• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 20 ۔ چشمہ مسیحی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اشتہار واجب الاظہار از طرف ایں خاکسار

دربارہ پیشگوئی زلزلہ


دوستو!! جاگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے

پھر خدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے

وہ جو ماہِ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ

تم یقیں سمجھو کہ وہ اک زَجر سمجھانے کو ہے

آنکھ کے پانی سے یارو کچھ کرو اس کا علاج

آسماں اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے

کیوں نہ آویں زلزلے تقویٰ کی رہ گم ہو گئی

اِک مسلماں بھی مسلماں صرف کہلانے کو ہے

کس نے مانا مجھ کو ڈر کر کس نے چھوڑا بغض و کیں

زندگی اپنی تو اُن سے گالیاں کھانے کو ہے

کافر و دجال اور فاسق ہمیں سب کہتے ہیں

کون ایماں صدق اور اخلاص سے لانے کو ہے

جس کو دیکھو بدگمانی میں ہی حد سے بڑھ گیا

گر کوئی پوچھے تو سو سو عیب بتلانے کو ہے

چھوڑتے ہیں دیں کو اور دنیا سے کرتے ہیں پیار

سو کریں وعظ و نصیحت کون پچھتانے کو ہے

ہاتھ سے جاتا ہے دل دیں کی مصیبت دیکھ کر

پر خدا کا ہاتھ اب اس دل کو ٹھہرانے کو ہے

اس لئے اب غیرت اس کی کچھ تمہیں دکھلائے گی

ہر طرف یہ آفتِ جاں ہاتھ پھیلانے کو ہے

موت کی رہ سے ملے گی اب تو دیں کو کچھ مدد

ورنہ دیں اے دوستو! اک روز مرجانے کو ہے

یا تو اک عالم تھا قرباں اس پہ یا آئے یہ دن

ایک عبد العبد بھی اس دیں کو جھٹلانے کو ہے

المشتھر

میرزا غلام احمدؐ قادیانی مسیح موعود۔ ۹؍مارچ ۱۹۰۶ ؁ء



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


چشمہ مسیحی*


وہ کتاب جس کا مَیں نے عنوان میں چشمۂ مسیحی نام رکھا ہے۔ درحقیقت وہ یہی کتاب ہے جس کو ہم ذیل میں لکھیں گے۔ہمیں کچھ ضرور نہ تھا کہ حضرات پادری صاحبوں کے عقائد کی نسبت کچھ تحریر کرتے۔ کیونکہ ان دنوں میں ان کے اکابر یورپ اور امریکہ کے محققوں نے وہ کام خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جو ہمیں کرنا چاہئے تھا اور وہ لوگ اس خدمت کو بہت خوبی سے ادا کررہے ہیں کہ عیسائی مذہب کیا چیز ہے۔ اور اس کی اصلیت کیا ہے۔ مگر انؔ دنوں میں ایک ناواقف مسلمان کا بانس بریلی سے


* اس نام کے یہ معنے نہیں ہیں کہ مسیحؑ کا یہ چشمہ ہے کیونکہ مسیح ؑ کی تعلیم جو دنیا سے گُم ہوگئی وہ موجودہ

عقائد نہیں سکھلاتی تھی بلکہ یہ مسیحی لوگوں کی خود ایجاد تعلیم ہے اس لئے اس کا نام چشمہ مسیحی

رکھا گیا۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 336

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 336

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/336/mode/1up


مجھ کو خط پہنچا ہے۔ اور وہ اپنے خط میں کتاب ینابیع الاسلام کی نسبت جو ایک عیسائی کی کتاب ہے ایک خوفناک ضرر کا اظہار کرتے ہیں۔ افسوس کہ اکثر مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے ہماری کتابوں کو نہیں دیکھتے اور وہ برکات جو خدا تعالیٰ نے ہم پر نازل کئے یہ لوگ بالکل اس سے بے خبر ہیں۔ اورنادان مولویوں نے ہمیں کافر کافر کہنے سے ہم میں اور عام مسلمانوں میں ایک دیوار کھینچ دی ہے۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ اب وہ زمانہ جاتا رہا کہ جس میں عیسائیت کے مکرو فریب کچھ کام کرتے تھے۔ اور اب چھٹا۶ ہزار آدم کی پیدائش سے آخر پر ہے جس میں خدا کے سلسلہ کو فتح ہوگی۔ اور روشنی اور تاریکی میں یہ آخری جنگ* ہے جس میں روشنی مظفر اور منصور ہو جائے گی۔ اور تاریکی کا خاتمہ ہے۔ اور کچھ ضرور نہ تھا کہ پادری صاحبوں کے ان بوسیدہ خیالات پر کچھ لکھاؔ جاتا لیکن ایک شخص کے اصرار سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یہ مختصر رسالہ لکھنا پڑا۔ خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور لوگوں کی ہدایت کا موجب کرے۔ آمین

اور یاد رہے کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزّت کرتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ کا نبی سمجھتے ہیں]


* اس جنگ کے لفظ سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ تلوار یا بندوق سے یہ جنگ ہوگا۔ وجہ یہ کہ اب اس قسم

کے جہاد خدا تعالیٰ نے منع کر دیئے ہیں کیونکہ ضرور تھا کہ مسیح موعودؑ کے وقت میں اس قسم کے جہاد منع کئے جاتے جیسا کہ قرآن شریف نے پہلے سے یہ خبر دی ہے اور صحیح بخاری میں بھی مسیح موعودؑ کی نسبت یہ حدیث ہے کہ یضع الحرب۔ منہ

] ہمارے قلم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو کچھ خلافِ شان ان کے نکلا ہے وہ الزامی

جواب کے رنگ میں ہے اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کئے ہیں۔ افسوس اگر حضرات پادری صاحبان تہذیب اور خدا ترسی سے کام لیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے بھی اُن سے بیس حصّے زیادہ ادب کا خیال رہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 337

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 337

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/337/mode/1up


اور ہم ان یہودیوں کے ان اعتراضات کے مخالف ہیں جو آج کل شائع ہوئے ہیں مگر ہمیں یہ دکھلانا منظور ہے کہ جس طرح یہود محض تعصّب سے حضرت عیسٰی ؑ اور اُن کی انجیل پر حملے کرتے ہیں اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں۔ عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس بدطریق میں یہودیوں کی پیروی کرتے لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان سچائی اور انصاف کے رُو سے کسی مذہب پر حملہ نہیں کر سکتا تو بہتیرے ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ ناحق کی تہمتوں کے ذریعہ سے حملہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سو اسی قسم کے صاحب ؔ ینا بیع الاسلام کے حملے ہیں۔ دنیا کی محبت سے یہ خراب عادتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ورنہ اس زمانہ میں آسمانی دین اور آسمانی مذہب صرف اسلام ہی ہے جس کی برکات تازہ بتازہ موجود ہیں۔ اور یہ اسلام کے پاک چشمہ کی ہی برکت ہے کہ وہ زندہ خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے ورنہ وہ مصنوعی خدا جو سری نگر (محلہ خانیار) کشمیر میں مدفون ہے وہ کسی کی دستگیری نہیں کر سکتا۔

اب ہم بریلی کے صاحب راقم کی طرف متوجہ ہو کر اپنے مختصر رسالہ کو تحریر کرتے ہیں۔ واللّٰہ المو۔فق

الراقم

میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود قادیانی

یکم مارچ ۱۹۰۶ء ؁



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 338

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 338

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/338/mode/1up


السلام علیکم ! بعدھٰذا واضح ہو کہ مَیں نے آپ کا خط بڑے افسوس سے پڑھا جس کو آپ نے ایک عیسائی کی کتاب ینا بیع الاسلام نام کی پڑھنے کے بعد لکھا۔ مجھے تعجب ہے کہ وہ قوم جن کا خدا مردہ۔ جن کا مذہب مُردہ ۔جن کی کتاب مُردہ اور جو روحانی آنکھ کے نہ ہونے سے خود مُردے ہیں۔ اُن کی دروغ اور پُر افترا باتوں سے اسلام کی نسبت آپ تردّد میں پڑگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

آپ کو یاد رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف خدا کی کتابوں کی تحریف نہیں کی بلکہ اپنے مذہب کو ترقی دینے کے لئے افترا اور مفتریانہ تحریروں میں ہر ایک قوم سے سبقت لے گئے۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس وہ نور نہیں جو سچائی کی تائید میں آسمان سے اُترتا اور سچے مذہب کو اپنی متواتر شہادتوں سے دنیا میں ایک صریح امتیاز بخشتا ہے۔ اس لئے یہ لوگ ان باتوں کے لئے مجبور ہوئے کہ لوگوں کو ایک زندہ مذہب یعنی اسلام سے بیزار کرنے کے لئے طرح طرح کے افتراؤں اور مکروں اور فریبوں اور دھوکا دہی اور محض جعلی اور بناوؔ ٹی باتوں سے کام لیا جاوے۔

اے عزیز!یہ لوگ سیاہ دل لوگ ہیں جن کو خدا کا خوف نہیں اور جن کے منصوبے دن رات اِسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح لوگ تاریکی سے پیار کریں اور روشنی کو چھوڑ دیں۔ مَیں سخت تعجب میں ہوں کہ آپ ایسے شخص کی تحریروں سے کیوں متاثر ہوئے۔ یہ لوگ ان ساحروں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے موسٰیؑ نبی کے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 339

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 339

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/339/mode/1up


سامنے رسیوں کے سانپ بنا کر دکھادیئے تھے مگر چونکہموسٰیؑ خدا کا نبی تھا اس لئے اس کا عصا ان تمام سانپوں کو نگل گیا۔ اسی طرح قرآن شریف خدا تعالیٰ کا عصا ہے وہ دن بدن رسیوں کے سانپوں کو نگلتا جاتا ہے اور وہ دن آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان رسیوں کے سانپوں کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ صاحب ینابیع الاسلام نے اگر یہ کوشش کی ہے کہ قرآن شریف فلاں فلاں قصّوں یا کتابوں سے بنایا گیا ہے۔ یہ کوشش اس کی اس کوشش کے ہزارم حصّہ پر بھی نہیں جو ایک فاضل یہودی نے انجیل کی اصلیت دریافت کرنے کیلئے کی ہے۔ اس فاضل نے اپنے خیال میں اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ انجیل کی اخلاقی تعلیم یہودیوں کی کتاب طالمود اور بعض اور چند بنی اسرائیل کی کتابوں سے لی گئی ہے۔ اور یہ چوری اس قدر صریح طور پر عمل میں آئی ہے کہ عبارتوں کی عبارؔ تیں بعینہٖ نقل کر دی گئی ہیں۔ اور اس فاضل نے دکھلا دیا ہے کہ درحقیقت انجیل مجموعہ مال مسروقہ ہے۔ درحقیقت اس نے حد کر دی اور خاص کر پہاڑی تعلیم کو جس پر عیسائیوں کا بہت کچھ ناز ہے طالمود سے اخذ کرنا لفظ بلفظ ثابت کر دیا ہے اور دکھلا دیا ہے کہ یہ طالمود کی عبارتیں اور فقرے ہیں۔ اور ایسا ہی دوسری کتابوں سے وہ مسروقہ عبارتیں نقل کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ چنانچہ خود یورپ کے محقق بھی اس طرف دلچسپی سے متوجہ ہوگئے ہیں۔ اور ان دنوں میں مَیں نے ایک ہندو کا رسالہ دیکھا ہے جس نے یہ کوشش کی ہے کہ انجیل بدھ کی تعلیم کا سرقہ ہے اور بدھ کی اخلاقی تعلیم کو پیش کر کے اس کا ثبوت دینا چاہا ہے۔ اور عجیب تریہ کہ بدھ لوگوں میں وہی قصہ شیطان کا مشہور ہے جو اس کو آزمانے کے لئے کئی جگہ لئے پھرا۔ پس ہر ایک کو یہ خیال دل میں لانے کا حق ہے کہ تھوڑے سے تغیر سے وہی قصہ انجیل میں بھی بطور سرقہ داخل کر دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ضرور حضرت عیسٰی علیہ السلام ہندوستان میں آئے تھے اور حضرت عیسٰی ؑ کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے جس کو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 340

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 340

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/340/mode/1up


ہم نے دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اس صورت میں ایسے معترضین کو اور بھی حق پیدا ہوتا ہے کہؔ وہ ایسا خیال کریں کہ اناجیل موجودہ درحقیقت بدھ مذہب کا ایک خاکہ ہے۔ یہ شہادتیں اس قدر گزر چکی ہیں کہ اب مخفی نہیں ہو سکتیں۔ ایک اور امر تعجب انگیز ہے کہ یوز آسف کی قدیم کتاب (جس کی نسبت اکثر محقق انگریزوں کے بھی یہ خیالات ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی پہلے شائع ہو چکی ہے) جس کے ترجمے تمام ممالک یورپ میں ہو چکے ہیں انجیل کو اس کے اکثر مقامات سے ایسا توارد ہے کہ بہت سی عبارتیں باہم ملتی ہیں اور جو انجیلوں میں بعض مثالیں موجود ہیں وہی مثالیں انہیں الفاظ کے ساتھ اس کتاب میں بھی موجود ہیں۔ اگر ایک شخص ایسا جاہل ہو کہ گویا اندھاہووہ بھی اس کتاب کو دیکھ کریقین کرے گا کہ انجیل اُسی میں سے چورائی گئی ہے۔ بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ کتاب گوتم بدھ کی ہے اور اوّل سنسکرت میں تھی اور پھر دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ چنانچہ بعض محقق انگریز بھی اس بات کے قائل ہیں۔ مگر اس بات کے ماننے سے انجیل کا کچھ باقی نہیں رہتا۔ اور نعوذباللہ حضرت عیسیٰ ؑ اپنی تمام تعلیم میں چور ثابت ہوتے ہیں۔ کتاب موجود ہے۔ جو چاہے دیکھ لے۔ مگر ہماری رائے تو یہ ہے کہ خود حضرت عیسٰیؑ کی یہ انجیل ہے جو ہندوستان کے سفر میں لکھی گئی اور ہم نے بہت سے دلائل سے اس بات کو ثابت بھی کر دیا ہے کہ یہ درحقیقت حضرت عیسیٰ ؑ کی انجیل ہے اور دوسری انجیلوں سے زیادہ پاک و صاف ہے۔ مگر وہ بعض محقق انگریز جو اس کتاب کو بدھ کی کتاب ٹھہراتے ہیں وہ اپنے پاؤں پر آپ تبر مارتے ہیںؔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سارق قرار دیتے ہیں۔

اب یہ بھی یاد رہے کہ پادریوں کا مذہبی کتابوں کا ذخیرہ ایک ایسا ردّی ذخیرہ ہے جو نہایت قابلِ شرم ہے۔ وہ لوگ صرف اپنی ہی اٹکل سے بعض کتابوں کو آسمانی ٹھہراتے ہیں اور بعض کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک یہ چار انجیلیں اصلی ہیں اور باقی اناجیل جو چھپّن ۵۶کے قریب ہیں جعلی ہیں مگر محض گمان اور شک کے رُو سے۔ نہ کسی مستحکم دلیل پر



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 341

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 341

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/341/mode/1up


اس خیال کی بنا ہے چونکہ مروّجہ انجیلوں اور دوسری انجیلوں میں بہت تناقض ہے اس لئے اپنے گھر میں ہی یہ فیصلہ کر لیا ہے اور محققین کی یہی رائے ہے کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ انجیلیں جعلی ہیں یا وہ جعلی ہیں۔ اسی لئے شاہ ایڈورڈ قیصر کے تخت نشینی کی تقریب پر لنڈن کے پادریوں نے وہ تمام کتابیں جن کو یہ لوگ جعلی تصور کرتے ہیں ان چار انجیلوں کے ساتھ ایک ہی جلد میں مجلّد کر کے مبارکبادی کے طور پر بطور نذر پیش کی تھیں اور اس مجموعہ کی ایک جلد ہمارے پاس بھی ہے۔ پس غور کا مقام ہے کہ اگر درحقیقت وہ کتابیں گندی اور جعلی اور ناپاک ہوتیں تو پھر پاک اور ناپاک دونوں کو ایک جلد میں مجلد کرنا کس قدر گناہ کی بات تھی۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دلی اطمینان سے نہ کسی کتاب کو جعلی کہہ سکتے ہیں نہ اصلی ٹھہرا سکتے ہیں۔اپنی اپنی رائیں ہیںؔ ۔ اور سخت تعصّب کی وجہ سے وہ انجیلیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اُن کو یہ لوگ جعلی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ برنباس کی انجیل جس میں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیشگوئی ہے وہ اسی وجہ سے جعلی قرار دی گئی ہے کہ اُس میں کھلے کھلے طور پر آنحضرتؐ کی پیشگوئی موجود ہے۔ چنانچہ سیل صاحب نے اپنی تفسیر میں اس قصّہ کو بھی لکھا ہے کہ ایک عیسائی راہب اسی انجیل کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا تھا۔ غرض یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ یہ لوگ جس کتاب کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ جعلی ہے یا جھوٹا قصہ ہے۔ ایسی باتیں صرف دو خیال سے ہوتی ہیں (۱)ایک یہ کہ وہ قصّہ یا وہ کتاب انا جیل مروّجہ کے مخالف ہوتی ہے (۲)دوسرے یہ کہ وہ قصّہ یا وہ کتاب قرآن شریف سے کسی قدر مطابق ہوتی ہے اور بعض شریر اور سیاہ دل انسان ایسی کوشش کرتے ہیں کہ اوّل اصول* مسلّمہ کے طور پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جعلی کتابیں ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ قرآن میں ان کا قصہ درج ہے۔ اور


* عیسائی مذہب میں دین کی حمایت کے لئے ہر ایک قسم کا افترا کرنا اور جھوٹ جائز بلکہ موجب ثواب

ہے۔ دیکھو پولوس کا قول۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 342

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 342

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/342/mode/1up


اس طرح پر نادان لوگوں کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے نوشتوں کا جعلی یا اصلی ثابت کرنا بجز خدا کی وحی کے اور کسی کا کام نہ تھا۔ پس خدا کی وحی کا جس کسی قصّہ سے توارد ہوا وہ سچا ہے گو بعض نادان انسان اس کو جھوٹا قصہ قرار دیتے ہوں اور جس واقعہ کی خدا کی وحیؔ نے تکذیب کی وہ جھوٹا ہے اگرچہ بعض انسان اس کو سچا قرار دیتے ہوں اور قرآن شریف کی نسبت یہ گمان کرنا کہ ان مشہور قصّوں یا افسانوں یا کتبوں یا اناجیل سے بنایا گیا ہے نہایت قابلِ شرم جہالت ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ خدا کی کتاب کا کسی گذشتہ مضمون سے توارد ہو جائے۔ چنانچہ ہندوؤں کے وید جو اس زمانہ میں مخفی تھے اُن کی کئی سچائیاں قرآن شریف میں پائی جاتی ہیں۔ پس کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وید بھی پڑھا تھا۔ اناجیل وغیرہ کا ذخیرہ جو چھاپہ خانہ کے ذریعہ سے اب ملا ہے عرب میں ان کوکوئی جانتا بھی نہیں تھا اور عرب کے لوگ محض امّی تھے۔ اور اگر اس ملک میں شاذ و نادر کے طور پر کوئی عیسائی بھی تھا وہ بھی اپنے مذہب کی کوئی وسیع واقفیت نہیں رکھتا تھا* تو پھر یہ الزام کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرقہ کے طور پر ان کتابوں سے وہ مضمون لئے تھے ایک *** خیال ہے۔ آنحضرتؐ محض اُمّی تھے۔ آپ عربی بھی نہیں پڑھ سکتے تھے چہ جائیکہ یونانی یا عبرانی۔ یہ بار ثبوت ہمارے مخالفوں کے ذمہ ہے کہ اس زمانہ کی کوئی پُرانی کتاب پیش کریں جس سے مطالب اخذ کئے گئے۔ اگر فرض محال کے طور پر قرآن شریف میں سرقہ کے ذریعہ سے کوئی مضمون ہوتا تو عرب کے عیسائی لوگ جو اسلام کے سخت دشمن تھے فی الفور شور مچاتے کہ ہم سے سُن کر ایسا مضمون لکھاؔ ہے۔

یاد رہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف]ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف سے


* پادری فنڈل صاحب نے اپنی کتاب میزان الحق میں اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ عرب کے عیسائی

بھی وحشیوں کی طرح تھے اور بے خبر تھے۔ منہ

] قرآن شریف نے تو اپنی نسبت معجزہ اور بے مثل ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی بریّت اس طرح پر ثابت کردی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 343

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 343

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/343/mode/1up


معجزہ ہونے کا دعویٰ پیش ہوا اور بڑے زور سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی خبریں اور اس کے قصّے سب غیب گوئی ہے اور آئندہ کی خبریں بھی قیامت تک اس میں درج ہیں۔ اور وہ اپنی فصاحت بلاغت کے رُوسے بھی معجزہ ہے۔ پس عیسائیوں کے لئے اس وقت یہ بات نہایت سہل تھی کہ وہ بعض قصّے نکال کر پیش کرتے کہ اِن کتابوں سے قرآن شریف نے چوری کی ہے۔ اس صورت میں اسلام کا تمام کاروبار سرد ہو جاتا مگراب تو بعد از مرگ واویلا ہے۔ عقل ہرگز ہرگز قبول نہیں کر سکتی کہ اگر عرب کے عیسائیوں کے پاس درحقیقت ایسی کتابیں موجود تھیں جن کی نسبت گمان ہو سکتا تھا کہ ان کتابوں سے قرآن شریف نے قصّے لئے ہیں خواہ وہ کتابیں اصلی تھیں یا فرضی تھیں تو عیسائی اس پردہ دری سے چپ رہتے پس بلاشبہ قرآن شریف کا سارا مضمون وحی الٰہی سے ہے۔ اور وہ وحی ایسا عظیم الشان معجزہ تھا کہ اس کی نظیر کوئی شخص پیش نہ کر سکا۔ اور سوچنے کا مقام ہے کہ جو شخص دوسری کتابوں کا چور ہو اور خود مضمون بناوے۔ اور جانتا ہے کہ فلاں فلاں کتاب سے میں نے یہ مضمون لیا ہے اور غیب کی باتیں نہیں ہیں اسؔ کو کب جرأت اور حوصلہ ہو سکتا ہے کہ تمام جہان کو مقابلہ کے لئے بلاوے اور پھر کوئی بھی مقابلہ نہ کرے اور کوئی اس کی پردہ دری پر قادر نہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ عیسائی قرآن شریف پر بہت ہی ناراض ہیں اور ناراض ہونے کی وجہ یہی ہے کہ قرآن شریف نے تمام پروبال عیسائی مذہب کے توڑ دیئے ہیں۔ ایک انسان


کہ بلند آواز سے کہہ دیا کہ اگر کوئی اس کو انسانی کلام سمجھتا ہے تو وہ جواب دے لیکن تمام مخالف خاموش رہے۔ مگر انجیل کو تو اسی زمانہ میںیہودیوں نے مسروقہ قرار دیا تھا۔ اور نہ انجیل نے دعویٰ کیا کہ انسان ایسی انجیل بنانے پر قادر نہیں۔ پس مسروقہ ہونے کے شکوک انجیل پر عائد ہو سکتے ہیں نہ قرآن شریف پر ۔کیونکہ قرآن کا تو دعویٰ ہے کہ انسان ایسا قرآن بنانے پر قادر نہیں اور تمام مخالفین نے چُپ رہ کر اس دعوے کا سچا ہونا ثابت کر دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 344

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 344

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/344/mode/1up


کا خدا بننا باطل کر کے دکھلا دیا۔ صلیبی عقیدہ کو پاش پاش کر دیا اور انجیل کی وہ تعلیم جس پر عیسائیوں کو ناز تھا نہایت درجہ ناقص اورنکمّا ہونا اس کا بپایۂ ثبوت پہنچا دیا۔ تو پھر عیسائیوں کا جوش ضرور نفسانیت کی وجہ سے ہونا چاہئے تھا۔ پس جو کچھ وہ افترا کریں تھوڑا ہے جو شخص مسلمان ہو کر پھر عیسائی بننا چاہے اُس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو کر اور بالغ ہو کر پھر یہ چاہے کہ ماں کے پیٹ میں داخل ہو جائے اور وہی نطفہ بن جائے جو پہلے تھا۔ مجھے تعجب ہے کہ عیسائیوں کو کس بات پرناز ہے۔ اگر ان کا خدا ہے تو وہ وہی ہے جو مدت ہوئی کہ مرگیا اور سری نگر محلہ خان یار کشمیر میں اس کی قبر ہے اور اگر اس کے معجزات ہیں تو وہ دوسرے نبیوں سے بڑھ کر نہیں ہیں بلکہ الیاس نبی کے معجزات اس سے بہت زیادہ ہیں۔ اور بموجب بیان یہودیوں کے اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا محض فریب اور مکر*تھا۔اور پیشگوئیوں کا یہ حال ہے جو اکثر جھوٹی نکلی ہیں۔ کیا بارا۱۲ں حواریوں کو وعدہ کے موافق بارا۱۲ں تخت بہشت میں نصیب ؔ ہوگئے کوئی پادری صاحب تو جواب دیں؟ کیا دنیا کی بادشاہت حضرت عیسٰی ؑ کو اُن کی اپنی پیشگوئی کے موافق مل گئی جس کے لئے ہتھیار بھی خریدے گئے تھے کوئی تو بولے؟ اور کیا اسی زمانہ میں حضرت مسیحؑ اپنے دعوے کے موافق آسمان سے اُتر آئے؟ مَیں کہتا ہوں اُترنا کیا اُن کو تو آسمان پر جانا ہی نصیب نہیں ہوا۔ یہی رائے یورپ کے محقق علماء کی بھی ہے بلکہ وہ صلیب پر سے نیم مُردہ ہو کر بچ گئے۔ اور پھر پوشیدہ طور پر بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے کشمیر میں پہنچے۔


* یہودیوں کے اس بیان کی خود حضرت مسیحؑ کے قول میں تائید پائی جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت مسیحؑ انجیل

میں فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کو کوئی نشان نہیں دکھلایا جائے گا۔ پس ظاہر ہے کہ اگر حضرت عیسٰی ؑ نے کوئی معجزہ یہودیوں کو دکھلایا ہوتا تو ضرور وہ یہودیوں کی اس درخواست کے وقت ان معجزات کا حوالہ دیتے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 345

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 345

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/345/mode/1up


اور وہیں فوت ہوئے۔*

پھر تعلیم کا یہ حال ہے کہ قطع نظر اس سے کہ اس پر چوری کا الزام لگایا گیا ہے انسانی قویٰ کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ حلم اور درگزر پر انجیل کی تعلیم زور دیتی ہے اور باقی شاخوں کا خون کیا ہے۔ حالانکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ انسان کو قدرتِ قادر نے عطا کیا ہے کوئی چیز اس میں سے بیکار نہیں ہے۔ اور ہر ایک انسانی قوت اپنی اپنی جگہ پر عین مصلحت سے پیدا کی گئی ہے۔ اور جیسے کسی وقت اور کسی محل پر حلم اور درگزر عمدہ اخلاق میں سے سمجھے جاتے ہیں ایسا ہی کسی وقت غیرت اور انتقام اورمجرم کو سزا دینا اخلاق فاضلہ میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ نہ ہمیشہ درگزر اور عفو قرین مصلحت ہے اور نہ ہمیشہ سزا۔اورؔ انتقام مصلحت کے مطابق ہے یہی قرآنی تعلیم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3 ۱؂۔ یعنی بدی کی جزا اسی قدر ہے جس قدر


* جو لوگ مسلمان کہلا کر حضرت عیسٰی ؑ کو مع جسم عنصری آسمان پر پہنچاتے ہیں وہ قرآن شریف کے برخلاف

ایک لغو بات منہ پر لاتے ہیں۔ قرآن شریف تو آیت3ْ ۲؂ میں حضرت عیسٰی ؑ کی موت ظاہر کرتا ہے اور آیت 3۳؂ میں انسان کا مع جسم عنصری آسمان پر جانا ممتنع قرار دیتا ہے۔ پھر یہ کیسی جہالت ہے کہ کلام الٰہی کے مخالف عقیدہ رکھتے ہیں۔ توفّی کے یہ معنی کرنا کہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے جانا اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہیں ہوگی۔ اوّل تو کسی کتاب لغت میں توفّی کے یہ معنی نہیں لکھے کہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا جانا۔ پھر ماسوا اس کے جبکہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ قیامت کے متعلق ہے یعنی قیامت کو حضرت عیسٰی ؑ خدا تعالیٰ کو یہ جواب دیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ قیامت تو آجائے گی مگر حضرت عیسٰی ؑ نہیں مریں گے۔ اور مرنے سے پہلے ہی مع جسم عنصری خدا کے سامنے پیش ہو جائیں گے قرآن شریف کی یہ تحریف کرنا یہودیوں سے بڑھ کر قدم ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 346

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 346

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/346/mode/1up


بدی کی گئی۔ مگر جو کوئی عفو کرے اور اس عفو میں کوئی اصلاح مقصود*ہو تو اس کا اجرخدا کے پاس ہے یہ تو قرآن شریف کی تعلیم ہے۔مگر انجیل میں بغیر کسی شرط کے ہر ایک جگہ عفو اور درگزر کی ترغیب دی گئی ہے اور انسانی دوسرے مصالح کو جن پر تمام سلسلہ تمدّن کا چل رہا ہے پامال کر دیا ہے اور انسانی قویٰ کے درخت کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ کے بڑھنے پر زور دیا ہے اور باقی شاخوں کی رعایت قطعاً ترک کر دی گئی ہے۔ پھر تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اُس پر بددُعا کی اور دوسروں کو دُعا کرنا سکھلایا۔ اور دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو مگر خود اس قدر بدزبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور بُرے بُرے اُن کے نام رکھے۔ اخلاقی معلّم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاقِ کریمہ دکھلاوے۔ پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا خدا تعالیٰ کی ؔ طرف سے ہو سکتی ہے؟ پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرینِ مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے۔ پس درحقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظرکے سامنے ہے۔ یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں۔ یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے۔ نہ


* قرآن شریف نے بے فائدہ عفو اور درگزر کو جائز نہیں رکھا۔ کیونکہ اس سے انسانی اخلاق بگڑتے ہیں

اور شیرازہ نظام درہم برہم ہو جاتا ہے بلکہ اس عفو کی اجازت دی ہے جس سے کوئی اصلاح ہو سکے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 347

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 347

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/347/mode/1up


یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگزر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزایاب بھی کرتا ہے ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے۔ ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے۔ سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچا قولِ الٰہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں۔ ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اورؔ درگزر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو۔ اب بھی ناپاک طبع لوگوں کے لئے خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک عظیم الشان اور ہیبت ناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو ان کو ہلاک کرے گا۔ اور طاعون بھی ابھی دُور نہیں ہوئی۔ پہلے اس سے نوحؑ کی قوم کا کیا حال ہوا۔ لوطؑ کی قوم کو کیا پیش آیا؟ سو یقیناًسمجھو کہ شریعت کا ماحصل تَخَلُّقْ باخلاق اللہ ہے۔ یعنی خدائے عزّوجلّکے اخلاق اپنے اندر حاصل کرنا۔ یہی کمالِ نفس ہے۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ خدا سے بھی بڑھ کر کوئی نیک خُلق ہم میں پیدا ہو تویہ بے ایمانی اور پلید رنگ کی گستاخی ہے اور خدا کے اخلاق پر ایک اعتراض ہے۔

اور پھر ایک اور بات پر بھی غور کرو کہ خدا کا قدیم سے قانونِ قدرت ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے گناہ معاف کرتا ہے۔ اور نیک لوگوں کی شفاعت کے طور پر دُعا بھی قبول کرتا ہے۔ مگر یہ ہم نے خدا کے قانون قدرت میں کبھی نہیں دیکھا کہ زید اپنے سر پر پتھر مارے اور اس سے بکر کی دردِ سر جاتی رہے۔ پھر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کی خودکشی سے دوسروں کی اندرونی بیماری کا دُور ہونا کس قانون پر مبنی ہے۔ اور وہ کونسا فلسفہ ہے جس سے ہم معلوم کر سکیں کہ مسیح کا خون کسی دوسرے کی اندرونی ناپاکی کو دُور کر سکتا ہے۔ بلکہ مشاہدہ اسؔ کے برخلاف گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ جب تک مسیح نے خودکشی کا ارادہ نہیں کیا تھا تب تک عیسائیوں میں نیک چلنی اور خدا پرستی کا مادہ تھا۔ مگر صلیب کے بعد تو جیسے ایک بند ٹوٹ کر ہر ایک طرف دریا کا پانی پھیل جاتا ہے۔ یہی عیسائیوں کے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 348

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 348

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/348/mode/1up


نفسانی جوشوں کا حال ہوا۔کچھ شک نہیں کہ اگر یہ خود کشی مسیح سے بالا رادہ ظہور میں آئی تھی تو بہت بے جا کام کیا۔ اگر وہی زندگی وعظ و نصیحت میں صرف کرتا تو مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا۔ اِس بے جاحرکت سے دوسروں کو کیا فائدہ ہوا۔ ہاں اگر مسیح خودکشی کے بعد زندہ ہو کر یہودیوں کے روبرو آسمان پر چڑھ جاتا تو اس سے یہودی ایمان لے آتے مگر اب تو یہودیوں اورتمام عقلمندوں کے نزدیک مسیح کا آسمان پر چڑھنا محض ایک فسانہ اور گپ ہے۔

اور پھر تثلیث کا عقیدہ بھی ایک عجیب عقیدہ ہے۔ کیاکسی نے سُنا ہے کہ مستقل طور پر اور کامل طور پر تین بھی ہوں اور ایک بھی ہو۔ اور ایک بھی کامل خدا اور تین بھی کامل خدا ہو۔عیسائی مذہب بھی عجیب مذہب ہے کہ ہر ایک بات میں غلطی اور ہرایک امر میں لغزش ہے اور پھر باوجود ان تمام تاریکیوں کے آئندہ زمانہ کے لئے وحی اور الہام پر مُہر لگ گئی ہے۔ اور اب ان تمام اناجیل کی غلطیوں کا فیصلہ حسب اعتقاد عیسائیوؔ ں کی وحی جدیدکی رُو سے تو غیر ممکن ہے کیونکہ اُن کے عقیدہ کے موافق اب وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے۔ اب تمام مدار صرف اپنی اپنی رائے پر ہے جو جہالت اور تاریکی سے مبرّا نہیں۔ اور ان کی انجیلیں اس قدر بیہودگیوں کا مجموعہ ہیں جو ان کا شمار کرنا غیر ممکن ہے۔ مثلاًایک عاجز انسان کو خدا بنانا اور دوسروں کے گناہوں کی سزا میں اس کے لئے صلیب تجویز کرنا اور تین۳ دن تک اُس کو دوزخ میں بھیجنا۔ اور پھر ایک طرف خدا بنانا اور ایک طرف کمزوری اور دروغگوئی کی عادت کو اُس کی طرف منسوب کرنا۔ چنانچہ انجیلوں میں بہت سے ایسے کلمات پائے جاتے ہیں جن سے نعوذ باللہ حضرت مسیحؑ کا دروغگوہونا ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً وہ ایک چور کو وعدہ دیتے ہیں کہ آج بہشت میں تومیرے ساتھ روزہ کھولے گا۔ اور ایک طرف وہ خلاف وعدہ اُسی دن دوزخ میں جاتے ہیں اور تین دن دوزخ میں ہی رہتے ہیں۔ ایسا ہی انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیطان آزمائش کے لئے مسیح کو کئی جگہ لئے پھرا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسیح خدا بن کر بھی شیطان کی آزمائش سے بچ نہ سکا اور شیطان کو خداکی آزمائش کی جرأت ہوگئی۔ یہ انجیل کا فلسفہ تمام دنیا سے نرالا ہے۔ اگر درحقیقت شیطان مسیح کے پاسؔ آیا تھا تو مسیحؑ کے لئے بڑا عمدہ موقع تھا کہ یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 349

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 349

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/349/mode/1up


کیونکہ یہودی حضرت مسیحؑ کی نبوت کے سخت انکاری تھے۔ وجہ یہ کہ ملاکی نبی کی کتاب میں سچّے مسیح کی یہ علامت لکھی تھی کہ اس سے پہلے الیا*س ؑ نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ پس چونکہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آیا اس لئے یہودی اب تک حضرت عیسٰی ؑ کو مفتری اور مکار کہتے ہیں۔ یہ یہودیوں کی ایسی حجت ہے کہ عیسائیوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ اور شیطان کا مسیح کے پاس آنا یہ بھی یہودیوں کے نزدیک مجنونانہ خیال ہے۔ اکثر مجانین ایسی ایسی خوابیں دیکھا کرتے ہیں۔ یہ مرض کابوس کی ایک قسم ہے۔ اس جگہ ایک محقق انگریز نے یہ تاویل کی ہے کہ شیطان کے آنے سے مراد یہ ہے کہ مسیحؑ کو تین مرتبہ شیطانی الہام ہوا تھا۔ مگر مسیحؑ شیطانی الہام سے متاثر نہیں ہوا۔ ایک شیطانی الہاموں میں سے یہ تھا کہ مسیح ؑ کے دل میں شیطان کی طرف سے یہ ڈالا گیا کہ وہ خدا کو چھوڑ دے اورمحض شیطان کے تابع ہو جائے۔ مگر تعجب کہ شیطان خدا کے بیٹے پر مسلّط ہوا اوردنیا کی طرف اس کو رجوع دیا حالانکہ وہ خدا کا بیٹا کہلاتا ہے۔ اورپھر خدا ہونے کے برخلاف وہ مرتا ہے۔ کیا خدا بھی مرا کرتا ہے؟ اور اگر محض انسان مرا ہے تو پھر کیوں یہ دعویٰ ہے کہ ابن اللہ نے انسانوں کے لئے جان دی۔ اور پھر وہ ابن اللہ کہلا کر قیامت کے وقت سے بھی بے خبر ہے جیساؔ کہ مسیح کا اقرار انجیل میں موجود ہے کہ وہ باوجود ابن اللہ ہونے کے نہیں جانتا کہ قیامت کب آوے گی۔ باوجود خدا کہلانے کے قیامت کے علم سے بے خبر ہونا کس قدر بیہودہ بات ہے بلکہ قیامت تو دُور ہے اس کو تو یہ بھی خبر نہ تھی کہ جس درخت انجیر کی طرف چلا اُس پر کوئی پھل نہیں۔


* اس زمانہ میں یہودی لوگ الیاس ؑ نبی کے دنیا میں دوبارہ آنے اور آسمان سے اُترنے کے ایسے ہی

منتظر تھے جیسے کہ آجکل ہمارے سادہ طبع مولوی حضرت عیسٰی ؑ کے آسمان سے اُترنے کے منتظر ہیں۔ مگر حضرت عیسٰی ؑ کو ملاکی نبی کی اس پیشگوئی کی تاویل کرنی پڑی۔ اسی وجہ سے یہودی اب تک ان کو سچا نبی نہیں جانتے کہ الیا س آسمان سے نہیں اُترا اس عقیدہ کی وجہ سے یہودی تو واصِل جہنم ہوئے۔ اب اسی طمع خام میں مسلمان گرفتار ہیں۔ یہ سراسر یہودیوں کا رنگ ہے۔ خیر اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوگئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 350

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 350

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/350/mode/1up


اب ہم اصل امر کی طرف رجوع کر کے مختصر طور پر بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایک وحی اگر کسی گذشتہ قصّہ یا کتاب کے مطابق آجائے یا پوری مطابق نہ ہو یا فرض کرو کہ وہ قصہ یا وہ کتاب لوگوں کی نظر میں ایک فرضی کتاب یا فرضی قصّہ ہے تو اس سے خدا تعالیٰ کی وحی پر کوئی حملہ نہیں ہو سکتا۔ جن کتابوں کا نام عیسائی لوگ تاریخی کتابیں رکھتے یا آسمانی وحی کہتے ہیں یہ تمام بے بنیاد باتیں ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔ اور کوئی کتاب ان کی شکوک و شبہات کے گند سے خالی نہیں۔ اور جن کتابوں کو وہ جعلی اور فرضی کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ جعلی نہ ہوں اور جن کتابوں کو وہ صحیح مانتے ہیں ممکن ہے کہ وہ جعلی ہوں۔ خدا تعالیٰ کی کتاب ان کی مطابقت یا مخالفت کی محتاج نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب کا یہ معیار نہیں ہے کہ ایسی کتابوں کی مطابقت یا مخالفت دیکھی جائے۔ عیسائیوں کا کسی کتاب کو جعلی کہنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو جوڈیشل تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے۔ اور نہ ان ؔ کا کسی کتاب کو صحیح کہنا کسی باضابطہ ثبوت پر مبنی ہے۔ نری اٹکلیں اور خیالات ہیں۔ لہٰذا ان کے یہ بیہودہ خیالات خدا کی کتاب کے معیار نہیں ہو سکتے بلکہ معیار یہ ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کتاب خدا کے قانونِ قدرت* اور قوی معجزات سے اپنا منجانب اللہ ہونا ثابت کرتی ہے یا نہیں۔ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے ہیں اور پیشگوئیوں کا تو شمار نہیں مگر


* دنیا میں ایک قرآن ہی ہے جس نے خدا کی ذات اور صفات کو خدا کے اس قانون قدرت کے

مطابق ظاہر فرمایا ہے جو خدا کے فعل سے دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اور جو انسانی فطرت اور انسانی ضمیر میں منقوش ہے۔ عیسائی صاحبوں کا خدا صرف انجیل کے ورقوں میں محبوس ہے اور جس تک انجیل نہیں پہنچی وہ اس خدا سے بے خبر ہے لیکن جس خدا کو قرآن پیش کرتا ہے اس سے کوئی شخص ذوی العقول میں سے بے خبر نہیں۔ اس لئے سچا خدا وہی خدا ہے جس کو قرآن نے پیش کیا ہے۔ جس کی شہادت انسانی فطرت اور قانونِ قدرت دے رہا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 351

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 351

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/351/mode/1up


ہمیں ضرورت نہیں کہ ان گذشتہ معجزات کو پیش کریں۔ بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہوگئی اور معجزات نابود ہوگئے اور ان کی اُمّت خالی اور تہی دست ہے۔ صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ معجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کا ملینِ اُمّت جو شرفِ اتباع سے مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں۔ اِسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندۂ حضرتِ عزّت موجود ہے۔ اور اب تک میرے ہاتھ پر ہزارہا نشان تصدیقِ رسول اللہؐ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے پاکؔ مکالمہ سے قریباً ہر روز مَیں مشرف ہوتا ہوں۔ اب ہوشیار ہو جاؤ اور سوچ کر دیکھ لو کہ جس حالت میں دنیا میں ہزارہا مذہب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں تو کیونکر ثابت ہو کہ وہ درحقیقت منجانب اللہ ہیں۔ آخر سچے مذہب کے لئے کوئی تومابہ الامتیاز چاہئے اور صرف معقولیت کا دعویٰ کسی مذہب کے منجانب اللہ ہونے پر دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ معقول باتیں انسان بھی بیان کر سکتا ہے اور جو خدا محض انسانی دلائل سے پیدا ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہے بلکہ خدا وہ ہے جو اپنے تئیں قوی نشانوں کے ساتھ آپ ظاہر کرتا ہے۔ وہ مذہب جو محض خدا کی طرف سے ہے اس کے ثبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ منجانب اللہ ہونے کے نشان اور خدائی مُہر اپنے ساتھ رکھتا ہو۔تا معلوم ہو کہ وہ خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ہے۔ سو یہ مذہب اسلام ہے۔ وہ خدا جو پوشیدہ اور نہاں درنہاں ہے اسی مذہب کے ذریعہ سے اس کا پتہ لگتا ہے اور اسی مذہب کے حقیقی پیروؤں پر وہ ظاہر ہوتا ہے جو درحقیقت سچا مذہب ہے۔ سچے مذہب پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے کہ مَیں موجود ہوں۔ جن مذاہب کی محض قصّوں پر بناہے وہ بُت پرستی سے کم نہیں ان مذاہب میں کوئی سچائی کی رُوح نہیں ہے۔ اگر خدا اب بھی زندہؔ ہے جیسا کہ پہلے تھا اور اگر وہ اب بھی بولتا اور سُنتا ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 352

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 352

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/352/mode/1up


جیسا کہ پہلے تھا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس زمانہ میں ایسا چپ ہو جائے کہ گویا موجود نہیں۔ اگر وہ اس زمانہ میں بولتا نہیں تو یقیناًوہ اب سُنتا بھی نہیں گویا اب کچھ بھی نہیں۔ سو سچا وہی مذہب ہے کہ جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سُننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے۔ غرض سچّے مذہب میں خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے۔ خدا شناسی ایک نہایت مشکل کام ہے دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتہ لگاویں کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے۔ اور ہونا چاہیئیاور ہے میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ پس اس وجود کا واقعی طور پر پتہ دینے والا صرف قرآن شریف ہے جو صرف خدا شناسی کی تاکید نہیں کرتا بلکہ آپ دکھلا دیتا ہے۔ اور کوئی کتاب آسمان کے نیچے ایسی نہیں ہے کہ اس پوشیدہ وجودکا پتہ دے۔

مذہب سے غرض کیا ہے ! !بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفاتِ کاملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پاجاوے اورخدا تعالیٰ سے ذاتیؔ محبت پیدا ہو۔ کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالمِ آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہوگا۔ اور حقیقی خدا سے بے خبر رہنا اور اس سے دُور رہنا اور سچّی محبت اُس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنّم ہے جو عالم آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا اور اصل مقصود اس راہ میں یہ ہے کہ اس خدا کی ہستی پر پورا یقین حاصل ہو اور پھر پوری محبت ہو۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کونسا مذہب اور کونسی کتاب ہے جس کے ذریعہ سے یہ غرض حاصل ہو سکتی ہے۔ انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کرنے کی راہیں مسدود ہیں۔ اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اور آگے کچھ نہیں مگر تعجب کہ وہ خدا جو اب تک اس زمانہ میں بھی سُنتا ہے وہ اس زمانہ میں بولنے سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 353

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 353

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/353/mode/1up


کیوں عاجزہوگیا ہے؟ کیا ہم اس اعتقاد پر تسلّی پکڑ سکتے ہیں کہ پہلے کسی زمانہ میں وہ بولتا بھی تھا اور سُنتا بھی تھامگر اب وہ صرف سُنتا ہے مگر بولتا نہیں۔ ایسا خدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڈھا ہو کر بعض قویٰ اس کے بیکار ہو جاتے ہیں۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے بعض قویٰ اس کے بھی بیکارہوگئے۔ اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب تک ٹکٹکی سے باندھ کر اس کو کوڑے نہ لگیں اوراُس کے منہ پر نہ تھوکا جائے اور ؔ چندروز اس کو حوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا ۔ہم تو ایسے خدا سے سخت بیزار ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آگئی۔ ہم اس خدا کو سچا خدا جانتے ہیں جس نے ایک مکّہ کے غریب بیکس کواپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا یہاں تک کہ جب شاہِ ایران نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہہ دے کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف ایک شخص خدائی کا دعویٰ کرتا ہے اور اخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دُعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور خدا اس کے مقابلہ پر باشادہوں کو ہلاک کرتا ہے۔ یہ مقولہ طالب حق کے لئے نہایت نافع ہے کہ ’’یار غالب شوکہ تا غالب شوی‘‘۔ ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے۔ ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتابؔ ہے۔ اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خدا ہے۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں اپنے خدائے پاک کے یقینی اورقطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں اور وہ خدا جس کو یسوع مسیح کہتا ہے کہ تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ مَیں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 354

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 354

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/354/mode/1up


دیکھتا ہوں کہ اُس نے مجھے نہیں چھوڑا۔ اور مسیحؑ کی طرح میرے پر بھی بہت حملے ہوئے مگر ہر ایک حملہ میں دشمن ناکام رہے۔ اور مجھے پھانسی دینے کے لئے منصوبہ کیا گیا مگر مَیں مسیح کی طرح صلیب پر نہیں چڑھا بلکہ ہر ایک بلا کے وقت میرے خدا نے مجھے بچایا اور میرے لئے اس نے بڑے بڑے معجزات دکھلائے اور بڑے بڑے قوی ہاتھ دکھلائے اور ہزارہا نشانوں سے اس نے مجھ پر ثابت کر دیا کہ خدا وہی خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ اور مَیں عیسیٰ مسیحؑ کو ہرگز ان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا۔ یعنی جیسے اس پر خدا کا کلام نازل ہوا ایسا ہی مجھ پر بھی ہوا اور جیسے اس کی نسبت معجزات منسوب کئے جاتے ہیں مَیں یقینی طور پر ان معجزات کا مصداق اپنے نفس کو دیکھتا ہوں۔ بلکہ ان سے زیادہ۔ اور یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اورؔ مراتب سے دنیا بے خبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اورنادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسٰیؑ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کے علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پاتا ہوں۔ وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس کے نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحی الٰہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے ہمارے پر محض اسی نبیؐ کی برکت سے کھولا گیا۔ اور وہ معجزات جو غیر قومیں صرف قصوں اور کہانیوں کے طور پر بیان کرتے ہیں ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لئے۔ اور ہم نے اس نبی ؐکا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں۔ مگر تعجب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔ مجھے کہتے ہیں کہ مسیح موعودؑ ہونے کا کیوں دعویٰ کیا۔ مگر مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نبی کی کامل پیروی سے ایک شخص عیسٰیؑ سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ اندھے کہتے ہیں یہ کفر ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خود ایمان سے بے نصیب ہو پھر کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے۔ کفر خود تمہارے اندر ہے۔ اگر تم جانتے کہ اس آیت کے کیا معنے ہیں کہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 355

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 355

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/355/mode/1up


تو ایسا کفر مُنہ پر نہ لاتے۔ خدا تو تمہیں یہؔ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسولؐ کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو۔ اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر جانتے ہو۔

غرض آپ پر لازم ہے کہ اس راہ کی طرف توجہ کرو کہ کیونکر ایک سچا مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے شناخت ہو سکتا ہے۔ پس یاد رہے کہ وہی سچا مذہب ہے جس کے ذریعہ سے خدا کا پتہ لگتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں صرف انسانی کوششیں پیش کی جاتی ہیں۔ گویا انسان کا خدا پر احسان ہے جو اس نے اس کا پتہ دیا۔ مگر اسلام میں خود خدا تعالیٰ ہر ایک زمانہ میں اپنی اَنَا الْمَوْجُوْدُکی آواز سے اپنی ہستی کا پتہ دیتا ہے۔ جیسا کہ اس زمانہ میں بھی وہ مجھ پر ظاہر ہوا۔پس اس رسولؐ پر ہزاروں سلام اور برکات جس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو شناخت کیا۔

بالآخر میں دوبارہ افسوس سے لکھتا ہوں کہ آپ کا یہ قول کہ حضرت مریم کا اُختِ ہارون ہونا آپ پر بد اثر ڈالتا ہے میری نگاہ میں آپ کی بہت ناواقفیت ظاہر کرتا ہے۔ اس بے ہودہ اعتراض پر پہلے علماء نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اگر استعارہ کےؔ رنگ میں یا اور بنا پر خداتعالیٰ نے مریم کو ہارون کی ہمشیرہ ٹھہرایا ہے تو آپ کو اس سے کیوں تعجب ہوا۔جبکہ قرآن شریف بجائے خود بار بار بیان کر چکا ہے کہ ہارون نبی حضرت موسٰیؑ کے وقت میں تھا۔ اور یہ مریم حضرت عیسٰیؑ کی والدہ تھی جو چودہ سو۱۴۰۰ برس بعد ہارون کے پیدا ہوئی۔ تو کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان واقعات سے بے خبر ہے اور نعوذ باللہ اُس نے مریم کو ہارون کی ہمشیرہ ٹھہرانے میں غلطی کی ہے کس درجہ کے خبیث طبع یہ لوگ ہیں کہ بیہودہ اعتراض کر کے خوش ہوتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ مریم کا کوئی بھائی ہو جس کا نام ہارون ہو۔ عدم علم سے عدم شے تو لازم نہیں آتا۔ مگر یہ لوگ اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے اور نہیں دیکھتے کہ انجیل کس قدر اعتراضات کا نشانہ ہے۔ دیکھو یہ کس قدر اعتراض ہے کہ مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیاتھا تا وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو۔ اور تمام عمر خاوند نہ کرے۔ لیکن جب چھ سات مہینہ کا حمل نمایاں ہوگیا تب حمل کی حالت میں ہی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 356

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 356

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/356/mode/1up


قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام ایک نجّار سے نکاح کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا۔ وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔ اب اعتراض یہ ہے کہ اگردرؔ حقیقت معجزہ کے طور پر یہ حمل تھا تو کیوں وضع حمل تک صبر نہیں کیا گیا؟ دوسرا ۲اعتراض یہ ہے کہ عہد تو یہ تھا کہ مریم مدت العمر ہیکل کی خدمت میں رہے گی پھر کیوں عہد شکنی کر کے اور اس کو خدمتِ بیت المقدس سے الگ کر کے یوسف نجّارکی بیوی بنایا گیا؟ تیسر۳ا اعتراض یہ ہے کہ توریت کے رُو سے بالکل حرام اور ناجائز تھا کہ حمل کی حالت میں کسی عورت کا نکاح کیا جائے۔ پھر کیوں خلاف حکم توریت مریم کا نکاح عین حمل کی حالت میں یوسف سے کیا گیا۔ حالانکہ یوسف اس نکاح سے ناراض تھا اور اس کی پہلی بیوی موجود تھی۔ وہ لوگ جو تعدد ازواج سے منکر ہیں شاید اُن کو یوسف کے اس نکاح کی اطلاع نہیں۔ غرض اس جگہ ایک معترض کا حق ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ اس نکاح کی یہی وجہ تھی کہ قوم کے بزرگوں کو مریم کی نسبت ناجائز حمل کا شبہ پیدا ہوگیا تھا۔ اگرچہ ہم قرآن شریف کی تعلیم کے رُو سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ حمل محض خدا کی قدرت سے تھا تا خدا تعالیٰ یہودیوں کو قیامت کا نشان دے اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں اور حضرت آدم ؑ بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تو پھر حضرت عیسٰیؑ کی اِس پیدائش سے کوئی بزرگی انؔ کی ثابت نہیں ہوتی بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قویٰ سے محروم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ القصّہ حضرت مریم کا نکاح محض شبہ کی وجہ سے ہوا تھا۔ ورنہ جوعورت بیت المقدس کی خدمت کرنے کے لئے نذر ہو چکی تھی اس کے نکاح کی کیا ضرورت تھی۔ افسوس! اس نکاح سے بڑے فتنے پیدا ہوئے اور یہود نابکار نے ناجائز تعلق کے شبہات شائع کئے۔ پس اگر کوئی اعتراض قابلِ حل ہے تو یہ اعتراض ہے نہ کہ مریم کا ہارون بھائی قرار دینا کچھ اعتراض ہے۔ قرآن شریف میں تو یہ بھی لفظ نہیں کہ ہارون نبی کی مریم ہمشیرہ تھی۔ صرف ہارون کا نام ہے نبی کا لفظ وہاں موجود نہیں۔ اصل بات یہ ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 357

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 357

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/357/mode/1up


کہ یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ نبیوں کے نام تبرکاً رکھے جاتے تھے۔ سو قرینِ قیاس ہے کہ مریم کا کوئی بھائی ہوگا جس کا نام ہارون ہوگا اور اس بیان کو محل اعتراض سمجھنا سراسر حماقت ہے۔

اور قصّہ اصحاب کہف وغیرہ اگر یہودیوں اور عیسائیوں کی پہلی کتابوں میں بھی ہو اور اگر فرض کرلیں کہ وہ لوگ ان قصوں کو ایک فرضی قصّے سمجھتے ہوں تو اس میں کیا حرج ہے۔ آپ کو یاد رہے کہ ان لوگوں کی مذہبی اور تاریخی کتابیں اور خود ان کی آسمانیؔ کتابیں تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں۔آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ یورپ میں ان کتابوں کے بارے میں آج کل کس قدر ماتم ہورہا ہے۔ اور سلیم طبیعتیں خود بخود اسلام کی طرف آتی جاتی ہیں۔ اور بڑی بڑی کتابیں اسلام کی حمایت میں تالیف ہورہی ہیں۔ چنانچہ کئی انگریز امریکہ وغیرہ ممالک کے ہمارے سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں۔ آخر جھوٹ کب تک چھپا رہے۔ پھر سوچنے کا مقام ہے کہ وحی الٰہی کو ایسی کتابوں کے اقتباس کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ خوب یاد رکھو کہ یہ لوگ اندھے ہیں اور ان کی تمام کتابیں اندھی ہیں تعجب کہ جس حالت میں قرآن شریف ایسے جزیرہ میں نازل ہوا جس کے لوگ عموماً عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں سے بے خبر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اُمّی تھے تو پھر یہ تہمتیں آنجنابؐ پر لگانا ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بالکل بے خوف ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض ہو سکتے ہیں تو پھر حضرت عیسٰیؑ پر کس قدر اعتراض ہوں گے جنہوں نے ایک اسرائیلی فاضل سے توریت کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور یہودیوں کی تمام کتابوں طالمود وغیرہ کا مطالعہ کیا تھا اور جن کی انجیل درحقیقت بائبل اور طالمود کی عبارتوں سے ایسی پُرؔ ہے کہ ہم لوگ محض قرآن شریف کے ارشاد کی وجہ سے ان پر ایمان لاتے ہیں ورنہ اناجیل کی نسبت بڑے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اور افسوس کہ انجیلوں میں ایک بات بھی ایسی نہیں کہ جو بلفظہٖ پہلی کتابوں میں موجود نہیں۔ اور پھر اگر قرآن نے بائبل کی متفرق سچائیوں اور صداقتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا تو اس میں کونسا استبعاد عقلی ہوا۔ اور کیا غضب آگیا۔ کیا آپ کے نزدیک یہ محال ہے کہ یہ تمام قصّے قرآن شریف کے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 358

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 358

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/358/mode/1up


بذریعہ وحی کے لئے گئے ہیں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبِ وحی ہونا دلائل قاطعہ سے ثابت ہے۔ اور آپ کی نبوتِ حقّہ کے انوار و برکات اب تک ظہور میں آرہے ہیں تو کیوں شیطانی وساوس دل میں داخل کئے جاویں کہ نعوذ باللہ قرآن شریف کا کوئی قصّہ کسی پہلی کتاب یا کتبہ سے نقل کیا گیا ہے۔ کیا آپ کو خدا تعالیٰ کے وجود میں کچھ شک ہے یا آپ اس کو علمِ غیب پر قادر نہیں جانتے۔ اور مَیں بیان کر چکا ہوں کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا کسی کتاب کواصلی قرار دینا اور کسی کو فرضی سمجھنا یہ سب بے بنیاد خیالات ہیں۔ نہ کسی نے اصلی کی اصلیت کا ملاحظہ کیا اور نہ کسی نے کسی جعل ساز کو پکڑا۔ اس کی نسبت خود یورپ کے محققین کی شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ ایک اندھی قوم ہے جن میں ایمانی روشنی باقی نہیں رہی۔ اور عیساؔ ئیوں پر تو نہایت ہی افسوس ہے جنہوں نے طبعی اور فلسفہ پڑھ کر ڈبو دیا ایک طرف تو آسمانوں کے منکر ہیں اور ایک طرف حضرت عیسٰیؑ کو آسمان پر بٹھاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر یہود کی پہلی کتابیں سچی ہیں تو ان کی بنا پر حضرت عیسٰیؑ کی نبوت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً سچے مسیح موعود کیلئے جس کا حضرت عیسٰیؑ کو دعویٰ ہے ملاکی نبی کی کتاب کے رُو سے یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے الیاسؑ نبی دوبارہ دنیا میں آتا۔ مگر الیاس ؑ تو اب تک نہ آیا۔ درحقیقت یہودیوں کی طرف سے یہ بڑی حجت ہے جس کا جواب حضرت عیسٰیؑ صفائی سے نہیں دے سکے۔ یہ قرآن شریف کا حضرت عیسٰیؑ پر احسان ہے جو اُن کی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اور کفارہ کا مسئلہ تو حضرت عیسٰیؑ نے آپ ردّ کر دیا ہے جبکہ کہا کہ میری یونسؑ نبی کی مثال ہے جو تین دن زندہ مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ اب اگر حضرت عیسٰیؑ درحقیقت صلیب پر مر گئے تھے تو اُن کو یونسؑ سے کیا مشابہت اور یونسؑ کو ان سے کیا نسبت ؟ اس تمثیل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ صلیب پر مرے نہیں صرف یونسؑ کی طرح بے ہوش ہوگئے تھے اور نسخہ مرہم عیسیٰ جو قریباً تمام طبّی کتابوں میں پایا جاتا ہے اس کے عنوان میں لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسٰیؑ کیلئے طیار کیا گیا تھا یعنیؔ اُن کی چوٹوں کے لئے جو صلیب پر آئی تھیں۔ اگر درخانہ کس است ہمیں قدر بس است۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 359

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 359

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/359/mode/1up


خاتمہ رسالہ نجات حقیقی کے بیان میں


مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس رسالہ کے اخیر میں نجات حقیقی کا کچھ ذکر کیا جائے کیونکہ تمام اہلِ مذاہب کا کسی مذہب کی پیروی سے یہی مدعا اور مقصد ہے کہ نجات حاصل ہو مگر افسوس کہ اکثر لوگ نجات کے حقیقی معنوں سے بے خبر اور غافل ہیں۔ عیسائیوں کے نزدیک نجات کے یہ معنی ہیں کہ گناہ کے مؤاخذہ سے رہائی ہو جائے۔ لیکن دراصل نجات کے یہ معنے نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ایک شخص نہ زنا کرے نہ چوری کرے نہ جھوٹی گواہی (دے)۔ نہ خون کرے اور نہ کسی اور گناہ کا جہاں تک اس کو علم ہے ارتکاب کرے اور باایں ہمہ نجات کی کیفیت سے بے نصیب اور محروم ہو۔ کیونکہ دراصل نجات اس دائمی خوشحالی کے حصول کا نام ہے جس کی بھوک اور پیاس انسانی فطرت کو لگادی گئی ہے جو محض خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت اور اس کی پوری معرفت اور اس کے پورے تعلق کے بعد حاصل ہوتی ہے جس میں شرط ہے کہ دونوں طرف سے محبت جوش مارے۔ لیکن بسا اوقات انسان اپنی غلط کاریوں سے ایسی چیزوں میں اپنی اس خوشحالی کو طلب کرتا ہے کہؔ جن سے آخرکار تکلیف اور ناخوشی اور بھی بڑھتی ہے۔ چنانچہ اکثر لوگ دنیا کی نفسانی عیاشیوں میں اس خوش حالی کو طلب کرتے ہیں اور دن رات میخواری اور شہوات نفسانیہ کا شغل رکھ کر انجام کار طرح طرح کی مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور آخرکار سکتہ۔فالج۔ رعشہ اور کزاز اور یا انتڑیوں یا جگر کے پھوڑوں میں مبتلا ہو کر اور یا آتشک اور سوزاک کی قابلِ شرم مرض سے اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں اور بباعث اس کے کہ اُن کی قوتیں قبل از وقت تحلیل ہو جاتی ہیں اس لئے وہ طبعی عمر سے بھی بے نصیب رہتے ہیں۔ اور انجام کار ان کو اس بات کا پتہ لگ جاتا ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 360

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 360

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/360/mode/1up


جن چیزوں کو انہوں نے اپنی خوشحالی کا ذریعہ سمجھا تھا دراصل وہی چیزیں ان کی ہلاکت کاموجب تھیں۔ اور بعض لوگ دنیوی عزت اورناموری کے بڑھانے اور مراتب مناصب کے طلب کرنے میں اپنی خوشحالی دیکھتے ہیں۔ اور اپنی زندگی کے اصل مطلب سے ناآشنا رہتے ہیں۔ لیکن آخرکار وہ بھی حسرت سے مرتے ہیں۔ اور بعض اسی خواہش سے دنیا کا مال اکٹھا کرتے رہتے ہیں کہ شاید اسی میں خوشحالی پیدا ہو۔ مگر انجام یہ ہوتا ہے کہ اس اپنے تمام اندوختہ کو چھوڑ کر بڑے درد اور دُکھ کے ساتھ اور بڑی تلخیوں کے ساتھ موت کا پیالہ پیتے ہیں۔ سو طالب حق کے لئے جو قابلِ غور سوال ہے وہ یہی سوال ہے کہ سچی خوشحالی کیونکر حاصل ہوجو دائمی مسرّت اورؔ خوشی کا موجب ہواور درحقیقت سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ وہ اُس خوشحالی تک پہنچاوے۔ سو ہم قرآن شریف کی ہدایت سے اس دقیق دردقیق نکتہ تک پہنچتے ہیں کہ وہ ابدی خوشحالی خدا تعالیٰ کی صحیح معرفت اور پھر اس یگانہ کی پاک اور کامل اور ذاتی محبت اور کامل ایمان میں ہے جو دل میں عاشقانہ بے قراری پیدا کرے۔ یہ چند لفظ کہنے کو تو بہت تھوڑے ہیں لیکن اُن کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ایک دفتر بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔

یاد رہے کہ صحیح معرفت حضرتِ عزّت جلّ شانہٗ کی کئی نشانیاں ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس کی قدرت اور توحید اور علم اور ہر ایک خوبی اور صفت پر کوئی داغ نقص کا نہ لگایا جائے۔ کیونکہ جس ذات کا ذرّہ ذرّہ پر حکم ہے اور جس کے تصرّف میں تمام فوجیں رُوحوں کی اور تمام ہیکل زمین و آسمان کی ہے وہ اگر اپنی قدرتوں اور حکمتوں اور قوتوں میں ناقص ہو تو اس عالمِ جسمانی اور رُوحانی کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ اگر نعوذ باللہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ ذرّات اور ان کی تمام طاقتیں اور ارواح اور ان کی تمام قوتیں خود بخود ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا علم اور توحید اور قدرت تینوں ناقص ہیں۔ وجہ یہ کہ اگر تمام ارواح اور ذرّات خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پیدا شدہ نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 361

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 361

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/361/mode/1up


اس بات کا یقین ہو کہ خدا ؔ تعالیٰ کو ان کے اندرونی حالات کا علم ہے اور جبکہ اس کے علم پر کوئی دلیل قائم نہیں بلکہ اس کے برخلاف دلیل قائم ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہماری طرح خدا تعالیٰ بھی اِن چیزوں کی اصلُ کنہ سے بے خبر ہے۔ اور اس کا علم ان کے پوشیدہ در پوشیدہ اسرار پر محیط نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جیسے مثلاً ایک دوا اپنے ہاتھ سے طیار کی جاتی ہے یا اپنی نظر کے سامنے ایک شربت یا گولیاں یا چند دواؤں کا عرق طیار کیا جاتا ہے تو بوجہ اس کے کہ ہم خود اس نسخہ کے بنانے والے ہیں ہمیں ان تمام دواؤں کا پورا علم ہوتا ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ فلاں فلاں دوا ہے اور فلاں فلاں وزن کے ساتھ اِس مقصد کے لئے بنائی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی عرق یا گولیاں یا شربت ایسا مجہول الکنہ ہو جس کو ہم نے بنایا نہیں اور نہ ہم ان اجزا کو جدا جدا کر سکتے ہیں تو ہم ضرور ان دواؤں سے بے خبر ہوں گے اور یہ بات تو بدیہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو ذرّات اور ارواح کا بنانے والا مان لیا جائے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ بالضرور خدا تعالیٰ کو ان تمام ذرّات اور ارواح کی پوشیدہ قوتوں اور طاقتوں کا علم بھی ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ وہ خود ان قوتوں اور طاقتوں کا بنانے والا ہے اور بنانے والا اپنی بنائی ہوئی چیز سے بے خبر نہیں ہوتا۔ لیکن اگر یہ صورت ہو کہ وہ ان قوتوں اور طاقتوؔ ں کا بنانے والا نہیں ہے تو کوئی بُرہان اس پر قائم نہیں ہو سکتی کہ اس کو ان تمام قوتوں اور طاقتوں کا علم بھی ہے۔اگر تم بغیر دلیل کے کہہ دو کہ اس کو علم ہے تویہ ایک تحکّم ہے اور محض ایک دعویٰ ہے۔ لیکن جیسا کہ یہ دلیل ہمارے ہاتھ میں ہے کہ بنانے والا ضرور اپنی بنائی ہوئی چیز کا علم رکھتا ہے اس کے مقابل پر کونسی دلیل آپ کے ہاتھ میں ہے کہ جو چیزیں اپنے ہاتھ سے خداتعالیٰ نے بنائی نہیں۔ اُس کو ان کی تمام پوشیدہ قوتوں اور طاقتوں کا علم ہے۔ کیونکہ وہ چیزیں خدا تعالیٰ کے وجود کا عین تو نہیں تا جیسا کہ اپنے وجود پر اطلاع ہوتی ہے ان پر بھی اطلاع ہو بلکہ وہ تمام چیزیں آریہ سماج کے اعتقاد کے رُو سے اپنے اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہیں اور آپ ہی انادی اور قدیم ہیں۔ اور بوجہ غیر مخلوق اور قدیم ہونے کے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 362

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 362

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/362/mode/1up


پرمیشر سے ایسی بے تعلق ہیں کہ اگر اس پرمیشر کا مرنا بھی فرض کرلیں تو اِن چیزوں کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ جس حالت میں پرمیشر ان قوتوں اور طاقتوں کا پیدا کرنے والا نہیں تو وہ چیزیں اپنی بقاء میں بھی پرمیشر کی محتاج نہیں جیسا کہ اپنے پیدا ہونے میں محتاج نہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے دو۲ نام ہیں۔ ایک۔۱ حَيّ دوسر۲۔ا قَیُّوم۔ حيّ کے یہ معنے ہیں کہ خود بخود زندہ اور دوسری چیزوں کو زندگی بخشنے والا۔ اور قیُّوم کے یہ معنے ہیں کہ اپنی ذات میں آپ قائم اور اپنی پیدا کردہ چیزوؔ ں کو اپنے سہارے سے باقی رکھنے والا۔ پس خدا تعالیٰ کے نام قیوم سے وہ چیز فائدہ اُٹھا سکتی ہے جو پہلے اس سے اس کے نام حيّ سے فائدہ اُٹھا چکی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی پیدا کردہ چیزوں کو سہارا دیتا ہے۔ نہ ایسی چیزوں کو جن کے وجود اور ہستی کو اس کا ہاتھ ہی نہیں چھؤا۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کو حيّ یعنی پیدا کرنے والا مانتا ہے اُسی کا حق ہے کہ اس کو قیّوم بھی مانے۔ یعنی اپنی پیدا کردہ کو اپنی ذات سے سہارا دینے والا۔ لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کو حيّ یعنی پیدا کرنے والا نہیں جانتا اس کا حق نہیں ہے کہ اس کی نسبت یہ اعتقاد رکھے کہ وہ ان چیزوں کو ان کے رہنے میں سہارا دینے والا ہے۔ کیونکہ سہارا دینے کے یہ معنے ہیں کہ اگر اس کا سہارا نہ ہو وہ چیزیں معدوم ہو جائیں۔ اور ظاہر ہے کہ جن چیزوں کا اس کی طرف سے وجود نہیں وہ چیزیں اپنے بقائے وجود میں اس کی محتاج بھی نہیں ہو سکتیں۔ اور اگر وہ بقائے وجود میں محتاج ہیں تو اس وجود کی پیدائش میں بھی محتاج ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ کے یہ دونوں اسم حيّ و قیّوم اپنی تاثیر میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں کبھی علیحدہ علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ پس جن لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ خدا رُوحوں اور ذرّات کاپیدا کرنے والا نہیں وہ اگر عقل اور سمجھ سے کچھ کام لیں تو اُن کو اقرار کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ اِنؔ چیزوں کا قیوم بھی نہیں۔ یعنی وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کے سہارے سے ذرّات یا ارواح پیداہوئے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے سہارے کی محتاج وہ چیزیں ہیں جو اس کی پیدا کردہ ہیں۔ غیر کو جو اپنے وجود میں اس کا محتاج نہیں اس کے سہارے کی کیوں حاجت پڑگئی؟ یہ دعویٰ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 363

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 363

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/363/mode/1up


بے دلیل ہے۔ اور ہم ابھی یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر ذرّات اور ارواح کو قدیم سے انادی اور خود بخود مانا جائے تو اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی کہ خدا تعالیٰ کو ان کے پوشیدہ خواص اور دقیق در دقیق طاقتوں اور قوتوں کا علم ہے۔ اور یہ کہنا کہ چونکہ وہ ان کا پرمیشر ہے اس لئے اس کو ان کے پوشیدہ خواص اور طاقتوں کا علم ہے یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی گئی اور کوئی برہان پیش نہیں کی گئی اور نہ کوئی رشتہ عبودیت اور الوہیت کا ثابت کیا گیا بلکہ وہ ان کا پرمیشر ہی نہیں۔ بھلا جس کا کوئی رشتہ خالق ہونے کا ذرّات اور رُوحوں سے نہیں وہ ان کا پرمیشر کا ہے کا ہوا۔ اور کن معنوں سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ رُوحوں اور ذرّات کا پرمیشر ہے اور یہ اضافت کس بنا پر ہو سکتی ہے کہ خدا رُوحوں اور ذرّات کا پرمیشر ہے۔ یا تو اضافت مِلک کی ہوتی ہے جیسے کہا جائے کہؔ غلامِ زید یعنی زید کاغلام۔سو مملوک ہونے کی کوئی وجوہ چاہئیں اور کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ کیوں آزاد چیزوں کو جو اپنے قویٰ قدیم سے آپ رکھتی ہیں پرمیشر کی بلا وجہ مِلک قرار دیا جائے۔ اور یا اضافت کسی رشتہ کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ کہا جائے کہ پسرِ زید۔ لیکن جب کہ ارواح اور ذرّات کا پرمیشر کے ساتھ کوئی رشتہ عبودیت اور ربوبیت نہیں تو یہ اضافت بھی ناجائز ہے اور اس حالت میںیہ بات بالکل سچ ہے کہ ایسے بے تعلق رُوحوں کے لئے نہ تو پرمیشر کا وجود کچھ مفید ہے اور نہ اس کا عدم کچھ مضر ہے۔ بلکہ ایسی حالت میں نجات جس کو آریہ سماج والے مکتی کہتے ہیں بالکل غیر ممکن اور ممتنع امر ہے۔ کیونکہ نجات کا تمام مدار خدا تعالیٰ کی محبتِ ذاتیہ پر ہے۔ اور محبتِ ذاتیہ اس محبت کا نام ہے جو روحوں کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق ہے۔ پھر جس حالت میں ارواح پرمیشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پھر اُن کی فطرتی محبت پرمیشر سے کیونکرہو سکتی ہے اور کب اور کس وقت پرمیشر نے ان کی فطرت کے اندر ہاتھ ڈال کر یہ محبت اس میں رکھ دی یہ تو غیر ممکن ہے وجہ یہ کہ فطرتی محبت اُس محبت کا نام ہے جو فطرت کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہو اور پیچھے سے لاحق نہ ہو۔ جیسا کہ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 364

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 364

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/364/mode/1up


فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قولؔ ہے3۱ ؂ یعنی مَیں نے روحوں سے سوال کیا کہ کیا مَیں تمہارا پیدا کنندہ نہیں ہوں تو روحوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی رُوح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے پس رُوح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعاً و فطرتاً محبت ہے اس لئے کہ وہ اسی کی پیدائش ہے اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ 3 ۲؂ ۔یعنی روح کا خدائے واحد لاشریک کا طلب گار ہونا اور بغیر خدا کے وصال کے کسی چیز سے سچی خوشحالی نہ پانا یہ انسانی فطرت میں داخل ہے یعنی خدا نے اِس خواہش کو انسانی رُوح میں پیدا کر رکھا ہے جو انسانی رُوح کسی چیز سے تسلّی اور سکینت بجز وصال الٰہی کے نہیں پا سکتی۔ پس اگر انسانی رُوح میں یہ خواہش موجود ہے تو ضرور ماننا پڑتا ہے کہ رُوح خدا کی پیدا کردہ ہے جس نے اس میں یہ خواہش ڈال دی مگر یہ خواہش تو درحقیقت انسانی رُوح میں موجود ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسانی رُوح درحقیقت خدا کی پیدا کردہ ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر دو چیزوں میں کوئی ذاتی تعلق درمیان ہو اسی قدر ان میں اس تعلق کی وجہ سے محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ ماں کو اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے اور بچہ کو اپنی ماں سے۔ کیونکہ وہ اس کے خون سے پیداؔ ہوا ہے اور اس کے رحم میں پرورش پائی ہے۔ پس اگر روحوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی تعلق پیدائش کا درمیان نہیں اور وہ قدیم سے خود بخود ہیں تو عقل قبول نہیں کر سکتی کہ اُن کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ اور جب ان کی فطرت میں پرمیشر کی محبت نہیں تو وہ کسی طرح نجات پا ہی نہیں سکتیں۔

اصل حقیقت اور اصل سرچشمہ نجات کا محبت ذاتی ہے جو وصال الٰہی تک پہنچاتی ہے۔ وجہ یہ کہ کوئی ُ محب اپنے محبوب سے جدا نہیں رہ سکتا۔ اور چونکہ خدا خود نور ہے اس لئے اس کی محبت سے نورِ نجات پیدا ہو جاتا ہے اوروہ محبت جو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 365

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 365

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/365/mode/1up


انسان کی فطرت میں ہے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت ذاتی انسان کی محبت ذاتی میں ایک خارق عادت جوش بخشتی ہے۔ اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے ایک فنا کی صورت پیدا ہو کر بقا باللہ کا نور پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات کہ دونوں محبتوں کا باہم ملنا ضروری طور پر اس نتیجہ کو پیدا کرتا ہے کہ ایسے انسان کا انجام فنافی اللہ ہو اور خاکستر کی طرح یہ وجود ہو کر (جو حجاب ہے) سراسر عشقِ الٰہی میں روح غرق ہو جائے اس کی مثال وہ حالت ہے کہ جب انسان پر آسمان سے صاعقہ پڑتی ہے تو اس آگ کی کشش سے انسان کے بدن کی اندرونی آگ یک دفعہ باہرؔ آجاتی ہے تو اس کا نتیجہ جسمانی فنا ہوتا ہے پس دراصل یہ روحانی موت بھی اسی طرح دو قسم کی آگ کو چاہتی ہے۔ ایک آسمانی آگ اور ایک اندرونی آگ اور دونوں کے ملنے سے وہ فنا پیدا ہو جاتی ہے جس کے بغیر سلوک تمام نہیں ہو سکتا ۔ یہی فنا وہ چیز ہے جس پر سالکوں کا سلوک ختم ہو جاتا ہے۔ اور جو انسانی مجاہدات کی آخری حد ہے۔ اِسی فنا کے بعد فضل اور موہبت کے طور پر مرتبہ بقا کا انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔3 ۱؂ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا۔ یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر*۔ اور یہ عشقِ الٰہی کا آخری نتیجہ ہے۔ جس سے ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوتی ہے اور موت سے نجات ہوتی ہے۔ ہمیشہ کی زندگی بجز خدا تعالیٰ کے کسی کا حق نہیں۔ وہی



* انسان چونکہ بوجہ اپنی بشریت کی کمزوری کے ایسے اعمال بجا نہیں لا سکتا جن سے بے انتہا اور غیر محدود

نعمتوں کا حقدار ہو جائے۔ اور بغیر حصول ان نعمتوں کے سچی اور حقیقی نجات پاہی نہیں سکتا اس لئے انسان جب اپنی قوت اور طاقت کی حد تک مجاہدہ اور جپ تپ کر لیتا ہے تب عنایت الٰہی اس کی کمزوری پر رحم کر کے محض فضل سے اس کی دستگیری کرتی ہے اور مفت کے طور پر وصالِ الٰہی کا وہ انعام اس کو دیتی ہے جو پہلے اس سے راستبازوں کو دیا گیا تھا ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 366

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 366

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/366/mode/1up


ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ پس انسانوں میں سے اسی انسان کو یہ جاودانی زندگی ملتی ہے جو غیروں کی محبت سے اپنا تعلق توڑ کر اور اپنی محبت ذاتی کے ساتھ خدا تعالیٰ میں فنا ہو کر ظلّی طور پر اس سے حیاتِ جاودانی کا حصّہ لیتا ہے۔ اور ایسے شخص کو مُردہ کہنا ناروا ہے کیونکہ وہ خدا میں ہو کر زندہ ہوگیا ہے۔ مردے وہ لوگ ہیں جو خدا سے دُور رہ کر مر گئے۔ پس سخت کافر اور بے دین اور مشرک وہؔ لوگ ہیں جو بغیر پانے محبت ذاتی اور وصال الٰہی کے تمام ارواح کی نسبت انادی اور قدیم زندگی کے قائل ہیں۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ کسی چیز کی بجز خدا کے کوئی ہستی نہیں۔ محض خدا ہے جس کا نام ہست ہے۔ پھر اس کے زیر سایہ ہو کر اور اس کی محبت میں محو ہو کر واصلوں کی روحیں حقیقی زندگی پاتی ہیں۔ اور اس کے وصال کے بغیر زندگی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں کافروں کا نام مُردے رکھتا ہے اور دو زخیوں کی نسبت فرماتا ہے۔3 ۱؂۔ یعنی جو شخص مجرم ہونے کی حالت میں اپنے رب کو ملے گا۔ اُس کے لئے جہنّم ہے نہ اس میں مرے گا اورنہ زندہ رہے گا۔ یعنی اس لئے نہیں مرے گا کہ دراصل وہ تعبّد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کا وجود ضروری ہے اور اس کو زندہ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ حقیقی زندگی وصالِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی زندگی عین نجات ہے اور وہ بجز عشق الٰہی اور وصال حضرتِ عزّت کے حاصل نہیں ہو سکتی اگر غیر قوموں کو حقیقی زندگی کی فلاسفی معلوم ہوتی تو وہ کبھی دعویٰ نہ کرتے کہ تمام ارواح خود بخود قدیم سے اپنا وجود رکھتی ہیں اور حقیقی زندگی سے بہرہ ور ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ علوم آسمانی ہیں اور آسماؔ ن سے ہی نازل ہوتے ہیں اور آسمانی لوگ ہی ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اور دنیا اُن سے بے خبر ہے۔

اب ہم پھر اصل مضمون کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ چشمہ نجات ابدی کا وصالِ الٰہی ہے اور وہی نجات پاتا ہے کہ جو اس چشمہ سے زندگی کا پانی پیتا ہے۔ اور وہ وصال



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 367

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 367

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/367/mode/1up


میسّر نہیں آسکتا جب تک کہ کامل معرفت اور کامل محبت اور کامل صدق اور کامل ایمان نہ ہو اور کمال معرفت کی پہلی نشانی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم کامل پر کوئی داغ نہ لگایا جائے۔ اور ابھی ہم ثابت کر چکے ہیں کہ جو لوگ روحوں اور ذرّات اجسام کو انادی اور قدیم جانتے ہیں وہ خداتعالیٰ کو کامل طور پر عالم الغیب نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے فلاسفہ ضالہ یُونان کے جو رُوحوں کو انادی اور قدیم سمجھتے تھے یہ عقیدہ رکھتے تھے جو خدا تعالیٰ کو جزئیات کا علم نہیں کیونکہ جس حالت میں ارواح اور ذرّات عالم قدیم اور انادی اور خود بخود ہیں اور ان کے وجود خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں تو کوئی دلیل اس پر قائم نہیں ہو سکتی کہ ان کی دقیق در دقیق طاقتوں اور قوتوں اور پوشیدہ اسرار کا خدا کو علم ہو۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ علمِ کامل جو اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزوں کے پوشیدہ حالات کی نسبت مع تمام کیفیات اور ؔ تفاصیل کے ہو سکتا ہے اس کے برابر ممکن نہیں کہ دوسری چیزوں کے پوشیدہ حالات بتمام و کمال معلوم ہو سکیں۔ بلکہ دوسرے علوم میں خطا اور غلطی کا احتمال رہ سکتا ہے۔ پس اس جگہ رُوحوں اور ذرّات کے انادی اور قدیم کہنے والوں کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ علم ارواح اور ذرّات کاجو خدا کی شان کے مناسب حال ہو یعنی جیسا کہ خدا کامل ہے وہ علم بھی کامل ہو۔ اس عقیدہ کی رو سے (جو روحوں اور ذراّت کو قدیم اور انادی جاننے کا عقیدہ ہے) اُن کے پرمیشر کو حاصل نہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ حاصل ہے تو یہ بار ثبوت اس کے ذمہ ہے کہ دلیل واضح سے اس کو ثابت کرے نہ محض دعویٰ سے۔ ظاہر ہے کہ جس حالت میں رُوحیں قدیم سے خود بخود اور اپنے وجود کی آپ خدا ہیں تو اس صورت میں گویا وہ تمام روحیں کسی علیحدہ محلہ میں مستقل قبضہ کے ساتھ رہتی ہیں اور پرمیشر علیحدہ رہتا ہے کوئی تعلق درمیان نہیں اور اس امر کی وجہ کچھ نہیں بتلا سکتے کہ تمام روحیں اور تمام ذرّات باوجود انادی اور قدیم اور خود بخود ہونے کے پرمیشر کے ماتحت کیونکر ہوگئیں۔ کیا کسی لڑائی اور جنگ کے بعد یہ صورت ظہور میں آئی یا خود بخود رُوحوں نے کچھ مصلحت سوچ کر اطاعت قبول کرلی۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 368

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 368

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/368/mode/1up


اور بموجب ان کے عقیدہ کے پرمیشر دیالو اور نیا کاری تو ضرور ہے مگر پھر بھی وہ نہ رحم کرتا ہے نہ انصاف کیوؔ نکہ وہ محض اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کیلئے مکتی یافتہ رُوحوں کو ہمیشہ کے لئے نجات نہیں دیتا۔ وجہ یہ اگر ہمیشہ کے لئے روحوں کو نجات دے دے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی وقت تمام روحیں نجات پاکر بار بار دنیا میں آنے سے فراغت پا جائیں اور پرمیشر کی یہ خواہش ہے کہ دنیا کا سلسلہ بھی جاری رہے تا اس کی حکومت کی رونق بنی رہے اس لئے وہ کسی روح کو ہمیشہ کی نجات دینا ہی نہیں چاہتا۔ بلکہ گو کوئی رُوح اوتار یا رشی یا سدّھ کے درجہ تک بھی پہنچ گئی ہو پھر بھی بار بار اس کو اواگون کے چکر میں ڈالتا ہے۔ مگر کیا ہم خداوند قادر اور کریم کی طرف ایسے صفات رذیلہ منسوب کر سکتے ہیں؟ کہ ہمیشہ وہ اپنے بندوں کو دکھ دے کر خوش ہوتا ہے مگر کبھی ابدی آرام ان کو دینا نہیں چاہتا۔ خدائے قدوس اور پاک کی نسبت اس قدر بُخل منسوب نہیں ہو سکتا۔ افسوس ایسے بخل کی تعلیم عیسائیوں کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ اِس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص عیسیٰ ؑ کو خدا نہیں کہے گا وہ جاودانی جہنم میں پڑے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی۔ بلکہ وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ کفار ایک مدّت دراز تک عذاب میں رہ کر آخر وہ خدا تعالیٰ کے رحم سے حصّہ لیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی ہے یَأْتِیْ عَلٰی جھنّم زمانٌ لَیْسَ فِیْھَا احدٌ و نسیم الصبا تحرّک ابوابھا۔ یعنیؔ جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہیں ہوگا اور نسیم صبا اس کے کواڑہلائے گی۔ اسی کے مطابق قرآن شریف میں یہ آیت ہے 3 ۱؂ یعنی دوزخی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن جب خدا چاہے گا تو ان کو دوزخ سےَ مخلصی دے گا کیونکہ تیرا رب جو چاہتا ہے کر سکتا ہے۔ یہ تعلیم خدا تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ کے مطابق ہے کیونکہ اس کی صفات جلالی بھی ہیں اور جمالی بھی اور وہی زخمی کرتا ہے اور وہی پھر مرہم لگاتا ہے*


* یہ بات فی نفسہٖ غیر معقول ہے کہ انسان کو ایسی ابدی سزا دی جائے کہ جیسا خدا ہمیشہ کے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 369

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 369

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/369/mode/1up


اور یہ بات نہایت نا معقول اور خدائے عزّوجلّ کے صفاتِ کاملہ کے برخلاف ہے کہ دوزخ میں ڈالنے کے بعد ہمیشہ اس کے صفاتِ قہریہ ہی جلوہ گر ہوتی رہیں اور کبھی صفت رحم اور عفو کی جوش نہ مارے۔ اور صفات کرم اور رحم کے ہمیشہ کے لئے معطّل کی طرح رہیں بلکہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مدت دراز تک جس کو انسانی کمزوری کے مناسب حال استعارہ کے رنگ میں ابد کے نام سے موسوم کیا گیا ہے دوزخی دوزخ میں رہیں گے۔ اور پھر صفت رحم اور کرم تجلّی فرمائے گی اور خدا اپنا ہاتھ دوزخ میں ڈالے گا اور جس قدر خدا کی مٹھی میں آجائیں گے سب دوزخ سے نکالے جائیں گے۔ پسؔ اس حدیث میں بھی آخرکار سب کی نجات*کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا کی مٹھی خدا کی طرح غیر محدود ہے جس سے کوئی بھی باہر نہیں رہ سکتا۔

یاد رہے کہ جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت بہ نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں۔ کبھی انسان خدا کے صفاتِ جلالیہ اور استغناء ذاتی کے پرتوہ کے نیچے ہوتا ہے اور کبھی صفات جمالیہ کا پرتوہ اس پر پڑتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3 ۱؂۔ پس یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ ایسا گمان کیا جائے کہ بعد اس کے کہ مجرم لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے پھر صفاتِ کرم


لئے ہے ایسا ہی خدا کی ابدیت کے موافق ہمیشہ دوزخی دوزخ میں رہیں۔ آخر ان کے قصوروں میں خدا کا بھی دخل ہے کیونکہ اسی نے ایسی قوتیں پیدا کیں جو کمزور تھیں۔ پس دوزخیوں کا حق ہے جو اس کمزوری سے فائدہ اُٹھاویں جو ان کی فطرت کو خدا کی طرف سے ملی ہے۔ منہ


* نجات سے یہ لازم نہیں آتا کہ سب لوگ ایک مرتبہ پر ہو جائیں گے۔ بلکہ جن لوگوں نے دنیا میں

خدا کو اختیار کر لیا اور خدا کی محبت میں محو ہوگئے اور صراط مستقیم پر قائم ہوگئے ان کے خاص مراتب ہیں۔ دوسرے لوگ اس مرتبہ تک پہنچ نہیں سکتے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 370

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 370

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/370/mode/1up


اور رحم ہمیشہ کے لئے معطّل ہو جائیں گی اور کبھی ان کی تجلّی نہیں ہوگی۔ کیونکہ صفاتِ الٰہیہ کا تعطّل ممتنع ہے بلکہ حقیقی صفت خدا تعالیٰ کی محبت اور رحم ہے اور وہی اُمُّ ا ّ لصفات ہے اور وہی کبھی انسانی اصلاح کے لئے صفات جلالیہ اور غضبیہ کے رنگ میں جوش مارتی ہے اور جب اصلاح ہو جاتی ہے توؔ محبت اپنے رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر بطور موہبت ہمیشہ کے لئے رہتی ہے۔خدا ایک چڑچڑہ انسان کی طرح نہیں ہے جو خواہ نخواہ عذاب دینے کا شائق ہو۔ اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے پر آپ ظلم کرتے ہیں۔ اس کی محبت میں تمام نجات اور اس کو چھوڑنے میں تمام عذاب ہے۔

یہ تو آریہ سماج والوں کی خدا دانی کی تعلیم ہے۔ اور اس تعلیم کے رُو سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی جناب میں کوئی عزت پاتا ہے۔ خواہ اوتار بن جاتا ہے یا رشی اور خواہ خود ایسا شخص جس پر وید نازل ہوں اس کی عزّت کسی بھروسہ کے لائق نہیں ہوتی بلکہ وہ ہزارہا مرتبہ عزّت کی کرسی سے نیچے ڈال دیا جاتا ہے۔ اور یا تو وہ پرمیشر کا بڑا پیارا اور مقرب اور اوتار اور رشی اور ایسا ایسا تھا اور یا پھر اواگون کے چکّر میں آکر کوئی کیڑا مکوڑا بن جاتا ہے۔ جاودانی نجات کبھی اس کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس جگہ بھی مرنے کا دغدغہ۔ اور پھر مرنے کے بعد دوبارہ اواگون کے عذاب کا دغدغہ۔ غرض یہ تو خدا تعالیٰ کا حق ادا کیا گیا۔ ایک طرف تمام ارواح اور ذرّات قدیم اور خود بخود ہونے میں اس کے شریک ٹھہرائے گئے۔ اور دوسری طرف پرمیشر کو ایسا بخیل قرار دیا گیا کہ باوجودیکہ طاقت رکھتا ہے۔ اور سرب شکتی مان ہے مگر پھر بھی کسیؔ کو نجات ابدی دینا نہیں چاہتا۔

پھرانسانوں کو پاک ہونے کے بارے میں جو کچھ وید نے سکھلایا ہے اس کی تمام حقیقت تو نیوگ کی تعلیم سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ آریہ اپنی منکوحہ عورت کو اولاد کی خواہش سے کسی دوسرے مرد سے ہم بستر کرا سکتا ہے۔ اور جب تک وہ عورت اس شدھ کام سے گیارہ بچے حاصل نہ کرلے وہ اس بیگانہ شخص سے ہر روز ہمبستر رہ سکتی ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 371

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 371

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/371/mode/1up


اب ہم اس جملہ معترضہ سے اپنے اصل مطلب کی طرف آتے ہیں اور وہ یہ کہ آریوں کے اصول کے مطابق اُن کا پرمیشر عالم الغیب نہیں ہو سکتا اور ان کے پاس پرمیشر کے عالم الغیب ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔

ایسا ہی عیسائی عقیدہ کے رُو سے خدا تعالیٰ عالم الغیب نہیں ہے کیونکہ جس حالت میں حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا قرار دیا گیا ہے اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ مَیں جو خدا کا بیٹا ہوں۔ مجھے قیامت کا علم نہیں۔ پس اس سے بجز اس کے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ خدا کو قیامت کا علم نہیں کہ کب آئے گی۔

پھر دوسری شاخ معرفت صحیحہ کی خدا تعالیٰ کی کامل قدرت کا شناخت کرنا ہے۔ لیکن اس شاخ میں بھی آریہ سماج والے اور حضرات پادریان اپنے خدا پر داغ لگا رہے ہیں۔

آریہؔ سماج والے اس طرح سے کہ وہ اپنے پرمیشر کو رُوحوں اور ذرّات عالم کے پیدا کرنے پر قادر ہی نہیں جانتے اور نہ اس بات پر قادر سمجھتے ہیں کہ اُن کا پرمیشر کسی رُوح کو جاودانی مکتی دے سکے*۔ ایسا ہی حضرات پادری صاحبان بھی اپنے خدا کو قادر نہیں سمجھتے کیونکہ اُن کا خدا


* شکر کا مقام ہے کہ ہمارا خدا ہمیشہ اپنی قدرت کے نمونے ہمیں دکھاتا ہے تا ہمیشہ ہمارا ایمان تازہ ہو

جیسا کہ اُس نے ۴ ؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کے زلزلہ سے پہلے چار دفعہ متفرق زمانوں میں مجھے اپنی وحی کے ذریعہ سے اطلاع دی کہ پنجاب میں ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے۔ سو وہ شدید زلزلہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کو منگل کی صبح کو آگیا اور وہ موسم بہار تھا۔ اور پھر اس خدائے قادر نے مجھے اطلاع دی کہ پھر موسم بہار میں شدید زلزلے آنے والے ہیں۔ سو ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء ؁ کو عین موسم بہار میں ایک شدیدزلزلہ آیا۔ چنانچہ کوہ منصوری میں اس قدر اس کا صدمہ محسوس ہوا کہ لوگ بے حواس ہوگئے۔ اور انہیں ایّام میں امریکہ کے بعض حصوں میں بھی ایک شدید زلزلہ آیا جس سے کئی شہر ہلاک ہوگئے۔ پس خدا درحقیقت وہی خدا ہے جو اب بھی اپنی وحی کے ذریعہ سے اپنی زندہ قدرتیں ہم پر ظاہر کرتا ہے۔ اور ایسی ہزارہا پیشگوئیاں ہیں جو خدا کی وحی کے مطابق جو مجھ پر ہوئی ظہور میں آئیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 372

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 372

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/372/mode/1up


اپنے مخالفوں کے ہاتھ سے ماریں کھاتا رہا۔ زندان میں داخل کیا گیا۔ کوڑے لگے۔ صلیب پر کھینچا گیا۔ اگر وہ قادر ہوتا تو اتنی ذلتیں باوجود خدا ہونے کے ہرگز نہ اُٹھاتا۔ اور نیز اگر وہ قادر ہوتا تو اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ اپنے بندوں کونجات دینے کے لئے یہ تجویز سوچتا کہ آپ مر جائے اور اس طریق سے بندے رہائی پاویں۔ جو شخص خدا ہو کر تین۳ دن تک مرا رہا اس کی قدرت کا نام لینا ہی قابلِ شرم بات ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ خدا تو تین۳ دن تک مرا رہا لیکن اُس کے بندے تین۳ دن تک بغیر خدا کے ہی جیتے رہے۔

اور پھر ان لوگوں کی توحید کا یہ حال ہے کہ آریہ سماج والے تو ذرّہ ذرّہ اور تمام ارواح کو خودبخود موجود ہونے میں اپنے پرمیشر کے شریک ٹھہراتے ہیں اور اُن کے وجود اور بقاء کو محض انہیں کی طاقت اور قوت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ محض شرک ہے۔

رہےؔ عیسائی۔ سو ان کا یہ حال ہے کہ وہ صریح توحید کے برخلاف عقیدہ *رکھتے ہیں۔


* وہ اعتقاد جو قرآن شریف نے سکھایا ہے یہ ہے کہ جیسا کہ خدا نے ارواح کو پیدا کیا ہے ایسا ہی وہ ان

کے معدوم کرنے پر بھی قادر ہے۔ اور انسانی رُوح اس کی موہبت اور فضل سے ابدی حیات پاتی ہے۔ نہ اپنی ذاتی قوت سے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے خدا کی پوری محبت اور پوری اطاعت اختیار کرتے ہیں اور پورے صدق اور وفاداری سے اُس کے آستانہ پر جھکتے ہیں اُن کو خاص طور پر ایک کامل زندگی بخشی جاتی ہے اور ان کے فطرتی حواس میں بھی بہت تیزی عطا کی جاتی ہے۔ اور ان کی فطرت کو ایک نور بخشا جاتا ہے جس نور کی وجہ سے ایک فوق العادت روحانیت اُن میں جوش مارتی ہے اور تمام روحانی طاقتیں جو دنیا میں وہ رکھتے تھے موت کے بعد بہت وسیع کی جاتی ہیں اور نیز مرنے کے بعد وہ اپنی خداداد مناسبت کی وجہ سے جو حضرت عزّت سے رکھتے ہیںآسمان پر اُٹھائے جاتے ہیں جس کو شریعت کی اصطلاح میں رفع کہتے ہیں۔ لیکن جو مومن نہیں ہیں اور جو خداتعالیٰ سے صاف تعلقات نہیں رکھتے یہ زندگیؔ ان کو نہیں ملتی اور نہ یہ صفات ان کو حاصل ہوتی ہیں۔ اس لئے وہ لوگ مُردہ کے حکم میں ہوتے ہیں۔ پس اگر خدا تعالیٰ رُوحوں کا پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو وہ اپنے قادرانہ تصرف سے مومن اور غیر مومن میں یہ فرق دکھلا نہ سکتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 373

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 373

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/373/mode/1up


یعنی وہ تین۳ خدا مانتے ہیں۔ یعنی باپ۔ بیٹا۔ رُوح القدس۔ اور یہ جواب ان کا سراسر فضول ہے کہ ہم تین۳ کو ایک جانتے ہیں۔ ایسے بیہودہ جواب کو کوئی عاقل تسلیم نہیں کرسکتا۔ جبکہ یہ تینوںؔ خدا مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ پورے خدا ہیں تو وہ کونسا حساب ہے جس کے رُو سے وہ ایک ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کا حساب کس سکول یا کالج میں پڑھایا جاتا ہے کیا کوئی منطق یا فلاسفی سمجھا سکتی ہے کہ ایسے مستقل تین۔۳ ایککیونکر ہوگئے۔ اور اگر کہو کہ یہ راز ہے کہ جو انسانی عقل سے برتر ہے تو یہ دھوکا دہی ہے۔ کیونکہ انسانی عقل خوب جانتی ہے کہ اگر تین۔۳ کو تین۔۳ کامل خدا کہا گیا تو تین۔۳ کامل کو بہرحال تین۔۳ کہناپڑے گا۔ نہ ایک۔ اور اس تثلیث کے عقیدہ کو نہ صرف قرآن شریف ردّ کرتا ہے بلکہ توریت بھی ردّ کرتی ہے۔ کیونکہ وہ توریت جو موسٰیؑ کو دی گئی تھی اس میں اس تثلیث کا کچھ بھی ذکر نہیں۔ اشارہ تک نہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر توریت میں بھی ان خداؤں کی نسبت تعلیم ہوتی تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ یہودی اس تعلیم کو فراموش کر دیتے۔ کیونکہ اوّل تو یہودیوں کو توحید کی تعلیم کے یاد رکھنے کے لئے سخت تاکید کی گئی تھی یہاں تک کہ حکم تھا کہ ہر ؔ ایک یہودی اس تعلیم کو حفظ کرلے اور اپنے گھر کے چوکٹوں پر اس کو لکھ چھوڑیں اور اپنے بچوں کو سکھادیں۔ اور پھر علاوہ اس کے اسی توحید کی تعلیم کے یاد دلانے کے لئے متواتر خدا تعالیٰ کے نبی یہودیوں میں آتے رہے اور وہی تعلیم سکھلاتے رہے پس یہ امر بالکل غیر ممکن اور محال تھا کہ یہودی لوگ باوجود اس قدر تاکید اور اس قدر تواتر انبیاء کے تثلیث کی تعلیم کو بھول جاتے اور بجائے اس کے توحید کی تعلیم اپنی کتابوں میں لکھ لیتے۔ اور وہی بچوں کو سکھاتے۔ اور آنے والے صدہا نبی بھی اسی توحید کی تعلیم کو دوبارہ تازہ کرتے ایسا خیال تو سراسر خلاف عقل و قیاس ہے۔ مَیں نے اس بارہ میں خود کوشش کر کے بعض یہودیوں سے حلفاً دریافت کیا تھا کہ توریت میں خدا تعالیٰ کے بارے میں آپ لوگوں کو کیا تعلیم دی گئی تھی؟ کیا تثلیث کی تعلیم دی گئی تھی یا کوئی اَور۔ تو اُن یہودیوں نے مجھے خط لکھے جواب تک میرے پاس موجود ہیں۔ اور اُن خطوں میں بیان کیا کہ توریت میں تثلیث کی تعلیم کا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 374

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 374

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/374/mode/1up


نام و نشان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں توریت کی وہی تعلیم ہے جو قرآن کی تعلیم ہے۔ پس افسوس ہے ایسی قوم پر جو ایسے اعتقاد پر اڑی بیٹھی ہے کہ نہ تو وہ تعلیم توریت میں موجود ہے اور نہ قرآن شریف میںؔ ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تثلیث کی تعلیم انجیل میں بھی موجود نہیں۔ انجیل میں بھی جہاں جہاں تعلیم کا بیان ہے ان تمام مقامات میں تثلیث کی نسبت اشارہ تک نہیں بلکہ خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے معاند پادریوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ انجیل میں تثلیث کی تعلیم نہیں۔ اب یہ سوال ہوگا کہ عیسائی مذہب میں تثلیث کہاں سے آئی؟ اس کا جواب محقق عیسائیوں نے یہ دیا ہے کہ یہ تثلیث یونانی عقیدہ سے لی گئی ہے۔ یونانی لوگ تین۳ دیوتاؤں کو مانتے تھے جس طرح ہندو ترے مورتی کے قائل ہیں۔ اور جب پولوس نے یہودیو۱؂ں کی طرف رُخ کیا اور چونکہ وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یونانیوں کو عیسائی مذہب میں داخل کرے اس لئے اُس نے یونانیوں کے خوش کرنے کے لئے بجائے تین۔۳ دیوتاؤں کے تین اقنوم اس مذہب میں قائم کر دےئے۔ ورنہ حضرت عیسٰیؑ کی بلا کو بھی معلوم نہ تھا کہ اقنوم کس چیز کا نام ہے۔ ان کی تعلیم خدا تعالیٰ کی نسبت تمام نبیوں کی طرح ایک سادہ تعلیم تھی کہ خدا واحد لاشریک ہے۔ پس یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے۔ دراصل پولوسی مذہب ہے نہ مسیحی کیونکہ حضرت مسیحؑ نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیمؔ نہیں دی اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے اور بعد ان کی وفات کے ان کا بھائی یعقوب بھی جو ان کا جانشین تھا اور ایک بزرگوار انسان تھا توحید کی تعلیم دیتا رہا۔ اور پولوس نے خواہ نخواہ اس بزرگ سے مخالفت شروع کر دی اور اس کے عقائد صحیحہ کے مخالف تعلیم دینا شروع کیا۔ اور انجام کارپولوس اپنے خیالات میں یہاں تک بڑھا کہ ایک نیا مذہب قائم کیا۔ اور توریت کی پَیروی سے اپنی جماعت کو بکلّی علیحدہ کر دیا۔ اور تعلیم دی کہ مسیحی مذہب میں مسیح کے کفارہ کے بعد شریعت کی ضرورت نہیں اور خونِ مسیح گناہوں کے دُور کرنے کے لئے کافی ہے۔ توریت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 375

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 375

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/375/mode/1up


کی پیروی ضروری نہیں۔ اور پھر ایک اور گند اس مذہب میں ڈال دیا کہ اُن کے لئے سؤر کھانا حلال کر دیا۔ حالانکہ حضرت مسیحؑ انجیل میں سؤر کو ناپاک قرار دیتے ہیں۔ تبھی توانجیل میں ان کا قول ہے کہ اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو۔ پس جب کہ پاک تعلیم کا نام حضرت مسیحؑ نے موتی رکھا ہے تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سؤر رکھا ہے اصل بات یہ ہے کہ یونانی سؤر کو کھایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل تمام یورپ کے لوگ سؤر کھاتے ہیں۔ اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سؤرؔ بھی اپنی جماعت کے لئے حلال کر دیا۔حالانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چُھونا بھی ناجائز ہے۔ غرض اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں۔ حضرت مسیحؑ تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے مگر پولوس نے اُن کو خدا بنا دیا۔ جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ کسی نے حضرت مسیح کو کہا کہ اے نیک اُستاد! انہوں نے اُس کو کہا کہ تُو مجھے کیوں نیک کہتا ہے۔ اُن کا وہ کلمہ جو صلیب پر چڑھائے جانے کے وقت اُن کے منہ سے نکلا کیسا توحید پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ایلی ایلی لما سبقتانی۔ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ کیا جو شخص اس عاجزی سے خدا کو پکارتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ خدا میرا رب ہے اُس کی نسبت کوئی عقلمند گمان کر سکتا ہے کہ اس نے درحقیقت خدائی کا دعویٰ کیا تھا؟ اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو خداتعالیٰ سے محبتِ ذاتیہ کا تعلق ہوتا ہے بسا اوقات استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ اُن سے ایسے کلمے اُن کی نسبت کہلا دیتا ہے کہ نادان لوگ ان کی ان کلموں سے خدائی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میری نسبت مسیحؑ سے بھی زیاؔ دہ وہ کلمات فرمائے گئے ہیں*۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ مجھے



* ایک دفعہ کشفی رنگ میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا۔ اور پھر مَیں نے کہا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 376

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 376

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/376/mode/1up


مخاطب کر کے فرماتا ہے:۔ یاقمرُ یاشمسُ انت منّی وانا منک۔ یعنی اے چاند! اور اے سورج! تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے۔ اب اس فقرہ کو جو شخص چاہے کسی طرف کھینچ لے مگر اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ اوّل خدا نے مجھے قمر بنایا کیونکہ میں قمر کی طرح اس حقیقی شمس سے ظاہر ہوا اور پھر آپ قمر بنا کیونکہ میرے ذریعہ سے اُس کے جلال کی روشنی ظاہر ہوئی اور ہوگی۔ یعقوب حضرت عیسٰیؑ کا بھائی جو مریم کا بیٹا تھا وہ درحقیقت ایک راستباز آدمی تھا۔ وہ تمام باتوں میں توریت پر عمل کرتا تھا اور خدا کو واحد لاشریک جانتا تھا اور سؤر کو حرام سمجھتا تھا۔ اور یہودیوں کی طرح بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتا تھا اور جیسا کہ چاہیئے تھا وہ اپنے تئیں ایک یہودی سمجھتا تھا۔ صرف یہ تھا کہ حضرت عیسٰیؑ کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا۔ لیکن پولوس نے بیت المقدس سے بھی نفرت دلائی۔ آخر خدا تعالیٰ کی غیرت نے اس کو پکڑا اور ایک بادشاہ نے اس کو سولی دے دیا۔ اور اس طرح پر اس کا خاتمہ ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اس لئے وہ سولی سے نجات پاگئے اور خدا تعالیٰ نے اُنؔ کو سولی پر سے زندہ بچا لیا۔ لیکن چونکہ پولوس نے سچائی کو چھوڑ دیا تھا اس لئے وہ لکڑی پر لٹکایا گیا۔

یاد رہے کہ پولوس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں آپ کا جانی دشمن تھا۔ اور پھر


کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں۔ اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے۔ اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے۔ اسی طرح ایک دفعہ مجھے خدا نے مخاطب کر کے فرمایا۔ انت منّی بمنزلۃ اولادی۔ انت منّی بمنزلۃٍ لا یعلمھا الخلق۔یعنی تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے اور تجھے مجھ سے وہ نسبت ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ تب مولویوں نے اپنے کپڑے پھاڑے کہ اب کفر میں کیا شک رہا اور اس آیت کو بھول گئے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 377

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 377

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/377/mode/1up


آپ کی وفات کے بعد جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے اس کے عیسائی ہونے کا موجب اس کے اپنے بعض نفسانی اغراض تھے جو یہودیوں سے وہ پورے نہ ہو سکے۔ اس لئے وہ ان کو خرابی پہنچانے کیلئے عیسائی ہوگیا اور ظاہر کیا کہ مجھے کشف کے طور پر حضرت مسیحؑ ملے ہیں اور مَیں اُن پر ایمان لایا ہوں۔ اور اُس نے پہلے پہل تثلیث کا خراب پودہ دمشق میں لگایا۔ اور یہ پولوسی تثلیث دمشق سے ہی شروع ہوئی۔ اسی کی طرف احادیث نبویہ میں اشارہ کر کے کہا گیا کہ آنے والا مسیحؑ دمشق کی مشرقی طرف نازل ہوگا۔ یعنی اس کے آنے پر تثلیث کا خاتمہ ہوگا اور انسانی دل توحید کی طرف رغبت کرتے جائیں گے۔ اور مشرقی طرف سے مسیحؑ کا نازل ہونا اُس کے غلبہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو تاریکی پر غالب آجاتی ہے*۔

صافؔ ظاہر ہے کہ اگر پولوس حضرت مسیحؑ کے بعد ایک رسول کے رنگ میں ظاہر ہونے والا تھا جیسا کہ خیال کیا گیا ہے تو ضرور حضرت مسیحؑ اُس کی نسبت کچھ خبر دیتے خاص کر کے اِس وجہ سے تو خبر دینا نہایت ضروری تھا کہ جبکہ پولوس حضرت عیسٰیؑ کی حیات کے تمام زمانہ میں حضرت عیسٰیؑ سے سخت برگشتہ رہا۔ اور ان کے دُکھ دینے کے لئے طرح طرح کے منصوبے کرتا رہا۔ تو ایسا شخص ان کی وفات کے بعد کیونکر امین سمجھا جا سکتا ہے۔ بجز اس کے کہ خود حضرت مسیحؑ کی طرف سے اس کی نسبت کھلی کھلی پیشگوئی پائی جائے اور اس میں صاف طور پر درج ہو کہ اگرچہ پولوس میری حیات میں میرا سخت مخالف رہا ہے اور مجھے دُکھ دیتا رہا ہے لیکن میرے بعد وہ خدا تعالیٰ کا رسول اور نہایت مقدس آدمی ہو جائے گا۔ بالخصوص جبکہ پولوس ایسا آدمی تھا کہ اس نے موسٰی ؑ کی توریت کے برخلاف اپنی طرف سے نئی تعلیم دی۔ سؤر حلال کیا۔ ختنہ کی رسم تو توریت میں ایک مؤکّد رسم تھی اور تمام نبیوں کا


* یاد رہے کہ قادیان جو میری سکونت کی جگہ ہے عین دمشق کی شرقی طرف ہے۔ سو آج وہ پیشگوئی

پوری ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 378

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 378

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/378/mode/1up


ختنہ ہوا تھا اور خود حضرت مسیحؑ کا بھی ختنہ ہوا تھا۔ وہ قدیم حکم الٰہی منسوخ کر دیا اور توریت کی توحید کی جگہ تثلیث قائم کر دی اور توریت کے احکام پر عمل کرنا غیر ضروری ٹھہرایا اور بیت المقدس سے بھی انحراف کیا۔ تو ایسے آدمی کی نسبت جس نے موسوی شریعتؔ کو زیر و زبر کر دیا ضرورکوئی پیشگوئی چاہیئے تھی۔ پس جبکہ انجیل میں پولوس کے رسول ہونے کے بارے میں خبر نہیں۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اُس کی عداوت ثابت اور توریت کے ابدی احکام کا وہ مخالف تو اس کو کیوں اپنا مذہبی پیشوا بنایا گیا کیا اس پر کوئی دلیل ہے؟؟

پھر معرفت کے بعد بڑی ضروری نجات کے لئے محبت الٰہی ہے۔ یہ بات نہایت واضح اور بدیہی ہے کہ کوئی شخص اپنے محبت کرنے والے کو عذاب دینا نہیں چاہتا بلکہ محبت محبت کو جذب کرتی اور اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جس شخص سے کوئی سچے دل سے محبت کرتا ہے اس کو یقین کرنا چاہیئے کہ وہ دوسرا شخص بھی جس سے محبت کی گئی ہے اس سے دشمنی نہیں کر سکتا بلکہ اگر ایک شخص ایک شخص کو جس سے وہ اپنے دل سے محبت رکھتا ہے اپنی اس محبت سے اطلاع بھی نہ دے تب بھی اس قدر اثر تو ضرور ہوتا ہے کہ وہ شخص اس سے دشمنی نہیں کر سکتا۔ اِسی بنا پر کہا گیا ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتا ہے۔ اور خدا کے نبیوں اور رسولوں میں جو ایک قوت جذب اور کشش پائی جاتی ہے اور ہزارہا لوگ ان کی طرف کھینچے جاتے اور ان سے محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنی جا ن بھیؔ اُن پر فدا کرنا چاہتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی اُن کے دل میں ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ماں سے بھی زیادہ انسانوں سے پیار کرتے ہیں اور اپنے تئیں دکھ اور درد میں ڈال کر بھی اُن کے آرام کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ آخر ان کی سچی کشش سعید دلوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتی ہے پھر جبکہ انسان باوجودیکہ وہ عالم الغیب نہیں دوسرے شخص کی مخفی محبت پر اطلاع پا لیتا ہے تو پھر کیونکر خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے کسی کی خالص محبت سے بے خبر رہ سکتا ہے۔ محبت عجیب چیز ہے اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور معصیت کے شعلہ کو بھسم کر دیتی ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 379

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 379

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/379/mode/1up


سچی اور ذاتی اور کامل محبت کے ساتھ عذاب جمع ہو ہی نہیں سکتا۔ اور سچی محبت کے علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات منقوش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کے قطع تعلق کا اُس کو نہایت خوف ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قصور کے ساتھ اپنے تئیں ہلاک شدہ سمجھتا ہے اور اپنے محبوب کی مخالفت کو اپنے لئے ایک زہر خیال کرتا ہے اور نیز اپنے محبوب کے وصال کے پانے کے لئے نہایت بے تاب رہتا ہے اور بُعد اور دُوری کے صدمہ سے ایسا گداز ہوتا ہے کہ بس مر ہی جاتا ہے اس لئے وہ صرف ان باتوں کو گناہ نہیں سمجھتا کہؔ جوعوام سمجھتے ہیں کہ قتل نہ کر۔ خون نہ کر۔ زنانہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔ بلکہ وہ ایک ادنیٰ غفلت کو اور ادنیٰ التفات کو جو خدا کو چھوڑ کر غیر کی طرف کی جائے ایک کبیرہ گناہ خیال کرتا ہے۔ اس لئے اپنے محبوب ازلی کی جناب میں دوام استغفار اُس کا ورد ہوتا ہے۔ اور چونکہ اِس بات پر اُس کی فطرت راضی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وقت بھی خدا تعالیٰ سے الگ رہے اس لئے بشریت کے تقاضا سے ایک ذرّہ غفلت بھی اگر صادر ہو تو اس کو ایک پہاڑ کی طرح گناہ سمجھتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ یہ محبت کا تقاضا ہے کہ ایک محب صادق کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اُس کا محبوب اس پر ناراض نہ ہو جائے۔ اور چونکہ اس کے دل میں ایک پیاس لگا دی جاتی ہے کہ خدا کامل طور پر اس سے راضی ہو اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بھی کہے کہ مَیں تجھ سے راضی ہوں تب بھی وہ اس قدر پر صبر نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا کہ شراب کے دَور کے وقت ایک شراب پینے والا ہر دم ایک مرتبہ پی کر پھر دوسری مرتبہ مانگتا ہے۔ اِسی طرح جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعاً یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ پسؔ محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہردم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ورد رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے۔ اور استغفار کے حقیقی معنے یہ ہیں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 380

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 380

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/380/mode/1up


کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعفِ بشریت انسان سے صادر ہو سکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دُور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے۔ اور مستور و مخفی رہے۔ پھر بعد اس کے استغفار کے معنے عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تاثیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے۔ پس نجات حقیقی کا سرچشمہ محبت ذاتی خدائے عزّوجلّ کی ہے جو عجزو نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اور جب انسان کمال درجہ تک اپنی محبت کو پہنچاتا ہے اور محبت کی آگ سے اپنے جذباتِ نفسانیت کو جلا دیتا ہے تب یکدفعہ ایک شعلہ کی طرح خدا تعالیٰ کی محبت جو خدا تعالیٰ اس سے کرتا ہے اس کے دل پر گرتی ہے اور اس کو سفلی زندگی کے گندوؔ ں سے باہر لے آتی ہے اور خدائے حّي و قیّوم کی پاکیزگی کا رنگ اس کے نفس پر چڑھ جاتا ہے بلکہ تمام صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پر اس کو حصّہ ملتا ہے۔ تب وہ تجلیات الٰہیہ کا مظہر ہو جاتا ہے اور جو کچھ ربوبیت کے ازلی خزانہ میں مکتوم و مستور ہے اس کے ذریعہ سے وہ اسرار دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ خدا جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے بخیل نہیں ہے بلکہ اس کے فیوض دائمی ہیں اور اس کے اسماء اور صفات کبھی معطّل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے وہ بشرط تقویٰ اور مجاہدہ جو کچھ اوّلین کو دیا ہے وہ آخرین کو بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ خود اُس نے قرآن شریف میں یہ دُعا سکھلائی ہے۔ 33 ۱؂ ۔ یعنی اے ہمارے خدا! ہمیں وہ سیدھی راہ دکھلا جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا فضل اور انعام ہوا۔ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہی فضل اور انعام جو تمام نبیوں اور صدیقوں پر پہلے ہو چکا ہے وہ ہم پر بھی کر اور کسی فضل سے ہمیں محروم نہ رکھ۔ یہ آیت اس اُمت کو اس قدر عظیم الشان اُمید دلاتی ہے جس میں گذشتہ اُمتیں شریک نہیں ہیں۔ کیونکہ تمام انبیاء کے متفرق کمالات تھے۔ اور متفرق طور پر اُن پر فضل اور انعام ہوا۔ اب اس امت کو یہ دُعا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 381

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 381

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/381/mode/1up


سکھلائی گئی کہؔ اُن تمام متفرق کمالات کو مجھ سے طلب کرو۔ پس ظاہر ہے کہ جب متفرق کمالات ایک جگہ جمع ہو جائیں گے تو وہ مجموعہ متفرق کی نسبت بہت بڑھ جائے گا۔ اِسی بنا پر کہا گیا کہ 3 ۱؂۔یعنی تم اپنے کمالات کے رُو سے سب اُمتوں سے بہتر ہو۔

اب یہ بھی جاننا چاہیئے کہ یہ کمالات متفرقہ اس امّت میں جمع کرنے کا کیوں وعدہ دیا گیا؟ اس میں بھید یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالاتِ متفرقہ ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3۲؂ یعنی تمام نبیوں کو جو ہدایتیں ملی تھیں اُن سب کا اقتدا کر۔ پس ظاہر ہے کہ جو شخص ان تمام متفرق ہدایتوں کو اپنے اندر جمع کرے گا اس کا وجود ایک جامع وجود ہو جائے گا اور تمام نبیوں سے وہ افضل ہوگا پھر جو شخص اس نبی جامع الکمالات کی پیروی کرے گا۔ ضرور ہے کہ ظلّی طور پر وہ بھی جامع الکمالات ہو۔ پس اس دُعا کے سکھلانے میں جو سورہ فاتحہ میں ہے یہی راز ہے کہ تا کاملینِ اُمّت جو نبی جامع الکمالات کے َ پیرو ہیں وہ بھی جامع الکمالات ہو جائیں۔ پس افسوس اُن لوگوں پر جو اس اُ مّت ؔ کو ایک مُردہ ا مّت خیال کرتے ہیں۔ اور خدا تو جامع الکمالات ہونے کے لئے اُن کو دُعا سکھلاتا ہے مگر وہ محض مُردہ رہنا چاہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ بڑے گناہ کی بات ہے کہ مثلاً کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میرے پر مسیحؑ ابن مریم کی طرح وحی نازل ہوتی ہے*۔ اُن کے


* یہ لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں ہمارے سیّد و مولیٰ خیر الرسل و افضل الانبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

کی ہتک کرتے ہیں جبکہ کہتے ہیں کہ اس امت میں عیسٰیؑ بن مریم کا مثیل کوئی نہیں آسکتا تھا اس لئے ختم نبوت کی مُہر کو توڑ کر اسی اسرائیلی عیسیٰ کو کسی وقت خدا تعالیٰ دوبارہ دنیا میں لائے گا اور اس اعتقاد سے صرف ایک گناہ نہیں بلکہ دو۲ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں (۱)اوّل یہ کہ ان کو یہ اعتقاد رکھنا پڑتا ہے کہ جیسا کہ ایک بندہ خدا کا عیسٰی ؑ نام جس کو عبرانی میں یسوع کہتے ہیں تیس۳۰ برس تک موسٰی ؑ رسول اللہ کی شریعت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 382

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 382

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/382/mode/1up


نزدیک ایسا شخص کافر ہے کیونکہ قیامت تک خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے۔ تعجب کہ یہ لوگ اس قدر تو مانتے ہیں کہ اب بھی خدا تعالیٰ سُنتا ہے جیسا کہ پہلے سُنتا تھا۔ مگر یہ نہیں مانتے کہ اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا حالانکہ اگر وہ اس زمانہ میں بولتا نہیں


کی پیروی کر کے خدا کا مقرب بنا اور مرتبہ نبوت پایا۔ اس کے مقابل پر اگر کوئی شخص بجائے تیس۳۰ برس کے پچا۵۰س برس بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے تب بھی وہ مرتبہ نہیں پا سکتا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی َ پیروی کوئی کمال نہیں بخش سکتی اور نہیں خیال کرتے کہ اس صورت میں لازم آتا ہے کہ خدا کا یہ دُعا سکھلانا کہ 3 ۱ ؂ ایک دھوکا دینا ہے اور ان کا اعتقاد ہے کہ باعتبار اپنی دوبارہ آمد کے خاتم الانبیاء عیسٰی ؑ ہی ہے اور وہی آخری قاضی اور حَکَم ہے اور نہیں سمجھتے کہ اس پیشگوئی سے خدا کا تو یہ مقصود تھا کہ جیسا کہ اسی امت میں مثیل یہود پیدا ہوں گے ایسا ہی اسی امت میں سے مثیل عیسٰی ؑ بھی پیدا کرے جو ایک پہلو سے امتی ہو اور ایک پہلو سے نبی ہو۔ عیسٰی ؑ بن مریم تو ان دونوں ناموں کا جامع نہیں ہو سکتا۔ کیونکہؔ امتی وہ ہوتا ہے جو محض نبی متبوع کی پیروی سے کمال پاوے مگر عیسٰی ؑ تو پہلے کمال پا چکا (۲) اور دوسرا گناہ ان لوگوں کا یہ ہے کہ قرآن شریف کی نصّ صریح کے برخلاف حضرت عیسٰی ؑ کو زندہ تصور کرتے ہیں۔ قرآنِ شریف میں صریح یہ آیت موجود ہے 3۲؂۔ اور اس آیت کے معنے یہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ جب کہ تو نے مع جسم عنصری مجھ کو آسمان پر اُٹھا لیا۔ یہ عجیب لُغت ہے جو حضرت عیسٰی ؑ سے ہی خاص ہے۔ افسوس اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جیسا کہ قرآن شریف میں تصریح ہے یہ سوال حضرت عیسٰی ؑ سے قیامت کے دن ہوگا۔پس ان معنوں سے جو لفظ متوفّیک کے کئے جاتے ہیں لازم آتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ تو فوت ہونے سے پہلے ہی قیامت کے دن اللہ جلّ شانہٗ کے سامنے حاضر ہو جائیں گے اور اگر کہو کہ آیت فلمّا توفّیتنی کے یہ معنی ہیں کہ جبکہ تُونے مجھ کو وفات دے دی تو پھر مجھ کو کیا خبر تھی کہ میرے مرنے کے بعد میری اُمت نے کیا طریق اختیار کیا تو یہ معنے بھی اُن کے عقیدہ کی رُو سے غلط ٹھہرتے ہیں اور دونوں معنوں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 383

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 383

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/383/mode/1up


تو پھر سُننے پر بھی کوئی دلیل نہیں۔ خدا تعالیٰ کی صفات کو معطّل کرنے والے سخت بدقسمت لوگ ہیں۔ اور درحقیقت یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں۔ ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے نبوت ہی باطل ہوتی ہے۔ کیا ہم ختم نبوت کے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ تمام برکات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی َ پیروی سے ملنی چاہئیں تھے وہ سب بند ہوگئے۔ اور اب خداتعالیٰ کے مکالمہ مخاطبہ کی خواہش کرنا لاحاصل ہے۔ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ کیا یہ لوگ بتلا سکتے ہیں کہ اس صورت میں آنحضرؔ ت صلی اللہ علیہ وسلم کی َ پیروی کا فائدہ کیا ہوا۔جن لوگوں کے ہاتھ میں بجز گذشتہ قصوں کے اور کچھ نہیں اُن کا مذہب مُردہ ہے اور معرفت الٰہی کا اُن پر دروازہ بند ہے۔ مگر اسلام مذہب زندہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں مسلمانوں کو سورہ فاتحہ میں گذشتہ نبیوں کا وارث ٹھہراتا ہے اور دُعا سکھلاتا ہے کہ جو پہلے نبیوں کو نعمتیں دی گئی تھیں وہ طلب کریں۔ مگر جس کے ہاتھ میں صرف قصّے ہیں وہ کیونکر وارث


کے رو سے خدا تعالیٰ عیسیٰؑ کو ایسے عذرباطل کا یہ جواب دے سکتا ہے کہ تو میرے سامنے جھوٹ کیوں بولتا ہے کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں کیونکہ تُو تو دوبارہ دنیا میں گیا تھا اور دنیا میں چالیس۴۰ برس تک رہا تھا اور نصاریٰ سے لڑائیاں کی تھیں اور صلیب کو توڑا تھا۔ ماسوا اس کے ان معنوں کے رُو سے یہ لازم آتا ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ ؑ زندہ رہے عیسائی نہیں بگڑے بلکہ اُن کی موت کے بعد بگڑے پس اس سے تو ان لوگوں کو ماننا پڑتا ہے کہ ؔ عیسائی اب تک حق پر ہیں کیونکہ اب تک حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ افسوس! ندامت سے مر جاؤ! اور بالآخر یاد رہے کہ اگر ایک اُمّتی کو جو محض َ پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درجہ وحی اور الہام اور نبوت کا پاتا ہے نبی کے نام کا اعزاز دیا جائے تو اس سے مہر نبوت نہیں ٹوٹتی کیونکہ وہ اُ ّ متی ہے اور اس کا اپنا وجود کچھ نہیں۔ اور اس کا کمال نبی متبوع کا کمال ہے۔ اور وہ صرف نبی نہیں کہلاتا بلکہ نبی بھی اور اُ ّ متی بھی۔ مگر کسی ایسے نبی کا دوبارہ آنا جو اُ ّ متی نہیں ہے ختم نبوت کے منافی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 384

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 384

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/384/mode/1up


کہلا سکتا ہے۔ افسوس ان لوگوں پر کہ ان لوگوں کے آگے تمام برکات کا چشمہ کھولا گیا۔ مگر یہ نہیں چاہتے کہ ایک گھونٹ بھی اس میں سے پئیں۔

اب پھر ہم پہلے کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ نجات کا سرچشمہ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں محبت اور معرفت ہے۔ اور معرفت ایک ایسی چیز ہے کہ جس قدر معرفت زیادہ ہوتی ہے اسی قدر محبت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ محبت کے جوش مارنے کا باعث حسن یا احسان ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہیں جن کی وجہ سے محبت جوش مارتی ہے۔ پس جبکہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حسن اور احسان کا علمؔ ہوتاہے اور وہ اس بات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ وہ ہمارا خدا اپنی نا محدود ذاتی خوبیوں کی وجہ سے کیسا حسین ہے اور پھر کس طرح پر اس کے نامتناہی احسان ہم پر احاطہ کررہے ہیں تو اس علم کے بعد بالطبع انسان کی وہ محبت جو ازل سے اس کی فطرت میں مرکوز ہے جوش مارتی ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ سب سے زیادہ جمال باکمال سے متّصف اور متواتر احسان اور فیضان کی صفت سے موصوف ہے ایسا ہی بندہ جو اس کا طالب ہے بعد معرفت اِن صفات کے اس سے ایسی محبت کرتا ہے*کہ کسی کو اس کا ثانی نہیں سمجھتا۔ تب نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر


* جیسا کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں معرفت تامہ جناب الٰہی کی بجز وحی الٰہی اور مکالمہ اور مخاطبہ

حضرت احدیّت اور ایسے عظیم الشان نشانوں کے جو وحی الٰہی کے ذریعہ سے ظاہر ہوں اور خدا تعالیٰ کی اس قدرت پر دلالت کریں جو اس کی الوہیت اور جبروت کا کھلا کھلا نشان ہو حاصل نہیں ہو سکتی وہی معرفت ہے جس کے حق کے طالب بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں۔ وہی معرفت ہے جس کے پانے کے بغیر وہ مر ہی جاتے ہیں۔ پس کیا وہ معرفت اسلام میں موجود نہیں۔ اور کیا اسلام ایک خشک اور مُردہ مذہب ہے۔ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ بلکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جوؔ زندہہے اور اپنے پَیرو کو زندگی بخشتا ہے۔ وہی ہے جو اسی دنیا میں ہمیں خدا دکھلا دیتا ہے اس کی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 385

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 385

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/385/mode/1up


اس کو واحد لاشریک جانتا ہے اور اُس کی خوبیوں اور اخلاق کا عاشق ہو جاتا ہے اور گو محبت الٰہی کا تخم ازل سے انسان کی سرشت میں رکھا گیا تھا مگر اس تخم کی آب پاشی معرفت ہی کرتی ہے کیونکہ کوئی محبوب بجز معرفت کے اور بجز تجلّیاتِ حسن اور جمال اور اخلاق اور وصال کے کسی عاشق کو اپنی طرف کھینچ نہیں سکتا۔ اور جب معرفت تامّہ حاصل ہو جاتی ہے تبھی وہ وقت آتا ہے کہ محبت الٰہی کا ایک چمکتا ہوا شعلہ انسان کے دل پر گرتا ہے اور یکدفعہ اس کو خداؔ تعالیٰ کی طرف کھینچ لیتا ہے۔ تب انسانی رُوح محبوبِ ازلی کے آستانہ پر عاشقانہ انکسار کے ساتھ گِرتی ہے اور حضرتِ احدیت کے دریائے ناپیدا کنار میں غوطہ لگا کر ایسی پاک و صاف ہو جاتی ہے کہ تمام سفلی کثافتیں دُور ہو جاتی ہیں اور ایک نورانی تبدیلی اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ تب وہ رُوح ناپاک باتوں سے ایسی نفرت کرتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کو نفرت ہے اور خدا کی رضا اس کی رضا ہو جاتی ہے اور خدا کی خوشنودی اس کی خوشنودی ہو جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں اس اعلیٰ درجہ کی محبت کے جوش مارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سالک جو خدا تعالیٰ کی طلب میں ہے خدا کے حسن اور احسان پر بخوبی اطلاع پاوے۔ اور درحقیقت اس کے دل میں ذہن نشین ہو جائے کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں وہ خوبیاں اور حسن اور جمال رکھتا ہے کہ جن کی کوئی انتہا نہیں۔ اور ایسا ہی اس قدر اس کے احسان ہیں اور اس قدر احسان کرنے کے لئے وہ طیار ہے کہ اس سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں۔ اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کامل معرفت کا سامان اس اُمّتؔ کو کامل طور پر


برکت سے ہم وحی الٰہی پاتے ہیں اور اس کی برکت سے بڑے بڑے نشان ہم سے ظاہر ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام مذہب مر گئے ان میں کچھ بھی برکت اور روشنی نہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہم خدا کے ساتھ گفتگو نہیں کر سکتے۔ ان کے ذریعہ سے ہم خدا کے معجزانہ کام نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی ہے!! جو ان برکات میں ہمارا مقابلہ کرے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 386

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 386

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/386/mode/1up


دیا گیا ہے۔ اور ہم خدا تعالیٰ کی خوبیوں کے بیان کرنے میں اُس کی جناب میں شرمندہ نہیں ہیں*۔ اور جہاں تک خوبی تصور میں آسکتی ہے ہم وہ تمام خوبیاں خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات میں مانتے ہیں۔ نہ ہم آریوں کی طرح یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی رُوح یا کسی ذرّہ کے پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ اور نہ ان کی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ وہ ایسا بخیل ہے کہ نجات ابدی کسی کو دینا نہیں چاہتا۔ اور نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ دینے پر قادر نہیں۔ اور نہ ہم آریہ سماج والوں کی طرح یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی کا دروازہ بند ہے اور نہ ہم اُن کی طرح یہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا سخت دل ہے کہ کسی بندہ کی توبہ قبول نہیں کرتا اور ایک گناہ کے لئے کروڑہا جونوں میں ڈالتا رہتا ہے۔ اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ توبہ قبول کرنے پر قادر نہیں اور نہ ہم عیسائیوں کی طرح یہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ایسا خدا ہے کہ وہ کسی زمانہ میں مربھی گیا تھا۔ اور یہودیوں کے ہاتھ میں گرفتار بھی ہوا اور زندان میں بھی داخل کیا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا۔ اور وہ ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ اور اس کے اور بھائی بھی تھے۔ اور نہ ہم عیسائیوں کی طرح نعوذ باللہ یہ ؔ کہتے ہیں کہ وہ تین۳ دن کے لئے گناہوں کا


* ایک عیسائی یہ بات کہہ کر کہ اس کا خدا کسی زمانہ میں تین۳ دن تک مرا رہا تھا کس درجہ اندر ہی اندر

اپنے اس قول سے ندامت اٹھاتا ہے اور کس قدر خود رُوح اُس کی اُسے ملزم کرتی ہے کہ کیاخدا بھی مرا

کرتا ہے۔ اور جو ایک مرتبہ مرچکا اس پر کیونکر بھروسہ کیا جائے کہ پھر نہیں مرے گا۔ پس ایسے خدا کی زندگی پر کوئی دلیل نہیں بلکہ کیا معلوم کہ شاید مرہی گیا ہو۔ کیونکہ اب زندوں کے اُس میں آثار نہیں پائے جاتے۔ وہ اپنے خدا خدا کرنے والوں کو کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ کوئی معجزانہ کام نہیں دکھلا سکتا۔ پس یقیناًسمجھو کہ وہ خدا مر گیا ہے اور سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے۔ رہے آریہ سماج

والے۔ سو ان کی رُوحوں کا تو کوئی خدا ہی نہیں۔ وہ خود بخود قدیم سے چلی آتی اور انادی ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 387

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 387

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/387/mode/1up


بھار اُتارنے کے لئے دوزخ میں بھی گیا تھا۔ اور وہ اپنے بندوں کو گناہوں سے نجات نہیں دے سکتا تھا جب تک آپ ان کے عوض نہ مرتا اور تین۳ دن کے لئے دوزخ میں نہ جاتا۔ اور نہ ہم عیسائیوں کی طرح یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی اور الہام پر مہر لگ گئی ہے اور اب خدا تعالیٰ کے مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ سورہ فاتحہ میں ہمیں تمام نبیوں کی متفرق نعمتوں کے وارث ٹھہراتا ہے اور اس امت کو خیر الامم قرار دیتا ہے۔ پس بلاشبہ خدا تعالیٰ کا حسن اور احسان جو سرچشمہ محبت کا ہے سب سے زیادہ اس پر ایمان لانا ہمارے حصّہ میں آگیا ہے اور مسلمانوں میں سے سخت نادان اور بدقسمت وہ لوگ ہیں جو اس کے کمال حسن اور احسان کے انکاری ہیں۔ ایک طرف تو اس کی مخلوق کو اس کی صفاتِ خاصہ میں حصّہ دار ٹھہرا کر توحید باری پر دھبّہ لگاتے* اور اُس کے حسن وحدانیّت کی چمک کو شراکتِ غیر سے


* مسلمانوں کو خاص کر اہل حدیث کو توحید کا بڑا دعویٰ تھا مگر افسوس اُن پر بھی یہ مثل صادق آئی کہ

’’ مچھر چھاننا اور اونٹ نگلنا‘‘۔ کیا ایسے لوگوں کو ہم مو ّ حد کہہ سکتے ہیں۔ کہ ایک طرف تو حضرت عیسیٰؑ کو خدا تعالیٰ کی طرح وحدہٗ لاشریک سمجھتے ہیں۔ وہی ہے جو مع جسم عنصری آسمان پر گیا اور وہی ہے جو کسی دن مع جسم عنصری زمین پر آئے گا اور اُسی نے پرندے پیدا کئے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کافروں نے قسمیں کھاکر بار بار سوال کیا کہ آپ مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ کے دکھلایئے ہم ابھی ایمان لائیں گے ان کو جواب دیا گیاکہ 3 ۱؂۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا عہد شکنی سے پاک ہے اور بموجب اس کے قول کے مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جا سکتا کیونکہ یہ امر خدا کے وعدہ کے برخلاف ہے۔ وجہ یہ کہ وہ فرماتا ہے کہ 3 3۲؂۔ 3۳؂ پس کیاہم سمجھیں کہ حضرت عیسٰی ؑ کو آسمان پر پہنچانے کے وقت خدا تعالیٰ کو اپنا یہ وعدہ یاد نہ رہا یا عیسیٰ ؑ بشر نہیں تھا۔ اگرعیسیٰ ؑ مع جسم عنصری آسمان پر گیا ہے تو قرآن کے بیان کے رُو سے لازم آتا ہے کہ عیسیٰ ؑ بشر نہیں تھا۔ پھر دوسری طرف ان مدعیانِ اسلام نے دجّال کے بھی وہ صفات بیان کئے ہیں جن سے اس کا خدا ہونا لازم آتا ہے۔ یہ توحید اور یہ دعویٰ۔ افسوس! منہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 388

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 388

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/388/mode/1up


تاریکی کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اور پھر دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی فیض سے ایسا اپنے تئیں محروم جانتے ہیں کہ گویا آنحضرت صلیؔ اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ زندہ چراغ نہیں ہیں بلکہ مُردہ چراغ ہیں جن کے ذریعہ سے دوسرا چراغ روشن نہیں ہو سکتا۔ وہ اقرار رکھتے ہیں کہ موسٰی ؑ نبی زندہ چراغ تھا جس کی پیروی سے صدہا نبی چراغ ہو گئے۔ اور مسیحؑ اسی کی پیروی تیس۳۰ برس تک کر کے اور توریت کے احکام کو بجا لاکر اور موسٰی ؑ کی شریعت کا ُ جوَ ا اپنی گردن پر لے کر نبوت کے انعام سے مشرف ہوا۔ مگر ہمارے سیّد و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی َ پیروی کسی کو کوئی روحانی انعام عطا نہ کر سکی بلکہ ایک طرف تو آپ حسبِ آیت 3 3 ۱؂ اولاد نرینہ سے جو ایک جسمانی یادگار تھی محروم رہے اور دوسری طرف روحانی اولاد بھی آپ کو نصیب نہ ہوئی جو آپ کے روحانی کمالات کی وارث ہوتی۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قول۔3۲؂ بے معنی رہا۔ ظاہر ہے کہ زبانِ عرب میں لٰکن کالفظ اِستدراک کے لئے آتا ہے یعنی جو امر حاصل نہیں ہو سکا اس کے حصول کی دوسرے پَیرایہ میں خبر دیتا ہے جس کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی مگر رُوحانی طور پر آپ کی اولاد بہت ہوگی اور آپ نبیوں کے لئے مُہر ٹھہرائے گئے ہیں۔ یعنی آئندہ کوئیؔ نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی مُہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا۔ غرض اس آیت کے یہ معنے تھے جن کو اُلٹا کر نبوت کے آئندہ فیض سے انکار کر دیا گیا۔ حالانکہ اس انکار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر مذمّت اور منقصت ہے۔ کیونکہ نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے شخص کو ظلّی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتّع کردے اور رُوحانی امور میں اس کی پوری پرورش کر کے دکھلاوے۔ اِسی پرورش کی غرض سے نبی آتے ہیں اور ماں کی طرح حق کے طالبوں کو گود میں لے کر خدا شناسی کا دودھ پلاتے ہیں۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دودھ نہیں تھا تو نعوذ باللہ آپ کی نبوت ثابت نہیں ہوسکتی۔ مگر خدا تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپ کا نام سراج منیر



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 389

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 389

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/389/mode/1up


رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنا دیتا ہے۔ اور اگر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فیض روحانی نہیں تو پھر دنیا میں آپ کا مبعوث ہونا ہی عبث ہوا۔ اور دوسری طرف خدا تعالیٰ بھی دھوکا دینے والا ٹھہرا جس نے دُعا تو یہ سکھلائی کہ تم تمام نبیوں کے کمالات طلب کرو مگر دل میں ہرگز یہ ارادہ نہیں تھا کہ یہ کمالات دیئے جائیں گے۔ بلکہ یہ ارادہ تھا کہ ہمیشہ کے لئے اندھا رکھا جائے گا۔

لیکنؔ اے مسلمانو! ہشیار ہو جاؤ کہ ایسا خیال سراسر جہالت اور نادانی ہے اگر اسلام ایسا ہی مُردہ مذہب ہے تو کِس قوم کو تم اس کی طرف دعوت کر سکتے ہو؟ کیا اس مذہب کی لاش جاپان لے جاؤگے یا یورپ کے سامنے پیش کروگے؟ اور ایسا کون بیوقوف ہے جو ایسے مُردہ مذہب پر عاشق ہو جائے گا جو بمقابلہ گذشتہ مذہبوں کے ہر ایک برکت اور روحانیت سے بے نصیب ہے۔ گذشتہ مذہبوں میں عورتوں کو بھی الہام ہوا جیسا کہ موسٰی ؑ کی ماں اور مریم کو۔ مگر تم مرد ہو کر ان عورتوں کے برابر بھی نہیں بلکہ اے نادانو!! اور آنکھوں کے اندھو! !!ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے سیّد و مولیٰ (اس پر ہزار ہاسلام) اپنے افاضہ کے رُو سے تمام انبیاء سے سبقت لے گئے ہیں۔ کیونکہ گذشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آکر ختم ہوگیا۔ اور اب وہ قومیں اور وہ مذہب مُردے ہیں۔ کوئی اُن میں زندگی نہیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رُوحانی فیضان قیامت تک جاری ہے۔ اسی لئے باوجود آپ کے اس فیضان کے اس اُمت کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے۔ بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنیٰ انسان کو مسیح بناسکتا ہے جیسا کہ اُس نے اس عاجز کو بنایا۔

اب پھر ہم اپنے اصل کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ اسلام نے جو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 390

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 390

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/390/mode/1up


طریق نجات کا پیش کیا ہے اُسؔ کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں قدیم سے ایک طرف تو ایک زہر رکھا گیا ہے جو گناہوں کی طرف رغبت دیتا ہے اور دوسری طرف قدیم سے انسانی فطرت میں اس زہر کا تریاق رکھا ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ جب سے انسان بنا ہے یہ دونوں قوتیں اس کے ساتھ چلی آئی ہیں۔ زہر ناک قوت انسان کے لئے عذاب کا سامان طیار کرتی ہے۔ اور پھر تریاقی قوت جو محبت الٰہی کی قوت ہے وہ گناہ کو یوں جلا دیتی ہے جیسے خس و خاشاک کو آگ جلا دیتی ہے۔ یہ ہرگز نہیں کہ گناہ کی قوت جو عذاب کا سامان تھی وہ تو قدیم سے انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے لیکن گناہوں سے نجات پانے کے لئے جو سامان ہے وہ کچھ تھوڑی مدّت سے پیدا ہوا ہے یعنی صرف اس وقت سے جبکہ یسوع مسیح نے صلیب پائی۔ ایسا اعتقاد وہی قبول کرے گا جو اپنے دماغ میں ایک ذرّہ عقلِ سلیم نہیں رکھتا بلکہ یہ دو۲_نوں سامان قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا انسانی فطرت کو دیئے گئے ہیں۔ یہ نہیں کہ گناہ کے سامان تو پہلے سے خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھ دیئے مگر نجات دینے کی دوا ابتدائی ایام میں اس کو یاد نہ آئی۔ یہ چار ہزار برس بعد سُوجھی۔

اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ اور محض لِلّٰہ آپ کو صلاح دیتے ہیں کہ اگر آپ زندہ برکات کے خواہاں ہیں تو اس مسیح کا نام نہ لو جو مدت ہوئی کہ فوت ہو چکا۔ اور ایک ذرّہ اُس کی زندہ برکات موجود نہیں۔ اور اس کی قوم بجائے محبت الٰہی کی مستی کے شراب کی مستی میں سب سے زیادہ سبقت لے گئی ہے۔ اور بجائے اس کے کہ آسمانی مال لیں دنیا کے مال پر فریفتہ ہیں اگرچہ قماربازی سے ہی لیا جائے۔ بلکہ چاہیئے کہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 391

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 391

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/391/mode/1up


محمدؐی مسیح کے سلسلہ میں داخل ہوجو امامکم منکم ہے۔ اور نقد برکات پیش کرتا ہے۔ آئندہ اختیار ہے۔

الراقم

میرزا غلامِ احمدؐ قادیانی مسیح موعود


مُناجَات بحضرتِ باری عزّاسمہٗ

---------------- (از مؤلف) ---------------

اے سرو جان و دل و ہر ذرّہ ام قربانِ تو

بردلم بکشا زِ رحمت ہر درِ عرفانِ تو

فلسفی کز عقل مے جوید ترا دیوانہ ہست

دُور تر ہست از خردہا آں رہِ پنہانِ تو

از حریم تو ازیناں ہیچ کس آگہ نشد

ہر کہ آگہ شد، شُداز احسانِ بے پایانِ تو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 392

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- چشمہ مسیحی: صفحہ 392

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/392/mode/1up


عاشقانِ روئے خودرا ہر دو عالم مے دہی

ہر دو عالم ہیچ پیشِ دیدۂ غِلمانِ تو

یک نظر فرما کہ تا کوتہ شود جنگ و جدال

خلق محتاج است سوئے جذبۂ بُرہانِ تو

یک نشاں بنماکہ تا نُورت درخشد درجہاں

تا شود ہر منکرِ مِلّت محامد خوانِ تو

گر زمیں زیر و زبر گردد ندارم ہیچ غم

غم ہمیں دارم کہ گُم گردد رہِ رخشانِ تو

گفتگو و بحث در دیں درد سربسیار ہست

قصّہ کو تہ کن بآیاتِ عظیم الشانِ تو

از زلازل جُنبشے دِہ فطرتِ اغیار را

تا مگر آیند ترساں سوئے آں ایوانِ تو

چشمۂ رحمت رواں کن در لباسِ زلزلہ

تابکے سوزد بغم ایں بندۂ گریانِ تو
 
Top