درس بخاری ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ۔ حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹس بخاری جلد اول پہلے تین پارے
درس از حضر ت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ
مرتبہ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
صحیح بخاری پر نوٹ
صحیح بخاری کا درجہ
صحیح بخاری امام محمد بن اسماعیلرحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب ہے ۔ قرآن مجید کے بعد نہایت بابرکت اور قابل قدر اور واجب العمل ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اس کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب قرار دیا ہے۔ اور میں بھی بحمد للہ اس پر یقین رکھتاہوں۔ میں نے صحیح علم اور خداداد شعور سے اس کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہی پایا ہے۔ اس لیے میں علی وجہ البصیرت اس کی شہادت دیتاہوں۔
بخاری نے اپنی صحیح کو کیسے شروع فرمایا؟
امام بخاری نے اپنی صحیح کو بدأ الوحی سے شروع فرمایا ۔ کیونکہ اسلام کا مدار وحی پر ہے۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ابتداء اور اس کی تکمیل وحی سے ہوئی ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کو وحی سے شروع کیا۔
امام بخاری کی روایت میں خصوصیت
امام بخاری کو اہل بیت سے بڑی محبت تھی۔ اس لیے وہ اپنی صحیح کو اہل بیت کی روایت سے شروع کرتے ہیں اور اہل بیت میں سے بھی انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکو منتخب کیا۔
حضرت عائشہ نوجوان تھیں واقعات کو محفوظ رکھ سکتیں تھیں۔ اور ان کو بے تکلف بیان کر سکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص فہم اور سمجھ عطا فرمائی تھی۔ پس امام صاحب اپنی روایت کو اہل بیت اور اہل بیت میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے لیتے ہیں۔
کیف بدء الوحی
وحیکا ابتداء یا اسلام کا ابتداء کیونکر ہوا۔ اس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی روایت کے موافق یوں بیان کیا۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حارث بن ہشام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ قسم وحی کی مجھ پر سخت ہوتی ہے۔ پھر یہ حالت دور ہو جاتی ہے۔ اور جو کچھ کہ فرشتہ نے کہا ہوتاہے میں اس کو اخذ کر چکا ہوتاہوں۔اور کبھی فرشتہ متمثل ہو کر آدمی کی صورت میں مجھ سے کلام کرتاہے۔ پس میں یاد کر لیتاہوں۔ جو کچھ وہ مجھے کہتاہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بتاتی ہیں کہ سخت سردی کے دن آپ پر وحی اترتی دیکھی ہے کہ باوجود سخت سردی کے آپ کی جبینِ مبارک سے پسینہ بہنے لگتا۔
وحی نبوت
چونکہ وحی کبھی جمادات کو بھی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا بان ربک اوحی لھا۔ (الزلزال اور کبھی آسمانوں کو بھی ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا واوحیٰ فی کل سماء امرھا ُ(سورۃ فصلت:۱۳)اور کبھی حیوانات کو بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ فرمایا۔ واوحی ربک الی النحل (النحل:۶۹) اور کبھی عورتوں کو بھی ہو جاتی ہے ۔ اوحینا الی ام موسی (قصص:۸)اور کبھی ان لوگوں کو بھی ہو جاتی ہے جو خدا تعالی کے پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ فرمایا۔ واذا وحیت الی الحواریین (المائدہ ) وحی نبوت کو ممتاز کرنے کے لیے قرآنِ مجید کی اس آیتِ شریفہ کو امام صاحب لائے ہیں۔ اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین …… الخ
وہ وحی نبوت جو حضرت نوح اور ان کے بعد انبیاء علیہم السلام پر ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء کس طرح ہوئی اور اللہ بزرگ وبرتر کا ارشاد ہے انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین ۔ یعنی بے شک ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح پر نوح اور ان کے بعد کے نبیوں پر وحی بھیجی تھی۔
۱۔ حمید ی نے سفیان کی روایت سے اور سفیان نے یحی بن سعید انصاری کی روایت سے بیان کیا جس نے کہا کہ مجھ کو محمد بن ابراہیم تیمی نے بتایا جس نے علقمہ بن وقاص سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمام اعمال (ارادی کا موں کا ) کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے موافق ہی بدلہ ہے پس جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے ہو گی یا کسی عورت سے نکاح کے لیے تو اس کی ہجرت اسی کے لے ہے جس کی طرف اس نے ہجرۃ کی ۔
۲۔ عبد اللہ بن یوسف نے مالک بن ہشام بن عروۃ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے بواسطہ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کی حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے۔ اور جو کچھ کہ فرشتے نے کہا ہوتاہے میں اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں متمثل ہو کر مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں یاد رکھتا ہوں جو کچھ وہ کہتا ہے ۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے یقینا سخت سردی والے دن آپ پر وحی اترتے دیکھی ہے کہ باوجود اس شدت سردی کے آپ کے جبین مبارک سے پسینہ بہتاتھا۔
۳۔ یحی بن بکیر نے لیث سے لیث نے عقیل سے اس نے ابن شہاب سے اس نے عروہ بن زبیر سے اس نے عائشہ ام المومنین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہ جس امر سے رسول اللہ پر وحی کی ابتداء ہوئی وہ رئویا صالحہ تھی جو حالت نیند میں ہوئی تھی۔ اور جو خواب آپ دیکھتے تھے وہ صبح روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت گزینی کی محبت دی گئی اور آپ غار حراء میں خلوت فرمایا کرتے تھے۔ اور آپ تحتث کیا کرتے ۔ یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس آنے کے بدوں کئی رات تک لگاتار عبادات کرتے رہتے تھے۔ اور اتنا عرصہ کے لیے آپ خوراک لے جایا کرتے تھے پھر (ختم ہونے پر ) خدیجہ کے پاس واپس آتے اور پھر اسی مقرر خوراک لے جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آگیا اور آپ غار حرا میں تھے ۔ پس آپ کے پاس فرشتہ آیا فرشتہ نے کہا کہ پڑھو۔ آپ نے جو اب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں آپ نے فرمایاکہ فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے بھینچا ۔ یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا پھرکہا کہ پڑھ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیںپھر تیسری مرتبہ مجھے پکڑا اور بھینچا اور چھوڑ دیا اور پھر کہا اقراء باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق ۔ اقراء وربک الاکرم ۔ یعنی اپنے خالق رب کے نام کی تبیلیغ دنیا میں کر وہ خالق رب جس نے ایک حقیر جونک جیسے کیڑے سے جو منی میں پیدا ہوتا ہے الانسان بنایا۔ ہاں پڑھ اور تبلیغ کر اور خوف نہ کر۔ تیرا رب اکرم ہے۔ رسول اللہ اس وحی الہی کے بعد واپس آئے اور آپ کا دل دھڑکتاتھا۔ پس آپ نے خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور کہا مجھے کمبل اوڑھا دو۔ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ ان لوگوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا یہاں تک کہ جب آپ کا دل ٹھکانے آیا تو آپ نے خدیجہ کو سب حال جو کہ گزرا سنایا اور کہا بے شک مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہ نے کہا بخدا ہرگز نہیں آپ کو اللہ تعالی کبھی بھی ناکام نہیں کرے گا۔یقینا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور دکھیاروں کے دکھوں کو آپ اٹھاتے ہٰں جو خیر کہیں نہیں ملتی وہ تیری صحبت مں مل سکتی ہے۔ تو مہمان نوازی کرتا ہے اور پاک ضرورتوں میں مدد گار بنتاہے۔
پھر خدیجہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی اپنے چچا زاد کے پاس لائیں اور وہ ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گیا تھا اور عبرانی میں کتابت کیا کرتاتھا۔ پس وہ انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتاتھا جس قدر کہ اللہ کو منظور ہوتاتھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ نظر کمزور ہو گئی تھی پس اس کو خدیجہ نے کہا اے میرے عم زاد بھائی اپنے برادرزادہ سے اس کی کیفیت سن ۔ ورقہ نے کہا اے میرے برادرزادہ تم کیا دیکھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے بیان کر دیا ورقہ نے سن کر کہا کہ یہ ناقوس (فرشتہ)ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسی پر نازل کیا اے کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کو آپ کی قوم (مکہ سے )نکالے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکالیں گے۔ ورقہ نے کہا ہاں۔ ایسا کوئی شخص نہیں آیا جو آپ جیسی بات لے کر آیا ہو جس کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو اور اگر میں آپ کے ایام نبوت میں ہوا تو آپ کی بہت مدد کروں گا۔ پر تھوڑے ہی دنوں بعد ورقہ مر گیا اور وحی بند ہو گئی۔
ابن شہاب نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بند ہونے کا ذکر فرماتے تھے اسی بیان میں فرمایا کہ ایک دن میں جارہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی پس میں نے نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا میں نے دیکھ اکہ زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں ڈر گیا اور واپس گھر آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ اس پر اللہ نے یہ وحی نازل فرمائی یایھا المدثرo قم فانذرoوربک فکبرoوثیابک فطھرo والرجز فاھجر(سورۃ المدثر:۱تا۵) یعنی اے کپڑے میں لپٹ پڑنے والے اٹھ۔ اور اپنی گمراہ قوم کو مخلوق پرستی و بد اعمالی کے نتیجوں سے جو اس دنیا میں اور اس سے گزرنے کے بعد پیش آنے والے ہیں ڈر اور بت پرستوں کے میں جو اپنے ناچیز بتوں کی بڑائی اور تو یقین کرتاہے اپنے خدا قادر مطلق کی عظمت و بزرگی ظاہر کر اور پاکی اور پاک دامنی اختیار کر اور شرک و بت پرستی اور ہر قسم کی نجاست و ناپاکی سے اپنے آپ کو بچا۔ پر وحی کی آمد گرم ہو گئی اور لگا تار آنے لگی۔ اور اس روایت کو عبداللہ بن یوسف و ابو صالح اور ہلال بن رداد نے زہری سے روایت کیا ہے ۔یہاں تک سیٹنگ ہوئی ہے۔
کہ آپ ایک عظیم الشان نبی ہونے والے ہیں۔
مکہ سے ہجرت : ورقہ نے بتایا ہے کہ آپ کی قوم مکہ سے آپ کو نکالے گی یوں تو انبیاء علیہم السلام کے لیے کچھ نہ کچھ ہجرت ضروری ہوتی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو ورقہ نے کہا تو وہ کتب سابقہ میں اس بشارت کو دیکھ چکا تھا۔ چنانچہ یسعیاہ ۱۳؍۲۱ سے جو پیشگوئی شروع ہوتی ہے وہ صاف ہے جس میں لکھا ہے۔ ’’عرب کی بابت الہامی کلام ‘‘ ’’عرب کے صحر ا میں تم رات کاٹو گے اے دوانیوں کے قافلو پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو ۔ اے تیما کی سرزمین کے باشندو روٹی لے کے بھاگنے والے سے ملنے کے لیے نکلو‘‘
غرض ورقہ کی پیشگوئی کی مکالمہ الہیہ کی بناء پر نہ تھی بلکہ کتب سابقہ کے علم اور انبیاء علیہم السلام کے حالات کی واقفیت پر تھی جب کہ آگے اس نے خود بیان کیا کہ ایسا کوئی شخص نہیں آیا جو آ پ جیسی بات لے کر آیا ہو اور اس کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو۔
فترۃ الوحی: وحی کا آنا رک جانا۔
۴۔ موسی بن اسماعیل نے روایت کی ہے کہ ابو عوانہ نے بیان کیا بواسطہ موسی بن ابی عایشہ اس نے سعید بن جبیر کے ذریعہ بیان کیا کہ ابن عباس سے اللہ تعالی کے کلام لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ کے متعلق روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نازل ہونے پر سخت محنت اٹھاتے تھے۔ اور اپنے دونوں ہونٹ جلد جلد ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جاوے) ابن عباس نے کہا میں اپنے دونوں ہونٹوں کو اسی طرح ہلاتاہوں جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہلاتے تھے اور ابن سعید نے کہا کہ میں اسی طرح (تمہارے سمجھانے کو ) اپنے ہونٹوں کو ہلاتا ہوں جس طرح پر ابن عباس کو ہلاتے ہوئے دیکھا پھر سعید نے اپنے ہونٹوں کو ہلایا (مختصرا )اللہ تعالی نے یہ وحی آپ پر نازل کی لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرآنہ ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ تو اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کر تاکہ جلدی جلدی قرآن کو یاد کر لو یقینان اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تمہارے سینہ میں اس کو جمع کر دینا اور پھر اس کو تمہارا پڑھنا۔ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ۔ ابن عباس کہتے ہیں کیعنی اس کو سنو اور چپ رہو۔ یہ ہمارے ذمہ ہے کہ اس کا مطلب بھی سمجھا دیں۔ پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے کہ تم اس کو پڑھ لو۔
اس وحی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ جب آپ کے پاس جبرائیل آتے تھے تو آپ سنتے تھے جب جبرائیل چلا جاتا تو آپ اسی طرح پڑھتے تھے جس طرح پر جبرائیل نے پڑھا تھا۔
حاشیہ حدیث نمبر ۴: حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے کمال کا پتہ لگتا ہے کہ کس طرح پر آپ نے بدء الوحی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبا ت اور قرآن مجید کی حقیقت پر بحث کی ہے اس حدیث میں تاریخی شہادت سے قرآن مجید کی حفاظت اور صحت کو ایسا واضح کیا ہے کہ کوئی شخص توڑ نہیں سکتا۔ یہ آیت قرآن مجید کے جزو ۲۹ سورۃ القیامۃ میں ہے اور یہ آیت قرآن مجید کی جمع و ترتیب کی تاریخ کی ایک کلید ہے اس سے رد رفض اور ان لوگوں کا سخت رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم معاذ اللہ بیاض عثمانی ہے کیونکہ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا جمع کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھا دینا اللہ تعالی کا اپنا کام ۔ لہذا یہ ایک ثابت شدہ صداقت ٹھہری کہ جمع قرآن شریف مع ترتیب آیات و سور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی وحی سے عمل میں آیا جس طرح پر قرآنی آیات کی وحی کا نزول ہوا ۔ اس طرح پر وحی الہٰی پونے کی ترتیب اور جمع بھی آپ ہی کی (خاکسار مرتب نے اس آیت کی تفسیر ربط کے ساتھ بحمد للہ پارہ ۲۹ کی تفسیر میں کی ہے جو شائع ہو چکی ہے)۔
اس آیت کی زیر تفسیر سورۃ طٰہٰ کی یہ آیت بھی کرتی ہے ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ (سورۃ طہ:۱۱۵)پھر اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں قرآن مجید کی حفاظت کی پیشگوئی بھی ہے جو آج تک پوری ہو رہی ہے کیونکہ اگر انسان کا کام ترتیب اور جمع ہوتا تو اس میں کسی نہ کسی وقت فرق آجانا ممکن تھا مگر اس حدیث نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تکفل خود کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت وحی کے لیے کیسے حریص تھے۔ ابن عباس اور سعید نے خود وہ حالت دکھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ اور یہ بھھی کہ اس حفاظر اور تلاوت وحی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف اٹھاتے تھے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا۔ یہ حدیث شیعہ پر خصوصا حجت ہے کیونکہ ابن عباس سے روایت ہے جو ان کا مسلم نہ اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کی محنت اور کوشش کا پتہ چلتاہے ۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء ۔
۵۔ عبدان نے عبداللہ سے اس نے انس سے اس نے زہری سے اور بشربن محمد نے عبداللہ سیاس نے انس سے اور ثمر نے زہری سے ایسا ہی اس نے کہا کہ مجھے عبد اللہ ن عبد اللہ نے بذریعہ ابن عباس روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے کہ ایک خوش ہوتے تھے اور تمام دنیوں سے زیادہ آپ رمضان میں سخی ہوتے تھے جب کہ آپ جبرائیل کو ملتے تھے اور رمضان کی ہر رات کو آپ سے ملتے تھے اور قرآن شریف کا دورکرتے تھے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (شفقت علی خلق اللہ کے لیے )ہو ایسے بھی زیادہ تیز سخاوت میں رہتے تھے۔
۶۔ ابوالیمان الحکم بن نافع سے روایت ہے۔ کہ ہم کو شعیب نے زہری کے ذریعہ سے بتایا کہ مجھے عبد الہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ جس نے عتبہ بن مسعود سے سنا جس کو عبد اللہ بن عباس نے خبر دی اور اس کو ابا سفیان بن حرب نے بتایا کہ ہرقل (شاہ روم )نے اس کے پا س ایک قاصد بھیجا اور وہ اس وقت قریش کے چند سواروں میں تھے جو کہ ملک شام میں بطریق تجارت گئے ہوئے تھے۔
پس وہ سب اس کے پاس آئے ایلیا (بیت المقدس) میں آئے ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور اس کے ارد گرد رئوساء روم موجود تھے ۔ پھر اس نے ان سب قریش کو بلایا اور اپنے ترجمان کو بھی بلایا اور اس نے پوچھا کہ تم میں سے سب سے زیادہ اس شخص کا (جو مدعی نبوت ہے ) قریب النسب کون ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں اس سے رشتہ میں قریب تر ہوں۔ ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو میرے قریب کر دو اور اس کے اتھ والوں کو بھی اس کے پیچھے ہی قریب رکھو پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان کو کہدو کہ میں ابو سفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں پس اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بیان کرے تو تم اس کی تکذیب کر دینا ابو سفیان کہتے ہیں کہ قسم بخدا اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ مجھ سے جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو میں اس کے سامنے ضرور جھوٹ بیان کرتا۔
(حاشیہ حدیث نمبر ۵)
اس حدیث کو بھی مختلف واسطوں سے ابن عباس نے روایت کیا ہے ان میں مختلف لوگوں نے ابن عباس تک اس کو پہنچایا ہے۔ یہ حدیث جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا اظہار کرتی ہے وہاں قرآن مجید کی حفاظر پر دلیل ہے۔ حدیث نمبر ۴ میں یہ تو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں اور خارجا ققرآن مجید کے جمع اور قرآن اور بیان کا وعدہ اللہ نے خود کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد اختتام وحی اس کو اسی طرح پڑھ دیتے جیسے جبرئیل پڑھتے تھے۔ یہاں یہ بتایا کہ رمضان کی ہر رات کو جبرائیل آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا تدارس کرتے اور اس طرح پر قرآن کریم محفوظ رہا۔ اس سے پایا جاتاہے کہ خصوصا رمضان شریف میں قرآن کریم کا دور اور غور ضروری ہے کیونکہ رمضان کو نزول قرآن سے ایک خاص مناسبت ہے اس لیے رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبر حقانی و معاف قرآنی کریم کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ چونکہ یہ ایک فضل تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس نعمت کے شکریہ میں شفقت علی خلق اللہ کے لحاظ سے بڑی سخاوت کرتے تھے اور یوں تو ہے ہی سخی تھے ایسے سخی جو دوسروں پر عطا کرکے خوش ہوں مگر رمضان میں آپ کا یہ جودوسخا پھر اس سے بھی زیادہ تیز ہوتاکیا مطلب آپ بہت سخاوت کرتے تھے۔
حاشیہ حدیث نمبر ۶
اس حدیث کو اس بات میں درج کرنے کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے باب بدء الوحی سے مقصود یہی رکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبات اور قرآن مجید کی حقانیت ظاہر ہو اس لیے یہ ضروری امر تھا کہ اس حدیث کو جو اس مطلب کی زبردست مرید ہے اس باب میں بیان کیا جاتا۔ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں پہلا امر تنقیح طلب آپ کی لائف قبل از نبوت قرار دی ہے اور اس کے لیے خدیجۃ الکبری کی شہادت پیش کی ہے جہاں وہ آپ کے فضائل مخصوصہ کی شہادت دیتی ہیں ۔ پھر آپ کی سیرۃ بعد النبوت کو ابن عباس کی روایت سے پیش کیا کہ آپ اجود الناس تھے ۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ آپ کی غرض ادعائے نبوت سے حصول زر نہ تھا اگر یہ مقصد ہوتا تو آپ اجودالناس نہ ہوتے۔ پھر تیسری دلیل ابوسفیان کی شہادت ہے جو اس نے آپ کے دعویٰ نبوت پر آپ کی زندگی قبل نبوت اور ھالات بعد نبوت پر دی ہے۔ یہ شہادت ایسی معتبر ہے کہ جو ہرقل کے سامنے شہادت دے رہے ہیں تو وہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ بولنے تک کو تیار رہتے پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات سے یہ شخص واقف نہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ وہ خود مسلمان ہوتا۔ پس یہ ایک نہایت ہی قیمتی شہادت اثبات نبوت پر ہے۔
ہرقل: (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب کیا ہے؟
ابوسفیان: وہ نجیب الطرفین ہے۔
ہرقل : کیا تمہاری قوم میں اس سے پہلے بھی کسی نے پہلے بھی یہ بات کہی ہے (دعوی نبوت کیا ہے؟)
ابوسفیان : نہیں ۔
ہرقل: کیا اس کے آبائو اجداد میں کوئی بادشاہ ہو گزرا ہے ؟
ابوسفیان : نہیں ۔
ہرقل : کیا امیر لوگ اس کو عموما اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں یا غریب لوگ؟
ابوسفیان : ضعیف لوگ ہی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ہرقل : کیا وہ دن بدن بڑھتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں ؟
ابوسفیان : بلکہ زیادہ ہوتے ہیں۔
ہرقل: کیا کوئی ان کے دین میں کامل طور پر داخل ہونے کے بعد ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے ؟
ابوسفیان : نہیں۔
ہرقل: کیا اس دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ کا الزام دیا؟
ابوسفیان:نہیں ۔
ہرقل : کیا وہ عہد شکنی کرتاہے ؟
ابوسفیان:نہیں ۔ اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں نہیں جانتے کہ وہ اس عرصہ میں کیا کرے گا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ اس حکم کے سوا اور کچھ بھی مجھے اضافہ کا موقع نہیں مل سکا۔)
ہرقل : کیا تمہاری اس کی جنگ ہوتی ہے ؟
ابوسفیان : ہاں
ہرقل :تمہاری لڑائی کا کیا انجام ہوتاہے ؟
ابوسفیان : ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ کبھی ہم جیت جاتے ہیں اور کبھی ہو۔
ہرقل: وہ تمہیں کیا حکم دیتاہے؟
ابوسفیان:خدائے واحد کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کچھ تمہارے باپ دادا شرک کی باتیں کیا کرتے تھے چھوڑدو۔ اور ہم کو نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان کو کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دو کہ میں نے تم سے اس کے نسب کا سوال کیا تو تم نے بتایا کہ وہ ہم میں نجیب الطرفین ہے اور تمام رسول اپنی قوم میں عالی نسب ہوتے ہیں۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا تو کیا تم میں سے کسی اور نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا تو تم نے بتایا کہ نہیں میں نے یہ خیال کیا تھا کہ اگر کوئی اور انسان پہلے یہ بات کہہ چکا ہو تو میں کہوں گا کہ وہ صرف پہلی بات کی تقلید کرتے ہیں جو اس سے پہلے کہی گئی۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ تھا تو تم نے کہا نہیں میری غرض اس میں یہ تھی کہ اگر ان کے آباو اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہوں گا کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو اپنے باپ کی ملاک کا طالب ہے اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ اس دعوٰی سے پیشتر کبھی تم نے ان پر جھوٹ کا الزام لگایا تم نے کہا نہیں پس میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو لوگوں پر جھوٹ بولنا چھوٹ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے پھر میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے آدمی اس کی متابعت کرتے ہیں یا ضعفاء ۔ تو تم ے کہا کہ غریب لوگ اور دراصل غریب آدمی ہی پیغمبروں کے پیروہوا کرتے ہیں۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ ان کی جماعت بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے تو تم نے جواب دیا کہ وہ بڑھ رہی ہے اور دراصل ایمان کا بھی یہی حال ہے یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہو جائے۔ پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی شخص بعد اس کے جو کامل طور پر دین میں داخل ہو چکا ہو اس سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے بتایا کہ نہیں اور دراصل ایمان کا یہی حال ہے جب اس کی بشاشت دل کو مل جاوے پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تم نے کہا نہیں۔ اور یہ بات یہی ہے کہ انبیاء ورسل اسی طرح وعدہ خلافی نہیں کرتے اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہٰں کیا حکم دیتاہے تو تم نے کہا کہ ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ خدائے واحد کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں اور نماز سچ بولنے اور پرہیز گاری کا حکم دیتے ہیں۔ پس اگر جو کچھ تم کہتے ہو سچ ہے تو وہ عنقریب جو میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے۔ (یعنی سلطنت روم ان کے قبضہ میں آ جائے گی۔) اور بے شک میں (بذریعہ صحف سابقہ) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں اور مجھے یقین نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے پس اگر میں جانتا کہ میں اس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں آپ کی ملاقات کے لیے اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا یقینا آپ کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقدس مراسلہ منگوایا جو آپ نے دحیہ کے ہاتھ امیر بصری کے پاس بھیجا تھا۔ اور اس نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پس اس کو پڑھ کر پڑھوایا اس کا مضمون یہ تھا۔ اللہ رحمن رحیم کے نام کے ساتھ اس کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلامتی جو ہدایت کی پیروی کرے بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں آپ کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تو مسلمان ہو جائے گا۔ تو امان پائے گا اور اللہ تعالی تمہیں دوہرا ثواب عطا کرے گا۔ اور اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو تم پر ساری رعیت کے (ایمان نہ لانے کا) گناہ ہو گا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آجائو جو ہمارے تمہارے درمیان میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تم سب اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنااور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب بنائے ۔ پس اگر تم اس بات سے اعراض کرو پھر کہدو کہ تم اس بات کے گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔
ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ لیا ور نامہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ چکا ۔ اس کے پاس بہت لوگ جمع ہو گئے اور شور زیادہ ہوا اور ہم کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا تو میں اپنے ساتھی دانوں سے کہا جب کہ ہم باہر کر دیئے گئے کہ ابن ابی کبنتہ کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس سے بنی اصغر کا بادشاہ خوف کھاتا ہے پس میں ہمیشہ اس امر کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو داخل کر دیا۔
اور ابن ناطور ایلیاء کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کاامیر تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب ہرقل ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر رہا تو اس کے بعض مذہبی خواص نے کہا کہ ہم آپ کو پریشان خاطر پاتے ہیں اور ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کا ہن تھا ور اسے علوم نجوم میں مہارت تھی۔ تو اس نے اپنے ارکان کے سوال کے جواب میں کہا کہ رات جب کہ میں نے نجوم میں نظر کی تو یہ دیکھا کہ ختنہ کرانے والی قوم کا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو) کہ اس قوم میں سے کون لوگ ختنہ کراتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختن نہیں کرتا ہے ۔ پس یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ ان میں جس قدر یہود ہیں سب کو قتل کر دو۔ وہ انہیں باتوں میں مصروف تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی پیش کیا گیا جو کہ غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا۔ جب ہرقل نے اس سے یہ خبر سنی تو کہا کہ اس کو لے جائو اور دیکھو کہ اس کا ختنہ کیا ہوا ہے یا نہیں۔ پس انہوں نے اس کو دیکھا او ہرقل سے بیان کیا کہ اس کا ختنہ ہوا ہوا ہے اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا اس نے بتایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔
ہرقل نے کہا کہ یہی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) اس زمانہ کا بادشاہ ہے جو غالب ہو گیا ہے پھر ہرقل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ میں یہ ماجرا کہہ بھیجا ۔ وہ بھی علم میں اس کا ہی ہم پلہ تھا اور ہرقل حمص کی طرف چلا گیا ۔ اور ابھی حمص میں ہی تھا کہ اس کے دوست کا خط آ گیا اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ہرقل کے ساتھ کو کہتا تھا۔ کہ وہ نبی ہیں اس پر ہرقل نے روم کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا پھر کہا کہ اس کے دروازے بند کر دو۔ اور پھر ہرقل ان لوگوں کے پاس آیا اور کہا اے سرداروان روم کیا اس ہدایت اور تمہارا یہی حصہ ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا ملک قائم رہے تو اس نی کی بیعت کر لو یہ سنتے ہی وہ لوگ ……کی طرح دروازوں کی طرف دوڑ پڑے اور دروازوں کو بند پایا جب ہرقل نے ان کی نفرت دیکھی تو ان کے ایمان لانے ہوگیا ۔ اور کہا کہ انہیں میرے پاس واپس لائو۔ اور پھر اس نے کہا کہ یہ بات میں نے ابھی اس لیے کہی تھی تاکہ معلوم کروں کہ تم اپنے دین پر کس قدر قائم ہو اور وہ مجھے معلوم ہو گئی اس پر لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے۔ اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔ کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان و یونس اور………نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
حاشیہ: اس حدیث پر اور کچھ کہنے کی چندآں ضرورت نہیں اس لیے کہ اس کا مضمون بہت صاف ہے ۔ ابوسفیان اور ہرقل کے سوال و جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت نبوت کا زبردست معیار ہیں۔ خصوصا ایسی حالت میں کہ ابوسفیان آپ کا اس وقت ……اور معاند تھا اور وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اگر قوم میں کاذب مشہور ہونے کا اندیشہ ہوتا تو میں جھوٹ بھی بیان کرتا۔ اس حد تک پہنچے ہوئے معاند کی زبان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں شہادت حقہ کا ادا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی……اور مطہر زندگی کا ثبوت ہے۔ ہر صادق کی صداقت ان اصول عشرہ سے پرکھ لو۔
ابن کبشہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شرارت سے رکھا ہوا تھا۔
بصری۔ رومیہ ۔ حمص شہروں کے نام ۔ اور ایلیاء بیت اللہ کو کہتے ہیں۔ بصری ملک شام میں ہے۔……کے متعلق اختلاف ہوا ہے کہ وہ ایمان لایا تھا یا نہیں۔ اگرچہ یہاں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بظاہر ایمان نہیں لایا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عزت کے کلمات استعمال کرنا کہ میں آپ کے قدم دھوئوں ایک بادشاہ کے من سے معمولی نہیں ہیں۔ اور ارادت اور محبت ……… بہرحال قطع نظر اس بحث کے کہ وہ مسلمان ہوا یا نہیں یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ شان کو ظاہر کرتی ہے۔ اور ہرقل پولیٹیکل پیچیدگیوں سے خائف ضرور ہوا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب مقدس احادیث کی صحت کے لیے اچھا معیار ہے۔ خصوصا اس وقت جب وہ اصل مکتوب مل گیا ہے اور اس کا عکس شائع بھی ہو چکا ہے اس گرامی نامہ دعوت سے آپ کے قلب کی جرات اور شوکت کا پتہ ملتا ہے جو ہرقل جیسے عظیم الروم کو ایمان لانے کی حالت میں اتمام حجت عذاب کا کرتے ہیں۔ اس مکتوب مقدس سے خط و کتابت کے اصول پر رونی پڑتی ہے جو یورپ کی متمدن قوموں نے اختیار کیا ہے۔ یہ دراصل تہذیب اور ادب کی خوشہ چینی ہے۔ اس زمانہ کی خط و کتابت کے طریقہ پر نظر کرو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو سامنے رکھ دو۔ نظر آئیگا۔ اللھم صل علی محمد وآل محمد وعلی خلفائہ محمد وبارک وسلم
باب۲
ایمان کے کامون کے بیان میں اور اللہ تعالیٰ کا قول لیس البر ……الایۃ
۸۔ عبد اللہ بن محمد ابو عامر عقدی سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا اور اس سے عبداللہ بن دینار نے اوراس سے ابی صالح نے جس کو ابو ہریرہ نے روایت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے اور حیا بھی ایک شاخ ہے۔
حاشیہ باب نمبر۲:
سورۃ البقرۃ کے بائیسویں رکوع میں یہ آیات موجود ہیں ۔ ان کی تفسیر خاکسار نے سورۃ البقرۃ کی تفسیر پارہ نمبر ۲ کے صفحہ ۴۹ پر کہہ دی ہے۔ اس آیت کو عنوانِ باب قرار دے کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی تفصیل اور حقیقت کو بیان کر دیا ہے اور اس کے ماتحت میں جو حدیث بیان کی گئی ( حدیث نمبر۸)ہے۔ اس میں اجمالاً بتایا ہے کہ ایمان کی ساٹھ سے اوپر کچھ شاخیں ہیں۔ اس بیان میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ستر کا عدد بھی آیا ہے۔
اس میں شعبہ (شاخ) کے لفظ میں ایک خاص زور ہے۔ جس پر غور کرنے سے مسئلہ کفرو ایمان کی حقیقت سمجھ میںآجاتی ہے اور ایمان اور اس کے ثمرات کا بھی پتہ ملتاہے۔
شجرِ ایمان:
قرآنِ مجید میں آیا ہے : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِیْ السَّمَائِ تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذًنِ اللّٰہِ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ۔ (سورۃ۱۳ رکوع ۱۵)
اس آیت میں ایمان کی مثال ایک درخت سے دی گئی ہے۔ اور ظاہر کیا ہے کہ اس میں تین باتیں ہوں ۔ اَصْلُھَا ثَابِتٌ ۔ یعنی اصولِ ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں۔ اور فی ذاتہٖ یقین ِ کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں۔ اور فطرت ِ انسانی اس کو قبول کرے ۔دوسری بات اس میں یہ ہو کہ فَرْعُھَا فِیْ السَّمَائِ ۔ اس کی شاخیں آسمان پر ہوں ۔ کیا مطلب؟ صحیفہ فطرت اس کا شاہد ہو۔ اس کی فروعات جیسے اعمال کا بیان، اخلاق کا بیان وغیرہ وغیرہ مختلف شعبے مکمل ہوں اور ان میں عملی روح اور نشوونما کی قوت ہو۔
سوم: تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ ۔ ہر وقت پھل دیتا رہے ۔ سدا بہار ہو۔ ایمان کی حقیقت پیچھے بیان کی تھی کہ اس میں قلبی شعور لسانی اقرار اور اعمال ہوتے ہیں۔ یہاں بھی تین ہی باتیں بیان کی ہیں۔ اس کے بالمقابل کفر کی مثال بھی ایک خبیث درخت سے دی ہے۔ پس ایمان ایک درخت کی مثال ہے۔ جس قدر اس کے عمل اور نشوونما کی قوت اور پھول پھل کی قوت ظاہر ہو گی ۔ اسی قدر مضبوط اور قوی ہوگا ۔ اور نتیجہ خیز سمجھا جائے گا۔ جس قدر حصہ اُس کا کمزور ہوگا، اُس قدر وہ مقامِ ایمان سے گر جائے گا۔ اس درخت کی مثال سے جہاں کفرو ایمان کی حقیقت خوب سمجھ میں آتی ہے وہاں اَلْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ کا مسئلہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے:
غرض جبکہ ایمان ایک درخت ہے اور اس کی مختلف شاخیں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹس بخاری جلد اول پہلے تین پارے
درس از حضر ت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ
مرتبہ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
صحیح بخاری پر نوٹ
صحیح بخاری کا درجہ
صحیح بخاری امام محمد بن اسماعیلرحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب ہے ۔ قرآن مجید کے بعد نہایت بابرکت اور قابل قدر اور واجب العمل ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اس کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب قرار دیا ہے۔ اور میں بھی بحمد للہ اس پر یقین رکھتاہوں۔ میں نے صحیح علم اور خداداد شعور سے اس کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہی پایا ہے۔ اس لیے میں علی وجہ البصیرت اس کی شہادت دیتاہوں۔
بخاری نے اپنی صحیح کو کیسے شروع فرمایا؟
امام بخاری نے اپنی صحیح کو بدأ الوحی سے شروع فرمایا ۔ کیونکہ اسلام کا مدار وحی پر ہے۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ابتداء اور اس کی تکمیل وحی سے ہوئی ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کو وحی سے شروع کیا۔
امام بخاری کی روایت میں خصوصیت
امام بخاری کو اہل بیت سے بڑی محبت تھی۔ اس لیے وہ اپنی صحیح کو اہل بیت کی روایت سے شروع کرتے ہیں اور اہل بیت میں سے بھی انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکو منتخب کیا۔
حضرت عائشہ نوجوان تھیں واقعات کو محفوظ رکھ سکتیں تھیں۔ اور ان کو بے تکلف بیان کر سکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص فہم اور سمجھ عطا فرمائی تھی۔ پس امام صاحب اپنی روایت کو اہل بیت اور اہل بیت میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے لیتے ہیں۔
کیف بدء الوحی
وحیکا ابتداء یا اسلام کا ابتداء کیونکر ہوا۔ اس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی روایت کے موافق یوں بیان کیا۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حارث بن ہشام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ قسم وحی کی مجھ پر سخت ہوتی ہے۔ پھر یہ حالت دور ہو جاتی ہے۔ اور جو کچھ کہ فرشتہ نے کہا ہوتاہے میں اس کو اخذ کر چکا ہوتاہوں۔اور کبھی فرشتہ متمثل ہو کر آدمی کی صورت میں مجھ سے کلام کرتاہے۔ پس میں یاد کر لیتاہوں۔ جو کچھ وہ مجھے کہتاہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بتاتی ہیں کہ سخت سردی کے دن آپ پر وحی اترتی دیکھی ہے کہ باوجود سخت سردی کے آپ کی جبینِ مبارک سے پسینہ بہنے لگتا۔
وحی نبوت
چونکہ وحی کبھی جمادات کو بھی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا بان ربک اوحی لھا۔ (الزلزال اور کبھی آسمانوں کو بھی ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا واوحیٰ فی کل سماء امرھا ُ(سورۃ فصلت:۱۳)اور کبھی حیوانات کو بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ فرمایا۔ واوحی ربک الی النحل (النحل:۶۹) اور کبھی عورتوں کو بھی ہو جاتی ہے ۔ اوحینا الی ام موسی (قصص:۸)اور کبھی ان لوگوں کو بھی ہو جاتی ہے جو خدا تعالی کے پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ فرمایا۔ واذا وحیت الی الحواریین (المائدہ ) وحی نبوت کو ممتاز کرنے کے لیے قرآنِ مجید کی اس آیتِ شریفہ کو امام صاحب لائے ہیں۔ اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین …… الخ
وہ وحی نبوت جو حضرت نوح اور ان کے بعد انبیاء علیہم السلام پر ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء کس طرح ہوئی اور اللہ بزرگ وبرتر کا ارشاد ہے انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین ۔ یعنی بے شک ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح پر نوح اور ان کے بعد کے نبیوں پر وحی بھیجی تھی۔
۱۔ حمید ی نے سفیان کی روایت سے اور سفیان نے یحی بن سعید انصاری کی روایت سے بیان کیا جس نے کہا کہ مجھ کو محمد بن ابراہیم تیمی نے بتایا جس نے علقمہ بن وقاص سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمام اعمال (ارادی کا موں کا ) کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے موافق ہی بدلہ ہے پس جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے ہو گی یا کسی عورت سے نکاح کے لیے تو اس کی ہجرت اسی کے لے ہے جس کی طرف اس نے ہجرۃ کی ۔
۲۔ عبد اللہ بن یوسف نے مالک بن ہشام بن عروۃ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے بواسطہ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کی حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے۔ اور جو کچھ کہ فرشتے نے کہا ہوتاہے میں اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں متمثل ہو کر مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں یاد رکھتا ہوں جو کچھ وہ کہتا ہے ۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے یقینا سخت سردی والے دن آپ پر وحی اترتے دیکھی ہے کہ باوجود اس شدت سردی کے آپ کے جبین مبارک سے پسینہ بہتاتھا۔
۳۔ یحی بن بکیر نے لیث سے لیث نے عقیل سے اس نے ابن شہاب سے اس نے عروہ بن زبیر سے اس نے عائشہ ام المومنین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہ جس امر سے رسول اللہ پر وحی کی ابتداء ہوئی وہ رئویا صالحہ تھی جو حالت نیند میں ہوئی تھی۔ اور جو خواب آپ دیکھتے تھے وہ صبح روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت گزینی کی محبت دی گئی اور آپ غار حراء میں خلوت فرمایا کرتے تھے۔ اور آپ تحتث کیا کرتے ۔ یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس آنے کے بدوں کئی رات تک لگاتار عبادات کرتے رہتے تھے۔ اور اتنا عرصہ کے لیے آپ خوراک لے جایا کرتے تھے پھر (ختم ہونے پر ) خدیجہ کے پاس واپس آتے اور پھر اسی مقرر خوراک لے جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آگیا اور آپ غار حرا میں تھے ۔ پس آپ کے پاس فرشتہ آیا فرشتہ نے کہا کہ پڑھو۔ آپ نے جو اب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں آپ نے فرمایاکہ فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے بھینچا ۔ یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا پھرکہا کہ پڑھ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیںپھر تیسری مرتبہ مجھے پکڑا اور بھینچا اور چھوڑ دیا اور پھر کہا اقراء باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق ۔ اقراء وربک الاکرم ۔ یعنی اپنے خالق رب کے نام کی تبیلیغ دنیا میں کر وہ خالق رب جس نے ایک حقیر جونک جیسے کیڑے سے جو منی میں پیدا ہوتا ہے الانسان بنایا۔ ہاں پڑھ اور تبلیغ کر اور خوف نہ کر۔ تیرا رب اکرم ہے۔ رسول اللہ اس وحی الہی کے بعد واپس آئے اور آپ کا دل دھڑکتاتھا۔ پس آپ نے خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور کہا مجھے کمبل اوڑھا دو۔ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ ان لوگوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا یہاں تک کہ جب آپ کا دل ٹھکانے آیا تو آپ نے خدیجہ کو سب حال جو کہ گزرا سنایا اور کہا بے شک مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہ نے کہا بخدا ہرگز نہیں آپ کو اللہ تعالی کبھی بھی ناکام نہیں کرے گا۔یقینا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور دکھیاروں کے دکھوں کو آپ اٹھاتے ہٰں جو خیر کہیں نہیں ملتی وہ تیری صحبت مں مل سکتی ہے۔ تو مہمان نوازی کرتا ہے اور پاک ضرورتوں میں مدد گار بنتاہے۔
پھر خدیجہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی اپنے چچا زاد کے پاس لائیں اور وہ ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گیا تھا اور عبرانی میں کتابت کیا کرتاتھا۔ پس وہ انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتاتھا جس قدر کہ اللہ کو منظور ہوتاتھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ نظر کمزور ہو گئی تھی پس اس کو خدیجہ نے کہا اے میرے عم زاد بھائی اپنے برادرزادہ سے اس کی کیفیت سن ۔ ورقہ نے کہا اے میرے برادرزادہ تم کیا دیکھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے بیان کر دیا ورقہ نے سن کر کہا کہ یہ ناقوس (فرشتہ)ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسی پر نازل کیا اے کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کو آپ کی قوم (مکہ سے )نکالے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکالیں گے۔ ورقہ نے کہا ہاں۔ ایسا کوئی شخص نہیں آیا جو آپ جیسی بات لے کر آیا ہو جس کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو اور اگر میں آپ کے ایام نبوت میں ہوا تو آپ کی بہت مدد کروں گا۔ پر تھوڑے ہی دنوں بعد ورقہ مر گیا اور وحی بند ہو گئی۔
ابن شہاب نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بند ہونے کا ذکر فرماتے تھے اسی بیان میں فرمایا کہ ایک دن میں جارہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی پس میں نے نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا میں نے دیکھ اکہ زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں ڈر گیا اور واپس گھر آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ اس پر اللہ نے یہ وحی نازل فرمائی یایھا المدثرo قم فانذرoوربک فکبرoوثیابک فطھرo والرجز فاھجر(سورۃ المدثر:۱تا۵) یعنی اے کپڑے میں لپٹ پڑنے والے اٹھ۔ اور اپنی گمراہ قوم کو مخلوق پرستی و بد اعمالی کے نتیجوں سے جو اس دنیا میں اور اس سے گزرنے کے بعد پیش آنے والے ہیں ڈر اور بت پرستوں کے میں جو اپنے ناچیز بتوں کی بڑائی اور تو یقین کرتاہے اپنے خدا قادر مطلق کی عظمت و بزرگی ظاہر کر اور پاکی اور پاک دامنی اختیار کر اور شرک و بت پرستی اور ہر قسم کی نجاست و ناپاکی سے اپنے آپ کو بچا۔ پر وحی کی آمد گرم ہو گئی اور لگا تار آنے لگی۔ اور اس روایت کو عبداللہ بن یوسف و ابو صالح اور ہلال بن رداد نے زہری سے روایت کیا ہے ۔یہاں تک سیٹنگ ہوئی ہے۔
کہ آپ ایک عظیم الشان نبی ہونے والے ہیں۔
مکہ سے ہجرت : ورقہ نے بتایا ہے کہ آپ کی قوم مکہ سے آپ کو نکالے گی یوں تو انبیاء علیہم السلام کے لیے کچھ نہ کچھ ہجرت ضروری ہوتی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو ورقہ نے کہا تو وہ کتب سابقہ میں اس بشارت کو دیکھ چکا تھا۔ چنانچہ یسعیاہ ۱۳؍۲۱ سے جو پیشگوئی شروع ہوتی ہے وہ صاف ہے جس میں لکھا ہے۔ ’’عرب کی بابت الہامی کلام ‘‘ ’’عرب کے صحر ا میں تم رات کاٹو گے اے دوانیوں کے قافلو پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو ۔ اے تیما کی سرزمین کے باشندو روٹی لے کے بھاگنے والے سے ملنے کے لیے نکلو‘‘
غرض ورقہ کی پیشگوئی کی مکالمہ الہیہ کی بناء پر نہ تھی بلکہ کتب سابقہ کے علم اور انبیاء علیہم السلام کے حالات کی واقفیت پر تھی جب کہ آگے اس نے خود بیان کیا کہ ایسا کوئی شخص نہیں آیا جو آ پ جیسی بات لے کر آیا ہو اور اس کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو۔
فترۃ الوحی: وحی کا آنا رک جانا۔
۴۔ موسی بن اسماعیل نے روایت کی ہے کہ ابو عوانہ نے بیان کیا بواسطہ موسی بن ابی عایشہ اس نے سعید بن جبیر کے ذریعہ بیان کیا کہ ابن عباس سے اللہ تعالی کے کلام لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ کے متعلق روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نازل ہونے پر سخت محنت اٹھاتے تھے۔ اور اپنے دونوں ہونٹ جلد جلد ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جاوے) ابن عباس نے کہا میں اپنے دونوں ہونٹوں کو اسی طرح ہلاتاہوں جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہلاتے تھے اور ابن سعید نے کہا کہ میں اسی طرح (تمہارے سمجھانے کو ) اپنے ہونٹوں کو ہلاتا ہوں جس طرح پر ابن عباس کو ہلاتے ہوئے دیکھا پھر سعید نے اپنے ہونٹوں کو ہلایا (مختصرا )اللہ تعالی نے یہ وحی آپ پر نازل کی لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرآنہ ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ تو اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کر تاکہ جلدی جلدی قرآن کو یاد کر لو یقینان اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تمہارے سینہ میں اس کو جمع کر دینا اور پھر اس کو تمہارا پڑھنا۔ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ۔ ابن عباس کہتے ہیں کیعنی اس کو سنو اور چپ رہو۔ یہ ہمارے ذمہ ہے کہ اس کا مطلب بھی سمجھا دیں۔ پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے کہ تم اس کو پڑھ لو۔
اس وحی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ جب آپ کے پاس جبرائیل آتے تھے تو آپ سنتے تھے جب جبرائیل چلا جاتا تو آپ اسی طرح پڑھتے تھے جس طرح پر جبرائیل نے پڑھا تھا۔
حاشیہ حدیث نمبر ۴: حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے کمال کا پتہ لگتا ہے کہ کس طرح پر آپ نے بدء الوحی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبا ت اور قرآن مجید کی حقیقت پر بحث کی ہے اس حدیث میں تاریخی شہادت سے قرآن مجید کی حفاظت اور صحت کو ایسا واضح کیا ہے کہ کوئی شخص توڑ نہیں سکتا۔ یہ آیت قرآن مجید کے جزو ۲۹ سورۃ القیامۃ میں ہے اور یہ آیت قرآن مجید کی جمع و ترتیب کی تاریخ کی ایک کلید ہے اس سے رد رفض اور ان لوگوں کا سخت رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم معاذ اللہ بیاض عثمانی ہے کیونکہ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا جمع کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھا دینا اللہ تعالی کا اپنا کام ۔ لہذا یہ ایک ثابت شدہ صداقت ٹھہری کہ جمع قرآن شریف مع ترتیب آیات و سور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی وحی سے عمل میں آیا جس طرح پر قرآنی آیات کی وحی کا نزول ہوا ۔ اس طرح پر وحی الہٰی پونے کی ترتیب اور جمع بھی آپ ہی کی (خاکسار مرتب نے اس آیت کی تفسیر ربط کے ساتھ بحمد للہ پارہ ۲۹ کی تفسیر میں کی ہے جو شائع ہو چکی ہے)۔
اس آیت کی زیر تفسیر سورۃ طٰہٰ کی یہ آیت بھی کرتی ہے ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ (سورۃ طہ:۱۱۵)پھر اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں قرآن مجید کی حفاظت کی پیشگوئی بھی ہے جو آج تک پوری ہو رہی ہے کیونکہ اگر انسان کا کام ترتیب اور جمع ہوتا تو اس میں کسی نہ کسی وقت فرق آجانا ممکن تھا مگر اس حدیث نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تکفل خود کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت وحی کے لیے کیسے حریص تھے۔ ابن عباس اور سعید نے خود وہ حالت دکھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ اور یہ بھھی کہ اس حفاظر اور تلاوت وحی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف اٹھاتے تھے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا۔ یہ حدیث شیعہ پر خصوصا حجت ہے کیونکہ ابن عباس سے روایت ہے جو ان کا مسلم نہ اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کی محنت اور کوشش کا پتہ چلتاہے ۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء ۔
۵۔ عبدان نے عبداللہ سے اس نے انس سے اس نے زہری سے اور بشربن محمد نے عبداللہ سیاس نے انس سے اور ثمر نے زہری سے ایسا ہی اس نے کہا کہ مجھے عبد اللہ ن عبد اللہ نے بذریعہ ابن عباس روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے کہ ایک خوش ہوتے تھے اور تمام دنیوں سے زیادہ آپ رمضان میں سخی ہوتے تھے جب کہ آپ جبرائیل کو ملتے تھے اور رمضان کی ہر رات کو آپ سے ملتے تھے اور قرآن شریف کا دورکرتے تھے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (شفقت علی خلق اللہ کے لیے )ہو ایسے بھی زیادہ تیز سخاوت میں رہتے تھے۔
۶۔ ابوالیمان الحکم بن نافع سے روایت ہے۔ کہ ہم کو شعیب نے زہری کے ذریعہ سے بتایا کہ مجھے عبد الہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ جس نے عتبہ بن مسعود سے سنا جس کو عبد اللہ بن عباس نے خبر دی اور اس کو ابا سفیان بن حرب نے بتایا کہ ہرقل (شاہ روم )نے اس کے پا س ایک قاصد بھیجا اور وہ اس وقت قریش کے چند سواروں میں تھے جو کہ ملک شام میں بطریق تجارت گئے ہوئے تھے۔
پس وہ سب اس کے پاس آئے ایلیا (بیت المقدس) میں آئے ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور اس کے ارد گرد رئوساء روم موجود تھے ۔ پھر اس نے ان سب قریش کو بلایا اور اپنے ترجمان کو بھی بلایا اور اس نے پوچھا کہ تم میں سے سب سے زیادہ اس شخص کا (جو مدعی نبوت ہے ) قریب النسب کون ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں اس سے رشتہ میں قریب تر ہوں۔ ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو میرے قریب کر دو اور اس کے اتھ والوں کو بھی اس کے پیچھے ہی قریب رکھو پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان کو کہدو کہ میں ابو سفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں پس اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بیان کرے تو تم اس کی تکذیب کر دینا ابو سفیان کہتے ہیں کہ قسم بخدا اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ مجھ سے جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو میں اس کے سامنے ضرور جھوٹ بیان کرتا۔
(حاشیہ حدیث نمبر ۵)
اس حدیث کو بھی مختلف واسطوں سے ابن عباس نے روایت کیا ہے ان میں مختلف لوگوں نے ابن عباس تک اس کو پہنچایا ہے۔ یہ حدیث جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا اظہار کرتی ہے وہاں قرآن مجید کی حفاظر پر دلیل ہے۔ حدیث نمبر ۴ میں یہ تو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں اور خارجا ققرآن مجید کے جمع اور قرآن اور بیان کا وعدہ اللہ نے خود کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد اختتام وحی اس کو اسی طرح پڑھ دیتے جیسے جبرئیل پڑھتے تھے۔ یہاں یہ بتایا کہ رمضان کی ہر رات کو جبرائیل آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا تدارس کرتے اور اس طرح پر قرآن کریم محفوظ رہا۔ اس سے پایا جاتاہے کہ خصوصا رمضان شریف میں قرآن کریم کا دور اور غور ضروری ہے کیونکہ رمضان کو نزول قرآن سے ایک خاص مناسبت ہے اس لیے رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبر حقانی و معاف قرآنی کریم کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ چونکہ یہ ایک فضل تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس نعمت کے شکریہ میں شفقت علی خلق اللہ کے لحاظ سے بڑی سخاوت کرتے تھے اور یوں تو ہے ہی سخی تھے ایسے سخی جو دوسروں پر عطا کرکے خوش ہوں مگر رمضان میں آپ کا یہ جودوسخا پھر اس سے بھی زیادہ تیز ہوتاکیا مطلب آپ بہت سخاوت کرتے تھے۔
حاشیہ حدیث نمبر ۶
اس حدیث کو اس بات میں درج کرنے کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے باب بدء الوحی سے مقصود یہی رکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبات اور قرآن مجید کی حقانیت ظاہر ہو اس لیے یہ ضروری امر تھا کہ اس حدیث کو جو اس مطلب کی زبردست مرید ہے اس باب میں بیان کیا جاتا۔ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں پہلا امر تنقیح طلب آپ کی لائف قبل از نبوت قرار دی ہے اور اس کے لیے خدیجۃ الکبری کی شہادت پیش کی ہے جہاں وہ آپ کے فضائل مخصوصہ کی شہادت دیتی ہیں ۔ پھر آپ کی سیرۃ بعد النبوت کو ابن عباس کی روایت سے پیش کیا کہ آپ اجود الناس تھے ۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ آپ کی غرض ادعائے نبوت سے حصول زر نہ تھا اگر یہ مقصد ہوتا تو آپ اجودالناس نہ ہوتے۔ پھر تیسری دلیل ابوسفیان کی شہادت ہے جو اس نے آپ کے دعویٰ نبوت پر آپ کی زندگی قبل نبوت اور ھالات بعد نبوت پر دی ہے۔ یہ شہادت ایسی معتبر ہے کہ جو ہرقل کے سامنے شہادت دے رہے ہیں تو وہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ بولنے تک کو تیار رہتے پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات سے یہ شخص واقف نہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ وہ خود مسلمان ہوتا۔ پس یہ ایک نہایت ہی قیمتی شہادت اثبات نبوت پر ہے۔
ہرقل: (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب کیا ہے؟
ابوسفیان: وہ نجیب الطرفین ہے۔
ہرقل : کیا تمہاری قوم میں اس سے پہلے بھی کسی نے پہلے بھی یہ بات کہی ہے (دعوی نبوت کیا ہے؟)
ابوسفیان : نہیں ۔
ہرقل: کیا اس کے آبائو اجداد میں کوئی بادشاہ ہو گزرا ہے ؟
ابوسفیان : نہیں ۔
ہرقل : کیا امیر لوگ اس کو عموما اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں یا غریب لوگ؟
ابوسفیان : ضعیف لوگ ہی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ہرقل : کیا وہ دن بدن بڑھتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں ؟
ابوسفیان : بلکہ زیادہ ہوتے ہیں۔
ہرقل: کیا کوئی ان کے دین میں کامل طور پر داخل ہونے کے بعد ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے ؟
ابوسفیان : نہیں۔
ہرقل: کیا اس دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ کا الزام دیا؟
ابوسفیان:نہیں ۔
ہرقل : کیا وہ عہد شکنی کرتاہے ؟
ابوسفیان:نہیں ۔ اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں نہیں جانتے کہ وہ اس عرصہ میں کیا کرے گا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ اس حکم کے سوا اور کچھ بھی مجھے اضافہ کا موقع نہیں مل سکا۔)
ہرقل : کیا تمہاری اس کی جنگ ہوتی ہے ؟
ابوسفیان : ہاں
ہرقل :تمہاری لڑائی کا کیا انجام ہوتاہے ؟
ابوسفیان : ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ کبھی ہم جیت جاتے ہیں اور کبھی ہو۔
ہرقل: وہ تمہیں کیا حکم دیتاہے؟
ابوسفیان:خدائے واحد کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کچھ تمہارے باپ دادا شرک کی باتیں کیا کرتے تھے چھوڑدو۔ اور ہم کو نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان کو کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دو کہ میں نے تم سے اس کے نسب کا سوال کیا تو تم نے بتایا کہ وہ ہم میں نجیب الطرفین ہے اور تمام رسول اپنی قوم میں عالی نسب ہوتے ہیں۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا تو کیا تم میں سے کسی اور نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا تو تم نے بتایا کہ نہیں میں نے یہ خیال کیا تھا کہ اگر کوئی اور انسان پہلے یہ بات کہہ چکا ہو تو میں کہوں گا کہ وہ صرف پہلی بات کی تقلید کرتے ہیں جو اس سے پہلے کہی گئی۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ تھا تو تم نے کہا نہیں میری غرض اس میں یہ تھی کہ اگر ان کے آباو اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہوں گا کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو اپنے باپ کی ملاک کا طالب ہے اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ اس دعوٰی سے پیشتر کبھی تم نے ان پر جھوٹ کا الزام لگایا تم نے کہا نہیں پس میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو لوگوں پر جھوٹ بولنا چھوٹ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے پھر میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے آدمی اس کی متابعت کرتے ہیں یا ضعفاء ۔ تو تم ے کہا کہ غریب لوگ اور دراصل غریب آدمی ہی پیغمبروں کے پیروہوا کرتے ہیں۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ ان کی جماعت بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے تو تم نے جواب دیا کہ وہ بڑھ رہی ہے اور دراصل ایمان کا بھی یہی حال ہے یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہو جائے۔ پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی شخص بعد اس کے جو کامل طور پر دین میں داخل ہو چکا ہو اس سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے بتایا کہ نہیں اور دراصل ایمان کا یہی حال ہے جب اس کی بشاشت دل کو مل جاوے پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تم نے کہا نہیں۔ اور یہ بات یہی ہے کہ انبیاء ورسل اسی طرح وعدہ خلافی نہیں کرتے اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہٰں کیا حکم دیتاہے تو تم نے کہا کہ ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ خدائے واحد کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں اور نماز سچ بولنے اور پرہیز گاری کا حکم دیتے ہیں۔ پس اگر جو کچھ تم کہتے ہو سچ ہے تو وہ عنقریب جو میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے۔ (یعنی سلطنت روم ان کے قبضہ میں آ جائے گی۔) اور بے شک میں (بذریعہ صحف سابقہ) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں اور مجھے یقین نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے پس اگر میں جانتا کہ میں اس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں آپ کی ملاقات کے لیے اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا یقینا آپ کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقدس مراسلہ منگوایا جو آپ نے دحیہ کے ہاتھ امیر بصری کے پاس بھیجا تھا۔ اور اس نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پس اس کو پڑھ کر پڑھوایا اس کا مضمون یہ تھا۔ اللہ رحمن رحیم کے نام کے ساتھ اس کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلامتی جو ہدایت کی پیروی کرے بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں آپ کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تو مسلمان ہو جائے گا۔ تو امان پائے گا اور اللہ تعالی تمہیں دوہرا ثواب عطا کرے گا۔ اور اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو تم پر ساری رعیت کے (ایمان نہ لانے کا) گناہ ہو گا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آجائو جو ہمارے تمہارے درمیان میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تم سب اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنااور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب بنائے ۔ پس اگر تم اس بات سے اعراض کرو پھر کہدو کہ تم اس بات کے گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔
ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ لیا ور نامہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ چکا ۔ اس کے پاس بہت لوگ جمع ہو گئے اور شور زیادہ ہوا اور ہم کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا تو میں اپنے ساتھی دانوں سے کہا جب کہ ہم باہر کر دیئے گئے کہ ابن ابی کبنتہ کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس سے بنی اصغر کا بادشاہ خوف کھاتا ہے پس میں ہمیشہ اس امر کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو داخل کر دیا۔
اور ابن ناطور ایلیاء کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کاامیر تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب ہرقل ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر رہا تو اس کے بعض مذہبی خواص نے کہا کہ ہم آپ کو پریشان خاطر پاتے ہیں اور ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کا ہن تھا ور اسے علوم نجوم میں مہارت تھی۔ تو اس نے اپنے ارکان کے سوال کے جواب میں کہا کہ رات جب کہ میں نے نجوم میں نظر کی تو یہ دیکھا کہ ختنہ کرانے والی قوم کا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو) کہ اس قوم میں سے کون لوگ ختنہ کراتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختن نہیں کرتا ہے ۔ پس یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ ان میں جس قدر یہود ہیں سب کو قتل کر دو۔ وہ انہیں باتوں میں مصروف تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی پیش کیا گیا جو کہ غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا۔ جب ہرقل نے اس سے یہ خبر سنی تو کہا کہ اس کو لے جائو اور دیکھو کہ اس کا ختنہ کیا ہوا ہے یا نہیں۔ پس انہوں نے اس کو دیکھا او ہرقل سے بیان کیا کہ اس کا ختنہ ہوا ہوا ہے اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا اس نے بتایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔
ہرقل نے کہا کہ یہی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) اس زمانہ کا بادشاہ ہے جو غالب ہو گیا ہے پھر ہرقل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ میں یہ ماجرا کہہ بھیجا ۔ وہ بھی علم میں اس کا ہی ہم پلہ تھا اور ہرقل حمص کی طرف چلا گیا ۔ اور ابھی حمص میں ہی تھا کہ اس کے دوست کا خط آ گیا اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ہرقل کے ساتھ کو کہتا تھا۔ کہ وہ نبی ہیں اس پر ہرقل نے روم کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا پھر کہا کہ اس کے دروازے بند کر دو۔ اور پھر ہرقل ان لوگوں کے پاس آیا اور کہا اے سرداروان روم کیا اس ہدایت اور تمہارا یہی حصہ ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا ملک قائم رہے تو اس نی کی بیعت کر لو یہ سنتے ہی وہ لوگ ……کی طرح دروازوں کی طرف دوڑ پڑے اور دروازوں کو بند پایا جب ہرقل نے ان کی نفرت دیکھی تو ان کے ایمان لانے ہوگیا ۔ اور کہا کہ انہیں میرے پاس واپس لائو۔ اور پھر اس نے کہا کہ یہ بات میں نے ابھی اس لیے کہی تھی تاکہ معلوم کروں کہ تم اپنے دین پر کس قدر قائم ہو اور وہ مجھے معلوم ہو گئی اس پر لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے۔ اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔ کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان و یونس اور………نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
حاشیہ: اس حدیث پر اور کچھ کہنے کی چندآں ضرورت نہیں اس لیے کہ اس کا مضمون بہت صاف ہے ۔ ابوسفیان اور ہرقل کے سوال و جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت نبوت کا زبردست معیار ہیں۔ خصوصا ایسی حالت میں کہ ابوسفیان آپ کا اس وقت ……اور معاند تھا اور وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اگر قوم میں کاذب مشہور ہونے کا اندیشہ ہوتا تو میں جھوٹ بھی بیان کرتا۔ اس حد تک پہنچے ہوئے معاند کی زبان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں شہادت حقہ کا ادا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی……اور مطہر زندگی کا ثبوت ہے۔ ہر صادق کی صداقت ان اصول عشرہ سے پرکھ لو۔
ابن کبشہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شرارت سے رکھا ہوا تھا۔
بصری۔ رومیہ ۔ حمص شہروں کے نام ۔ اور ایلیاء بیت اللہ کو کہتے ہیں۔ بصری ملک شام میں ہے۔……کے متعلق اختلاف ہوا ہے کہ وہ ایمان لایا تھا یا نہیں۔ اگرچہ یہاں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بظاہر ایمان نہیں لایا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عزت کے کلمات استعمال کرنا کہ میں آپ کے قدم دھوئوں ایک بادشاہ کے من سے معمولی نہیں ہیں۔ اور ارادت اور محبت ……… بہرحال قطع نظر اس بحث کے کہ وہ مسلمان ہوا یا نہیں یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ شان کو ظاہر کرتی ہے۔ اور ہرقل پولیٹیکل پیچیدگیوں سے خائف ضرور ہوا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب مقدس احادیث کی صحت کے لیے اچھا معیار ہے۔ خصوصا اس وقت جب وہ اصل مکتوب مل گیا ہے اور اس کا عکس شائع بھی ہو چکا ہے اس گرامی نامہ دعوت سے آپ کے قلب کی جرات اور شوکت کا پتہ ملتا ہے جو ہرقل جیسے عظیم الروم کو ایمان لانے کی حالت میں اتمام حجت عذاب کا کرتے ہیں۔ اس مکتوب مقدس سے خط و کتابت کے اصول پر رونی پڑتی ہے جو یورپ کی متمدن قوموں نے اختیار کیا ہے۔ یہ دراصل تہذیب اور ادب کی خوشہ چینی ہے۔ اس زمانہ کی خط و کتابت کے طریقہ پر نظر کرو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو سامنے رکھ دو۔ نظر آئیگا۔ اللھم صل علی محمد وآل محمد وعلی خلفائہ محمد وبارک وسلم
باب۲
ایمان کے کامون کے بیان میں اور اللہ تعالیٰ کا قول لیس البر ……الایۃ
۸۔ عبد اللہ بن محمد ابو عامر عقدی سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا اور اس سے عبداللہ بن دینار نے اوراس سے ابی صالح نے جس کو ابو ہریرہ نے روایت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے اور حیا بھی ایک شاخ ہے۔
حاشیہ باب نمبر۲:
سورۃ البقرۃ کے بائیسویں رکوع میں یہ آیات موجود ہیں ۔ ان کی تفسیر خاکسار نے سورۃ البقرۃ کی تفسیر پارہ نمبر ۲ کے صفحہ ۴۹ پر کہہ دی ہے۔ اس آیت کو عنوانِ باب قرار دے کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی تفصیل اور حقیقت کو بیان کر دیا ہے اور اس کے ماتحت میں جو حدیث بیان کی گئی ( حدیث نمبر۸)ہے۔ اس میں اجمالاً بتایا ہے کہ ایمان کی ساٹھ سے اوپر کچھ شاخیں ہیں۔ اس بیان میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ستر کا عدد بھی آیا ہے۔
اس میں شعبہ (شاخ) کے لفظ میں ایک خاص زور ہے۔ جس پر غور کرنے سے مسئلہ کفرو ایمان کی حقیقت سمجھ میںآجاتی ہے اور ایمان اور اس کے ثمرات کا بھی پتہ ملتاہے۔
شجرِ ایمان:
قرآنِ مجید میں آیا ہے : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِیْ السَّمَائِ تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذًنِ اللّٰہِ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ۔ (سورۃ۱۳ رکوع ۱۵)
اس آیت میں ایمان کی مثال ایک درخت سے دی گئی ہے۔ اور ظاہر کیا ہے کہ اس میں تین باتیں ہوں ۔ اَصْلُھَا ثَابِتٌ ۔ یعنی اصولِ ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں۔ اور فی ذاتہٖ یقین ِ کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں۔ اور فطرت ِ انسانی اس کو قبول کرے ۔دوسری بات اس میں یہ ہو کہ فَرْعُھَا فِیْ السَّمَائِ ۔ اس کی شاخیں آسمان پر ہوں ۔ کیا مطلب؟ صحیفہ فطرت اس کا شاہد ہو۔ اس کی فروعات جیسے اعمال کا بیان، اخلاق کا بیان وغیرہ وغیرہ مختلف شعبے مکمل ہوں اور ان میں عملی روح اور نشوونما کی قوت ہو۔
سوم: تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ ۔ ہر وقت پھل دیتا رہے ۔ سدا بہار ہو۔ ایمان کی حقیقت پیچھے بیان کی تھی کہ اس میں قلبی شعور لسانی اقرار اور اعمال ہوتے ہیں۔ یہاں بھی تین ہی باتیں بیان کی ہیں۔ اس کے بالمقابل کفر کی مثال بھی ایک خبیث درخت سے دی ہے۔ پس ایمان ایک درخت کی مثال ہے۔ جس قدر اس کے عمل اور نشوونما کی قوت اور پھول پھل کی قوت ظاہر ہو گی ۔ اسی قدر مضبوط اور قوی ہوگا ۔ اور نتیجہ خیز سمجھا جائے گا۔ جس قدر حصہ اُس کا کمزور ہوگا، اُس قدر وہ مقامِ ایمان سے گر جائے گا۔ اس درخت کی مثال سے جہاں کفرو ایمان کی حقیقت خوب سمجھ میں آتی ہے وہاں اَلْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ کا مسئلہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے:
غرض جبکہ ایمان ایک درخت ہے اور اس کی مختلف شاخیں ہیں۔