• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

غیر احمدی اعتراضات ۔ تحریرات پر اعتراضات کے جوابات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انگریز کو ماجوج کو قرار دیا

پھر حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف یہ کہ انگریز ی قوم کو ’’دجّال‘‘ قرار دیا۔ بلکہ ان کو ’’ماجوج‘‘ بھی ثابت کیا اور فرمایا کہ آخری زمانہ میں جو یاجوج اور ماجوج نامی دو خطرناک قوموں کے خروج کی پیش گوئی قرآن شریف اور حدیث میں کی گئی ہے وہ روسؔ اور انگریزؔ یعنی یاجوج سے مراد روسی قوم اور ماجوج سے مراد انگریز قوم ہے۔ (دیکھو ازالہ اوہام مطبوعہ۱۸۹۱ء ۱۳۰۸ھ صفحہ ۵۰۲ طبع اوّل)

پس حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں کو ’’دجّال‘‘ اور ’’ماجوج‘‘ قرار دے کر ان کی روحانی اور دینی لحاظ سے مکروہ شکل کو اس کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

دو نہریں:۔

انگریز کے پاس دینی اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے دو نہریں تھیں۔ وہ ہندو ستان میں سیاسی تفوق کے باعث دنیوی حکومت کرنا چاہتا تھا اور دینی نقطۂ نگاہ سے وہ اہل ہند کو نوکِ شمشیر سے نہیں بلکہ تبلیغ ترغیب و تحریص وغیرہ ذرائع سے عیسائی بنانا چاہتا تھا۔ ہندوستانی عوام اور مسلمان انگریز وں کی تبلیغی مساعی کی طرف تو کوئی توجہ ہی نہ کرتے تھے اور نہ اس کے خطرہ کو محسوس کرتے تھے ECCLESLASTICAL DEPARTMENTکو جو انگریزی حکومت کا ایک شعبہ تھا اور جس کی سر پرستی میں تمام مشنری نظام چل رہا تھا مسلمانوں نے کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا اور نہ اس کے خلاف کبھی آواز اٹھائی۔ انہوں نے اگر کبھی کوئی آواز اٹھائی تو وہ انگریزوں کے سیاسی تفوق اور اقتدار کے خلاف تھی۔ گویا انگریز کی پیش کردہ دو نہروں (دینی اور دنیوی سرگرمیوں) میں سے اکثر مسلمانوں نے دینی نہر کو کبھی محلِ اعتراض نہ ٹھہرایا ،لیکن دنیوی نہر کو اپنے لئے ناقابل برداشت قرا ر دیتے ہوئے انگریز کے سیاسی و دنیوی اقتدار کو قبول کرنا اپنے لئے موت سمجھا۔ حالانکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں یہ ہدایت فرمائی تھی:۔

’’مَعَہٗ نَھْرَانِ تَجْرِیَانِ اَحَدُھُمَا رَأْیَ الْعَیْنِ مَآءٌ اَبْیَضٌ وَالْاٰخَرُ رَأْیَ الْعَیْنِ نَارٌ تَأَجُّجٌ فَاَمَّا اَدْرَکَنَّ وَاحِدًا مِنْکُمْ فَلْیَاْتِ النَّھْرَ الَّذِیْ یَرَاہٗ نَارًا ثُمَّ لِیُغْمِضْ ثُمَّ لِیَطَأَطّٰی رَأْسَہٗ فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ فَاَنَّہٗ مَآءٌ بَارِدٌ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ وَ اَبُوْدَاؤٗدَ عَنْ حُذَیْفَۃَ وَاَبِیْ مَسْعُوْدٍ مَعًا۔ ‘‘

(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۹۵ حدیث نمبر ۲۰۶۲۔ ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجّال واقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب صفحہ۱۳۵)

کہ دجّال اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ دو جاری رہنے والی نہریں ہوں گی۔ ایک تو بظاہر سفید پانی کی نظر آنے والی ہوگی اور دوسری بظاہر شعلہ بار آگ نظر آئے گی پس جو تم میں سے دجال کا زمانہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس نہر پر جائے جو بظاہر آگ نظر آنے والی ہوگی۔ پھرکُلّی کرے پھر سر نیچا کر کے پانی سر پر ڈالے اور پی لے کیونکہ وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔

حدیث کی تشریح

اس حدیث میں بھی دراصل اس دوسری تمثیل ہی کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں یہ بتایاگیا تھا کہ دجّال کی دو آنکھوں میں سے ایک کی بصارت تیز تر ہوگی، لیکن دوسری آنکھ نابینا ہوگی۔ پس مندرجہ بالا حدیث میں بھی دو نہروں سے مراد دجّال کی دینی اور دنیوی تحریکیں ہی ہیں اور حضور کا منشا یہ ہے کہ جہاں تک اس کی دینی اور مذہبی کارروائیوں کا تعلق ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سے اغماض نہ برتیں بلکہ پورے زور سے ان کا مقابلہ کریں اور دین اسلام کا روحانی تفوق بدلائل قویہ دجّال کے مذہب پر ثابت کریں۔ لیکن جہاں تک اس کی دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے گو اس وجہ سے کہ اس نے نام کی مسلمان مغل حکومت سے ہندوستان کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ہوگی، مسلمان اس کے سیاسی اقتدار کے آگے جھکنے کو اپنے لئے آگ میں کودنا تصور کریں گے۔ پھر بھی اس نظام کے ساتھ تعاون کرنے ہی میں مسلمانوں کا فائدہ مضمر ہوگا۔ اسی لئے حضورؐ نے فرمایا کہ ’’دجّال کے اس پانی کو سر نیچا کرکے اپنے سر پر ڈال لینا، یعنی اس کی حکومت کو قبول کر لینا اور ’’فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اس کے ساتھ تعاون کرنا۔

جیسا کہ ابتدائی سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ ۱۸۵۷ ء کے سانحہ کے بعد کے حالات کا طبعی اقتضاء یہی تھا کہ مشرکین یعنی ہندو اور سکھوں کے مقابلہ میں مسلمانان ہند نصرانی حکومت کو ترجیح دیتے اور ہندوکی جاری کردہ تحریک عدمِ تعاون میں شامل نہ ہوتے ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کسی خوشامد کے خیال سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں جہاں تک انگریز کی دنیاوی سیاست کا تعلق تھا اس کی حکومت کو جو آپ کے مامور ہونے سے بیسیوں سال پہلے قائم اور استوار ہوچکی تھی اور جس نے سکھوں کے مظالم کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے لئے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور جس نے دنیاوی علم وفنون کا راستہ مسلمانوں کے لئے کھولا تھا اپنے تعاون کا یقین دلاتے۔ لیکن جہاں تک انگریز کی پیش کردہ دوسری نہر ( عیسائیت کی تبلیغ) کا تعلق ہے آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح اس سے اغماض نہیں کرتا بلکہ تن تنہا اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کی کہ انگریز آپ کی عیسائیت کے خلاف کوششوں سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں۔

آپ نے انگریز کے خداکو مردہ ثابت کیا

آپ نے عیسائیت کے مقابلہ میں جو سب سے زبردست اور فیصلہ کن حربہ استعمال فرمایا وہ انگریزوں کے ’’خدا‘‘ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ تھا۔ آپ نے بدلائل قویہ ثابت کیا کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں۔

آپ نے کوئی کتاب بھی ایسی تصنیف نہیں فرمائی جس میں اس مسئلہ پر زور نہ دیا ہو۔ احراری معترضین ’’پچاس الماریوں‘‘ کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اُن کتابوں میں نصرانیت کے جھوٹا اورناقابل قبول مذہب ہونے کے بارے میں جو دلائل قویہ مذکور ہیں ان کا کیوں ذکر نہیں کرتے ؟ کیا یہ انگریز کی خوشامد کا نتیجہ تھا کہ:۔

۱۔ آپ نے انگریزکو دجّال قراردیا۔

۲۔آپ نے انگریزکو ماجوج ثابت کیا۔

۳۔ آپ نے انگریزکے خدا کی وفات بدلائل قویہ ثابت کر کیصلیب کو توڑ دیا۔

۴۔آپ نے امریکہ اور نگلستان میں تبلیغی لٹریچر شائع کیا اور کئی انگریزوں اور امریکنوں کو حلقہ عیسائیت سے نکال کر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زنجیر غلامی میں جکڑ دیا۔

ملکہ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دی

اس ضمن میں یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں اور تمام دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان موجود تھے۔ کئی اسلامی سلطنتیں موجود تھیں۔لاکھوں کی تعداد میں علماء بھی موجود تھے۔ مصر میں، دیوبند میں فرنگی محل میں، بریلی میں، سہارن پور میں، دہلی میں، لکھنؤوغیرہ میں ہزاروں اسلامی ادارے تھے۔ بڑے بڑے مسلمان نواب اور بادشاہ موجود تھے۔ لیکن کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ ان کروڑوں مسلمانوں میں سے سوائے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ملکۂ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دے سکے یا بیرونی عیسائی ممالک میں تبلیغِاسلام کا فریضہ ادا کرے؟

حضرت بانی ٔسلسلہ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اس (خدا) نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے……لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔‘‘

(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳)

’’میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں اطلاع دوں۔ میں حضرت یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے۔‘‘

(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۳،۲۷۴)

’’اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان باریک پہلوؤں کا لحاظ کیا ہے جو انجیل نے نہیں کیا……اسی طرح قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے۔ اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچّے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔دوبارہ قائم ہوگئی۔‘‘

(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۸۲)

پھر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:۔

’’اے قادر و توانا!…… قیصرۂ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰ ہِ‘‘ پر اس کا خاتمہ کر۔‘‘

(اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحہ۱۳۲)

غرضیکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاں انگریزی حکومت کے اس پہلو کی تعریف کی کہ وہ دین میں مداخلت نہیں کرتی اور رعایا کے مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ عناصر کے مابین عدل و انصاف کی پالیسی پر عمل کرتی ہے وہاں آپ نے اس کے دینی اور روحانی پہلو کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور اس شان سے کیا کہ اس میدان میں آپ کے سوا ساری دنیا کے مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی نظر نہیں آتا۔

پس جس طرح باوجود اس امر کے کہ شراب ’’امّ الخبائث‘‘ ہے یعنی بدترین چیز ہے قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے جہاں اس کی برائیوں کی مذمت فرمائی ہے، وہاں اس کی خوبیوں کا اعتراف بھی فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے انگریزوں کے اچھے اور قابل تعریف کاموں کو جہاں سراہا ہے وہاں ان کے بُرے قابلِ نفرت واصلاح کاموں کی پر زور مذمت بھی فرمائی ہے۔

خلاصہ کلام:۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں انگریزی دور کی تعریف میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے سکھوں کے جبر و استبداد اور ان کے وحشیانہ مظالم کی طویل داستان ۱۸۵۷ء کا سانحہ اور اس کے ماسبق و ما بعد کا تاریخی پس منظر، مسلمانوں کی مذہبی و روحانی، تعلیمی و اقتصادی حالت کا علم ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ سب تحریرات جو مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، مخالفین کی طرف سے عائد کردہ بغاوت کے جھوٹے الزام کے جواب میں بطور ’’ذبّ‘‘ ہیں۔ پھر یہ کہ حضور علیہ السلام یا حضورؑ کی جماعت یا اولاد نے انگریزی حکومت سے ایک کوڑی کا بھی نفع حاصل نہیں کیا۔ نہ کوئی جاگیر لی، نہ خطاب، نہ مربعے، بلکہ جو حق بات تھی اس کا ضرورتاً اظہار کیا گیا۔

پھر یہ ضروری پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کی دنیوی اور مادی ترقیات کے لئے ان کی تعریف کی ہے وہاں اُن کے روحانی اور مذہبی نقائص کی اس سے زیادہ زور کے ساتھ مذمت بھی فرمائی ہے۔( اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی نظم مندرجہ نور الحق حصہ اوّل۔روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۱۲۳ تا ۱۳۱ و درثمین عربی صفحہ ۱۰۹ یا صفحہ ۱۱۸ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں حضرت نے اﷲ تعالیٰ سے ہندوستان میں عیسائیوں کے غلبہ اور تسلط کے خلاف فریاد کرکے ان کی تباہی اور ہلاکت کے لیے بد دعا فرمائی ہے۔)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۵۔ خود کاشتہ پودہ کا الزام

اعتراض۔ مرزا صاحب نے اپنے مکتوب ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء بنام لیفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب میں لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ زیر گزارش نمبر ۵ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۲۱ ہے۔



جواب:۔ (۱) جھوٹ ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے ہر گز ہرگز اپنی جماعت کو انگریزوں کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ نہیں قرار دیا۔ اگر یہ ثابت کردو کہ حضرت اقدس ؑ نے اپنی جماعت کو انگریزوں کا ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ قرار دیا ہے تو منہ مانگا انعام لو۔

(۲)حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ مکتوب کوئی مخفی یا پوشیدہ دستاویز نہیں ہے جو تمہارے ہاتھ لگ گئی ہے بلکہ حضرت اقدس ؑ نے خود اس مکتوب کو طبع کرا کے اشتہار کی صورت میں بکثرت پبلک میں تقسیم کرایا تھا اور پھر حضور کی وفات پر وہ اشتہار تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ۱۹،صفحہ۲۰ پر طبع ہوا۔

(۳)اس مکتوب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ کا لفظ حضرت کے خاندان کی دیرنہ خدمات کے پیش نظر اس خاندان کی نسبت استعمال فرمایا ہے نہ کہ جماعت احمدیہ کے متعلق۔ چنانچہ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں- اس لئے اندیشہ ہے کہ اُن کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کروہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحو م کی جن کا تذکر ہ سرکاری چٹھیات اور سر لیپل گرفن کی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضایع اور برباد نہ جائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے- اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمربستہ ہو جاتے ہیں- صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کیمتواتر تجربہ سے ایک وفادار جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں اس خودکاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے ۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹، صفحہ ۲۰ و مجموعہ اشتہارات جلد۳ صفحہ ۲۱)

عبارت مندرجہ بالا صاف ہے اور کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ اس میں حضرت اقدسؑ نے جماعت احمدیہ یا اپنے دعاوی کو سرکار کا ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ قرار نہیں دیا، بلکہ یہ لفظ اپنے خاندان کی گذشتہ خدمات کے متعلق استعمال فرمایا ہے۔ ورنہ اپنے دعاوی کی نسبت تو حضرت اقدس ؑنے اسی خط میں صاف طور پر لیفٹیننٹ گورنر کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ میں نے دعویٰ خدا کے حکم سے اس کی وحی اور الہام سے مشرف ہو کر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ۱۰سطر۶۔ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی۔‘‘

نوٹ:۔ اس سلسلہ میں تفصیل مزید ’’انگریز کی خوشامد کے الزام‘‘ کے جواب میں گذر چکی ہے جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ اشتہار مخالفین کے اس الزام کے جواب میں بطور ’’ذبّ‘‘ یعنی بغرض رفع التباس شائع فرمایا تھا نہ کہ بطور مدح! مخالفین نے حضرت اقدس علیہ السلام پر گورنمنٹ کا باغی اور ’’غدار‘‘ہونے کا الزام لگایا تھا۔ یہ الزام لگانے والے صرف مذہبی مخالف ہی نہیں بلکہ حضرت کے خاندانی اور ذاتی دشمن بھی تھے جیسا کہ اسی ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ والی مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہے۔

۴۔حضرت اقدسؑ کی ساری عمر عیسائیت کے استیصال میں گزری۔ آپ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں اور دوسری یورپین اقوام اور پادریوں کو کھلے الفاظ میں ۱۸۹۰ء میں (یعنی اس مکتوب سے آٹھ سال پہلے) دجّال قرار دیا۔ انجیلی تعلیم اور انجیلی یسوع کی وہ خبر لی کہ ممکن نہیں کہ اس کو پڑھ کر عیسائی خوش ہو۔ پس یہ کہنا کہ وہ حکومت انگریزی جس کا مذہب عیسائیت ہے اور جو لاکھوں روپیہ چرچ کے ذریعہ تبلیغ عیسائیت میں صرف کرتی ہے۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عیسائیت کی تردید اور استیصال کے لئے سازش کر کے کھڑا کیا انتہائی شرارت اور کذب بیانی ہے۔

۵۔ اگر بقول تمہارے حضرت اقدس ؑ نے مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ انگریز کی ’’سازش‘‘ سے کیا تھا اور آپ اس کے ’’ایجنٹ‘‘ تھے تو پھر آپ کو مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے باعث یہ خوف کس طرح ہوسکتا تھا کہ گورنمنٹ کے دل میں بدگمانی پیدا ہوگی۔ پس جیساکہ اس عبارت کے لفظ ’’خاندان ‘‘ سے ثابت ہے حضرت اقدس ؑ کا اشارہ اسی اشتہار کے صفحہ ۱۱ کی مندرجہ ذیل عبارت کے مضمون کی طرف ہے۔

’’ہمارا خاندان سکھّوں کے ایّام میں ایک سخت عذاب میں تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ انہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صدہا دیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا۔ ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کااندیشہ تھا چہ جائیکہ اور رسوم عبادت آزادی سے بجا لا سکتے۔ پس یہ اس گورنمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ۱۱)

پس اس تمام عبارت میں حضرت اقدس ؑ اپنے خاندان کی تباہ شدہ جاگیر اور پھر اس کے ایک نہایت ہی قلیل حصہ کی انگریزی حکومت کے زمانے میں واگزاری کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں نہ کہ اپنی جماعت کی طرف۔

۶۔حضرت اقدس علیہ السلام یا آپ کی اولاد نے انگریز سے کونسا مربعہ یا جاگیر حاصل کی یا خطاب لیا۔

۷۔اگر ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ سے مراد تم جماعت احمدیہ لیتے ہو اور یہ الزام لگاتے ہوئے کہ حضرت مرزا صاحب سے دعویٰ مسیحیت و مہدویت سازش کر کے انگریز نے کروایا تھا تو اس بات کا جواب دو کہ (ا)انگریز نے دعویٰ تو کرادیا مگر ۱۸۹۴ء میں حدیث (دارقطنی از امام محمد باقر ؒ کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف والکسوف و ھیئتما) کی پیشگوئی کے عین مطابق چاند اور سورج کو رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں پر گرہن بھی انگریز نے لگادیاتھا؟

(ب)ستارہ ذوالسنین بھی انگریز نے نکالا تھا؟

(ج)حضرت مرزا صاحب سے طاعون کے آنے سے قبل بطور پیشگوئی اشتہار بھی انگریز نے شائع کروایا۔ اور پھر انگریز ہی طاعون بھی لے آیا؟

(د)سعد اﷲ لدھیانوی اور اس کا بیٹا بھی انگریز ہی کی کوشش سے ابتر رہے؟

(ھ) احمد بیگ ہوشیار پوری کو محرقہ تپ بھی انگریز نے چڑھایا اور پیشگوئی کی میعاد کے اندر مار بھی دیا۔

(و) حضرت کی پیشگوئیوں کے عین مطابق کانگڑہ کا اور مابعد بہار اور کوئٹہ کا زلزلہ بھی انگریز ہی کی سازش کا نتیجہ تھا؟

(ز) ع ’’زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار‘‘

کی پیشگوئی بھی انگریز ہی نے پوری کردی؟

(ح) یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کا الہامی وعدہ بھی انگریز ہی نے پورا کیا؟

(ط) ’’اعجاز احمدی‘‘ اور ’’اعجاز المسیح‘‘کی معجزانہ تحدی کے مقابلہ میں مخالف علماء انگریز ہی کے ایماء پر مقابلہ سے ساکت اور خاموش رہے؟

(ی) غلام دستگیر قصوری، رسل بابا امرتسری، محمد اسمٰعیل علیگڑھی، چراغدین جمونی، فقیر مرزا آف دوالمیال، شبھ چنتک آریہ اخبار کا عملہ، دیانند وغیرہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے انگریز ہی نے مارے ۔

غرضیکہ حضرت اقدس علیہ السلام کی تائید میں زمین نے بھی نشان ظاہر کئے اور آسمان نے بھی۔ پس ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ کی عبارت سے مراد حضرت کا دعویٰ یا جماعت لینا صریحاً بددیانتی ہے۔

(ک) پھر یہ عجیب بات ہے کہ انگریز نے حضرت مرزا صاحب سے یہ تو کہا کہ تم عین چودہویں صدی کے سر پر دعویٰ مجددیت کر دو اور خود کو حدیث مجدد کا مصداق قرار دو۔ اور ادھر اﷲ تعالیٰ سے بھی سازش کر لی کہ کسی سچے مجدد کو چودہویں صدی میں نہ آنے دے۔ حالانکہ حضرت مرزا صاحب نے اعلان فرمایا :۔

’’ہائے! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے۔‘‘

(اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ۴۶۹)

’’افسوس اِن لوگوں کی حالتوں پر۔ ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی۔ اور صدی پر بھی سترہ برس گذر گئے۔ مگر ان کا مجدد اب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے۔ مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں اگر خدا نہ چاہتا تو مَیں نہ آتا۔‘‘

(اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۹۹)

۴۶۔تنسیخ جہاد کا الزام

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ کر دیا ۔


مجلس احرار نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف جو اشتعال انگیزی اور افتراء پردازی کی مہم شروع کر رکھی ہے اس کی ریڑھ کی ہڈی یہ اعتراض ہے کہ جماعتِ احمدیہ جہاد کی منکر ہے۔ اور یہ کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاد کو قیامت تک منسوخ قرار دے کر اسلام کے ایک بہت بڑے رکن کا انکار کیا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بعض علماء کا نظریہ :۔

یہ الزام کس قدر بے بنیاد اور دور از حقیقت ہے اس کا صحیح اندازہ تو مندرجہ ذیل سطور کے مطالعہ سے ہو سکے گا، لیکن قبل اس کے کہ ہم اس مسئلہ کی حقیقت پر تفصیلی بحث کریں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ حضرت مرزا صاحب سے ماقبل و مابعد دیگر علماء کی اصطلاح میں لفظ ’’جہاد‘‘ سے مراد کیا تھی؟ کیونکہ اس سے ہمیں اس پس منظر کا علم ہوسکے گا جس میں حضر ت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے بارے میں صحیح اسلامی نظریہ کو واضح فرمایا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ اس نقطۂ نگا ہ کی وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟

سو یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ماقبل یا بعد علماء کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کے نزدیک ’’جہاد‘‘ کا نظریہ ہر گز وہ نہیں تھا جو آج کل کے عام مسلمانوں کا ہے۔ کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلامی اصطلاح میں غیرمسلموں کے خلاف جارحانہ اقدام کا نام ’’جہاد‘‘ نہیں، بلکہ ’’مدافعانہ جنگ‘‘ کو جہاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لیکن قارئین کے لئے یہ امر یقینا باعث تعجب ہوگا کہ بعض اسلامی علماء کے نزدیک غیر مسلموں کو بزورِ شمشیر مسلمان بنانے کا نام جہاد تھا۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل تحریرات قابلِ ملاحظہ ہیں:۔

۱۔ تمام شرائع میں سے کامل ترین وہ شریعت ہے جس میں جہاد کا حکم پایا جائے۔ اس واسطے خدائے تعالیٰ کو اپنے بندوں کا اوامرو نواہی کے ساتھ مکلف کرنا ایسا ہے کہ جیسے ایک شخص کے غلام مریض ہو رہے ہیں اور اس نے اپنے خاص لوگوں میں سے ایک شخص کو یہ حکم دیا کہ ان کو کوئی دوا پلائے۔ پھر اگر وہ شخص ان کو مجبور کر کے ان کے منہ میں دوا ڈالے تو یہ بات نامناسب نہ ہوگی۔ مگر رحمت کا مقتضٰی ہے کہ اوّل ان غلاموں سے اس دوا کے فوائد بیان کرے تاکہ خوشی کے ساتھ اس دوا کو پی لیں اور نیز اس دوا میں کوئی شیریں چیز مثلاً شہد شامل کردے تاکہ رغبتِ طبعی اور نیز رغبتِ عقلی اس کی معین ہوجائے۔ پھر اکثر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ریاستوں کی محبت اور ان کا شوق اور شہواتِ دنیّہ اور اخلاق سبعی اور وساوسِ شیطانی ان پر غالب ہوتے ہیں اور ان کے آباؤ اجداد کے رسوم ان کے قلوب میں مرتکز ہوجاتے ہیں تو ان فوائد پر وہ کان نہیں دھرتے۔ اور جس چیز کا حضور نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اس میں وہ فکر نہیں کرتے۔ اور نہ اس کی خوبی میں ان کو غور ہوتا ہے۔ تو ان کے حق میں رحمت کا مقتضیٰ یہ نہیں ہے کہ صرف اثباتِ حجت کا ان پر اقتصار کیا جائے بلکہ رحمت ان کے حق میں یہی ہے کہ ان پر جبر کیا جائے تاکہ خواہ مخواہ ایمان ان پر ڈالا جائے جس طرح تلخ دوا کے پلانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ـ‘

(حجۃ اﷲ البالغہ مترجم اردو مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہور جلد ۲ صفحہ۴۰۷،۴۰۸)

۲۔مشہور مصنف ایم اسلم لکھتے ہیں :۔

’’خلیفۂ وقت کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا۔ یعنی خدا اور اس کے رسول کا مقدس پیغام خدا کی مخلوق تک پہنچانا اور انہیں دعوتِ اسلام دینا۔ جب کسی حکمران کو دعوت اسلام دی جاتی ہے تو دو شرطیں پیش کی جاتیں۔ ایک یہ کہ مسلمان ہوجائے دوسرے یہ کہ اگر مسلمان نہیں ہوتے تو جزیہ دو۔ اور دونوں شرطیں نہ مانی جاتیں تو پھر مجاہدین اسلام کو ان سرکشوں کا بُھرکس نکالنے کا حکم ملتا اور اس کا نام جہاد ہے۔‘‘ (حزب المجاہد صفحہ ۳۵)

۳۔واضح ہو کہ اہل اسلام کے ہاں کتب احادیث اور فقہ میں جہادؔ کی صورت یوں لکھی ہے کہ پہلے کفار کو موعظۂ حسنہ سنا کر اسلام کی طرف دعوت کی جائے۔ اگر مان گئے تو بہتر نہیں تو کفار عرب سے ببا عث شدت کفر اور بت پرستی ان کے ایمان یا قتل کے سوا کچھ نہ مانا جائے۔‘‘

(صیانۃ الانسان مطبوعہ مطبع مصطفائی لاہو ۱۸۷۳ء صفحہ ۲۳۲ مصنفہ ولی اﷲ صاحب لاہوری)

۴۔ سابق علماء تو الگ رہے اب تک مولوی ابو الاعلی مودودی صاحب اس بیسویں صدی کے نصف آخر میں بھی یہی عقیدہ رکھتے اور اسی کی اشاعت کر رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:۔

’’یہی تھی پالیسی جس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی سب سے پہلے اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول اور مسلک کی طرف دعوت دی مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انہوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا اور پھر حضر ت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس حملہ کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچایا۔ ‘‘

(رسالہ جہاد فی سبیل اﷲ مصنفہ مولوی ابو الاعلی مودودی صفحہ ۲۸ ، صفحہ ۲۹)

ان اقتباسات کو پڑھ کر ہر دردِ دل رکھنے والے سعید الفطرت مسلمان کا سر ندامت کے ساتھ جھک جاتا ہے۔ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ جبر و اکرا ہ کا یہ نظریہ اس مقدس ترین وجود کی طرف منسوب کیا جارہا ہے جو تمام نسلِ انسانی کے لئے پیامِ امن و سلامتی لے کر آیا۔ جس نے اپنی مقدس حیات کا ایک ایک لمحہ ظلم و تشدد اور جبر و اکراہ کو دنیا سے مٹانے کے لئے وقف کر دیا جس رحمۃ للعالمین (صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) نے نسل انسانی کو کا امن بخش اور حیات آفرین پیغام سنایا اور جو خود عمر بھر اپنے دشمنوں کے ـظلم و ستم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہا مگر خود کسی انسان بلکہ حیوان پر بھی ظلم نہیں کیا۔ عیسائی، ہندو اور دیگردشمنان اسلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیرت انگیز معجزانہ کامیابی و کامرانی کو داغدار کرنے کے لئے یہ الزام لگاتے چلے آئے ہیں کہ اسلام اپنی صداقت اور حقانیت کے اثر سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے، لیکن ایک غیرجانبداراور صحیح الدماغ محقق دشمنان اسلام اور مقدس بانی کو بدنام کرنے کی نیت سے ایسا کہتا ہے۔ لیکن جب مسلمانوں کے اپنے ’’علماء‘‘ خود ہی یہ اعلان کرنے لگیں کہ اسلام کی تعلیم کو بزور شمشیر منوانا اور غیر مسلموں کو بہ جبر و اکراہ حلقہ بگوشِ اسلام کرنا عین تعلیم اسلام ہے اور خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضو رؐکے خلفائے راشدین کا طرز عمل بھی یہی رہا ہے اور وہ غیر مسلموں کو ان کی مرضی کے خلاف جبر و اکراہ سے مسلمان بنا یا کرتے تھے۔ تو پھر حقیقی اسلام کے علمبرداروں کے ہاتھ میں غیر مسلموں کے مقابلہ میں رہ ہی کیا جاتا ہے۔ ؂

گر مسیحا دشمنِ جاں ہو تو کیونکر ہو علاج ؟

کون رہبر ہو سکے جو خضر بہکانے لگے ؟

یہ ظالمانہ اور جارحانہ ’’جہاد‘‘ کا منگھڑت اور خلاف اسلام نظریہ (جو آج تک مولوی ابوالاعلی مودودی اور ان کے ہم خیال علماء کے ہاں رائج ہے )تبلیغ و اشاعت اسلام کے رستہ میں ایک زبردست روک ثابت ہو رہا ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ اس غلط نظریہ کی پر زور تردید کی جائے تا اسلام کاخوبصورت اور منور چہرہ داغدار نہ ہونے پائے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلط نظریہ کی کما حقہ تردید فرمائی اور یہی وہ جارحانہ لڑائی AGGRESSION ہے جس کے بارے میں حضورؑ نے بار بار تحریر فرمایا ہے کہ اسلام میں جائز نہیں اور نہ اس قسم کی لڑائی کرنے کی مسلمانوں کو اجاز ت ہے۔

’’موقوف‘‘ اور ’’التوا‘‘ کے معنے

اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم احرار کے اصل اعتراض کو لیتے ہیں۔ معترضین کی طرف سے عام طور پر اس الزام کی تائید میں تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶ و صفحہ ۳۰ طبع اوّل، اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۳ طبع اوّل اور حقیقۃ المہدی کے حوالجات پیش کئے جاتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان محولہ بالا مقامات پر کسی جگہ بھی ’’اسلامی جہاد‘‘ کے قیامت تک منسوخ ہونے کا ذکر نہیں۔ تحفہ گولڑویہ میں ’’التواء‘‘ اورمو خر الذکر مقام پر ’’موقوف‘‘ کا لفظ ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ ’’التوا‘‘ اور ’’موقوف‘‘ دونوں ہم معنے ہیں اور ان کا مفہوم عارضی طور پر کسی کام کو دوسرے وقت پر ڈال دینا ہو تاہے۔ ہمیشہ کے لئے ختم ہونا یا منسوخ ہو جانا اس سے مراد نہیں ہوتا۔

لفظ ’’وقف‘‘ یا ’’وقفہ‘‘ کے معنے ہی دو کلاموں کے درمیانی عارضی ’’سکون‘‘ اور ’’ٹھہرنے‘‘ کے ہیں۔ قرآن مجید کی آیات کے درمیان بھی ’’وقف‘‘ آتا ہے۔ مگر کیا وقف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے آگے کوئی آیت نہیں ؟ عربی میں ’’وَقَفَ لِفُلَانٍ ‘‘ کے معنے ہیں۔ ’’ اس نے فلاں کا انتظا ر کیا‘‘ اور ’’وَقَفَ عَلٰی حَضُوْرِ فُلَانٍ کے معنے ہیں۔ ’’اس نے فلاں کے آنے تک کام ملتوی رکھا۔‘‘

’’اَوْقَفَ وَ تَوَقَّفَ عَنْ ‘‘ کے معنی ہیں ’’ملتوی کرنا۔‘‘

’’وَقْفَۃُ ‘‘کے معنی ہیں ’’اسٹیشن‘‘ ’’ٹھہراؤ‘‘ اور ’’موقوف‘‘ کے معنی ہیں ’’ٹھہرا ہوا‘‘( تسیہل العربیہ زیر مادہ وقف) نیز ملاحظہ ہو ’’الفراید الدریہ زیر مادہ‘‘ جس میں لکھاہے وَقَفَ عَلَی الْکَلِمَۃِ (پڑھتے پڑھتے تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرنا۔)

وَقَفَ لِفُلَانٍ۔کسی کا انتظار کرنا۔

اَوْقَفَ وَ تَوَقَّفَ عَنْ کے معنی ہیں کسی معاملہ کو دوسرے وقت تک اٹھا رکھنا ۔

پس موقوف کے معنی ’’ملتوی‘‘کے ہیں نہ کہ ہمیشہ کے لئے منسوخ ہو جانے کے ؟ اندریں صورت معترضین کا مسیح موعود علیہ السلام پر ’’منسوخی جہاد‘‘ کاالزام لگانا کیونکر درست ہو سکتاہے ؟

قرآنِ مجید کا کوئی لفظ منسوخ نہیں ہو سکتا

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضور کے تتبع میں تمام احمدی قرآن مجید کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر حرف کو ناقابلِ تنسیخ یقین کرتے ہیں۔ ہماراایمان ہے کہ قرآن مجید کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا۔ پس قرآن مجیداور حدیث صحیح میں جہاد کے بارے میں جو احکام ہیں احمدی ان پر دل و جان سے ایمان لاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہیں۔ قرآن مجید نے جہاد بالسیف کے بارے میں جو حکم دیا ہے وہ ان الفاظ میں ہے کہ(الحج:۴۰) یعنی مومنوں کے ساتھ کفار دین کے باعث جنگ شروع کریں تو جوابی طور پر مومن تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھائیں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
جماعت احمدیہ جہاد بالسیف کی قائل ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اَسّی کتب میں کسی ایک جگہ بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ اگر کفار کی طرف سے تلوار اٹھائی جائے تب بھی جوابی طور پر تلوار نہ اٹھائی جائے۔ یا یہ کہ قرآن مجید کی یہ یا دوسری آیات دربارہ جہاد منسوخ ہیں۔ حضور ؑ نے تو صاف الفاظ میں تحریر فرمایا ہے:۔ ’’وَأُمِرْنَا أَنْ نُعدَّ لِلْکَافِرِیْنَ کَمَا یُعَدُّوْنَ لَنَا، وَلَا نَرْفَعُ الْحُسَامَ قَبْلَ أَنْ نُقْتَلَ بِالْحُسَامِ۔ ‘‘

(حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۴۵۴)

کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم کافروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا کہ وہ ہمارے ساتھ کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں ہم بھی اس وقت تک ان پر تلوار نہ اٹھائیں۔

یاد رہے کہ یہ عبارت اسی حقیقۃ المہدی کی ہے جس کے صفحہ کا حوالہ معترضین دیتے ہیں۔اس عبارت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کفا ر کی تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کے مسئلہ کے قائل ہیں اور قرآنی حکم دربارۂ جہاد کو ہرگز منسوخ نہیں سمجھتے۔ بلکہ لفظ ’’اُمِرْنَا‘ ‘ فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ ہم اس امر کے لئے مامور ہیں کہ اگر کفار اسلام کے خلاف تلوار اٹھائیں گے تو ہم بھی جوابی طور پر ان کے ساتھ تلوار سے جہاد کریں گے۔ پس معترضین کے پیش کردہ حوالہ میں جو لفظ ’’موقوف‘‘ استعمال ہوا ہے تو اس کے صرف یہی معنی ہیں کہ چونکہ اس وقت کفار کی طرف سے اسلام کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی جا رہی اس لئے قرآنی تعلیم کی روسے اس وقت مسلمانوں کے لئے تلوار اٹھا نا ’’موقوف‘‘ ہے۔ اس وقت تک کہ کفار تلوار اٹھائیں۔ کیونکہ از روئے قرآن و حدیث ’’جہاد بالسیف‘‘ مشروط ہے۔ کفار کی طرف سے تلوار کے اٹھائے جانے کے ساتھ۔پس شرط کے عدم تحقق کے باعث مشروط (جہاد بالسیف )بھی کبھی متحقق نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس عبارت کے شروع میں یہ الفاظ ہیں۔’’رُفِعَتْ ہٰذِہِ السُّنَّۃُ بِرَفْعِ أَسْبَابِہَا فِیْ ہٰذِہِ الْأَیَّامِ۔ ‘‘ (حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۴۵۴) یعنی تلوار کے جہاد کی شرائط کے پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں ہو رہا۔ حضور تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں۔’’اِنَّ وَجُوْہَ الْجِھَادِ مَعْدُوْمَۃٌ فِیْ ھٰذَا الزَّمَنِ وَھٰذِہِ الْبَلَادِ۔ ‘‘(تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۸۲)یعنی ’’جہاد اس لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقت اور اس ملک میں جہاد کی شرائط پائی نہیں جاتیں۔‘‘ پھر تحفہ گولڑویہ ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۷۸ میں جہاں ممانعت جہاد کا فتوی دیا ہے ۔ وہاں تحریر فرمایا ہے۔

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰے عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا

ان اشعار میں ’’اب‘‘ اور ’’التواء‘‘ کے الفاظ صاف طور پر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جہاد کا حکم قیامت تک کے لئے منسوخ نہیں بلکہ بوقت موجودہ عدم تحقق شرائط کے باعث ’’جہاد‘‘ عملاً ملتوی ہے او ر وہ بھی حضرت صاحب کی اپنی ذاتی رائے یا فتویٰ سے نہیں۔ بلکہ خود حضرت شارع علیہ السلام کیحدیث صحیح مندرجہ بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ علیہ السلام کی سند کی بنا پر۔

پھر حضور تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمۂ اسلام میں کوشش کریں۔ مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں۔ دینِ متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں۔یہی جہاد ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے۔‘‘

(مکتوب بنام حضرت ناصر نواب صاحب مندرجہ رسالہ درود شریف صفحہ ۶۶ مؤلفہ حضرت مولوی محمداسمٰعیل صاحب ہلالپوری )

آخری الفاظ صاف طور پر بتا رہیہیں کہ تلوار کے جہاد کی ممانعت ابدی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ اور جب دوسری صورت ظاہر ہوگی یعنی کفار کی طرف سے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی اس وقت تلوار کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہو گا۔ پس یہ ثابتہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی تعلیم دربارہ جہاد کو ہر گز منسوخ نہیں کیا بلکہ اس پر عمل کیا۔ کیونکہ قرآن مجید سے جہاد کی دو ہی صورتیں ثابت ہیں:۔

اوّل۔ قرآن مجید کی تعلیم اوراس کی خوبیاں دنیا میں پھیلاناجیسا کہ سورۃ فرقان میں ہے۔ (الفرقان:۵۳)یعنی قرآن مجید کو دنیا کے سامنے پیش کر ، یہی جہاد کبیر ہے۔ مکتوب مندرجہ ’’رسالہ درود شریف صفحہ ۶۶‘‘ کی عبار ت میں اسی پہلی صورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آج کل تو قرآن مجید میں بیان شدہ پہلی قسم کے جہاد کی شرائط موجود ہیں، اس لیے آج کل یہی جہاد ہے جس کا کرنا از روئے تعلیمِ اسلام واجب ہے۔ اور جب دوسری قسم کی شرائط پیدا ہو جائیں گی اس وقت دوسری قسم جہاد (یعنی تلوار کے ساتھ مدافعانہ جنگ پر)عمل کر نا ضروری ہو گا۔

ظاہر ہے کہ ’’جہاد‘‘ کے معنی اسلامی اصطلاح میں صرف تلوار کے ساتھ جنگ کرنے ہی کے نہیں بلکہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور عمل کی تلقین کرنے کے بھی ہیں۔ احراری معترضین جماعت احمدیہ پر اعتراض کرتے وقت صرف ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کی مراد اس سے صرف جہا د سیفی ہوتا ہے۔ اس مغالطہ کی حقیقت قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت پر نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتی ہے۔ (التوبہ: ۷۳)کہ اے نبیؐ کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کر۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منافقوں کے ساتھ جہاد کے کرنے کا حکم آجانے کے باوجود منافقوں کے خلاف کبھی تلوار نہیں اٹھائی۔ بلکہ ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک فرمایا۔ یہاں تککہ عبداﷲ بن ابی بن سلول کو (جو رئیس المنافقین تھا) اپنے چغہ مبارک میں دفن فرمایا۔ پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاد کے معنی صرف تلوار ہی کے ساتھ لڑائی کے نہیں ہوتے بلکہ تبلیغ و تذکیر کے ذریعہ کفار اور منافقین کی باطنی و روحانی اصلاح کی کوشش کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔

شرعی حکم کی تنسیخ اور فتویٰ میں فرق

احراری معترضین اپنے جوش خطابت میں ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ’’منسوخی جہاد مستقل کفر ہے۔‘‘

گویا ان کے نزدیک اگر کوئی شخص حضرت مرزا صاحب کی طرح یہ فتویٰ دے کہ چونکہ آجکل دشمنان دین اسلام کے بالمقابل تلوار نہیں اٹھاتے اس لئے تعلیم اسلامی کے رو سے ان کے ساتھ تلوار کا جہاد جائز نہیں۔ تو ایسا فتویٰ دینے والا فرضیت جہاد کا منکر ہونے کے باعث خارج از اسلام سمجھا جائے گا۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس طریق کو جاری کرنے کے نتیجہ میں کوئی مفتی بھی فتویٰ کفر سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ اگر اس طریق تکفیر کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ایسے شخص کو بھی جو ایک غیر صاحب نصاب شخص کے بارہ میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ’’فرضیت زکوٰۃ کا منکر‘‘ قرار دے کر‘‘ خارج از اسلام تسلیم کرنا پڑے گا۔

دور کیوں جائیں سیدنا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا شعر ہے:۔


فَمَا وَجَبَتْ عَلَیَّ زَکٰوۃُ مَالٖ

وَھَلْ تَجِبُ الزَّکٰوۃُ عَلَی الْجَوَادٖ


ترجمہ:۔ مجھ پر مال کی زکوٰۃ واجب نہیں اور کیا سخی پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ (ہرگز نہیں)

(کشف المحجوب مصنفہ حضرت داتا گنج بخش ؒ مترجم اردو صفحہ ۲۸۸ مطبوعہ فیروز اینڈ سنز ۲۰۰۳ء)

پس کس قدر ظلم ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں تو جہاد بالسیف کا حکم موجود ہے لیکن میں ان آیات اور احادیث کو منسوخ کرتا ہوں بلکہ صرف اس قدر فرمایا کہ قرآن مجید اور حدیث میں خدا اور رسول کا حکم یہ ہے کہ جب تک مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے خلاف تلوار نہ اٹھائی جائے ان کے ساتھ جہاد بالسیف کرنا جائز نہیں اور چونکہ موجودہ وقت میں مخالفین اسلام کی طرف سے تلوار نہیں اٹھائی جا رہی اس لئے اس وقت جہاد بالسیف کرنے کی از روئے قرآن و حدیث اجازت نہیں، احراری معترضین ان کے خلاف ’’فرضیت جہاد‘‘ کے انکار کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔

حضرت سید احمد بریلوی کا انگریز کے خلاف جہاد نہ کرنے کا فتویٰ

پھر اگر محض اس فتویٰ کی بناء پر کہ انگریز کے خلاف جہاد بالسیف از روئے تعلیم اسلامی جائز نہیں۔ اگر حضرت مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کی تکفیر کو درست تسلیم کیا جائے تو تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد بریلوی اور ان کے خلیفہ حضرت اسمٰعیل شہید پر بھی یہی فتویٰ عاید ہو گا، کیونکہ ان ہر دو بزرگوں نے بھی (جن کو احراری بھی اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں) انگریزی حکومت کے خلاف عدم جہاد کا بعینہٖ وہی فتویٰ دیا ہے جو ان کے بعد حضرت مرزا صاحبؑ نے دیا۔

مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کی شخصیت

یاد رہے کہ حضرت سید احمد بریلوی اور اسمٰعیل شہیدؒ کے فتاویٰ اس کتاب سے نقل کئے گئے ہیں جو مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری کی تصنیف ہے اور مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری وہ بزرگ ہیں جو حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک میں شامل تھے اور بقول مولانا غلام رسول صاحب مہر:۔

’’مولوی محمد جعفر صاحب کا گھر کئی برس تک سید صاحب کے مجاہدین کے لئے چندہ بھیجنے کا ایک مرکز بنا رہا۔ اسی بناء پر وہ گرفتار ہوئے۔ انگریزوں نے ان پر مقدمہ چلایا اور پھانسی کی سزا دی۔ جائیداد ضبط کر لی یہ سزا اس لئے حبسِ دوام میں تبدیل ہوئی کہ مولوی صاحب کیلئے پھانسی پر جان دے دینا آسان تھا اور انگریز چاہتے تھے کہ انہیں قید کی مصیبتوں میں مبتلا رکھ کر زیادہ سے زیادہ ایذاء پہنچائیں۔‘‘

’’مولوی محمد جعفر صاحب نے سرکار انگریزی کی مخالفت ہی کے باعث اٹھارہ سال جزائر انڈیمان میں بسر کئے۔ ان کی جائیداد ضبط ہوئی اور جو تکلیفیں اٹھائیں ان کے بیان کا یہ موقع نہیں وہ ان کارناموں کی وجہ سے عظیم تھے۔‘‘ (احراری اخبار آزاد لاہور ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۵۲ء جلد ۲ کالم ۳)

پس مولوی محمد جعفر صاحب وہ انسان تھے جن کو انگریز کی خوشامد کی کوئی ضرورت نہ تھی علاوہ ازیں ’’سوانح احمدی‘‘ اس زمانہ میں لکھی گئی جبکہ سید احمد صاحب بریلویؒ کو دیکھنے والے او ر ان سے ملنے والے لوگ زندہ موجود تھے۔ اگر یہ روایات درست نہ ہوتیں تو اسی وقت ان کی تردید میں ضرور وہ لوگ آواز بلند کرتے۔ اس وقت اصل دستاویزات محولہ ابھی موجود تھیں اس لئے ان پر جرح و تنقید کا وقت وہی تھا۔ پھر یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جبکہ جماعت احمدیہ کا کوئی وجود ہی نہ تھا اور نہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا فتویٰ دربارۂ ممانعت جہاد (۱۹۰۲ء) ہی موجود تھا۔ پس یہ تحریرات امر متنازعہ فیہ سے بہت عرصہ پہلے کی ہیں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مولانا غلام رسول صاحب مہر یا کسی اور بزرگ کا جس کو حضرت سید احمد بریلوی اور سید اسمٰعیل صاحب شہید کے مندرجہ بالا فتاویٰ سے اختلاف ہو۔ اکتوبر ۱۹۵۲ء میں یعنی حضرت سید احمد صاحب بریلوی کی شہادت کے ایک سو اکیس اور کتاب کی تحریر کے ساٹھ ستر سال بعد ان روایات کی صحت پر اعتراض کرنا کسی طرح بھی ان کی صحت و اصالت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ہر اہل علم اور انصاف پسند انسان کے نزدیک ان روایات کو غلط ثابت کرنے کا بارِ ثبوت بہرحال اس شخص پر ہو گا جو ان قدیم اور سید صاحب شہیدؒ کے قریب ترین زمانہ میں تحریر شدہ شہادتوں کے غلط ہونے کا ادعا کرتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کسی بھی پرانے واقعہ کا اثبات ممکن نہ رہے گا۔ مثلا ً اگر کوئی معترض قرآن مجید۔ احادیث اور تاریخ اسلامی میں درج شدہ واقعات کا یہ کہہ کر انکارکر دے کہ جب تک اصل گواہ اور ان کی شہادتیں میرے سامنے پیش نہ کی جائیں میں ان کی صحت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں اور یہ بھی کہے کہ ان روایات کو درست ثابت کرنے کا بارِ ثبوت اس شخص پر ہے جو ان روایات کو درست قرار دیتا ہے تو ہر ایک اہل علم و عقل کے نزدیک ایسے معترض کا اعتراض در خور اعتناء نہ ہو گا۔ کیونکہ ان روایات کی صحت و اصالت پر اعتراض کرنے کا وقت وہ تھا جب وہ احاطۂ تحریر میں لائی گئیں۔ لیکن اگر اس وقت کسی شخص نے ان پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھائی پھر ایک لمبا زمانہ گذر جانے کے بعد جبکہ اصل شواہد اور دستاویزات مرورِ زمانہ کے باعث ناپید ہو چکی ہوں اعتر اض بے حقیقت ہو کر رہ جاتاہے جب تک کہ ایسا معترض اپنی تائید میں ناقابلِ تردید ثبوت اور دلائل پیش نہ کرے۔ پس آج جبکہ حضرت سید احمد شہید اور حضرت ا سمٰعیل شہید رحمۃ اﷲ علیہما کے یہ فتاویٰ جماعت احمدیہ کی تائید میں پیش کئے گئے ہیں کسی اختلاف رائے رکھنے والے بزرگ کا اعتراض ہرگز قابلِ اعتناء قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کی نسبت حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک اور سیر ت نگار مولانا ابوالحسن صاحب ندوی لکھتے ہیں:۔

’’سید صاحب کے بہت بڑے تذکرہ نگا ر اور واقفِ حال تھے۔ آپ سید صاحب کے خلفاء سے بیعت اور سید صاحب کے نہایت سچے اور پر جوش معتقد تھے اور آپ کی کتاب (سوانح احمدی۔ خادم) سب سے زیادہ مکمل اور مقبول و مشہور ہے‘‘۔ (سیرت سید احمد شہید صفحہ ۱۸ و صفحہ ۲۳۱)

اسی طرح نواب صدیق حسن خاں صاحب بھو پالی لکھتے ہیں:۔

’’سید احمد شاہ صاحب ساکن نصیر آباد بریلی میں ایک شخص تھے وہ کلکتہ گئے تھے اور ہزاروں مسلمان فوج انگریزی کے ان کے مرید ہو گئے۔ مگر انہوں نے کبھی یہ ارادہ ساتھ سرکار انگریزی کے ظاہر نہیں کیا اور نہ سرکار نے ان سے کچھ تعرض کیا‘‘۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۴۵)

اس شہادت سے یہ ثابت ہواکہ جو کچھ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری نے لکھا وہ بالکل صحیح اور درست تھا۔

یاد رہے کہ حضرت سید احمد بریلوی ؒ اور سید اسمٰعیل شہید وہ بزرگ ہیں جو ہندوستان خیلِ مجاہدین کے سردار اور اول المجاہدین تھے جنہوں نے یو۔پی سے اٹھ کر پنجاب کی سکھ حکومت کے خلاف سرحد پار کر کے افغانستان کی طرف سے حملہ آور ہو کر سالہا سال تلوار کے ساتھ جہاد کیا اور عین میدانِ جہاد میں شہید ہو ئے۔ انہوں نے سکھ حکومت کے خلاف یہ جہاد محض اس وجہ سے کیا کہ سکھ دین میں جبر کر رہے تھے۔ اس لئے اسلامی تعلیم کے رو سے سکھوں کے خلاف عَلم جہاد بلند کرنا ضروری تھا، لیکن ان ہر دو بزرگوں نے عمر بھر کبھی انگریزی حکومت کے ساتھ جہاد نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس صاف صاف لفظوں میں یہ فتویٰ دیا کہ:۔

(ا)۔ ’’نہ با کسے از امراء مسلمین منازعت داریم۔ نہ از رؤسائے مومنین مخالفت۔ باکفارِ لیئام مقابلہ داریم۔ نہ با مدعیانِ اسلام صرف بادر از موئیان جویان مقابلہ ایم۔ نہ با کلمہ گویان و نہ اسلام جویان۔ و نہ بہ سرکار انگریزی کہ او مسلمان رعایائے خود را برائے ادائے فرض مذہبی شان آزادی بخشیدہ است۔‘‘

(مکتوب حضرت سید احمد بریلوی ؒ۔ ’’سوانح احمدی‘‘ صفحہ ۱۱۵ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری)

یعنی ہم کسی مسلمان امیر سے جنگ یا پیکار کرنا نہیں چاہتے صرف کفار لئیم سے مقابلہ کر نا چاہتے ہیں۔ ہم مدعیان اسلام سے بھی جنگ نہیں کرنا چاہتے۔ صرف لمبے بالوں والوں (سکھوں) سے مقابلہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ کلمہ گو یوں یا مسلمان کہلانے والوں یا سرکار انگریزی سے کہ جس نے اپنی مسلمان رعایا کو مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے کامل آزادی دے رکھی ہے۔ ہم جنگ نہیں کرنا چاہتے۔

یہ تیر ہویں صدی کے مجددکا فتویٰ ہے۔ جس کو تمام اہل حدیث اور اہل سنت و اہل دیو بند اور احراری اپنا بزرگ خیال کرتے ہیں۔ یہ ان کا اپنا تحریر فرمودہ فتویٰ ہے اس کے الفاظ’’ نہ با سرکار انگریزی کہ مسلمان رعایا ئے خود را برائے ادائے فرض مذہبی شان آزادی بخشیدہ است ‘‘دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔

کیا بعینہٖ یہ وہی فتویٰ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہے اور جس کی بناء پر آپ کو جہاد کا منکر قرار دیا جا رہا ہے؟ پس انگریزی حکومت کے خلاف عدم جہاد بالسیف کے فتویٰ میں حضرت مرزا صاحب منفرد نہیں۔ بلکہ ان کے ساتھ حضرت سید احمد بریلوی شہید رحمۃ اﷲ علیہ بھی شامل ہیں۔ پس اگر گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کی مما نعت کا فتویٰ آپ کے نزدیک ’’بذاتِ خود کفر ہے‘‘ تو

ایں گناہسیت کہ در شہر شما نیز کنند

(ب)۔ حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے مندرجہ بالا مکتوب کے علاوہ آپ کا تفصیلی فتویٰ دربارۂ ممانعت جہاد ملاحظہ فرمائیں۔ لکھا ہے۔

’’جب آپ رحمۃ اﷲ علیہ سکھوں سے جہاد کرنے تشریف لے جاتے تھے۔ کسی شخص نے آپ ؒ سے پوچھا کہ آپؒ اتنی دور سکھوں پر جہاد کرنے کو کیوں جاتے ہو۔ انگریز پر جو اس ملک پر حاکم ہیں اور دینِ اسلام سے کیا منکر نہیں ہیں۔ گھر کے گھر میں ان سے جہاد کر کے ملک ہندوستان لے لو۔ یہاں لاکھوں آدمی آپ کا شریک اور مددگار ہو جائیگا کیونکہ سینکڑوں کوس سفر کر کے سکھوں کے ملک سے پار ہو کر افغانستان جانا اور وہا ں برسوں رہ کر سکھوں سے جہاد کرنا یہ ایک ایسا امر محال ہے جس کو ہم لوگ نہیں کر سکتے۔ سید صاحب نے جواب دیا کہ:

کسی کا ملک چھین کر ہم بادشاہت کرنا نہیں چاہتے۔ انگریزوں کا یا سکھوں کا ملک لینا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ سکھوں سے جہاد کرنے کی قدرتی یہ وجہ ہے کہ وہ ہمارے برادرانِ اسلام پر ظلم کرتے ہیں۔ اور اذان وغیرہ فرائض مذہبی کو ادا کرنے سے مزاحم ہوتے ہیں اور سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی۔ اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں۔ وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے توا س کو سزا دینے کے لئے تیار ہے ہماراا صل کام اشاعت توحید الٰہی اور احیاء سننِ سید المرسلین ہے سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں۔ پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصولِ مذہب طرفین کا خون بلا سبب گراویں۔

یہ جواب با صواب سن کر سائل خاموش ہو گیا اور اصل جہاد کی غرض سمجھ لی‘‘۔

(سوانح احمدی صفحہ ۴۵ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری)

(ج)۔ ’’اس واسطے ہر گھڑی اور ہر ساعت جہاد اور قتال کا ارادہ کرتے رہتے تھے اور سرکار انگریزی گو کافر تھی مگر اس کی مسلمان رعایا کی آزادی اور سرکار انگریزی کی بے روریائی اور بوجہ موجودگی ان حالات کے ہماری شریعت کے شرائط سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کو مانع تھیں اس واسطے ان کو منظور ہو ا کہ اقوام سکھ پنجاب پر جو نہایت ظالم اور احکامات شریعت کی حارج اور مانع تھے جہاد کیا جائے۔‘‘

(سوانح احمدی صفحہ ۴۵ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری)

(د)۔ یہ تو تھا فتویٰ حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کا اب آپ کے خلیفہ حضرت سید اسماعیل شہید رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ لکھا ہے:۔

’’اثناء قیام کلکتہ میں جب ایک روز مولانا محمد اسمٰعیل صاحب شہید وعظ فرما رہے تھے ایک شخص نے مولانا سے یہ فتویٰ پوچھا کہ سرکار انگریزی پر جہاد کرنا درست ہے یا کہ نہیں؟

اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ ایسی بے رو وریاء اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ (لازم ہے کہ) ان پر جہا د کیا جائے۔‘‘ (سوانح احمدی صفحہ ۵۷ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری)

(ھ)۔ ’’سید صاحب (سید احمد بریلوی) کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں تھا وہ اس آزاد عمل داری کو اپنی ہی عمل داری سمجھتے تھے۔ ‘‘(سوانح احمدی صفحہ ۱۳۹ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری)

مندرجہ بالا فتاویٰ کو پڑھنے کے بعد ہر صاحب انصاف سمجھ سکتا ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد بالسیف نہ کرنے کا حکم ایسا ہے جس پر تیرہویں اور چودہویں صدی کے مجددین کا اتفاق ہے پھر اس کے خلاف اگر کوئی دوسرا شخص معترض ہو تو اس کے اعتراض کو کیا وقعت دی جا سکتی ہے؟

پھر یاد رہے کہ حضرت سید احمد بریلویؒ اور حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید وہ بزرگ ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں جہاد بالسیف کے لئے وقف کر دی ہوئی تھیں وہ سکھوں کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے ’’ ‘‘ (الاحزاب:۲۴) کے مصداق ہو کر میدان جہاد میں شہید ہو گئے۔ اس لئے ان بزرگان نے حکومت انگریزی کے خلاف تلوار نہ اٹھانے کا جو فتویٰ صادر کیا اس کی صحت اور درستی میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔

حضرت مرزاصاحبؑ کا فتویٰ

حضرت مرزا صاحبؑ نے ممانعت جہاد کا جو فتویٰ دیا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو حضرت سید احمد بریلویؒ اور ان کے خلیفہ سید اسمٰعیل شہید ؒ نے دیا تھا اور آپ کے بھی بعینہٖ وہی دلائل ہیں جو ان بزرگان کے ہیں۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔

ا۔ ’’نادان مولوی نہیں جانتے کہ جہاد کے واسطے شرائط ہیں۔ سکھا شاہی لوٹ مار کا نام جہاد نہیں اور رعیت کو اپنی محافظ گورنمنٹ کے ساتھ کسی طور سے جہاد درست نہیں‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۸۲)

ب۔ پھر فرماتے ہیں:۔

’’ بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا۔کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اِس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو! اے نادانوں مَیں اِس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی ۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۷۵حاشیہ)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ج۔ پھر فرماتے ہیں:۔

’’جاننا چاہیے کہ قرآن شریف یوں ہی لڑائی کے لئے حکم نہیں فرماتا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ایمان لانے سے روکیں اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کاربند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اﷲ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں …… یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے جو ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں۔‘‘

(نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۶۲ )

د۔ ’’شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے۔ جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ا یسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن او ر عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں…… قطعی حرام ہے‘‘۔ (تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۶۵)

(ھ) ’’ اس زمانہ کے نیم مُلّا فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اُٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں۔ مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعدّی کا الزام اُس دین پر لگایا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے بلکہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملہ سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے۔ اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایاجائے ۔ مگر اب کون مخالفوں میں سے دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور مسلمان ہونے والے کو کون روکتا ہے ا ور مساجد میں نماز پڑھنے اور بانگ دینے سے کون منع کرتا ہے۔ پس اگر ایسے امن کے وقت میں ایسا مسیح ظاہر ہوکہ وہ امن کا قدر نہیں کرتا۔ بلکہ خواہ نخواہ مذہب کے لئے تلوار سے لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہے تو ؔمیں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ بلاشبہ ایساشخص جھوٹا کذّاب مفتری اور ہرگز سچا مسیح نہیں ہے۔ مجھے تو خواہ قبول کرو یا نہ کرو مگر میں تم پررحم کرکے تمہیں سیدھی راہ بتلاتا ہوں کہ ایسے اعتقاد میں سخت غلطی پر ہو۔ لاٹھی اور تلوار سے ہرگز ہرگز دین دلوں میں داخل نہیں ہوسکتا اور آپ لوگوں کے پاس ان بیہودہ خیالات پر دلیل بھی کوئی نہیں۔ صحیح بخاری میں مسیح موعود کی شان میں صاف حدیث موجود ہے کہ یَضَعُ الْحَرْبَ یعنی مسیح موعود لڑائی نہیں کرے گا تو پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ لوگ اپنے مُنہ سے کہتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد اَصَحُّ الْکُتُب ہے اور دوسری طرف صحیح بخاری کے مقابل پر ایسی حدیثوں پر عقیدہ کر بیٹھتے ہیں کہ جو صریح بخاری کی حدیث کے منافی پڑی ہیں۔ چاہیے تھا کہ اگر کروڑ ایسی کتاب ہوتی تب بھی اس کی پرواہ نہ کرتے کیونکہ ان کا مضمون نہ صرف صحیح بخاری کی حدیث کے منافی بلکہ قرآن شریف سے بھی صریح مخالف ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۱۵۸۔۱۵۹)

(و) ’’ تمام سچے مسلمان جو دُنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی و جہ سے دُنیا میں پھیلا ہے ۔ پس جو لوگ مسلمان کہلاکر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۱۶۷ حاشیہ)

کیا ان عبارتوں سے صاف طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مرزا صاحب اپنے وقت میں ’’حرمت جہاد‘‘کا فتویٰ قرآ ن مجید اور حدیث نبویؐ کی بناء پر دے رہے ہیں نہ کہ اسلامی حکم کو منسوخ قرار دے کر؟

علاوہ ازیں تریاق القلوب کے مؤخر الذکر حوالجات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جس نظریۂ جہاد کی مخالفت فرمائی ہے وہ غیر مسلموں کو جبرًا مسلمان بنانے کا وہ غلط تصور ہے جو مولوی ابو الاعلیٰ مودودی جیسے علماء کہلانے والے ابتدا سے لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے آئے ہیں اور جن کا ذکر مضمون ہذا کی ابتدائی سطور میں کسی قدر تفصیل ہے کیا جا چکا ہے۔

(ز) ۔ پھر مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ہم نے سارا قرآن شریف تدبر سے دیکھا مگر نیکی کی جگہ بدی کرنے کی تعلیم کہیں نہیں پائی ہاں یہ سچ ہے کہ اس گورنمنٹ کی قوم مذہب کے بارے میں نہایت غلطی پر ہے وہ اس روشنی کے زمانہ میں ایک انسان کوخدا بنا رہے ہیں اور عاجز مسکین کو ربّ العالمین کا لقب دے رہے ہیں مگر اس صورت میں تو وہ اور بھی رحم کے لائق اور راہ دکھانے کے محتاج ہیں کیونکہ وہ بالکل صراط مستقیم کو بھو ل گئے اور دور جا پڑے ہیں ہم کو چاہیے کہ…… ان کے لئے جنابِ الٰہی میں دعا کریں کہ اے خداوند قادر ذو الجلال ان کو ہدایت بخش اور ان کے دلوں کو پاک توحید کے لئے کھولدے اور سچائی کی طرف پھیر دے تا وہ تیرے سچے اور کامل نبی اور تیری کتاب شناخت کر لیں اور دینِ اسلام ان کا مذہب ہو جائے، ہاں پادریوں کے فتنے حد سے بڑھ گئے ہیں اور ا ن کی مذہبی گورنمنٹ ایک بہت شور ڈال رہی ہے مگر ان کے فتنے تلوار کے نہیں ہیں۔ قلم کے فتنے ہیں سو اے مسلمانو! تم بھی قلم سے ان کا مقابلہ کرو…… خدا تعالیٰ کا منشاء قرآن شریف میں صاف پایا جاتا ہے کہ قلم کے مقابل پر قلم ہے اور تلوار کے مقابل پر تلوار۔ مگر کہیں نہیں سنا گیا کہ کسی عیسائی پادری نے دین کے لئے تلوار بھی اٹھائی ہو پھر تلوار کی تدبیریں کرنا قرآن کریم کو چھوڑنا ہے۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ ۹۳)

کیا مرزا صاحب نے قیامت تک جہاد کو منسوخ کیا

پس اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ میں قرآن مجید کی آیات دربارۂ جہاد بالسیف کو منسوخ کرتا ہوں اور یہ حکم دیتا ہوں کہ اب خواہ دین میں جبر ہو اور مخالفین اسلام دین کے خلاف تلوار اٹھائیں پھر بھی ان کے ساتھ جہاد بالسیف حرام ہے تو ہم اس کو چیلنج کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب یا آپ کے کسی خلیفہ کی کسی تحریر سے اس مضمون کا کوئی ایک حوالہ ہی پیش کرے۔ حضرت مرزا صاحب نے ہر گز قرآن مجید کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کیا۔ نہ آپ ایسا کر سکتے تھے۔ آپ کا دعویٰ تو یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر یہ وحی ہوئی ہے۔ ’’یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ‘‘ (تذکرۃ ایڈیشن نمبر ۴ صفحہ ۷۰) کہ مسیح موعود کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ احیاء دین او ر اقامت شریعت…… کرے۔

پس آ پ نے ہر گز کسی اسلامی حکم کو منسوخ نہیں کیا۔ آپ تو ناسخ و المنسوخ فی القرآن کے بھی قائل نہ تھے۔ حالانکہ تمام غیر احمدی علماء اب تک ناسخ و منسوخ فی القرآن کا مسئلہ مانتے ہیں۔

احمدی جماعت ہرگز جہاد کو منسوخ نہیں سمجھتی۔ نہ سیفی جہاد کی منکر ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر دین میں جبر ہو اور اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی جائے تو جہاد بالسیف فرض ہو جاتا ہے اور جس وقت تحقق شرائط کے باعث جہاد فرض ہو جائے پھر اس میں کوتاہی کرنے والا قابل مؤاخذہ ہو تا ہے۔ اس بارہ میں حضرت مرزا صاحب کی تحریرات کے حوالے قبل ازیں نقل کئے جا چکے ہیں۔ پس اصل سوال یہ نہیں کہ مرزا صاحب نے کیا فی الواقع جہاد کو منسوخ کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف جہاد بالسیف کرنا از روئے تعلیم اسلام فرض تھا یا نہیں۔ کیا مرزا صاحب کے زمانہ میں جہاد بالسیف کی شرائط موجود تھیں یا نہیں؟ اگر شرائط موجود نہیں تھیں تو جہاد بالسیف یقینا فرض نہیں تھا۔ پھر حضرت مرزا صاحب پر کوئی اعتراض نہیں رہتا۔ کیونکہ حضرت مرزا صاحب کا فتویٰ درست تھا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانہ میں شرائط جہاد متحقق تھیں اور جہاد بالسیف فرض تھا۔ تو اس کے جواب میں حضرت سید احمد بریلویؒ اور حضرت سید اسمٰعیل شہیدؒ کے فتاویٰ اوپر نقل کئے جا چکے ہیں۔ ان کی تائید میں اہلحدیث کے ایک بہت بڑے رہنما نواب نور الحسن خانصاحب آف بھوپال کا فتویٰ جو انہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کے بارے میں اپنی مشہور و معروف کتاب ’’اقتراب الساعۃ‘‘ ۱۸۸۳ء میں تحریر کیا۔ درج کیا جاتا ہے:۔

’’اس تیرہ سو برس میں کوئی ایسا فتنہ نہیں ہوا جس کی خبر حدیث میں اول سے موجود نہ ہو۔ جو لوگ اس علم سے ناواقف ہیں۔ وہی فتویٰ جہاد کا حق میں ہر فتنہ کے دیتے ہیں۔ ورنہ دنیا میں مدّت سے صورت جہاد کی پائی نہیں جاتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکم جہاد کا اسلام میں نہیں ہے یا تھا مگر اب منسوخ ہو گیا یہ کہتے ہیں کہ اس زمانے کی لڑائی بھڑائی خواہ مسلمان و کافر میں ہو۔ یا باہم مسلمانوں کے مشکل ہے کہ جہادِ شرعی ٹھہر سکے‘‘۔ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۷ مطبع مفید عام الکائنۃ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ)

لیکن اگرا حراری معترضین کے لئے یہ فتاوےٰ تسلی بحش نہ ہوں تو پھر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جس کا حل کرنا ضروری ہو گا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
فیصلہ کا آسان طریق

حدیث شریف میں ہے کہ ’’لَا یُجْمِعُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَۃٍ ‘‘ یعنی میری امت کبھی گمراہی پر اجماع نہیں کر سکتی۔ (ترمذی ابواب الفتن باب فی لزوم الجماعۃ)

پھر صحیحین کی حدیث ’’ لَا یَزَالُ …… اُمَّتِیْ اُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ بِاَمْرِ اللّٰہِ۔ (مشکوٰۃ کتاب المناقب باب ثواب ہذہ الامۃ الفصل الاوّل) یہ حدیث لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ مَنْصُوْرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ (ترمذی کتا ب الفتن باب ما جاء فی اھل الشام) کہ قیامت تک میری امت میں ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایک گروہ حق پر قائم رہنے والوں کا موجود رہے گا جو اسلامی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے والا ہو گا۔

نیز حدیث بخاری لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ۔

(بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبیؐ لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین)

قرآن مجید کی آیت (التوبۃ:۱۱۹) سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ صادقین کا گروہ ہر وقت دنیا میں موجود رہتا ہے جن کی معیت کا ہر طالب حق کو حکم دیا گیا۔

ابو داؤد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:۔ لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ۔

(ابو داؤد أوّل کتاب الجہاد باب فی دوام الجہاد)

پھر ایک اور حدیث میں ہے:۔ تَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّ سَبْعِیْنَ مِلَّۃً کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّۃً وَّاحِدَۃً قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ۔

(مشکوٰۃ کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)

کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے۔ وہ سب ناری ہوں گے۔ سوائے ایک فرقہ کے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اﷲ! جنتی فرقہ کون ہے؟ تو حضورؐ نے فرمایا۔ وہ فرقہ وہ ہو گا جو میرے اور میرے اصحاب کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو گا۔

قرآن مجید اور احادیث کے مندرجہ بالا حوالجات سے قطعی طور پر یہ ثابت ہے کہ قیامت تک ہر وقت اور ہر زمانہ میں سچے اور خالص مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت ضرور مسلمانوں میں موجود رہے گی۔

اس وقت یہ بحث نہیں کہ زمانہ زیر بحث میں وہ جماعت کونسی تھی؟ بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں کوئی نہ کوئی جماعت موجود ضرور تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں حکومت انگریزی کے خلاف جہاد بالسیف فرض تھا اور شریعت اسلامی کے رو سے ایسے جہاد کی شرائط متحقق تھیں۔ تو پھر اس ’’جنتی فرقہ‘‘ اور اس حق پر قائم ہونے والی جماعت نے کیوں انگریزوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ نہ کیا اور تمام امتِ محمدیہ کا اس ’’ضلالت‘‘ پر کیونکر ’’اجماع‘‘ ہو گیا؟ جیسا کہ مولوی ظفر علی آف ’’زمیندار‘‘ لکھتے ہیں:۔

’’ جہاد یہی نہیں کہ انسان تلوا ر اٹھا کر میدانِ جنگ میں نکل کھڑا ہو۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ تقریر سے تحریر سے۔ سفر حضر ہر طرح سے جدوجہد کرے۔ ہندوستانیوں کا اصول جہاد بے تشدد جد و جہد ہے اس پر تمام ہندوستانیوں کا اتفاق ہے۔‘‘ (اخبار زمیندار ۱۴؍جون ۱۹۳۶ء)

پس حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں مسلمانوں کے کسی ایک فرقہ کا بھی انگریزوں کے ساتھ جہاد بالسیف نہ کرنا اس بات کی ناقابل تردید دلیل ہے کہ اس زمانہ میں فی الواقعہ جہا د بالسیف فرض نہ تھا۔ کیونکہ یہ سب فرقوں کو مسلم ہے کہ جس وقت جہاد بالسیف فرض ہو جائے اس وقت جہاد سے (سوائے بیمار، بوڑھے اور معذور کے) تخلف کرنے والا گمراہ اور جہنمی ہوتا ہے اور کبھی ناجی نہیں ہو سکتا۔ پس یا تو تمام اسلامی فرقوں کو جن میں اہلحدیث، اہلسنت اور شیعہ سب شامل ہیں خارج ازاسلام قرار دیں۔ کیونکہ انہوں نے فریضہ جہاد سے اس وقت تخلف کیا جبکہ از روئے قرآن مجید ان پر جہاد بالسیف فرض تھا اور یا یہ تسلیم کریں کہ حضرت مرزا صاحب کا فتویٰ دربارہ ممانعتِ جہاد درست تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ آخر الذکر نتیجہ ہی صحیح ہے۔ کیونکہ ممانعتِ جہادکے فتویٰ کی بناء پر مرزا صاحب علیہ السلام کو کافر کہتے کہتے تمام عالم اسلامی کو خارج از اسلام تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اعتراض۔ قرآن مجید میں ہے نیز(الشعراء:۲۲۵)نبی شاعر نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاعر تھے۔
2. مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں بعض حوالے غلط دیئے ہیں مثلاً ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ بخاری میں نہیں ہے۔
3. اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن و حدیث میں طاعون کی پیشگوئی ہے۔ یہ جھوٹ ہے؟
اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ غلام دستگیر قصوری نے بددعا کی تھی ۔یہ جھوٹ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی مباہلہ نہ ہوا تھا۔
5. اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۴۳ حاشیہ پر لکھا ہے۔ ’’مولوی اسمٰعیل نے اپنے ایک رسالہ میں میری موت کے لئے بد دعا کی تھی پھر بعد اس بددعا کے جلد مر گیا اور اس کی بد دعا اُسی پر پڑگئی۔‘‘
6. اعتراض۔ حدیث سو سال کے بعد قیامت آجائے گی اس کا حوالہ دو۔
7. اعتراض:۔مرزا صاحب نے تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۷۳میں یَخْرُجُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالٌ یَخْتَلُوْنَ الدُّنْیَا بِالدِّیْنِ۔ کو حدیث قرار دیا ہے اور یہ ’’دَجَّال‘‘ نہیں بلکہ ’’رجال‘‘ رؔکے ساتھ ہے۔
8. مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ تورات اور انجیل (زکریا ۱۴/۱۲ پرانا عہد نامہ) میں طاعون کی پیشگوئی ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔
9. بعض غیر احمدی مولوی یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں یہ پیشگوئی ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے گا ۔ یہ جھوٹ ہے۔
10۔ اعتراض:۔حضرت نے لکھا ہے:۔ ’’ دیکھو خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں۔‘‘(نشان آسمانی۔ روحانی خزائن جلد۴ صفحہ۳۹۷)……’’حالانکہ قرآن پاک میں کہیں نہیں لکھاکہ میں مفتری کو جلد ہلاک کرتا ہوں بلکہ اس کے الٹ ہے۔(یونس:۷۰،۷۱) (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۵۱و صفحہ ۱۷۴ مطبوعہ یکم مارچ ۱۹۳۵ء)
11۔ اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے اربعین نمبر ۲۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۷۱میں لکھا ہے کہ:۔ ’’اسلام کے موجودہ ضعف اور دشمنوں کے متواتر حملوں نے اُس کی ضرورت ثابت کی اور اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا۔‘‘کسی نبی کے کشف کا حوالہ دو۔
12. اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ہر نبی نے مسیح موعود کی آمد کی خبر دی ہے اس کا حوالہ دو؟
13. اعتراض۔ بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حقیقۃا لوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۴۰۶ پر جو حوالہ مکتوبات کا دیا ہے کہ جس پر کثر ت سے امور غیبیہ ظاہر ہوں۔ وہ نبی ہوتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ مکتوبات میں لفظ نبی نہیں بلکہ محدث کا ہے۔
14. اعتراض۔ حضرت نے حمامۃ البشریٰ صفحہ ۴۷ طبع اوّل میں تفسیر ثنائی (از مولانا ثناء اﷲ پانی پتی)کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی درایت کمزور تھی۔ حالانکہ تفسیر ثنائی مصنفہ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری میں یہ کہیں نہیں ملتا۔
15۔ اعتراض۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت ابوہریرہؓ کے اجتہاد کو جو مردود قرار دیا ہے
16۔ اعتراض۔ صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اس کی وفات کے متعلق میں پہلے سے پیشگوئی کر چکا ہوں کہ وہ بچپن میں فوت ہو جائے گا (تریاق القلوب طبع اول صفحہ ۴۰ حاشیہ) یہ جھوٹ ہے (نعوذ باﷲ)
17. اعتراض۔ ا۔ مرزا صاحب نے چشمۂ معرفت ضمیمہ صفحہ ۱۰ میں حدیث لکھی ہے کہ ’’کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدَ الْلَوْنِ اِسْمُہٗ کَاھِنًا اس کا حوالہ دو۔ ب۔ مرزا صاحب نے ایسے شخص کو نبی کہا جس کا قرآن میں نام نہیں۔
18.اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے (البد ر جلد ۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۸) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں مندرجہ بالا الہام ہوا۔ اس کا حوالہ دو؟
19. اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ حدیث میں ہے جس شہر میں وبا ہو۔ اس شہر کے لوگ بلا توقف شہر سے باہر نکل آئیں۔
20. اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۵ طبع اول میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ مہدی کے وقت میں کسوف خسوف رمضان دو دفعہ ہو گا۔ چنانچہ امریکہ اور ہندوستان میں دو دفعہ یہ کسوف خسوف ہوا۔ جو میری صداقت کی دلیل ہے۔ حدیث و کتاب کا حوالہ دو جہاں دو مرتبہ خسوف کا ذکر ہو۔
21. حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک مکتوب محررہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۰۳ء میں جو الفضل ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ میں شائع ہوا صحابہؓ کے متعلق لکھا ہے کہ ’’اگر کپڑے پر منی گرتی تھی تو خشک ہونے کے بعد اس کو جھاڑ دیتے تھے …… ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لتّے پڑتے تھے …… عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سؤر کی چربی اس میں پڑتی ہے …… کسی مرض کے وقت میں اونٹ کا پیشاب بھی پی لیتے تھے۔ (اخبار الفضل قادیان ۲۲ ؍فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹) ان امور کا ثبوت دو؟
22.اعتراض:۔ حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۶۲۹ طبع اوّل میں لکھا ہے کہ تورات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبیوں کو شیطانی الہام ہوا تھا۔ ا۔ سلاطین باب ۲ ۲ آیت ۶ تا ۱۹۔ تورات میں ہر گز یہ نہیں لکھا۔ بلکہ وہاں تو یہ لکھا ہے کہ وہ بعل بت کے پجاری تھے۔
23. اعتراض۔ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کا اشتہار دیا۔ لوگوں سے روپے لیے کہ تین سو دلائل (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۵) لکھوں گا۔ مگر سب روپے کھا گئے اور دلائل شائع نہ کئے۔ جس سے قومی نقصان ہوا۔ اور وعدہ خلافی بھی۔
24. اعتراض۔ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۹ پر لکھا ہے کہ میں نے براہین احمدیہ کے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگراب صرف پانچ ہی لکھتا ہوں۔ پانچ بھی پچاس ہی کے برابر ہیں۔ صرف ایک نقطے کا فرق ہے۔
25. اعتراض۔ مرزا صاحب نے مبالغے کئے ہیں۔ لکھا ہے کہ میرے شائع کردہ اشتہارات ساٹھ ہزار کے قریب ہیں۔ (اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۱۸) اور میری کتابیں پچاس الماریوں میں سما سکتی ہیں؟ ( تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵ )
26. اعتراض:۔ حضرت مرزا صاحب کے اقوال میں تناقض ہے؟
27. اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴ پر تحریر فرمایا ہے:۔ ’’کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے ‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴) لیکن دوسری جگہ کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ پر رقم فرماتے ہیں:۔ ’’جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں ‘‘ (کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ)
28. اعتراض۔ مرزا صا حب نے آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۸ طبع اول میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی چڑیوں کی پرواز قرآن مجید سے ثابت ہے، لیکن ازالہ اوہام صفحہ ۳۰۷ طبع اوّل حاشیہ پر لکھا ہے کہ پرواز ثابت نہیں؟
29. اعتراض۔ مرزا صاحب نے پہلے اپنے مُریدوں کی تعداد پانچ ہزار (انجام آتھم صفحہ ۶۴) بیان کی، لیکن جب ایک سال کے بعد ہی انکم ٹیکس کا سوال ہوا۔ تو جھٹ لکھ دیا کہ میرے مریدوں کی تعداد دو صد ہے۔
30۔اعتراض:۔ مرزا صاحب تریاق القلوب صفحہ ۱۳۰ طبع اول متن و حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ:۔ ’’میرے دعویٰ کے انکار سے کوئی کافر یا دجال نہیں ہو سکتا۔‘‘ مگر عبد الحکیم مرتد کو لکھتے ہیں کہ جس شخص کو میری دعوت پہنچی ہے اور وہ مجھے نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے؟
31. اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں تحریر فرمایا ہے کہ میں غیر تشریعی نبی ہوں۔ صاحب شریعت نہیں۔ مگر اربعین نمبر ۴ صفحہ ۶ طبع اول متن و حاشیہ پر لکھا ہے کہ میں صاحبِ شریعت نبی ہوں۔
32. اعتراض ۔ ایک جگہ دعویٰ نبوت کیا اور دوسری جگہ نبوت کے دعویٰ کا انکار فرما دیا۔
33. اعتراض۔ ایک جگہ یسوع کی مذمت کی اور دوسری جگہ یسوع کی تعریف کی
34. اعتراض۔ کہیں مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے اور دوبارہ آنے کا کہا اور کہیں مسیح علیہ السلام کے وفات پا جانے کا کہہ دیا۔
35. اعتراض۔ مسیح علیہ السلام کی بادشاہت کی تاویل ایک جگہ کچھ کہ ہے اور دوسری جگہ کچھ اور کی ہے ۔
36. اعتراض۔ رزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں۔ مثلاً ’’اے بدذات فرقہ مولویاں۔
37.اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو ذریۃ البغایہ یعنی کنجریوں کی اولاد کہا ہے ۔
38. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو جنگلوں کے سور کہا ۔
39. اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ میرے بچے مبارک احمد نے اپنی والدہ کے شکم میں باتیں کیں۔
40. اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مظفر گڑھ میں ایک بکرے نے اڑھائی سیر دودھ دیا۔ سرمہ چشمہ آریہ۔روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۹۹
41۔ اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ایک مرد نے اپنے بچہ کو اپنا دودھ پلایا۔ سرمہ چشم آریہ۔روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۹۹
42. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو بد دعائیں دیں۔
43. اعتراض ۔ انگریز کا خود کاشتہ پودا یا انگریز کی تعریف کیوں کی ؟
44. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کہا کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔
45. اعتراض۔ مرزا صاحب نے اپنے مکتوب ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء بنام لیفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب میں لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ زیر گزارش نمبر ۵ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۲۱ ہے۔
46. اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ کر دیا ۔
47.
 
Last edited:
Top