کئی معنے کئے جائیں گے مگر یہ افترا کہ قطعی طور پر ہمیں الہام ہوگیا کہ دین محمد جان محمد کا لڑکا اب مرے گا اس کی قبر کھودو
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 386
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 386
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/386/mode/1up
یہاں تک کہ جان محمد کو یہ خبر دی کہ اب دین محمد تیرا لڑکا ضرور مرے گا۔ دین محمد کے نام پرالہام ہوچکا قبر کھودنے کا حکم ہوا اور وہ خبر سن کر روتا روتا گھر تک گیا یہ جھوٹ کی نجاست کس نے کھائی ہے۔ ایسا ایمان دار ذرہ ہمارے سامنے آوے لیکن اب بھی اگر راقم رسالہ اپنی دزد منشی کی عادت کو نہیں چھوڑے گا اور جلسہ عام میں راوی کو قسم دلانے سے تصفیہ نہیں کرے گا تو وہی دس لعنتوں کا تمغہ جو پہلے اس کو ہم دے چکے ہیں اب بھی موجود ہے۔
۱۔
ایک
***
۲۔
دو
***
۳ؔ ۔
تین
***
۴۔
چار
***
۵۔
پانچ
***
۶۔
چھ
***
۷۔
سات
***
۸۔
آٹھ
***
۹۔
نو
***
۱۰۔
دس
***
قولہ۔ صدہا پنڈتوں نے یہ بات ثابت کی ہے کہ پر ماتما نے اوّل اوّل ہی رشیوں کو وید اقدس کا اُپدیش کیا اُس کے مطابق رشیوں نے سب علم و ہنر ظاہر کئے۔
اقول ۔ میں کہتا ہوں کہ کھلی کھلی سچائی کے آگے شکم پرست پنڈتوں کے حیلے بہانے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 387
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 387
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/387/mode/1up
کیا پیش جاسکتے ہیں ویدوں کی شُرتیاں خود ثابت کررہی ہیں کہ وہ قدیم نہیں ہیں۔ دیکھو رگ وید اشتک اوّل پہلا ادھیائے انوک سکت ا شُرتی (۲) ایسا ہو کہ اگنی جس کی مہما زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔ سو جب کہ وید آپ ہی قائل ہیں کہ ان کے ظہور سے پہلے ایک زمانہ گزر چکا ہے عارف اور الہام یاب بھی گزر چکے ہیں تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وید بہت پیچھے ہوئے ہیں چنانچہ ساینا چارچ وغیرہ بھاشی کاروں نے یہی معنے لکھے ہیں اور پھر اسی رگ وید میں ایسے بادشاہوں کا بھی ذکر ہے جو ان ویدوں کے وجود سے پہلے گزر چکے ہیں اور محققین نے ثابت کرلیا ہے کہ جن رشیوں کے نام سکتوں پر درج ہیں اکثر ان کے قریب قریب بیاس جی کے زمانہ سے ہوئے ہیں اور ویدوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ویدوں کے زمانہ میں اصل باشندے اس ملک کے اور تھے جو کسی اور کتاب کو الہامی تسلیم کئے بیٹھے تھے اور ویدوں اور ویدوں کے دیوتاؤں کو نہیں مانتے تھے۔ اسی جہت سے اکثر باہم لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ یہی رائے پروفیسر ولسن صاحب نے جابجا اپنے وید بھاش میں لکھی ہے۔ افسوس ہندو لوگ اردو اور انگریزی ترجمہ ویدوں کو ایسا برا جانتے ہیں کہ ان کی طرف نظر کرنا بھی نہیں چاہتے اور سنسکرت تو ایسی نابود ہے کہ مشکل سے یقین کیا جاتا ہےؔ کہ لاکھ ہندو میں سے کوئی ایک بھی ایسا سنسکرت دان ہو کہ ویدوں کو صاف طور پر پڑھ سکے پھر اس تعصّب اور اس نادانی کی کچھ نہایت ہے کہ نادیدہ ویدوں کی نسبت خواہ نخواہ قدامت کا دعویٰ کئے بیٹھے ہیں اور سمیر پربت کی طرح ایک خیالی بزرگی کا تاج اس کو پہنایا گیا ہے خیال کرنا چاہئے کہ بدھ جی کس قدر نامی و مشہور عارف اور پنڈتوں کے سرتاج گزرے ہیں جن کی عالی تحقیقاتوں کے آگے دیانندی خیالات ایک تودہ گوبر سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 388
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 388
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/388/mode/1up
زیادہ وقعت نہیں رکھتے وہ اپنے بدھ شاستر (ادھیائے ۲ سوترا) میں فرماتے ہیں کہ وید پرمیشر کا کلام نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے زمانہ کی تاریخ جو بیان کی گئی ہے وہ بالکل خلاف واقع اور جھوٹ ہے اور نیز ان میں کلام الٰہی ہونے کا کوئی نشان پایا نہیں جاتا اور ان کے مطالب و مضامین خلاف عقل ہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ بدھ جی جیسے نامی پنڈت سے بڑھ کر جن کی بزرگی کے پچاس کروڑ کے نزدیک لوگ قائل ہورہے ہیں اور کون سی شہادت ہے اور اگر ہے تو وہ پیش کرنی چاہئے۔ ویدوں کو ابتدا سے کسی آریہ دیس کے دانا نے تسلیم نہیں کیا اور ہر چند ظالم برہمنوں نے اس مطلب کے حصول کے لئے ہزارہا خون بھی کئے (جیسا کہ شاستروں سے ظاہر ہے) لیکن ان نیک خیال ہندوؤں نے بڑی استقامت سے جانیں دیں مگر وید کی مشرکانہ تعلیموں کو قبول نہ کیا۔ صرف ویدوں کے نہ ماننے کی وجہ سے ہزاروں محقّقوں اور عارفوں اور دانشمند آریوں کے سر کاٹے گئے اور شریر برہمنوں نے ایسے ایسے نیک دل اور پاک خیال لوگوں کو قتل کیا جن کی اس گروہ میں نظیر ملنا مشکل ہے اگر ویدوں میں کچھ سچائی ہوتی تو شریف آریہ جو دانشمند اور فلاسفر تھے کیوں ویدوں سے اس قدر بیزار ہوجاتے کہ ایک ایک ہوکر مارے گئے مگر ویدوں کو قبول نہ کیا۔ اگر ویدوں کی کسی ایک آدھ شرتی سے یہ مضمون بھی نکلتا ہو کہ وہ پرانی ہیں تو قابل تسلیم نہیں کیونکہ دعویٰ بلا دلیل ہے جس کو دوسری شرتیاں خود رد کرتی ہیں۔
اورؔ اگر یہ کہو کہ منوجی ویدوں کو کسی قدر پرانا ہی ٹھہراتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے دلیل گواہی منوکی ہو یا غیرمنوکی وہ قابل اعتبار نہیں اور پھر سمجھنا چاہئے کہ بدھ جی کے مقابل پر منوجی کی حیثیت کیا ہے کیا کچھ بھی شرم نہیں آتی۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 389
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 389
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/389/mode/1up
واضح رہے کہ دیانند نے ستیارتھ پرکاش وغیرہ رسائل میں قدامت ویدوں کے لئے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے آخر ہر طرف سے نومید ہوکر برہمنوں کا روزنامچہ دلیل ٹھہرایا مگر یاد رہے کہ یہ دلیل بالکل ہیچ اور نکمّی ہے۔ یہ نہایت مشہور واقعہ اور سب کا مانا ہوا تسلیم کیا ہوا ہے کہ اصلی روزنامچہ (تہتی پتر) راجہ بھوج کے زمانہ سے چار سو برس پہلے گم ہوگیاتھا یعنے بدھ مذہب کے عروج کے زمانہ میں اور جو اب برہمنوں کے ہاتھ میں ہے یہ تو ایک جعلی چیز ہے جو سراسر نفرت کے لائق اور ذرہ قابل اعتبار نہیں اس میں خلاف عقل اور بیہودہ سوانح تو بہت لکھے مگر سکندر اعظم کا ذکر کہاں ہے جس کا ذکر کرنا روزنامہ کی حیثیت سے بہت ضروری تھا ایسا ہی پرانے سکّوں کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈیڑھ سو سال تک یونانیوں کی بادشاہی ہندوستان میں
رہی ہے مگر اس روزنامہ میں اس واقعہ طویلہ کی نسبت جس نے ڈیڑھ صدی ختم کے اشارہ تک بھی پایا نہیں جاتا تو پھر کیا اس بیہودہ اور پُرفریب جعل کا نام روزنامچہ رکھنا چاہئے انگلستانی مؤرّخوں نے بڑی تحقیقات کرکے ثابت کیا ہے کہ ویدوں کا زمانہ چار ہزار برس کے اندر اندر پایا جاتا ہے اور میری دانست میں ویدوں کا زمانہ معلوم کرنے کے لئے خود ویدوں کا ہی غور سے پڑھنا کافی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندو لوگ تاریخ کے بہت کچّے ہیں اور جھوٹ بولنا اور لاف مارنا
یورپ کے محقّقوں نے بڑی چھان بین کے بعد ویدوں کی تالیف کا زمانہ چودھویں صدی قبل از سنہ عیسوی قرار دیا ہے اور ان کی اس رائے کا صحیح ہونا بہت پختگی کے ساتھ ایک مقام سے جس کو سر ایڈورڈ کالبروک صاحب نے بیدوں میں دریافت کیا ہے صحیح ٹھہرتا ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 390
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 390
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/390/mode/1up
اور مبالغہ کرنا شاید ان کے مذہب میں ثواب میں داخل ہے کیونکہ کوئی قول و فعل ان کا دروغ گوئی یا بیہودہ مبالغات سے خالی نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ مہا بھارت۔ رامائن۔ بھاگوت۔ منو شاستر اور دوسرے پرانوں اور خود ویدوں کے پڑھنے سے یہ عادت ان کی صاف ثابت ہوتی ہے۔
بالآخر اگر ہم اس قدر صاف اور روشن ثبوتوں سے قطع نظر کرکے فرض کے طور پر مان بھی لیں کہ وید کسی قدر پرانے ہیں تو کیا بغیر ثابت ہونے ذاتی خوبیوں کے صرف کسی قدر پرانا ہونا ان کو خدا تعالیٰ کا کلام بنادے گا ہرگز نہیں۔ ظاہر ہے کہ بزرگی بعقل است نہ بسال۔ حکماء جنہوں نے علمؔ حیوانات میں تحقیق کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ سنگ پشت یعنی کچھوے کی عمر بڑی ہوتی ہے یہاں تک کہ بغیر کسی خارجی صدمہ کے شاذ و نادر مرتا ہے۔ بہت کچھوے ایسے ہوں گے کہ جو ابتدائی زمانہ میں پیدا ہوکر اب تک زندہ موجود ہیں۔ پس اگر ویدوں کی قدامت بغیر ثبوت ان کے اندرونی کمالات کے تسلیم بھی کرلی جائے تو غایت درجہ ان کا
چنانچہ تشریح اس کی وہ یوں لکھتے ہیں کہ ہر بید میں علم ہیئت کا ایک ایک رسالہ اس غرض سے لگا ہوا ہے کہ پتری کی ترتیب معلوم ہووے۔ اور اس سے فرائض منصبی کے اوقات دریافت ہوجایا کریں۔ پس وہ صریح اور قطعی دلیل جس پر انہوں نے اپنی مذکورہ بالا رائے قائم کی ہے یہ ہے کہ جو مقام راس سرطان اور راس جدی کا اس رسالہ میں قرار دیا ہے وہ وہی مقام ہے جو چودھویں صدی قبل از سنہ عیسوی میں ان دونوںؔ راسوں کا تھا۔ پس کچھ شک نہیں کہ بیدوں کی تالیف اسی زمانہ میں ہوئی تھی۔ (ماخوذ از تاریخ ہند مؤلفہ الفنسٹن صاحب)
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 391
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 391
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/391/mode/1up
مرتبہ کچھوے کی مانند ہوگا۔ غرض صرف پیرانہ سالی فضیلت پر ہرگز دلیل
نہیں ہوسکتی بلکہ بغیر حصول کمالات معنوی کے سن وسال میں پرانا ہوجانا اسی مثل کا مصداق ہوگا کہ گو سالہ ما پیر شد گاؤ نشد اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ویدوں کے پرانے ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہاں اگر یہ کہو کہ ویدوں کا ُ پرعیب ہونا ہی ان کے پرانے ہونے پر دلیل ہے۔ تو شاید یہ وجہ قبول ہوسکے کیونکہ پیری و صدعیب چنیں گفتہ اند۔ پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ بجُز ذاتی کمالات کے جس قدر خارجی بزرگیاں ہیں خواہ وہ کبر سن ہو یا کثرت دولت یا حصولِ حکومت یا شرفِ قومیّت وغیرہ وغیرہ وہ سب ہیچ ہیں اور صرف انہیں کے لحاظ سے بزرگی کا دم مارنا گدھوں کا کام ہے نہ انسانوں کا۔ میں نے سنا ہے کہ لارڈ النبرا صاحب بہادر کی بیوی جو پہلے زمانہ میں ہندوستان کے گورنر جنرل تھے ایک بزرگ خاندان میں سے تھی جو قدیم ہونے کا دعویٰ کرتا تھا پھر اس پر دوسری بزرگی اس لیڈی صاحبہ کو یہ حاصل ہوئی جو لاٹ صاحب کی جورو بنی۔ اب اس کے ذاتی کمالات کا بھی حال سنیئے۔ کہتے ہیں کہ یہ عورت اب تک زندہ ہے اور اگرچہ جائز طور پر نو خسم بھی کرچکی ہے مگر آشناؤں کی کچھ گنتی نہیں اور اکثر آشناؤں کے ساتھ بھاگتی بھی رہی ہے پھر آخر عبدل نامی مسلمان قوم ُ شتربان سے نکاح کیا اور اس کے تلے بھی نہ ٹھہریں۔ اب فرمائیے حضرت کہ اس عورت کی دونوں بزرگیاں اس ذاتی بے شرمی کے ساتھ کچھ مقابلہ کرسکتی ہیں سو آپ کا وید پرانا ہی سہی فرض کرو کہ بابا آدم سے پہلے کا ہے لیکن ہم مکرّر عرض کرتے ہیں کہ صرف قدامت کی وجہ سے بزرگ نہیں ٹھہرسکتا مگر شائد جاہلوں کی نظر میں۔ ہاں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 392
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 392
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/392/mode/1up
اگر وید کی بزرگی ثابت کرنی ہے اور ربّانی کلام ہونے کا ثبوت اس میں
دکھلانا ہے تو اس کی ایسی ذاتی خوبیاں اور اندرونی خاصیتیں اور برکتیں دکھلاؤ جن کی وجہ سے وہ ایسا بے نظیر ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ بے نظیر ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز خدا تعالیٰ سے صادر ہے اس کی مثل بنانے پر کوئی بشر قادر نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ ایک مکھی کے بنانے سے بھی تمام مخلوق عاجز ہے۔ دوسرے ہمیںؔ یہ بھی صریح نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف اپنے قول میں نہیں بلکہ اپنے فعل میں بھی اپنے ارادوں کو ظاہر کیا ہے۔ سو قول اور فعل کا تطابق بھی ضروری ہے۔ تیسرے ہم یہ بھی وجدان کے طور پر پاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی پاک اور کامل صفتوں کی طرف ہمیں بھی ایک روحانی میلان بخشا ہے یا یوں کہو کہ باطنی طور پر ایک قوّت حاسّہ ہمیں عطا کی گئی ہے جس سے ہم فی الفور معلوم کرجاتے ہیں کہ کون سی صفات خدا کی شان کے لائق ہیں اور کون کون سی صفتیں منافی شان الوہیّت ہیں سو ربّانی کلام کی شناخت کرنے کے لئے یہی تین علامتیں ہیں مگر کیا یہ علامتیں ویدوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ پنڈت دیانند جنہوں نے نرکت اور نکھٹو کی معتبر کتب کا چھان بین کیا ہے ان کو وید کا یہ خلاصہ ہاتھ لگا کہ جس چیز کو پرمیشر کہا جاتا ہے وہ کروڑہا قدیم اور انادی اور غیر مخلوق وجودوں میں سے ایک وجود ہے جو وجوب ہستی میں ان سے مساوی اور قدیم ہونے میں ان کے برابر اور باعتبار وجودی انتشار کے ان سے نہایت کم ہے اب ہم دیانند کو آفرین نہ کہیں تو اور کیا کہیں جس نے ویدک توحید ایسی ثابت کی کہ پُورا نے مشرکوں کے بھی کان کاٹے۔ کیونکہ گو قدیم مشرک ویدوں کے ماننے والے اب تک یہ تو مانتے آئے تھے کہ ہمارے ویدوں میں سورج چاند
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 393
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/393/mode/1up
اگنی اور بشن وغیرہ کی ضرور پوجا لکھی ہے اور ان سے مرادیں مانگنے کا حکم ہے۔
مگر یہ پاک مسئلہ ویدوں کا ابھی تک ان کو بھی نہ سوجھا تھا کہ ذرّہ ذرّہ اپنی ہستی میں خدا سے بے نیاز اور قدامت میں اس سے برابر اور باعتبار وجودی انتشار کے اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ ویدک گیان دیانند ہی کے حصہ میں تھا۔ دیکھو اب اس وید کے اصول میں کس قدر خرابیاں ہیں۔ اول تو جب پرمیشر ہریک چیز کا سہارا اور ہریک ظہور کا مظہر اصلی نہ ہوا تو پھر کاہے کا پرمیشر ہوا۔ صرف کروڑہا قدیم وجودوں میں سے وہ بھی ایک وجود ٹھہرا جو ان قدیمی باشندوں میں سے صرف ایک باشندہ ہے۔ دوسری بڑی بھاری یہ خرابی کہ وجودی انتشار کے لحاظ سے وہ بے شمار روحوں کے مقابل پر ایک ذرّہ کی طرح ٹھہرا کیونکہ بلاشبہ دو قدیم الوجود کا وجودی انتشار ایک قدیم سے بہت زیادہ ہوتا ہے پس جبکہ کروڑہا روحیں جن کا شمار اسی خالق کو معلوم ہے وید کے رو سے قدیم اور واجب الوجود ٹھہریں تو پرمیشر بیچارہ کا وجود ان بے شمار قدیم وجودوں کے آگے کیا ہستی اور حقیقت رکھتا ہے۔ بلاشبہ بہت سے قدیم وجودوں کا وجودی انتشار ایکؔ وجود سے اس قدر زیادہ ہوگا کہ اس کو کچھ بھی ان سے نسبت نہیں ہوگی۔ تیسری بڑی شنیع خرابی یہ ہے کہ جب پرمیشر کی روح اور دوسری تمام روحیں قدامت اور واجب الوجود ہونے میں ایک ہی خصلت اور سیرت اور خاصیّت رکھتے ہیں تو وہ خواہ نخواہ متّحد الحقیقت بھی ہوں گے۔* لیکن
ستیارتھ پرکاش کے صفحہ ۲۶۳ میں پنڈت دیانند اقرار کرچکے ہیں کہ روح ایک دقیق جسم ہے جو بدن سے نکلنے کے بعد شبنم کی طرح زمین پر گرتی ہے اور پھر ٹکڑے ٹکڑے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 394
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/394/mode/1up
ہوکر کسی گھاس پات وغیرہ پر پھیل جاتی ہے۔ اب ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اگر روح جسم و جسمانی چیز ہے تو اس سے لازم آگیا کہ بموجب ہدایت وید پرمیشر بھی ضرور جسم و جسمانی ہوگا۔ اور وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرنے اور کھائے جانے کے قابل ہے شائد اسی خاصیّت کے رو سے اندر پرمیشر کی روح زمین پر گر کر کوسیکارشی کی جو رو کے پیٹ میں جا ٹھہری تھی جس کی نسبت رگوید اشتک اول میں صاف صاف یہی بیان درج ہے۔ اب اے آریہ! مبارک باد کہ تمہارے پرمیشر کی ساری حقیقت کھل گئی اور خود دیانند کی گواہی سے ثابت ہوگیا کہ تمہارا پرمیشر ایک دقیق جسم ہے جو دوسری روحوں کی طرح زمین پر گرتا اور ترکاریوں کی طرح کھایا جاتا ہے تب ہی تو وہ کبھی رام چندر بنا اور کبھی کرشن اور کبھی مچھ اور ایک مرتبہ تو خوک
یعنی سُور بن کر اور خوکوں کے موافق غذائیں لطیف کھا کر اپنے درشن کرنے والوں کو خوش کردیا۔ تعجب کہ جن کے پرمیشر کا یہ حال ہو وہ قرآن شریف پر اعتراض کریں کہ اس میں ایسی کوئی آیت نہیں کہ خدا تعالیٰ کو جسم و جسمانی ہونے سے پاک قرار دیتی ہو حالانکہ قرآن شریف کیؔ پہلی آیت ہی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جسم اور جسمانی ہونے سے پاک ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ‏
عنے خدا ہی کو سب تعریف اور حمد اور مدح ہے وہ کیسا ہے! تمام عالموں کا ربّ ہے جس کی ربوبیت ہریک عالم کے شامل حال ہے۔ اب ظاہر
ویدوں میں اس بات کا بہت تذکرہ ہے کہ پرمیشر کی روح اور دوسری چیزوں کی روح متّحد الحقیقت ہیں۔ چناچہ یجر وید میں ایک شرتی یہ ہے منش کی آتما (روح) کہتی ہے کہ وہ پرمیشر جو سورج میں ہے میں ہی ہوں۔ دیکھو یجز وید
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 395
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/395/mode/1up
یعنی سُور بن کر اور خوکوں کے موافق غذائیں لطیف کھا کر اپنے درشن کرنے والوں کو خوش کردیا۔ تعجب کہ جن کے پرمیشر کا یہ حال ہو وہ قرآن شریف پر اعتراض کریں کہ اس میں ایسی کوئی آیت نہیں کہ خدا تعالیٰ کو جسم و جسمانی ہونے سے پاک قرار دیتی ہو حالانکہ قرآن شریف کیؔ پہلی آیت ہی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جسم اور جسمانی ہونے سے پاک ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنے خدا ہی کو سب تعریف اور حمد اور مدح ہے وہ کیسا ہے! تمام عالموں کا ربّ ہے جس کی ربوبیت ہریک عالم کے شامل حال ہے۔ اب ظاہر ہے کہ عالم ان چیزوں کا نام ہے جو معلوم الحدود ہونے کی وجہ سے ایک صانع محدّد پر دلالت کریں اور لفظ عالم کا اسی معلوم الحدود ہونے سے مشتق کیا گیا ہے اور جو چیز معلوم الحدود ہے وہ یا تو جسم اور جسمانی ہوگی اور یا روحانی طور پر کسی حدّ تک اپنی طاقت رکھتی ہوگی۔ جیسی انسان کی روح۔ گھوڑے کی روح۔ گدھے کی روح وغیرہ وغیرہ حدود مقرّ رہ تک طاقتیں رکھتی ہیں۔ پس یہ سب عالم میں داخل ہیں اور وہ جو ان سب کا پیدا کنندہ اور ان سے برتر ہے وہ خدا ہے۔ اب غور سے دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ وہ جسم اور جسمانی ہونے سے برتر ہے بلکہ یہ بھی ثابت کردیا کہ یہ تمام چیزیں معلوم الحدود ہونے کی وجہ سے ایک خالق کو چاہتی ہیں جو حدود اور قیود سے پاک ہے۔ اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ آریوں کی عقل کو کس قدر تعصّب نے مار لیا ہے کہ جو مضمون قرآن شریف کی پہلی آیت سے ہی نکلتا ہے اس پر بھی نظر نہیں کی اور علمیت کا یہ حال کہ یہ بھی خبر نہیں کہ عالم کسے کہتے ہیں حالانکہ عالم ایک
ادھیائے چالیس منتر سترہ۔ پھر رگ وید بھاگ ۲۔ سکت ۹۰۔ منڈل ۱۰۔ منتر اول میں لکھا ہے کہ پرمیشر کی ہزار آنکھیں اور ہزار سر اور ہزار پاؤں ہیں۔ دوسرے منتر میں ہے کہ سب روحیں اسی کی روح ہیں۔ اور جو کچھ ہے وہی ہے اور تھا بھی وہی۔ اور منتر چہارم میں ہے کہ زمین کی تمام مخلوقات اس کا چوتھا حصہ ہے اور تین حصے آسمان پر ہیں یہ وہ شرتیاں ہیں جن سے ویدانت کے مسائل نکالے گئے ہیں۔ اب پنڈت دیانند کے چیلے خواہ ان شرتیوں کے معنے کسی طور پر کریں مگر بہرحال یہ تو خود دیانند کے اقرار سے اور نیز ان شرتیوں سے ثابت ہے کہ پرمیشر کی روح اور دوسری روحیں متّحد الحقیقت ہیں۔ پس جبکہ دوسری رُوحیں وید کے رو سے ایک جسم دقیق ہیں تو ایسا ہی پرمیشر کی روح بھی ایک جسم دقیق ٹھہری۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 396
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/396/mode/1up
کی اور علمیت کا یہ حال کہ یہ بھی خبر نہیں کہ عالم کسے کہتے ہیں حالانکہ عالم ایک
ایسا لفظ ہے جو ہریک فلسفی اور حکیم اس کے یہی معنے لیتا ہے اور قرآن شریف کی عام اصطلاح میں اوّل سے اخیر تک یہی معنے اس کے لئے گئے۔ اور دنیا کی تمام پابند الہامی کتابوں کے بجز نرے اندھوں کے یہی معنے لیتے ہیں۔ سو اس فاش غلطی سے آریوں کی دماغی روشنی کی حقیقت کھل گئی۔ اب ایک چُلّو پانی میں ڈوب مریں کہ ایسی فاش غلطی کھائی۔ ہم انشاء اللہ رسالہ قرآنی طاقتوں کے جلوہ گاہ میں یہ ثابت کرکے دکھلائیں گے کہ وید تو خود دشمن صفات الٰہی ہیں اور کوئی دوسری کتاب بھی ایسی نہیں جو صفات الٰہی کے پاک بیان میں قرآن شریف کا مقابلہ کرسکے۔ ہاں بائیبل میں کچھ صداقتیں تھیں مگر عیسائیوں اور یہودیوں کی خائنانہ دست اندازیوں نے ان کے خوبصورت چہرہ کو خراب کردیا۔ اب قرآن شریف کی تو یہ مثال ہے کہ جیسی ایک نہایت عالی شان عمارت ہو جس میں ہریک ضروری مکان قرینہ سے بنا ہوا ہے نشست گاہ الگ ہے باورچی خانہ الگ۔ خواب گاہ الگ۔ غسل خانہ الگ۔ اسباب خانہ الگ۔ اردگرد نہایت خوشنما باغ اور نہریں جاری اور دیانتدار خادم اورؔ محافظ جابجا موجود۔ لیکن بائیبل کی یہ مثال ہے کہ اگرچہ ابتدائی زمانہ میں کسی قدر اپنے اندازہ پر اس کی بھی عمارت عمدہ تھی ضرورت کے مکان اور کوٹھریاں اور نشست گاہ وغیرہ بنی ہوئی تھیں ایک باغیچہ بھی اردگرد تھا۔ اتنے میں ایک ایسا زلزلہ آیا کہ مکان بیٹھ گیا۔ درخت اکھڑ گئے۔ نہروں اور صاف پانی کا نشان نہ رہا۔ اور امتداد زمانہ سے بہت سا کیچڑ اور گندگی اینٹوں پر پڑگئی۔ اور اینٹیں کہیں کی کہیں سرک گئیں ۔وہ قرینہ کی عمارت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 397
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/397/mode/1up
اور اپنے اپنے موقعہ پر موزون اور پاکیزہ مکان جو تھے وہ سب نابود ہوگئے۔
ہاں کچھ اینٹیں رہ گئیں جن کو چوروں نے اپنی مرضی کے موافق جس جگہ چاہا رکھا۔ درختوں کا بھی یہی حال ہوا کیونکہ وہ گرجانے سے بجز جلانے کے اور کسی لائق نہ رہے۔ اب بیابان سنسان پڑی ہے بجز نالائق چوروں کے اور کوئی سچا خادم بھی نہیں اور خود مسمار شدہ گھر اور گرے ہوئے باغ میں سچے خادم کا کیا کام۔
خیر عیسائیوں کی خرابیوں کا تو اس جگہ ذکر کرنا موقعہ نہیں صرف آریوں کے تعصبات کو دکھلانا منظور ہے۔ میں نے آج تک کسی کی جہالت پر ایسا تعجب نہیں کیا اور نہ کسی کے تعصّب سے میں ایسا حیرت زدہ ہوا جیسا ان سوجاکھے آریوں کے قول سے کہ قرآن شریف خداتعالیٰ کو جسم اور جسمانی بتلاتا ہے اور تنزیہ کی آیت کوئی نہیں۔ کیسے اندھے ہیں کیا وہ جو اپنے کلام کے شروع میں ہی اپنی ذات کو عالمین سے برتر اور ان کا ربّ بتلاتا ہے وہ اس بات کا قائل ہوسکتا ہے کہ میں عالمین میں داخل اور جسم اور جسمانی ہوں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس کی تعلیم اس قدر عالی ہے کہ
فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ‌ؕ
فرماتا ہے کہ جدھرُ منہ پھیرو اُدھر ہی خدا ہے۔ کیا وہ جو کہتا ہے کہ
اللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‌ؕ
کہ اس کا نورِ قدرت ساری زمین وآسمان اور ذرّہ ذرّہ کے اندر چمک رہا ہے۔ کیا وہ جو فرما رہا ہے کہ
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الْحَىُّ الْقَيُّوْمُؕ‏
لجزو نمبر۳۔۳؂ کہ وہی معبود برحق ہریک چیز کی جان اور ہریک وجود کا سہارا ہے۔ کیا وہ بتلا رہا ہے کہ
الجزو نمبر ۲۵
کہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 398
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/398/mode/1up
اس کی مانند کوئی بھی چیز نہیں بصارتیں اور بصیرتیں اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتیں اور
اُس کو ہریک نظر اور فکر کی حدود معلوم ہیں۔ کیا جس نے یہ کہا کہ
الجزو ۲۶۔۱؂ کہ میںؔ انسان سے ایسا نزدیک ہوں کہ ایسی اس کی رگ جان بھی نہیں۔ کیا جس نے یہ فرمایا کہ
الجزو نمبر ۲۵؂ کہ خدا وہ ہے جو ہریک چیز پر احاطہ کررہا ہے۔ کیا ایسی پاک اور کامل کی نسبت کوئی عقلمند شبہ کرسکتا ہے کہ اس نے خدا کو جسم اور جسمانی ٹھہرا کر بزمرہ عالمین داخل کردیا ہے۔ مگر جو کچھ ویدوں پر وارد ہوتا ہے میں نہیں جانتا کہ آریہ لوگ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ ابھی ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ویدوں کی رو سے خدا تعالیٰ ایک باریک جسم ہے جو شبنم کی طرح زمین پر گرنے کے قابل ہے اور انشاء اللہ رگوید کی اور کئی شرتیاں بھی بطور نمونہ لکھی جائیں گی اور چونکہ خداوند کریم نے لاکھوں دلوں میں ہماری نسبت اخلاص اور محبت کو ڈال دیا ہے یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں بھی بہت سی شہرت دے کر کئی نیک خیال اور بہت عمدہ سنسکرت دان لوگوں کو اس طرف رجوع دے دیا ہے اس لئے ہمارا یہ بھی ارادہ ہے کہ اگرچہ کچھ بھی ضرورت نہیں مگر ان دوستوں کی امداد سے اس کاگ بھاشا یعنے سنسکرت کی اصل شرتیاں اور نیز انگریزی عبارت بھی جو ویدوں کا ترجمہ ہے کبھی کبھی رسالہ میں درج ہوا کرے کیونکہ بہت سے قابل آدمی اس خدمت کے لئے بھی موجود ہیں اگرچہ ہم ایسا کرنے کو مستعد ہیں اور توفیق الٰہی نے سارا سامان اس کا مہیا کردیا ہے مگر پھر بھی آریوں پر ہرگز امید نہیں کہ وہ اپنے بدنام کنندہ تعصّب کا ُ منہ کالا کرکے انصاف کی طرف
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 399
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/399/mode/1up
قدم اٹھاویں کیونکہ صریح دیکھا جاتا ہے کہ جن انگریزوں نے سنسکرت میں
بڑے بڑے کمالات پیدا کئے اور جن لائق برہموؤں نے اس گم گشتہ زبان میں بڑی بڑی لیاقتیں پیدا کیں یہاں تک کہ ویدوں کے بھاش بنائے ان فاضل لوگوں کی رائے کو بھی ان حضرات نے قبول نہیں کیا۔ آپ تو انہیں وید کا مکھی برابر بھی علم نہیں صرف دیانندی خیالات پر گزارہ ہے مگر دوسروں کے سامنے باتیں بناتے ہیں۔ ہریک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ کسی مذہب پر اعتراض کرنے کے لئے ان کے مسلّمہ اصولوں کو معلوم کرلینا کافی ہے۔ کیونکہ درحقیقت اصول ہی مرکز دائرہ مذہب ہوتے ہیں اور انہیں پر بحث ہوتی ہے۔ اگر مسلمانوں کو بغیر سنسکرت پڑھنے کے ہندوؤں کے ساتھ بحث جائز نہیں تو پھر ہندوؤں کو بغیر عربی پڑھنے کے مسلمانوں پر کوئی اعتراض کرنا کب جائز ہے۔ اندرمن کون سی عربی پڑھا ہوا ہے لیکھرام کو کیا ایک آیت پڑھنے کی تمیز ہے اور پھر یہ دونوں نرے کو دن اور عربی سے سراسر جاہل کیا استحقاق رکھتے ہیں کہ قرآنی تعلیم اور عقائد کا نکتہ چینی کے طور پر نام بھیؔ لیں۔ انہیں تو اپنے سنسکرت کی بھی خبر نہیں چہ جائیکہ عربی کے دو لفظ بھی جوڑ سکیں۔ یا صحیح پڑھ سکیں۔ اور دیانند تو اردو پڑھنے سے بھی بے نصیب تھا تو پھر کیوں اس نے مسلمانوں کے ساتھ بحثیں کیں اور بہت کچھ وید بھاش اور ستیارتھ پرکاش میں اپنی بدبودار جہالت کا گند چھوڑ گیا۔ سو مسلمان اس طریق پر ہرگز اعتراض نہیں کریں گے کہ کسی کو عربی نہیں آتی بلکہ وہ دیکھیں گے کہ جس بات پر اعتراض کیا گیا ہے وہ درحقیقت ہمارا اصول ہے یا نہیں پھر جیسی صورت ہو ویسا عمل کریں گے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 400
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 400
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/400/mode/1up
پارلیمنٹ لنڈن میں صدہا اپیل ہندوستانی عدالتوں کے انگریزی میں
پیش ہوتے ہیں مگر حکّام مجوّ ز پر ہرگز یہ اعتراض نہیں ہوتا کہ تمہیں تو اردو کی ہی خبر نہیں تم فیصلہ کیا کرو گے کیونکہ جب بیانات فریقین اور گواہوں کی شہادت یا تحریری ثبوت اور ماتحت حکام کی رائیں صحیح طور پر انگریزی میں ترجمہ ہوچُکیں پھر اردو کی کیا حاجت رہی۔ سو ہم کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہی سو دائیوں کی طرح آریوں کے دل میں وہم بیٹھا ہوا ہے تو کیوں وہ بہ ثبت مواہیر اپنا نیا عقائد نامہ چھپوا نہیں دیتے جس میں بہ تفصیل لکھا جائے کہ ہم پہلے عقائد مشتہرہ سے دست بردار ہیں اور اب نئے عقیدے ہمارے یہ ہیں۔ پھر دیکھیں کہ ان عقیدوں کی بھی کیسی خبر لی جاتی ہے۔
میں قطعًاو یقیناً کہتا ہوں کہ عام ہندوؤں کا وید وید کرنا اسی زمانہ تک ہے کہ جب تک انہیں ویدوں کے مضامین کی خبر نہیں کیا خوب ہو کہ گورنمنٹ انگریزی عامہ خلائق کا دھوکا دُور کرنے کے لئے ویدوں کا تحت اللّفظ اردو ترجمہ ایک ایسی منتخب سوسائٹی سے کرا وے جس میں آریوں کے لائق ممبر بھی شامل ہوں اور چند فاضل برہمو اور انگریز بھی اس کمیٹی میں داخل ہوں اور پھر وہ ترجمہ عام طور پر ہندوؤں وغیرہ میں تقسیم کیا جائے۔ ہندوؤں کو ویدوں سے یہاں تک بے خبری ہے کہ گائے بیل کا نہ مارنا بھی ایک مذہبی عقیدہ سمجھا گیا ہے اور کھانا تو درکنار اس گوشت کا دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے حالانکہ منو شاستر جس پر پنڈت دیانند بہت سا اپنی باتوں کا مدار رکھتے ہیں بآواز بلند کہہ رہا ہے کہ بیل کا گوشت کھانا نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کی بات ہے اور رگ بید اشتک اوّل میں لکھا ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 401
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 401
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/401/mode/1up
جس کھال سے ہوم کے اعمال ادا ہوتے ہیں وہ ضرور گائے کی کھال چاہیئے۔
مگر اب گائے کے ذبح کرنے سے بڑھ کر ہندوؤں کے نزدیک اور کوئی گنہؔ کبیرہ نہیں اگرچہ ابھی تک پہاڑی راجے اپنے مقرری دنوں میں بھینسوں کو تلوار سے کاٹتے ہیں اور جوالا مکھی اور دوسری کئی جگہوں پر دیویوں کو خوش کرنے کے لئے یہ کام ہوتے رہتے ہیں۔ مگر کبھی تعصب کے پردوں سے اس طرف خیال نہیں آتا کہ یہ اسی ویدک حکم کے آثار باقیہ ہیں۔ یجر وید ادھیائے چوبیس منتر ۲۷ میں صاف لکھا ہے کہ براسپتی کے لئے گائے کی قربانی کی جائے اور رگوید اشتکا ۲۔ ادھیا ۳۔ سوکت ۶ میں اس گوشت کے کھانے کی صریح اجازت ہے بلکہ رگوید منڈل ۶ سوکت ۱۶ میں بڑی محبت سے لکھا ہے کہ گائے کا گوشت سب سے عمدہ خوراک ہے۔ پھر رگوید اشتک چار ادھیا ایک میں تذکرہ کے طور پر بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ تین سو بھینسوں کی سوختنی قربانی ہوئی اور حال میں جو ایک پنڈت صاحب کی طرف سے ایک کتاب کلکتہ میں چھپی ہے جس کی کاپیاں جابجا مشتہر ہوئی ہیں وہ نہ صرف جائز بلکہ بڑے زور سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں گائے کا گوشت بڑے شوق سے کھایا جاتا تھا اور عمدہ عمدہ چربی دار ٹکڑے برہمنوں کی نذر ہوتے تھے اور رگوید اشتک اول کی ایک شرتی کی شرح میں پروفیسر ولسن صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بڑی محکم گواہی وید کی اس بات پر ہے کہ وید کے زمانہ میں عام طور پر گائے کا گوشت کھایا جاتا تھا اور جابجا ہندوؤں کی دکانوں میں بکتا تھا۔
اب انصاف کرنے کی جگہ ہے کہ جس گائے کے کھانے کے لئے یہ تاکیدیں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 402
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 402
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/402/mode/1up
ہیں اب اس کو حرام سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آریوں کو وید
کی کچھ بھی پروا نہیں وہ صرف دکھانے کے دانت رکھتے ہیں نہ کھانے کے۔ پھر سوچنا چاہیئے کہ وید کی مشرکانہ تعلیم کیسی سارے جہان میں مشہور ہورہی ہے چوداں کروڑ ہندو اس میں گرفتار ہیں جگن ناتھ اور گنگا کی طرف کیسے نعرے مارتے ہوئے ایک خلقت چلی جاتی ہے لیکن دیانند کو اسلامی توحید کا زور و شور دیکھ کر اب فکر پڑی کہ وید ہاتھ سے جاتا ہے اس کے لئے کچھ تدبیر کرنی چاہیئے مگر درحقیقت اس نے ویدوں کا کچھ ہُنر نہیں دکھلایا بلکہ کئی اور گند اس کے کھول گیا۔ انگلینڈ امریکہ جرمن فرانس میں ویدوںں کا ترجمہ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی نظر سے گزرا ہے مگر کسی کی بلا کو بھی خبر نہیں کہ وید میں توحید بھی ہے۔ انہیں انگریزوں نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا تو قرآنی توحید نے یورپ کے ملکوں میں ہل چل ڈال دی یہاں تک کہ لائل*صاحب اور جون ڈیون پورٹ وغیرہ نامی انگریزوں نے جن کی کتابیںؔ حمایت اسلام وغیرہ چھپ کر ہندوستان میں بھی آگئی ہیں قرآنی عظمتوں اور اس کی پاک توحید پر ایسی شہادتیں دیں کہ باوجود بہت سے موانع تعصّب کے انہیں کہنا پڑا کہ فرقان مضامینِ توحید میں اور عیوب سے منزّہ ہونے میں ایک بے مثل کتاب ہے جس کے عقائد بالکل عقل کے مطابق اور ایک حکیم کا مذہب ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک فاضل انگریز بلنٹ نام جنہوں نے حال میں اسلام کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے والے پیغمبر اسلام ہیں۔ انہوں نے وحدانیت الٰہی کو اس اعلیٰ درجہ پر پھیلایا ہے کہ عرب کے ریگستان میں اب تک توحید کی خوشبو آتی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 403
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 403
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/403/mode/1up
اب بتلانا چاہیئے کہ وید کی توحید کی نسبت کس ثالث نے گواہی دی دونوں
ترجمے قرآن اور وید کے انگلینڈ اور فرانس وغیرہ میں گئے آخر ان ثالثوں کی بھی رائے ہوئی کہ قرآن میں توحید اور وید میں شرک بھرا ہوا ہے۔
اب ہم اپنی پہلی تقریر کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے لئے یہ نہایت دل توڑنے والا واقعہ اور سخت صدمہ اٹھانے کی جگہ ہے کہ وہ حقیقی علامتیں ربّانی کتاب کی جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں وید میں پائی نہیں جاتیں۔
(۱) وید میں خدا تعالیٰ کی خوبیاں نہیں بلکہ اس کے نقص اور عیب بیان کئے ہیں کہ وہ ایک
ذرّہ کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں کیونکہ اصل الاصول وید کا وجوب تناسخ ہے اور مسئلہ دائمی تناسخ کے وجوب کا تب ہی قائم رہ سکتا ہے کہ جب ہریک چیز کو پرمیشر کی طرح غیر مخلوق سمجھا جائے اور نیز یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ جاودانی مکتی پانے کی راہ مسدود ہے سو کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت نہ رکھنا اور ہمیشہ کی مکتی دینے پر بھی قادر نہ ہونا یہ صریح اس ذات کا نقص اور عیب ہے جس کو تمام کائنات کا خدا اور پرمیشر کہا جائے۔
(۲) وید میں روحانی برکتیں اور پاک خاصیتیں بھی نہیں کیونکہ آریہ لوگ بلکہ تمام ہندو خود تسلیم
کرتے ہیں کہ بجز وید کے رشیوں کے دوسروں پر حقیقی عرفان کا دروازہ بند ہے۔ حقیقی عرفان باتفاق جمیع عارفین اُس معرفت تامہ کا نام ہے جو قال کو حال کے آئینہ میں دکھلاوے اور علم الیقین کو حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچاوے یعنی جس گیان کو بچوں کی طرح کتاب میں پڑھا گیا ہے وہ خود اپنے نفس پر وارد بھی ہوجائے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ کامل مرید وہ ہے کہ ہوبہو اپنے مرشدؔ کا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 404
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 404
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/404/mode/1up
رُوپ بن جاوے اور جو کچھ اصلی اور تفصیلی طور پر مرشد پر فیض ہوا تھا
اس پر ظلّی اور اجمالی طور پر وہی فیض ہوجائے۔ غرض تمام نقوش روحانی میں مرشد کا ایک نمونہ ٹھہرجائے یہی علّت غائی کتاب الٰہی اور رسول کی ہے تا ایک چراغ سے ہزاروں چراغ روشن ہوجائیں لیکن اس عرفان سے ویدؔ ہندوؤں کو جواب دے رہا ہے۔ ویدوں کے رو سے یہ بات غیرممکن ہے کہ کوئی شخص وید کی پیروی کرکے وہ سچا گیان اور عرفان پاسکے جو بقول اُن کے رشیوں کو حاصل ہوا تھا یعنی محض قیل و قال سے ترقی کرکے براہ راست خدا تعالیٰ سے مکالمہ و مخاطبہ نصیب ہوجائے حالانکہ وید ہی اس بات کے قائل ہیں کہ بجز سچّے گیان کے مکتی نہیں ہوسکتی۔ پس اس سے ثابت ہے کہ خود وید کے اقرار سے بجز چار رشیوں کے اور کسی ہندو کو مکتی نصیب ہی نہیں۔
غرض ویدوں میں کتاب الٰہی ہونے کی یہ علامت پائی نہیں جاتی کہ حقیقی عرفان کا دروازہ نہ صرف چار مجہول الاسم شخص پر بلکہ تمام دنیا پر کھولتے ہوں پس جب کہ جس مطلب کے لئے کتاب الٰہی آیا کرتی ہے وہ مطلب ہی ویدوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اور گنہ سے پاک ہونا صرف ہزاروں جونوں کی سزا پر موقوف ہے تو وید کس مرض کی دوا ہیں۔
(۳) ایساہی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فعل سے ویدوں کی ہدایت کچھ مطابقت نہیں
رکھتی کیونکہ زمین و آسمان پر نظر ڈالنے سے صریح ہمیں نظر آتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نہایت ہی کریم ہے اور سچ مچ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے
اس کی نعمتیں شمار سے خارج ہیں۔ مگر ویدوں کی یہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 405
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 405
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/405/mode/1up
تعلیم ہے کہ ایک ذرّہ بطور عطیہ محض کے عطا نہیں ہوا بلکہ جو کچھ انسانوں کو
ان کے آرام کی چیزیں دی گئی ہیں وہ انہیں کے گذشتہ کرموں کا پھل ہے اور ان چیزوں کو ظہور میں لانے والے اصل میں انہیں کے اعمال ہیں گویا زمین‘ آسمان چاند سورج ستارے عناصر نباتات جمادات وغیرہ جن میں انسانی وجود کے لئے فوائد بھرے ہوئے ہیں وہ آریوں کے کسی پہلے نیک کرم سے وجود پذیر ہوئے ہیں اور اگر آریوں کے اعمال صالحہ نہ ہوتے تو نہ زمین ہوتی نہ آسمان ہوتا نہ چاند نہ سورج نہ ستارے نہ نباتات نہ جمادات غرض کچھ بھی نہ ہوتا۔ اب اے ناظرین بتلاویں کہ کیا اس سے بیہودہ تر دنیا میں کوئی اور مذہب بھی ہوگا اور نیز ایک طرفؔ تو یہ لوگ گائے بیل گھوڑے وغیرہ حیوانوں کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ کسی سابق بدعملی سے یہ پیدا ہوئے ہیں اور ایک طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے نیک عملوں نے ان کو گائے بیل وغیرہ بنایا ہے کیونکہ یہ ہمارے آرام پانے کی چیزیں ہیں۔ سو دیکھنا چاہیئے کہ ان کے خیالات میں کس قدر تناقض ہے ایک بات دوسری بات کو ردّ کرتی ہے۔ پھر سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ بات قرین قیاس ہے کہ سورج و چاند و زمین وغیرہ انسان کی پیدائش کے بعد اور اس کے نیک عملوں سے پیچھے پیدا ہوئے ہیں اور کیا یہ درست ہوسکتا ہے کہ جس قدر یہ نعمتیں ہیں ایک نالائق انسان اسی قدر عمل بھی کرتا ہے اور جیسے دام دیتا ہے اُسی قدر وہاں سے جنس بھی ملتی ہے آج کل اگر ایک چوہڑے یا ساہنسی کو بھی یہ صاف صاف باتیں سمجھائی جائیں تو اس کوسمجھنے میں ذرّہ بھی دقت نہ ہو۔ مگر یہ لوگ اب تک نہیں سمجھتے اور بڑے حیا سے ابھی تک مونہہ پر یہی بات ہے کہ اَور سب کتابیں ملمّع اور کھوٹی ہیں۔ اور وید کھرا سونا ہے۔ سو
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 406
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 406
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/406/mode/1up
اے منصفین ہم نے یہ وید کا سونا آپ لوگوں کے آگے رکھ دیا ہے اب آپ لوگ
خود سوچ لیں کہ کہاں تک اس سونے میں خالصیّت بھری ہوئی ہے۔
(۴) ایسا ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری کانشنس اور نور قلب سے جو ہم کو عطا کیا گیا ہے وید کی تعلیمیں مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ ہمارا کانشنس ہرگز ان باتوں کو قبول نہیں کرتا کہ جس پر ہماری ساری زندگی کا سہارا ہے اور جو ہماری ہریک تربیت کا سرچشمہ ہے وہ ایسا کمزور ہو کہ نہ تو از خود پیدا کرسکے نہ کوئی رحمت پہنچا سکے نہ ہمیشہ کے لئے نجات دے سکے نہ توبہ و استغفار سے ہمارا گناہ معاف کرسکے۔ نہ ہماری کوششوں سے ہمیں حقیقی عرفان تک پہنچا سکے غرض کچھ بھی نہ کرسکے۔ تو پھر ایسے کا ہونا کیا اور نہ ہونا کیا۔ اگر یہی پرمیشر ہے تو حقیقت عالم بالا معلوم شد۔ ویدوں کی تعلیم پرستش اس سے بھی عمدہ تر ہے۔ کسی قوم کو مُنصف مقرر کرکے دیکھ لو کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں ہوگا کہ وید مشرکانہ تعلیم سے خالی ہیں ہم نے ویدوں پر بہت غور کی اور جہاں تک طاقت بشری ہے ان کے معلوم کرنے کے لئے زور لگایا آخر ہم پر صاف کھل گیا کہ یہ چاروں وید پرانے مخلوق پرستوں کے خیالات کا مجموعہ ہیں اور اس زمانہ کی بناوٹ ہیں کہ جب کہ سچے قادر تک لوگوں کو رسائی نہیں ہوئی تھی پس وہ لوگ جو علم الٰہیات میں پستؔ نگاہ رکھتے تھے انہوں نے زمانہ کا الٹ پھیر اور حوادث ارضی و سماوی میں اجرام سماوی و عناصر کا بہت کچھ دخل دیکھ کر یہی اپنے دلوں میں سمجھ لیا کہ اگر کوئی ربّ العالمین و مد ّ بر عالم ہے تو یہی چیزیں ہیں ان کے سوا اگر کچھ ہے تو وہ دخل در عالم سے معطل و بے کار ہے۔ سو درحقیقت نفی صفات الٰہی کرنا اور خدا تعالیٰ کو قادرانہ تصرف سے معطّل سمجھنا یہی اصل موجب دیوتا پرستی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 407
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 407
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/407/mode/1up
اور تناسخ کا ہے۔ کیونکہ جب کہ خدا تعالیٰ اپنے مدبرانہ کاموں سے معطّل خیال
کیا گیا تو حاجت براری کے لئے دیوتے گھڑے گئے اور تقدیری تغیرات اور انقلابات کو گزشتہ عملوں کا نتیجہ ٹھہرایا گیا۔ سو اس ایک ہی خیال سے یہ دونوں خرابیاں پیدا ہوگئیں یعنی اواگون اور دیوتا پرستی۔ آریہ سماج والے جنہوں نے ویدوں کی اصلاح کی اپنے ذ ّ مہ سرپرستی لی ہے بڑی جانکاہی سے پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں اور خواہ نخواہ کوشش کررہے ہیں کہ ویدوں کو مشرکانہ تعلیم سے پاک ٹھہرائیں مگر ان کے حق میں کیا خوب ہوتا کہ چاروں وید پردہ زمین سے ایسے نیست و نابود ہوجاتے کہ کوئی مخالف ان کی اندرونی آلائش دیکھنے کا موقعہ نہ پاسکتا۔
رہے وید کے علوم و فنون تو ان کی نسبت تو ہم کچھ بیان کرچکے ہیں اور کچھ اور بھی بیان ہوگا۔ بالآخر یہ بھی ظاہر کرنا قرین مصلحت ہے کہ ہم نے اس آریہ راقم رسالہ کی نسبت قادیان کے ہندوؤں سے سنا ہے کہ اس کی زبان پر ُ سرستی چڑھی ہوئی ہے۔ سو اب ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا اس ُ سرستی کے اتارنے کے لئے اسی قدر ہماری تحریر کافی ہے یا کسی اور تدارک کی بھی ضرورت ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 408
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 408
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/408/mode/1up
ہندوؤں کے ویدوں کی کچھ ماہیّت اور ان کی
تعلیم کا کسی قدر نمونہ
پروفیسر ولسن صاحب اپنے ترجمہ رگوید کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ رگوید کے ایک سو اکّیس منتروں میں سے جو اوّل اشتکا میں ہیں سینتیس صرف اگنی کی ہی تعریف میں ہیں یا اگنی کے ساتھ اور دیوتاؤں کی مہما ان میں درج ہے اور پینتالیس منتروں میں اندر کی مہما برنن ہے اور منجملہ باقی منتروں کے باراں منتر مروت یعنی ہوا کے دیوتاؤں کی تعریف میں ہیں جو کہ اندر کے ہمراہی ہیں اور گیارہ اسونوںؔ کی تعریف میں ہیں جو کہ سورج کے پوتر ہیں۔ چار منتر صبح کے دیوتا کی تعریف میں ہیں اور چارو سویدیوا کی تعریف میں جن کو سر بھو دیوتا بھی کہتے ہیں اور باقی منتروں میں ادنیٰ دیوتاؤں کی مہما برنن ہے۔ اس بیان سے صاف ہویدا ہے کہ اس زمانہ میں عناصر کی پرستش ہوتی تھی۔ تمّ کلامُہ
یہ پروفیسر ولسن صاحب مترجم وید کی رائے ہے جس کو انہوں نے اپنے ترجمہ رگ وید کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ اب ہم بطور نمونہ وہ چند ُ شرتیاں رگ وید کی اس جگہ تحریر کرتے ہیں جن کی صحت کو ہم نے نہ صرف ایک کتاب سے بلکہ کئی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 409
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 409
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/409/mode/1up
وسائل سے اور کامل واقف کاروں کی شہادت سے بپایہ ثبوت پہنچا لیا ہے پس اب آریوں کے لئے ہرگز یہ جائز نہیں ہوگا کہ صرف گردن ہلا کر ان شرتیوں
سے انکار کردیں بلکہ انکار کی حالت میں ان پر واجب ہوگا کہ اگر یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے تو جس ترجمہ کو وہ صحیح سمجھتے ہیں وہ تحت اللفظ مع اپنی شرح کے شائع کرا دیں تا برہمو سماج کے فاضل پنڈت جو سنسکرت پستکوں کے بخوبی واقف ہیں ثالث کی طرح درمیان میں آکر فیصلہ کردیں اور اگر اب بھی آریہ صاحبان چپکے رہے تو پھر ان پر ڈگری ہے اور وہ شرتیاں یہ ہیں۔
رگوید سنتھا اشٹک اول
پہلا ادھیائے ۔انوک ۔۱
سکت ۔ ۱
۱۔ میں اگنی دیوتا کی جو ہوم کا بڑا کرد کارُ کن اور دیوتاؤں کو نذریں پہنچانے والا اور بڑا ثروت والا ہے مہما کرتا ہوں۔
شرح۔ شارح لکھتا ہے کہ جس لفظ سے ثروت والا ترجمہ کیا گیا ہے وہ لفظ سنسکرت کی اصل عبارت میں رتنا د ہاتما ہے جس کے معنے ہیں جواہر رکھنے والا مگر رتن دولت کو بھی کہتے ہیں۔ اس شرتی میں شاعرانہ تناسب کا بیان ہے یعنے آگ کو اوّل ایک ایسا دیوتا مقرر کیا گیا جس کو سب دیوتاؤں سے پہلے نذریں دینی پڑتی ہیں یعنی ہوم کا گھی وغیرہ پہلے پہل آگؔ ہی پر ڈالا جاتا ہے سو اس لحاظ سے وہ پہلا دیوتا ہے جس کی ویدوں میں سب سے پہلے تعریف ہوئی ہے بلکہ رگوید کی عبارت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 410
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 410
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/410/mode/1up
شروع ہی اگنی کی تعریف سے ہوتی ہے اور جو نذریں دوسرے دیوتاؤں کو یہ اگنی دیوتا پہنچاتا ہے وہ کیا شے ہے؟ وہ ان بخارات سے مراد ہے جو گھی
وغیرہ کو آگ پر ڈالنے سے آگ میں سے اٹھتے ہیں اور ہوا میں جا ملتے ہیں۔ جو وایو دیوتا ہے اور پھر اندر دیوتا یعنی کرۂزمہر یرتک اس کا اثر پہنچتا ہے اور پھر دھرتی دیوتا پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ یہ تو اس شرتی کا مضمون ہے اور لفظی صنعت اس میں یہ ہے کہ آگ کو جس کا رنگ تاباں و درخشاں ہے رتنا دہاتما یعنے جواہر دار قرار دے دیا ہے کیونکہ آگ کی چمک کو جواہرات کی چمک سے ایک مناسبت ہے گویا اگنی ایک جوہر دار اور دولت مند دیوتا ہے جس کے پاس اس قدر جواہر ہیں جو دیوتاؤں کو نذریں دیتا ہے۔
اب میں کہتا ہوں کہ یہ تناسب شاعرانہ تو سب ہوئے مگر کیا اس شرتی میں پرمیشر کا کہیں ذکر بھی ہے اے آریو کچھ انصاف کرو ایماناً اپنی کانشنس سے ہی پوچھ کر دیکھو کہ بجز اس باقرینہ معنوں کے کوئی اور بھی اس کے معنے بن سکتے ہیں ہرگز نہیں بن سکتے کیونکہ اگر اگنی سے پرمیشر مراد ہے تو پھر وہ دوسرے دیوتے کون سے ہیں جن کو پرمیشر نذریں پہنچاتا ہے اور نیز اس صورت میں شعر کا بھی ستیاناس ہوجائے گا کیونکہ اس نازک خیال شاعر نے آگ کو باعتبار چمکتے ہوئے رنگ کے ایک جواہر دار سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ آگ کو جواہر تاباں سے اور شاعر بھی تشبیہ دیتے آئے ہیں۔ شیخ سعدی مرحوم نے بھی ایک شعر میں آتش کو جواہرات سے تشبیہ دے دی ہے۔ پس اگر ہم اگنی سے مراد آگ نہ لیں بلکہ پرمیشر مراد لیں تو اس ساری لطافت کی مٹی پلید ہوگی لیکن ہم کسی طرح اگنی سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 411
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 411
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/411/mode/1up
مراد پرمیشر نہیں لے سکتے کیونکہ اس سے آگے آنے والی شرتیوں سے اور بھی ویدوں کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ دیکھو اسی اگنی کی دوسری تعریف
اسی اشتک انو کا ۴ سکت (۱) صفحہ ۵۷ میں یہ شرتی ہے اے اگنی جو کہ دو لکڑیوں کے باہم رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے اس پاک کٹی ہوئی کشا پر دیوتاؤں کو لا تو ہماری جانب سے اُن کا بلانے والا ہے اور تیری پرستش ہوتی ہے۔ اب آریوں کو سوچنا چاہیئے کہ کیا پرمیشر دو لکڑیوں کے رگڑنے سے پیدا ہوتا ہے کیاؔ اس سے کھلا کھلا کوئی اور نشان بھی ہوگا کہ شاعر نے لکڑیوں کا بھی ذکر کردیا جو آگ کے بھڑکنے کا موجب ہے۔ پھر اگر اس شرتی پر بھی اعتبار نہ ہو تو ایک اور شرتی ذیل میں لکھی جاتی ہے اس کو پڑھو اور کچھ انصاف کرو اور وہ یہ ہے۔ اے اگنی نیک کاموں کو ترقی دینے والی جن دیوتاؤں کی ہم پوجا کرتے ہیں اُن کو مع اُن کی استریوں کے شریک کر اے روشن زبان والی انہیں سوم کا رس پینے کو دے۔ دیکھو اشتک اول انو کا ۴ سکت ۳۔
دیکھو اس جگہ بھی شاعر نے باعتبار چمک کے اگنی کو روشن زبان کہا اور اس کا کام یہ بتلایا کہ وہ دوسرے دیوتاؤں کو اور نیز ان کی عورتوں کو سوم کا رس پلاتی ہے پس آگ کو اس کی بخار انگیزی کی وجہ سے دیوتاؤں کے ساقی خیال کیا گیا۔ اب سوچو کیا یہ پرمیشور ہونے کے لچھن ہیں پھر اگر یہ شرتی بھی دل کا دھڑکا دور نہ کرسکے تو لیجئے ایک اور شرتی آپ کی نذر ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 412
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 412
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/412/mode/1up
اے اگنی دیوتا اپنی چالاک اور طاقت ور گھوڑیاں جن کو بنام روہت نامزد کرتے ہیں اپنی رتھ میں جوت اور ان کے وسیلہ
یہاں دیوتاؤں کو لا۔ دیکھو وہی اشتک انو کا ۴ سکت ۳۔
اس شرتی میں شاعر نے آگ کے تیز شعلوں کو گھوڑیوں کی شکل پر تصوّر کرلیا ہے اور آگ کی صورت مجموعی کو جو افروختہ ہورہی ہے ایک رتھ قرار دے لیا ہے اور مدّعا اس کا یہ ہے کہ اس آگ سے بخار اٹھیں گے اور ہوا وغیرہ میں پہنچیں گے جیسا کہ وہ ایک دوسری شرتی میں لکھتا ہے جس کا یہی انوکا اور یہی سکت ہے۔ اے اگنی تو اندروایو پرسپتی مترا پشان پھاگا ادتیاون اور مروت کے گروہ کو نذر پیش کر۔ اندر کرہ زمہریر کا نام وایو ہوا کا نام اور باقی چاروں برسات کے مہینوں کے نام ہیں اور مروت مہینہ کی ہوائیں ہیں شاعر نے ان سب کو دیوتا مقرر کردیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اوّل حرارت سے ہی بخارات اٹھتے ہیں تو گویا اگنی بخارات کو اٹھا کر پھر انہیں اندر وغیرہ کو وہ نذر پیش کرتی ہے تمام وید میں یہی جھگڑا بار بار ذکر کیا گیا ہے کہ پہلے پہل بخارات ہوا میں مل کر اندر کے پیٹ میں پڑتے ہیں جیسا کہ اسی اشتک انوکا ۳ سکت ایک میں لکھا ہے اندر کا شکم سوم کا رس کثرت سے پینے ؔ کے باعث سمندر کی مانند پھولتا ہے اور تالو کی نمی کی مانند ہمیشہ تر رہتا ہے۔ انہیں کھانوں سے اندر کا پیٹ بھرتا ہے اور قوت حاصل ہوتی ہے۔ اے خوب صورت زنخدان والے اندر ان تعریفوں سے خوش ہو۔اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اندر کا ساقی اگنی ہی ہے اب ان
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 413
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/413/mode/1up
تمام وجوہات سے ثابت ہوتا ہے کہ درحقیقت اگنی سے مراد آگ ہی ہے اور لفظ اگنی کے عام اور لغوی معنے آتش کے ہیں تمام مسلسل بیان رگ وید کا
اسی پر شہادت دے رہا ہے اور وید کے پہلے بھاشیکاروں نے بھی یہی معنے لکھے ہیں اور تناسبات شاعرانہ منتروں کے بھی اسی کو چاہتے ہیں اور جن صفتوں سے اگنی کو منسوب کیا گیا ہے وہ بھی آگ کی ہی صفتیں ہیں نہ پرمیشر کی۔ اور یہ خیال اکثر ہندوؤں کا قدیم سے چلا آیا ہے اور اب بھی ہے اور اسی بناء پر جوالا مکھی کی آگ کروڑوں ہندوؤں کی نظر میں ایک بڑی بھاری دیوی ہے چنانچہ ہم نے بہت سے ہندوؤں کو کہتے سنا کہ اس کل جگ کے زمانہ میں کسی چیز میں ست باقی نہیں رہا۔ مگر ایک جوالا مکھی میں۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ بہت سے ہندو آگ کو بھی پرمیشر سمجھتے ہیں اور ہندوؤں میں آتش پرستوں کے فرقے جنہیں ساگنگ کہتے ہیں اسی بنا پر جاری ہوئے ہیں۔ پنڈت دیانند بھی اپنے وید بھاش میں جس کو انہوں نے ۱۸۷۷ ؁ء میں بنارس کی نیر اس کمپنی کے چھاپہ خانہ میں چھپوا کر مشتہر کیا تھا کئی مقام میں قبول کرتے ہیں کہ اگنی سے مراد آگ ہی ہے مگر اسکے دوسرے معنے پرمیشر بھی بتاتے ہیں اسلئے پرمیشر کے دو دو معنے انہیں کرنے پڑتے ہیں اور بہت ٹکریں ماریں مگر اس بات میں کامیاب نہ ہوسکے ان کیلئے بہتر ہوتا کہ وہ سیدھے سیدھے الفاظ کو ناحق کی تکلیف سے بیاکرن کے ایک بے ضابطہ شکنجہ پر نہ چڑھاتے اور نہ اپنی طرف سے ایک بے سند لغات تراشی کرتے بلکہ ہمہ اوست ہونے کا دعویٰ کرکے وید انتیوں کی طرح آگ اور ہوا اور پانی اور خاک وغیرہ کو خدا کہہ دیتے اس صورت میں شاید ویدوں کی کچھ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 414
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/414/mode/1up
پردہ پوشی ہوسکتی۔ بہرحال ہم آریوں کے لائق ممبروں سے خواستگار ہیں کہ وہ ان منتروں کی اپنے طور پر تاویل کرکے ہمارے بیان کے مقابل شائع
کریں اور پھر کسی ثالث کو دکھلادیں اور دیانندی دھوکوں پر مغرور نہ رہیں اگرچہ ان کے اس وہم کا بڑا مشکل علاج ہے کہ دیانند ویددانی میں بڑا عالم فاضل تھا مگر تین باتوں کے سوچنے سے یہ مشکلؔ ان کی آسان ہوسکتی ہے۔
اوّل یہ کہ جن دوسرے قدیم پنڈتوں سے دیانند نے اختلاف کیا ہے درحقیقت کثرت رائے انہیں کی جانب ہے وہی ہیں جو صدہا بلکہ ہزارہا برسوں سے ویدوں کی دیوتا پرستی کو شائع کرتے آئے ہیں۔
دوم یہ کہ عملی طور پر جس چیز نے نہایت متشرّع اور پرہیزگار ہندوؤں میں رواج پایا ہے وہ مخلوق پرستی کے عقائد ہیں جو ان کے ایسے مقامات میں جو متبرک اور چشمہ ہدایت خیال کئے جاتے ہیں ایسے وقتوں سے استحکام پذیر ہیں جن کا ابتدا معلوم کرنا مشکل ہے مثلاً شہر بنارس جو ہندوؤں کا ایک دارالعلم سمجھا گیا ہے جس میں برہمن اور پنڈت ہرملک سے آکر دس دس باراں باراں سال تک زیر تعلیم رہتے ہیں یہ شہر شرک سے ایسا بھرا ہوا ہے کہ شاید کوئی دوسری اس کی نظیر نہ ہو۔ اس شہر میں پنڈتوں کے بے شمار دیوتاؤں کے بے شمار مندر ہیں جن میں سے بعض کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ نہایت ہی پرانے اور رشیوں کے وقت کے ہیں۔ یہ شہر گنگا کے مشرقی کنارہ پر طولاً ڈھائی میل اور عموماً ایک میل تک عرض میں آباد ہے۔ شاید اس نظر سے کہ گنگا بھی ایک بڑی دیوی ہے۔ اس کے کنارہ پر یہ آباد کیا گیا ہے اگرچہ ظاہری خوبی اس
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 415
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/415/mode/1up
شہر میں کچھ ایسی نہیں مگر پھر بھی یہ خوبی سمجھی گئی ہے کہ مخلوق پرستی اس پر ختم ہے اکثر ہندو بوڑھے ہوکر اس شہر کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں کیونکہ
ان کے خیال میں اس میں مرنا سُرگ میں پہنچا دیتا ہے اب دیکھنا چاہیئے کہ یہ وہی شہر ہے جس میں ہزاروں پنڈت ابتدا سے ہوتے چلے آئے ہیں اور اب بھی ہیں گویا یہ شہر ایک وید مجسم ہے لیکن ہر کوچہ و گلی میں اس میل کچیل کی طرح جو اس شہر کی گلیوں میں پائی جاتی ہے جابجا دیویوں اور دیوتاؤں کی مورتیں پرستش کے لئے نصب کی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پس جب وید نے اسی شہر پر جو آریہ علماء کا ایک معدن شمار کیا جاتا ہے یہ اثر ڈالا نہ آج سے بلکہ ہزارہا سال سے تو اور اور جگہوں پر وہ کون سا نیک اثر ڈالے گا۔
سوم یہ کہ اگر ویدوں کا تحت اللّفظ ترجمہ کرکے (خواہ بڑے بڑے متعصّب آریہ اپنے ہاتھ سے کریں) کسی اور ملک میں بھیجا جائے مثلاً انگلستان میں یا امریکہ میں یا روس میں تو کوئی شخص ان منتروں میں توحید نہیں سمجھ سکتا چنانچہ اس کا تو تجربہ بھی ہوچکا۔ اب اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کرلیں کہ ویدوں میں گو بظاہر مشرکانہ تعلیم ہے مگر درپردہ اس کے اندر توحید چھپی ہوئی ہے توؔ ایسی چیستوں اور پہیلیوں سے خلق اللہ کو کیا فائدہ ہوگا اور پنڈتوں کے ہزاروں طرح کے موجودہ شرکوں پر کون سا نیک اثر پڑے گا۔ کیا ایسا کمزور اور ناتوان بیان اس سخت طوفان کو فرو کرسکتا ہے جو خود ہندوؤں کے بڑے بڑے اچارج اس کا موجب ہورہے ہیں اور بڑے زور سے ادّعا کرتے ہیں کہ وہی مسائل صحیح ہیں جو ہم نے سمجھے ہیں اور وہی وید کے موافق ہیں۔ اگر کوئی پاک خیال
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 416
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/416/mode/1up
پنڈت ہونرا بنارسی ٹھگ نہ ہو تو وہ شہادت دے سکتا ہے کہ اب وید آپ اصلاح پانے کے لائق ہیں نہ یہ کہ حالت موجودہ کی اصلاح کرسکتے ہیں۔
چہارم عقل خداداد کو دخل دینے کے وقت معلوم ہوگا کہ جن قرائن اور علامات اور صریح بیان سے ویدوں میں تعلیم مخلوق پرستی کی ثابت ہوتی ہے وہ سب دلائل قطعی اور یقینی ہیں۔ چنانچہ جابجا ہریک منتر میں پنڈت دیانند نے بھی اپنے وید بھاش میں مان لیا ہے کہ حقیقت میں اگنی سے مراد آگ اور وایو سے مراد ہوا ہے۔ مگر اس کے دوسرے معنے بھی ہیں چنانچہ رگ وید اشتک اول کے دوسرے سکت کی پہلی تین منتر میں جو وایو کے مہما برنن میں ہیں ان میں بھی پنڈت دیانند نے اپنے وید بھاش میں قبول کرلیا ہے کہ اگنی اور وایو حقیقت میں آگ اور ہوا کے نام ہیں۔ مگر یہ پرمیشور کے نام بھی ہیں اب دیکھنا چاہیئے کہ جن باتوں کا تمام دوسرے پنڈت دعویٰ کرتے ہیں ان کو آپ بھی اقرار ہے لیکن جو نیا خیال انہوں نے ظاہر کیا ہے دوسرے پنڈت اس سے سراسر منکر ہیں اور دیانند نے کوئی ایسے وجوہات بھی پیش نہیں کئے جو ایک ذرّہ اطمینان کے لائق ہوں۔ ہم نے اس کے وید بھاش کو غور سے سنا ہے اور ان فاضل برہموں کی تحریریں بھی دیکھی ہیں جو دیانندی خیالات کے استیصال کے لئے متوجّہ ہیں۔ ہم بخدا سچ سچ کہتے ہیں کہ اس کے ہریک فقرہ سے ہم کو ایک تحکّم کی بدبو آتی ہے جو ایک موٹی سمجھ اور نالیاقتی سے ملا ہو اور ایک دہقانی اور گنواری تقریر میں بیان کیا گیا ہے اور میں ان خوش عقیدوں کو جنہوں نے اپنی فطرتی عقل کو بے کار چھوڑ کر اپنا دہرم اور ایمان دیانند کے حوالے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 417
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/417/mode/1up
کردیا ہے اس روحانی موت میں ان لوگوں کی موت سے مشابہ پاتا ہوں جو اپنی سادہ لوحی سے اپنے تئیں جگن ناتھ کی رتھ کے پہیوں کے نیچے ڈال دیتے ہیں جو ان کو
بالکل کچل دیتے ہیں مگر ان کا تو جسم کچلا جاتا ہے مگر دیانندی وجود کی رتھ نے ہندوؤں کی سمجھ اور عقل کو کچلا ہے اور جیسے کسبیا*ں جگن ناتھ کی مورت کے سامنے ناچتے ہوئے بے حیائی سےؔ حرکتیں کرتی ہیں اور مختلف اوضاع کے ساتھ جو سراسر بے شرمی اور بے غیرتی سے صادر ہوتی ہیں اُس بے جان اور بے زبان عورت کو خوش کرنا چاہتی ہیں ایسا ہی آریوں کے چھٹے ہوئے اوباش خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو گالیاں دے کر دیانند کی روح کو اپنی دانست میں خوش کررہے ہیں اگرچہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں پڑا ہے اور کس حالت میں ہے جس قدر آریوں نے ہمیں گندی گالیاں نکالیں اور پُردشنام خط لکھے اور قتل کردینے کی ہمیں دھمکیاں دیں اس کا تو ہمیں افسوس نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کا مادہ ہی ایسا ہے لیکن خدائے تعالیٰ کے پاک نبیوں کو گالیاں دینا اور دل دکھانے والی توہین کرنا یہ طریقہ انہوں نے اچھا نہیں پکڑا ۔ہمارے
پاس جس قدر اُن لوگوں کے گُمنام خط موجود ہیں اور جو کچھ لیکھرام پشاوری کی دستخطی تحریریں اب تک پُہنچی ہیں جن کو ہم نے بہ حفاظت رکھا ہوا ہے اس سے ایک عقلمند نتیجہ نکال سکتا ہے کہ دیانندی مذہب نے ان کے دلوں پر کس قسم کا اثر کیا ہے۔
اب ہم اپنے پہلے مطلب کی طرف رجوع کرکے بدعویٰ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے وید ہرگز شرک سے خالی نہیں ہیں اور جس قدر ہم نے بطور نمونہ ویدوں کے منتر لکھے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 418
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/418/mode/1up
اب ہم اپنے پہلے مطلب کی طرف رجوع کرکے بدعویٰ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے وید ہرگز شرک سے خالی نہیں ہیں اور جس قدر ہم نے بطور نمونہ ویدوں کے منتر لکھے ہیں اسی قدر سے ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ ویدوں میں بجائے توحید کے کیا بھرا ہوا ہے لیکن افسوس کہ پھر بھی غبی اور بدفہم آریہ دیانندی پیچ سے نکلنا نہیں چاہتے اور عقل اور انصاف دونوں کو چھوڑ کر سراسر تحکم کی راہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ضرور دیانند کی رائے صائب ہے اس دعویٰ میں چاروں طرف سے سخت ندامتیں بھی اُنہیں اٹھانی پڑتی ہیں مگر کچھ ایسے حیا شرم سے دور جاپڑے ہیں کہ کچھ بھی ان ندامتوں سے دردمند نہیں ہوتے ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک آریہ نے ہمارے روبرو ذکر کیا ہے کہ سوامی جی دیانند نے اپنے وید بھاش میں ثابت کرکے دکھلا دیا ہے کہ اگنی وایو وغیرہ پرمیشر کے نام ہیں ہم نے کہا کہ تمہارے سوامی جی تو خود قبول کرتے ہیں کہ اگنی وایو سے مراد ان منتروں میں آگ اور ہوا بھی ہے دیکھو ان کا وید بھاش متعلق اشتکؔ اوّل رگ وید سکت اہاں کھینچ تان کر اگنی اور وایو وغیرہ کا نام پرمیشور بھی رکھتے ہیں مگر اس پر اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں اور جو ہمارے پاس دلائل اس بات کے ہیں کہ ضرور اگنی وایو وغیرہ سے مراد آگ اور ہوا وغیرہ عناصر یا اجرام سماوی ہیں اُن کو نہ سوامی
خلیج بنگالہ میں جگن ناتھ ایک شہر ہے اور وہاں ایک مشہور مندر ہے جس میں جگن ناتھ کیؔ مورت نصب کی ہوئی ہے۔ مذہبی میلوں کی تقریب پر یہ مورت ایک رتھ میں رکھی جاتی ہے جو شاید پندرہ سولہ پہیوں کا ہوتا ہے اور پھر اس مورت کو نہایت مکلف پوشاک پہنا کر ایک مندر سے دوسرے مندر کو لے جاتے ہیں بڑے بڑے پنڈت اور سادھو ان میلوں میں جمع ہوتے ہیں جن کے لئے بقول ڈاکٹر برنی آرصدہا زانیہ عورتوں نے اپنا وجود وقف کیا ہوا ہوتا ہے باایں ہمہ وہ سب پنڈت اور سادھو خوش اعتقاد ایسے ہیں کہ اس رتھ کے پہیوں کے نیچے مرنے کو تیار ہوتے ہیں اور جو شخص اپنے تئیں رتھ کے پہیوں کے نیچے ڈال دے اور ان سے کچلا جا کر اپنی جان گنوائے ایسے شخص کو ہندوؤں میں نہایت ہی مہاتما اور مقدّس سمجھا جاتا ہے۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 419
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/419/mode/1up
سکت اہاں کھینچ تان کر اگنی اور وایو وغیرہ کا نام پرمیشور بھی رکھتے ہیں مگر اس پر اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں اور جو ہمارے پاس دلائل اس بات کے ہیں کہ ضرور اگنی وایو وغیرہ سے مراد آگ اور ہوا وغیرہ عناصر یا اجرام سماوی ہیں اُن کو نہ سوامی
اور نہ اُن کا کوئی حامی توڑ سکتا ہے تب اُس آریہ نے پوچھا کہ بھلا آپ بتلائیں کہ وہ دلائل کون سے ہیں چنانچہ وہی قطعی اور یقینی وجوہات جو رگ وید کی شرتیوں کی تشریح میں ابھی ہم لکھ چکے ہیں وہ سب اُس ہندو کو سنائے گئے تب کچھ چپ رہ کر اور سوچ سوچ کر بولا۔ کیا سوامی جی نے اِس کا کچھ جواب نہیں دیا۔ اس پر وید بھاش ان منتروں کا پیش کیا گیا کہ اگر کچھ جواب لکھا ہے تو تم ہی سنا دو پھر کیا تھا ایسا چپ ہوا کہ بے شرمی کے سارے حیلے دبے رہے اتفاقاً اردو رگوید کے کھولنے سے اس منتر پر جو اشتک اوّل انوکا۔ ۱۔سکت ۲ میں ہی نظر جاپڑی اے عقیل منتر اودرونا (یہ دونوں سورج کے نام ہیں) ہمارے یگ کو کامیاب کرو تم بہت آدمیوں کے فائدہ کے لئے پیدا ہوئے ہو۔ بہتوں کو تمہارا ہی آسرا ہے تب اس آریہ کو یہ شرتی بھی دکھلائی گئی کہ دیکھو اس میں سورج کا مخلوق ہونا قبول کرکے پھر اس سے دعا بھی مانگ لی ہے بلکہ اُس پر آسرا بھی کیا ہے پس اس شرتی کا دکھلانا اُس آریہ کے حق میں ایسا ہوا کہ جیسے کوئی مرے ہوئے سانپ کو ایک اور سونٹا مار دیتا ہے۔ یہ تمام ذلتیں آریوں کو پہنچتی ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ان رسوائیوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے اور نہ تو اپنے خیالات کی تائید میں اور نہ ان عمدہ دلائل کی ردّ میں جو تقریری یا تحریری طور پر ان کو دکھلائے جاتے ہیں کسی قسم کا ثبوت عقلی یا نقلی دے سکتے ہیں ہاں گالیاں اور دشنام دہی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 420
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/420/mode/1up
کا گند اُن کے دلوں میں بہت ہے پس جو کچھ ان کی تھیلی میں ہے وُہی ہریک سائل کو پُن دان کی طرح دیتے ہیں اور ثواب کی امید رکھتے ہیں سچ ہے معقول بات کا معقول جواب دینا اُن لوگوں کا کام نہیں جن کا پرمیشر بھی تمام
روحوں اور ذرّہ ذرّہ عالم پر محض تحکم کے رو سے قبضہ رکھتا ہے نہ کسی معقول استحقاق سے جو دلیل کے ساتھ قابل تسلیم ہو۔
ہمارا خیال ہے کہ جس قدر علم کا زور اور بیان کی طاقت اور معلومات کی وسعت قدیم زمانہ کے آریوں میں پائی جاتی ہے اور جس دانش مندی سے اُنہوں نے ویدانت کے مسائل کو نکال کر ویدوؔ ں کی مشرکانہ تعلیم پر پردہ ڈالنا چاہا ہے اور ہمہ اوست کی چادر کو پھیلا کر اگنی وایو اندر سورج چاند وغیرہ کو ایک سہل طریق سے اس چادر کے نیچے لے لیا ہے یہ طریق تکلّفات سے خالی اور بہت کچھ ویدوں کی حمایت کرنے والا ہے کیونکہ بامذاق آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ایک ہی طاقت عظمیٰ ہے جو سب تعیّنات میں کام کررہی ہے لیکن اور بھی زیادہ تر غور کرنے سے ثابت ہوگا کہ موجودہ ویدوں کی تعلیم ہمہ اوست کے مسائل سے بھی تطبیق نہیں کھاسکتی کیونکہ بعض مواقع میں خالق کے ایک الگ وجود کو بھی مان لیا ہے اور ٹھیک ٹھیک مخلوق پرستوں کی طرح آتش و آب وغیرہ کو الگ کا الگ دیوتا قائم کرکے اس سے مرادیں مانگی ہیں اور دیوتاؤں کی بہت سی تعریف کی ہے کوئی چھوٹا کوئی بڑا کوئی بوڑھا کوئی جوان اور ہر جگہ مخلوق کے خواص کُھلے کُھلے بیان کردیئے ہیں اور پاک دلوں کو نفرت دلانے والی تعریفیں اُن دیوتاؤں کی کی ہیں اور صاف
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 421
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/421/mode/1up
صاف اپنے بیان کو اُس حد تک پہنچا دیا ہے جس سے بہ بداہت سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ بیان کنندہ اپنا مذہب مخلوق پرستی رکھتا ہے نہ اور کچھ۔
اور سب سے بڑھ کر خرابی یہ ہے کہ کئی مقامات میں وید تناسخ یعنے اواگون
کا قائل ہے چنانچہ رگ وید کے پہلے ہی اشتک میں کتنے منتر ایسے ہیں کہ ایک صاف بیان سے اواگون کے مسئلہ کی تعلیم کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اواگون کے ماننے سے ویدانت کا مسئلہ قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ویدانت والے ہریک روح کو مخلوق سمجھتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ پرمیشر نے اپنے اختیار سے انسانی روح کو کسی حد تک طاقتیں بخشی ہیں اور آپ ہی ہرمخلوق کی حد بندی کی ہے سو یہ بیان اواگون کے مسئلہ کو باطل کرنے والا ہے کیونکہ مسئلہ تناسخ کے رو سے ہریک مرد اور عورت اور انسان اور حیوان کی حد بندی اعمال سابقہ کی وجہ سے ہے اور سلسلہ اعمال سابقہ کا تب ہی قائم اور محفوظ رہ سکتا ہے کہ جب ارواح کو غیر مخلوق قرار دیں ورنہ نہیں جیسا کہ ہریک عقل سلیم سمجھ سکتی ہے سو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ویدوں کے رو سے تمام ارواح اور ذرّہ ذرّہ عالم کا غیر مخلوق ہی ہے اور جب ہریک چیز ویدوں کے رو سے غیر مخلوق ہوئی تو وہی آفتیں وہی قباحتیں وہی خرابیاں پیش آئیں گی جن کا کسی قدر ہم ذکر کرچکے ہیں اور جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ُ سرمہ چشم آریہ میں لکھا ہے پھر ہم تنبیہًا لکھتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی سچی توحید ہرگز تناسخ کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی جبؔ تک آریہ لوگ تناسخ سے دست بردار نہ ہولیں تب تک خدائے تعالیٰ کی عظمت اور جلال پر ہرگز اُنہیں نظر نہیں پڑے گی منوجی کا مقدس پستک جس کو ایک
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 422
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/422/mode/1up
طرف ہم ویدوں کا وید بھاش کہہ سکتے ہیں اور دوسری طرف آریوں کی سوشل لائف کی تواریخ متصوّر ہوسکتا ہے جس پر پنڈت دیانند نے بھی بہت کچھ مدار رکھا ہے اور آریہ سماج کی عمارت کا ایک ستون قرار دے دیا ہے اس میں علاوہ علم
عقائد کے حق العباد کے مسائل بھی وید کے رو سے ایسے عجیب عجیب بیان ہوئے ہیں کہ بس پڑھنے والا دریائے حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ ویدوں کو علاوہ کمالات توحید کے حق العباد بیان کرنے کا بھی خوب منصفانہ طریق یاد ہے۔
چنانچہ منوجی ویدوں کے رو سے فرماتے ہیں کہ اگر رذیل کی دختر سے کوئی شریف برہمن وغیرہ زنا کر بیٹھے تو کوئی دوش کی بات نہیں کسی قسم کا مؤاخذہ نہیں لیکن اگر کمینی ذات کا کسی شریف زادی سے ایسی حرکت کرے تو جان سے مار دیا جائے یا وہ خون بہا ادا کرے جو لڑکی کے والدین مقرر کریں۔ دیکھو منو سنتھا ادھیا ۸۔ شلوک ۳۶۵۔ پھر شلوک ۳۸۰ میں لکھا ہے کہ برہمن خواہ کتنے ہی بڑے جرم کا مرتکب ہو ہرگز قتل نہ ہونا چاہیئے برہمن کے قتل کے برابر کوئی گناہ نہیں برہمن نیچ ذات کی لڑکی کو اپنی زوجیت میں لاسکتا ہے اور اگر کسی نیچ ذات کے پاس سونا چاندی یا خوب صورت ہو تو برہمن انہیں اپنے تصرف میں لاسکتا ہے لیکن اگر کوئی نیچ ذات ایسا فعل کرے تو جلتے ہوئے لوہے کی چادر پر جلا کر مارا جائے۔
ایسا ہی اگر برہمن کسی شودر کو وید پڑھتا ہوا سن پائے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سکّہ اور جلتی ہوئی موم ڈالی جائے۔ اگر وہ اس کی عبارت کو پڑھے تو اس کی زبان کاٹ ڈالنی چاہئیے اگر وہ اس کو حفظ کرے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا جسم چاک کرکے اس کا دل نکالا جائے۔ برہمن سب کا سرتاج ہے اگر کسی برہمن کا سرمایہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 423
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/423/mode/1up
ویدوں کی تعلیم حاصل کرنے کے اندر ختم ہوجائے تو اس کو اختیار ہے کہ اپنی حاجت کی چیزیں کسی ویش یا شودر کے گھر سے خود چرالے یا چوری کروالے۔ بادشاہ کو ایسے مظلوم کی فریاد کو نہ پہنچنا چاہیئے۔ شودر کی مکتی اسی میں ہے کہ برہمن کی خدمت
کیا کرے اور سب کام بے فائدہ ہیں نیچ ذات کو روپیہ جمع کرنے کی اجازت نہیں مبادا وہ مالدار ہوکر اونچی ذات کےؔ لوگوں پر حکم کرے۔ (دیکھو منو سنتا ادھیا ۹ شلوک ۲۳)
اب اگر کسی آریہ کو خیال ہو کہ منوجی نے ویدوں کے برخلاف لکھا ہے تو اوّل تو ایسا خیال خلاف قیاس ہے جس سے منوجی پر نہ صرف یہ الزام آتا ہے کہ انہوں نے دروغ گوئی کی بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ویدوں کے نہایت سخت دشمن اور اپنی ذات میں بدی اور شرک کی طرف مائل تھے پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ منوجی کی تکذیب کچھ آسان بات نہیں بلکہ اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب بہت سے بھاشیکار پہلے زمانہ کی گواہی دیں کہ ویدوں کا ان مضامین سے درحقیقت دامن پاک ہے اور یہ سب منوجی کے نفس امارہ کی بناوٹ ہے۔ مگر ایسی گواہی تب لائق پذیرائی ہوسکتی ہے کہ برخلاف ان تمام مضامین کے ویدوں کی شرتیاں پیش کی جائیں جو صاف صاف ان باتوں کا ردّ کرتی ہوں۔ مگر کیا کسی آریہ کو جرأت ہے کہ ایسا کام کر دکھاوے۔ پس جب تک ایسی جمہوری گواہی اور ایسے منتر ویدوں کے پیش نہ ہوں تب تک منوجی پر فرد قرارداد جرم قائم نہیں ہوسکتی بلکہ یہی سمجھا جائے گا کہ یہ سب وید ہی کی کرتوت ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 424
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/424/mode/1up
لیکھرام پشاوری کے علم اور عقل کا نمونہ
یہ وہی لیکھرام آریہ ہے جس نے ہماری نسبت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت حضرت مسیح کی نسبت بہتان لگانا۔ گندیاں گالیاں دینا گندے اشتہار چھپوانا بے اصل توہین کو اعتراض کی صورت میں پیش کرنا اپنا دستور مقرر کررکھا ہے۔
ہماری کتاب براہین احمدیہ کے ردّ میں اسی ہندو نے جس کا نام عنوان میں درج ہے چند اوراق چھپوائے ہیں اور جیسا کہ ان لوگوں کی عادت ہے بہت کچھ افترا اور بے جا توہین اور ایک بدبودار بیوقوفی کے ساتھ قرآن شریف پر اعتراض کئے ہیں۔ یہ کتاب جس کا نام تکذیب براہین احمدیہ رکھا ہے اس شخص کی لیاقت علمی و اندازہ عقلی کا ایک آئینہ ہے۔ ہمیں ہرگز امید نہیں کہ کوئی تمیزدار ہندو اس کتاب کو پڑھ کر پھر یہ رائے ظاہر کرسکے کہ اس کے مؤلف کو عقل اور فہم اور علم دین سے کچھؔ حصہ ہے یا تہذیب اور شرافت سے اس کی فطرت کو کچھ تعلق ہے۔ اس کتاب کی حقیقت سے ہمیں بخوبی واقفیت ہے اور ہمیں اس وقت ان ہندوؤں کی عقل پر نہایت افسوس ہے جنہوں نے ایک ایسے جاہل لایعقل کے سیہ کردہ کاغذات کو قیمتًا خریدنا چاہا ہے ہم عنقریب گند اور افترا اس جہل مجسم کا اپنی مبسوط
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 425
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/425/mode/1up
کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ظاہر کریں گے اور نہایت صاف طور پر دکھلاویں گے کہ آریوں کے لئے ایسے شخص کی رہنمائی اور اس کی یہ کتاب قابل شرم ہے یا نہیں۔ اگر ہم چاہتے تو ردّ اس کتاب کا جو رسالہ کے طور پر ہمارے پاس تیار پڑا ہے اس کتاب کے شائع ہونے سے پہلے شائع کردیتے لیکن ہم پہلے آریوں کی
عقل کو آزمانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ہندو کی کتاب پر کیا کیا رائیں ظاہر کرتے ہیں۔ اور کہاں تک اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں بہتوں کے اندازہ عقل و فہم و انصاف کا امتحان ہوجائے گا۔ جس شخص نے ہماری کسی کتاب کو پڑھا ہوگا وہ اگر چاہے تو شہادت دے سکتا ہے کہ ہماری تحریریں ملمع اور سرسری ہرگز نہیں ہوا کرتیں بلکہ ایک منصف اور عقل مند حاکم کی تحقیقات سے مشابہ ہیں جو مقدمہ کی تہہ کو پہنچ کر اور ہریک تنقیح طلب امر کا پورا پورا تصفیہ کرکے پھر حکم صادر کرتا ہے۔ اب ہم بطور نمونہ پشاوری صاحب کے خیالات میں سے دو ایک باتیں ظاہر کرتے ہیں وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵ میں روحوں کے غیر مخلوق ہونے پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نہ تو روحیں ترکیب پذیر اور نہ منقسم ہونے والی چیزیں ہیں پھر ان کی پیدائش کس طرح ہوئی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ روحیں انادی ہیں۔
اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ کہاں تک اس شخص میں دلیل شناسی کا مادہ ہے اتنا نہیں جانتا کہ جو کچھ میں بیان کرتا ہوں وہ تو آریوں کی طرف سے خود ایک دعویٰ ہے کہ ان کا پرمیشر فقط جوڑنے جاڑنے پر قادر ہے اور جو چیزیں ترکیب پذیر یا منقسم ہونیوالی نہیں ہیں ان کو پرمیشر پیدا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ پرمیشر کا کام جوڑنا جاڑنا ہے۔ اس سے زیادہ اسے طاقت نہیں مگر اس دعویٰ پر کوئی دلیل پیش نہیں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 426
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/426/mode/1up
کرتے کہ کیوں طاقت نہیں۔ اسی دعویٰ کو خوش عقیدگی سے لیکھرام نے بجائے دلیل پیش کردیا ہے۔ اب لیکھرامی لیاقت کے جانچنے کیلئے یہی نمونہ کافی ہے کہ وہ ایسے دعویٰ کو جو اپنے مفہوم کے اثبات میں خود دلیل کا محتاج ہے دلیل سمجھ بیٹھا ہے گویا بیان کررہا ہے کہؔ روحوں کے غیر مخلوق ہونے پر یہ دلیل ہے کہ ہم آریہ لوگ
کسی بسیط اور ناقابل تقسیم چیز کو مخلوق نہیں مانتے اے بھلے مانس کیا دلیل اسی بات کا نام ہے کہ جس چیز کو آپ نہ مانیں وہی نہ ماننا دلیل سمجھا جائے پس جس شخص کو دعویٰ اور دلیل میں تفریق کرنے کا مادہ نہیں کیا وہ یہ حق رکھتا ہے کہ آریوں کی طرف سے وکیل بن کر مناظرہ و مجادلہ کے میدان میں آوے اور کیا ایسے وکیل کا ساختہ پرداختہ سب آریوں کو منظور و مقبول ہوگا۔ ابھی تھوڑا زمانہ گزرا ہے کہ جب دیانند نے یہ رائے ظاہر کی کہ میرے پرمیشر کو روحوں کی خبر نہیں کہ کہاں ہیں اور کتنے ہیں تو اس پر فی الفور منشی جیون داس نے پرچہ سفیر ہند امرتسر میں چھپوایا کہ دیانند کی ایسی ایسی رائیں ہرگز ہم قبول نہیں کریں گے وہ کچھ ہمارا رہبر نہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ دیانند اس شخص کی طرح نرا کاٹھ کا پتلا نہ تھا۔ ہاں جو کچھ وید میں برا بھلا لکھا ہے وہ کچھ ظاہر کردیتا تھا اور کچھ تاویلوں کے شکنجہ پر چڑھا کر پوشیدہ کرنا چاہتا تھا جس میں وہ ناکام رہا۔ پس جبکہ باتمیز آدمیوں نے دیانند کی باتوں کو قبول کرنا نہ چاہا تو پھر لیکھرام کی یہ نئی منطق کیوں کر قبول کریں گے اور اگر قبول بھی کرلیں تو بہرحال اُمّید کی جاتی ہے کہ اس شخص کی یہ تحریریں جن کی بنا سراسر جہالت اورتعصّب پر ہے آریوں کی اور بھی قلعی کھولیں گی۔ بھلا خیال کرنے کا مقام ہے کہ یہی تو آریوں کی طرف سے دعویٰ ہے کہ ارواح اور ذرّہ ذرّہ عالم کا خودبخود ہے کیوں خودبخود ہے؟ یہی باعث کہ پرمیشر بجز باہم ترکیب دینے اور جوڑنے جاڑنے کے کسی بسیط چیز کو پیدا کرنے کی طاقت نہیں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/427/mode/1up
رکھتا۔ اب اسی دعویٰ کو یہ لائق شخص بطور دلیل پیش کرتا ہے نہیں جانتا کہ دلیل تو وہ ہوتی ہے کہ جس کے مقدّمات ایسے بدیہی الثبوت ہوں کہ جو فریقین کو ماننے پڑیں۔ مگر کیا یہ امر متخاصمین کا مانا ہوا یا اصول موضوعہ میں سے ہے کہ بسائط کے پیدا کرنے پر خدا تعالیٰ قادر نہیں بلکہ یہ تو آریوں کا ہی بے دلیل اعتقاد ہے کہ جو انکے پرمیشر
کے پرمیشر پن کی بکلّی بیخ کنی کرتا ہے کیونکہ جس حالت میں ان کا قول ہے کہ تمام روحیں اور ذرّہ ذرّہ عالم کا خودبخود ہے جو قدیم سے خودبخود چلا آتا ہے تو اس صورت میں ضرور یہ اعتراض ہوگا کہ ان چیزوں پر ان کے پرمیشر کا قبضہ کس قسم کا ہے آیا کسی استحقاق کی وجہ سے یا جبر کے طور پر۔ اگر کوئی استحقاق ہے تو ظاہر ہے کہ وہ خالقیت کا استحقاق ہوؔ گا لیکن خالقیت کے تو آریہ قائل ہی نہیں تو پھر دوسری بات ماننی پڑی کہ جبر کے طور پر قبضہ ہے یعنی اس بات کا قائل ہونا پڑا کہ پرمیشر اپنی زیادت طاقت کی وجہ سے کم طاقتوں پر غالب آگیا۔ پھر جس کنوئیں یا خندق میں چاہا ڈالتا رہا۔ اب ظاہر ہے کہ محض جبر بلا استحقاق وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ظلم کہتے ہیں۔ تو اس سے ظاہر ہوا کہ آریوں کے نزدیک پرمیشر سخت ظالم ہے جس نے بغیر ذاتی استحقاق کے خواہ نخواہ کروڑہا برسوں سے تناسخ کی گردش میں اُنہیں ڈال رکھا ہے اور گنہ یہی کہ تم میری کیوں اطاعت نہیں کرتے۔ بھلا تیری کیوں اطاعت کریں تو ہے کون اور تیرا استحقاق کیا ہے۔ کیا تو نے پیدا کیا یا بغیر گزشتہ کرموں کے اپنی طرف سے کچھ رحم یا کرم کرسکتا ہے یا ہمیشہ کے لئے دنیا کی بلاؤں سے چھوڑا سکتا ہے آخر تو کون سی چیز اپنی گرہ سے دے سکتا ہے تا تیری اطاعت کی جائے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/428/mode/1up
اب خیال کرنا چاہیئے کہ بجز اس صورت کے کہ خدائے تعالیٰ کو اپنا خالق اور اپنا رب اور اپنا مبدء فیوض مان لیا جائے کوئی اور بھی صورت ہے جس سے اس کا استحقاق مالکیّت قائم و ثابت ہوسکے اگر کسی آریہ کے ذہن میں ہے تو پیش کرے۔ تم سوچ کر دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ جو ہمارا خدا کہلاتا ہے اس کی خدائی کی اصل حقیقت ہی یہی ہے کہ وہ ایک
مبدء فیض وجود ہے جس کے ہاتھ سے سب وجودوں کا نمود ہے اسی سے اس کا استحقاق معبودیت پیدا ہوتا ہے اور اسی سے ہم بخوشی دل قبول کرتے ہیں کہ اس کا ہمارے بدن و دل و جان پر قبضہ استحقاقی قبضہ ہے کیونکہ ہم کچھ بھی نہ تھے اسی نے ہم کو وجود بخشا۔ پس جس نے عدم سے ہمیں موجود کیا وہ کامل استحقاق سے ہمارا مالک ہے۔ اب حاصل کلام یہ کہ سب ارواح اور ذرّات عالم کو غیر مخلوق اور انادی مان کر اور باایں ہمہ خدا تعالیٰ کو رحم کرنے سے بھی خالی سمجھ کر ایک ذرّہ استحقاق الوہیت اس کا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس کا روحوں پر قبضہ ایک ناجائز قبضہ ہے کہ بجز جبر اور ظلم کے اور کوئی وجہ اس قبضہ کی پائی نہیں جاتی اور تطاول ظلم بھی حد سے بڑھا ہوا ہے۔ کیونکہ جن چیزوں کو اس نے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا۔ جن پر ایک ذرہ رحم نہیں کرسکتا ان کو بے انتہا زمانہ سے بے وجہ و بے سبب تناسخ کی گردش اور ہزاروں دکھوں میں ڈال رکھا ہے ایک دفعہ مکتی دے کر اور اس امتحان گاہ میں پاس کرکے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا پھر نا کردہ گناہ بار بار مکتی خانہ سےؔ باہر نکالتا ہے کیا کوئی ایسا دل ہے کہ ایسے سخت طبع پرمیشر سے بیزار نہ ہو۔ ایسی سختی وہ کیوں کرتا ہے شاید اس کا یہ سبب ہو کہ کوئی ایسا زمانہ بھی گزرا ہو کہ روحوں نے بھی غالب آکر اس پر کوئی سختی کی ہو۔ جس طرح اوّل اوّل راجہ راون راجہ رام چندر پر غالب آگیا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/429/mode/1up
تھا اور رام چندر کو اس سے بہت کچھ قابل شرم دکھ پہنچا تھا۔ سو اسی طرح ممکن ہے کہ ایسا ہی پرمیشر کو بھی کسی زمانہ میں روحوں سے بہت دلآزار دکھ پہنچا ہو سو آج وہ انہیں ظالم روحوں سے اپنی کسریں نکال رہا ہے اور جس طرح رام چندر نے فتح یاب ہوکر لنکا کو جلا دیا تھا یہی ارادہ پرمیشر کا بھی ہندوؤں کے ساتھ معلوم ہوتا ہے
کہ روزبروز انہیں غارت ہی کرتا جاتا ہے۔ شاید مردے جلانے کی بھی یہی اصلیت ہوگی کہ پرمیشر کا قہر ان کے ظاہر و باطن پر بھڑکا ہوا ہے۔ سو اس نے مردوں میں بھی قہر کا نمونہ رکھنا چاہا۔ اسی وجہ سے ہریک ہندو یقین دل سے جانتا ہے کہ مرنے کے بعد میری خیر نہیں ضرور کسی جون میں پڑوں گا۔ کیونکہ پرمیشر تو غفور و رحیم نہیں اور ایک گنہ کے بدلے لاکھوں جونوں کی سزا تیار اور گنہ سے تو کوئی فرد بشر خالی نہیں کیونکہ ایک دم غافل رہنا بھی گناہ ہے۔
اب اس تقریر سے یہ بھی ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو ماننے کے ساتھ اس کا خالق اور رحیم اور کریم ماننا لازم ملزوم پڑا ہوا ہے پس اس سے عمدہ تر خدا تعالیٰ کی عام خالقیت پر اور کیا دلیل ہوگی کہ وہ خدا ہی اسی حالت میں رہ سکتا ہے کہ جب اس کو تمام عالم کا خالق مانا جائے ورنہ نہیں۔ پھر ایک دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ہم اس کو تمام عالم کا خالق نہ مانیں بلکہ جزوی طور پر صرف خودبخود موجود چیزوں کو جوڑنے جاڑنے والا سمجھ لیں تو اس کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ جب اصل وجود اشیاء کا جو ہزاروں صنعتوں سے بھرا ہؤا ہے خودبخود ٹھہرا تو پھر اس پر کیا دلیل ہے کہ اُن کے جوڑنے جاڑنے کے لئے پرمیشر کی حاجت ہے۔ یہ سارا بیان رسالہ سرمہ چشم آریہ میں بہ بسط تمام مندرج ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/430/mode/1up
دوسری دلیل روحوں کے غیر مخلوق ہونے پر اس عقلمند نے یہ لکھی ہے کہ جب کہ روحوں پر عدم نہیں تو حدُوث بھی لازم نہیں ہوتا لیکن یہ بھی دعویٰ ہے کہ جس پر کوئی دلیل نہیں اس قدر تو سچ ہے کہ آریوں کے نزدیک تمام روحیں یہاں تک کہ وہؔ کیڑے جو نجاست میں پڑجاتے ہیں جیسے جُوں اور پسُّو اور کھٹمل اور دیمک وغیرہ سب لازوال روحیں
ہیں جو کبھی معدوم نہیں ہوسکتیں۔ لیکن محقق فلاسفروں نے اس کو قبول نہیں کیا اور حکیم ارسطا طالیس نے بڑی تحقیق سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ قادر مطلق نے صرف انسانی روح کو ایسا بنایا ہے کہ وہ باقی رہے گی دوسری تمام روحیں نابود ہوجائیں گی بلکہ حکیموں کے نزدیک بعض روحیں ایسی ہیں جن کا طرفۃ العین میں حدوث و فنا کا وقت گزر جاتا ہے۔ افلاطون نے ایسا خیال کیا تھا کہ سب روحیں انسانی روح کی مانند قابل بقا ہیں۔ مگر ارسطو وغیرہ حکیموں پر جو اس کے بعد تھے یہ غلطی کھل گئی جیسا کہ اب تک یہ دستور دیکھا جاتا ہے کہ متقدّمین کی غلطیوں کی اصلاح کرنے والے متأخّرین ہی ہوتے ہیں۔ حکماء جدید یورپ جنہوں نے نظام فیثاغورسی کے مطابق ہیئت کی تصحیح کی اور نظام بطلیموسی کی غلطیاں نکالیں اور عجیب عجیب تحقیقاتیں علم طبعی میں کیں انہوں نے بھی افلاطون کو اس خیال میں جھوٹا سمجھا کہ تمام ارواح ازلی و ابدی ہیں بلکہ بیکن وغیرہ حکماء اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی روح ازلی نہیں اور تمام روحوں میں سے صرف انسانی روح دائمی بقا کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ دوسری حیوانات کی روحیں۔ غرض افلاطون کی رائے کو جمہور حکماء نے ردّ کردیا اور افلاطون نے اور بھی کئی فاش غلطیاں کی تھیں جیسے مثل افلاطون کا مسئلہ جس کی وجہ سے بہت سی تشنیع اور *** ملامت اب تک اس کو ہوتی رہی ہے اور حکماء میں سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/431/mode/1up
ایک گروہ جو دہریہ اور خدا تعالیٰ کا منکر ہے جن کا فرقہ آج کل یورپ میں کثرت سے پھیلتا جاتا ہے وہ انسان کی روح کو بھی بعد مفارقت بدن معدوم خیال کرتے ہیں اور آریہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ان کی قوم میں وہ فرقہ جو سب سے بڑھ کر ویدوں پر چلنے کا دعویٰ کرتا ہے اور قریباً تمام ہندو اسی فرقہ کے پیرو نظر
آتے ہیں جس کو ویدانتی کہتے ہیں اس فرقہ کا یہی مذہب ہے کہ ہریک روح پرمیشر سے ہی نکلا اور اس کے وجود کا ٹکڑا ہے اور پھر پرمیشر میں ہی گم اور معدُوم ہوجاتا ہے جیسے ایک قطرہ دریا میں گر کر۔ * اب اگرچہؔ آریوں کو بباعث مخالفت اصول تناسخ اور بربادی بنیاد اواگون اور دوسری قباحتوں کے خیال سے اس ویدانتی مذہب کا تسلیم کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا مگر تاہم وہ خوب جانتے ہیں کہ ویدانتیوں کے نزدیک روح کاملین کا اپنے تشخص سے معدُوم ہوکر پرمیشر کی جزو بن جاتا ہے۔ جیسے کہ وہ پہلے بھی پرمیشر کی جز تھا۔ بہرحال روح کے معدُوم ہونے کے وہ بھی قائل ہوئے کیونکہ جو چیز اپنا تشخص چھوڑ دیتی ہے تو پھر اس کو موجود نہیں کہا جاتا ایسا ہی آریوں میں بعض ناستک مت والے بھی قدیم سے چلے آئے ہیں جن کے اب تک شاستر بھی موجود ہیں وہ بھی بالاتفاق یہی کہتے ہیں کہ موت کے ساتھ ہی روح معدوم ہوجاتی ہے اور کچھ نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ اب اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ آریوں کا یہ اعتقاد کہ روح من حیث الذات اسی طرح واجب البقاء ہے جس طرح خدا تعالیٰ اور تمام مخلوق کی روح یہاں تک کہ وہ بے ثبات کیڑے جو ایک گندے پھل میں پڑجاتے ہیں سب پرمیشر کی طرح ازلاً و ابدًا واجب الوجود ہیں۔ یہ ایک محض دعویٰ ہے۔
جس کو آج تک کسی دلیل سے ثابت نہیں کیا گیا۔ مسلمان ہرگز ایسا نہیں مانتے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/432/mode/1up
جس کو آج تک کسی دلیل سے ثابت نہیں کیا گیا۔ مسلمان ہرگز ایسا نہیں مانتے کہ روح من حیث الذات واجب البقا ہے اور نہ کسی حکیم نے بجز ایک شخص مرد و دالقول کے کبھی ایسا خیال کیا ہے اگر ہم لوگ ایسا مانتے تو ہمیں بھی آریوں کی طرح تسلیم کرنا پڑتا کہ تمام کیڑوں مکوڑوں کی طرح روح ابدی ہیں اور ہمیشہ رہنے والی ہیں لیکن نہ ہمارا اور نہ جمہوری حکماء کا یہ مذہب ہے ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ بغیر کسی ذاتی وجوب کے خاص ربّانی عطا نے انسانی روح کو تعبّد ابدی کی مصلحت سے خلعت دائمی بقا کا بخشا ہے مگر یہ بقا حکمی ہے جو خاص انسان کے لئے تجویز کیا گیا۔ اگر وجوب ذاتی کے طور پر ہوتا تو کیڑوں مکوڑوں کی روح نے کیا گنہ کیا تھا جو اس وجوب سے مستثنیٰ رکھے گئے۔ آخر وہ بھی تو روح ہی ہیں جیسے انسان کی روح۔ اب جبکہ اس تقریر سے ثابت و ظاہر ہوگیا کہ روح کا بحیثیت روح ہونے کے خدائے تعالیٰ کی طرح عموماً و کلّیتاً واجب البقا ہونا یہ صرف آریوں کا دعویٰ ہے جس سے جمہوری رائے تمام حکماء و متقدّمین و متأخّرین کی مخالفت رکھتی ہے تو اس بے اصل و بے ثبوتؔ دعوے کو بطور دلیل کے سمجھ لینا ایسی ہی عقل کا کام ہے جو لیکھرام کی کھوپری میں ہے۔
ہندوؤں کی اکثر معتبر کتابوں میں پایا جاتا ہے کہ ہریک روح پرمیشر سے نکلی اور پرمیشر میں ہی نابود ہوجاتی ہے جیسا کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ تمام جیو پرمیشر کے ہی کلمے ہیں اورؔ انجام کار اسی میں ہی محو ہوجانیوالے ہیں۔ دیکھو بھاگوت گیتا ادھیا ۱۳ سے ۱۵ تک۔ پھر لکھا ہے کہ پرمیشر نے چاہا کہ ایک سے انیک ہوجائے تب اس نے تپسیا کرکے ہریک چیز کو بنایا اور آپ جیوبن کر اس میں داخل ہوا وہ آپ ہی خالق اور آپ ہی مخلوق ہے وہی سچائی اور وہی جھوٹ ہے۔ تیترا برہمن صفحہ ۸۳۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/433/mode/1up
بالآخر ہم اس شخص کی کتاب تکذیب براہین احمدیہ کے دیکھنے والوں کو محض خیر خواہی کی راہ سے مطلع کرتے ہیں اور خداوند کریم واحد شاہد ہے کہ ہم سچ اور بالکل سچ کہتے ہیں کہ یہ شخص علم دین وغیرہ علوم سے بالکل جاہل اور نہایت غبی طبع اور نادان محض ہے۔ ہاں گالیاں دینے اور بہتان لگانے اور گند بولنے میں چوہڑوں اور ساہنسیوں سے بھی بڑھ کر ہے پادریوں اور اندرمن
اور کنہیا لال الکھ دہاری کے بے اصل اعتراضات جو اسلام پر اور قرآن شریف پر انہوں نے کئے ہیں اور اپنی نادانی اور نابینائی کی وجہ سے ان باتوں کو محل اعتراض ٹھہرا لیا ہے جو عین حکمت اور اسرار حکمت و معرفت سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہی اعتراضات جو صدہا مرتبہ ردّ ہوچکے ہیں اردو رسالوں و اخباروں وغیرہ سے اس نے لے لئے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ حیا ہو تو ایک ہی جواب پاکر اور اپنی صریح غلطی اور نادانی دیکھ کر مارے شرم کے مرجائے مگر اس طبیعت کے لوگ
مرا بھی نہیں کرتے شرم اور حیا سے فراغت جو ہوئی۔ ہم عنقریب
آریوں کو دکھلائیں گے کہ ایسے شخص کا پیش رو
بن بیٹھنا ان کے لئے کلنک کا
ٹیکا ہے یا نہیں۔
گرنیا ید بگوش رغبت کس
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/434/mode/1up
تمت رسالۂ شحنۂ حق بعَونِ قادِرِ مُطلَقْ اَزْ تصنیفات جناب حافظ کلام رَبّانی محافظ الھام یزدانی جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان دام فیوضہ
حاشیہؔ متعلق صفحہ۳۶۸ شحنہ حق
دیانندی فریبوں کا ایک بڑا نمونہ یہ ہے کہ اس نے ہندوؤں کو مسلمانوں پر بدظن کرنے کے لئے اپنی ستیارتھ پرکاش میں سراسر جعل سازی سے جو اس کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی لکھ مارا کہ ہندو کا نام جو آریوں پر اطلاق کیا جاتا ہے دراصل یہ فارسی لفظ ہے جس کے معنے چور ہیں مسلمانوں نے تحقیر کے طور سے آریوں کا نام چور رکھا ہے سو ہندو کہلانے سے پرہیز کرنا چاہیئے اس پر فتنہ تحریر سے دیانند کا اصل مطلب یہ تھا کہ ایک طرف تو ہندو لوگ مسلمانوں سے ناراض ہوجائیں گے۔ دوسری طرف آریہ سماج کو بھی ترقی ہوگی کیونکہ آریہ کہلانے سے عوام کو یہ دھوکا لگ جائے گا کہ دیانندی مذہب جلد جلد پھیلتا جاتا ہے جب ستیارتھ پرکاش میں یہ مضمون شائع ہوا تو شاید ۱۸۸۱ ؁ء یا ۱۸۷۹ ؁ء تھا کہ ہم نے پرچہ اخبار وکیل ہند امرتسر میں ایک ایسا کامل ردّ اس کا چھپوایا جس کے ساتھ ایک صدی وار نقشہ بھی شامل تھا اور ہم نے ثابت کردیا تھا کہ اسلام کے وجود سے ایک مدّت پہلے ہی لفظ ہندو کا قدیم سے اس قوم پر اطلاق کیا جاتا ہے ہمیں یاد ہے کہ اس مضمون میں سبعہ معلقہ کا ایک شعر بھی ہم نے لکھا تھا جو اسلام کے شائع ہونے سے ایک مدت پہلے کا ہے اور وہ یہ ہے
وظلم ذوی القُرْبٰی اشد مضاضۃ علی المرء من وقع الحسام المھند
اس کے معنے یہ ہیں کہ خوشیوں کا ظلم ہندی تلوار سے بڑھ کر ہے۔ پھر اس کے بعد ایک پنڈت نے بھی اس دیانندی دعویٰ کاکھنڈن لکھا اور ہندو کے لفظ کا اشتقاق بیاکرن کے رو سے سنسکرت کے مادہ سے ہی ثابت کیا۔ شاید اس ہندو کا نام مہیش چند تھا پھر سب کے بعد پادری ٹامس ہاول نے وہ مضمون لکھا جس کو اب ہم ہدیہ ناظرین کرکے آریہ صاحبوں سے استفسار کرتے ہیں کہ پادری صاحب کے اس مضمون کو پڑھ کر ہمیں اطلاع دیں کہ اب بھی پنڈت دیانند کا فریب ثابت ہے یا نہیں کیونکہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/435/mode/1up
اس صاف ثبوت کے ملنے کے بعد دیانند اؔ ن دو الزاموں میں سے ایک الزام کے نیچے ضرور آئے گا یا تو اسے فریبی کہنا پڑے گا جس نے تفرقہ ڈالنے کے لئے ناحق یہ جعل سازی کی اور یا اس کا نام جاہل مطلق رکھنا پڑے گا جو ایسے صاف اور بدیہی اور مشہور امر سے ناواقف رہا۔ سو اب معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آریہ صاحبان ان دونوں ناموں میں سے کس نام کو اپنے دیانند کے لئے پسند کرتے ہیں۔ آیا اس کو فریبی کہا جائے یا جاہل۔ اب وہ مضمون جس کو ہم نے پرچہ مطبوعہ نرنجن پرکاش امرتسر سے نقل کیا ہے۔ بجنس ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
ہند*و و آریہ نام کا بیان
ماہران علم و محققان حقیقت نے ہندو نام کی بابت یہ لکھا ہے کہ یہ لفظ اس دریا کے نام سے بنا ہے جو سندھو کہلاتا ہے کیونکہ اکثر الفاظ جو زبان سنسکرت سے زبان فارسی میں آگئے ہیں وہ اس طرح تبدیلؔ شدہ پائے جاتے ہیں یعنی جن الفاظ سنسکرت کے شروع میں (سین) ہوتا ہے تو زبان فارسی میں ان الفاظ کے ماقبل کا (سین) (ہائے ہوز) سے تبدیل شدہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً جو لفظ سنسکرت میں (سپتہ) ہے وہ بزبان فارسی (ہفتہ) ہوگیا ہے اور ویسا ہی وسم کا وہم اور سہسر کا فارسی میں ہزار اور اسی طرح سندھو کا
ہندو ہوگیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جس سے مراد ہے دریا سندھ کے کنارے کے باشندے۔
۔ دوئم ممکن ہے کہ یہ ہندو نام سنسکرت کے دو لفظوں سے بنا ہو یعنے ہین اور دوش سے جن کے معنے بے نقص کے ہیں اور ممکن ہے کہ کثرت استعمال کے سبب ان میں سے چند الفاظ چھوٹ بھی گئے ہوں جیساؔ کہ ہندو استھان کی بجائے اب ہندوستان بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کے سبب استھان میں سے الف اور ہائے ہوز چھوٹ گیا ہے اور عقل بھی قبول کرتی ہے کہ ہندوؤں کے بزرگوں نے جو ہوشمند تھے ایسے
بقیہ حاشیہ۔نام یعنے ہین دوش کو جس کے معنے بے دوش کے ہیں اپنی قوم پر عائد کرلیا ہو اور پھر زبان سنسکرت میں نام کو آریہ اور زبان فارسی میں ایرانی دونوں ایک ہی مصدر یادہا تو آر سے نکلتے ہیں اور آریہ اور ایرانی کے اصلی معنے ہل چلا کر کھیتی کرنے والے کے ہیں اور حقیقتاً یہ نام آریہ اس قوم کے لوگوں کا اس وقت تھا جب یہ صرف کھیتی کرکے ہل واہی کرنے سے روٹی کماتے تھے جیسے کہ آج تک اس پنجاب میں بھی کھیتی کرنے والے ارائیں کہلاتے ہیں اور اکثر اس پیشہ کے لوگ جانوروں خصوصًابیلوں پر ظلم بھی کیا کرتے ہیں اور بے زبان جانوروں کو ایسی چھڑی سے جس کے سرے پر ایک لوہے کی نوکدار کیل لگی ہوئی ہوتی ہے چبھو چبھو کر ہانکا کرتے ہیں اور اس سبب سے وہ نوکدار کیل ان کے نام سے نامزد ہوکر آر کہلاتی ہے۔ پس جب اس قوم نے رفتہ رفتہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/436/mode/1up
علم و ہنر و سوداگری میں ترقی کی تو آریہ نام کو جو صرف کھیتی کرنے والے کے لئے مخصوص تھا چھوڑ دیا اور یہ نسبت اس آریہ نام کے (اغلباً) ہیں دوش کو جو رفتہ رفتہ ہندو ہوگیا ہے اپنی قوم پر عائد کرلیا اور یہ ہندو نام بہ نسبت آریہ نام کے اس قوم میں زیادہ رونق پاگیا۔
حاشیہؔ متعلق صفحہ ۳۷۲
ہم نے جو ایک چٹھی ایک لائق اور طالب حق انگریز کی اس کتاب کے صفحہ ۳۶ میں درج کی ہے اسی
* حاشیہ در حاشیہ دیانندؔ جی نے ۱۸۷۶ ؁ء سے آریہ سماج قائم کی ہے وہ اور ان کے پیرو اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ ہندو فارسی میں چور کو کہتے ہیں اور یہ نام ہماری قوم کا ہمارے دشمنوں یعنی محمدیوں نے رکھا ہوا ہے۔ یہ بیان ان کا محض غلط ہی نہیں بلکہ دو مطلبوں کے لئے ایک دھوکا ہے۔ اول یہ کہ ہندوؤں کو اس نام سے نفرت ہوجاوے اور خواہ مخواہ اپنے تئیں آریہ لکھا کریں اور اس حکمت عملی سے تعداد دیانند جی کے پنتھ جی کی روزبروز بڑھتی چلی جاوے۔ دوئم ہندوؤں اور محمدیوں میں جو اتفاق اور میل جول ہورہا ہے بجائےؔ اس کے نفاق پیدا ہوجاوے۔ پس فارسی دان اشخاص یہ جانتے ہیں کہ ہندو فارسی میں بھی ایک لفظ ہے جس کے اصطلاحی معنے چور کے کئے گئے ہیں مگر یہ لفظ ہندو کا جو قوم ہنود پر بولا جاتا ہے وہ لفظ نہیں جو فارسی میں مستعمل ہوا ہے۔ نیز یہ بھی جاننا چاہیئے کہ ہندو لفظ جو فارسی میں آیا ہے اس کے اصطلاحی معنے صرف چور ہی کے نہیں بلکہ بعض اوقات وہ معشوق کے معنے بھی دیتا ہے جیسا کہ شیرازی کہتا ہے بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را۔ اگر یہ کہا جاوے کہ فارسی میں ہندو کے معنے ُ برے و اچھے دونوں طرح کے استعمال ہوئے ہیں اس لئے ہندو نام کو چھوڑنا چاہیئے تو اس سبب سے نہ ہندو نام بلکہ اور بھی بہت نام ترک کرنے پڑیں گے۔ مثلاً رام کا لفظ بھی فارسی میں اچھے معنے نہیں رکھتا کیونکہ فارسی میں رام۔ غلام و فرمانبردار کو کہتے ہیں اگر ہندو نام قابل تبدیل ہے تو رام نام بھی تبدیل ہونا چاہیئے اور پھر اسی طرح آریا عربی میں کینہ ور قوم کو کہتے ہیں وہ بھی تبدیل کیا جاوے اور پھر بید سنسکرت میں حکیم کو کہتے ہیں مگر ؔ فارسی میں ایک درخت بے ثمر کو کہتے ہیں اور پھر اناد سنسکرت میں اس کو کہتے ہیں جس کا شروع نہ ہو لیکن بہ تبدیل اعراب فارسی میں عناد دشمنی کو کہتے ہیں اور دیانند جی اپنی تحریروں میں ویدوں کو انادی پکارتے رہے ہیں تو کیوں یہاں پر لحاظ معنے فارسی کا نہیں کیا گیا جو ہندو نام پر لحاظ فارسی کے معنوں کا کیا جاتا ہے پس اگر ہندو نام قابل تبدیل ہے تو اناد بھی جو ویدوں پر عائد کیا گیا ہے قابل تبدیل سمجھنا چاہیئے۔ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ امر واجبی ہے کہ جن ناموں کے معنے غیر زبانوں میں ُ برے ہوں ان کو تبدیل کرنا مناسب ہے پس جس میں کچھ بھی عقل ہو
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/437/mode/1up
ہم نے جو ایک چٹھی ایک لائق اور طالب حق انگریز کی اس کتاب کے صفحہ ۳۶ میں درج کی ہے اسی انگریز کی ایک دوسری چٹھی آج یکم اپریل ۱۸۸۷ ؁ء کو امریکہ سے پہنچی ہے جس میں اس قدر شوق اور اخلاص اور طلب حق کی بو آتی ہے کہ ہم نے اپنے مخالف ہم وطنوں کے ملاحظہ کے لئے کہ جو باوجود نزدیک ہونے کے بہت ہی دور ہیں اس چٹھی کا بجنس معہ ترجمہ درج کردینا قرین مصلحت سمجھا اور ساتھ ہی وہ مختصر جواب جو ہم نے لکھا ہے ناظرین کی اطلاع کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ اور وہ چٹھی معہ ترجمہ یہ ہے:۔
۔ اور اس کی عقل کو کسی غرض سے اندھا نہ کررکھا ہو کبھی نہ کہے گا کہ وہ تبدیل کئے جاویں کیونکہ ہمیں غیروں کی زبان سے کیا غرض ہے ہرایک کو اپنی ہی زبان میں دیکھنا چاہئے کہ ہماری زبان میں اس لفظ یا نام کے کیا معنے ہیں ویسا ہی ہندوؤں اور آریوں کو اپنے ناموں کے معنے اپنی زبان سنسکرت میں دیکھنے چاہئیں نہ کہ زبان فارسی و عربی میں لیکن ہم کو تو اس کے برعکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند جی و ان کے پیرو سنسکرت زبان کے الفاظوں کو فارسی زبانؔ کے الفاظوں کا مغلوب سمجھ کر سنسکرت الفاظ ترک کرتے رہے ہیں مثلاً جب دیانند جی نے سنا کہ زبان فارسی میں اسیر باد کے معنے قید ہونے کے ہیں تو اس لحاظ سے انہوں نے سنسکرت لفظ اشیرباد کو تیاگ دیا اور بجائے اس کے نمستے قرار دیا حالانکہ جو لفظ اشیرباد ہے وہ سنسکرت میں اچھے معنے رکھتا ہے اور بہت پرانا لفظ ہے اور منوسمرتی اور دیگر معتبر کتب ہنود میں بہت جگہ پایا جاتا ہی نہیں بلکہ اس کے استعمال کے لئے نہایت درجہ کی تاکید بھی کی گئی ہے دیکھو منوسمرتی ادھیائے ۲ شلوک ۱۲۶ ترجمہ جو شخص اشیرباد دینے کے کلام کو نہیں جانتا اس کو پر نام کرنانہ چاہیئے وہ شودر کی مانند ہے اور یہ ہر کہ ومہ پر ظاہر ہے کہ مختلف زبانوں کے بعض بعض الفاظ و نام آپس میں کسی قدر مشابہ بھی ہوا کرتے ہیں لیکن ان کے معنوں میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ کسی حال میں ممکن نہیں کہ ہر ایک نام یا الفاظ کے معنے تمام زبانوں میں اچھے یا برے آپس میں موافق ہوں اگر ہم کو اس سبب سے الفاظ و اسمائے ترک و تبدیل کرنے پڑیں تو تمام جہان کے الفاظ ترک و تبدیل کرنے پڑیں گے جو محض ناممکن ہی نہیں بلکہ سخت بیوقوفی ہے اور دیانندجی کے پیروؤں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہندو نام اس قوم کا محمدیوں کے فلاں بادشاہ نے فلاں زمانے میں رکھا تھا اور باوجود علم اور ہوش رکھنے کے اس قوم کے بزرگوں نے بخوشی یا جبرً ا اپنے پر عائد کرلیا تھا اور یہ سب پر روشن ہے کہ ہندو راجوں اور عالموں نے سوائے دیانند جی اور ان کے پنتھ والوں کے کبھی کوئی اعتراض اس نام پر نہیں کیا اور ہندوؤں کے پستکوں میں اس نام کا رواجؔ پایا جاتا ہے مثلاً گورو نانک صاحب کے آدگرنتھ میں بار بار اس قوم کا نام ہندو لکھا ہوا موجود ہے اور نیز گوبند سنگھ صاحب جو زبان فارسی میں بھی اچھی مہارت رکھتے تھے ان کو کبھی یہ نہ معلوم ہوا کہ جس قوم میں سے ہم لوگ ہیں اس کا نام محمدیوں کی جانب سے بہت برا رکھا گیا ہے اس لئے وہ نام تبدیل کیا جاوے اور غور کا مقام ہے کہ اکبر بادشاہ جو بے تعصّب مشہور ہے اور جس کے عہد میں بہت ہندو دانا امیر اور وزیر اور زبان فارسی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/438/mode/1up
وہ چٹھی معہ ترجمہ یہ ہے:۔
بقیہ حاشیہ در حاشیہ۔ میں پوری پوری لیاقت اور آزادانہ طور پر گزران کرچکے ہیں اس وقت انہوں نے بھی اس نام پر کچھ اعتراض نہیں کیا پس جس حال میں ہندوؤں کے بزرگ اس نام پر رواج دیتے اور اپنے پر قبول کرتے رہے ہیں اور کوئی اعتراض اس پر نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس نام کو اچھا جانتے تھے نہ کہ برا۔ اور دیانند جی یا ان کے پیروؤں کا یہ فرمانا کہ ہندو نام ہماری قوم کا محمدیوں نے رکھا ہے بالکل غلط اور محض دھوکا ہے کیونکہ یہ نام ان کتابوں میں پایا جاتا ہے جو محمد صاحب کی پیدائش سے بہت پہلے لکھی گئی تھیں مثلاً آستر کی کتاب جو یہودیوں کی مقدس کتابوں میں درج ہے اور محمد صاحب کی پیدائش سے ایک ہزار برس پیشتر لکھی گئی تھی اس کے پہلے باب کی پہلی آیت میں ہے یہ وہی اخی سیورس یعنی شیر شاہ ہے جو ہندوستان سے کوش تک سلطنت کرتا تھا۔ پھر فلا دیس جو سفیس جو ایک بڑا یہودی مؤرّخ گزرا ہے اور ۳۷ء میں پیدا ہوا تھا اور محمد صاحب کی پیدائش سے قریباً چھ سو برس پیشتر ہو گزرا ہے وہ اپنی تواریخ کی کتاب کے آٹھویں حصہ کے باب ۵ میں یوں لکھتا ہے کہ جیرام شاہ سور نے چند آدمی جو سمندر کے حال سے خوب واقف تھے سلیمان کے پاس بھیجے تاکہ وہ یہاں جہاز رانی کریں اور بادشاہ نے ان کو سرزمین اوفیر میں بھیجا کہ جس کا نام ادریاما جس پر سونسس ہے اور یہ زمین ہندوستان سے متعلق اور یہاں کا سونا نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ محمد صاحب کی پیدائش سے بہت پہلے یہ ملک ہندوستان کے نام سے نامزد اور مشہور و معروف تھا اور اغلباً اس کے باشندے ہندو کہلاتے تھے۔
الراقم۔ ٹامس ہاول۔ از پنڈ دادنخان
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/439/mode/1up
۳۰۲۱۔ ایسٹن ایونیو
سینٹ لوئی مسوری یو۔ایس۔اے
۲۴۔ فروری ۱۸۸۷ ؁ء
مرزا غلام احمد صاحب
مخدومنا
آپ کی چٹھی مورخہ ۱۷۔ دسمبر میرے پاس پہنچی۔ میں اس قدر شکر گزار اور مرہون منت ہوا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ جواب پہنچنے کی میں تمام امیدیں قطع کرچکا تھا۔ لیکن اس آپ کی چٹھی اور اشتہار نے توقّف کا پورا پورا عوض دے دیا۔ بہ سبب ہیچمدانی اور کم واقفیّتی کے میں صرف اسی قدر جواب میں لکھ سکتا ہوں کہ ہمیشہ سے میرا یہی شوق اور یہی آرزو ہے کہ سچی حقیقتوں سے مجھے اور بھی زیادہ خبر ہو۔ آپ کا اشتہار پڑھنے کے بعد میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا جس کو میں بغرض غور و تفکّر حضور پیش کروں گا نہ صرف معقولی طور سے بلکہ ایمانی جوش کی تحریک سے یقین کرتا ہوں کہ آپ جو روحانی ترقی میںؔ میرے سے بڑھ کر اور خدا کے قریب تر ہیں مجھ کو ایسی طرز سے جواب دیں گے جو کہ افضل و انسب ہو۔ اگر میرے لئے ہندوستا
3021 EASTON AVENUE,
  1. Louis Missouri, U. S. A.
February 24th, 1887
BABU MIRZA GHULM AHMAD
Esteemed Sir,
I cannot adequately express to you my gratitude for the letter received from you under date of December 1 7. I had almost given up all hope of receiving a reply but the contents of the letter and circulars fully repaid me for the delay. I hardly know what to say in reply except that I am stil very anxious to gain more of the truth than I have thus far found.
After reading your circulars an idea occured to me which I
will present to you for your consideration knowing or rather feeling confident that you,
who are so much more spiritual than I, so much nearer to God, will answer me in a way that will be for the best. Were it possible for me to visit India I would
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/440/mode/1up
میں پہنچنا ممکن ہوتا تو میں نہایت خوشی سے پہنچتا لیکن میری ایسی حالت ہے کہ پہنچنا محال ہوتا ہے۔ میری شادی ہوچکی ہے اور تین بچے ہیں قریب دو سال کے ہوئے میں نے گوشہ نشینی اختیار کررکھی ہے اور ایسا ہی بقیۃ العمر کرتا رہوں گا میری آمدنی اس قدر نہیں ہے کہ میں اپنے کام سے بلا قباحت علیحدہ ہوسکوں کیونکہ اس آمدنی سے میں بانتظام تمام اپنے عیال و اطفال کی پرورش کرسکتا ہوں اس وجہ سے اگر میں ہندوستان پہنچنے کے لئے کافی زاد راہ بہم پہنچا بھی سکوں تاہم یہ غیر ممکن معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عیال کے لئے دوری کی حالت میں کافی ذخیرہ مہیا کرسکوں۔ اس لئے ہندوستان میں پہنچنا دور از قیاس دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اسی جگہ (آپ کی اعانت سے) سچائی پھیلانے میں کچھ خدمت کرسکتا ہوں اگر جیسے کہ آپ فرماتے ہیں دین اسلام ہی سچا دین ہے تو پھر کیا وجہ کہ میں امریکہ میں تبلیغ و اشاعت کا کام نہ کرسکوں بشرطیکہ مجھ کو کوئی رہبر مل جائے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ کو اس طرح کی اشاعت کے لئے معقول موقعات حاصل ہیں۔ مجھ کو یقین ہوا ہے کہ نہ صرف محمدؐ صاحب نے بلکہ عیسیٰ و گوتم بدھ و ذورو سٹر اور بہت سے اور لوگوں نے سچ کی تعلیم دی اور یہ بتلایا کہ ہم کو نہ انسان کی بلکہ خدا کی عبادت اور پرستش کرنی لازم ہے اور اگر مجھ کو یہؔ سمجھ آجائے کہ جو محمد صاحب نے تعلیم دی ہے وہ اوروں کی تعلیم سے افضل ہے تب میں اس قابل ہوجاؤں گا کہ دین محمدی کی دیگر مذاہب سے بڑھ کر حمایت اور اشاعت کروں لیکن ان کی تعلیمات کا جو مجھ کو قدرے علم ہوا ہے اسی قدر علم سے میں حمایت و اشاعت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ باشندگان امریکہ کی توجہ عام طور سے مشرقی مذاہب کی طرف
do so only too gladly. But I am so situated that it seems almost an impossibility I am married and have three children, For nearly two years I have been living a life of celibacy and shall continue to do so as long as I live. My income is not sufficient to justify me in giving up my business as it requires all that I can make to support my family; therefore, even if I had sufficient means to enable me to make the journey to India I would not be able to furnish support for my family during my absence. Therefore a visit to India being out of the question it occured to me that I might through your aid assist in spreading the truth here, If, as you say the Muhammadan is the only true religion why could I not act as its Apostle or promulgator in America. My opportunities for doing so seem to me very good if I had some one to lead me aright at first. I have been led to believe that not only Muhammad but also Jesus, Gautam Budha, Zoroaster and many others taught the truth, that we should, however, worship God and not men. If I could know what Muhammnad really taught that was superior to the teachings of others, I could then be in a position to defend and promulgate the Muhammadan religion above all others. But
the little I do know of his teachings is not sufficient for
me to do effective work with. The attention of The American people is being quite
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/441/mode/1up
کھنچی ہوئی ہے اور تحقیقات مذہب بدھ میں دیگر تمام مذاہب کی نسبت زیادہ مشغول ہیں میرے قیاس کے موافق آج کل عام لوگوں کے خیالات ہمیشہ کی نسبت قبولیت دین اسلام و مذہب بدھ کے لئے زیادہ تر لائق و قابل ہورہے ہیں اور یہ ممکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے طفیل سے میرا یہ مذہب میرے ملک میں اشاعت پاجاوے میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ آپ شوق و ذوق کے ساتھ مصروف ہیں۔ میں کسی دلیل سے شبہ نہیں کرسکتا کہ آپ کو خدا نے بغرض اشاعت نور حقّانیت مشرّف بالہام کیا ہے پس یہ میرے سرور حقیقی کا باعث ہوگا کہ میں آپ کی تعلیم کی زیادہ قدر و منزلت کروں اور آپ سے اور تعلیم بھی حاصل کروں خداوند تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے جانتا ہے کہ میں سچ کی تلاش کررہا ہوں اور جب کبھی مل جائے قبول کرنے کے لئے آمادہ و مشتاق ہوں اگر آپ حقّانیت کی مبارک روشنی کی طرف میری رہنمائی کریں تو آپ دیکھیں گے کہ میں سردجوش مقتدی نہیں بلکہ ایک گرم جوش طالب ہوں میں تین سال سے اس تلاش میں ہوں اور بہت کچھ معلوم بھی کرچکا ہوں کہ خدا نے مجھ پر بافراط اپنیؔ برکتیں نازل کیں اور میری یہ تمنّا ہے کہ اس کے کام کو بشوق بصدق تمام تر انجام دوں ہاں یہ کشمکش پیدا ہورہی ہے کہ کس طرح سے اس کام کو کروں کیا کروں اور کس طرح کروں کہ یہ کام اکمل طور سے پورا کرسکوں اس کی جناب میں یہ دعا ہے کہ مجھ کو راہ کی صاف صاف رہنمائی ہو اور گمراہی سے محفوظ رہوں ۔ اگر آپ میری مدد کریں تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ ایسا کردیں گے میں آپ کی چٹھی کو حفاظت سے رکھوں گا اور اس کی نہایت تکریم کروں گا میں آپ کے اشتہار کو امریکہ کے کسی نامور اخبار میں چھپوا دوں گا اور ایک نسخہ اس اخبار کا آپ کے پاس بھی بھیجوں گا جس سے اس کی شہرت بہت وسعت پاجائے گی اور وہ ایسے لوگوں کی نظروں میں
generally attracted to the oriental religious but Buddhism seems to be the foremost in their investigations. The public mind, I think is now more_ _ than ever fitted to receive Muhammadanism as well as Buddhism and it may be that through you it is to be_ _ introduced in my country. I am_ _ convinced that you are very much in earnest. I have no reason to doubt_ _ that you are inspired by God to spread the light of truth therefore I would be happy to know more of your teachings and to hear further from_ _ you. God, who can read all hearts, knows that I am seeking for the truth that I am ready and eager to embrace it wherever I can find it. If you can lead me into its blessed light you will find me not only a willing pupil but an anxious one. I have been seeking now for three years and have found a great_ _ deal. God has blessed me abundantly and I want to do His work earnestly_ _ and faithfully. How to do it is what_ _ has moved me—how to do it so that_ _ the most good may be accomplished. I pray to Him that the way may be pointed out clearly to me so I that may not go astray. If you can help me I hope that you will do so.I shall_ _ keep your letter and prize it highly. I will get the circulars printed in one_ _ of the leading American newspapers so that they will have a wide spread circulation and I will send you a copy of the paper. They may reach the eyes of many who will become interested. I shall be happy to receive from you at
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/442/mode/1up
گزرے گا جو اس طرح کے معاملات میں شوق اور توجہ ظاہر کریں گے آئندہ کو کوئی اور حقیقت جو آپ عام طورسے مشتہر کرنا چاہیں گے اور میرے پاس اسی غرض سے بھیجیں گے تو یہ میری کمال خوشی اور سرور کا باعث ہوگا اور اگر آپ میری خدمتوں کو امریکہ میں امور حقّانی کی اشاعت کے قابل سمجھیں تو آپ کو ہر وقت مجھ سے ایسی خدمت کرانے کا پورا پورا اختیار ہے بشرطیکہ مجھ تک آپ کے خیالات پہنچتے رہیں اور میں ان کی حقّانیت کا قائل ہوتا رہوں مجھ کو یہ تو بخوبی یقین ہوچکا ہے کہ محمدؐ صاحب نے سچ پھیلایاا ور راہ نجات کی ہدایت کی اور جو شخص کہ اس کی تعلیمات کے پیرو ہیں ان کو ہمیشہ کے لئے خوش اور مبارک زندگی حاصل ہوگی۔
مگر کیا عیسیٰ مسیح نے بھی سچا اور سیدھا راہ نہیںؔ بتلایا؟ اور اگر میں ہدایت عیٰسی کی متابعت کروں تو پھر کیا نجات کی ایسی یقینی طور سے امید نہیں کی جاسکتی جیسے کہ دین اسلام کی متابعت سے؟ میں سچ معلوم کرنے کی غرض سے سوال کررہا ہوں نہ مباحثہ وجدال کی غرض سے میں حق کی تلاش کررہا ہوں۔ میں کسی خاص دعویٰ کے اثبات کے لئے جدل نہیں کرنا چاہتا میں خیال کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ محمدؐ صاحب کی فی الحقیقت ہدایات کے پیرو ہیں نہ ان عقائد کے جو عامہ خلائق دین محمدی سے مراد لیتے ہیں اور تمام مذاہب میں جو سچ سچ حقیقتیں موجود ہیں ان کو مانتے ہیں نہ ان عقائد کو جو عام لوگ بعد میں اپنی طرف سے زیادہ کرتے رہے مجھے یہ بھی سخت افسوس ہے کہ میں آپ کی زبان سمجھ نہیں سکتا ہوں اور نہ آپ میری زبان سمجھ سکتے ہیں ورنہ میں یقینًا کہتا ہوں کہ جو سبق میں آپ سے چاہتا ہوں وہ ضرور آپ مجھے سکھاتے تاہم امید قوی رکھتا ہوں کہ اگر میں خدا کی محبت کے لائق ہونے کی طلب میں رہوں گا تو بے شک وہ کوئی نہ کوئی ایسا طریق نکال دے گا۔
any time matter which you may have for general circulation and if you should see fit to use my services to further the aims of truth in the country they will be freely at your disposal provided, of course, that I am capable of receiving your ideas and that they convince me of their truth. I am already well satisfied that Muhammad taught the truth that he pointed out the way to salvation and that those who follow His teachings will attain to a condition of eternal bliss. But did not Jesus Christ also teach the way ? Now suppose I should
follow the way pointed out by Jesus. Would not my salvation be as perfectly assured as if I followed Islam? I ask with a desire to know the truth and not to dispute or argue. I am seeking the truth not to defend any theory’. I think I understand you to be a follower of the esateric teachings of Muhammad and not what is known to the masses of the people as Muhammadanism; that you recognize the truths that underlie all religions and_ _ not their exoteric features which have been added by men. I too regret very_ _ _ much that I cannot understand your_ _ language nor you mine; for I feel quite sured that you could, tell many things_ _ which I much desire to know. However I am impressed to believe that God will provide a way if I try to de¬serve His love. Blessed be His holy name and I hope that I may hear from_ _ you again and that we may some
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/443/mode/1up
مبارک ہو اس کا پاک نام۔ اب امیدوار ہوں کہ پھرآپ سے کچھ اور حال سنوں۔ اور اگرچہ جسمانی ملاقات حاصل نہ ہوسکے تاہم روحانی ملاقات نصیب ہو آپؔ پر اور آپ کے کلمات سننے والوں پر خدا کا فضل ہو۔ دعا کرتا ہوں کہ تمام آپ کی امیدیں اور تدبیریں پوری ہوں۔ زیادہ آداب و نیاز۔
آپ کا نیاز مند
الگزنڈر آر۔ ویب
سینٹ لوئی مسوری
۳۰۲۱۔ ایسٹن ایونیو۔ امریکہ
یہ اس خط کی نقل ہے جو بجواب چٹھی مندرجہ بالا بھیجا گیا:۔
صاحب من
آپ کی چٹھی جو دل کو خوش اور مطمئن کرنے والی تھی مجھ کو ملی جس کے پڑھنے سے نہ صرف زیادت محبت بلکہ میری وہ مراد بھی جس کے لئے میں اپنی زندگی کو وقف سمجھتا ہوں (یعنی یہ کہ میں حق کی تبلیغ انہیں مشرقی ممالک میں محدود نہ رکھوں بلکہ جہاں تک میری طاقت ہے امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں بھی جنہوں نے اسلامی اصول کے سمجھنے کے لئے اب تک پوری توجہ نہیں کی اس پاک اور بے عیب ہدایت کو پھیلاؤں) کسی قدر حاصل ہوتی نظر آتی ہے سو میں شکر گزاری سے آپ کی درخواست کو قبول کرتا ہوں اور مجھے اپنے خداوند قادر مطلق پر جو میرے ساتھ ہے قویؔ امید ہے کہ وہ آپ کی پوری پوری تسلی کرنے کے لئے مجھے مدد دے گا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ ماہ کے عرصہ تک ایک ایسا رسالہ
day meet in spirit even if we cannot meet in the body. May the peace of God be with you and with those who listen to your words. I Pray that all your hopes and plans may be realised.
With reverence and esteem.
I am
Yours Respectfully,
ALEX. R WEBB,
  1. LOUIS MISSOURI,
3021 Easton Avenue.
Reply of the above said letter.
DEAR SIR
I received your letter, dated 24th of February 1887, which proved itself to be great delight to my heart and a satisfaction to my anxieties. The contents of the letter not only increased my love towards you that led me to the hope of a partial realization of the object which I have in view for which I have dedicated the whole of my life viz, not to confine the spread of the light of truth to the oriental world but, as far as it lies in my power to further it in Europe, America, & Co. where the attention of the people has not been sufficiently attracted towards a proper understanding of the teachings of Islam. Therefore I consider it an honour to comply with your request; and have a strong confidence in the Almighty Creater, Who is with me, that he will assist me in giving you a perfect and permanent satisfaction. I give you my word
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/444/mode/1up
جو قرآنی تعلیموں اور اصولوں کا آئینہ ہو تالیف کرکے اور پھر عمدہ ترجمہ انگریزی کراکر اور نیز چھپوا کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا جس پر قوی امید ہے کہ آپ جیسے منصف اور زیرک اور پاک خیال کو اتفاق رائے کے لئے مجبور کرے گا اور انشراح صدر اور قوت یقین اور ترقی معرفت کا موجب ہوتا مگر شاید کم فرصتی سے یہ موجب پیش آجاوے کہ میں ایک ہی دفعہ ایسا رسالہ ارسال نہ کرسکوں تو پھر اس صورت میں دو یا تین دفعہ کرکے بھیجا جائے گا اور پھر اسی رسالہ پر موقوف نہیں بلکہ آپ کی رغبت پانے سے جیسا کہ میں امید رکھتا ہوں اس خدمت کو تا بحیات اپنے ذمہ لے سکتا ہوں آپ کے محبانہ کلمات مجھے یہ بشارت دیتے ہیں کہ میں جلد تر خوشخبری سنوں کہ آپ کی سعادت فطرتی سے حقانی ہدایت لینے کے لئے نہ صرف آپ کو بلکہ امریکہ کے بہت سے نیک دل لوگوں کو دعوت حق کی طرف کھینچ لیا ہے۔ اب میں زیادہ آپ کو تصدیع دینا نہیں چاہتا اور اپنے اخلاص نامہ کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ الٰہ العالمین جانبین کو آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھ کر انؔ ہماری مرادوں کو انجام تک پہنچا وے کہ سب طاقت اور قوت اسی کو ہے۔ آمین۔
آپ کا دلی محب اور خیر خواہ
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
ملک پنجاب
۴۔ اپریل ۱۸۸۷ ؁ء
_ the course of about five months I will compile a work containing a short sketch of the teachings of the Al¬Quran, have it translated into English and printed and then send a copy of it to you. I strongly hope that it will bring full and final conviction to a justful, considerate and uncontaminated mind like yours, enoble your soulendow you with a firm belief in God and improve your knowledge of Him. But perhaps it may be, that the various demands on my time may not allow me to spare a sufficient time for sending the whole work at once. in such a case I will send it to_ _ you in two or three batches. I will not end the communication of instruction_ _ to you by this treatise but will continue satisfying your thirst after the investigation of truth for the rest of my life. Your friendly words permit me to entertain the happy idea that I will in a short time have the_ intelligence that the instinctive moral greatness has directed not only to you but to many other virtuous men of America to the right way of salvation pointed out by Islam. Here I end my letter of earnestness and sincerity. May God you and I be kept secure from all earthly and heavenly misfortunes and have all our hopes and plans realized.
Yours sincerely.
MIRZA GHULAM AHMAD,
Chief of Qadian, Gurdaspur District, Punjab.
India.
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/445/mode/1up
تارؔ یخ طبع مصنف
آں صیدِ تیرہ بخت کہ بندی بپائے اوست
شپر مثال بُغضِ خوری اختیار کرد
فرعون شد و عنادِ کلیمی بدل نشاند
یکسر خزاں شد و گلہ ہا از بہار کرد
چوں شحنۂ حق از پئے تعزیر او بخاست
چنداں بکوفتش کہ تنش چوں غبار کرد
تاریخ ردّ آں ہذیانش چہ حاجت است
صیدے رکیک بود کہ موسیٰ شکار کرد
۱۳۰۴۔ بالحاق بندی بپائے صیدے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- شحنہء حق: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/446/mode/1up
 
Last edited:
Top